عصرجدید میں واقعات کی صحت و صداقت اور شہادتوں کی جانچ پڑتال اور پرکھنے کے لیے جوذرائع اور وسائل ایجاد ہو چکے ہیں‘ اثباتِ حق اور قیامِ عدل کے لیے ان سے استفادہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ شریعت کا مقصود و منشا ہی قیامِ عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷ : ۲۵) ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
اسلام کے قانونِ شہادت میں قرائن قاطعہ یا شہادت حالی (circumstancial evidence) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔فقہا نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
ایسی نشانی یا علامت جو حد یقین تک پہنچنے والی ہو (ابن الفرس: الفواکہ البدریہ‘ ص ۸۳‘ مجلہ الاحکام العدلیہ‘ ص ۳۵۳)
یہ ایسی ناقابل تردید شہادت ہوتی ہے جو حالات و واقعات سے اس طرح مستنبط ہوتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی اور نتیجہ نکالنا مشکل ہوتا ہے۔
جدید دور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں قرائن میں بڑی وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ مثلاً پوسٹ مارٹم‘ انگلیوں کے نشانات (finger prints) ‘پائوں کے نشانات‘ بالوں کا تجزیہ‘ ویڈیو اور آڈیو کیسٹ
کے ذریعے تصاویر اور آوازوں کی ریکارڈنگ‘ اشیا کا کیمیاوی تجزیہ‘ ایکس ریز‘ ڈی این اے (DNA)٭ ٹیسٹ‘ تحریروں کی شناخت‘ فوٹو اسٹیٹ کے ذریعے دستاویزات کی نقول وغیرہ ذرائع شہادت میں انتہائی موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا قرآن و سنت اور فقہا کی آرا کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا قرآن و سنت میں قرائن کی شہادت کو تسلیم کیا گیا ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کی آرا کیا ہیں؟ موجودہ دَور میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے قرائن میں جو اضافہ ہوا ہے ان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی گنجایش شریعت میں موجود ہے یا نہیں؟ کیا عینی شہادت میسّر نہ ہونے کی صورت میں محض قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیاقرائن شریعت میں مستقل ذریعہ ء ثبوت ہیں یا ان کی حیثیت معاون ثبوت کی ہے کہ محض تقویتِ شہادت کے لیے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات اہل علم اور محققین کے لیے انتہائی اہم اور غور طلب ہیں؟ راقم نے اس مقالہ میں قرآن و سنت اور فقہا کی آرا کی روشنی میں اپنا نقطہ ء نظرپیش کیا ہے جس کی حیثیت محض طالب علمانہ بحث کی ہے اور اہل علم کو اس سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ اس موضوع پر بحث و تحقیق ہی کے ذریعے کسی متفقہ نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے۔
قرآن حکیم کی رُو سے: ۱- قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے کردار کی برأت کے لیے کوئی ظاہری شہادت موجود نہ تھی اس لیے قرائنی شہادت ہی کی تجویز پیش کی گئی۔
اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ o وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ o فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ ط اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ o یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا سکتۃ وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ ج اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ o (یوسف ۱۲ : ۲۶-۲۹) اگر اس کا کرتہ آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھوٹا اور اگر اس کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچا۔ سو جب (شوہر نے) دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے۔ بے شک تمھاری چالاکیاں بڑے غضب کی ہوتی ہیں۔ اے یوسف! اس بات کو جانے دو اور اے عورت! تو اپنے قصور کی معافی مانگ‘ بے شک سرتاسر تو ہی قصوروار ہے۔
قرآن حکیم نے قرائنی شہادت کی بنیاد پر اس فیصلے کو درست تسلیم کیا۔
۲- حضرت یعقوب ؑنے حضرت یوسف علیہ السلام کی خون آلود قمیص دیکھ کر بغیر کسی چشم دید گواہ کے برادرانِ یوسف کو ملزم ٹھیراتے ہوئے فرمایا:
بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ط (یوسف ۱۲ : ۱۸) بلکہ تمھارے دل نے ایک بات بنا لی ہے۔
قرطبی لکھتے ہیں: علما کا اس پر اتفاق ہے کہ یعقوب علیہ السّلام نے قمیص کے صحیح سالم ہونے کی وجہ سے ان کے جھوٹ پر استدلال کیا (قرطبی: الجامع لاحکام القرآن‘ ج ۹‘ ص ۱۵۰)
یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: بڑا صابربھیڑیا تھا کہ یوسف کو توکھا لیا مگر قمیص کو پھاڑا تک نہیں ۔ (ایضاً: ۹/۱۴۹)
شرائع سابقہ میں: صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ دو عورتوں کے درمیان ایک بچے کے بارے میں تنازعہ ہوا۔ ان میں سے ہر ایک اسے اپنا بیٹا جتلاتی تھی۔حضرت سلیمان علیہ السّلام کے سامنے ان کا مقدمہ پیش ہوا تو انھوں نے فیصلہ دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے ہر ایک کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ یہ سن کر حقیقی والدہ پکار اُٹھی کہ یہ بچہ دوسری عورت کا ہے‘ حضرت سلیمان علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ بچہ اسی عورت کا ہے‘ چنانچہ آپ نے اس کے حق میں فیصلہ کر کے بچہ اسے دلوا دیا۔ (مسلم: الجامع الصحیح‘ کتاب الاقضیہ) اس واقعہ میں بھی فیصلہ قرائن کی بنیاد پر کیا گیا۔
سنت نبویؐ میں: سنت نبویؐ میں متعددایسی مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرائن کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا‘ مثلاً:
۱- ایک موقع پر ایک بچے کی ولدیت کے بارے میں آپ ؐنے یہ فیصلہ دیا کہ اگراس کی شکل‘ صورت اور اعضا ایسے ہوں تووہ شریک کا بیٹا ہوگا اور اگر ایسے ہوں تو ہلال بن امیہ کا ۔ (ابوداؤد : السنن‘ کتاب الطلاق)
۲- غزوئہ بدر میں معوذ ؓ اور معاذ ؓ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک ابوجہل کو قتل کرنے کا مدعی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان قرائن کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا۔ ان سے آپ ؐنے سوال کیا کہ انھوں نے تلواریں تو صاف نہیں کیں؟ انھوں نے عرض کیا‘ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: انھیں لائو‘ تلواریں دیکھ کر آپ ؐنے ایک تلوار کے متعلّق ارشاد فرمایا: ھٰذا قتلہ (اس تلوار نے اسے قتل کیا ہے)۔ پھر ابوجہل کا سامان اس تلوار کے مالک کو دے دیا۔ (مسلم: الجامع الصحیح‘ کتاب الجہاد)
۳- عہد نبوتؐ میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کے متعلّق شبہ ظاہر کیا کہ وہ ولد الزنا ہے کیونکہ اس کی صورت سیاہ رنگ کی ہے جب کہ اس کے خاندان میں کوئی شخص بھی سیاہ رنگت کا نہیں‘ آنحضرتؐ نے پوچھا: ’’کیا تمھارے پاس اونٹ ہیں؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’جی ہاں!‘‘ آپؐ نے پوچھا: ’’ان کی رنگت کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’سرخ رنگ کے ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کیا ان میں کچھ سیاہی مائل بھی ہیں؟ ‘‘اس نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’یہ کیسے ہو گیا؟‘‘ کہنے لگا: اراہ عرق نزعہ (میرا خیال ہے کسی رگ نے اسے اس طرف کھینچ لیا ہے)۔ آپؐ نے فرمایا:
فلعل ابنک ھٰذا نزعہ عرق(بخاری : الجامع الصحیح‘ کتاب المحاربین) ‘ ممکن ہے تیرے لڑکے کو بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔
۴- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نعیمان یا ابن النعیمان اس حالت میں پیش کیا گیا کہ وہ نشے کی حالت میں تھا۔ آپؐ نے اسے حد لگانے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے چھڑیوں اور جوتوں سے مارا گیا اور چالیس ضربیں پوری کی گئیں ۔(ایضاً: کتاب الحدود) واضح رہے کہ شراب کی حد عموماً قرائن کی بنا پر لگتی ہے اور کسی شخص کا نشہ کی حالت میں ہونا شراب پینے کا ایک قرینہ ہے۔
فقہا کی نظر میں: متعدد مسائل میں فقہا قرائن کی بنیاد پر فیصلے کو درست قرار دیتے ہیں۔ ابوالحسن علی بن خلیل طرابلسی نے معین الحکام میں ایسے ۲۴ مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں قرائن کی بنیاد پر فیصلہ دینے میں فقہا متفق ہیں۔(۱) علامہ ابن قیم نے بھی الطرق الحکمیۃ میں اس کی متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶-۹) ان قرائن میں سے اہم یہ ہیں: مثلاً شراب کی بو‘ منہ سے آنا یا شراب کی قے یا نشہ‘ شراب نوشی کا واضح قرینہ ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قرینہ ء ظاہرہ پر اعتماد کر کے اس شخص پر حد نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جس کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو یا جس نے شراب کی قے کی ہو۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶-۹) کسی ایسی عورت کا حمل ظاہر ہونا جس کا نہ کوئی شوہر ہو نہ آقا تو یہ زنا کے لیے واضح قرینہ ہے۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ نے اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ نے اس عورت کے رجم کا حکم دیا تھا جس کا حمل ظاہر ہو گیا تھا اور اس کا نہ کوئی شوہر تھا نہ آقا۔ (ایضاً)
ملزم سے مالِ مسروقہ کا برآمد ہونا بھی واضح قرینہ ہے جو ثبوت کی دیگر صورتوں میں گواہی اور اقرار دونوں کے مقابلہ میں قوی تر ہے‘ اسی طرح مقتول جو خون میں لت پت پڑا ہو اور ایک شخص اس کے سر پر چھری لیے کھڑا ہو۔ بالخصوص جب کہ وہ شخص مقتول کے ساتھ اپنی دشمنی کے لیے بھی مشہور ہو تو اس صورت میں اسی شخص کو قاتل ٹھیرایا جائے گا۔ قرینہ کی بنا پر حکم لگانے کی یہ مثال بھی فقہا نے ذکر کی ہے کہ اگر ہم کسی ایسے شخص کو جس کی عادت ننگے سر پھرنے کی نہیں‘ ننگے سر جاتے ہوئے دیکھیں‘ اس کے سامنے ایک اور شخص پگڑی باندھے ہوئے اور ایک پگڑی ہاتھ میں لیے بھاگ رہا ہو تو ہم یہ فیصلہ کر دیں گے کہ بھاگنے والے شخص کے ہاتھ میں جو پگڑی ہے وہ قطعی طور پر اس شخص کی ہے جو ننگے سر ہے۔ یہاں ہم قرینہء ظاہرہ کی بنا پر یہ فیصلہ دیں گے جو دوسرے ہر قسم کے ثبوت اور اعتراف سے کہیں زیادہ قوی طریقۂ ثبوت ہے۔ مدعا علیہ قسم اٹھانے سے انکار کر دے تو فیصلہ مدعی کے حق میں کیا جائے گا جسے ’’قضا بالنکول‘‘ کہا جاتا ہے‘ کیونکہ مدعا علیہ کا قسم سے انکار دعویٰ کی صداقت کا واضح قرینہ ہے جس کی بنا پر فیصلہ مدعی کے حق میں جائے گا۔(۲)
اگرچہ متعدد مسائل میں فقہا قرائنی شہادت کو تسلیم کرتے ہیں مگر جمہور فقہا مثلاً شوافع‘ احناف اور حنابلہ حدود میں قرائن کو بطور دلیل تسلیم نہیں کرتے کیونکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ دم اور حدود کے معاملات میں احتیاط برتی جائے اور حدود شبہات کی وجہ سے ساقط ہو جاتی ہیں (ترمذی: الجامع‘ ابواب الحدود)‘ جیسا کہ شریعت کا اصول ہے۔ اس سلسلے میں وہ بعض احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں مثلاً ایک ایسی عورت کے متعلق جس کے بدکار ہونے کے بارے میں قرائن واضح طور پر شہادت دے رہے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو کنت راجمًا اَحَدًا بغیر بینۃٍ لرجمت فلانۃً فقد ظھر فیھا الریبۃ فِی منطقھا وھئیتھا ومن یدخل علیھا (ابن ماجہ‘ السنن‘ ابواب الحدود) اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کر سکتا تو فلاں عورت کو ضرور رجم کر دیتا کیونکہ اس کی باتوں سے‘ اس کی ہیئت سے اور جن لوگوں کی اس کے پاس آمدورفت ہے‘ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زانیہ ہے۔
باوجود واضح قرائن کے آپؐ نے اس عورت پر حد جاری نہیں فرمائی۔
اسی طرح امام احمد اور امام ابودائود نے حضرت ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے شراب پی۔ وہ نشہ کی وجہ سے راستے میں جھوم رہا تھا۔ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلے۔ جب وہ حضرت عباسؓ کے مکان تک پہنچا تو جان چھڑا کر ان کے گھر داخل ہو گیا اور ان کے پاس پناہ لے لی۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ ذکر کیاگیا تو آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا: افعلھا (کیا اس نے ایسا کیا تھا؟) پھر اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ (معالم السنن: ۳/۳۳۷) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐنے قرینہ (نشہ) کے باوجود حد جاری نہیں فرمائی۔
حنابلہ میں سے ابن قیم اور ابن تیمیہ‘ احناف میں سے ابن الفرس (م ۸۹۴ھ) اور مالکیہ میں سے ابن فرحون اور ابن جزی حدود میں بھی قضاء بالقرائن کو درست سمجھتے ہیں اور مالکیہ کا بھی عموماً یہی مذہب ہے۔ احناف کے نزدیک بھی حدِّخمر دو شرائط کے ساتھ جاری کی جائے گی۔ ایک یہ کہ کوئی شخص نشے کی حالت میں ہو اور دوسری شرط یہ کہ اس کے منہ سے شراب کی بو بھی آرہی ہو۔(۳)
حدود میں قرائن کی شہادت کو درست سمجھنے والے فقہا ایسی عورت پر حد لگانے کے بھی قائل ہیں جو حاملہ ہو اور کسی کے نکاح یاملکیت میں نہ ہو۔ اسی طرح شراب کی بو‘ اور قے کی بنا پر حدِّخمر اورمالِ مسروق ملزم کے گھر سے برآمد ہونے کی بنا پر حدِّسرقہ کو درست سمجھتے ہیں۔(۴)
اس سلسلے میں ان کا استدلال قرآن حکیم میں مذکورہ قصّۂ یوسف ؑسے ہے جس میں حضرت یعقوب علیہ السّلام نے برادرانِ یوسف ؑ کے کذب پر یوسف ؑکی صحیح سالم قمیص سے استدلال کیا تھا اور عزیز مصر کی بیوی کے الزام سے ان کی برأت ایک قرینہ (یعنی پیچھے سے پھٹی ہوئی قمیص) سے ہوئی۔ نیز وہ بعض روایات و آثار سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کا ایک شخص کو نشہ کی حالت میں دیکھ کر حد جاری کرنا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا شراب کی بو سونگھ کر ایک شخص پر حد جاری کرنا وغیرہ۔(۵)
شہادت کی اہمیّت اور ابن قیّم وغیرہ کا مسلک: اسلامی قانونِ شہادت کی رُو سے زنا کے جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہوںکی گواہی ضروری ہے ۔(النساء ۴:۱۵‘ النور ۲۴:۴)دیگر دیوانی اور فوجداری جرائم کے ثبوت کے لیے دو گواہ درکار ہیں (مثلاً وصیّت اور طلاق کے معاملے میں دو جگہ دو گواہوں کی گواہی کا ذکر ہے ۔(المائدہ ۵:۱۰۶‘ الطلاق ۶۵: ۲) اور مقدماتِ مالی میں دو مردوں یاایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو کافی سمجھا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۲۸۲)
قرآن حکیم میں اگرچہ شہادت کا یہ نصاب مقرر ہے مگر بقول ابن قیم قرآن و سنت میں کہیں یہ حکم موجود نہیں کہ جب تک (زنا کے علاوہ) دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں نہ ہوں تو شہادت تسلیم ہی نہ کی جائے اور نہ نصوصِ قرآن وحدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ اس سے کم ہونے کی صورت میں ان کی شہادت پر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ (اعلام الموقعین: ۱/۹۱-۹۲) جیسا کہ محض شراب کی بو‘ اور نشہ کی حالت کو حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے حد کے لیے کافی سمجھا ہے۔
عہد نبویؐ اور خلافت ِ راشدہ میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جن میں گواہوں کی تعداد مقررہ نصابِ شہادت سے کم تھی‘ بعض مقدمات میں صرف ایک ہی گواہ دستیاب تھا۔ اس صورت میں آپؐ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے قسم لے کر مقدمہ کا فیصلہ فرمایا اور قضاء بالیمین مع الشاھد کا اصول دیا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے:
اِنّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم قضٰی بیمین وشاھد (مسلم ‘ کتاب الاقضیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی کی قسم اور ایک گواہی کی بنا پر فیصلہ فرمایا۔
اسی قانون کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ ‘ حضرت علیؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فیصلے کیے۔(۶)
فقہا کے نزدیک بوقت ضرورت ان شہادتوں کو بھی تسلیم کیا جائے گا جنھیں عام حالات میں قبول نہیں کیا جاتا۔ مثلاً خود قرآن حکیم میںاس کی اجازت ہے کہ دورانِ سفر اگر وصیّت ضروری ہو جائے تو بوقت ضرورت دو غیر مسلموں کی گواہی کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ (المائدہ ۵:۱۰۶) اس سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ بوقتِ ضرورت اثباتِ حق و اظہارِ حق کے لیے مقررہ معیارِ شہادت کے علاوہ کم معیار اور دیگر ذرائع کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ شہادت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دعویٰ کی صداقت پر ثبوت واضح ہو جائے۔ اب اگر مقررہ نصابِ شہادت کے علاوہ کسی اورذریعے سے وہ ثبوت حاصل ہو جاتا ہے تو فقہا کے نزدیک اس کا اعتبارہے جیسا کہ زیلعی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کی ہے:
تنہا عورت کی گواہی صرف ان معاملات میں جائز ہے جنھیں مرد نہیں دیکھ سکتے۔ (شرح کنز ۴/۲۰۹)
تمام فقہی مذاہب میں اس گواہی کو بالاتفاق قبول کیا گیا ہے۔ مجلۃ الاحکام العدلیہ (جو فقہ حنفی کی قانونی دفعات کا اہم مجموعہ ہے) میں ہے کہ معاملاتِ مال میں ان چیزوں کے متعلق جنھیں مرد معلوم نہیں کر سکتے‘ تنہا عورتوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ (مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘دفعہ: ۱۶۸۵‘ ص ۳۴۰)
ابن قیم کے نزدیک حقوق کے تحفظ اور دفعِ مظالم کے لیے قرائنی شہادت پر بھی فیصلہ دینا ضروری ہے۔ چاہے مقررہ نصابِ شہادت موجود نہ ہو۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اگر قاضی قرائن کو بالکل نظرانداز کر دے تو بہت سے ایسے لوگوں کے حقوق برباد اور ضائع ہوجائیں گے جن کے پاس عینی گواہ تو موجود نہ ہوں لیکن قرائن اور واقعاتی شواہد ان کے حق میں ہوں۔ اگر قاضی بے احتیاطی کرے اور قرائن کی قطعیت اور ظنیت کا جائزہ لیے بغیر فیصلہ دے دے تو اس طرزِعمل سے ظلم و فساد کا اندیشہ ہے۔ (الطریق الحکمیۃ‘ ص ۳-۴)
آگے لکھتے ہیں: ’’اگر قاضی کو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے علاوہ دوسرے مقدمات کے موقع پر گواہی کی سچائی معلوم ہو جائے تو وہ ایک مرد کی گواہی پر فیصلہ دے سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکام پر یہ لازم قرار نہیں دیا کہ وہ بغیر دو گواہوں کے بالکل ہی فیصلہ نہ کریں۔ البتہ حق دار کا حق محفوظ رہنا ضروری ہے۔ یہ حق خواہ دو گواہوں کے ذریعے محفوظ ہو‘ خواہ ایک مرد اور دو عورتوں کے ذریعے‘ مگر اس حدبندی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حاکم ایک گواہی پر فیصلہ نہیں دے سکتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور ایک قسم بلکہ صرف ایک گواہ کے ساتھ بھی فیصلہ فرمایا ہے۔ (الطرق الحکمیۃ ‘ ص ۶۶-۶۷)
وہ اپنی اس رائے کی تائید میں علامہ ابن تیمیہ کے اس قول سے بھی استناد کرتے ہیں کہ ’’قرآن حکیم میں دو مرد اوردو عورتوں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ فیصلہ کرنے والے اس تعداد کے پابند ہیں‘ بلکہ صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ اتنے گواہوں سے حق دار کا حق محفوظ رہتا ہے‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۷۰)
مزید لکھتے ہیں: ’’شارع نے حقوق کے تحفظ کا دارومدار صرف دو مرد گواہوں پر نہیں رکھا ہے‘ نہ خون کے معاملے میں ‘ نہ مال کے مقدمے میں اورنہ حد کے بارے میں‘ بلکہ خلفاے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے حمل کی وجہ سے حدِّزناجاری کی اور صرف بو‘ اور قے کی بنا پر حدِّخمر لگائی‘ اسی طرح جب چور کے قبضے سے چوری کا مال جوں کا توں برآمد ہو جائے تو اسے حد لگائی جائے گی بلکہ یہ قرینہ حمل اور شراب کی بو‘ سے زیادہ ظاہر ہے۔ (اعلام الموقعین‘ ۱/۱۰۳)
ابن قیم گواہی کی اس تعریف کو راجح قرار دیتے ہیں کہ جو چیز حق بات کو ثابت کر دے وہی گواہی ہے۔ وہ حدیث البینّۃ علی المدّعی والیمین علیٰ المدعٰی علیہ (ترمذی‘ ابواب الاحکام) (ثبوت کا بار مدعی پر ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے) کی توضیح لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن حکیم‘ احادیث ِ رسول ؐاور کلام صحابہؓ میں بیّنہ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حق کو ظاہر اور ثابت کر دے اور قرآن وحدیث میں اس سے یہی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ (الحدید ۵۷:۲۵) قُلْ اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ (الانعام ۶:۵۷) وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلاَّ مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنَۃُ (البینہ ۹۸:۴) اَمْ اٰتَیْنٰھُمْ کِتٰبًا فَھُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ ج (فاطر ۳۵:۴۰) ان آیات میں لفظ ’’بینہ‘‘ یا ’’بینات‘‘ روشن دلیل یا ظاہرِ حق یادلیلِ حق کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مدعی سے سوال کیا: ألَکَ بَیِّنَۃ؟ (کیا تمھارے پاس (دعویٰ کی سچائی پر) کوئی دلیل ہے؟) اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیّنہ سے مراد ہر وہ دلیل ہے جو دعویٰ کو ثابت کر دے خواہ اس کی حیثیت گواہ کی ہو یا کوئی دوسری چیز ہو (جس سے ثبوت ملتا ہو)‘ گویا ثبوتِ حق کسی ایک معیّن چیز پر موقوف نہیں ہے جیسا کہ فقہا نے اسے صرف دو گواہ یا ایک گواہ اور قسم کے ساتھ خاص کرد یا ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ: ’’عینی شہادت‘ تحریری شہادت‘ قسم‘ اقرار اور ہر قسم کی واقعاتی شہادت‘ غرض یہ سب چیزیں ’’بینہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک گواہ کے قائم مقام ہے۔ اس لیے اگر کسی مقدمہ میں عینی گواہوں کی مقررہ تعداد میں کمی ہو یا گواہ بالکل نہ ہوں تو اس وقت کسی بھی قسم کے بیّنہ کو جو یقین کا فائدہ دیتا ہو‘ قبول کر لیا جائے گا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا ۔(اعلام الموقعین‘ ۱/۹۰-۹۱)
علامہ ابن قیم اپنی دوسری کتاب الطرق الحکمیۃ میں اسی مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بیّنہ ہر اس دلیل کو کہتے ہیں جو حق کو واضح اور ظاہر کرتی ہو۔ جو لوگ اسے دو گواہوں یا چار گواہوں یا ایک گواہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں وہ اس لفظ کا پورا حق ادا نہیں کرتے۔ قرآن حکیم میں بینہ کا لفظ کسی جگہ بھی دو گواہوں کے معنی میں نہیں استعمال ہوا بلکہ حجت‘ دلیل اور برہان کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ کوئی چیز انفرادی طور پر دلیل ہو یا کئی چیزیں مل کر دلیل بنی ہوں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد البینہ علی المدّعی کا مطلب یہ ہے کہ مدّعی ایسی دلیل اور ثبوت پیش کرے جس سے اس کے دعویٰ کی صحت و صداقت ثابت ہوتی ہو۔ تاکہ اس کے حق میں فیصلہ ہو جائے۔ دو گواہ بھی بینہ کے مفہوم میں شامل ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات گواہوں کے علاوہ دوسرے دلائل قوی تر ہوتے ہیں مثلاً مدعی کے صادق ہونے پر حالات و واقعات کی شہادت گواہ کی گواہی سے قوی تر دلیل ہے۔ (الطرق الحکمیۃ‘ ص ۱۱-۱۲)
عصر حاضر میں اہمیت اور شرعی حیثیت: قرآن حکیم ‘ احادیث نبویؐ ‘ روایات و آثار اور فقہا کی آرا سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی میں واقعات اور قرائن کے ذریعے شہادت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے اس کی بنیاد پر فیصلے کیے ہیں۔ آج سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے قرائن میں غیر معمولی وسعت پیدا ہو چکی ہے اور واقعات کی صحت‘ شہادتوں کی جانچ پرکھ‘ اثباتِ دعویٰ اور ردِّ دعویٰ میں ان کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے‘ بلکہ بعض اوقات ان کی شہادت عینی شہادتوں سے بھی زیادہ واضح‘ درست (authentic)قطعی اور یقینی ہو جاتی ہے‘ اس لیے شریعت کے اصولوں کی روشنی میں نہ صرف ان سے استفادہ ضروری ہے بلکہ عین منشاے شریعت ہے تاکہ حقوق کا تحفظ اور جرائم کا انسداد ممکن ہو سکے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ بالخصوص حدود کے معاملے میں محض قرائن پر اکتفا کافی نہیں کیونکہ یہ عموماً مستقل اور فیصلہ کن ذریعہء ثبوت نہیں ہوتے اور حدود شبہات سے ساقط ہو جاتی ہیں‘ البتہ قرائن سے شہادت کو تقویت ملتی ہے جس سے عدل و انصاف کا حصول ممکن ہوجاتا ہے ‘ اس لیے ہماری رائے میں حدود کے معاملے میں اگر شہادت کا مقررہ نصاب مکمل نہ ہو مگر قرائنی شہادت دستیاب ہو تو جرائم کے انسداد کے لیے ضروری ہے کہ تعزیری سزا ضرور دی جائے اور جہاں قرائن انتہائی قطعی اور یقینی ہوں وہاں حد جاری کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض احادیث وآثار میں قرائن کے اعتبار اور عدمِ اعتبار سے متعلق اختلاف کی وجہ ان قرائن کی قطعیت و ظنیّت ہے۔ جہاں قرائن کی دلالت قوی ہوتی ہے اور وہ قطعی اور یقینی ذریعہء ثبوت ہوتے ہیں وہاں شارع نے ان کا اعتبار کیا ہے‘ جیسے شراب کی بو اور نشہ وغیرہ۔ جہاں قرائن کی دلالت ضعیف ہوتی ہے ‘ وہاں محض ظن حاصل ہوتا ہے‘ اس لیے ان کا اعتبار نہیں کیا گیا‘ جیسا کہ مدینہ کی بدکار عورت کے متعلق آپؐ نے قطعی اور یقینی ثبوت میسّر نہ آنے کی وجہ سے محض ظن کی بنیاد پر حدِّرجم جاری نہیں فرمائی (کیونکہ معاملہ حدود کا تھا)۔ فقہا قرائن سے ایسی دلالت مراد لیتے ہیں جو ظنِّ قوی کا فائدہ دیتی ہو یا ایسی علامت جو حدِّ یقین تک پہنچنے والی ہو۔ (جاری)
۱- طرابلسی‘ معین الحکام فی مایترددّبین الخصمین من الاحکام‘ ص ۱۶۱-۱۶۲۔ ابن القیم‘ الطریق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیہ‘ بیروت‘ دارالکتاب العلمیۃ (س-ن)‘ ص ۶-۹۔ عبدالقادر عودہ‘ التشریع الجنائی الاسلامی‘ القاہرہ‘ مکتبہ دارالتراث‘ ج ۲‘ ص ۳۳۹-۳۴۱)
۲- دیکھیے معین الحکام ‘ ص ۱۶۱-۱۶۲‘ ابن قدامہ‘ ا لمغنی‘ ۱۰/۶ ۔’’النکول عن الیمین وردّہا‘‘ کی بحث کے لیے دیکھیے: التشریح الجنائی‘ ۲/۳۲۹-۳۴۱)
۳- ابن ہمام‘ شرح فتح القدیر‘ بولاق‘ مصر‘ مطبع الکبریٰ الامیریہ‘ ۱۳۱۵ھ‘ ج ۴‘ ص ۱۷۸-۱۸۱۔ نیز التشریح الجنائی‘ ۲/۵۱۱-۵۱۲۔
۴- ابن قیم‘ اعلام الموقعین‘ بیروت‘ دارالجیل‘ ۱۹۷۷ء‘ ج ۱‘ص ۱۰۳
۵- الطرق الحکمیۃ‘ ص ۶۔نیز المنتقی بشرح المؤطا ‘ ۳/۱۴۱
۶- تفصیل کے لیے دیکھیے‘ مالک‘ مؤطا ‘ کتاب الاقضیہ‘ باب القضاء بالیمین مع الشاہد۔ ترمذی‘ابواب الاحکام‘ باب ماجاء فی الیمین مع الشاہد۔ ابوداؤد‘ باب ماجاء فی الیمین مع الشاہد۔سیوطی‘ تنویرالحوالک شرح علیٰ مؤطا مالک‘ قاہرہ‘ مکتبہ ومطبعہ المشہد الحسینی‘ ج ۳‘ ص ۲۰۱۔ عینی‘ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری‘ بیروت‘ دارالفکر‘ ج ۱۳‘ ص ۲۴۴۔ معین الحکام‘ ص ۱۱۰-۱۱۸