فرد ہو یامعاشرہ‘ دونوں کی سلامتی اور بلند پروازی کے لیے معاشی استحکام اور ترقی اتنی ہی ضروری بلکہ ناگزیر ہے جتنی اخلاقی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور عسکری قوت۔ یہ نہ صرف عقل کا تقاضا اور تاریخ کا سبق ہے بلکہ خود اسلام کے جامع اور متوازن نظامِ حیات اور تصورِ کامیابی کا لازمی حصہ ہے۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کو بڑے لطیف پیرایے میں دعا کی زبان میں یہی تعلیم دی ہے:
اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِیْ (مسلم عن ابی ہریرہؓ)
اے اللہ! میرے دین کو میرے لیے سنوار دے جو میرے معاملات کی اساس ہے‘ اور میری دنیا کو میرے لیے سنوار دے جس میں میری معاش ہے ‘ اور میری آخرت کو میرے لیے سنوار دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے۔
اور
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ o (البقرہ ۲:۲۰۱)
اے ہمارے رب‘ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی ‘ اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
اور کفر اور فقر کے منطقی رشتے کے بارے میں یہ کہہ کر متنبہ فرمایا:
فقر کفر کی طرف لے جاتا ہے اور دونوں سے پناہ مانگی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ وَالْفَقْر ۔
موجودہ معاشی بحران : آج پاکستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اس نے آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے جینا دوبھر کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نوبت فقر وفاقہ اور محرومی و بے روزگاری کے بعد‘ خودکشی اور خود سوزی تک آگئی ہے بلکہ ملک کی آزادی‘ سلامتی‘ اور اس کے اساسی مفادات تک خطرے کی زد میں ہیں۔ قوم کا بال بال قرضوں میں بندھا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور بیرونی ساہوکار ہر روز نت نئے مطالبات کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت اور مالیات کی باگ ڈور پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت‘ کشمیر کے بارے میں ہمارے برحق موقف‘ افغانستان میں استعماری کھیل میں ہماری مجبورانہ شرکت‘ بھارت کی علاقائی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے دبائو‘ عالم گیریت (globalization)کے نام پر ہماری صنعتی صلاحیت کی تباہی اور عالمی سامراج کے لیے اپنی منڈیوں کو کھول دینے کے لیے دائرہ تنگ سے تنگ تر کرتے جا رہے ہیں۔ ذہنی مرعوبیت اور معیشت کی کمزوری ہمارے حملے کی زد میں ہونے (vulnerable)کا اصل سبب اور ذریعہ ہیں۔بیرونی قرضوں کی سختی اور نرمی (carrot and stick) کی پالیسی کو اس بیرونی ایجنڈے پر سجدہ ریز کرنے کے لیے پوری چالاکی اور بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بظاہر اس حکمت عملی پر ایک عرصے سے عمل ہو رہا ہے لیکن ۱۹۹۸ء کے ایٹمی تجربات اور کشمیر میں بھارت کی فوجی کارروائیوں کے بے اثر ہو جانے کے بعد اور پھر ملک پر اندرونی اور خصوصیت سے بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بار کی کمر توڑ کیفیت نے ملک و قوم کو ایک نہایت خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ پھر حال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہے جو بحث مباحثے اور تبادلہ خیال کے ہر اس فورم سے محروم ہے جس میں قومی اُمنگوں اور جذبات کی ترجمانی ہو سکے‘ جہاں احتساب کو موثر بنایا جا سکے اور اقتدار کے غلط اقدامات پر گرفت کی جا سکے۔ بیرونی طاقتیں وزن بیت کے لیے جمہوریت کی باتیں کرتی ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک کو اپنے قابو میں کرنے اور ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے ایسے ہی نظام کو پسند کرتی ہیں جن میں ایک فردِ واحد سے من مانی کرا سکیں اور اس کے گرد گھیرا تنگ کر کے اپنے مقاصد حاصل کرلیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نام نہاد جمہوری ادوار میں بھی عملاً فردِواحد کی سیاست ہی کا دور دورہ تھا۔ رہی فوجی حکومت‘ تو وہ تو نام ہی ایک فرد کے ہاتھوں میں اقتدار کے مرکوز ہونے کا ہے۔ پھر موجودہ حکومت پر جس طرح بیرونی اداروں سے متعلق ٹیکنوکریٹس اور بیرونی روابط رکھنے والی این جی اوز کے کارپرداز اثرانداز ہیں اس نے سارے حفاظتی بند توڑ دیے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر قوم کے اجتماعی ضمیر نے بروقت گرفت نہ کی اور عوام اپنی آزادی‘ نظریاتی تشخص اور معاشی اور سیاسی خود مختاری (sovereignty)کے لیے بروقت سینہ سپر نہ ہوئے اور گومگو‘ مسلسل پسپائی اور بیرونی مطالبات پر سرنگوں ہونے کا یہی سلسلہ چلتا رہا تو قوم و ملک کا مستقل محکومی اور آزادی اور سلامتی سے محرومی کی ذلت سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔
آج قوم ایک نازک اور فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور کیفیت یہ ہے کہ ایک طرف قرضوں کی غلامی‘ سیاسی فیصلے کے حق سے دست برداری اور بالآخر ذلت اور محکومی کی دلدل ہے تو دوسری طرف جرأت‘ قربانی اور جہاد مسلسل کا راستہ جو کانٹوں سے بھرا ہے مگر یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ایمان‘ آزادی اور عزت کی ضمانت حاصل ہو سکے۔ اس کے لیے فراست ایمانی کے ساتھ جرأت رندانہ اور جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ درکار ہے۔ یہ جاں گسل جدوجہد کا راستہ ہے جو معاشی میدان میں ایک ایسی انقلابی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جو لگے بندھے اور پٹے ہوئے راستے سے یکسر مختلف ہو‘ اور جس کے نتیجے میں قوم اپنی آزادی اور خود انحصاری کو دوبارہ حاصل کر سکے‘ ہم خود اپنی قسمت کے مالک اور اپنے فیصلوں کے مختار ہو سکیں اور پاکستان اس منزل اور مشن کو حاصل کرنے کے لیے پھر اس جادہ مستقیم پر گام زن ہو سکے جس کے لیے لاکھوں انسانوںنے اپنی جان‘ مال اور آبرو کی قربانی دے کر‘ انگریز اور ہندو دونوں کی چالوں کو ناکام بنا کر یہ آزاد اسلامی ملک قائم کیا تھا۔ آج پھر ایسے ہی جرأت مندانہ‘ انقلابی اور مبنی بر حکمت اقدام کی ضرورت ہے جو آزادی‘ نظریاتی تشخص اور باعزت زندگی کا ضامن ہو سکے۔ اس کے لیے قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا‘ اس کے جذبہ ایمانی کو متحرک کرنا ہوگا‘ ہر سطح پر قربانیوں کے لیے تیار ہونا ہوگا‘ باطل کی قوتوں سے سمجھوتے کے بجائے ان سے مقابلے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا‘ اور اس عزم اور داعیے کے لیے حالات سے نبرد آزما ہونا پڑے گا:
یا تن رسد بہ جاناں‘ یا جاں زتن بر آید
بحالی معیشت کا حکومتی پروگرام : فوجی حکومت کے بارے میں ہمیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ خوش گمانی نہیں ہوئی کہ یہ ملک کے گھمبیر معاشی اور اجتماعی مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ یہ گذشتہ پندرہ سال میں برسرِاقتدار رہنے والی سیاسی قیادتوں کی غلط کاریوں اور بداعمالیوں کی سزا تھی کہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو قوم کو فوجی انقلاب کا منہ دیکھنا پڑا۔ قوم کے بہی خواہوں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ فوجی حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں اور جنرل پرویز مشرف کو جلد از جلد ضروری انتخابی اصلاحات اور ملک لوٹنے والوں کا فوری احتساب کر کے اقتدار عوام کے حقیقی نمایندوں کی طرف منتقل کر دینا چاہیے۔ عدالت عالیہ نے بھی حالات کی مجبوری کے تحت فوجی حکمرانوں کو اس کام کو انجام دینے کے لیے مہلت دی لیکن فوجی قیادت نے اپنی اصل ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے اپنے ذمہ بزعم خود ایسے کام لے لیے جن کی نہ وہ صلاحیت رکھتے تھے اور نہ قوم ان پر اس بارے میں کوئی اعتماد کر سکتی ہے۔ ان کی اولین ذمہ داری ملک کا دفاع ہے اور وہ آہستہ آہستہ ایسے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں کہ خود دفاع وطن کے کام کے لیے ان کی صلاحیت اور اہلیت مجروح ہو رہی ہے۔
معیشت کے لیے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء اور پھر ۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو ایجنڈا اور پروگرام جنرل مشرف صاحب نے پیش فرمایا اور مرکز اور صوبوں میں جس قسم کے افراد پر مشتمل اپنی ٹیم کا اعلان کیا اس نے قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کو بری طرح مایوس کیا۔ قوم نے پھر بھی انھیں موقع دیا لیکن ان سولہ مہینوں میں جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جن خطرات کی لپیٹ میں ملک آگیا ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ جتنے بھی دعوے موجودہ حکومت اور اس کے کارپردازوں نے کیے وہ سب خالی خولی نعرے ثابت ہوئے۔ عملاً وہی پرانی ڈگر ہے جس پر کام جاری ہے‘ وہی قرضوں کی سیاست اور عالمی اداروں کی چاکری ہے جس پر نظام معیشت چل رہا ہے۔ نہ بے لاگ اور شفاف احتساب کے کوئی آثار ہیں اور نہ معیشت کی بحالی اور خود انحصاری کا کوئی نشان۔
۱۵ دسمبر ۱۹۹۹ء کے معاشی بحالی کے پروگرام اور پھر غربت میں کمی کی حکمت عملی کے ایجنڈے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ تجارتی شعبے میں بے اعتمادی کا جو طوفان بپا ہے اور جس کے پیدا کرنے میں سب سے بڑا دخل روز روز بدلنے والی پالیسیاں اور غیر ملکی کرنسی حسابات کو منجمد کرنے جیسا اقدام تھا‘ اس پر قابو پایا جائے گا اور معاشی اعتماد کو بحال کیا جائے گا۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو خائف کرنے اور مقدمات میں اُلجھانے کا سلسلہ ختم ہوگا اور ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک درست اور محفوظ ملک کا درجہ دیا جائے گا۔ تیسرا مرکزی ہدف یہ بیان کیا گیا تھا کہ ملک کو قرضوں کے جال سے نکالنے اور خود انحصاری کی راہ پر لگانے کو اولین اہمیت دی جائے گی۔ چوتھی بات یہ تھی کہ عام آدمی کی بہبود اور اس کے رہن سہن پر معاشی اقدامات کے اثرات کو سب سے پہلے ملحوظ رکھا جائے گا۔ پانچواں نکتہ تھا کہ نج کاری کے عمل کو تیزی سے بروے کار لایا جائے گا۔
زراعت‘ نیز چھوٹی اور وسطی سطح کی صنعت کی ترقی اور صنعتی مال کاری (industrial finance) کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا بھی پیش نظر تھا۔ اس کے علاوہ: ۱- بیمار صنعتوں کے لیے ایک کارپوریشن کا قیام اور ٹیکس کے نظام کی ایسی اصلاح کہ کرپشن دُور ہو سکے اور ضابطہ بندی کے قانونی احکامات (SRO) کا غلط استعمال یک قلم روکا جا سکے‘ ۲- سیل ٹیکس کا نفاذ اور اسے آسان بنایا جائے‘ ۳- چُھوٹ (rebate)کی بروقت واپسی اور مالی مقدمات کو جلد نمٹانے کا نظام فوری طور پر نافذ کیا جائے‘ ۴- گیس اور پٹرولیم کے شعبوں کی ترقی اور ان شعبوں کے لیے سرمایہ کاری کا حصول‘ ۵- انفارمیشن ٹکنالوجی کی فوری اور ملک گیر ترقی اور پورے ملک میں معیشت کی دستاویز بندی (documentation)کا اہتمام‘ ۶-غربت کے خاتمے کے لیے ایک ملک گیر پروگرام پر عمل جس کے لیے ملکی اور بیرونی دونوں وسائل استعمال کیے جائیں گے اور پہلے سال ہی ۳۰ ارب روپے سے کئی ہزار پراجیکٹ شروع کیے جائیں گے جو ۵ لاکھ افراد کو روزگار فراہم کریں گے‘ ۷-محصولاتی خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کیا جائے گا اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کو ۸.۴ فی صد کی سطح پر لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ ضمانت بھی دی گئی کہ سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کے فیصلے کے مطابق ملک کی داخلی معیشت کو ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک سود سے پاک کر دیا جائے گا۔
معیشت کی موجودہ صورت حال : اس معاشی پیکج کو ’’پاکستان ساختہ پروگرام‘‘ کہا گیا تھا اور یقین دلایا گیا تھا کہ فوج کے مانٹیرنگ نظام کے تحت اس پر سرعت سے عمل ہوگا۔لیکن سال سوا سال کی کارکردگی کی روشنی میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس حکومت کے وعدوں اور دعووں کا بھی وہی حال ہے جو ماضی کی حکومتوں کا رہا ہے۔ معاشی اعتماد مزید مجروح ہوا ہے اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اور بھی کمی ہو گئی ہے بلکہ اب تو ملک سے سرمایہ تیزی کے ساتھ باہر جا رہا ہے اور عملاً معکوس بہائو (reverse flow)کی کیفیت ہے۔ برآمدات اور درآمدات کا عدم توازن ۸۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ کر ۷ .۱ بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور اگر ۵.۲ سے ۳ بلین ڈالر قرضوںاور سود کی واجب الادا رقم کو شامل کر لیا جائے تو مبادلہ خارجہ کا فرق ۶ بلین ڈالر کی خبر لا رہا ہے۔بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ہر سال جتنے افراد لیبر فورس میں شامل ہو رہے ہیں ان کابھی ۵۰ فی صد روزگار سے محروم ہے۔ ساری پکڑ دھکڑ کے باوجود پہلے ۷ مہینوں میں ریونیو مطلوبہ رقم سے ۱۴ ارب روپے کم ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ بجٹ کا خسارہ کم ہونے میں نہیں آ رہا حالانکہ ترقیاتی بجٹ میں نمایاں کمی کی جا چکی ہے۔
قیمتیں برابر بڑھ رہی ہیں اور بجلی‘ تیل‘ پٹرولیم کی قیمتوں میں اس زمانے میں چار بار اضافہ کیا گیا ہے جس کا کوئی تعلّق عالمی منڈی کی قیمتوں سے نہیں۔ روپے کی بیرونی قدر برابر کم ہو رہی ہے جس میں اس زمانے میں ۲۰ فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہو گئی ہے اور مزید کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ کاروبار مسلسل مندے کا شکار ہیں اور روزگار کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان کے علاوہ کہیں کوئی مثبت سرگرمی نظر نہیں آرہی۔ قدرت کے کرم اور گندم اور کپاس کی فصل کے بہتر ہو جانے سے زرعی پیداوار اچھی ہو رہی ہے مگر گنے کی پیداوار کی کمی کا اثر چینی کی فراہمی پر پڑا ہے۔ پھر بھی مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی متوقع شرح کو ۸.۴ فی صد سے کم کرکے ۵.۴ فی صد کیا گیا ہے۔اسی طرح برآمدات میں متوقع اضافہ رونما نہیں ہوا اور صنعتی پیداوار خصوصیت سے بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ براے نام ہی رہا ہے۔
سب سے تشویش ناک پہلو غربت میں اضافہ ہے جو پچھلے دس سال میں تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔ آبادی میں غربت کے شکنجے میں گرفتار لوگوں کا تناسب ۱۷ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ فی صد اور ایک اندازے کے مطابق آبادی کے ۴۰ فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔ عمومی شرح افراطِ زر جو گذشتہ سال ۵.۳ فی صد قرار دی گئی تھی‘ اس سال ۶ اور ۷ فی صد تک پہنچ جائے گی اور اس کی بڑی وجہ مٹی کے تیل‘ گیس‘ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ اور ان کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث بیشتر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ متوقع ہدف کا نصف رہ گیا ہے۔ نج کاری کا عمل معطل ہے‘ اسٹاک ایکسچینج میں کساد بازاری ہے‘ بنکوں کے غیر متحرک (non-performing) کھاتوںمیں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ارب کے ڈوبے ہوئے قرضوں کی وصولی کے باوجود بحیثیت مجموعی ڈیفالٹ کی رقم میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے ‘جب کہ تمام سرکاری بنک نقصان میں جا رہے ہیں اور قابل ذکر تعداد میں شاخیں بند اور ملازمین کو فارغ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بنک نے جو سالانہ رپورٹ ۲۰۰۰-۱۹۹۹ء کی معاشی حالت کے بارے میں جاری کی ہے اور جو سہ ماہی رپورٹیں حکومت کو پیش کی ہیں‘ ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کارکردگی بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح سخت مایوس کن ہے اور اس کے بھی دعووں اور وعدوں کا وہی حال ہے کہ:
جام مے توبہ شکن‘ اور توبہ میری جام شکن
دُور تک ڈھیر ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کا
اقتصادی زبوں حالی : اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور اس کے گورنر ڈاکٹرعشرت حسین نے‘ اسٹیبلشمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے بھی‘ ایک حد تک معاشی حقائق کو ظاہر کرنے اور قومی سطح پر مکالمے اور
بحث و مذاکرے کا راستہ اختیار کیا ہے جو لائق تحسین ہے۔ وزیرخزانہ اور خود گورنر اسٹیٹ بنک ایک عرصے تک تو بیرونی دبائو کا انکار کرتے رہے لیکن اب دونوں نے کھل کر اعتراف کر لیا ہے کہ ملک ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے مجبور ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آج کے معاشی بگاڑ کی ساری ذمہ داری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی اور اسے اکتوبر ۹۹ء میں بڑے خراب حالات ورثے میں ملے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم سارے بلند بانگ دعووں کے باوجود کوئی نئی حکمت عملی وضع کرنے اور ملک کو خود انحصاری کی راہ پر ڈالنے میں ماضی کی قیادتوں کی طرح ناکام رہی ہے اور اس کے فکروعزائم کا تجزیہ کیا جائے تو دُور دُور کسی نئے آغاز کا امکان نظر نہیں آتا۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے اپنی ۱۹جنوری ۲۰۰۱ء کی تقریر میں جس کا متن روزنامہ جنگ لندن میں ۶‘۷ اور ۸ فروری ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ:
بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری‘ بیرونی اور مقامی قرضوں کا بوجھ‘ مالیاتی خسارے میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی--- یہ وہ بڑے اقتصادی چیلنج ہیں جن سے پاکستان اس وقت دوچار ہے۔
انھوں نے اعتراف کیا ہے اور اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ:
گذشتہ پندرہ مہینوں میں حالات میں وہ بہتری پیدا کیوں نہیں ہوئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
گذشتہ دس سال کے دگرگوں حالات کا جائزہ لے کر انھوں نے بجا طور پر سب سے بنیادی مسئلے کی نشان دہی کی ہے کہ:
ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کن لوگوں کی توقعات کی بات کر رہے ہیں۔ بیرونی ملکوں خصوصاً بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی ساکھ کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ اس طرح اندرون ملک عام لوگوں میں اس کا اعتماد اب تک بحال نہیں ہوا ہے۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کو ایک پالیسی فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد طلب کیے بغیر اپنے مالی وسائل کا انتظام خود کرنا ہے… مختصر یہ کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے زیادہ مشکل مسئلہ بیرونی سیّالیّت کا مسئلہ ہے یعنی موجودہ واجبات سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت۔
موجودہ ٹیم پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے طلسم میں گرفتار (بلکہ ’’ان کا ایجنٹ‘‘) ہونے کے الزام پر اپنی ناپسندیدگی کے اظہار اور پچھلی حکومتوں کے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہونے کا بجا طور پر الزام لگانے کے بعد بڑے بھیانک انداز میں ڈیفالٹ کے خطرات سے خوف زدہ کیا گیا ہے: ’’کہ اس سے دوسرے ممالک پی آئی اے کے جہازوں پر قبضہ کر لیں گے اور مجموعی طور پر آبادی کے مصائب میں اضافہ ہو گا‘‘۔ اسے بیرونی مالیاتی اداروں کی تمام شرائط کو منظورکرنے کی وجہ جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ ’’ہم ان تمام کوتاہیوں کی ایک ساتھ تلافی کرنے پر مجبور تھے جو ماضی میں ہم سے سرزد ہوئیں‘ اور اسی وجہ سے ان اداروں کی وہ تمام شرائط جو پالیسی یا معاشی ساخت (structures) سے متعلق ہیں‘ ہم کو قبول کرنی پڑ رہی ہیں‘‘۔
گورنر اسٹیٹ بنک نے موجودہ حکومت کے پالیسی اقدامات کا دفاع کیا ہے‘ مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس کے کچھ اسباب بھی گنوائے ہیں۔ ہم ان کے اس جذبے کی قدر کرتے ہیں کہ انھوں نے دوسروں کی طرح بحث مباحثے سے گریز کا رویہ اختیار نہیں کیا اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے اور ایک حد تک وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ ان کے بیان‘ اسٹیٹ بنک کی رپورٹوں اور چیف ایگزیکٹو اور وزیر خزانہ کے بیانات کے تضادات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ نیز ان ہدایات اور اعلانات کی بھی ایک طویل فہرست پیش کی جا سکتی ہے جن پر کوئی عمل نہیں ہوا یا عمل ہوا تو ان کے برعکس ہوا‘ لیکن ہم اس بحث سے اجتناب کرتے ہوئے صرف مرکزی ایشوز پر کلام کرنا چاہتے ہیں تاکہ خرابی کی اصل جڑ پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔
ملکی مفاد کے منافی معاشی پالیسی : پاکستان کے معاشی مسائل اور ایک کے بعد دوسرے اور پہلے سے بڑے بحران کے رونما ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں اور ترجیحات ملک کے نظریے اور ملک کے عوام کی اصل ضرورتوں کو سامنے رکھ کر مرتب نہیں کی گئیں بلکہ مخصوص مفادات کے تحفظ اور مغربی استعمار کے عالمی پروگرام اور ایجنڈے کی شعوری اور غیر شعوری تکمیل ہی ان کا ہدف رہا ہے۔ جب سے ہماری معاشی منصوبہ بندی میں ہارورڈ گروپ اور بیرونی امداد کی ایجنسیوں کو عمل دخل حاصل ہوا ہے‘ہماری معاشی حکمت عملی کا رخ بدل گیا۔
معاشی آزادی اور صحت مند منڈی کے نظام کے ہم بھی قائل ہیں لیکن مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح ہمیں اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور لبرلائی زیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر جس طرح عالمی سامراجی اداروں‘ کارپوریشنوں اور حکومتوں کی گرفت ہم پر مضبوط ہو رہی ہے‘ اس سے صرفِ نظر کر کے حقیقی اقتصادی چیلنج کو سمجھنا ناممکن ہے۔آج کے معاشی پالیسی ساز ہوں یا ماضی کے کارپرداز سب نے بیرونی قرضوں کے سہارے معاشی ترقی کو اصل ہدف گردانا اور خود معاشی ترقی کے اس کرم خوردہ اور تباہ کن تصور قبول کر لیا جس کا اصل مقصد تیسری دنیا کے ممالک کو عالمی سرمایہ داری کے معاشی جال میں پھنسانا تھا‘ انھیں معاشی خوش حالی اور معاشی قوت فراہم کرنا نہیںتھا۔
یہ اسی غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انسانی اور مادی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود پاکستان میں آج چار سے پانچ کروڑ انسان غربت کا شکار ہیں اور گذشتہ ۱۱ سال میں یہ تعداد دگنی ہوگئی ہے۔ زراعت مسلسل بے توجہی کا شکار ہے حالانکہ آبادی کے ۷۰ فی صد کا اسی پر انحصار ہے اور ۱۱ میں سے ۹ صنعتیں جوملکی برآمدات کا دو تہائی فراہم کر رہی ہیں زراعت ہی کی پیداوار پر منحصر ہیں۔ جو بھی صنعتی ترقی ۱۹۸۰ء تک حاصل ہوئی تھی اسے برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے اور خاص طور پر گذشتہ پندرہ سال تو عملاً صنعتوں میں کمی کے سال ہیں۔اس دوران معیشت میں صنعت کا کردار کم ہوا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعت جو زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کر رہی ہے وہ پالیسی سازی میں سب سے زیادہ غیر اہم ہے۔ انتظامی مصارف برابر بڑھ رہے ہیں اور ترقیاتی پراجیکٹ محض بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں‘ بلالحاظ اس کے کہ وہ ملک کے لیے مفید اور ضروری ہیں یا نہیں۔
قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ : ۱۹۸۰ء میں کل بجٹ ۲۰۰ ارب روپے تھا۔یہ اب بڑھ کر ۶۰۰ارب پر پہنچ گیا ہے لیکن اس میں ترقیاتی بجٹ اور سماجی خدمات کے بجٹ کا حصہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ قرضوں پر سود کی ادایگی ‘ فوجی اخراجات اور انتظامی مصارف سارے بجٹ کو چاٹ جاتے ہیں اور غیرپیداواری مصارف کے لیے بھی قرض لینا پڑتے ہیں۔ قرض کا بازار اس طرح گرم ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ قیادتیں کس طرح ملک کو مسائل و مصائب کی دلدل میں دھکیلتی رہی ہیں اور دھکیل رہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہر نئے قرض کے حصول پر شادیانے بجائے جاتے ہیں ۔
ملکی اور بیرونی قرضوں کا کیا رخ رہا ہے اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے کیجیے:
سال بیرونی قرض اندرونی قرض
۱۹۷۷ء ۶ بلین ڈالر ۵.۵ بلین روپے
۸۸-۱۹۸۷ء ۱۳ بلین ڈالر ۲۷۲ بلین روپے
(دس سال بعد) (دگنے سے زیادہ اضافہ) (۵۰ گنا اضافہ)
۹۹-۱۹۹۸ء ۳۰ بلین ڈالر ۱۲۰۰ بلین روپے
(ڈھائی گنا اضافہ) (پانچ گنا اضافہ)
۲۰۰۰ء ۳۸ بلین ڈالر ۱۳۰۰ بلین روپے
سود اور قرض کی ادایگی کی سالانہ قسط اب ۲۶۵ ارب روپے سے متجاوز ہے جو بجٹ کی کل آمدنی کا ۵۴ فی صد ہے۔ سالانہ زرمبادلہ کی شکل میں ادایگی کے لیے ۵.۳ ارب ڈالر درکار ہیں جس میں اگر ۵.۱ ارب ڈالر کے تجارتی خساروں کو بھی شامل کر دیا جائے تو صرف بیرونی خسارے کو پورا کرنے کے لیے سالانہ ۵ ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور اگر یہ رقم سود پر قرض کی شکل میں حاصل کی جائے تو ہر سال قرض کے بوجھ میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ ۳۸ بلین ڈالر کا بیرونی قرضہ بھی اسی طرح وجود میں آیا ہے کہ پچھلے قرض اور سودادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے پڑے ہیں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ۳۰ ارب ڈالر سے زیادہ ادا کرنے کے بعد یہ قرض ۳۸ بلین ڈالرہے جو آیندہ سال ۴۲ بلین ڈالر بن جائے گا۔
اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے کہ ملک میں ان منصوبوں کے نتیجے میں جن پر قرضے لیے گئے ہیں حقیقی اثاثوں (assets)کا کتنا اضافہ ہوا ہے تو محتاط اندازے کے مطابق حقیقی اضافہ صرف ۵ ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ گویا ۷۰ ارب ڈالر کے بوجھ کے عوض ۵ ارب ڈالرکے اثاثے وجود میں آئے ہیں۔باقی تمام تنخواہوں‘ کمیشنوں‘ غبن یا قرض دینے والے ملکوں کے افراد اور اداروں ہی کی جیبوں میں گیا ‘جب کہ قرض کے اس پہاڑ تلے ہر پاکستانی سسک رہا ہے۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی : ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ترقیاتی حکمت عملی اپنی اساس میں خرابی رکھتی ہے۔ اس کا ہدف قرض حاصل کرنے والے ممالک کی معاشی ترقی اور خوش حالی نہیں بلکہ قرض دینے والے ملکوں کے مصالح اور قرض لینے والے شعبوں میں استحکام کے نام پر انھیں عالمی منڈیوں کا دست نگر بنانا ہے ۔ یہ ترقیاتی ترجیحات اور سماجی فلاح کے نظام کو مسخ کر دیتا ہے۔ اس وقت گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ سے لے کر بین الاقوامی ماہرین تک سب یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بیرونی سیّالیّت (foreign liquidity)ہے حالانکہ اصل مسئلہ پیداوار کی کمی اور معیشت میں کسادبازاری ہے۔ جب تک پیداوار میں اضافہ نہ ہو‘ برآمد کرنے کے لیے وافر مال موجود ہو‘ اس میں اتنا تنوع‘ اعلیٰ معیار اور بین الاقوامی مارکیٹ سے مناسبت نہ ہو اور شرح پیداوار اتنی نہ ہو کہ محض شرح مبادلہ کی بار بار کی تخفیف (devaluation)سے برآمدات کو نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ہم پندرہ سال سے اس سراب کا تعاقب کر رہے ہیں اور ہمارا حال اس پیاسے شخص کا سا ہے جو سمندری پانی سے پیاس بجھا رہا ہو جو ہر جرعہ آب کے بعد اور بڑھ جاتی ہے۔
بجٹ کا خسارہ اور بیرونی ادایگیوں کا توازن سب اہم ہیں لیکن سب سے اہم چیز شرح پیداوار‘ پیداوار کے لیے صحیح اشیا کا انتخاب اور ان کا معیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور صنعتی بنیاد کا استحکام‘ روزگار کے مواقع کی فراہمی اور اجرتوں کا منصفانہ نظام ‘ تقسیم دولت کا موثر انتظام اور انسانی صلاحیتوں کی ترقی اور مطلوبہ مہارتوں (skills)کی فراہمی‘ سب کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ آج اس بات کا اعتراف ورلڈ بنک کے سابق سرکردہ افراد سے لے کر آزاد معاشی ماہرین اور مختلف ممالک کی سیاسی قیادتیں کر رہی ہیں کہ ورلڈ بنک کی شرائط (conditionalities)نے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے اور عام انسانوں کو معاشی زبوں حالی کے سوا کوئی تحفہ نہیں دیا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ کھلی بغاوت پر اتر آئے ہیں اور سیٹل‘ واشنگٹن‘پراگ اور ڈائی ووس کے عوامی مظاہرے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
معاشی مسئلے کی جڑ: موجودہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہی ہے کہ وہ معاشی مسئلے کی جڑ کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ وہ ہے ہی نہیں جس سے آئی ایم ایف کی شرائط تعرض کرتی ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ معیشت میں کساد بازاری‘ سرمایہ کاری میں کمی‘ پیداوار میں جمود اور ملک میں غربت اور بے روزگاری ہے۔ گلوبلائزیشن ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مسائل کا سبب ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی معیشت میں اعتماد اور پیداآوری عمل کو متحرک کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا۔ کرپشن کا خاتمہ بہت ضروری ہے مگر جس طرح معیشت کے میدان میں خوف اور بے اعتمادی کی فضا پروان چڑھائی گئی اس میں کساد بازاری کے سوا کوئی اور حالت رونما نہیں ہوسکتی۔ ٹیکس کلچر بہت اہم ہے مگر تجارت کو خوف و ہراس کے ذریعے مندی کا شکار کر کے ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کی توقع خام خیالی ہے۔ معیشت کی دستاویز بندی بھی مفید ہے مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ پوری تجارتی برادری سے محاذ آرائی کی جائے۔ ٹیکس کلچر کا اگر ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہر صاحب حیثیت فرد ٹیکس دے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ٹیکس منصفانہ ہوں‘ حکومت ٹیکس کی آمدنی شفاف طریقے پر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہو‘ اور ٹیکس دینے والوں کو قانونی تحفظ اور سماجی مرتبہ حاصل ہو۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے والوں کے حقوق کا بھی اسی طرح تعین اور تحفظ ہوتا ہے جس طرح ٹیکس کے مطالبات کا۔ لیکن موجودہ حکومت نے محض ڈنڈے کے زور پر ٹیکس کے نظام کو بدلنے کی کوشش کر کے معاشی اعتماد کو مجروح اور تجارتی فضا کو بھی مکدّر اور مسموم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے؟ یہ حالات تو سرمایے کے فرار اور انخلا ہی کا باعث ہو سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے۔ معیشت ٹھٹھر گئی ہے اور اس میں زندگی اورحرارت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتاہے؟
غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف: سب سے پہلے غلط معاشی حکمت عملی کا اعتراف اور اس سے نجات ضروری ہے۔ اور یہ کام موجودہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں ممکن نہیں ہے۔ اس کا وژن‘ اس کا تجربہ و صلاحیت‘ اس کے مفادات سب اس حکمت عملی کے اسیر ہیں جس نے ہمیں تباہی کے اس غار تک پہنچایا ہے۔ یہ کام ایک نئی قیادت اور ایک نئی ٹیم ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ ٹیم ایسے لوگوں پر مشتمل ہونی چاہیے جن کا عوام سے گہرا رابطہ ہو‘ جو ان میں سے ہو‘ ان کے درمیان زندگی گزارتی اور ان کے مسائل‘ مشکلات‘ عزائم اور ترجیحات سے واقف ہو اور عوام کے سامنے جواب دہ بھی ہو۔ درآمد شدہ ماہرین یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے نظام حکومت بھی وہ ہونا چاہیے جو جمہوری اقدار اور اصولوں کا پابند ہو‘ جو حقیقی مشاورت کے ذریعے فیصلے کرے اور پالیسیاں اور قوانین بنائے۔
معاشی ترقی کا صحیح تصور : دوسری بنیادی چیز معاشی ترقی اور استحکام کا صحیح تصور ہے۔ سرمایہ دارانہ ممالک کی نقالی اور ان کی مکھی پر مکھی بٹھانا کوئی ترقی نہیں۔ ترقی وہی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ملک کے وسائل کا موثر استعمال ہو‘ خود انحصاری کی بنیاد پر ملک اس لائق بنے کہ غربت کا خاتمہ ہو سکے‘ پیداوار بڑھائی جا سکے‘ روزگار کے مواقع فراہم ہوں‘ معیارِ زندگی اور معیارِ اخلاق میں اضافہ ہو اور معاشی جدوجہد کے ثمرات سے معاشرے کے تمام افراد بہرہ ور ہو سکیں۔ اس کے لیے بالکل نئے وژن اور نئی ترجیحات کی ضرورت ہے اور ان میں پہلی اور سب سے اہم بات بیرونی قرضوں سے نجات اور اندرون ملک سودی معیشت سے مکمل گلوخلاصی ہے۔
موجودہ استحصالی نظام کا خاتمہ : حکومت کو ایک واضح قانون کے ذریعے اس استحصالی نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ یہی راستہ خود انحصاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ تبدیلی کے دَور کے مسائل ہوں گے اور ان کا مردانہ وار مقابلہ ہی ترقی و استحکام کا راستہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سود کا خاتمہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے لیکن حکومت نے اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے۔یہ فیصلہ دسمبر ۱۹۹۹ء میں آیا تھا اور آج تک نہ اسٹیٹ بنک کی سربراہی میں قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اور نہ وزارت مالیات اور وزارت قانون کی ٹاسک فورسز کی رپورٹیں۔ قوم کو تیار کرنے کے لیے نئے مالیاتی آلات (instruments)کی تشہیر و تعلیم‘ متبادل قوانین کے مسودوں کی اشاعت کہ ان پر بحث و گفتگو ہو سکے‘ سرکاری اور بنک کاری اداروں کے عملے کی تعلیم و تربیت--- کسی سمت میں بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ سرکاری اداروں سے متعلق اہم شخصیات اب عدالت سے وضاحتیں حاصل کرنے اور مزید مہلت کی باتیں کر رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے سوا سال میں وضاحت طلب کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ آخری تاریخ کا انتظار کس خوشی میں کیا جا رہا ہے؟ عدالت نے جن دوسرے اہم اداروں کے قیام کا مشورہ دیا تھا ان کے بارے میں کوئی پیش رفت آج تک کیوں نہیں کی گئی؟ بلکہ ہمیں تو یہ بھی شبہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں کوئی شریعت بنچ موجود بھی ہے یا نہیں؟ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی عوام کو اور خود خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے کی مجرمانہ کارروائی میں مشغول ہے۔ اس طرح تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب سود پر مبنی قرضوں کی معیشت کے دن ختم ہو گئے۔ اس خطرناک راستے پر جتنا آگے بڑھیں گے‘ دلدل میں اور بھی دھنستے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ممکن ہی نہیں کہ ایک واضح لکیر کھینچ کر ماضی کے فاسد نظام کا باب ختم کر دیا جائے اور بالکل نئے آغاز کا اہتمام کیا جائے۔ ڈیفالٹ (default)سے ڈرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ ڈیفالٹ نہیں دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔
قرضوں کی معافی: بیرونی قرضوں کے سلسلے میں ڈیفالٹ کا جو خوف ناک نقشہ اسٹیٹ بنک کے گورنر صاحب نے کھینچا ہے وہ حقیقی سے زیادہ تخیلاتی ہے۔ ہم خود ڈیفالٹ کے حق میں نہیں اور ایک متبادل حکمت عملی کو قابل عمل سمجھتے ہیں لیکن ڈیفالٹ کو ایسا ہوّا بنا کر پیش کرنا بھی صحیح نہیں۔ ۱۹۸۰ء میں جنوبی امریکہ کے ۱۳ ممالک نے عملاً ڈیفالٹ کیا اور کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا۔ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ورلڈ بنک اور عالمی مالی اداروں نے ۱۳۰ سے زیادہ قرضوں کی وصولی کے لیے نیا نظام الاوقات دیا ہے۔ آج بھی روس بار بار ڈیفالٹ کر رہا ہے اور عالمی ادارے مذاکرات بھی کر رہے ہیں اور قرض کی معافی کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی G-7نے سویت دور کے قرضوں میں سے ۳۸ بلین ڈالر کے نصف کی معافی کی بات کی ہے اور باقی کے لیے ۳۰ سال میں ادایگی کی بات چیت ہو رہی ہے۔ ہم خود ۱۹۷۲ء میں ڈیفالٹ کر چکے ہیں اور اب بھی عملاً بروقت ادایگی نہ کر کے کئی بار چھوٹے موٹے ڈیفالٹ کر چکے ہیں جو مذاکرات کے پس منظر میں چھپ گئے۔ اس وقت دنیا میں قرضوں کے خلاف ایک عالم گیر مہم چل رہی ہے اورG-7 نے کولون‘ لندن اور پیرس کی کانفرنسوں میں ۶۱ ملکوں کے ۱۰۰ بلین ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
قرض دینے والے ملکوں اور اداروں کی جو ذمہ داری ’’برے قرض‘‘ (bad loans) دینے اور کرپٹ قیادتوں کے تحفظ کے لیے قرض دینے کے باب میں ہے اس سے وہ کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ قرض کی معافی کے حوالے سے قرض کی ادایگی کی صلاحیت کے سلسلے میں جو معیار زیربحث ہیں ان سے ہم بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم مضبوطی کے ساتھ یہ موقف اختیار کریں کہ:
۱- آیندہ کوئی قرض نہیں لیں گے خواہ کسی بھی عنوان سے ہو۔
۲- محض قرض لے کر قرض ادا نہیں کریں گے۔
۳- اپنی برآمدات کا ایک خاص فی صد (مثلاً ۱۰ فی صد) قرض کی ادایگی کے لیے مخصوص کرنے کو تیار ہیں‘ لیکن معقول مہلت کی ایک مدت کے بعد۔
۴- موجودہ قرض کو منجمد کر دیا جائے اور ادایگی کے لیے ۵ سے ۱۰ سال کی مہلت (moratorium) حاصل کی جائے۔ اس کے بعد برآمدات کے ایک خاص تناسب سے ادایگی شروع کی جا سکتی ہے۔
۵- قرض کی معافی کے سلسلے میں جو معیار دوسرے ممالک کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اطلاق ہم پر بھی کیا جائے۔ قرض کی معافی کے لیے بات چیت میں سبکی کاکوئی پہلو نہیں۔ قرض کی بھیک مانگنے میں اگر کوئی سبکی نہیں تو قرض کی معافی کی بات چیت میں سبکی کیوں ہو؟ اگر روس یہ کام کر رہا ہے اور ۵۰ دوسرے ممالک کر رہے ہیں تو ہمیں کیوں عار ہو؟ غلط قرض لے کر جو جرم ہم نے کیا ہے قرض دے کر وہی غلطی دوسروں نے بھی کی ہے۔ ہمیں ان معاملات میں ڈٹ کر معاملہ (bargain)کرنا چاہیے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مستقبل کے لیے قرض کے باب کو بالکل بند کر دیا جائے اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر سختی سے کاربند ہوا جائے۔
یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم خود مضبوط ہوں‘ قوم ہمارے ساتھ ہو‘ جو بھی قربانی دینا پڑے اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں‘ اس کی ایک اسٹرے ٹیجک اہمیت ہے جسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہماری معیشت کا ۱۵‘ ۱۶ فی صد (کل درآمدات + برآمدات) بیرونی دبائو سے متاثر ہو سکتا ہے‘ باقی معیشت خودکفیل ہے۔ اگر دوسرے ممالک پابندیوں کا راستہ اختیار کرتے ہیں (جو بظاہر ممکن نہیں) تو بھی ہم مقابلہ کر سکتے ہیں اور نقد ادایگی پر درآمدات کے نتیجے میں خود انحصاری کا حصول کر سکتے ہیں۔ نیز ایسی صورت حال قوم میںمقابلے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے جو ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو سکتی ہے۔
نئی معاشی حکمت عملی : جس انقلابی راستے کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں اس میں اللہ پر بھروسے کے بعد عوام کو اعتماد میں لینا اور ان کے تعاون اور شرکت سے نئی معاشی حکمت کی تشکیل اور اس پر عمل ضروری ہوگا۔ اس حکمت عملی میں زراعت کی ترقی کو اوّلیت حاصل ہوگی۔ چھوٹی اور وسطی درجے کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ تعمیراتی صنعت جو بلاواسطہ ۴۰ دوسری صنعتیں اور پیشوں کو متاثرکرتی ہے ایک عمل انگیز (catalyst) کے طور پر موثر ہو سکتی ہے۔ جرمنی نے ۱۹۳۰ء میں اور چین نے ۱۹۵۰ء میں اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے اور ہم بھی یہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ نج کاری کا کام بھی آنکھیں بند کر کے نہیں کیا جانا چاہیے‘ اس میں قومی سلامتی‘ عوام کی ضروریات‘ اجرتوں کے منصفانہ نظام‘ صارفین کے حقوق اور روزگار کے استحکام کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ نئی صنعتی پالیسی وضع کرنا ہوگی‘ جو ملک کے حالات اور ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو۔ تقسیم دولت اور پیداواری عمل میں عوامی شرکت بھی پالیسی کے اہم موضوع ہیں۔ آج بھی جب وفاقی بجٹ میں بہ مشکل ۴ فی صد تعلیم‘ صحت اور سماجی بہبود پر خرچ ہو رہا ہے‘ نجی شعبے میں زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے ۶۰ ارب روپے سالانہ سے زیادہ معاشرے کے محروم گروہوں اور اچھے کاموں کی مدد کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اگر اس کام کو منظم طور پر اور مناسب ترغیبات کے ساتھ کیا جائے تو غربت کے خاتمے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
معیشت میں ریاست کے کردار پر بھی واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ نجی شعبہ اہم ہے اور مرکزی اہمیت کا حامل‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک موثر سرکاری شعبہ بھی ضروری ہے۔ محض سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوبیت یا لبرلزم کے چلن کی وجہ سے اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ درست نہیں۔ پھر سرکاری شعبے کے یہ معنی نہیں کہ اسے بیوروکریٹس یا سیاست دان چلائیں۔ ملکیت اور انتظامیات ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ بہت سے معاملات میں ریاست کو مالکانہ اختیار دینا ملک اور عوام کے مفاد میں ہے۔ البتہ ان اداروں کا انتظام بھی تجارتی مہارت اور پیشہ ورانہ انداز میں ہونا چاہیے اور عوام کے سامنے احتساب کا موثر نظام بھی واضح کیا جا نا چاہیے۔ خود مغربی ممالک میں جہاں نج کاری کا کام بڑے زور شور سے ہوا ہے وہاں نگرانی ‘کارکردگی اور خدمت کے پہلوئوں سے احتساب کا موثر نظام بنایا گیا ہے اور مطلوبہ معیار پورا نہ کرنے پر شدید گرفت اور سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ایک صحیح لیبر اور روزگار پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ ہیلتھ پالیسی اور اساسی ڈھانچے (infra structure) کی فراہمی کے بارے میں طویل مدت کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک انقلابی حکمت عملی میں ان سب کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
یہ ہے وہ کام جو کرنے کا ہے لیکن یہ کام موجودہ انتظامیہ کے بس کا نہیں۔ اس کے لیے صحت مند جمہوری عمل کو بروے کار لانے اور زمام کار بلند ہمت‘ خدا ترس اور اعلیٰ قیادت کی حامل اچھی قیادت کو سونپنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنج بڑا حقیقی اور گھمبیر ہے ‘ اس چیلنج کا مقابلہ ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ مغرب کی کورانہ تقلید اور سابقہ حکومتوں کی تباہ کن پالیسیوں کو نئے قالب میں ڈھال کر یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے نئے وژن‘ مخلصانہ اور ایمان دارانہ قیادت‘ باصلاحیت افراد کار‘ جمہوری طرزِ حکومت‘ عوامی شرکت کے موثر نظام‘ شفاف احتساب اور مضبوط اداروں کے قیام کی ضرورت ہے۔ معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام صرف معاشی خوش حالی ہی کے لیے ضروری نہیں‘ یہ ملک کے نظریے اور اس کی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ آج ملک جس خطرناک موڑ پر آگیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ غلط راستے پر اٹھنے والے ہر قدم کو روک دیا جائے اور صحیح راستے کی طرف قوم کو سرگرم عمل کیا جائے۔ وقت کامنادی فرش اور عرش سے پکار رہا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے