اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓئً ا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (الرعد۱۳:۱۱) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
اُمت مسلمہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو دو حقیقتیں واضح طور پر نوشتۂ دیوار نظر آتی ہیں: اوّلاً یہ ایک اُمت ِ مرحومہ ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہِ رحم اور عفو و درگزر ہے اور بے شمار خامیوں کے باوجود اس میں نمو اور زندگی کی رمق کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی خصوصی عنایت سے ۱۵۰۰ سال سے باقی رکھا ہے۔ جس وقت بغداد تباہ ہو رہا تھا اور علم کے اس مرکز کے بیش قیمت کتب خانے اُس دور کی یک قطبی طاقت کے ہاتھوں اس طرح تباہ ہو رہے تھے جس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے بغداد کی حالیہ تباہی میں لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے، شفاخانے تباہ کیے گئے، مساجد و مدرسے مسمار کردیے گئے___ اور یہ سب کچھ کس عنوان سے ہوا؟ جمہوریت کی برآمد، تہذیب ِ مغرب کی تعلیم اور روشن خیالی کے کھوکھلے نعرے! عین اسی لمحے اُمت مسلمہ میں ایسے مفکرین اور قائد اُبھر رہے تھے جنھوں نے اس اُمت کو اس کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جب ہلاکو خان بغداد کے علمی مرکز کو تباہ کر رہا تھا تو دیکھنے والی آنکھیں ہرطرف خون، قتل و غارت، تباہی، مسلمان کی بے بسی، کس مپرسی اور بے وقعتی کو دیکھ رہی تھیں، لیکن دوسری جانب علم و حکمت، آگہی اور اُمید و رجا کی دو شمعیں نہ صرف روشن ہو رہی تھیں، بلکہ افسردہ و پژمردہ حال کو روشن مستقبل میں تبدیل کرنے کی تدبیریں کر رہی تھیں۔ یہ دو شمعیں اُمت مسلمہ کو ہمت، جوش، ولولہ، عزمِ نو کی تعلیم اور تغیرِ حالت کے لیے جہادِ نو کی طرف دعوت دے رہی تھیں۔ اس دورِ ابتلا نے جن شخصیات کو وجود بخشا وہ کوئی اور نہیں، امام تقی الدین ابن تیمیہ (۱۲۶۳ئ-۱۳۲۸ئ) اور مولانا جلال الدین رومی (۱۲۰۷ئ-۱۲۷۳ئ) تھے۔
یہ حقیقت واقعہ، اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اُمت ِمسلمہ اپنی ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ میں جب بھی اپنے ہاتھوں پستی کی طرف گئی، اللہ تعالیٰ نے اسی اُمت میں سے اُمید کی لہر پیدا کی ہے۔ جب سلطنت مغلیہ کا چراغ گُل ہو رہا تھا اور ادیب و شاعر شہرآشوب تحریر کر رہے تھے، اسی دوران میں مدوجزر اسلام بھی تحریر ہو رہی تھی اور تحریکاتِ جہاد وجود میں آرہی تھیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ علمی محاذ پر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے جانشین اسلامیانِ ہند ایک نئے دور کی طرف پیش قدمی کررہے تھے۔ چنانچہ جلد ہی علامہ اقبال اور سیدمودودی کی فکر نے اُمت کو اُمید اور منزل و مقصد ِ حیات کا شعور دینے کے ساتھ تبدیلیِ قیادت کے لیے بنیادی لوازمات کی نشان دہی کے ساتھ ایک لائحہ عمل بھی تجویز کیا۔
مشرق وسطیٰ بھی گذشتہ ۶۰برسوں سے ایسے ہی دورِ زوال، اندرونی عدمِ استحکام، بیرونی سیاسی، معاشی و عسکری تسلط و دخل اندازی اور اپنوں کی بے وفائی کا شکار رہا ہے۔ عموماً یہی وہ عوامل ہیں جو قوم کو مایوسی، نااُمیدی، نفسانفسی اور انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون بھی عجیب ہے کہ وہ مُردہ زمین سے لہلہاتی کھیتی پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات عاقبت نااندیشی کرنے والے ہاتھوں سے خود اپنے ہاتھوں لگائی، لہراتی کھیتی کو تہس نہس کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے۔ آج تیونس میں جو اُمید کی لہر، مستقبل کی تابناکی اور قوم میں زندگی کے آثار نظر آرہے ہیں، یہ اس دورِمایوسی ہی کی پیداوار ہیں، جو اَب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سورئہ رعد کی درج بالا آیت مبارکہ نے جن دو اُمور پر ہمیں متوجہ کیا ہے وہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ تبدیلی کا آغاز اندر سے ہوگا، بتدریج ہوگا، صبروحکمت سے ہوگا اور ایک حکمت عملی وضع کرنے سے ہوگا۔ جب تک افرادِ کار کی ایسی قوی جماعت صبرواستقامت کے ساتھ تیار نہ کی جائے جو شدید آزمایشوں میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، جن کے سامنے قریب المیعاد اور طویل المیعاد اہداف و مقاصد واضح ہوں اور جو مداہنت کے بغیر اپنے اصولوں پر قائم رہیں، اس وقت تک تبدیلی کا آغاز نہیں ہوسکتا۔
تیونس میں اسلامیان نے اس صبرآزما اور استقامت والے راستے اور جمہوری عمل کے ذریعے سے جسے بعض اوقات کفروشرک سے تعبیر کیا جاتا ہے، حکمت کے ساتھ آج وہ مقام حاصل کرلیا ہے جس کے نتیجے میں وہ بنیادی اسلامی تبدیلیاں جمہوری اور دستوری ذرائع سے لاسکتے ہیں جنھیں مغرب اپنی دوغلی اخلاقی شہرت کے باوجود ’بنیاد پرستی‘، ’طالبانائزیشن‘، ’انتہا پسند قبضہ‘ نہیں کہہ سکتا۔ مغربی صحافت اس وقت جو بات بار بار دُہرا رہی ہے وہ یہ ہے کہ راشد الغنوشی کی حرکت نہضت معتدل اسلامیان (moderate islamists) کی جماعت ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام سے مکمل وابستگی اور اسلامی شعائر کے اہتمام کے باوجود اور جب کہ راشد الغنوشی کی فکر، اخوان المسلمون کے مقابلے میں سید موددوی سے زیادہ متاثر ہے، اور ان کی صاحب زادی اسکارف کے استعمال کے ساتھ پارٹی کی طرف سے سیاسی بیانات دیتی ہیں، نہضت پارٹی کو ’بنیاد پرست‘ کیوں نہیں کہا گیا، دوسرے الفاظ میں حکمت عملی میں کس نوعیت کی تبدیلی تحریکِ اسلامی کی امیج یا ابلاغی تصویر میں تبدیلی پیدا کرسکتی ہے۔
تیونس میں نہضت پارٹی نے ۲۱۷ کی پارلیمنٹ میں ۸۸ نشستیں حاصل کر کے ۴۱ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں اور دیگر جماعتوں سے تناسب کے لحاظ سے یہ فرق بہت بھاری ہے۔ ڈیموکریٹک فورم نے ۱۰ فی صد، کانگریس براے ری پبلک نے ۱۴ فی صد، پروگریسیو پارٹی نے چھے فی صد، پاپولرفرنٹ نے ۱۳ فی صد اور دیگر جماعتوں نے ۱۶ فی صد نشستیں حاصل کی ہیں۔
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ تیونس کے عوام نے مغربیت، اباحیت، شراب اور فواحش کے سرکاری سرپرستی کے طویل دور سے گزرنے کے باوجود واضح اکثریت کے ساتھ تحریکِ اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ خاموش اکثریت کو اگر صحیح حکمت عملی سے پیغام پہنچایا جائے تو تبدیلیِ قیادت نہ صرف ممکن ہے بلکہ اگر اللہ کی نصرت شاملِ حال ہو تو یقینی ہے۔
تیونس میں مغربی سیکولر جمہوریت کے زیراثر ہونے والے انتخابات میں نہضت پارٹی کی شرکت اسلامی شریعت کے فقہی اصول ضرورۃ کی ایک عملی مثال ہے۔ گویا ایسے حالات میں کہ جب دوبرائیاں سامنے ہوں اور ایک کم تر برائی میں اُمت ِمسلمہ کی مصلحت ہو تو اس نیت کے ساتھ کہ اگر کوشش کر کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے نوازتا ہے تو اس غیراسلامی سیاسی نظام کے تحت کوشش کرکے اسے بدلا جاسکے گا، تو ایسا اقدام اسلامی شریعت کے منشا کے مطابق ہوگا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک ایسے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اُس نظام میں ذمہ داری قبول کرنا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اعلیٰ تر مقصد کے حصول کے لیے اور جھوٹے خدائوں کی جگہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی حاکمیت اور نظامِ خلافت کے قیام کے لیے حکمت عملی کے طور پر ایسے وقتی اقدامات کرنا شریعت کے اصولوں کی پیروی ہوگی اور اسے اسلام سے ’انحراف‘ یا مغربی جمہوریت کی توثیق نہیں کہا جاسکے گا۔
تیونس میں تحریکِ اسلامی کی دستوری جدوجہد سے جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ان تحریکاتِ اسلامی کے لیے خاص طور پر قابلِ غور ہیں، جو صلاحیت اور افرادی قوت رکھنے کے باوجود توڑ پھوڑ اور اسٹریٹ پاور یا شب خونی انقلاب کے مقابلے میں دیرپا اصلاحی اور تعمیری عمل کے بعد (جو ممکن ہے سو سال سے بھی زیادہ طویل مدت کا متقاضی ہو) متوقع تبدیلی قیادت لانے میں یقین رکھتی ہیں، جن کا شعار قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ o (العنکبوت ۲۹:۶۹) ’’جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے اور یقینا اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے‘‘۔
سورئہ عنکبوت کی اس آخری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہلِ ایمان خصوصاً تحریکِ اسلامی کے کارکنان کے لیے معانی کا ایک خزینہ بند کر دیا ہے۔
اسلام کی دعوت ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ یہ ظلم، طاغوت، استحصال، ناانصافی، غیرعادلانہ تقسیم دولت، آمریت، شخصی حکومت، انانیت، کبر، غرض ان تمام صفات کے خلاف اعلانِ جہاد ہے جو عموماً عصری سیاسی اور معاشی قائد قوتوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ دعوتِ انقلاب انسان کی فکر، شخصیت، معاملات اور طرزِعمل کو ہرقسم کی خود پرستی اور مفاد پرستی سے نکال کر توجہ کا مرکز صرف ایک چیز کو بنادیتی ہے، اور وہ ہے: خلوصِ نیت کے ساتھ ہرکام کو ربِ کریم کی خوشی کے لیے کرنا۔ تحریکاتِ اسلامی کی دعوت کا پہلا نکتہ یہی ہے کہ وہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں اسی جانب اشارہ ہے کہ ہمارے جو بندے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے مجاہدہ، جہاد، جدوجہد اور انتہائی کوشش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں مصائب و آزمایش برداشت کرنے کے لیے تنہا نہیں چھوڑ دیتا، وہ انھیں صحیح راستہ سُجھاتا ہے۔
لیکن اس الٰہی ہدایت کی نوعیت کیا ہے۔ اس پر سبُلنا کا استعمال یہ واضح کرتا ہے کہ جب اہلِ ایمان اپنے رب کی خوشی کے لیے دنیا سے ٹکر لیتے ہیں اور یہ جاننے کے باوجود کہ اصول سے تھوڑا سا انحراف بڑے فائدے دلوا سکتا ہے،اصول پر قائم رہتے ہیں، اور مجاہدہ اور جہاد کے راستے کو اختیار کرتے ہیں، تو پھر رب کریم انھیں مشکلات و مصائب میں نہ تو مایوس ہونے دیتا ہے اور نہ بے بسی میں چھوڑتا ہے بلکہ انھیں ہدایت کے راستے دکھاتا ہے۔ قرآن کریم نے بار بار ہمیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ راستہ (صراط مستقیم) تو صرف ایک ہی ہے: اللہ کی بندگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا، لیکن یہاں پر ’راستے‘ فرما کر یہ بات سمجھانی مقصود ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو جہاد اور مجاہدہ کیا جائے گا، اور حصولِ مقصد کے لیے کون کون سی حکمت عملیاں اور نقشہ ہاے عمل اختیار کیے جائیں گے، اور کس طرح فتح مکہ اور مدینہ منورہ کے راستے عمل میں لائی جائے گی۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ مکہ مکرمہ میں دعوت کا مرکزی نکتہ توحید و رسالت تھا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی معاشی، سیاسی اور اعتقادی حاکمیت منزل و مقصد تھی جس کی سزا حضرات بلالؓ، خبابؓ، صہیبؓ ، سلمانؓ ، ابوبکرؓ، ابوذر غفاریؓ، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین اور خود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس شہر میں دی جارہی تھی جو امن کا، سلامتی کا، رحمتوں کا اور فضل کا مرکز بنایا گیا تھا۔ لیکن جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب پر ظلم و تعذیب کا بازار گرم تھا، کیا اللہ نے انھیں تنہا چھوڑ دیا؟ کیا انھیں مکہ میں کفروشرک کی قوتوں کے ہاتھوں ختم ہونے دیا؟ یا ہجرت کو سبیل بنایا اور اس حکمت عملی کے مزید آٹھ سال بعد اسباب و افراد کی تیاری کے بعد مکہ میں اللہ تعالیٰ کے نام کو سربلند (علیا) کرنے کے ہدف تک پہنچایا۔
ہجرت ایک حکمت عملی اور ایک سبیل تھی۔ اس آیت مبارکہ میں سمجھایا جارہا ہے کہ تحریک اسلامی کو چاہیے کہ اخلاصِ نیت اور ہدف کو نگاہ سے اوجھل کیے بغیر، مستقل مزاجی اور صبرواستقامت سے جادۂ حق پر قائم رہتے ہوئے ایک سے زائد راستے اللہ کی ہدایت پر تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو جو اپنا رُخ اس کی طرف کردیں (اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ …) ’راستے‘ دکھاتا ہے۔ ان راستوں کو اختیار کرنا ہی مجاہدہ اور جہاد ہے۔ جہاد کی افضل ترین شکل کو قیامت تک کے لیے نفس اور مال کے ہدیے سے تعبیر کرتے ہوئے قرآن و سنت یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان کھلے ذہن، واقعات کے تجزیے اور ترجیحات کی روشنی میں مختلف حکمتوں اور متبادل راستوں پر غور کریں۔
تبدیلیِ قیادت جہاں ایک ہدف ہے، وہیں ایک راستہ اور حکمت عملی بھی ہے۔ اسی بنا پر سورئہ حج میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (الحج ۲۲:۴۱)۔گویا حصولِ اقتدار بذاتِ خود کوئی حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ امربالمعروف، نہی عن المنکر اور نظامِ صلوٰۃ اور نظامِ زکوٰۃ کے نفاذ کا ذریعہ ہے۔ اگر اللہ کے دین کو مکمل طور پر قائم کرنا تحریکاتِ اسلامی کا مقصد ہے تو انھیں سیاسی جدوجہد کرنی ہوگی۔ طویل، صبر آزما دور سے گزرنا ہوگا اور اس جہاد کے بعد جب اقتدار حاصل ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو ہر شعبۂ حیات میں بتدریج نافذ کرنا ہوگا۔
اوّلاً: نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کی شرطِ اول خلوص نیت ہے، نہ اپنی ذات کو نمایاں کرنا، نہ یہ سمجھنا کہ کوئی فرد تنہا نجات دہندہ ’مہدیِ موعود‘ اور ’مسیحا‘ بن کر اقتدار سنبھالتے ہی چھڑی گھماکر انقلابی تبدیلیاں لے آئے گا۔ تمام جدوجہد اور جہاد کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہی ہو، اپنی ذات، حتیٰ کہ جماعت کو بت نہ بنا دیا جائے بلکہ ہر سرگرمی کو صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے وابستہ کر دیا جائے۔
دوسری بات یہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ ’مجاہدہ‘ میدانِ جہاد میں بھی ہوگا اور معیشت وسیاست اور معاشرت کے میدان میں بھی۔ گویا جہاد کو اس کے وسیع تر مفہوم میں سامنے رکھنا ہی قرآن کریم کا مطلوب ہے۔ تیسرا اہم پہلو جو اس سے وابستہ ہے، یہ ہے کہ اس جہاد کے راستے پر چلتے وقت خلوصِ نیت سے جو قدم اُٹھایا جائے گا، اس کے نتیجے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کو ’راستے‘ اور سبیلیں سجھائے گا۔ ضرورت، زمینی حقائق اور ترجیحات کی روشنی میں ایک سے زائد حکمت عملیاں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے نتیجے میں سوچنی ہوںگی اور وسیع تر مصلحتِ عامہ کے دائرے میں ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
تحریکی کارکنوں کے لیے خصوصاً یہ بات سوچنے کی ہے کہ قرآن کریم کس طرح ایسے مراحل کے لیے جب ہم یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ جو دعوتی یا سیاسی حکمت عملی ہم نے سوچی تھی وہ کام کیوں نہیں کررہی، مطلوبہ نتائج کیوں ظاہر نہیں ہو رہے، سُستی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ قرآن کریم ایسے تمام مواقع پر جہاں مایوسی اور جمود کا امکان ہوتا ہے، ہمیں اللہ پر اعتماد کے ساتھ نئے راستے تلاش کرنے کی ہدایت کرتا ہے،۔ گویا جو تحریکات اپنی کسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنے میں تردد و تکلف کرتی ہیں وہ قرآن کی اس ہدایت کے خلافِ عمل کرتی ہیں۔ ہم نے تیونس کی تحریک اسلامی کی حکمت عملی کی طرف اس بنا پر اشارہ کیا ہے کہ وہ اُس دور سے گزری جس سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ یہی شکل مصر میں رہی جس پر ہم اس تحریر میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
چوتھا اہم پہلو جو اس آیت مبارکہ سے سامنے آتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا قدم قدم پر رہنمائی کرنا اور اپنے ’محسن‘ بندوں کو تنہا نہ چھوڑنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ملجا و ماویٰ، ان کا حقیقی سہارا، ان کی حتمی اُمید اگر کوئی ہے تو وہ اپنے رب کے ساتھ تعلق اور اس کی نصرت و مدد کی طلب ہے۔ ’مجاہدہ‘ دستوری جدوجہد ہو یا میدانِ کارزار میں سرگرمی، پُرامن حکمت عملی ہو یا عسکری منصوبہ بندی، حکمت عملیاں مختلف ہوسکتی ہیں اور بعض بظاہر ایسی بھی ہوسکتی ہیں جنھیں مداہنت (compromise) سے تعبیر کیا جائے گا لیکن تحریک کی زندگی اور کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ قرآنی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک سے زائد راستوں (options) اور سبیلوں پر کھلے ذہن کے ساتھ آمادہ رہے اور کسی ایک حکمت عملی کی شکار اور اس کی مقید نہ ہوجائے۔
تیونس کے حالیہ انتخابات میں ایک دل چسپ اور قابلِ غور پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ ایک ایسی جماعت اریدھا یا پٹشن پارٹی، جو تیونس میں کوئی شہرت نہیں رکھتی تھی، جس کا بانی اور قائد ہاشمی حمدی لندن سے ایک سیٹلائٹ ٹی وی چلاتا ہے، اس جماعت کو بھی ۱۳ فی صد نشستیں صرف اس بنا پر مل گئیں کہ اُس نے اپنے علاقے کے مفلوک الحال عوام سے فوری طور پر معاشی آسانیاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ گویا انتخابی حکمت عملی کا درست ہونا، عوام الناس کے مسائل سے وابستہ ہونا اور مناسب اندازمیں رُوبہ عمل لانا بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور ایک غیرمعروف جماعت بھی صحیح حکمت عملی کی وجہ سے اچھی خاصی نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔
اس پس منظر میں تحریکِ اسلامی کے لیے آگے بڑھنے اور عوام الناس میں موجود تبدیلی کی خواہش کو اس کے منطقی نتائج تک پہنچانے کے امکانات بے حد روشن نظر آتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ایک سے زائد سیاسی حکمت عملی سوچ سمجھ کر وضع کی جائیں اور خود اپنے بازوئوں کو مضبوط کرکے اپنے وسائل اور انسانی قوت کا صحیح استعمال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے تبدیلیِ قیادت اور نظامِ اسلامی کا قیام کوئی مشکل کام نہیں۔
اس عمل میں جو بات کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ اس بات کا اعادہ ہے کہ ہمارا مقصد کیا صرف سیاسی قوت کا حصول ہے یا تبدیلیِ قیادت، نظامِ ظلم، نظامِ تفریق اور بدعنوانی کی جگہ نظامِ حق، نظامِ عدل اور قانون کی بالادستی ہے۔ اگر ہمارا نقطۂ آغاز دین حق اور نظامِ عدل کا قیام ہے تو پھر ہمیں اپنی نظریاتی اساس کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ تربیت ِ کردار اور ان صفات کے پیدا کرنے پر خصوصی توجہ کرنی ہوگی، جو تبدیلیِ قیادت کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں طویل المیعاد اور قریب المیعاد اہداف میں فرق کرتے ہوئے اسی مناسبت سے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
قرآن کریم نے تبدیلیِ قیادت کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال کو بار بار ہمارے سامنے رکھا ہے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے قرآن کریم ہمیں یہی بات سمجھاتا ہے کہ آپؐ نے اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کے اسوہ، دعوت اور دین کو اختیار فرمایا اور تبدیلیِ قیادت کے ذریعے کفروظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و حق پر مبنی اسلامی ریاست قائم فرمائی۔
حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت کے حوالے سے قرآن کریم کا فرمان ہے: ’’اب کون ہے جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے۔ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کرلیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے۔ ابراہیم ؑتو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اُس سے کہا: ’مسلم ہوجا‘ تو اس نے فوراً کہا: ’مَیں مالکِ کائنات کا مسلم ہوگیا‘۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑاپنی اولاد کو کرگیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا‘‘۔ پھر کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب ؑ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا۔ اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا: بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا: ہم اس ایک الٰہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں: ابراہیم ؑ،اسماعیل ؑاور اسحاقؑ نے الٰہ مانا، ہم اس کے مسلم ہیں۔ (البقرہ ۲:۱۳۰-۱۳۳)
اوّلاً: دین اصلاً اسلام ہی ہے جس کی تعلیم حضرت ابراہیم ؑ اور ان سے قبل حضرت نوحؑ نے دی (الصفات ۳۷:۸۳) اور جسے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اصل حالت میں ہمارے سامنے عملاً نافذ کرکے دکھا دیا، اس لیے دنیا کے تمام نظام وہ اشتراکی ہوں یا سرمایہ دارانہ، وہ جاگیردارانہ حیلے اور ظلم ہوں یا ساہوکارانہ دھوکے، ان سب کی جگہ اسلام کا نفاذ ہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا پہلا اور بنیادی نکتہ تھا اور یہی تحریکِ اسلامی کی دعوت ہے۔
اسلام کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرست معیشت، قوت واقتدار کی ہوس والی سیاست، اور برادری اور ذات پات والی معاشرت ان سب کی جگہ اللہ کی بندگی والی سیاست، حلال پر مبنی معیشت اور حقوق و فرائض اور عفو ودرگزر اور محبت پر مبنی معاشرت کا قیام تحریکِ اسلامی کا مقصد ہے۔ یہی دعوتِ ابراہیمی ؑہے۔ یہی اسوئہ محمدیؐ ہے۔
دوسری قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اور بعدکے انبیاؑ کی طرح تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ہرمتفق پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دین کو مضبوطی سے پکڑ لے۔ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کرے کہ مرتے وقت اولاد بھی اسلام پر عامل رہنے اور جھوٹے خدائوں کو اختیار نہ کرنے کی شہادت دے سکے گی۔ یہ جھوٹے خدا قومیت، لسانیت، برادری، ذاتی مفاد اور غیراللہ سے اُمیدیں باندھنا، اور وقتی طور پر اُبھر آنے والی بیرونی قوتوں کو اپنا سہارا ماننا ہے۔ اہلِ ایمان کا واحد سہارا اگر کوئی ہے تووہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک، مالک الملک ہے اور وہی اپنے بندوں کی مدد کرسکتا ہے۔
تیسری بات ہمارے سمجھنے کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکے اسوے میں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور تسلیم و رضا کی ایسی مثال ہے جو قیامت تک کے لیے ایک نمونہ اور آیت بنا دی گئی ہے، یعنی ذبحِ عظیم، اس پر غور کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہم نے نہ صرف عیدقربان کے موقع پر بلکہ ہر امتحان کے موقع پر اپنی کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کیا ہے اور کن محبتوں کو اللہ کے لیے قربان کرنے پر آج آمادہ ہیں۔ یہ محبتیں اولاد کی ہوں، اہلِ خانہ کی ہوں، مال کی ہوں، صاحب ِ اختیار افراد سے قربت کی ہوں، ذاتی مفاد کی ہوں یا خودساختہ احتراموں کی ہوں، ان سب محبتوں کو صرف اور صرف اللہ کی بندگی کے عوض قربان کرنا ہوگا۔ جب تک ان پرتیز چھری نہ پھیری جائے، جانور کی قربانی محض خون کا بہانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو نہ خون پہنچتا ہے نہ گوشت۔ اسے تو صرف وہ بندگی، وہ اطاعت، وہ سپردگی، وہ ادا پہنچتی ہے جس میں ہرعمل کا مقصد صرف اس کی خوشی ہو۔
ابوالانبیا ؑ کے اسوے میں ہمارے لیے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس سچے، مستقیم بندے کو جو مقامِ امامت دیا اور اس نیک بندے کے ذریعے جو تبدیلیِ قیادت عمل میں آئی اس کے لیے اسے بھی آزمایش سے گزرنا پڑا۔ ’’یاد کرو جب ابراہیم ؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اُتر گیا تواس نے کہا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم ؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ ۲:۱۲۴)
کیا تحریکِ اسلامی اور اس کے کارکن واقعی ایسی آزمایشوں سے گزرچکے ہیں کہ تبدیلیِ قیادت کا وعدہ پورا کر دیا جائے اور اقتدار کا انعام، زمین پر خلافت کی صورت میں عطا کردیا جائے، یا ابھی آزمایش سے مزید گزرنا ہوگا کہ وہ منزل جس کا وعدہ ہے، آنکھوں کے سامنے آجائے؟
آج ہم جن حالات سے گزررہے ہیں اگر ان کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے تو وہ اس یقین میں اضافہ کرتے ہیں کہ عالمی طور پر لادینی قوتوں کا دور ختم ہورہا ہے اور ان معاشروں میں بھی جہاں بظاہر فواحش کا دور دورہ تھا، وہ خاموش اکثریت جو کل تک بے اثر تھی، ایک فیصلہ کن قوت میں تبدیل ہوگئی ہے اور استحصالی نظام کی جگہ اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ صبحِ نو جس کے انتظار کی طوالت نے اُمت ِمسلمہ میں عارضی مایوسی پیدا کر دی تھی، نگاہوں کے سامنے ہے۔ قومیت و عصبیت کے جھوٹے خدائوں کی جگہ مالکِ حقیقی کا حکم اس کی زمین پر نافذ ہونے کا وقت آگیا ہے۔
تحریکِ اسلامی کے کارکنان، رب کریم کے ان بندوں کے لیے جنھیں سورئہ عنکبوت میں ’محسنین‘ کہا گیا ہے، یعنی وہ جو اپنے رب کی اطاعت میں احسان، حُسن و اتقان اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے یہ یاد دہانی موجود ہے کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے تبدیلیِ نظام، تبدیلیِ قیادت اور نفاذِ شریعت کے لیے مسلسل جہاد کو اپنا شعار بنانے کے ساتھ زمینی حقائق کے پیشِ نظر، وسیع تر تحریکی اور دینی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ ایک سے زائد حکمت عملی پر غور کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ وسیع تر تحریکی مصالح کے پیشِ نظر طویل المیعاد اور قریب المیعاد منصوبہ بندی وضع کرنے کے لیے اجتہادی طریقہ اختیار کریں۔ تحریکاتِ اسلامی دراصل اجتہادی تحریکات ہیں، جو دین کے بنیادی مقاصد اور اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہر دور میں نئے راستے تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کا مسلسل جہاد انھیں اُس قوتِ ایمانی سے نوازتا ہے جو مشکلات کے پہاڑوں سے نہ گھبراتی ہے، نہ مایوس ہوتی ہے اور نہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑتی ہے۔ اس کے کارکنوں کا اعتصام باللہ انھیں اپنے رب کے قریب ہونے کا مسلسل احساس دلاتا ہے اور آخرکار ان کی جدوجہد کا انجام کلمۃ اللہ کے سب سے زیادہ بلند ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔