انسان کے مذہبی تصورات میں عبادت کا تصور سب سے پہلا اور اہم تصور ہے، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ مذہب کا بنیادی تصور عبادت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک نوع انسانی کے جتنے مذاہب کا پتہ چلا ہے، عام اس سے کہ وہ انتہا درجے کی وحشی اقوام کے خرافات و اوہام ہوں، یا اعلیٰ درجے کی متمدن اقوام کے پاکیزہ معتقدات، ان میں سے ایک بھی عبادت کے تصور و تخیل سے خالی نہیں۔
علم الانسان اور آثار قدیمہ کی تلاش و جستجو کے سلسلے میں پرانی سے پرانی تہذیب کی حامل قوموں کے جو حالات معلوم ہوئے ہیں، وہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ گو وہ قومیں عقل و شعور کے بالکل ابتدائی درجے میں تھیں لیکن اس حالت میں بھی انھوں نے اپنی بساط بھر کسی نہ کسی کو ضرور معبود بنایا ہے، اور کوئی نہ کوئی طریق عبادت ضرور اختیار کیا ہے۔[۱] قدیم قوموں کو جانے دیجیے۔ آج بھی بہت سی انسانی جماعتیں زمین کے مختلف گوشوں میں موجود ہیں، جو عقلی و ذہنی اعتبار سے قدیم ترین قوموں کی سطح پر ہیں، یا یوں کہیے کہ نوع انسانی کے بالکل ابتدائی دَور کا نقشہ اپنی زندگی میں پیش کر رہی ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی ایسی جماعت دیکھی گئی ہے، جو معبود اور عبادت کے تصور سے کلیتاً خالی ہو۔[۲] پس، یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان قدیم ترین وحشت و بداوت سے لے کر جدید ترین تہذیب و حضارت تک جتنے مدارج سے گزرا ہے، ان میں سے ہر درجے میں عبادت کا تصور اس کے ساتھ ساتھ رہا ہے، گو اس کے مظاہر و اشکال میں بے شمار تغیرات و اختلافات رونما ہوئے ہیں۔
غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہ خیال سارے بنی آدم پر حاوی ہے اور تمام زمانوں میں باوجود اختلاف احوال یکساں حاوی رہا ہے؟ کیا یہ بالارادہ اختیار کیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ساری نوع پر اس کا اس طرح حاوی ہونا غیر ممکن تھا۔ کیونکہ بالارادہ اختیار کی ہوئی چیزوں میں کبھی کامل اتفاق نہیں ہوسکتا۔ انسان کی اختیار کی ہوئی چیزوں میں سے ایک بھی ایسی نہ ملے گی، جس کے اندر ہر مرتبہ اور ہر دَور کی تمام انسانی جماعتیں یکساں مشترک ہوں، اور یہ کسی طرح متصور نہیں ہے کہ ہر زمانے کے تمام آدمیوں نے ایک عالم گیر کانفرنس کرکے باہم یہ ٹھیرالیا ہو کہ وہ کسی کی عبادت ضرور کریں گے، خواہ معبود مختلف اور طریقہ ہائے عبادت بے شمار ہوں۔
پھر جب یہ چیز اختیاری نہیں ہوسکتی تو لامحالہ ماننا پڑے گا کہ عبادت کا جذبہ انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے۔[۳] جس طرح انسان کو بھوک فطری طور پر لگتی ہے اور اس کے فرو کرنے کے لیے وہ غذا تلاش کرتا ہے، جس طرح اسے سردی اور گرمی فطری طور پر محسوس ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ سایہ اور لباس ڈھونڈتا ہے، جس طرح ادائے مافی الضمیر کی خواہش اس میں فطری طور پر پیدا ہوتی ہے، اور اسے پورا کرنے کے لیے وہ الفاظ و اشارات بہم پہنچاتا ہے، بالکل اسی طرح عبادت کا جذبہ بھی انسان میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کی تسکین کے لیے وہ کسی معبود کی تلاش کرتا اور اس کی بندگی کرتا ہے۔
مگر جیسا کہ ہم بھوک اور سردی و گرمی کے احساس، اور ادائے مافی الضمیر کی خواہش کے معاملے میں دیکھتے ہیں، فطرت کا اثر زیادہ تر اس مجرد داعیہ کی حد تک رہتا ہے جو انسان کو غذا، سایہ، لباس اور وسیلۂ اظہار مافی الضمیر کی تلاش پر مجبور کرتا اور جسم کے ان اعضاء کو جو ان کاموں سے متعلق ہیں، حرکت دینے پر ابھارتا ہے۔ اور اسی حد تک تمام انسانوں میں اشتراک بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے آگے فطرت کا اثر کمزور اور خود انسان کا اپنا اختیار غالب ہو جاتا ہے اور یہیں سے وہ بے شمار اختلافات شروع ہوتے ہیں، جو غذا، مکان، لباس، زبان اور اشارات و علامات کی مختلف صورتوں اور ہئیتوں کے اعتبار سے ہر زمانے کی مختلف قوموں میں پائے گئے ہیں۔
قریب قریب یہی حال عبادت کے جذبے کا بھی ہے کہ وہ انسان کو بندگی و پرستش پر اُکسا کر چھوڑ دیتا ہے، اور اس کے بعد یہ انسان کے اپنے انتخاب پر ہے کہ اس جذبے کی تسکین کے لیے وہ کس کو معبود مانتا ہے اور اس کی عبادت کا کیا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی اختیار کی حد پر پہنچ کر معبودوں اور عبادت کے طریقوں میں وہ اختلاف شروع ہوتا ہے، جو انسان کی اختیار کی ہوئی تمام چیزوں میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بھی فطرت کی رہنمائی انسان کا ساتھ بالکل نہیں چھوڑ دیتی، جس طرح غذا اور لباس وغیرہ فطری مطلوبات کے انتخاب میں نہیں چھوڑتی ہے۔ لیکن یہ رہنمائی اتنی دھندلی اور خفی ہوتی ہے کہ اس کا ادراک کرنے کے لیے نہایت لطیف و نازک شعور کی ضرورت ہے، جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔
آئیے، اب ہم سراغ لگائیں کہ اس فطری داعیہ کا سر رشتہ کہاں سے ملتا ہے؟ اس کشش کا مرکز کہاں ہے جو انسان کو عبادت کے لیے کھینچتی ہے؟ کون سی قوتیں ہیں جو اسے معبود کی تلاش اور اس کی عبادت پر ابھارتی ہیں؟ اور وہ کیا رہنمائی ہے جو اس تلاش میں ہم کو خود فطرت سے حاصل ہوتی ہے؟
اس کے لیے ہم کو سب سے پہلے خود عبادت کی حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے بغیر ان سوالات کا حل مشکل ہے۔
عبادت کا تصور دراصل ایک جامع تصور ہے، جو دو ذیلی تصورات کے امتزاج سے مکمل ہوتا ہے: ایک بندگی، دوسرے پرستش۔ بندگی کے معنی ہیں کسی بالاتر قوت کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی فرمانبرداری و اطاعت کرنا۔ اور پرستش کے معنی ہیں کسی بالاتر ہستی کو پاک، مقدس اور بزرگ سمجھ کر اس کے آگے سرنیاز جھکا دینا اور اسے پوجنا۔ ان میں سے پہلا تصور عبادت کا ابتدائی اور بنیادی تصور ہے، اور دوسرا تصور انتہائی اور تکمیلی۔ پہلا زمین کی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرا عمارت کی۔ اس لیے ہمیں اپنی تحقیق کی ابتدا پہلے تصور سے کرنی چاہیے۔
بندگی یا فرماںبرداری و اطاعت ہمیشہ اس قوت کے مقابلے میں کی جاتی ہے، جو بندگی کرنے والے پر قہر و غلبہ اور قدرت و استیلاء رکھتی ہو، اور بندے یا مطیع میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارا نہ ہو۔ اس کی محدود شکل تو وہ ہے، جو آقا اور نوکر کے درمیان ہم عموماً دیکھتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ وسیع تصور کے لیے سب سے زیادہ واضح مثال وہ بندگی ہے، جو رعایا اپنی حکومت کی کرتی ہے۔ حکومت کوئی مادی شے نہیں ہے، نہ ایک محسوس و مشاہد چیز ہے۔ ایک نظام و ضابطے کی بندش ہے جس کا غلبہ و استیلاء لاکھوں کروڑوں آدمیوں پر حاوی ہوتا ہے۔ رعایا اس کے قانون پر طوعاً و کرہاً چلتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں، کسان اپنے کھیتوں میں اور مسافر دُور دراز جنگلوں میں، جہاں بظاہر حکومت کا زور جتانے والی کوئی چیز موجود نہیں ہوتی، اس کے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس کے حدود و اختیار میں رہ کر جو شخص اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ سزا پاتا ہے اور زیادہ شدید نافرمانی کی صورت میں اس کے تمام وہ حقوق سلب ہو جاتے ہیں، جو رعیت ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھے۔ اس لحاظ سے جس قدر لوگ کسی حکومت کے حدود میں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں، ان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ ’وہ فلاں حکومت کی فرماںبرداری و اطاعت کر رہے ہیں‘۔ اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ ’وہ اس کی بندگی و عبادت کر رہے ہیں‘۔
آپ دیکھیں گے کہ سارا عالم اور اس کا ایک ایک ذرّہ ایک زبردست نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور ایک قانون ہے جس پر خاک کے ایک ذرے سے لے کر آفتاب عالمتاب تک ساری کائنات طوعاً و کرہاً عمل کر رہی ہے۔ کسی شے کی یہ مجال نہیں کہ اس قانون کے خلاف چل سکے۔ جو چیز اس سے ذرّہ برابر سرتابی کرتی ہے، وہ فساد اور فنا کی شکار ہو جاتی ہے۔ یہ زبردست قانون جو انسان، حیوان، درخت، پتھر، ہوا، پانی، اجسام ارضی اور اجرامِ فلکی سب پر یکساں حاوی ہے، ہماری زبان میں ’قانون فطرت‘ یا ’قانون قدرت‘ کہلاتا ہے۔
اس کے ماتحت جو کام جس چیز کے سپرد کر دیا گیا ہے، وہ اس کے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ہوائیں اس کے اشارے پر چلتی ہیں۔ بارش اس کے حکم سے ہوتی ہے۔ پانی اس کے فرمان سے بہتا ہے۔ سیارے اس کے ارشاد سے حرکت کرتے ہیں۔ غرض اس تمام کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسی قانون کے ماتحت ہو رہا ہے اور ہر ذرہ اسی کام میں لگا ہوا ہے، جس پر اس قانون نے اسے لگا دیا ہے۔ جس چیز کو ہم زندگی، بقا اور کَون کہتے ہیں وہ دراصل نتیجہ ہے اس قانون کی اطاعت کا، اور جس کو ہم موت، فنا اور فساد کہتے ہیں، وہ درحقیقت نتیجہ ہے اس قانون کی خلاف ورزی کا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے جو زندہ اور باقی ہے، وہ اس قانون کی اطاعت کر رہی ہے اور کائنات عالم میں کوئی شے زندہ اور باقی نہیں رہ سکتی اگر اس کی اطاعت نہ کرے۔
لیکن جس طرح حکومت کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ قانون کی اطاعت دراصل قانون کی اطاعت نہیں بلکہ اس حکومت کی اطاعت ہے، جس نے اپنے قہر و غلبے سے اس قانون کو نافذ کیا ہے، اور حکومت کا نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے لا محالہ ایک حاکم، ایک مرکزی فرماںروا، ایک مقتدرِ اعلیٰ ہستی کا وجود ضروری ہے، بالکل اسی طرح قانون فطرت کی اطاعت بھی دراصل اس غالب و قاہر حکومت کی اطاعت ہے، جو اس قانون کو بنانے اور زور و قوت سے اس کو چلانے والی ہے، اور یہ حکومت ایک فرمانروا کے دست قدرت میں ہے، جس کے بغیر اتنا بڑا عالمگیر نظام ایک لمحے کے لیے بھی نہیں چل سکتا۔
یہاں اگر ہم قانونی لفظ ’اطاعت‘ کو مذہبی اصطلاح ’عبادت‘ سے بدل دیں اور لفظ ’حاکم‘ کی جگہ ’اللہ‘ یا ’خدا‘ کا لفظ رکھ دیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری کائنات اور اس کی ہر ہر چیز اللہ کی عبادت کر رہی ہے، اور یہ ایسی عبادت ہے، جس پر ہر شے کے وجود و بقا کا انحصار ہے۔ کائنات کی کوئی شے اور مجموعی طور پر ساری کائنات، اللہ کی عبادت سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہوسکتی، اور اگر غافل ہو جائے تو ایک لمحے کے لیے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔
قرآن مجید میں اس ’بندگی‘ کو کہیں ’عبادت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، کہیں تسبیح و تقدیس سے، کہیں سجود سے، اور کہیں قنوت سے۔ چنانچہ جگہ جگہ اس مضمون کی آیات آتی ہیں:
یہ عبادت، یہ سجود، یہ تسبیح، یہ قنوت، تمام جان دار اور بے جان، ذی شعور اور بے شعور چیزوں پر یکساں حاوی ہے، اور انسان بھی اس پر اسی طرح مجبور ہے، جس طرح مٹی کا ایک ذرہ، پانی کا ایک قطرہ اور گھاس کا ایک تنکا۔ انسان خواہ خدا کا قائل ہو یا منکر، خدا کو سجدہ کرتا ہو یا پتھر کو، خدا کی پوجا کرتا ہو یا غیر خدا کی، جب وہ قانون فطرت پر چل رہا ہے اور اس قانون کے تحت ہی زندہ ہے تو لامحالہ وہ بغیر جانے بوجھے، بلا عمد و اختیار، طوعاً و کرہاً خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے، اسی کے سامنے سربسجود ہے اور اسی کی تسبیح میں لگا ہوا ہے۔ اس کا چلنا پھرنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب اسی کی عبادت ہے۔ چاہے وہ اپنے اختیار سے کسی اور کی پوجا کر رہا ہو اور اپنی زبان سے کسی اور کی بندگی و اطاعت کر رہا ہو، مگر اس کا رونگٹا رونگٹا اسی خدا کی عبادت میں مشغول ہے، جس نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس کا خون اسی کی عبادت میں چکر لگا رہا ہے، اس کا قلب اسی کی عبادت میں متحرک ہے، اس کے اعضا اسی کی عبادت میں کام کر رہے ہیں، اور اس کی وہ زبان بھی، جس سے وہ خدا کو جھٹلاتا اور غیروں کی حمد و ثنا کرتا ہے دراصل اسی کی عبادت میں چل رہی ہے۔
اس عبادت کا صلہ یا اجر خدا کی طرف سے کیا ملتا ہے؟ فیضانِ وجود ، رزق اور قوت بقا۔ جتنی چیزیں خدا کے قانون پر چلتی ہیں اور اس کی بندگی کرتی ہیں، وہ زندہ اور باقی رہتی ہیں اور انھیں وہ وسیلۂ بقا عطا کیا جاتا ہے، جسے ہم اپنی زبان میں ’رزق‘ کہتے ہیں۔ اور جو چیزیں اس کے قانون سے انحراف کرتی ہیں ان پر فساد مسلط ہوجاتا ہے، ان کا رزق بند ہو جاتا ہے، اور وہ فیضانِ وجود سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ معاملہ کائنات کی ہر چیز کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس میں شجر و حجر، حیوان و انسان، کا فرو شاکر کے درمیان کوئی امتیاز نہیں:
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح انسان اس بندگی میں دوسری اشیا کے ساتھ مساوی ہے، اسی طرح اس بندگی کے اجر اور معاوضے میں بھی وہ ان کے ساتھ مساوی رکھا گیا ہے۔ انعام کی صورتوں کا فرق جو کچھ بھی ہے، دراصل استعداد اور حاجتوں کے فرق پر مبنی ہے۔ لیکن صورتوں سے قطع نظر کرکے اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ایک درخت، ایک جانور، ایک چڑیا، ایک گھاس کی پتی کی احتیاج و استعداد کے مطابق اللہ اس کی دیکھ بھال، خبرگیری، امداد و اعانت، اور رزق رسانی کر رہا ہے، اسی طرح انسان کی احتیاج و استعداد کے مطابق اس پر بھی انعام فرماتا ہے۔
اس بارے میں انسان کو دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اگر کوئی فضیلت ہے تو محض وہ صورتِ انعام کے اعتبار سے ہے نہ کہ حقیقت ِانعام کے اعتبار سے اور صورتِ انعام کا حال یہ ہے کہ وہ ہر شے کی طبیعت اور حاجت کے عین مناسب ہے۔ ایک چوہے پر جو انعام فرمایا گیا ہے، انعام کی وہی صورت اس کی فطرت اور ضرورت سے مناسبت رکھتی ہے۔ دوسری کوئی صورت جس کو ہم بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لیے انعام نہیں سزا ہو جائے گی۔ ایک بڑے سے بڑا منعم انسان جو آرام اپنی پھولوں کی سیج پر محسوس کرتا ہے، وہی آرام ایک چھوٹی سے چھوٹی چڑیا اپنے گھاس پھونس کے گھونسلے میں محسوس کرتی ہے۔ پھولوں کی سیج، تنکوں کے گھونسلے پر لاکھ فخر کرے، مگر حقیقت میں گھونسلے والے کی استعداد کے مطابق اس کی احتیاج پوری کی گئی ہے۔ اس حیثیت سے دونوں پر خدا کا انعام یکساں ہے۔ پھر یہی معاملہ کافر و شاکر، مومن و مشرک کے ساتھ بھی یکساں ہے۔
جو لوگ خدا کے منکر ہیں اور اس کی پرستش نہیں کرتے، جو اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہیں، جو شجر و حجر کو اس کا مدمقابل ٹھیراتے ہیں، ان پر بھی رزق اور فیضانِ وجود اور حفاظت و خبر گیری کا انعام اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح پکے موحدوں اور خدا پرستوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ اگر قانون فطرت کی پیروی یا بالفاظ دیگر ’فطری عبادت‘ میں ایک کافر ایک مومن سے بڑھا ہوا ہے، تو اس کی عبادت کا صلہ بھی کافر کو مومن سے بہتر صورت میں عطا ہوتا ہے، خواہ وہ حقیقت کی نگاہ میں متاعِ غرور ہی کیوں نہ ہو۔
اب یہ سوال بآسانی حل ہو جاتا ہے کہ انسان میں عبادت کا جذبہ فطری طور پر کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کیوں اپنے معبود کو تلاش کرتا ہے؟
جب ساری کائنات اور اس کی ہر چیز ایک غالب و قاہر فرماںروا کی بندگی کر رہی ہے، اور جب کہ خود انسان کا اپنا بھی ایک ایک رونگٹا اس کی عبادت میں لگاہوا ہے، وہ تمام عناصر جن سے انسان کا جسم مرکب ہے اس کے آگے سربسجود ہیں، انسانی جسم میں ان عناصر کی ترکیب اس کے فرمان سے ہوئی ہے، اور انسان کا وجود ہر آن اس کی بندگی ہی پر منحصر ہے، تو آپ سے آپ بندگی و عبودیت انسان کی سرشت میں داخل ہوگئی ہے۔ گو وہ اس صاحب ِحکومت کو نہیں دیکھتا جس کا وہ بندہ ہے، نہ دنیوی حکومتوں کی طرح اس خدائی حکومت کے عامل اور نمایندے اس کے سامنے آتے ہیں، مگر چونکہ وہ بندہ ہی پیدا ہوا ہے، اور بلا ارادہ ہر وقت بندگی کر رہا ہے اور اس کے مالک کی حکومت نے ہر طرف سے ___ اندر سے بھی اور باہر سے بھی___اس کو اور اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں کو جکڑ رکھا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کے اندر نیاز مندی، نیایش و گرایش، پرستش و عبودیت کا ایک گہرا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اس کا دل بے اختیار کسی معبود کو تلاش کرتا ہے کہ اس کی حمد و ثنا کرے، اس سے اپنی حاجتوں میں مدد مانگے، اور ہر آفت سے اس کے دامن میں پناہ ڈھونڈے۔
یہی سرشت ہے جس نے ابتدائے آفرینش سے انسان کو تلاشِ معبود پر مجبور کیا ہے۔ اسی تحریک پر اس نے ہمیشہ پرستش کی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی ہے اور یہی وہ عنصر ہے جس سے مذہب کی پیدایش ہوئی ہے۔
لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، فطرت نے ہر معاملے میں انسان کے اندر ایک مجرد طلب، ایک سادہ خواہش، ایک خالص کشش پیدا کرکے اس کو چھوڑ دیا ہے کہ اپنے مطلوب کو خود تلاش کرے۔ گویا یوں سمجھیے کہ فطرت، انسان سے آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ ایک نامعلوم چیز کی طلب پر اس کو اُکساتی ہے اور پردے کے پیچھے چھپ جاتی ہے تاکہ وہ اپنی عقل پر زور دے کر اپنے حواس سے کام لے کر معلوم کرے کہ اس کے دل میں جس چیز کی لگن لگی ہوئی ہے، اس کی فطرت جو چیز مانگ رہی ہے، وہ کیا ہے اور کہاں ہے، اور کس طرح اس کو حاصل کیا جائے؟
یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو مشکلات پیش آئی ہیں اور اس نے اپنی عقلی استعداد، اپنی قوتِ فکروتمیز کی رسائی اور اپنے ذوق و وجدان کی صلاحیت کے مطابق اپنے لیے وہ مختلف راستے نکالے ہیں جو آج نوع انسانی کے تمدن و معاشرے کی گوناگونی میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس تلاش و جستجو اور اختیار و انتخاب میں فطرت نے کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے۔ مگر جس طرح وہ ہر ہر قدم پر حیوانات کی رہنمائی کرتی ہے، اس طرح انسان کی رہنمائی نہیں کرتی۔ انسان کو وہ نہایت لطیف اشاروں میں ہدایت دیتی ہے، نہایت خفیف روشنی دکھاتی ہے جس کا ادراک معمولی عقل و بصیرت والے لوگ نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ انسان کا اختیارِ تمیزی صحیح راستے کی تلاش میں ناکام ہوا ،اور ہوائے نفس اس کو غلط راستوں پر بھٹکا لے گئی۔
مثال کے طور پر غذا کی خواہش پیدا کرنے سے فطرت کا منشا تو یہ تھا کہ انسان ایسا مواد اپنے جسم کو مہیا کرے، جس سے وہ زندہ رہ سکے اور تحلیل شدہ اجزا کا بدل اس کو ملتا رہے۔ مگر بہت سے لوگ اس خوردن برائے زیستن کی حقیقت کو نہ سمجھے۔ تلاش غذا پر ابھارنے کے لیے جو ذائقہ کی چاشنی فطرت نے اس کے کام و دہن میں لگا دی تھی، اس کو وہ اصل مقصود سمجھ بیٹھے اور ہوائے نفس ان کو زیستن برائے خوردن کی غلط فہمی میں مبتلا کرکے فطرت کے اصل منشا سے دُور ہٹا لے گئی۔ اسی طرح لباس اور مکان کی طلب دراصل موسمی اثرات سے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے پیدا کی گئی تھی۔ مگر ہوائے نفس نے اس کو بھڑک اور تفاخر اور اظہارِ شان و ترفع کا ذریعہ بنا لیا، اور انسان فطرت کے منشا سے تجاوز کرکے انواع و اقسام کے نفیس لباس اور عالی شان محل بنانے لگا، جو آخر کار خود اسی کے لیے مضرت رساں ثابت ہوئے۔
یہی حال ان تمام داعیاتِ فطرت کا ہوا ہے، جنھوں نے انسان میں مختلف چیزوں کی طلب پیدا کی، اور انسان نے فطرت کے منشا کو نہ سمجھ کر، یا بسا اوقات سمجھنے کے باوجود نظر انداز کرکے، اپنے اختیار سے اس طلب کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف ڈھنگ اور طریقے نکال لیے، جوفطرت کے اصل مقصد سے زائد اور بہت سے معاملات میں اس کے خلاف تھے۔ پھر یہی چیزیں اگلوں سے پچھلوں تک تمدن و تہذیب، رسم و رواج اور آداب و اطوار بن کر پہنچیں، جن کی گرفت نے بعد کی انسانی نسلوں کو ایسا جکڑا کہ فطرت کی رہنمائی کو سمجھنا تو درکنار، ان کے لیے اپنے اختیارِ تمیزی کو استعمال کرنے کی آزادی بھی باقی نہ رہی، اور اسلاف کے طریقوں نے مقدس قوانین بن کر ان کو اندھی تقلید کے رستے پر ڈال دیا۔ حالانکہ فطرت جس طرح پہلے انسان کو لطیف اشارے اور خفیف ہدایتیں دے رہی تھی، اسی طرح آج بھی دے رہی ہے اور ہمیشہ دیتی رہے گی، جنھیں عقل سلیم تھوڑے یا بہت اجتہاد سے ہر وقت سمجھ سکتی ہے۔
تلاشِ معبود کی فطری خواہش کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا ہے۔
جب انسان نے عبادت کے جذبے سے بے چین ہو کر اپنے لیے کسی معبود کو ڈھونڈنا شروع کیا، تو فطرت اپنے اسی لطیف انداز میں اس کو معبودِ حقیقی کے اَتے پتے دینے لگی کہ ’تیرا معبود وہ ہے جس نے تجھے پیدا کیا ہے، جو تجھ سے بالاتر ہے، جس کی قوت کے سامنے تو عاجز ہے، جو ہرچیز پر غالب ہے، جو تجھے اور ہر جان دار کو روزی دیتا ہے، جو اپنے حُسن و جمال اور خوبی و رعنائی کی بنا پر ہر طرح تیری مدح و ستایش کا مستحق ہے، جس کا نور آفتاب و ماہتاب اور ستاروں کو روشنی دیتا ہے، جس کا جمال اپنے جلووں سے آب و گل کی مورتوں کو یہ جو بن اور یہ نکھار اور یہ دل فریب حُسن بخشتا ہے، جس کا جلال پانی کی موج، ہوا کے طوفان، زمین کی لرزش، پہاڑ کی سربلندی، شیر کی درندگی اور سانپ کی گزیدگی میں اپنی شوکت کا اظہار کرتا ہے، جس کی ربوبیت ماں کے سینے میں محبت و شفقت بن کر، گائے کے تھن میں دودھ بن کر، پتھر کے کلیجے میں پانی بن کر ظہور کرتی ہے‘۔
یہ لطیف اشارے ہر زمانے میں مختلف سمجھ بوجھ کے لوگوں کو دیئے گئے، اور ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق اتوں پتوں سے اس پہیلی کو بوجھنے کی کوشش کی۔ جب انسان اپنی ابتدائی فطری حالت (State of Nature) میں تھا تو وہ ان اشاروں کو صاف سمجھتا تھا اور اس ایک ہی معبود کے آگے جھکتا تھا، جس کی طرف یہ اشارے ہورہے تھے۔ مگر جب وہ اس حالت سے آگے بڑھا اور استدلالی فکر کی راہ پر چلنے لگا تو اس کی سرگردانیوں کا آغاز ہوگیا۔
کسی نے ان صفات کے معبود کو زمین پر تلاش کیا اور پہاڑوں، دریائوں، درختوں اور نفع و ضرر پہنچانے والے جانوروں پر فریفتہ ہوگیا، صنفی اعضا کو پوجنے لگا، آگ کے سامنے دھونی رما بیٹھا، ہوا کے آگے سر بسجود ہوا، دھرتی ماتا کو عقیدت کا خراج دینے لگا۔ غرض اس کی نظر آس پاس ہی کے مناظر میں الجھ کر رہ گئی۔
کسی کی نظر اس سے آگے بڑھی۔ وہ ارضی معبودوں سے مطمئن نہ ہوا۔ اس نے دیکھا کہ یہ سب چیزیں تو اسی کی طرح کسی اور کی بندگی میں مبتلا ہیں، خود اپنے وجود و بقا کے لیے بھی غیر کی محتاج ہیں، ان کے پاس کیا رکھا ہے جس کے لیے ہم استعانت کا ہاتھ بڑھائیں اور عقیدت کی پیشانی جھکائیں۔ آخر اس نے زمین کو چھوڑ کر آسمان پر اپنے معبود کو تلاش کیا۔ سورج کو دیکھا، چاند پر نظر ڈالی، اجرامِ فلکیہ کی چمک دمک دیکھی اور کہا کہ ’یہ ہیں عبادت کے لائق‘۔
مگر جو اس سے زیادہ باریک بین تھا اس کو آسمان والوں کا حال بھی زمین والوں سے کچھ زیادہ مختلف نظر نہ آیا۔ اس نے کہا یہ لاکھ بلند تر و برتر سہی، روشن اور روشن گر سہی۔ لیکن اپنے اختیار سے کیا کر سکتے ہیں؟ ایک مقرر قانون، ایک لگے بندھے نظام کے تحت گردش کیے جارہے ہیں۔ سورج کو بایں ہمہ عظمت و بزرگی آج تک یہ مجال نہ ہوئی کہ مشرق کے بجائے کسی روز مغرب سے نکل آتا یا اپنے مقام سے ایک ہی انچ سرک جاتا۔ چاند کبھی اس قابل نہ ہوا کہ جو دن اس کے ہلال بننے کا تھا، اس دن بدر بن کر نکلتا۔ اسی طرح کوئی اور سیارہ بھی اپنی مقرر گردش سے یک سرمُو تجاوز نہ کرسکا۔
اس بندگی، بے چارگی، کھلی ہوئی غلامی کو دیکھ کر اس جویائے معبود نے آسمان سے بھی منہ موڑ لیا، تمام مادی و جسمانی چیزوں کو ناقابل پرستش قرار دیا، اور اپنے معبود کی تلاش میں معانی مجردہ (Abstract Ideas)اور روحانیات کی طرف پیش قدمی کی۔ نور کا پروانہ بنا، دولت کی دیوی کا فریفتہ ہوا، محبت کے دیوتا پر ریجھا، حسن کی دیوی کا گرویدہ ہوا، قوت کے دیوتا کو سجدہ کیا، مدبرات عالم (World Forces )کے ہیکل تجویز کیے اور ان کی عبادت اختیار کی، ارواح اور عقول (logos) اور ملائکہ کو مسجود بنایا اور سمجھا کہ یہی عبادت کے لائق ہیں۔
اس طرح کائنات کی ہر وہ چیز جس کے اندر مختلف قابلیتوں کے لوگوں کو اپنی اپنی فکر کی رسائی اور نظر کی استعداد کے مطابق برتری، ربوبیت، نعمت بخشی، قدرتِ حُسن و جمال، قہر و جلال، اور خالقیت کی جھلک نظر آئی، اس کے آگے جھک گئے اور فطرت کے دیئے ہوئے سراغ پر جو شخص جتنی دُور جاسکا، گیا، اور ٹھیر گیا۔ مگر جو لوگ زیادہ صحیح وجدان، زیادہ لطیف ادراک اور زیادہ سلیم عقل رکھتے تھے، اور فطرت کے بتائے ہوئے نشانات پر ٹھیک ٹھیک سفر کر رہے تھے وہ ان اراضی و سماوی معبودوں اور روحانی و خیالی دیوتائوں میں سے ایک سے بھی مطمئن نہ ہوئے۔ بیچ کی منازل میں سے ایک پر بھی نہ ٹھیرے اور بڑھتے بڑھتے اس منزل پر پہنچ گئے، جہاں انھیں کائنات کی تمام مادی، روحانی، ذہنی، علوی اور سفلی قوتیں کسی اور کی گرفت میں جکڑی ہوئی، کسی اور کی بندگی میں مشغول، کسی اور کے آگے جھکی ہوئی، کسی اور کی تسبیح پڑھتی ہوئی نظر آگئیں۔ یہاں انھوں نے اپنے دل کے کانوں سے یہ آواز سنی:
لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ۲۵ (انبیاء ۲۱:۲۵) میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو۔
یہ اسی معبود کی آواز تھی جس کی تلاش میں وہ چلے تھے۔ طالب کو قریب پاکر مطلوب خود پکار اٹھا۔ اس نے آپ ہی آگے بڑھ کر اپنا پتہ بتا دیا۔ یہاں پہنچ کر سفر ختم ہوگیا، منزل مقصود مل گئی، اور ڈھونڈنے والے مطمئن ہوگئے۔[۴]
یہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس آخری ہدایت کو پانے کے بعد بھی کوئی مزید تلاش و جستجو کے لیے بے چین نہ ہوا۔ بے چینی، بے قراری، بے اطمینانی جو کچھ بھی تھی بیچ کی منزلوں میں تھی۔ آخری منزل پر پہنچ کر ہر دل نے گواہی دی کہ جس کو ڈھونڈ رہے تھے وہ یہی ہے۔ اب کسی تلاش و جستجو کی حاجت نہیں:
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۲۸ (الرعد ۱۳:۲۸) خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
انسان اپنے معبود کی تلاش میں جب تک خدائے واحد تک نہ پہنچا، بے چین رہا، غیر مطمئن رہا، اس کے دل میں تلاش کی بے کلی اور جستجو کی کھٹک برابر چٹکیاں لیتی رہی، مگر جب خدائے واحد کو اس نے پالیا تو اس کا دل مطمئن ہوگیا۔ پھر کبھی اس نے تلاش معبود کی بے چینی محسوس نہ کی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ تلاش معبود کا یہ سفر خدا کے سوا کسی غیر پر ختم نہیں ہوا اور خدا تک پہنچ کر ایسا ختم ہوا کہ پھر کسی اور کی جستجو دل میں پیدا ہی نہ ہوئی؟
غور کرنے سے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کو جو فطری جذبہ پرستش پر مجبور کرتا ہے، اس کا اصل مقصد خدائے واحد ہی کی پرستش ہے۔ جب تک وہ اپنے اس معبود حقیقی کو نہیں پہنچ جاتا، مطمئن نہیں ہوتا اور نہیں ہوسکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ عقل و فکر کی نارسائی، یا تعصب اور ہٹ دھرمی، یا آباو اجداد کی اندھی تقلید بعض افراد کو یہ بے اطمینانی محسوس نہ ہونے دے۔
جیسا کہ ہم اوپر کہہ چکے ہیں، انسان کے اندر پرستش کا فطری جذبہ پیدا ہی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کے گرد و پیش کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی بندگی میں مشغول ہے۔ ایسی حالت میں جب ایک ظلوم و جہول انسان خدا سے ناواقف ہو کر غیر خدا کی پرستش کے لیے جھکتا ہے، تو اس کے گرد و پیش کا کوئی عنصر، حتیٰ کہ خود اس کے اپنے جسم کا بھی کوئی جز اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ جن پائوں سے اپنے خود ساختہ معبود کی طرف بڑھتا ہے، وہ خدا کی عبادت میں چلتے ہیں۔ جن ہاتھوں سے اس کے آگے نذر پیش کرتا ہے، وہ خدا کی بندگی میں حرکت کرتے ہیں۔ جس پیشانی سے اس کو سجدہ کرتا ہے وہ خدا کے سجدے میں جھکی ہوئی ہوتی ہے۔ جس زبان سے اس کی بڑائی بیان کرتا ہے، وہ خدا کی تقدیس و تمجید میں مشغول ہوتی ہے۔
ایسی حالت میں اس کی یہ ساری پرستش، یہ تمام نیائش و گرائش ایک جھوٹ، ایک افترا، ایک بہتان، ایک صریح جعل ہوتی ہے، جس کے بطلان پر کائنات کا ہر ذرہ گواہی دیتا ہے، اور خود انسان کی فطرت اپنی لطیف وغیر محسوس آواز میں بار بار اسے تنبیہ کرتی ہے کہ یہ تو کس دھوکے میں پڑگیا ہے؟ کیا تجھے بندے کی بندگی، پرستار کی پرستش، فرماںبردار کی فرماںبرداری کرتے شرم نہیں آتی:
اُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ط (انبیاء۲۱:۶۷) تُف ہے تم پر اور تمھارے ان معبودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو۔
’پرستش‘ دراصل ’بندگی‘ کی فرع ہے اور اپنی عین فطرت کے اقتضا سے اپنی اصل کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ جب انسان اپنے جہل اور بے خبری کی بنا پر ’فرع‘ کو ’اصل‘ سے جدا کرتا ہے ___ بندگی ایک کی کرتا ہے اور پرستش دوسرے کی ___ تو یہ تفریق سراسر فطرت کے خلاف واقع ہوتی ہے اور ایک نہایت خفی و غیر محسوس تحت الشعوری بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے۔ بخلاف اس کے جب نادانی کا پردہ درمیان سے اٹھ جاتا ہے ___ انسان کو اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے کہ معبود وہی ہے جو مالک اور خالق اور پروردگار ہے تو بندگی اور پرستش دونوں یکجا ہو جاتی ہیں، فرع اصل سے مل جاتی ہے، بیٹی اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ جاتی ہے، اور اس وصال سے وہ لطف، وہ مزا، وہ اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، جو ہجر و فراق کی حالت میں مفقود تھا۔
بندگی اور پرستش کی یہی مواصلت ہے، جس سے انسان کو دوسری مخلوقات پر شرف حاصل ہوتا ہے، اور وہ اس مرتبہ پر پہنچتا ہے، جسے خدا نے اپنی خلافت و نیابت قرار دیا ہے۔
عرض کر چکا ہوں کہ خدا کی بندگی تو انسان آپ سے آپ بلا عمد و اختیار، بغیر جانے بوجھے کر ہی رہا ہے، اور ٹھیک اسی طرح کر رہا ہے، جس طرح لایعقل حیوان، بے شعور درخت، بے جان پتھر کر رہے ہیں۔ اس حیثیت سے اس میں اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔ اور اس بندگی کا جو انعام ہے، یعنی فیضانِ وجود اور عطائے رزق، اس میں بھی وہ فی الحقیقت دوسری مخلوقات سے ممتاز نہیں ہے۔ فرق و امتیاز اور برتری و شرف جو کچھ ہے، اس امر میں ہے کہ دوسری موجودات کے برخلاف جو عقل و شعور، جو آزادیٔ ارادہ و اختیار، اور جو قوت علمیہ انسان کو دی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اُس کو پہچانے جس کا وہ بندہ ہے، اور بالاختیار بھی اسی کی عبادت اور پرستش کرے، جس کی وہ بلا اختیار بندگی کر رہا ہے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا اور اپنی عقل اور قوت علمیہ سے اپنے مالک کی معرفت حاصل نہ کی، اور اپنے اختیار کے حدود میں اس کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت اور پرستش شروع کر دی تو شرف کیسا، وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا:
لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡوَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۱۷۹ (اعراف ۷:۱۷۹) ان کے پاس دل و دماغ ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
بجائے خود عقل اور قوت علمیہ میں کوئی شرف اور برتری نہیں ہے۔ یہ تو محض حصول شرف کے لیے ایک آلہ ہے اور اس آلے نے انسان کو یہ استعداد بہم پہنچا دی ہے کہ اس سے ٹھیک ٹھیک کام لے کر وہ بندگیٔ اضطراری کے حیوانی مقام سے ترقی کرکے عبادتِ اختیاری کے انسانی مقام پر پہنچ سکے۔ لیکن اگر انسان نے اس آلے سے غلط کام لیا، اور اس کو چھوڑ کر جس کا وہ بندہ ہے ان کی عبادت اختیار کی جن کا فی الحقیقت وہ بندہ نہیں ہے،[۵] تو وہ حیوانی مقام سے بھی نیچے اتر گیا۔ حیوان گمراہ تو نہ تھا، یہ گمراہ ہوا۔ حیوان منکر تو نہ تھا، یہ منکر ہوا۔ حیوان کافر و مشرک تو نہ تھا، یہ کافر و مشرک ہوگیا۔ حیوان جس مقام پر پیدا کیا گیا تھا، اسی مقام پر وہ رہا۔ اور حیوان ہونے کی حیثیت سے یہ بھی اسی مقام پر ہے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے جو ترقی اس کو کرنی چاہیے تھی وہ اس نے نہ کی، بلکہ اُلٹا تنزل کی طرف چلا گیا۔
ترقی کے لیے اس کو جو عقل کا آلہ دیا گیا تھا اس کو اس نے انسانی ترقی کے لیے استعمال نہ کیا بلکہ حیوانیت میں ترقی کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے دُوربین بنائی کہ حیوان جتنی دُور کی چیز دیکھ سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی چیز یہ دیکھ سکے۔ اس نے ریڈیو ایجاد کیا کہ حیوان جتنی دُور کی آواز سن سکتا ہے اس سے زیادہ دُور کی آواز یہ سن سکے، اس نے ریل اور موٹر بنائی کہ حیوان جس قدر قطع مسافت کرسکتا ہے اس سے زیادہ یہ کرسکے۔ اس نے ہوائی جہاز بنائے کہ اڑنے میں پرندوں سے بازی لے جائے۔ اس نے بحری جہاز بنائے کہ تیرنے میں مچھلیوں کو مات کر دے۔ اس نے آلات حرب بنائے کہ لڑنے میں درندوں پر سبقت لے جائے۔ اس نے عیش و عشرت کے سامان فراہم کیے کہ جانوروں سے زیادہ پُرلطف زندگی بسر کرے۔ مگر کیا ان ترقیات کے باوجود یہ مقام حیوانی سے کچھ بھی بلند ہوا؟ عقل و علم کے ذریعے سے عالم مادی میں جتنے تصرفات یہ کر رہا ہے، وہ سب کے سب انھی قوانین فطرت کے ماتحت توہیں جن کے تحت عقل و علم کے بغیر حیوانات ایک محدود پیمانے پر ایسے ہی تصرفات کرتے ہیں۔ پس یہ تو وہی بندگیٔ اضطراری کا مقام ہوا جس میں حیوان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوان نے کمتر درجے کی بندگی کی، کم تر درجے کا رزق پایا۔ اس نے عقل و علم کی قوت سے اعلیٰ درجے کی بندگی کی، اعلیٰ درجے کے رزق کا مستحق ہوا۔ حیوان کو گھاس ملتی تھی۔ اس کو توس اور مکھن ملا۔ حیوان کو صوف اور اُون ملتا تھا۔ اس کو نفیس کپڑے ملے۔ حیوان کو گھونسلے میں جگہ دی جاتی تھی۔ اس کو بنگلوں اور کوٹھیوں میں ٹھیرایا گیا۔ حیوان کو پیدل دوڑنا پڑتا تھا اس کو موٹر دے دی گئی۔ یہ اس کی حیوانی بندگی اور اس کی اضطراری عبادت کا کافی انعام ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ترقی کا جو آلہ اس کو دیاگیا تھا اس سے اس نے ترقی کیا کی؟
ترقی کے معنی تو یہ تھے کہ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کو بے اختیار سجدہ کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اختیاری سجدہ بھی اسی کو کرتا۔ حیوان ہونے کی حیثیت سے جس کے حکم تکوینی (Natural Law)کی اطاعت کر رہا ہے، انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے حکم شرعی (Moral Law) کی اطاعت بھی کرتا۔ اگر یہ ترقی اس نے کی تو بے شک یہ حیوانات اور تمام موجودات پر شرف لے گیا، اس نے بالفعل وہ خلافت حاصل کرلی جس کی قوت و استعداد اس کو دی گئی تھی۔ اس نے تمام موجودات سے بڑھ کر اپنے خالق کی بندگی و عبادت کی، اس لیے تمام موجودات عالم سے زیادہ اجر کا مستحق ہوگیا۔ لیکن اگر یہ ترقی اس نے نہ کی اور آلۂ ترقی کے غلط استعمال سے الٹا تنزل کی پستیوں میں اُتر گیا تو بلا شائبہ شک و ریب تمام اسافل سے اسفل اور تمام اراذل سے ارذل بن گیا ___ اس نے خود اپنی حماقت سے اپنے کو عذاب کا مستحق بنا لیا۔[۶]
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ۴ۡ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ۵ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۶ۭ (التین ۹۵:۴-۶) ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اس کو تمام ادنیٰ درجہ والوں سے بھی ادنیٰ درجے میں پھیر دیا بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے کہ ان کے لیے بے نہایت اجر ہے۔
یہ اجمال ان تفصیلات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ ’بہترین ساخت‘ سے مراد ترقی کی وہ قوت و استعداد ہے جو انسان کو زمین کی تمام مخلوقات سے بڑھ کر دی گئی ہے۔ مگر محض بہترین ساخت پر ہونا بالفعل ترقی نہیں ہے۔
ترقی کا انحصار اس پر ہے کہ انسان اس قوت و استعداد سے کام لے کر اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے، جس کے انتہائی مرتبے کا نام ’ایمان‘ ہے، اور اس کے حکم شرعی کے تحت دنیا میں کام کرے جس کو ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جس نے یہ نہ کیا وہ ادنیٰ درجے کی مخلوقات سے بھی فروتر درجے میں گر گیا۔ اور جس نے یہ ترقی کرلی وہ ’اجر غیرممنون‘ کا مستحق ہوگیا۔ یعنی ایسا اجر جو کبھی بند ہونے والا نہیں ہے، جو دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک بلانہایت چلتا ہے۔ بندگیٔ اضطراری کے صلے میں جو اجر ملتا ہے، وہ تو منقطع ہو جاتا ہے۔ بس ایک اجل مقرر تک ہی زندگی عطا کی جاتی ہے اور ایک حدِ خاص تک ہی رزق دیا جاتا ہے۔ مگر عبادتِ اختیاری کے صلے میں وہ عیش نصیب ہوتا ہے جو خلل سے پاک ہے، وہ رزق میسر آتا ہے جس کے بند ہونے کا کوئی خوف نہیں۔
اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں، جہاں عبادت کا صحیح اور مکمل مفہوم واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہو چکا ہے کہ عبادت کے اجزائے معنوی دو ہیں، جن کی ترکیب سے عبادت کا مفہوم مکمل ہوتا ہے۔ ایک، بندگی، یعنی قانون فطرت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور اس سے منحرف نہ ہونا۔ دوسرے، پرستش جو اپنی تکمیل کے لیے دوچیزوں کی محتاج ہے:
۱- اپنے حقیقی معبود، یعنی خدائے واحد کی ایسی معرفت جو بالکل خالص ہو، جس میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو، جس میں کفر و انکار اور شک و ریب کی ذرّہ برابر آمیزش نہ ہو۔ جس میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو، کسی کے انعام کی طمع نہ ہو، کسی پر اعتماد و توکّل نہ ہو، کسی کی طرف الہٰیت و ربوبیت کو منسوب نہ کیا جائے، کسی کو نافع و ضار نہ سمجھا جائے، کسی سے عبدیت کا تعلق وابستہ نہ کیا جائے۔ اسی کا نام ’ایمان‘ ہے۔
۲- اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں اس معبود کے حکم شرعی کی اسی طرح اطاعت کرنا، جس طرح اضطراری شعبے میں اس کے حکم تکوینی کی اطاعت کی جاتی ہے، تاکہ ساری زندگی ایک ہی فرماںروا، ایک ہی حکومت اور ایک ہی قانون کی تابع فرمان ہو کر ہم رنگ وہم آہنگ ہو جائے اور اس میں کسی حیثیت سے بھی دورنگی اور ناہمواری باقی نہ رہے۔ اسی کو ’عمل صالح‘ کہتے ہیں۔
غلط کہتا ہے جو کہتا ہے کہ یہ ’عبادت صرف تسبیح و مصلّٰی اور خانقاہ تک محدود ہے‘۔
مومن صالح صرف اسی وقت اللہ کا عبادت گزار نہیں ہوتا جب وہ دن میں پانچ وقت نماز پڑھتا ہے، اور بارہ مہینوں میں ایک مہینے کے روزے رکھتا ہے اور سال میں ایک وقت زکوٰۃ دیتا ہے اور عمر بھر میں ایک مرتبہ حج کرتا ہے، بلکہ درحقیقت اس کی ساری زندگی عبادت ہی عبادت ہے:
پس، حق یہ ہے کہ اللہ کے قانون کی پیروی اور اس کی شریعت کے اتباع میں انسان دین اور دنیا کا جو کام بھی کرتا ہے وہ سراسر عبادت ہے، حتیٰ کہ بازاروں میں اس کی خرید و فروخت اور اپنے اہل و عیال میں اس کی معاشرت اور اپنے خالص دنیوی اشغال میں اس کا انہماک بھی عبادت ہے۔
مگر یہ عبادت کا ادنیٰ مرتبہ ہے۔ اس عبادت کی مثال ایسی ہے، جیسے رعیت کے عام افراد اپنے بادشاہ کے قانون کی پیروی اور اس کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔
اس سے بڑا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کا نوکر بن جائے اور اس کے قوانین کی نہ صرف خود پیروی کرے بلکہ دوسروں پر بھی ان کو نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے احکام پر نہ صرف خود عامل ہو بلکہ دنیا میں ان کے اِجرا کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ اس کی حکومت میں نہ صرف خود امن اور وفاداری اور اطاعت کیشی کے ساتھ رہے بلکہ اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی قوتیں امن کے قیام میں، بگڑی ہوئی رعایا کی اصلاح میں اور باغی و سرکش بندوں کی سرکوبی میں بھی صرف کرے اور اس خدمت میں اپنا تن من دھن سب کچھ نثار کردے:
اسی نے تمھارا نام پہلے بھی مسلم رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو۔ پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کے رستے پر جمے رہو۔
یہ ہے اس عبادت کی حقیقت جس کے متعلق لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض نماز، روزہ اور تسبیح و تہلیل کا نام ہے اور دنیا کے معاملات سے اس کو کچھ سروکار نہیں۔ حالانکہ دراصل صوم و صلوٰۃ اور حج و زکوٰۃ اور ذکر و تسبیح انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے مستعد کرنے والی تمرینات (Training Courses)ہیں، جو انسان کی زندگی کو حیوانی زندگی کے ادنیٰ مقام سے اٹھا کر انسانی زندگی کے بلند ترین مقام پر لے جاتی ہیں۔ اس کو اضطرار و اختیار دونوں میں اپنے مالک کا مطیع و فرماںبردار بندہ بنا دیتی ہیں، اور اسے بادشاۂ حقیقی کی سلطنت کا ایسا ملازم بناتی ہیں کہ اس کی خدمت وہ اپنے جسم و جان کی ساری قوتوں کے ساتھ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں کرتا ہے۔
جب انسان عبادت سے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کو وہ شرف حاصل ہوتا ہے، جس میں کائنات کی کوئی مخلوق اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ ملائکہ تک اس کے مقام سے فروتر ہوتے ہیں۔ وہ دنیا میں بالفعل خدا کا خلیفہ ہوتا ہے۔ اس کو خدا کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت نہیں دی جاتی۔ اس کی گردن میں خدا کی غلامی کے سوا کسی کی غلامی کا طوق نہیں ہوتا۔ اس کے پائوں میں خدا کی زنجیر کے سوا کسی کی زنجیر نہیں ہوتی۔ اس کا سر خدا کے حکم کے سوا کسی کے حکم کے آگے نہیں جھکتا۔ وہ خدا کا غلام اور سب کا آقا ہوتا ہے۔ وہ خدا کا محکوم اور سب کا حاکم ہوتا ہے۔ اس کو خدا کی طرف سے اس کی زمین پر حکومت کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ وہ فرعون و نمرود کی طرح باغی اور غاصب نہیں ہوتا، بلکہ شاہی فرمان سے زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اور حق کے ساتھ فرماں روائی کرتا ہے:
یہ تو دنیا کا انعام ہے۔ اور آخرت کا انعام کیا ہے؟ یہ کہ:
افسوس کہ عبادت کے اس صحیح اور حقیقی مفہوم کو مسلمان بھول گئے۔ انھوں نے چند مخصوص اعمال کا نام عبادت رکھ لیا اور سمجھے کہ بس انھی اعمال کو انجام دینا عبادت ہے اور انھی کو انجام دے کر عبادت کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔
اس عظیم الشان غلط فہمی نے عوام اور خواص دونوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ عوام نے اپنے اوقات میں سے چند لمحے خدا کی عبادت کے لیے مختص کرکے باقی تمام اوقات کو اس سے آزاد کرلیا۔ قانون الٰہی کی دفعات میں سے ایک ایک دفعہ کی خلاف ورزی کی، حدود اللہ میں سے ایک ایک حد کو توڑا، جھوٹ بولے، غیبت کی، بدعہدیاں کیں، حرام کے مال کھائے، حق داروں کے حق مارے، کمزوروں پر ظلم کیا، نفس کی بندگی میں دل، آنکھ، ہاتھ اور پائوں سب کو نافرمانی کے لیے وقف کر دیا، مگر پانچ وقت کی نماز پڑھ لی، زبان اور حلق کی حد تک قرآن کی تلاوت کرلی، سال میں مہینے بھر کے روزے رکھ لیے، اپنے مال میں سے کچھ خیرات کردی، ایک مرتبہ حج بھی کر آئے اور سمجھے کہ ہم خدا کے عبادت گزار بندے ہیں۔
خواص نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ تسبیح و مصلّٰی لے کر حجروں میں بیٹھ گئے۔
خدا کے بندے گمراہی میں مبتلا ہیں، دنیا میں ظلم پھیل رہا ہے۔ حق کی روشنی پر باطل کی ظلمت چھائی جارہی ہے، خدا کی زمین پر ظالموں اور باغیوں کا قبضہ ہو رہا ہے، الٰہی قوانین کے بجائے شیطانی قوانین کی بندگی خدا کے بندوں سے کرائی جارہی ہے، مگر یہ ہیں کہ نفل پر نفل پڑھ رہے ہیں، تسبیح کے دانوں کو گردش دے رہے ہیں، ہو حق کے نعرے لگا رہے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں مگر محض ثوابِ تلاوت کی خاطر، حدیث پڑھتے ہیں مگر صرف تبرکا ً، سیرت پاک اور اسوۂ صحابہ پر وعظ فرماتے ہیں، مگر قصہ گوئی کا لطف اٹھانے کے سوا کچھ مقصود نہیں، دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کا سبق نہ ان کو قرآن میں ملتا ہے، نہ حدیث میں، نہ سیرت پاک میں، نہ اسوۂ صحابہ میں۔
کیا یہ عبادت ہے؟ کیا یہی عبادت ہے کہ بدی کا طوفان تمھارے سامنے اُٹھ رہا ہو اور تم آنکھیں بند کیے ہوئے مراقبے میں مشغول رہو؟
کیا عبادت اسی کو کہتے ہیں کہ گمراہی کا سیلاب تمھارے حجرے کی دیواروں سے ٹکرا رہا ہو اور تم دروازہ بند کرکے نفل پر نفل پڑھے جائو؟
کیا عبادت اسی کا نام ہے کہ کفار چار دانگ عالم میں شیطانی فتوحات کے ڈنکے بجاتے پھریں، دنیا میں انھی کا علم پھیلے، انھی کی حکومت کار فرما ہو، انھی کا قانون رواج پائے، انھی کی تلوار چلے، انھی کے آگے بندگان خدا کی گردنیں جھکیں اور تم خدا کی زمین اور خدا کی مخلوق کو ان کے لیے چھوڑ کر نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور ذکر و شغل کرنے میں منہمک ہو جائو؟
اگر عبادت یہی ہے جو تم کررہے ہو، اور اللہ کی عبادت کا حق اسی طرح ادا ہوتا ہے تو پھر یہ کیا ہے کہ عبادت تو تم کرو اور زمین کی حکومت و فرماںروائی دوسروں کو ملے؟ کیا معاذ اللہ، خدا کا وہ وعدہ جھوٹا ہے جو اس نے قرآن میں تم سے کیا تھا کہ:
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا ۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ (النور ۲۴:۵۵) تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو یقیناً زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا چکا ہے اور ضرور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مضبوطی کے ساتھ قائم کرے گا۔ اور بالیقین ان کی حالت ِخوف کو امن سے بدل دے گا بس وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔
اگر خدا اپنے وعدے میں سچا ہے، اور اگر یہ واقعہ ہے کہ تمھاری اس عبادت کے باوجود نہ تم کو زمین کی خلافت حاصل ہے، نہ تمھارے دین کو تمکن نصیب ہے، نہ تم کو خوف کے بدلے میں امن میسر آتا ہے، تو تم کو سمجھنا چاہیے کہ تم اور تمھاری ساری قوم عبادت گزار نہیں بلکہ تارکِ عبادت ہے اور اسی ترکِ عبادت کا وبال ہے، جس نے تم کو دنیا میں ذلیل کر رکھا ہے۔
(ماہ نامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد، دکن، جولائی ۱۹۳۵ء، ص ۱۳-۲۷، یکم اگست،ص ۱۱-۲۱)
_______________
حواشی
[۱] بلکہ علم الانسان کی تازہ ترین تحقیقات سے تو یہ عجیب حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اوّلین انسانی تہذیب کی حامل قوموں میں خالص توحید کا عقیدہ پایا جاتا ہے اور وہ شرک کے اثرات سے بالکل پاک ہیں (ملاحظہ ہو، کتاب علم الاقوام، مصنّفہ ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایہرن فیلس[ترجمہ: ڈاکٹر سیّدعابد حسین]، شائع کردہ انجمن ترقی اُردو، دہلی، ۱۹۴۱ء، دو حصے)۔ یہ قرآن کریم کے اس بیان کی پوری پوری تصدیق ہے کہ انسان کا اوّلین مذہب توحید ہے اور شرک بعد کی پیداوار ہے۔ ان تحقیقات نے انیسویں صدی کے فلسفۂ مذہب کا نظریہ اُلٹ دیا۔(مصنف)
[۲] ان معلومات کے لیے کتابِ مذکور [علم الاقوام]کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔
[۳] معترض کہہ سکتا ہے کہ ایسے افراد بکثرت پائے جاتے ہیں اور ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں اور تقریباً ہرزمانے میں موجود رہی ہیں، جن کا کوئی مذہب نہیں اور جو عملاً و اعتقاداً کسی کی عبادت نہیں کرتیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مخنثوں کی ایک کثیرتعداد کا موجود ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ جذبۂ شہوت ایک فطری جذبہ نہیں ہے اور جس طرح مجردوں اور راہبوں کے ایک بڑے گروہ کا وجود اس بات کی دلیل نہیں کہ اَزدواج کی خواہش ایک فطری خواہش نہیں ہے، اسی طرح ایسے افراد یا جماعتوں کا موجود ہونا بھی جن کے اندر مخصوص اسباب کے تحت عبادت کا فطری جذبہ مُردہ یا بے حس ہوچکا ہے، اس دعوے کی دلیل نہیں بن سکتا کہ انسان میں عبادت کا جذبہ ایک فطری جذبہ نہیں ہے۔
[۴] آج کل مذہب پر لکھنے والے مصنّفین کا رجحان زیادہ تر تاریخی ارتقاء کے نظریہ کی طرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان نے ابتدا شرک کی ادنیٰ شکلوں سے کی تھی۔ جوں جوں شعور بڑھتا گیا، معبودوں کا معیار اُونچا ہوتا گیا اور ان کی تعداد گھٹتی چلی گئی، یہاں تک کہ ترقی کرکے انسان توحید تک پہنچا۔ لیکن تاریخ خود اس تاریخی نظریہ کا ابطال کرتی ہے۔ مسیح سے ڈھائی ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم ؑ خالص توحید کے پرستار تھے اور مسیح سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں کروڑوں آدمی شرک کے پرستار موجود ہیں۔ کیا یہ تاریخی ارتقاء کا ثبوت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ادنیٰ ترین شرک سے لے کر بلند ترین توحید تک عبادت اور عقیدت کی تمام اقسام ہرزمانے میں پائی گئی ہیں اور آج تک پائی جاتی ہیں۔ تفاوت دراصل مختلف انسانوں کے عقلی و ذہنی مدارج میں ہے، نہ کہ تاریخی ترتیب میں۔
[۵] ان معبودوں میں انسان کی اپنی ہوائے نفس بھی شامل ہے، جو شخص خدا کی بندگی نہیں کرتا، وہ یا تو بتوں اور مصنوعی معبودوں کی بندگی کرتا ہے، یا فرعون صفت انسانوں کی، یا پھر اپنی خواہشات کی۔
[۶] یہ بحث نہایت غوروتامّل کی مستحق ہے۔ اس مسئلے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ خدا کے قانونِ طبیعی یا حکم تکوینی کی اطاعت ہی کو اصل عبادت سمجھتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ جو شخص یا گروہ اس عبادت کا حق ادا کردے وہی عابد اور صالح اور ان تمام وعدوں کا مستحق ہے جو قرآن میں صالحین سے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ انسان سے جو عبادت مطلوب ہے وہ محض حکم تکوینی کی اطاعت ہی نہیں بلکہ حکم شرعی کی اطاعت بھی ہے۔
[۷] یعنی اپنی زبان سے، اخلاق سے ، کردار سے ، اپنی زندگی کے پورے رویے سے اور پھر اپنی قربانیوں سے، محنتوں سے، کوششوں سے اور جفاکشیوں سے اسلام کی صداقت پر گواہی دو۔ ایک طرف ساری دُنیا کے سامنے اپنے قول وعمل سے اسلام کا مظاہرہ بھی کرو اور دوسری طرف اسلام کی راہ میں جانفشانی کرکے یہ بھی ثابت کردو کہ تم واقعی اس دین پر ایمان لائے ہو، اور تمھارے نزدیک یہ ایسی صداقت ہے جس پر تن من دھن سب کچھ نثار کیا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم پر اعتراضات کا سلسلہ اس کے زمانۂ نزول ہی سے شروع ہوگیا تھا ۔ مشرکینِ مکہ نے، جو اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے، اس پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے۔ کبھی اسے گھڑی ہوئی کہانیاں(اساطیر) قرار دیا تو کبھی شعر، کہانت یا جادو کہا۔ اور پھر ہجرتِ مدینہ کے بعد یہود کی جانب سے بھی برملا، قرآن پر مختلف اعتراضات کیے جانے لگے۔ قرآن نے ان تمام اعتراضات کا مدلّل جواب دیا۔ بعد کے زمانوں میں بھی قرآن پر اعتراضات و الزامات کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ مراد یہ کہ ہردور میں دشمنانِ اسلام نے قرآن کو نشانہ بنایا۔ اس سلسلے میں خصوصیت سے مستشرقین (Orientalists) پیش پیش رہے ہیں اگرچہ انھوں نے قرآنیات کے میدان میں اہم تحقیقی اُمور انجام دیے، لیکن ان کے پس پردہ ، اسلام دشمنی کارفرما رہی ہے۔ انھوں نے قرآن کی حقیقی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اس کی جانب بے بنیاد باتیں منسوب کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔
مثال کے طور پرچند برس قبل ہندو انتہاپسند تنظیم ’اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا‘ نے ’دیش میں دنگے کیوں ہوتے ہیں؟‘ کے عنوان سے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا، جس میں قرآن کی ۲۴ آیتوں کے اجزا نقل کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی: ’قرآن، مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے جھگڑا کرنے کا حکم دیتا ہے‘۔ اور کہا گیا تھا:’ جب تک ان آیات کو قرآن سے نکالا نہیں جاتا یہاں کے جھگڑوں کو نہیں روکا جاسکتا‘۔ انھی الزامات کے تحت کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا اور قرآن پر پابندی عائد کروانے کی کوشش کی گئی تھی، مگر فاضل ججوں نے موقف سننے کے بعد مقدمہ خارج کردیا تھا۔افسوس کہ اب یہی بات ایک ایسے شخص کی جانب سے کہی گئی ہے جس کا نام مسلمانوں جیسا ہے۔اس نے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے کہ’’ ان آیات کو قرآن مجید سے خارج کردیا جائے‘‘۔
آیندہ سطور میں مذکورہ بالا اعتراضات کا تذکرہ کرکے ان کا جائزہ پیش کیا جائے گا:
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ’’قرآن نے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے لفظ ’کافر‘ استعمال کیا ہے۔ ان میں ’ہندو‘ بھی شامل ہیں۔ اس لفظ میں نفرت اور حقارت کا مفہوم شامل ہے۔ کافروں کے بارے میں قرآن میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان سے دنیا میں جس طرح کا معاملہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے او رمرنے کے بعد دوسری دنیا میں ان کے ساتھ جیسا معاملہ کیے جانے کی خبر دی گئی ہے، انھیں پڑھ کر مسلمانوں کے دلوں میں ان سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان سے دُور رہنے اور ہر طرح کا تعلق منقطع رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے‘‘۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لفظ ’کافر‘ کا یہی مفہوم ہے؟عربی زبان میں لفظ’ کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانکنے کے ہیں۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں، سب میں یہ معانی کسی نہ کسی شکل میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ ماہر لغت ابن درید الازدی نے لکھا ہے:
وَأَصْلُ الْکُفْرِ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّيْءِ (جمہرۃ اللغۃ، ج۱،ص ۴۳۵)کفر کی اصل ہے کسی چیز کو ڈھانک لینا۔
اسی لیے اہلِ عرب لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر کرتے ہیں، جو کسی چیز کو ڈھانپ لے۔ مثال کے طور پر ان کے کلام میں درج ذیل چیزوں کے لیے اس لفظ کا استعمال ملتا ہے:
اسی طرح عربی زبان میں ’کفر‘ ناشکری کے معانی میں بھی آتا ہے۔ اس میں بھی اس کے اصلی معانی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص کسی کی ناشکری کرتا ہے، وہ گویا اپنے محسن کے احسان کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جمہرۃ اللغۃ میں ہے:
وَکَفَرَ فُلَانٌ النِّعْمَۃَ اِذَا لَمْ یَشْکُرْہَا (جمہرۃ اللغۃ، ابن درید، ج۱،ص ۴۳۵) (فلاں نے نعمت کا کفر کیا، یعنی اس پر شکریہ ادا نہیں کیا)
البتہ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کا غالب استعمال، اسلام وایمان کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر ہوتا ہے۔ ماہرینِ لغت میں ازدی نے لکھا ہے: اَلْکُفْرُ ضِدُّ الْاِسْلَامِ (کفر اسلام کی ضد ہے ) ۔ جوہری اور فیروزآبادی کہتے ہیں: اَلْکُفْرُ ضِدُّ الْاِیْمَانَ(کفر ایمان کی ضد ہے)۔
قرآن کریم میں لفظ ’کفر‘ کااستعمال مختلف لغوی معانی کے لیے بھی ہوا ہے، اورایمان کے بالمقابل اصطلاح کے طور پر بھی۔ ایک مقام پر وہ اصل لغوی معانی ’چھپانے‘ میں آیا ہے۔ دنیاوی زندگی کو لہو و لعب قرار دیتے ہوئے اس کی یہ مثال بیان کی گئی ہے:
کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْـجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہٗ(الحدید۵۷:۲۰)اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے۔
اس آیت میں کسانوں کے لیے لفظ ’کفّار‘ لایا گیا ہے۔ کسان کو ’کافر‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کھیتی کے دوران بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔بعض مقامات پر اس کا استعمال شکر کے بالمقابل ناشکری کے معنوں میں ہوا ہے:
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۱۵۲ۧ (البقرہ ۲:۱۵۲) لہٰذا، تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، ناشکری نہ کرو۔
اِنَّـا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶:۳)ہم نے اسے راستہ دکھادیا، اب خواہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
اور چوں کہ ناشکری نعمت کے انکار کو مستلزم ہے،اس لیے بعض مقامات پر یہ انکار اور برأت کے معانی میں آیاہے:
اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًا۰ۙ مَّوَدَّۃَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۡ (العنکبوت۲۹:۲۵)تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنالیا ہے، مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کروگے۔
اس مضمون کی بہت سی آیات ہیں۔ یہاں دو آیات مثال کے طور پر درج کی جاتی ہیں:
وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۱۰۸ (البقرہ۲: ۱۰۸)جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ ِراست سے بھٹک گیا۔
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۰ۚ (البقرہ۲: ۸۵)کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟
مفسرین اور ماہرین ِ لغت نے صراحت کی ہے کہ لفظ ’کافر‘ میں وہ تمام معانی پائے جاتے ہیں، جن کے لیے اس کا عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے:
علامہ ابن جوزیؒ نے لکھا ہے: ’’لغت میں کفر کے معنٰی چھپانے کے ہیں۔ کافر کو کافر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ حق پر پردہ ڈال دیتا ہے‘‘۔(زادالمیسر: ج۱،ص۲۷۲)
جوہری فرماتے ہیں:’’کافر کو کافر اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کے احسانات کا انکار کرتا ہے اور اس کی نعمتوں کو چھپا لیتاہے‘‘۔(تاج اللغۃ: ج۱،ص۳۹۵)
بعض مسلمانوں کی جانب سے ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’ایسے ہر شخص کو جو اسلام کی اساسیات پر ایمان نہ رکھتا ہو، کافر نہیں کہا جاسکتا، یہ لفظ ’غیر مسلم‘ کے مترادف نہیں ہے۔ کافر اسی شخص کو کہا جاسکتا ہے، جس تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے اور اس پر اتمام ِحجت کردی جائے، اس کے باوجود وہ اسلام قبول نہ کرے۔ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طور پر کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ لیکن یہ صحیح بات نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ لفظ ’کافر‘ کااستعمال ’ایمان‘ اور ’اسلام‘ کے بالمقابل ہوا ہے۔ جو شخص بھی اللہ کے دین کو نہ مانے اور اسلامی عقائد کو تسلیم نہ کرے، وہ کافر ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات کریمہ میں لفظ کفر کی نسبت یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی طرف کی گئی ہے۔
اسلام اصولی طور پر دینِ حق کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان فرق کرتا ہے ، تاکہ اس کے احکام کے نفاذ کے معاملے میں دونوں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جاسکے۔ دین ِ حق کے ماننے والوں کو ان احکام کا پابند بنایا جاسکے اور نہ ماننے والوں کو ان کی پابندی سے مستثنیٰ رکھا جاسکے۔ جہاں تک لغوی معانی کا تعلق ہے، اس لفظ کے ذریعے نہ غیر مسلموں سے نفرت کا اظہارکیا گیا ہے اور نہ اس میں لغوی طور پر بُغض، نفرت، حقارت اور ذلّت کے معانی پائے جاتے ہیں۔
ہندواور مغربی معترضین کی جانب سے ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ’’ قرآن میں جہنم کے عذاب کاتذکرہ تفصیل سے کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے، انھیں جہنّم کا عذاب دیا جائے گا‘‘۔ مثال کے طور پر وہ ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں:
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۰ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۵۶ (النساء۴:۶ ۵) جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا ہے، انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔
فَلَنُذِيْقَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَذَابًا شَدِيْدًا۰ۙ وَّلَنَجْزِيَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۲۷ ذٰلِكَ جَزَاۗءُ اَعْدَاۗءِ اللہِ النَّارُ۰ۚ لَہُمْ فِيْہَا دَارُ الْخُلْدِ۰ۭ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۲۸ (حٰم السجدۃ ۴۱ :۷ ۲-۲۸) ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزہ چکھا کر رہیں گے اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں ان کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔ وہ دوزخ ہے جو اللہ کے دشمنوں کو بدلے میں ملے گی۔ اسی میں ہمیشہ کے لیے ان کا گھر ہوگا۔ یہ ہے سزا اس جرم کی کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔
کافروں کو آخرت میں دی جانے والی جو سزائیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، وہ غیرمسلموں سے نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل و انصاف کے عین مطابق ہیں۔ یہ سزائیں اہلِ ایمان کے دلوں میں کافروں سے نفرت و حقارت نہیں، بلکہ ہم دردی پیدا کرتی ہیں اور انھیں آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی جدو جہد کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس دنیا میں پیدا کیا اور انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازا۔ ان کاتقاضا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے ا حکام بجالائیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے، وہ حقیقت میں بڑے ناشکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللہِ ہُمْ يَكْفُرُوْنَ۷۲ۙ (النحل۱۶:۷۲) پھر کیا یہ لوگ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔
جو لوگ اللہ کو چھوڑکر یا اس کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں،جو حقیقت میں نہ انھیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، وہ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا رویّہ بغاوت کے مترادف ہے۔ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا، جو باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ اس نے ان کے لیے آخرت میں ایسی ہی سزائیں تجویز کر رکھی ہیں، جن کے وہ مستحق ہیں:
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِہٖ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ۱۷ (یونس۱۰:۱۷) پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا، جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے، یا اللہ کی واقعی آیات کو جھوٹا قرار دے۔ یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔
یہ دنیا ’دارالامتحان‘ ہے اور آخرت ’دارالجزا‘۔ یہاں انسان جیسے کام کرے گا، اس کا بدلہ آخرت میں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں اللہ کے باغی اور مجرم بن کر رہیں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کریں، انھیں آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔ فرماں بردار اور نافرمان، اطاعت گزار اور سرکش، نیک اور مجرم ،دونوں کے انجام میں فرق کرنا عین تقاضائے انصاف ہے، لیکن یہ فرق آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کرے گا۔ اس سے دنیا میں غیر مسلموں کے انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
کہا جاتا ہے کہ قرآن میں ہندوؤں کو ناپاک اور گندا کہا گیا ہے۔ اس تعبیر سے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا ہے۔ معترضین کا اشارہ اس آیت کی طرف ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا۰ۚ (التوبۃ۹:۲۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مشرکین نجس ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔
اس آیت میں نجاست سے مراد جسمانی اور مادّی گندگی نہیں ہے، بلکہ عقیدہ کی خرابی اور شرک کی آلودگی ہے۔ اس پر مفسّرین اور علما کا اتفاق ہے۔
امام نوویؒ کے مطابق: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، مشرکین نجس ہیں۔ اس سے مراد عقیدے کی نجاست اور گندگی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ پیشاب پاخانہ جیسی چیزوں کی طرح نجس ہیں‘‘۔
اسلام عقیدے کے معاملے میں کوئی مداہنت اور رورعایت نہیں برتتا۔ وہ توحید کا علَم بردار اور شرک کے سخت خلاف ہے۔ اس کے نزدیک شرک ایسی گندگی ہے، جس سے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے کا ذہن آلودہ ہوجاتا ہے۔ وہ اس گندگی سے انسانوں کو پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اللہ واحد کی عبادت کے لیے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی، لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کے پیرو شرک میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ متعدددیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے تھے۔ خانۂ کعبہ کی دیواروں میں انھوں نے مورتیاں نصب کررکھی تھیں اور مسجد حرام میں ۳۶۰ بت رکھ دیے تھے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد جب وہاں کا اقتدار توحید کے قائلین کے ہاتھ میں آیا، تو یہ امر فطری تھا کہ وہ توحید کے مرکز کو شرک کے ان مظاہر سے پاک کردیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے اگلے سال حج کے موقعے پر اعلانِ عام کردیا گیا کہ ’’خانۂ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور مسجد ِحرام کو مقدّس مقام کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے شرک کی آلودگیوں میں مبتلا لوگوں کو آیندہ یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
جہاں تک کافروں اور مشرکوں کے ظاہر کا تعلق ہے ،اسلام نہ تو انھیں گندا قرار دیتا ہے اور نہ محض اس بنیاد پر ان سے الگ تھلگ یا دُور رہنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کفار و مشرکین کے درمیان رہتے تھے۔ ان سے آپ کا ملنا جلنا رہتا تھا، وہ مسجد میں آتے تھے، آپؐ اور آپؐ کے اصحاب ان کے برتنوں سے پیتے اور وضو کرنے کے لیے پانی لیتے، ان کا بنایا ہوا کھانا کھالیتے اور ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہن لیتے تھے۔ ایسا نہیں ہواکہ جن چیزوں پر ان کا ہاتھ لگتا ہو، یا جو چیزیں ان کے بدن کے کسی حصے سے مَس ہوتی ہوں، انھیں دھوئے جانے کا آپؐ نے حکم دیا ہو۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان فرماتے ہیں کہ قبیلۂ ثقیف کا وفد آیا تو اسے مسجد ِنبوی میں ٹھیرایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ لوگ تو مشرک ہیں‘‘ (شاید ان کی مراد یہ تھی کہ ان کی وجہ سے مسجد ناپاک ہوجائے گی)۔ آپؐ نے فرمایا:
اِنَّ الْاَرْضَ لَا یُنَجِّسُہَا شَيْءٌ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الصلوٰۃ، باب المشرک یدخل المسجد، حدیث: ۱۵۵۸)زمین اس جیسی کسی چیز سے ناپاک نہیں ہوتی۔
حضرت عمران بن حصینؓ ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کا حال بیان کرتے ہیں کہ راستے میں ایک پڑاؤ پر پانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کچھ صحابہ تلاش کے لیے نکلے۔ ایک غیر مسلم عورت پانی کے دو مشکیزوں کے ساتھ ملی۔ وہ اسے آںحضرتؐ کے پاس لے آئے۔ آپؐ نے اور تمام صحابہ نے اس سے پانی لے کر اپنی پیاس بجھائی۔ (صحیح البخاری: ۳۵۷۱،مسلم: ۶۸۲)
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ہم جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ غیرمسلموں کے کھانے پینے کے جو برتن ہمارے ہاتھ لگتے تھے، انھیں ہم استعمال کرتے تھے۔ اس پر آپ ہماری کچھ نکیر نہیں کرتے تھے۔ (ابوداؤد:۸۳۸ ۳)
حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیرمسلموں کے ان برتنوں کے بارے میں دریافت کیا، جن کے متعلق امکان ہوکہ ان میں وہ خنزیر کا گوشت پکاتے اور شراب پیتے رہے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر دوسرے برتن موجود ہوں تو ان مشتبہ برتنوں کو نہ استعمال کرو، [اور وہ] موجود نہ ہوں تو انھی کو اچھی طرح دھوکر استعمال کرسکتے ہو۔ (بخاری:۵۴۹۶، مسلم:۱۹۳۰)
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مشرکین کی نجاست سے مراد عقیدے کی خرابی ہے، نہ کہ ظاہری گندگی۔جہاں تک انسانی تعلقات اور زندگی کے عام معاملات کا سوال ہے، ان میں مشرکین کے ساتھ کوئی بھیدبھاؤ نہیں رکھاگیا ہے اور کسی حال میں ایسا رویہ نہیں اختیار کیا گیا ہے، جس سے ان کے سلسلے میں نفرت اور حقارت کا اظہار ہو۔
معترضین کی جانب سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ’’قرآن میں مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور انھیں دشمن کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دشمنوں کے بارے میں نفرت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں‘‘۔ اس اعتراض پر بہ طور دلیل اس طرح کی آیات پیش کی جاتی ہیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰ۭ (النساء۴: ۱۴۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَاۗءَكُمْ مِّنَ الْحَـقِّ۰ۚ (الممتحنۃ۶۰:۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی کی طرح ڈالتے ہو، حالاںکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کرچکے ہیں۔
ان آیات پر ان کے صحیح تناظر میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اہلِ ایمان سے کہا گیا ہے کہ وہ کافروں کو ’اولیاء‘ نہ بنائیں۔ ’اولیاء‘ ولی کی جمع ہے۔ اس کا مصدر ’ولاء‘ ہے۔ ’ولاء‘ کا مفہوم یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد چیزیں اس طرح یکجا ہوں کہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز نہ ہو، جو ان سے متصادم ہو۔ اسی سے استعارۃً یہ لفظ’ قربت‘ کے معانی میں استعمال ہونے لگا، خواہ یہ قربت جگہ ، تعلق کی، یا مذہب، دوستی اور عقیدے کی ہو۔ جس شخص سے مذکورہ نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کاتعلق ہو، اس کے لیے ’ولی‘ اور ’مولیٰ‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں۔
لفظ ’مولیٰ‘ کا اطلاق عربی زبان میں بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔مثلاً ربّ، مالک، آقا، محسن، غلام آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، تابع داری کرنے والا، پڑوسی، چچازاد بھائی، حلیف، جس سے عہد وپیمان ہو، قرابت دار (داماد)، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا جائے۔
علامہ ابن اثیرؒ فرماتے ہیں:اس لفظ کا استعمال حدیث میں ان میں سے بیش ترمعانی میں ہوا ہے۔ ہرجگہ سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کن معنوں میں آیا ہے۔ (النہایۃ: ۴/۱۳۲)
مذکورہ بالا آیتوں اوران جیسی دیگر آیتوں میں لفظ ’اولیاء‘ انتہائی قربت کے معنٰی میں آیا ہے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
اَوْلِیَاءَ: أَیْ لَا تَجْعَلُوْا خَاصَّتَکُمْ وَبِطَانَتَکُمْ مِنْہُمْ (تفسیرقرطبی: ج۵، ص۵۲۴) کافروں کو اپنا ولی، یعنی بہت قریبی اور رازدار نہ بناؤ۔
علامہ زمخشریؒ اس کایہ مفہوم بتاتے ہیں:
لَا تَتَّخِذُوْہُمْ أَوْلِیَاءَ تَنْصُرُوْنَہُمْ وَتَسْتَنْصِرُوْنَہُمْ وَتُؤَاخُوْنَہُمْ وَ تُصَافُوْنَہُمْ وَتُعَاشِرُوْنَہُمْ مُعَاشَرَۃَ الْمُؤْمِنِیْنَ (کشاف:ج۱، ص۶۴۲) کافروں کو اولیاء نہ بناؤ، یعنی ان سے تمھارا معاملہ ایسا نہ ہو کہ تم ان کی مدد کرو، ان سے مدد چاہو، ان سے بھائی چارہ اور خلوص و محبت کے تعلقات رکھو اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہو، جس طرح اہل ایمان باہم رہتے ہیں۔
ان حالات کو بھی نگاہ میں رکھنا ضروری ہے، جن میں مسلمانوں کو کافروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ مسلمان سخت حالات سے گزر رہے تھے۔ ان کے خلاف ان کے دشمنوں نے جنگ برپا کررکھی تھی اور انھیں بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھے۔ یہود و نصاریٰ کا رویّہ کھلی دشمنی پر مبنی تھا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دے رہے تھے۔
تیسرا گروہ ’منافقین‘ کا تھا جو ظاہر میں اسلام کا دم بھرتے تھے اور انھوں نے خود کو مسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافروں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انھیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد تھے۔ ایسے حالات میں اپنے دشمنوں سے قریبی تعلق رکھنا مسلمانوں کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔ یہ چیز دینی حیثیت سے بھی ضرر رساں تھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔ اسی لیے قرآن نے الگ الگ ہر گروہ کے بارے میں وضاحت سے مسلمانوں کو تاکید کی کہ ان سے ’ولایت‘ کا تعلق نہ رکھیں۔ کفّار کے بارے میں کہا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰ۭ (النساء ۴:۱۴۴) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
یہود و نصاریٰ سے تعلقات کے بارے میں بھی یہی حکم دیا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ (المائدہ۵:۵۱)اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے۔
منافقین کے بارے میں فرمایا:
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ (النساء۴: ۸۹) وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔ لہٰذا، ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ۔
اس معاملے میں قرآن نے اس حد تک تاکید کی کہ جن لوگوں کے باپ اور بھائی دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں اور انھوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ہے، ان سے بھی قربت کا ویسا تعلق نہ رکھا جائے، جیسا کہ اہل ایمان کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ مبادا ان کے واسطے مسلمانوں کے راز کفار تک پہنچ جائیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۳ (التوبۃ۹:۳ ۲) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ، اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔
قرآن کریم کی بعض آیات میں ان اسباب کی وضاحت کردی گئی ہے، جن کی بناپر مسلمانوں کے علاوہ دوسروں سے قربت کا تعلق رکھنے سے منع کیا گیا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ اَوْلِيَاۗءَ۰ۚ (المائدہ۵:۷ ۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے پیش رَو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ (الممتحنہ۶۰: ۱) اے لوگو جوایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔
اسی سورت میں آگے ہے:
اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۹ (الممتحنہ ۶۰: ۹) وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم ان لوگوں سے دوستی کرو، جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ ان سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ ان لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور کھیل بنارکھا ہے، اس کے سلسلے میں وہ سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ وہ تمھارے دشمن ہیں، اور تیسری آیت میں یہ وضاحت کی گئی کہ وہ محض دین کی وجہ سے تم سے جنگ کررہے ہیں، تمھیں تمھارے وطن سے نکالا ہے یا اس میں مدد کی ہے۔ یہ اسباب بجا طور پر اس بات کے متقاضی تھے کہ ان سے قریبی تعلق نہ رکھا جائے۔
یہی مضمون آل عمران میں یوں مذکور ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْ لُوْنَكُمْ خَبَالًا۰ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ۰ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۰ۭ (آل عمران۳:۱۸ ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔
اس آیت میں لفظ بطانۃ کے استعمال میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔’ بطانۃ‘ کپڑے کے اندرونی حصے کو کہتے ہیں، جو جسم سے متصل ہوتا ہے۔ بہ طور استعارہ اس کا اطلاق اس شخص پر کیا جاتا ہے، جسے آدمی اپنا گہرا دوست ، ہم دم اورہم راز بنالے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے علاوہ دوسروں سے اتنا قریبی تعلق استوار نہ کرلو کہ ان پر اپنے راز منکشف کردو۔ اس لیے کہ وہ لوگ تمھارے بہی خواہ نہیں ہیں، تمھیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور تم سے دشمنی اور نفرت ان کے رویّے سے عیاں ہے۔
قریبی تعلق سے ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو عام غیر مسلموں کے ساتھ انسانی تعلقات رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ایسا تعلق رکھنے کی ہے، جس سے اسلامی ریاست کے سیاسی و عسکری راز دشمنوں پر افشا ہوجائیں اور مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہ ممانعت صرف ان لوگوں سے ہے جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہوں یا ان کے دشمنوں کے مددگار بنے ہوئے ہوں۔ رہے وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ مصروفِ جنگ نہ ہوں اور نہ ان کا طرزِ عمل عداوت اور ظلم و ستم پر مبنی ہو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کرنے، اچھے تعلقات رکھنے اور بھلا برتاؤکرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸(الممتحنۃ۶۰: ۸) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
غیر مسلموں سے تعلقات کے سلسلے میں یہ ایک بہت بنیادی آیت ہے۔ اس میں دو الفاظ آئے ہیں: أَنْ تَبَرُّوْہُمْ اور تُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ۔’ برّ‘ سے مراد ہے حسن سلوک اور صلہ رحمی کرنا۔ اس میں زیادہ حسن سلوک کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے (البرّ: التوسّع في الاحسان الیہ) [راغب اصفہانی] تُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ کے معنٰی بعض مفسرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرو، جب کہ بعض دیگر مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ صلہ رحمی کے طور پر اپنے مال کا کچھ حصہ انھیں دو: أَنْ تُعْطُوْہُمْ قِسْطًا مِنْ أَمْوَالِکُمْ عَلٰی وَجْہِ الصِّلَۃِ۔ [ابن العربی، ماوردی، قرطبی]
امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
ہٰذِہِ الآیَۃٌ رُخْصَۃُ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِيْ صِلَۃِ الَّذِیْنَ لَمْ یُعَادُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَمْ یُقَاتِلُوْہُمْ (تفسیر قرطبی:ج۱۸، ص۵۹) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان غیرمسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی اجازت دی ہے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور ان سے جنگ نہیں کی۔
امام رازیؒ فرماتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ التَّأْوِیْلِ: ہٰذِہِ الآیَۃُ تَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ الْبِرِّ بَیْنَ الْمُشْـرِکِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِنْ کَانَتِ الْمُوَالَاۃُ مُنْقَطِعَۃً (تفسیر کبیر:ج۲۹،ص۵۲۱) مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان نیکی اور حُسن سلوک کا معاملہ جائز ہے، اگرچہ ان کے درمیان موالات (یعنی قریبی تعلق رکھنا) ممنوع ہے۔
اس سے واضح ہوا کہ غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ممانعت صرف ’ولایت‘ یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے۔ جہاں تک عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:
اَلْاِحْسَانُ وَالْہِبَۃُ مُسْتَثْنَاۃٌ مِنَ الْوِلَایَۃِ (تفسیرقرطبی:ج۸،ص۹۴) غیرمسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور انھیں کچھ دینا ’ولایت‘ میں شامل نہیں ہے۔
امام رازیؒ نے لکھا ہے:’’مومن کے کافر کو ’ولی‘ بنانے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱- وہ اس کے کفر کو پسند کرتا ہو، اس کے باوجود اس سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہو۔
۲- اس کو برسر باطل سمجھنے کے باوجود رشتہ داری یا قلبی تعلق کے سبب اس کی طرف مائل ہو، اس سے تعاون، حمایت اور نصرت کرتا ہو۔
۳- دنیاوی معاملات میں اچھے تعلقات کا اظہار کرتا ہو۔
اوّل الذکر دو صورتیں ممنوع ہیں، تیسری صورت ممنوع نہیں ہے‘‘۔ (تفسیرکبیر: ج۲،ص۴۵۰)
معترضین کی جانب سے قرآن پر ایک بڑا، بلکہ شاید سب سے بڑا اعتراض اس کے تصوّرِ جہاد پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں سے جنگ کریں، ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیں، ان کے لیے گھات لگائیں اور انھیں جہاں پائیں قتل کریں‘‘۔ بہ طور دلیل یہ آیات پیش کی جاتی ہیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَۃً۰ۭ (التوبۃ۹:۲۳ ۱) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جنگ کرو ان کافروں سے جو تمھارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمھارے اندر سختی پائیں۔
فَاقْتُلُوا الْمُشْـرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ۰ۚ (التوبۃ۹: ۵) تو مشرکوں کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انھیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْہِمْ۰ۭ وَمَاْوٰىہُمْ جَہَنَّمُ۰ۭ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۹ (التحریم۶۶: ۹) اے نبیؐ! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۱۴(التوبۃ ۹: ۱۴) ان سے لڑو، اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انھیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمھاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۔
قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰي يُعْطُوا الْجِزْيَۃَ عَنْ يَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ۲۹ (التوبۃ۹: ۲۹) جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔
اس طرح آیاتِ مقدسہ پیش کرکے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ’’جب تک یہ آیات موجود ہیں، اس وقت تک مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان بقائے باہم ممکن نہیں‘‘۔
یہ غلط فہمی، درحقیقت جنگ کے بارے میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو صحیح تناظر میں نہ دیکھنے اور متعلقہ آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹاکر پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ اس موضوع پر متعدد پہلوؤں سے غور کرنے کی ضرورت ہے:
اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۳ (الدھر۷۶: ۳) ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ (الکہف ۱۸: ۲۹) صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے۔ اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ (الحج ۲۲: ۳۹-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوںکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے، صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ہمارا ربّ اللہ ہے۔
اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جنگ کا آغاز مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، بلکہ جنگ ان پر تھوپی گئی تھی۔ دشمنوں کا منصوبہ تھا کہ مسلمانوں کو ، جو ابھی کم زور ہیں، ابتدائی مرحلے ہی میں کچل دیں اور اسلام کی شمع کو اپنی پھونکوں سے گُل کردیں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا منہ توڑ جواب دیں اور ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں، لیکن اس وقت بھی انھیں تاکید کی گئی کہ ان کے ساتھ جتنی زیادتی کی گئی ہے اتنا ہی بدلہ لیں، حد سے تجاوز نہ کریں:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۱۹۰ (البقرہ۲: ۱۹۰)اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
أَمْرُ الْـجِہَادِ مَوْکُوْلٌ اِلَی الْاِمَامِ وَاجْتِہَادِہٖ، وَیَلْزَمُ الرَّعِیَّۃَ طَاعَتُہٗ فِیـْمَا یَرَاہُ مِنْ ذٰلِکَ (المغنی:ج۹،ص۲۰۲)’’جہاد کا معاملہ سربراہِ ریاست کے ذمّے ہے۔ وہی اس کا فیصلہ کرے گا اور رعایا پر اس کے فیصلے کو تسلیم کرنا لازم ہے۔
اسی طرح جس قوم سے جنگ ہورہی ہو، اس کے صرف ان افراد کو قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو جنگ میں عملاً حصہ لے رہے ہوں، یا اس کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غیر متعلق لوگوں سے تعرّض کرنے اور انھیں نشانہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْتُلُوْا شَیْخاً فَانِیًا وَلَا طِفْلًا وَلَا صَغِیْرًا وَلَا امْرَاَۃً (ابوداؤد:کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، حدیث:۲۲۶۱) اور نہ قتل کرو کسی بوڑھے کھوسٹ کو، کسی بچے کو، کسی کم سن کو اور کسی عورت کو۔
قرآن کریم پر کیے جانے والے جملہ اعتراضات جذباتی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف غیرمسلموں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے قرآن کے مختلف مقامات سے کچھ آیات منتخب کرلی جاتی ہیں اور انھیں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے من مانے مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر ان آیات کا مطالعہ ان کے سیاق میں کیا جائے اور ان حالات کو بھی پیش نظر رکھا جائے، جن میں وہ نازل ہوئی تھیں تو کوئی اعتراض وارد نہیں ہوگا، بلکہ پڑھنے والے پر قرآن مجید کی سچائی اور معقولیت آشکارا ہوگی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا غزوہ، غزوئہ بدر ہے۔ ’غزوہ‘ عربی کا لفظ اور ’غزو‘ سے ماخوذ ہے۔ اس کا مفہوم ہے طلب کرنا ،قصد کرنا، ' کسی گروہ سے لڑائی کے لیے جانا۔اسی سے اردو میں عام مستعمل لفظ ’غاز ی‘ ہے۔ اسی سے مغز ی الکلام ہے،جس کا معنی کلام کا نچوڑ اور خلاصہ ہے ۔ مغازی سے مراد نبی کریم ؐ کی جنگی سیرت بھی ہے۔ غزوہ اصطلاحاً ایسی جنگ کو کہتے ہیں، جس میں حضور ؐ نے شرکت فرمائی،چاہے مسلح جنگ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔
علما مغازی و سیر کے نزدیک غزوات رسول کی تعداد ۲۷ہے، جن میں سے صرف ۹غزوات میں قتال پیش آیا ۔ آپ نے تقريبًا ۷۰ سرایا میں صحابہ کرام ؓ کو روانہ فرمایا۔ جن میں سے بعض کا مقصد جہاد کرنا اور بعض کا مقصد دعوت اسلام پیش کرنا تھا۔ غزوئہ بدر کی تفصیل وواقعات تو لوگ پڑھتے ہیں، لیکن اسباق کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ یہاں اس پہلو پر روشنی ڈالیں گے:
غزوۂ بدر تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے، ' جو حق وباطل کے درمیان ایک کش مکش کے نتیجے کے طور پر معرضِ وجود میں آیا اور ایک عظیم الشان عالمگیر انقلاب کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اس عظیم تاریخی غزوہ کے سب سلسلہ وار واقعات و اسباب کا گہری نظر سے جائزہ لیاجائے تو اِس میں علم و حکمت '، عبرت و موعظت ' اور احکامِ شریعت کا ایک گراںقدر خزینہ ملتا ہے؛ جس کا ایک ایک نکتہ اُمتِ مسلمہ کے لیے فلاحِ دارین کے سفر میں مشعلِ راہ کا کام دے سکتاہے ۔
حق وباطل '، خیر وشر،اسلام وجاہلیت کی حریفانہ کش مکش اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان کا اپنا وجود۔ حق و باطل کا پہلا تصادم جنت میں ہوا تھا، جہاں آدمؑ وحوا ؑحق و صداقت کے علَم بردار ' اور شیطان ملعون ' شر و باطل کا نمایندہ تھا۔اس ٹکراؤ کے بعد اللہ تعالی نے اپنے اصل منصوبۂ تخلیق کے مطابق دونوں متحارب فریقوں کو کرۂ ارض پر اتار کر معرکہ آرائی کے لیے ایک وسیع و عریض میدانِ کارزار مہیا کردیا، جہاں خیر وشر کی طاقتوں کے مابین کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
غزوۂ بدر بھی درحقیقت ' جنت سے شروع ہونے والے اسی معرکۂ خیر وشر کی ایک اہم کڑی تھی۔قرآن مجید نے اُس دِن کو جس میں یہ فیصلہ کن معرکہ پیش آیا، دو ناموں سے ذکر کیا ہے :
۱- یوم الفرقان: یعنی حق و باطل کے درمیان خطِ امتیاز کھینچنے کا دِن۔
۲- یوم التقی الجمعان: حق و باطل کے دو لشکروں کے تصادم اور ٹکراؤ کا دِن۔
اِس لحاظ سے یہ واحد ایسا معرکۂ حق و باطل ہے جس میں کفر و شر ک کے مدار المہام اِبلیسِ لعین نے بھی شرکت کی ' اور اپنے پیرو کاروں کو برملا یہ تسلی دی کہ میں تمھارے ساتھ ہوں ۔ قرآنِ مجید نے غزوئہ بدر میں اِس شرکت کا تذکرہ اِن الفاظ میں کیاہے:
وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۰ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۰ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۴۸ۧ (الانفال ۸:۴۸)اور شیطان نے ان کے کرتوت ان کی نظروں میں مزین کردیئے اور کہنے لگا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔پھر جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں بھاگ نکلا۔ کہنے لگا: میں تم سے بری الذمہ ہوں اور جو کچھ دیکھ رہاہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے '۔ مجھے تو اللہ تعالیٰ سے ڈر لگ رہا ہے ' اور اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔
غزوۂ بدر کا پہلا سبق یہ ہے کہ دشمن کی معاشی و اقتصادی قوت کو سب سے پہلے ضرب لگا کر تباہ کیا جائے '۔ جنگ ایک ایسا عمل ہے جسے شروع کرنا یا جاری رکھنا بے پناہ مالی و اقتصادی وسائل کا متقاضی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصادی و مالی لحاظ سے کمزور و پسماندہ ممالک جنگ کا جھٹکا برداشت نہیں کرسکتے۔ جنگی حکمتِ عملی کا تقاضاہے کہ دشمن کی اقتصادی قوت کو مفلوج کردیاجائے تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اترنے کی ہمت ہی نہ کرسکے '۔
نبی کریم ؐ نے بھی مدنی دور میں یہی حکمتِ عملی ' اپنے دشمنوں کے خلاف اختیار کی تھی۔ ' بخاری اور مسلم کی روایت کردہ صحیح حدیث میں ہے کہ یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے رئیس ' ثمامہ بن اثال ؓ حنفی ' گرفتار ہوکر مدینہ منورہ لائے گئے ' تو نبی کریم ؐ کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اور نبی کریم ؐ کی اجازت سے عمرہ کرنے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ' دورانِ طواف کفار قریش کو معلوم ہوا کہ انھوں نے آبائی دین ترک کردیاہے تو انھیں طعنے دینے لگے:تم بھی بے دین ہوگئے؟ تو کہا کہ میں بے دین ہرگز نہیں ہوا بلکہ حضرت محمد ؐ پر ایمان لاکر مسلمان ہوا ہوں۔ پھر انھوں نے قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:خدا کی قسم! جب تک اللہ کے رسول ؐ اجازت نہیں دیںگے، یمامہ سے گندم کا ایک دانہ تمھارے لیے نہیں آئے گا۔ ' تم نے طوافِ کعبہ میں رکاوٹ ڈالی، میں تمھارا غلہ بند کردوںگا!چنانچہ وہ عمرہ سے واپس اپنے علاقہ میں پہنچے تو خوراک ' گندم وغیرہ کی فراہمی بند کردی اور مکہ میں قحط کی سی صورت حال پیدا ہونے لگی۔ قریش کی ساری اکڑفوں ہوا ہوگئی اور نبی کریم ؐ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے، اور نبی کریم ؐ سے ثمامہ بن اثال ؓ کے نام تحریری حکم جاری کروایا کہ ان کا غلہ و خوراک کی فراہمی بحال کردو۔ ' چنانچہ ثمامہ ؓ نے تعمیلِ حکم میں فوراً غلے کی فراہمی بحال کردی۔
اقتصادی بائیکاٹ کی ایک دلیل حضرت سعد بن معاذؓ کا واقعہ بھی ہے۔ ' وہ ایک مرتبہ فتح مکہ سے قبل ' سفر مکہ پر تشریف لے گئے اور اپنے قدیم دوست امیہ بن خلف کے ہاں قیام کیا۔ جن سے طے ہوا کہ طوافِ کعبہ ایسے وقت میں کیا جائے جب عام لوگ نہ ہوں تاکہ انھیں کوئی اذیت نہ پہنچے۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت شدید دھوپ میں جب وہ طواف کر رہے تھے تو اچانک ابو جہل نے ان کو دیکھ لیا اور پھٹ پڑا :تم لوگوں نے محمد کو حفاظت اور پناہ مہیا کر رکھی ہے ! اور یہاں ہمارے شہر میں آکر اتنے اطمینان سے طواف بھی کر رہے ہو؟انھوں نے کہا: ہاں کر رہا ہوں۔ ' پھر دونوں میں تلخ کلامی ہونے لگی، تو امیہ بن خلف نے حضرت سعدبن معاذؓ سے کہا: ابو الحکم وادیٔ مکہ کے سردار ہیں۔ ' ان کے سامنے اپنی آواز اونچی مت کرو۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اس پر بڑے پُراعتماد لہجے میں کہا: اگر تم نے مجھے طوافِ بیت اللہ سے روکا تو میں تمھارا شام کا تجارتی راستہ بند کردوں گا۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خبری ترسیل کے نظام کو فعال بنایا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت اور نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ چنانچہ آپ ؐ کو اطلاع دی گئی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے کافی مالٍ تجارت لے کر واپس آرہاہے تو آپؐ نے لوگوں سے فرمایا:شاید اللہ تعالیٰ اس قافلے کو غنیمت کے طور پر ہمیں عنایت کردے۔ اس پر کچھ لوگ نکلے اور کچھ پیچھے رہ گئے کیونکہ صرف تجارتی قافلہ کو روکنا مقصود تھا، ' جس کے لیے کسی بڑی قوت کی ضرورت نہ تھی۔ مسلمانوں کی اِس خواہشِ قافلۂ تجارت کا ذکر قرآن مجید نے بھی کیا ہے:
(ترجمہ) ذرا وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہے تھے کہ دونوں گروہوں، تجارتی قافلہ اور لشکر میں سے ایک ضرور تمھارے ہاتھ لگے گا اور تم دل سے یہ چاہ رہے تھے کہ وہ تمھارے ہاتھ لگے جو کِیل کانٹے سے لیس نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے فیصلوں سے حق کا بول بالا کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔(الانفال۸:۷)
دشمن کے تجارتی و اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کا سلسلہ نبی کریم ؐ نے جاری رکھتے ہوئے ' کئی فوجی مہمات محض اس مقصد سے روانہ فرمائیں کہ قریش کے تجارتی قافلوں کوروکیں، ان کا تجارتی مال قبضے میں لیں۔ ' اِ س کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا معمول کا تجارتی راستہ جو آسان او ر قریب تھا اور مدینہ منورہ کی مغربی جانب سے گزرتاتھا، بالکل بند ہوکر رہ گیا۔ چنانچہ اب قریش نے مدینہ منورہ سے ہٹ کر ذرا دُو ر بجانبِ مشرق لیکن نسبتاً محفوظ راستہ اپنے تجارتی قافلوں کے لیے منتخب کیا تو نبی کریم ؐ کے خبررسانی کے نظام نے فوراً اطلاع دی اور نبیؐ نے نئے راستے پر بھی چھاپہ مار پارٹیاں بھیجنا شروع کردیں۔ 'انھی مہمات میں سے ایک مہم حضرت زید بن خالد ؓ کی سر کردگی میں روانہ کی گئی، جنھوں نے قریش کے تجارتی قافلے پرچھاپہ مارا، جو مدینہ منورہ کی مشرقی جانب سے ہوتاہو ا بچ کر نکلنا چاہ رہا تھا۔ حضرت زید ؓ کے اچانک چھاپہ سے وہ سخت گھبرائے۔ ان کا سارا مال و اسباب مسلمانوں نے قبضہ میں لے لیا۔ ' اس طرح شام کے ساتھ قریش کی تجارت تقریباً بند ہوکر رہ گئی۔
اس لیے سنتِ جہاد ' یہ ہے کہ مسلم امت، عوام، مجاہدین ' اور حکومت، برسرِجنگ دشمن کی اقتصادی طاقت اور معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کریں اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں دشمن کو کوئی معاشی فائدہ یا اقتصادی مفاد حاصل ہوسکے۔ بر سرِ جنگ دشمن کے ساتھ ہر قسم کی تجارت ' یا دشمن کی افرادی قوت کو روزگار مہیا کرنایہ سب کام شرعاً ممنوع ہوجائیں گے‘‘۔اگر مسلمان ممالک یہ اہتمام کریں کہ اسلام اور مسلمانوں سے کھلی دشمنی رکھنے والے ممالک کے ساتھ درآمدی یا برآمدی تجارت نہیں کریں گے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ اُن کی اقتصادی قوت کمزور ہونا شروع ہوجائے گی۔
فتح کا دارو مدار محض افواج کی کثرت ِ تعداد، ' عمدہ اسلحہ اور بہتر تیاری پر نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے فتح سے نواز دے اور جسے چاہے شکست سے دوچار کردے '۔ اگر فتح و کامیابی کثرتِ تعداد و اسلحہ پر موقوف ہوتی تو غزوئہ بدر میں لازما ًقریش کو فتح نصیب ہوتی کیونکہ لشکرِ اسلام کے مقابلے میں اُن کی تعداد تین گنا تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بدترین شکست سے دوچار کیا۔ غزوئہ بدر میں یہ ایک بڑا سبق ہے جسے قرآن نے بھی اِن الفاظ میں بیان کیا:
(ترجمہ) یہ نزول ملائکہ تمھارے لیے صرف خوش خبری ' اِطمینانِ قلب کا ذریعہ ہے ' اور فتح ونصرت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔(الانفال۸:۱۰)
غزوۂ بدر کوئی واحد مثال نہیں ہے، جس میں مٹھی بھر گروہ نے لشکرِ جرار پر فتح پائی ہو۔ فرمایا:
كَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِيْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً كَثِيْرَۃًۢ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ وَاللہُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۲۴۹ (البقرہ۲:۲۴۹)بارہا ایسا ہواہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔
غزوۂ بدر میں سبق کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں دشمن کی تعداد، 'اسلحہ، 'پڑاؤ ،نقل و حرکت اور عزائم وغیرہ کے بارے میں تازہ ترین اِطلاعات حاصل کرنے کے لیے خبررسانی کے نظام کو نہ صرف یہ کہ استعمال میں لایا گیا بلکہ نبی کریم ؐ نے بنفسِ نفیس اِس نظام میں شرکت فرما کر بہترین اسوہ قائم کیا۔ عسکری اور جہاد کے بارے میں اطلاعاتی و مخابراتی کارکنان کو شوق و ترغیب دلائی اور بذاتِ خود سرپرستی کرکے اس کی اہمیت کی جانب متوجہ کیا۔
نبی کریم ؐ، اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ آپؐ انسانی نفسیات سے گہری واقفیت رکھنے والے اور بہترین تنظیمی و عسکری صلاحیتوں کے مالک بھی تھے۔ مدینہ سے جہاد پرروانہ ہوتے وقت آپؐ نے اُس زمانے کے معروف حربی تنظیمی اصولوں کے مطابق اپنے لشکر کو ترتیب دیا، مناسب فرد کو مناسب جگہ ذمہ داری پر متعین کیا۔ پرچم عطا فرمائے۔ ' مختلف افراد اور قبائل میں مختلف ذمہ داریاں اِس طریقے سے تقسیم کیں کہ سب قبائل اور گروہوں کے ساتھ ساتھ افراد میں بھی اِحساسِ شراکت پیدا ہوا۔ آنحضوؐر زمانہ قبل از نبوت میں تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے تنازعے کو حل کرکے عوام الناس میں حکمت وتدبر اور دانش مندی کے اونچے مرتبہ پر فائز تھے۔
نبی اکرم ؐ غزوئہ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے نکلے تو حضرت عبد اللہؓ بن اُمِ مکتومؓ کو مسجد نبوی کا امام اور حضرت ابو لبابہؓ بن عبد المنذر کو مدینہ منورہ کا امیر مقررکیا۔ اس سے اسلام کی نظر میں اجتماعیت کی اہمیت و مقام معلوم ہوتاہے۔ در حقیقت اسلام نے ہر معاملے میں اجتماعیت کو ملحوظ رکھا ہے۔ عبادات میں نماز کی اجتماعی شان نمازِ باجماعت سے عیاں ہے۔ حتیٰ کہ آپؐ نے فرمایا: تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر مقررکرلیں۔
نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں افراد کار کی شدید کمی کے باوجود حضرت حذیفہؓ بن یمان اور ان کے والد کو محض اس لیے واپس کردیاکہ وہ قریش سے یہ وعدہ کرچکے تھے کہ ان کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہوںگے۔ رسول اکرم ؐ کے اس طرزِ عمل سے ایفائے عہد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ آپؐ نے ساری حیاتِ طیبہ کے دوران اس اصول کی پابندی کی۔ ' صلحِ حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندل ؓ اور بعد میں ابو بصیر ؓنہایت مظلومیت کی حالت میں قریش کی قید سے نکل کر مسلمانوں تک پہنچنے میں بمشکل کامیاب ہوئے اور بار بار عاجزانہ درخواستیں کیں کہ اُن کو قریش کے حوالہ نہ کیا جائے، لیکن باوجود اس کے کہ خود آپؐ کو ان پر ترس آتا تھا۔ لیکن آپؐ نے رحمت للعالمین اور نبی رؤف و رحیم ہونے کے باوجود معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے، ان کو واپس قریش کے حوالے کردیا۔یہ در اصل عملی تعلیم تھی کہ وعدہ اگر دشمن سے بھی کیاجائے تو اسے نبھانا اور پورا کرنا لازم ہے ۔ بالخصوص اگر عہد یا معاہدہ بین الاقوامی سطح پر غیر مسلموں کے ساتھ ہو تو اس کی پابندی نہایت ضروری ہے اور ایک اِسلامی ریاست کے خارجہ پالیسی کا طرۂ امتیاز ہی ایفائے عہد اور معاہدات کی پابندی ہونا چاہیے۔
نبی کریم ؐ غزوۂ بدر کے لیے مدینہ منورہ سے باہر نکل چکے تھے کہ عرب کا مشہور قوی الجثہ ' طاقت ور ' پہلوان حاضر ہوا اور پیش کش کی وہ بھی آپؐ کے ساتھ جنگ میں شریک ہوکر قریش کے خلاف لڑنا چاہتاہے ۔ نبی ؐ نے اُس کی پیش کش قبول نہ فرمائی اور حکمت کے ساتھ اس کے سامنے اِسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کی اور مسلمان ہوجانے کی صورت میں جنگ میں شرکت کا موقع دینے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ اُس شخص نے اِسلام قبول کرلیا اور پھر جہاد میں شرکت کی ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ غزوئہ بدر حق وباطل کے مابین پہلا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ مجاہدین حق کے لشکر میں باطل کی آمیزش کسی بھی انداز میں واقع ہو۔ کسی غیر مسلم قوت کے خلاف جہاد میں ' کسی دوسری غیر مسلم قوت سے کسی بھی طر ح کی امداد حاصل کرنا شرعا اگرچہ ناجائز نہیں تھا، لیکن نبی کریم ؐ، غزوئہ بدر کے نظریاتی پہلو کو نکھارنے کی خاطر کسی غیر مسلم کو اس میں شرکت کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔
غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم ؐ نے بچوں او ر نابالغوں کو جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی ' اور سب کم عمر بچوں کو واپس کردیا، اِلا یہ کہ کسی نے رضاکارانہ اپنی خدمات پیش کرکے شرکت پر اصرار کیا تو آنحضور ؐ نے بعض حالتوں میں اجازت دی۔ عام قاعدہ اور اصول یہی تھا کہ کم عمر بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیاجائے۔ یورپی معاشرہ چودہ صدیاں بعد اگر بچوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے کاغذی معاہدوں تک پہنچ سکا ہے تو نبی رحمتؐ نے غزوئہ بدر میں ہی بچوں کے حقوق کی عملاً حفاظت کی بہترین مثال قائم کی جس کی پابندی نبی کریم ؐ کے امتی ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔
تاہم، جو نوجوان سنِ شعور و تمیز کو پہنچ جائیں اور جہاد کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے '، 'محض رضائے الٰہی کے لیے حصہ لینا چاہیں، تو انھیں اجازت دی گئی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں بچوں کی بھی ' بہرحال ایک اہمیت ہے اور بعض اوقات یہ ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو بڑوں کے بس میں بھی نہیں ہوتے اور نوجوان تو بہرحال ہراوّل دستہ ہیں۔
اسلام دین فطرت و رحمت ہے اور اپنے پیروکاروں پر سختی و تنگی کرنا نہیں چاہتابلکہ صاحبِ عذر 'کمزوروں اور بیماروں کو اپنے احکامات میں ہر ممکن ' مناسب رعایتیں دیتاہے۔ جملہ شرعی احکامات میں انسان کی تمام فطری کمزوریوں اور مجبوریوں کی بھرپور رعایت دیتا ہے اور ایسے تمام افراد کو جہاد میں شرکت کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے جو بیمار یا معذور ہوں یا دوسری کسی واقعی مجبوری میں گرفتار ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہو سکتے ہوں۔ ' اسی وجہ سے غزوئہ بدر میں نبی کریم ؐ نے دو نابینا صحابہ کرامؓ ابواحمد عبد بن جحش اور ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہما کو شرکت سے استثنا دیا،اور حضرت عبد اللہ بن اُمِ مکتوم ؓ کو مسجد نبوی کا امام مقررکردیا۔
میدانِ عمل میں بھی آپ ؐ نے مساوات اور برابری کابے مثال نمونہ پیش کیا۔ ' ہر موقعے پر صحابہ کرام ؓ کے شانہ بشانہ کام کیا ' اور اپنے لیے کبھی کوئی امتیازی حیثیت پسند نہ کی۔ ' غزوئہ بدر میں آپ کے ساتھ سواری کی باری میں دو صحابی حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت مرثد بن ابی مرثد ؓ شریک تھے۔ دونوں نے اپنی باری پر نبی ؐ کو سوار ہونے کی پیش کش کی، جو آپ ؐ نے قبول نہ کی اور فرمایا:تم جسمانی قوت و طاقت میں مجھ سے زیادہ ' یا بڑھ کر نہیں ہو اور میں اخروی اجر سے بے نیاز و مستغنی بھی نہیں ہوں۔ اس لیے میں اپنی باری پر پیدل چلوں گا۔ ' حالانکہ اس وقت آپ کی عمر ۵۵برس تھی۔ آپ کا یہ نمونہ دیکھ کر ساتھیوں کے جوش و جذبے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اور جس فوج یا لشکر کا قائد رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر عملاً ' مصائب و تکالیف برداشت کرے، اس کے ساتھی میدان جنگ میں کبھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ آپ ؐ کی اسی تواضع، ' انکساری، ' مساوات ' و برابری کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کے ایک اشارے کے منتظر رہتے تھے،اور احکام و ارشاداتِ عالیہ کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔
اجتماعی امور میں مشاورت انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر ہے، جس کو اسلام نے صرف برقرار ہی نہیں رکھا بلکہ اس بارے میں مفصل احکامات و ضوابط بھی عنایت فرمائے ہیں: شوریٰ کامقصدیہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں کوئی شخص انفرادی سوچ و ارادے کے تحت قدم نہ اٹھائے، جب تک سب متعلقہ لوگوں سے مشاورت نہ کرلے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک فرد کے مقابلے میں کئی افراد کی رائے کے درست اور اقرب الی الصواب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ' پھر یہ کہ مشاورت میں زیر بحث معاملات کے تمام مثبت اور منفی پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ خوبیاں اور مثبت پہلو، شرکائے شوریٰ کو حوصلہ دیتے ہیں،جب کہ مشکلات اور رکاوٹوں کا حل تلاش کیا جاتاہے۔ اس طرح ایک معاملے کوجب کئی افراد مختلف انداز نظر سے دیکھتے اور مل کر سوچتے ہیں تو اس کا کوئی پہلو بھی تشنہ اور مخفی نہیں رہتا۔ ' اس لیے اسلام کی ہدایت یہ ہے کہ اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی معاملات میں بھی مشاورت کا اصول اپنایا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ اس اصول کی پابندی فرمائی۔
غزوئہ بدر کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے مدینہ منورہ سے باہر نکل کر ' قافلۂ تجارت کے ہاتھ سے چھوٹ جانے پر ' اور لشکر ِ کفار سے جنگ کے معاملہ میں صحابہ کرامؓ بالخصوص انصار سے مشورہ کیا۔ ' پھر میدانِ بدر میں لشکر کے پڑاؤ کے سلسلے میں حضرت خباب بن المنذر کا ماہرانہ مشورہ قبول فرمایا۔ پھر آپ ؐ نے اسیرانِ قریش جو جنگ ِ بدر میں گرفتار ہوئے تھے، ان ' کے مسئلے میں صحابہ کرامؓ بالخصوص دستیاب اہل الرائے حضرات سے مشورہ کیا۔آپؐ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اجتماعی معاملات بالخصوص عسکری امور میں مشاورت ضروری ہے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے جس خلوص سے پیش کی، وہ ' ایک مسلمان کے لیے اتباع کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے یہ معلوم کیا کہ جس جگہ آپ ؐ نے پڑاؤ کیا ہے، ' آیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا ہے جس کی تعمیل شرطِ اِیمان ہے اور اس سے سرِ مُو سرتابی کی گنجایش نہیں ہے یا محض جنگی تدبیر اور حکمت عملی کے تحت ' از خود اپنی رائے سے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے؟ جب نبی ؐ نے فرمایا کہ یہ محض رائے ہے، ' وحی پر مبنی کوئی فیصلہ یا قطعی حکم نہیں ہے، تب حضرت خباب بن المنذر ؓ نے اپنی رائے پیش کرنے کی جرأت کی ۔ ان کا یہ طرزِ عمل نبوی تربیت کا نتیجہ تھا۔ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان ' اپنی عمومی زندگی میں اس قاعدہ کلیہ اور شرعی اصول کی سختی کے ساتھ پابندی کرتے تھے کہ جن معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ؐ کاحکم یا فیصلہ سامنے آجاتا یا معلوم ہوجاتا، تو غیر مشروط طور پر مانتے اوربلا چون و چرا سرِ اطاعت و تسلیم خم کرتے تھے۔ ' فوری طور پر اگر اس کی حکمتیں سمجھ نہ آتیں اور فوائد معلوم نہ ہوتے تب بھی حکم بجا لاتے۔
حضرت حباب بن المنذر ؓکے واقعے میں ایک تربیتی نکتہ آداب مشاورت سے متعلق یہ بھی ہے کہ اپنی ایمان دارانہ رائے اور مخلصانہ مشورہ کو متعلقہ لوگوں تک پہچانے میں بخل ، سستی یا کاہلی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ جہاں ضرورت محسوس کرے از خود ' بغیر طلب کیے آگے بڑھ کرخیر پرمبنی رائے اور مشورہ پیش کردینا چاہیے۔قائدین ' کوبھی چاہیے کہ معاشرے کے سمجھ دار، ' اہل الرائے اور ماہرین سے متعلقہ معاملات میں مشاورت کرتے رہیں اور جب ان میں کوئی از خود بغیر طلب کیے اپنی رائے یا مشورہ پیش کرے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کرے۔ متعلقہ مشیر اور ماہر کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے قائد و سالار ' اور افسرِ بالا کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھے اور پورے ادب و احترام سے اپنی رائے دلائل کے ساتھ پیش کرے اور یہ نہ سمجھے کہ میری رائے ہی حتمی طور پر درست اور صحیح ہے اور اس پر لازماً عمل ہونا چاہیے بلکہ اُسے اپنی رائے دلیل کے ساتھ پیش کرنے کوشش کرنا چاہیے۔
غزوئہ بدر سے پہلے والی ساری رات، نبی کریم ؐ نے جاگ کر ' اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں عاجزی کے ساتھ روتے ہوئے گزاری۔ آپؐ ساری رات لشکرِاِسلام کی فتح و نصرت کی دعائیں کرتے رہے ۔ آپؐ سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا تھا اور آپؐ کو کامل یقین تھاکہ اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور آئے گی اور یقینا فتح حاصل ہوگی، لیکن چونکہ آپؐ عبدیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، اس لیے اس نازک اور مشکل وقت میں آپؐ پر خشوع و خضوع کی بہترین کیفیت طاری ہوگئی۔ اس طرح گویا آپ ؐ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ دعوت ِ حق کے مجاہدین کو چاہیے کہ جس قدر ممکن ہو اسباب و وسائل مہیا کریں۔ پھر جو دستیاب ہوسکیں، انھیں بھرپور طریقے سے استعمال کریں لیکن اس کے باوجود ان کا بھروسا مادی اسباب و و سائل پر نہیں ہوناچاہیے، بلکہ اصل اعتماد اور بھروسا اللہ تعالیٰ اور اس کی مدد و نصرت پر ہوناچاہیے، کیونکہ سب کچھ اسی کی عنایت و توفیق سے ہوتاہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہو تو تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق اور مدد و نصرت کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ دعا ہے۔ دعا مومن کا سب سے مضبوط اور مؤثر ہتھیار ہے، جو ہر مشکل گھڑی میں اُس کے کام آتاہے۔
غزوۂ بدر میں رسولؐ اللہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نہایت خشوع و خضوع ' اور عاجزی و انکساری کے ساتھ ' اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت اور مدد کی دعائیں مانگیں۔ ' اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعائیں قبول فرما کر غیبی مدد و نصرت عطا فرمائی۔
غزوۂ بدر میں عین میدان جنگ میں ' صف آرائی کے موقعے پر نبی کریم ؐ نے حضرت سواد بن غزیہ انصاری ؓ کے مطالبے پر خود کو قصاص کے لیے پیش کیاکہ اپنا بدلہ مجھ سے لے لیں۔ اس میں آج کے قائدین، ' کمانڈروں ' اور حکمرانوں کے لیے چشم کشا اسباق پوشیدہ ہیں۔
اس سے پتہ چلا کہ حقوق العباد، بالفاظِ دیگر:انسانی حقوق کا معاملہ بے حد اہم ہے۔ کسی بھی انسان کا شخصی حق اس وقت تک ساقط نہیں ہوتا جب تک صاحبِ حق معاف نہ کردے یا ادائیگی نہ کردی جائے۔ یہ ادائیگی و بہم رسانی طلب کیے جانے پر ہر حال میں ہوگی اور انسانی حقوق کسی حالت و صورت میں معطل و ساقط نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ خالقِ کائنات کا عطیہ و ہبہ ہیں، کسی انسان کے عطا کردہ نہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں ایک عام فرد اور جوان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیرمعمولی اور ہنگامی ' ایمرجنسی حالات میں بھی اپنا حق سربراہِ حکومت و مملکت اور مسلح افواج کے کمانڈر اِنچیف سے بھی سے طلب کرسکتاہے ۔
جس شخص سے کسی حق کی ادائیگی ' یا شکوہ شکایت کی تلافی مطلوب ہے ، اُسے خوش دلی اور خندہ پیشانی سے متعلقہ اتھارٹی کے ذریعے یا از خود براہ ِ راست ' مظلوم یا متأثرہ پارٹی کو اس کا حق دے دینا چاہیے۔ اگر اس سلسلہ میں عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کے سامنے پیش ہوناپڑے ' تو مضائقہ نہیں اور قانون و عدالت کے سامنے پیشی سے کسی کو بھی استثناء یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
کسی بھی کام کو بہتر ین اور اچھے انداز میں کروانے کااس سے زیادہ بہتر کوئی نسخہ نہیں کہ اس کے لیے کوئی انعام مقرر کردیاجائے۔ ' انسانی فطرت و نفسیات اور انسانوں کی تنظیم و مینجمنٹ کا اِدراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ افراد ِ اِنسانی کو ایک لڑی میں پرونا اور اُن سے کوئی بڑا کام لینا ' کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن یہی مشکل کام ' انعامات اور حسنِ کارکردگی پر حوصلہ افزائی سے آسان اور بہترین صورت میں سر انجام پاتاہے۔ دشمن کے ساتھ جنگ کی صورت میں تو ویسے بھی ہر آدمی اپنی اور اپنے متعلقین نیز مال و جایداد کی حفاظت اور حملہ آور دشمن سے مقابلے کے جذبات سے بھرا ہوتاہے۔ ایسے میں اگر اُسے مزید حوصلہ افزائی و امید دلائی جائے تو یقینا اس کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے '۔ جنگ ِ بدر میں نبی کریم ؐ نے اسی انسانی نفسیات و اصولِ تنظیم کو پیش نظر رکھا۔ آپ ؐ نے بہادری وحسنِ کارکردگی پر انعامات کا پیشگی اِعلان کیا۔رسولؐ اللہ نے غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے اِعلان سے صحابہ کرامؓ میں زبردست جوش وخروش پیدا کردیا اور وہ اس ولولے کے ساتھ دشمن پر جھپٹے کہ صفوں کی صفیں الٹ دیں اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتحِ عظیم سے نوازا ۔
رسولؐ اللہ اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ' جنت کے عوض کر چکے تھے۔ ' انھوں نے اپنی وفاداریوں کا مرکز و محور اللہ اور اس کے رسول ؐ کو بنا لیا تھا۔ ' دین و اِیمان اور عقیدے کے رشتہ کے علاوہ سب رشتوں 'ناتوں اور تعلقات کو ثانوی حیثیت ہی نہیں دی بلکہ ان کو مکمل طور پر ختم کردیاتھا۔ اسی لیے تو مصعب بن عمیر ؓ غزوئہ بدر کے موقعے پر اپنے حقیقی بھائی ابوعزیز کو مخاطب کر کے کتنی سچی اور کھری بات کہتے ہیں: تم نہیں بلکہ تمھیں گرفتار کرنے والے صحابی محرز ابو الیسر میرے بھائی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبد الرحمٰن کو قتل کرنے دوڑے۔ ' حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھوں جہنم رسید کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓنے اپنے والد عبد اللہ بن الجراح کو قتل کرکے ' ثابت کیا کہ ایمان کا تعلق ہی اصل اور حقیقی تعلق ہے، اور اسی تعلق کی بنیاد پر اُن کی دوستیاں اور دشمنیاں ہیں۔ ' اگر اپنے حقیقی رشتہ دار، ' ماں باپ، 'اولاد، میاں ' بیوی یا پورا قبیلہ برادری بھی کفار اور دشمنانِ دین کی صف میں ہوتے تو اُن سے قطعِ تعلق میں تاخیر نہیں کرتے تھے۔ یہی ایمان مطلوب ہے اور ایسے لوگ ہی قرآن کی زبان میں ’حزب اللہ‘ کے ارکان شمار ہوتے ہیں۔
نبی کریم ؐ پر پہلی وحی إقرأ کے الفاظ میں نازل ہوئی،جس میں پڑھنے کا حکم دیاگیاتھا۔ اس سے اِسلام کی نظر میں تعلیم اور خواندگی کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ نبی کریم ؐ نے غزوئہ بدر میں قید ہوکر آنے والے کفار سے جو فدیہ نہیں دے سکتے تھے، ' انصار کے بچوں کی تعلیم اور لکھائی پڑھائی سکھانے کا جو کام لیا، اس سے ایک طرف آپ کی رحمت و شفقت اور مثبت و مفید سوچ کا اِظہار ہوتاہے، ' وہیں آپؐ کی نظر میں خواندگی اور تعلیم کی اہمیت کا پتہ بھی چلتاہے۔ آپؐ نبی اُمی ضرور تھے لیکن اُمت کی تعلیم و خواندگی کی بہت فکر کرتے تھے ۔
ابو العاص بن الربیع کو فدیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی جو بات آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمائی، اس میں اپنے ساتھیوں کی تالیفِ قلب کے ساتھ ساری امت کے لیے ہدایت و رہنمائی ہے کہ امت کے حکمرانوں ' اور بیت المال کے منتظمین سمیت کسی بھی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ بیت المال کو اپنے ذاتی و شخصی یا خاندانی مفادات کے لیے استعمال کرے۔ یہ بیت المال عامۃ الناس کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف کے لیے مالک کی اجازت ضروری ہے، ورنہ اس کا تصرف خیانت میں شمار ہوگا۔
غزوئہ بدر، تاریخِ اسلام کا عظیم ترین سنگ ِ میل ہے۔ اس عظیم الشان غزوہ سے منسوب یہ چند اسباق ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ اسلامی تاریخ اور سیرتِ مطہرہؐ کے تمام واقعات اپنے اندر درس و رہنمائی کا ایک اَنمول خزانہ رکھتے ہیں۔
گیارہ مئی ۱۹۵۳ء، جب مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی، جو بعد میں عوامی اور عالمی دبائو کے سبب عمرقید بامشقت میں تبدیل ہوگئی۔ ۶۸برس بعد اس خبر سے منسلک جذبات، احساسات اور اُمور کو مولانا مودودی کے چند قریبی رفیقوں کی زبانی پیش کیا جارہا ہے۔ (س م خ)]
ہم لاہور جیل کے ’دیوانی گھروارڈ‘ کے صحن میں مولانا مودودی کی امامت میں نمازِ مغرب ادا کررہے تھے، جب پندرہ بیس افراد اور وارڈر صحن میں داخل ہوئے۔ نماز کے بعد ہم آنےوالوں کی طرف متوجہ ہوئے۔
ایک افسر ، جس کے ہاتھ میں فائل تھی، پوچھا: ’’ملک نصراللہ خان عزیز؟‘‘
ملک نصراللہ صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو روزنامہ تسنیم ۵مارچ ۱۹۵۳ء میں مولانا مودودی کا بیان چھاپنے کے جرم میں تین سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ہے‘‘۔
پھر اسی افسر نے پوچھا : ’’سیّد نقی علی؟‘‘
نقی علی صاحب نے کہا: ’’مَیں ہوں‘‘۔
’’آپ کو مولانا مودودی کا پمفلٹ قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید سخت کی سزا دی جاتی ہے‘‘۔
پھر وہ افسر مولانا مودودی کی طرف متوجہ ہوا:
آپ کو قادیانی مسئلہ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے… آپ چاہیں تو سات دن کے اندر [پاکستان کی مسلح افواج کے]کمانڈر انچیف [جنرل محمد ایوب خان] سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں‘‘۔
مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا:
’’مجھے کسی سے کوئی اپیل نہیں کرنی ہے‘‘۔
جیل کے ا فسروں نے ان تینوں حضرات سے کہا: ’’آپ لوگ جلدی تیار ہوجائیں۔ ملک نصراللہ خان اور سیّد نقی علی سزایافتہ قیدیوں کی بارک میں جائیںگے اور مولانا مودودی پھا نسی گھر میں‘‘۔
مولانامودودی صاحب نے جیل کے افسروں سے دریافت کیا: ’’کیا اپنا بستر اور کتب وغیرہ ساتھ لے لوں؟‘‘
انھوں نے جواب دیا کہ ’’بس ایک قرآنِ مجید چاہیں تو لے لیں اور کچھ نہ لیں۔ بستر، کپڑے آپ کو وہاں مل جائیں گے‘‘۔
چنانچہ مولانا نے چپل کے بجائے اپنا جوتا اور کپڑے کی ٹوپی کے بجائے اپنی قراقلی پہنی اور ہم لوگوں سے گلے مل کر اس طرح سے روانہ ہوگئے کہ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ معمولاًایک احاطے سے دوسرے احاطے کی طرف جارہے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد ایک وارڈر آیا اور وہ مولانا کی ٹوپی،قمیص، پاجامہ اور جوتا سب کپڑے واپس دے گیا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ’’انھیں جیل کے قاعدے کے مطابق کھدر کا کُرتا اور آزاربند کے بغیر کھدر کاپاجامہ اور پھانسی گھر میں فرشی ٹاٹ کا بستر دے دیا گیا ہے۔ وہاں وہ اپنے کپڑے اور آزاربند والا پاجامہ رکھ بھی نہیں سکتے‘‘۔
سزائے موت کے اس انتہائی فیصلے سے پوری جیل پر ایک دہشت اور خاموشی طاری تھی اور اب رات کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ دیوانی گھر وارڈ میں مولانا امین احسن اصلاحی، چودھری محمد اکبر اور مَیں، یعنی تین آدمی ہی رہ گئے تھے۔
مولانا مودودی صاحب کے ان پارچات کا آنا تھا کہ ان کو دیکھتے ہی مولانا امین احسن اصلاحی صاحب پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ ان پارچات کو کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی سینے سے اور کبھی سر پر رکھتے۔ زاروقطار روتے ہوئے فرمایا: ’’مودودی کو مَیں بہت بڑا آدمی سمجھتا تھا، لیکن مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خدا کے ہاں اس کا اس قدر بلند مرتبہ ہے‘‘۔
ان کو دیکھ کر چودھری محمد اکبر صاحب بھی دھاڑیں مارمار کر رونے لگے، اور معاً مجھے بھی یہ احساس ہوا کہ پھانسی کے حکم کے کسی عدالت کے رُوبرو قابلِ اپیل نہ ہونے اور مولانا مودودی کی طرف سے رحم کی اپیل کی پیش کش کو صاف مسترد کردینے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
یہ احساس ہوتے ہی مَیں بیرک سے نکل کر صحن کے ایک کونے میں چلا گیا اور پھر ہچکی بندھ گئی۔ رات کا بیش تر حصہ اسی حالت میں کٹ گیا۔
اگلے روز جیل کے وارڈروں کی زبانی مولانا مودودی کی رات بھر کی کیفیت یہ معلوم ہوئی کہ وہ پھانسی گھرگئے۔ پھا نسی کے مجرموں والے کپڑے انھوں نے زیب تن کیے۔ کوٹھڑی کے جنگلے سے باہر رکھی ہوئی پانی کی گھڑیا سے وضو کیا، عشاء کی نماز پڑھی اور زمین پر بچھے ہوئے دوفٹ چوڑے اور ساڑھے پانچ فٹ لمبے ٹاٹ کے بستر پر پڑ کر ایسے سوئے کہ رات بھر ان کے خراٹے سن سن کر پہرے دار حیرت میں ڈوبے رہے کہ ’’یااللہ، عجیب شخص ہے جو پھانسی کا حکم پاکر ایسا مدہوش ہوکے سویا ہے کہ گویا اس لمحے اس کے سارے فکر اور تردّد دُور ہوگئے ہیں‘‘۔
[سزائے موت سنائے جانے سے چار روز پہلے فوجی عدالت میں ۷مئی ۱۹۵۳ء کو اپنے بیان کے ابتدائی حصے میں مولانا مودودیؒ نے بتایا]:
۲۷اور ۲۸مارچ [۱۹۵۳ء] کی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کےتمام رجسٹروں پر، اور میرےاور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے بیت المال کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میںلے لی۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ شہرلاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوںکو بھی اسی رات گرفتار کیا گیا۔
اس کے بعد ایک مہینہ چھے دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خوردبین لگالگا کر دیکھا گیا۔ مجھ پر اور جماعت کے دوسرے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا Interrogation ہوتا رہا۔ جس کے سوالات کا انداز صاف بتارہا تھا کہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں، اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت کا تعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس عدالت کے سامنے دومقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں،[۱] جن میں سے ایک [پمفلٹ] قادیانی مسئلہ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے، جو آخر فروری اور ۷مارچ ۵۳ء کے درمیان مَیں نے پریس کو دیئے۔
اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگانا تھا، مگر جب کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی ،جن پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کر پیش کیےگئے ہیں۔ ورنہ ظاہرہے کہ اگر میرے ’گناہ‘ صرف وہی دو تھے جو پیش کیے جارہے ہیں، تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اوردوسرے ریکارڈ پر اور جماعت کے بیت المال پر قبضہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔
جماعت اسلامی نے ابتدا سے آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیا جائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیا.....
رات ہی رات میں تقریباً ساری جیل میں یہ خبر پھیل گئی تھی، مگر ہم اس خبر سے بالکل بے خبررہے،یا بے خبر رکھے گئے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ، آہ! کیا آخری گھڑی آگئی؟ کیا دین کے دیے اب یہاں گُل کر دیے جائیں گے؟ کیا واقعی ہمارے ملک میں دشمنانِ دین کی حقیر اقلیت کے نمایندے اتنی قوت رکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کےگلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال دیں؟
مگر معلوم نہیں کیسے،اگلے ہی لمحے دل میں نئے جذبے نے کروٹ لی، خیال آیا کہ یہ لوگ مولانا مودودی کو پھانسی دے بھی ڈالیں، تو کیا یہ مودودی کے پیغام اور فکر کو بھی پھانسی دے سکتے ہیں جو گھر گھر پہنچ چکا ہے، اور جس نے نوجوان نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے نکال کر دین حنیف کے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے۔ اب مودودی کا پیغام موجودہ دور کی تاریخ کی رگوں کے اندر اُتر چکا ہے۔ اس کے خیالات اس کے مخالفین تک کے ذہنوں میں بولتے ہیں۔ اس کی اصطلاحات، اس سے حسد کی آگ میں جلنے والوں تک کا جزوِ دماغ ہوچکی ہیں۔ اس کی آواز کی گونج اب دُور دُور تک سنائی دیتی ہے۔ جس تحریک کو اس نے اپنے پسینے سے پرورش دی ہے، اگر اس کی جڑوں کو اس کے خون کے قطروں سے سیراب کردو گے، تو وہ آناًفاناً ایک تناور درخت بن جائےگی۔ اس کی موت، اس کے پیغام کو زندہ تر کردےگی۔
یہ سوچتے سوچتے ہم ’دیوانی گھر‘ کے پاس آپہنچے۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مولانا اصلاحی، چودھری محمداکبر، میاں طفیل محمد سبھی دروازے پرآگئے۔ تاثرات کا دوطرفہ یہ عالم تھا کہ نہ ہم بات میں پہل کرنا چاہتے تھے اور نہ وہ حضرات اس ذکر کو چھیڑناچاہتے تھے۔ ہماری نگاہوں ہی نگاہوں نے استفسار کیا اور ان کی نگاہوں ہی نگاہوں نے خبر کی تصدیق کردی۔
[۱۲مئی ۵۳ء کی صبح، امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے بیان دیا]:
’’اگر اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ ’جرم‘ ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’اسی جرم‘ کے ارتکاب کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ ہم دو ٹوک الفاظ میں واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کے قیام کی جدوجہد کو پُرمن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے ان شاء اللہ آخری سانس تک جاری رکھا جائےگا، چاہے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے‘‘۔
۱۲مئی کی صبح، اباجان نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
بیٹا، ذرا نہ گھبرانا۔ اگر میرے پروردگار نے مجھے اپنے پاس بلانا منظور کرلیا ہے، تو بندہ بخوشی اپنے ربّ سے جاملے گا۔ اور اگر اس کا ابھی حکم نہیں، تو پھر چاہے یہ اُلٹے لٹک جائیں، مجھ کو نہیں لٹکا سکتے۔
محترم شیخ سلطان احمد صاحب کے ہمراہ یہ ملاقات ہوئی تھی، ان سے مخاطب ہوکر اباجان نے کہا:’’بھائی، میرا مسلک آپ کو معلوم ہے۔ میرے نزدیک ان لوگوں سے، جو میرا اصل جرم خوب جانتے ہیں، معافی کا طلب گار بننے سےیہ زیادہ قابلِ برداشت ہے کہ آدمی پھانسی پر لٹک جائے‘‘۔
مزید فرمایا: ’’زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی۔ اور اگروہاں فیصلہ نہیں ہوا تو دُنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی‘‘۔
میں اس زمانے میں بطور طالب علم ایم اے کی تیاری کے لیے، اسلامی جمعیت طلبہ سے، جس کی کراچی کی شاخ اور حلقہ سندھ کا مَیں ناظم تھا، ۲۴دن کی چھٹی لے کر پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھنے میں لگا ہوا تھا کہ اسی دوران ۱۲مئی کی صبح روزنامہ Dawn گھر آیا، تو اس کے صفحۂ اوّل پر نمایاں سرخی تھی: Maududi to Die
میرے لیے سزا کی اطلاع کا ذریعہ اخبار کی یہی خبر تھی۔ جس وقت میں نے یہ خبر پڑھی تو پہلا تاثر یہ تھا کہ ’’یہ خبر غلط ہے، ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر خیال آیا: ’’یہ تم کیا کہتے ہو، جفاکار اقتدار نے منصوبے تو ہمیشہ ایسے ہی بنائے ہیں‘‘۔ پھر دل بیٹھنے لگا تو آنکھوں کی برکھا نے دل کا ساتھ دیا۔
کیفیت عجیب تھی، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؟___ اور عقل کہتی تھی کہ ’’ہاں، کیوں نہیں ہوسکتا۔ بارہا ایسا ہوا ہے اور اگر آج بھی یہی ہونے جارہا ہے، تو کون سی عجیب بات ہے‘‘۔ لیکن دل کہتا تھا کہ ’’نہیں، ایسا ہونہیں سکے گا، وہ ملک جو اسلام کے نام پر بناہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں اسلام کے ایک خادم کو پھانسی دے دی جائے؟‘‘
انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ والدہ محترمہ نے پکارا۔ میری آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر وہ بہت زیادہ پریشان ہوگئیں۔ پوچھا: ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مجھے زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو میں نے لرزتے ہاتھ سے اخبار ان کے آگے کر دیا،اور انھوں نے پڑھ لیا۔
کتابیں بند کرکے میں نے کپڑے بدلے اور اجازت لے کر باہر نکلنے لگا تو والدہ سخت پریشانی کے عالم میں مجھ سے باربار پوچھ رہی تھیں: ’’کیا کرنا ہے؟‘‘ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیںتھا، مگر تحت الشعور میں جگر مراد آبادی کے یہ اشعار تھے:
یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاکِ وطن ساقی
خدا حافظ چلا میں باندھ کر دارورسن ساقی
سلامت تُو ،ترا میخانہ ، تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دار و رَسن ساقی
اسلامی جمعیت طلبہ کے دفتر ۲۳، اسٹریچن روڈ پر خرم، راجا، منظور، عمر، انور، مرغوب، محمد میاں دوسرے احباب سے ملاقات ہوئی۔ سب ایک جیسے ذہنی اور جذباتی سفر میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ چندمنٹ کی گفتگو کے بعد منصوبہ یہ بنا کہ عوام سے ہڑتال کی درخواست کی جائے اور ہم سب اس کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ لوگ بھی عجیب عالم میں تھے۔ یہ جذبات و احساسات میں یگانگت کا عالم تھا۔ ہمیں ہڑتال کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنا پڑی۔ ہم جہاں جاتے، لوگوں کو پہلے ہی سےآمادہ پاتے۔ پاکستان کے دارالحکومت کراچی میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ یہ احتجاج کا پہلا بھرپور اظہار تھا۔ داعی تحریک اسلامی کے لیے اس سزا کے اعلان نے فکروعمل کی یکسوئی کا جوسوال پیش کیا تھا، ہم سب یکسوئی کے ساتھ اس کا جواب دینے کے لیے ہم قدم اور یک زبان تھے۔
ہم وطنوں کے جس سوال کا ہم سامنا کررہے تھے، وہ یہ تھا کہ ’’مولانا مودودی کے لیے یہ سزا کیوں؟ اور اگر اسلامی نظام کا مطالبہ ہی اس سزا کی بنیاد ہے تو پھر مولانا یہ سزا پانے والے پہلے فرد تو ہوسکتے ہیں آخری کیوں کر ہوں گے؟‘‘
میں ڈھاکا میں دفتر جماعت سے دو تین میل دُور مقیم تھا، اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کا قیم تھا، جب کہ امیرچودھری علی احمد خان صاحب تھے، جو مارشل لا کےتحت مولانا محترم کی گرفتاری کی خبرسننے کےبعد مغربی پاکستان تشریف لےگئے تھے اور ابھی تک واپس نہیں آسکے تھے کہ ۱۲مئی کی صبح کو ہمیں یہ خبر ملی۔یہ خبر ہم میں سب سے پہلے مولانا عبدالرحمٰن صاحب نے ریڈیو پر سنی اور فوراً دفتر میں پہنچے۔ وہاں منیرالزمان صاحب یہ اطلاع ملتے ہی میری طرف روانہ ہوگئے۔
منیر الزماں صاحب کے اس وقت آنے پر مجھے کچھ اچنبھا سا محسوس ہوا۔ باہر نکلا تو انھوں نے کہا: ’’ریڈیو سے اعلان ہوا ہے کہ مولانا مودودی کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ فوجی عدالت نے…‘‘۔ منیرالزمان صاحب کچھ اور بھی کہہ رہے تھے، لیکن میرے لیے یہ خبر ’’مولانا مودودی کو موت کی سزا‘‘ پر آکر ختم ہوچکی تھی کہ یہ ایک مکمل خبر تھی۔ آگے میں کچھ نہ سننا چاہتا تھا اور نہ کچھ سنائی دیا۔ منیرالزمان صاحب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں فوراً سنبھل گیا۔
اب ہم دفتر جماعت اسلامی کی طرف آرہے تھے۔ اس لمحے ایک دم بہت سے سوالات ذہن میں آگئے: کیا تحریک اسلامی اسی لیے اُٹھی تھی کہ یوں ختم کردی جائے؟ کیاداعی تحریک کی زندگی کا خاتمہ واقعی اس قدر قریب آگیا ہے؟ کیا یہ فیصلہ نافذ ہوکر رہے گا؟ یہ سوالات یکے بعد دیگرے تیزی سے یلغار کر رہے تھے۔ لیکن میرے اندر کی معلوم نہیں کون سی دُنیا سے، ہربار اور ہرسوال کا جواب ’نہیں‘ کی صورت میں پلٹ رہا تھا۔ دل و دماغ کا یہی جواب تھا کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔
اس روز مولانا ظفر احمدعثمانی صاحب اورمولانا مفتی دین محمد صاحب ڈھاکا میں موجود تھے۔ ہم ان کے پاس گئے۔ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی اور ان کے احساسات کا عالم بھی وہی تھا جو ہمارا تھا۔ مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب کے الفاظ تھے: ’’یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جیسے لوگ دُنیا میں رہیں اور سیّد کا گلا کاٹ دیا جائے۔ اگر ایسا ہونے جارہا ہے تو ہم اپنی گردنیں پیش کردیں گے‘‘۔
عشاء کے بعد مولانا مفتی دین محمد صاحب کی صدارت میں ڈھاکا شہر کی سب سے بڑی مسجد میں احتجاجی جلسۂ عام ہوا۔اس جلسے میں مولانا ظفراحمد عثمانی صاحب اور میری تقریر کے بعد سزائے موت کی تنسیخ کے لیے قرارداد منظور ہوئی اور اعلان ہوا کہ ’’۱۴مئی کو پلٹن میدان میں جلسہ ہوگا‘‘۔
چاٹگام، کھلنا، کشتیا، باری سال اور دوسرے مقامات پر بھی جماعت کے کارکنان احتجاج میں مصروف کار تھے۔ دن تاریکی میں داخل ہوچکا تھا مگر نگاہیں بدستور روشنی کی راہ ڈھونڈ رہی تھیں۔
مولانامودودی صاحب کو پھانسی کی سزا کی خبر ہمیں ملتان جیل میں ملی، اور چندسیکنڈ کے اندر پوری جیل میں پھیل گئی۔ خبر کانوں میں پہنچنےکے بعد پہلے دل پر اثرانداز ہوئی اور پھر دماغ پر۔ دل نے کہا: ’’اب جینابے کار ہے‘‘۔ دماغ نے سوچنے کی کوشش کی: ’’اب کیا ہونا چاہیے؟‘‘
پھر ایسامعلوم ہواجیسے جیل کی دیواریں بلندہونا شروع ہوگئی ہیں، اور میں بے بسی کے عالم میں ڈوب رہاہوں، اور یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ اسی دوران گوجرانوالہ کے ایک قیدی محترم مولانا محمد اسماعیل صاحب آئے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ہمدردی بھری نگاہوں سے دیکھا، اور مجھے کچھ کہے بغیر وہیں کھڑے قیدیوں کی طرف متوجہ ہوکر کمال درجہ یقین سے مختصراً خطاب فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے درجات کو بلند کرتاہے تو اس پر بظاہر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس شخص کو بخیروخوبی آفتوں سے نکال لیتاہے اور ظالموں کا ظلم اس شخص کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمیں خضوع و خشوع سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگنا چاہیے۔ سب دیکھیں گے کہ ظالموں کی رُسوائی کاانتظام ہوگا اورمولانا مودودی دین کی خدمت کے لیے بچ جائیں گے۔
ہم دُعا میں مشغول ہوگئے۔ ایسی کیفیت میں دُعا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضری کا احساس ہوا، اور پھر جیسے زخموں پر کوئی مرہم رکھ کر کہہ رہا ہو کہ ’’زندگی اور موت تواللہ تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہے، اگر یہ اختیار انسانوں کے پاس ہوتا تو دنیا میں انسان ہوتے ہی کہاں؟‘‘
کشتیا ٹائون میں ’پاکستان تمدن مجلس‘ کی سالانہ کانفرنس ہورہی تھی کہ یہ خبر وہاں پہنچی: ’’فوجی عدالت نے مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی ہے‘‘۔ میں اس سزا کے پس منظر اور سزا پانے والے کی شخصیت سے بھی لاعلم تھا اور اس سے بھی بے خبر تھا کہ جماعت اسلامی نام کی کوئی تحریک موجود ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کام کررہی ہے۔ صرف مکتبہ جماعت اسلامی کا نام سن رکھا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دین کی خدمت کرنے والا کوئی اشاعتی ادارہ ہے۔
جس وقت مولانا مودودی صاحب کے لیے سزائے موت کے فیصلے کی خبر ’پاکستان تمدن مجلس‘ کے اجلاس میں پہنچی، جس کا مَیں کا رکن تھا، تو مجلس کے بعض ارکان: جناب ابوالقاسم، مولانا سخاوت الانبیاء اور مولانا عبدالغفور صاحبان نے اپنی تقاریر میں اسلامی دستور کے لیے جماعت اسلامی کی مہم اور خدمات کا ذکر کیا۔ اس طرح مجھے جماعت اسلامی پاکستان، مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے مشن کے بارے میں چند سرسری سی معلومات حاصل ہوئیں۔
ان دنوں میں رنگ پور کالج میں پڑھا رہا تھا۔ چونکہ شروع سے دینی ذوق رکھتا تھا، اس لیے تبلیغی جماعت اور تمدن مجلس دونوں سے منسلک تھا۔ تبلیغی جماعت میں سیاسیات، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا اور تمدن مجلس میں باقی سب موضوعات تھے، مگر نماز، روزے کی کمی تھی۔ میں ان دونوں سے وابستہ ہوکر اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ کسی بڑے تعارف کے بغیر ایک عام مصنف کے طور پرمولانا مودودی کے خطبے ’دینِ حق‘ کا بنگلہ ترجمہ پڑھ چکا تھا۔ سزائے موت کی خبر سننے کے اگلے چند ماہ کے دوران مولانا مودودی صاحب کی کچھ مزید کتابیں پڑھیں۔ چونکہ کالج کی میلادکمیٹی کا صدرتھا، اس لیے مَیں نے جلسوں میں مٹھائی کے بجائے اسلامی لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے کا آغاز کیا۔
رنگ پور ہی میں ۱۹۵۴ء میں مولانا عبدالخالق صاحب سے جمعہ کے روز ایک مسجد میں ملاقات ہوئی۔ اعلان ہوا کہ جماعت اسلامی کی طرف سے مولانا عبدالخالق صاحب اورتبلیغی جماعت کی طرف سے غلام اعظم خطاب کریں گے۔ مولانا عبدالخالق صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہمیں اسلام کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اسلام کو جس کش مکش سے گزرنا پڑرہاہے، اس میں ہمیں اپنے بنیادی فرض کو سمجھنا چاہیے‘‘۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پہلے لوگوں کو صحیح کلمہ توپڑھنا بتایئے ،پھرانھیں اسلامی کتاب پڑھایئے‘‘۔
لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوگئی۔مولانا عبدالخالق صاحب نے رخصت ہونے سے پہلے مجھے دو سوالات پر غور کرنے کی دعوت دی:
پہلا سوال یہ تھا کہ ’’آپ بھی کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت کی تبلیغ کرتے ہیں ، ہم بھی کرتے ہیں۔ لیکن کوئی مصلح تودرکنار کوئی نبی بھی ایسا نہیں تھا کہ اس نے دین کی دعوت دی ہو اور وقت کےاقتدار نے اسے برداشت کرلیا ہو۔ مگر آپ جو دعوت دیتے ہیں کوئی اقتدار اور کوئی صاحب ِ اقتدار اس سے کبھی برافروختہ نہیں ہوا؟ ذرا سوچیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘
ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’آج بھی جب دین کی مؤثر دعوت دی جاتی ہے توہرقوت اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھنے لگتی ہے۔ آپ تمام حقائق کا مطالعہ کرکے بتائیں کہ مولانا مودودی کے لیے پہلے سزائے موت اور پھر موت کی سزا عمرقید بامشقت میں بدلنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟‘‘
مولانا عبدالخالق صاحب تو چلتے ہوئے سوال کرکے چلے گئے، لیکن میں بے چینی کے سمندر میں جاگرا۔ جوچیز مجھے بار بار بے چین کر رہی تھی، وہ یہ کہ اگر میں اب تک حق کی جدوجہد کے لیے وقف رہا ہوں توایسا کیوں ہے کہ سارے سفر میں ایک کانٹا بھی میرے پائوں میں نہیں چبھا؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ باطل نے مجھے ایک بے ضرر انسان سمجھ کر میرے کام سے یہ سمجھوتہ کرلیا ہے کہ ’’مجھے نہ چھیڑو، مجھے میری راہ پر چلنے دو، میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھوں گا؟‘‘ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ جسے باطل بے ضرر سمجھ لے وہ حق کیوں کر ہوسکتا ہے؟ اگر میری موجودہ مصروفیات اور جدوجہد ہی حق کو سربلندکرنے کا ذریعہ ہوسکتی ہے تو باطل نے مجھے نظرانداز کیسے کر دیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات اور پھر داخلی دُنیا میں جوابات نے میری نیند اچاٹ کر دی۔ بھوک پیاس کسی چیز کا خیال نہ رہا۔ پندرہ دن اسی حالت میں گزر گئے۔ میری بے اطمینانی اور پریشانی کی حالت دیکھ کر جب تین چار احباب نے مجھ سے گفتگو کی اور میں نے اپنے دل کا درد ان کے سامنے رکھا، تو وہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔
اسی دوران ایک روز مولانا عبدالخالق صاحب کا مختصر سا خط آیا کہ ’’جماعت اسلامی کی دوروزہ کانفرنس گائے باندھا کے مقام پر منعقد ہورہی ہے، آپ اس میں شرکت کریں‘‘۔میں کانفرنس میں شریک ہوا۔کانفرنس ختم ہوئی تو اسی کمرے میں مختلف حضرات سے گفتگو شروع ہوئی۔ رات کے تین بج گئے تو باقی گفتگو کو نمازِفجر کےبعد تک ملتوی کرکے سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔ دوسرے حضرات سوگئے، لیکن میری نیند ایک بار پھر اُچاٹ ہوچکی تھی۔
اسی کمرے میں جماعت اسلامی کے ایک معمر رکن شیخ امین الدین صاحب (بہار) بھی موجود تھے۔ وہ میری حالت کو دیکھ رہے تھے۔جب کروٹیں بدل بدل کر کسی طرح نیند نہ آئی تو مَیں اُٹھا اور تہجد پڑھنے لگا۔ دُعا کے وقت میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ میں باربار کہہ رہا تھا:
’’یااللہ! میری رہنمائی کر۔ یااللہ! میری رہنمائی کر‘‘۔
نمازِ فجر کے بعد جب ہم سب گفتگو کے لیے اکٹھے ہوئے تو شیخ امین الدین صاحب نے کوئی بات کیے بغیر میرے سامنے متفق کا فارم رکھ دیا۔ میں نے پڑھا اور بلاتامل فارم پُرکرکے دستخط کردیئے۔ یہ ۲۲؍اپریل ۱۹۵۴ء کا دن تھا۔ اس کے بعد سب کچھ بہت تیزی سے ہوتا چلا گیا۔ میں نے وہیں سے ’پاکستان تمدن مجلس‘ کو استعفیٰ بھیج دیا۔ پھر جماعت کے ایک پندرہ روز تربیتی پروگرام میں شرکت کی۔ متفق بننے کے ڈیڑھ ماہ کے دوران میں رکنیت کی درخواست تحریر کی۔
۱۹۵۴ء ہی میں میجر جنرل سکندر مرزا، مشرقی پاکستان کے گورنر [۲۹مئی - ۲۳؍اکتوبر] بن کر آئے۔ ان کی آمدسے پہلے تک وہاں جماعت اسلامی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہواتھا۔ مگر سکندرمرزا صاحب نے آتے ہی یہ کام شروع کر دیا اور نچلی سطح تک مختلف کمیٹیاں بن گئیں۔ جماعت کے خلاف شکنجہ کسنےکے جس کام کا آغاز مرزا صاحب نے شروع کیا تھا، ان کی گورنری ختم ہونے کے بعد بھی وہ کام ایک ’مقدس ذمہ داری‘ کے طور پر خفیہ پولیس اور انتظامیہ نے جاری رکھا۔
مجھے کالج کے پرنسپل اور سینیر اساتذہ کی کمیٹی نے طلب کرکے کہا کہ ’’کالج چھوڑدو یا پھر جماعت کا کام چھوڑدو‘‘۔میرا جواب بہت واضح نفی میں تھا۔ فروری ۱۹۵۵ء میں مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری پر کالج میں ہنگامہ ہوگیا اورپھر ہڑتال۔ ۲۱طلبہ گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے کالج سے الگ کر دیا گیا۔ ہنگامہ اور بڑھا تو کالج بند کر دیا گیا۔
جیل کے یہ دوماہ میرے لیے تربیت کا زمانہ ثابت ہوئے۔ اُدھر مولانا مودودی مغربی پاکستان کی کسی جیل میں عمر قید کاٹ رہے تھے، اِدھر مَیں مشرقی پاکستان کی ایک جیل میں اس مختصر مدت کی قید کا سامنا کر رہا تھا۔ ان لمحات نے مجھے مولانا مودودی کے بہت قریب کردیا تھا۔ اسی احساس کے تحت میں نے ان دنوں امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو خط میں لکھا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیل میں دیوارکے اِس طرف مَیں ہوں اور دوسری طرف مولانا مودودی ہیں‘‘۔
مَیں ابھی جیل ہی میں تھا کہ ایک روز سیّد اسعدگیلانی صاحب ملنے آئے اوربتایا: ’’آپ کو جماعت اسلامی کا رکن بنا لیا گیا ہے‘‘۔ اپریل ۱۹۵۵ء کے دوران جب جیل سے رہا ہوا، تو مجھے جماعت اسلامی راج شاہی ڈویژن کا قیم مقرر کردیا گیا۔ جون ۱۹۵۵ء میں، مَیں نے پہلی مرتبہ مولانا مودودی کو دیکھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ اتنا سادہ سا آدمی، اندر سے اتنا زبردست انسان بھی ہوسکتا ہے۔ یہ سادہ سا انسان وہی تو تھا، جس نے موت کے چہرے پر پوری بے خوفی کے ساتھ نگاہ ڈالی اور اس کی یہی بےخوفی ہم سب کا سرمایہ، سرمایۂ افتخار بن گئی۔
یہ ۱۵مئی ۱۹۵۳ء کی رات تھی۔ وزیراعظم پاکستان کا جہاز رات کو آٹھ بجے آنےوالا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ وہ تاخیر سے آئے گا، یعنی رات بارہ بجے۔ کراچی کےعوام اپنی وارفتگی کے اظہار کے لیے ایئرپورٹ پر جمع تھے۔ ایک مطمئن اضطراب فضا میں لہریں پیدا کر رہا تھااور ایک بے چین طوفان سینوں میں مچل رہا تھا۔
اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ بلڈنگ تک سڑک کےدو طرفہ، تار کے ایک سوبائیس کھمبے تھے، جن میں ۶۶ فلڈ لائٹ پوسٹ تھے۔ ہرکھمبے پر بجلی کی لمبی لمبی فلورسنٹ ٹیوب لائٹ لگی ہوئی تھیں۔ انھی کھمبوں کے نیچے ۶۶طوفان پوشیدہ تھے۔ کسی کو خبر بھی نہ تھی کہ تھوڑی دیرمیں اس سڑک پر احتجاج کا ایک طوفان ٹھاٹھیں مارنے والا ہے: سنجیدہ، متین اور یادگار طوفان، زندہ، پُرجوش اور باعزم طوفان۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ کھمبوں کے ان روشن سایوں میں متفرق مقامات پر جومعزز شہری بکھرے بکھرے سے بیٹھے مطالعہ یا گفتگو کر رہے ہیں، یہ کتنے بڑے انقلابی، سرفروش اور مجاہد ہیں؟
آئینی اور جمہوری جدوجہد کے اس احتجاج کا بھی ایک ناظم تھا، اور وہ اسٹارگیٹ اور ایئرپورٹ بلڈنگ کے درمیان دو چکّرلگا چکا تھا اور اب صرف وزیراعظم کا انتظار تھا۔ ایئرپورٹ کے احاطے میں پولیس گردش کر رہی تھی۔ گیلری میں آدمیوں کا اضافہ ہورہا تھا۔ لکڑی کے جنگلے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی قطار لگ گئی تھی اور اب ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔
ایئرپورٹ کے اندرونی احاطے میں تمام کارکنوں کو، جو بیس گروپوں پر مشتمل تھے، ناظم نے کہہ دیا کہ ’’آپ اپنے اپنے بینرز کھول سکتے ہیں‘‘۔اور پھر اچانک یہاں سے وہاں تک سفید بینر، سرخ حروف کے ساتھ ہوا میں لہرانے لگے:
’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔
’’مولانا مودودی کو سزا ،جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
تاہم، ابھی یہ نعرے سینوں میں گنگ تھے۔ ایئرپورٹ گیلری میں حاضرین نے ہڑبونگ کے بجائے اپنے آپ کو ایک غیرمحسوس نظم کےتحت محسوس کیا: ایک سنجیدہ احساس ماحول پر چھایا ہوا تھا۔گیلری کے ساتھ مختلف ٹریڈ یونینوں اور انجمنوں کے جھنڈے عوامی احتجاج کی تائید کررہے تھے اور لوگ اس گوشے کی طرف متوجہ تھے، جس طرف کھلی جگہ کو میزوں، کرسیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور جہاں استقبالیہ کمیٹی کے صدر،وزیراعظم کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کرنے والے تھے۔
اور پھر مشرق سے ایک گونج سنائی دی ۔ سب نگاہیں اس طرف متوجہ تھیں۔ وہ آیا،وہ اُترا اور وہ شدید شور کے ساتھ رن وے کا چکر لگاکر دھاڑتا ہوا، گیلری کے عین سامنے نیم سرکاری استقبالیہ ہجوم کے قریب آکھڑا ہوا۔تو گویا گیلری میں ایک آگ سی لگ گئی۔ یہ آگ ان جذبات کے خرمن میں بھڑک اُٹھی تھی، جو دھیمی آنچ سے سلگ رہے تھے۔ جنھوں نے مولانا مودودی کی سزائے موت کی خبر سن رکھی تھی اور جسے اب چودہ سالہ قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
___ کیا ان کا ’جرم‘ مسلمانوں کے ملک میں اسلامی دستور کا مطالبہ کرنا تھا۔
___ کیا ان کا جرم ’ڈائرکٹ ایکشن‘ کے ہنگاموں سے جماعت اسلامی کو علیحدہ رکھنا تھا؟
ان ’جرائم‘ کے سوا تو ان کا جرم آج تک سننے میں نہ آیا تھا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مقتدر قیادت کے نزدیک ان کا کون سا جرم زیادہ سنگین تھا۔ بہرحال، اس طیارے کی آمد پر ان جذبات میں آگ لگ گئی، جو پہلے سے محض سلگ رہے تھے۔
اس زخم سے کون نہیں کراہ رہا تھا؟ کیا پورے ملک میں صف ماتم و احتجاج نہیں بچھ گئی تھی؟ کیا یوں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ ملت اسلامیہ کے قلب پر ایک زبردست چوٹ لگائی گئی ہے؟ کتنے لوگ تھے جو اس الم ناک خبرسننے کے بعد روتےرہےتھے اور کتنے تھے جنھوں نے اپنے جذبات کے سامنے ضبط کے ہمالے کھڑے کیے رکھے تھے۔
لیکن جب وہ طیارہ آیا جس میں وزیراعظم صاحب آئے تھے، تو پھر مظلوموں کے منہ سے وہ چیز بلندہوئی جو ڈائنامیٹ دھماکے سے زیادہ تیز اور شدید تھی۔ ایک رو آئی اور ضبط کے سارے پیمانے بہہ گئے۔ جہاز کے دروازے کھلنے ہی والے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی کے ارکان اپنی ٹائیوں کو درست کر رہے تھے۔ بینڈ سلامی دینےکے لیے ہوشیار باش تھا۔ استقبالیہ کمیٹی کے صدرصاحب جیب میں آخری بار سپاس نامہ ٹٹول رہے تھے۔ طیارے کے دروازے ابھی کھلے نہ تھے کہ اچانک ہجوم کے اس حصے میں سے، جو اس کونے میں سمٹ آیا تھا، ایک آواز بلند ہوئی:
’’مولانا مودودی کورہا کرو‘‘۔
یہ ایک پُردرد صدا تھی اور ضبط کابند بھک سے اُڑگیا تھا۔ یہ نعرہ موسلادھار بارش کا پیش خیمہ اور طوفان کی آمد کا پتا تھا۔ گیلری سے نعرے بلند ہوئے:
’’جمہوریت کا خون ___ بند کرو‘‘
’’اس ملک کو ___ تباہ نہ کرو‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب ساری فضا ان نعروں کی دھمک سے لرز رہی تھی۔ دروازے کھلے اوروزیراعظم محمدعلی بوگرہ صاحب جہاز سے اُتر کر لائوڈاسپیکر کے قریب پہنچے۔ دوسری طرف نعروں کی یلغار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ گیلری کے دوسرے سرے تک طلبہ چارچار کی قطار میں، کچھ کچھ فاصلے پر ہاتھوں میں بینرز لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم قیادت کر رہا تھا:
یہ نعرہ تھا اس متحرک طوفان کے لبوں پر۔ ایک شان دار نظم و ضبط اور انتہائی وارفتگی کے ساتھ یہ دستہ اس گوشے کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں وزیراعظم کے استقبال کا سامان تھا۔ یہ دستہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا گیلری کے اس کٹہرے سے جاملا، جہاں جناب وزیراعظم کے سامنے سپاس نامہ پڑھاجارہا تھا۔
طلبہ کے بعد ادیبوں کا ایک گروپ بڑی متانت، اور وقار سے نعرے لگاتا ہوا اس گوشے کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ان ادیبوں میں شاعر، طنزنگار، افسانہ نویس، دانش ور، مدیرانِ کرام اور نقادشامل تھے۔ یہ سبھی اہلِ قلم و حرف سمجھتے تھے کہ نئے ادب کا سوتا بند ہوا جارہا ہے، نئے تخیلات کو پھانسی دی جارہی ہے، نئی شاہراہِ زندگی پر بم باری کی جارہی ہے، اور وہ جو ایک حقیقی اشرف المخلوقاتی انقلاب کو نئے روپ میں لےکر اُبھر رہاتھا،اس کاراستہ روکا جارہا ہے۔ ادیب اپنے فن کےغدار ہوتے اگر آج احتجاج کے لیے جمع نہ ہوتے۔ ان کی تحریروں کی قوت اس نعرے میں سمٹ آئی تھی:
’’مولانا مودودی کی سزائے قید ___ جمہوریت کا خون ہے‘‘۔
یہ ادیب بالکل نہیں تسلیم کرتے کہ جمہوریت کا خون بہایا جائے۔ یہ ان کی اپنی زندگی کا معاملہ تھا، جس سے وہ ادب کے لطیف خیالات چنتے تھے۔ وہ بازارِادب کے سودےباز ادیب نہ تھے۔ وہ جو اپنی ادبی مجالس میں بلندآواز سے بات کرنے کو بھی خلافِ ادب سمجھتے تھے، یہاں پوری طاقت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔
پھر یہ رو پھیلتی اور بپھرتی چلی گئی۔سب لوگ بھول گئے کہ کیمرے کس مقصد کے لیے لائے گئے تھے۔ استقبالیہ کمیٹی بھول گئی کہ بینڈ کا کیا مصرف تھا؟ لائوڈاسپیکر کس مرض کی دوا تھا؟ پولیس بے دست و پا تھی، پھول، ہار اور طرے محروم زیب گلو تھے۔ وہاں توایک ہی پکارتھی: ’’مولانا مودودی کو رہا کرو‘‘۔ ہرطرف ایک ہی نعرہ، ایک ہی جنون اور ایک ہی آواز انسانی احتجاج کا پُرشوکت مظاہرہ۔
ان مظاہرین نے خود بخود دو گروپوں کی شکل اختیار کرکے اس نعرے کو کورس کی شکل دے دی تھی:
ایک گروپ کہہ رہا تھا : ’’مولانا مودودی کو…‘‘
دوسرے گروپ کی پکار تھی: ’’رہاکرو…‘‘۔
یہ نعرے نہ بے اثر تھے، اور نہ بے معنی تھے۔ لگانے والے بھی اس کے مفہوم سے پوری طرح آگاہ تھے اور سننےوالے بھی پوری طرح سمجھ رہے تھے کہ جو لوگ یہ نعرے لگا رہے ہیں، یہ کرائے کے دل، دماغ اور زبان نہیں رکھتے۔
پولیس نے لاٹھیوں کی مدد سے وزیراعظم کے لیے راستہ بنانا شروع کر دیا تاکہ ایئرپورٹ بلڈنگ سے گزر کر اپنی کار تک جاسکیں۔ یہ دیکھ کر مظاہرین نے بھی اِدھر کا رُخ کیا اوراس طرح وہ سارا مظاہرہ بلڈنگ میں منتقل ہوگیا۔ وہ مظاہرے کےانتہائی عروج کا وقت تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ کے دامن میں کسی عظیم چٹان کو اُڑایا جارہا تھا۔ یا شاید کسی سمندری جزیرے کے اندر اچانک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ بندبلڈنگ میں انسانوں کے ہجوم نے ایک مضطرب چیخ کی شکل اختیار کرلی تھی۔ گویا آوازوں کی اس اجتماعی قوت کے زور سے وہ عمارت بھک سے اُڑ جانے والی تھی۔
طلبہ نے کاروں کوگھیر لیا تھا۔ وہ مسلسل نعرہ زن تھے:
’’امریکی حاکمیت ___ مُردہ باد‘‘
’’مولانا مودودی کو ___ رہا کرو‘‘۔
اب نعرے بلا کی شدت اختیار کرکے سارے ماحول کو محیط کیے ہوئے تھے۔ یہ بہتا ہوا سیل رواں تھا اور ایک طوفان کا تندوتیز دھارا تھا، جو ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک بہہ رہا تھا۔ مظاہرے کا ناظم چند منٹ قبل دوڑتا ہوا بلڈنگ کے اسٹارگیٹ تک گیا تھا اور اس نے اشارہ کر دیا تھا کہ ’’وہ وقت آگیا ہے جس کے تم منتظر تھے‘‘۔
اب سڑک کا چپہ چپہ سراپا احتجاج تھا۔ گاڑیوں کے اس کارواں کا استقبال ایک میل تک اس طرح ہوا کہ ہرچند قدم پر روشنی کے کھمبے کے پاس فلڈلائٹ کے عین نیچے ایک لہراتا اور پھڑپھڑاتا بینر یاد دلا رہا تھا کہ ’’مودودی محض ایک گوشت پوست کا انسان نہیں ہے۔ وہ اس ملک کے قلب کی دھڑکن ہے،وہ اس ملّت کا دھڑکتا ہوا دل ہے، وہ بہار کا پیغام برہے، وہ تمنائے دل ہے، وہ شمع آرزو ہے، وہ نشانِ منزل ہے، وہ آنےوالے انقلاب کا داعی اور رہنما ہے، وہ ایک نظریہ ہے، وہ ایک اصول ہے، وہ ایک تحریک ہے۔ تم اسے یوں ملت سے چھین نہیں سکتے، تم تاریخ کے سینے پر لکھی تحریر مٹا نہیں سکتے، تم پوری ملت کی آواز کو دبا نہیں سکتے، تمھاری جہل پر مبنی ساری گھن گرج کو ملّت کی یلغار اپنی گونج میں دبا سکتی ہے۔ تم پانی میںتیرنے والی بے جڑ کائی ہو، تم درخت کے ٹوٹے ہوئے پتّے ہو، تم لہروں میں اُٹھنے والے بلبلے ہو، تم ملّت کے شعور اور قلب سے بہت دُور ہو‘‘۔
پے بہ پے، لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا احتجاج کا سمندر ایئرپورٹ بلڈنگ سے اسٹارگیٹ تک لہریں اُٹھا رہا تھا۔لیکن وہ اس راستے سے نہ آیا جس راستے کو اس کا انتظار تھا، وہ عوامی احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے کسی دوسرے ویران راستے سے نکل گیا تھا۔
_______________
حواشی
[۱] l ۳مئی ۵۳ء کو مولانا مودودی کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کیا گیا۔ l ۵مئی کو فوجی عدالت نے مارشل لا ریگولیشن نمبر۸ مع دفعہ ۱۵۳، الف تعزیرات کے تحت کارروائی کا آغاز کیا۔ l ۷مئی کو مولانا نے فوجی عدالت میں بیان دیا۔l ۹مئی کوگورنر جنرل نے مارشل لا کےفیصلوں اور اقدامات کے تحفظ [انڈیمنٹی]کا قانون جاری کیا اور ساتھ ہی مولانا مودودی کے مقدمے کی فوجی عدالتی سماعت ختم ہوگئی۔ l ۱۱مئی ۱۹۵۳ء کو مولانا مودودی کے لیے سزا کا اعلان کردیا گیا۔ lعدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق ۲۸؍اپریل ۱۹۵۵ء کو رہائی عمل میں آئی۔ مرتب
۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے پشاور میں ایک چرچ پر دہشت گرد حملے کے بعد اَزخود نوٹس لیا۔ یہ نوٹس ’جسٹس ہیلپ لائن‘ نامی این جی اوز کی درخواست پرلیا گیا تھا۔ اقلیتی برادری کی چند دیگردرخواستوں کو یکجا کرکے چیف جسٹس نے صرف سرکاری حکام کو بلایا، تین رکنی بنچ بنایا،جس میں خود ان کے علاوہ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس مشیرعالم تھے۔ ۱۹جون ۲۰۱۴ء کو انھوں نے اس نوٹس کی سماعت کی اور ایک ایسا فیصلہ سناڈالا، جس کے متاثرین ۹۶ فی صد مسلمان تھے۔ لیکن ان کے کسی نمایندے کو نہ تو سنا گیا، نہ بلایا گیا اور نہ انھیں علم ہوا کہ ان کی پشت پر کیا خنجر آبدار گھونپا جارہا ہے۔چرچ پر مذکورہ دہشت گردانہ حملے کا کوئی مجرم نہیں پکڑا گیا تھا۔
اس سماعت میں عدالت کے اندر کے تمام حاضرین نے اَزخود یہ فرض کرلیا کہ ’’دہشت گرد چونکہ موجودہ نظامِ تعلیم کی پیداوار ہیں، لہٰذا اس نظامِ تعلیم کو بدل دیا جائے‘‘۔ معلوم نہیں یہ فرض کرنے کی بنیاد کیا تھی؟ کیا دہشت گرد غیرملکی نہیں ہوسکتے ہیں؟ ممکن ہے وہ ہندستان سے آئے تھے؟ کیا وہ واقعی مسلمان تھے؟ کیا یہ حملہ خود مسیحیوں کے دوگروہوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تو نہیں ہے؟ کیا اس میں خاندانی یا ذاتی دشمنی کا کوئی عنصر تو نہیں ہے؟ یہ وہ چند ممکنہ سوالات ہیں، جن کا جواب تلاش کرکے ہی کوئی نتیجہ نکالا جاسکتا تھا۔ لیکن معزز عدالت نے سرسری سی سماعت میں اتنا بڑا فیصلہ سناڈالا کہ ا س کے نتائج تصور میں لاتے ہوئے دل ڈوبنے لگتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بس یہ فرض کرلیا کہ ’’تمام دہشت گرد پاکستانی مسلمان تھے اور دہشت گردی کا سبب تعلیمی نصاب ہے‘‘۔اس فیصلے کے منفی اثرات مسلم نسل کشی کی شکل میں مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اسی حکم نامے میں عدالت نے پولیس سروس کے ایک معروف افسر ڈاکٹر شعیب سڈل کی قیادت میں کمیشن مقرر کیا، جس کے ذمے عدالتی حکم نامے پر عمل درآمد کرانا تھا۔ کمیشن کی معاونت کے لیے ایک چاررکنی کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان تھے: ڈاکٹر شعیب سڈل، ڈاکٹر رمیش کمار، کوئی ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور خود معزز چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی کے معزز صاحبزادے جناب ثاقب جیلانی۔ جسٹس جیلانی فیصلہ سنانے کے سترہ دن بعد ریٹائر ہوگئے۔ یہ کمیٹی اور کمیشن گزشتہ سات سال سے کام کررہے ہیں۔ اس عرصے میں ملکی تعلیمی نظام اور مسلمانوں کی نسل کشی کا کیا بندوبست ہورہا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل آپ آیندہ سطور میں پڑھیں گے۔
یوں تو یہ فیصلہ ’’ازخود نوٹس‘‘ پر چار فی صد اقلیتوں کے لیے تھا، لیکن اس فیصلے سے ۹۶ فی صد مسلمانوں کی نسلوں پر جو اثرات مرتب ہوں گے، ان کے بارے سوچ کر دل لرزتا ہے۔ اس سے بڑھ کر شرم ناک تماشا یہ ہے کہ مسلمانوں کو نہ اس مقدمے میں فریق بنایا گیا اور نہ انھیں سنا گیا۔ معزز عدالت نے حکم دیا کہ ’’اسکول اور کالج کے درجات پر ایسا مناسب نصاب تشکیل دیا جائے، جو مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دے‘‘۔ فیصلے میں ۱۹۸۱ء میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کا حوالہ دے کر لکھا ہے: ’’بچے کو مذہب اور اعتقاد کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے تعصب سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کی نشوونما، سمجھ داری، رواداری، افراد کے مابین دوستانہ روابط، امن اور آفاقی بھائی چارے ، مذہبی آزادی اور دوسرے اعتقاد کی تعظیم اور اس شعور کے ساتھ کی جائے گی کہ اس کی صلاحیتیں اور توانائی اپنے ساتھیوں کے لیے وقف ہوگی‘‘۔
فیصلے کی نقل فوراً متعلقہ اداروں کو بھیجی گئی۔ پنجاب حکومت نے تین مقامی ’دانش وروں‘ پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی، جس نے سفارشات مرتب کیں۔ تین مقامی اورمطلقاً غیرمعروف افراد کی ان سفارشات کو ۲فروری ۲۰۱۶ء کو پنجاب حکومت نے(جس کے سربراہ جناب شہباز شریف تھے) سرکاری و نجی یونی ورسٹیوں کو اس ہدایت کے ساتھ ارسال کیا کہ ’’ان سفارشات پر عمل کرکے بالوضاحت بتایا جائے کہ نصاب میں کیاترامیم کی گئیں اور جن کتب میں ترامیم کی گئیں، وہ کتب بھی منسلک کی جائیں‘‘۔ اسی پربس نہیں، یونی ورسٹیاں امتحانی سوالات بھی اب ان تین غیرمعروف افراد کے افکار کی روشنی ہی میںمرتب کیا کریں گی۔لیکن پہلے کمیٹی کی چند سفارشات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
’پاکستان اسٹڈیز انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں تحریک ِ خلافت میں گاندھی کے کردار پر معروضی انداز میں نظر ثانی کی جائے‘۔ یہ تعلیمی سفارش بھارت میں مودی حکومت کے کسی متعصب رہنما کی نہیں تھی، بلکہ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی، جب لاہورکے کالجوں میں دوپروفیسرصاحبان اور ایک انتظامی افسر پر مشتمل کمیٹی نے ’رواداری اور روشن خیالی ‘کے فروغ کے لیے جو سفارشات مرتب کیں، یہ ان کی دیگ میں سے چاول کا ایک دانہ ہے۔ ملکی اور صوبائی سطح پر مختلف نصاب میں چند مزید مجوزہ تبدیلیاں ملاحظہ ہوں۔ بریکٹ میں ہمارا تبصرہ ہے:
۱- طلبہ کو پڑھایا جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ مذاہب کی تنسیخ کے لیے نہیں آئے بلکہ ابراہیم، موسیٰ، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ علیہم السلام کا پیغام وہی تھا، جو محمدؐ کا ہے۔[گویا یہودیت اور مسیحیت اپنی موجودہ شکل میں وہی مذاہب ہیں، جو مذکورہ پیغمبروںؑ کے تھے۔ اسے قرآنی آیات کی تحریف کہا جائے یا استخفاف؟]
۲- ’’تحریک ِ پاکستان کا اَزسرنو معروضی جائزہ لے کر اس میں اقلیتوں کاکردار اُجاگر کیا جائے‘‘۔ [قیام پاکستان کے آٹھ برس بعد مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جناب ظفراحمد انصاری نے واضح طور پر لکھا تھا: حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام مسلمان اور صرف مسلمان قوم کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری آبادی کے دوسرے عناصر خصوصاً ہندوقوم نے پاکستان کو وجود میں نہ آنے دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘‘ (Daily Dawn، ۲۳دسمبر ۱۹۵۵ء)]۔
۳- ’’یورپ میں تحریک احیائے علوم کی تفصیلات نصاب میں شامل ہوں‘‘[مغربی فکر کے مطابق یونانی عہد کے بعد انسانیت پر ایک تاریک دور (Dark Age) آیا جس کا خاتمہ، یورپی صنعتی انقلاب کے ذریعے ہوا۔ اس ’تاریک دور‘ میں اُن کے نزدیک بعثتِ رسولؐ، خلافت راشدہ اور مسلمانوں کے دوسرے عہد زریں بھی شامل ہیں،کہ جب عورت کو تحفظ، وقار اور جایداد میں حصہ ملا۔ کیا اب ہمارے بچے عہد نبوی اور خلافت ِ راشدہ کو عہد ِ ظلمات کے طور پر پڑھیں گے؟]
یہ نمونے کی چندسفارشات ہیں، جو پشاور میں ایک چرچ پر شرپسندوں کے دہشت گردانہ حملے کے ثمرات ہیں۔ امریکا اور ناٹو کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اندازے کے مطابق ۸۰ہزار سے زیادہ، پاکستان کے مسلمان مارے گئے ہیں، مساجد اور درگاہیں تک تباہ ہوئی ہیں، اور بچوں اور نمازیوں تک کی لاشیں تڑپی ہیں، تاہم وہ صبر اور شکر کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ادھر ایک چرچ پر ستمبر۲۰۱۳ء میں اذیت ناک حملہ ہوا تو ملاحظہ ہو کہ ایک تسلسل کے ساتھ کیا کیا فیصلے کیے گئے، جن کا پاکستانی قوم کو احساس تک نہیں ہونے دیا گیا۔
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز میں کیا کیا بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں اور اس جمہوری ملک میں ۹۶ فی صد آبادی کو کچھ معلوم ہی نہیں کہ آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے؟ اس مقدمے میں تمام فریقوں یا کرداروں نے خودبخود یہ فرض کرلیا ہے کہ ’’چرچ پرحملہ آور، غلط نصابِ تعلیم کی پیداوار پاکستانی مسلم طلبہ تھے اور نصابِ تعلیم عدم برداشت پر مبنی ہے‘‘ (مگر اس مفروضے کا ایک بھی تائیدی ثبوت فیصلے میں درج نہیں)۔ چونکہ اس ’اَزخود نوٹس‘ کے تمام متاثرین غیرمسلم افراد تھے، اس لیے نہ تو مسلمانوں میں سےکسی کو بطور فریق سنا گیا، نہ کسی سطح کے تعلیمی نصاب کی جانچ پرکھ کی گئی اور نہ کسی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سے رابطہ کیا گیا۔
معزز چیف جسٹس صاحب نے فیصلہ تحریر کرتے وقت ان تمام حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے، جو عدلیہ کے لیے پوری دُنیا میں تسلیم شدہ ہیں۔ اسی فیصلے میں یہ حکم بھی موجود ہے کہ ’’ایک خاص تربیت یافتہ پولیس فورس تشکیل دی جائے، جو اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے‘‘۔ معزز عدالت نے اس مختصر سے حکم کے مضمرات پر شاید غور نہیں کیا۔ کل کو نجی اسکولوں کے مالکان ’دہشت گردی‘ کے نام پر سپریم کورٹ میں چلے گئے تو ان کے لیے ایک نئی پولیس فورس کیوں نہ تشکیل دی جائے؟ فی الاصل عدلیہ کا کام ملکی قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہوتا ہے نہ کہ انتظامی احکام جاری کرنا۔
ذرا اندازہ کیجیے کہ کتنی خاموشی اور تسلسل سے تبدیلیوں کی ایک رو چلتے چلتے مسلمانوں کی نسلوں کو لپیٹ میں لے آئی کہ جنھیں سماعت کے دوران میں سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ دہشت گرد، عالمی غنڈوں کے پروردہ ہیں۔ ان کا عامۃ الناس اور اسلام سے کیا تعلق؟ چرچ پر حملے کوجواز بنا کر ایک این جی او کی درخواست اور ازخودنوٹس پر سماعت میں، یہ سارا فیصلہ مفروضوں پر مبنی ہے۔
کیا چرچ پر حملے کے ملزمان کہیں پکڑے گئے؟ اگر ہاں تو کیا ان پر کوئی ایسی جرح ہوئی کہ جس میں انھوں نے اپنے اس فعلِ بدکو تعلیمی نظام کی پیداوار قرار دے کر کوئی اعتراف کیا ہو؟
کیا کسی نے نصاب کا جائزہ لے کر اس کے توجہ طلب پہلو اُجاگر کیے؟
ظاہر ہے یہ سب کچھ نہیںہوا۔ فیصلے میں معزز عدالت کے سامنے ایک اقلیتی عبادت گاہ پر حملے کے مرتکبین کی گرفتاری مسئلہ تھا، لیکن معزز جج صاحب نے نادیدہ اور نامعلوم مجرموں کو ’’اوّلاً خود بخود مسلمان فرض کرلیا‘‘۔ پھر یہ بھی فرض کیا کہ ’’ملکی نظام تعلیم ان مسلمانوں کی تربیت کاذمہ دار ہے‘‘۔ لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ’’نصابِ تعلیم تبدیل کیا جائے‘‘۔
اس اعلیٰ عدالتی قصّے میں کوئی ایک لطیفہ سرزد ہواتو اس کا ذکر کیا جائے، یہاں تو ایک سے بڑھ کر ایک والا معاملہ ہے۔یونی ورسٹیاں دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی خودمختار ادارے ہیں۔ حکومتیں ان سے تحقیق کی درخواست تو کرسکتی ہیں، انھیں کوئی حکم نہیں دے سکتیں۔ حکم دینے کے لیے متعلقہ پارلیمان سے یونی ورسٹی کے ایکٹ میں ترمیم لازم ہے۔
اس زیرنظر فیصلے کے بعد حکومت پنجاب نے ۲۰۱۶ء میں لاہور کے تین مقامی کالجوں کے تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی سفارشات مرتب کرنے کے لیے قائم کی۔ ایک صاحب انتظامی عہدے دار ہیں اور تین میں سے صرف ایک پی ایچ ڈی ہیں۔یہ اصحاب علمی دُنیا میں کتنے معروف ہیں، اس سے بحث نہیں ہے۔ تاہم، عقل و دانش سے ماورا اس کمیٹی کے قیام کے فیصلے پر حیرت ضرور ہے کہ اب کالجوں کے ایم اے پاس حضرات اور انتظامی افسران، صفِ اوّل کی یونی ورسٹیوں کے پی ایچ ڈی پروفیسروں کے لیے ہدایت نامے مرتب کیا کریں گے۔ یہ یونی ورسٹیوں میں ’معیار کی بلندی‘ کے ثناخوانوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
اس سات سالہ عرصہ کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں، آخرکار مارچ ۲۰۲۱ء میں کمیشن نے عمل درآمد کی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے سامنے رکھی۔ کمیشن نے سفارش کی کہ اُردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان اور ان جیسے دیگر مضامین میں سے حمد، نعت، نبی کریمؐ کا ذکر، خلفائے راشدینؓ اور تاریخ اسلام کے مشاہیر کا تذکرہ نکالا جائے کہ یہ آرٹیکل ۲۲ کے منافی ہے۔ کچھ دیگر مسیحی ماہرین تعلیم نے بھی اس کی تائید کی کہ مطالعہ پاکستان، سائنس اور اُردو اور انگریزی جیسے مشترک مضامین میں بھی اسلام موجود ہے جو آئین کے آرٹیکل ۲۲ کی خلاف ورزی ہے کہ جس کے تحت کسی شخص کو اس کے مذہب سے ہٹ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
معترضین کے سرفہرست اعتراضات ملاحظہ ہوں:’’طالب علم سے مشقی کام کرنے کو یوں کہا گیا ہے کہ وہ سوچ کر بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کون کون سی نعمتیں دی ہیں؟‘‘ اور یہ کہ 'اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے، اس جملے کو درست تلفظ اور روانی سے پڑھیں‘‘۔ اسی طرح یہ کہ ’’اساتذہ بچوں سے نعت سنیں‘‘۔ ’’چوتھی جماعت کی انگریزی کی کتاب میں چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں مضمون بھی قابلِ اعتراض ہے‘‘۔
ان جملوں میں لفظ ’اللہ‘ کا استعمال چند مسیحی افراد اور ان کے ’مسلمان وکلا‘ کو ناگوار ہے۔ واضح رہے کہ لفظ ’اللہ‘ بائبل کے عہدنامہ عتیق میں ’ایلوہ‘(Eloah) کہلاتا ہے، جو صدیوں کے زمانی اور نطقی تغیرات کے باعث عربی میں ’اللہ‘ ہے۔ ہمارے یہ چند مسیحی معززین اور ان کے مسلمان وکلا آتش پرستوں کے ہاں برتا جانے والا لفظ ’خدا‘ تو لینے کو تیار ہیں،کلمہ طیبہ سے لے کر سارے اسلامی ذخیرے کا مرکزی لفظ ’اللہ‘ سامنے آتے ہی ان کی رواداری اور وسعت قلبی کا جذبہ دھڑام سے نیچے گرجاتا ہے۔ گویا اب رواداری اور وسعت قلبی کا مظاہرہ اور الفاظ کا چنائو مسیحی آبادی کی خواہش پر صرف مسلمانوں کی طرف سے ہوا کرے گا۔ چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل صاحب کا فرمان ہے:’’اس مذہبی مواد کو نصاب سے نکالنا ہو گا‘‘۔
چونکہ ایک طے شدہ معاملے کو سپریم کورٹ نے بطورِ سماعت یہ مسئلہ ایوانِ عدل میں رکھا ہے، اس لیے انھیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے متفقہ آئین کے آرٹیکل ۳۱ کا انکار کس طرح کیا جائے گا جس کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مسلمانوں کے لیے تعلیمات اسلامی کا اہتمام کرے۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادی کے اطمینان کے لیے تو مسلمان ماہرین تعلیم کچھ نہ کچھ کر لیں گے، لیکن تعلیمی امور میں شعیب سڈل صاحب کی اس رائے کو کون مسلمان اہمیت دے گا جن کا تعلیمی اُمور سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا موجودہ یکساں متفقہ نصاب بنیادی طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کے درجنوں ماہرین تعلیم کی پالیسیوں اور انتظامی ذمہ داروں کا نتیجہ ہے، جس میں دیگر بہت سے سیاست دانوں اور ماہرین کی محنت بھی شامل ہے۔ عملی میدان میں جب کبھی اس نصاب کے حُسن و قبح سامنے آئے تو ماہرین تعلیم اسے بہتر بنا لیں گے۔ یہ کام ماہرین تعلیم اور کارپردازانِ سیاست کا ہے، جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے والے پولیس افسر کا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسی متفقہ نصابِ تعلیم کے تحت پرائمری جماعتوں تک اقلیتی آبادی کی کتب تیار ہو چکی ہیں، جو پورے ملک میں چار فی صد کے لگ بھگ ہیں۔ تمام اقلیتی آبادی ملک بھر میں منتشر اور پھیلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کے سیکڑوں ہزاروں اسکولوں میں سے بمشکل تمام درجن بھر اسکولوں میں ایک دو غیرمسلم بچے ملیں گے۔ یہی حال ملک بھر کے اضلاع کا ہے۔ جہاں اپنی آبادی کے تناسب سے چند اسکولوں ہی میں اِکا دکا بچے ملتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین تعلیم نے یہ نصاب ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے لیے تیار کیا ہے۔ ان اِکا دکا غیرمسلم بچوں کے لیے بھی نصاب کا ہرحصہ پڑھنا لازم نہیں ہے، مثلاً مشقی کام میں جہاں استاد بچے سے نعت سنتا ہے تو وہیں یہ ہدایت موجود ہے کہ غیرمسلم بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔تاہم، صوبہ سندھ کے چند اضلاع میں ہم وطن ہندو طالب علموں کی تعداد مقابلتاً ذرا مختلف ہے۔ لیکن ان کے مذہبی اطمینان کا طریقہ اسی نصاب میں موجود ہے۔اقلیتی آبادی کی معتدل اور غالب اکثریت کو ان جملوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کے اس متفقہ مذہبی مواد کو نصاب سے نکلوانے کے درپے وہ چند لوگ ہیں، جو نہ تو مسیحی اور نہ مسلمانوں کے نمایندے ہیں۔ مسیحی اور دیگر اقلیتی آبادیوں کے بچے ہم سب کے بچے ہیں۔
اگر کوئی بچہ مسیحی ہے، تو اسے مسیحی تعلیمات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور ریاست یہ ذمہ داری تمام اقلیتوں کی نصابی کتب تیار کرکے پوری کرچکی ہے۔ معمولی لفظی اختلاف کو لے کر اقلیتی آبادی کے یہ چند لوگ اور مخصوص این جی اوز سے ان کے چند مسلمان ہم نوا ، اگر سپریم کورٹ کے توسط سے چاروں صوبوں کے ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے متفقہ نصاب سے اسلامی تعلیمات نکلوانے میں کامیاب ہوگئے، تو خدشہ ہے کہ آیندہ کسی وقت ۹۶فی صد مسلم آبادی اس پورے نظام کو لپیٹ کر رکھ دے گی اور اس طرح بے جا طورپر، معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی کا خرمن جل کر راکھ ہوجائے گا اور اس المیے کی ذمہ داری آج مسند انصاف پر بیٹھے جج حضرات پر ہوگی۔
یہ تلخ جملہ لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی ہے کہ دورانِ سماعت ۳۱مارچ ۲۰۲۱ء کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب سے منسوب یہ تبصرہ ذرائع ابلاغ پر مسلسل دُہرایا جاتا رہا: ’’۱۹۶۰ء کا نصاب نکال کر پڑھائیں، اس میں بہترین مذہبی ہم آہنگی تھی ‘‘۔
راقم نے یہی نصاب پڑھا تھا جو تقسیم سے پہلے متحدہ ہندستان میں فی الحقیقت اس وقت کے ہندو مسلمان دونوں کے لیے تھا۔ اس نصاب میں ہم طلبہ رام چندر، سیتا، لچھمن اور راون کی اساطیری داستانیں پڑھتے تھے۔ دیوالی، ہولی، دسہرہ اور کرسمس تہوار پوری طرح سے اس نصاب میں موجود تھے۔ کیا یہ اساطیری داستانیں مسلمان اپنے بچوں کو پڑھانے پر رضامند ہو جائیں گے؟
سچی بات تو یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس سے منسوب یہ جملہ پڑھ سن کر یقین نہیں آیا کہ اقلیتی کمیشن کے مسلمان چیئرمین کے لیے نصاب میں لفظ ’اللہ‘ تک ناگوار ہو اور مسلمان بچوں کو جناب چیف جسٹس کے حکم پررام چندر، سیتا اور لچھمن کی وہ داستانیں پڑھائی جائیں، جن پر ملک کی ہندو آبادی کا بھی اتفاق نہیں ہے۔ ذرا سندھ کی ہندو آبادی میں سروے کرائیں۔ سو ہندوئوں میں آپ کو دس ہندو کہلوانے والے ملیں گے باقی خود کو دلت، بھیل، کوہلی اور دیگر شیڈولڈ کاسٹ کہلوانے پر مصر ہیں۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں کے معزز ارکان اور دانش وروں سے دردمندانہ گزارش ہے کہ براہِ کرم ان بارودی سرنگوں پر نظر رکھا کریں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مضمرات پر ماہرین تعلیم غور کریں۔ یہ دینی و غیر دینی سیاست کا موضوع نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات کے تدارک کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ وہ دن دُور نہیں جب طلبہ کتابوں میں خلافت ِ راشدہ کو ظلمات کے دور ہی کا ایک عہد پڑھیں گے۔ اور ۱۹۶۰ء کے نصابِ تعلیم کو امرت دھارا سمجھیں گے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ فیصلہ ہمیں واقعی رواداری اور عدم برداشت کی طرف لے جائے گا؟ ہمیں معاشرتی طبقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ فیصلہ اور پھر تعلیمی سفارشات طبقاتی خلیج کو اور گہرا کریں گی۔
آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں گزارش کی جائے کہ اعلیٰ عدلیہ سے ضلعی عدالتوں تک کے تمام افسران دستورِ اسلامی جمہوری پاکستان کے بعد اگر کسی کتاب کو حرزِ جاں بنائیں تو وہ پاکستان کے سابق مسیحی جسٹس جناب اے آر کارنیلیس کی کتابLaw and Judiciary in Pakistan ہے۔ہرجج کو یہ کتاب اپنے سرہانے رکھنا چاہیے۔ اگر اس مسیحی جج ہی سے لی گئی رواداری اور وسعت قلبی کا ہلکا سا اثر بھی عدلیہ میں دیکھا گیا تو ملک کی کوئی اقلیت نہ مسلمانوں سے شاکی ہوگی، نہ نصابِ تعلیم پر نظر ڈالنے کی اس طرح ضرورت پیش آئے گی اور نہ عدالتوں کو بے سوچے سمجھے نامعلوم دہشت گردوں کو اسلامی نظامِ تعلیم کی پیداوار سمجھنا پڑے گا۔محترم چیف جسٹس صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سپریم کورٹ کے ایک ہندو جج جناب رانا بھگوان داس، اسلامیات میں ایم اے تھے۔ وہ ہندو کے طور پر ہی دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن اسلام انھوں نے وسعت ِ قلبی سے پڑھا، کوئی جبر اُن پر نہیں تھا۔
اقلیتوں کے حقوق کے متعلق ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قائم کردہ مینارٹی کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’لازمی مضامین، یعنی اُردو، انگریزی اور معلوماتِ عامہ کی کتب سے حمد، نعت، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے اسلام، اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات اور مسلمانوں کے حوالے سے تاریخی حوالہ جات ختم کیے جائیں کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل ۲۲ سے متصادم ہیں‘‘۔
مذکورہ کمیشن نے ۳۰ مارچ کو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی ہے، جس میں تجویز دی گئی ہے کہ ’’یکساں قومی نصاب (سنگل نیشنل کریکولم) میں شامل تمام تر مذکورہ بالا اسلامی مواد صرف اسلامیات یا اسلامک اسٹڈیز کی کتب میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ مضمون خصوصی طور پر مسلمان طلبہ کے لیے ہے‘‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’سنگل نیشنل کریکولم کے تناظر میں دیکھیں تو اسلامی مواد کا اردو اور انگریزی کی کتب میں ہونا ’مذہبی ہدایت‘ دیے جانے میں شمار ہوتا ہے اور کسی بھی غیر مسلم کو یہ مواد پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ کمیشن نے اقلیتی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کئی اسکالرز اور سرگرم سماجی کارکنوں کے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’’لازمی مضامین میں اسلامی مذہبی مواد کا شامل کیا جانا اقلیتی طلبہ کو اسلامی مذہبی تعلیمات حاصل کرنے پر مجبور کرنے کے مترادف ہے‘‘۔
تاہم، وزارت تعلیم کے عہدےدار نے کمیشن کی رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ ’’یہ ہدایات ٹیچرز کے لیے دی گئی ہیں، اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو پڑھنے پر مجبور کرنے کے لیے نہیں، اور غیرمسلم طلبہ کا امتحان بھی اسلامی مواد سے نہیں لیا جائے گا۔ لیکن کمیشن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ غیر مسلم طلبہ کو اسلامی مواد پڑھنے سے علیحدہ کیسے رکھا جاسکتا ہے، خصوصاً اس وقت جب یہ مواد لازمی مضامین میں شامل کیا گیا ہے اور وہ بھی اس وقت جب پرائمری اسکولز میں ایک ٹیچر ہوتا ہے یا پھر ایک کمرہ ہوتا ہے یا پھر دونوں‘‘۔
مذکورہ کمیشن نے مشاہدات میں لکھا ہے کہ ’یکساں قومی نصاب‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو انگریزی اور اردو کی کتب میں اسلامی مواد کا ہونا مذہبی تعلیمات دینے کے زمرے میں آتا ہے اور کسی بھی غیر مسلم طالب علم کو اسے پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
پہلی تا پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں مضمون ’رول ماڈل‘ جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی تاریخ کی نامور شخصیات مرد و خواتین سے متعلق ہے ، اس حوالے سے کمیشن کا کہنا تھا کہ’’ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے انتہائی معزز، معتبر ترین اور پاک ترین شخصیت ہیں، چونکہ غیر مسلموں پر اسلامی تعلیمات پر عمل لازم نہیں ہے، لہٰذا یہ عنوان انگریزی کے مضمون میں نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ دورانِ تعلیم طلبہ کو یہ عنوان لازمی طور پر پڑھایا جائے گا چاہے وہ طالب علم مسلم ہو یا غیر مسلم‘‘۔ کمیشن تجویز دیتا ہے کہ ’’یہ عنوان انگریزی سے خارج کرکے خصوصی طور پر اسلامیات کی کتب میں شامل کیا جائے‘‘۔
تیسری جماعت کی انگلش ماڈل ٹیکسٹ بُک کے حوالے سے کمیشن نے تجویز دی ہے کہ ’’حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دردمندی‘‘ کے متعلق عنوان بھی اس لیے صرف اسلامیات میں منتقل کیا جائے کیونکہ انگریزی کا مضمون مسلمانوں اور غیر مسلم طلبہ دونوں کے لیے ہے‘‘۔
جماعت چہارم کی انگریزی کی کتاب میں ’اسلام کے عظیم خلفاء‘ کے حوالے سے موجود عنوان کے بارے کمیشن کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے اسلام انتہائی معزز شخصیات سمجھی جاتی ہیں اور چونکہ یہ عنوان بھی خالصتاً اسلامی تعلیمات سے متعلق ہے، لہٰذا اسے لازمی طور پر غیر مسلم طلبہ کے پڑھنے کے لیے انگریزی میں شامل نہ رکھا جائے‘‘۔
پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں ’صبر و تحمل‘ کے عنوان کا تعلق اسلام کی تاریخی شخصیات سے ہے، لہٰذا اسے اسلامیات ہی کے مضمون میں شامل رکھا جائے‘‘۔
کمیشن کے مطابق، پہلی تا پانچویں جماعت کی اُردو کی کتاب میں حمد اور نعت کی شمولیت کا اردو زبان یا اردو ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہٰذا انھیں بھی اسلامیات کی کتاب میں شامل کیا جائے۔
اردو کی دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت کی کتب کے حوالے سے بھی ایسی ہی تجاویز پیش کی گئی ہیں: پہلی تا تیسری جماعت کی معلومات عامہ (جنرل نالج) کی کتابوں میں سے درگزر کے حوالے سے واقعے کا بیان کیا جانا۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب کے پیغمبروں کے حوالے سے یہ عنوان شامل کیا جائے، یا پھر یہ عنوان اسلامیات کی کتاب میں ہی شامل رکھا جائے، یاغیر مذہبی شخصیات جیسا کہ ملکہ رضیہ سلطانہ جیسے لوگوں کے درگزر کے واقعات شامل کیے جائیں۔
تاہم، کمیشن نے اس بات کو سراہا ہے کہ ’’پہلی مرتبہ مذہبی اقلیتوں کے لیے علیحدہ نصاب تیار کیا گیا ہے‘‘۔ اور تعریف کی گئی ہے کہ ’’یکساں قومی نصاب میں پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئی حقارت آمیز بات شامل نہیں ہے، جس میں ان اقلیتوں کی منفی منظر کشی کی گئی ہو‘‘۔
ہمارے ہاں بھی بہت عجیب معاملہ ہے۔ یہاں کوئی بھی شخص محض اپنے ذاتی ذوق کی تسکین کے لیے طے شدہ آئینی و قومی امور پر نقطۂ اعتراض اٹھا دیتا ہے اور عدالت جا پہنچتا ہے۔ وزیراعظم نے اس قوم کو یکساں نصابِ تعلیم کا خواب دکھایا۔ پھر تقریباً اڑھائی برس تک وزارتِ تعلیم کے افسروں اور ماہرین تعلیم نے اس مقصد کے لیے شب و روز کوششیں کیں۔ اور جیسے ہی یہ قومی نصاب آخری مراحل پر پہنچا ہے تو ہم وطن مذہبی اقلیتوں کے کچھ نمایندوں نے عدالت میں رٹ دائر کردی کہ ’’وزارتِ تعلیم کے مجوزہ نصابِ تعلیم میں اسلامی تعلیمات کو انگریزی اور اردو جیسے لازمی مضامین کا بھی حصہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے نقطۂ نظر کے مطابق حمدونعت کو اردو نصاب میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ یہ مسئلہ غیرمسلم اقلیت کا نہیں، مٹھی بھر سیکولر حضرات اور مراعات یافتہ اقلیت کا ہے، جو اپنے بچوں کو قومی نصاب نہیں غیرملکی نصاب پڑھانا چاہتی ہے تاکہ گذشتہ عشروں کی طرح اُن کے بچوں کی امتیازی شان اور پہچان الگ رہے۔
روزنامہ جنگ [۵؍اپریل ۲۰۲۱ء] میں محترم تجزیہ نگار انصار عباسی کے مطابق وزارتِ تعلیم کے ایک افسر نے بتایا ہے کہ ’’ایک طبقہ جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلاکر، لازمی مضامین میں سے اسلامی نصاب نکالنے کی کوشش میں ہے‘‘۔ افسر موصوف نے کہا کہ ’’قرآنِ پاک صرف مسلمان طلبہ کو پڑھایا جائے گا، جب کہ لازمی مضامین میں شامل حمدونعت بھی صرف مسلمان طلبہ کے لیے ہی لازم ہوگی، جب کہ غیرمسلم طلبہ کے لیے نصاب کا یہ حصہ پڑھنا لازم نہ ہوگا، اور نہ اس بارے میں ان سے کوئی سوال پوچھا جائے گا‘‘۔ افسر وزارتِ تعلیم کی نمایندگی کرنے سپریم کورٹ میں گئے ہوں گے، جہاں وہ سپریم کورٹ کو مطمئن نہیں کر سکے۔ کیا ہمارے اعلیٰ بابوؤں کو اتنا بھی علم نہیں کہ حمدونعت اور مثنوی و مرثیہ اردو شاعری کے اہم ترین اجزا ہیں۔ مسلمان ہی نہیں، ہندو، سکھ اور دیگر ادیان سے تعلق رکھنے والے اردو شعرا نے نہایت اعلیٰ پائے کی ادبی نعتیں اور کئی حمدیہ نظمیں تخلیق کی ہیں۔ ان ادب پاروں کو اردو لٹریچر میں نہایت نمایاں مقام حاصل ہے۔یہ حمدونعت کے ادبی شاہکار مسلم و غیرمسلم طلبہ کے لیے یکساں طور پر ضروری ہیں۔ دلورام کوثری کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
کچھ عشقِ محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگارِ محمد
اُردو کی مشہور مثنوی ’گلزار نسیم‘پنڈت دیاشنکر نسیم کی لکھی ہوئی ہے۔ اس مثنوی کا آغاز حمدباری تعالیٰ اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے۔
سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
امریکا میں مقیم چند دوستوں سے امریکا کے سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصابِ تعلیم کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہر امریکی بچے کو ایلیمنٹری اور جونیئر وسینئر ہائی سکول میں امریکا کی تاریخ کے اہم واقعات اور امریکا کے ہیروز کے بارے میں بہت کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اسکولوں کے لازمی مضامین میں بائبل کو بطورِ تاریخ، کلچر، لٹریچر اور ’اخلاقیات‘ پڑھایا جاتا ہے؛ البتہ بطورِ مذہب بائبل الگ پڑھائی جاتی ہے‘‘۔
جہاں تک ’اخلاقیات‘ کا تعلق ہے تو اسلامی اور دیگر ادیان کی اقدار حتیٰ کہ سیکولر تعلیمات میں بھی کوئی خاص فرق نہیں۔ مثلاً انگلش یا اردو میں اعلیٰ اخلاقی اقدار اور آدابِ معاشرت کا تذکرہ اگر اسلامی تعلیمات و تاریخ کی روشنی میں کیا جاتا ہے تو اس پر کسی غیرمسلم کو کیونکر اعتراض ہوگا۔
حیرت ہے کہ وزارتِ تعلیم کے افسران اور ہمارے سیکولر دانشوروں کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے، جس میں مذہب، سائنس، تاریخ، فلسفہ اور بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ ادب پارہ تخلیق کرتے ہوئے شاعر یا ادیب غیرفطری طریقے سے اپنے تخلیقی شاہکار میں مذہبی و آسمانی حوالوں کا داخلہ بند نہیں کرتا اور نہ ایسا ممکن ہے۔ برنارڈشا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تاریخِ عالم میں جتنی پرکشش شخصیت محمد مصطفیٰﷺ کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں، اسی لیے میں محمد (ﷺ) کو ساری دنیا کا نجات دہندہ سمجھتا ہوں۔ اب برنارڈشا کا ڈراما پڑھاتے ہوئے، انگریزی کا ٹیچر اسلام کے بارے میں ڈرامہ نگار کے خیالات بتائے گا تو ان تاریخی ریمارکس پر کسی غیرمسلم طالب علم کو کیوںکر اعتراض ہوگا؟
کیا ہم انگلش لٹریچر پڑھتے ہوئے جان ملٹن [م: ۱۶۷۴ء]کا ادبی شاہکار Paradise Lost اوراطالوی دانش ور دانتے الیگیری [م:۱۳۳۱ء] کا Divine Comedy کا تخلیقی ادب پارہ اس لیے نہیں پڑھیں گے کہ وہ مسیحی تعلیمات و عقائد کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں؟ اپنے قومی اہداف کی روشنی میں ہر قوم اپنی تاریخ، اپنے کلچر اور اپنی مذہبی و تہذیبی اقدار کی عکاسی کرنے والا قومی نصابِ تعلیم تشکیل دیتی ہے، جس میں اپنے ہیروز کے عظیم کارناموں سے نئی نسل کو متعارف کروایا جاتا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے اسکولوں کے لازمی مضامین میں اسلامی اقدار اور قومی و ملّی شخصیات کا تذکرہ شامل کیا گیا ہے۔ ہمارے اسکولوں میں اسلامیات کو بطورِ لازمی مضمون پڑھایا جاتا ہے، جب کہ غیرمسلموں کے لیے اخلاقی تعلیمات کا الگ نصاب موجود ہے۔ تاہم، جس چیز کو اقلیت کے کچھ نمایندے اور ہمارے بعض سیکولر دانش ور اسلامی تعلیمات قرار دے رہے ہیں، وہ شاعری، ادب اور ہمارا تہذیبی و تاریخی ورثہ اور ہمارے قابل فخر ہیروز کے کارنامے ہیں۔ ان سب چیزوں کو اگر لازمی مضامین سے نکال دیا جائے تو پھر باقی کیا بچے گا۔ وزارتِ تعلیم کو چاہیے کہ وہ قومی و ملّی شعور رکھنے والے ماہرین تعلیم کی رہنمائی میں عدالت عظمیٰ میں اپنے موقف کو منطقی دلائل کے ساتھ پیش کریں۔
یاد رہے جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں ایک یکساں نصابِ تعلیم مرتب کروایا تھا اور اسے تمام سرکاری و پرائیویٹ اسکولوں میں رائج کرنے کی مکمل تیاری بھی کرلی گئی تھی مگر مراعات یافتہ ’اقلیت‘ کو اکثریت والی تعلیم نامنظور تھی۔ اس بااثر اقلیت نے بڑی ’معصومیت‘ یا چالاکی سے غیرممالک سے آنے والے پاکستانی بچوں کے لیے غیرپاکستانی نصاب پڑھانے والے انگلش میڈیم سکول قائم کرنے کی اجازت لے لی۔ اس ’اجازت نامے‘ کی آڑ میں ہر طرف سے غیرملکی نصاب والے اسکولوں کا ایک سیلاب آگیا۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ یکساں قومی نصاب کے معاملے میں کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہ دیں۔
امریکا نے افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان کرکے فی الحال امن مذاکرات اور طالبان کو منوانے کا ٹھیکہ ترکی کے سپرد کیا ہے۔ اس سلسلے میں ۲۴؍اپریل ۲۰۲۱ءکو استنبول میں مشترکہ اجلاس کا اعلان کیا گیا، مگر طالبان نے اس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا، جس سے یہ اجلاس فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ امریکا، قطر اور ترکی کی مدد سے کسی ایسے معاہدے کے خد و خال تیار کرنے میں مصروف ہے، جس سے شام کی طرز پر افغانستان میں جنگ بندی عمل میں لائی جاسکے اور زمینی صورتِ حال کو جوں کا توں رکھا جائے ۔ گویا جس فریق کو جس علاقے پر برتری یا کنٹرول حاصل ہو، اس کو تسلیم کرکے اور چھیڑے بغیر مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور پھر ایک طرح سے افغانستان کو اپنے حال پر یا وقت کے دھارے پر چھوڑ دیاجائے ۔ پاکستان کے ذریعے طالبان کے لیڈروں کو بتایا گیا ہے کہ ’’کابل کی اشرف غنی کی حکومت کے پاس تو بس ۳۳ فی صد علاقے کا کنٹرول ہے، ۱۹ فی صد علاقہ طالبان کے براہِ راست قبضے میں ہے اور ملک کا بقیہ ۴۸ فی صد علاقہ حالت جنگ میں ہے، جہاں آئے دن زمینی صورت حال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے تنازعے کو منجمد کرنا ان کے مفاد میں بھی ہے‘‘۔
فی الحال امریکا اشرف غنی کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا ہے کہ اس کا وجود مذاکرات کی پیش رفت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ویسے اس حقیقت کا ادراک امریکا کو ۲۰۱۹ء میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ہی ہوگیا تھا ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق طے پایا تھا کہ ’’ستمبر میں جو متنازعہ صدارتی انتخابات منعقد ہوئے تھے، ان کو کالعدم کرکے ایک وسیع البنیاد یا غیر جانب دار اشخاص پر مشتمل ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جو بعد میں طالبان کے ساتھ دیگر امو ر پر گفت و شنید کرکے معاملات طے کرکے غیر ملکی افواج کے انخلا کا راستہ ہموار کرے گی‘‘ ۔تاہم دوحہ معاہدے پر دستخط کرنے سے صرف ۱۰روز قبل افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اچانک ۱۸ فروری ۲۰۲۰ءکو اشرف غنی کو صدارتی انتخابات میں فاتح قرار دے دیا۔ اس سے پانچ روز قبل بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اچانک ایک خصوصی طیارے سے کابل پہنچے تھے۔ انھوں نے اشرف غنی کو دوحہ میں جاری مذاکرات اور امریکا کے طالبان کے ساتھ معاہدے کے خد و خال سے آگاہ کرکے بتایا کہ اس کے بعد آپ کی حکمرانی کا جواز ختم ہوجائے گا ۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو ہدایت کریں کہ وہ دوحہ میں اس معاہدے کے اعلان سے قبل ہی نتائج کا اعلان کرے ، تاکہ آپ کی حکومت کی آئینی حیثیت برقرار رہ سکے ۔
اشرف غنی کا ابھی تک اصرار ہے کہ وہ حکومت سے دستبردار ہو جائیں گے ، مگر عبوری انتظامیہ کے ذریعے جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان انتخابات میں وہ شرکت نہیں کریں گے ۔ تاہم، ۳کروڑ ۵۰ لاکھ آبادی والے ملک میں جہاں صرف ۹۶ لاکھ افراد رجسٹرڈ ووٹر ہیں اور ان میں سے بھی ۱۹ فی صد ہی ووٹ ڈالنے پولنگ بوتھ تک آتے ہیں۔ اس سے ان انتخابات کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ ناٹو اتحاد کے تحت ترکی کے۶۰۰ فوجی افغانستان میں مقیم ہیں ، اس لیے امریکا چاہتا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد لیبیا اور شام کی طرح ترکی افغانستان کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھال لے ۔ اس لیے یورپی یونین سے لے کر بھارت تک اس وقت ترکی کی ناز برداری کرکے افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری اور اثاثوں کی حفاظت کی گارنٹی چاہتے ہیں ۔ گذشتہ دنوں تاجکستان کے دارالحکومت دو شنبہ میں ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ کے موقعے پر بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ترکی کے اپنے ہم منصب میولوت چوشوولوسے اپیل کی کہ ’’ہمارے اقتصادی پروجیکٹس کو طالبان کی پیش قدمی کے دوران کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے‘‘۔ فی الحال ترکی نے فوجوں کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک انقرہ میں ایسی ذمہ داری قبول کرنے کے مضمرات پر غور و خوض جاری ہے ، کہ کہیں ہمارا حشر ۱۹۸۷ء میں بھارت کی اُس امن فوج جیسا نہ ہو، جو ۱۹۸۷ء میں تقریباً ان ہی حالات میں سری لنکا میں حکومت اور تامل علیحدگی پسندوں کی مشترکہ اپیل پر امن قائم کرنے گئی تھی، مگر جلد ہی تامل ٹائیگرز کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہو گئیں اور بعد میں کولمبو کی حکومت بھی ان کے خلاف برسرِپیکار ہو گئی ۔
مغربی ممالک کا خیال ہے کہ چونکہ ترکی کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں ، اس لیے کابل میں کسی مستحکم اور پائیدار حکومت کے قیام تک اس کی فوج کی تعیناتی طالبان برداشت کرلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نیز سابق شمالی اتحاد کے اکثر رہنمائوں بشمول رشید دوستم اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی سے خوف زدہ اشرف غنی، بھارت اور افغانستان میں اس کے حوارین ایک بار پھر پاکستان کو کٹہرے میں لانے کی کوششیں کررہے ہیں اور ڈو مور اور مغربی ممالک کے ذریعے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی فکر میں ہیں ، تاکہ وہ طالبان کی مدد کرنے سے باز رہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں ہی امریکا کو ادراک ہو گیا تھا کہ اشرف غنی کی حکومت مذاکرات اور امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، تو ۲۰۲۱ءتک اس انتظامیہ کو بے دخل کرنے کےلیے کیوں انتظار کرایا گیا؟ کسی اتفاق رائے والی حکومت کا قیام عمل میں لائے بغیر فوجوں کے انخلا کا اعلان کرانا ملک کو ایک بار پھر شدید خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے مترادف تو نہیں ہے؟ ;
ان سوالات کا جواب یہی ہے کہ ۱۸۳۹ء سے ہی افغانستان میں یہی تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہی ہے اور مغربی ممالک پچھلی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
کسی غیر جانب دار اور اتفاق رائے والی حکومت کے قیام کے بغیر امریکی فوجوں کے انخلا سے۱۹۸۸ء کے ’جنیوا معاہدے‘ کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں ، جس کی رو سے سوویت فوجیں اپنے زخم چاٹتے ہوئے افغانستان سے واپس تو ہو گئیں ، مگر پیچھے ایک میدان کارزار چھوڑ کر چلی گئیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق، جو اس معاہدے کی تشکیل اور مذاکرات میں شامل تھے، اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے واضح ہدایات تھیں ، کہ ’’کابل میں صدر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کو بے دخل کرکے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام تک، کسی بھی صورت میں سوویت فوجوں کا انخلا نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ مگر امریکا بھی اس وقت افغانستان میں ’جنیوامعاہدے‘ پر دستخط ثبت کرنے کےلیے بے چین تھا۔ اس کے خیال میں کابل میں پاکستان کی حمایتی اسلامی حکومت کے بدلے ایک لولی لنگڑی کمیونسٹ حکومت اس کے مفادات کےلیے بہتر ہے۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق کہیں افغانستان کو بنیاد بنا کروسطی ایشیا کو اسلامی رنگ میں رنگ نہ دیں ، کیونکہ جلد ہی سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور وسطی ایشیا کے ممالک آزاد ہونے والے تھے ۔ ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط کرنے کےلیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کےلیے امریکا نے ۱۲۰دن تک امداد پر پابندی بھی لگائی تھی۔
پاکستان چونکہ اس معاہدہ کو تسلیم کرنے پر ہچکچا رہا تھا، کہ اسی دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۸۸ء کو راولپنڈی شہر کے قلب میں افغان مجاہدین کےلیے مخصوص اوجڑی کیمپ کے ایمو نیشن ڈپو میں خوفناک دھماکا ہوا ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہروں پر راکٹوں اور میزائیلوں کی بارش ہوئی، جس میں کم از کم۱۰۰؍ افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس کے چار دن بعد، یعنی ۱۴؍اپریل کو جنیوا میں پاکستان، افغانستان، امریکا،سوویت یونین اور اقوام متحدہ کے مندوبین نے معاہدے پر دستخط کرکے سوویت فوجوں کے انخلا پر رضامندی ظاہر کی ۔
صدر ضیاء الحق نے اگرچہ اس کا خیر مقدم کیا، مگر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ اپنی ناراضی چھپا نہیں سکے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آخر پاکستان کس طرح نجیب اللہ حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے ہاتھ افغانیوں کے خون سے رنگین ہیں؟‘‘ دستاویزات کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے نجیب اللہ کے بغیر دیگر کمیونسٹ لیڈرو ں اور مجاہدین پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز بھی پیش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس حکومت کے قیام کے بعد ہی ’جنیوا معاہدے‘ پر دستخط ہونے چاہییں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ مجاہدین کمانڈروں یونس خالص اور گلبدین حکمت یار نے بڑے اصرار سے کمیونسٹوں کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا، مگر پاکستانی افسر بتاتے ہیں کہ نجی ملاقاتوں میں ان دونوں لیڈران نے آخرکار نرمی دکھائی تھی۔
’جنیوامعاہدے‘ کے فوراً بعد ہی پاکستان میں واقعات کا ایک تسلسل شروع ہوا ۔ ایک ماہ بعد، یعنی مئی میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور پھر اگست میں خودجنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں پُراسرار موت سے دوچار ہوگئے ۔ اس کے ساتھ ہی کابل پر قبضہ کرنے کےلیے کمیونسٹوں اور مجاہدین کے درمیان افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ ۱۹۹۲ء میں مجاہدین نے کابل کو فتح تو کرلیا، مگر اس کے بعد وہ اگست ۱۹۹۴ء تک آپس میں برسرپیکار رہے، تا آنکہ طالبان نے آکر ان سبھی گروپوں کو شکست دیتے ہوئے کابل پر قبضہ کرلیا ۔
اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں مسجد الحرام میں مجاہدین لیڈروں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور طے پایا تھا کہ اگلے ۱۸ماہ تک برہان الدین ربانی بدستور صدر رہیں گے اور گلبدین حکمت یار ان کے وزیر اعظم کے طور پر حکومت سنبھا ل لیں گے ۔ یہ معاہدہ سحری کے وقت مسجد الحرام میں سعودی فرمانروا شاہ فہد اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں طے پایا تھا اور اس کو مزید تقدس فراہم کرنے کےلیے اس کی ایک کاپی خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کی گئی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ’’ چونکہ یہ معاہدہ، اسلام کی مقدس ترین جگہ پر طے پایا ہے، اسی لیے کسی کو اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوگا‘‘۔ مگر اس معاہدے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ خانہ جنگی میں ایک بار پھر شدت آگئی ۔ افغانستان جسٹس رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴ءکے پہلے چھے ماہ میں ہی کابل میں ۲۵ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔ آئے دن شہر پر راکٹوں کی بارش ہو رہی تھی، جو اگست ۱۹۹۴ءکو طالبان کی آمد کے بعد ہی تھم سکی ۔ ۲۰۰۱ء کے آخر میں امریکی افواج نے طالبان کو کابل بدر کردیا ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں امریکی خصوصی نمایندے زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے، تقریباً ۱۹سال قبل اپریل ۱۹۹۸ء کو امریکا کے اقوام متحدہ میں سفیر بل رچرڈسن یہی کچھ طالبان رہنما ملا عمر سے منوا چکے تھے ۔ رائے گٹمین کی کتاب How We Missed the Story: Osama bin Laden, the Taliban, and the Hijacking of Afghanistan میں درج ہے کہ’’ طالبان نے نہ صرف جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی، بلکہ شمالی اتحاد کے ساتھ وہ گفت و شنید کےلیے بھی تیار ہو گئے تھے ۔ پاکستانی سفیر کی موجودگی میں رچرڈسن نے طالبان سے منوا لیا کہ ملک میں خواتین کےلیے تعلیمی ادارے کھل جائیں گے اور ہیلتھ ورکروں اور ڈاکٹروں کو خواتین کا معائنہ کرنے اور علاج کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس میں خواتین سے متعلق دیگر حقوق کی بھی باتیں درج تھیں‘‘ ۔ اور اب ۱۹ سال کے بعد ڈیڑھ لاکھ افغانوں کی ہلاکت، جس میں ڈھائی ہزار سے زیادہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور دو اعشاریہ ۲۶۱کھرب ڈالر جھونکنے کے بعد دوحہ میں بھی تقریباً انھی باتوں کا اعادہ کیا گیا ۔
افغانستان میں یہ تاریخ دُہرانے کی شروعات ۱۸۳۹ءکی پہلی برطانوی فوج کشی سے ہوئی تھی ۔ اس فوج کشی کا مقصد دوست محمد کو اقتدار سے ہٹانا اور اس کی جگہ پر اپنے حلیف شاہ شجاع کو تخت پر بٹھانا تھا ۔ یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا تو ہو گیا، مگر جلد ہی سردیوں کی آمد پر افغانیوں نے برطانوی فوجوں کا ایسا قتل عام کیا ، جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے ۔ برطانوی فوجوں نے کمک بلاکر اس کا بھر پور بدلہ چکایا ۔ کابل اور اس کے گر دو نواح میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا۔ مؤرخ ولیم ڈال رمپل اپنی کتاب Return of a King: The Battle for Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس قتل عام اور اجتماعی عصمت دری پر خود کئی برطانوی افسران بعد میں شرمسار تھے۔ خون ریزی کے طوفان کے بعد اب سوال تھا کہ کابل کے تخت پر کس کو بٹھایا جائے؟ شاہ شجاع کو قتل کردیا گیا تھا۔ قرعہ فال پھر دوست محمد کے نام نکلا، جس کو ہٹانے کےلیے تین سال قبل فوج کشی کی گئی تھی ۔ ۲۰ہزار فوجی گنوانے اور ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کے بعد بادشاہ دوست محمد کو باعزت طریقے سے واپس کابل بلا کر برطانیہ نے اقتدار اس کے حوالے کردیا ۔ برطانوی فوج کشی، سوویت یونین کے قبضے اور پھر امریکی فوجی مداخلت اور اب انخلا کسی قدیم یونانی ٹریجڈی تھیٹر کی داستان معلوم ہوتی ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلا سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گا یا یہ بدنصیب ملک مزید گرداب میں گھر جائے گا؟ آخر مغربی طاقتیں بار بار کیوں ایک ہی بل میں ہاتھ ڈالتی ہیں اور ہلاکتوں کے طوفان کے بعد پھر گھوم کر اسی نکتے پر لوٹ آتی ہیں؟ افغانستان میں ایک عوامی مستحکم حکومت کے قیام کے بدلے وہ آخر کیوں کرپٹ اور کمزور حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہیں؟ ; ان کی اس حکمت عملی نے ایشیا کے اس دل کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس دل کو صحت مند بنانے کےلیے ضروری ہے کہ افغان عوام کو بلالحاظ قبائلی اور نسلی وابستگیوں کے با اختیار بنایا جائے ۔ انتخابات کے عمل کو شفاف اور پوری آبادی اور ملک سے باہر مہاجرین کو اس میں شامل کرایا جائے ۔ مزید یہ کہ پڑوسی ممالک کے جائز مفادات کا خیال رکھ کر ہی افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم افغانستان یقینا براعظم ایشیا کے عروج کا نقیب ہوگا ۔
دُنیا میں کسی فرد یا قوم کے لیے اس سے زیادہ آزمایش اور کون سی ہوسکتی ہے کہ اُس کے فکرونگاہ کے زاویوں کوہی بالکل اُلٹ کررکھ دیا جائے اور اس طرح ذم مدح میں، معائب محاسن میں اور مثالب مناقب میں اُس کے سامنے جلوہ گر ہونے لگیں۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ پھر یہ تبدیلی بھی متناسب اور متوازن نہیں ہوتی بلکہ انسان کے قلب و دماغ کے اندر ایک ایسا انتشار رُونما ہوتا ہے، جو اُس کی زندگی کے سارے شعبوں کومتزلزل کردیتاہے اور اس کی حیات مستعار کے پورے لمحات ایک قسم کے ذہنی اور اخلاقی بحران میں گزرتے ہیں۔ اس کی ذات سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اُس کی ساری صلاحیتیں اور قلب و دماغ کی پوری قوتیں تخریبی کارروائیوں میں صرف ہوتی رہتی ہیں۔
اس منتشر قلب و دماغ کے اندر چونکہ وہ اخلاقی جرأت ختم ہوجاتی ہے، جو کسی فرد یا قوم کو اعترافِ حقیقت پر اُبھارتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی بداعمالیوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے نوعِ انسانی کے اندر ایک مصنوعی برتری کی نمایش شروع کر دیتا ہے۔
اعترافِ گناہ درحقیقت ایک نہایت ہی اُونچا وصف ہے اور اس کی وہ شخص جرأت کرسکتا ہے، جو ذہنی اور قلبی اعتبار سے بالکل تندرست اور توانا ہو۔ ایک بیمار دل کے اندر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ وہ اتنا عظیم کام سرانجام دے سکے۔ اس لیے وہ لوگ جو ذہنی اور قلبی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں، وہ حق و صداقت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے استکبار کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ مدت تک اس دھوکے میں مبتلا رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ حق کی راہ پر گامزن ہیں۔ کسی میں یہ دم خم نہیں کہ وہ انھیں اُن کی کسی غلط حرکت پر ٹوک سکے۔ چونکہ حق کی منزل ایک کٹھن منزل ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اس بات کے درپے رہتے ہیں کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اُسے ہی لوگ حق سمجھ کر اُس کی بلاچون و چرا پیروی کرنے لگیں، تاکہ کچھ عرصے کے لیے اُن کے جذبۂ نخوت کی تسکین ہوتی رہے اور حقائق کی تلخیاں اُن کے قوت و طاقت کے نشے کو اُتار نہ دیں۔ (’اشارات‘ ،پروفیسر عبدالحمید صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۵۶، عدد۲، مئی ۱۹۶۱ء، ص۱۰-۱۱)
سوال : ایسی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے جو عام طور پر ظہر سے مغرب تک منائی جاتی ہیں، کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر ایک ساتھ ادا کریں؟
جواب :حنبلی مسلک کے لحاظ سے کسی بھی عُذر شرعی کی بنا پر دو وقت کی نمازوں، یعنی ظہر اور عصر یا مغرب اور عشاء کو یک جا کرکے ایک ساتھ ادا کرنا جائز ہے۔ اس میں نمازیوں کے لیے یقینا آسانی ہے۔ روایتوں میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر اور بارش کے علاوہ بھی دو وقت کی نمازیں یکجا کرکے پڑھی ہیں۔ ابن عباسؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ حضوؐر نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوںنے فرمایا کہ آپؐ کی اُمت کو تنگی اور مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہ روایت صحیح مسلم میں موجود ہے۔
اس قسم کی روایتوں کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر واقعی کسی قسم کی پریشانی ہو تو دو وقت کی نمازیں ملا کر پڑھی جاسکتی ہیں۔ بہ شرطے کہ یہ عادت نہ بن جائے کہ ہر دو تین دن کے بعد نمازیں ملاکر پڑھی جائیں۔ واقعی عُذر کی مثال یہ ہے کہ ایک سپاہی ہے جس کی ڈیوٹی مغرب سے پہلے عشاء کے بعد تک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وہ چاہے تو مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ یا ایک ڈاکٹر ہے جو دیرتک آپریشن میں مصروف رہتا ہےوہ چاہے تو دو نمازیں ملا کر پڑھ سکتا ہے۔
لیکن میں نہیں سمجھتا کہ پارٹیوں میں شرکت کرنا کوئی عُذر واقعی ہے۔ اگر وہ واقعی سچا مسلمان ہے تو پارٹیوں کے درمیان بھی نماز ادا کرسکتا ہے۔ اس میں شرمانے اور جھجکنے کی کوئی بات نہیں۔ بلکہ اسے علی الاعلان پارٹیوں کے دوران نماز ادا کرنی چاہیے تاکہ دوسرے بھی نصیحت حاصل کریں۔(ڈاکٹر
اقبالیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر اقبال کی نظم و نثر میں اتنی گہرائی ہے اور ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ لکھنے والے ذخیرئہ اقبالیات میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ مصنف نے چار تحقیقی مقالات پر مشتمل زیرنظر مجموعہ شائع کیا ہے۔ عنوانات: صوفی عبدالمجید پروین رقم، کلامِ اقبال کے ایک خطاط۔ اقبال شکنی کی روایت۔ لفظ پاکستان کا خالق: اقبال۔اقبال کا نقدوآہنگ اور ارمغانِ حجاز۔ زیربحث موضوعات پر ماقبل جو کچھ لکھا گیا، مصنف اس سے باخبر ہیں۔ مباحث کے مختلف پہلوئوں کو ان مضامین میں سمیٹ لیا ہے۔ اقبال شکنی کی روایت ایک سو صفحات پر مشتمل ہے۔ غالباً اس لیے کہ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد ایوب صابربھی بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔
اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کے خالق چودھری رحمت علی تھے، مگر مصنف نے قرار دیا ہے کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ اقبال ہی کی عطا ہے (ایوب صابر صاحب نے بھی اس موضوع پر تحقیق کی ہے)۔ مصنف نے اپنی محنت کا ثمر بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ ذخیرئہ اقبالیات میں یہ ایک عمدہ اضافہ ہے۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مؤلف نے تقریباً ۶۵ چھوٹے بڑے مضامین اور کالموں کو چار عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے: ’’تعارف اسلام، مسلمان، تاریخ اسلام، مسلم معاشرہ‘‘۔ دیباچہ میں وہ کہتے ہیں: ’’تفہیم القرآن کا مستقل طالب علم ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری تفاسیر کا تقابلی مطالعہ بھی کیا۔ قرآن کے مضامین جو میری سمجھ میں آئے، انھیں تحریری شکل دے دی‘‘۔
بلاشبہہ یہ کتاب کم تعلیم یافتہ افراد کے لیے بھی معلومات افزا ہے۔ چند عنوانات: کائنات کی حقیقت، انسان اشرف المخلوقات، زکوٰۃ، ذریعہ، روزے، حج بیت اللہ،جہاد، سود، عیدالفطر، جمعہ، قادیانیت، ختم نبوت، یہودیت، میڈیا، ویلنٹائن ڈے وغیرہ۔(رفیع الدین ہاشمی)
سرسیّداحمد خاں (م: ۱۸۹۸ء) کا اسمِ گرامی برعظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کے ایک قومی رہنما کی حیثیت سے معروف ہے۔ مزید یہ کہ انھیں مسلمانوں میں جدید تعلیم کے داعی اور رہنما کی حیثیت سے بلند مرتبہ بھی حاصل ہے۔ شاہ نواز فاروقی صاحب نے سرسیّد کی قومی یا ماہر تعلیم کی حیثیت سے خدمات کو جزوی طور پر، لیکن اُن کے فکری ہیکل کو بنیادی طور پر اپنی توجہ اور فکرمندی کا موضوع بنایا ہے۔ ہمارے ہاں سیکولرزم اور فکری و تہذیبی دو رنگی کے جس مرض کی چھوت چھات عام ہے، بقول شاہ نواز صاحب، اس کا سرچشمہ جناب سرسیّد احمد خاں ہی ہیں۔
محترم مصنف نے مذکورہ مقدمے کو پرکھتے ہوئے سرسیّداحمد کے فکری اور تحریری اثاثے کا مطالعہ کیا، بیانات کا تجزیہ کیا اور قائم کردہ مفروضات کی تہہ میں چھپے ہوئے لاوے کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اسی علمی و تجزیاتی مطالعے کو انھوں نے زیرتبصرہ کتاب میں پیش کیا ہے اور نئی نسلوں کو یہ بتایا ہے کہ سرسیّداحمد خاں کو ایک شخصیت کے طور پر دیکھنے کے بجائے انھیں ایک فکر، ایک علامت اور ایک فکری روایت، سیاسی عمل اور تجددّ و تحریف فی الدین کے انجن کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ انھی نکات کی وضاحت کے لیے مدلل انداز سے مباحث کو تحریر کیا گیا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کی فکری زندگی میں آزاد روی، بے مقصدیت، لادینیت، دو رنگی اور مداہنت پسندی کے جو پھریرے لہرا رہے ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے انکارِ حدیث سے منسوب سرسیّد کی مذہبی سوچ کو یہ کتاب پیش کرتی ہے۔ اگرچہ یہ مضامین کالموں کی صورت میں لکھے گئے تھے، لیکن جتنے بڑے موضوع کو زیربحث لایا گیاہے، وہ کالموں کا موضوع نہیں ہے۔ اگر اس کتاب کو نظرثانی کرکے اور کالموں کی پہچان ختم کرکے، مربوط کتاب بنادیا جائے تو اس کی افادیت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ (س م خ )
مصنف نے ابتدا میں لکھا ہے: ’’سقراط کا دیس دیکھنا ایک بڑی تمنا تھی جو سفرِ یونان کی صورت میں پوری ہوئی‘‘۔جس کا سبب یونان میں پاکستان کے سفیر خالد عثمان قیصرصاحب کی جانب سے یونان کے دورے کی دعوت بنی۔ وہ اپنے بیٹے محمد حذیفہ کے ہمراہ یونان پہنچے اور اکتوبر ۲۰۱۸ء میں یونان کی سیاحت کی اور اس کتاب کی صورت میں حالات و خیالات اور تاثرات رقم کیے۔
وہ یونان کے ماضی پر تحقیقی انداز سے نظر ڈالتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ سفرنامہ: یونان اور یونانی اکابر اور فلسفیوںکی مختصر سی تاریخ بھی ہے۔ کہیں کہیں وہ اپنے حالات و خیالات بھی لکھ دیتے ہیں۔ تقریباً نصف آخر کا ایک حصہ ان کی تقریروں پر مشتمل ہے۔آخر میں اُردو دُنیا میں ’سقراط شناسی کا سفر‘‘ اور ’’حالی کا یونان‘‘ کے عنوان سے دو معلومات افزا مضامین شامل ہیں۔
پاکستان میں یونان کے سفیر ایندریاس پاپاس تاورو’پیش لفظ‘ میں لکھتے ہیں: ’’اس کتاب کے ذریعے پاکستانی خود کو یونان اور اہلِ یونان کے قریب محسوس کریں گے‘‘۔ اور جناب خالد عثمان قیصر دیباچے میں کہتے ہیں: ’’یہ رُودادِ سفر جو بہ یک وقت ایک اسکالر، ادیب اور شاعر کا سفرنامہ بھی ہے اور یونان کی قدیم تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا آئینہ بھی‘‘۔
کتاب خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
اپریل کے ’اشارات‘: ’مسئلہ کشمیر اور سیّد علی گیلانی کا انتباہ‘ میں بہت واضح انداز سے حکومت ِ پاکستان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر رواداری میںکسی اقدام سے خبردار رہے۔اور پھر پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط صاحب اور افتخار گیلانی صاحب کے مضامین مسئلہ کشمیر کی حقیقی تصویر کو نمایاں کرنے کے ساتھ سالہا سال سے جدوجہد آزادیٔ کشمیر کے لیے اپنا لہو پیش کرنے والے سرفروشوں کے موقف کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ محترم پروفیسر ابوالخیر کشفی اور جناب محمد سعودعالم کے مضامین، قرآنی فکر اور رہنمائی سے بھرپور ہیں۔
اسلامی افغانستان کے حوالے سے محترم حکمت یار کی گفتگو (اپریل ۲۰۲۱ء)بہت ہی مفید اور فکرانگیز ہے۔ البتہ ’مدیر کے نام‘ میں مجھے ڈاکٹر اسحاق منصوری صاحب کے اس تبصرے سے اختلاف ہے جو انھوں نے حبیب الرحمٰن چترالی صاحب کے مارچ میں شائع ہونے والے مضمون پر کیا ہے۔ چترالی صاحب کا مضمون ’اصطلاحات اور تحریف کاجادو‘اپنے اسلوب اور تجزیے کے تحت ایک احسن کوشش اور علمی دلائل سے بھرپور تحریر ہے۔ہمیں جدیدیت اور مابعد جدیدیت پر کھلی آنکھوں سے غور کرنا چاہیے کہ جس کے نقصانات انسانیت بھگت رہی ہے۔
’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘ مضمون میں دلائل سے ایک مضبوط اور متبادل موقف پیش کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ فتنۂ فرعون و نمرود کی طرح یہ نیوورلڈ آرڈر ہےجس نے انسانیت کو موت اور زندگی کی کش مکش سے دوچار کر دیا ہے۔چترالی صاحب نے بہت سے سائنسی دلائل پیش کرتے ہوئے اور تھامس مالتھس کے آبادی کے کنٹرول کرنے کے قدیم فلسفے کو بڑے فتنوں کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔
مارچ کے شمارے میں پروفیسر خورشید احمد صاحب نے سچ کہا کہ ’پاکستان کے نظریاتی وجود ‘ کی بقا اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب و تمدن و معاشرت، اسلامی معاشی نظامِ عدل کو خلوص اور ایمان کے ساتھ اختیار کرنے میں ہی ہے۔ یقینا پاکستان کی ترقی و فلاح اور محفوظ مستقبل انھی ابدی اخلاقی قوانین کے تابع ہونے میں ہے۔ لیکن افسوس ،عوام ہوں یا صاحبانِ اقتدار، غالب اکثریت اخلاقی تنزل کا شکارہے۔ اسی شمارے میں ’اصطلاحات اور تحریف کا جادو‘ علم میں اضافے کا باعث بنا۔ سارا شمارہ دل چسپ اور معلومات افزا ہے۔