پاکستان کے نامور سائنس دان پر تبصرے (فروری ۲۰۰۱ء) میں بطور فخربتایا گیا ہے کہ بعض پاکستانی سائنس دان بیرونی ممالک میں نہایت اہم شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ تو المیہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں‘ مسلم ممالک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ مغربی ممالک کی اقتصادی ترقی میں معاونت فراہم کر کے عملاً امت مسلمہ کو کمزور کرنے اور نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ویزا بھی ترجیحاً وکلا‘ ڈاکٹر‘ انجینر اور سائنس دانوں کو دیا جاتا ہے۔ مسلمان ایک زندہ امت ہونے کا ثبوت دیں‘ دارالکفر میں رہنے کے بجائے مسلم ممالک واپس لوٹ آئیں اور اپنی خدمات امت مسلمہ کی عظمت و سربلندی کے لیے پیش کریں۔ طاغوتی قوتوں کی اعانت‘ طاغوت کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے۔
رسائل و مسائل میں ’’موسیقی اور گانا : چند پہلو‘‘ (فروری ۲۰۰۱ء) کے تحت ڈاکٹر انیس احمد نے بخاری اور مسلم کی روایت کے حوالے سے لکھا کہ: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طبلہ بجانے کے ساتھ گانے کو جائز قرار دیا ‘‘ (ص ۷۱)۔ روایات میں ’’دف‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو بہرحال طبلے کے لیے جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
’’ایم ایم احمد کے انکشافات‘‘ (دسمبر ۲۰۰۰ء) میں آپ نے لکھا ہے کہ مارشل لا لگانے پر ’’کابینہ نے اس پر چوں بھی نہ کی‘‘ (ص ۴۴)۔ حکومت پنجاب نے جسٹس منیر احمد اور جسٹس ایم آرکیانی پر مشتمل جو تحقیقاتی عدالت قائم کی تھی‘ اس میں جب خواجہ ناظم الدین صاحب سے مارشل لا کے نفاذ کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا: "Martial Law was imposed under my order and I accept its responsibility". ۔ راقم الحروف مذکورہ کمیٹی کے سٹاف میں متعین تھا۔ میں سول سیکرٹریٹ لاہور سے بطور سیکشن آفیسر ریٹائر ہوا ہوں۔
تبلیغی جماعت کے ہمراہ تبلیغی دورے پر یہاں کی جامع مسجد میں پہنچا تو اچانک میری نظر کھڑکی میں پڑے ماہنامہ ترجمان القرآن (جنوری ۲۰۰۱ء) پر پڑی جس میں ’’خدمت و محبت‘‘ کے زیرعنوان خرم مراد مرحوم کا انتہائی جامع اور لاجواب مضمون شامل تھا۔ اس علاقے میں شوق جہاد بہت فراواں ہے اور لوگ حزب المجاہدین کے زیراثر ہیں۔ جب ہم انھیں تبلیغ کی دعوت دیتے ہیں تو وہ جہاد ہی کو مقدم قرار دیتے ہیں۔ خرم مرحوم نے اپنے اس مضمون میں دین اسلام کو دعوت و خدمت کے ذریعے پوری زندگی کا نظام بنانے کی اہمیت کو خوب صورتی سے اُبھارا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسی تحریریں ایمان کی بستی میں موسمِ بہار کی سی تازگی اور خوشبو کا ذریعہ بنتی ہیں۔