اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے‘ تاہم اس کا اختیار صرف سفارشات پیش کرنے کا ہے۔ ان پر عمل درآمد کا کلی اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ کونسل کا بنیادی مقصد اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات پیش کرنا‘ ملک میں رائج قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا اور نفاذِ اسلام کے لیے علمی و فکری رہنمائی دینا ہے۔
اپنے قیام کے بعد سے کونسل بہت سے اہم امور میں سفارشات پیش کر چکی ہے جن پر اگر حکومت عمل درآمد کرتی تو نفاذ اسلام کے کئی مراحل طے ہو سکتے تھے۔ ۱۹۹۶ء کے اواخر میں دستور کے آرٹیکل ۲۳۰ (۴) میں مذکور فائنل رپورٹ پیش کی گئی جو ۱۴ اگست ۱۹۷۳ء تک کے قوانین کے جائزے پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ۱۵ اگست ۱۹۷۳ء سے ۴ جولائی ۱۹۷۷ء تک ہونے والی قانون سازی کا جائزہ قوانین کی اسلامی تشکیل کے نقطۂ نظر سے بھی لیا جا چکا ہے۔ اب ۵ جولائی ۱۹۷۷ء سے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۵ء کے عرصے میںنافذ العمل قوانین کے جائزے پر کام ہو رہا ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری ۱۸۹۸ء کا جائزہ کونسل کی چوتھی رپورٹ میں (مطبوعہ اپریل ۱۹۸۲ء) اور مجموعہ ضابطہ دیوانی ۱۹۰۸ء کا جائزہ کونسل کی نویں رپورٹ (مطبوعہ‘ ستمبر ۱۹۸۳ء) میں سامنے آچکا ہے۔
خواتین انکوائری کمیشن کی اگست ۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اہم قانونی‘ معاشی‘ معاشرتی مسائل پر کونسل ازخود غوروفکر اور سفارشات پیش کرتی رہتی ہے۔ مثلاً نابالغ لڑکیوں کے اغوا براے تبدیلی مذہب کے انسداد کے لیے مجوزہ ترمیم ‘
ظالمانہ طلاق اور متعۃ الطلاق ‘ بعض کالجوں کے نصاب میں مبینہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی مواد پر نوٹس‘ قومیائے گئے مسیحی تعلیمی اداروں کی واپسی پر موقف‘ بیمہ و دیگر اہم امور وغیرہ۔
اسلامی نظریاتی کونسل اپنے اغراض و مقاصد کے پیش نظر قوانین کے جائزے‘ معاشی و معاشرتی مسائل پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنے کا کام‘ بحمدہ تعالیٰ پوری مستعدی اور تن دہی سے کرتی رہی ہے لیکن یہ کام بالکل بے نتیجہ اور کارِعبث ہے اگر ارباب اختیار کی طرف سے سنجیدہ غوروخوض نہ ہو اور اس کے نتیجے میں عملی اقدامات بروے کار نہ لائے جائیں۔
اس ضمن میں چند اہم امور کی طرف نشان دہی کی جا رہی ہے جو کونسل کے اغراض و مقاصد کی روشنی میں حکومت کی طرف سے فوری توجہ اور مخلصانہ تنفیذ کے متقاضی ہیں۔
قرآن وسنت اور اسلامی نظامِ عدل کی چودہ صد سالہ تاریخ کی روشنی میں سچے اور فوری انصاف کی فراہمی اور اسلامی قوانین کے ثمرات کو ممکن الحصول بنانے کے لیے ایک ایسا ضابطہ مرتب کیا جانا چاہیے جو براہِ راست اسلامی فکر سے مستفاد اور عدل اسلامی کی رُوح کے عین مطابق ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں رائج قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے اور ان کی تنفیذ کی جائے تاکہ ہر طرح کی ناانصافی کا سدِّباب کیا جا سکے۔
کونسل یہ پیش کش بھی کر چکی ہے کہ آیندہ قانون سازی میں قرآن و سنت سے متعارض کوئی عنصر شامل نہ کیے جانے کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل (۱) ۲۲۷ کے تناظر میں یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ ہر بل مقننہ کے سامنے پیش ہوتے ہی متعلقہ مجلس قائمہ کے ساتھ ساتھ کونسل کو بھی ریفر کر دیا جائے تاکہ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے بارے میں کونسل کی رائے بھی ایوانِ کے سامنے آجائے۔ مزیدبرآں ہر قانون کی نقل منظور ہوتے ہی کونسل کو بھیج دی جائے۔ کونسل ایسے تمام مسودات و قوانین پر فوری غوروخوض کے لیے الگ اور مستقل منہج وضع کر سکتی ہے مگر ہماری اس پیش کش پر باضابطہ توجہ نہیں دی گئی۔اگرچہ بعض بل کونسل کو ریفر کیے گئے ہیں‘ مثلاً انفساخِ نکاح مسلمانان ایکٹ کا ترمیمی بل ۱۹۹۹ء (The Dissolution of Muslim Marriages Act, Amendment Bill 1999) ‘انسانی اعضا کے عطیہ و پیوندکاری کے مجوزہ آرڈی ننس ۲۰۰۰ء کا مسودہ بھی حال ہی میں کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری اس گذارش کو پذیرائی بخشی جائے تو قوانین کی اسلامی تشکیل کے عمل میں خاصی سہولت اور تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ کسی قانون کے اجرا اور پھر کئی سال تک نافذ العمل رہنے کے بعد اس میں ترمیم کا مرحلہ خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔
نظام تعلیم کے گھمبیر مسئلے پرکونسل برابر اپنی تشویش کے اظہار کے ساتھ اس کی اسلامی تشکیل کے لیے تجاویز پیش کرتی رہی ہے۔ نظریہ تاسیسِ پاکستان کے تناظر میں نظام تعلیم کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ وہ اسلامی اصولِ مساوات و عدل کے مطابق تمام اہل وطن کے لیے تعلیم و تربیت کی یکساں سہولتوں کی ضمانت دے۔ ابتدائی تعلیم تو ہر فرد کا حق ہی نہیں بلکہ فریضہ ہے۔ اس سے ماورا ہر سطح پر معلّم و متعلّم کے انتخاب میں میرٹ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اسلامی ریاست کے لیے یہ ناگزیر چیلنج ہے کہ کوئی طالب علم کسی شعبے میں کسی سطح پر صرف اس لیے داخلے سے محروم نہ رہے کہ وہ اعلیٰ ترمیرٹ کے باوجود غریب یا کم آمدنی والے طبقے سے تعلّق رکھنے کے باعث اس شعبے یا اس سطح پر تعلیمی اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تعلیم کے موجودہ منظرنامے کو دیکھتے ہوئے ہر حساس شخص کے دل میں اس دکھ کی کسک بڑھتی جا رہی ہے کہ تعلیم کا عمل معاشرے کے ایک فرض کے بجائے ایک نفع بخش کاروبار یا صنعت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے‘ حتیٰ کہ پبلک سیکٹر میں بھی تعلیمی اداروں میں صلاحیت یا میرٹ کی بنیاد پر داخلوں کے بجائے‘یا اس کے ساتھ ساتھ‘ سیلف فنانسنگ (self financing) کے تحت والدین کی مالی حیثیت کو گویا اہلیت کی پہلی شرط قرار دے دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں انگلش میڈیم اور جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کے نام پر معتبر و غیر معتبر‘ مستند و غیر مستند‘ ملکی و غیر ملکی اداروں کا ایک سیلاب اس ملک کی تعلیمی ضروریات کو اپنی منڈی سمجھ کر اس کے استحصال کے لیے ٹوٹ پڑا ہے۔ پرائمری‘ مڈل اور ہائی اسکولوں کے علاوہ سرکاری کالجوں کا (جو ابھی تک سرکاری رہ گئے ہیں‘ خودمختار ادارے نہیں بنے) اب یہ حال ہو گیا ہے کہ ان کا معیار پست سے پست تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اپنی سہولتوں‘ اساتذہ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنا پر چند سال پہلے جو سرکاری اسکول اچھے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا مقابلہ کر سکتے تھے‘ اب وہ صرف ان غریبوں کے بچوں کے لیے رہ گئے ہیں جن کے لیے اور کوئی چارئہ کار نہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ روزنامہ ڈان (۱۹ اکتوبر ۲۰۰۰ء) کے مطابق کراچی کے سرکاری ہائیرسیکنڈری اسکولوں میں اس سال ۳ ہزار۵ سو سیٹوں کی گنجایش کے مقابل صرف ۵۰۰ طلبہ وطالبات کا داخلہ ہوا تھا‘ جس سے ان اداروں میں عوام کے عدم اعتماد کی نشان دہی ہوتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ غیر مراعات یافتہ افراد کے بچوں کے لیے تسلی بخش تعلیمی سہولتوں کا باب آہستہ آہستہ بند ہوتا جا رہا ہے۔ ارباب بصیرت اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی طبقاتیت کی یہ صورت حال ایک خوف ناک طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
دینی اور دنیوی تعلیم کی دوئی جو سرکاری و دینی مدارس کی صورت میں موجود تھی اب بیسیوں طرح کے سسٹم کے انتشار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ تعلیمی میدان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی طبقاتیت‘ دینی اور اسلامی و پاکستانی اقدار سے متصادم ثقافتی رجحانات‘ جونیئر و سینئر انگلش میڈیم اسکولوں اور کئی پرائیویٹ کالجوں میں مخلوط تعلیم کی ازسرنو ترویج‘ ہر صاحب فکر کے لیے باعث تشویش ہے۔ یہ صورت حال یقینا اصلاح‘ نظم اور صحت مند ضابطہ بندی کی متقاضی ہے۔
نظام تعلیم میں عدل و مساواتِ اسلامی کے اصول کی ترویج کے علاوہ دو بنیادی تقاضے ہمارے تمام تعلیمی اداروں کے لیے اساسی حیثیت رکھتے ہیں:
اولاً ‘ ضروری ہے کہ تمام درس گاہیں نصاب اور اپنے تعلیمی ماحول کی اصلاح کے ذریعے اسلامی تربیت کے اصولوں کے مطابق کردارسازی کی ضمانت دیں۔
ثانیاً‘ نصاب تعلیم اسلامی تعلیمات اور علوم و فنون میں جدید ترین تحقیق سے ہم آہنگ ہو اور مسلسل تفکیر و تجدید کے عمل سے گزرتا اور ہر شعبے میں دورِحاضر کی علمی تیز رفتاری سے ہم قدم رہے‘ اور اسلامی اصول ’’احسان‘‘ (excellence)کے مطابق ہر ادارہ بہتر سے بہتر معیار کی طرف گام زن رہے۔
ابھی تک مختلف علوم و فنون کے نصابات اور نصابی کتب کو اسلامی تعلیمات و فلسفہ حیات کی ضیا اور پچھلی چودہ صدیوں میں مسلم مفکرین و علما کی فکر سے روشناس کرنے کے لیے کوئی قابل لحاظ کام نہیں ہوا۔ کونسل نے اپنے مخصوص دائرہ کار کی ترجیحات کے پیش نظر‘ تدریس قانون کے سہ سالہ نصاب کی اسلامی تشکیل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ ہمارے نزدیک پاکستان میں قانون کی تمام درس گاہوں کے فلسفہ و مقاصد میںایسے انقلاب کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اسلامی قانون کو اوّلین مقصودکا مقام حاصل ہو اور کامن لا ‘برطانوی و امریکی قوانین سمیت‘ اضافی عصری و تقابلی تناظر میں پڑھایا جائے‘ نہ یہ کہ برطانوی استعمار سے میراث میں ملنے والا قانون ہی ہماری درس گاہوں کا اصل مادہ تدریس ہو اور تبرک کے لیے ایک آدھ پرچے پر مشتمل اسلامی قانون بھی شامل نصاب رہے۔ بدقسمتی سے قانونی درس گاہوں میں معلّمین قانون بھی اسی روایت سے وابستہ ہونے کے سبب اس نظریاتی تبدیلی کے لیے تیار نہیں۔ کونسل حکومت سے یہ مطالبہ کرنے میں اپنے آپ کو بالکل حق
بہ جانب تصور کرتی ہے کہ ۲۴ پرچوں کی مفصل نصابی تفصیلات پر مشتمل ہمارا تجویز کردہ سہ سالہ نصاب براے
لا کالجز فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ ضروری ہو تو فی الحال متعلقہ فنون کے ماہر جزوقتی طور پر تدریس کے لیے متعین کیے جا سکتے ہیں‘ اور پھر طویل المیعاد منصوبے کے تحت موجودہ فیکلٹی کی ری اورینٹیشن اور آیندہ تشکیل نو کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہمارے لا کالجز سے ایسے قانون دان فارغ ہو کر نکلیں جوعربی زبان کی شدبد بھی نہ رکھتے ہوں‘ اسلامی قوانین سے نابلد ہوں مگر عدالتوں میں بحیثیت وکیل یا منصف اسلامی قوانین کی تعبیر کا نازک فریضہ سرانجام دیں۔
بلاشبہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کا تحفّظ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے۔ اور ہمیں اپنے پورے وسائل بروے کار لا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انسانی عظمت و مساوات کے علم بردار دین اسلام اور قرآن و سنت کے احکام نے ہماری مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں‘ بیویوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں‘ انھیں غصب کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں۔ بیویوںکے ساتھ حسن معاشرت‘ نرم روی اور زندگی کے سفر میں ایسی رفاقت و ہم آہنگی اور ان کے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہونے کی وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جسے قرآن کریم نے ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّط (البقرہ ۲:۱۸۷)‘ کی حسین تعبیر سے واضح کیا ہے۔ شادیوں میںاسراف و تبذیر‘ جہیز کے جبر‘ والور کے نام پر لڑکیوں کی فروخت‘ قرآن سے شادی کی مکروہ اور قطعی غیر اسلامی رسم (جو درحقیقت توہین قرآن کے مترادف ہے) کے پردے میں بیٹیوں‘ بہنوں کو ان کے حق میراث سے محروم کرنے‘ بعض علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے نام پر حصول تعلیم سے دُور رکھنے ‘اور شادی بیاہ کے موقع پر ان کی رائے سے بے نیازی یا صرفِ نظر جیسے رواج ختم کرنے کے لیے قومی سطح پر ایک دینی و معاشرتی جہاد کی ضرورت ہے۔ کاروکاری یا غیرتی قتل جیسے مسائل میں یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام اس معاملے یا کسی بھی معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور قتل کو قتل تصور کرتا ہے‘ اگرچہ اسلامی آداب معاشرت‘ احترام والدین‘ حیاداری و عزت نفس کی قدریں بھی ہماراسرمایہ حیات ہیں۔
سوشل ورک‘ بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اگر صحیح معنوں میں خلوص نیت کے ساتھ کسی طرح کے مفاد‘ لالچ یا کسی طرح کی بیرونی تحریک یا دبائو کے بغیر‘ خواتین کے حقوق کی بحالی مقصود ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والی عزیز بہنوں سے یہ التماس ہے کہ وہ اپنے آپ کو خواتین کے اسلامی حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیں۔ اسی طرح ان کے مقاصد کے حصول کا راستہ آسان ہوسکتا ہے۔ وہ مساوات مرد و زن (gender equality)جیسے درآمد شدہ نعروں کے ذریعے مغرب کی طرح ہمارے ہاں بھی خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت کے بجائے بہن بھائی‘ میاں بیوی‘ باپ بیٹی کے رشتوںکے تقدس‘ لحاظ‘ محبت‘ شفقت کے احیا اور استحکام کے لیے سرگرم ہوں۔ سچی اسلامی اقدار کے احیا کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ہماری اپنی اخلاقی و ثقافتی روایات کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔ کیا یہ حیرت و استعجاب کا مقام نہیں کہ ہر طرح کی مادر پدر آزادی حتیٰ کہ ہم جنسیت اور ایک جنس کے درمیان شادی تک کو روا رکھنے والا مغربی معاشرہ اسکولوں میں مسلمان بچیوں کے سر پر اسکارف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس معاملے میں شخصی آزادی کے سارے آئیڈیل موقوف ہو جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اپنی مظلوم بہنوں کے لیے کام کرنے والی خواتین ہمارے دیہات میں دوپٹوں اور اسلامی حجاب کے ساتھ جائیں تو ان کا اعتماد حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب ہوں گی اور ہم سب اپنی بہنوں بیٹیوں کو غیر اسلامی رسوم کے جبر سے نجات دلانے میں جلد کامیاب ہو سکیںگے۔
سال رواں میں سپریم کورٹ کا ربا کے بارے میں تاریخی فیصلہ بے حد اہمیت کا حامل ہے اور معیشت کی اسلامی تشکیل کے لیے ہمارے سفر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔کونسل اس سلسلے میں پہلے ہی کچھ ابتدائی کام سرانجام دے چکی تھی بالخصوص اس موضوع پر کونسل کی ۱۹۸۰ء میں زیورطبع سے آراستہ ہونے والی رپورٹ بعنوان: Elimintation of Riba from Economy, & Islamic Modes of Financing ایک وقیع کام کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا دوسرا نظرثانی و توسیع شدہ ایڈیشن ۱۹۹۲ء میں طبع کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے امتناع ربا آرڈی ننس کے مسودے کی تیاری اور اس کے عملی مضمرات پر نہایت احتیاط‘ فکری گہرائی اور جزئیاتی تفاصیل کے ساتھ غور کر رہی ہے اور کونسل اس مہتم بالشان کام میں برابر شریک ہے۔ اسی فیصلے کے تحت اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں قائم کیا گیا Transformation Commission اسلامی معیشت کے تحت رائج ہونے والی دستاویزات اور بنک کاری کے اسلامی نظام کی تاسیس کے عملی پہلوئوں پر کام کر رہا ہے۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالم اسلام پر دو صدیوں تک مغربی استعمار کے غلبے کے دوران اسلامی نظام معیشت عملاً رائج نہیں رہا‘ پھر نئے عصری مسائل پوری دنیا پر مغرب کے استحصالی اور ربائی نظام کی بالادستی‘ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کے کئی مسلم ممالک کی معیشت پر تسلّط نے صورت حال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ربا سے پاک مالیاتی اداروں کا قیام معیشت کے تمام شعبوں کے لیے ضروری ہے۔ اس عظیم کام کے لیے ماہرین معاشیات ‘ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ بنک کاروں‘ علما اور دانش وروں کے علاوہ اقتصادی استحکام کے لیے آبادی کے ہر طبقے کا تعاون ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں سے خلاصی بھی اسلامی نظام اقتصاد کے احیا کے لیے جہاد کا نہایت اہم حصہ ہے۔ لہٰذا لاربائی نظام کے قیام کے لیے ہر سطح پر حکومت سے تعاون اور اس عظیم ہدف کو ممکن بنانے کے لیے پورے جوش و جذبہ ایمانی کے ساتھ دیانت‘ ایثار‘ محنت اور کام میں لگن کا رویہ ناگزیر ہے۔ میں نہایت ادب سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم اور کٹھن کام کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی سے کہیں زیادہ ضروری معرکہ‘ اسلامی نظام اقتصاد کے قیام کے لیے علمی وفکری و تحقیقی‘ تجارتی و کاروباری‘ صنعتی اور عوامی حلقوں میں اس نظام کے تقاضوں کے ادراک اور اس کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی مہم کا ہے۔ صرف قوانین و ضوابط سے یہ نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دیانت و امانت کا وہ مفہوم سختی کے ساتھ اپنانا ہوگا جو ہمارے آقا و مولا‘ ہادی و رہبر‘ سید و سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ؐ و احمد مجتبیٰؐ کی مبارک تعلیمات پر مشتمل ہے۔اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے بھی یہ واضح ہوناچاہیے کہ ہم اجتماعی طور پر اس سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ حکومتی سطح پر اسلامی اقتصادی نظام کی تیاری کے اقدامات کے بجائے نئی سودی اسکیموں کا اجرا اور سود و قمار کے عناصر پر مشتمل
بے شمار پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی انعامی اسکیموں کے لیے کھلی چھٹی‘ حکومت کے عزم کے بارے میں‘ اس گراں قدر کام کے باوجود جو اسلامی معیشت کی تشکیل کے لیے ہو رہا ہے‘ صحیح سگنل نہیں دیتے۔
سابقہ حکومت نے بیرون ملک متوطن پاکستانیوں کے پاکستان میں فارن ایکسچینج اکائونٹ منجمد کر کے اصول دیانت کی خلاف ورزی کے ساتھ ان کے اعتماد کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت بہرحال اس حکومت کی جانشین اور اس کی ذمہ داریوں کی وارث ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی تحفّظ یا ہچکچاہٹ کے بغیر اس دھاندلی پر غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے چاہییں اور اپنے ملک کے اندر سادگی‘ کفایت شعاری‘ دیانت‘ اصول پرستی کا روشن نمونہ قائم کر کے اس مشکل وقت میں قرضوں سے چھٹکارے اور اسلامی معیشت کے قیام کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرنی چاہیے۔ یہ سادگی اور کفایت شعاری سب سے پہلے حکومتی ایوانوں کی سب سے اونچی سطح پر صاف نظر آنی چاہیے۔ تعیش اور صارف (consumer) کلچر کی شدید حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور جنگی سطح (war footing)پر یہ مہم پورے خلوص اور استقلال سے جاری رہنی چاہیے۔
اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا اور اس کی ترویج و سرپرستی کے حوالے سے اور اسی طرح کی اقتصادی مہم کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ برابر ایک منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور سرکاری الیکٹرانک میڈیا اس کردار میں پیش پیش ہے۔ خودانحصاری کے نام پر‘ غیر ملکی ٹی وی چینلوں سے مقابلے کی آڑ میں‘ لباس ‘ چال‘ ڈھال‘ رہن سہن‘ گفتگو اور معاشرتی رویوں کے ایسے ماڈل ٹیلی وژن پر ڈراموں‘ کلچرل شوز‘ موسیقی کے پروگراموں‘ اور سب سے بڑھ کر اشتہارات کے ذریعے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی آداب کے تقدس کو تہس نس کرنے کے ساتھ ساتھ ان منفی رویوں کو دل کشی کے ساتھ پیش کر کے گمراہی‘ مایوسی‘ احساسِ محرومی اور جرائم کے ارتکاب کی آبیاری کرتے ہیں۔ فلموں سے قطع نظر ٹی وی پر بھی مغربی ممالک میںڈراموں کی عکس بندی کے بہانے مغربی معاشرت کو ایک قابل قبول اور نارمل طرز زندگی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ سپانسرشپ کے پردے میں سپورٹس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سگریٹ نوشی اور بالواسطہ منشیات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے‘ جس کا ہدف خصوصی طور پر نوجوان نسل بن رہی ہے کیونکہ وہی کھیلوں کے مقابلوں کو زیادہ شوق سے دیکھنے والے ہیں۔ اگر اس سے ٹی وی کو آمدنی ہو رہی ہوجو خود انحصاری کے لیے ضروری ہے‘ تو اس کی وجہ سے معاشرے میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک کے لیے سرکاری اور رفاہی اداروں پر جو بوجھ پڑ رہا ہے‘ وہ کس کے کھاتے میں جائے گا۔
ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ بالخصوص سرکاری ذرائع ابلاغ کی اصلاح‘ تو ایک ایسا پروگرام ہے جو کسی بھاری بجٹ کا متقاضی نہیں‘ اس کے لیے صرف سوچ درست کرنے اور عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں اللہ کے فضل سے بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ادیب اور فن کار موجود ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی نہیں بلکہ ان کی تعمیر و اشاعت کے لیے بھی بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں‘ بشرطیکہ ان سے اس جنس کی طلب کی جائے۔ اب نیو ایر ڈے اور بسنت کے موقع پر غیر اخلاقی رجحانات کی سرکاری سرپرستی کے علاوہ نئی نئی غیر ملکی روایتیں بھی حملہ آور ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ویلنٹائن ڈے (valentine's day) کے موقع پر اخبارات میں چھپنے والے پیغامات کے نئے رجحان کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی وزارت کو اسلامی و پاکستانی روایات کے تحفّظ اور سرپرستی کے لیے قومی رہنمائی کا کردار ادا کرناچاہیے۔
شام کے اوقات میں جب ٹی وی سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ ایڈز کے اشتہارات ہمارے ذرائع ابلاغ کی بے حسی کی ایک اور علامت ہیں۔ مغرب کی ہوبہو نقالی کرتے ہوئے ’’احتیاط‘‘ کی تلقین کی جاتی ہے۔ چشم بددور‘ یہ قیمتی معلومات تو مہیا کی جاتی ہیں کہ یہ مہلک مرض’’مرد سے مرد کو‘ مرد سے عورت کو…‘‘ لگ سکتا ہے مگر ہماری اپنی اقدار اور دینی تعلیمات کی روشنی میں یہ کہنے کی توفیق یا جرأت نہیں ہوتی کہ ایک پاکیزہ زندگی ہی بابرکت زندگی ہے اور خدائی احکام سے منہ موڑنا اس طرح کے وبال کا سبب بنتا ہے۔ کونسل کے مطالبے پر گذشتہ سالوں میں کچھ عرصے کے لیے ایسے اشتہارات کے لیے ۱۰ بجے رات کے بعد کا وقت معین کر دیا گیا تھا مگر اب اس پابندی کو بھی غیر ضروری تکلف سمجھ کر ترک کر دیا گیا ہے۔
رب رحیم و کریم کی بارگاہ عالی میں اس التجا کے ساتھ ان معروضات کو ختم کرتا ہوں کہ وہ اپنے لطف و کرم سے عالم اسلام اور ہمارے پیارے پاکستان کودشمنوں کے فتنوں سے محفوظ رکھے‘ اسے سالمیت اور استحکام عطا کرے‘ صاف ‘ سچا اور سادہ اسلام ہمارے دلوں میں راسخ اور ہماری زندگیوں میں رائج فرمائے‘ اور ہم سب کو اپنا تاریخی وعدہ وفا کرتے ہوئے وطن عزیز میں قرآن و سنت کا نظام برپا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین! (نو تشکیل شدہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے افتتاحی اجلاس‘ ۹-۱۱ فروری ۲۰۰۱ء میں صدر پاکستان کی موجودگی میں پڑھا گیا۔ ابتدائیہ مختصر کیا گیا ہے‘ ادارہ)