مارچ ۲۰۱۲

فہرست مضامین

بلوچستان: پاکستانی قیادت کا مجرمانہ کردار اور امریکی کھیل

پروفیسر خورشید احمد | مارچ ۲۰۱۲ | شذرات

Responsive image Responsive image

تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستان کے ہر دور اور ہرپہلو کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اور اس مقولے میں بڑی صداقت ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ سلطنت روما کے زوال کا نقشہ مشہور مؤرخ گبن نے ایک جملے میں اس طرح کھینچا ہے کہ: ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بنسری بجا رہا تھا‘‘۔ بڑے دُکھ اور افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ ۱۰،۱۲ سال سے بلوچستان بُری طرح جل رہا ہے اور اس زمانے کی دونوں برسرِاقتدار قوتیں، یعنی پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی اور اس کے بعد زرداری گیلانی کی    نام نہاد جمہوری حکومت جلتی پر تیل ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں۔ آج نوبت یہاں تک آگئی ہے  کہ امریکی کانگریس کیSurveillance and Oversight Committee  نے ۸فروری ۲۰۱۲ء کو بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ ایک نشست منعقد کی ہے، اور ۱۷فروری ۲۰۱۲ء کو اس کمیٹی کی سربراہ ڈینا روہربافر نے کانگریس میں باقاعدہ ایک مسودۂ قانون اپنے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ جمع کرا دیا ہے جس میں بلوچستان کے پاکستان سے الگ ملک بنائے جانے اور بلوچوں کے لیے  حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی تائید اور سرپرستی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 واضح رہے کہ یہ شرانگیز اقدام امریکی سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں ہے۔ امریکا ایک طرف تو کہتا ہے کہ اگرچہ پاکستان ناٹو میں شامل نہیں مگر ناٹو میں شامل دیگر ملکوں کی طرح ہمارا حلیف اور دوست ہے اور ہمارا اسٹرے ٹیجک پارٹنر ہے، اور دوسری طرف پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر بے دریغ حملے کرتا ہے۔ اس کی زمین اور فضائی حدود کو پامال کرتا ہے اور ملک میں تخریب کاری کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے، بلکہ سی آئی اے کے امریکی کارندوں اور پاکستانی بھاڑے کے ٹٹوؤں (mercenaries)کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بھارت بہت پہلے سے اس قسم کی مذموم حرکتوں کی پشتی بانی کرتا رہا ہے اور اب امریکی بھارتی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کا یہ مشترک ہدف ہے۔

امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف بی-۳، یعنی Bribe،  Blackmail اور Bully and Bullets(رشوت، بلیک میل اور گولی)کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اس کا یہ خطرناک اور خونیں کھیل ریمنڈ ڈیوس کے جنوری ۲۰۱۱ء کے واقعے کے بعد اور کانگریس کی حالیہ کارروائیوں کی شکل میں زیادہ ہی گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت اب بھی امریکا کے اصل کھیل کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کے لیے جان دار حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے، اور اس کے کردار اور عوام کے جذبات و احساسات میں خلیج روزبروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی اور عزت اور آزادی کا راستہ باقی نہیں رہا ہے کہ اس قیادت سے جلدازجلد نجات پائے اور ایسی قیادت کو برسرِاقتدار لائے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت، عزت اور مفادات کی بھرپور انداز میں حفاظت کرسکے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے۔

بلوچستان کے مسئلے کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں ہی بے حد اہم اور فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ نیا نہیں۔ اس کا ہدف پاکستان کی آزادی، اس کا نظریاتی تشخص اور اس کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب ہے اور اب ایک عرصے سے اس ہمہ گیر حکمت عملی کے ایک پہلو کی حیثیت سے بلوچستان کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہنری کسنجر سے لے کر حالیہ قیادت تک سب کے سامنے ایک مرکزی ہدف اُمت مسلمہ کی تقسیم در تقسیم اور اس کے وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ (مقامی چہروں کے ذریعے) قبضہ ہے۔ اس پالیسی کا پہلا ہدف مقامی قومیتوں کے ہتھیار کے ذریعے دولت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنا تھا۔ پھر افریقہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ کر غیرمؤثر کردیا گیا۔ بالفور ڈیکلریشن کے سہارے عالمِ عرب کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنا بھی کچھ دوسرے مقاصد کے ساتھ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں دولخت کرنا، سوڈان اور انڈونیشیا کے اعضا کو کاٹ کر اپنی باج گزار ریاستیں وجود میں لانا، عراق اور افغانستان میں زبان، نسل اور مسلک کی بنیاد پر ان ممالک کی سرحدوں کو بدلنے کی کوشش، کرد قومیت کو ہوا دے کر عراق، ایران اور ترکی میں دہشت گردی اور خون خرابے کی آگ کو بھڑکانا، یہ سب اسی حکمت عملی کے مختلف پہلو ہیں۔

 پاکستان ایک بار پھر اس صلیبی جنگ کی زد میں ہے۔ ۲۰۰۶ء میں رالف پیٹرز  نے US  Armed Forces Journal میں Blood Borders (خونیں سرحدیں) کے عنوان سے ایک شرانگیزمضمون لکھا جس میں پاکستان کی تقسیم اور تبدیل کی جانے والی سرحدوں کا نقشہ پیش کیا گیا ۔ اس میں آزاد بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے دکھایا گیا تھا۔ بھارت اور امریکا دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں تخریب کاری کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ اس وقت جب عوامی دبائو کے تحت پاکستان امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کر رہا ہے اور پاکستان، ایران اور افغانستان علاقے کے امن اور سلامتی کے لیے علاقائی بندوبست کی تلاش میں ہیں، پاکستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ نیز امریکا اور بھارت دونوں کی نگاہ میں پاکستان اور چین کا قریبی تعلق اور خصوصیت سے بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کا راستہ روکنے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی میں  تعاون کو مؤخر و ملتوی اور معاملے کو خراب کرنے کا کھیل کھیلاجارہا ہے۔

امریکا کے ان جارحانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا دفاعِ پاکستان کا اہم ترین پہلو ہے۔ اس کے لیے ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور افغانستان سے امریکی اور ناٹو فوجوں کی مکمل اور جلد از جلد واپسی کے لیے علاقے کے ممالک کے تعاون سے فیصلہ کن جدوجہد کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو بیدار اور متحرک کرنا ازبس ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی کانگریس میں جو کھچڑی پک رہی ہے، اس کا سختی سے نوٹس لینا اور قوم کو اپنی آزادی اور امریکا کی گرفت سے نکلنے کے لیے متحد اور منظم کرنا ضروری ہے۔ امریکا کی طرف سے گذشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوا ہے، خواہ اس کا تعلق ریمنڈ ڈیوس کو قانون کی گرفت سے چھڑا لے جانے سے ہو، یا ہردم بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں سے، ۲مئی کا ایبٹ آباد کا حملہ ہویا ۲۶نومبر کا سلالہ چیک پوسٹ پر فوج کشی، یا فروری ۲۰۱۲ء کی کانگریس کی سفارتی لبادے میں  سیاسی جنگ___ یہ سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں، جو قوم کو بیدار کرنے کے لیے تازیانے کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کا جواب موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں۔ اس چیلنج کا مقابلہ نئی باصلاحیت، دیانت دار اور قوم کی معتمدعلیہ قیادت ہی کرسکتی ہے۔

مسئلے کا دوسرا پہلو بلوچستان کے حالات اور ان کی اصلاح ہے۔ بیرونی ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے مگر اسے یہ کھیل کھیلنے کا موقع ہماری اپنی سنگین غلطیاں اور حالات کو بروقت قابو میں نہ لانے بلکہ مزید بگاڑنے والی پالیسیاں ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ایک جمہوری وزیراعظم نے ۱۹۷۳ء کے دستور کے نفاذکے چند ماہ ہی کے اندر، بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے سیاسی مسائل کے لیے فوجی حل کے تباہ کن راستے کو اختیار کیا، اور  دستور کے مخلصانہ نفاذ سے جو برکتیں ملک و قوم کو حاصل ہوسکتی تھیں ان سے محروم کردیا۔ یہ ستم ظریفی سے کم نہیں کہ جو آگ پیپلزپارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں لگائی گئی تھی وہ اس کے بعد وجود میں آنے والی ایک فوجی حکومت کے دور میں سرد پڑی اور تصادم کی وہ شکل ختم ہوئی جو تباہی کی طرف لے جارہی تھی۔ مقامِ افسوس ہے کہ اس کے بعد آنے والے نئے جمہوری اَدوار میں بھی نہ مرکزی قیادت نے اور نہ صوبے کی قیادت نے بلوچستان کے مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کی کوئی منظم اور مؤثر کوشش کی، اور زیرزمین آگ پھر سُلگنے لگی جو پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور میں ایک بار پھر بھڑک پڑی، اور آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بلوچستان کے ایک بڑے علاقے میں پاکستان کا پرچم سرنگوں ہے اور پاکستان کا ترانہ خاموش ہوگیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والی قوتیں ہی لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور اپنے ہی شہریوں پر آگ اور خون کی بارش کر رہی ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور سیکڑوں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بے گوروکفن تحفے کی صورت میں دی جارہی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، ان کو جس بے دردی اور رعونت کے ساتھ شہید کیا گیا ہے اور جس طرح انھیں سپردِخاک کیا گیا ہے، اس نے غم و غصے کا وہ سیلاب برپا کیا ہے جس نے صوبے ہی نہیں ملک کے دروبست کو ہلا دیا ہے۔

ہمیں بڑے دُکھ سے اس حقیقت کو بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ بلوچستان اپنی تمام اسٹرے ٹیجک اہمیت اور معدنی اور مادی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کا پس ماندہ ترین صوبہ     ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔ ملک میں بنیادی ڈھانچے (socio- economic infrasturcture)سے محرومی کے سلسلے میں پنجاب کا محرومی کا انڈکس ۲۹ فی صد، سندھ کا ۵۰ فی صد، خیبرپختونخواہ کا ۵۱ فی صد اور بلوچستان کا ۸۸ فی صد ہے۔ غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی پنجاب میں ۲۶فی صد، سندھ میں ۳۸ فی صد، خیبرپختونخواہ میں    ۲۹ فی صد اور بلوچستان میں ۴۸ فی صد ہے۔ خواندگی کی شرح پاکستان میں ۵۰ فی صد ہے لیکن بلوچستان میں مردوں میں ۲۳ فی صد اور خواتین میں صرف ۷ فی صد ہے۔ بلوچستان جس کی گیس نے پورے پاکستان کو روشنی اور گرمایش دی ہے اور ۵۰برس سے دے رہا ہے، وہ صوبہ اس نعمت سے محروم رہا ہے۔ گیس کی دریافت کے ۳۲سال بعد ۱۹۸۶ء میں کوئٹہ میں گیس آئی ہے اور اب بھی بلوچستان کا ۷۸ فی صد حصہ گیس سے محروم ہے۔ گیس کی رائلٹی کے لیے بھی جو منبع پر مقررہ (well-head)  قیمت اسے دی گئی ہے وہ دوسرے صوبوں سے نکلنے والی گیس کا بمشکل ۲۵ فی صد ہے۔

ایک تازہ مطالعے کے مطابق: ’’بلوچستان کے ہر دو باشندوں میں سے ایک خط ِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ہردو میں سے ایک کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ہر دو میں سے ایک بچہ پرائمری سکول کے سایے سے بھی محروم ہے۔ ہر تین میں سے صرف ایک بچے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور دو اس بنیادی حفاظتی سہولت سے بھی محروم ہیں‘‘۔(دی نیوز، ۲۱فروری ۲۰۱۲ئ)

اسی طرح ملازمتوںمیں بلوچستان کے لوگوں کی محرومی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ جو کوٹہ  دیا گیا ہے وہ بھی کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں ان کو میسر نہیں اور کم از کم گذشتہ سات برسوں میں،( جب کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی براے بلوچستان (۲۰۰۵ئ) نے اس ناانصافی کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کیا تھا) کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا ہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں پارلیمنٹ کی کمیٹی نے ۳۵ اہم سفارشات دی تھیں اور ان پر عمل اور نگرانی کے لیے ۹۰دن کے اندر اندر پارلیمانی کمیٹی کے تقرر کی سفارش کی تھی، مگر آج تک وہ کمیٹی بنی ہے اور نہ سفارشات میں سے بیش تر پر عمل ہوا ہے جس کی ذمہ داری مرکز اور صوبے دونوں کی قیادت پر آتی ہے۔ مجرمانہ غفلت کا حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بڑی لے دے کے بعد چھے ماہ پہلے وزیر مذہبی امور جناب سید خورشیدشاہ صاحب کی سربراہی میں مسئلہ بلوچستان کے سیاسی حل کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی مگر آج تک اس کا اجلاس کوئٹہ میں نہ ہوسکا۔ صوبے کی اسمبلی اور حکومت کا جو حال ہے، وہ ناقابلِ بیان ہے۔ ۶۵؍ارکان کے اس ایوان میں ۵۸وزیر یا مشیر ہیں اور متعدد ایسے ہیں جنھیں چار برس میں بھی کوئی محکمہ نہیں ملا ہے، کوئی ذمہ داری نہیں ہے، مگر مراعات وہ پوری حاصل کر رہے ہیں۔ صوبے میں سب سے اہم کمیٹی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہوتی ہے جو آج تک قائم نہیں ہوئی ہے اور متعدد قائمہ کمیٹیاں ہیں جن کے قیام کے لیے اتنی مدت گزر جانے کے باوجود کوئی زحمت آج تک نہیں کی گئی۔ وزیراعلیٰ مہینوں صوبے سے باہر (زیادہ تر اسلام آباد میں) رہتے ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے ہر ممبر کو ہرسال ۲۵کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کے نام پر دیے جاتے ہیں لیکن صوبے کے طول و عرض میں ترقیاتی عمل کا کہیں وجود نہیں۔ ۷۰ فی صد اسکول بند ہیں۔ پورے صوبے میں صرف ایک ہزار ۵ سو ۶۴ ڈاکٹر ہیںاور اس طرح ۴ہزار ایک سو ۹۸ افراد پر ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔ لاقانونیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے حالانکہ فرنٹیر کور کے افسروں اور جوانوں کی تعداد ۵۰ہزار سے زیادہ ہے۔ گویا ہر ۱۳۰؍ افراد پر ایف سی کا ایک فرد متعین ہے۔

نئے این ایف سی اوارڈ کے تحت بلوچستان کا جو حصہ ملک کے محصولات (ٹیکس ریونیو) میں بنتا تھا، پہلی مرتبہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا کوئی اثر عام آدمی کی زندگی پر یا صوبے کی معاشی حالت اور ترقیاتی کام پر نظر نہیں آتا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ بارکوں میں چلی گئی ہے مگر عملاً ایف سی اور خفیہ ایجنسیاں من مانی کر رہی ہیں۔ مرکز اور صوبوں میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے لیکن صوبے کا وزیراعلیٰ برملا کہتا ہے کہ ایف سی میرے قابو میں نہیں۔عملاً فوجی آپریشن جاری ہے۔ صرف ۲۰۱۱ء کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے ایک ہزار ۴سو۷۶  واقعات ہوئے ہیں جن میں ۳۶ بم حملے، ۶۸دھماکے اور ۱۳۴ گیس تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔  ان حملوں میں ۱۱۷ راکٹ فائر ہوئے اور ۲۱۵ بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ ۲۹۱؍افراد کو   اغوا کیا گیا۔ صرف ایک سال میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ گذشتہ  چند برسوں میں لاپتا افراد کی۲۷۰ مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ ایک طرف بلوچ نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے، تو دوسری طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں سے آکربسنے والے لوگوں کے ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد، مردوں، عورتوں، بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ پھر اس میں مسلک کی بنیاد پر کشت و خون کا بھی ایک حصہ ہے اور تازہ ترین واقعات میں پشتون مزدوروں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ اس کشت و خون کی ذمہ داری سب پر ہے۔ فوج، ایف سی، کوسٹل گارڈز، پولیس، لیوی اور علیحدگی پسند جماعتوں کے مسلح ونگ، سب کے ہاتھوں پر معصوم انسانوں کا خون ہے اور فوج، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کی فوج ظفر موج کے باوجود نہ اصل مجرم پکڑے جاتے ہیں اور نہ ان بیرونی ہاتھوں کی نشان دہی ہوپاتی ہے جن کا بڑے طمطراق سے باربار ذکر کیا جاتا ہے۔

مسئلے کا یہ پہلو بیرونی عناصر کی شرانگیزیوں سے بھی کچھ زیادہ ہی اہم ہے اور جب تک   یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام افراد ( اسٹیک ہولڈرز) کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتی ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، نواب اکبربگٹی کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا آغاز اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے نئے انتخابات اور ایک بہتر قیادت کا زمامِ کار سنبھالنا ناگزیر ہے۔ بیرونی قوتوں کے کھیل کو بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے جب ہم اپنے گھر کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔ ۲۰۰۵ء کی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات اور ۲۰۱۰ء کا بلوچستان کا پیکج سیاسی حل اور انتظامِ نو کے لیے اولین نقشۂ کار کی تیاری کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصہ محشر میں ہے

پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے