--- ہم اسلام کے مالک نہیں ہیں‘ اُس کے صانع نہیں ہیں‘ اُس کے شارع نہیں ہیں۔ اسلام ہمارا مال نہیں ہے کہ مارکیٹ میں جیسی طلب ہو‘ اس کے مطابق اپنے اس مال کو بنا کر بازار میں لائیں--- اسلام تو ایک حکم ہے خالق کی طرف سے مخلوق کی طرف۔ خالق کا کام مخلوق کی خوشامد کرنا اور اس کو راضی کرنا نہیں ہے۔ مخلوق کو یا تو اس کا حکم‘ جیسا کہ وہ ہے‘ جوں کا تواں ماننا پڑے گا۔ ورنہ وہ خود اپنا ہی کچھ بگاڑے گی‘ خالق کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گی---
یہ کتنی غیر معقول تجویز ہے کہ اسلام کے مجموعی نظام میں سے محض اس کے معاشی و سیاسی اصولوں کو لے لیا جائے اور انھی کی بنیاد پر ایک پارٹی ایسی بنائی جائے جس میں شامل ہونے کے لیے توحید‘ آخرت‘ قرآن‘ رسالت‘ کسی چیز پر بھی ایمان لانے کی ضرورت نہ ہو اور نہ عبادات کی بجاآوری اور احکام شرعیہ کی پابندی ضروری ہو۔ کیا کوئی صاحب نظر آدمی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ کسی اجتماعی نظریے اور لائحۂ عمل کو اُس کے بنیادی فلسفے ‘ اُس کے نظامِ اخلاق اور اس کے تعمیر سیرت کرنے والے ارکان سے الگ کر کے چلایا جا سکتا ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا تصور نکال دینے کے بعد اسلام کا نظامِ سیاسی آخر ہے کس چیز کانام؟ اور اگر قرآن کو مآخذ ِ قانون اور محمدؐ رسول اللہ کو رعیت (انسان) اور بادشاہ (اللہ) کے درمیان نزولِ احکام کا واحد مستند ذریعہ نہ مانا جائے تو کیا اسلامی طرز کے اسٹیٹ کی تعمیر ہوا پر کی جائے گی؟ نیز وہ کون سا نظامِ تمدن و سیاست ہے جو کسی نظامِ اخلاق کا سہارا لیے بغیر قائم ہو سکتا ہو؟ اور کیا اللہ کے سامنے انسان کی ذمّہ داری و جواب دہی کا تخیل نکال دینے کے بعد اُس نظام تمدن و سیاست کے لیے کوئی اخلاقی سہارا باقی رہ جاتا ہے جس کا نقشہ اسلام نے پیش کیا ہے؟ کیا اس نظام کو آپ مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بل پر ایک دن کے لیے بھی قائم کر سکتے ہیں؟ مزیدبرآں وہ خاص قسم کی انفرادی سیرت اور جماعتی زندگی جو اس نظامِ تمدّن و سیاست کے لیے درکار ہے‘ نماز‘ روزہ اور حج و زکوٰۃ کے سوا اور کس ذریعے سے پیدا ہو سکتی ہے؟ اور وہ نہ ہو تو یہ نظام چل کہاں سکتا ہے؟ پس یہ غایت درجے کا افلاسِ فکر ہے کہ کوئی شخص محض شاخوں کا حُسن دیکھ کر کہنے لگے کہ آئو جڑ کے بغیر اِن شاخوں ہی سے درخت قائم کریں۔ (’’اسلام کی راہ راست اور اس سے انحراف کی راہیں‘‘ ‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۸‘ عدد ۱‘ محرم ۱۳۶۰ھ‘ مارچ ۱۹۴۱ء‘ ص ۳۱-۳۲)