ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس وقت امن عالم کے خرمن پر ہر طرف سے بجلیاں گر رہی ہیں۔ فرد سے لے کر اقوام تک بے اطمینانی کا غلبہ ہے۔ انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم و زیادتی کابازار گرم ہے اور ہر فراز سے خون کی آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ انسانیت کا ماہ شرف‘ ظلمت اور جبر کے اتھاہ اندھیروں میں غروب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ نام نہاد علم و تمدن کے ہاتھوں انسانیت سسکیاں لے رہی ہے۔ اخلاقی اقدار‘ نفسانیت اور ریاکاری کے سانچوں میں ڈھلتی چلی جا رہی ہیں اور غیر اخلاقی روایات خود غرضی کے فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہیں۔ ہوس زر نے خیانت ‘رشوت اور حصولِ دولت کے کسی بھی ذریعے کو ناجائز اور حرام نہیں رہنے دیا ہے۔ افراد اور اقوام نے انسانی اقدار سے بالاتر ہو کر وسعت پسندی کو اپنا ’’ماٹو‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اسی ’’وسعت پسندی‘‘ اور عدم برداشت کے رجحانات نے دنیا میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ قومیں قوموں سے نبرد آزما ہیں اور ملک ایک دوسرے سے دست و گریباں۔ انسانوں کی اجتماعیت بری طرح متاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ باپ بیٹے اور بھائی بھائی کے درمیان کھینچا تانی ہے۔ ہر شخص انا ولا غیری کے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں لازم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات سے رہنمائی حاصل کی جائے جن میں تحمل‘ برداشت‘ حلم و بردباری‘ عفو و درگزر‘ رواداری و احترام کا درس ملتا ہے۔
آج دنیا میں تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت انسانی معاشرے میں ایک خطرناک رخ اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے وحشت اور دہشت کے سائے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ہیجان خیزی اور شورش پسندی کے باعث کہیں مذہب کو بنیاد بنا کر اور کہیں سیاسی گروہ بندی کے حوالے سے تشدد
کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر عزتیں لُٹ جاتی ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ بچوں کے معمولی جھگڑے خاندانوں کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مذہب سے بیگانگی اور دین سے دُوری کے سبب لوگ راہِ عمل کے بجائے راہِ فراراختیار کررہے ہیں۔ اسی لیے اس متمدن دور میں بھی خودکشی کی شرح حیرت انگیز ہے۔ عدم برداشت اور تشدد پسندی کے حوالے سے مذہبی حلقے آج سب سے زیادہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ دوسرے کے نقطۂ نظرکو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہو چکی ہے۔ اپنے عقائد اور نظریات کو دوسروں پر نافذ کرنا ہر شخص اپنا مذہبی حق سمجھتا ہے۔
عدم برداشت کا ایک اور اہم سبب معاشی اور معاشرتی ناہمواری ہے۔ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک کو سوکھی روٹی میسر نہیں اور دوسری طرف کتے بھی ڈبل روٹی اور دودھ پر پَل رہے ہیں۔ محبت اور قناعت جیسے انسانی جذبے معاشرے سے مفقود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سیاسی عدم توازن اور پسند و ناپسند نے بھی ہیجان خیزی اور تشدد پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس نے بین الاقوامی سطح پر کمزور قوموں اور چھوٹے ممالک کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
دنیا کے ان تمام مسائل کا حل اگر کہیں ہے تو صرف اور صرف تاجدار مدینہؐ کی تعلیمات میں جو کہ سراسر عدل اور محبت پر مبنی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک فرمان: لاَ یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لاَِخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ‘ (الامام البخاری‘ الجامع الصحیح‘ کتاب الایمان‘ لجنۃ احیاء کتب السنۃ ‘مصر‘ ج ۱‘ ص ۲۸) ’’تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیزپسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے کرتا ہے‘‘ کو کوئی بھی معاشرہ حرزِ جان بنا لے تو وہ امن کا گہوارہ اور محبت کا گلستان بن جائے گا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنے لیے خوب صورت‘ اعلیٰ اور بہتر بات کو پسند کرتا ہے۔ ایمانی اور انسانی تقاضے کے مطابق جب وہ اپنے لیے پسند کی جانے والی اچھی چیز کو دوسروں کے لیے بھی مقدم بنائے گا تو اس سے ہر طرف امن اور محبت کی خوشبو پھیل جائے گی۔
اس وقت مسلمانان عالم اوراسلامیان پاکستان تاریخ کے ایک نازک دَور سے گزر رہے ہیں۔ عالم کفر اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ سیاسی‘ سماجی‘ معاشرتی‘اقتصادی حتیٰ کہ نظریاتی اور اساسی پہلووں پر حملہ آور ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف موجودہ محاذ آرائی اور اشتعال انگیز کارروائیاں دراصل عدم برداشت کے اسی رجحان کی غماز ہیں۔
تحمل و برداشت اور حلم و بردباری ان اخلاقی صفات میں سے ہیں جو افراد کے لیے انفرادی طور پر اور اقوام کے لیے اجتماعی طور پر کامیابی‘ عزت و عظمت اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔حلم کی وجہ سے انسان کے نفس میں وہ قوت برداشت اور وہ سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ کسی حالت میں بھی قوت غضب غالب نہیں آتی۔ ایک حلیم انسان کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی بات ہو یااس کو کتنی ہی تکلیف پہنچائی جائے وہ صبر و ضبط سے کام لے کر انھیں برداشت کرتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کی تاثیر یہ بیان کی ہے کہ دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (حم السجدہ ۴۱:۳۴) اور اے نبیؐ ‘ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔
رسول اکرم ؐ نے برداشت و تحمل‘ حلم و بردباری اور حوصلہ و صبر اختیار کرنے کی نہ صرف تعلیم دی ہے بلکہ اپنے اسوہ حسنہ کے ذریعے اس کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔ رسول اکرمؐ کی محبوبیت کا ایک اہم راز یہ بھی ہے کہ مزاج مبارک میں برداشت وتحمل کی بے نظیر خصوصیت تھی۔ لوگوں کی سخت کلامی‘ ان کے ناروا سلوک اور سخت ترین اذیت رسانی کے باوجود آپؐ ان پر خفا نہ ہوتے۔ آپؐ کی یہی قوت برداشت اور متانت آپؐ کی صداقت کی بہت بڑی علامت ہے۔ اسی علامت کو دیکھ کر اور آزما کر یہود کا ایک بہت بڑا عالم زید بن سعنہ آپؐ پر ایمان لایا اور اپنا آدھا مال صدقہ کردیا اور پھر غزوئہ تبوک میں شہید ہو گیا۔ (محمد بن یوسف الصالحی الشامی‘ سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ‘ لجنۃ احیاء التراث الاسلامی‘ مطبوعہ قاہرہ‘ ۱۹۸۳ء‘ ج ۷‘ ص ۳۶)
قرآن مجید اسی طرف اشارہ کر رہا ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمْ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۵۹) (اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کے کمال برداشت‘ کمال حلم اور کمال عفو و درگزر کی تعریف فرمائی ہے۔
حضوراکرم ؐ کی زندگی شاہد ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ؐ نے کبھی کسی ذاتی معاملے میں انتقام نہیں لیا‘ سوائے اس کے کہ کسی نے احکام الٰہی کی خلاف ورزی کی ہو اور اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو توڑا ہو۔ (ابو الفضل قاضی عیاض بن موسیٰ‘ الشفاء‘ مطبوعہ بیروت‘ ج ۱‘ ص ۱۴۰)
طائف والوں نے آپؐ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ناقابل فراموش تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ ام المومنین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا احد کے دن سے زیادہ تکلیف دہ دن آپ پر گزرا ہے؟ فرمایا: تیری قوم نے یوم العقبہ کو جو تکلیفیں پہنچائیں وہ بہت زیادہ سخت تھیں (یعنی جس دن ثقیف کے سرداروں عبدیالیل وغیرہ کو دعوت دی اور انھوں نے جو سلوک میرے ساتھ روا رکھا وہ بڑا روح فرسا تھا)۔ (محمد بن یوسف الصالحی الشامی‘ سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد‘ لجنۃ احیاء التراث الاسلامی‘ مطبوعہ قاہرہ ۱۹۸۳ء‘ ج ۲‘ ص ۵۷۹)
آپؐ نے مصائب و آلام اور حزن و الم سے بھرپور اس گھڑی میں بھی برداشت اور حوصلے کی وہ عظیم مثال قائم کی کہ شاید انسانی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہو۔ پہاڑوں کے فرشتے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور کہا: ’’اگر آپ فرمائیں تو پہاڑوں کو میں ان پراوندھا گرا دوں۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں انھیں زمین میںغرق کر دوں‘‘۔ رحمت مجسم ؐ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں گے۔
ہجرت کے نویں سال اسی طائف کی وادی کے سرداروں پر مشتمل ایک وفد بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا۔ شفقتوں اور محبتوں کے سائبان اس انداز میں تان دیے گئے کہ ان کے قیام کے لیے سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام یعنی مسجد نبویؐ میں خیمے نصب کردیے اور فیضان محبت و الفت کی برکھا ان پر ہمہ وقت مہربان رہتی۔
حضرت انس ؓ روایت فرماتے ہیں کہ نجران کی بنی ہوئی چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہوئے تھے۔ ایک بدو نے اس چادر کو اس زور سے کھینچا کہ گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے‘ بدو کہنے لگا: ’’اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس سے مجھے بھی حصہ دیں‘‘۔ اس قبیح حرکت کو برداشت فرماتے ہوئے‘ آپؐ مسکراکر خادم کو حکم دیتے ہیں کہ اس کو مال غنیمت سے کچھ عطا کر دیں۔ (الامام ابوالفدا اسماعیل بن عمر بن کثیر‘ السیرۃ النبویۃ‘ بیروت‘ دارالفکر‘ ۱۹۷۸ء‘ ج ۳‘ ص ۶۸۱)
اس کائنات میں یقینا سب سے مشکل کام طاقت اور قوت رکھنے کے باوجود کسی زیادتی کو برداشت کر کے مسکرا دینا ہے۔ اور بے شک آپؐ کی حیات مبارکہ کے امتیازی اوصاف میں ایک بنیادی وصف بے مثال اور لازوال قوت برداشت ہے۔ اعلان نبوت کے بعد مکّی اور مدنی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں کہ جس میں اسلام دشمنوں نے ہر ممکن طور پر اسلام‘ مسلمانوں اور پیغمبر اسلام پر ظلم و زیادتی میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ لیکن آپؐ ہمیشہ قرآن پاک کی تعلیمات کا مظہر اتم و اکمل بن کر صبر و رضا کا مجسم پیکر بنے رہے۔ ہر زبانی اور جسمانی اذیت کا جواب عفو و درگزر اور صبر و استقامت سے دیا۔ قرآن پاک نے صبر یعنی برداشت کرنے کو تمام آزمایشوں کے لیے نسخہ اکسیر قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ً ء مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْآ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ (البقرہ ۲ : ۱۵۵ - ۱۵۶) اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر‘ فاقہ کشی‘ جان و مال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمھاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے‘ تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والوں کو اپنی معیت کا یقین دلایا ہے۔ کتاب مبین میں ہے: اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرہ ۲: ۱۵۳) ’’بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ مسلمانوں کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے صبر اور نماز سے مدد حاصل کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰۃِ … الخ (البقرہ ۲: ۴۵) ’’اور صبر اور نماز سے مدد لو‘‘۔ مسلم معاشرے میں امن و امان اور اخوت و بھائی چارے کے قیام کے لیے ایک دوسرے کو مسلسل حق اور صبر کی تلقین کرتے رہنے کا حکم دیا ہے: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِo (العصر ۱۰۳ :۳) ’’اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘۔
برداشت اور صبر کی تعریف محققین نے یوں فرمائی ہے:
الصبر حبس النفس عند الالام والموذیات‘ یعنی تکلیف دہ اور پُراذیت حالات میں بھی انسان اپنے آپ کو بے قابو نہ ہونے دے۔
مذکورہ بالا آیات قرآنی نظام حیات کے بارے میں مثبت انسانی اور اخلاقی رویوں کی تعمیر کے لیے ایک انتہائی اہم ضابطے کو بیان کرتی ہیں جس کا مفہوم اور حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد یاقوم کی طرف سے ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنے کی صورت میں حتی الامکان عفو و درگزر‘ رواداری اور قوت برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔یہ تعلیمات کسی قسم کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتیں بلکہ ان کا اصل مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پرامن کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ کسی ایک فریق کی اشتعال انگیزی پر دوسرے فریق کا ویسا ہی ردعمل نہ صرف امن و آشتی کے لیے زہرقاتل ہے بلکہ بسااوقات ایسے رویوں کی بھاری قیمت چکاناپڑتی ہے۔
میدانِ جنگ ہو یا جنگی قیدیوں کی قسمتوں کا فیصلہ‘ گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچنے والے بدو کا ہاتھ ہو یا راہوں میں کانٹے بچھانے کے اقدامات‘ ازواج مطہرات پر تہمتیں لگانے والے فتنہ پرداز ہوں یا عین جنگ کے موقع پر ساتھ چھوڑنے والے منافقین‘ نامناسب کلمات بولنے والی زبانیں ہوں یا معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے فریق‘ انسان کاملؐ اور معلم انسانیتؐ ہر ہر مرحلے پر ایسی قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ زیادتی کرنے والا شرمندہ ہو جاتا ہے اور بے اختیار دامن نبوت کی پناہ میں آجاتا ہے۔ صبر و برداشت ایسا خوب صورت جذبہ ہے کہ جو انفرادی و اجتماعی سطح پر پروقار اور باعظمت مقام حاصل کرتا ہے اور اسی جذبے سے جانی دشمنوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ یہ جذبہ اگر انفرادی سطح پر ہو تو انسانی شخصیت کے گرد رعب و دبدے کا عظیم حصار قائم کرتا ہے اور اگرقومی سطح پر ہو تو اقوامِ عالم میں ایسا تشخص عطا کرتا ہے جس کا تاثر پختہ اور دیرپا ہوتا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْھُمْ ز وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْابِھَا ط وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئًا ط اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ o (اٰل عمٰرن ۳:۱۲۰) تمھارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے‘ اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے۔
جب آپؐ نے مکہ مکرمہ کو فتح کیا تو آپؐ ظالموں سے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے۔ اس کے باوجود رحمت عالمؐ نے برداشت و تحمل کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں کہیں نہیں ملتی۔ آپؐ نے پیغمبرانہ جلال کے ساتھ سب کی طرف دیکھ کر فرمایا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمْ الرّٰحِمِیْنَ اِذْھَبُوَا وَاَنْتُمُ الطُّلَقَآئُ‘آج میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں‘ اللہ تعالیٰ تمھارے سارے گناہوں کو معاف فرمائے اور وہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ جائو‘ چلے جائو میری طرف سے تم آزاد ہو۔(ابن قیم الجوزیہ‘ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد‘ بیروت‘ موسسۃ الرسالۃ‘ ۱۹۸۵ء‘ ج ۳‘ ص ۴۴۲)
دشمنوں سے انتقام لینا انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بالخصوص ان لوگوں سے جنھوں نے گھر چھین لیا ہو‘ زمین تنگ کر دی ہو‘ وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہو‘ پیاروں کا خون کیا ہو۔ لیکن فتح یاب ہو کر برداشت‘ تحمل اور عفو و درگزر سے کام لے کر خون کے پیاسوں کو معافی کاسرٹیفکیٹ دے کر تاریخ عالم پر ’’رحمت عالم‘‘کا نقش دوام ثبت فرما دیا۔ سعد بن عبادہ کی طرف سے جب یہ آواز آئی: الیوم یوم الملحمۃ ’’آج کا دن قتل و غارت کا دن ہے‘‘۔ تو نبی مکرم ؐ نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے: الیوم یوم المرحمۃ ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے‘‘۔(سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد‘ ج ۵‘ ص ۳۳۸)
دراصل شخصیت کا حسن اور کمال زبردست قوت برداشت اور تحمل و بردباری میں پنہاں ہے‘ ماردھاڑ‘ تخریب اور بربادی میں نہیں۔ برداشت و تحمل اور حلم و بردباری سے دل جیتے جاتے ہیں اور اس کے برعکس وقتی طور پر خوف و ہراس کی فضا قائم کر کے کام تو نکالا جا سکتا ہے لیکن انجام ایسے انقلابات کی شکل میں رونما ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تباہی چارسو پھیل کر معاشرے کو غارت کر دیتی ہے۔ اس لیے صحیح اور درست طریقہ وہی ہے جس کی قرآن و سنت نے تعلیم دی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کر کے دکھایا ہے۔ جیسا کہ حکم خداوندی ہے:
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ o (الشوریٰ ۴۲:۴۳) البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے ‘ تو یہ بڑی اُولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔
ایک شخص حضورؐ کی خدمت میں حاضرہواور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! مجھے کچھ نصیحت فرمایئے۔ آپؐ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے کہا‘ کچھ اور نصیحت فرمایئے‘ آپؐ نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو اور کئی بار یہی بات دہرائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الغضب والکبر‘ منشورات‘ المکتب الاسلامی‘ دمشق‘ ج ۳‘ ص ۶۳۲)
برداشت و تحمل‘ عفو و درگزر اور رحمت و شفقت کی سب سے بڑی مثال وہ انقلاب ہے جو ۲۳ برس کے عرصے میں بپا ہوا جس کے لیے حضورؐ نے مدنی زندگی میں ۲۷ غزوات کیے اور غزوات و سرایا کی شکل میں کل ۸۲ جنگیں لڑی گئیں۔ انسان سوچتا ہے کہ اتنی زیادہ جنگوں میں خون خرابے اور تباہی و بربادی کا کیا حال ہوگا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس اسلامی انقلاب میں فریقین کے کل انسان جو کام آئے ۹۱۸ ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس سے بڑا غیر خونی انقلاب آج تک دنیا میں کبھی بپا ہوا ہے جس کے ذریعے انسان کا ظاہر و باطن اور نظام معیشت و سیاست سب کچھ بدل جائے۔ ان کے مقابلے میں دوسرے انقلابات کا حال سب پر عیاں ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں مقتولین کی تعداد ۶۴ لاکھ اور دوسری جنگ عظیم میںیہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ تھی۔ لیکن نبی کریمؐ کے انقلاب کی اساس نوع انسان کی خیرخواہی تھی۔اس میں برداشت و تحمل اور عفو و درگزر کی روح رواں تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قافلہ آدمیت تحریک اسلامی کے دھارے پر بہتا چلا گیا۔ اور دعوت حق کی کھیتی پھلتی پھولتی چلی گئی اور آہستہ آہستہ لوگ جوق در جوق انسانیت کے خیرخواہ اور برداشت و تحمل اور سلامتی والے دین اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔یہ حقیقت ہے کہ تلوار سر کاٹتی ہے اور تحمل وبرداشت دل جیتتا ہے۔ تلوار کی پہنچ گلے تک اور حلم و بردباری کی پہنچ دل کی گہرائی تک ہوتی ہے۔ جہاں تلوار ناکام ہوتی ہے وہاں عفو و درگزر فتح کا جھنڈا گاڑتا ہے۔ تیر و تلوار کی طاقت سے زمین تو چھینی جا سکتی ہے مگر کسی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ دلوں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ضرورت ہے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی!