جب گھر کے چوکیدار اپنی طاقت کے زور پر گھر کے مالک بن کر من مانے فیصلے کرنے لگیں تو اس گھر کے مکینوں کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہ کس پُرامن طریقے سے اپنے ان ملازموں سے گھرکو واگزار کرائیں۔ یہ معاملہ ایک گھر کا ہو تو تکلیف دہ اور اگر ایک قوم کے ساتھ ہو تو المناک ہوا کرتا ہے۔
پاکستان میں ملازمین ریاست نے (چاہے وہ باوردی ہوں یا بے وردی) اسی قوم کو اپنے جبروزیادتی کا نشانہ بنایا ہے‘ جس قوم نے سخت قربانیوں کے ساتھ ان کے کروفرکا بندوبست کیا اور اختیار کی امانت ان کے سپرد کی۔ یہ ملازمین بنیادی طور پر عوام کے مسائل و معاملات سے لاتعلق نہیں تو بے بہرہ ہونے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی تربیت کا استعماری پس منظر ہے۔ بہرحال ایسے لوگ جب اقتدار کے سرچشموں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کرتے ہیںتو کبھی اس کا قبلہ درست کرنے پر تل جاتے ہیں اور کبھی اس کی تاریخ ٹھیک کرنے کی فکر میں غلطاں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کچھ خود ساختہ حکمران‘ فکری بونوں اور سیاسی بالشتیوں میں کھڑے ہو کر جب اپنے عقل کل ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو کسی دل جلے کے ہونٹوں سے آہ پھوٹ پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ عقلِ کل صاحبان ’’کچل دینے‘‘کی دھمکی سے کم پر نہیں رکتے۔ ایسے ہی عقلِ کل حکمرانوں نے پاکستان کے سیاسی مستقبل کو خدشات و خطرات شکار کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی مستقبل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قومی نظام تعلیم کے ساتھ جس کھیل تماشے کا انھوں نے آغاز کیا ہے‘ اس پر ہر محب وطن شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے‘ تاہم قوم کو صدمے کی کیفیت سے نکل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔
جنرل یحییٰ خان کے زمانے سے اسماعیلی فرقے کے سربراہ کو پاکستان میں سرخ قالین پر استقبال کرانے والے شہنشاہ معظم کا رتبہ حاصل ہے‘ حالانکہ ان کے پاس کوئی ریاست اور کوئی حکومت نہیں۔ عجیب و غریب عقائد و نظریات کے حامل اس عالمی استعماری گروہ نے فی الواقع پاکستان میں ریاست در ریاست قائم کرنے کے لیے شمالی علاقہ جات کو اپنا مرکز بنایا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنے عقائد کے اعتبار سے اسماعیلی شیعہ بھی نہیں کہ مسلمانوں میں شمار کیے جائیں بلکہ ان کے عقائد قادیانیوں سے قریب تر ہیں۔ اہلِ تشیع ان کے بارے میں اسی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو جمہور مسلمان قادیانیوں کے بارے میں رکھتے ہیں۔اور عجیب بات یہ ہے کہ انھی اسماعیلیوں کو اکثر ہمارے حکمران سب سے اچھا پڑھا لکھا‘ اور روشن خیال مسلمان قرار دیتے ہیں۔
۱۹۸۳ء میں جنرل ضیا الحق مرحوم نے آغاخان فائونڈیشن کو کراچی میںایک میڈیکل یونی ورسٹی کھولنے کی اجازت عطا کی۔ اس تعلیمی ادارے نے بے پناہ فنڈز رکھنے کے باوجود نہایت مہنگے داموں میڈیکل تعلیم کا چراغ روشن کیا۔ یہاں پر یہ مسئلہ زیربحث نہیں کہ کس طبقے کے کتنے بچوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان میں سے کتنے فی صد پاکستان میں خدمت انجام دینے کے لیے رکے رہے۔ اس موضوع پر حقائق سامنے لائے جائیں تو خود بخود یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ ادارہ اپنے حتمی نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے بجاے دوسروں کی خدمت پر کمربستہ ہے۔ بلاشبہہ اس ادارے نے میڈیکل سائنس اور صحت کے میدان میں بڑے نمایاں نتائج دیے ہیں‘ مگر اس بات سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ادارہ پاکستان بھر کے ۱۵ کروڑ لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتا ہے۔
اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عام انتخابات ہوئے۔ قوم نے اپنے نمایندے چن لیے‘ لیکن جنرل پرویز مشرف نے اپنی متنازعہ صدارت اور بوگس ریفرنڈم سے حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے دستخطوں سے ’’غیرمعمولی آرڈی ننس‘‘(CXIV/2002) منظور کیا‘ جسے ’دی گزٹ آف پاکستان‘ کے صفحات ۱۷۳۱ تا ۱۷۳۵ پردیکھا جا سکتا ہے۔ یوں قوم کے مستقبل پر ایک اور کمانڈوایکشن لیا گیا۔ افسوس کہ اہلِ سیاست اور اہلِ قانون اس آرڈی ننس کی نزاکت سے بے خبر رہے‘ اور اب یہ آرڈی ننس اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ قوم کی فکری‘ تاریخی‘ دینی اور معاشی مستقبل پر شب خون کا درجہ ہی نہیں رکھتا بلکہ دن دھاڑے ڈاکازنی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسے تیار کرنے والوں کو بخوبی معلوم ہے کہ کسی معاشرے اور قوم کے وقار‘ عزت اور خودی کو مسخر کرنے اور اسے ہمہ پہلو غلامی کے شکنجے میں کسنے کا سب سے کامیاب گر تعلیم ہے۔
یہاں پر آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ (AKU-EB) کے اس آرڈی ننس کی چند شقیں پیش کی جا رہی ہیں‘ جنھیں دیکھنا‘ پرکھنا اور اس پر آواز بلند کرنا تمام اہل نظر کی دینی‘ قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آرڈی ننس کا آغاز ان الفاظ میں ہوتا ہے:
آرٹیکل (۱) اس آرڈی ننس کو ’’آغا خان یونی ورسٹی ایگزامی نیشن بورڈ ۲۰۰۲ئ‘‘ کہا جائے گا۔ (۲) یہ پورے پاکستان پر محیط ہوگا۔ (۳) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
۴- امتحانی بورڈ کے مقاصد: ] سات آٹھ مقاصد درج ہیں[
۶- امتحانی بورڈ کو معقول حد تک امتحانات کی فیسیں عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔
۸- اس آرڈی ننس کے تحت نیک نیتی سے کیے گئے تمام کام کسی قسم کے عدالتی دعوئوں اور قانونی کارروائیوں سے محفوظ ہوں گے۔
واقعات کو اگر ترتیب سے دیکھیں تو نظرآتا ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے گروہ نے اخلاقی جواز نہ رکھنے کے باعث کئی قسم کے دبائو قبول کیے اور کئی حوالوں سے‘ ہتھیار ڈالتے وقت خود دشمن کو بھی حیران کر کے شادی مرگ میں مبتلا کر دیا۔ اسلام آباد کے باخبر سرکاری حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں استعماری مفادات کی حامل این جی اوز نے بڑی تیزی کے ساتھ‘ مختلف وزارتوں اور پالیسی ساز اداروں میں اپنا عمل دخل بڑھا لیا۔ یوں رفتہ رفتہ پالیسی سازی اور پالیسی دستاویزات کی تیاری میں حیرت ناک حد تک اختیار حاصل کرلیا‘ بلکہ ۲۰۰۰ء کے اواخر تک اس حق کو ایک ’اعلیٰ قدر‘ کے طور پر تسلیم بھی کرا لیا۔ ڈیوولیوشن پلان یا ’اختیارات کی تقسیم پروگرام‘ کی ظاہری خوش نمائی کے باوجود اس کی داخلی بدنمائی نے قومی مرکزثقل کوہلا کر رکھ دیا۔
۲۰۰۱ء میں حکومت نے بڑی تیزی کے ساتھ ایجوکیشن سیکٹر ریفارم کے نام پر سال بہ سال چھوٹی چھوٹی تعلیمی پالیسیاں جاری کرنا شروع کیں۔ حالانکہ اس سے قبل تعلیم کے حوالے سے یہ طے شدہ امر تھا کہ پالیسی واضح طور پر مشتہرکی جائے کہ اہل حل و عقد‘ تعلیم کے میدان میں آیندہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن فوجی حکمرانوں نے اتنے اہم اسٹرے ٹیجک شعبے کو بے سروپا انداز میں چلانا شروع کیا۔ ۲۰۰۲ء میں آغا خان یونی ورسٹی کے فرنٹ مین مسٹر شمس قاسم لاکھا کی نگرانی میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں کے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پھراسی سال آغا خان امتحانی بورڈ کو رات کے اندھیرے میں پاکستان بھر کے تعلیمی مستقبل کا مستقل مالک بنا دیا گیا۔ بعدازاں امریکی ادارے‘ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ (USAID) نے آغا خان یونی ورسٹی سے ۱۳؍اگست ۲۰۰۳ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا‘ جس پر امریکی سفیرہ نینسی پاول اور آغا خان یونی ورسٹی کے نمایندے شمس قاسم لاکھا نے دستخط کیے۔ اس تقریب میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال صاحبہ (جنھیں امریکی حکومت ’’ونڈرفل لیڈی‘‘ کے طور پر یاد کرتی ہے) اور سندھ کے وزیرتعلیم عرفان اللہ مروت بطور سرکاری گواہ موجود تھے۔ ان دستخطوں سے حکومتِ امریکا نے آغا خان یونی ورسٹی کو اپنے امتحانی بورڈ کی تعمیروترقی کے لیے ۴۵۰ لاکھ ڈالر عطا کیے اور ’’جب تک یہ بورڈ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوجاتا اسے امداد دی جاتی رہے گی‘‘ کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ ہدف یہ مقرر ہوا کہ پاکستان بھر کے اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ‘ آغا خان بورڈ کے قبضۂ اختیار میں چلے جائیں۔
آغا خان امتحانی بورڈ نے آغاز کار میں صرف تین ہزار ۸ سو روپے رجسٹریشن فیس فی طالب علم مقرر کی ہے‘ جسے ہر طالب علم نومبر ۲۰۰۴ء تک ادا کرے گا۔ یاد رہے کہ سرکاری تعلیمی بورڈ میں یہ فیس ۳۰۰ روپے ہے۔ بعدازاں امتحان کے لیے فیس الگ سے لی جائے گی‘ اور وہ بھی چار ہزار ہوگی۔ کیا عام طالب علم اتنی فیس ادا کر سکے گا۔ موجودہ تعلیمی بورڈوں میں امتحانی فیس میٹرک کے لیے ۷۰۰ روپے اور انٹرمیڈیٹ کے لیے ۹۰۰ روپے ہے۔تعلیم کو سستا کیے بغیر معاشرے میں تعلیم عام نہیں ہو سکتی۔ اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت ہے‘ کتاب اور کاپی بھی مفت ہے‘ جب کہ انٹر تک طالبات کیبہت بڑی تعداد کو وظیفہ دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں تعلیم عام کا ہدف سرکاری سرپرستی اور اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہوا‘ لیکن یہاں پر تعلیم کی زمامِ کار ساہوکاروں اور کثیرقومی کارپوریشنوں کے ہاتھ میں دے کر ’’روشن پاکستان‘‘ (رائزنگ اور توانا پاکستان) بنانے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
چند ماہ پیش تر قومی ادارہ نصابات (نیشنل کریکولم ونگ) اور صوبائی درسی کتب بورڈوں کے ہاتھوں جہالت پر مبنی جن غلطیوں پر قوم سراپا احتجاج بنی‘ واقعہ یہ ہے کہ اس احتجاج نے جہاں ان اداروں پر سے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا ہے‘ وہیں حکومت اپنے منصوبے کے مطابق‘ خود نصاب اور ٹیکسٹ بک بورڈوں ہی کے وجود پر فاتحہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ نصابی کتب کی ڈی ریگولیشن سے جنرل مشرف اور زبیدہ جلال کی یہ والہانہ وابستگی دراصل قومی نصابی عمل کوختم کرنے کا واضح اعلان ہے۔ قوم نے اپنے نصابی اداروں کو ٹھیک کرنے کے لیے آواز بلند کی‘ جسے عملاً دبا دیا گیا اور محض چند سطروں کی اصلاح اور دو تین مضامین کو حذف کرنے کے سوا تمام کا تمام متنازعہ نصاب درس گاہوں میں آج بھی موجود ہے‘ اور قومی نمایندے اس سارے ظلم سے بے خبر‘ لاتعلق اور غیرمتعلق ہیں۔ پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ایک دو بار بات ہوئی اور حکومتی نمایندوں کے جھوٹے‘ مبہم اور متضاد بیانات سن کر‘قوم کے نمایندے ’مطمئن‘ ہوگئے۔
اب ‘ جب کہ آغا خان بورڈ‘ امریکی امداد اور حکومت پاکستان کی سرپرستی میں امتحانی نظام پر مرحلہ وار انداز میں قبضہ کر رہا ہے‘ تو پھرلامحالہ یہی بورڈ اپنا نصاب خود بنائے گا‘ خود پڑھائے گا اور اس کے مطابق امتحان لے گا۔ اس کے نصاب یا مالی طریق کار اور پیمایشی نظام پر قوم کے نمایندوںکا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں قوم کو دھوکا دینے کے لیے حقیقی حکمران اور ان کے دست راست افراد غیرمنطقی بیانات دے رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ بورڈ ’’قومی نصاب کے مطابق کام کرے گا‘‘ (اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف جگہ پر آغا خان امتحانی بورڈ نے یہ لکھا بھی ہے) تاہم‘ قدم قدم پہ‘ یہ اعلان بھی کرتے جا رہے ہیں کہ ’’ہم وہی کریں گے جو ہم چاہیں گے‘‘--- مثال کے طور پر آغا خان بورڈ نے الحاق کے لیے جو شرائط نامہ جاری کیا ہے‘ اس کی شق ۳ئ۳ کے مطابق کہا گیا ہے: ’’اسکول لازماً اسی قومی نصاب کو اختیار کریں گے‘ جسے آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ جاری کرے گا‘‘۔ اس شق میں بظاہر لفظ ’’قومی‘‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کا طے شدہ قومی نصاب ہوگا‘ لیکن خود اس جملے کی ساخت بتاتی ہے کہ یہاں مراد وہ ’’قومی‘‘ ہے‘ جسے آغاخان بورڈ ’’قومی‘‘ قرار دے گا۔ اس معاملے کو ایک دوسری مثال سے پرکھتے ہیں۔ آغا خان بورڈ نے میٹرک کے لیے اسلامیات کے جس نصابی خاکے کو جاری کیا ہے‘ اس کے ابتدایئے میں وعدہ کیا ہے کہ ’’پاکستان کے نصابی شعبے کی ہدایات کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ لیکن اس کے صفحہ ۵ پر پہنچتے ہی اعلان کیا گیا ہے: ’’قومی مقاصد کے مطابق‘ اسلامیات کا نصاب وضع کرنے کے لیے‘ زیتونیہ یونی ورسٹی‘ تیونس سے رہنمائی لی جائے گی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تیونس ہی کی مثال کیوں؟
اس لیے کہ وہاں کے آمرمطلق حبیب بورقیبہ نے ۹۸ فی صد آبادی کے مسلمان ملک میں جبری طور پر روزے پہ پابندی لگانے اور اسکارف و حجاب کو جبراً ممنوع قرار دینے کے علاوہ مسجدوں میں خطبہ و نماز پر اپنے من مانے احکام چلانے شروع کر دیے۔ قوم کو عریانی اور یورپی اقوام کی تفریحی شکارگاہ بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ تفصیل کے لیے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اسلام کو چھوڑ کر خود جنرل مشرف کو تیونس کا لبرل اسلام پسند ہے تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ نماز‘ روزے سے نجات‘ شراب اور ڈانس پارٹیوں کی فراوانی کا کلچر‘ عریانی و آوارگی کا چلن--- یہ ہے تیونس کے ’’لبرل اسلام کی منزل‘‘ ۔ ایسے ہی جابر اور آمر حکمرانوں کی رہنمائی میں تیار کردہ ’’اسلامیات‘‘ ہمارے آغاخان امتحانی بورڈ کو پسند ہے۔ آغاخان بورڈ نے اسلامیات کے لیے میٹرک کا جو نصاب پیش کیا ہے‘ اس میں قرآن کے متن کو تلاش کرنے کے لیے خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہا یہ گیا ہے کہ ’’پاکستان کے قومی نصاب کی روشنی میں نصاب تیار کیا جائے گا‘‘۔ کیا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ حکومت نے نصاب میں قرآن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے تیونس کے اسلام بذریعہ آغا خان کا یہی طریقہ مناسب سمجھا ہے؟ --- یہی صورت حال تاریخ‘ مطالعہ پاکستان اور سماجیات و ادب کے دیگر مضامین میں روا رکھی گئی ہے۔
امریکا و یورپ نے پہلے پہل یہ کہا کہ دینی مدارس سے دہشت گردی پیدا ہو رہی ہے‘ بعد میں یہ کہنا شروع کیا: ’’جدید تعلیم کے اداروں سے دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘‘۔ اس لیے مغرب کے بھتے (پے رول) پر کام کرنے والی این جی اوز نے گذشتہ چار برس سے اس پروپیگنڈے کا آغاز کیا کہ: ’’دو قومی نظریہ نفرت کی علامت ہے‘ محمد بن قاسم نے چوری چھپے حملہ کر کے وطن کے بیٹے راجہ داہر جیسے بے ضرر انسان کو خواہ مخواہ شکست دی۔ ہندستان پر قبضہ کرنے والے انگریز ماضی کی داستان تھے اور آج کے انگریز دوسری چیز ہیں جو ہمارے دوست ہیں‘ اس لیے انگریزی سامراج کے خلاف حصے نصاب سے خارج ہونے چاہییں۔ میجرطفیل‘ راجہ عزیز بھٹی‘ راشد منہاس اور دیگر نشانِ حیدر رکھنے والے افراد کا تذکرہ بھی خارج از نصاب قرار دیا جائے‘ کیونکہ اس طرح بے جا طور پر ہندوئوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ محمود غزنوی اور غوری حکمرانوں کا ذکر بھی ہندو کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ نہرو اور کانگریس کے خلاف بھی مواد حذف کیا جائے۔ اصل اسلام صوفیوں نے پیش کیا۔ اسی طرح حضرت فاطمہؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ کے ذکر کے بجاے بلقیس ایدھی اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ کو رول ماڈل (خاکم بدہن) کے طور پر پیش کرنے کے لیے پیش رفت کی جائے (بلکہ ایسا کر بھی دیا)۔ صحابہ کرامؓ بڑے ’’لبرل‘‘ تھے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مشتمل ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا‘ جس سے مسلم اور یہودی اسلامی ریاست کے شہری بن گئے‘‘--- ان چیزوں کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک حد تک سرکاری ٹیکسٹ بک بورڈوں کو استعمال کیا گیا اور آیندہ یہ کام زیادہ یکسوئی کے ساتھ کرنے کے لیے آغا خان بورڈ کے ذمے لگایا گیا ہے۔
اس مسئلے پر اسی قبیل کے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ترجمان جہد حق (اگست ۲۰۰۴) نے تو یہ لکھا ہے: ’’اب وقت آن پہنچا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک مشترکہ کتاب کے طور پر برصغیر کی تاریخ مرتب کی جائے --- بچوں کو بجاے اس کے کہ کسی واحد سرکار کی طرف سے منظور کردہ آلایشوں سے پاک سچائی سے روشناس کرایا جائے‘ انھیں ہر قسم کے نظریات سے واقفیت کرائی جائے۔ ’’نظریہ پاکستان‘‘ جس سے یہ [پاکستان] چمٹا ہوا ہے وہ بھارت کے لیے حکمران فوجی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں کی نفرت سے کسی حد تک علیحدہ چیز ہونا چاہیے۔ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ‘ جن کی اجارہ داری ہے نظریاتی چوکیداروں کے فرایض سرانجام دیتے ہیں اور تابع دار مصنفین کی سرپرستی کرتے ہیں‘‘۔ (ص ۸)
اس سال کے آغاز میں‘ حکومت نے ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال کر‘ کہ آغا خان بورڈ تو بنیادی طور پر نجی تعلیمی اداروں کے لیے ہے‘ سب سے پہلا وار وفاق کے زیرانتظام تعلیمی اداروں پر کیا۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں اس حوالے سے سرگرمی سے کام شروع کیا گیا‘ جس پر اسلام آباد کے شہریوں کی بے چینی کو زبان دیتے ہوئے روزنامہ دی نیشن نے اپنی رپورٹ (۹فروری ۲۰۰۴ئ) میں بتایا: حکومت نے وفاقی تعلیمی بورڈ (ایف بی آئی ایس ای)کو آغا خان بورڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے وفاقی وزیرتعلیم زبیدہ جلال اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے ڈائرکٹر جنرل بریگیڈیر (ر) مقصودالحسن نے سرگرمی سے دبائو بڑھانا شروع کیا ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کی انجمن نے اس امر کی مخالفت کی‘ اور ۲۰ جنوری کو ہونے والے اجلاس میں مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب معلوم ہوا کہ اس منصوبے پر دو طریقے سے عمل کیا جائے گا۔ پہلے والدین کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ ایک ہی تعلیمی ادارے میں اپنے بچے کو آغا خان بورڈ کے تحت امتحان دلانا چاہتے ہیں یا نہیں‘ جب کہ دوسرے مرحلے میں اس ادارے کے سب بچوں پر لازم کر دیا جائے گا کہ وہ آغا خان بورڈ ہی کو منتخب کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہم دہم کا امتحان ایک ہی مرتبہ لیا جائے۔ کسی سرکاری تعلیمی ادارے کو کسی پرائیویٹ ادارے کے زیرانتظام منسلک کرنا مکمل طور پر غیرقانونی فعل ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ آغا خان بورڈ کے فارغ التحصیل طلبہ کو بیرون پاکستان آسانی سے داخلہ مل جائے گا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے طلبہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور اس معمولی تعداد کے لیے کیا پورے پاکستان کے بچوں کو اس مہلک سسٹم میں دھکیل دینا کوئی عقل مندی کی بات ہوگی‘‘۔
تاحال وفاقی تعلیمی بورڈ پر گرفت مضبوط بنانے کے لیے آغا خان بورڈ سرگرداں ہے‘ جب کہ وفاقی بورڈ میں قومی درد رکھنے والے چند افسر مزاحمت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے بورڈوں کے چیئرمینوں نے بھی سردست آغا خان کے سامنے ہتھیار نہ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن یہ مزاحمت یا ضد علامتی ہے۔ اکثر چیئرمین سفارش یا ذاتی جوڑ توڑ سے اس منصب تک پہنچتے ہیں۔ جو چند ملّی درد رکھنے والے افراد ہیں‘ ان کی مزاحمت اس وقت تک باثمر نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی سطح پر اہل دانش اور عوامی حلقے انھیں اخلاقی امداد بہم نہ پہنچائیں۔ ایک طرف امریکی استعمار کھلے عام‘ امریکی سفیرہ کی قیادت اور جنرل مشرف و زبیدہ جلال صاحبہ کی سیادت میں تعلیمی ڈھانچے اور نظام پر قبضہ کرنے کے لیے کھلے عام پیش رفت کر رہا ہے‘ دوسری جانب ریٹائرمنٹ کے قریب تھکے ہارے چند بے نوا پروفیسر حضرات اپنے اپنے بورڈوں کو کب تک بچائیں گے۔ پھر جس طرح کا ہمارے ہاں نظام ہے کہ ایسے مباحث میں کئی مفاد پرست ناصحین مشورہ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کہ ’’قبول کر لیا جائے‘‘۔ دوسرا یہ کہ آغا خان بورڈ کے کارندوں نے مختلف انجمنوں اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے رابطوں میں تیزی پیدا کی ہے۔ اس حوالے سے وہ مذہبی پس منظر کے چند اداروں اور دینی شکل و صورت رکھنے والے چند بندگانِ زر کو بھی شیشے میں اتار رہے ہیں‘ بلکہ اس نوعیت کے کچھ لوگوں سے رابطوں کو انھوں نے کمپنی کی مشہوری اور مذہبی طبقے کی جانب سے سندِ قبولیت کے طور پر پیش کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔
آغا خان امتحانی بورڈ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر تھامس کریسٹی جو برطانوی نژاد انگریز اور مانچسٹر یونی ورسٹی کے سابق ڈین ہیں‘ شب و روز کی جدوجہد سے اپنے وابستگان میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے ہمراہ شمس قاسم لاکھا ہیں‘ جن کے ہاتھوں یونی ورسٹی کے نظام کار کا حلیہ بگاڑنے اور تعلیم کو تجارت و زرپرستی کا دوسرا نام دینے کا المیہ رونما کرانے کے بعد‘ اب ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کی بساط بھی لپیٹی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے دروازے تو اب نچلے اور متوسط طبقے کے بچے کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ سیلف فنانس‘ سیلف سپورٹ اور لوٹ مار کے بے شمار نجی تعلیمی اداروں نے ناداروں کو زندگی بہتر بنانے کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے۔ مختلف ناموں کی یونی ورسٹیاں ہر شہر میں کھل رہی ہیں‘ جو اپنی جگہ قانون کی نہایت سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن ہمارا ریاستی نظام ان جعلی اداروں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجاے‘ انھیں مختلف اقدامات کے ذریعے پروان چڑھانے میں مددگار بن رہا ہے۔
آغا خان اقلیت کی حکمت عملی قادیانیوں اور یہودیوں سے ملتی جلتی ہے۔ وہ یہ کہ قوت کے سرچشموں کو اپنے اثرونفوذ میں لیا جائے‘ بظاہر امن پسندی کا ڈھونگ رچایا جائے اور اصل میں ہڈیوں میں اتر جانے والا ظلم ڈھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہاں مادی وسائل پر قبضہ اور پس پردہ سازش دو بنیادی اصول ہیں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آغا خان بورڈ میں فی طالب علم کی محض رجسٹریش فیس کا سرکاری بورڈوں کے مقابلے میں تناسب تقریباً چار ہزار بمقابلہ تین سو ہے‘ اور امتحانی فیس کا تناسب بھی یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچے کو پڑھانا ممکن نہ ہوگا۔ اسی طرح جنرل مشرف کے ڈی ریگولیشن کے محبوب تصور کے تحت درسی کتب بے پناہ مہنگی ہوجائیں گی۔ ممکن ہے اس مہنگائی کا کوئی عارضی علاج امریکا اور اس کے حلیف سوچ لیں (جس کے تحت وقتی طور پر آغا خانی تعلیم کو کچھ سستا بھی کر دیں) لیکن اصل چیلنج ہمارے نزدیک اس تعلیم کا مہنگا ہونا نہیں ہے‘ بلکہ دیسی‘ بدیسی اور دشمن قوتوں کے ہاتھوں نئی نسل کے ذہن‘ فکر‘ تربیت اور مستقبل کو غلام بنانے کے راستے پر چلنا ہے۔
یورپی اقوام نے نظام تعلیم کو محکوم قوموں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ جس کی ایک مثال لارڈ میکالے کا فرمان ہے‘ دوسرا اعلان نپولین کا ہے کہ مسلمان ملکوںمیں ’’مقامی لوگوں کو مقامی لوگوں سے مرواو‘‘ (یعنی (natives to kill natives۔ گذشتہ تین برسوںکے دوران امریکا نے مسلم دنیا کے بارے میں جتنی رپورٹیں جاری کی ہیں‘ ان میں مسلمان ملکوں کے نظام تعلیم کو بنیادی ہدف بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنے سے ایک سال پیش تر جون ۲۰۰۲ء میں عراقیوں کے لیے امریکا نے درسی کتب تیار کر لی تھیں اور ۱۰‘ اپریل ۲۰۰۳ء کو بغداد پر کنٹرول حاصل کرنے کے آدھے گھنٹے بعد امریکا نے عراق کے لیے جاری کی جانے والی سب سے پہلی امداد عراقی نظام تعلیم سے منسوب کی تھی۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انگریز اور یورپی استعمار نے ہر مسلمان ملک میں سیکولر اور مذہبی نظام تعلیم کو رواج دے کر خود مسلمانوں کو دو‘ مسلسل متحارب اور اجنبی گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ ایک گروہ پر ملازمت‘ عزت اور احترام کے دروازے بند ہیں‘ چاہے وہ جس قدر بھی دیانت دار اور اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہو۔ دوسرے گروہ کے لیے دولت‘ ثروت‘ عزت اور قوت کے تمام دھارے کھول کر رکھ دیے ہیں‘ چاہے وہ گروہ مجموعی طور پر‘ خود اپنی قوم کے لیے نفرت‘ حقارت اور بے رحمی کی چلتی پھرتی علامت ہی کیوں نہ ہو۔
اب آغا خان بورڈ اور بیکن ہائوس قسم کی برگر پود تیار کر کے خود جدید تعلیم کے فاضلین میں بھی ایک نہایت گہری تقسیم پیدا کی جا رہی ہے۔ اس ظلم کو متعارف کرانے کا کام ’’فوجی یونٹی آف کمانڈ‘‘ کے سنہری اصول کے تحت کیا جا رہا ہے۔ معاشی وسائل پر دسترس دینے کے لیے ایک جانب امریکا کی طرف سے کھلی مالی امداد ہے‘ جب کہ خفیہ طور پر دیے جانے والے فنڈز ہماری معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ گذشتہ دنوں حبیب بنک جیسے قومی ادارے کو ’’آغا خان فنڈ براے ترقی‘‘ کے سپرد کرتے وقت یہ شفافیت اپنائی گئی کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ۷۰ارب روپے کے اثاثوںوالا بنک صرف ۲۲ ارب میں فروخت کر دیا۔ اس ضمن میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے دبائو کا اعتراف خود وکلا حضرات نے سپریم کورٹ کے سامنے کیا۔ وفاقی تعلیمی بورڈ کو سب سے پہلے آغا خان کے حوالے کرنے کا جو ڈول ڈالا گیا ہے‘ تو یاد رہنا چاہیے کہ اس بورڈ کی صرف اسلام آباد اور بیرون پاکستان میں اربوں روپے کی جایداد ہے‘جب کہ پاکستان کے ۲۳ تعلیمی بورڈوں کو‘ جنھیں رفتہ رفتہ آغا خان فاؤنڈیشن جیسے مگرمچھ کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے‘ ان کے اثاثہ جات کئی ارب سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور پھر قوم کے ہر بچے کی جانب سے سالانہ تاوان دینے کی مجبوری الگ۔ یہ تمام چیزیں لمحۂ فکریہ ہیں۔
آغا خان بورڈ حالات کو کس رخ پر لے جائے گا‘ یا اپنے تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) کے مطابق اس کے کرتا دھرتا کن دائروں میں زندگی گزارنے کی پہچان رکھتے ہیں‘ اسے دیکھنے کے لیے آغاخان ایجوکیشن کے دو سوال ناموں پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان نے کلاس نہم سے گیارھویں جماعت تک کے طلبہ و طالبات کے ’’بالغانہ صحت کے سروے‘‘ کے لیے ایک سوالنامہ مرتب کیا ہے۔ اس سروے کو ’’دی گلوب فنڈ‘‘ اور حکومت پاکستان کے ایک شعبے کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ان میں بچوں سے سوال پوچھا گیا ہے:
__ آپ کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کا سب سے خطرناک ذریعہ کون ہے؟
(۱) غیرمحفوظ جنسی تعلقات (کمرشل جنسی ورکر‘ ایک سے زیادہ جنسی تعلقات) (۲) مرد سے مرد کا جنسی تعلق‘ وغیرہ (ص ۹)
__ آپ خود کو کس طرح ایڈز سے متاثر ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
(۱)محدود جنسی تعلقات رکھنے سے (۲) کمرشل جنسی ورکر سے گریز (۳) حکیمی جڑی بوٹیوں اور دوائوں کے استعمال سے ‘ وغیرہ (ص ۱۰)
__ مندرجہ ذیل جملوں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کون سے جملے رکھتے ہیں؟
(۱) اپنی مرضی سے زندگی گزارنا (۲)اپنا ہم سفر خود چننا (۳) شادی اور بچے‘ وغیرہ (ص ۲۲)
__ ان میں سے کون سی چیزیں آپ نے پچھلے چھے مہینوں میں کی ہیں؟
(۱) والدین سے جھوٹ بولا (۲) مزے کے لیے اسکول سے فرار ہوئے (۳) دکان سے چرا کر بھاگے (۴) گھر سے بھاگے (ر) دوستوں کے بہکاوے میں اگر غلط کام کیا (۵) شراب پی ہے‘ وغیرہ (ص ۲۲‘ ۲۳)
__ کیا آپ دوستوں سے گرل فرینڈ/بواے فرینڈ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرسکتے ہیں؟
(۱) جی ہاں (۲) بالکل نہیں (۳) میں کر سکتا ہوں وغیرہ (ص ۲۳)
__ کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات استوار رکھے ہیں؟
(۱) ہاں (۲) نہیں (ص ۲۳)
__ اگر ہاں تو پہلی بار جنسی تعلقات استوار کرتے وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
(۱) ۱۳سال سے کم عمر میں (۲) ۱۳ سال کی عمر میں (۳) ۱۴سال کی عمر میں (۴) ۱۵ سال کی عمر میں (۵) ۱۶ سال کی عمر میں (۶) ۱۷ سال یا اس سے زیادہ عمر میں‘ وغیرہ (ص ۲۳)
__ جو آپ درست سمجھتے ہیں ان پر صحیح کا نشان لگائیں؟
(۱) میں اپنے جنسی اقدار اور عقیدوں کی وجہ سے پریشان ہوں (۲) میں نے کبھی بھی کسی سے جنسی تعلقات نہیں رکھے (۳) میرے گرل/ بواے فرینڈ کے ساتھ جنسی تعلقات ہیں (۴) میں اپنے جنسی رویے پر شرمندگی محسوس کرتا ہوں (۵) میرے جنسی تعلقات کی وجہ سے میرے دوست حسد کرتے ہیں (ص ۲۴)
__ آپ کتنی مرتبہ نشہ کرتے ہیں؟
(۱) روزانہ (۲) ہفتے میں ایک بار (۳) مہینے میں ایک بار‘ وغیرہ (ص ۲۶)
__ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟
(۱) ہاں میں پیتا/پیتی ہوں (۲) نہیں‘ میں نہیں پیتا/ پیتی ہوں (۳) کبھی کبھار پیتا/پیتی ہوں (ص ۲۷)
__ آپ نے شراب پینا کیوں شروع کی؟
(۱) میرے تمام دوست شراب پیتے ہیں (۲) میں دوستوں کے سامنے اچھا نظر آنا چاہتاہوں /چاہتی ہوں (۳) میں اکثر شراب کے بارے میں سنتا تھا اور پی کر دیکھتا چاہتا تھا/چاہتی تھی (۴) میں بہت پریشان رہتا تھا/رہتی تھی (ص ۲۷)
__ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کو بہت اہمیت حاصل ہے‘ آپ کے
خیال میں کیا ایک لڑکی کا شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا جائز ہے؟
(۱) اخلاقی طور پر غلط ہے (۲) بالکل غلط نہیں (۳) میں نہیں جانتا (ص ۲۸)
__ آپ جن جوابات کو درست سمجھتے ہیں ان پر نشان لگایئے؟
(۱) میرے دوست جی بھر کے تمام قسم کے جنسی تعلقات میں حصہ لیتے ہیں (۲) میں وہ کرنا چاہتا ہوں جو میرے دوست کرتے ہیں (۳) دو محبت کرنے والوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلق ٹھیک ہے۔
__ کیا آپ گاڑی لے کر گئے؟
(۱) دوست کے گھر (۲) گھر کے آس پاس (۳) اپنے بواے/گرل فرینڈ کے گھر تک‘ وغیرہ (ص ۲۹)
اسی نوعیت کا سوال نامہ میٹرک‘ انٹر کے اساتذہ کے لیے بھی ہے۔
اوپر درج شدہ چند سوالات اور ان کے مجوزہ جوابات دیکھیے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حکومت کی آشیرباد سے فائونڈیشن اول روز سے ہی حلال و حرام کے مذہبی ضابطوں اور جملہ اخلاقی اقدار کو تہس نہس کر کے پاکستان کے مسلم معاشرے کو یورپ و امریکا کے طرز کی اباحیت میں ڈوبی ہوئی مادر پدر آزاد سوسائٹی میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ کسی کلاس روم میں طلبہ و طالبات کے ان فارموں کو پُر کرنے کا تصور کیجیے‘ جس سے آپ کو وہ ماحول سمجھ میں آجائے گا‘ جس میں باقاعدہ بھڑکا کر لانا مطلوب ہے۔ اس سوالنامے کے نفسیاتی اور سماجی پہلو پر گفتگو کرنے سے خود حیا آتی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ سوال نامہ ’لبرل ماڈریٹ‘ مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس بحث کے آخر میں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ ظلم پر مبنی اس آرڈی ننس اور حقارت و زیادتی پر مبنی اس نظام کو مسلط کرنے کے لیے مختلف استعماری این جی اوز اور حکومت کے بارسوخ افراد نے بڑے تسلسل سے کام کیا ہے۔ حکومت کے ’’اصل لوگ‘‘ سرخوشی کے عالم میں کچھ اچھے اور زیادہ تر برے فیصلے کرتے جارہے ہیں۔ بلاشبہ آغا خان امتحانی بورڈ کا آرڈی ننس بھی سترھویں ترمیم کے پردے میں قوم پر مسلط کیا جانے والا ظلم ہے۔ سترھویں ترمیم کو تسلیم کرنے والوں پر یہ بہت بڑا قرض ہے کہ وہ اپنی نئی نسلوں کو اس طوق غلامی سے نجات دلانے کے لیے‘ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کریں اور مسترد کریں۔ لیکن اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ خود منتخب نمایندوں کو ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کی نزاکت سے آگاہ کیا جائے۔ سترھویں ترمیم کی منظوری کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ گذشتہ عہد مشرف میں جو آرڈی ننس یا فیصلے ہوچکے ہیں‘ انھیں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں زیربحث لا کر‘ قبول کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مشترکہ کمیٹی کا قیام التوا میں چلا آرہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ طے شدہ طریقے کے مطابق خصوصاً اس آرڈی ننس کا جائزہ لیا جائے اور اسے مسترد کیا جائے۔
اس الم ناک صورت حال پر اہلِ دانش اور اساتذہ کرام کا یہ دینی اور قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کو یہ بات سمجھائیں۔ یہ مسئلہ متحدہ مجلس عمل‘ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا نہیں ہے‘ بلکہ سبھی کے لیے مشترکہ درد اور کرب کا مسئلہ ہے۔ کیا اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کسی جابر کی حکمت عملی کو تسلیم کر کے صدیوں تک اپنی نسلوں کو غلامی کے غار میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں یا حکمت و دانش سے بیداری و یک جہتی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے ان زنجیروں کو توڑنے کے لیے آمادہ ؟
برعظیم میں انگریزی حکومت کے قائم ہونے کے بعدمسلمانانِ ہندنے اپنی آزادی اور اسلامی تشخص کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریک پاکستان کا سب سے بڑا محرک ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا جہاں مسلمان مذہبی تعلیمات اور اپنے رسم رواج کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ یہی وجہ تھی کہ برعظیم میں پاکستان کے قیام کا مطلب’’لاالٰہ اِلا اللہ محمدؐ رسول اللہ‘‘کی سربلندی سمجھا اور مانا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کئی ایک کوششیں کی گئیں۔ ان کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی نے ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی‘جس میں اس بات کا عہد کیا گیاکہ نئی مملکت میں مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں بسر کرسکیں۔اُس کے بعد سے ملک کے جتنے بھی آئین بنے‘ اُن سب میں اسی عہد کا اعادہ کیا گیا ہے۔
۱۹۷۳ء کے آئین نے بھی یہ قرار دیا کہ موجودہ قوانین قرآن وسنت کے احکامات کے ساتھ ہم آہنگ کیے جائیں گے‘ اور ملک میں کوئی ایسا قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکامات سے متصادم ہو۔ ممبران پارلیمنٹ کے لیے ضروری قرار پایا ’’کہ وہ اچھے اخلاق رکھتے ہوں‘ اور جن کے متعلق یہ تاثر نہ ہو کہ وہ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اُنھیں اسلامی تعلیمات کا علم ہو، فرائض بجا لاتے ہوں اور کبائرسے اجتناب کرتے ہوں‘‘۔ قرارداد مقاصد، جو آئین میں دیباچے کی شکل میں شامل کی گئی تھی‘۱۹۸۵ء میں ایک ترمیم کے ذریعے اس کو دستور کا حصہ بنادِیا گیا۔
یہ مقامِ افسوس ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود ملک میںاسلامی قوانین عملی طور پر نافذ نہ ہو سکے۔ ۱۹۹۱ ء میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی نے شریعت ایکٹ کے نام سے ایک مسودہ قانون منظور کیا۔لیکن یہ ایکٹ بھی سینیٹ سے پاس نہ ہو سکا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام پارٹیوں کے انتخابی منشور میں نفاذ شریعت ایک اہم نکتہ تھا۔ ان پارٹیوں نے اس امر کا وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ برسِر اقتدار آگئیں تو وہ ملک میں نفاذ شریعت کے لیے عملی اقدامات اُٹھائیںگی۔ انتخابات کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم ہوئی، تو اس نے نفاذ شریعت کے لیے ایک کونسل تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ صوبہ سرحد کے گورنر نے۳ فروری ۲۰۰۳ء کو Law Reform Council کے نام سے شریعت کونسل کی منظوری دے دی۔ یہ کونسل جو ۲۱ ارکان پر مشتمل تھی مفتی غلام الرحمن کی سربراہی میں قائم کی گئی۔اس میںجید علماے کرام کے علاوہ ماہرین قانون اور تعلیم بھی شامل تھے۔ اس میں ہرطبقۂ فکر کو نمایندگی دی گئی تھی اور اقلیتی برادری کا نمایندہ بھی شامل تھا‘جب کہ صوبائی سیکرٹری محکمہ قانون وپارلیمنٹ وانسانی حقوق قانون سازی میں بحیثیت ممبر کونسل کی معاونت کر رہے تھے۔
شریعت کونسل کے ذمے یہ کام سونپاگیا کہ وہ صوبہ سرحد میں امور مملکت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے مناسب تجاویز مرتب کرے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل‘ وفاقی شرعی عدالت اوراپیلٹ بنچ آف سپریم کورٹ کی تجاویز کی روشنی میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے سفارشات پیش کرے۔
فروری اورمارچ کے مہینے میں کونسل نے کل۲۵ اجلاس منعقد کیے۔ ان اجلاسوں میں کونسل نے عدالتی اور انتظامی نظام سے وابستہ وکلا، ججوںاور افسران سے تبادلۂ خیال کیا اور مختلف امور پر ان کی رائے حاصل کی۔ ملک کے دیگر علما اور ماہرین قانون سے رائے طلب کرنے کے لیے کونسل کے دو ارکان نے کوئٹہ‘ کراچی اور لاہور کا دورہ کیا۔الغرض کافی غوروخوض اور تحقیق کے بعد کونسل نے اپنی سفارشات مرتب کیں۔ ان پر متحدہ مجلس عمل کی سپریم کونسل کی رائے بھی لی گئی۔ ان کی آرا کی روشنی میں رپورٹ کو حتمی شکل دی گئی۔ کونسل نے یہ رپورٹ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد کو پیش کی۔اسے صوبائی محکمہ قانون کو بھیجا گیا تاکہ ان کو ایک بل کی صورت میں مرتب کرکے صوبائی اسمبلی میں پیش کیاجاسکے۔ اِسے اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے صوبائی گورنر کی منظوری کے لیے بھی بھیجا گیا۔
۱۰ مئی ۲۰۰۳ء کو گورنر سرحد نے شریعت بل کو اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت دے دی۔اس کے فوراً بعد سرحد کی کابینہ نے ایک اجلاس میں شریعت بل کی منظوری دے دی اور ۲۷مئی ۲۰۰۳ء کو اسمبلی کا اجلاس بلانے کے احکامات صادر کیے ۔ اس دوران صوبائی وزیر قانون نے وفاقی وزرات قانون اور وزرات مذہبی امور کے حکام سے شریعت بل پر مشورہ کیا۔ اُنھوں نے اس سے مکمل اتفاق رائے کیا اور اسمبلی میں پیش کرنے کی سفارش کی۔
۲۷ مئی ۲۰۰۳ء کو شریعت بل اسمبلی میں پیش ہوا۔ دو تین دِن اس پرگرما گرم بحث ہوئی۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیر ین گروپ کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر قانون نے اس میں چند ترامیم پیش کیں۔ لیکن ۲ جون ۲۰۰۳ء کے اجلاس میں یہ ترامیم واپس لے لی گٗئیں اور شریعت بل کو تمام جماعتوں کے ۱۲۴ارکان نے بِالاتفاق منظور کیا۔
اس بل کے مطابق صوبہ سرحد میں صوبائی دائرہ اختیار کی حد تک شریعت بالا دست قانون ہو گی۔ تمام عدالتیں صوبائی دائرہ اختیار میں آنے والے قوانین کی تشریح و تعبیر شریعت کے مطابق کرنے کی پابند ہوں گی ۔ دیگر قوانین میں اگر ایک سے زائد تشریح وتعبیرکی گنجایش ہو‘ تو عدالتیں اُس تشریح وتعبیر کو اختیار کرنے کی پابند ہوں گی جو شریعت کے مطابق ہو۔ صوبہ سرحد میں ہرمسلمان شہری شرعی احکامات کا پابند ہوگا۔ صوبائی حکومت اور اس کے اہل کاروں کو شرعی احکامات کا پابند اورشرعی اقدار کا پاسدار بنانے کے لیے قانونی ضوابط مرتب کیے جائیں گے۔
شریعت کی تعلیم وتربیت کے لیے لا کالجوں میں اسلامی فقہ کو نصاب میں شامل کیا جائے گا اور عربی زبان کی تعلیم وترویج کااہتمام کیاجائے گا۔ صوبائی حکومت کا تعلیمی نظام‘شریعت کی درس وتدریس‘ اسلامی کردار سازی اور اسلامی تربیت کا ضامن ہو گا۔اس کے لیے شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر صوبائی حکومت ایک تعلیمی کمیشن مقرر کرے گی،جو علما‘ تعلیمی ماہرین‘ فقہا اور عوامی نمایندوں پرمشتمل ہو گا۔ کمیشن کی سفارشات کو صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے پیش کیاجائے گا۔
معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھی صوبائی حکومت شریعت بل کے نفاذ کے ایک ماہ کے اندر کمیشن مقرر کرے گی۔یہ کمیشن ان اقدامات کی سفارش کرے گا جن کے ذریعے معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کیا جا سکتاہے اور سود سے پاک قابل عمل متبادل نظام قائم کیا جا سکتاہے۔ اس کے علاوہ کمیشن موجودہ قوانین براے حصول ٹیکس، انشورنس اور بنک کاری کو اسلامی معیشت کے اُصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے تجاویز مرتب کرے گا۔کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
وہ ذرائع ابلاغ جن تک صوبائی حکومت کی رسائی ہو، اسلام کی تشہیر وترویج کے لیے استعمال ہوں گے۔ ہر شہری کی جان ومال ‘ عزت وآبرو اور شخصی آزادی کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومت ضروری انتظامی اور قانونی اقدامات کرے گی۔رشوت‘ دھونس دھاندلی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ ضروری قانون سازی ہو گی۔ جرائم کی روک تھام کے لیے مثالی اور تعزیری سزائیں مقرر کرے گی۔ معاشرے سے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے قرآن پاک کے حکم کے مطابق امربالمعروف اور نہی عنِ المنکر کا اہتمام کرے گی۔ اسی طرح بے حیائی اور آوارہ گردی کے خاتمے کے لیے انتظامی احکامات کے ساتھ ساتھ قانون سازی بھی کی جائے گی۔
صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو علما‘ فقہا اور قانونی ماہرین پر مشتمل ہو گا۔یہ کمیشن رائج الوقت قانون کا جائزہ لے گا اور ان میں نقائص کی نشان دہی کے ساتھ متبادل تجاویز پیش کرے گا۔ اس کے علاوہ کمیشن کو اسلامی ضابطہء دیوانی‘ اسلامی ضابطہء فوجداری اور اسلامی قانون شہادت کی تدوین کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔
سرحد اسمبلی سے شریعت بل کا بالاتفاق پاس ہونا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرحد کے عوام کا مزاج دینی ہے اور وہ سیاسی اختلافات کے باوجود نفاذ شریعت کے حامی ،شیدائی اور آرزومند ہیں۔ شایدیہی وجہ تھی کہ حضرت سید احمد شہیدؒ بریلوی نے تحریک مجاہدین کی سرگرمیوں کے لیے صوبہ سرحد کی سرزمین کا انتخاب کیا تھا۔سید احمد شہیدؒ کی بالاکوٹ میں شہادت کے کئی سال بعد تک سرحد کے مجاہدین انبیلہ، مالاکنڈ، مہمند اور کالا ڈاکہ اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں انگریزوں سے برسرپیکار رہے ۔ اس تحریک کو انگریز ی افواج نے پوری قوت اور شدت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی‘ لیکن وہ بری طرح ناکام رہیں۔ یہی جذبہ ۱۹۴۷ء کے ریفرنڈم میں بھی کارفرما تھا، جب سرحد کے عوام کو اختیار دِیاگیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں، تو اُنھوں نے بھاری اکثریت سے پاکستان سے الحاق کے حق میں فیصلہ کیا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ۱۹۷۴ء میں سرحد اسمبلی نے ختم نبوتؐ کے بارے میں قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔اسی طرح سرحد اسمبلی کا اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینا اور خیبر بنک میں بلاسود بنک کاری بھی ایک بہت ہی دلیرانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ یہاں اس امر کا ذکربھی ضروری ہے کہ صوبہ سرحد کی اسمبلی ملک کی دوسری صوبائی اسمبلیوں سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں مسائل پر بحث وگفتگو، پشتونوں کی روایات کے مطابق افہام وتفہیم اور عزت و وقار کے ماحول میں ہوتی ہے۔ یہ امتیازی رویہ ہر پارٹی کے ممبراسمبلی کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ اچنبھے کی بات نہیںہے کہ جب اسمبلی نے شریعت بل کی منظوری دے دی تو سب ارکان اسمبلی نے بیک آواز بلند نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر سے شریعت بل کا خیر مقدم کیا جس سے اسمبلی کا ہال گونج اُٹھا۔
نفاذ شریعت کی خوشی میں ۲۲ جون ۲۰۰۳ء کو پورے صوبے میں یومِ تشکر منایا گیا۔ لوگوں نے اجتماعی طور پر مسجدوں میں نوافل ادا کیے۔ متحدہ مجلس عمل کے رہنمائوں کے لیے بالخصوص یہ مسرت اور خوشی کا موقع تھا ‘اس لیے کہ نفاذِ شریعت کا جو وعدہ انھوں نے انتخابی منشور میںعوام سے کیا تھا اسے پورا کرنے کا آغاز ہوگیا۔
۲۷ جون ۲۰۰۳ء کو وزیر اعلیٰ سرحد کے زیر قیادت متحدہ مجلس کے قائدین اور صوبائی وزرا کا ایک جلوس مسجد درویش پشاورصدر سے نکالا گیا‘جو شہر کے مختلف گلی کوچوں سے ہوتا ہوا جناح پارک پرختم ہوا۔ اس جلوس کا جس گرم جوشی اور والہانہ انداز سے شہریوں نے استقبال کیا اور جس طرح جلوس پرجگہ جگہ پھول نچھاور کیے گئے‘ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحد کے عوام کونفاذ شریعت پر کتنی مُسرت اور خوشی ہوئی ہے۔
مرکز میں برسراقتدار پارٹی کے رہنمائوں کا ردِعمل مایوس کن تھا۔ اُنھوں نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی اور یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ صوبہ سرحد میں نفاذ شریعت کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ افغانستان کے طالبان اور طالبنائزیشن کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس منفی پروپیگنڈے کا آغاز جنرل مشرف نے خود کوہاٹ دوستی ٹنل کی افتتاحی تقریب میں کیا‘ اور کھلے بندوں داڑھی ،شلوار قمیص اور پردے کا مذاق اُڑایا۔ برسراقتدار پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے اسی تضحیک آمیزانداز میں شریعت بل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہا کہ سرحد اسمبلی کے ممبران جنھوں نے شریعت بل منظور کیاہے بالکل ’’جاہل‘‘اور ’’ان پڑھ‘‘ہیں۔ حالانکہ اگریہی ناقدین شریعت بل کو پڑھتے تو ان کومعلوم ہوتا کہ جن امور کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اُن کااس بل میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ مغربی اقوام اور بالخصوص امریکہ کے ذرائع ابلاغ نے شریعت بل کا سختی سے نوٹس لیا۔ اُنھوں نے اس کا تانابانا طالبانائیزیشن سے جوڑا۔ عوام کو شریعت کے نفاذ سے خوفزدہ کیا اور ڈرایا۔ کئی دِنوں تک مسلسل پروپیگنڈا کرتے رہے کہ شریعت بل میں ’’خواتین کو زبردستی پردے کا پابند بنایا جائے گا۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی ہو گی۔ خواتین علاج معالجے کے لیے ہسپتال نہیں جا سکیں گی۔ شلوار قمیص کا پہننا لازمی ہوگا۔ ہر ایک آدمی داڑھی رکھنے کا پابند ہو گا۔ مسلمانوں کو نماز کے لیے بہ زور مساجد میں لایا جائے گا‘‘۔
یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ۱۹۹۱ ء میںجب نواز شریف کے دورِ حکومت میں اسی سے مشابہ شریعت بل نیشنل اسمبلی نے منظور کیا تھا‘ تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا اور نہ کسی نے اس پر کوئی تنقید کی ۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ اس بل پر شوروغل صوبائی اسمبلی کو معطل کرنے کا جواز پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا ۔اسی لیے جنرل مشرف نے اعلان کیا تھا کہ ’’اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے، تو وہ اسمبلی توڑنے سے گریز نہیں کریں گے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا کوخطرے کا پیغام دِیا جارہا تھا کہ ’’صوبہ سرحد میں طالبنائیزیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کو روکنا اور کنٹرول کرنا صرف فوج کے بس کی بات ہے‘ اس لیے جنرل مشرف کو کسی صورت میں بھی اقتدار سے نہ ہٹایا جائے بلکہ اس کے ہاتھ مزید مضبوط کیے جائیں‘‘۔جنرل مشرف نے اپنے دورۂ برطانیہ اور امریکہ میں صوبہ سرحد کے نفاذ شریعت کے اقدامات کو بلاضرورت منفی تنقید کا نشانہ بنایا ، طالبانائزیشن کا ہوّا کھڑا کر کے اپنے آمرانہ طرز حکومت کے لیے عذر لنگ پیش کیا‘ اوراپنے ناجائز قبضہء اقتدار کو دوام اور تقویت دینے کے لیے بش اور بلیئر کی پشت پناہی اور تائیدحاصل کرنے کی کوشش کی۔
اب ‘جب کہ نفاذ شریعت کے لیے قانونی راہ ہموار ہو چکی ہے‘ اس کے عملی نفاذ کے لیے بہت ہی فراست اور حکمت سے کام لینا ہو گا۔تعلیم ‘ معیشت اور عدالتی نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بل میں جن کمیشنوں کا ذکر کیا گیاہے، ان کو جلد از جلد تشکیل دینا ہو گا۔ ان میں ایسے علما‘ فقہا اور جدید ماہرین تعلیم‘ معیشت اور قانون کو شامل کرنا ہو گا‘ جو تعلیم‘ معیشت اور عدلیہ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ڈھالنے کی صلاحیت اور مہارت رکھتے ہوں۔ یہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کو کم سے کم وقت میںاور اولین فرصت میں سر انجام دینا ضروری ہو گا‘ تاکہ کمیشن کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے اسمبلی میں جلد از جلدپیش کیا جا سکے۔ اس کے لیے ایک حکمت عملی کے تحت ممبران اسمبلی کوبھی ہم خیال بنانا ہو گا‘تاکہ قانون سازی کا مرحلہ بخیروخوبی طے ہو سکے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی نظام میں نفاذ شریعت کا آغاز تعزیرات سے نہیں بلکہ فلاح عامہ سے ہوتا ہے۔ یہ نظام ہر فرد کی جان ومال اورعزت وآبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اُمید ہے کہ جب معاشرے پرنفاذشریعت کے اثرات مرتب ہوں گے، تو لوگوں کی زندگی میں واضح تبدیلی کے آثار نظر آئیں گے۔ اس خوشگوار تبدیلی سے دوسرے صوبے غیرمتاثر نہیں رہ سکیں گے۔ وہاں بھی نفاذ شریعت کا مطالبہ ہو گا۔اس طرح جس نیک کام کا آغاز صوبہ سرحد سے ہواہے وہ پورے ملک میںمقبول عام ہو گا اور اس کی پذیرائی ہو گی۔
نفاذ شریعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کے اہل کار نمودونمایش اور بے جا اخراجات کی مکمل روک تھام کریں۔ اس سلسلے میں سرحد کے صوبائی وزرا نے خود پہل کی ہے اور سادگی اور کفایت شعاری کا نمونہ پیش کیا ہے۔ کئی وزرا نے سرکاری شاہا نہ رہایش گاہ میں رہنے سے انکار کیا ہے۔ نئی اور مہنگی گاڑیاں جو وزرا کے لیے خریدی گئی تھیں اُن کے استعمال سے بھی اجتناب کیاہے۔کئی نے اپنی تنخواہوں میں رضاکارانہ طور پرکمی کا اعلان کیاہے۔عوام سے مسلسل ان کا رابطہ ہے ۔ دفاتر‘ گھروں اور مساجد میں اُن سے بغیر کسی روک ٹوک کے ملاقات ہو سکتی ہے۔
یہ امربھی باعث مُسرت ہے کہ نفاذ شریعت کے سلسلے میں صوبائی حکومت نے پہلے ہی سے کئی ایک مستحسن اقدامات کیے ہیں۔ ان میں خواتین یونی ورسٹی اور خواتین میڈیکل کالج کا قیام‘ خیبر بنک میں سود سے پاک بنک کاری کا آغاز‘فحش کیسٹوں کے کاروبار اور عریاںفلمی پوسٹروں کی نمایش کی ممانعت ،پبلک ٹرانسپورٹ میں گانے بجانے پر پابندی‘بس اڈوں پر خواتین کے لیے پردہ دار انتظار گاہ اور طہارت خانوںکی تعمیراورشراب کے لائسنس اور پرمٹ کی منسوخی‘ ہسپتالوں میں نادار اور غریب مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی شامل ہیں۔مزید براں اوقات نماز میں بسوں کو ٹھہرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ خواتین کی تصاویر کے تجارتی اشیا کے فروغ کے لیے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے صوبہ سرحد میں ایک واضح اور مثبت تبدیلی نظر آرہی ہے‘ اور نفاذ شریعت کے لیے مناسب اور پاکیزہ ماحول کی تیاری اور آب یاری ہورہی ہے!
دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت کیوں ہوا؟ بلاشبہ اس کی کئی وجوہ ہیں‘ لیکن اگر مقتدر طبقے کی حماقتوں کے بعد سب سے بنیادی سبب کا کھوج لگایا جائے تو بات تعلیم اور استاد پر جا کر ٹھیرتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں اساتذہ کے انتخاب اور تقرر میں بے تدبیری اور تعلیمی عمل کے بارے میں چشم پوشی بلکہ اندھے پن نے وہ دن دکھایا جس کا کوئی پاکستانی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ کون کون سے عناصر ہیں جو ملکی استحکام کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتے ہیں؟ ان عناصر کی ترویج و ارتقا کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں کیا قانون سازی کی گئی ہے؟ بحیثیت قوم ہم نے سیاسی اور انتظامی سطح پر ان قانونی ضابطوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ نتائج کیا سامنے آ رہے ہیں‘ اور ان برے نتائج سے بچنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ملّی اور قومی استحکام کو تقویت دینے والے چند ایک عناصر یہ ہیں: l اسلامی نظریۂ حیات یا قومی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستگی‘ l قومی سطح پر مؤثر وسیلہ ابلاغ کا وجود اور اس کا احترام‘ l فکروعمل کی ہم آہنگی‘ l قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کا ماحول‘ l معاشرے میں عدلِ اجتماعی کا چلن‘ l علم اور اہل علم کی توقیر و احترام۔
اسلامی نظریہ حیات: قومی استحکام کے لیے نظریۂ حیات کے ساتھ وابستگی کی کیا ضرورت ہے‘ اور بنی نوع انسان کے مجموعی تجربے نے اس کے حق میں تاریخ عالم سے کیا دلائل فراہم کیے ہیں؟ اگرچہ اس متفق علیہ نکتے کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ ہم سب اس نظریۂ حیات سے واقف ہی نہیں‘ بلکہ اس کے پرجوش حامی بھی ہیں۔ ہمیں ذکر صرف اس بات کا کرنا ہے کہ آئین جو کسی قوم کا متفق علیہ عمرانی معاہدہ ہوتا ہے اس میں اس سلسلے میں کیا بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔
۱۹۷۳ء کے آئین میں شامل قراردادمقاصد اور آئین کا آرٹیکل ۳۱ بڑی وضاحت کے ساتھ
تعلیم وتدریس میں اسلامی نظریہ حیات کی ترویج کا راستہ متعین کرتا ہے۔
آئین پاکستان کے الفاظ اس طرح ہیں:
۱- پاکستان کے مسلمانوں کو‘ انفرادی اور اجتماعی طور پر‘ اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲- پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل امور کے لیے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا‘ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکوٰۃ (عشر) ‘ اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
مختلف حکومتوں نے قرارداد مقاصد اور مذکورہ آئینی آرٹیکل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے‘ اس کا مشاہدہ تعلیمی اداروں کے ماحول‘ نصاب و درسی کتب کے مندرجات‘ طلبہ کی تربیت کے لیے ہم نصابی سرگرمیوں اور امتحانات کے کھلے چھپے رازوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی وژن جو قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک نہایت وسیع الاثر استاد اور پورے ملک پر پھیلا ہوا کلاس روم ہے‘ قوم کے بچوں‘ نوجوانوں‘ مردوں اور عورتوں کو صبح و شام جو تربیت دے رہا ہے اس پر نظرڈال کر دیکھ لیجیے کہ تعلیم و تربیت کی یہ ساری مشق دستور پاکستان کی شق نمبر۳۱ کا کس طرح مذاق اُڑا رہی ہے۔
اردو بطور ذریعہ ابلاغ: قومی سطح پر مؤثر ذریعہ ابلاغ سوائے اردو کے اور کوئی نہیں ہے۔ اردو نہ صرف پاکستان کے اندر رابطے کی زبان ہے‘ بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں میانمار (برما) سے لے کر افغانستان تک اور بھوٹان سے لے کر مالدیپ تک‘ حتیٰ کہ خلیج کی عرب ریاستوں میں بھی اردو ہی ایک مشترکہ زبان ہے‘ جو باہم ابلاغ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح قومی آئیڈیالوجی کے نفوذ و ترویج کا موثر ذریعہ بھی اردو ہی ہے۔ لیکن قومی قیادت پر فائز طبقے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ کسی زندہ اور باحمیت قوم کا شیوہ نہیں ۔ آزادی کے ۵۴ سال گزرنے کے باوجود آج تک ہم غلط سلط انگریزی میں سرکاری خط کتابت کیے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں درست اور سمجھ آنے والی زبان‘ اردو کا حال یہ ہے کہ حکومت کی شب و روز کی کارروائی اس کے مقام و مرتبے کو کم کرتی جا رہی ہے۔ متعدد قومیتوں کا نعرہ تخلیق کر کے قومی زبان کو ایک خودساختہ ذیلی قومیت کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور میں اردو کے نفاذ کے لیے ۱۰ سال کی جو مدت رکھی گئی تھی‘ اسے مسلسل نظرانداز کیا گیا (بلکہ اس مدت کو گزرے بھی ۱۶ برس ہو چکے ہیں)۔ اس درست سمت کو چھوڑنے کے نتیجے میں اب انگریزی کی بالادستی اور علاقائی زبانوں کا تعصب اس قدر چھا گیا ہے کہ قومی رابطے کی زبان کے طور پر اردو کی اہمیت بھی ذہنوں سے محو ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو علاقائی تفریق اس قدر بڑھے گی کہ مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے لیے خدانخواستہ غیر ملکی بن کر رہ جائیں گے۔ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے خبط نے ایسے نوجوان خواتین وحضرات کو میدانِ عمل میں پہنچانا شروع کر دیا ہے‘ جو انگریزی تو فرفر بولتے ہیں‘ لیکن وہ نہ اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ پڑھ سکتے ہیں۔ صرف زبانی گفتگو کی حد تک انگریزی نما اردو سے آشنا ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مرض پھیلے گا اور نتیجہ اس کا جو نکلے گا اُسے بہ خوبی چشم تصور میں لایا جا سکتا ہے۔ قومی استحکام کو غلط لسانی پالیسی کی وجہ سے جو خطرات لاحق ہیں‘ اسے پوری دلسوزی کے ساتھ محسوس کرنا چاہیے۔
فکروعمل کی ہم آہنگی: قومی نظریۂ حیات اور قومی رابطے کی زبان‘ فکروعمل کی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ قومی زبان اور قومی نظریۂ حیات کو مختلف سطحوں کے نصابات اور درسی کتب میں سمونے اور سماجی شعور کی نشوونماکو نصاب و کتاب کے ذریعے آگے بڑھانا ضروری ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی ماحول کے تانے بانے نئی نسلوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے‘ سائنس‘ ٹکنالوجی اور قدرتی وسائل سے فیض یابی کا نقشہ مستقبل کے ساتھ مربوط کرنے کا سارا کام قومی تعلیمی پالیسی اور قومی نصاب کا مرہون منت ہے۔ نصابات اور تعلیمی معیارات کا کنٹرول پاکستان کے آئین کی concurrent list کے ذریعے وفاقی وزارت تعلیم کے ہاتھ میں دیا گیا ہے تاکہ تعلیمی نظام میں یکساں نصاب‘ یکساں درسی کتب‘ یکساں معیارات اور یکساں قومی سوچ بروے کار لائی جائے اور اس طرح استحکام وطن کے تقاضے پورے ہوں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دستور کی ان آئینی شقوں کو ایجوکیشن ایکٹ نمبر ۱۰ آف ۱۹۷۶ء میں قانونی شکل دی ہے۔ جس میں انھوں نے بڑی صراحت اور دانش مندی کے ساتھ درج کیا ہے: ’’قومی نصاب‘ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں رائج درسی کتب‘ شعبہ نصابات‘ وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورشدہ ہوں گی۔ تعلیمی معیارات مقرر کرنے اور ان کی نگرانی کرنے کا اختیار وزارت تعلیم کے دائرہ اختیار میں ہوگا‘ نیز نصاب و کتاب میں کوئی ایسا مواد یا تصور نہیں دیا جا سکے گا‘ جو اسلام اور نظریۂ پاکستان کے تقاضوں کے منافی ہو‘‘۔
سوال یہ ہے کہ اتنے واضح عہد‘ انتظامات اور اتنے مستحکم قانونی و دستوری فیصلوں کے باوجود ہو کیا رہا ہے؟
پبلک اسکولز اور نجی شعبے کے تعلیمی ادارے‘ پاکستان کے قومی نصاب سے مکمل آزاد ہو چکے ہیں۔ افسوس کہ ‘آئین و قانون کے پاسبان اس جرم کے سب سے زیادہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ بیرونی اداروں کے نصابات رائج کرنے اور ان کے امتحانات میں طلبہ کو بٹھانے پر کوئی قدغن نہیں۔ بیرونی یونی ورسٹیوں سے الحاق اور ان یونی ورسٹیوں کے پاکستان میں ذیلی کیمپس کھولنے کی کھلی آزادی ہے۔ آئین پاکستان کی تعلیم سے متعلق شقیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ بالاے طاق رکھا جا چکا ہے۔ وزارت تعلیم‘ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن اور اس طرح کے دوسرے قومی ادارے بالکل غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ اس بدترین شکست وریخت کے باوجود اگر ملّی اور قومی استحکام کا خواب دیکھیں تو کون ہے جو ہمیں عقل مند کہے گا۔ قوم کے اندر نئی نئی اقوام اور طبقے پیدا کرنے کا یہ نسخہ شاید کسی دوسری قوم کو اب تک نہیں سوجھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ورلڈبنک‘ ایشین بنک‘ یونیسکو‘ یونیسف اور ترقی یافتہ ملکوں کے امداد دینے والے دیگر ادارے‘ نصاب و کتاب کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ اس دفعہ یلغار جنوب مشرق کی طرف سے نہیں‘ شمال مغرب کی طرف سے ہوئی ہے۔ نصاب و کتاب اور تدریسی مواد کے سلسلے میں صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہمارے گورے آقائوں کے ’’مخصوص تعلیمی حملے‘‘کے نتیجے میں اپنی قسمت بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں نفوذ جاری ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے لادینیت اور نام نہاد لبرلزم کی ترویج‘ مغربی اقدار کا نفوذ‘ علم و تدریس سے زیادہ آوارگی پھیلانے کے منصوبے اور خاندانی بندھنوں کی توڑ پھوڑ ہمارے مغربی سرپرستوں کا ہدف ہے‘ جو وہ پوری دیدہ دلیری سے‘ فوجی اور سول بیوروکریسی کے فراہم کردہ تحفظ میں سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی استحکام کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی یہ یلغار کہاں کہاں تک مار کر چکی ہے‘ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
افہام و تفہیم کا کلچر: جدت و اختراع زندہ قوموں کی تعمیر و ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ قومی تعلیمی و تربیتی نظام‘ بحث اور تحقیق میں وسعت قلبی کا جذبہ پیدا کرے۔ کھلے ذہن اور سائنسی تجزیہ و استدلال کے ساتھ اپنی رائے کو آگے بڑھانا اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا‘ اسلامی معاشرے کی لازمی خصوصیت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام تعلیم نہ تو جدید اداروں میں اس خاصیت کو پروان چڑھاتا ہے اور نہ قدیم طرز کے دینی اداروں میں اس نقطہء نگاہ کا چلن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم راوین‘ ایچی سونین‘ بیکونینز اور مسلک زدہ افراد تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اسلامی اور پاکستانی سوچ کے حامل افراد آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔ تعصبات کے اس جنگل میں خود تعلیمی ادارے‘ طبقاتی‘ گروہی اور مفاداتی تعصب کے نقیب بن گئے ہیں۔ وسعت قلبی اور وسیع المشربی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر تبادلہ خیال اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ مگرانھیں علاقائی‘ نسلی اور مسلکی گروہ بندیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کے ساتھ آزاد علمی ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کے لیے طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے کونسلوں اور سوسائٹیوں کا قیام اشد ضروری ہے‘ جو افہام و تفہیم کا ماحول مہیا کرسکتی ہیں‘ اور محدود تعصبات پر مبنی طلبہ کی گروہ بندیوں کا توڑ کر سکتی ہیں۔
سماجی عدل و انصاف کا راستہ: معاشرے میںعدل و انصاف کا قیام حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے حکومتیں ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے کا سبب بنتی رہی ہیں۔ عدل و انصاف کے معدوم ہونے سے انفرادی سطح پر ہر شخص بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے اور اجتماعی سطح پر قوم میں انتشار‘ افراتفری اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ سماجی انصاف کی خشت ِاوّل تعلیمی انصاف ہے۔ تعلیم کے ضمن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اجتماعی عدل و انصاف کا اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۳۷ میں اعلان کیا گیا ہے:
الف- ریاست پس ماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
ب- کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
ج- فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابل دسترس بنائے گی۔
د- مختلف علاقوں کے افراد کو‘تعلیم‘ تربیت‘ زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں‘ جن میں پاکستان کی سرکاری ملازمت بھی شامل ہے‘ پورا پورا حصہ لے سکیں۔
ذرا دیکھیے کہ آئین کے پاس داروں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آرٹیکل ۳۷ کے دستوری تقاضوں کے مطابق ۱۹۷۴ء میں میٹرک تک تعلیم کے لیے ہر قسم کی فیسیں ختم کر دی گئی تھیں لیکن جنرل محمد ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے دوبارہ تعلیمی اداروں میں فیسیں اس طرح لاگو کر دی ہیں‘ کہ اب ان کا گراف اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔
جنرل مشرف صاحب کی حکومت بھی دستور کی اس شق کے پرزے اڑانے میں پیچھے نہیں رہنا چاہتی اور اسکولوں کالجوں کی فیسیں بڑھانے کا کام زیرعمل ہے۔ دستور پاکستان کا آرٹیکل ۳۷‘ جو تمام سماجی طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کی یکساں دستیابی اور میرٹ کی بنا پر قابل حصول ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے‘ اب دھن دولت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں قرض دینے والے غیر ملکی ادارے اعلیٰ تعلیم میںصارفین پر مالی بار ڈالنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں‘ وہاں خود پاکستانی سرکار نے سیلف فنانسنگ اور سیلف سپورٹنگ کا تحفہ دے کر اعلیٰ تعلیم کو دولت مند طبقوں کے تابع مہمل بنا دیا ہے۔ یہ ایک غور طلب مسئلہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ’’قابلیت کی بنا پر سبھی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول‘‘ [higher education equally accessible to all on the basis of merit: Article 37.c] جیسا زریں آئینی اصول اس صورت حال میں کہاں باقی رہا۔ رہی سہی کسر داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم نے پوری کر دی ہے۔
جب عدل و انصاف کا معیار یہ رہ جائے کہ پاکستان کی نئی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ دادا جان کی جاے پیدایش پر استوار کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر ہونا قرار پائے تو نئی نسل کے یہ ذہین نوجوان استحکام وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کریں گے یا اپنے دادا بابا کو کوسیں گے کہ خاکم بدہن کس سرزمین بے آئین میں اپنا اور اپنی اولادوں کا مستقبل گنوا بیٹھے۔ انفرادی اور گروہی سطح پر‘ عدل اجتماعی کی نفی‘ مستقبل کے متعلق بے یقینی پیدا کرتی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے قول کے مطابق: یہ غلامی سے بدتر صورت حال نئی نسلوں کو تعمیر سے زیادہ تخریب کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر عدل و انصاف کا دور دورہ ہو‘ صلاحیت و ذہانت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے راستے کھلے ہوں تو خوش حال مستقبل کے متعلق یقین میں پختگی آتی ہے۔ انسان کی روحانی‘ سماجی اور معاشی جڑیں سرزمین وطن میں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ذہین اور باصلاحیت انسانوں کی شکل میں تن آور درخت‘ استحکام وطن کو ایسی ہر عریاں کاری سے بچاتے ہیں‘ جیسے سرسبز درخت زمین کو سایہ فراہم کر کے اسے بنجر ہونے سے بچاتے ہیں۔
اہل علم ودانش کی توقیر: ذہانت اور صلاحیت وہبی بھی ہے اور کسبی بھی۔ علم اور اہل علم‘ ذہانت اور صلاحیت کو چمکاتے اور باثمر بناتے ہیں‘ وہ اسے پروان چڑھاتے اور اظہار کی مثبت راہیں مہیا کرتے ہیں۔ یہ اہل علم ودانش ہی ہیں جو قوم کے افراد ہی کو نہیں‘ بلکہ قوم کے رہنمائوں کو بھی غلط روی اور غلط کاری پر متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ اہل علم ودانش ایسی بریک کی مانند ہوتے ہیں جو قوم کی گاڑی کاٹائی راڈ کھل جانے کے باوجود اسے اپنی بصیرت و حکمت سے جانکاہ حادثوں سے بچا لیتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں علم و دانش اور اہل علم و دانش کو بے توقیر کر دیا جائے‘ ان کا احترام تو کجا انھیں توہین آمیز سلوک سے دوچار کر دیا جائے تو وہ معاشرہ تباہی اور انتشار کی آخری حدوں کو چھوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم اور اہل علم کی توقیر ختم کر کے رکھ دی گئی ہے۔ زندہ قوموں میں بڑے بڑے زورآور‘ قوم کے علما اور اساتذہ‘ اہل علم و دانش کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔ ان سے رہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اب تک ایسے افراد کی کھیپ کیوں تیار نہیں کر سکا جو آگے بڑھ کر قوم کے ہر شعبۂ زندگی کی قیادت کرتے۔ ہم اب تک علم و تحقیق میں کیوں کرشماتی کارنامے سرانجام نہیں دے سکے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تعلیم گاہ بھی تھانے اور تحصیل کی طرز پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی سوچ سے چلائی جائے گی تو اس سے حریت فکر کے حامل طلبہ اور اساتذہ کیسے پیدا ہوں گے۔
معاشرے میں ابلاغ عامہ کے ذریعے جس قسم کے اصحاب دانش کی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘ وہی دانش نشوونما پائے گی۔ آج ناچنے‘ گانے والے مسخرے اور نقال اداکار قوم اور قوم کی نئی نسل کی آنکھ کا تارا ہیں۔ اہل اقتدار کی ساری شفقت ان پر نچھاور اور میڈیا تو ان کے تذکرے کے بغیر ادھورا ادھورا سا رہتا ہے۔ وہ کون سا اخبار یا رسالہ ہے جو شوبز کے نام پر قیمتی کاغذ ضائع نہیں کرتا۔ عزت و احترام اور حوصلہ افزائی کے ان معیارات کی روشنی میں اہل علم و دانش کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ اس صورت حال میں تعلیم اور اہل تعلیم کے ہاتھوں استحکام وطن کی توقع رکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اس بحث کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے تاکہ استحکام پاکستان کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جا سکے؟ اس سلسلے میں حکومت کی خدمت میں صرف ایک گزارش پیش کی جاتی ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پورے دستور پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور اگر سردست ایسا ممکن نہ ہو تو ترجیح اوّل کے طور پر دستور کے آرٹیکل ۳۱ اور ۳۷ پر ان کی پوری روح کے مطابق پورے اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ اہل اقتدار کو یقین رکھنا چاہیے کہ ان آرٹیکلزپر عمل درآمد نہایت دُور رس تعمیری اور مثبت اثرات پیدا کرے گا۔ اس کے برعکس غیر ملکی وسائل یافتہ اور مخصوص تہذیبی و سیاسی ایجنڈے کی حامل نام نہاد این جی اوز کی رہنمائی میں تیار کردہ تعلیمی منصوبے‘ تباہی کے سوا کچھ نہ دے سکیں گے۔
تمدّن کا حسن دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک‘ اس کی خوش رنگی اور دوسرے ‘اس کی خوش اطواری۔ خوش رنگی دل کشی کا اور خوش اطواری سکون قلبی کا سامان ہوتی ہے۔ تمدّن میں یہ دونوں پہلو باہم دگر کامل ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست نہ ہوں تو کلچر میں حسن باقی نہیں رہتا۔ تہذیب کا حسن ہی اصل میں ترقی کا صحیح مترادف ہے۔
تمدّن کی ظاہری چمک دمک ہی کو ترقی قرار دے دینا پرلے درجے کی ناسمجھی ہے۔ پھول کو لیجیے‘ اس کی خوش رنگی چند لمحوں کے لیے بہار دکھاتی اور پھر مرجھانے کے بعد بظاہر اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ لینے والے کے لیے تو اس کی اہمیت قطعی باقی نہیں رہتی لیکن دانش مند اہل فن اس کا عطر کشید کر کے مستقبل کو معطر رکھنے کا سامان کر لیتے ہیں۔ وہ اسی پر بس نہیں کرتے‘خوشبوکو دائمی بنانے کی خاطر عطر کشید کرنے کی ٹکنالوجی آیندہ نسلوں کو منتقل کرجاتے ہیں۔
پھول کی خوشبو ‘پھول کی روح ہے جس سے اس کے ظاہری حسن اور خوش رنگی کی یاد تسلسل اختیار کر کے دوام کا انداز اپنا لیتی ہے۔ اس طرح گویا پھول کا ظاہر جو اس کے مادّی وجود اور خوش رنگی سے عبارت ہے‘ اپنی اصل کے اعتبار سے اس کے باطنی اور روحانی وجود ہی کا پرتو ہے۔ پھول کا مادّی وجود تو مٹ جاتا ہے لیکن خوشبوکے تحفظ کی صورت میں اس کا معنوی وجود دوام اختیار کر لیتا ہے۔ پھول کی حقیقی افادیت یہی ہے۔
بعینہٖ یہی مثال انسانی معاشرے کی ہے‘ تہذیبی رنگوں کا تنوع اورمادّی سہولیات کی فراوانی اس کا ظاہر ہے‘ جو خوب سے خوب تر کی متلاشی انسانی فطرت کے پیش نظر نئے سے نیا رنگ بدلتا اور نئے سے نیا چولا پہنتا ہے۔ اس کے ظاہری رنگوں کے بارے میں دوام کی سوچنا‘ اس پر جمود طاری کرنے اور اسے آگے بڑھانے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ رسل و رسائل میں وسائل سفر کا جو ماڈل کل تھا‘ وہ آج نہیں ہے اور جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا۔زندگی کا مزاج تحرک اور آگے بڑھنا ہے‘ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ضروریات اور ان کے پورا کرنے کے انداز میں بھی حسین تر کی جستجو انسان کو آگے بڑھاتی رہتی ہے اور یوں مظاہرتہذیب میں جدّت کی شدت ہی ترقی کا معنیٰ ہے۔ یہ ترقی کا مادّی پہلو ہے۔
پھول کی خوشبو کی طرح اس کا بھی ایک روحانی اور باطنی پہلو ہے جو اس کی افادیت کے دوام سے وابستہ ہے۔ انسانی فطرت محض خوب سے خوب تر کی تلاش ہی کا نام نہیں‘ اس کی کچھ کمزوریاں بھی اس کی فطرت اور مزاج کا حصہ ہیں۔ انسانی معاشرے کا تہذیبی مظہر جو مادّی وجود رکھتا ہے اور جو اس کی کسی نہ کسی قسم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے‘ خود انسان ہی کی تخلیق ہوتا ہے‘ ایک وقت میں‘ دو میں سے ایک حال سے‘ کبھی خالی نہیں ہوتا‘ یعنی یا یہ اس کو فائدہ پہنچاتا ہے یا نقصان۔ انسان فطری طور پر نقصان سے نفور اور فائدوں سے محبت کا رویّہ رکھتا ہے۔ اس کی یہ بھی فطری کمزوری ہے کہ وہ کثرت کا اس حد تک خواہش مند ہوتا ہے کہ سب کچھ خود لے اڑنا چاہتا ہے۔ اکثروبیشتر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہی مادّی تخلیقات کے استعمال میں خود غرضانہ رویّہ اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے یہ خود غرضانہ رویے کیا نتائج مرتب کرتے ہیں‘ تاریخ نے بار بار انھیں عبرت ناک مناظر کی صورت میں پیش کیا ہے لیکن انسان ہے کہ غلط تصورات اور جھوٹے اِدعا سے باز نہیںآتا۔ کثرت کی خواہش اکثر اس کے لیے ہلاکت کا سامان بنتی ہے۔
وقت‘ وسائل اور توانائی‘ مظاہر زندگی کے تخلیق کار ہیں‘ بالقوہ بھی اور بالفعل بھی۔ اگر انسان خود غرضانہ فیصلوں کا عادی ہو اور وقت‘ وسائل اور توانائی سے مثبت فائدہ اٹھانے کا شعور نہ رکھتا ہو‘ تو کثرت کی خواہش کے سبب لوٹ مچانے کے لیے اپنی ہی نوع کے افراد و اقوام کو تاراج کرنے کے ارادے سے چڑھ دوڑتا ہے۔ کمزوروں کا خون بہانا اور ان کا مال ڈکار جانا اس کا وتیرہ بن جاتا ہے۔ نتیجتاً سفاک جنگیں‘ معاشرتی بے سکونی‘ عدم اطمینان اور مسلسل روحانی کرب اس کے محبوب مظاہر حیات کے ساتھ ساتھ‘ خود اس کے اپنے وجود کو بھی ہڑپ کر جاتے ہیں--- فکرونظر کا یہ ایک زاویہ ہے---دوسرے پہلو سے دیکھیے تو وقت‘وسائل اور توانائی‘ تینوں کے تینوں‘ خود انسانی محنت کے نتیجے میں ثمرآور ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو فرد یا قوم‘ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے زیادہ محنت کرے گی‘ زیادہ اور بہتر پھل پائے گی۔ مادّی پیمانہ ہی اگر ترقی کا حتمی پیمانہ (perfect criterion)ہو تو وہ فرد یا قوم جس کے پاس پیداوار کی فراوانی ہے‘ وہ ترقی یافتہ ٹھیرے گی اور جس کے پاس مال و دولت اور پیداوار میں کثرت کا فقدان ہوگا وہ غیر ترقی یافتہ شمار ہوگی‘ کیا یہ نقطۂ نظر صحیح ہے؟
وقت ‘ وسائل اور توانائی کے حوالے سے ایک اور زاویہ نظر سے بھی معاملے کو دیکھیے۔ ترقی کا پیمانہ اگر سراسر مادّی ہی تسلیم کر لیا جائے تو اس کا بہترین تقاضا یہ ٹھیرتا ہے کہ انھیں استعمال کرنے والا فرد اپنی انفرادی حیثیت میں اور انھیں کام میں لانے والی قوم بحیثیت مجموعی‘ ان تینوں ذرائع پیداوار کی اہمیت سے کماحقہ آگاہ ہو تاکہ ان تینوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے اور ان کے شمہ بھر ضیاع سے بھی بچا جا سکے۔
اب دیکھیے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالخصوص‘ اور ملّت اسلامیہ کے دیگر اعضا میں بالعموم‘ عملاً کیا ہو رہا ہے۔ سیاسی سطح پر غلط فیصلوں کے نتیجے میں---انسان--- جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے اور خود پیداوار جس کے لیے مطلوب ہے‘ بری طرح بگاڑا اور ضائع کیا جا رہا ہے۔ آیندہ نسلیں‘ جنھیںمستحکم اور قوی افرادی قوت کی حیثیت سے پرورش کیا جانا چاہیے‘ بری طرح برباد کی جا رہی ہیں۔ وقت کے ضیاع کی تربیت‘ پوری قوت سے برسرِعمل ہے۔ وسائل کی اہمیت ان کی نگاہ میں پرکاہ کے برابر بھی نہیں رہنے دی گئی اور توانائی کے ضیاع کا یہ عالم ہے کہ اس کے پیداواری استعمال کا موقع ہی نہیں آنے دیا جا رہا۔ موجودہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی پیش منظر کے بارے میں یہ مایوسی بلاسبب نہیں۔
انسان جو پیداوار کا سب سے بڑا عامل ہے‘ کامل اور ہمہ جہت نشوونما کا طالب ہے۔ وہ حیوانی وجود رکھتا ہے جو سراسر زمینی مادّوں سے تعمیر ہوتا ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ انھیں پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ پورا ہونا چاہیے۔ وہ ایک نفسیاتی وجود بھی ہے اور حق یہ ہے کہ یہی اصل انسان ہے‘ نظر نہ آنے والی عقل و اخلاق اس کا ہیولیٰ تیار کرتے ہیں۔ اس روحانی وجود کے اپنے تقاضے‘ اپنی خواہشات اور اپنی تمنائیں اور معیارات ہیں۔ انھیں بھی پورا ہونا چاہیے اور کماحقہ‘ پورا ہونا چاہیے۔ حیوانی یا نفسیاتی وجود میں سے کون برتر ہے اور کس کی اہمیت بنیادی اور کس کی ثانوی ہے‘اس کا بھی واضح شعور ہونا چاہیے۔ اصل انسان‘ اس کا نفسیاتی وجود ہے جو حیوانی وجودکو اپنے اظہار کا وسیلہ بناتا ہے‘ حیوانی وجود محض آلہ ہے ‘ خادم ہے روحانی وجود کا۔ اس کی اہمیت بلاشبہ ثانوی ہے‘ جب کہ روحانی وجود کی اہمیت اصل انسان ہونے کی بنا پر اولین اور بنیادی ہے۔ نفس انسانی کے دونوں لاینفک اور باہم دگر پوری طرح ہم آہنگ اجزا کی اہمیت کی ترتیب بدل جائے تو ترقی کا تصور بھی بدل جاتا ہے۔ اس بدلے ہوئے تصور کے مطابق اقدار کا پیمانہ بھی معکوس ہو جاتا ہے‘ صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح تصور کر لیا جاتا ہے۔ معروف‘ معروف نہیں رہتا‘ منکر سمجھ لیا جاتا ہے اور منکر کو معروف کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ نیکی اپنی اہمیت کھو بیٹھتی اور بدی ہی کو نیکی جان کر اپنا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ حقیقی فائدہ اور حقیقی نقصان کے مفاہیم و معیارات اُلٹ جاتے ہیں۔ اب جس قوم کے ہاں اچھائی اور برائی کا پیمانہ یوں معکوس ہو جائے تو اس کا تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ انفرادی گناہوں کے لیے تو بخشش اور معافی کی گنجایش نکل سکتی ہے لیکن
اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے اخلاقی قانون میں ایسی قوموں کو بے جا مُہلت نہیں ملا کرتی ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
وطن عزیز پاکستان کو یہی درد انگیز حادثہ جناب قائد ؒکی وفات کے ساتھ ہی پیش آنا شروع ہوا اور بدقسمتی سے پورے تسلسل اور پوری شدت کے ساتھ اب تک جاری ہے۔سیاسی سطح پر ترقی کا نام لے کر یہاں ہر وہ قدم اٹھایا گیا جو ترقی کے اصل عامل---انسان--- کو ضائع کر دے۔ انسان کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کو فضائلِ اخلاق سے عاری کر دیا جائے اور رذائلِ اخلاق کی بنیاد پر اس کی سیرت کو نشوونما دی جائے۔ جب گاڑی کو اس طرح سے مسلسل اُلٹے رخ پر چلایا جاتا رہے گا تو امریکی سفیر کے برسرِعام انکشاف کے مطابق پاکستان کے پیسے کا وہ ۱۰۰ ارب ڈالر جسے اس ملک کی تعمیروتزئین --- تعمیروتزئین ہی حقیقی ترقی ہے--- میں صَرف ہونا چاہیے‘ مغربی دُنیا کے بنکوں کی پرورش میں لگا دیا گیا‘ گویا باڑ ہی فصل کو اُجاڑنے میں فعّال ہوگئی۔
جس طرح نفسِ انسانی ایک ہی مربوط اکائی ہے اور اس کے حیوانی اور نفسیاتی وجود کو ایک دوسرے سے کاٹ کر اور ایک دوسرے سے الگ کر کے نشوونما نہیں دی جا سکتی‘ بالکل اسی طرح انسان کے اجتماعی معاشرتی وجود کو بھی الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر مربوط خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی وجودِ انسانی ہی کی طرح ایک ہی مربوط کل‘ ایک ہی متحدہ یونٹ اور ایک ہی مربوط وحدہ ہے۔ اس کے سیاسی‘ مذہبی‘ معاشرتی‘ معاشی اور اخلاقی پہلوئوں کو ایک دوسرے سے کاٹ کر‘ ایک دوسرے سے الگ کر کے ترقی نہیں دی جا سکتی۔ زندگی کے تمام ہی شعبے متناسب‘ متوازن اور ہم آہنگ نشوونما پائیں تو صرف ایسی ہی نشوونما صحیح معنوں میں ترقی کہلائے گی‘ بصورتِ دیگر خود ترقی ہی کا راستہ کٹ جائے گا۔ محض مادّی سہولتوں کی فراوانی اور وہ بھی محض چند افراد یا گنے چنے چند مخصوص طبقات ہی کے ہاں سہولتوں کے توافر کو قومی ترقی نہیں مانا جا سکتا۔ عام شہری کی خوش حالی اور تسکین و اطمینان‘ اجتماعی ترقی کی شرط اوّل ہے۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ترقی کا غلط مفہوم غالب آ گیا ہے۔ سو نتیجتاً یہاں گمراہی کا نام سیاست ہے اور حرام کاری اور حرام خوری کا نام معیشت‘ بداخلاقی اور کرپشن یہاں کا اجتماعی چلن ہے جس نے ملّی تشخص اور قومی وقار کو قطعی گم کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارضی کائنات‘ مسخر کر کے اور خَلَقَ لَکُمْ مَا فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعًا کہہ کر انسان کے حوالے کر دی ہے‘ یعنی یہ کہ زمین میں جوکچھ بھی ہے وہ سارے کا سارا تمھارے لیے ہے۔ اس سے فطرت کا تقاضا تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین اور اس کی پیداوار کو متناسب اور متوازن انداز میں تمام انسانوں میں تقسیم کیا جائے‘ نہ یہ کہ چند افراد یا چند مخصوص طبقات اس کے اجارہ دار ہو جائیں اور اس طرح یہی مخصوص طبقات ہرچیز کے مالک ہوں اور باقی سب لوگ زمین کی مادّی پیداوار ہی کی مانند ان کے مملوک‘ یہ آقا ہوںاور باقی سب ان کے غلام۔ جن قوموں کے ہاں ایسے طبقات اور ایسے معیارات مستحکم ہو جائیں‘ ان کی تو زندگی ہی کا تسلسل قائم نہیں رہا کرتا چہ جائیکہ وہ ترقی کریں ؎
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂِ مومن کا بے زری سے نہیں
ترقی کے لیے تو امن و سکینت چاہیے‘ محبت کی فضا چاہیے‘ عدل و اعتدال چاہیے‘ لیکن طبقاتی کش مکش میں یہ چیزیں کبھی ممکن نہیں ہوتیں۔ ظالم اور مظلوم میں ہم آہنگی عنقا رہتی ہے تاآنکہ ظلم عدل کے لیے تخت ِ سلطانی کو خالی کر دے۔ عدل اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور وہ کائنات کا حکمران ہے۔ انسانی زندگی جب تک اس کے رنگ میں نہیں رنگی جاتی‘ ترقی ممکن ہی نہیں۔
انسان کی کمزوری ہے کہ اسے پروپیگنڈے سے متاثر کیا جا سکتا ہے‘ چنانچہ پروپیگنڈے کے زور پر کچھ وقت کے لیے اس کی نگاہ میں زوال کو عین ترقی باور کرایا جا سکتا ہے لیکن یہ بڑے ہی گھاٹے کا سودا ہے۔ زوال سے محفوظ رہنے اور پروپیگنڈے کے دھوکے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ترقی کا صحیح مفہوم متعین نکات کی صورت میں ذہنوں میں مرتسم کر لیا جائے۔
ہماری نگاہ میں ترقی کا صحیح مفہوم ان معانی پر مشتمل ہوگا:
الف- انسان کے لیے من حیث الانسان‘ مادّی پیداوار کی کثرت اور مادّی سہولتوں کی انسانی ضروریات کے عین مطابق فراوانی‘ یہاں تک کہ معاشرے کا کوئی شخص بھی بھوکا ننگا اور بغیر چھت کے نہ رہے۔
ب- سہولتوں کی تقسیم میں بلند اخلاقی معیارات یعنی حق پسندی‘ عدل و توازن‘ کمزوروں اور ناداروں کے لیے رحمت و رافت‘ جود و سخا کا عمومی چلن اور انسانی وقار کو لازماً اور مستقلاً ملحوظ رکھنے کا شعور و اہتمام۔
ج- دلوں میں جواب دہی کے احساس کی ہر دم بیداری اور تازگی۔
د- سائنس اور ٹکنالوجی کو فی نفسہٖ مطلوب و مقصود ماننے کے بجائے انھیں انسانی معاشرے کا اجتماعی خادم سمجھنا اور معیاری اور مقداری حوالے سے انھیں مسلسل آگے بڑھاتے رہنا۔
۱- اپنے انفرادی اور اجتماعی تشخص کی دریافت (ہمارا تشخص بغیر کسی ادنیٰ شائبے کے‘ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ہم جب تک اپنی اس اصل حیثیت کو نہیں پہچانیں گے‘ دُنیا میں اعتبار و اعتماد قائم نہیں کرسکیں گے)۔
۲- غیر کی ذہنی مرعوبیت سے نجات اور تقلیدِ جامد کو کلیتاً مسترد کر دینا۔
۳- اپنا اور خالصتاً اپنا‘ علمی و فنی ماحول تشکیل دینا اور خالصتاً اپنی ہی اخلاقی فضا تعمیر کرنا۔
۴- زندگی کے ہر شعبے میں اداے فرض کے حوالے سے اخلاصِ نیت‘ کام کی سچّی لگن‘ دیانت و محنت اور جفاکشی کے ذریعے دُنیا اور اہل دُنیا کے لیے اعتماد کی فضا تعمیر کرنا۔
۵- معروف (فضائلِ اخلاق اور نیکیوں) کو اس درجہ اپنانا اور منکرات (رذائلِ اخلاق اور برائیوں)سے اس درجہ بچنا کہ نصرتِ الٰہی ازخود ملّت اور افرادِ ملّت کی پشتیبانی کے لیے آکھڑی ہو۔
۶- ’’بہترین کا انتخاب‘‘ انسان کی فطرت ہے۔ سو مادّی تخلیقات میں سائنس اور ٹکنالوجی کی مدد سے بہترین پیداوار پیش کرنا تاکہ عالمی منڈیوں میں مسلمان کا مال چھا جائے۔
۷- مادّی پیداوار کی فراوانی اور بہترین تخلیقات کے حصول کے لیے بے لوث‘ بے عیب‘ موثر‘ جامع اور مخلصانہ منصوبہ بندی جس میں صرف ضروری کی اہمیت ہو اور غیر ضروری کو کلیتاً مسترد کر دیا جائے۔ مسلمان کی حیثیت سے یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہیے کہ منصوبہ بندی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور اللہ کے منصوبوں میں کہیں کوئی رخنہ ‘ کوئی کمی‘ کوئی خامی اور کوئی کجی نہیں ہوتی۔ ہم اللہ کا رنگ جتنا زیادہ اور جتنا گہرا اختیار کرتے جائیں گے اتنا ہی دُنیا پر غالب ہوتے جائیں گے۔
۸- اپنے ماہرین کی تخلیق و تعمیر اور غیر ملکی مشیروں سے نجات۔ کمیشن مافیا لاکھ پردہ ڈالے‘ یہ غیر ملکی مشیر اپنے معاشروں کے عام قسم کے افراد ہوتے ہیں اور قرض دہندہ قومیں‘ مقروض قوموں کو مزید نالائق بنانے کے لیے ایسے ہی افراد کو ماہرین کی حیثیت سے ان پر مسلط کردیتی ہیں۔
۹- ملکی اور غیر ملکی قرضوں سے مکمل نجات۔ کیونکہ قرضوں کی معیشت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ پیداوار کے اصل عامل--- انسان---کو محنت اور دیانت‘ دونوں سے دُور پھینک دیتی ہے۔ یہ وہ اخلاقی عوامل ہیں جو کارکن کو اندر سے متحرک کرتے اور متحرک رکھتے ہیں۔ پیداوار کا اصل عامل درحقیقت یہی تحرک ہے۔ قرضوںکی معیشت اس تحریک ہی کی تو قاتل ہے۔ خودانحصاری کی اہمیت کو تو ذہنوں میں یہ اُبھرنے ہی نہیں دیتی۔ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ قرضے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس تک مٹا دیتے ہیں۔
۱۰- پیداوار کے معیار کا اصل عامل‘ انسان ہے۔ پیداوار کے اس سب سے بڑے عامل میں جہاں دیانت و امانت اور اخلاصِ عمل کے بلند اوصاف کی ضرورت ہے وہاں اس کی جسمانی قوت و صحت کا صالح ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ جسمانی قوت و صحت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا‘ اگراسے محنت کا پورا اور پروقار صلہ نہیں دیا جاتا اور بروقت نہیں دیا جاتا۔
۱۱- ملکی اور قومی ترقی کے لیے دیانت و امانت کی ضرورت اجیر (کارکن) ہی کو نہیں‘ آجر (کاروبار کے مالک اور صنعت کار)کو بھی ہے بلکہ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو آجر کے لیے اس کی ضرورت اجیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اسلامی اخلاقیات کے تابع ہو کر‘ جب تک ہم مستحکم سیاسی نظام کی طرف نہیں لوٹیں گے ‘ مخلصانہ اور طویل المیعاد جامع منصوبہ بندی کو مستقل وتیرہ نہیں بنائیں گے اور نظری اور فنی علوم تک عام شہری کی رسائی آسانی سے ممکن نہیں بنائیں گے‘ اس وقت تک ترقی کا خواب‘ خواب ہی رہے گا ‘ تعبیر عمل میں نہ آسکے گی۔
بیسویں صدی عیسوی کے آخری عشرے میں دنیا میں ایسی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ عالمی نقشہ نئے سرے سے مرتب کیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام اور اس کے نتیجے میں سرد جنگ کے خاتمے نے دنیا میں سیاسی اور اقتصادی گروہ بندی کو نئی جہت عطا کی۔ عالمی سیاسی منظر دو قطبی سے یک قطبی شکل اختیار کر گیا۔ اس یک قطبی دنیا میں امریکہ بلاشرکت غیرے عالمی طاقت بن کر اُبھرا۔ امریکی سیاسی و انتظامی اداروں اور تحقیق و دانش کے اداروں (think tanks) نے یہ خیال عام کرنا شروع کر دیا کہ گذشتہ تاریخ اپنے منطقی انجام کو پہنچی اور آیندہ جب بھی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس میں امریکی قیادت میں مغرب کی مرضی کو بنیادی عمل دخل ہوگا۔ ان کے دانش وروں نے تہذیبوں کا ایک مثلث بھی دنیا کے سامنے متعارف کرایا جس کے تینوں سروں پر بالترتیب عیسائی غرب‘ عالم اسلام اور چین دکھائے گئے۔ مدعا یہ تھا کہ آیندہ تہذیبوں کی جو جنگ ہوگی ان میں مذکورہ بالا تہذیبیں فریق ہوں گی۔ اس حوالے سے سیموئل ہنٹنگٹن اور فرانسس فوکویاما کی کتابوں The Clash of Civilizations(تہذیبوں کا تصادم) اور The End of History (تاریخ کا اختتام) نے کافی شہرت پائی۔
امریکہ اور عیسائی غرب نے یک قطبی دنیا کی قیادت اپنے بے پناہ وسائل اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے بل پر حاصل کر رکھی ہے۔ دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرف سے مغربی تہذیب کو کوئی خاص چیلنج ان میدانوں میں سامنے نہیں آیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خود روس اور اس کے اتحادی امریکہ کے حاشیہ بردار بن گئے۔ اس کی بڑی مثال بھارت ہے جس نے سرد جنگ کے دوران ایشیا کی طاقت کے توازن میں اپنا وزن
ہمیشہ روس کے پلڑے میں ڈالا لیکن یک قطبی دنیا میں روس کا یہ روایتی اتحادی امریکہ کا عزیز ترین دوست بن گیا ہے۔
چین پر سرد جنگ کے خاتمے کا کوئی بڑا منفی اثر مرتب نہیں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ چین نے اپنی بے پناہ اقتصادی ترقی کے بل پر دنیا میں اپنی صلاحیت کا لوہا کافی حد تک منوا لیا۔ تاہم‘ اس عرصے میں عالم اسلام سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ اس کے واحد سیاسی ادارے یعنی اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے عالمی سیاست پر کوئی اثر مرتب نہیں کیا۔ جنگ خلیج‘ بلقان کے بحران اور چیچنیا کے تنازعے میں او آئی سی نے جو مایوس کن کردار ادا کیا اس نے عالمی سیاسی منظرنامے میں اس کو ایک بے جان سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کرایا۔ نہ صرف اسلامی کانفرنس کی تنظیم بلکہ اسلامی دنیا کے ممالک انفرادی طور پر بھی مجموعی قومی کارکردگی‘ اقتصادی ترقی اور علمی ترقی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ عالمی سطح پر نئی صف بندی میں عالم اسلام عملی طور پر تماشائی بنا رہا۔ اس نئی صف بندی میں اقوام متحدہ اور اقتصادی امداد کی عالمی تنظیمیں یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بنک امریکی اشارہ ابرو کے منتظر رہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ غالب تہذیبیں دنیا کو نئی اصطلاحات اور طرزِ زندگی عطا کرتی ہیں۔ اسلامی تہذیب غالب تھی تو یہ کام اس نے کیا‘ اور آج مغرب کا بول بالا ہے تو اس کا طرزِ زندگی اور اصطلاحیں باقی دنیا اپنا رہی ہے۔ ان نئی اصطلاحات اور مظاہر میں سے ایک غیر حکومتی تنظیمیں یا این جی اوز (NGO's) ہیں۔
زیرنظر مضمون میں ان تنظیموں کا تعارف‘ تاریخی پس منظر‘ پاکستان میں مقاصد اور حکمت عملی اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل پر گفتگو کی گئی ہے۔
این جی او ہر اس تنظیم یا ادارے کو کہتے ہیں جو متعین مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہو اور جس کے انتظامی اور مالیاتی امور حکومتی اثرات سے آزاد ہوں۔ اس عمومی تعریف کی رُو سے سیاسی جماعتیں‘ مزدور اور پیشہ ور تنظیمیں‘ تجارتی اور ثقافتی انجمنیں اور دیگر تنظیمیں فی الحقیقت غیر سرکاری تنظیمیں ہیں۔ تاہم‘ غیر سرکاری تنظیموں کے مخصوص پس منظر‘ مقاصد اور طریق کار کی روشنی میں ان کی تعریف یوں کی جاتی ہے:
وہ تنظیمیں جو غیر سرکاری طور پر معاشرے کے مجموعی یا ایک مخصوص شعبے کی فلاح اور ترقی کے لیے کام کریں۔
بدلتے ہوئے حالات میں یہ تنظیمیں صرف بہبود اور ترقی میں شرکت پر اکتفا نہیں کر رہی ہیں بلکہ مفادِعامہ کے کسی بھی مسئلے پر نہ صرف یہ کہ حرکت میں آتی ہیں بلکہ محرومیت‘ استحصال‘ حقوق انسانی کی پامالی اور معاشرے کے خلاف ہونے والے ہر کام پر ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ان کا کام اب یہ نہیں رہا کہ قدرتی آفات میں مدد بہم پہنچائیں یا لوگوں کو ترقی کے بنیادی تصورات اور زیورتعلیم سے آراستہ کریں بلکہ اب یہ تنظیمیں سیاسی معاملات اور حکومتی پالیسیوں کو چیلنج کر رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں ملکی قوانین‘ اقتصادی پالیسیوں اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے مخصوص نکتہ نظر کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آنے سے بھی نہیں کتراتیں۔ اپنے دائرہ کار میں وسعت کی وجہ سے ان تنظیموںسے متعلق لوگ اپنے آپ کو این جی او کے بجائے پی آئی اوز (Public Interest Organizations) یعنی مفادِعامہ کی تنظیمیں کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
تاریخی پس منظر : این جی اوز کا تصور انیسویں صدی عیسوی کے دوران امیر صنعتی ممالک میں پروان چڑھا‘ جہاں خوش حال اور درمیانے طبقے نے اپنے ہاں کے غریب اور غیر مراعات یافتہ لوگوںکی بہبود کے لیے کام شروع کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ وسائل پر محض امیروں کی اجارہ داری نہ رہے بلکہ اس کا ایک حصہ غریبوں کو بھی منتقل کیا جائے۔ دوسری طرف یہ سماجی کارکن سیاسی عمل کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔ مزیدبرآں اس وقت کے مسائل یعنی غلاموں کی حالت زار‘ بچوں کی مشقت اور بالغ رائے دہی جیسے امور پر اپنا موقف سامنے لاتے رہے۔ مشنری اداروں کا ایک ہی مقصد تھا یعنی یہ کہ دنیا کو مشرف بہ عیسائیت کیا جائے۔ ان مشنری اداروں کے اثرات انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں برعظیم میں بھی نظر آنے لگے۔ آج بھی پاکستان کے ہر قابل ذکر شہر اور قصبے میں مشنری اداروں کے قائم کردہ ادارے ابھی تک کام کر رہے ہیں۔
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں عوامی بہبود کے کام حکومتی سرپرستی میں ہوتے رہے۔ تاہم‘ مغربی ممالک میں اس حوالے سے جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ ریاستی سرپرستی میں بہبود کے سارے کام ممکن نہیں۔ کیونکہ ایک طرف حکومت کو بھاری اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے اور دوسری طرف سرکاری اداروں کی خامیاں یعنی کام کرنے کی اہلیت کی کمی‘ عدم مساوات اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محرومی ان کی ناکامی کے اسباب میں شامل تھے۔ چنانچہ بہبود کے کاموں کو غیر سرکاری سطح پر انجام دینے کی روایت آگے بڑھی۔ اس مرحلے پر غیر حکومتی تنظیموں نے بہبود سے ایک قدم آگے جا کر نئے تصورات سے دنیا کو آگاہ کر دیا۔ ان جدید تصورات میں انسانی ترقی‘ شراکت اور سماجی تبدیلی جیسے اصول شامل تھے۔ آج دنیا کے کسی بھی حصے میں این جی اوز درج ذیل شعبہ جات میں سب‘ یا ان میں سے بعض میں مداخلت کرتی ہیں:
پاکستان میں این جی اوز کا ارتقا: پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قبل از تقسیم قائم کردہ خیراتی اداروں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ایک جائزے کے بعد حکومت پاکستان نے ان اداروں کو سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے ناکافی قرار دیا۔ اس مرحلے پر اس ضرورت کا احساس ہوا کہ سماجی خدمات کے ایک مربوط نظام کی بنیاد ڈال دی جائے۔ چنانچہ ۱۹۵۱ء میں اقوام متحدہ کے تعاون سے حکومت پاکستان نے سماجی بہبود اور امداد باہمی کا مربوط نظام متعارف کرایا۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۵۸ء تک اس کام کو وزارت ورکس اور سماجی بہبود سرانجام دیتی رہی۔ ۱۹۵۸ء میں اس مقصد کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی گئی جس کو وزارتِ محنت اور سماجی بہبود کا نام دیا گیا۔ اگلے سال ۱۹۵۹ء میں وزارتِ صحت‘ محنت اور سماجی بہبود کو یک جا کرتے ہوئے اسے ایک مرکزی سیکرٹری کے تحت کر دیا گیا۔ ۱۹۶۱ء میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے رضاکارانہ سماجی خدمات کے اداروں (Voluntary Social Welfare Services Association) کے عنوان سے ایک قانون نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون میں سماجی اداروں کی ہیئت ترکیبی‘ مقاصد‘ دائرہ کار اور احتساب جیسے امور صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے۔ یہی قانون آج تک پاکستان میں نافذ ہے۔ ۱۹۶۲ء میں سماجی بہبود کا محکمہ صوبائی سطح پر بھی قائم کیا گیا۔ چنانچہ صوبوں میں موجودہ انتظامی ڈھانچہ وزیر سماجی بہبود‘ سیکرٹری (ان کا ماتحت عملہ)‘ نظامت سماجی بہبود اور اس کے ذیلی اداروں پر مشتمل ہے۔
۱۹۷۹ء میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے جہاں جنگی سامان اور مالی و سیاسی امدادسے افغانوں کو نوازا وہاں ان ممالک سے بڑی تعداد میں رضاکار تنظیموں نے پاکستان کا رخ کیا۔ ان میں سے قابل ذکر ۵۰ تنظیمیں تھیں جو مہاجرین سے متعلق پاکستانی ادارے افغان کمشنریٹ کے ساتھ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ تھیں۔ ان میں سے صرف چھ تنظیمیں اسلامی ممالک سے تعلق رکھتی تھیں۔ ابتدا میں ان تنظیموں نے مہاجرین کی خوراک‘ لباس اور علاج معالجے پر توجہ دی لیکن بعد میں انھوں نے افغان معاشرے میں کام شروع کیا اور مختلف امور کے بارے میں افغانوں کی رائے بنانے کی کوششیں شروع کیں‘ جن میں خواتین کے حقوق اور آبادی کی منصوبہ بندی جیسے شعبے شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانوں کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا دائرہ کار پاکستان کے اندر بھی بڑھانا شروع کر دیا اور ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں ان کے کام میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اس وقت پاکستان میں این جی اوز کی رجسٹریشن کے لیے پانچ قوانین نافذ ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱- رضاکار تنظیموں کی رجسٹریشن اور کنٹرول کا قانون مجریہ ۱۹۶۱ء: اس قانون کے تحت ذیل میں سے ایک یا زیادہ شعبوں میں کام کرنے والی تنظیمیں رجسٹر ہوتی ہیں:
بچوں‘ نوجوانوں‘ خواتین‘ معذوروں‘ قیدیوں‘ ناداروں‘ مریضوں اور ضعیفوں کی بہبود‘ فروغِ تعلیم‘ تفریحی امور اور سماجی تربیت۔ قانون ۱۹۶۱ء کی دیگرضروریات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں میں مسلمہ جمہوری روایات کے ذریعے عہدیداران کا باقاعدہ انتخاب کیا جاتا ہے۔
۲- سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء : جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹریشن کی خواہش مند ہوں اُن کے کارپرداز محکمہ صنعت میں موجود جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کے رجسٹرار کے پاس درخواست جمع کراتی ہیں۔ عام طور پر اس قانون کے تحت جو تنظیمیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں وہ سائنس‘ ادب اور تعلیم کے فروغ‘ تاریخی و ثقافتی امور اور عام رفاہی کاموں میں حصہ لیتی ہیں۔ آج کل این جی اوز کی بہت بڑی تعداد اس قانون کے تحت رجسٹر ہونا پسند کرتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اس قانون میں کشش کا سبب یہ ہے کہ اس میں عہدیداروں کا انتخاب نہیں کیا جاتا بلکہ چند افراد پر مشتمل بورڈ آف ڈائرکٹرز اس کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے جو عام طور پر اساسی ارکان کے خاندان یا قرابت داروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
۳- امداد باہمی کے اداروں کا قانون مجریہ ۱۹۲۵ء: اس قانون کے تحت رجسٹریشن کے کام کی نگرانی امداد باہمی کے رجسٹرار کرتے ہیں۔ جو تنظیمیں اس قانون کے تحت رجسٹر ہو سکتی ہیں ان میں کاشتکاروں‘ وکلا‘ اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ صارفین‘ ہنرمند خواتین اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سے متعلق این جی اوز شامل ہیں۔
۴- کمپنیوں کا آرڈی ننس مجریہ ۱۹۸۴ء: کوئی بھی ایسی تنظیم جو غیر منافع بخش ہو اور تجارت‘ سائنس‘ مذہب‘ کھیلوں‘ سماجی خدمات اور عمومی رفاہی کاموں میں دل چسپی لیتی ہو‘ وہ اس قانون کے تحت رجسٹر ہوتی ہے۔ مذکورہ قانون کے تحت رجسٹریشن کا اختیار کارپوریٹ لا اتھارٹی کو حاصل ہے‘ جس نے صوبائی سطح پر یہ اختیار ڈپٹی رجسٹرار کو تفویض کر دیا ہے۔
۵- ٹرسٹ یا وقف کا قانون مجریہ ۱۸۸۲ء: قانونِ وقف کے تحت کوئی بھی وقف کا ادارہ ضلعی کچہری کے سب رجسٹرار کے پاس رجسٹر کرایا جاتا ہے۔ رجسٹرڈ وقف مذہب‘ تعلیم‘ حفظانِ صحت‘ انسانی حقوق اور مفادِعامہ کے دیگر امور جیسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا مجاز ہوتا ہے۔
پاکستان میں این جی اوز کی صحیح تعداد کا ابھی تک تعین نہیں کیا جا سکا۔ وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچ قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں کی اس قدر زیادہ اقسام ہیں کہ ان میں سے مخصوص طریق کار کے مطابق کام کرنے والی این جی اوز کو علیحدہ کرنا خاصا مشکل ہے۔ تاہم‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میںچھوٹی بڑی این جی اوز کی تعداد ۲۰ ہزار کے لگ بھگ ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والی اکثر این جی اوزکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر سوچ کی علم بردار ہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا جس کے نتیجے میں انھیں اسلامی یا سیکولر بنیادوں پر تقسیم کیا جاسکے۔ تاہم‘ عمومی مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذہبی جماعتیں یا تنظیمیں عمومی طور پر (ایک خاص مفہوم میں) سماجی بہبود کے کاموں سے لاتعلق ہیں۔ چند استثنائی صورتیں ضرور ہیں لیکن وہاں بھی سرگرمیوں کا انداز لگا بندھا اور محدود نوعیت کا ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاتعداد مغربی تنظیموں اور امداد فراہم کرنے والے اداروں (Donor Agencies)کے مقابلے میں چند ایک بین الاقوامی اسلامی این جی اوز کے دفاتر بھی قائم ہیں لیکن ان کا زیادہ تر کام یتیموں‘ بیوائوں اور ناداروں کی مدد تک محدود ہے۔ یہ تنظیمیں رجب‘ رمضان اور عیدین کے موقع پر زکوٰۃ کی تقسیم‘ افطاریوں کے اہتمام اور قربانی کا گوشت تقسیم کرنے جیسی سرگرمیوںمیں حصہ لیتی ہیں۔ نچلی سطح پر دیہاتوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ المختصر ملک کے کونے کونے میں قائم چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو تو شاید مذہبی اور سیکولر بنیادوں پر تقسیم کا علم بھی نہیں لیکن ان تنظیموں کو مالی وسائل‘ تربیت اور دیگر امداد جن بین الاقوامی اداروں سے ملتی ہیں وہ بہرحال اپنی سوچ کے لحاظ سے سیکولر ہیں۔
اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ این جی اوز کا اصل ایجنڈا کیا ہے؟ اس حوالے سے پاکستان کے اندر مختلف اور انتہاپسندآرا پائی جاتی ہیں۔ ایک مکتب فکر ان تنظیموں کو تقاضاے وقت سمجھتا ہے ‘ جب کہ دوسرا زہرِقاتل۔ دونوں کے پاس اپنے موقف کے حق میں دلائل ہیں۔ اس مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
عالمی تناظر میں جب ہم عالم گیریت اور منڈی کی معیشت کے رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عالمی برادری ان تنظیموں کی ممدو معاون اور پشتی بان ہے۔ بین الاقوامی سیاسی اور مالیاتی ادارے ان کی اخلاقی اور مادی مدد پر کمربستہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ سال سے اقوام متحدہ کی براہِ راست نگرانی میں مختلف موضوعات پر عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی ہیں جن میں دنیا بھر کی این جی اوز اور سربراہان حکومت پہلو بہ پہلو بیٹھ کر ان مسائل کے بارے میں عالمی سطح پر پالیسی وضع کرتے رہے۔ چنانچہ ۱۹۹۲ء میں ریوڈی جینرو کی ارض سربراہ کانفرنس‘ ۱۹۹۴ء کی آبادی کانفرنس منعقدہ قاہرہ‘ کوپن ہیگن میں ۱۹۹۶ء کی سماجی سربراہ کانفرنس‘ اور اسی سال بیجنگ میں عالمی خواتین کانفرنس اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ستمبر۲۰۰۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا میلینیم سربراہی اجلاس تھا جس میں ریکارڈ تعداد میں سربراہان مملکت و حکومت‘ بادشاہوں اور دیگر اعلیٰ سطحی عہدیداروں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا جس پر پاکستان اور تمام اسلامی ممالک سمیت ممبر ممالک نے دستخط کیے‘ اس میں نئے ہزاریے کے لیے ایک واضح ایجنڈا پیش کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق شرکا نے غربت‘ بیماری‘ جہالت اور خوں ریز جھگڑوں کو کم کرنے‘ عالمی سطح پر جمہوریت کی کارفرمائی‘ قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق اور خواتین کے مساوی درجے کے تحفظ اور تمام اقوام عالم کے مابین امن و تعاون اور ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس اعلامیے میں این جی اوز کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے: ’’نجی شعبے اور این جی اوز کے ذریعے ہم اقوام متحدہ کے خوابوں کو تعبیر دیں گے‘‘۔ چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترقی کا جدید تصور این جی اوز کے ذریعے عام کرنے کے عمل کو اقوام متحدہ کی سند اور حمایت حاصل ہے اور اسلامی دنیا اس پورے پروگرام کی حامی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں این جی اوز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے پہلو بہ پہلو ان تنظیموں کے خلاف آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان میں این جی اوز کے مخالفین ان پر جو الزامات لگاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱- این جی اوز ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ملک میں فحاشی‘ عریانیت اور مغربی ثقافت کو فروغ دے رہی ہیں۔
۲- متعدد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ کر رہی ہیں۔
۳- یہ تنظیمیں محسوس اور غیر محسوس انداز میں اسلامی شعائر کا مذاق اڑا کر اسلام اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہیں۔ مزیدبرآں یہ لوگ پاکستان کو تقسیم کرنے کی سازش میں شریک ہیں۔
۴- یہ انسانیت کی بھلائی کے نام پر پیسے بٹور رہی ہیں۔
۵- یہ پاکستان میں مشرقی تیمور جیسی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
۶-غیر سرکاری تنظیموں کو افغانستان میں طالبان حکومت کو کمزور کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
۷- پاکستان کے کمیونسٹوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد این جی اوز کی آڑ میں پناہ لے کر اپنا کام ایک نئے انداز سے شروع کر رکھا ہے۔
۸- پاکستان کی این جی اوز بھارت کے حق میں فضا ہموار کر کے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدات پر تیشہ چلا رہی ہیں۔
ان کے علاوہ بھی الزامات ہو سکتے ہیں تاہم درج بالا باتیں مذہبی جماعتوں کی طرف سے بالخصوص اور دیگر طبقوں کی طرف سے بالعموم تکرار کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں تو بات الزامات سے آگے بڑھ کر ایک منظم احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ چنانچہ این جی اوز مخالف تحریک پچھلے سال صوبہ سرحد سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیل گئی جس میں تقریباً تمام مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اگرچہ اس وقت اس تحریک میں وہ شدت نہیں رہی جو گذشتہ سال تھی‘ تاہم یہ چنگاری ابھی تک بجھی نہیں اور کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتی ہے۔
پس چہ باید کرد: این جی اوز کی صورت میں جو چیلنج اس وقت درپیش ہے اس کا سامنا عالمی اور قومی دونوں سطحوں پر کیا جا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر اسلامی دنیا اپنے وسائل کو یک جا کرتے ہوئے ترقی کا اپنا ماڈل سامنے لائے اور مغربی دنیا کی عالم گیریت کو چیلنج کرے تو یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے۔ یعنی ترقی کا مغربی ماڈل اور اسلامی ماڈل‘ یہ دونوں ماڈل اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی دنیا ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ عالم غیب سے تبدیلی کی کوئی صورت ہو تو وہ الگ بات ہے ورنہ عالم اسلام کی موجودہ کارکردگی کی روشنی میں اس کے امکانات دُور تک نظر نہیں آتے۔ نتیجہ وہی ہوگا کہ اپنا پروگرام نہ ہونے کے سبب اسلامی ممالک گلوبلائزیشن کے سیلاب کی سمت میں بہتے جا رہے ہوں گے تاوقتیکہ ان میں عالم گیریت کی تیز لہروں کی مخالف سمت میں جانے کی صلاحیت اور قوت پیدا نہ ہو۔ جب تک یہ قوت مجتمع نہیں ہوگی عالم اسلام من جملہ دیگر مغربی اصطلاحوں کے‘ این جی اوز کو ترقی کے لیے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان میں ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر ہماری حکومت اقوام متحدہ کے میلینیم اجلاس میں این جی اوز کو فروغ دینے کا عہد کر چکی ہے اور ملک کے اندر پانچ مختلف قوانین کے تحت این جی اوز کی رجسٹریشن جاری ہو‘ علاوہ ازیں بین الاقوامی امدادی ادارے اپنی شرائط میں غیر سرکاری تنظیموں کو ترقی کے عمل میں شریک کرنے کا تقاضا کر رہے ہوں‘ تو ان حالات میں محبان ملّت و وطن کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ جن الزامات کا اوپر ذکر ہوا ان کو نہ تو کلی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ انھیں ۱۰۰ فی صد قبول کیا جا سکتا ہے‘ جب تک ان کی صحت کے حوالے سے تحقیقی کام نہ ہو۔
آخر میں این جی اوز کے کارپردازوں اور حکومت کی خدمت میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
این جی اوز کے ذمہ داران جائزہ لیں کہ جو الزامات ان پر عائد کیے جا رہے ہیں اس حوالے سے ان کی صفوں میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے اندر ان میں سے ایک یا زیادہ خامیاں پائی جاتی ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ تمام غیر سرکاری تنظیمیں خراب نہیں لیکن ایسی این جی اوز ضرور ہیں جن کے طرزعمل سے یہ پورا سیکٹر آج بے پناہ تنقید کی زد میں ہے۔ این جی اوز اگر اس ملک میں کام کرنے اور زیریں سطح پر ترقی کا عمل آگے بڑھانے کا دعویٰ کرتی ہیں‘تو انھیں مقامی آبادی کے عقائد اور روایات کا احترام کرنا ہوگا۔ ایسا کرنا خود ان کے مفاد میں بھی ہے اور پاکستان میں امن و سکون کے لیے بھی ضروری ہے۔
اس حوالے سے حکومت کی ذمہ داری کافی اہم ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک سے کرپشن‘ بدعنوانی‘نااہلیت ختم کرتے ہوئے ملک کو خود انحصاری اور معاشی ترقی کی منزل سے ہم کنار کر دے ۔ ایسا ہوگا تو مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی ادارے ہم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کریں گے۔ حکومت کو این جی اوزکے حوالے سے تصادم کی وہ کیفیت نظرانداز نہیں کرنی چاہیے جو اس وقت ان تنظیموں اور ان کے مخالفین کے درمیان موجود ہے۔ ہمارا ملک بیرونی خطرات‘ معاشی تنزل‘ فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات کے اس مقام پر ہے کہ کسی نئے تصادم کا صدمہ نہیں سہہ سکتا۔ اس لیے اُسے ان عوامل کا جائزہ اور اس حوالے سے عملی اقدامات کرنے ہوں گے جو اس کش مکش کا محرک ہیں۔
حکومت کو فی الفور درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں:
۱- این جی اوز کے بارے میں قابل اعتبار اعداد و شمار شائع کیے جائیں۔
۲-رجسٹریشن کے موجودہ قوانین میں احتساب اور نگرانی کے عمل کو موثر بنایا جائے۔
۳- این جی اوز کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔
۴- تصادم کو روکنے کے لیے علما‘ مذہبی جماعتوں اور این جی اوز کے نمایندوں کے درمیان مذاکرات کروا کر ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے‘ تاہم اس کا اختیار صرف سفارشات پیش کرنے کا ہے۔ ان پر عمل درآمد کا کلی اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ کونسل کا بنیادی مقصد اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات پیش کرنا‘ ملک میں رائج قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا اور نفاذِ اسلام کے لیے علمی و فکری رہنمائی دینا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے کونسل بہت سے اہم امور میں سفارشات پیش کر چکی ہے جن پر اگر حکومت عمل درآمد کرتی تو نفاذ اسلام کے کئی مراحل طے ہو سکتے تھے۔ ۱۹۹۶ء کے اواخر میں دستور کے آرٹیکل ۲۳۰ (۴) میں مذکور فائنل رپورٹ پیش کی گئی جو ۱۴ اگست ۱۹۷۳ء تک کے قوانین کے جائزے پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ۱۵ اگست ۱۹۷۳ء سے ۴ جولائی ۱۹۷۷ء تک ہونے والی قانون سازی کا جائزہ قوانین کی اسلامی تشکیل کے نقطۂ نظر سے بھی لیا جا چکا ہے۔ اب ۵ جولائی ۱۹۷۷ء سے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۵ء کے عرصے میںنافذ العمل قوانین کے جائزے پر کام ہو رہا ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء کا جائزہ کونسل کی چوتھی رپورٹ میں (مطبوعہ اپریل ۱۹۸۲ء) اور مجموعہ ضابطہ دیوانی ۱۹۰۸ء کا جائزہ کونسل کی نویں رپورٹ (مطبوعہ‘ ستمبر ۱۹۸۳ء) میں سامنے آچکا ہے۔
خواتین انکوائری کمیشن کی اگست ۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اہم قانونی‘ معاشی‘ معاشرتی مسائل پر کونسل ازخود غوروفکر اور سفارشات پیش کرتی رہتی ہے۔ مثلاً نابالغ لڑکیوں کے اغوا براے تبدیلی مذہب کے انسداد کے لیے مجوزہ ترمیم ‘
ظالمانہ طلاق اور متعۃ الطلاق ‘ بعض کالجوں کے نصاب میں مبینہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی مواد پر نوٹس‘ قومیائے گئے مسیحی تعلیمی اداروں کی واپسی پر موقف‘ بیمہ و دیگر اہم امور وغیرہ۔
اسلامی نظریاتی کونسل اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظر قوانین کے جائزے‘ معاشی و معاشرتی مسائل پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنے کا کام‘ بحمدہ تعالیٰ پوری مستعدی اور تن دہی سے کرتی رہی ہے لیکن یہ کام بالکل بے نتیجہ اور کارِعبث ہے اگر ارباب اختیار کی طرف سے سنجیدہ غوروخوض نہ ہو اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات بروے کار نہ لائے جائیں۔
اس ضمن میں چند اہم امور کی طرف نشان دہی کی جا رہی ہے جو کونسل کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں حکومت کی طرف سے فوری توجہ اور مخلصانہ تنفیذ کے متقاضی ہیں۔
قرآن وسنت اور اسلامی نظامِ عدل کی چودہ صد سالہ تاریخ کی روشنی میں سچے اور فوری انصاف کی فراہمی اور اسلامی قوانین کے ثمرات کو ممکن الحصول بنانے کے لیے ایک ایسا ضابطہ مرتب کیا جانا چاہیے جو براہِ راست اسلامی فکر سے مستفاد اور عدل اسلامی کی رُوح کے عین مطابق ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں رائج قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے اور ان کی تنفیذ کی جائے تاکہ ہر طرح کی ناانصافی کا سدِّباب کیا جا سکے۔
کونسل یہ پیش کش بھی کر چکی ہے کہ آیندہ قانون سازی میں قرآن و سنت سے متعارض کوئی عنصر شامل نہ کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل (۱) ۲۲۷ کے تناظر میں یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ ہر بل مقننہ کے سامنے پیش ہوتے ہی متعلقہ مجلس قائمہ کے ساتھ ساتھ کونسل کو بھی ریفر کر دیا جائے تاکہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے بارے میں کونسل کی رائے بھی ایوانِ کے سامنے آجائے۔ مزیدبرآں ہر قانون کی نقل منظور ہوتے ہی کونسل کو بھیج دی جائے۔ کونسل ایسے تمام مسودات و قوانین پر فوری غوروخوض کے لیے الگ اور مستقل منہج وضع کر سکتی ہے مگر ہماری اس پیش کش پر باضابطہ توجہ نہیں دی گئی۔اگرچہ بعض بل کونسل کو ریفر کیے گئے ہیں‘ مثلاً انفساخِ نکاح مسلمانان ایکٹ کا ترمیمی بل ۱۹۹۹ء (The Dissolution of Muslim Marriages Act, Amendment Bill 1999) ‘انسانی اعضا کے عطیہ و پیوندکاری کے مجوزہ آرڈی ننس ۲۰۰۰ء کا مسودہ بھی حال ہی میں کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری اس گذارش کو پذیرائی بخشی جائے تو قوانین کی اسلامی تشکیل کے عمل میں خاصی سہولت اور تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ کسی قانون کے اجرا اور پھر کئی سال تک نافذ العمل رہنے کے بعد اس میں ترمیم کا مرحلہ خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔
نظام تعلیم کے گھمبیر مسئلے پرکونسل برابر اپنی تشویش کے اظہار کے ساتھ اس کی اسلامی تشکیل کے لیے تجاویز پیش کرتی رہی ہے۔ نظریہ تاسیسِ پاکستان کے تناظر میں نظام تعلیم کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ وہ اسلامی اصولِ مساوات و عدل کے مطابق تمام اہل وطن کے لیے تعلیم و تربیت کی یکساں سہولتوں کی ضمانت دے۔ ابتدائی تعلیم تو ہر فرد کا حق ہی نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ اس سے ماورا ہر سطح پر معلّم و متعلّم کے انتخاب میں میرٹ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست کے لیے یہ ناگزیر چیلنج ہے کہ کوئی طالب علم کسی شعبے میں کسی سطح پر صرف اس لیے داخلے سے محروم نہ رہے کہ وہ اعلیٰ ترمیرٹ کے باوجود غریب یا کم آمدنی والے طبقے سے تعلّق رکھنے کے باعث اس شعبے یا اس سطح پر تعلیمی اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تعلیم کے موجودہ منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ہر حساس شخص کے دل میں اس دکھ کی کسک بڑھتی جا رہی ہے کہ تعلیم کا عمل معاشرے کے ایک فرض کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار یا صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ حتیٰ کہ پبلک سیکٹر میں بھی تعلیمی اداروں میں صلاحیت یا میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کے بجائے‘یا اس کے ساتھ ساتھ‘ سیلف فنانسنگ (self financing) کے تحت والدین کی مالی حیثیت کو گویا اہلیت کی پہلی شرط قرار دے دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں انگلش میڈیم اور جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کے نام پر معتبر و غیر معتبر‘ مستند و غیر مستند‘ ملکی و غیر ملکی اداروں کا ایک سیلاب اس ملک کی تعلیمی ضروریات کو اپنی منڈی سمجھ کر اس کے استحصال کے لیے ٹوٹ پڑا ہے۔ پرائمری‘ مڈل اور ہائی اسکولوں کے علاوہ سرکاری کالجوں کا (جو ابھی تک سرکاری رہ گئے ہیں‘ خودمختار ادارے نہیں بنے) اب یہ حال ہو گیا ہے کہ ان کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اپنی سہولتوں‘ اساتذہ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنا پر چند سال پہلے جو سرکاری اسکول اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا مقابلہ کر سکتے تھے‘ اب وہ صرف ان غریبوں کے بچوں کے لیے رہ گئے ہیں جن کے لیے اور کوئی چارئہ کار نہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ روزنامہ ڈان (۱۹ اکتوبر ۲۰۰۰ء) کے مطابق کراچی کے سرکاری ہائیرسیکنڈری اسکولوں میں اس سال ۳ ہزار۵ سو سیٹوں کی گنجایش کے مقابل صرف ۵۰۰ طلبہ وطالبات کا داخلہ ہوا تھا‘ جس سے ان اداروں میں عوام کے عدم اعتماد کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ غیر مراعات یافتہ افراد کے بچوں کے لیے تسلی بخش تعلیمی سہولتوں کا باب آہستہ آہستہ بند ہوتا جا رہا ہے۔ ارباب بصیرت اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی طبقاتیت کی یہ صورت حال ایک خوف ناک طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
دینی اور دنیوی تعلیم کی دوئی جو سرکاری و دینی مدارس کی صورت میں موجود تھی اب بیسیوں طرح کے سسٹم کے انتشار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تعلیمی میدان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی طبقاتیت‘ دینی اور اسلامی و پاکستانی اقدار سے متصادم ثقافتی رجحانات‘ جونیئر و سینئر انگلش میڈیم اسکولوں اور کئی پرائیویٹ کالجوں میں مخلوط تعلیم کی ازسرنو ترویج‘ ہر صاحب فکر کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ صورت حال یقینا اصلاح‘ نظم اور صحت مند ضابطہ بندی کی متقاضی ہے۔
نظام تعلیم میں عدل و مساواتِ اسلامی کے اصول کی ترویج کے علاوہ دو بنیادی تقاضے ہمارے تمام تعلیمی اداروں کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں:
اولاً ‘ ضروری ہے کہ تمام درس گاہیں نصاب اور اپنے تعلیمی ماحول کی اصلاح کے ذریعے اسلامی تربیت کے اصولوں کے مطابق کردارسازی کی ضمانت دیں۔
ثانیاً‘ نصاب تعلیم اسلامی تعلیمات اور علوم و فنون میں جدید ترین تحقیق سے ہم آہنگ ہو اور مسلسل تفکیر و تجدید کے عمل سے گزرتا اور ہر شعبے میں دورِحاضر کی علمی تیز رفتاری سے ہم قدم رہے‘ اور اسلامی اصول ’’احسان‘‘ (excellence)کے مطابق ہر ادارہ بہتر سے بہتر معیار کی طرف گام زن رہے۔
ابھی تک مختلف علوم و فنون کے نصابات اور نصابی کتب کو اسلامی تعلیمات و فلسفہ حیات کی ضیا اور پچھلی چودہ صدیوں میں مسلم مفکرین و علما کی فکر سے روشناس کرنے کے لیے کوئی قابل لحاظ کام نہیں ہوا۔ کونسل نے اپنے مخصوص دائرہ کار کی ترجیحات کے پیش نظر‘ تدریس قانون کے سہ سالہ نصاب کی اسلامی تشکیل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں قانون کی تمام درس گاہوں کے فلسفہ و مقاصد میںایسے انقلاب کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اسلامی قانون کو اوّلین مقصودکا مقام حاصل ہو اور کامن لا ‘برطانوی و امریکی قوانین سمیت‘ اضافی عصری و تقابلی تناظر میں پڑھایا جائے‘ نہ یہ کہ برطانوی استعمار سے میراث میں ملنے والا قانون ہی ہماری درس گاہوں کا اصل مادہ تدریس ہو اور تبرک کے لیے ایک آدھ پرچے پر مشتمل اسلامی قانون بھی شامل نصاب رہے۔ بدقسمتی سے قانونی درس گاہوں میں معلّمین قانون بھی اسی روایت سے وابستہ ہونے کے سبب اس نظریاتی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ کونسل حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں اپنے آپ کو بالکل حق
بہ جانب تصور کرتی ہے کہ ۲۴ پرچوں کی مفصل نصابی تفصیلات پر مشتمل ہمارا تجویز کردہ سہ سالہ نصاب براے
لا کالجز فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ ضروری ہو تو فی الحال متعلقہ فنون کے ماہر جزوقتی طور پر تدریس کے لیے متعین کیے جا سکتے ہیں‘ اور پھر طویل المیعاد منصوبے کے تحت موجودہ فیکلٹی کی ری اورینٹیشن اور آیندہ تشکیل نو کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہمارے لا کالجز سے ایسے قانون دان فارغ ہو کر نکلیں جوعربی زبان کی شدبد بھی نہ رکھتے ہوں‘ اسلامی قوانین سے نابلد ہوں مگر عدالتوں میں بحیثیت وکیل یا منصف اسلامی قوانین کی تعبیر کا نازک فریضہ سرانجام دیں۔
بلاشبہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کا تحفّظ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے پورے وسائل بروے کار لا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انسانی عظمت و مساوات کے علم بردار دین اسلام اور قرآن و سنت کے احکام نے ہماری مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں‘ بیویوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں‘ انھیں غصب کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں۔ بیویوںکے ساتھ حسن معاشرت‘ نرم روی اور زندگی کے سفر میں ایسی رفاقت و ہم آہنگی اور ان کے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہونے کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جسے قرآن کریم نے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷)‘ کی حسین تعبیر سے واضح کیا ہے۔ شادیوں میںاسراف و تبذیر‘ جہیز کے جبر‘ والور کے نام پر لڑکیوں کی فروخت‘ قرآن سے شادی کی مکروہ اور قطعی غیر اسلامی رسم (جو درحقیقت توہین قرآن کے مترادف ہے) کے پردے میں بیٹیوں‘ بہنوں کو ان کے حق میراث سے محروم کرنے‘ بعض علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے نام پر حصول تعلیم سے دُور رکھنے ‘اور شادی بیاہ کے موقع پر ان کی رائے سے بے نیازی یا صرفِ نظر جیسے رواج ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک دینی و معاشرتی جہاد کی ضرورت ہے۔ کاروکاری یا غیرتی قتل جیسے مسائل میں یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اس معاملے یا کسی بھی معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور قتل کو قتل تصور کرتا ہے‘ اگرچہ اسلامی آداب معاشرت‘ احترام والدین‘ حیاداری و عزت نفس کی قدریں بھی ہماراسرمایہ حیات ہیں۔
سوشل ورک‘ بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اگر صحیح معنوں میں خلوص نیت کے ساتھ کسی طرح کے مفاد‘ لالچ یا کسی طرح کی بیرونی تحریک یا دبائو کے بغیر‘ خواتین کے حقوق کی بحالی مقصود ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والی عزیز بہنوں سے یہ التماس ہے کہ وہ اپنے آپ کو خواتین کے اسلامی حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیں۔ اسی طرح ان کے مقاصد کے حصول کا راستہ آسان ہوسکتا ہے۔ وہ مساوات مرد و زن (gender equality)جیسے درآمد شدہ نعروں کے ذریعے مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت کے بجائے بہن بھائی‘ میاں بیوی‘ باپ بیٹی کے رشتوںکے تقدس‘ لحاظ‘ محبت‘ شفقت کے احیا اور استحکام کے لیے سرگرم ہوں۔ سچی اسلامی اقدار کے احیا کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ہماری اپنی اخلاقی و ثقافتی روایات کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔ کیا یہ حیرت و استعجاب کا مقام نہیں کہ ہر طرح کی مادر پدر آزادی حتیٰ کہ ہم جنسیت اور ایک جنس کے درمیان شادی تک کو روا رکھنے والا مغربی معاشرہ اسکولوں میں مسلمان بچیوں کے سر پر اسکارف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس معاملے میں شخصی آزادی کے سارے آئیڈیل موقوف ہو جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اپنی مظلوم بہنوں کے لیے کام کرنے والی خواتین ہمارے دیہات میں دوپٹوں اور اسلامی حجاب کے ساتھ جائیں تو ان کا اعتماد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب ہوں گی اور ہم سب اپنی بہنوں بیٹیوں کو غیر اسلامی رسوم کے جبر سے نجات دلانے میں جلد کامیاب ہو سکیںگے۔
سال رواں میں سپریم کورٹ کا ربا کے بارے میں تاریخی فیصلہ بے حد اہمیت کا حامل ہے اور معیشت کی اسلامی تشکیل کے لیے ہمارے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔کونسل اس سلسلے میں پہلے ہی کچھ ابتدائی کام سرانجام دے چکی تھی بالخصوص اس موضوع پر کونسل کی ۱۹۸۰ء میں زیورطبع سے آراستہ ہونے والی رپورٹ بعنوان: Elimintation of Riba from Economy, & Islamic Modes of Financing ایک وقیع کام کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا دوسرا نظرثانی و توسیع شدہ ایڈیشن ۱۹۹۲ء میں طبع کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے امتناع ربا آرڈی ننس کے مسودے کی تیاری اور اس کے عملی مضمرات پر نہایت احتیاط‘ فکری گہرائی اور جزئیاتی تفاصیل کے ساتھ غور کر رہی ہے اور کونسل اس مہتم بالشان کام میں برابر شریک ہے۔ اسی فیصلے کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں قائم کیا گیا Transformation Commission اسلامی معیشت کے تحت رائج ہونے والی دستاویزات اور بنک کاری کے اسلامی نظام کی تاسیس کے عملی پہلوئوں پر کام کر رہا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالم اسلام پر دو صدیوں تک مغربی استعمار کے غلبے کے دوران اسلامی نظام معیشت عملاً رائج نہیں رہا‘ پھر نئے عصری مسائل پوری دنیا پر مغرب کے استحصالی اور ربائی نظام کی بالادستی‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کے کئی مسلم ممالک کی معیشت پر تسلّط نے صورت حال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ربا سے پاک مالیاتی اداروں کا قیام معیشت کے تمام شعبوں کے لیے ضروری ہے۔ اس عظیم کام کے لیے ماہرین معاشیات ‘ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ بنک کاروں‘ علما اور دانش وروں کے علاوہ اقتصادی استحکام کے لیے آبادی کے ہر طبقے کا تعاون ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں سے خلاصی بھی اسلامی نظام اقتصاد کے احیا کے لیے جہاد کا نہایت اہم حصہ ہے۔ لہٰذا لاربائی نظام کے قیام کے لیے ہر سطح پر حکومت سے تعاون اور اس عظیم ہدف کو ممکن بنانے کے لیے پورے جوش و جذبہ ایمانی کے ساتھ دیانت‘ ایثار‘ محنت اور کام میں لگن کا رویہ ناگزیر ہے۔ میں نہایت ادب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم اور کٹھن کام کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی سے کہیں زیادہ ضروری معرکہ‘ اسلامی نظام اقتصاد کے قیام کے لیے علمی وفکری و تحقیقی‘ تجارتی و کاروباری‘ صنعتی اور عوامی حلقوں میں اس نظام کے تقاضوں کے ادراک اور اس کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی مہم کا ہے۔ صرف قوانین و ضوابط سے یہ نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دیانت و امانت کا وہ مفہوم سختی کے ساتھ اپنانا ہوگا جو ہمارے آقا و مولا‘ ہادی و رہبر‘ سید و سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ و احمد مجتبیٰؐ کی مبارک تعلیمات پر مشتمل ہے۔اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے بھی یہ واضح ہوناچاہیے کہ ہم اجتماعی طور پر اس سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر اسلامی اقتصادی نظام کی تیاری کے اقدامات کے بجائے نئی سودی اسکیموں کا اجرا اور سود و قمار کے عناصر پر مشتمل
بے شمار پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی انعامی اسکیموں کے لیے کھلی چھٹی‘ حکومت کے عزم کے بارے میں‘ اس گراں قدر کام کے باوجود جو اسلامی معیشت کی تشکیل کے لیے ہو رہا ہے‘ صحیح سگنل نہیں دیتے۔
سابقہ حکومت نے بیرون ملک متوطن پاکستانیوں کے پاکستان میں فارن ایکسچینج اکائونٹ منجمد کر کے اصول دیانت کی خلاف ورزی کے ساتھ ان کے اعتماد کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت بہرحال اس حکومت کی جانشین اور اس کی ذمہ داریوں کی وارث ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی تحفّظ یا ہچکچاہٹ کے بغیر اس دھاندلی پر غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے چاہییں اور اپنے ملک کے اندر سادگی‘ کفایت شعاری‘ دیانت‘ اصول پرستی کا روشن نمونہ قائم کر کے اس مشکل وقت میں قرضوں سے چھٹکارے اور اسلامی معیشت کے قیام کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرنی چاہیے۔ یہ سادگی اور کفایت شعاری سب سے پہلے حکومتی ایوانوں کی سب سے اونچی سطح پر صاف نظر آنی چاہیے۔ تعیش اور صارف (consumer) کلچر کی شدید حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور جنگی سطح (war footing)پر یہ مہم پورے خلوص اور استقلال سے جاری رہنی چاہیے۔
اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا اور اس کی ترویج و سرپرستی کے حوالے سے اور اسی طرح کی اقتصادی مہم کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ برابر ایک منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور سرکاری الیکٹرانک میڈیا اس کردار میں پیش پیش ہے۔ خودانحصاری کے نام پر‘ غیر ملکی ٹی وی چینلوں سے مقابلے کی آڑ میں‘ لباس ‘ چال‘ ڈھال‘ رہن سہن‘ گفتگو اور معاشرتی رویوں کے ایسے ماڈل ٹیلی وژن پر ڈراموں‘ کلچرل شوز‘ موسیقی کے پروگراموں‘ اور سب سے بڑھ کر اشتہارات کے ذریعے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی آداب کے تقدس کو تہس نس کرنے کے ساتھ ساتھ ان منفی رویوں کو دل کشی کے ساتھ پیش کر کے گمراہی‘ مایوسی‘ احساسِ محرومی اور جرائم کے ارتکاب کی آبیاری کرتے ہیں۔ فلموں سے قطع نظر ٹی وی پر بھی مغربی ممالک میںڈراموں کی عکس بندی کے بہانے مغربی معاشرت کو ایک قابل قبول اور نارمل طرز زندگی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سپانسرشپ کے پردے میں سپورٹس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سگریٹ نوشی اور بالواسطہ منشیات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے‘ جس کا ہدف خصوصی طور پر نوجوان نسل بن رہی ہے کیونکہ وہی کھیلوں کے مقابلوں کو زیادہ شوق سے دیکھنے والے ہیں۔ اگر اس سے ٹی وی کو آمدنی ہو رہی ہوجو خود انحصاری کے لیے ضروری ہے‘ تو اس کی وجہ سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک کے لیے سرکاری اور رفاہی اداروں پر جو بوجھ پڑ رہا ہے‘ وہ کس کے کھاتے میں جائے گا۔
ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ بالخصوص سرکاری ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ تو ایک ایسا پروگرام ہے جو کسی بھاری بجٹ کا متقاضی نہیں‘ اس کے لیے صرف سوچ درست کرنے اور عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں اللہ کے فضل سے بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ادیب اور فن کار موجود ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی نہیں بلکہ ان کی تعمیر و اشاعت کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ ان سے اس جنس کی طلب کی جائے۔ اب نیو ایر ڈے اور بسنت کے موقع پر غیر اخلاقی رجحانات کی سرکاری سرپرستی کے علاوہ نئی نئی غیر ملکی روایتیں بھی حملہ آور ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ویلنٹائن ڈے (valentine's day) کے موقع پر اخبارات میں چھپنے والے پیغامات کے نئے رجحان کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی وزارت کو اسلامی و پاکستانی روایات کے تحفّظ اور سرپرستی کے لیے قومی رہنمائی کا کردار ادا کرناچاہیے۔
شام کے اوقات میں جب ٹی وی سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ ایڈز کے اشتہارات ہمارے ذرائع ابلاغ کی بے حسی کی ایک اور علامت ہیں۔ مغرب کی ہوبہو نقالی کرتے ہوئے ’’احتیاط‘‘ کی تلقین کی جاتی ہے۔ چشم بددور‘ یہ قیمتی معلومات تو مہیا کی جاتی ہیں کہ یہ مہلک مرض’’مرد سے مرد کو‘ مرد سے عورت کو…‘‘ لگ سکتا ہے مگر ہماری اپنی اقدار اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یہ کہنے کی توفیق یا جرأت نہیں ہوتی کہ ایک پاکیزہ زندگی ہی بابرکت زندگی ہے اور خدائی احکام سے منہ موڑنا اس طرح کے وبال کا سبب بنتا ہے۔ کونسل کے مطالبے پر گذشتہ سالوں میں کچھ عرصے کے لیے ایسے اشتہارات کے لیے ۱۰ بجے رات کے بعد کا وقت معین کر دیا گیا تھا مگر اب اس پابندی کو بھی غیر ضروری تکلف سمجھ کر ترک کر دیا گیا ہے۔
رب رحیم و کریم کی بارگاہ عالی میں اس التجا کے ساتھ ان معروضات کو ختم کرتا ہوں کہ وہ اپنے لطف و کرم سے عالم اسلام اور ہمارے پیارے پاکستان کودشمنوں کے فتنوں سے محفوظ رکھے‘ اسے سالمیت اور استحکام عطا کرے‘ صاف ‘ سچا اور سادہ اسلام ہمارے دلوں میں راسخ اور ہماری زندگیوں میں رائج فرمائے‘ اور ہم سب کو اپنا تاریخی وعدہ وفا کرتے ہوئے وطن عزیز میں قرآن و سنت کا نظام برپا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین! (نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے افتتاحی اجلاس‘ ۹-۱۱ فروری ۲۰۰۱ء میں صدر پاکستان کی موجودگی میں پڑھا گیا۔ ابتدائیہ مختصر کیا گیا ہے‘ ادارہ)
انسان کائنات میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ خالق کائنات نے اس کے جسم کو مٹی سے بنا کر اس میں اپنی روح پھونکی تو اس کا تعلق زمین اور آسمان دونوں سے قائم ہو گیا۔ یہ ایک منفرد حیثیت ہے جس کی وجہ سے انسان کو کائنات میں افضل ترین مقام حاصل ہوا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے انسان کوبہترین ساخت پر پیدا کیا‘‘ (التین ۹۵:۴)۔ اسی بنا پر اسے خالق کی نیابت اور خلافت کا مقام حاصل ہوا۔
رب العالمین نے انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ روحانی ضروریات وحی کے ذریعے پیغمبروں کی وساطت سے پوری کیں اور جسمانی ضروریات کے لیے زمین کوہر قسم کے وسائل سے مالا مال کر دیا: ’’ کوئی چیزایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں‘ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیںایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘ (الحجر ۱۵:۲۱)۔ مزید فرمایا: ’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا‘ زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی‘‘ (المرسلات ۷۷: ۲۵- ۲۶)۔ ان آیات کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیںکہ کرئہ زمین کروڑوں اور اربوں سالوں سے بے حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ ہر قسم کی نباتات‘ ہر قسم کے حیوانات ‘ اور انسان اس پر جی رہے ہیں اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کے پیٹ سے طرح طرح کے اتھاہ خزانے نکلے چلے آ رہے ہیں۔
انسان میں روح و جسم کا نہایت حسین امتزاج ہے اور یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ کس کی اہمیت زیادہ ہے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود بے مقصد ہو جاتا ہے‘ بقول اقبالؒ ؎
تن بے روح سے بے زار ہے حق
خداے زندہ زندوں کا خدا ہے
نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ اسلام میں انسان کی جسمانی
ضروریات کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مغرب کو تو معیشت کی اہمیت کا احساس کم و بیش ۱۰۰ سال پہلے ہوا اور اقتصادیات کے مضمون کو اہمیت دی جانے لگی مگر قرآن مجید نے ۱۴۰۰ سال پہلے معیشت کے اصول تفصیل سے بیان کر دے۔ انھی اصولوں پر عمل کر کے مسلمان خلفا اور حکمرانوں نے رعایا کی بنیادی ضروریات کا ایسا بہترین بندوبست کیا اور ایسی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی کہ موجودہ دور کی فلاحی ریاستیں اس کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہیں۔ اسلام کے معاشی نظام کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ غیر جانب دار ماہرین کا اتفاق ہے کہ موجودہ دنیا کی معاشی مشکلات کا حل اسلامی نظام معیشت میں ہی ہے۔
انسانی وجود کے بقا اور جملہ ضروریات کا تعلق اور انحصار زمین پر ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات ہیں جن سے زمین کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ ’’اس ]زمین[ میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا‘‘ (حم السجدہ ۴۱: ۱۰)۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کے مطابق برکتوں میں دھاتیں اور دیگر تمام ضروریات کی اشیا شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام نباتاتی‘ حیواناتی اور دھاتی وسائل کے علاوہ جدید دور میں جو مصنوعی اشیا انسان بنا رہا ہے‘ یا مستقبل میں بنا سکتا ہے ان کے لیے خام مال زمین سے ہی حاصل ہوگا۔ اسی طرح تمام صنعتوں میں استعمال ہونے والا خام مال اور توانائی زمین سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اراضی چاہے میدان ہو یا پہاڑ‘ وادی ہو یا ریگستان‘ یا دلدل وغیرہ‘ نہایت ہی اہم وسیلہ بلکہ دولت ہے۔ الحمدللہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے ارضی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ مگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اگر توجہ دیتے اور احکام الٰہی کے مطابق استعمال میں لاتے تو اس میں ذرّہ برابر شک نہیں کہ آج ہم دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کے قائد ہوتے۔
مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: ’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (الاعراف ۷: ۹۶)۔ پاکستان کے قدرتی وسائل ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف زرعی وسائل پر کچھ ضروری امور پیش کیے جا رہے ہیں۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب و تمدن کے فروغ میں زراعت کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ مستقل رہایشی بستیوں کا آغاز زراعت سے ہی شروع ہوا۔ پیداوار بڑھنے کے ساتھ کچھ افراد بنیادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوئے اور انھوں نے انسانی اعلیٰ اقدار کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اس طرح تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ حاصل ہوا۔ قرآن مجید میں وسائل اور علوم کے بارے میں جو ارشادات ہیں‘ راقم کی معلومات کی حد تک‘ سب سے واضح اور زیادہ زراعت کے بارے میں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’کبھی تم نے سوچا‘ یہ بیج جو تم بوتے ہو‘ ان سے کھیتیاں تم اُگاتے ہو یا ان کے اُگانے والے ہم ہیں؟ ہم چاہیں تو ان کھیتیوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جائو‘‘ (الواقعہ ۵۶: ۶۳-۶۵)۔ ایک دوسری جگہ یوں فرمایا: ’’اور آسمان سے ہم نے برکت والا پانی نازل کیا‘ پھر اس سے باغ اور فصل کے غلے اور بلند و بالا کھجور کے درخت پیدا کر دیے جن پر پھلوں سے لدے ہوئے خوشے تہ بہ تہ لگتے ہیں۔ یہ انتظام ہے بندوں کو رزق دینے کا۔ اس پانی سے ہم ایک مُردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں۔ (مرے ہوئے انسانوں کا زمین سے) نکلنا بھی اسی طرح ہوگا‘‘ (ق۵۰: ۹-۱۱)۔
وسائل کے ماہرین نے زرعی وسائل کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ زرعی زمین ایک منفرد قدرتی وسیلہ ہے جس کا رقبہ تو متعین ہے‘ اس لیے کہ بڑھایا نہیں جا سکتا لیکن صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ کم بھی نہیں ہوتا اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے پیداوار بڑھتی جاتی ہے اور یہ رقبہ ہمیشہ کے لیے قابل استعمال رہتا ہے۔ لیکن اگر بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو پیداوار کم ہوتی جاتی ہے بلکہ سیم‘ تھور اور کٹائو وغیرہ سے بالکل ختم بھی ہو سکتی ہے۔ اراضی کی اس اہمیت کی بنا پر ماہرین کی رائے یہ ہے کہ زمین کو کسی کی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے تو ۱۴۰۰ سال پہلے مفتوحہ علاقوں کی اراضی کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے اور مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دنیا میں انھی قوموں نے ترقی کی ہے جنھوں نے اپنے ارضی اور زرعی وسائل کی طرف پوری توجہ دی ہے‘ پیداوار کو اتنا بڑھایا ہے کہ چند فی صد افراد اپنے ملک کی ضروریات پوری کر کے بڑی مقدار میں زرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہے ہیں اور دیگر ممالک کو مغلوب کیے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی افرادی قوت کا ۳ فی صد سے بھی کم حصہ زراعت میں ہے‘ مگر اپنے ملک کی تمام آبادی کی زرعی ضروریات جن میں خوراک اور صنعتی خام مال بھی شامل ہے‘ انتہائی سستے داموں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی مقدار میںزرعی پیداوار برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے اور دوسرے ممالک کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ہالینڈ ایک بہت چھوٹا ملک ہے۔ اس میں زرعی زمین تو بہت ہی محدود ہے مگر اس کے باوجود برآمدات میں زراعت کا حصہ ہالینڈ کی اہم ترین برآمد‘ قدرتی گیس کے برابر ہے۔ زراعت میں سائنس اور جدید طریقوں کے استعمال کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل جیسے ممالک جن کا قدرتی ماحول زراعت کے لیے موزوں نہیں ہے اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بہت سی زرعی اشیا برآمد بھی کر رہے ہیں۔
جدید دور میں زراعت کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اب یہ نہ صرف انسان کو بنیادی ضروریات مہیا کرتی ہے بلکہ اقتصادیات‘ معاشیات ‘ سیاست اور دفاع میں بھی اس کی اہمیت ہے۔اس کی ایک مثال تو ہماری اپنی ہے کہ ہم نے ۱۶-F طیارے خریدنے کے لیے جو کثیر زرمبادلہ دیا تھا اس کی گندم خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اسی ضمن میں ٹرپس معاہدہ ترقی یافتہ ممالک کی تیسری دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے‘ بلکہ ان کو تباہ کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسے جینیاتی بیج تیار کیے گئے ہیں جن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ان بیجوں میںایسے کیمیائی اجزا داخل کر دیے جاتے ہیں کہ ان پر کیڑے مکوڑے حملہ نہ کر سکیں مگر مضر کیڑوں کے ساتھ انسان دوست کیڑے بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصل جو انسان اور حیوان استعمال کرتے ہیں مختلف بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ بیج دوبارہ کاشت بھی نہیں ہو سکتے اور ان کو تیار کرنے کی ٹکنالوجی بھی ترقی پذیر ممالک کو منتقل نہیں کی جا رہی تاکہ ترقی یافتہ ممالک کا ہی کنٹرول رہے۔
ان بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوں کے مضر اثرات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں ان کے استعمال پر پابندی لگانے کے مطالبا ت ہو رہے ہیں۔ بعض ممالک میں کسانوں نے جینیاتی بیجوں سے حاصل ہونے والی فصلوںکے مضر اثرات سے آگاہی کے بعد تیار فصلوں کو جلا دیا ہے۔ چنانچہ اب ان بیجوں کو تیار کرنے والے ممالک اور کمپنیوں کی توجہ ترقی پذیر ممالک پر ہے۔ اس تباہی سے بچنے اور ترقی یافتہ ممالک کے غلبے سے نجات حاصل کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے زرعی وسائل کو مقامی ٹکنالوجی اور وسائل کے ذریعے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہرقسم کے وسائل سے خصوصاً زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ نہایت زرخیز وسیع وعریض میدان ہیں جو ہزاروں فٹ گہرائی تک دریائوں کی لائی ہوئی زرخیزمٹی سے بنے ہوئے ہیں جو ان میدانوں میں قدرت نے دریائوں کا جال بچھایا ہے اور میدانوں کا ڈھلان آبپاشی کے لیے نہایت موزوں ہے۔ چنانچہ نامعلوم زمانے سے آب پاشی کی جا رہی ہے اور زراعت ہمیشہ اہم ترین منافع بخش پیشہ رہا ہے۔قدیم ترین‘ لیکن اپنے دور کی انتہائی ترقی یافتہ شہری آبادیوں‘ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا انحصار آب پاشی اور زراعت پر تھا۔ آب و ہوا کے لحاظ سے بھی پاکستان کی سرزمین کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ آب و ہوا کا تعلق سطح سمندر سے بلندی اور خط استوا سے فاصلے پر ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سرزمین کی سطح سمندر سے بلندی صفر سے لے کر ۸ ہزار ۶ سو ۱۱ میٹر تک ہے اور شمالاً جنوباً پھیلائو بھی ۲۳ درجے عرض بلد سے ۳۷ درجے عرض بلد تک ہے جواچھا خاصا ہے۔ نتیجتاً آب و ہوا میں اتنا تنوع ہے جتنا کسی اور ملک میں نہیں ہے۔
اس کا اثر یہ ہے کہ جتنی اقسام کی فصلیں اور پھل سبزیاں وغیرہ پاکستان میں پیدا ہوتی ہیں کسی اور ملک میں نہیں ہوتیں۔ کم درجہ حرارت میں پیدا ہونے والی فصلوں سے لے کر زیادہ درجہ حرارت والی فصلیں تجارتی پیمانے پر پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی زرعی ماہر یہاں آیا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ وادی پشاور میں گنا اور چقندر ساتھ ساتھ کاشت کیے جا رہے ہیں۔ اگر ہمارے کاشت کاروں کو موزوں ماحول اور مناسب سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ زراعت میں غیر معمولی کارنامے دکھا سکتے ہیں۔
زراعت کے لحاظ سے موزونیت کی وجہ سے ہی برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت کی طرف توجہ دی اور ایسا زرعی نظام قائم کیا جس کی بنا پر معاشی ترقی ہوئی اور برعظیم کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا۔ زراعت کے لیے بہترین علاقہ وادی سندھ ہے جو تقریباً سب پاکستان میں شامل ہے۔ برعظیم کے مسلمان حکمرانوں نے زراعت پر پوری توجہ دی۔ آب پاشی کا ایسا موزوں نظام قائم کیا جسے بعد میں انگریزوں نے ترقی دے کر وادی سندھ میں دنیا کا منفرد اور عظیم نظام قائم کیا۔ یہاں پر زراعت کے لیے بہترین ماحول ہونے کی وجہ سے یہ اتنی منافع بخش ہے کہ انگریزوں نے ایک نہر نجی سرمایے سے بنائی۔ اس پر لگایا گیا سرمایہ اتنا جلدی واپس ہوا اور اتنا منافع حاصل ہوا کہ برطانیہ کے سرمایہ داروں نے برصغیر میں نہریں بنانے کے لیے اتنا سرمایہ مہیا کر دیا کہ حکومت کے لیے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
آج بھی اگر زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جائے تو حیرت انگیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسی سال حکومت نے گندم کی کاشت کی طرف معمولی توجہ دی تو ایک لمبے عرصے کے بعد اس سال ہم گندم کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے خاصی مقدار میں گندم برآمد کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اصل میں برعظیم کے زرعی وسائل کے صحیح استعمال کا آغاز مغلوں کے زمانے سے ہوا جنھوں نے اپنے وقت میں جدید ترین نہری نظام قائم کیا۔ زرعی زمینوں کا ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ آج تک معمولی رَدّ و بدل کے ساتھ وہی نظام قائم ہے۔ زمینوں کی اقسام بھی وہی چلی آ رہی ہیں اور محکمہ مال کا نظام بھی وہی ہے یہاں تک کہ موجودہ محکمہ مال کا اہم کارکن جسے پٹواری کہتے ہیں مغلوں کے زمانے کا پٹواری ہے جو زمین کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ پیداوارکی تقسیم (بٹوارہ) بھی کرتا تھا۔ اب یہ نظام ختم کر کے کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہیے۔
ان حقائق کے پیش نظر‘ زرعی جغرافیہ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے‘ راقم دعوے سے یہ کہہ سکتا ہے کہ زراعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو جن وسائل سے نوازا ہے‘ دنیا بھر میں یہ منفرد حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر آزادی کے بعد زراعت کی طرف مناسب توجہ دی جاتی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم زرعی پیداوار میں خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر زرمبادلہ بھی کما رہے ہوتے اور زرعی خام مال استعمال کرنے والی صنعتوں میں بھی ترقی کی ہوتی۔ باوجود مشکلات کے ۱۹۵۵ء تک پاکستان زرعی پیداوار میں خودکفیل رہا۔ باباے قوم حضرت قائداعظمؒ کی رحلت اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کے رخصت ہو جانے کے بعد ہمیں ایسے سیاست دان رہنما ملے جنھوں نے وطن کے قیمتی وسائل کو یا تو نظرانداز کیا یا پھر ذاتی مفاد کے لیے لوٹا۔ غلامی کے دور میں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے بڑے زمین داروں اور کاشت کاروں کا جو نظام قائم کیا آزادی کے بعد اسے ختم کر کے مقامی ضروریات اور حالات کے مطابق زرعی نظام قائم کرنا ضروری تھا۔ بھارت میں پنڈت نہرو نے زرعی اصلاحات کیں‘ جاگیردارانہ نظام کو ختم کر کے ملکی ضروریات اور حالات کے مطابق کاشت کاروں کو مناسب رقبہ زمین کا مالک بنایا۔ حکمرانوں نے ملک کے مفاد میں زراعت کی طرف مناسب توجہ دی اور آج بھارت زرعی لحاظ سے ایک اہم ملک ہے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد کثیر مقدار میں زرمبادلہ بھی کما رہا ہے۔
پاکستان میں انگریزکے پروردہ جاگیرداروں نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور منصوبہ بندی کے تحت آپس میں گٹھ جوڑ سے بیوروکریسی اور فوج میں بھی اپنے لوگوں کو داخل کر لیا۔ یوں ہر شعبے پر جاگیرداروں کا قبضہ ہو گیا۔ دکھلاوے کے لیے تین دفعہ زرعی اصلاحات کا ڈھونگ بھی رچایا گیا مگر عملاً جاگیردار ہی سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اب بڑے بڑے صنعت کار‘ تاجر اور بیوروکریٹ بھی ان سے مل گئے ہیں۔ ملک میں ایک اعلیٰ طبقہ وجود میں آگیا ہے جن کی آپس میں رشتے داریاں ہیں‘ ان میں سے جس کسی کی بھی حکومت ہو‘ ایک دوسرے کے مفاد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ان لوگوںکا ہی زرعی وسائل بلکہ دیہی آبادی پر عملاً قبضہ ہے۔ ان لوگوں نے اتنی دولت اور جایدادیں جمع کر لی ہیں کہ ان کو معلوم کرنا اور حساب لگانا بھی مشکل ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات زندگی کی وجہ سے ہم عصر دنیا میں قدرتی وسائل کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔انسان کی تمام ضروریات قدرتی وسائل سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ ان میں زرعی وسائل کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے زرعی وسائل کو جدید سائنسی طریقوں اور منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال کر کے ان سے ممکنہ حد تک فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ نہایت محدود زرعی وسائل والے ممالک بھی ان سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر زرعی وسائل سے مالا مال پاکستان میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے‘ اس کی ایک مختصر سی روداد پیش کی جاتی ہے۔
قدرتی وسائل کی کھپت تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ان کی حفاظت یا بچاکر استعمال کرنا (resource conservation) بہت اہم ہو گیا ہے۔ علم الوسائل (resource studies)میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل کو ممکنہ حد تک بہترین طریقے سے منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جائے تاکہ کم از کم استعمال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور اقتصادی ترقی کا عمل جاری رہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ بات سیاسی جماعتوں کے منشور میں بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زراعت کے لیے بہترین حالات کے ساتھ وسیع اراضی سے نوازا ہے۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا کل رقبہ (بہ شمول آزاد کشمیر اور گلگت) ۸ لاکھ ۴۷ ہزار ۵ سو ۴۹ مربع کلومیٹر ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کا رقبہ بھی شامل کر لیا جائے اور ان شاء اللہ پاکستان میں شامل ہو گا تو کل رقبہ ۱۰ لاکھ ۴۴ ہزار ۲ سو ۵۲ مربع کلومیٹر ہو جائے گا۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کا رقبہ پاکستان کے ایک ضلع سے بھی کم ہے۔ آبادی کے بارے میں بعض ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیاں اپنے مقاصد کی خاطرغیر ضروری تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ حالانکہ آبادی اس وقت تقریباً ۱۴۱ فی مربع کلومیٹر ہے جو دنیا کے کم گنجان آباد ممالک میں شمار کی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جن کی فی مربع کلومیٹر آبادی پاکستان سے کئی گنا ہے مگر پھر بھی اقتصادی لحاظ سے وہ بہت ترقی یافتہ ہیں۔
پاکستان کے زرعی وسائل کے استعمال میں دو طرح کی غفلت کی جا رہی ہے۔ ایک تو اراضی کی تقسیم اور ملکیت کا انتہائی غیر منصفانہ نظام ہے اور دوسرا صحیح منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
ارضی وسائل کا بہت بڑا حصہ بڑے بڑے زمین داروں کے قبضے میں ہے۔ یہ قومی وسائل یا تو انگریزوں نے ان لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے یعنی قوم کے ساتھ غداری کے عوض دیے‘ یا ان لوگوں نے آزادی کے بعد ایک دوسرے کی معاونت سے خود قبضہ جما لیا۔ ایسے لوگوں کی آمدنیاں مختلف ذرائع سے اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو اراضی کے مناسب استعمال سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں انتہائی پرتعیش محلات میں رہتے ہیں۔ فارغ اوقات غیر ممالک میں گزارتے ہیں۔ بعض نے وہاں بھی جایدادیں بنا رکھی ہیں۔ ان کی پاکستان میں جمع کی ہوئی دولت غیرملکی بنکوں میں ہے اور وہی ممالک اس سے مستفید ہوتے ہیں‘ جب کہ کاشت کاروں کی حیثیت ان لوگوں کے غلاموں کی طرح ہے۔ محنت غریب کاشت کار کرتے ہیں اور پیداوار کا بڑا حصہ زمین داروں کے حواری اور نمایندے لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ارضی وسائل کا صحیح استعمال کیسے ممکن ہے۔ یہی زمین دار بڑے صنعت کاروں اور بیوروکریسی کی معاونت سے حکومت پر قابض رہتے ہیں اور ہر قسم کی اصلاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپوں کے زرعی اور دیگر قرضے لے کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں اور پھر معاف کروا لیتے ہیں۔
ملک کی ۷۰ فی صد دیہی آبادی کا بڑا حصہ چھوٹے کاشت کاروں پر مشتمل ہے جو یا تو مزارع ہیں یا چھوٹے رقبوں کے مالک۔ زرعی اخراجات بڑھنے کی وجہ سے ان کا گزارا اب زمینوں پر نہیں ہوتا۔ اس لیے ان کی کافی تعداد بیرون ملک یا ملک کے بڑے شہروں کی طرف محنت مزدوری کے لیے جا رہی ہے۔ مزید زرعی زمینیں بے کار ہو رہی ہیں اور شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
زرعی وسائل سے غفلت کا دوسرا پہلو منصوبہ بندی کا فقدان یا غلط منصوبہ بندی ہے۔ موجودہ دور میں وسائل سے پورا فائدہ اٹھانے کے لیے صحیح منصوبہ بندی لازمی ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی غفلت برتی جا رہی ہے۔ منصوبہ بندی کے لیے وسائل کی استعداد (quality)کے مطابق صحیح اعداد و شمار لازمی ہوتے ہیں۔ سروے آف پاکستان کی اٹلس کے مطابق پاکستان کا رقبہ ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ سے زیادہ ہے۔ اس میںبہت کم حصہ ایساہے جو جنگلات‘ آبادی یا مستقل برف پوش ہونے کی وجہ سے زیرکاشت نہیں لایا جا سکتا۔ اب تو آئس لینڈ‘ گرین لینڈ‘ انٹارکٹکا اور دنیا کے دیگر بہت کم درجہ حرارت والے علاقوں میں بھی فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل جیسے انتہائی خشک صحرائوں میں اتنی فصلیں اگائی جا رہی ہیں کہ برآمد کی جا رہی ہیں۔ ہمارے اپنے ملک کے پہاڑی علاقوں میں محنتی اور تجربہ کار کاشت کار ایسی اونچی ڈھلانوں پر فصلیں اگاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ راقم زرعی جغرافیہ کے طالب علم کی حیثیت سے یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ سوائے مستقل برف پوش چوٹیوں کے پاکستان کے تمام رقبے کو زیر کاشت لایا جاسکتا ہے۔ ہمارے کاشت کار تو معجزے دکھا سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں مناسب ماحول اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔ مگر ارضی وسائل سے غفلت کی حالت یہ ہے کہ وطن عزیز کے کل رقبے کے صرف ایک چوتھائی حصے کے بارے میں ہی معلومات دستیاب ہیں جو کہ غیر یقینی ہیں۔ ان معلومات کی فراہمی کا ذریعہ Pakistan Agricultural Census Organization ہے جس نے آخری سروے ۱۹۹۰ء میں کیا اور ۴ کروڑ ۷۰ لاکھ ایکڑ رقبے کے بارے میں کچھ معلومات جمع کیں۔ یہ رقبہ پاکستان کے کل رقبے یعنی ۱۸ کروڑ ۹۶ لاکھ ایکڑ کا تقریباً ۲۵ فی صد ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اس پر کوئی اعتبار بھی نہ کرے گا ۔جو معلومات ہیں وہ بھی غیر یقینی ہیں۔ زمین کی اقسام کے بارے میں معلومات تو ناقابل یقین ہیں۔ اس لیے کہ ان کا ذریعہ محکمہ مال کا پٹواری ہے جس کی تعلیم میٹرک تک ہوتی ہے اور زراعت وغیرہ میں اس کی کوئی تعلیم و تربیت یا تجربہ نہیں ہوتا‘ جب کہ اقسام زمین کا تعین کرنا‘ تجربے‘ مہارت اور نئی تربیت کا متقاضی ہے جو ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔
اراضی کے اعداد و شمار ناقابل اعتبار ہونے کا عملی تجربہ راقم کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پڑھے گئے مقالے کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کے دوران ہوا۔ پاکستان میں زرعی اعداد و شمار جمع کرنے کا کام پاکستان ایگریکلچرل سینسس آرگنائزیشن کے علاوہ چار مزید محکمے کرتے ہیں‘ یعنی محکمہ مال‘ ایگریکلچرل ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ‘ بیورو آف اسٹیٹکس اور ڈسٹرکٹ اسٹیٹیکل آفس۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب اداروں کے مہیا کیے گئے اعداد و شمار میں واضح فرق ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کا رقبہ ایگریکلچر سینسس کے مطابق ۱۰ لاکھ ایکڑ ہے ‘ جب کہ ڈسٹرکٹ اسٹیٹکس آفس کے مطابق یہ ۲۹ لاکھ ایکڑ ہے۔ چونکہ نظام یکساں ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ یہی حالت تمام ملک میں ہو گی۔واضح رہے کہ اعداد و شمار غلط ہونے کے علاوہ مختلف محکمے ایک ہی کام میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں صحیح منصوبہ بندی کیسے کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں وسیع اور بہترین زرعی وسائل سے نوازا ہے۔ ہم ان کا مناسب استعمال نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کر رہے ہیں‘ اقتصادی اور معاشی پس ماندگی کا شکار ہیں اور اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ وسائل کا‘جو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں‘ بہترین استعمال کیا جائے۔
تفصیلی زمینی سروے : پہلی ضرورت ملکی ارضی وسائل کا تفصیلی سروے ہے ۔ سروے ٹیموں میں نہ صرف زراعت بلکہ دیگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے ماہرین‘ زراعت اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ماہرین شامل ہوں۔ تمام اراضی کے جغرافیائی حالات‘ ملکیت‘ اقسام اور صلاحیت کے بارے میں تفصیلی نقشے بنائے جائیں جن کی بنیاد پر ملکی حالا ت اور وسائل کی روشنی میں مکمل منصوبہ بندی کی جائے ۔ اسی طرح کی ایک مشہور سروے رپورٹ ۵۰‘ ۶۰ سال قبل لندن یونی ورسٹی میں جغرافیہ کے بین الاقوامی شہرت کے پروفیسر ایل ڈی سیٹنپ نے برطانیہ کے زرعی وسائل کے بارے میں لکھی تھی جس کی روشنی میں برطانیہ میں زرعی وسائل سے مکمل فائدہ اٹھایا گیا بلکہ کئی دیگر ممالک نے بھی انھی خطوط پر کام کیا۔
حقیقی زرعی اصلاحات کا نفاذ : پاکستان میں جب ایسی مفصل رپورٹ تیار ہو جائے تو سب سے پہلے زرعی اصلاحات کی جائیں جو واقعی زرعی اصلاحات ہوں۔ پہلے ماہرین یہ فیصلہ کریں کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کے مطابق ایک خاندان کی ملکیت کتنی زمین ہو کہ جس کا صحیح استعمال کر کے باعزت زندگی گزاری جا سکے۔ جن لوگوں کے پاس اس سے زیادہ زمینیں ہیں عام طور پر یا تو انگریز بہادر نے ان کو اپنی خدمات یعنی قوم سے غداری کے صلے میں دی ہیں‘ یا آزادی کے بعد انھوں نے ناجائز طریقوں سے حاصل کی ہیں۔ ایسی زمینیں بلامعاوضہ لے لی جائیں۔ بہرکیف جہاں کسی کی جائز ملکیت بھی ضرورت سے زائد ہے اسے جائز معاوضہ دے کر واپس لے لیا جائے۔ جہاں پر کروڑوں بے زمین یا کم زمینوں کے مالک کاشت کار دن رات محنت کے باوجود اپنے بال بچوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے وہاں پر ایسے لینڈ لارڈز کی کہاں گنجایش ہے جن کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کی زمینیں کتنی ہیں۔ اسلامی اصول بھی یہی ہے کہ زمین اس کی ہے جو کاشت کرتا ہو۔ اس لیے زائد زمینوں کو کاشت کاروں میں تقسیم کر دیا جائے۔
پیشہ ورانہ رہنمائی کا اہتمام :حکومت کے متعلقہ محکمے مناسب مالی اور پیشہ ورانہ امداد مہیا کریں۔ کئی دیگر ممالک کی طرح کاشت کاروں کو فصل بونے سے پہلے یہ بھی بتا دیا جائے کہ کون سی اور کتنی زمین میں کون سی فصل کاشت کی جائے۔
پیداوار کی مناسب قیمت کا تعین : زرعی پیداوار کی مناسب قیمت اور اس کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ کاشت کاروں کو تاجروں اور مڈل مین کے استحصال سے بھی بچایا جائے۔
متعلقہ اداروں کی تنظیم نو: زراعت اور اس سے متعلقہ اداروں کو ایک یا کم سے کم محکموں میں مدغم کر دیا جائے جن کا آپس میں قریبی عملی رابطہ ہو۔ متعلقہ محکموں کے تمام ملازمین‘ چاہے کسی لیول کے ہوں‘ اپنے آپ کو کاشت کاروں کا معاون بلکہ خادم سمجھیں۔ غلامی کے وقت کے افسرانہ رویہ کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ ملازمین کاشت کاروں کے پاس جا کر مطلوبہ ضروریات مہیاکریں۔ یہی طریقہ کار دنیا میں رائج ہے۔ بھارت نے بھی اسی پالیسی کی وجہ سے زراعت میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔
زرعی زمین کی تقسیم کا قانون: اس کے ساتھ ایک اور ضروری قدم یہ اٹھانا چاہیے کہ کم از کم پیداواری اور اقتصادی یونٹ سے نیچے زرعی زمین کی مزید تقسیم کو قانوناً ختم کر دیا جائے۔ اسلامی وراثت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وارثین کو زمین کے بدلے انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے جائز قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں یہ طریقہ کار کامیابی سے چل رہا ہے۔
اگر حکومت مندرجہ بالا اقدامات اٹھا لے‘ تو اس کی یہ خدمت آزادی دلانے والے محسنین سے کم نہیں ہو گی۔ راقم کو پورا یقین ہے کہ اگر اخلاص سے زراعت میں یہ تبدیلیاں کر دی جائیں تو چند سالوں میں ہم نہ صرف ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہو سکتے ہیں بلکہ جس مقصد کے لیے وطن عزیز حاصل کیا گیا تھا وہ بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔
معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے‘ اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے اور اس سے معاشرے کی تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔
ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم مقدمہ تاریخ میں لکھا تھا کہ معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے‘ جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ‘ معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے۔
مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو وجود میں لانے کی عصبیت ‘مسلم قومیت کا احساس تھا لیکن مسلم قومیت کی یہ عصبیت اس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے‘ لیکن یہ افراد معاشرہ میں عام نہیں ہے۔
فرقہ وارانہ عصبیت: فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے مسلح گروہ یا دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہے ہیں‘ لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ ویسے ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے‘ لیکن سنی ‘ شیعہ‘ دیوبندی‘ بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے خون آشام مناظر کسی عوامی لہر کی نمایندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تھی اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں
فرقہ واریت کے خلاف ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں‘ امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا‘ تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔ ان تنظیموں کو پہلے انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت جو شہ حاصل تھی‘ وہ بھی اب انھیں حاصل نہیں ہے۔ عراق‘ ایران جنگ کے زمانے میں جو بیرونی شہ تھی‘ وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ایک عرب عجم مفاہمت کا ارتقا ہوا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں شیعہ سنی فرقہ واریت میں کمی ہوئی ہے‘ تو دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سے سر اٹھایا ہے‘ لیکن یہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے‘ اور ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں‘ لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔
لسانی عصبیتیں : فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاج پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس عصبیت نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ‘ کراچی‘ بلوچستان‘ سرحد‘ پنجاب اور اس کا سرائیکی علاقہ سب عصبیتوں کی لپیٹ میں ہیں اور ان کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر بیورو کریسی میںبھی اس کی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو‘ پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو‘ یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو‘ ان سب کو عصبیت کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہو گئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو‘ اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون صرف تعصب کی بنیاد پر ہے۔
ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آیندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے کافی امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے‘ اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے‘ لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے‘ اور کسی جوڑنے والے نظریہ کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ آیندہ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔
پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک مذہبیت ہے‘ دوسری عریانیت و فحاشی ۔ پہلے ہم مذہبی مزاج کا تجزیہ کریں گے۔
مذہبی رجحان: ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی‘ جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’’دعوت اسلامی‘‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے‘ وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی ہے۔ سیاست کے میدان میں جہادی قوتیں منظم حالت میں ہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں کامیاب معرکہ آرائیوں کے مظاہرے کے بعد وہ پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نظر نہیں آتی ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے‘ جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے‘ اور اس امر کا پورا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں‘ جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
مذہبی جماعتوں کی صورت حال: مذہبی جماعتوں میں پچھلے جمہوری دور کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا۔ لیکن انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں صاف ذہن نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔
’’مسلح جدوجہد‘‘ یا ’’گوریلا جنگ‘‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے‘ لیکن آخر وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر انقلاب کو مسلط رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں‘ تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا ہے‘ وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے جس سے خدا نے اپنے رسول کو منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے‘ جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن یہ مزاج اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔
غیر سیاسی مذہب کا رجحان: پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے ‘ اس کے نتیجے میں بلاشبہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ‘ ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے‘ لیکن اس غیر ’’سیاسی مذہب‘‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی ایک الگ مخلوق نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت‘ اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے‘ اور ان کی وجہ سے یہ معاشرے کوبدل نہیں رہے ہیں‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں‘ ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے‘ جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔
اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان: لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہو چکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکہ سے ہے‘ جس پر صیہونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے مغربی حواریوں کے درمیان ہو گی۔ یہ جنگ ناگزیر ہے اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔
پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی‘ اقتصادی صورت حال بھی امریکہ اور اس کی آلہ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے‘ اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکہ سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی تعداد کافی ہو گئی ہے۔ تاہم انھیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے‘ جو انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں لیکن یہ طرزِ فکر بہرحال موثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکہ کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکہ سے پیدا ہو چکا ہے‘ وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی‘ جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔
معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔ ’’حیوۃ الدنیا‘‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص ریجھا ہوا ہے‘ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر‘ علم و تحقیق‘ مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ گھروں میں جو اخلاقی‘ تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے‘ بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں‘ درس گاہوں میں بگڑتے ہیں‘ اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں‘ مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔
اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آیندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ‘ اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا‘ اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی‘ ڈاکے‘ کاروبار میں دھوکا بازی‘ یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔
جنسی بے راہ روی میں اضافہ: سب سے بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہر طرف سے جنسی جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک جنس کا شیطان شرم و حیا کو ختم کر رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور منہ چھپانے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں‘ خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے‘ لیکن اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں‘ ملبوسات کے نئے فیشن‘ زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے‘ اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب‘ مثلاً شادی میں مہندی کی رسم‘ یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔
وقت کا تقاضا : معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں‘ جب کہ ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں‘ تو یہ کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا ۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے‘ اور جو مزاج فاسد پیدا ہو چکا ہے‘ اس کی روک تھام کر سکیں گے۔