مارچ ۲۰۰۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ ۲۰۰۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

والدہ اور بیوی کے حقوق

سوال: مجھے درج ذیل تین اہم مسائل درپیش ہیں۔ ان میں میری رہنمائی فرما دیجیے۔

۱- میری ماہانہ تنخواہ ۲۵ ہزار روپے ہے۔ میری دو بیٹیاں ہیں۔ والد صاحب انتقال فرما چکے ہیں‘ جب کہ بوڑھی والدہ میری دو چھوٹی بہنوں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ علیحدہ رہتی ہیں۔ دو بڑے بھائی ہیں جو الگ رہتے ہیں لیکن والدہ کی کوئی مدد نہیں کرتے۔ میں اپنی والدہ کو ہر ماہ ۶ ہزار روپے بھیجتا ہوں۔ ان کا اس کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ میری بیوی کا میرے ساتھ اس بات پر مستقل جھگڑا رہتا ہے کہ میں اپنی بچیوں کا خیال نہیں کرتا ‘ ان کے لیے پیسہ جمع نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں یا تو بالکل پیسے نہ بھیجوں یا پھر صرف ۳ ہزار روپے بھیجوں‘جب کہ ہمارے گھریلو اخراجات بہ خوبی چل رہے ہیں۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ بوڑھی والدہ کو بے یار و مددگار چھوڑ دوں۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے میں کیا رویہ اختیار کروں؟

۲- میں ہر ماہ والدہ سے ملنے آبائی گھر بھی جاتا ہوں جس پر خرچ بھی اٹھتا ہے۔ میری بیوی اس پر جھگڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ چار پانچ ماہ بعد جایا کروں‘ ماہانہ خرچ بھی بھیجتے ہیں اور ہر ماہ جاتے بھی ہیں‘ یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہے۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ والدہ کو نہ ملوں۔

۳- میں جماعت اسلامی کا رکن بھی ہوں۔ دفتری مصروفیات کے بعد کچھ نہ کچھ وقت تحریکی کاموں کو دیتا ہوں۔ پھر چھٹی کے روز چونکہ طویل پروگرام ہوتے ہیں‘ ان میں بھی شرکت کرتاہوں۔ وہ اس بات پر جھگڑتی ہیں کہ میں دفتر یا جماعت کو زیادہ وقت دیتا ہوں‘ گھر اور بچیوں کے لیے میرے پاس کوئی وقت نہیں۔ میری اہلیہ طالب علمی کے زمانے سے جمعیت کی مخالف تنظیم کی سرکردہ رکن رہی ہیں۔ وہ لٹریچر کا مطالعہ بھی نہیں کرتی ہیں بلکہ مجھے نماز کی ادایگی کے لیے مسجد جانے سے روکتی ہیں اور بسااوقات بچیوں کو پیچھے لگا دیتی ہیں۔ سختی کروں تو کہتی ہے کہ جماعتیوں کا اپنی بیویوں سے صحیح رویہ نہیں ہوتا۔ میرے لیے تو تحریک مقصد زندگی ہے۔ میں نے ایک بار کہا بھی کہ جماعت اسلامی یا بیوی میں سے ایک کو ترجیح دینا پڑی تو جماعت کو ترجیح دوں گا۔ گھر میں جھگڑے اور مستقل تنائو کی کیفیت ہے۔

جواب: آپ کا خط ہمارے آج کے معاشرتی ماحول کی بہترین عکاسی اور بعض بنیادی زمینی حقائق کی نشان دہی کرتاہے۔ آپ کی اہلیہ کا مطالبہ کہ آپ ان کو اور اپنی بچیوں کو وقت دیں اور خصوصاً اتوار کا دن صرف ان کے لیے وقف کر دیں حتیٰ کہ نماز بھی گھر میں ادا کریں‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ الحمدللہ آپ کی اہلیہ آپ سے بہت قلبی تعلّق رکھتی ہیں اور اس بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کی نگاہوں کے سامنے گھر میں رہیں۔ مزید یہ کہ وہ آپ کی بچیوں سے بھی بہت محبت کرتی ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کی ضروریات کی طرف سے فکرمندی کی بنا پر چاہتی ہیں کہ آپ ان کے لیے جو کچھ مال و زر بچا سکتے ہیں‘ محفوظ کر لیں تاکہ انھیں آیندہ کوئی تکلیف نہ ہو۔ یہ دونوں پہلو بہت قابل قدر ہیں۔ لیکن اپنے اور آپ کے اور آپ کی بچیوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم پہلو جو غالباً ان کی نگاہ سے اوجھل ہو گیا اسے قرآن کریم میں یقینی طور پر آنے والے دن (الیوم) سے تعبیر کیا گیاہے۔ کہیں اسے یومِ عظیم کہا ہے‘ کہیں یوم الفرقان‘ یوم الآخر اور یوم الدین۔

دراصل ہم آج کی ضروریات اور خواہشات میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ یقینی طور پر واقع ہونے والی کَل کو بھول جاتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم‘ ان کے لیے سازوسامان کی فراہمی اور وقت آنے پر ان کے ہاتھ رنگین کر کے انھیں اپنے گھر کا بنانا ‘ یہی وہ فوری معاملات ہیں جو ہمارے ذہن پر چھائے رہتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ایک دن اپنی دولت‘ وقت‘ صحت اور سب سے بڑھ کر ادایگی حقوق کا حساب دینا ہے‘ اور یہاں کی چند روزہ زندگی کے مقابلے میں ایک ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اُس زندگی میں اگر اہل خانہ سکون‘ آرام اور راحت میں نہ ہوں تو ماں باپ کو بھی کبھی چین نہیں آسکتا۔ اس لیے اِس زندگی میں اولاد اور بیوی کی صرف اس خواہش کا احترام کرنا چاہیے جو صاحب خانہ اور اہل خانہ کو آخرت میں مشکل پریشانی اور تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔

اب آیئے قرآن کریم کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص جو کچھ کماتا ہے‘ اس مال پر کس کا حق ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o (۲:۲۱۵) لوگ پوچھتے ہیں‘ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرواپنے والدین پر‘ اقربا پر‘ یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کروگے اللہ اس سے باخبر ہوگا ۔

یہاں اپنی کمائی خرچ کرنے کے حوالے سے سب سے پہلے والدین کا حق قیامت تک کے لیے طے کر دیا گیا ہے۔ پھر اقربا‘ بیوی‘ اولاد اور دیگر رشتے دار اور پھر یتیم‘ مسکین اور مسافر۔ گویا اہمیت کے لحاظ سے والدین کا ذکر خود اپنی اولاد اور بیوی سے پہلے کیا گیا۔ اس بات کو سورہ بنی اسرائیل میں ’’والدین کے ساتھ احسان کرو‘‘ (۱۷:۲۹) کہا گیا۔ یہاں احسان کا مفہوم وہ نہیں جو ہم اردو میں سمجھتے ہیں بلکہ قرآن میں اس کا مفہوم بہترین‘ احسن اور بدرجہ کمال ایک کام کا انجام دینا ہے جسے ہم excellence اور perfection کہتے ہیں۔

والدین اور خصوصاً والدہ کا عملی شکریہ اپنی خدمت‘ محبت‘ احترام اور ان کی ہر خوشی پوری کرنے کی شکل میں کرنے کا حکم بھی قرآن کریم نے یوں دیا: ’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: ’’بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اس لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا‘‘۔ (لقمان ۳۱:۱۴) اس بات کو  سورہ الاحقاف (۴۶:۱۵) اور سورہ العنکبوت (۲۹:۸) میں دہر ایا گیا۔ اسی طرح  سورہ بنی اسرائیل میں واضح احکام اس سلسلے میں دیے گئے ’’ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا‘‘ ایک یا دونوں کے بوڑھے ہونے کی شکل میں ’’انھیں اُف تک نہ کہنا‘‘ ‘ ’’احترام سے بات کرنا‘‘ اور ان کے لیے ہر وقت دعا کرنا کہ ’’پروردگار‘ ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ (۱۷:۲۳-۲۴)

ان آیات قرآنی سے یہ بات واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ اولاد کاوالدین پر خرچ کرنا‘ ان سے نرمی‘ محبت و احترام سے بات کرنا‘ ان کا کہنا ماننا‘ ان کی خوشی کرنا‘ اور ان کے لیے دعا کرنا یہ والدین کا حق ہے۔ آپ کو علم ہے‘ حق کسی پر احسان نہیں ہوتا بلکہ اس کا ادا نہ کرنا گرفت کا باعث بنتا ہے۔

ایک حدیث صحیح میں یوں آتا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ شکایت کی کہ وہ مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہیں‘ جب کہ ان کا بیٹا مالی طور پر مستحکم ہے اور ان پر خرچ نہیں کرتا۔ آپؐ نے ان صحابی کے بیٹے کو بلا کر فرمایا کہ تم اور تمھارا مال تمھارے باپ کا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی مشہور حدیث ‘ جس میں کسی کے پوچھنے پر آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ ’’حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ماں ہے‘‘ (بخاری)‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔پھر مسلم کی وہ حدیث جس میں آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل ہو)‘‘۔ لوگوں نے پوچھا کہ کون ذلیل ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا‘ ان دونوں میں سے ایک کو یا دونوں کو‘ پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔

اتنی واضح قرآنی آیات اور احادیث کی موجودگی میں صرف وہی شخص جو آخرت میں ذلیل ہونا چاہتا ہو‘ اپنی ماں یا باپ پر خرچ کرنے سے ہاتھ روکے گا۔

گویاآپ کا اپنی والدہ ‘ دو چھوٹی بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی پر خرچ کرنا ان کا حق اور آپ کا فریضہ ہے۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو نہ صرف آپ بلکہ جو آپ کو اس فریضے سے باز رکھے وہ بھی جواب دہی میں شریک ہوگا۔اپنی اہلیہ اور بچیوں کی ضروریات پورا کرنے کے بعد آپ جو رقم بھی والدہ ‘ بہنوں اور بھائی پر خرچ کریں حقیقتاً وہی آپ کی اصل بچت ہے جس کا اجر آپ کو‘ آپ کی اہلیہ اور بچیوں کو بھی ان شاء اللہ ملے گا۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنے تمام مالی معاملات اہلیہ کے حکم سے طے کریں۔ نہ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے حقوق کی ادایگی اُن سے جھوٹ بول کر کریں۔ آپ کی اہلیہ کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کی کمائی میں ان سے پہلے آپ کے والدین کا حق ہے۔

آپ کا اپنی والدہ سے ہر ماہ جا کر ملاقات کرنا عین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اس میں چھ سات گھنٹے لگیں یا زیادہ‘ یہ ان کا حق ہے۔ اس کا کوئی تعلّق ماہانہ خرچ کے ساتھ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اسے ’’صلہ رحمی‘‘ یعنی رشتے کے احترام سے تعبیر کیا ہے‘ جب کہ ایسا نہ کرنا ’’قطع رحمی‘‘ یا رشتے کو توڑنا قرار دیا ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کی اہلیہ اپنی اولاد کے بارے میں کبھی یہ پسند نہیں کریں گی کہ جب آپ کی اولاد بڑی ہو جائے تو وہ انھیں اور آپ کو اپنی محبت اور تعلّق سے آگاہ کرنے کے لیے سال میں صرف ایک مرتبہ ایک کارڈ پر یہ لکھ کر بھیج دیا کریں کہ ’’مجھے آپ سے بہت محبت ہے‘‘ ‘بلکہ وہ لازماً یہ چاہیں گی کہ ان کی اولاد ان کی مزاج پرسی اور دل جوئی کے لیے کم سے کم وقفے کے بعد ان سے آکر ملتی رہے۔

جہاں تک آپ کی تحریکی ذمہ داریوں کا تعلّق ہے‘ اپنے اتوار کے اوقات کار کو اس طرح مرتب کیجیے کہ دعوتی کام کے ساتھ کچھ وقت گھر میں بھی دے سکیں۔ گھر کا محاذ باہر کے محاذ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ترمذی میں حضرت ثوبانؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر ذخیرہ اللہ کو یاد کرنے والی زبان اور اللہ کے شکر کے جذبے سے معمور دل اور نیک بیوی ہے جو دین کی راہ پر چلنے میں اپنے شوہر کی مددگار بنتی ہے‘‘۔ اگر آپ کی محبت بھری کوشش سے آپ کی اہلیہ اس حدیث کے مصداق بن جائیں تو یہ تحریک اسلامی ہی کا کام ہے۔

گھریلو ماحول کو بہتر بنانا آپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ حدیث شریف میں سربراہ خاندان کو اپنے اہل خانہ پر مسئول کیا گیا ہے۔ لیکن اس حدیث میں یہ بات بھی فرمائی گئی ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کے مال اور بچوں پر مسئول‘ نگراں یا جواب دہ ہے۔ باہمی انسانی تعلّقات ایک بہت نازک معاملہ ہے۔ اس میں قانونیت کی جگہ حکمت‘ محبت ومؤدت زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اگر آپ کی اہلیہ تحریکی لٹریچر میں دل چسپی نہیں لیتیں تو اس کا سبب تنہا وہ نہیں‘ خود آپ کا طریق دعوت بھی ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اپنی اہلیہ کو ہدایات دینے کی جگہ ان سے اپنے لیے ہدایت طلب کریں اور دریافت کریں کہ فلاں معاملے میں مجھے کیا کرنا چاہیے‘ اس سلسلے میں قرآن و سنت کیا کہتے ہیں‘ تووہ آپ کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے مطالعے پر مجبور ہوں گی اور ان شاء اللہ‘ اللہ کے کلام اور اللہ کے رسولؐ کی سنت کا مطالعہ براہِ راست کریں گی تو اس کام کی برکت سے ان کی فکر خود بخود تبدیل ہو گی۔ آپ کا یہ کہنا کہ اگر انتخاب کرنا ہو تو تحریک آپ کی اوّلیت ہوگی‘ ایک قابل قدر جذبہ ہے لیکن اس بات کا کہنا حکمت کے منافی ہے۔ آپ کے یہ کہنے کے بعد اگر آپ کی اہلیہ تحریک کے ساتھ سوکن کی طرح پیش آتی ہیں‘ تو یہ بالکل فطری بات ہے۔ کوشش کیجیے کہ نہ آپ کا کچھ کہنا حرفِ آخر ہونہ وہ ضد کو اپنائیں‘ بلکہ دونوںخلوصِ نیت کے ساتھ قرآن و حدیث سے رہنمائی طلب کریں۔ اس طرح بغیر کسی ’’انا‘‘ کے ٹکرائو کے آپ دونوں کو فکری یک جہتی کا موقع ملے گا۔

نماز باجماعت کے اجر اور افضل ہونے پر احادیث میں واضح ہدایات پائی جاتی ہیں۔ آپ محبت اور نرمی سے ان احادیث کو اپنی اہلیہ سے پڑھوا کر سنیں اور ان سے پوچھیں کہ ان پر کس طرح عمل کیا جائے۔ اپنی بچیوں کو بھی ان احادیث کو سننے اور سمجھنے پر آمادہ کریں تاکہ جب آپ جماعت سے نماز پڑھنے جائیں تو وہ بجائے راستہ روکنے کے خوش ہوں۔ بیوی بچوں کے ساتھ سختی کے رویے کی جگہ محبت و نرمی کا رویہ سنت اور قرآن کو مطلوب ہے۔نبی کریم ؐ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے زیادہ اچھے‘ محبت کرنے والے اور دوسروں کی فکر کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو بھی محبت اور نرمی سے اپنے اہل خانہ کو تحریک سے قریب لانا چاہیے۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

مقبوضہ کشمیر میں قربانی

س : میں عیدالاضحی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں قربانی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے قربانی کا اہتمام کرنے والی تنظیم سے طریقۂ کار دریافت کیا تو معلوم ہو ا کہ ہر سال عید سے قبل جانور کی قیمت کا اندازہ لگا کر قربانی کی قیمت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ قربانیوں کی متوقع تعداد کا اندازہ لگا کر رقم پہلے ہی مقبوضہ کشمیر بھیج دی جاتی ہے اور شہدا ‘ متاثرین اور مجاہدین کے گھروں میں قربانی کا انتظام بھی بروقت کر لیا جاتا ہے۔ ملک اور بیرون ملک سے لوگ قربانی کی رقم عید سے ایک روز پہلے تک جمع کرواتے رہتے ہیں۔ حتمی تعداد مقبوضہ کشمیرمیں منتظمین کو بتا دی جاتی ہے۔ اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ جانوروں کی تعداد ان لوگوں کی طرف سے پوری کر لی جائے جو قربانی کرانا چاہتے ہیں۔ اس طریق کار میںقربانی کے لیے رقم فراہم کرنے والوں کے نام تنظیم کے پاس موجود ہوتے ہیں اور قربانی انھی کی طرف سے ہوتی ہے‘ لیکن ہر جانور پر قربانی کرنے والے کا نام لینا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کا نام جانور ذبح کرتے وقت لیا جانا ضروری ہے۔ براہِ کرم اس پورے نظام کی شرعی حیثیت سے آگاہ کریں۔

ج : کسی کی طرف سے کوئی دوسرا آدمی اس وقت قربانی کر سکتا ہے جب اسے کہا جائے کہ اس کی طرف سے قربانی کر دیں یا کرا دیں۔ اس لیے کوئی بھی فرد یا تنظیم پاکستان یا کشمیر میں کسی فرد یا تنظیم کو ان لوگوں کی طرف سے قربانیوں کے لیے کہہ سکتی ہے جنھوں نے اسے قربانیوں کے لیے کہا ہو اور ان کے نام اس کے پاس ہوں۔ اس طرح جگہ جگہ سے قربانیوں کے جو آرڈر ملیں گے ان سب کی مجموعی تعداد اپنے ناموں کے ساتھ متعین ہوگی۔ پاکستان یا کشمیر میں جو لوگ دوسروں کی طرف سے قربانیاں کرائیں گے وہ اس نیت سے قربانیاں کرائیں گے کہ یہ قربانیاں ان لوگوں کی طرف سے باری باری کی جا رہی ہیں جن کی قربانیوں کے لیے کہا گیا ہے۔

اس لیے قربانی کی قیمت کا قبل از وقت اندازہ کر لیا جائے اور مقبوضہ کشمیر میں منتظمین کو قربانیوں کی خریداری کی ہدایت علی الحساب دے دی جائے اور رقم بھی علی الحساب بھیج دی جائے لیکن واضح کر دیا جائے کہ یہ سب کچھ علی الحساب ہے۔ حتمی تعداد کا تعین ہونے کے بعد اس کے مطابق ایک بار پھر اطلاع کر دی جائے کہ ہمارے پاس اتنے افراد کی قربانی آئی ہے‘ آپ ان کی طرف سے علی الترتیب اتنی قربانیاں کر دیں۔ جو رقم ہم نے آپ کو بھیجی ہے اس کے عوض ہم نے متعلقہ لوگوں سے رقم وصول کر لی ہے‘ اور جو قربانیاں زائد خریدی گئی ہیں‘ ان کو فروخت کر کے رقم اپنے پاس ہمیں واپس دینے کے لیے رکھ لیں۔ اگر اس طرح قربانی کی جائے گی تو متعلقہ لوگوں کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔ آپ اگر کشمیر میں قربانی کرانا چاہیں تو مذکورہ طریقے کے مطابق کرا سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیری‘ ج ۳‘ ص ۳۵۱)  (مولانا عبدالمالک)