مارچ ۲۰۰۱

فہرست مضامین

بوسنیا :اجتماعی قبریں‘ سرب سفّاکیت

محمدظہیرالدین بھٹی | مارچ ۲۰۰۱ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

امریکہ‘ جنگ ِ ویت نام میں لاپتا ہونے والے اپنے فوجیوں کو ابھی تک نہیں بھولا‘ اُسے اب تک قرار نہیں آیا۔ وہ ان کی تلاش میں سرگرم ہے اور اس مقصد کے لیے وہ سالانہ ۱۰۰ ملین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ ان لاپتا افراد کی تعداد صرف ایک ہزار ۴ سو ۹۸ ہے‘ جب کہ بوسنیا ہرزگونیا میں لاپتا افراد کی تعداد اڑھائی لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے ۹۸ فی صد سویلین ہیں جن میں سے۳ فی صد بچے ہیں جن کی عمریں چھ ماہ اور ۱۶ سال کے درمیان ہیں‘ ۱۳ فی صد عورتیں ہیں جن کی عمریں ۹ اور ۱۰۲ سال کے درمیان ہیں۔ ۹۹ فی صد لاپتا افراد مسلمان ہیں‘ جب کہ سرب اور کروٹ صرف ایک فی صد ہیں۔ معاہدہ ڈیٹن پر دستخط ہونے کے بعد سے لے کر اب تک ۶ ہزار ۵ سو اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں سے ۳ ہزار ۵ سو قبریں‘ لاپتا افراد کی بین الاقوامی کمیٹی نے ڈھونڈی ہیں اور بقیہ کا کھوج‘ بوسنیا کی تحقیقی کمیٹی نے لگایا ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ عمر ماشوویچ ہیں۔ اُن سے ایک ملاقات کی تلخیص یہاں دی جا رہی ہے۔

۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو معاہدہ ڈیٹن پر دستخط کرنے کے بعد لاپتا افراد کی تلاش کے بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی‘ پہلے اس کا نام ’’کمیٹی برائے تبادلہ اسیران‘‘ تھا۔ اس معاہدہ کی چوتھی شق میں مختلف کمیٹیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے لیے ۱۳ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی‘ اس کے دو حصے تھے۔ ایک حصے میںپانچ ارکان تھے جن کا کام صوبوں میں تلاش کے کام کی نگرانی تھا‘ جب کہ دوسرے حصے میں آٹھ حضرات تھے جنھوں نے سرائیوو میں رہ کر تلاش کے نتائج تیار کرنا اور ان کی توثیق کرنا تھا۔ اس کمیٹی کا مقصد ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء کے عرصے میں مسلمانوں پر سربوں اور کروٹوں کی جانب سے مسلّط کردہ جنگ کے دوران لاپتا اور اجتماعی قبروں میں دفن کردہ افراد کی تلاش تھا۔ اس کمیٹی نے سرکاری طور پر اپنا کام اپریل ۱۹۹۶ء میں شروع کر دیا۔

لاپتا افراد کی تلاش کی بین الاقوامی کمیٹی کے قواعد و ضوابط کی رُو سے ‘ اجتماعی قبر وہ ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد اشخاص کے ڈھانچے ہوں۔ اس تعداد سے کم‘ خواہ چار افراد کے ڈھانچے کیوں نہ ہوں‘ اجتماعی قبر شمار نہیں کی جاتی۔

لاپتا افراد اور اجتماعی قبروں کی تلاش کے دوران ‘ ہمیں دونوں عالمی جنگوں کے دوران کی بھی کئی اجتماعی قبریں ملیں۔ ان میں سے کچھ بوشناق شہرکے مسلمانوں کی تھیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ ان کا تعلّق کن علاقوں اور خاندانوں سے تھا۔ ہمیں ۵۰ جرمن فوجیوں کی بھی اجتماعی قبر ملی‘ جن کے ڈھانچے ہم نے سرائیوو کے جرمن سفارت خانے کے حوالے کر دیے۔

بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں ہر قسم کے لوگ دفن ہیں‘ ان میںوہ بھی ہیں جن کا جنگ کے دوران‘ بین الاقوامی قانون کی رُو سے قتل ناجائز ہے ‘ جیسے ڈاکٹر‘ قیدی‘ معذور‘ علماے دین‘ بچے اور عورتیں۔ہم نے کچھ عرصہ قبل نوا سواچی گائوں میںایک اجتماعی قبر دریافت کی جس میں ۴۴ افراد دفن تھے جن میں یہاں کے امام مسجد بھی شامل تھے۔ ایک اجتماعی قبر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر کے نیچے سے ملی۔ ایک اجتماعی قبر کے اُوپر مسجد گرا کر اس کا ملبہ ڈال دیا گیا تھا۔ ایسا دھوکا دینے کے لیے کیا جاتا تھا۔ سرائیوو کے مضافات میں سمینروفاتس کے علاقے میں امام مسجد‘ اس کی بیوی اور چار بچوں کو مار ڈالا گیا‘ سب سے چھوٹے بچے کی عمر چار ماہ تھی۔ بوسنیا کے وسطی علاقے جیبحپا کے گائوں یالاچ سے مسلمان بھاگے تو سربوں نے انھیں پکڑ کر واپس گائوں چلنے کے لیے کہا اور کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا مگر گائوں پہنچنے کے بعد انھیں ذبح کر ڈالا۔ ان کی تعداد ۳۰۰ تھی۔ پھر انھیں اجتماعی قبر میں پھینک دیا گیا۔ اس قبر کا کچھ عرصہ پہلے انکشاف ہوا ہے۔ ایک اجتماعی قبر میں سربوں نے مسلمانوں کی لاشوں کے ساتھ چار مردہ گھوڑے بھی پھینک دیے اور ان کے ساتھ دھماکا خیز مواد باندھ دیا تھا۔

حنیویچ گائوں کی مسجد میں ہم نے سات مسلمان مقتول پائے۔ دوسنیا کے گائوں میں امام مسجد کو قتل کرنے کے بعد‘ اس کی لاش مسجد کے دروازے پر لٹکا دی گئی۔ ائمہ مساجد کی ایک بڑی تعداد کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا ہے۔ ابھی تک کئی امام مسجد لاپتا ہیں۔

جب ہمیں کسی اجتماعی قبر کا پتا چلتا ہے تو ہم مقامی اور بین الاقوامی حکام کو مطلع کرتے ہیں۔ پھر کھدائی کرتے ہیں۔ مقتول کی شخصیت اور طریقہ قتل جاننے کے لیے طبّی تجزیہ‘ ہڈیوں کی لمبائی اور لباس وغیرہ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ہم لاش کی شناخت کے لیے لوگوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے تو صرف انتہائی قریبی رشتے داروں (ماں‘ باپ‘ بیٹا‘ بیٹی) کے بیانات کو درست سمجھتے ہیں۔ مگر یہاں تو بعض ایسے خاندان ہیں جو پورے کے پورے ختم کر دیے گئے ہیں۔ ہم لوگوں کو بلاتے ہیں کہ وہ اپنے عزیزوں کو پہچانیں‘ پھر لاشوں کو کفناتے‘ نماز جنازہ ادا کرتے اور الگ الگ دفن کرتے ہیں۔ ہر قبر پر میّت کا نام لکھتے ہیں۔

سب سے بڑی اجتماعی قبر زفورنیک میں دریافت ہوئی جس میں ۲۷۰ مسلمانوں کے ڈھانچے تھے۔ اس کے بعد لانیچ گائوں کی اجتماعی قبر ملی جس میں ۱۸۸ مسلمان دفن تھے۔ اس کے بعد کلیوچ شہر کی قبر ہے جس میں ۵۱ ڈھانچے تھے۔ فوچا میں ۷۰ مسلمان مرد و زن کو قتل کرنے کے بعد اکٹھا دفنایا گیا۔ اس قبرپر بوسنیا کی قدیم اور خوب صورت ترین مسجد ’الام جامع‘‘ کا کچھ ملبہ ڈالا گیا۔ یہ مسجد پندرھویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ قبریں مختلف علاقوں میں ہیں‘ مثلاً پہاڑوں‘ جنگلوں ‘ دریائوں کے کناروں اور وادیوں میں۔ قبر کی زیرزمین گہرائی ۶ میٹر اور ۴۰ میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔ جس اجتماعی قبر میں ہمیں ۱۸۸ ڈھانچے ملے‘ یہ سرب فوج کے کیمپ کے وسط میں تھی۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ یہ بھیانک جرائم سربوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے حکم سے ہوئے۔ میں‘ آپ کو مسلمانوں کے اس قتل عام کے واقعات‘ رکے بغیر سناتا جائوں تو ختم ہونے میں نہ آئیں۔

دھاندلی یہ ہے کہ مغرب‘ لاپتا افراد کی تلاش وغیرہ کے سلسلے میں سربیا‘ کروٹیا اور بوسنیا کو برابر مالی امداد دیتا ہے۔ بوسنیا کا فنڈ تین گروہوں یعنی مسلمانوں‘ آرتھوڈکس اور کیتھولک میں تقسیم ہوتا ہے‘ حالانکہ سربوں اور کروٹوں کی کوئی اجتماعی قبر نہیں ہے۔ ہم نے صرف پچھلے ایک ماہ میں مختلف عمروں کے مسلمان مرد و زن کے ۳۲۰ ڈھانچے دریافت کیے۔ سرب اور کروٹ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انھوں نے اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔ کبھی یہ لوگ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو اجتماعی قبر ظاہر کردیتے ہیں مگر کوئی بھی ان کی بات کو سچ نہیں مانتا‘ اس لیے کہ سائنس‘ طب اور ابلاغیات کے اس دَور میں دھوکا دینا مشکل ہے۔

ابھی تک ۳۰۰ اجتماعی قبروں کا پتا نہیں چل رہا۔ بوسنیائی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک بوسنیا سے باہر ہے۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت‘ اس امر کے سب سے بڑے گواہ ہیں کہ مسلم شہریوں پر کیا گزری او راجتماعی قبریں کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ بتاتے ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو مار ڈالا گیا اور وہ قاتلوں کو بھی پہچان سکتے ہیں۔ انھی اشخاص میں سے ایک ہائی اسکول کے مدرس تھے۔ یہ اومارسکا کے سرب کیمپ میں گرفتار تھے مگر بچ نکلے۔ اس علاقے میں ہمیں ایک اجتماعی قبر ملی جس میں ۵۰ افراد کے ڈھانچے تھے۔ ہمیں مقتولین کے بارے میں کچھ نہیں پتا چل رہا تھا۔ یہ مدرس آئے‘ انھوں نے ہمیں مدفون افراد کے نام بتائے‘ مقتولوں کی زیادہ تعداد ان کی کلاس کے طلبہ کی تھی۔ جرمنی اور دیگر ممالک میں مقیم بوسنیائی ہمیں اجتماعی قبروں کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن وہ اس ڈر سے اپنے ملک میں نہیں آتے کہ کہیں وہ متعلقہ ملک کی شہریت سے محروم نہ ہوجائیں اور یوں روزی روٹی سے بھی رہ جائیں۔

بین الاقوامی قوتوں کی سازباز:  ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مغربی ممالک نے بوسنیائی شہریوں کو عمداً بوسنیا سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا تاکہ بوسنیا مسلمانوں سے خالی ہو جائے۔ وہ انھیں موت سے بچانے کا جھانسا دیتے تھے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ مسلم دفاعی افواج میں شامل نہ ہوں۔ فرانسیسی افواج نے کرونیا کے صوبے میں ہزاروں سویلین مسلمانوں کے قتل عام کا مشاہدہ کیا مگر کسی قسم کی معلومات دینے سے انکار کر دیا۔ بریڈورمیں ۲۲ ہزار مسلمان قتل ہوئے ‘ فرانسیسی فوج کے ہیڈ کوارٹر سے ۸۰ اشخاص کو نکالا گیا اور گہرا گڑھا کھود کردفن کیا گیا۔ یہ سب کچھ فرانسیسی فوجیوں کے علم میں تھا مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ ہم نے خود اس قبر کو تلاش کیا‘ شہدا کے ڈھانچے نکالے‘ جنازہ پڑھا اور شہدا کے قبرستان میںدفن کیا۔ ہالینڈ کے عسکری کیمپ میں ۳ ہزار ۵ سومسلم سویلین تھے جنھیں سربوں کے حوالے کر دیا گیا۔ جوارجدہ کے مذبح کے بعد‘ انگریز فوجی سربوں کو دیکھ کر صلیب کا نشان بنا رہے تھے تو ٹیلی وژن کیمروں نے اسے ریکارڈ کیا اور بعد میں اسکرین پر دکھایا۔

کئی بین الاقوامی شخصیات‘ مختلف انداز سے بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ چونکہ انھیں تحفّظ حاصل ہے‘ اس لیے انھیں عدالت میں لانا ناممکن ہے‘ جیسے بطروس غالی‘ یا سوشی اکاشی‘ کارل بلٹ‘ جنرل موریاں‘ جنرل مکنیزی۔ مؤخرالذکر پانچ مسلم دوشیزائوں کو زبردستی کینیڈا بھیجنے کے جرم میں شامل ہے۔

ہالینڈکی وزارتِ دفاع نے وہ تمام کیسٹیں جلا ڈالیں جو ہالینڈ کے فوجیوں کی سربوں کے ساتھ ملی بھگت کا ثبوت تھیں۔ فرانسیسی فوجی‘ سرائیوو ایئرپورٹ پر صحافیوں کی تلاشی لیتے اور وہ کیسٹیں چھین لیتے تھے جو مختلف جرائم کا ثبوت ہوتیں یا جن کا بین الاقوامی فوجیوں کے بالعموم اور فرانسیسی افواج کے بالخصوص جرائم سے تعلّق ہوتا۔ بوسنیائی حکام کو ہالینڈکے میجر فرانکن کے دفتر سے ایک رجسٹر ملا‘ جس میں‘ اُس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کہ ہالینڈ کی افواج کے کیمپ میں ۲۷۱ مسلم بوسنیائی شہری تھے ‘ مگر تین کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا گیا۔

لاپتا افراد کے عزیزوں کی حالت زار:  بوسنیا کے بے شمار مسلمان لاپتا ہیں جن کے انجام سے کوئی واقف نہیں۔ ایک ماں نہیں جانتی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے یا موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کے زندہ بچ رہنے یا فوت ہو جانے کی خبر نہیں۔ موت کا یقین ہو جانے پر تو بالآخر صبر و قرار آہی جاتا ہے مگر لاپتا فرد کے عزیزوںکو کسی پل چین نہیں آتا۔ بہت سی نوجوان عورتوں کے خاوند لاپتا ہیں‘ ان عورتوں کی عمر ۱۸ سے ۲۰ سال کے لگ بھگ ہے۔ یہ نوجوان عورتیں سخت نفسیاتی کرب میںمبتلا ہیں۔ ہر روز ہمارے پاس لاپتا افراد کی مائیں آتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ پتا چلا۔ پھر کہتی ہیں کہ ہمیں کوئی ہڈی دے دو یا کوئی اور نشانی دے کر کہو کہ یہ تمھارے بیٹے کی ہے تاکہ ہم اس کی قبر بنائیں اور اس قبر پر جایا کریں۔ اسی طرح بیویاں اپنے لاپتا شوہروں کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ ایک ماں کا بیٹا شہید ہو گیا تھا‘ وہ میرے پاس آتی ہے‘ اپنے بیٹے کے بارے میں جاننا چاہتی ہے تاکہ قبر پر جایا کرے۔ ایک ماں رامیزا‘ ہماری کمیٹی کے دفتر میں قرآن شریف کے نسخے لے کر آئی اور کہا: ’’میرے بیٹے کی تلاش کے وقت قرآن شریف ساتھ رکھا کرو۔ ڈرو نہیں‘ قرآن پاک کی موجودگی میں‘ اللہ کے حکم سے‘ آپ کو کوئی خطرہ نہ ہوگا‘‘۔