مارچ ۲۰۰۱

فہرست مضامین

عالمی معاشرے میں شادی اور خاندان کا مرکزی کردار

رچرڈ جی وائیکنز | مارچ ۲۰۰۱ | احوالِ عالم

Responsive image Responsive image

ترجمہ:  تور اکینہ قاضی

یہ دنیا نہایت سرعت کے ساتھ جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی‘ ایک عالمی گائوں کی شکل اپنا رہی ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ برائی کے لیے یا بھلائی کے لیے۔ یہ تبدیلی معاشرے میں خواتین اور بچوں کے کردار سمیت زندگی کے تمام پہلوئوں پر بڑی تیزی سے اثرانداز ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین اور بچے اس عالم گیر (گلوبیائی) عمل میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں اقوام متحدہ کے نظام کے تحت جو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں وہ ایسی اقدار کو تقویت دے رہی ہیں جو روایتی شادی اور کنبے کے تصورات کو ڈرامائی طور پر تبدیل کرنا چاہ رہی ہیں۔ آیا یہ معاشرتی تجربے درست ہیں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ امریکی اور یورپی کنبے جہاں جدید اصلاحات کا نفاذ سب سے پہلے ہوا ‘ شکست و ریخت کا شکار ہو چکے ہیں اور نتیجتاً ان کے عدم استحکام نے جاری معاشرتی ترقی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

جوں جوں گلوبیائی عمل آگے بڑھتا جا رہا ہے‘ دنیا کو شادی اور عائلی زندگی کے بارے میں مغرب کی رہنمائی کو بہ نظر تشویش دیکھنا چاہیے۔

میں سب سے پہلے اس امر پر گفتگو کروں گا کہ اقوام متحدہ کا نظام جن اقدار کو تشکیل دے رہا ہے انھیں کس طرح نافذ کیا جائے گا۔ یہ موضوع اہم ہے کیونکہ یہ گلوبیائے جانے کے عمل کی اسی حد تک رہنمائی کر سکتی

 

ہیںجس حد تک ان اقدار کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔ میں مختصراً اس پر بھی بحث کروں گا کہ اقوام متحدہ کی پیش کردہ اقدار کس طرح عائلی اور خاندانی رشتوں کو ازسرنو ترتیب دینا چاہ رہی ہیں۔ پھر میں ان اثرات کا خلاصہ پیش کروں گا جو مغرب میں نئے عائلی تعلقات نے خاندانوں میں برپا کر دیے ہیں۔ آخر میں تجویز پیش کروں گا کہ قدامت پسند (خصوصاً مذہبی) اقوام اس بات پر زور دے کر کہ گلوبیائی معاشرہ خاندان کی اہمیت کو‘ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہے‘ تسلیم کرے‘ اس گلوبیائی عمل پر بہت مثبت اور گہرے طور پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔  رواں مغربی تجربہ بتا رہا ہے کہ مضبوط و پایدار شادیاں اور خاندان عورتوں اور بچوں کی بہبود کے لیے لازمی ہیں۔ لہٰذا گلوبیائی کوششوں کو عائلی اور خاندانی استحکام کو مضبوط بنانا چاہیے نہ یہ کہ وہ اس کی بیخ کنی کریں۔

بین الاقوامی قانون اور گلوبل ازم (عالم گیریت) : اقوام متحدہ نظام نے عالمی پالیسی سازی کا نیا بڑا کردار اپنا لیا ہے۔ حالیہ کانفرنسیں مثلاً قاہرہ کانفرنس برائے آبادی و ترقی‘ بیجنگ کی چوتھی عالمی کانفرنس برائے خواتین‘ ریو (RIO) کانفرنس برائے ماحولیات اور استنبول کانفرنس برائے آبادیات نے دنیا بھر میں اہم توجہ حاصل کی ہے اور ان کو اقدار پر اثرانداز ہونے والے واقعات کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کانفرنسوں سے جو اعلامیے‘ لائحہ عمل اور ایجنڈے جاری کیے گئے خواہ وہ تکنیکی طور پر لاگو نہ بھی ہوں تب بھی وہ بین الاقوامی قانون کی تصوراتی شکل کوحقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کے اعلامیے گلوبیانے کے عمل میں موثر رول ادا کرنے لگے ہیں۔

اقوام متحدہ کی کانفرنسیں اور ان کے اعلامیے ’’نرم‘‘ قسم کے بین الاقوامی قانون کی تعریف میں آتے ہیں یعنی وہ جو خود بخود لاگو نہ ہوں‘ اگرچہ ان پرشریک ممالک کے نمایندگان کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔ انھیں عالمی معاشرے کے لیے ایک قسم کی تحریک یا مہمیز قرار دیاجا سکتا ہے۔ بہرحال یہ اعلامیے غیر لازمی ہوتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کی حقیقی دنیا کے تصور کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ غیر محسوس حقیقت ہے کہ بہت سا بین الاقوامی قانون موجود بھی ہے اور اس کی پابندی بھی کی جاتی ہے‘ اگرچہ نفاذ کا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا گیا ہو۔

اقوام متحدہ کے اعلامیے چار بڑے طریقوں سے گلوبیانے کے عمل پر اثر ڈالتے ہیں۔ اوّل:یہ اعلامیے بین الاقوامی قانون تشکیل دیتے ہیں۔ دوم: اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو عملی رہنمائی دیتے ہیں۔ سوم: ملکی دائرے میں فیصلوں اور منصوبوں کو متعین کرتے ہیں۔ آخری بات: سیاسی اور عوامی رجحان ڈھالتے ہیں۔

ا- عام قانون کی تشکیل کرنا:  عام بین الاقوامی قانون کا ریاستوں پر پورا اطلاق ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر ایک غیرلازمی قانون اس حد تک لازمی ہوتا جاتا ہے جس حد تک وہ بین الاقوامی معمول کا عکس پیش کرنے لگے۔ قانونِ عمومی (customary law) کی تعریف یہ ہے کہ یہ خود مختار ریاستوں کے اندریکساں طور پر رائج اور لاگو ہونے والی اقدار اور قواعد کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ کانفرنس اعلامیے ان اقدار پر بحث و تمحیص کا آغاز کر کے ان کو شکل دیتے ہیں اور رہنمائی کرتے ہیں۔ ان اعلامیوں کو بجائے خود بھی عملی شہادت سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ چوں کہ یہ غیر لازمی اعلامیے عالمی معاشرے کی اس مرضی کا اظہار ہیں کہ وہ ان اقدار کی پاسداری کریں گے جو ان دستاویزات میں بیان ہوتی ہیں‘ اس طرح وہ فوری طور پر قانون بنا دیتے ہیں۔ اس طرح اب رائج الوقت بین الاقوامی قانون کے واضح شکل اختیار کرنے میں صدیاں صرف نہیں ہوتیں بلکہ اب یہ قوانین بڑی تیزی سے تشکیل پا جاتے ہیں۔

ب- اقوام متحدہ ایجنسی کی سرگرمیوں کی سمت : اقوام متحدہ کانفرنس کے اعلامیے‘ نہ صرف بین الاقوامی قوانین پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ وہ اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کے لیے بھی راہنما ثابت ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا نظام بہت سی ایجنسیوں کی مدد سے چلایا جاتا ہے جنھیں مختلف ذمہ داریاں تفویض ہوتی ہیں‘ مثلاً معاہدات کا نفاذ‘ کنونشن ‘ کسی دستاویز کی تیاری یا اعلان۔ یہ ایجنسیاں ورلڈ بینک‘ انٹرنیشنل  مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)‘ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او)‘ یونیسف اور ہیبیٹٹ (habitat) پر مشتمل ہیں‘ لیکن صرف انھی تک محدود نہیں ہیں۔ عالم گیری عمل پر ان ایجنسیوں کے اثرات میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اپنے اختیارات کی حدود میں اضافے کے لیے اکثر غیر لازمی بین الاقوامی قوانین کو بنیاد بناتی ہیں۔ اس طرح ان ایجنسیوں نے اس اصول کو عملی طور پر نرم بنا دیا ہے کہ کوئی ریاست اس کی رضامندی کے بغیر پابند نہیں بنائی جا سکے گی۔ نتیجے کے طور پر متن جو صرف سفارشاتی ہوتے ہیں ریاستوں کے رویے کو رخ دینے میں قانون جیسا اثر رکھتے ہیں۔

ج - داخلی پالیسی کی تشکیل: اقوام متحدہ کانفرنس اعلامیے مختلف ممالک کے نفاذ قانون کے اندرون ملک ایجنڈے کو بھی متعیّن کر دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ استدلال ہے کہ مقامی عدالتوں کو یو این چارٹر کے آرٹیکل ۵۵ اور ۵۶ کے تحت‘ کانفرنس اعلامیے بین الاقوامی قانون کی حیثیت سے براہِ راست نافذ کر دینے چاہییں۔ اگر ایک ریاست نے یو این چارٹر کی توثیق کی ہے جیسا کہ سب نے کیا ہوا ہے‘ تو اس موقف کے حامل لوگوں کا اصرار ہے کہ چارٹر کی باضابطہ قوت کے تحت ریاست پر اس اعلان کی پابندی لازم ہو جائے گی۔ یہ نظریہ تاحال محدود کامیابی پا سکا ہے۔

باقاعدہ لازم نہ ہوں‘ تب بھی مقامی عدالتیں کانفرنس اعلامیوں کو مقامی قانون کو نئی شکل دینے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ بعض لوگوں نے تجویز پیش کی ہے کہ مقامی عدالتیں انسانی حقوق کے دائرے میں مقامی قانون کی تعبیر میں بین الاقوامی قوانین اور اعلامیوں کے غیر لازم اصولوں پر انحصار کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میںانسانی حقوق کے اکثر عہدنامے اور کنونشن کوئی لازمی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ سینیٹ نے ان کی توثیق نہیں کی ہے‘ تاہم مقدمات کرنے والوں نے یو این کی غیر لازمی دستاویزات کو بنیاد بنایا ہے۔ اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اصول جو قاہرہ‘ بیجنگ اور استنبول کانفرنس میں پیش ہوئے‘ ایک دن وہی وزن حاصل کر لیں گے اور اسی طرح لازمی قوانین کے طور پر استعمال ہوںگے۔ اگر ایسا ہو گیا تو واضح ہو جائے گا کہ یہ اعلامیے گلوبیانے کے عمل کی مبادیات تھے۔

د-  سیاسی بحث کی سمت: کانفرنس اعلامیے مقامی قانون کو ترقی دینے ‘ اقوام متحدہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کی رہنمائی کر نے اور داخلی پالیسی کو شکل دینے کے علاوہ بھی اپنی اہمیت و اثرات کو نمایاں طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ کانفرنسیں اور ان کے اعلامیے رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں‘ میڈیا کو متوجہ کرتے ہیں اور سیاسی دبائو پیدا کرتے ہیں۔ یہ باتیں بین الاقوامی اور مقامی قانونی نظاموںکی تمام سطحوں کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

کانفرنسیں نہ صرف رائے عامہ کو متاثر کرتی ہیں بلکہ چھوٹے گروپوں اور غیر حکومتی تنظیمات (این جی اوز) کے افکار اور سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ ان افراد اور گروپوں کے لیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘ یہ اعلامیے اس وقت موثر ہتھیاروں کا کام دیتے ہیں جب وہ اپنی حکومتوں سے مذاکرات کرتے ہیں۔ یہ گروپ کانفرنس کے اعلامیے کی جواز فراہم کرنے والی امداد کے ساتھ مضبوط طاقت بن کر عوامی رجحان اور حکومتی پالیسیوں کو اپنے حق میں کر کے ان کی تعمیل کروا سکتے ہیں۔ ایسے گروپ اگر مناسب عوامی مدد و حمایت حاصل کر لیں تو ایک حکومت کے لیے سیاسی طور پر یہ ناممکن بنا سکتے ہیں کہ وہ (حکومت) اقوام متحدہ کانفرنس کے اعلامیے پر عمل درآمد کرنے سے انحراف کرسکے۔

گلوبیانے کا عمل اور کنبہ:  گذشتہ بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افراد‘ غیر حکومتی تنظیمات اور قومی حکومتوں کو اقوام متحدہ کانفرنسوں کے مباحث کے ماحصل اور نتائج پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ یہ کانفرنسیں‘ حقیقت میں ان اقدار کو ترقی دے رہی ہیں جو گلوبیانے (عالم گیریت) کے عمل کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح یہ روبہ ترقی بین الاقوامی قانون اوراصول عورتوں‘ بچوں اور خاندانوں کو متاثر کر رہے ہیں۔

اس صدی کے نصف اواخر میں عورتوں (اور ان کی نمایندگی کرنے والی غیر حکومتی تنظیموں) نے بین الاقوامی کانفرنسوں کے مباحث اور ماحصل میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں عورتوں کی تنظیموں نے گلوبیائی عمل کے پھیلائو اور ترویج پر تاریخی طور پر بے مثال اثر مرتب کیا ہے۔ بین الاقوامی منظرنامے میں عورتوں کے سیاسی نظریات کی نمایندگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اسے سراہنا چاہیے۔ البتہ بہت سے بین الاقوامی مباحث میں عورت کے نقطۂ نظر پر اکثر اوقات مغربی غیر سرکاری تنظیمیں غالب رہی ہیں جو شادی‘ خاندان اور مذہب کے روایتی تصورات کی مخالف ہیں۔ شادی‘ مادریت‘ خاندان اور مذہب اکثر ایسے ثقافتی اور معاشی مسائل کی حیثیت سے پیش کیے جاتے ہیں جو عورت کی مکمل آزادی کی راہ میں حائل ہیں۔ نتیجتاً گلوبیائی (عالم گیری) عمل کے ایک حصے کے طور پر ترقی پذیر ممالک پر غیر معمولی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ مغربی نمونوں کے مطابق اپنے خاندان اور عائلی زندگی کا ڈھانچہ تشکیل دیں۔

یہ مساعی کئی جہتوں کی طرف پیش قدمی کرتی ہیں۔ ایک بڑی کوشش مبادیاتی طور پر اور شاید انتہائی نمایاں طور پر عورتوں کو حمل کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے اسقاط کے حقوق دینے پر فوری اصرار کرنے کے ذریعے ہوئی۔ اس کے ساتھ یہ کوششیں بھی شامل ہو گئیں کہ روایتی مادرانہ کردار کم کیا جائے اس لیے کہ مادریت‘ بلکہ خود کنبہ بھی‘ ایک فرسودہ اور ظالمانہ چیز ہے جو عورتوں کو خود سازی سے باز رکھتی ہے۔ خاندان کی تخریب کا ری ان تجاویز سے کی گئی کہ بچوں کو خود اختیاری کے حقوق دیے جائیں اور اس پر اصرار کیا گیا کہ ریاستوں کو ہم جنسیت بلکہ ہم جنس سے شادی کو قانونی حیثیت دے دینی چاہیے۔ نیزمذہب پر ایمان رکھنے کی اہمیت پر حملے کیے گئے۔ میں ان کوششوںکی چند مثالیں دوں گا:

۱۹۰۶ء میں نیویارک میں عہدنامہ حقوق انسانیت کی تنظیموں نے حقوقِ نسواں پر ایک گول میز کانفرنس کی۔ اس اجلاس کی رپورٹ کھلے طور پر حقوقِ انسانیت کی دستاویزات کو نئے معنی دیتے ہوئے اسقاطِ حمل کے حقِ بلااعتراض کو شامل کرتی ہے۔ حقوق نسوانیت کے گروپ کھلے عام اور سیاسی عمل سے یہ کبھی حاصل نہ کر سکے تھے۔ گول میز رپورٹ تائید کے طور پر یہ تذکرہ بھی کرتی ہے کہ ہم جنسیت اور اغلام بازی ایک محفوظ انسانی حق ہے۔ یہ رپورٹ مذہب کو نشانہ بناتی ہے کہ یہ (مذہب) ان نودریافت شدہ حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

پدرانہ حقوق کو مذہبی حقوق کی طرح بے حیثیت کیا جا رہا ہے۔ عالمی حقوق انسانیت کا اعلان والدین کو یہ اوّلین حق دیتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ بین الاقوامی عہدنامہ بابت سول و سیاسی حقوق اور بین الاقوامی عہدنامہ بابت معاشرتی ‘معاشی و ثقافتی حقوق بھی واضح طور پر والدین کے حقوق کو تحفظ دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور مذہبی پرورش کریں۔ تاہم یو این کے کئی پلیٹ فارم اس خیال کو آگے بڑھانے میں مسلسل طور پر لگے ہوئے ہیں کہ دس سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم‘ جنسی صحت کی تعلیم اور اس سے ملتی جلتی دوسری خدمات کی فراہمی کوتسلیم کرایا جائے‘ ساتھ ساتھ بچوں کو جنسی طور پر آگاہی دینے میں والدین کے کسی کردار سے انکار کیا جاتا ہے۔

کسی بھی ثقافت کا کتنا ہی باربار مطالعہ کیا جائے وہ یہی بتائے گا کہ والدین کا کمزور ہوتا ہوا تنفیذی کردار غربت کی بہ نسبت زیادہ یقینی طور پر بچوں کو نشہ اور جرم کی طرف لے جاتا ہے۔ بایں ہمہ یو این کمیٹی برائے حقوقِ اطفال اس پر بہت زیادہ مائل نظر آتی ہے کہ وہ کنونشن برائے حقوقِ اطفال کا اطلاق کرتے ہوئے بچوں اور والدین کے تعلقات میں مداخلت کرے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی کی نظروں میں بچہ ایک ننھا بالغ فرد ہے‘ جس کو رازداری‘ اظہار رائے کی آزادی اور وہ کیا سیکھے‘ یہ فیصلے کرنے کی آزادی والدین کے علی الرغم ہونی چاہیے۔ کمیٹی نے معمولی سے معمولی جسمانی سزا کو بھی بچے کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا ہے۔ کمیٹی پرانے روایتی رویوں کی مذمت کرتی ہے اور آئے دن ریاستوں کو متنبہ کرتی رہتی ہے کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں جن سے بچہ اپنے والدین کے خلاف شکایات پیش کر سکے۔ کمیٹی نے برطانیہ کو محض اس وجہ سے کنونشن کی عدم تعمیل کا مرتکب قرار دیا کہ یہ ملک ایسے قوانین رکھتا ہے جو والدین کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ ان کے بچے پبلک اسکولوں میں جنسی تعلیم کا کورس لے سکتے ہیں یا نہیں؟

اس قسم کے نئے معنی ان حقوق کو بھی دیے جا رہے ہیں جو عورتوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کی کنونشن (CEDAW)میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ’سی ڈا‘ کمیٹی مادریت کو فرسودہ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے عورتوں کو پس ماندہ رکھا ہوا ہے۔ جب کچھ ملکوں نے کوشش کی کہ عالمی اعلانِ حقوقِ انسانیت کے تحت حق مادریت کو تحفظ دیا جائے تو ’سی ڈا‘ نے شکایت کی کہ یہ کوششیں عورتوں کو کام کا معاوضہ حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ مثلاً کمیٹی نے آرمینیا کو تنبیہہ کی کہ وہ تعلیم اور الیکٹرانک میڈیا کو فرسودہ مادرانہ ’نیک کردار‘ کے خلاف استعمال کرے۔ ’سی ڈا‘ کمیٹی مذہب اور ثقافت کو مسلسل نشانہ بناتی رہتی ہے اور کہتی ہے کہ ثقافتی اور مذہبی اقدار کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ عورتوں کے حقوق کو زک پہنچائیں۔ یہ کمیٹی اتنی دلیر ہو گئی ہے کہ اس نے ثقافتی ڈھانچے اور مذہبی اقدار کو سب ممالک میں عورتوں کی پس ماندگی کا ذمہ دارقرار دے دیا ہے۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ صنفی مساوات اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ ملک کی داخلی‘ مذہبی‘ قانونی روایات اور رسوم کے تحت بین الاقوامی قانون کی مختلف تشریحات کی جائیں۔ ’سی ڈا‘ نے بچوں کی مناسب دیکھ بھال کے ضمن میں ایک حیرت انگیز رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ سلونیا میں تین سال سے کم عمر کے بچوں میں سے صرف ۳۰ فی صد مناسب روزانہ دیکھ بھال حاصل کرتے ہیں جب کہ باقی بچوں کی دیکھ بھال خاندان کے لوگ یا دوسرے غیر متعلق لوگ کرتے  ہیں۔ کمیٹی نے کہا: ’’جن بچوں کو روزانہ دیکھ بھال میسّرہے وہ خاندانی دیکھ بھال کے تحت پرورش پانے والے بچوں سے بہتر ہیں۔ تین سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے بھی سرکاری سطح پر روز کی دیکھ بھال ہونی چاہیے‘‘۔

مغربی خاندان کی ٹوٹ پھوٹ: میں نے جو پالیسی اور تجاویزآغازمیں بیان کی ہیں وہ خلا سے برآمد نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ مغربی اقوام بالخصوص امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ کے تجربات سے حاصل کی گئی ہیں۔ مغرب کی معاشرتی ترقی میں کچھ قابل توصیف پہلو ضرور موجود ہیں لیکن مجموعی ترقی کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ۔ خصوصاً اوپر بیان کردہ ترقی نے مثبت نتائج نہیں دیے۔

بین الاقوامی تجاویز نے‘ جو مادریت کی اہمیت کو گھٹا رہی ہیں‘ بچوں اور والدین کے مابین حکومت کو لاکھڑا کیا ہے اور خاندانی نظام کمزور کر دیا ہے۔ مذہبی عقیدے نے صدیوں سے ازدواجی بندھن کے لیے بنیاد فراہم کیے رکھی‘ اب اس کی کمزور ہونے کی وجہ سے شادی اور خاندان کے ادارے بیخ و بن سے اکھڑتے نظر آرہے ہیں۔

مغرب سے تعلق نہ رکھنے والی اقوام کی عورتوں کو جاننا چاہیے کہ کس طرح مغربی خاندانوں میں ازدواجی قانون نے عورت اور بچے پر اثر ڈالا ہے۔ ایسی بصیرت کے بغیر یہ عورتیں عالم گیریت کے اثرات کو جو نہایت اہم ہیں‘ سمجھ نہ پائیں گی۔ یہ ہیں: شادی کا ترک کرنا اور خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ۔ یہ شکست و ریخت معاشرتی ترقی پر بہت گہرا منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

سائنسی تحقیق سے بغیر کسی شبہ کے ثابت ہوتا ہے کہ پایدار ازدواجی اور خاندانی تعلقات معاشرتی ترقی کے لیے ازبس ضروری ہیں۔ تحقیقات نے دستاویزی ثبوت فراہم کیا ہے کہ فطری خاندانی بندھن بچے کو ہمہ  جہتی بہبود کا فائدہ دیتے ہیں۔ اس میں زیادہ تعلیمی مواقع‘ بہترجذباتی اور جسمانی صحت‘ کمسنی میں لڑکیوں کی کم جنسی سرگرمی اور لڑکوں میں کم بے راہ روی شامل ہیں۔ امریکہ میں ۵۰ فی صد بچے صرف ماں کے ساتھ غربت کے ماحول میں رہ رہے ہیں جب کہ صرف ۱۰ فی صد بچے اپنے والدین کے گھروں میں غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن تعلیم کی خرابی سے بڑھ کر جس بات کا زیادہ خطرہ ہے وہ غربت اور جذباتی صحت ہے۔ عورتوں اور بچوں کی زندگیاں شادی کے استحکام پر منحصر ہیں۔ ایسی مجامعت کا جو شادی کے فوائدکے بغیر ہو‘ امریکہ اور یورپ میں عام رجحان پایا جاتا ہے۔ ۲۰ اور ۲۵ سال عمر کے جو لوگ (بغیر شادی) ایسی زندگیاں گزار رہے ہیں وہ شمالی یورپ میں ۴۵ تا ۹۰ فی صد ہیں‘ جب کہ شادی کی شرح بہت کم ہے یعنی ایک ہزار میں ۳۶۔ مغربی معاشرے میں بلاشادی اکٹھے زندگی گزارنے کا رجحان مائل بہ ترقی ہے لیکن بڑی بھاری شہادت نے ثابت کیا ہے کہ مجامعت بلاشادی میں عورتوں اور بچوں کے لیے گھمبیر خطرات ہیں۔

ڈاکٹر ڈیوڈ پوپینو اور ڈاکٹر باربرا ڈیفووائٹ ہیڈ نے سائنسی لٹریچر کے ایک بنیادی سروے سے یہ ثابت کیا ہے کہ شادی شدہ عورتوں کی بہ نسبت ناکتخدا عورتوں سے مجامعت جسمانی اور جنسی اعتبار سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ ایسی مجامعت کے نتائج بچوں کے لیے اور بھی بھیانک ہیں۔ ڈاکٹر پوپینو اور ڈاکٹر وائٹ ہیڈ کہتے ہیں:

’’جو بچے اپنے غیر شادی شدہ حیاتیاتی والدین کے ساتھ رہتے ہیں ان میں ان بچوں کے مقابلے میں جو اپنے شادی شدہ حیاتیاتی والدین کے ساتھ رہتے ہیں بگاڑ کا ۲۰ گنا امکان موجود ہوتا ہے‘ جب کہ ایسے بچوں میں جو اپنی ماں اور اس کے مرد دوست کے ساتھ رہتے ہیں (جو ان کا باپ نہیں ہوتا) یہ خطرہ ۳۳ گنا زیادہ ہوتا ہے‘ جب کہ اس بچے کے لیے جو اپنی حیاتیاتی ماں کے ساتھ رہتا ہے جو بالکل تنہا رہتی ہے یہ خطرہ ۱۴ گنا ہوتا ہے‘‘۔ یہ شہادت یہ ثابت کرتی ہے کہ بچے کے لیے انتہائی درجہ غیر محفوظ ماحول وہ ہے جس میں اس کی حیاتیاتی ماں اس کے حیاتیاتی باپ کے بجائے کسی اور کے ساتھ رہ رہی ہو۔ مغربی معاشرے میں بچوں کی اکثریت آج کل زیادہ تر ایسے ہی ماحول میں رہ رہی ہے۔

مختصراً یہ کہ مضبوط اور پایدار ازدواجی بندھن مرد‘ عورت اور بچوں کی صحت‘ تحفظ اور معاشرتی ترقی کے ضامن ہیں اور انھیں تقویت دیتے ہیں‘ جب کہ کمزور ازدواجی بندھن غربت‘ جرائم ‘ بے راہ روی اور معاشرتی انتشار کا سبب بنتے اور ان میں اضافہ کرتے ہیں۔یہ حقائق عورتوں اور بچوں کے لیے زیادہ سنگینی رکھتے ہیں۔ شادی‘ مادریت اور پرورشِ اطفال جیسے امور پر عورتوں کی ان تنظیموں کی جانب سے حملہ کیاجاتا ہے جو عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کی علم بردار ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی تنظیموں کی کاوشوں نے عورتوں اور بچوں کی زندگیاں بہتر نہیں کیں۔ عورتوں کے حقوق کے جدید علم بردار اس حقیقت کا ضرور ادراک کریں گے کہ ’’خاندان کا وجود بحیثیت ایک ادارہ ماں بچے کی اکائی کو قانونی تحفظ عطا کرتا ہے اور معتدل معاشی وسائل والدین کے ہاتھوں سے گزر کر بچوں کو باصلاحیت ‘ بالغ افراد بنانے میں صرف ہوتے ہیں‘‘۔

شادی اور خاندان کی واضح اہمیت کے باوجود مغرب میں شادی کی اہمیت اور مقام گذشتہ ۵۰ برسوں میں ایک انتہا پسندانہ تبدیلی کے عمل سے گزرے ہیں۔ مردوں اور عورتوں میں شادی کے قانونی دائرے میں آئے بغیر اکٹھے رہنے کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شادی بذاتِ خود ایک کمزور بندھن ہو گئی ہے اور اکثر ٹوٹ جاتی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں امریکہ میں اندازاً ۵۰ فی صد شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں۔ معاشرتی ترقی کے یہ نتائج افسوس ناک کہے جا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف بچوں کے لیے بلکہ مرد عورت اور معاشرے کے لیے بھی برے اثرات کے حامل ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرتی بگاڑ اور خرابیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ پروفیسر ماریہ صوفیہ اگوائر نے بتایا ہے: ’’خاندانی شکست و ریخت کی جو قیمت مغرب نے ادا کی وہ منعکس ہوئی ہے بہبود پر خرچ میں اضافے کی صورت میں جو شکستہ خاندانوں کی مدد کے لیے اور اس کے ذیلی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا جاتا ہے: یعنی بچے کی بحالی‘ جرائم سے نبٹنے کے پروگرام‘ منشیات ‘ ۲۰ سال سے کم عمر میں حمل‘ خصوصی تعلیم اور معمر آبادی۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ۱۹۹۸ء میں خاندانی امداد کے اخراجات ۱۹۷۰ء کے مقابلے میں ۵ گنا زیادہ تھے۔ صحت کے اخراجات اسی عرصہ کے دوران ۱۵ گنا بڑھ گئے۔ امر واقعہ یہ بھی ہے کہ صحت پر اخراجات ۲۲۵ بلین کے لگ بھگ بڑھے۔ ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۶ء کے مابین معاشرتی بہبود پر صرف کی جانے والی رقوم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا۔ اربوں ڈالر عدالتوں کے چکروں میں ضائع ہو رہے ہیں جب کہ یہی رقم زیادہ مثبت کام میں بھی استعمال ہو سکتی تھی‘‘۔

خاندان‘ عالم گیریت اور انتباہ:  اس مسئلے کی حقیقی اہمیت کیا ہے؟ جیسا کہ پروفیسر اگوائر بجا طور پر توجہ دلاتی ہیں کہ خاندانی ٹوٹ پھوٹ معاشرتی استحکام پر نہایت برے اورمنفی اثرات ڈالتی ہے۔ یہ برے اثرات ملک کی معاشی ترقی پربھی برا اثر ڈالتے ہیں۔ میں اس پر یہ اضافہ کروں گا کہ خاندانی شکست و ریخت گلوبیانے کے عمل پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور اس عمل میں عورت کے کردار پر بھی۔ اس طرح جوں جوں گلوبیائی (عالم گیری) عمل جاری رہتا ہے‘ غیر مغربی اقوام--- بالخصوص خواتین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مغربی معاشرتی ترقی میں جو خطرات واضح اور عیاں ہو چکے ہیں‘ ان سے بچیں۔

میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک مختصر واقفیت یا علم مہیا کروں کہ کس طرح اقوام متحدہ کی کانفرنسوں کے اعلامیے گلوبیانے کے عمل کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ میں نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ اقوام متحدہ کی ان کوششوں کی ٹھوس مثالیں پیش کروں جو ان لوگوں کے لیے چیلنج ہیں جو اپنی روایت کے تحت شادی اور خاندان سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ آخر میں‘ میں نے مختصراً بتایا کہ کس طرح خاندانی شکست و ریخت نے مغربی معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ اب میں آپ کے غور کرنے کے لیے دو نتائج پیش کروں گا۔

پہلے یہ کہ غیر مغربی دنیا کو بین الاقوامی کانفرنس کے معاہدات کی تیاری میں انتہائی سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آج تک ایک ریاست کے نمایندے کے اقوام متحدہ کی کسی کانفرنس کے اعلامیے پر دستخط کو اس ریاست کے لیے ان اصولوں کو جو اعلامیے میں مذکور ہوں تسلیم کرنے کی واضح علامت یا آیندہ تعمیل کا اعلان نہیں سمجھا گیا۔ درحقیقت غیر لازمی وعدے صرف اس لیے کیے جاتے ہیں کہ اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے یا عوامی یا سیاسی طور پر درست جذبات کی تسکین کی جائے۔ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ ایک لاطینی سفارت کار نے اسے بتایا کہ وہ عہدنامے جن پر اس مصنف کے ملک نے دستخط کیے‘وہ وزارتِ خارجہ میں مذاکرات سے طے ہوئے‘ اور جب ان کو مان لیا گیا تو ان کو ایک الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا گیا۔ پھر انھیں کسی نے کبھی نہ دیکھا۔ بین الاقوامی اعلامیوں پر بحث و تمحیص اور حتمی صورت دینے کا یہ طریقہ غیر دانش مندانہ ہے۔

اگرچہ بین الاقوامی اعلامیوں کے عالم گیریت پر اثرات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کانفرنس اعلامیے‘ اپنا اثر ضرور رکھتے ہیں۔ ہر دستاویز سابقہ کانفرنسوں کے مقاصد اور زبان پر ایک اضافہ ہوتی ہے اور نتیجتاً یہ عمل ایک اہم زنجیر بنا دیتا ہے جس میں بین الاقوامی معاشرہ ناگزیر طور پر جکڑا جاتاہے۔ اس لیے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ دنیا کی قومیں احتیاط سے اس زبان پر غور کریں جو ایک بین الاقوامی اعلامیے میں وہ استعمال کرتی ہیں۔ زبان چاہے آج ملتجیانہ یا تحریک دلانے والی ہو‘ کل تحکمانہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ یہ قانونی لازمی زنجیریں شادی اور خاندان کا گلا ہی نہ گھونٹ دیں۔ یا پھر اس ایمان یا مذہب کی روح کو‘ جس نے دنیا کی قوموں کو صدیوں حیات بخشے رکھی‘ آخری ہچکی لینے پر مجبور نہ کردیں۔

دوسرے یہ کہ قدامت پسند اقوام کو جہاں خواتین کی بہتری کے لیے معاشرتی‘ ثقافتی و معاشی میدانوں میں مثبت پہلوئوں سے کام کرنا چاہیے‘ وہاں ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان معاشرتی نتائج سے جو مغربی معاشرے میں ازدواجی انقلاب سے آئے ہیں‘ بچنے کی کوشش کریں۔ مغرب کا تجربہ بتاتا ہے کہ عورتوں اور بچوں کا بہترین مفاد مضبوط اور پایدار شادیوں اور خاندانوں میں ہے۔

جیسا کہ پروفیسر اگوائر نے نوٹ کیا ہے کہ معاشروں کو خاندان کی بیخ کنی کی نہایت گراں اور بھاری معاشرتی قیمت ادا کرنا پڑی ہے جیسا کہ ہم ترقی یافتہ ملکوں میں دیکھ رہے ہیں۔ مزید برآں ایسے اخراجات کے حجم ظاہر کرتے ہیں کہ اگر یہی کچھ ترقی پذیر ممالک میں ہوتا تو یہ ممالک ان کے ہرگز متحمل نہ ہو پاتے بلکہ ایسی صورت حال ان کم ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کرنے کی مساعی کو مزید پیچھے لے جاتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عالم گیریت کے عمل کے جاری رہنے اور ترقی کرنے کے ساتھ قدامت پسند اقوام ‘مغرب کے اس دبائوکی مزاحمت کریں جو وہ شادی اور خاندان کے تقدس اور مرکزیت کو ختم کرنے کے لیے ان پر ڈال رہا ہے۔