زیرنظر کتاب میں ثانوی مدارس تک کے بچوں کو دینی نوعیت کے الفاظ و تراکیب اور اصطلاحات کے ذریعے دین کی بنیادی تعلیمات ‘ عقائد‘ عبادات‘ اسلامی تاریخ‘ دینی شخصیات اور دینی اماکن وغیرہ سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے (مثلاً: اشراق‘ فارقلیط‘ ذمّی‘ اشہر الحرام‘ تشہّد‘ جنت المعلّٰی‘ شنبہ‘ خسوف‘ صحاح ستّہ‘ طور‘ سبا‘ سجدئہ سہو‘ رکن یمانی‘ شارع‘ کفو وغیرہ)۔ اس اعتبار سے اہم بنیادی دینی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و تفصیل پر مبنی اس مفید کتاب میں‘ فراہمی معلومات کے ساتھ تربیتِ اطفال کا مقصد بھی پیشِ نظر رہا ہے۔ چنانچہ بعض صفحات پر بچی ہوئی خالی جگہوں کو ۴۰ مختصر احادیث کے متن اور ترجمے کے ذریعے پُر کیا گیا ہے۔ احادیث کا یہ انتخاب بچوں کے لیے خاص معنویت رکھتا ہے اور ذہن سازی میںمعاون ہے۔
بچوں کا دینی لغت کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ اختلافی مباحث سے گریز کرتے ہوئے مولّف نے اعتدال و توازن کو ملحوظ رکھا ہے۔ مولّف نے یہ کام ویسی محنت‘ لگن اور باریک بینی سے انجام دیا ہے جو معیاری تحقیق کا خاصہ ہے۔ صحت تلفظ کے لیے الفاظ و اصطلاحات پر اِعراب لگائے گئے ہیں۔ مزیدبرآں الفاظ کے بجائے ہجائی ارکان (syllables) کے ذریعے درست تلفظ کی صراحت کر دی گئی ہے۔ لغت میں یہ اہتمام اس لیے قابل قدر ہے کہ متعدد الفاظ و تراکیب کے تلفظ اور املا میں غلطی کی جاتی ہے‘ جیسے: شبِ بَراْ ئَ ت‘
قِرا ئَ ت‘ لِلّٰہ‘ رحمتہٌ للعالمین (یہی ان کی صحیح صورت ہے)۔ البتہ بعض الفاظ کے اِملا میں تبصرہ نگار کو مولّف سے اتفاق نہیں ہے‘ مثلاً: جراء ت (ص ۱۶۹) میں ہمزہ زائد ہے۔ اسی طرح ’’اشیاء’’ (ص ۱۶۹) (اور اسی طرح شعرا‘ ارتقا‘ وغیرہ)کو بلاہمزہ لکھنا بہتر ہے کیوں کہ اب یہ اُردو الفاظ ہیں‘ نہ کہ عربی--- (جیسا کہ بیسیوں عربی الفاظ‘ اردو میں رائج ہوئے تو اِن کا املا بدل گیا‘ اور اس تبدیل شدہ اِملا ہی کو صحیح سمجھا جاتا ہے‘ جیسے: مولا (نہ کہ مولیٰ) وغیرہ۔ کہیں تشنگی کا احساس ہوتا ہے جیسے: ص ۱۶۹پر عجمی غلام کا نام دینا مناسب تھا۔ ص ۱۷۲ پر احادیث کے متن میں اِعراب رہ گئے۔
آخر میں ۱۶ تصاویر کے ذریعے اداے نماز کا صحیح طریقہ سمجھایا گیا ہے۔ نیت باندھنے‘ ہاتھ باندھنے‘ رکوع‘ قومے‘ سجدہ اور اس میں ہاتھوں‘ پیروں اور پیشانی کی حالت‘ اسی طرح جلسے اورقعدے میں مردوں اور خواتین کے پیروں کی حالت (بچوںاور بچیوں کی) تصاویر شامل ہیں۔
بچوں کا دینی لغت اپنی نوعیت کی ایک مستحسن اور قابل قدر کوشش ہے جو بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں‘ بلکہ بڑوں کے لیے بھی لائق استفادہ ہے۔ پروفیسر اصغر علی شیخ کی یہ تجویز قابل توجہ ہے کہ اس لغت کو انگریزی کے قالب میں ڈھال کر بھی چھاپنا چاہیے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی تو حیدرآباد (دکن‘ ہندستان) سے نکلنے والے اس رسالے کے بارے میں اس کے مدیر سمیت شاید کسی کو یہ اندازہ نہ ہوگا کہ ایک ڈیڑھ عشرے میں یہ جریدہ برصغیر میں احیاے اسلام کی تحریک کا ایک منفرد علم بردار ثابت ہوگا۔ اس کی فکر بالآخر سارے عالمِ اسلام کی رہنمائی میں ایک ممتاز مقام اختیار کر لے گی‘ اور لوگ اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں رہنمائی کے لیے اس کی طرف رجوع کریں گے۔ مولانا مودودیؒ نے رسائل و مسائل کے عنوان سے اس جریدے میں ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا‘ جس میں وہ لوگوں کے استفسار پر اُن کے شبہات‘ اشکالات اور مختلف نوعیتوں کے سوالات کے جواب دیتے تھے۔ بعد میں ملک غلام علیؒ اور پھر دوسرے حضرات کے ذریعے ترجمان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔
مولاناؒ کی زندگی ہی میں رسائل و مسائل کے عنوان سے ان سوالات و جوابات کو مرتب کر کے شائع کر دیا گیا تھا۔ اس کتاب کی پہلی پانچ جلدیں مولاناؒ کے جوابات پر مشتمل ہیں اور چھٹی اور ساتویں ملک غلام علیؒ کے جوابات پر۔ سوالات کی نوعیت‘ آخرت‘ آسمان‘ آلات موسیقی سے لے کر ملازمین کے حقوق‘ واقعۂ قرطاس‘ وضو اور ویٹو تک اتنے متنوع موضوعات پر مشتمل ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ مولانا اپنی بھرپور مصروفیات کے باوجود ان مسائل پر غوروفکر اور (اکثر) تشفی بخش جوابات کے لیے کیوں کر وقت نکال پاتے تھے۔ بعض جوابات تو اتنے تفصیلی ہیں کہ اپنی جگہ ایک پورے مقالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رسائل و مسائل کی جلدوں میں اگرچہ ان جوابات کو مختلف عنوانوں کے تحت جمع کر دیا گیا تھا‘ تاہم اس کی ضرورت تھی کہ ان سب جلدوں کے عنوانات کو ایک تفصیلی اشاریے کے تحت یک جا کیا جاتا کہ ان سے رجوع کرنے میں آسانی ہوتی۔ خرم جاہ مرادؒ نے اس ضرورت کو محسوس کیا‘ اور میجر (ر) محمد اقبال نے ان کی ایما پر اس کام کی تکمیل کی۔ پیشِ نظر اشاریے میں الف بائی ترتیب کے ساتھ رسائل و مسائل کی
سات جلدوں کے موضوعات کو ’’آخرت‘‘ سے لے کر ’’یہودی‘‘ تک کے عنوانات کے تحت جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے دو ایڈیشنوں (اپریل ۱۹۹۵ء سے شائع ہونے والے اور مئی ۱۹۹۷ء سے اشاعت پذیر) کے صفحات کے حوالے دیے گئے ہیں۔ لیکن ۱۹۹۵ء میں شائع شدہ چھوٹی تقطیع کے ایڈیشن دراصل اس سے پہلے ہی کے شائع شدہ ہیں‘ اس کی وضاحت ضروری تھی۔ اس اشاریے میں موضوع کے بعد متعلقہ جلد اور صفحے کے حوالے کے بعد موضوع کی مختصر وضاحت بھی کر دی گئی ہے‘ جس سے جواب کے مشتملات کا پتا چلتا ہے (تاہم بعض عنوانات جیسے ’’قزع‘‘ ‘ ’’قیام للخیر‘‘ ‘ ’’محرمات‘‘ کی بہتر وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا)۔ اس طرح رسائل و مسائلکے اس نہایت قابل قدر ذخیرے تک رسائی نہایت سہل ہو گئی ہے اور قاری رسائل و مسائلکے سیکڑوں صفحات کی ورق گردانی سے بچ سکتا ہے۔ اگرچہ بغیر کسی متعین سوال کے بھی ان صفحات کی ورق گردانی ایک نہایت مفید‘ مسّرت انگیز اور حیران کن تجربہ ہوگی۔ مولاناؒ کی تحریریں‘ علم و آگہی کا ایک بحرِزخّار ہیں۔ کاش کوئی ادارہ ان سب کا ایک معیاری اشاریہ تیار کر دے اور سب کتابیں ایک معیاری ہیئت (format) میں شائع ہو جائیں۔ (پروفیسر عبدالقدیر سلیم)
صحابہ کرام ؓ کی حیات مقدسہ پر لکھنا ایک سعادت ہے۔ تاہم‘ سیرت صحابہؓ پر لکھنے کے لیے ایمان و ایقان کی نعمت کے ساتھ ساتھ علمی دیانت کی دولت بھی ضروری ہے۔ مزید برآں فکرونظر کا وہ زاویہ بھی جو حقائق اور حکایات و قصص میں تفریق کر سکے۔ گذشتہ چودہ سو برس کے دوران بہت سے اہل ایمان اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر انھیں بارہا سوقیانہ حملوں‘ حتیٰ کہ کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسی فتوے بازیوں میں مگن حضرات‘ جیسی تحقیقات پر اپنے قبیلے کے لوگوں کو معاف کرتے رہے ہیں‘ ویسی تحقیقات پر دوسروں کو زندیق قرار دے کر ان پر سب و شتم کے تیر چلاتے رہے۔ اس ضمن میں نشانہ ستم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو بھی بنایا گیا۔
زیرنظر کتاب مولانا محمد میاں کی تصنیف شواہد تقدس کا ایک بے لاگ جائزہ ہے۔ یاد رہے کہ شواہد تقدس مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت کے رد میں لکھی گئی تھی۔ مولانا عامر عثمانی مرحوم‘
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒکے حقیقی بھتیجے‘ مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید اور فاضل دیوبند تھے۔ عامر عثمانی مرحوم نے‘ مولانا محمد میاں کی مذکورہ بالا کتاب (اور آخر میں تجدید سبائیت از مولانا محمد اسحاق سندیلوی) کو علمی سطح پر جانچتے ہوئے اپنے رسالے ماہ نامہ تجلّی دیوبند کے دو خصوصی شمارے شائع کیے تھے۔ یہ معرکہ خیز تحریر تجلّی میں دب کر رہ گئی تھی‘ جس کی بازیافت کر کے سید علی مطہر نقوی نے اسے تجلیات صحابہؓکے نام سے کتابی شکل دی ہے اور استفادہ عام کا ذریعہ بنایا ہے۔
تجلیات صحابہؓکا مطالعہ بعض علما کی‘ مخالفت براے مخالفت اور حقائق کو مسخ کرنے کی پے درپے کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اونچی مسندوں پر جلوہ افروز بعض سکّہ بند لوگ کس طرح غصے اور نفرت سے مغلوب ہو کر عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ دوسری جانب مولانا مودودیؒ کے متوازن اسلوب کی پرتیں کھلتی ہیں اور مقصدیت کی کرنیں روشنی بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس موضوع پر مطالعہ کرتے ہوئے اگر تجلیات صحابہؓکے ساتھ دو اور کتابیں بھی پڑھ لی جائیں تو مسئلے کی تفہیم کا دائرہ اور وسیع ہو جاتا ہے: پہلی خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا علمی جائزہاز جسٹس ملک غلام علی اور دوسری عادلانہ دفاع اور علماے اہل سنت از جمیل احمد رانا--- مولانا عامر عثمانی بڑے تاسف سے سوال اٹھاتے ہیں: ’’آخر چاروں طرف سے ]مولانا[ مودودیؒ پر یلغار کیوں؟کیوں ایک امر قطعی میں کیڑے ڈالے جا رہے ہیں‘ کیوں قلم انگارے اُگل رہے ہیں‘ اور زبانیں گولیاں برسا رہی ہیں؟ اس کی وجہ پر اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی بات تہہ سے نہیں نکلے گی کہ اصل محرک اس شوروغل کا‘ حسد و تعصب ہے‘‘۔ (ص ۱۹۵-۱۹۶)
تجلیات صحابہؓمیں حقائق کی کھوج کا ری کے دوران‘ عامر عثمانی مرحوم نے سنگ بدست کرم فرمائوں کی طرزِ ادا کا جواب دیتے وقت بعض مقامات پر مناظرانہ رنگ بھی اختیار کیا ہے مگر اس رنگ نے ان کے
تفقہ فی الدین اور تحقیقی اسلوب کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے سیرت‘ تاریخ اور تفسیر کے ہزاروں صفحات کا مطالعہ کیا اور غیر جذباتی انداز سے تجلیات صحابہؓکے مضامین سپردقلم کیے۔ (سلیم منصور خالد)
پاکستانی جامعات میں تحقیقی سرگرمیوں کی کمی کا شکوہ اور معیارِ تحقیق پر عدمِ اطمینان کا اظہار بالعموم کیا جاتا ہے مگر اس کے برعکس بعض حوصلہ افزا مثالیں بھی سامنے آتی ہیں۔ شعبہ اردو‘ سندھ یونی ورسٹی کا تحقیقی مجلہ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ کسی پاکستانی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کا یہ سب سے معیاری اور بلند پایہ تحقیقی رسالہ ہے۔ ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تازہ ضخیم شمارہ (نمبر ۱۲ اور ۱۳) علمی و ادبی مقالات‘ مکتوبات‘ تبصرات اور تحقیقی نوعیت کی فہارس کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ایک گوشہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق پروفیسر عربی ڈاکٹر مختارالدین احمد کے مقالات اور ان کے نام امتیاز علی عرشی‘ قاضی عبدالودود‘ ڈاکٹر عبدالستار صدیقی‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘ غلام رسول مہر‘ عبدالماجد دریابادی‘ مالک رام‘ پروفیسر حمیداحمد خاں اور مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی جیسی نامور شخصیات کے ۲۲۵ علمی مکتوبات پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ پوری ایک کتاب کے بقدر ہے۔ مکتوب الیہ کے حواشی و تعلیقات نے ان مکاتیب کی قدروقیمت بڑھادی ہے۔ ان سے تقریباً نصف صدی کے ایک دَور کے بہت سے نامور عالموں کے علمی مشاغل و مصروفیات اور اُن کی تحقیقی کاوشوں میں پیش رفت پر روشنی پڑتی ہے۔ علمی تحقیق سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس مجلے میں رہنمائی کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ ڈاکٹر نجم الاسلام اس مجلے کے بانی مدیر تھے (اسلامی ادب خصوصاً دینی نثر پر ان کا تحقیقی کام بہت وقیع ہے۔ ۱۳ فروری کو ان کا انتقال ہوا‘ اللہ ان کی مغفرت کرے)۔ زیرنظر شمارے میں خود مرحوم کے چار مقالے شامل ہیں (شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی اردو تفسیر۔ موضح قرآن از شاہ عبدالقادر دہلوی کی دو روایتیں‘ حکیم شریف خان دہلوی کا ترجمہ قرآن‘ قاضی محمد معظم سنبھلی کی تفسیر ہندی قلمی) ۔ڈاکٹر محمد سلیم اختر نے نامور ایرانی مصنف اور دانش ور ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کی علمی شخصیت کا احاطہ کیا ہے۔ (ر-ہ)
اس کتاب میں ایک حدیث کی رُو سے کسی کام کو اچھی طرح سے کرنا اسلام کا تقاضا بتایا گیا ہے۔ کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہوئے یہی امید تھی کہ ایک بہت اچھا مجموعہ‘ بہت اچھی تشریح کے ساتھ‘ بہت اچھی طرح شائع کیا گیا ہے۔
اربعین کے نام سے ۴۰ احادیث کا انتخاب ہمارے علما کا طریقہ رہا ہے۔ امام نوویؒ نے ان ۴۲ احادیث میں (حافظ ابوعمر بن صلاح کی ۲۹ میں ۱۳ کا اضافہ) دین کی بنیادی تعلیمات جمع کر دی ہیں اور مولانا امیرالدین مہر نے ان کے معنی کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ نفس مضمون کی تائید میں دیگر آیات اور احادیث بھی وہ لائے ہیں۔ اکثروبیشتر موجودہ ماحول کا بھی حوالہ ہے‘ مثلاً غصّے والی حدیث کی تشریح میں ’’آج کا دَور ذہنی و نفسیاتی اُلجھنوں کا دَور ہے‘‘ (ص ۹۴) لیکن کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مفہوم سے زائد بات کہی جا رہی ہے۔ مثلاً لاضرر ولاضرار کی تشریح میں یہود و ہنود کی سازش‘ قرضوں کا جال اور شہوت پرستی کے چکر کا ذکر (ص ۱۵)۔ شارح نے تعارف میں بتایا ہے کہ ان اربعین میں عقائد و ایمانیات‘ قانون و قواعد‘ عبادات و معاملات‘ اخلاق و معاشرت وغیرہ کے اہم پہلو بیان ہوئے ہیں۔ اگر محنت کر کے ان احادیث کو ابواب میں تقسیم کر دیا جاتا تو یہ ایک اضافی خدمت ہوتی۔ اچھا ہوتا کہ امام نوویؒ کے حالات زندگی پر دو تین صفحات کا نوٹ ہوتا۔ قاری کا تعلّق اپنے محسن سے جڑتا ہے‘ اس کے لیے دعاے خیر کرتا ہے اور اس کے بارے میں جاننے کا شائق ہوتا ہے۔
اگرچہ احادیث پر اعراب لگانے کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن صحتِ متن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ آیات قرآنی میں بہت سے مقامات پر غلطیاں نظر آتی ہیں۔ یہ امر ہر قاری کے لیے دلی اور ذہنی کوفت اور تکلیف کا باعث ہوگا۔ اس کی ذمّہ داری ناشر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اگر ناشر کتاب واپس نہیں لے سکتے تو اغلاط نامہ لگانا اپنا فرض جانیں۔ (مسلم سجاد)
ہمارے ہاں ایک طبقہ تو ویسے ہی قرآن و سنت سے نابلداور بے بہرہ ہے اور شاید اُسے اپنی بے خبری کا شعور بھی نہیں ہے۔ دین دار طبقے میں بھی کثیر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہے جو حدیث کی ضرورت و اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ فقط قرآن کو رہنمائی کا کافی ذریعہ گردانتے ہوئے حدیث و سنت کو پس پشت ڈالتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ قرآن و سنت کی تفہیم کے بجائے بزرگوں اور ائمہ کے چند مجموعہ ہاے اقوال کو مکمل دین تصور کرتے ہیں۔ ان حالات میں حدیث کی ضرورت و اہمیت پر یہ عام فہم کتاب مؤلف کے دینی جذبے اور وابستگی قرآن و سنت کی علامت ہے۔اس کتاب میں نہ صرف مقام حدیث کی آسان اندازمیںوضاحت کی کوشش کی گئی ہے بلکہ علم حدیث سے متعلق ابتدائی معلومات کے علاوہ کتابت حدیث‘ اصطلاحات حدیث اور اصول حدیث کی مختلف جہات کا احاطہ بھی مختصر انداز میں کیا گیا ہے۔ حدیث پر عمل کرنے کے حوالے سے چند بنیادی فقہی اصول بھی شامل کتاب ہیں۔ کتاب کا انداز علمی سے زیادہ تدریسی ہے جو کتاب کی مقصدیت کو واضح کرتا ہے۔
کتاب کے تقریباً ایک چوتھائی صفحات حدیث کی اہمیت و ضرورت کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بقیہ تین چوتھائی صفحات اصول وتاریخ حدیث سے متعلق ہیں۔ کتاب کا موضوع قانونی‘ آئینی‘ معاشرتی اور دیگر حوالوں سے حجیت حدیث کے دلائل کا تقاضا کرتا ہے۔ مؤلف کا طرز تحریر و ترتیب اور اندازِ استدلال بہت عمدہ اور عام فہم ہے۔ مثلاً ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کی وضاحت کے لیے قانون اور آئین سے متعلق چند مثالیں دی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’معاشرت میں سنت کے مقام‘‘ کی وضاحت کے لیے عورت کے گھر سے نکلنے کی اجازت سے متعلق دو احادیث نقل کر کے معاشرتی حوالے سے سنت کی اہمیت ثابت کی گئی ہے۔ اسی طرح ’’حلال و حرام میں سنت کا مقام‘‘ اور ’’انفرادی اور اجتماعی سنتیں‘‘ کے عنوانات بھی قابل توجہ ہیں۔
کتاب کی کتابت جلی ہے مگر متنِ احادیث و آیاتِ قرآنیہ میں اعراب کی غلطیاں خاصی ہیں۔کتابت کی عمومی غلطیاں بھی ہیں۔ اتنی زیادہ غلطیوں کا دوسرے ایڈیشن میں بھی باقی رہ جانا باعث تشویش ہے۔ عام قاری کی سہولت کے لیے اعراب کے التزام کے ساتھ اصطلاحات حدیث کو چارٹوں کی صورت میں تکنیکی مہارت کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔ حدیث کی بنیادی کتابوں کا تعارف اور ان کی مرویات کی نوعیت اور صحت سے متعلق مفید ابتدائی معلومات بھی کتاب میں شامل کی گئی ہیں۔ کتاب درست فکری جہت کی طرف رہنمائی اور تعلیمات کتاب و سنت کے فروغ کے علاوہ عام قارئین کو علم حدیث سے روشناس کرانے کی مفید اور مخلصانہ کاوش ہے۔ (ڈاکٹر محمد حماد لکھوی)
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے اس کتاب میں سیرت پاکؐ کا مطالعہ صرف اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ آپؐ کے خلاف کیا مخالفتیں اور سازشیں کی گئیں‘ کیا ظلم روا رکھے گئے اور آپؐ نے کس طرح ان کے مقابلے میں صبروثبات کا مظاہرہ کیا۔ مصنّف نے مقدمے میں اختصار سے آپؐ کی عظمتِ کردار کے مختلف پہلو بیان کرنے کے بعد صرف اس ایک موضوع کو لیا ہے۔ سیرت کا مطالعہ ہمیشہ اس لحاظ سے کیاجانا چاہیے کہ یہ محض تاریخی دل چسپی کے گزرے ہوئے واقعات نہیں بلکہ ان کے آئینے میں آج کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ آج اُمّتِ مسلمہ کے خلاف جو سازشیں کی جا رہی ہیں اور جس طرح انھیں ظلم و جبر کا شکار کیا جا رہا ہے‘ یہ اپنی اصل میں اس سے مختلف نہیں جو کفار و مشرکین نے رسولؐ سے روا رکھے۔ مسلم ممالک میں اسلام کے علم برداروں کے ساتھ ہماری آنکھوں کے سامنے گذشتہ ۵۰‘ ۶۰ برسوں میں جو کچھ ہوا ہے‘ چاہے مسلمان نام کے افراد نے کیا ہو‘ وہ بھی یہی کچھ ہے۔ افغانستان پر پابندیوں کو ہم شعب ابی طالب سے مختلف کیوںسمجھیں؟
اگر مسلمان خود سیرت کی اتباع میں داعی کی زندگی نہ گزار رہے ہوں تو سیرت کا یہ پہلو ان کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے۔ خود عمل ہو تو ان واقعات سے رہنمائی اور توانائی ملتی ہے۔ عبدالرحمن کیلانی نے اس زاویے سے سیرت کا مطالعہ پیش کر کے مخالف و موافق سب کے لیے ایک خدمت انجام دی ہے۔ (م - س)
] ایم فل اقبالیات کا تحقیقی مقالہ۔ معروف ادبی رسالے نیرنگ خیال میں اقبالیات سے متعلق لوازمے کا جائزہ اور اشاریہ--- ایک مفید کاوش[