پاکستانیات


اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ہر ایک نعمت، انسان پر اللہ رب العالمین کا احسان ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں ان میں سے کسی چیز کو اپنا احسان نہیں کہا، بلکہ ارشاد فرمایا: لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ (اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) ’’درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک پیغمبر اُٹھایا‘‘۔ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس کائنات کے ذرے ذرے پر اللہ رب العالمین کا احسان عظیم ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندے کو رب سے ملایا۔ انسانی غلامی کی زنجیر یں توڑدیں۔ طوق غلامی ختم کردیے۔ انسان کو انسانیت عطاکی۔ اسے شعور آدمیت بخشا، اس کے فکر ونظر کے زاویے تبدیل کردیے۔ اس کا شرف آدمیت بلند کیا۔اس کے دل و دماغ کی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ اسے امن و سلامتی،عدل وانصاف، رحم دلی و خدا ترسی، صداقت و ایفاے عہد، انسانی حقوق کی پاسداری اور اپنے رب سے وفاداری عطا کی۔

نبی کریمؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی حیات طیبہ اس زمانے کے لیے ہی نہیں بلکہ آج کے لیے بھی اور آج کے لیے ہی نہیں، قیامت تک آنے والے زمانوں کے لیے ایک کامل واکمل، ارفع و اعلیٰ، بلند و بالا اور نہایت روشن و منور اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ کو اللہ رب العالمین نے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (انبیاء ۲۱:۱۰۷)، ارشاد فرماکر ہمیں یہ بتادیا ہے کہ آپ ایک جہان کے لیے نہیں، معلوم ونامعلوم تمام جہانوں کے لیے، ایک دورکے لیے نہیں بلکہ لوح ایام سے اُبھرتے ہوئے تمام ادوار کے لیے، ایک طبقۂ زندگی کے لیے نہیں بلکہ تمام طبقات زندگی کے لیے سراپا رحمت بن کر آئے ہیں۔ اس لیے اگر آج ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہماری انفرادی واجتماعی زندگی رحمتوں سے بھر جائے، ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن جائیں اور ہمارا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ اور عدل وانصاف کا بلند مینارہ بن جائے، تو پھر ہمیں یہ نسخۂ کیمیا صرف دامن مصطفیؐ ہی سے مل سکتاہے۔

اگر ہم پاکستان کے تناظرمیں بات کریں، تو ہمیں یوں محسوس ہوتاہے کہ آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہے ہیں۔ امن عامہ کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ کسی کی عزت، جان اور مال اگر محفوظ ہے تو یہ صرف اللہ کریم کی خاص مہربانی ہے۔ وگرنہ یہاں انسانی جان نہ چوکوں چوراہوں پر محفوظ ہے، نہ بھرے بازاروں اور سڑکوں، شاہراہوں پر۔ انسان نہ اپنے گھر میں محفوظ ہے اور نہ خدا کے گھر میں۔ پاکستان میں پایدار امن قائم کرنا ہماری خواہش ہی نہیں، فوری اور اشد ضرورت بھی ہے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ آج امن عامہ کے حوالے سے ہمیں کون سے چیلنج درپیش ہیں۔ اس لحاظ سے موجودہ صورت حال دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ۱-بدامنی کی عمومی صورت حال، ۲-نائن الیون کے بعد سے پیدا شدہ خصوصی حالات۔

  •  بدامنی کی عمومی صورت حال: ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم میں چوریاں، ڈکیتیاں معمول بن گیا ہے۔ کارچوری،رسہ گیری اور رہزنی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے۔ روزانہ ہزاروں موبائل اور خواتین کے پرس چھینے جاتے ہیں۔ قتل وغارت گری میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ انتقام کی آگ میں اندھے ہو کر لوگ مخالفین کو عورتوں، بچوں سمیت ذبح کردیتے ہیں۔ تاوان وصول کرنے کے لیے پھول جیسے مسکراتے بچوں کو اغوا کیا جاتاہے، اور پھر تاوان ادا کرنے کے باوجود مائوں کواپنے بچوں کی مسلی ہوئی لاشیں ملتی ہیں۔ منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔ گویا کہ معاشرہ انسانی روپ اختیار کیے ہوئے بھیڑیوں کی گرفت میں آچکاہے۔

نائن الیون کے بعد خصوصی حالات

یہ حالات انتہائی کرب ناک اور خطرناک ہی نہیں انتہائی شرم ناک بھی ہیں۔ اب تک ۳۰ہزار سے زیادہ بے گناہ افراد کا لہو بہہ چکاہے، اور ابھی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی عالمی جنگ میں پاکستانی قوم کو اپنے کچھ اور معصوموں کے لہو کا خراج اور معاشی بدحالی کی صورت میں مزید تاوان جنگ ادا کرنا پڑے گا۔

  •  ڈرون حملے: ۲۰۰۴ء کے بعد سے پاکستان پر عملاً جنگ مسلط کردی گئی ہے۔  آئے روز فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امریکی طیارے میزائلوں کے ذریعے عورتوں، بچوں، بوڑھوں سمیت بے گناہ شہریوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔ اس طرح کے حملوں کی اجازت نہ پاکستان کاآئین دیتاہے، نہ اقوام متحدہ کاچارٹر اور نہ خود امریکا کے اپنے قوانین ہی، لیکن یہ غیر انسانی عمل تسلسل سے جاری ہے۔ امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق کسی دہشت گرد ٹارگٹ اور بے گناہ افراد کی ہلاکتوں میں تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں کُل ۱۱۸ڈرون حملے ہوئے، ۵۸۴؍افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے مطلوب ٹارگٹ صرف دو تھے۔ اب تو ایک دن میں ۴،۴ ڈرون حملے معمول بن گئے ہیں۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد کچھ تعطل آیا تھا لیکن اس کی رہائی کے بعد ایک ہی دن ۱۲ حملے کیے گئے جس میں جرگے کے عمائدین سمیت ۴۱ افراد شہید ہوگئے۔
  •  خودکش اور دھشت گردحملے: ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے غصے اور انتقام سے بھرے ہوئے ۱۵سے ۲۰ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی خود امریکا ،بھارت اور اسرائیل کا ایک نیٹ ورک خود کش حملوں کے لیے استعمال کررہاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری، اس سے برآمد ہونے والے جاسوسی آلات، تصاویر اور موبائل کی سموں سے اس کے وزیرستان کے دہشت گردوں سے رابطوں سے یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے،جہاد کو بدنا م کرنے، اسلام کو دہشت گردی کا دین ظاہر کرنے اور پاکستان کو غیر محفوظ ملک ثابت کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر عالمی پابندیاں لگوانے کے مقاصد کے تحت پاکستان کی مساجد،مزارات،امام بارگاہوں، جلسوں اور جلوسوں پر حملے امریکا خود ہی کروا رہاہے۔
  •  ٹارگٹ کلنگ: پورے ملک میں کسی حد تک لیکن کراچی میں بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ عروج پر ہے۔ کسی بھی جرم کے بغیر محض کسی خاص زبان بولنے کی بنیاد پر بے گناہ مزدوروں، رکشاو بس ڈرائیوروں،ریڑھی ٹھیلے والوں کو قتل کردیا جاتاہے۔ بھتہ خوری اور ناجائز قبضوں کے لیے بھی انسانی جانوں سے کھیلا جاتاہے۔ اب تک ہزاروں افراد اس سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، جب کہ کسی ایک بھی واقعے کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔ کراچی کے سانحات میں ۱۲مئی، ۹؍اپریل، ۱۲ربیع الاول،۱۰محرم الحرام، ۲۷؍اکتوبر اور بے گناہ شہیدہونے والوں میں حکیم محمد سعید، صلاح الدین، محمد اسلم مجاہدوغیرہ جیسے رہنما شامل ہیں۔

امن عامہ کی صورت حال کے لحاظ سے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، سب سے زیادہ متاثر ہے۔ یہاں پر بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پنجابی اساتذہ،تاجروں اور پولیس اہلکاروں کا قتل ہوا۔ اکبر بگٹی کی ٹارگٹ کلنگ نے حالات میں جو آگ لگائی ہے، اس کی وجہ سے بھارت اور امریکا بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات کو بڑھانے کی سازشیں کررہے ہیں۔ بلوچ رہنمائوں اور جوانوں کی اغوا کے بعد مسخ شدہ لاشوں کا ملنابھی قیامت خیزی میں اضافہ کررہاہے۔

  •  لاپتا افراد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی: گذشتہ پانچ چھے برسوں سے سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا لاپتا ہونا،اور پھر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے باوجود برآمد نہ ہونا لمحہ فکریہ بھی ہے اور ایک المیہ بھی! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کرکے امریکا کے حولے کرنے اور امریکی عدالت کا اسے صرف مسلمان ہونے کے جرم میں ۸۶سال قید دینے کے واقعے نے بھی نوجوان نسل میں بے پناہ اضطراب پیدا کیاہے۔
  •  ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ : ۲۷ جنوری ۲۰۱۱ء کو لاہور میں دن دہاڑے ایک امریکی جاسوس اور قاتل نے تین بے گناہ پاکستانیوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد سے امریکا کامسلسل دبائو بڑھتا رہا ہے کہ قاتل کو بغیر مقدمہ چلائے اور جاسوس سے بغیر معلومات حاصل کیے اسے امریکا کے حوالے کردیا جائے۔ اس معاملے نے عوام میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحے کی طرح حکمران طبقے کی بے حسی اور ملک کی بظاہربے بسی کا احساس زیادہ اُجاگر کردیا۔ اب اسے قصاص و دیت قانون کے تحت آزاد کر کے امریکا بھجوانے سے اس شدت میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔

پایدار امن کیسے؟

پاکستان میں امن عامہ کی مخدوش عمومی صورت حال اور نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والے خصوصی حالات کاتقاضا ہے کہ پاکستان میں پایدار امن قائم کیا جائے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ پایدار امن صرف اسوۂ حسنہؐ کی روشنی میں ہی قائم ہوسکتاہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے، اس خطے میں ایک مثالی اور پایدار امن قائم فرمایا جہاں دن کے اُجالوں میں قافلے لٹتے اور رات کے اندھیروں میں شب خون مار کر مردوں کو قتل اور عورتوں بچوں کو غلام بنالیاجاتاتھا۔ جہاں بیٹیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں اور بات بات پر تلواریں میان سے باہر نکلتی تھیں۔ جہاں انتقام درانتقام کے سلسلے برسوں اور نسلوں تک چلتے تھے۔ بقول مولانا حالی:

کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یوں ہی ہوتی رہتی تھی تکرار ان میں
یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں

نبی کریمؐ اور ا ن کے لائے ہوئے دین نے جزیرۃ العرب میں وہ مثالی امن قائم کیا کہ سونے کے زیوارت سے مزین ایک عورت کو تنہا صنعاسے حضر موت تک کے طویل سفر میں اللہ کے علاوہ کسی اور کاڈر نہ رہا۔ اس امن کی پایداری یہ ہے کہ ۱۵سو سال بعد آج بھی ان علاقوں میں جرائم کی شرح قریباًنہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں پایدار امن کا قیام صرف اسلامی نظام کے قیام ہی سے ممکن ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظام کے قیام کامقصد ہی قیام خیر اور رفع شرہے:

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo (الحج۲۲:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو فتنہ و فساد،ظلم وزیادتی، جبرواستبداد،قہر و تعدی، استحصال واستیصال اور بدامنی و دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرتاہے۔ اس سلسلے میں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

  • داخلی انقلاب : اسلام انسان کو اندر سے مکمل تبدیل کردیتاہے۔ اس کے نفس امارہ کو نفس لوامہ اور پھر نفس مطمئنہ میں بدلتاہے۔ وہ توحید ربانی، محبت و اطاعت رسولؐ، احساس جواب دہی اور فکر آخرت کے عقیدوں اور نظریات و جذبات سے پتھر دلوں، یعنی قلوب قاسیہ کو یاد الٰہی سے   نرم دلوں، یعنی قلوب خاشعہ میں بدل دیتاہے۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ جس سے انسان اپنے ان جرائم کا خود اعتراف کرتاہے جسے کرتے ہوئے دنیاکی کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ کوئی دعویٰ نہیں، لیکن انسان آخرت کی دائمی سزا کے بدلے اس دنیا کی سخت ترین سزا کو بھی برداشت کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ اندر کی تبدیلی سے امتناع شراب کے قانون پر برسوں،مہینوں یا دنوں میں نہیں چند گھنٹوں میں اس طرح سے عمل ہوجاتاہے کہ پورا معاشرہ اس سے پاک ہوجاتاہے۔
  • جرم کے محرکات کا خاتمہ : اسلام نے ان تمام اسباب کا خاتمہ کیا یا ان کی اصلاح کی کہ جن کی وجہ سے انسان مجرم بنتاہے، مثلاً حُبِ دنیا اور حُبِ مال کو وہن کہاگیا۔  اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُکہہ کر کثرت کے جنون کو وجۂ ہلاکت قرار دیا۔ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَکہہ کر بتایا گیا کہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ غصہ جرائم کو جنم دیتاہے چنانچہ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ کے پیغام سے عفو و درگزر کا سبق دیا گیا۔ تکبر، حسد، تمسخر، بہتان، بدگمانی،غیبت،بُرے القاب،جھوٹ، بددیانتی، خیانت،دھوکا دہی، ذخیرہ اندوزی سے معاشرے میں جرائم بڑھتے ہیں۔ اسی طرح شراب منشیات،جوا، فحاشی، سود،بدکاری، رشوت، سفارش بھی معاشرے میں مجرموں کی افزایش کرتے ہیں۔ ان سب کو حرام قرار دیا گیا۔ گویا کہ اسلام نے جرم کے سرچشموں اور بنیادوں کو ہی ختم کردیا۔
  •  انسانی حقوق : خطبۂ حجۃ الوداع کی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی کا عظیم الشان چارٹر دیا ہے۔ اس چارٹر میں آپ نے انسانی جان کی حرمت،معاشرتی مساوات، جاہلیت کے انتقام درانتقام سلسلوں کے خاتمے،شخصی حقوق: تحفظ جان، تحفظ مال، تحفظ کی بہترین تعلیمات دیں۔ میاں،بیوی،بہن بھائیوں، ماں، باپ اولاد، رشتہ داروں،یتیموں، محتاجوں، ضعیفوں، بیماروں، غلاموں، مزدوروں، پڑوسیوں، دوستوں، مسافروں، اساتذہ، شاگردوں، راہگیروں، غرضیکہ ہر طبقے کے الگ الگ حقوق متعین کیے۔ حقوق العباد کے سلسلے میں یہ بہترین تصور دیا کہ بندوں کے حقوق کی پامالی پر معافی کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ بندوں کو ہی دے دیا ہے، یعنی جب تک جس کا حق مارا گیاہے وہ خود معاف نہیں کرے گا، انسان کی قیامت کے دن رہائی نہیں ہوسکے گی، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حقوق العباد کی پامالی کی سزا کے طور پر قیامت کے روز اپنی نمازوں، روزوں اور عبادات کے اجر سے ہی محروم ہوجائے۔
  • حقوق نھیں فرائض : دنیا میں حقوق مانگے اور دیے جاتے ہیں۔ اسلام حقوق سے پہلے فرائض کی بات کرتاہے۔ چنانچہ اگر فرائض اداہوجائیں تو حقوق طلبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، نیز اسلام نے حقوق و فرائض میں بہترین توازن و اعتدال قائم کردیاہے۔ اس طرح سے معاشرہ کسی بھی کشاکش اور کش مکش کے بغیر ہی جنت نظیر بن جاتاہے۔
  • قوم نھیں اُمت: بلوچستان کا معاملہ ہو یا کراچی کا، علاقائی مطالبات ہوں یا لسانی تعصبات، اسلام کے تصوراُمت سے خودبخود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام شعوب و قبائل کو صرف ذریعۂ تعارف قرار دیتاہے، وجۂ تفاخر نہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو کہیں بھی قوم نہیں کہا گیا، جہاں بھی کہاگیاہے اُمت کہاگیاہے۔ اس لیے کہ قومیں عصبیتوں سے بنتی ہیں اور اُمت عقیدے سے۔ قوم زبانوں،علاقوں،نسلوں سے وجود میں آتی ہے اور اُمت ایمان سے بنتی ہے۔
  •  نظام عبادات : اسلام نے تصوراُمت اور معاشرتی مساوات کو اپنے نظام عبادات کا حصہ بنا دیا ہے۔ قیام امن کے لیے اسلام کی عظیم الشان بنیادیں محض اخلاقی تعلیمات نہیں، بلکہ عبادات کا مستقل حصہ ہیں۔ اسلام دن میں پانچ مرتبہ امیر وغریب، اعلیٰ و ادنیٰ،افسرو ماتحت، کارخانے دار و مزدور،عربی و عجمی، گورے و کالے، پنجابی و سندھی، بلوچی وپٹھان اور مہاجر وغیرمہاجر کو ایک صف میں کھڑا کردیتاہے۔ یہاں کوئی علاقائی تقسیم نہیں،کوئی معاشرتی درجہ بندی نہیں۔ کوئی لسانی و مادی تفاوت نہیں۔ اسی طرح حج و عمرہ کے موقعے پر تمام علاقائی لبادے اتروالیے جاتے ہیں۔ یہاں کج کلا ہوں کے تاج،عماموں کے پیچ، جبہ و دستار اور شیر وانیاں و وردیاں اتر جاتی ہیں۔
  •  امن کے ادارے : اسلام امن کو وعظ و تلقین تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس کے قیام کے لیے بہترین ادارے بھی وجود میں لاتاہے۔ ان اداروں میں خاندان اہم ترین ادارہ ہے کہ یہیں سے شفقت ومحبت ہی نہیں تزکیہ وتربیت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ دوسرا اہم ادارہ مسجد ہے جوکہ ایک محلے کو وحدت کی لڑی میں پرو دیتا ہے، اور جہاں دن میں پانچ مرتبہ اہل محلہ ملتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ تیسرا اہم ادارہ مکتب، یعنی نظام تعلیم ہے۔ تعلیم ہی ایک بہترین انسان وجود میں لاتی ہے، جو ایثار و قربانی کا پیکر اور انسانی حقوق کا عملی محافظ ہوتاہے۔ چوتھا اہم ادارہ ریاست ہے کہ ریاست ہی بنائو بگاڑ کا مرکز ہوتی ہے۔ ریاست ہی نظام تعلیم تشکیل دیتی اور میڈیا کو اخلاقی ضابطوں کا پابند بناتی ہے۔ ریاست ہی اپنے اداروں، پولیس، فوج اور عدلیہ کے ذریعے معاشرے میں امن قائم اور انصاف فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ریاست اگرچہ انعام خدا وندی ہے۔ لیکن اہل ایمان کو انعام کا انتظار کرنے کے بجاے اس انعام کا حق دار بننے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی مقصدِ بعثتِ رسول ؐ ہے: ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا o (الفتح ۴۸:۲۸) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے‘‘۔
  •  امن و سلامتی کی تعلیمات: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جہاں بہترین تعلیمات دی ہیں، وہاں انماالمؤمنون اخوہ کا فرمان ربی پہنچایا ہے، اور المسلم اخو المسلم کہہ کر بتادیا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اسے بے گناہ قتل کرنا کفر قرار دیا ہے۔ ومن یقتل مومنا معتمداً فجزاؤہ جہنم کہہ کر قاتل کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ ایک انسان کے قتل کوپوری انسانیت کا قتل کہاگیاہے۔ بتادیا ہے کہ خود کشی حرام موت ہے۔ ایک مسلمان کی حرمت کو خانۂ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ اہم قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ جس کسی نے ہم میں سے کسی پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ پوری دنیاکا تباہ وبرباد ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مومن کے ناحق قتل ہونے سے ہلکا ہے۔ ذمی یا معاہدکے ناحق قاتل کے لیے فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ۴۰ سال کی مسافت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
  •  امن وسلامتی کا ماحول: ان تعلیمات کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی کے ماحول کو پیدا کرنے کے لیے نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ سلام کیا ہے؟ سلامتی کی دعا اور جواب دعاہے۔ دوسرے کے لیے سلامتی کی خواہش و تمنا کا اظہار ہے۔ جس معاشرے میں دن رات کروڑوں انسان ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوں وہاں بدامنی اور قتل وغارت کیسے ہوسکتی ہے۔ ہرمسلمان کے دوسرے پر چھے حق بیان کیے گئے ہیں۔ اس میں سلام اور اس کا جواب، چھینک پر الحمد للّٰہ اور یرحمک اللّٰہ کا اظہار،بیمار کی تیمارداری،جنازے میں شرکت وغیرہ شامل ہیں۔ مسکراہٹ کو صدقہ اور کارعبادت قرار دے کر مسلمانوں کے معاشرے کو مسکراتے ہوئے چہروں کا معاشرہ بنادیا ہے۔
  •  بھترین عدالتی نظام اور کڑی سزائیں : قیام امن میں اہم ترین حصہ عدالتی نظام کا ہوتاہے۔ اسلام نے بہترین عدالتی نظام دیا ہے جس میں عدلیہ کی آزادی، اراکین عدلیہ کی صفات، عدالتی طریقۂ کار،قانون شہادت، غرضیکہ ہر پہلو کو بہترین انداز میں مفصل بیان کیا گیا ہے۔ اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز (المائدہ ۵:۸) ’’عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘، کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْط (النساء ۴:۱۳۵) ’’انصاف کے علَم بردار بنو‘‘، وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل ط (النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘، اور دیگر آیات کے ذریعے عدل وانصاف پر بہت زیادہ زور دیاگیاہے۔ اسی طرح اسلام نے چوری، ڈکیتی، رہزنی،بدکاری،بہتان طرازی،شراب نوشی، فساد فی الارض،دہشت گردی وغیرہ جیسے جرائم کے لیے سخت ترین اور عبرت ناک سزائیں مقرر کی ہیںتاکہ چند افراد کی سزائوں کے نتیجے میں پورا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
  •  پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام :پاکستان میں پایدار امن صرف اسلامی نظام کے نفاذ کے ذریعے ہی قائم ہوسکتاہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ قیام پاکستان کا مقصد وجود، آئین پاکستان کا لازمی تقاضا اور قرارداد مقاصد کا عملی پہلو ہے، نیز اہالیان پاکستان کی تمنائوں کا مرکز ہے۔ اسلامی نظام کے قیام میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں کہ آئین پاکستان اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان بھی کرتاہے، اور پاکستان میں اسلام کو سرکاری مذہب بھی قرار دیتاہے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل نے کم وبیش تمام مروجہ قوانین پر قرآن وسنت کی روشنی میں نظرثانی اور تدوینِ نو کا کام بھی مکمل کرلیا ہے۔ اب اگر اہالیان پاکستان اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے قرآن وسنت کی عملی بالادستی کا راستہ ہموار کردیں، تو ان شاء اللہ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ امن کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی، امریکی بالادستی اور مداخلت کے خاتمے، ڈرون حملوں کی فوری بندش جو کہ نفرت اور اشتعال انگیزی کا باعث بن رہے ہیں، اور اس ضمن میں پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو درپیش فوری مسائل کو حل بھی کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظام کے قیام کی منزل بھی قریب آسکتی ہے۔ (مقالہ نگار نائب قیم جماعت اسلامی پاکستان ہیں)

 

 

 

 

قیامِ پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو قرارداد مقاصد منظور کی۔ اس دستور ساز اسمبلی کے ارکان کی بڑی تعداد قائداعظم محمدعلی جناح کے رفقاے کار پر مشتمل تھی، جب کہ وزیراعظم لیاقت علی خاں ان کے دستِ راست تھے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان کا سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ ’قراردادمقاصد‘ کو مذموم مقاصد کے تحت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہاں پر جناب لیاقت علی خاں کی وہ تقریر پیش کی جارہی ہے جس میں انھوں نے قراردادِ مقاصد کا مسودہ پیش کرتے ہوئے، اس کی وضاحت کی تھی۔ ساتھ ہی قائداعظم کے ساتھی مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم کا اس موقعے پر خطاب بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

صدر محترم، جناب والا!

میں حسب ذیل قرارداد مقاصد پیش کرتا ہوں۔یہ قرار داد مقاصد ان خالص اصولوں پر مشتمل ہے، جن پر پاکستان کا دستور اساسی مبنی ہو گا:

جناب صدرمجلس، تحریک پیش ہے:

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

چونکہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے، اور اسی نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے،

لہٰذا  --

  •                             جمہور پاکستان کی نمایندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے ،کہ آزاد اور خود مختار مملکت پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کیا جائے۔
  •                            جس کی رو سے مملکت تمام حقوق و اختیاراتِ حکمرانی، عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے۔
  •                           جس میں اصول جمہوریت و حریت، مساوات و رواداری اور سماجی عدل کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
  •                          جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے، کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے، کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہبوں پر عقیدہ رکھ سکیں، اور ان پر عمل کر سکیں، اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔
  •                              جس کی رو سے وہ علاقے جو اب پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آیندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں ایک وفاق بنائیں، جس کے ارکان مقرر کردہ حدود اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خود مختار ہوں۔
  •                                جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے، اور ان حقوق میں قانون و اخلاق عامہ کے ماتحت مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط [میل جول اور باہمی تعلق] کی آزادی شامل ہو۔
  •                                جس کی رو سے اقلیتوں اور پس ماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے۔
  •                                جس کی رو سے عدلیہ کی آزادی مکمل طور پر محفوظ ہو۔
  •                                جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی حفاظت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا  جن میں اس کے بر و بحر اور فضا پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔

                تاکہ ____

                                اہل پاکستان فلاح اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں، اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود میں کماحقہ اضافہ کر سکیں۔


جناب والا، میں اس موقعے کو ملک کی زندگی میں بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اہمیت کے اعتبار سے صرف حصول آزادی کا واقعہ ہی اس سے بلند تر ہے، کیونکہ حصول آزادی سے ہی ہمیں اس بات کا موقع ملا ،کہ ہم ایک مملکت کی تعمیر اور اس کے نظام سیاست کی تشکیل اپنے نصب العین کے مطابق کر سکیں۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ باباے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کے متعلق اپنے خیالات کا متعدد موقعوں پر اظہار فرمایاتھا ،اور قوم نے ان کے خیالات کی غیرمبہم(unmistakable) الفاظ میں تائید کی تھی۔

پاکستان اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ اس برصغیر کے مسلمان اپنی زندگی کی تعمیر اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ دنیا پر عملاً واضح کر دینا چاہتے تھے، کہ آج حیات انسانی کو جو طرح طرح کی بیماریاں لگ گئی ہیں، ان سب کے لیے صرف اسلام ہی اکسیر اعظم (panacea) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ انسان اپنی مادی ترقی کے ساتھ قدم نہ بڑھا سکا، اور انسانی دماغ نے سائنسی ایجادات کی شکل میں جو خود ساختہ بھوت(Frankenstein Monster) اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے، اب اس سے نہ صرف انسانی معاشرے کے سارے نظام اور اس کے مادی ماحول کی تباہی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، بلکہ اس مسکن خاکی کے بھی تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے، کہ جس پر انسان آباد ہے۔

یہ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے: اگر انسان نے زندگی کی روحانی قدروں کو نظر انداز نہ کیا ہوتا، اور اگر اﷲ تعالیٰ کے وجود پر اس کا ایمان کمزور نہ ہو گیا ہوتا، تو اس سائنسی ترقی سے خود اس کی ہستی ہرگز خطرے میں نہ پڑتی۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ وجود باری تعالیٰ کا احساس ہی انسانیت کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ جس کا منشا یہ ہے کہ انسان کو جو قوتیں حاصل ہیں، ان سب کو ایسے اخلاقی معیارات کے مطابق استعمال کرنا لازمی ہے، جو وحی الٰہی سے فیض یاب ہونے والے ان معلّموں نے متعین کر دیے ہیں، جنھیںہم مختلف مذاہب کے جلیل القدر پیغمبر مانتے ہیں۔ ہم پاکستانی ہوتے ہوئے اس بات پر شرمندہ نہیں ہیں، کہ ہماری غالب اکثریت مسلمان ہے، اور ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم اپنے ایمان اور نصب العین پر قائم رہ کر ہی دنیا کے فوز و فلاح میں حقیقی اضافہ کر سکتے ہیں۔

جناب والا، آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس قرارداد کی تمہید میں صاف اور صریح الفاظ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے، کہ تمام اختیار اور اقتدار کا ذات الٰہی کے تابع ہونا لازمی ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ نظریہ مغربی حکیم میکیاولی کے خیالات کے بالکل برعکس ہے، جس کا تصور مملکت یہ ہے کہ:

spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people

(نظام سیاست و حکومت میں روحانی اور اخلاقی قدروں کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔)

اس لیے شاید اس بات کا خیال بھی رواج کے کسی قدر خلاف ہی سمجھا جاتا ہے کہ مملکت کے وجود کو خیر کا آلہ ہونا چاہیے، نہ کہ شر (evil) کا۔ لیکن ہم پاکستانیوں میں اتنی جرأتِ ایمان موجود ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمام(انسانی) اقتدار اسلام کے قائم کردہ معیارات کے مطابق استعمال کیا جائے، تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اقتدار ایک مقدس امانت ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اس لیے تفویض (delegate) ہوا ہے، کہ ہم اسے بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے استعمال کریں، تاکہ یہ امانت ظلم و تشدد اور خود غرضی کا آلہ نہ بن کر رہ جائے۔

بہرصورت میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں ،کہ اس سے ہماری ہرگز ہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ ہم حکمرانوں اور بادشاہوں کے ’ظل الٰہی‘ (Divine Right of Kings) ہونے کے ازکار رفتہ نظریے کو پھر سے زندہ کریں۔ کیونکہ اسلامی جذبے کے تحت قرارداد کی تمہید میں اس حقیقت کو   کلی طور پر تسلیم کیا گیا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے اختیارات سواے عوام (people) کے کسی اور کو تفویض نہیں کیے۔ اور اس کا فیصلہ خود عوام ہی کو کرنا ہو گا، کہ یہ اقتدار کن لوگوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔

اسی لیے قرارداد میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ’مملکت تمام حقوق و اختیارات حکمرانی کو عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘۔ یہی جمہوریت کا نچوڑ (essence) ہے، کیونکہ عوام ہی کو ان اختیارات کے استعمال کا مجاز ٹھیرایا گیا ہے۔

میں نے ابھی یہ عرض کیا تھا کہ:’ اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔ چنانچہ اس راستے کو اختیار کرنے سے قدرتی طور پر ’تھیاکریسی ‘ (Theocracy) کے قیام کا خدشہ جاتا رہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ’تھیاکریسی ‘ کے لغوی معنی ’خدا کی حکومت‘ ہیں اور اس اعتبار سے تو پوری کائنات ہی ’تھیاکریسی ‘ قرار پاتی ہے۔ کیونکہ اس پوری کائنات کا کون سا گوشہ ایسا ہے، جہاں اﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل نہیں ہے؟ لیکن [علم سیاسیات کے] اصطلاحی معنوں میں تھیاکریسی ’برگزیدہ پادریوں کی حکومت‘ کو کہتے ہیں، جو محض اس بنا پر اختیار رکھتے ہوں کہ وہ ایسے اہل تقدس کی طرف سے خاص طور پر مقرر کیے گئے ہیں، جو اپنے مقام قدس کے اعتبار سے ان حقوق کے دعوے دار ہیں۔ اس کے برعکس میں اس امر پر جتنا بھی زیادہ زور دوں کم ہو گا، کہ اسلام میں اس تصورحکمرانی کی ہرگز کوئی گنجایش اور کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام، پاپائیت (Priesthood) یا کسی بھی حکومت مشائخ (Sacerdotal Authority) کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام میں ’تھیاکریسی ‘ کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ اگر کوئی شخص اب بھی پاکستان کے نظام حکومت کے ضمن میں ’تھیاکریسی ‘ کا ذکر کرتا ہے، تووہ یا کسی شدید غلط فہمی شکار ہے یا پھر دانستہ طور پر شرارت آمیزی سے ہمیں بدنام کرنا چاہتاہے۔

جناب والا، اب میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں، کہ قرارداد مقاصد میں جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے۔ ان الفاظ کی صراحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ (الفاظ) بالعموم مبہم طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغربی طاقتیں اور اشتراکی روس دونوں اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ان کے نظام حکومت جمہوریت پر مبنی ہیں‘ --- لیکن ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ دونوں نظام کس قدر مختلف ہیں۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا ہے، کہ ان الفاظ کے مفہوم کا تعین کر دیا جائے، تاکہ ہر شخص کے ذہن میںان کا واضح مفہوم آجائے۔

جس وقت ہم ’جمہوریت‘ کا لفظ اس کے اسلامی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ جمہوریت ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور اس کا اطلاق جتنا ہمارے نظام حکومت پر ہے، اتنا ہی ہمارے معاشرے پر بھی ہے۔ کیونکہ اسلام نے دنیا کو جن  عظیم الشان صفات سے مالا مال کیا ہے، ان میں سے ایک صفت عام انسانوں کی مساوات بھی ہے۔ اسلام، نسل، رنگ اور نسب کے امتیازات (discrimination) کو کبھی اور کسی سطح پر بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اسلامی تواریخ کا یہ روشن باب ہے کہ انحطاط کے دور (decadence) میں بھی مسلم معاشرہ رنگ و نسل کے اُن تعصبات سے نمایاں طور پر پاک رہا ہے، جنھوں نے دنیا کے دوسرے انسانوں کے باہمی تعلقات کو زہر آلود کر دیا تھا۔

اسی طرح ہماری اسلامی تہذیب میں رواداری (tolerance) کی روایات بھی عظیم الشان ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ازمنہ وسطیٰ میں اقلیتوں کو کسی نظام حکومت کے تحت وہ مراعات حاصل نہیں ہوئیں، جو مسلمان ملکوں میں انھیں حاصل تھیں۔ جس زمانے میں کلیسا (church) سے اختلاف رکھنے والے مسیحیوں اور مسلمانوں کو [ہولناک] اذیتیں دی جاتی تھیں، اور انھیں گھروں سے نکالا جاتا تھا اور پھر جب انھیں جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا تھا اور مجرم قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا، اُنھی دنوں اسلام ان سب [مظلوموں، زیردستوں اور مقہوروں] کا ضامن اور پناہ گاہ ثابت ہوا کرتا تھا، کہ جنھیں مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اور جو تنگ آ کر بھاگ نکلنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ زندہ جلانے کا تو تصور تک اسلام میں کبھی نہیںآیا۔

تاریخ کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ جب’ سامیوں سے نفرت‘(anti-semitism) کے تحت بہت سے یہودیوں کو یورپ کے ممالک سے نکال دیا گیا، تو یہ سلطنت عثمانیہ تھی جس نے کھلے دل سے انھیں اپنے ہاں پناہ (shelter)دی تھی۔ مسلمانوں کی رواداری کا سب سے شان دار ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی مسلم ملک ایسا نہیں جہاں اقلیتیں کافی تعداد میں موجود نہ ہوں، اور جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار نہ رکھے ہوئے ہوں۔ سب سے زیادہ ہندستان کے اس برصغیر میں جہاں کبھی مسلمانوں کو لامحددود اختیارات حکمرانی حاصل تھے، غیر مسلموں کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا اور ہمیشہ ان کا تحفظ کیا گیا۔

میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، کہ مسلمانوں ہی کی سرپرستی میں ہندستان کی بہت سی مقامی زبانوں کو ترقی اور فروغ حاصل ہوا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے میرے دوستوں کو یاد ہو گا کہ یہ صرف مسلمان حکمرانوںہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا، کہ سب سے پہلے ہندوؤں کی مقدس کتابوں (scriptures)کا ترجمہ سنسکرت سے بنگالی میں کیا گیا۔ یہی وہ رواداری ہے جس کا تصور اسلام نے ہمیشہ پیش کیا ہے، اور جس میں اقلیتیں ذلت و رسوائی کی حالت میں نہیں رہتیں، بلکہ باعزت طریقے پر زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے نظریات اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے مواقع دیے جاتے ہیں، تاکہ وہ پوری قوم کی عظمت میں اضافہ کر سکیں۔

جہاں تک سماجی عدل (social justice) کا تعلق ہے، جناب محترم، میںیہ کہوں گا کہ اسلام اس میںشان دار اضافہ کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسے معاشرے کے قیام کا حامی ہے، جس میں سماجی عدل کا تصور نہ تو بھیک اور خیرات پر مبنی ہے اور نہ ذات پات (اور رنگ و نسل) کی کسی تمیز پر موقوف ہے۔ اسلام جو سماجی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، وہ ان بنیادی ضابطوں اور تصوارت پر مبنی ہے، جو انسان کی زندگی کو دوسروں کی محتاجی سے پاک رکھنے کے ضامن ہیں، اور جو آزادی و حریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ (قرارداد میں) جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کی ایسی تعریف کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے خیال کے مطابق ان الفاظ کے عام معانی کی بہ نسبت زیادہ گہرے اور وسیع تر معانی پیدا ہوگئے ہیں۔

قرارداد مقاصد کی اس دفعہ کے بعد یہ درج ہے، کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ  وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں۔ یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ اگر مسلمان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنا لے، تواس پر اصولی طور پر ہمارے کسی غیر مسلم بھائی کو کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

جناب والا، آپ اس امر کو بھی مدنظر رکھیں، کہ حکومت ایک غیر جانب دار تماشائی کی حیثیت سے اس بات پر اکتفا نہیں کرے گی، کہ مسلمانوں کو اس مملکت میں صرف اپنے دین (مذہب) کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ کیونکہ حکومت کے اس طرز عمل سے ان مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی، جو مطالبہ پاکستان کے بنیادی محرک تھے۔ حالانکہ یہی مقاصد تو اس مملکت کا سنگ بنیادہونے چاہییں، جسے ہم تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مملکت ایک ایسا ماحول پیدا کرے گی، جو ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی تعمیر میں ممد و معاون ثابت ہو گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مملکت پاکستان کو اپنی کوشش و کاوش میں مثبت پہلو اختیار کرنا ہو گا۔

جناب والا، آپ کو یاد ہو گا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مسلم لیگ کے دوسرے مرکزی رہنماؤں نے ہمیشہ یہ بڑے واضح او ر غیر مبہم اعلانات (uniquivocal declarations) کیے ہیںکہ: ’پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانوں کا مطالبہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اپنے ’طریق زندگی اور ضابطہ اخلاق‘ (way of life and code of conduct) موجود ہیں‘۔ انھوں نے بارہا اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ اسلام کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک ایسا نجی تعلق قائم ہو، جسے مملکت کے کاروبار(working of the state) میں کسی قسم کا دخل نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام سماجی اخلاق کے متعلق معاشرے کے طرز عمل کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلام محض ذاتی عقائد اور انفرادی اخلاق کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کریں، جس کا مقصد حیات صالح (good life) ہو۔ اہل یونان کے برعکس اسلام نے صالح زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کی بنیادلازمی طور پر روحانی قدروں پہ قائم ہے۔

ان اقدار کو اہمیت دینے اور انھیں نافذ کرنے کے لیے مملکت پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرگرمیوں کی اس طریقے پر ہم نوائی کرے، کہ جس سے ایک ایسا نیا سماجی نظام (social order) قائم ہو جائے، جو اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایک ایسا سماجی نظام کہ جس میں جمہوریت، حریت، رواداری اور سماجی عدل شامل ہیں۔ ان امور کا ذکر تو میں نے محض بطورمثال کیا ہے، کیونکہ وہ اسلامی تعلیمات جو قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہیں، محض اسی بات پر ختم نہیں ہو جاتیں۔ کوئی مسلمان ایسا نہیںہو سکتا جس کا اس پر ایمان نہ ہو کہ کلام اﷲ اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے روحانی فیضان کے بنیادی سرچشمے ہیں۔ ان سرچشموں کے متعلق مسلمانوں میں کوئی اختلاف راے نہیں ہے اور اسلام کا کوئی ایسا مکتب فکر نہیں، جو ان کے وجود کو تسلیم نہ کرتا ہو۔

لہٰذا، کسی بھی ایسے فرقے کو جو پاکستان میں اقلیت میں ہو، اس مملکت کی نیت (intention) کی طرف سے اپنے دل میں کوئی غلط فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ مملکت ایک ایسا اسلامی معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گی، جو باہمی تنازعات سے پاک ہو۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اعتقادات کے معاملے میں وہ مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کی آزادی کو سلب کرے گی۔ کسی مکتب فکر کو خواہ وہ اکثریت میں ہو یا اقلیت میں، یہ اجازت نہیں ہو گی کہ دوسروں کو اپنا حکم قبول کرنے پر   مجبور کرے، بلکہ اپنے اندرونی معاملات اور فرقہ وارانہ اعتقادات میں تمام فرقوں کے لیے   وسعت خیال و عمل کا اہتمام ہوگا اور کامل آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔ درحقیقت ہمیں یہ امید ہے کہ مختلف مکاتب فکر اُس منشا کے مطابق عمل کریں گے، جو اس حدیث نبویؐ میں مذکور ہے: ’میری اُمت [کے لوگوں ]میں اختلاف راے ایک رحمت ہے‘۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے اس ]فطری[ اختلاف کو اسلام اور پاکستان کے لیے باعث استحکام بنائیں اور چھوٹے موٹے مفادات کے لیے کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں، کیونکہ اس طرح پاکستان اور اسلام دونوں کمزور ہو جائیں گے۔ بسا اوقات اختلافات راے ہم آہنگی اور ترقی کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن یہ صرف اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب راے کے اختلافات میں اس امر کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ ہمارے حقیقی نصب العین کو جو اسلام کی خدمت اور اس کے مقاصد کو ترقی دیتا ہے، اسے نظروں سے اوجھل کر دیں۔ پس ظاہر ہے کہ قرارداد میں اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرنے کی سہولت دی جائے، جس کی تجربہ گاہ (laboratory) میں وہ دنیا کو عمل کر کے دکھا سکیں، کہ اسلام دنیا میں نہ صرف ایک متحرک اور ترقی پسند طاقت ہے، بلکہ وہ ان گوناگوں خرابیوں کا علاج بھی مہیا کرتا ہے، جن میں آج نوع انسانی مبتلا ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو اپنی پستی اور محکومی کے طویل دور میں ہمیشہ اس قسم کے موقع کی تلاش رہی ہے۔

ایک اسلامی معاشرہ تعمیر کرنے کے مقصد میں ہم نے غیر مسلموں کے حقوق کو کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ اگر ہم اقلیتوں کی آزادی میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ایک غیراسلامی فعل ہوتا، اور ایسا کر کے ہم یقینا اپنے دینی احکام کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے۔ اقلیتوں کو    اپنے اپنے مذہب پر چلنے، اس کی حفاظت کرنے یا اپنی ثقافت کو فروغ دینے سے کسی طرح روکا نہیں جائے گا۔ اسلامی ثقافت کے نشوونما کی تاریخ بتاتی ہے، کہ مسلمان حکومتوں اور سلطنتوں کے تحت زندگی بسر کرنے والی اقلیتوں کی ثقافتیں اس دولت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوئی ہیں، جسے مسلمانوں نے بطور وراثت حاصل کر کے فروغ دیا ہے۔میں اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمیں اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ اگر اقلیتیں انسانی علم و فکر کی دولت میں اضافہ کر سکنے کے قابل ہوں گی، تو یہ امر پاکستان کی نیک نامی میں چار چاند لگائے گا اور اس سے قوم کی زندگی اور توانائی میں   قابل قدر اضافہ ہو گا۔ اس لیے اقلیتوں کو نہ صرف مکمل آزادی کی توقع کرنی چاہیے، بلکہ یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اکثریت ان کے ساتھ قدر دانی اور احترام کا وہی برتاؤ کرے گی، جو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

جناب والا، قرارداد کے مطابق طرز حکومت وفاقی ہونا چاہیے، کیونکہ جغرافیائی حالات اسی قسم کی طرز حکومت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس صورت میں، جب کہ ہمارے ملک کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلہ موجود ہے۔مجلس دستور ساز، ان جغرافیائی وحدتوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لانے اور بہتر رابطے پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی، جن سے ہماری قوم پوری طرح متحد و منظم بن جائے۔ بلاشبہہ میں نے ہمیشہ صوبہ پرستی کے جذبات کو بھڑکانے کی کوششوں کی سخت مخالفت کی ہے، مگر میں اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں، کہ میں غیر منصفانہ یکسانیت کا حامی بھی نہیں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جن علاقوں اور جغرافیائی اکائیوں پر پاکستان مشتمل ہے، ان سب کو ہماری قومی زندگی کی خوبیاں بڑھانے میں حصہ لینا چاہیے۔ لیکن میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کسی ایسی بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے، کہ جو کسی طرح بھی پاکستان کی قومی وحدت کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنے۔ ہم آبادی کے مختلف طبقوں کے موجودہ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا بندوبست کرنے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مجلس دستور ساز کو اس مسئلے پر ازسرنو غور کرنا ہو گا، کہ کون سے امور مرکز کے تحت ہونے چاہییں اور کون سے امور صوبوں کے پاس رہیں؟ -- مزید یہ کہ ہمارے نئے نظام میں صو بوں کا تعین کس طرح کیا جائے؟

صدر محترم، بعض بنیادی حقوق کے تحفظ کا یقین دلانا بھی ایک رسمی سی بات ہو گئی ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ایک ہاتھ سے حقوق دیں اور دوسرے ہاتھ سے انھیں واپس لے لیں۔ میں اس بات کے ثبوت میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں، کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک آزاد رو حکومت بنانا چاہتے ہیں، جس کے تمام ارکان کو زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو گی۔ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے، کہ ان فرقوں کے شخصی قانون (personal law) کا تحفظ نہیں کیا جائے گا۔ قانون، حیثیت اور انصاف کے معاملے میں مساوات ہماراعقیدہ ہے۔

یہ ہمارا پختہ یقین ہے اور ہم نے اکثر جگہ اس کا اعلان کیا ہے، کہ پاکستان مفاد پرستوں اور مال دار طبقوں کی ہوس زر کے لیے نہیں بنا ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر ایک منصفانہ معاشی نظام تعمیر کرنا ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ یہ اصول دولت کی بہتر تقسیم میں اور ناداری کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اپنے عروج و کمال پر پہنچنے میں جو وجوہ انسانیت کی راہ میں مانع ہیں، وہ افلاس اور پس ماندگی ہیں، اور پاکستان سے ہم (ان شاء اﷲ) ان کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ اس وقت ہمارے عوام غریب و ناخواندہ اور ان پڑھ ہیں، چنانچہ ہمیں ضرور ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔ انھیں افلاس اور جہالت کی زنجیروں سے ضرور آزاد کرانا ہے۔

جہاں تک سیاسی حقوق کا تعلق ہے، تو اس ضمن میںحکومت کی اجتماعی حکمت عملی کے تعین میں اور ان لوگوں کے انتخاب میں ہر شخص کو دخل ہو گا، جو حکومت چلانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے، تاکہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں حکومت کا نظم و نسق ہو، وہ مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ چونکہ ہمیں یہ یقین ہے کہ خیالات کے اظہار پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ کسی شخص کو اس کے خیالات کے اظہار سے باز رکھیں۔ نہ ہم کسی کو جائزقانونی اور اخلاقی مقاصد کے پیش نظر عوامی رابطے اور انجمن سازی سے روکنا چاہتے ہیں۔  مختصر یہ کہ ہم اپنے نظام حکومت کی بنیاد آزادی، ترقی اور سماجی عدل پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سماجی عدمِ توازن کو اس طریقے سے ختم کرناچاہتے ہیں، کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے اور انسانی خیالات اور جائز رجحانات پر بھی پابندیاں عائد نہ ہوں۔

جناب والا، اقلیتوں کے بہت سے مفادات ایسے ہیں جن کا وہ بجا طور پرتحفظ چاہتے ہیں۔ یہ قرارداد ان حقوق کے برملا تحفظ کی ضامن ہے۔ ہماری خصوصی ذمہ داری معاشی اعتبار سے پس ماندہ لوگوں کی دست گیری سے منسوب ہے۔ ہم اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ   وہ بغیر کسی قصور کے اپنی موجودہ قابل رحم حالت میں مبتلا ہیں۔ پھریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ان    ہم وطنوں کی اس معاشی زبوں حالی تک پہنچنے کے کسی طرح بھی ذمہ دار نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ہمارے شہری ہیں، اس لیے ہماری خاص طور پر یہ کوشش ہو گی، کہ ہم انھیں دوسرے آسودہ حال شہریوں کے دوش بدوش لے آئیں، تاکہ وہ ان ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں، جو ایک آزاد اور ترقی پسند مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب تک ہمارے عوام میں پس ماندہ طبقے موجود ہیں، ہمارے معاشرے کی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ لہٰذا، مملکت کی تعمیر کے لیے یہ ضروری ہے ،کہ ہم ان پس ماندہ اور زیردست طبقوں کے بنیادی، معاشی اور سماجی مفادات کو ملحوظ رکھیں۔

آخر میں، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں اور ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم پاکستان کی بنیادیں ان اصولوں پر قائم کر کے، جن کی وضاحت کی گئی ہے، اس مملکت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا، جس کے باشندے بلا تمیز عقیدہ و حیثیت اس پر فخر کیا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے عوام بڑی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اپنی بے بہا قربانیوں اور اس قابل تعریف نظم وضبط کی بدولت جس کا مظاہرہ انھوں نے ایک ابتلائی اور تاریک دور میں کیا ہے، وہ تمام دنیا سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی قوم نہ صرف زندہ رہنے کی مستحق ہے، بلکہ وہ انسانیت کی فلاح اور ترقی میں بھی لازمی طور پر اضافہ کرے گی۔ یہ ضروری ہے کہ ہماری قوم اپنے جذبۂ قربانی کو زندہ رکھے اور اپنے اعلیٰ نصب العین پر قائم رہے۔ پھر قدرت خود اسے اس بلند مقام پر پہنچا دے گی، جو دُنیاوی امور کی انجام دہی کے سلسلے میں اس کے لیے موزوں ہے، اور اسے انسانیت کی تاریخ میں زندہ جاوید بنا دے گی۔

جناب والا، یہ قوم زبردست کامیابیوں کی روایات رکھتی ہے۔ اس کی تاریخ شان دار کارناموں سے بھرپور ہے۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے ساتھ پورا پورا حصہ لیا ہے۔ ہماری قوم کی بہادری کے کارنامے فوجی تاریخ کی زینت ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کے ارکان    نظم و نسق نے ایسی روایات قائم کی ہیں، جو زمانے کی دست برد سے اب تک محفوظ ہیں۔ اس کے تخلیقی فنون، شعر و شاعری، فن تعمیر اور جمالیاتی ذوق نے دنیا بھر سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔ روحانی عظمت کے لحاظ سے یہ قوم عدیم المثال ہے۔ اب پھر یہی قوم راہ عمل پر گام زن ہے اور اگر اسے ضروری مواقع میسر آ جائیں تو وہ اپنی شان دار کامیابیوں کی سابقہ عظیم الشان روایات سے بھی بہتر کام کر دکھائے گی --- قرارداد مقاصد اس ماحول کو پیدا کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، جس سے قوم کی روح پھر سے بیدار ہو جائے گی۔

اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کوقوم کی اس نشاتِ ثانیہ کے زبردست عمل میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا ہے، خواہ وہ حصہ کتنا ہی حقیر اور غیر اہم کیوں نہ ہو۔ ہم ان زبردست اور گونا گوں مواقع سے، جو آج ہمیں حاصل ہیں، محو حیرت ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مواقع سے خردمندی اور    دُور اندیشی کے ساتھ فائدہ اٹھائیں۔ مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں، کہ اﷲ کے فضل و کرم سے جس کی رحمت سے پاکستان قائم ہوا ہے، ہماری یہ کوششیں ہماری بڑی سے بڑی توقعات سے   بڑھ چڑھ کر بار آور ثابت ہوں گی۔

بڑی قوموں کو اپنی میراث روز روز نہیں ملتی۔ قوموں کی نشاتِ ثانیہ کا دروازہ ہر روز نہیں کھلتا۔ قدرت ہر روز مظلوموں اور محکوموں کو نہیں ابھارتی اور انھیں شان دار مستقبل کی طرف بڑھنے کی باربار دعوت نہیں دیتی۔ روشنی کی کرنیں افق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں اور ہم اس طلوع کا اس قرارداد کی شکل میں خیر مقدم کرتے ہیں۔

__ ۲ __

مولانا شبیر احمد عثمانی

جناب صدر محترم!

قرار داد مقاصد کے اعتبارسے جو مقدس اور محتاط تجویز آنریبل مسٹر لیاقت علی خاں صاحب نے ایوان ہذا کے سامنے پیش کی ہے، میں نہ صرف اس کی تائید کرتا ہوں، بلکہ آج اس بیسویںصدی میں (جب کہ ملحدانہ نظریات حیات کی شدید کش مکش اپنے عروچ پر پہنچ چکی ہے) ایسی چیز کے پیش کرنے پر موصوف کی عزم و ہمت اور جرأت ایمانی کو مبارک باد دیتا ہوں۔

اگر غور کیا جائے تو یہ مبارک باد فی الحقیقت میری ذات کی طرف سے نہیں، بلکہ اس پسی ہوئی اور کچلی ہوئی روح انسانیت کی جانب سے ہے، جو خالص مادہ پرست طاقتوں کی حریفانہ حرص و آز اور رقیبانہ ہوس ناکیوں کے میدانِ کارزار میں مدتوں سے پڑی کراہ رہی ہے۔ اس کے کراہنے کی آوازیں اس قدر درد انگیز ہیں کہ بعض اوقات اس کے سنگ دل قاتل بھی گھبرا اٹھتے ہیں، اور اپنی جارحانہ حرکات پر نادم ہوکر تھوڑی دیر کے لیے مداوا تلاش کرنے لگتے ہیں۔ مگر پھر علاج و دوا کی جستجو میں وہ اس لیے ناکام رہتے ہیں، کہ جو مرض کا اصل سبب ہے اسی کو دوا اور اکسیر سے سوا سمجھ لیا جاتا ہے۔

یاد رکھیے، دنیا اپنے خود ساختہ اصولوں کے جس جال میں پھنس چکی ہے، اس سے نکلنے کے لیے جس قدر پھڑ پھڑائے گی، اسی قدر جال کے حلقوں کی گرفت اور زیادہ سخت ہوتی جائے گی۔ وہ صحیح راستہ گم کر چکی ہے۔ جو راستہ اب اختیار کررکھا ہے، اس پر جتنے زور سے بھاگے گی، وہ حقیقی فوزو فلاح کی منزل سے دور ہی ہوتی چلی جائے گی۔

ہمیں اپنے نظام حیات کو درست اور کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا انجن جس لائن پر اندھا دھند چلا جا رہا ہے اسے تبدیل کریں، اور جس طرح بعض دفعہ لائن تبدیل کرتے وقت گاڑی کو کچھ پیچھے ہٹانا پڑتا ہے، ایسے ہی صحیح لائن پرآگے بڑھنے کی غرض سے ہم کو پیچھے ہٹنا پڑے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر ایک شخص کسی راستے پر بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور ہم دیکھیں کہ چند قدم آگے بڑھنے پر وہ کسی ہلاکت کے غار میں جا پڑے گا تو ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ اسے ادھر سے پیچھے ہٹاکر صاف اور سیدھی شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ یہی حال آج دُنیا کا ہے۔ اگر ہماری اس نئی اور بے چین دنیا کو اپنے تباہ کن مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، تو اسے حالات کا بالکل جڑ بنیاد سے از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ کسی درخت کی شاخوں اورپتوں پر پانی چھڑکتے رہنا    بے کار ہے، اگر اس کی جڑ جوسیکڑوں من مٹی کے نیچے دبی ہوئی ہے مضبوط نہ ہو۔

آج کے بہت سے بکھرے ہوئے مسائل خواہ ان سے آپ کو کتنی ہی دل چسپی اور شغف کیوں نہ ہو، کبھی ٹھیک طور پر سنور اور سلجھ نہیں سکتے، جب تک ان کے اصول بلکہ اصل الاصول درست نہ ہو جائے۔ ’قدامت پرستی‘ اور ’رجعت پسندی‘ کے طعنوں سے نہ گھبرائیے،بلکہ کشادہ دل و دماغ کے ساتھ، ایک متجسّسِ حق کی طرح الجھی ہوئی ڈور کا سرا پکڑنے کی کوشش کیجیے۔ جو باتیں طاقت ور اور ذی اقتدار قوموں کے زبردست پروپیگنڈے یا غیر شعوری طور پر ان کے حاکمانہ اقتدار اور مسحور کن مادی ترقیات کے زور و اثر سے بطور مسلمات عامہ، اصول موضوعہ اور مفروع عنہا صداقتوں کے [طور پر] تسلیم کرلی گئی ہیں، انھی پر تجدید فکر و نظر کی ضرورت ہے۔ اس پکے ارادے کے ساتھ کہ جس چیز پر ہم صدیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں اعتقاد جمائے بیٹھے تھے، وضوح حق [یعنی اظہار حق] کے بعد ایک لمحے کے لیے اس پر قائم رہنا ہم جرم عظیم سمجھیں گے۔ اگر دنیا کو انسانیت کی حقیقی فلاح کے لیے کسی نتیجے پر پہنچنا ہے، تو اُسے اُن قدیم اور اٹل نظریات پر ضرور غور کرنا ہوگا، جنھیں مادی اور معاشی مسابقت کی بے تحاشا دوڑ میں بہت سی قومیں پیچھے چھوڑ آئی ہیں۔

اسے یوں خیال کیجیے کہ کتنی صدیوں تک سکون ارض کے متعلق بطلیموس کا نظریہ ۱- دُنیا پر مستولی رہا اور فیثا غورث کی آواز پر کسی نے توجہ نہ کی۔۲- پھر ایک وقت آیا کہ ہزاروں من مٹی کے نیچے دبا ہوا وہ بیج جو فیثا غورث دبا گیا تھا، زمین کے سینے کو چاک کرکے باہر نکلا اور برگ و بار لا کر رہا۔ سچائی کا پرستار کبھی اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی زمانے میں یا طویل عرصے تک لوگ اس کے ماننے سے آنکھیں چرائیں گے، یا ناک بھوں چڑھائیں گے۔ حق اکیلا رہ کر بھی حق ہی رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا، کہ جب اس کے جھٹلانے والے زمانے کے دھکے مکے کھاکر اسی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ آج وہ دن قریب آرہا ہے اور جیسا کہ آنریبل جناب لیاقت علی خاں نے فرمایا:’روشنی کی کرنیںاُفق پر ظاہر ہو کر طلوع ہونے والے روز روشن کا پیش خیمہ بن رہی ہیں‘۔

ضرورت ہے کہ ہم اپنے کو خفاش [چمگاڈر] صفت ثابت نہ کریں، جو دن کی روشنی کو دیکھنے کی تاب نہیں لاسکتی۔ پاکستان، مادیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی اور دہریت و الحاد کے اندھیروں میں بھٹکی ہوئی دنیا کو روشنی کا ایک مینار دکھانا چاہتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے کوئی چیلنج نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے پر امن پیغام حیات و نجات ہے اور اطمینان اور خوش حالی کی راہ تلاش کرنے والوں کے لیے سہولت مہیا کرتا ہے۔ ہمارا غیر متزلزل عقیدہ ہے کہ دنیا کے لیے عموماً اور پاکستان کے لیے خصوصاً کسی قسم کا نظام تجویز کرنے سے پہلے پوری قطعیت کے ساتھ یہ جان لیناضروری ہے کہ، اس تمام کائنات کا جس میں ہم سب اور ہماری یہ مملکت بھی شامل ہے، مالک اصلی اور حاکم حقیقی کون ہے؟ اور ہے یا نہیں؟

اب اگر ہم اس کا مالک کسی خالق الکل اور مقتدر اعلیٰ ہستی کو مانتے ہیں، جیسا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس ایوان کے تمام ارکان و اعضا کا یہ عقیدہ ہوگا، تو ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہوگا کہ کسی مالک کی خصوصاً اس مالک علی الاطلاق کی مِلک میں ہم اسی حد تک تصرف کرنے کے مجاز ہیں، جہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمیں اجازت دے دے۔ ملکِ غیر میں کوئی غاصبانہ تصرف ہمارے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔ پھر ظاہر ہے کہ کسی مالک کی اجازت و مرضی کا علم اس کے بتلانے ہی سے ہو سکتا ہے۔ سو، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہم السلام اسی لیے بھیجے، اوروحی ربانی کا سلسلہ اسی لیے قائم کیا، کہ انسانوں کو اس کی مرضی اور اجازت کے صحیح حدود معلوم کرا دیے جائیں۔ اسی نکتۂ خیال کے پیش نظر ریزولیوشن میں: ’اسی کے مقرر کردہ حدود کے اندر‘ کے الفاظ رکھے گئے ہیں اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جہاں سے دینی اور خالص مادی حکومتوں کی لائنیں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔

یہ نظریہ کہ:’ دین و مذہب کا تعلق انسان اور اس کے مالک سے ہے، بندوں کے باہمی معاملات سے اسے کچھ سروکار نہیں، نہ سیاست میں اس کا کوئی دخل ہے‘۔ اسلام نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ممکن ہے دوسرے مذاہب جو آج کل دنیا میں موجود ہیں، ان کے نزدیک یہ نظریہ درست ہو اور وہ خود کسی جامع و حاوی نظام حیات سے تہی دامن ہوں، مگر جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ایسے تصور کی اس میں کوئی گنجایش نہیں، بلکہ اس کی تمام تر تعلیمات اس باطل تصور کی دشمن ہیں۔

قائد اعظم مرحوم نے ۱۷ ستمبر ۱۹۴۴ء کوگاندھی جی کے نام جو خط لکھا تھا، اس میں لکھتے ہیں:

قرآن، مسلمانوں کا مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی، غرض کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امور حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق و فرائض تک، دنیوی زندگی میں جزا و سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا و سزا تک، ہر فعل، قول اور حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا، جب میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات و مابعد حیات کے ہر معیار اور ہر مقدار کے مطابق کہتا ہوں۔

۱۹۴۵ء میں قائداعظم مرحوم نے عید کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ:

ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی تعلیمات محض عبادات اور اخلاقیات تک محدود نہیں، بلکہ قرآن کریم مسلمانوں کا دین و ایمان اور قانون حیات ہے، یعنی مذہبی، معاشرتی، تجارتی، تمدنی، عسکری، عدالتی اور تعزیری احکام کا مجموعہ ہے۔ ہمارے رسول ؐ کا ہم کو یہ حکم ہے کہ ہر مسلمان کے پاس اللہ کے کلام پاک کا ایک نسخہ ضرور ہو اور وہ اس کا بغورمطالعہ کرے، تاکہ یہ اس کی انفرادی و اجتماعی ہدایات کا باعث ہو۔

قائداعظم نے ان خیالات وعزائم کا بار باراظہار کیا ہے۔ کیا ایسی واضح اور مکرر تصریحات کے بعد کوئی شخص یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ سیاست و حکومت، مذہب سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی، یا یہ کہ اگرآج قائداعظم زندہ ہوتے تو یہ ’قرار دادمقاصد‘ پیش نہیں ہوسکتی تھی۔

قرآن حکیم میں صاف صاف ارشاد ہے:

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (النساء ۴:۶۵) نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے۔ جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔

اور[قرآن کریم مزید یہ کہتا ہے]:

وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ o (المائدہ۵:۴۴) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں....الظّٰلِمُوْنَ (البقرہ ۲:۲۲۹) وہی ظالم ہیں.... الْفٰسِقُوْنَ (البقرہ ۲:۹۹) جو فاسق ہیں۔

اس موقع پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں دینی حکومت کے معنی ’پاپائیت‘ یا ’کلیسائی حکومت‘ کے نہیں ہیں۔ بھلا جس بت کو قرآن نے اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ [انھوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ التوبہ ۹:۳۱]  کہہ کر توڑا ہے، کیا وہ اسی کی پرستش کو جائز رکھ سکتا ہے؟

اسلامی حکومت سے مراد وہ حکومت ہے، جو اسلام کے بتائے ہوئے اعلیٰ اور پاکیزہ اصول پر چلائی جائے۔ اس لحاظ سے وہ ایک خاص قسم کی اصولی حکومت ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی اصولی حکومت کو چلانا خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی دراصل انھی لوگوں کا کام ہو سکتا ہے، جو ان اصولوں کو مانتے ہوں۔ جو لوگ ان اصولوں کو نہیں مانتے، ایسی حکومت، انتظام مملکت میں ان کی خدمات تو ضرور حاصل کرسکتی ہے، مگر مملکت کی جنرل پالیسی یا کلیدی انتظام کی باگ ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑ سکتی۔

اسلامی حکومت دراصل نیابتی حکومت ہے۔ اصل حاکم خدا ہے۔ انسان زمین پر اس کا خلیفہ ہے، جو حکومت درحکومت کے اصول پر دوسرے مذہبی فرائض کی طرح نیابت کی ذمہ داریوں کو بھی خدا کی مقرر کردہ حدود کے اندر پورا کرتا ہے۔

مکمل اسلامی حکومت، حکومت راشدہؓ ہوتی ہے۔ لفظ ’رشد‘ حکومت کے انتہائی اعلیٰ   معیارِ حسن و خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت، حکومت کے کارکن، اور مملکت کے عوام کو نیکوکار ہونا چاہیے۔ قرآن نے حکومتِ اسلامی کی یہی غرض و غایت قراردی ہے، کہ وہ انسانوں کو اپنے دائرۂ اقتدار میں نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔

اسلام آج کل کی سرمایہ پرستی کے خلاف ہے۔ اسلامی حکومت اپنے خاص طریقوں سے جو اشتراکی طریقوں سے الگ ہیں، جمع شدہ سرمایے کی مناسب تقسیم کا حکم دیتی ہے، اس کو دائر و سائر رکھنا چاہتی ہے۔ مگر اس کام کو اخلاقی، نیز قانونی طریقے پر عام خوش دلی، عدل، اور اعتدال کے ساتھ کرتی ہے۔ اسلامی حکومت شخصی ملکیت کی نفی نہیں کرتی۔ مناسب حد تک ’راس المال‘ رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ زائد سرمایے کے لیے ملّی بیت المال قائم کرتی ہے۔ جس میں سب کے حقوق مشترک ہیں اور اس سرمایے کی تقسیم سے سرمایے اور افلاس کے درمیان توازن اور اعتدال کو بحال رکھتی ہے۔

’شوریٰ‘ اسلامی حکومت کی اصل ہے: وَاَمْرُہُمْ شَوْرٰی بَیْنَہُمْ ص(الشورٰی ۴۲:۳۸)۔ اسلامی حکومت دنیا میں پہلا ادارہ ہے، جس نے شہنشاہیت کو ختم کرکے استصواب راے عامہ کا اصول جاری کیا، اور بادشاہ کی جگہ عوا م کے انتخاب کردہ امام (سربراہ ریاست ) کو حکومت عطا کی۔ محض توریث [وراثت] یا جبر و استبداد کے راستوں سے بادشاہ بن بیٹھنا اسلام کے منشا کے سراسر خلاف ہے۔ وہ جمہور کی مرضی اور انھی کے ہاتھوں سے اسٹیٹ کو اختیار دلاتا ہے۔ ہاں، انھیں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ امارت کی کوئی تنظیم نہ کریں اور اقتدار اپنے ہی پاس روک کر انتشار، ابتری اور طوائف الملوکی پھیلادیں۔ یہ اولیت کا ایسا شرف ہے، جو اسلامی حکومت کو دنیا کی تمام جمہوریتوں پر حاصل ہے۔

اسلامی سلطنت کا بلند ترین منتہاے خیال یہ ہے کہ سلطنت کی بنا جغرافیائی، نسلی، قومی، حرفتی، اور طبقاتی قیود سے بالا تر ہو کر انسانیت اور ان اعلیٰ اصولوں پر ہو، جن کی تشیید و ترویج کے لیے وہ قائم کی جاتی ہے۔

اسلامی حکومت پہلی حکومت ہے، جس نے اس منتہاے خیال کو پورا کرنے کے لیے اپنی خلافت راشدہ کی بنیاد انسانیت پر رکھی۔ یہ حکومت اپنے کاموں میں راے عامہ، مساوات حقوق، آزادیِ ضمیر، اور سادگی کا امکانی حد تک خیال رکھتی ہے۔

اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے قلمرو میں بسنے والے تمام غیر مسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں [ان کے] جان، مال، آبرو، مذہبی آزادی اور عام شہری حقوق کی پوری حفاظت کرے۔ اگر کوئی طاقت ان کے جان و مال وغیرہ پر دست درازی کرے تو حکومت اس سے جنگ کرے، اور ان [غیر مسلم شہریوں] پر کوئی ایسا بار نہ ڈالے، جو ان کے لیے ناقابل تحمل ہو۔ جو ملک صلحاً حاصل ہوا ہو، وہاں کے غیرمسلموں سے جو شرائط طے ہوئے ہوں، ان کی پوری پوری پابندی کی جائے۔ پھرغیر مسلموں کے یہ حقوق محض اکثریت کے رحم و کرم پر نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عائد کیا ہوا ایک فرض ہے، جس سے کسی وقت بھی انحراف جائز نہیں۔

اس کے بعد دینی حکومت کی مزعومہ خرابیوں کا جہاں تک تعلق ہے، جواب میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ علم و تحقیق کی روشنی میں موجودہ ترقی یافتہ حکومتوں کے طور طریقوں کو خلفاے اربعہ ؓ کے   بے داغ عہد حکومت کے مقابلے میں رکھ کر مفاد عامہ کے لحاظ سے وزن کر لیا جائے۔ آج ظلم و جبر، عہدشکنی، مالی دست برد، کشت و خون، بربادی و ہلاکت، انسانی جماعتوں کی باہمی دشمنی، افراد کی  عدم مساوات اور جمہور کے حقوق کی پامالی کی جو مثالیں دور بین سے دیکھے بغیر صاف نظر آرہی ہیں، خلفاے [راشدینؓ] کے ترقی یافتہ عہد میں اس کا خفیف سا نشان بھی نہ ملے گا۔ غرض یہ کہ بیان کردہ خرابیاں اسلامی حکومت کی خرابیاں نہیں ہیں، بلکہ ان انسانی گمراہیوں سے اخذ کی گئی ہیں، جنھوں نے خالص مادی طرز حکومت کی داغ بیل ڈالی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گاندھی جی نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۳۷ء میں آپ نے کانگرسی وزرا کو یہ ہدایات دیں کہ: ’تم ابوبکرؓ اور عمرؓ کی سی حکومت قائم کرو‘، نیز قائداعظم مرحوم نے دستور کی اسی اساس کی طرف اشارہ کیا تھا، جب ۱۹۴۳ء میں بمقام جالندھر، آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کرتے ہوئے فرمایا کہ:’’میرے خیال میں مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیا تھا‘‘۔

قائداعظم نے نومبر ۱۹۴۵ء میں پیر صاحب مانکی شریف کے نام جو خط لکھا، اس میں  صاف صاف لکھ دیا تھا کہ:

اس بات کے کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ قانون ساز اسمبلی، جس میں بہت زیادہ اکثریت مسلمانوں کی ہو گی، مسلمانوں کے لیے ایسے قانون بنا سکے گی جو اسلامی قانون کے خلاف ہو اور نہ پاکستانی غیر اسلامی قانون پر عمل کر سکیںگے۔

اس قسم کے اعلانات قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم اور دوسرے زعماے [مسلم] لیگ کی طرف سے برابر ہوتے رہے، جن کا بخوف طوالت ہم استیعاب نہیں کرسکتے۔

بہرحال، ان بیانات کے پڑھنے کے بعد کسی مسلم یا غیر مسلم کو ہمارے مقصد اور مطمح نظر کو سمجھنے میں کوئی ابہام و اشتباہ نہیں رہ سکتا، اور جس قدر باتیں آئین و نظام اسلامی کے متعلق بطور اعتراض آج کہی جارہی ہیں، ان سب کے سوچنے کا وقت وہ تھا: جب پوری صراحت کے ساتھ یہ اعلانات کیے جارہے تھے۔ جب یہ سب کچھ جان کر اور سمجھ کر دوسری قوم نے تقسیم ہند کے فیصلے پر دستخط کیے اور پاکستان کی اقلیت نے ان مقاصد کو مانتے ہوئے ہمارے ساتھ اشراک عمل کیا۔اب پاکستان قائم ہونے کے بعد اس نقطۂ نظر سے انحراف کی کوئی وجۂ جواز ان کے پاس موجود نہیں۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ انڈین یونین کا قیام تو ہندو اور نیشنلسٹ مسلمانوں کی مخلوط مساعی سے عمل میں آیا ہے۔ لیکن پاکستان کا حصول خالص مسلم قوم کی مساعی اور قربانیوں کا رہین منت ہے، اور ان کی قومی خصائص و ممیزات کے تحفظ کا داعیہ اس کا محرک ہوا ہے۔ اب اگر ایسی سیدھی اور صاف بات کو بھی بھلا دیا جائے تو اس کا کچھ علاج ہمارے پاس نہیں۔

اس موقع پر یہ بات بھی فراموش نہ کیجیے کہ آج دنیا میں معاشی اختلال اور اقتصادی    عدم توازن کی وجہ سے ملحدانہ اشتراکیت (کمیونزم) کا سیلاب ہر طرف سے بڑھتا چلا آرہا ہے۔ اس کا صحیح اوراصولی مقابلہ اگر دنیا میں کوئی نظام کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہے۔ اگر ہم پاکستان یا عالم اسلام کو اس بھیانک خطرے سے بچانا چاہتے ہیں، تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کا اعلان و آغاز کریں، اور تمام اسلامی ممالک کو اسلام کے نام پر اسی کی دعوت دیں۔ اگر اس طرح تمام اسلامی ممالک آئینی طور پر متحدہ ہوگئے تو قدرتی طور پر  وہ وحدت اسلامی قائم ہو جائے گی، جس کی ہم سب مدت سے آرزو رکھتے ہیں، اور جو اشتراکیت اور سرمایہ پرستی دونوں کی روک تھام کے لیے مضبوط آہنی دیوار کا کام دے گی۔

بہت سے لوگوں کو یہ خیال گزرتا ہے کہ: ’ابھی تک ہمارا کاروبار جس ڈگر پر چل رہا ہے، اسلام اور اسلامی آئین کا اعلان کرکے ہم اسے ایک دم کیسے بدل سکتے ہیں؟ یہ تو ہمارے     اجتماعی حالات میں ایسا انقلاب عظیم ہوگا جو ہماری قومی زندگی کی کایا پلٹ کررکھ دے گا، اور جس کے لیے ہمیں جدید کانسٹی ٹیوشن کے چلانے کے لیے کثیر تعداد میں مناسب رجال کار تیار کرنے پڑیں گے، اور [اس کے لیے] بہت طویل عرصہ درکار ہوگا‘___ میں کہتا ہوں کہ ان حضرات کا یہ خیال ایک حد تک صحیح ہے، لیکن اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے بھی اسے بخوبی محسوس کرتے ہیں۔

اسلامی آئین و نظام کے اعلان سے غرض یہ ہے کہ مملکت کا اصلی نصب العین اور اس کی انتہائی منزل مقصود واضح اور مستحضر ہو جائے، تاکہ اس کی روشنی میں ہمارا جو قدم اٹھے، وہ ہم کو آخری منزل سے قریب تر کرنے والا ہو۔ یہ کام ظاہر ہے کہ بتدریج ہوگا اور بتدریج ہی ہوسکتاہے۔ جو کام فی الحال کیے جاسکتے ہیں، وہ فوراً کرنے ہوں گے، اور جن کاموں کے لیے سردست حالات ساز گار نہیں ہیں وہ فوراً نفاذ پذیر نہ ہوں گے، بلکہ حکیمانہ اسلوب پر حالات کوساز گار بنانے کی ہر امکانی کوشش عمل میں لائی جائے گی۔ بہرحال انسان اسی چیز کا مکلف ہے، جس کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔

یہی وہ بات ہے جو میں تقسیم سے قبل اپنے مختلف بیانات و خطبات میں کھول کر کہہ چکاہوں۔ چنانچہ خطبہ لاہور میں، میں نے عرض کیا تھا کہ: ’جس طرح رات کی تاریکی آہستہ آہستہ  کم ہوتی اور دن کی روشنی بہ تدریج پھیلتی ہے، یا جس طرح ایک پر انا مریض دھیرے دھیرے  صحت کی طرف قدم اٹھاتا ہے، دفعتہً وبَغْتَہًً بیماری سے چنگا نہیں ہوجاتا، اسی طرح پاکستان ہماری قومی صحت اور ہماری مکمل ترین آزادی کے نصف النہار کی طرف تدریجی قدم اٹھائے گا‘۔

جناب صدر محترم!

آخر میں ایوان ہذا کے معزز ممبران کی خدمت میں، میں عرض کروں گا، کہ اس ڈھیلے ڈھالے ریزولیوشن سے گھبرانے اور وحشت کھانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی فرقوں کے اختلافات تحریک پاکستان کی برکت سے بہت کم ہو چکے ہیں، اور اگرچہ کچھ باقی ہیں تو ان شاء اللہ برادرانہ مفاہمت سے صاف ہو جائیں گے۔ کیونکہ تمام اسلامی فرقے اور ملک، آج اسلامی نظام کی ضرورت کو بہت شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں۔ اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے غیر مسلم دوست بھی اگر ایک مرتبہ تھوڑا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں گے، تو اگلی اور پچھلی سب تلخیاں بھول جائیں گے اور بہت مطمئن رہیں گے، بلکہ فخر کریں گے کہ ہم سب پاکستانیوں نے مل کر عام ہیجان اور اضطراب کے زمانے میں انسانیت عامہ کی اس قدر عظیم الشان خدمت انجام دی، وَمَاذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزَیزَ۔

اب بڑا اہم کام ہمارے سامنے یہ ہے کہ دستور سازی کی مہم ایسے قابل ، فہیم، مضبوط اور محتاط ہاتھوں کے سپرد ہو ،جو اس ریزولیوشن کے خاص خاص نکتوں کی حفاظت کرسکیں، اس کے    فحوا [مفہوم] کو بخوبی سمجھ سکیں، اور جو دستور تیار کیا جائے وہ صحیح لائن سے ہٹنے نہ پائے۔ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہے، جو اللہ ہی کی توفیق سے آسان ہو گا۔ بہرحال ہم آیندہ کام کرنے میں ہر قدم پر اس چیز کے منتظر رہیں گے، وَبِاللّٰہِ التُّوْفِیْقَ۔

 

بلوچستان، پاکستان کا چوتھا اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہ کُل پاکستان کا تقریباً ۴۴ فی صد ہے۔ اس اعتبار سے یہ نصف پاکستان کہلانے کا مستحق ہے۔ اپنے منفرد محلِ وقوع کے باعث اس کی جغرافیائی اہمیت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دنیا کے مغرب کو مشرق سے ملانے اور وسط ایشیا کے ذخائرِ توانائی کو مغربی منڈیوں تک پہنچانے کا مختصر راستہ فراہم کرتا ہے۔  اس کی طویل سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ بلوچستان کو بے بہا معدنی دولت اور وسائلِ حیات سے سرفراز کیا ہے۔

بلوچستان میں حالیہ شورش، اضطراب اور بدامنی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس کے    پس منظر کو جاننے کے لیے یہ نکات پیش نظر رہیں تو صورتِ حال کا ادراک کرنا آسان ہوسکتاہے:

 ___بلوچستان کے علاقے سوئی سے معدنی گیس ۱۹۵۳ء میں دریافت ہوئی۔ چند ہی برسوں میں یہ گیس لاہور، اسلام آباد اور پشاور تک پہنچا دی گئی لیکن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں    یہ گیس ۳۲سال بعد ۱۹۸۵ء میں پہنچ سکی۔ بلوچستان کے کئی چھوٹے بڑے شہر آج تک اس   معدنی دولت سے محروم ہیں،بلکہ خود سوئی شہر کے کئی محلے اور آبادیاں بھی اس نعمت کو ترس رہی ہیں۔

 ___بلوچستان سے نکلنے والی معدنی گیس کی فی مکعب فٹ قیمت دوسرے صوبوں سے دریافت ہونے والی گیس کے مقابلے میں کم رکھی گئی۔ یہ قیمت حالیہ قومی مالیاتی اوارڈ میں یکساں کی گئی۔ اس طرح صوبے کا تقریباً نصف صدی تک استحصال جاری رکھا گیا۔

 ___وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ صرف ۳ء۳ فی صد تھا جسے چند ماہ پیش تر بڑھا کر ۵ فی صد کر دیا گیا ہے، لیکن اکثر ان ملازمتوں کو دوسرے صوبوں کے افراد سے پُر کر لیا جاتا ہے۔

 ___اکثر علاقوں میں پرائمری اسکول نہ ہونے کے باعث بلوچستان کے ۴۵ فی صد سے بھی کچھ کم بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہوپاتے ہیں۔ ہائی اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم کا اس سے بھی بُرا حال ہے۔ اسی بنا پر بلوچستان میں شرح خواندگی پورے ملک میں سب سے کم ہے۔ سرکاری اعداد و شمار میں ۳۶ فی صد لیکن حقیقت میں اس سے بھی بہت نیچے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے صوبے کا انحصار صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ پر ہے۔

 ___بلوچستان میں پینے کے صاف پانی تک صرف ۲۳ فی صد آبادی کو رسائی حاصل ہے، جب کہ ملک کے دوسرے صوبوں میں یہ شرح ۵۵ فی صد کے قریب ہے۔ صوبے میں آج بھی ایسی لاتعداد آبادیاں موجود ہیں، جہاں انسان اور مویشی ایک ہی تالاب سے مہینوں پرانا پانی پیتے ہیں۔ اسی بنا پر بلوچستان میں کالے یرقان کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

 ___سینی ٹیشن کی سہولت بلوچستان میں صرف ۱۸ فی صد لوگوں کو میسر ہے۔

 ___بجلی صوبے کے ۱۲ فی صد علاقے تک پہنچ پائی ہے، اور گیس کی سہولت والا علاقہ ۵فی صد سے زائد نہیں۔ گویا صوبے کا ۸۸ فی صد بجلی سے اور ۹۵ فی صد گیس سے محروم ہے۔

 ___مواصلات کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ صرف پانچ شاہراہوں سے مستفید ہورہا ہے۔ ان شاہراہوں کی حالت بھی سخت ناگفتہ بہ ہے، جب کہ بین الاضلاعی سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

 ___صوبے میں صحت کے معیار کا حال یہ ہے کہ ۳۱ اضلاع میں ماسواے کوئٹہ، کہیں بھی متوسط درجے کی سہولتوں کے حامل ہسپتال نہیں پائے جاتے۔ پورے صوبے کے علاوہ جنوب غربی افغانستان کے پانچ چھے شہروں کا بوجھ بھی کوئٹہ شہر کے چند ہسپتال برداشت کر رہے ہیں۔ دُور دراز سے بغرض علاج کوئٹہ تک کا سفر نہایت پُرصعوبت ہونے کے باعث بہت سے مریضوں بالخصوص حاملہ عورتوں کی اموات کا سبب بنتا ہے۔ دورانِ حمل اور زچگی کی حالت میں خواتین کی اموات بلوچستان میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی جاتی ہیں۔

 ___صوبے کے اعلیٰ انتظامی عہدے، مثلاً: آئی جی پولیس، ڈی آئی جی، آئی جی ایف سی، چیف سیکرٹری وغیرہ، نیز اعلیٰ آئینی عہدہ، گورنر صوبہ کے لیے غیربلوچستانی لوگوں کوتعینات   کیا جاتا رہا۔ چند استثنائی صورتوں کے علاوہ آج تک یہ صورت حال برقرار ہے۔ اسے صوبے کے سیاسی و عوامی حلقوں میں وفاق کی طرف سے بے اعتمادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 ___بلوچستان کے کم از کم چھے اضلاع (گوادر، تربت، پنج گور، خاران، واشک، چاغی) ایسے ہیں جہاں بنیادی اشیاے ضرورت اور روز مرہ استعمال کی اشیا ناپختہ اور طویل مسافتوں کے باعث پاکستانی منڈیوں سے نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ ان اضلاع کے لوگوں کی زندگی کا انحصار ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ سرحدی تجارت پر قائم ہے۔ شکر، انڈے اور آٹا تک ایران سے لانا پڑتا ہے۔ کسی وجہ سے یہ تجارت رک جائے تو زندگی مفلوج اور لوگوں کو قحط کا سامنا ہوجاتا ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان کی وفاقی ایجنسیوں (کسٹم، ایف آئی اے وغیرہ) کو یہ تجارت پسند نہیں۔ ان ایجنسیوں اور ایف سی کی فائرنگ سے آئے دن ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔

یہ وہ چند اہم عوامل ہیں جنھوں نے اہلِ بلوچستان کو وفاق سے بدظن اور دُور لاکھڑا کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبے کی اس بدحالی اور پس ماندگی میں خود بلوچستان کے سردار و نواب، بدعنوان سیاست دان، نااہل حکومتیں اور سول و فوجی بیورو کریسی پوری طرح شریک رہی ہیں۔ لیکن وفاقی اداروں کی بے توجہی اور استحصالی کردار بھی اتنا واضح ہے کہ انھیں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ عسکری کارروائی مسئلے کا حل نہیں ورنہ شاید پہلے آپریشن میں ہی مسئلہ حل ہوچکا ہوتا اور ۲۰۰۵ء میں پانچویں فوجی آپریشن کی ضرورت پیش نہ آتی۔

میگا پروجیکٹس اور اُن کی مخالفت

بلوچستان کے بڑے منصوبوں (میگا پراجیکٹس) کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان بڑے منصوبوں میں گوادر میں گہرے سمندر کی بندرگاہ، گوادر تا چمن تا وسط ایشیا ریلوے لائن اور شاہراہ کی تعمیر ، ریکوڈک اور سیندک میں سونے اور تانبے کا اخراج، دل بند کے مقام پر لوہے کی دریافت، ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن، چمالنگ میں کوئلے کے لیے کان کنی، اور اب ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کی تنصیب کے علاوہ بھی کچھ منصوبے شامل ہیں۔  ان میں سے ہر ایک منصوبہ ٹھیکے دار کمپنیوں کے ساتھ معدنی جنس کی دریافت سے لے کر فروختگی تک مختلف معاہدات کی بے شمار تفصیلات رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ تفصیلات معلومات افزا ہیں، تاہم ان کا احاطہ کرنا اس وقت ممکن نہیں۔

 ___ان منصوبوں کے بارے میں بلوچستان کے تمام سیاسی و سماجی حلقے بشمول قوم پرست اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ان کی دریافت، اخراج اور تجارت پرصوبے کا حق فائق ہے۔

 ___گوادر پورٹ کو چلانے، سیندک اور ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کے حوالے سے وفاق نے اب تک جو معاہدات کیے ہیں اُن میں بلوچستان کو مشاورت میں شریک نہیں کیا گیا۔

اس اصول کی بنا پر بلوچستان کی حالیہ حکومت نے نہ صرف گوادر پورٹ کا حقِ نگرانی   وفاق سے واپس حاصل کرلیا بلکہ ریکوڈک اور وفاق کے درمیان معاہدے کو بھی مسترد کردیا ہے۔ صوبائی حکومت نے قومی مالیاتی و ترقیاتی ادارے کے گذشتہ اجلاس سے ریکوڈک کے نئے منصوبے کی منظوری بھی حاصل کرلی ہے اور وفاق نے یہ منصوبہ صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا ہے۔ البتہ  اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تحت اُس کے ایک بنچ کے سامنے زیرسماعت ہے۔ پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ریکوڈک کے ذخائر کو صوبے اور ملک کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ قرار دیا ہے اور انھیں خود ملکی سطح پر نکالنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔

ایران، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن کے بارے میں مرکزی حکومت کا ابتدائی موقف یہ تھا کہ اس کی گیس بلوچستان کے کسی علاقے کو نہیں دی جائے گی ،بلکہ اسے نیشنل لائن سے جوڑا جائے گا۔ اس بے حکمت موقف کے سامنے آنے پر بلوچستان سے اس پائپ لائن کے تحفظ پر دھمکی آمیز انتباہ جاری کیا گیا۔ ان دھمکیوں کے بعد ہی مرکزی حکومت نے اپنے موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پائپ لائن کے راستے میں موجود آبادیوں کو یہ گیس فراہم کی جائے گی۔ البتہ تاحال اس منصوبے کے پاکستانی حصے پر کاغذات سے نکل کر برسرِ زمین کام شروع نہیں کیا جاسکا۔

بلوچستان کا ایک سخت گیر حلقہ ان منصوبوں کو لوٹ کھسوٹ اور بلوچ وسائل پر قبضہ گیری سے تعبیر کرتا ہے۔ بالخصوص گوادر بندرگاہ کی مخالفت میں یہ دلیل بھی دی جاتی رہی کہ اس منصوبے سے بلوچ اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن جائیں گے۔ بیرونِ صوبہ سے سرمایہ کار، ہنرمند اور مزدور گوادر کی ترقی کے لیے اتنی بڑی تعداد میں لائے جائیں گے کہ مقامی آبادی اُن میں گم ہوکر رہ جائے گی۔ اب اس مخالفت میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ان کے تدارک کے لیے  حکومتی کوششیں محض رسمی کارروائی ہیں۔

بلوچستان میں بیرونی مداخلت

صوبے میں جاری تشویش اور بدامنی کے ضمن میں بیرونی مداخلت کی بات مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ متعدد سیکورٹی ادارے بھی تواتر سے کر رہے ہیں۔ فی الواقع یہ مسئلہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے زیادہ خفیہ اداروں کے دائرۂ فرائض میں آتا ہے۔ وہی اس مداخلت کا کھوج لگانے اور اس کا سدِباب کرنے کے ذمہ دار ہیں، لیکن اُن کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔

تاریخی و جغرافیائی تجزیے کے دوران بیرونی مداخلت کے ضمن میں امریکا، بھارت، روس، ایران اور عرب امارات کا نام لیا جاتا ہے۔ ہر ایک ملک کی مداخلت کے لیے وجۂ جواز کے طور پر کئی عوامل بھی پیش کیے جاتے ہیں، البتہ امریکا و بھارت کی مداخلت کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ وسط ایشیائی ریاستوں کو بلوچستان کا تجارتی راستہ مل جانے کی صورت میں روس کی اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ امریکا خطے میں چین کے اثرورسوخ کو برداشت نہیں کرسکتا اور بھارت کی ازلی دشمنی کا اظہار ناروا مداخلت کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ تاہم، کچھ حلقوں کا تجزیہ ہے کہ گوادر پورٹ کی فعالیت سے چاہ بہار، بندرعباس اور دبئی کی بندرگاہیں غیرمؤثر ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔

ٹارگٹ کلنگ، لاپتا افراد اور مسخ شدہ لاشیں

جنرل پرویز مشرف کے دورِحکومت میں بلوچستان کے حالات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ ابتدا میں قومی تنصیبات پر حملے کیے جاتے تھے۔ بیورو کریسی کی سرپرستی میں تخریبی عناصر کو بھتوں کی ادایگی کے بعد حملے رُک جاتے۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ یہ سلسلہ عود کر آتا، بالآخر پالیسی کی تبدیلی کے ساتھ معاملہ کھلی جنگ کی صورت اختیار کر گیا اور سرکاری ایجنسیوں کے اہل کاروں کی    ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی۔ اسی دوران ۲۰۰۷ء میں نواب محمد اکبر خان بگٹی کو ہلاک کردیا گیا۔    اس اندوہناک واقعے کے بعد جگہ جگہ شورش پھوٹ پڑی۔ اس قتل کو ’پنجابی حملہ‘ قرار دیا گیا اور بلوچستان سمیت کوئٹہ میں پنجابی اور اُردو بولنے والے صدیوں سے آباد افراد پر حملے شروع ہوگئے۔ ۲۰۰۷ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک سیکڑوں آبادکار بے دردی سے ٹارگٹ بنا کر قتل کیے گئے۔ ہزاروں گھرانے خوف و ہراس کا شکار ہوکر نقل مکانی کرگئے۔ ان آباد کار مقتولین میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، پیشہ ورانہ ماہرین، اساتذہ، صحافی، ڈاکٹر، انجینیر، سیاست دان اور مزدور شامل تھے۔ انتظامی مشینری پولیس، لیویز اور دوسرے سیکورٹی ادارے مکمل طور پر ناکام رہے اور ٹارگٹ کلنگ روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس عرصے میں صوبے کے تین آئی جی پولیس اور اتنے ہی آئی جی ایف سی تبدیل کیے گئے۔ ان واقعات کی ذمہ داری چار علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں قبول کرتی ہیں جن کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔

ان پُرآشوب برسوں میں اغوا نما گرفتاریوں کے ذریعے لوگوں کو غائب کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بلوچستان میں گم شدہ افراد کے لیے قائم تنظیم (وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز) نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے گیارہ سو سے زائد لاپتا افراد کی فہرست اُس حکومتی کمیشن کے حوالے کی ہے جو ان کی بازیابی کے لیے بنایا گیاہے۔ اس کمیشن نے اپنے قیام یکم مئی ۲۰۱۰ء سے لے کر اب تک صرف ۲۲۵ کیس نمٹائے ہیں جن میں بلوچستان کے محض ۲۳ افراد ہیں۔

حکومت بلوچستان ، انتظامیہ کے افسران اور آئی جی ایف سی، ایک ہزار سے زائد افراد کی فہرست کو مبالغے پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں کئی ایک فرضی نام ہیں، یا وہ مزاحمتی تنظیموں کی طرف سے افغانستان ٹریننگ کے لیے جاچکے ہیں۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان گم شدہ افراد کے اغوا یا گرفتاری کی ذمہ داری کوئی حکومتی ادارہ یا مسلح تنظیم قبول کرنے کو تیار نہیں۔

مزید یہ کہ گذشتہ چھے ماہ سے بعض لاپتا افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملنا شروع ہوگئی ہیں۔ ان کو سر میں گولی ماری گئی تھی یا جسمانی تعذیب کے ذریعے قتل کیا گیا تھا۔ ان میں مزاحمتی تنظیموں کے اہم لوگ اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کلیدی رہنما بھی شامل ہیں۔    قوم پرست اس کارروائی کا سارا الزام خفیہ ایجنسیوں پر لگاتے ہیں۔ اس دوران میں چند نئی مسلح تنظیمیں بھی سامنے آئی ہیں جنھوں نے ان لاپتا افراد کے قتل کی ذمہ داری یہ کہہ کر قبول کی ہے کہ یہ لوگ وطن دشمن اور بے گناہوں کے قاتل تھے، لہٰذا ہم نے انھیں بطور سزا اغوا کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ قوم پرست جماعتیں اور مزاحمتی تنظیمیں اس عمل کو بھی حکومت اور فوج کی سازش قرار دیتی ہیں۔ آبادکاروں کے قتل کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا یہ ایک نیا رُخ ہے جس میں بلوچ لیڈرشپ نشانہ بن رہی ہے۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ دونوں پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔

علیحدگی پسندی کا رجحان

اس وقت صوبے کے بلوچ اضلاع میں علیحدگی پسندی کی تحریک پائی جاتی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے پیچیدہ کردار اور حکومت کی غیرحکیمانہ روش کے باعث دُوریاں بڑھ رہی ہیں۔ بزورِ قوت معاملات کنٹرول کرنے کی پالیسی تنائو میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ حکومت ’آغازِ حقوق بلوچستان‘ جیسے نمایشی اقدامات کرکے مطمئن ہے کہ مسئلہ بلوچستان حل ہوگیا ہے، بالخصوص نوجوانوں اور خواتین میں اس فکر کے اثرات بڑھتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ ملکی اداروں اور مختلف شعبوں میں پنجاب کی واضح نمایندگی کے باعث مقتدرہ کو ’پنجابی‘ کی نسبت کے ساتھ ہی یاد کیا جاتا ہے۔

صوبے کے پشتون اضلاع میں یہ تحریک نہیں پائی جاتی اور وہاں امن و امان کی کیفیت بھی خاصی بہتر ہے۔البتہ پشتون قوم پرستوں کی جانب سے اس تحریک کو ایک خاموش حمایت حاصل ہے، اگرچہ مزعومہ آزاد علاقوں کا جغرافیہ پشتون و بلوچ قوم پرستوں کے درمیان سخت متنازع ہے اور کوئٹہ شہر پر طرفین کا دعویٰ اس نزاع کا بنیادی سبب ہے۔ خود بلوچ قومیتیں بھی بہت زیادہ تقسیم کا شکار ہیں۔ قبائل کی باہمی دشمنیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ سیاسی بلوچ قوت، نوابی و سرداری نظام کی حمایت اور اس کی مخالفت کے اصول پر منقسم ہے۔ اسی طرح اپنے مقاصد اور حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد یا ریاست کے ساتھ مسلح ٹکرائو کا نظریہ بھی باہمی اختلاف کا باعث ہے۔

سیاسی و سماجی اندازِ فکر

فکری اور تنظیمی دائرۂ کار کے لحاظ سے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ جماعتیں ہیں جن پر علاقائی اور محدود قومی سیاست کا غلبہ ہے، جب کہ دوسری وہ ہیں جو ملک گیر سیاست میں سرگرم ہیں اور بلوچستان کے مسائل پر بھی اپنا نقطۂ نظر رکھتی ہیں۔ اوّل الذکر میں جناب محمود خان اچکزئی کی نیشنل پارٹی نمایاں ہے، جب کہ ثانی الذکر میں پاکستان پیپلزپارٹی،  مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جمعیت علماے اسلام اور جماعت اسلامی قابلِ ذکر ہیں۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں اور گفت و شنید اور آئینی اقدامات کے ذریعے مسائل کے حل کی قائل ہیں۔ ملکی آئین کے مطابق انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ تمام قومی و صوبائی جماعتیں قطعاً ملکی سالمیت کے خلاف نہیں، البتہ پشتون خواہ ملّی عوامی پارٹی ۱۹۴۰ء کی قرارداد کے مطابق پاکستان میں موجود قومیتوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کے خیال میں موجودہ آئین قومیتوں کے حقوق اور تشخص کی حفاظت میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس موقف کو اگرچہ ’پونم‘ کی بیش تر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، تاہم حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی بھی بڑے شدّومد سے اس مطالبے کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسی طرح سردار اختر مینگل کی جماعت کشمیر کی مانند ’حق خود ارادیت‘ کا تقاضا کرتی ہے۔ غالباً اس مطالبے کے پس منظر میں بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو متنازع نظر سے دیکھنا ہے۔

ہرصوبائی جماعت کے اپنے زاویۂ نظر اور مخصوص طرزِ سیاست کے باوجود، یہ سب جماعتیں وفاقی پارلیمانی نظام کو درست سمجھتی ہیں، تاہم اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ صلح جُو رویہ وفاق کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ چنانچہ وفاق کو اس اثاثے کے تحفظ کی فکر کرنی چاہیے اور انھیں ردعمل کی طرف دھکیلنے والے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔

صوبائی جماعتوں کے بالمقابل ملک گیر سیاسی و دینی جماعتوں کی خوبی یہ ہے کہ بلوچستان میں اُن کا اثرونفوذ بلوچ و پشتون سمیت دیگر تمام قومیتوں میں پایا جاتا ہے۔ بہت بااثر قبائلی شخصیات علما، دانش ور اور صحافی ان پارٹیوں میں شامل ہیں۔ ان کے وابستگان میں علیحدگی پسندی یا شدت آمیز فکری عنصر نہیں پایا جاتا۔ دوسری طرف صوبے میں غیرسیاسی معتدل مزاج اور امن پسند عناصر ایک بڑی اکثریت کی صورت میں موجود ہیں۔ صوبے کی تقسیم یا علیحدگی جیسے خیالات سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔

مسئلے کے حل کے لیے سفارشات

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سارے پیچیدہ اور گنجلک ماحول میں سلجھائو کی کوئی معتبر کوشش نظر نہیں آرہی۔ فرائضِ منصبی کے لحاظ سے پارلیمان، مرکزی و صوبائی حکومتیں، عسکری ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں نہ جانے کیوں معاملے کی حساسیت کا ادراک نہیں کر رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خطے میں موجود بڑی استعماری قوت امریکا، پوری پاکستانی مشینری کو اپنے نقشۂ کار کے مطابق چلنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ بھارت و اسرائیل اُسی کی سرپرستی میں افغانستان میں براجمان ہیں اور ایرانی و پاکستانی بلوچستان میں آزادی اور فرقہ پرستی کی فکر کو فروغ دے رہے ہیں۔

پاکستان مخالف قوتیں اس فضا کو اسی وقت اپنے مفاد میں استعمال کرسکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار اور بگاڑ موجود ہو، اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مسئلے کے پُرامن اور دیرپا حل کے لیے درج ذیل امور پیش نظر رہنے چاہییں:

 ___ اس ضمن میں بنیادی بات جو ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ استحکامِ پاکستان کی اساس و بنیاد اسلام ہے۔ اسلام کے نام پر ہی یہ ملک بنا تھا اور لوگوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں۔ اگر نظریہ پاکستان کو بنیاد نہ بنایا جائے تو پھر اس ملک کی یک جہتی، استحکام اور سالمیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں قومیت، علاقائیت، عصبیت اور لسانیت کو فروغ ملے گا اور ملکی استحکام کی مشترکہ اساس منہدم ہوکر رہ جائے گی۔ پھر ہر قومیت اور ہرصوبہ اپنے مفادات کو ترجیح دے گا اور مقدم رکھے گا۔ لہٰذا بلوچستان کی پریشان کن صورت حال کا تقاضا ہے کہ اسلام اور نظریۂ پاکستان کی فکر کا احیا کیا جائے اور لوگوں کو مشترکہ اساس اور دین وایمان کے بنیادی تقاضوں اور اخوت و ایثار کے جذبے کی طرف مؤثر اور بھرپور انداز میں دعوت دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومیت کے استحصال کے خاتمے اور صوبے کے جائز حقوق ترجیحی بنیادوں پر دیے جائیں۔ تمام اسلام پسند اور محب ِ وطن عناصر کو اس کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔

 ___ مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔

 ___ تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا، اور کوشس کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق راے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔

 ___ یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’مضبوط مرکز‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے  اصول کے منافی ہے۔ ’مضبوط مرکز‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مضبوط ہوں اور کامل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔

 ___ اس سلسلے میں فوج کا کردار بھی اہم مسئلہ ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات میں فوج کی مداخلت اور ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ چھائونیوں کی ضرورت اگر ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہے تو وہ مسئلہ میرٹ پر طے ہونا چاہیے، لیکن  اگر لوگوں کو یہ خطرہ ہو کہ یہ چھائونیاں سول نظام کو اپنے قابو میں کرنے کے لیے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں سول عناصر اور فوجی قوت کے درمیان کش مکش ناگزیر ہوجاتی ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے، اس سے خیر رونما نہیں ہوسکتی۔ اس سے لازماً اجتناب کیا جانا چاہیے۔

 ___ بلوچستان کی کشیدہ فضا اور پاکستان گریز ماحول کو سازگار بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر وسیع القلبی، غم خواری اور سخاوت و فیاضی کا رویّہ اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ اس بنیاد پر کچھ آئینی و سماجی اقدامات لازمی ہوں گے۔ این ایف سی اوارڈ میں تقسیم وسائل کے اصول کو مزید وسعت دے کر رقبے اور پس ماندگی کو نمایاں اہمیت دینا ہوگی۔ ۱۹۷۳ء کے آئین میں کنکرنٹ لسٹ کی صوبوں کو منتقلی ۱۰ سال بعد ہونا طے تھی، تاہم یہ کام اب ۳۷برس بعد اٹھارھویں آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا۔ اس پر خلوصِ نیت کے ساتھ فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ صوبائی خودمختاری کا تصور زیادہ نمایاں ہوسکے۔ اس سلسلے میں مزید آئینی اقدامات کی بھی ضرورت ہوگی۔

 ___ سیاسی فضا کو خوش گوار بنانے کے لیے ہر طرح کے عسکری تشدد کا راستہ بند کیا جائے، مذاکرات سے معاملات طے کیے جائیں، اور جو سیاسی کارکن گرفتار ہیں، ان کی رہائی کا اہتمام کیا جائے۔

 ___ صوبے کو اپنے وسائل پر اختیار دیا جائے اور مرکز سے جو وسائل منتقل ہوتے ہیں، ان میں انصاف اور ضرورت کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلے میں گیس اور معدنیات کی رائلٹی کو نئے فارمولے کی روشنی میں انصاف کے مطابق مقرر کیا جائے۔

 ___ معاشی ترقی کے ثمرات کو علاقے کے عوام تک پہنچانے کا بندوبست ہو۔ اس کے لیے معدنی وسائل کو دریافت کرنے اور ترقی دینے والی کمپنیوں سے جو معاہدے کیے جائیں، ان میں قومی مفادات کو ملحوظ رکھا جائے اور اپنی دولت غیرملکی کمپنیوں کے حوالے نہ کی جائے، بلوچستان کی ترقی اور تعلیم و صحت اوردوسری سہولتوں کو عوام تک پہنچانے میں استعمال کی جائے۔ امید ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے بارے میں سپریم کورٹ سے مناسب فیصلہ آئے گا۔

 ___ صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ملازمتوں پر مقامی آبادی اور صوبے کے لوگوں کو ترجیح دی جائے‘ اور یہ سب کام میرٹ کی بنیاد پر انجام دینے کے لیے مقامی آبادی کی تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر سکھانے کا انتظام کیا جائے۔

 ___ فرنیٹر کور اور کوسٹل گارڈ کو صرف ساحلی علاقوں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص کیا جائے اور ان کا سول کردار ختم کیا جائے، نیز اسمگلنگ روکنے کے نام پر جو ۵۰۰سے زیادہ چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ ان کو ختم کیا جائے۔ اسمگلنگ روکنے کا کام فرنٹیرکانسٹیبلری اور کوسٹل گارڈ سے نہ لیا جائے بلکہ یہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری ہو۔

 ___ گوادر پورٹ کی اتھارٹی میںصوبے کو مناسب نمایندگی دی جائے‘ اس کی ترقی کے پورے پروگرام میں صوبے کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ   علاقے کے لوگوں کو ان کا حق ملے‘ زمینوں پر باہر والے قبضہ کر کے علاقے کی شناخت کو تبدیل نہ کر دیں اور جو متاثرین ہیں ان کو قریب ترین علاقے میںآباد کیا جائے۔ نیز اراضی کے بڑے بڑے قطعے جس طرح فوج‘ نیوی اور دوسرے بااثر افراد اور اداروں نے ہتھیا لیے ہیں ان کو سختی سے    روکا جائے اور انصاف پر مبنی شفاف انداز میں پورے علاقے کا ماسٹر پلان ازسرِنو تیار کیا جائے۔

یہی وہ راستہ ہے جس سے بلوچستان ہی نہیں‘ تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں، اور مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ مخصوص مفادات اور فوجی اور سول مقتدرہ  کی گرفت کو ختم کیا جائے، اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات سے عبرت حاصل کی جائے۔ ملک کی نظریاتی اساس، اسلام جو ملکی استحکام کی واحد بنیاد ہے کو مضبوط بنایا جائے اور بلوچستان کے مسائل کو منصفانہ بنیادوں پر فوری حل کیا جائے، نیز عوام کا استحصال فوری طور پر بند کیا جائے۔ عسکریت یا جبر کے بجاے مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے۔ بلوچستان کی خوش حالی اور استحکام، مستحکم پاکستان میں مضمر ہے نہ کہ علیحدگی پسندی میں۔ اہلِ بلوچستان اسلام پسنداور محب ِ وطن ہیں۔ ان کے دل محبت، اخوت اور جذبۂ ایثار سے ہی جیتے جاسکتے ہیں۔


مولانا عبدالحق ہاشمی ، جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے سابق امیر ہیں۔

کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو قومی مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ خوش بختی سب کی خوش بختی ہے، بدبختی سب کی بدبختی ہے۔ سارے   اہلِ قوم اس ملک کی بنا و تعمیر کے ذمہ دار تھے اور بقا و توقیر کے ذمہ دار ہیں۔ افراد کے عزائم کا اتحاد اجتماعی قوت کی اساس ہے   ع

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

اس اعتبار سے اجتماعی فلاح و بہبود اور استقلال و خلود کے معاملے میں سیاست دان اور غیرسیاست دان کی تفریق ایک ’فرقہ وارانہ‘ بات ہوگی۔

حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی روح باعزت بقا کا جذبہ تھا۔ یہ وہی جذبہ تھا جس کے تحت حضرت عالم گیر نے اکبری روایات میں یک سر تبدیلی پیدا کردینی چاہی تھی اور خاصے کامیاب بھی رہے تھے۔ یہ وہی جذبہ تھا جس نے سراج الدولہ، حیدر علی اور بطور خاص ابوالفتح ٹیپو کو انگریزوں سے متصادم کر دیا تھا، اوریہ وہی جذبہ تھا جس کی تسکین کی خاطر اللہ والے سروں سے کفن باندھے بنگال، بہار، اڑیسہ، یوپی، مدراس اور دکن سے کبھی پیدل، کبھی سوار نکلتے تھے جن کا زادِ راہ تقویٰ تھا، جن کا مقصود اعلاے کلمۃ الحق یا شہادت تھا۔ وہ مجاہدین اسلام برعظیم پاک و ہند کے شمال مغربی کونے میں پہنچتے تھے۔ کبھی سندھ کی راہ سے، کبھی کشمیر کے راستے سے، تاکہ پنجاب و سرحد کے علاقوں کو غیروں کے پنجۂ استبداد سے چھڑا کے اس کے نواح میں مضبوط اسلامی مرکز باقاعدہ قائم کریں اور پھر باقی برعظیم کی بازیابی کا پروگرام بنائیں۔ روح ایک تھی، بدن جدا جدا تھے۔ زبانیں جدا جدا تھیں، نسلیں اور علاقے جدا جدا تھے۔ وہ بظاہر ناکام ہیں مگر ہر معنوں میں ناکام نہیں رہے، روحانی اعتبار سے   ان کا جہاد جاری رہا۔ مسلمانوں نے آزادی کے تصور کو کبھی پسِ پشت نہ ڈالا۔

داستانِ مجاہدین لکھنے اور بیان کرنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان انھی مجاہدین کے ارادوں کی تکمیل کا مظہر ہے۔ وہ تلوار سے لڑے تھے، جنوبی اور مشرقی ہونے کے باوصف شمالی اور مغربی بھائیوں کی خاطر قربان ہوگئے تھے۔ ان کے اخلاف نے بھی شمالی، مغربی اور مشرقی اقطاع کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔ جنگ کا انداز بدل گیا تھا، روح وہی تھی۔ بزرگ تلوار سے لڑے، عزیزوں نے آئینی جنگ لڑی، مگر باضابطہ مرنے مارنے کے جذبے کو آئینی جنگ کے پسِ پشت رکھ کر۔ یہ جذبہ بے اختیار اسلامی حمیت کا جذبہ تھا، آزادی واستقلال کا جذبہ تھا۔ مجاہدین کے جہاد کو کسی نے غیروں کے خوف کا نتیجہ نہ کہا، اسے دیوانگی و جنون تو کہا جاسکتا تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دیوانے لوگ تھے۔ وہ سر کٹا سکتے تھے سر جھکا نہ سکتے تھے۔ اسی جذبے نے ہمیں ہمارے زمانے میں سرشار کیا، بیدار کیا اور ہم سرگرم پیکار ہوگئے۔ مگر بعض حقیقت فراموش ’اہلِ اخلاص‘ نے کہا: اے مسلمانو! تم ہندو کے ڈر سے پاکستان مانگ رہے ہو۔ پاکستان کا مطالبہ بزدلی کی نشانی ہے اور مسلمان بزدل نہیں ہے۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھی اس طرح کی آواز کبھی کبھی سننے   میں آجاتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق ہندو کے خوف کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ یہ عجیب و غریب  اُلٹی منطق ہے۔

بھائیو! اگر ہم بزدل ہوتے تو اپنے طاقت ور رفقا کی مرضی کے خلاف کیوں کر آواز اُٹھاتے؟ مجاہدین نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو وہ بزدل نہ قرار دیے گئے اور ہم نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو بزدلی کا طعنہ دیا جانے لگا۔ یہ طعنہ دینے والے بزرگ کس غفلت، یا مروت، یا ضد کا شکار ہوگئے؟ کسی قوت کے خلاف آواز بلند کرنا بزدلی ہے یا اس قوت کے خوف سے اس کی منشا کے خلاف لب نہ کھول سکنا بزدلی ہے ؟ اگر ہم ہندو کی عددی کثرت اور مالی وسائل کی وسعت کو دیکھ کر دبک جاتے اور اس کی مرضی کے خلاف لب کھولنے کی جرأت نہ کرتے تو یہ بزدلی ہوتی، مگر ہم نے تو طاقت ور اکثریت کی مرضی ٹھکرا دی___ ہم نے یہ اقدام جس خوف کے باعث کیا تھا وہ ہندو کا خوف نہ تھا وہ غلامی کا خوف تھا۔ وہ آزادی سے محرومی کا خوف تھا، وہ غیرت و حمیت کی موت کا خوف تھا، وہ اپنی قومی انفرادیت کے فنا کا خوف تھا۔ یہ بات اتنی باریک نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے، ہاں نیت کا پیچ نظر کی ڈوری کو اُلجھا دے تو جدا معاملہ ہے۔

اس کے باوصف آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند کے معاملات میں کسی مرحلے پر اکثریت کو لائق اعتماد نہیں جانا۔ ہم نے اعتماد بھی کیا، اس انداز میں کہ آزادی ملے تو دونوں قوموں کو ملے، دونوں آزادی کے نتائج سے برابر نفع اندوز ہوں، دونوں جملہ کاروبار آزادی میں ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہوں، مگر اکثریت نے دل شکنی کی، بار بار دل شکنی کی۔ اکثریت کو ہماراوجود ہی گوارا نہ تھا۔ وہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ انگریز کے نکلنے تک مسلمانوں کو بھی نڈھال کر دیا جائے اور برابر کا ساتھی اور رفیق بنانے کی جگہ خادم و غلام کے درجے پر پہنچا دیا جائے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بھانپ لیا، احتجاج کیا، جواباً مہاتمائی کلمات ملے جو ’اگرچہ‘ تاہم ’بہرحال‘، ’چنانچہ‘، ’چونکہ‘، ’البتہ‘ میں ملفوف تھے۔ جب احتجاج کا لہجہ سخت ہوا تو الزام لگا تم تنگ دل ہو، فرقہ پرست ہو۔ جو قوم ہمراہی قوم سے اپنے جائز حقوق کا تعین چاہے وہ فرقہ پرست اور جو قوم اپنے ہمراہی مخلص رفقا کا خون پیتی چلی جائے اور ان کی تباہی کے درپے رہے، وہ ’عالی ظرف‘۔  ہم ساتھیوں کی نیت دیکھ کر چونکے۔ حضرت قائداعظم یا دیگر زعما نے علیحدگی کا نعرہ آناً فاناً نہیں  بلکہ باقی ہر طریق عمل کی کامرانی سے مایوس ہوکر بلند کیا تھا۔ ہم ہندو اور انگریز کی مرضی کے خلاف     کا مگار ہوئے تھے، اور ان علاقوں کے مسلمانوں نے جو پاکستان کا حصہ نہ بن سکتے تھے سوچ سمجھ کر پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی۔ انھوں نے سیداحمد شہید کے متبعین کی طرح مسلم اکثریت کے علاقوں کی خاطر قربانی دی تھی، نہ انھوں نے دھوکا کھایا تھا، اور نہ اکثریت کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انھیں دھوکا دیا تھا۔

یہاں پھر یہ بات دہرائوں گاکہ یہ کام محض سیاست دانوں کا نہ تھا، پوری قوم کا تھا۔ سیاست دان اور غیرسیاست دان بے معنی تفریق ہے۔ امتیاز فقط قائدین کو حاصل ہے۔ ورنہ سیاست دان تو قوم کا ہر فرد تھا اور آج بھی ہے، نہیں تو ہونا چاہیے۔ آپ کو یاد ہے کہ اس طوفان تمنا میں جہاں وکلا شریک تھے وہاں سول افسر، پولیس افسر، تاجر اور اساتذہ بھی شامل تھے، فوجی سپاہی بھی مضطرب تھے اور پولیس کے سپاہی بھی، کلرک بھی سرگرم تھے اور طلبہ بھی۔ قائدین نے متنبہ کیا، قوم متنبہ ہوگئی، اور منزل پر پہنچ گئی مگر جہاد ختم نہیں ہوا۔ ابھی کمر کھولنے کا وقت نہیں آیا، بلکہ زندہ قوموں کے لیے ایسا وقت کبھی آیا ہی نہیں۔

اگر اس وقت آزادی و استقلال کی تمنا نے پوری قوم کو ہوشیار و مستعد کر دیا تھا تو آج قوم کیوں سُست پڑ رہی ہے؟ آج کیوں قوم بقاے پاکستان کی ذمہ داری محض لیڈروں کے سر تھوپ کر سو رہی ہے؟ جن مخالف قوتوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کی مخالفت کی تھی وہ تو بدستور برسرِ عداوت ہیں بلکہ مقابلے اور رقابت کی تلخی پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج قوم کا فرد فرد کیوں حالات کی نزاکت کے مطابق چوکس نہیں؟ پہلے مقابلہ فقط برعظیم کی حدود کے اندر تھا۔ اب مقابلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے، لہٰذا آج پہلے سے بھی زیادہ بیداری اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ قائدین کا فرض ہے کہ قوم کو غافل نہ ہونے دیں اور قوم کا فرض ہے کہ اپنے قائدین کو جھنجھوڑتی رہے۔

اسلام اور کفر دو الگ ملتیں ہیں۔ ان میں سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ظلمت نور کے درپے رہے گی، باطل حق کے گریباں گیر رہے گا، اس لیے ہمیں ہندوئوں سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اگر آسام، بھوپال، جبل پور، میرٹھ، ممبئی، کلکتہ وغیرہ میں مسلمانوں کو پامال کریں تو وہ فطرت سے مجبور ہیں۔ اگر واہگہ کی راہ سے پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور یہاں پہنچ کر مسلم معاشرے کو کچل دینے کا تہیہ کریں تو جب بھی وہ مجبور ہیں۔ ان کے ڈنک کو کند کرنے یا توڑ دینے کا بندوبست ہمارا کام ہے۔ ہم بھی اسی صورت میں چین سے جی سکیں گے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی!

پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہندوئوں نے اس کو تباہ کرنے کے منصوبے بھی بنانے شروع کردیے تھے۔ مگر شاید وہ نہ جانتے تھے کہ حضرت قائداعظم کے بقول ’’پاکستان مرضی مولا‘‘ ہے، وہ بن کر رہا اور تن کر رہ رہا ہے، وہ مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ آپ کو یاد ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے فوراً بعد جسٹس مہرچند مہاجن کا بیان ہندستانی اخبارات میں چھپا تھا جس میں مذکور تھا کہ پاکستان بنتے ہی ہم نے ایک اہم اجتماع منعقد کیا، جس میں سردار پٹیل، مہاراجا پٹیالہ، مہرچند خود، بخشی غلام محمد (یادش بخیر) جنرل تھمایا وغیرہ شامل ہوئے تھے اور طے پایا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کو کاری ضرب لگا دی جائے، مگر حکومت نے ساتھ نہ دیا۔ آج وہ فتنہ یوں آنکھیں دکھا رہا ہے‘‘___ اس امر کی تصدیق اپنی کتاب میں جنرل کول نے بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تجویز پنڈت نہرو کی خدمت میں پیش کی تو وہ بولے: پاکستان وہ ڈھانچا ہے جو خود ہی گرنے کو ہے، اسے ہم  گرا کے دنیا کی نگاہوں میں کیوں بُرے بنیں‘‘۔

پاکستان کو ڈھا دینے یا اس کے خود بخود ڈھے جانے کی تمنا ہندو کا ایک خوش آیند خواب تھا اور ہے۔ اگرچہ انگریز نے ہندو کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ہمیں کمزور سے کمزور تر پاکستان مہیا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوصف یہ ڈھانچا روز بروز مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے بارہا ٹھوکر لگائی اور ہمیشہ منہ کی کھائی۔ ۱۹۶۵ء میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ مگر ایک غلط نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس جنگ کے بعد غافل سے ہوگئے، خوداعتمادی نے دشمن کو ہماری نظروں میں حقیر بنا دیا، یہ رویہ بڑا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ دشمن برسرِ انتقام ہے، وہ دیکھ چکا ہے کہ پاکستان نہ خودبخود ختم  ہوا اور نہ اس کے ضرب لگانے پر اسے کوئی نقصان پہنچا، لہٰذا اب وہ آخری بھرپور وار کرنے کا خواہاںہے۔ وہ زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف    محاذ در محاذ کھول رکھے ہیں، شب و روز سازش اور پروپیگنڈا جاری ہے تاکہ وہ ہمارے دوستوں کو ہم سے بدگماں کرے اور بدخواہوں کو مزید بدخواہ بنائے۔ وہ ہرلحظہ طاقت بڑھانے میں مصروف ہے۔ وہ اقتصادی طاقت ہو خواہ عسکری، امریکا اور روس کھلے بندوں اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اندریں حالات ہم کیا فیصلہ کریں؟ کیا ہم ہندستان کی لیڈرشپ قبول کرلیں؟ یا کیا ہم کشمیر کو ہضم ہوجانے دیں؟ یا کیا ہم اپنے وجود کو ختم کرلیں؟ ہرگز نہیں۔

یہ بات تو صاف ہے کہ ہندو نے برعظیم کی تقسیم کو گئوماتا کی تقسیم قرار دیا تھا۔ وہ پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے باقی رہنے کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، تاوقتیکہ پاکستان اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ اس چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر آخر مایوس ہوکر بیٹھ جائے۔ یہ قوت پاکستان کے اندر   اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال کے بغیر بیدار نہ ہوگی۔ ہر میدان میں ترقی کا قدم آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ قوم کا بچہ بچہ سپاہی بھی ہو اور اسلامی حمیت کے جذبے سے سرشار بھی۔ اسی جذبے نے پاکستان کو جنم دیا تھا، وہی جذبہ اس کی مدافعت بھی کرے گا۔ کوئی بھی متبادل قدر اسلامی حمیت کی قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ موٹی سی بات ہے کہ ہم نے آزادی اسلام کی خاطر اور اسلام کے نام سے حاصل کی تھی۔ یہ کہنا کہ یہ فقط اقتصادی ضرورت تھی بے بنیاد خیال ہے۔ ویسے میں اتنا    پوچھتا ہوں کہ یہ اقتصادی ضرورت کس گروہ کی تھی جس نے مجبور کیا کہ الگ گھر بنائو؟ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے گروہ کی، تو یہ گروہ کیوں توجہ طلب تھا؟ اس لیے توجہ طلب تھا کہ یہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ گویا نام و بنیاد مخاصمت تو پھر بھی اسلام ہی رہا۔ بہرحال اسلامی حمیت کی تقویت اور پرورش لازم ہے ۔ ایسے جملہ عناصر اور جملہ اعمال کی سرکوبی ناگزیر ہے جو ملّت پاکستان کے دل میں اس حمیت کو کمزور کردینے کا باعث بنیں۔ حضرت قائداعظمؒ نے اگر قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اسلام کا گھر اور وطن ہوگا جہاں شریعت ِ محمدیؐ کارفرما ہوگی، تو وہ وعدہ سرتاسر مبنی براخلاص تھا۔ اخلاص کی نصرت اسی خلوصِ پیمان کے باعث تھی۔ اگر ہم خدا کو بھلا دیں گے اور عہدشکنی کریں گے تو مکافاتِ عمل کی اجتماعی سزا کا سدِباب مشکل ہوگا۔ (انتخاب: پاکستان، حصارِ اسلام، ص ۱۳۴-۱۳۹)

سپریم کورٹ میں آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت دو مہینے سے جاری ہے۔ اس دوران فاضل جج ترمیم کی بعض شقوں کے مضمرات کے متعلق دونوں جانب کے وکلا کو وضاحت کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ ۱۶؍اگست ۲۰۱۰ء کو حکومت کے وکیل افتخار احمد میاں نے اٹھارھویں ترمیم کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ لامحدود اختیارات کی حامل ہے اور عوام نے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی دیا ہے۔ فاضل ججوں نے اس پر کئی سوالات اُٹھائے۔ ان سوالات کا لب ِلباب چیف جسٹس افتخاراحمد چودھری کے اس ریمارک میں موجود ہے کہ پارلیمنٹ کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو آئین میں کوئی بھی ترمیم کرنے کا بے قید اختیار حاصل ہے: ’’اگر کل کلاں پارلیمنٹ یہ اعلان کردے کہ ریاست کی پالیسی اسلام نہیں، بلکہ سیکولرزم ہے تو کیا ہم اس کو قبول کرلیں گے؟‘‘

مسٹر جسٹس طارق پرویز نے یہی بات ان الفاظ میں کہی: ’’اگر پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل۲ میں ترمیم کردے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے تو کیا یہ اختیارات کا جائز استعمال ہوگا؟‘‘

سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ باتیں روزنامہ ڈان (Daily Dawn)کو بہت شاق گزری ہیں۔ دو دن بعد اداریے میں ججوں کے موقف کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے سوال کیا، آیا سپریم کورٹ نے ازخود یہ فیصلہ کرنے کا ذمہ لے لیا ہے کہ پاکستانی عوام کس سسٹم کے تحت رہنا چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ آئین کی نگہبان ہے یا پاکستانی ریاست کا بنیادی ڈھانچا متعین کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے؟

اداریہ نویس نے آگے چل کر اشارے اشارے میں سپریم کورٹ کے ارکان کو ہدف بنانے سے بھی گریز نہیں کیا، لکھتا ہے: The original meaning, and perhaps for reasonable people the only applicable meaning, of the term 'secularism' has been lost here in Pakistan.، یعنی یہاں پاکستان میں سیکولرزم کا اصل مفہوم جو معقول لوگوں کے نزدیک شاید واحد قابلِ فہم مفہوم ہے، گم ہوکر رہ گیا ہے۔ موصوف اپنے آپ کو ان ’معقول لوگوں‘ کی صف میں رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: سیکولرزم کا مطلب لادینیت یا مذہب دشمنی نہیں ہے، لیکن قدامت پسند لوگ ۶۰ برس سے اس جھوٹ کی تکرار کرتے آرہے ہیں کہ سیکولرزم لادینیت ہے۔ سیاسی پارٹیوں تک تو یہ جھوٹ چل گیا، لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے بھی اسی مفہوم کو اپنا لیا ہے۔ یہاں ڈان کے اداریہ نویس نے قدامت پسندوں اور     اعلیٰ ترین عدلیہ کے علم میں اضافے کی غرض سے لیکچر دیا ہے کہ سیکولرزم تو مذہب کے معاملے میں غیرجانب داری کا نام ہے، یعنی ریاست کی مذہب سے جدائی کا محدود تصور!

کسی اخبار کا اداریہ اس کے مدیر کی راے کا اظہار ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مدیرمحترم سیکولرزم کی وکالت کرتے کرتے دین اور مذہب کے فرق سے اپنی بے خبری کا راز فاش کر گئے۔ کسی عقیدے اور اس پر مبنی چند عبادات و رسوم کو مذہب کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں اظہار خیال کے عادی مدیر صاحب کو یقینا معلوم ہوگا کہ اوکسفرڈ ڈکشنری نے بھی ریلیجن کے یہی معنی بیان کیے ہیں، لیکن مثال میں اسلام کو بھی عیسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کے زمرے میں شامل کردیا، حالانکہ اسلام ایک دین ہے، مذہب نہیں ہے۔ دین ایک خالص قرآنی اصطلاح ہے۔ انگریزی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں، اس لیے انگریزی داں حضرات دین کو بھی ریلیجن کا ہم معنی لیتے ہیں۔

علماے اسلام اس فرق کو خوب سمجھتے ہیں۔ جب وہ عبادات اور ان کے لوازمات کے بارے میں مختلف فقہا کی تحقیق کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو کہتے ہیں: یہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب ہے اور یہ امام شافعیؒ یا امام مالکؒ یا اسی پاے کے دوسرے فقہا کا مذہب ہے۔ یہ تمام مذاہب دین اسلام کے دائرے ہی میں بیان کیے جاتے ہیں۔ مذہب عربی زبان ہی کا لفظ ہے، لیکن قرآن مجید میں یہ لفظ کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اسلام کو دین ہی کہا گیا ہے، کیونکہ یہ محض چند رسوم و عبادات کا نام نہیں، بلکہ ضابطۂ حیات کا نام ہے جو انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ وہ راہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں اور اللہ کے رسولؐ نے اپنے قول و فعل میں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔

ڈان کے زیرنظر اداریے میں سیکولرزم کی یہ بالکل صحیح تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ نظام ریاست کی مذہب سے جدائی کے تصور پر مبنی ہے۔ اگر یہاں مذہب سے مراد وہ دین ہے جو انسانی معاشرے کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے تو علامہ اقبال نے اسی کے بارے میں فرمایا تھا:  ع

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سیکولرزم کے مبلغوں کا کہنا ہے کہ قائداعظم محمدعلی جناح پاکستان کی ریاست کو اسی دین پر چلانا چاہتے تھے۔ ثبوت کے لیے قائداعظم کی اس تقریر کا ایک جملہ پکڑ رکھا ہے جو انھوں نے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی تھی۔ اداریہ نویس کے بقول جملہ یہ ہے: ’’ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں‘‘ (religion is not business of the state)۔

اسلام سے پاکستان کا رشتہ توڑنے کے خواہاں دانش مند گذشتہ ۶۳برس سے اسی ایک جملے کی گردان کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ یہ جملہ نہ صرف اس کے سیاق و سباق سے الگ کرکے بلکہ اس میں تحریف کر کے بیان کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ قائداعظم جس اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، اس کے ۷۹ ارکان میں ۱۶ کانگریسی ہندو شامل تھے، جو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ہندو ارکان میں سے منتخب کیے گئے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں قائداعظم سمیت مسلم لیگ کے رہنما تسلسل کے ساتھ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد غیرمسلم اقلیتوں کو یہ اطمینان دلانا ضروری تھا کہ اسلامی ریاست میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

قائداعظم کی تقریباً نصف تقریر اسی یقین دہانی پر مشتمل تھی۔ فرمایا: You may belong to any religion or cast or creed-that has nothing to do with the business of the state' (آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا رنگ و نسل سے ہوسکتا ہے، اس بات کا امورِ سلطنت سے کوئی تعلق نہیں)۔ یہ گویا امورِ مملکت، یعنی قانون کی نظر میں تمام شہریوں کے مساوی حقوق کا اعلان تھا، لیکن ڈان کے اداریہ نویس کا اصرار ہے کہ نہیں، یہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی clarion call(صداے نفیر) تھی۔ اس کے نزدیک یہ ایک مسخ شدہ جملہ قرآن کو پاکستان کا آئین قرار دینے اور قائداعظم کے اسی مفہوم کے سابقہ بیانات کو منسوخ کرتا ہے۔ برسوں پہلے سردار شوکت حیات اور ممتاز محمد خان دولتانہ کے بیانات نظر سے گزرے تھے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ تو لوگوں کو تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے لگایا جاتا تھا۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد قائداعظم نے اس قسم کی تقریریں کیں کہ ’’ہماری نجات اس اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐاسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں‘‘۔ تو کیا یہ باتیں بھی انھوں نے عوام کو ورغلانے کے لیے کی تھیں؟ ڈان کہتا ہے: اصل مقصد تو سیکولر ریاست کا قیام ہی تھا۔

خدا کی شان ہے، جس اخبار نے ۷۰برس قبل قائداعظم کی سرپرستی میں اشاعت کا آغاز کیا تھا، وہ بھی آج اپنے مربی کی کردارکشی کرنے والوں کی صف میں کھڑا ہے۔ زیرنظر اداریے کا لبِ لباب یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی راے کے برعکس پارلیمنٹ کو آئین کے اسلامی مزاج میں ترمیم کر کے نظامِ مملکت کو سیکولرزم کی بنیادوں پر استوار کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ کوئی فرد اگر اسلام سے منحرف ہوجائے تو اسے کیا کہتے ہیں؟

؎ میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو، ان نے تو

 قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا، کب کا ترکِ اسلام کیا

(بہ شکریہ روزنامہ اُمت، کراچی، ۲۷؍اگست ۲۰۱۰ئ)

محمد اسد اُمت مسلمہ کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھی جس نے علمی اور فکری میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور پاکستان کے قیام اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس جرمن نومسلم نے جب اسلام کے دائرے میں قدم رکھا تو پھر اس کی زندگی کا مقصد اسلام اور اُمت مسلمہ کی خدمت ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک تھا اور تقسیم ملک کے بعد اس نے بھی دوسرے لٹے پٹے مہاجرین کی طرح  اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف مراجعت کی۔ پاکستان ایک حقیقی اسلامی ریاست بنے، اس کے دل کی آرزو تھی۔ اس نے اس وقت کی حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر کی حیثیت سے پاکستان کی نظریاتی تعمیر کے لیے ایک روشن کردار ادا کیا، اور پھر سفارت کے محاذ پر پاکستان کی ترجمانی کرتا رہا۔ افسوس کہ بعد کی پاکستانی قیادت نے اسے مایوس کیا۔

محمداسد کی خودنوشت داستان شاہراہِ مکّہ فکرودانش اور علم و ادب کا ایک شاہکار ہے۔ بدقسمتی سے اس کی دوسری جِلد نامکمل رہی اور ان کے نوٹس کی مدد سے موصوف کی بیوہ نے مرتب کی ہے، جو انگریزی سے بھی پہلے اُردو میں جناب محمد اکرام چغتائی کی محنت سے بندہ صحرائی کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کا ایک حصہ ہم قارئین ترجمان القرآن کی نذر کر رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف ان جذبات اور مقاصد کا صحیح صحیح ادراک کیا جاسکتا ہے جو قیامِ پاکستان کا اصل محرک تھے تو دوسری طرف قیادت کی نااہلی اور دشمنوں کی عیاری کی ایک کرب ناک داستان بھی سامنے آتی ہے۔ تیسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کی غلامی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور آج بھی وہ اس کے تسلط سے نجات پانے کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کس طرح ۴۹-۱۹۴۸ء میں ہماری سیاسی قیادت نے دھوکا کھایا اور جیتی ہوئی بازی ہار گئی اور کس طرح آج کے حکمران طبقے پھر انھی دشمن قوتوں کے چکمے میں آنے کے لیے بے تاب ہیں۔. خورشیداحمد

اکتوبر ۱۹۴۷ء کی صبح کو نواب افتخار حسین ممدوٹ نے مجھے اپنے دفتر بلایا۔ اس وقت ان کی عمر ۴۵سال کے لگ بھگ تھی۔ درازقد، صحت مند، خاموش طبع اور صاف ستھرے ذہن کے مالک اور تقسیمِ ہند سے قبل وہ ایک چھوٹی سی ریاست یا بالفاظ دیگر جاگیر کے کرتا دھرتا تھے۔ یہ جاگیر سترھویں صدی عیسوی [ان کے آبا کو] میں ایک مغل حکمران نے دی تھی۔ نواب صاحب تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں شامل رہے اور اپنی ذاتی دولت کا بڑا حصہ اس تحریک کی نذر کر دیا۔ یہ جاگیر  مشرقی پنجاب میں واقع تھی، چنانچہ تقسیم کے وقت اسے ہندستان ہی میں چھوڑ آئے اور لاہور آکر یہاں ایک متوسط درجے کے گھر میں سکونت پذیر ہوگئے۔ ان کی وفاداری اور راست بازی کے  پیش نظر محمدعلی جناح نے پاکستان کے قائم ہوتے ہی انھیں مغربی پنجاب کا پہلا وزیراعلیٰ مقرر کر دیا۔ اس بنا پر انھیں قائداعظم کے قریب ترین رفقا میں شمار کیا جانے لگا۔

جونہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا، ممدوٹ صاحب رسمی تکلفات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے: ’’اسد صاحب! میرے خیال میں اب ہمیں نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام اُٹھانے چاہییں۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ اب آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے؟‘‘

کئی روز سے مجھے ایسے سوال کاانتظار تھا، چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا:’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا، اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری راے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے، جو ان نظریاتی مسائل کو زیربحث لاسکے، جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آیندہ حکومتِ کراچی بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہوگی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم اِدھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں‘‘۔

نواب صاحب فوری قوتِ فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے، چنانچہ انھوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا کیا نام ہونا چاہیے؟‘‘

میں نے جواباً عرض کیا: ’’اس کا نام ’محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ‘ مناسب رہے گا، کیونکہ اس سے ہمارے مقصد کی بھرپور ترجمانی ہوگی، یعنی صحیح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی معاشرتی زندگی اور فکر کی تعمیرنو‘‘۔

ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا: ’’بالکل درست، ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اس کے اخراجات کا ایک تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے، آپ اسے قبول کرلیں گے‘‘۔

مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہوجائے گا، لیکن نواب آف ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا۔ چند دنوں کے اندر اندر اس ادارے کا رسمی میمورنڈم تیار ہوگیا۔ اس کے اخراجات کے تخمینے پر بحث ہوئی۔ شعبۂ مالیات کے سربراہ کے صلاح مشورے سے یہ منظور ہوگیا، اور سرکاری اطلاع نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔ یوں دیکھتے دیکھتے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ پوری اسلامی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے پہلا ادارہ تھا۔

میں نے لاہور کے بعض معروف علماے دین بالخصوص مولانا دائود غزنوی امیرجماعت  اہلِ حدیث سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ایسے دو اصحاب کے نام بتائیں جو میرے تحت کام کرسکیں، عربی اچھی جانتے ہوں اور میری آیندہ کی تجاویز کو عملی شکل دینے میں جن ضروری حوالوں کی ضرورت پڑے، انھیں احادیث کے ضخیم مجموعوں میں سے تلاش کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ جلد ہی ایسے دو نوجوان اور باصلاحیت علما دستیاب ہوگئے اور انھیں یہ کام تفویض کردیا گیا۔ علاوہ ازیں مجھے پنجاب یونی ورسٹی کے ایک پُرجوش طالب علم کی جزوقتی خدمات بھی حاصل ہوگئیں۔ دفتر کے دیگر انتظامی اور مالیاتی امور کو بحسن و خوبی نبٹانے کے لیے مجھے اپنے قریبی دوست ممتاز حسن کا تعاون حاصل تھا، جو مغربی پنجاب کے شعبہ مالیات کے ایک اہم عہدے پر فائز تھے اور بعد میں اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔

اب میں باقاعدہ طور پر سرکاری ملازم تھا، اس لیے مجھے دو رویہ درختوں کے ایک خوب صورت علاقے چمبہ ہائوس میں بلاکرایہ گھر بھی مل گیا (یہ لین مہاراجا آف چمبہ کے نام سے موسوم تھی۔ یہ ریاست کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع تھی اور تقسیم ہند سے پہلے مہاراج کا یہاں محل تھا)۔ اس گھر کے اردگرد چاروں طرف چھوٹا سا باغ تھا۔ یہ ایک تجارت پیشہ ہندو کی ملکیت تھا، جو ہندستان نقل مکانی کر گیا تھا۔ ممکن ہے،وہاں اسے کسی ایسے مسلمان کا گھر مل گیا ہو، جو اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر پاکستان آگیا ہو۔ نظربندی کیمپ سے میری رہائی کے بعد میرا بیٹا طلال کیتھولک اسکول میں بطور اقامتی طالب علم زیرتعلیم تھا۔ یہ لاہور کا اعلیٰ ترین ادارہ تھا جس کو آئرلینڈ کے ڈومینیکن چلا رہے تھے۔ اب میں اپنی بیوی کے ساتھ لاہور ہی میں مستقلاً رہایش پذیر تھا،اس لیے طلال اس گھر میں منتقل ہوگیا اور یہیں سے ہر روز اسکول جانے لگا۔ اب میرے لیے یہ نئی صورت حال خاصی اطمینان بخش تھی۔

۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کی صبح کو میں دفتر جانے کے لیے بذریعہ کار گھر سے نکل ہی رہا تھا (میں نے ایک متروکہ کار اپنے نام الاٹ کرا لی تھی) کہ اپنے ہمسائے اور دوست سرسکندر حیات خاں کے بھتیجے سردار شوکت حیات خاں سے میری ملاقات ہوگئی۔ وہ اس وقت خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوںنے بتایا: ’’میں نے ابھی ریڈیو پر یہ خبر سنی ہے کہ گاندھی کو قتل کردیا گیا ہے۔ خدا کاشکر ہے کہ قاتل کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘___ میں اس کی پریشانی میں برابر کا شریک تھا۔ ہم دونوں جانتے تھے کہ اگر قتل کرنے والا مسلمان ہوتا، تو ہندستانی حکومت اپنی مسلمان رعایا کے ساتھ کیا سلوک کرتی۔ بہرحال چند گھنٹوں بعد آل انڈیا ریڈیو نے واضح بیان جاری کردیا کہ گاندھی کا قاتل راشٹریہ سیوک سنگھ کا رکن ہے۔ یہ انھی متعصب ہندوئوں کی جماعت تھی، جس نے ڈلہوزی کے مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا۔

محکمہ احیاے ملّت اسلامیہ کا کام آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہم زکوٰۃ اور عشر کے اہم موضوع پر پورے انہماک سے تحقیق کر رہے تھے، کیونکہ کسی بھی اسلامی مملکت میں شرعی اعتبار سے محصولیات کی بنیاد انھی دو پر ہے۔ ابھی تلاش و تفحص کا یہ مرحلہ طے ہو رہا تھا کہ ممدوٹ صاحب نے دوبارہ اپنے دفتر بلایا۔ میرے داخل ہوتے ہی وہ حسب معمول کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: ’’میں نے ابھی ابھی آپ کا مضمون ’اسلامی دستورسازی کی جانب‘ پڑھا ہے، جو عرفات کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ آپ انھی خطوط پر قدرے شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم تیار کیجیے۔ میں اسے مغربی پنجاب کی حکومت کی جانب سے شائع کرائوں گا اور اس کو دیکھ کر ممکن ہے، مرکزی حکومت بھی اس جانب متوجہ ہو‘‘۔ چنانچہ ۱۹۴۸ء میں میرا یہی انگریزی مضمون مع اُردو ترجمہ مغربی پنجاب کی حکومت کی زیرنگرانی طبع ہوا۔ کچھ ہفتوں بعد وزیراعظم کی جانب سے مجھے کراچی آنے کا پیغام موصول ہوا۔

لیاقت علی خاں سے یہ میری پہلی ملاقات نہیں تھی۔ میں قیامِ پاکستان سے قبل ان سے گاہے گاہے ملتا رہتا تھا۔ ان سے جب بھی گفتگو کا موقع ملتا، وہ کھلے ذہن اور پوری توجہ سے میری باتیں سنتے اور ساتھ ساتھ متواتر سگریٹ نوشی کرتے رہتے (میں نے جب بھی انھیں دیکھا، انھوں نے اسٹیٹ ایکسپریس کے ۵۰ سگریٹوں کا پیکٹ ہاتھ میں پکڑا ہوتا یا ان کے میز پر پڑا رہتا)۔ اس ملاقات میں بھی وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگائے جا رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بھی سگریٹ پیش کیا، چائے منگوائی اور مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کا مشورہ دیا۔ ہماری ابتدائی دو ملاقاتوں میں بھی وہ اس اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم اس موقع پر خود دستورسازی کا عمل شروع نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیر پر ہندستان نے قبضہ کرلیا ہے اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ یہ بھی امرمسلّمہ ہے کہ فوجی اعتبار سے ہندستان ہم سے بہت مضبوط ہے۔ ہم تو ابھی حکومتی مشینری کے کُل پرزے درست کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے لیے وقت اور سعی پیہم کی ضرورت ہے۔ ہم ایک ساتھ سارے کام شروع نہیں کرسکتے۔ میں مانتا ہوں کہ دستور سازی کا عمل اہم اور دور رس نتائج کا حامل ہے، لیکن اسے بھی فی الحال مؤخر کرنا پڑے گا‘‘۔

میں وزیراعظم کی اس گفتگو سے متاثر ہوا، کیونکہ انھوں نے بلاتکلف حکومت کو درپیش تمام مسائل کا کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ میں جانتا تھا کہ میری طرح وہ بھی پاکستان کے اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن ابھی حالاتِ حاضرہ کے دبائو کے تحت اِدھر توجہ دینے سے گریز کرر ہے تھے۔ میں نے ان کے مؤقف سے اتفاق کیا اور رخصت ہوتے وقت انھوں نے مجھے کہا: ’’فی الحال ہمیں خود کو اس مسئلے پر سوچ بچار کرتے رہنا چاہیے‘‘۔

اس کے بعد کابینہ کے سیکرٹری چودھری محمدعلی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور مجھے اندازہ ہوا کہ حکومت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی استحکام کا ہے۔ انھوں نے بتایا: قائداعظم نے امیرترین مسلمان حکمران نظام حیدرآباد دکن سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو سونے چاندی کی شکل میں چند لاکھ پائونڈ سٹرلنگ اُدھار دیں اور انھیں اپنے نام پر ہی بنک میں جمع کرا دیں، تاکہ پاکستانی کرنسی کو تحفظ مل سکے۔ لیکن نظام دولت کے انبار کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے قائداعظم کی درخواست کو رد کر دیا ہے۔ چند ماہ بعد ہی ہندستان نے حیدرآباد ریاست کی خودمختار حیثیت ختم کر کے اسے اپنے ملک کا حصہ بنا لیا اور نظام کے سونے چاندی کے تمام ذخیرے بھی ہندوستانی حکومت کے تصرف میں چلے گئے۔ نظام کے ساتھ ساتھ خود ان کی آل اولاد اور پاکستان بھی ہمیشہ کے لیے ان خزانوں سے محروم ہوگئے۔

جب میں چودھری محمدعلی سے گفتگو کر رہا تھا، معاً مجھے نظام کے ذاتی خزینوں کی یاد آگئی۔ ۱۹۳۹ء میں، مَیں دوسری بار حیدرآباد گیا تھا اور اس وقت ریاست کے وزیرمالیات نے مجھے اس خزانے کا صرف ایک حصہ دکھایا تھا۔ متعدد کمروں میں قطار اندر قطار صندوق رکھے تھے اور یہ سب سونے اور قیمتی پتھروں سے بھرے پڑے تھے۔ ہیرے جواہرات سے بھرے لوہے کے تھال فرش پر رکھے تھے۔ مال و دولت کا ایک ناقابلِ یقین اور مُردہ ڈھیر، جو ایک فانی شخص کی مریضانہ اور عجیب وغریب حرص کا نمونہ تھا۔

لیاقت علی خاں نے اپنی گفتگو میں آزادیِ کشمیر کی جس جدوجہد کا ذکر کیا تھا، وہ ہمیشہ میری اور ہرپاکستانی کی سوچ پر غالب رہی ہے۔ اس کی جغرافیائی، نسلی اور مذہبی وضع قطع کے باعث اس حسین و جمیل سرزمین کو لازماً پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔ تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب اور راوی) مغربی پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار مکمل طور پر انھی دریائوں پر ہے۔ ہندستانی حکومت اور مہاراجا کے مابین اقرارنامہ کی وجہ سے ریڈکلف نے صریحاً دھوکے بازی سے مسلمانوں کی اکثریت کا ضلع گورداسپور ہندستان کے حوالے کر دیا۔ ریڈکلف کی یہ ’نوازش‘ تقسیم ہند کے طے شدہ بنیادی اصول کی خلاف ورزی تھی اور اسے کوئی پاکستانی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان اپنی سربریدہ فوج کے سبب ہندستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا، اس لیے قائداعظم نے کسی فوجی مداخلت کے امکان کو بالکل رد کر دیا۔ حکومت پاکستان کی اس واضح پالیسی کے بعد صوبہ سرحد اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں کے پٹھانوں کے قبائل پاکستان کے نام پر کشمیر کو فتح کرنے چل پڑے۔

اکتوبر ۱۹۴۷ء میں محسود، وزیری اور آفریدی قبیلوں کے بڑے بڑے جتھوں نے کشمیر کی سرحد عبور کرکے بارہ مولا اور مظفرآباد پر بلامقابلہ قبضہ کرلیا۔ سری نگر کے اردگرد جو فوج تعینات تھی، اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ انھوں نے بھی بغاوت کردی اور پٹھان بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئے۔ قبائلیوں کی پیش قدمی جاری تھی اور سری نگر تک پہنچنا انھیں آسان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس دوران میں ایک تکلیف دہ واقعہ رُوپذیر ہوگیا۔    یہ قبائل اپنی صدیوںپرانی غارت گری کی جبلت پر قابو نہ پاسکے اور سری نگر کی جانب قدم بڑھانے کے بجاے انھوں نے مظفرآباد کے شہریوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ دو دن تک لوٹ مار کا یہ بازار  گرم رہا۔ یہ بڑا نازک وقت تھا، جسے ان قبائلیوںنے ضائع کر دیا۔ چنانچہ اس عرصے میں    مائونٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی ملی بھگت سے جوابی حملے کے انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ نئی دہلی میں برطانوی فوج کے تعاون سے ہندوئوں اور سکھوں پر مشتمل فوجی دستوں کو جلدی جلدی منظم کیا گیا۔ انھیں ہتھیار فراہم کیے گئے اور ایک ہلکے توپ خانہ کا بھی انتظام کر دیا گیا، تاکہ وہ سری نگر پر قبضہ کرکے وہاں کے ہوائی اڈے کو بھی اپنے دائرۂ اختیار میں لے آئیں۔ اس طرح فوجی اور غیرفوجی جہازوں کے ذریعے ہندستانی فوج کی خاصی بڑی تعداد کو سری نگر پہنچا دیا گیا، جہاں سے وہ ریاست کشمیر  کے دوسرے حصوں پر بھی اپنا تسلط جما لیں۔ آہستہ آہستہ پٹھانوں کو نکال باہر کیا گیا اور پھر ان کا جذبۂ جہاد مدہم پڑتے پڑتے ختم ہوگیا۔

تاہم کشمیر کی جنگ ختم نہیں ہوئی۔ اسی اثنا میں نئے قبائلی مجاہد اور ناگزیر طور پر پاکستانی فوج کے دستے بھی اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ ہندستان نے وادیِ کشمیر پر قبضہ جمائے رکھا اور سرحد کے ساتھ ساتھ دُور تک پناہ گاہیں اور خندقیں بنالیں۔ آج تک ہندستان کشمیر کے اس حصے پر قابض ہے، جو گلگت سے لداخ اور کارگل کے برفانی پہاڑوں تک پھیلا ہوا ہے۔ بالآخر پاکستان مسئلہ کشمیر کو مجلس اقوام متحدہ میں لے گیا،۱؎ جہاں استصواب راے کی قرارداد منظور کی گئی، جو اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔ حکومت ہندستان نے اس قرارداد کو بڑی بے دلی سے قبول کیا، کیونکہ

۱- یہاں مضمون نگار کو اشتباہ ہوا ہے، اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ بھارت لے کر گیا تھا۔ مدیر                                           

 یہ کھلی ہوئی حقیقت تھی کہ اس قرارداد پر عمل درآمد کا نتیجہ پاکستان کی فتح کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ ہندستان حیلے بہانے سے بار بار اس مسئلے کو ملتوی کرتا رہا۔ اب یہی مسئلہ کشمیر، پاکستان اور ہندستان کے اچھے ہمسایہ ممالک جیسے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے سپاہی خندقوں میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

ستمبر ۱۹۴۸ء میں مون سون کی بارشیں رُکتے ہی میں نے کشمیر محاذ پر جانے کا فیصلہ کرلیا۔

مغربی پنجاب کے فوجی افسران نے مجھے ایک جیپ اور دو سپاہی بطور محافظ مہیا کردیے اور میں کوہِ ہمالیہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ مری کے بعد سڑک تنگ اور ڈھلوانی ہوتی گئی۔ کہیں کہیں اسے تھوڑا سا چوڑا کیاگیا تھا،تاکہ وہاں سے مقابل سمتوں سے آنے والی دو گاڑیاں گزر سکیں۔ اس سڑک پر ہندستان کے جنگی جہازاچانک یلغار کرتے اور مشین گنوں سے گولیاں بھی برساتے چلے جاتے تھے، اس لیے ہم رات کو روشنی کے بغیر سفر کرتے تھے۔ ہماری رفتار سُست تھی۔ پہاڑ اور ڈھلوان کے درمیان سرکتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی چند لمحات کے لیے جیپ کی بڑی بتیاں جلا لیتے تھے۔

ہم مظفرآباد کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے سورج طلوع ہونے سے پہلے بلندوبالا برف پوش چوٹیوں میں واقع پہلی فوجی چوکی تک پہنچ گئے۔ وہاں سے ہم پیدل چلتے ہوئے فوج کے ایک سپاہی کی رہنمائی میں اُونچی نیچی ڈھلوانوں سے گزرتے ہوئے خاصی بلندی پر آگئے۔ یہاں ایک چرواہے کی پرانی سی جھونپڑی تھی، جو اب فوجیوں کو اسلحہ بھجوانے کے لیے بطور ڈاک چوکی استعمال کی جارہی تھی اور محاذ پر لڑتے ہوئے جو فوجی زخمی ہوجاتے تھے، انھیں ابتدائی طبی امداد بھی یہیں فراہم کی جاتی تھی۔

یہ جھونپڑی پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت پتھریلے ٹکڑوں اور درختوں کی ٹہنیوں سے تیار کی گئی تھی اور یہ چٹان کی دو عمودی دیواروں کے درمیان شگاف میں واقع تھی۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو یہ جھونپڑی سپاہیوں سے بھری پڑی تھی۔ کچھ ابھی اگلے محاذ کے مورچوں سے واپس آئے تھے اور کچھ وہاں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ نچلی چھت کے وسط میں پیرافن کا ایک لیمپ لٹک رہا تھا اور اس کی مدھم سی روشنی کئی چارپائیوں پر پڑ رہی تھی۔ چارپائی مخصوص پاکستانی بستر ہے، جو لکڑی اور انترچھال کی رسیوں سے بنایا جاتا ہے۔ ان چارپائیوں پر زخمی سپاہی آرام کررہے تھے۔ کمپنی کا طبی عملہ یہاں ان کا عارضی علاج معالجہ کر رہا تھا اور یونہی گاڑی پہنچتی، انھیں نیچے وادی میں قائم کردہ ہسپتال پہنچا دیا جاتا۔

یہاں دو آدمیوں نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ ساتھ ساتھ پڑی ہوئی دو چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ شدید زخمی تھے اور ان کے بچنے کی اُمید بہت کم تھی۔ اس کے باوجود وہ ہشاش بشاش اور ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ میرے جیسے کمزور دل شخص کے لیے یہ عجیب و غریب منظر تھا۔ ان میں ایک کہنے لگا: ’’یار! میں تمھیں بہت جلد دوزخ میں ملوں گا‘‘۔ اور دوسرے نے جواب دیا: ’’نہیں، ہم دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اگر ہم مرگئے تو یہ شہید کی موت ہوگی، کیونکہ ہم نے اللہ کی راہ میں جان قربان کی ہے‘‘۔ اسی لمحے سیکٹر کمانڈر کا بھیجا ہوا ایک ماتحت افسر آیا اور ہمیں مورچوں کی طرف لے گیا۔

میری سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح برف سے ڈھکی زمین پر دستی بیلچوں سے یہ مورچے بنائے گئے۔ یہ اتنے گہرے تھے کہ میرے جیسا درازقد شخص سر اور کندھوں کو جھکائے بغیر بآسانی ان میں چل پھر سکتا تھا۔ وہاں جگہ جگہ جال کے نیچے مشین گنیں نصب تھیں، جن کے بیرل عمودی پوزیشن میں تھے اور وہ اس لیے کہ دشمن کے جہاز نچلی پرواز کرتے ہوئے جو حملے کرتے تھے، اُن سے اِن مورچوں کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت یہاں بالکل خاموشی تھی، البتہ فوجی جوان تیار کھڑے تھے۔ بیش تر سپاہی آرام سے بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے یا سگریٹ نوشی کر رہے تھے۔ جب کہ کچھ اپنی بندوقوں کی نالیاں صاف کرنے میں مصروف تھے یا کارتوس لگانے والی پیٹیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ اس سیکٹر کے تمام فوجی پنجابی تھے اور ان کا تعلق جہلم اور راولپنڈی سے تھا۔ یہ اعلیٰ قسم کے انسان ہیں۔ درازقد، دبلے پتلے، بعض چہرے مہرے یونانی دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً مجھے یاد آیا کہ سکندراعظم اور اس کے وارثوں کی کئی نسلیں پنجاب کے اسی علاقے میں مستقلاً اقامت پذیر رہیں۔ ممکن ہے یہ لوگ انھی سے نسلی تعلق رکھتے ہوں۔

میں تقریباً ایک گھنٹہ سیکٹر کمانڈر سے گفتگو کرتا رہا۔ وہ ایک نوجوان میجر تھا۔ میں نے اس کے ساتھ چائے پی۔ وہ اور اس کے فوجی ساتھی مجھ جیسے ایک ایسے مہمان سے مل کر بہت خوش ہوئے جو ان کے بلند حوصلوں کا معترف تھا اور ان کے اس جذبے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، جس  کے تحت وہ ملکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ میں نے انھیں مغربی پنجاب کے وزیراعلیٰ   [افتخار حسین ممدوٹ] اور ان کے توسط سے پاکستانی لیڈروں کی نیک خواہشات پہنچائیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں بلکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دنیا میں پنجابی فوجیوں کا کوئی ثانی نہیں اور وہ اپنے فوجی اوصاف جن سے وہ خود کماحقہٗ آگاہ نہیں، کی اس قدر افزائی کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ میں پہلی بار ان اگلے مورچوں تک آیا تھا اور یہاں کے ماحول نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں نے خود سے یہاں دوبارہ آنے کا وعدہ کرلیا۔

اب مجھے صحیح تاریخ کا تو علم نہیں، لیکن غالباً دسمبر ۱۹۴۸ء یا ۱۹۴۹ء کے اوائل میں مجھے غیرمتوقع طور پر یہاں آنے کی دعوت موصول ہوئی۔ایک روز لاہور کے سب سے بڑے کتب فروش کی دکان میں نئی مطبوعات کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ میری نظر میجر جنرل حمید پر پڑی۔ وہ بھی میری طرح ایسی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ لاہور کی بیش تر نام وَر شخصیات کی طرح میں انھیں بھی جانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے (اس وقت ان کی عمر ۴۰ سے کچھ زیادہ تھی)، لیکن وہ کشمیر کے محاذ پر ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔ میں نے انھیں پوچھا کہ وہ لاہور میں کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے بتایا: ’’محاذجنگ کی گھن گرج سے دُور چند روز کے لیے تعطیلات گزارنے یہاں آیا ہوں اور کل صبح واپس جا رہا ہوں‘‘۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی جو میرے لیے خاصی پُرکشش تھی، لیکن میں اتنی جلدی اپنے محکمہ احیا ملّت اسلامیہ کے کاموں کو یک لخت چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔ میں نے جواباً عرض کیا: ’’ابھی نہیں، لیکن ہفتے عشرے میں ایسا ممکن ہے‘‘۔

جنرل حمید کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے اگلے ہفتے ضرور آجایئے۔ میں روانگی سے قبل جہلم سے محاذِ کشمیر تک آپ کے لیے گاڑی اور حفاظتی دستے کا انتظام کروں گا۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کی آمد کے وقت میں کہاں ہوں گا۔ میں سیکٹر کمانڈروں میں کسی ایک کے نام آپ کو خط دے دوں گا اور وہ آپ کو ہرطرح کی سہولت مہیا کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اسے پسند کریں گے‘‘۔

ایک ہفتے بعد میں جیپ میں سوار جہلم سے مشرق کی جانب جا رہا تھا، اور ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا تھا۔ وہ پنجاب کی آٹھویں رجمنٹ میں دفع دار تھا۔ دوسرا فوجی پیچھے جیپ کے فرش پر تختوں پر مشین گن جمائے بیٹھا تھا۔ اس سفر کے دوران ہمارا رُخ پہاڑوں کی جانب نہیں تھا۔ ہماری سڑک آہستہ آہستہ دل کش مناظر سے گزرتی ہوئی کشمیر کے صوبہ پونچھ تک جاتی تھی، اور موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ ہندستانی فوجی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔

پنجاب اور کشمیر کی براے نام سرحد عبور کرتے ہی ہم پاکستانی فوج کے پڑائو پر جاپہنچے۔ یہاں سیکڑوں خیمے نصب تھے اور پیدل فوج کی خاصی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ یہ لشکرگاہ صوبہ پونچھ ہی کا حصہ تھی اور بھاری مشین گنیں اور چھوٹی توپیں اس کی حفاظت کے لیے لگائی تھیں۔ بظاہر ہندستانی فوج کوئی بڑا حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، اسی لیے یہاں کا عمومی ماحول قدرے پُرسکون تھا۔ کیمپ میں فوجیوں اور اسلحہ کی نقل و حرکت میں ڈسپلن کی کمی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ یہاں میں نے پٹھان اسکائوٹوں کے کچھ گروہ بھی دیکھے، جو اپنی پوشاک یعنی ڈھیلی شلوارکُرتہ اور پگڑی سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ سینوں پر کارتوسوں سے بھری ہوئی چمڑے کی پیٹیاں، کندھوں پر لٹکتی ہوئی بندوقیں اور کمربند میں خنجر۔ ان ہتھیاروں سے لیس جان کی پروا نہ کرنے والے یہ جنگجو، اب حقیقی فوجی ضابطوں کے آہستہ آہستہ پابند ہوتے جا رہے تھے۔ (درحقیقت اس وقت پاکستان کے سرحدی محافظ یہی قبائل پٹھان تھے، جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں کے دوران میں انتہائی مؤثر کردارادا کیا)۔

مجھے سیدھے سیکٹر کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں کے خیمے میں لے جایا گیا۔ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے تھے۔ غالباً اس وقت ان کی عمر ۳۵سال ہوگی۔ انھوں نے میرا پُرتپاک طریقے سے استقبال کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ میرے خیمے ہی میں رہیں گے۔ مجھے امید ہے آپ یہاں خوش رہیں گے‘‘۔ یعقوب خاں ہندستان کی امیرترین اور انتہائی اہم شمال مغربی مسلم ریاست رام پور (جو اَب ہندستان میں ضم ہوچکی ہے) کے موروثی وزیراعظم کے فرزند ہیں۔ وہ بڑے مہذب، دل کش اور خوش مزاج شخص ہیں، اس لیے ہم جلد ہی ایک دوسرے سے بے تکلف ہوگئے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ برسوں گزر جانے اور فاصلوں کے باوجود ابھی تک ہماری دوستی میں فرق نہیں آیا۔ کئی سال بعد وہ جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔ پھر وہ سفیرپاکستان کی حیثیت سے واشنگٹن میں تعینات ہوئے اور بالآخر صدر ضیاء الحق نے انھیں حکومت ِ پاکستان کے وزیرخارجہ کا قلم دان سونپا۔

لیفٹیننٹ کرنل یعقوب خاں نے بتایا: ’’میجر جنرل حمید آپ سے فوری ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو میں آپ کو کل صبح سویرے ان کے ہیڈکوارٹر روانہ کردوں گا‘‘۔ میں نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا، کیونکہ اس طرح میں یہاں کے محاذ کی صورت حال کا بھی سرسری جائزہ لے لوں گا۔

رات کا کھانا سادہ، لذیذ اور پُرتکلف تھا۔ دیر تک سگریٹ نوشی اور چائے کے دور چلتے رہے۔ اس کے بعد میں سونے چلاگیا۔ اگلے روز علی الصبح میں تیار ہوگیا۔ سیکڑوں فوجیوں کے ساتھ نمازِ فجر ادا کی۔ یعقوب خاں کے ساتھ ڈبل روٹی، نمکین پنیر اور چائے کا ناشتہ کیااور ان سے عارضی رخصت لے کر اسی جیپ پر اور انھی محافظوں کے ساتھ ہیڈکوارٹر کی جانب روانہ ہوگئے۔

ایک گھنٹہ بعد وہاں پہنچے۔ اس وقت میجر جنرل حمید اپنے افسروں سمیت صوبہ پونچھ کے ایک بڑے نقشے کا جائزہ لے رہے تھے۔ میں نے ان کی محویت دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹنا چاہا تو انھوں نے مجھے روکتے ہوئے کہا: ’’نہیں، آپ مت جایئے، آپ سے ہماری کوئی رازداری نہیں۔ درحقیقت آج میں آپ کو کچھ اور رازوں سے مطلع کروں گا‘‘۔

اس کے بعد میجر جنرل حمید صاحب نے مجھے اپنی جیپ میں بٹھا لیا اور ہم پونچھ اور ہندستان سے ملحقہ سرحدی علاقے کی طرف چل پڑے۔ کچھ دیر ہماری جیپ شمال کی طرف چلتی رہی۔ چند کلومیٹر کے بعد مغرب کی جانب مڑ گئی اور پھر بڑے سے نصف دائرے میں ذیلی سڑکوں سے ہوتی ہوئی، دوبارہ بڑی سڑک پر آگئی۔ پونچھ کا شہر پیچھے رہ گیا۔ اب نظروں سے بھی اوجھل ہوچکا تھا شاید اس نصف دائرے کے درمیان میں کہیں تھا۔ سڑک پر آمدورفت کم تھی۔ اِدھر اُدھر فوجی ٹولیوں میں سڑک کے کنارے بیٹھے وقت گزار رہے تھے۔ ایک بار مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک فوجی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ دائیں جانب دُور فاصلے پر میں نے ایک گھنا جنگل دیکھا، لیکن وہاں بھی کوئی چلتا پھرتا نظر نہیں آتا تھا۔

یہاں سے آگے بڑھے تو میجر جنرل صاحب نے میری طرف منہ پھیرا اور پوچھا: ’’کیا آپ نے اس جنگل میں کوئی دل چسپ چیز دیکھی؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’کچھ خاص نہیں، صرف درخت ہی تو ہیں‘‘۔

میجر جنرل صاحب مسکرائے: ’’آپ کو دیکھنا چاہیے تھا۔ اس چھوٹے سے جنگل میں پاکستان کے توپ خانے کا نصف حصہ چھپا بیٹھا ہے۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی ہے، وہ مکمل طور پر ہماری زد میں ہے اور جب ہم کل حملہ کریں گے، پونچھ میں مقیم ہندستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ چونکہ ہمارا توپ خانہ ان سے بدرجہا بہتر ہے، اس لیے وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ہم نے اب اپنے تمام فوجی دستوں کو یہاں تعینات کر دیا ہے۔ ان حالات میں ہندستانی فوج ہتھیار ڈال دے گی یا تہس نہس ہوجائے گی۔ اس کے بعد ہم سری نگر کی طرف پیش قدمی کریں گے، ان شاء اللہ۔ ہمارے لیے اب یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔

میجر جنرل حمید کی اس پُرامید گفتگو میں کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا۔ جوں ہی ہم واپس ہیڈکوارٹر پہنچے، انھیں ایک شدید دھچکا محسوس ہوا۔ اسی شام افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف کے توسط سے انھیں وزیراعظم لیاقت علی خاں کا بذریعہ تار ایک خفیہ پیغام موصول ہوا کہ: ’’اگلے روز حملے کا پروگرام منسوخ کردیا جائے‘‘۔

کئی ہفتوں بعد مجھے اصل صورت حال کا علم ہوا۔ ہندستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملے کا پتا چلا، اس نے فوراً اپنے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو تمام صورتِ حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کردیا۔ پنڈت صاحب نے اسی وقت برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا: ’’پاکستان کو ہرقیمت پر اس حملے سے روکنا ہوگا، کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندستان کے لیے بذریعہ جہاز پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں ہے۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اُٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے (کہیں اور کا اشارہ اشتراکی روس کی جانب تھا)۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے اور ضلع پونچھ ہندستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت صاحب اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب راے کا حق دے دیںگے‘‘۔

تمام رات نئی دہلی اور لندن کے درمیان ٹیلی فون کی تاریں بجتی رہیں۔ وزیراعظم اٹیلی کو ہندستان جیسا بڑا ملک ہاتھ سے نکلتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً لارڈ مائونٹ بیٹن (جو ۱۹۴۸ء کے آخر میں ہندستان کے گورنر جنرل کے عہدے سے مستعفی ہوکر اب انگلستان میں اپنی گذشتہ کامیابیوں پر شاداں و فرحاں زندگی گزار رہے تھے) سے مشورہ کیا اور کہا کہ برصغیر کے امورمختلفہ کے تجربہ کار ماہر کی حیثیت سے وہ نہرو کی تشویش دُور کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ چند گھنٹوں بعد لارڈ مائونٹ بیٹن نے پاکستان کے وزیرخارجہ محمد ظفراللہ خاں کو فون کیا اور انھیں بتایا کہ پنڈت صاحب نے کشمیری عوام کو حق راے دہی کا یقین دلایا ہے اور برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے بھی اس حملے کی منسوخی کے لیے ذاتی طور پر درخواست کی ہے۔ اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خاں سوئے تھے۔ ظفراللہ نے انھیں جگاکر یہ پیغام پہنچایا اور انھیں اٹیلی کی معروضات پر خصوصی توجہ دینے کی استدعا کی۔

اثر و رسوخ کے ان الجھیڑوں میں وزیرخارجہ سرظفراللہ خاں نے جو کردار ادا کیا، اس کی تفہیم کے لیے ان کے سابقہ واقعات اور مخصوص وفاداریوں کا مختصراً تذکرہ ضروری ہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے سرگرم رکن تھے۔ تمام مسلمان اس جماعت کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی قادیان کے مرزا غلام احمد تھے، جو پہلے پہل ایک عالمِ دین کی حیثیت سے مشہور تھے، لیکن بعد میں ان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا: وہ خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں اور جس کام کو حضوراکرمؐ نامکمل چھوڑ گئے ہیں، اس کی ’تکمیل‘ کے لیے انھیں مبعوث کیا گیا ہے۔ یہ ایک دعویٰ ہے جس کو ہندستان کے تمام مسلمانوں نے چاہے وہ سُنّی ہیں یا شیعہ، قطعی طور پر مسترد کردیا۔ نصِ قرآنی سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور اکرمؐ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی پیغمبر کرئہ ارض پر مبعوث نہیں ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اسلام کے بنیادی عقیدے کی نفی ہے، اس لیے وہ اور ان کے پیروکار اسلام کی حدود سے باہر ہیں۔ ہندستان کے برطانوی حکمران، تحریکِ احمدیت کو بڑی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ برسرِاقتدار اسلامی یا غیراسلامی حکومت کی اطاعت اور فرماں برداری کی سخت تاکید کررکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے مقتدر اصحاب، جماعت احمدیہ کے اراکین کی ہرطرح سے حمایت کرتے تھے۔ سر محمدظفراللہ خاں بھی ایک بااثر شخص تھے اور غلام احمد قادیانی سے گہری عقیدت رکھتے تھے، اس لیے وہ تمام عمر انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کے خدمت گزار رہے۔

ظفراللہ خاں باصلاحیت وزیرخارجہ تھے اور وزیراعظم لیاقت علی خاں بھی ان کی خوبیوں کے معترف تھے۔ مزید یہ کہ وہ کشمیر میں استصواب راے کرانے کے بارے میں نہرو کے وعدہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ جس مسئلے نے عرصۂ دراز تک پاکستان کی توانائیوں کو ضائع کردیا ہے، اس کا کوئی مستقل اور پاے دار حل تلاش کیا جاناچاہیے۔ یہی سوچ کر انھوں نے پاکستانی افواج کو پونچھ سے ہٹاکر بین الاقوامی سرحد پر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ یہ خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب راے کرانے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصہ کے لیے معرض التوا میں ڈال دیا گیا۔

یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی تھی۔ پونچھ میں ہندستانی افواج نے خود کو مضبوط کرلیا، جب کہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا، جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔

وزیراعظم لیاقت علی خاں کا حکم نامہ پونچھ کے گردونواح محاذِ جنگ پر تعینات پاکستانی فوجیوں پہ بم بن کر گرا۔ جب انھیں علم ہوا کہ حملہ منسوخ کردیا گیا ہے، تو وہاں موجود بہت سے افسر اور جوان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ کشمیر کو ہندوئوں کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے پاکستان کا حصہ بنانے کا انھوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ چکنا چُور ہوگیا۔ کوئی سنجیدہ شخص یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہاں مستقبل بعید میں بھی کبھی کشمیریوں کو موعودہ حق راے دہی مل جائے گا۔

[اس صدمے کے بعد] میجر جنرل حمید نے خود کو ہیڈ کوارٹر میں بند کرلیا۔ پھر کئی مہینے تک ان سے میری ملاقات نہ ہوسکی۔ اس کے بعد وہ فوج سے مستعفی ہوگئے۔ (ماخوذ: محمد اسد، بندۂ صحرائی (خودنوشت سوانح عمری)، مرتب: پولااسد، محمداکرام چغتائی، ناشر: دی ٹروتھ سوسائٹی، ۲-اے،۸۱، گلبرگ III، لاہور)

حکومت کے معاملات اور نظامِ کار کو چلانے کی واحد ذمہ داری حکومت پر نہیں، بلکہ یہاں کے تمام اداروں اور شہریوں پر بھی آتی ہے۔ لیکن پالیسیوں کے نفاذ، نظم و ضبط کو قائم کرنے اور عدل و انصاف کے ساتھ متوازن انداز سے روزمرہ معاملات کو چلانے کی آخری ذمہ داری حکومت ِ وقت ہی پر آتی ہے۔ تاہم حکومت ِصوبہ پنجاب کے مشیروں کی غالب تعداد، درحقیقت حکومت کے  مسائل اور عوام کی مشکلات دُور کرنے کے بجاے،انھیں اُلجھانے کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہاں پر تعلیمی شعبے کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و زیادتی پر مبنی کھیل اور تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی روش کی جانب توجہ مبذول کرائی جاتی ہے (رفتہ رفتہ یہ آگ پورے پاکستان کے تعلیمی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی)۔

  • گذشتہ برس پنجاب ۲۶ کالجوں میں بی اے کے کمزور نتائج پر، ان کالجوں کے مسائل کو سمجھنے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے بجاے ۲۶ پرنسپلوں کو بہ یک جنبش قلم معطل کر دیا گیا۔ اس چیز نے اصلاح سے زیادہ خوف اور بددلی پھیلانے کا کام کیا اور آخری قیمت خود طالب علموں کو دینا پڑی۔ یوں بہت سے طلبہ و طالبات داخلہ بھیجنے سے محروم رہ گئے۔
  • اس سال کے شروع میں یک لخت یہ اعلان کر دیا گیا کہ صوبہ پنجاب کے تمام اسکولوں میں انگریزی، پہلی کلاس سے لازم کردی گئی ہے۔ اعلان کرنے سے کون کسے روک سکتا ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود کالجوں میںانگریزی کے استاد نہایت قلیل تعداد میں موجود ہیں، کہاں پنجاب کے ہزاروں اسکولوں میں، انگریزی کے ایسے بخار کو مسلط کر دینا کہ جس کے جواز اور عمل کے بارے میں بے شمار سنجیدہ سوالات جواب طلب ہیں، جہاں تربیت یافتہ اساتذہ کا فقدان اور سہولیات کا فقدان پھن پھیلائے ناگ کی طرح کھڑا ہے، وہاں پر ایسا غیرحقیقت پسندانہ اعلان ایک عاجلانہ اقدام تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ ایک دو ماہ بعد حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جس چیز کا بہرحال حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ (یاد رہے ایسا ہی اعلان ۱۹۹۴ء میں پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ منظوروٹو نے کیا تھا اور چار ماہ خاک اُڑانے کے بعد اس غیر دانش مندانہ فیصلے کو واپس لیا تھا)۔
  • آمرمطلق جنرل پرویز مشرف کے زمانے ۲۰۰۲ئ-۲۰۰۳ء میں، سابق فوجیوں، بیوروکریٹوں اور این جی اوز کے مالی و نظریاتی شکاریوں کو نوازنے کے لیے، کالجوں اور ہسپتالوں میں بورڈ آف گورنرز مسلط کرنے، اور اس پردے میں درحقیقت ان تعلیمی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کے احمقانہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں، پروفیسروں اور طالب علموں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں، اس ڈاکا زنی کا راستہ روک دیا گیا۔ تمام سیاسی قوتوں بہ شمول پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی نے استادوں، ڈاکٹروں اور طالب علموں کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کی اور مزاحمت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

اب، جب کہ جمہوری حکومت، باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، معلوم نہیں اس میں شامل وہی پارٹیاں، جو بجاطور پر ماضی میں اس گھنائونے کھیل کی مخالف تھیں، انھوں نے کس طرح خود ۲۶کالجوں میں بورڈ آ ف گورنرز قائم کر کے، اور پھر اس راستے پر چلتے ہوئے مزید اداروں کا تیاپانچا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ  انھیں ایک ایسی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور اس علاقے کے ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیا واقعی کوئی جمہوری حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدام کا فیصلہ کرسکتی ہے؟

  • ان کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کرکے، چار سالہ بی ایس ڈگری کورس کے اجرا کا خوش نما خواب دکھایا گیا ہے۔ یہاں پر حکومت کے مشیروں کو اس امر کی وضاحت کرنی چاہیے کہ جن چند تعلیمی اداروں کو گذشتہ ۱۵ برس کے اندر اس نوعیت کے تجربے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ ادارے اپنا شاندار ماضی رکھنے، اساتذہ کی بڑی تعداد اور وسائل کا اچھا خاصا اثاثہ رکھنے اور بے تحاشا قومی وسائل ہڑپ کرنے کے باوجود، تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اب تک کورس کی آئوٹ لائن نہیں بن سکی، کہیں سمسٹرسسٹم کے نام پر دھاندلی اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے، اور کہیں سہولیات کا فقدان سوالیہ نشان ہے۔ پھر ان مذکورہ اداروں کا اصل زور پڑھائی پر نہیں وسائل کے مالِ غنیمت کو جمع کرنے پر ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کثیرتعداد غیرتربیت یافتہ اور چند ہزار روپوں پر استادوں کی بھرتی یا ریٹائرڈ اساتذہ کو کچھ وظیفہ دے کر کام چلانے کا کلچر روزافزوں ہے۔ چونکہ کسی مقتدرہ یا اتھارٹی کے پاس ان سے سوال جواب کرنے کی فرصت نہیں، اس لیے آخری ہدف بے چارے طالب علم کا وقت، اس کے والدین کی جیب اور پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر کے بڑے کالجوں میں یہ تجربہ عبرت کا نشان بن چکا ہے، تو پھر مضافات میں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے کالجوں میں یہ نظام لانا، کس تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پنجاب یونی ورسٹی جیسے باوقار تعلیمی ادارے نے بھی دوچار سال بعد، سالِ رواں سے بہت سارے شعبہ جات میں سمسٹرسسٹم ختم کر دیا ہے۔ لیکن حکومت کے مشیر، وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ: ’’آپ بورڈ آف گورنرز اور چار سالہ ڈگری کورس مع سمسٹر سسٹم پنجاب بھر میں پھیلا دیجیے۔ اس طرح ایشیائی ٹائیگر بن جائیں گے‘‘۔  یاد رہے اس سسٹم میں جو پڑھاتا ہے، وہی پرچہ بناتا ہے اور خود ہی پرچے کے نمبر لگاتا ہے۔ نمبروں کے اس جمعہ بازار کے بل پر ڈگریاں لینے والے لوگوں کے سامنے تو کئی غیرڈگری یافتگان کے   سر فخر سے بلند ہوجائیں گے، کہ بھائی ہم تم سے بہتر ہیں۔

  • اس سسٹم کو نافذ کرنے کے نتیجے میں، ان کالجوں میں دو سالہ ڈگری کورس کے جن   طلبہ و طالبات کا داخلہ ختم ہوجائے گا، ان کے مستقبل کا کیا بنے گا؟ نئے استاد، ڈاکٹریٹ کی جعلی ڈگریوں کے ساتھ کس اعزازیے پر تشریف لائیں گے اور چار سالہ ڈگری کے طلب گار طالب علم، کیسا فیضِ علم پائیں گے، اس کا فیصلہ تو سال بھر میں ہوجائے گا، لیکن ہزاروں طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کو جو صدمہ پہنچے گا، اس کی تلافی کوئی پنجاب اسمبلی اور کوئی سپریم کورٹ نہ کرسکے گی، جب کہ اس ڈگری کے لیے ہر بورڈ آف گورنر اپنی من مانی کے ساتھ مہنگی فیسوں کا طوفان برپا کرتا رہے گا۔ کیا حکومت پنجاب، عوام کے نام پر، عوام کے بچوں کے تعلیمی اداروں کو نئے ساہوکاری نظام کی نذر کرنا چاہتی ہے؟ عقل اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ دو سالہ ڈگری حاصل کرنے والے طالب علموں کا کیا مستقبل ہے؟ کیونکہ ۲۵،۳۰ کالجوں میں مہنگی تعلیم اور من مانے نمبر حاصل کرنے والے امیرزادے تو ان بے زر   طالب علموں کو پچھاڑ کر آگے نکل چکے ہوں گے۔
  • اسی طرح مبینہ طور پر حکومت اس فیصلے کو بھی آخری شکل دے رہی ہے کہ پنجاب کے ۴ہزار کالج پروفیسروں کوجبری طور پر ریٹائر کردیا جائے، تاکہ خزانے پر سے بوجھ کم ہو۔ ایک طرف خزانے سے بوجھ ہٹانے کا یہ ظالمانہ منصوبہ اور دوسری جانب ٹھیکے (یعنی کنٹریکٹ) پر غیر تربیت یافتہ اور اپنے تدریسی مستقبل کے بارے میں خوف زدہ استادوں کی بھرتی___ کیا اس نوعیت کے فیصلے سے پنجاب میں علم و ہنر کے پھول کِھلیں گے یا تعلیم و دانش کا دیوالیہ نکلے گا؟
  • شریف حکومت اپنے مرکزی حلیفوں کے ساتھ مل کر متضاد رویوں کی عکاس ایک تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس میں انٹر کی کلاسیں رفتہ رفتہ اسکولوں میں منتقل کردی جائیں گی، جہاں نہ لیبارٹریاں موجود ہیں اور نہ اس درجے کا تربیت یافتہ عملہ۔ دوسری جانب سوال یہ ہے کہ کالجوں کے اتنے بڑے رقبوں اور عمارتوں کا کیا بنے گا؟ جواب صاف ظاہر ہے کہ انھیں کوئی بیکن ہائوس، کوئی سٹی ٹائپ یا کوئی اور گروپ آف کالجز وغیرہ اُچک لیں گے۔ رسمی سا کرایہ دیں گے اور کسی کنگرو اسمبلی کی چھوٹی سی قرارداد سے وہ رسمی رقم بھی ہمیشہ کے لیے معاف کرا لیں گے۔ کیا اس اندھیرنگری کی طرف اسی جمہوری دور میں سفر کرنا تھا؟ یاد رہے ریلوے کے بڑے بڑے اسکول، جہاں مزدوروں کے بچے پڑھا کرتے تھے۔ آج ان کی ملکیت یا کنٹرول تبدیل ہوجانے کے سبب وہ بچے ان اسکولوں کے قریب سے بھی نہیں گزر سکتے۔
  • پنجاب حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ایک ٹاسک فورس اس سلسلے میں بھی کام کررہی ہے کہ جن جن کالجوں میں بی کام کی تعلیم دی جارہی ہے، اس بی کام کی تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے۔ کیا حکومت نے پولیس اور عدلیہ کو بھی رفتہ رفتہ نجی شعبے کے ہاتھوں بیچنے کا فیصلہ کرلیا ہے!

اگر پنجاب حکومت کے اعلیٰ دماغ ایسا نہیں چاہتے، تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والا یہ کھیل کیوں کھیل رہے ہیں؟

 

’’ایک ،دو، تین___ نہیں، یہ تو چار، پانچ، چھے درجن سے بھی زیادہ ہیں، جنھوں نے  بی اے کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں نشستیں حاصل کی ہیں‘‘۔ یقینی بات ہے کہ خود ہارنے والے امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد نے ایسے ہی حلفیہ بیان داخل کرائے ہوں گے، جس میں غلط اعداد و شمار کے سچا ہونے کی قسم کھائی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایسے جھوٹے ارکانِ اسمبلی کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کے ساتھ گذشتہ اسمبلیاں (۰۷-۲۰۰۲ئ) پانچ سال مکمل کرچکی ہیں، اور دوسری اسمبلیوں نے دو سال پورے کرلیے ہیں۔

یہ امر جس قدر افسوس ناک ہے، اپنے نتائج کے اعتبار سے اس سے بہت زیادہ سنگین ہے۔ جعلی ڈگریوں کے اجرا سے پیدا شدہ جرائم کا یہ سلسلہ، ان جعلی اور جھوٹے دعووں سے جاملتا ہے، جنھیں بعض مہاجرین نے متروکہ املاک کو ہتھیانے کے لیے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ اس لوٹ کھسوٹ میں چند بااثر تو مال و متاع لے اُڑے، مگر مہاجرین کی بہت بڑی تعداد اپنے جائز حق سے بھی محروم رہ گئی۔ نتیجہ یہ کہ حسرت، ناکامی اور محرومی کے اس زہر    نے ہزاروں خاندانوں کے مستقبل کو ڈس لیا۔ جھوٹ کے اس کاروبار نے آنے والے دنوں میں  قسم قسم کی سماجی بیماریاں پیدا کیں۔ مثال کے طور پر:

۱- پس ماندہ علاقوں کے بچوں کے لیے کوٹے کی محفوظ نشستوں پر شب خون مارنے    کے لیے جعلی ڈومیسائل تیار کر کے اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجینیریا سول سرونٹ بنانا۔

۲- پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگریاں حاصل کر کے معاشرے پر دھونس جمانا، ملازمت میں ترقیاں پانا، گریڈ حاصل کرنا، اور ماہانہ دس پندرہ ہزار روپے بھتہ وصول کرنا (اس قماش کی دھاندلی زدہ ڈگریوں میں خون پسینہ ہمسایے کا، سفارش دوست کی، ماہانہ وظیفہ ریاست کا اور صرف نام اپنا استعمال ہوتا ہے)۔

۳- صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے ۲۰۰۲ء میں لازم کیا گیا کہ کم از کم گریجوایٹ فرد اس انتخاب میں حصہ لے سکے گا۔ اس قانون کا احترام کرنے اور معقول طریقے سے اس کو تبدیل کرانے کے بجاے، قومی قیادت کے لیے سامنے آنے والوں کی ایک تعداد نے جعل سازی کا ارتکاب کیا اور جعلی ڈگریوں کے ساتھ کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔

خاص طور پر ۱۹۵۵ء کے بعد وحدتِ مغربی پاکستان (ون یونٹ) کے زمانے سے، اور پھر بعد میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لیے، سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری ملازمین کی ملی بھگت نے پس ماندہ علاقوں میں احساسِ محرومی کو    نہ صرف بڑھایا، بلکہ اس کے نتیجے میں مرکز گریز قوتوں کو وجود بخشا اور تقویت دی۔ دیکھا جائے تو اس دھاندلی سے محض چند سو طالب علموں نے حق داروں کی حق تلفی کی، لیکن جوابی ردعمل میں وہاں سے ملک کے کروڑوں شہریوں کو نفرت کا پیغام ملا۔ جن لوگوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، اور جو ریاست کے معاملات کے امین ہیں، ان کا یہ اقدام ملک سے بے وفائی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دھاندلی کا مرتکب قرار پایا، مگر قوم بے بسی میں ان کا احتساب تک نہ کرسکی۔

جعلی ڈگریوں کے اجرا میں اس نوعیت کی مثالیں سامنے آئی ہیں:

پہلی یہ کہ کچھ لوگوں کو وہم ہے کہ نام کے ساتھ ’ڈاکٹر‘ لگانے سے غالباً عزت میں اضافہ ہوتا ہے یا اس سے زندگی ذرا لمبی ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں فضول وہم ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق مرحوم کی حکومت میں وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے پی ایچ ڈی کرنے والوں کے لیے چند ہزار روپوں کا اضافی الائونس دینے کا اعلان کیا، تو اس چیز نے ’عزت‘ کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ’جیب‘ گرم کرنے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ یوں جائز، اہل اور محنتی محققین کے ساتھ فراڈ، نالائق اور جعلی ’ڈاکٹروں‘ کی بھی ایک فصل تیزی سے پک پک کر تیار ہونا شروع ہوئی۔

حکومت نے لوگوں کو تحقیق کے راستے پر چلنے کے لیے اُبھارا مگر یونی ورسٹیوں کے   بعض اساتذہ نے یہاں بھی جرم کا ارتکاب کیا، انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متعدد جعل سازوں کو ڈاکٹریٹ کی عباے فضیلت پہنانے کا گناہ کیا۔ اس ضمن میں اپنے گروہ کو نوازنے کے ’بے لوث‘ جذبے اور تعلقات کی برکھا نے جل تھل کردیا۔ ایسی ’پی ایچ ڈیوں‘ میں عموماً شعبہ ہاے اسلامیات، اور شعبہ ہاے ادبیات، پھر سماجیات، نمایاں نظر آتے ہیں۔ اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے تو  مذہبی طبقے کے ایک گروہ نے ایسی ڈاکٹریٹ حاصل کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھائی ہے۔ بعض مقالے تو کسی ’گھوسٹ محقق‘ نے لکھے، پروف دوسرے لوگوں نے پڑھا اور بعض مقالے دس بارہ لوگوں نے انٹ شنٹ ٹکڑے جوڑ کر تیار کیے اور مستقبل کے ڈاکٹر صاحب نے، محض کمپوزنگ کرانے اور جِلد بنوانے کا کرب برداشت کیا۔ دوسری طرف ۵سو ڈالرفیس دے کراسپین یا امریکا سے ڈگریاں حاصل کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیے کہ ایسے مقالات پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا اعلان کرنے کے ساتھ، مقالے کی قدروپیمایش کرنے والے محققین کی اس راے کا پورا احترام کیا جاتاہے: ’’ڈگری دے دی جائے، مقالہ شائع کرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘۔ کیا ایسے مقالات میں ریاست کا کوئی خفیہ راز پوشیدہ ہوتا ہے یا کوئی مخرب اخلاق حوالہ؟ اصل میں یہ مقالے اس قابل نہیں ہوتے کہ اشاعت کے بعد یونی ورسٹی کی نیک نامی کا سبب بن سکیں۔ بعض دُوراندیش ڈاکٹر صاحبان تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے مقالے کی کاپی لائبریری تک پہنچنے ہی نہیں دیتے، اور مقالے کا اسقاط اپنے یا یونی ورسٹی کلرکوں سے کراد یتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں: آزادی! کس وقت شوکت تھانوی کا افسانہ ’سودیشی ریل‘ یاد آیا ہے۔

ان دوسری قسم کا تعلق بعض مذہبی عناصر سے جڑتا ہے۔ اگرچہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، تقویٰ، للہیت اور علم و ایثار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر دے دیا کرتے تھے کہ: ’’اس برخوردار سے مَیں نے سنا اور اسے پڑھانے کی اجازت دی‘‘ تو وہ فرد علما کی صف میں شامل ہوجاتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے بجاطور پر  دینی مدارس سے درسِ نظامی پاس کرنے والے طالب علموں کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے برابر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، تو اس چیز پر اظہارِ تشکر کے بجاے، مختلف فرقہ وارانہ مسالک نے اپنے امتحانی نظام میں لچک پیدا کی یا نمبر دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کیا، یا اپنے ہم مسلکوں کو ڈگری دینے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ اس طرح وہ فضا پیدا ہوئی، جس میں خود دینی مدارس کے   علماے کرام کو سخت دل گرفتگی میں یہ کہنا پڑا: ’’اس ایم اے کے برابر درجے کی ڈگری نے تو ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس دوڑ میں شرکت کی خواہش نے حصولِ علم کی خواہش کو بُری طرح پامال اور گریڈ ۱۷ کی نوکری حاصل کرنے کی بھوک میں اضافہ کیا ہے‘‘۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ بعض دینی مدارس کے بورڈوں نے اور بعض منتظمین نے وہ راستہ اختیار کیا، جس پر ندامت کے پسینے کے سوا اور کیا بہایا جاسکتا ہے۔ ان جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے کہ تمام وفاق یا دینی مدارس کا ہرطالب علم اسی طرح کر رہا ہے، حاشا وکلا ایسا نہیں ہے، مگر اُوپر جو صورت بیان کی گئی ہے، اس کے بھی خاطرخواہ شواہد موجود ہیں۔ نقل یا دھاندلی ہر جگہ جرم ہے، لیکن اگر اس بیماری کا چلن مذہبی طبقے میں جڑ پکڑ لے تو صورت حال دھماکا خیز ہوجاتی ہے۔

تیسری قسم ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں کے ان پروفیسر صاحبان پر مشتمل ہے، جنھوں نے ترقیاں پانے کے لیے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول میں ایسی خیانت کاری (plagarism) کی مثالیں پیش کی ہیں کہ سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ ان ’ڈاکٹروں‘ نے مقالوں کی تیاری میں حددرجہ جادوگری دکھائی ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر الگ مضمون کی گنجایش ہے۔

پھر چوتھی صورت یہ سامنے آئی کہ جب بی اے کی ضرورت پورا کرنے کے لیے براہِ راست ایم اے کی ڈگری کے برابر مذہبی وفاق کی ڈگری مل سکتی ہے تو اس سے کیوں نہ استفادہ کیا جائے۔ اسی باعث ایک تعداد نے مذہبی بورڈوں کی ڈگری سے اپنی امیدواری کو ’جائز‘ بنایا۔ اگرچہ ایسی مثالیں درجن بھر ہی کیوں نہ ہوں، مسند ِ ارشاد و تقویٰ کے وارثوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی ساکھ کو کن ظالموں نے نقصان پہنچا کر جگ ہنسائی کا سامان مہیا کیا ہے۔

اس کے بعد ہے باری اُس نوعیت کی، جس کے تحت بی اے کی جعلی ڈگریاں لے کر دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا گیا۔ ایسے ہرکیس کو بدترین جعل سازی بلکہ ڈاکا زنی اور   دہشت گردی کا کیس تصور کرتے ہوئے تحقیقات کی جانی چاہیے۔ اگر پارلیمنٹ، سقراط کے الفاظ میں: ان لوگوں کا گڑھ نہیں ہے جو عوام کے بجاے صرف اپنے ہی مفاد پر نظر رکھتے ہیں۔ تو پھر انھیں اس بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ وگرنہ عدالت، عوام اور میڈیا اپنا راستہ خود تلاش کرلیں گے۔ اس پس منظر میں صرف ۲۰۱۰ء کی چند خبریں ملاحظہ فرمایئے:

  • ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ء دی نیوز انٹرنیشنل اسلام آباد میں عثمان منظور نے رپورٹ کیا: ’’جعلی ڈگریوں کے حامل مزید ارکانِ پارلیمنٹ خطرے کی زد میں آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے   رکن قومی اسمبلی جمشید دستی اور مسلم لیگ ق کے رکن اسمبلی نذیر جٹ نے سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری ثابت ہونے کے بعد استعفا دے دیا ہے، مگر یہیں پر ایک دل چسپ منظر یہ بھی دیکھیے: صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی جانب سے یہ چیز ریکارڈ پر لائی گئی تھی کہ انھوں نے پیڈنٹن [Pedinton] اسکول، لندن سے ’کاروباری انتظامیات‘ اور معاشیات میں ڈگری لی تھی۔ تاہم ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ سے یہ ثبوت ہٹا دیا گیا۔ دراصل تحقیق کاروں نے پیڈنٹن اسکول کو لندن ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ میں تلاش کرنے کی بارہا کوشش کی، مگر کسی جگہ اس ادارے کو موجود نہ پایا گیا۔ برٹش کونسل نے بھی برطانیہ میں ایسے کسی ادارے کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس سے ملتا جلتا ایک ادارہ پیڈنگٹن [Pedington] سڈنی، آسٹریلیا میں مل گیا، مگر وہاں پر صرف نرسری سے انٹرمیڈیٹ تک تدریس ہوتی ہے۔  اندریں اثنا صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا صاحبہ نے دی نیوز کے رپورٹر عمرچیمہ کو بتایا کہ: ’’میرے بھائی آصف نے سینٹ پیٹرکس کالج کراچی سے ڈگری کا امتحان پاس کیا تھا‘‘، مگر معلوم کرنے پر کالج انتظامیہ نے اپنے ریکارڈ میں ایسے کسی فرد کا نام نہ پایا۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر عدل و قانون جناب بابر اعوان کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں قوی شکوک و شبہات موجود ہیں، جب کہ وہ اس بات سے انکاری ہیں۔ بابر اعوان نے مونٹی سیلو [Monticello] یونی ورسٹی سے ڈگری لینے کا دعویٰ کر رکھا ہے، اور صورت یہ ہے کہ امریکی ایجوکیشنل فائونڈیشن (USEF) نے تصدیق کی ہے کہ: ’’یہ یونی ورسٹی نہ تو ڈگری پروگرام کرا سکتی ہے اور نہ پی ایچ ڈی کے کورس ہی پیش کرسکتی ہے، بلکہ اس نام نہاد    یونی ورسٹی کو ۲۰۰۰ء میں اس نوعیت کے فراڈ کرنے پر ۱۷ لاکھ ڈالر جرمانہ کرکے بند کر دیا گیا تھا‘‘۔ پھر ہائرایجوکیشن کمیشن بھی اس یونی ورسٹی کو جعلی قرار دیتا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) فارورڈ بلاک کے رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود (گجرات) کی ڈگری بھی مشکوک ہے۔ اس میں     دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں طارق محمود (پیدایش: ۵مئی ۱۹۵۵ئ) ۱۹۷۱ء میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان دینے کے لیے رجسٹرڈ ہوئے، مگر وہ میٹرک کا امتحان پاس نہ کرسکے۔ انھوں نے جس طارق محمود کی ۲۰۰۳ء کی گریجوایشن کی ڈگری جمع کروا کے نامزدگی منظور کرائی، اس طارق محمود کی تاریخ پیدایش ۲مارچ ۱۹۷۸ء ہے، اور اس نے گوجرانوالہ بورڈ سے ۱۹۹۵ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا تھا۔ یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی حاجی ناصر ایسی جعلی مذہبی ڈگری لینے کے جرم میں نااہل قرار پاچکے ہیں۔ جنرل مشرف کابینہ کے دو وزراے مملکت بھی جعلی ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ سابق سینیٹر پری گل آغا کی ڈگری کو بھی چیلنج کیا گیا، مگر کوئی جواب دینے کے بجاے ۱۷ویں ترمیم جیسا کارنامہ انجام دے کر، وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوئی ہیں۔ (روزنامہ، دی نیوز انٹرنیشنل، ۲۸ مارچ ۲۰۱۰ئ)

  • پنجاب صوبائی اسمبلی کے ۲۹ ارکان کی جعلی ڈگریوں پر مشتمل کیس لاہور ہائی کورٹ کے انتخابی ٹریبونل میں زیرسماعت ہیں، جس میں تینوں پارٹیوں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے وابستگان شامل ہیں۔ یاد رہے ان مبینہ ۲۹ ملزم ارکانِ اسمبلی میں پانچ خواتین  ارکانِ اسمبلی بھی جعلی ڈگریوں کی حامل قرار دی جارہی ہیں (The Peninsula،قطر، ۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • منڈی بہائوالدین سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمدطارق تارڑ، ملتان یونی ورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے دعوے دار ہیں، مگر وہ اپنا نام تک انگریزی میں نہیں لکھ سکتے۔ ان کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ میں زیرسماعت ہے ( دی نیشن، لاہور، ۱۲ مئی ۲۰۱۰ئ)
  • مسلم لیگ (ن) نے پنجاب صوبائی اسمبلی کے ان ۵۴ ارکان اسمبلی کی فہرست تیار کی ہے، جو اگرچہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان میں قدر مشترک ایک ہی ہے، اور  وہ ہے گریجوایشن کی جعلی ڈگریاں۔ (روزنامہ ڈیلی ٹائمز، لاہور، ۷مئی ۲۰۱۰ئ)

ذرا غور کیجیے کہ جن لوگوں نے جھوٹ کے بل بوتے پر حقِ نمایندگی حاصل کیا، ان کے ہاتھوں قانون سازی کی حیثیت کیا ہوگی۔ حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ایسے لوگوں کو دوبارہ اپنی پارٹیوں میں نہ صرف شامل کر رہے ہیں، بلکہ انھیں پارٹی ٹکٹ اور عہدے بھی دے رہے ہیں (جعل سازی پر نااہل قرار پانے والے جمشید دستی کو بڑی دیدہ دلیری سے پیپلزپارٹی نے پھر   قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نامزد کیا اور وہ جیت بھی گئے)۔ اس میں زیادہ افسوس ناک طرزِعمل الیکشن کمیشن کا رہا ہے کہ جس نے ایسی عذرداریوں کی سماعت کے لیے سال ہا سال ضائع کیے، حالانکہ یہ مقدمے دو، تین پیشیوں سے زیادہ بحث و تفتیش کے متقاضی نہ تھے۔ یعنی یہی معلوم کرنا تھا کہ فلاں فرد نے جو بی اے کی ڈگری جمع کرائی ہے، کیا متعلقہ یونی ورسٹی اسے اپنے ریکارڈ کے مطابق درست قرار دیتی ہے؟ (ارکانِ اسمبلی کی ایسی دستاویزات کے اندرجات الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر بھی مہیا کرسکتا تھا)۔ اسی طرح مذہبی بورڈوں سے منسوب ایسے مشکوک امیدواروں سے، عدالت میں قرآن، حدیث اور سبع معلقہ سے آٹھ آٹھ سطروں کا ترجمہ سن کر ان کی اہلیت کو متعین کیا جاسکتا تھا، بلکہ خود براہِ راست دینی امور پر بحث بھی اُن کی حقیقت کو بے نقاب کرسکتی تھی۔ (یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے میڈیکل کالجوں اور انجینیرنگ یونی ورسٹیوں میں داخلے کے لیے حافظِ قرآن امیدواروں کی محض سند کی بنیاد پر اہلیت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، بلکہ    تین رکنی بورڈ براہِ راست ان امیدواروں سے قرآن سن کر ان کی اہلیت کا فیصلہ کرتا ہے)۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اور یہ نمایندے فریب کاری کرتے ہوئے، عزت کے مقام اور قانون سازی کی مسند پر بیٹھے مزے اُڑاتے رہے۔

یہاں لازم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو دیکھیں: ارشاد ہے:

  • ’’ایک بندئہ مومن کی فطرت میں خیانت اور جھوٹ کا وجود ممکن نہیں‘‘ (مسنداحمد، بیہقی)۔
  • ’’یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیان کرو، حالانکہ وہ تم کو اس بیان میں سچا سمجھتا ہو‘‘(ابوداؤد)۔
  •  ’’جس شخص نے حاکم کے سامنے جھوٹی قسم کھائی، تاکہ اس کے ذریعے کسی مسلمان کا مال مار لے، تو قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں اس کی پیشی ہوگی کہ اللہ اس پر سخت غضب ناک اور ناراض ہوگا‘‘(بخاری، مسلم)۔ l ’’جو شخص خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے تو وہ بھی اسی [خیانت کار] کی مانند ہے‘‘ (ابودائود)___ ان احادیث مبارکہ سے ایسے جعل ساز ڈگری یافتگان کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اور اب یہ خبر ملاحظہ ہو:

  •  ’’پاکستان الیکشن کمیشن نے ان ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے بارے میں، جنھوں نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا، انھیں سبق سکھانے اور سیاسی عمل سے باہر نکال دینے کے لیے حکم جاری کیا ہے۔ قائم مقام چیئرمین الیکشن کمیشن جسٹس جاوید اقبال نے ہدایت کی ہے کہ جعلی ڈگریوں والے ممبران اسمبلی کے خلاف فوج داری مقدمات درج کیے جائیں، ایسے مقدمات قانون کے مطابق فوری طور پر نمٹائے جائیں، اور انھیں آیندہ الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ جعلی دستاویزات اور جھوٹے بیاناتِ حلفی داخل کرنا سنگین بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، ان کے خلاف عوامی ایکٹ ۱۹۷۶ء (سیکشن ۷۸) کے تحت سیشن جج کے روبرو جانا لازم ہے‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، نواے وقت، جنگ، ۷ مئی ۲۰۱۰ئ)

کیا جناب جاوید اقبال کی اس خواہش کا حشر بھی ’این آر او‘ والے فیصلے پر عمل درآمد کے نام پر بلی چوہے کا کھیل تو نہیں بنا دیا جائے گا؟ مگر ظاہر ہے دعوے کا جواب دعویٰ بھی ہوتا ہے اور بقول ہیگل: Thesis کا Anti-Thesis۔ اسی کا نتیجہ دیکھیے کہ چیئرمین الیکشن کمیشن کے بیان کے چھے روز بعد اسی الیکشن کمیشن کے سیکرٹری صاحب فرماتے ہیں: ’’فروری ۲۰۰۸ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن میں ۷۰ پیٹشنز جعلی ڈگریوں سے متعلق تھیں۔ الیکشن کمیشن ان میں سے ۲۴ پر فیصلے دے چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر گذشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے نااہل نہیں ہیں‘‘ (روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۱۳ مئی ۲۰۱۰ئ)۔ اس اُڑتی ہوئی دھول میں چیئرمین صاحب کا فرمایا سچ سمجھا جائے یا سیکرٹری صاحب کو معتبر جانا جائے۔ قانون کا احترام کیا جائے یا احکامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری کی جائے۔

موشگافیوں کو چھوڑ کر حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو، جو جعلی ڈگریاں لے کر مسندِ تدریس پر بیٹھے ہیں یا مسندِ حکومت پر براجمان ہیں، ان کو نااہل قرار دینے کے ساتھ، ان سے تمام وصول شدہ تنخواہوں، الائونسوں اور تحفوں کو نہ صرف واپس لے، بلکہ بھاری جرمانے بھی وصول کرے۔ مزید یہ کہ فراڈ کے جرم کی جو سخت ترین سزا ممکن ہے، اسے بھی ان پر نافذ کرے۔ احتساب اور شفافیت نے آخر کہیں سے تو اپنے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام اس قافلۂ عدل کے مدتوں سے منتظر ہیں۔ شاید وہ گھڑی آن پہنچی ہے ، جب کہہ سکیں کہ ’ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔

کیا خوب صورت نام ہے، ’’پاکستان‘‘ …پاک لوگوں کا وطن۔ یہ مملکت خداداد دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے یقینا خالق کائنات کی عظیم نعمت ہے جسے صرف خوب صورت نام ہی عطا نہیں کیا گیا بلکہ کلمہ طیبہ اس کا جواز ٹھیرا، اوررمضان المبارک کی ستائیسویں شب، یعنی شب ِ قدر کو اسے وجود بخش کر، گویا اس مملکت کے مبارک و مقدس ہونے کی بشارت دی گئی، اور جس کے بارے میں دور حاضر کے عظیم مفکر، مدبر اور مفسر قرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا کہ ’’یہ ملک ہمارے لیے مسجد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے ایک ایک انچ کا دفاع ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں‘‘۔

مالک الملک نے پاکستان کو ہر لحاظ سے بے پناہ وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے، مگر اسے یہاں کے مقتدر طبقے کی نا اہلی اور بے تدبیری ہی کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بھوک اور ننگ کو یہاں کے عوام کا مقدر بنا دیا گیا ہے اور زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ قوم عملاً بھکاری اور عالمی استعمار کی غلام بن چکی ہے۔ آج یہ ملک بحران در بحران کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ہرطرف مہنگائی و بے حیائی، بے کاری و بے روز گاری، بے عملی و بدامنی، بد انتظامی و بدعنوانی اور  ان سب پر مستزاد بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا راج ہے اور ان میں سے ہر ایک خرابی دوسری میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بجلی اور توانائی کی عدم دستیابی کے باعث کارخانے اور فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں جہاں پیداوار میں کمی و اشیا کی نایابی اور مہنگائی و گرانی میں اضافہ ہوتا ہے وہیں بے چینی اور بے روز گاری بھی بڑھتی ہے۔ ایسی صورت حال میں بے بس، بے کس اور بے روزگار لوگوں کو   اس کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیوی بچوں سمیت خودکشی کرلیں یا پھر سڑکوں پر آ کر احتجاج کی راہ اختیار کریں، چنانچہ ملک بھر میں مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ محنت کش مزدور، کسان، تاجر، طلبہ، اساتذہ اور کلرک، غرض یہ کہ تمام ہی طبقات احتجاج میں شامل ہیں کہ سنگین سے سنگین تر ہوتے ہوئے بحران نے تمام ہی طبقوں کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ احتجاجاً دکانیں، اور مارکیٹیں، کاروبار اور دفاتر بند کیے جا رہے ہیں۔ سڑکوں پر آکر نعرہ بازی، دھرنوں، سینہ کوبی، ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کا سلسلہ شہر شہر اور    گائوں گائوں جاری ہے… جس کا جواب حکمرانوں کی جانب سے مسائل کے حل کی یقین دہانی اور عملی اقدامات کے بجاے ریاستی تشدد سے دیا جا رہا ہے اور مظاہرین کو لاٹھیوں، گولیوں اور    آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ کا نشانہ بنا کر طاقت سے عوامی احتجاج کو دبانے کا حربہ آزمایا جا رہا ہے، جو ماضی میں کبھی کا رگر ہوا ہے نہ اب ہو گا۔

ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمران عوامی غم و غصہ کا سبب بننے والے مہنگائی و بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل حل کرنے پر فوری توجہ دیں، لیکن عملاً صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اوّل تو حکمران اس صورت حال سے مکمل طور پر لاپروا ہیں اور اپنے عیش و عشرت میں مگن دکھائی دیتے ہیں، یا اگر کبھی اس جانب توجہ فرماتے بھی ہیں تو مسائل کے حل کی جانب کسی پیش رفت کا ذکر کرنے کے بجاے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ۱۹ اور ۲۰؍اپریل کو    اسلام آباد میں دو روزہ قومی توانائی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم، چاروں صوبوں کے وزراے اعلیٰ اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی مگر اس کانفرنس میں مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کے بجاے پرانی گھسی پٹی تجاویز پر بحث مباحثے میں وقت ضائع کیا گیا۔ ان رنگ برنگی تجاویز کے بجاے اگر وزیر اعظم ، وزراے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام اپنے اپنے دفاتر اور رہایش گاہوں میں ائر کنڈیشنر، بجلی کے دیگر آلات اور آرایش اور غیر ضروری روشنیاں وغیرہ بند کر کے بجلی کا خرچ ۵۰ سے ۷۵فی صد کم کرنے کی عملی مثال پیش کرتے تو پھر عوام سے بھی بجلی کی بچت میں اپنی تقلید کی اپیل کرتے اچھے لگتے۔ اسی طرح بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کی پیش رفت سے بھی عوام کو آگاہ کیا جاتا تو خاصے حوصلہ افزا اثرات برآمد ہو سکتے تھے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جان بوجھ کر صورت حال کو خراب سے خراب تر کیا جا رہا ہے اور سوچ سمجھ کر ملک کو تباہی کے گہرے غار کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ گویا عوام کو پاکستان کے مستقبل سے مایوس کر کے دشمنوں کا کام آسان کرنا مطلوب ہے… ورنہ حقائق تو اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ضرورت صرف خوف خدا سے سرشار مخلص اور اہل و دیانت دار قیادت کی ہے جو عوام کے مسائل کو اپنے مسائل اور قومی وسائل کو امانت سمجھ کر استعمال کرے، اور جسے ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہے کہ اس زندگی کے ایک ایک لمحے اور ایک ایک پائی کا حساب آخرت میں رب کے حضور پیش ہو کر دینا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی بیداری کے موجودہ دور میں حقائق کو جھٹلانا اور عوام کی آنکھوں میں   دھول جھونکنا اب ممکن نہیں رہا، چنانچہ خود حکومت کے فراہم کردہ اعدادو شمار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ توانائی کا موجودہ بحران مصنوعی ہے اور گرانی کی ناقابل برداشت حالیہ لہر بھی اپنے اللے تللوں کے لیے حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے۔ اس وقت دستیاب وسائل میں بھی ملک میں بجلی پیدا کرنے صلاحیت ۲۰ ہزار میگاواٹ ہے، جب کہ ملک کی تمام ضروریات ملا کر بجلی کی مجموعی ضرورت ۱۵ہزار میگاواٹ ہے، لیکن اس وقت بجلی کی مجموعی پیداوار ساڑھے نو سے ۱۰ ہزار میگاواٹ بتائی جارہی ہے۔ ملک میں ۱۳پاور اسٹیشن بند پڑے ہیں اور نظام کے اندر موجود ۳ہزار۸ سو میگاواٹ  بجلی واپڈا یا پیپکو نے از خود نظر انداز کر رکھی ہے۔ بند پاور اسٹیشنوں میں پانچ رینٹل پاور پراجیکٹس، تین انڈی پینڈنٹ پاور پراجیکٹس، اور پانچ تھرمل پاور اسٹیشن شامل ہیں۔ اگر بجلی کی تقسیم کی    ذمے دار کمپنیاں ان پہلے سے موجود توانائی کے ذرائع سے استفادہ کے لیے سنجیدگی سے کوشش کریں اور ان کی طویل عرصے سے روکی گئی ادایگیاں کر دی جائیں تو بجلی کی قلت فوری طور پر ختم ہو سکتی ہے اور ۱۵ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت کے مقابل ۱۷ہزار میگاواٹ بجلی دستیاب ہو سکتی ہے۔ کیا    ان اعداد و شمار کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ بجلی کا بحران حکمرانوں نے اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کی خاطر از خود پیدا کر رکھا ہے۔

سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق     ۲۳ فی صد ہے۔ گویا ضرورت اگر ۱۰۰ یونٹ کی ہے تو ۷۷یونٹ بجلی دستیاب ہے۔ حساب کو سادہ اور آسان بنانے کے لیے ہم اگر کمی کو ۲۵ فی صد بھی تسلیم کر لیں تو خود سرکار کے فراہم کردہ ان حقائق کی روشنی میں ایک چوتھائی بجلی کی کمی ہے۔ اب ذرا حساب لگایئے کہ دن کے ۲۴ گھنٹے میں اگر اس کمی کو تمام علاقوں میں یکساں تقسیم کیا جائے تو دن میں چھے گھنٹے بجلی بند اور ۱۸ گھنٹے بجلی سب کو دستیاب ہونی چاہیے لیکن یہاں تو معاملہ برعکس ہے۔ اخبارات میں ۱۸ سے ۲۲ گھنٹے تک بجلی کی بندش کی خبریں شائع ہو رہی ہیں… گویا دال میں لازماً کچھ کالا ہے…!!!

ذرا آگے چلیے، ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ خالق کائنات نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ نہایت کار آمد اور شان دار دھوپ سارا سال دستیاب ہے، آبی ذخائر کے لیے انتہائی موزوں مقامات کی نشان دہی ماہرین بار ہا کر چکے ہیں، کوئلے کے وسیع و عریض ذخائر سے قدرت نے ہمیں نواز رکھا ہے اور ایٹمی صلاحیت کے ہم مالک ہیں___  ان سب وسائل سے توانائی کے حصول میں آخر کیا رکاوٹ ہے؟ حکمران انھیں فوری طور پر استعمال میں لا کر عوام کی پریشانی کا ازالہ کیوں نہیں کرتے، اسے بدنیتی یا نا اہلی قرار دیا جائے تو کیا یہ بدگمانی ہو گی یا حقیقت بیانی؟

برادر ہمسایہ ملک ایران انھی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرتا ہے بلکہ وافر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ایران کی حکومت نے  پیش کش کی ہے کہ بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے فوری طور پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی سستے داموں پاکستان کو فراہم کرنے پر تیار ہے مگر پاکستانی حکومت ہے کہ اس پیش کش پر توجہ ہی نہیں دے رہی، حالانکہ ایرانی بجلی کے حصول میں کوئی تکنیکی رکاوٹ بھی در پیش نہیں۔ پاکستان بھر میں بجلی کی ترسیل کا مربوط نیٹ ورک موجود ہے جس کے ذریعے ایرانی بجلی نہایت آسانی سے ملک بھر میں پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیا امریکا بہادر کے دبائو کے علاوہ کوئی حقیقی رکاوٹ ایرانی بجلی کے حصول میں ہے؟ رینٹل پاور پلانٹس کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ہمارے حکمران ایران کی اس دوستانہ پیش کش سے استفادہ کیوں نہیں کرتے! ہم اپنے قومی مفادات کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت اپنے اندر آخر کب پیدا کریں گے!!

اس امر کا تذکرہ بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ گذشتہ دنوں امریکا اور پاکستان کے مابین جن اسٹرے ٹیجک مذاکرات کی بہت دھوم رہی، ان کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ ملک میں توانائی کے بحران سے متعلق جو دستاویز دوران مذاکرات امریکی آقائوں کو پیش کی گئی اس میں یہ اعتراف یا انکشاف خود حکومت کی جانب سے کیا گیا کہ آیندہ سالہا سال تک توانائی کے بحران میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اس حکومتی دستاویز کے مطابق ۲۰۰۷ء میں ملک میں توانائی کی قلت ۳ہزار۳سو میگاواٹ تھی جو اَب بڑھ کر ۵ہزار ۴ سو ۷۶ میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں یہ ۹ہزار،  ۲۰۲۰ء میں ۱۴ ہزار ۲۰۲۵ء میں ۱۶ہزار۵سو اور ۲۰۳۰ء میں ۲۳ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ گویا سرکاری طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ اصلاح احوال کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں!

جماعت اسلامی وطن عزیز کی منظم ترین سیاسی جماعت ہے جو دین کی اساس پر ملک کے نظام کو چلانے کی داعی ہے۔ اس جماعت کی فکر سے اختلاف رکھنے والے بھی اس کی قیادت اور کارکنوں کے اخلاص، امانت و دیانت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ جماعت کی قیادت نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے پہلے ’گو امریکا گو‘ تحریک کے ذریعے عوام میں بیداری کی ایک لہر برپا کی، پھر قوم کو اس کے خالق و مالک کی جانب متوجہ کرتے ہوئے ’رجوع الی اللہ‘ مہم کے ذریعے عوام تک رسائی کی سبیل پیدا کی، اور عوامی مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے مہنگائی، بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل اور ان پر حکومتی بے حسی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جو یقینا وقت کی آواز ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے، جب کہ ۱۹؍اپریل کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ایسے ہی ایک بڑے مظاہرے میں دو درجن کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اور اس کے بعد بھی پروگرام کے مطابق احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنے اخلاص اور سنجیدگی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ عوام اپنے طور پر پہلے سے سڑکوں پر ہیں۔ اگر انھیں جماعت اسلامی کی صورت میں منظم، متحرک، امانت دار اور باکردار قیادت فراہم ہو گئی تو یہ تحریک برگ و بار لانے میں زیادہ وقت نہیں لے گی…!!!

وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو عوام کے مسائل اور مصائب پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اب پاکستان کے حالات کرغیزستان سے بہت زیادہ مختلف نہیں جہاں عوام نے ریاستی تشدد کے باوجود مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہروں کے ذریعے صدر قربان بیگ کو ملک سے فرار اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طاقت کے زور پر عوام کو زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن نہ ہوگا … فاعتبروا یا اولو الابصار!

پاکستان میں لوگوں کے مجموعی مزاج اور ان کی نفسیاتی کیفیت کا جائزہ لیں تو لوگ   موجود سیاسی نظام، اورسیاسی قائدین سے نالاں نظر آتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ سیاست دانوں اور عوام میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اس کیفیت نے بہتر سیاسی تبدیلی کے ایجنڈے کے مقابلے میں   ان قوتوں اور عناصر کو زیادہ مستحکم کیا ہے جو ملک میں جمہوریت کی بجاے ایک ایسے نظام کو مسلط کرنا چاہتے ہیں یا اسے تقویت دینا چاہتے ہیںجو غیر جمہوری ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی خواہشات کے بھی بالکل برعکس ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ملک میں ہمہ گیر سیاسی مایوسی کی اس بحث میں لوگ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں پر تو ماتم کرتے ہوئے نظر آتے ہیںلیکن کہیں بھی اپنی اجتماعی خامیوں اور غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔

موجودہ سیاسی نظام میں آمرانہ طرزِعمل، فردِ واحد کی حکمرانی، کرپشن اور بدعنوانی، کمزور سیاسی جماعتیں اور ان کا غیر جمہوری طرزِ عمل، روپے پیسے کی سیاست اور اخلاقیات سے عاری سیاست سمیت موروثی سیاست کا مضبوط تصور موجودہے۔ اس کا ذمہ دار کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں بلکہ ہم سب ہی اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ ان خرابیوں میںجہاں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا عمل دخل ہے وہیں سیاسی کارکنان بھی اس صورت حال سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظام میں جو آمرانہ رویے جنم لیتے ہیں وہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی اشرافیہ کی کمزور مزاحمت اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ ہم سیاسی عمل میں شخصیت پرستی کے قائل نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کو مضبوط کرنے کی بجاے کسی ایک فرد کی حکمرانی میں    پیش پیش ہوتے ہیں اور اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کو مضبوط بناتے ہیں۔

دراصل جب سیاسی محاذ پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے اور سیاسی قیادتیں اپنے کارکنوں کو یہ باور کرواتی ہیں کہ وہی جمہوریت کے لیے لازم ملزوم ہیں اور ان کے بغیر جمہوری عمل آگے نہیں بڑھ سکتا تو خرابی کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سیاسی جماعتوں اور جمہوری عمل کو بنیاد بنانے کی بجاے ایک فرد کو بنیاد بناکر سیاسی جدوجہد کرتے ہیں جو عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کو کمزور کرکے فرد واحد کو مضبوط بناتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آمریت یا آمرانہ طرز عمل کا تعلق محض فوجی حکمرانی سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی جھلک ہم سول قیادتوں اور نام نہاد جمہوری نظام کے اندر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آج کی ہماری صورت حال واضح طور پر ہمیں باور کروارہی ہے کہ ہم جمہوری عمل کے اندر کہاں کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور کارکن بڑے زوردار انداز میں جمہوریت اور سماجی و قانونی انصاف کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں اور اس میں کسی حد تک بعض جماعتوں کے حوالے سے صداقت بھی ہے، لیکن اپنی اپنی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت اور قیادتوں کے آمرانہ طرز عمل پر یا توہمارا سیاسی شعور بہت کمزور ہوتا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ہمارا کس انداز میں سیاسی استحصال کرتی ہیںیا ہماری خاموشی اور کمزور مزاحمت کے پیچھے بہت سی مصلحتوں کی سیاست کارفرما ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری طرزِعمل پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن موروثی سیاست کا جو بحران اب سامنے آیا ہے وہ ایک خطرناک سیاسی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی میں    بے نظیر بھٹو کی موت کے سانحے کے بعد قیادت کے لیے بلاول بھٹو کی حمایت میں وصیت کا سامنے آنا، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ(ق)میں نواز شریف اورچودھری خاندان کی اجارہ داری اور  اب اپنے بچوں کو سینیر لوگوں کی موجودگی میں قیادت کے طور پر پیش کرنا، اے این پی میں خان عبدالغفار خان سے لے کر سرحد کے وزیر اعلیٰ تک، قوم پرستوں کی جماعتوں سمیت سب میں خاندان کی اجارہ داری کا تصور مضبوط عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موروثی سیاست کی مضبوطی کی ایک بڑی وجہ دولت کا سیاست میں عمل دخل بھی ہے اور اس عمل کے ساتھ ان لوگوں کا سیاسی کارکنوں کے معاملے میں تعلق، ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس عمل نے لوگوں میں اس مایوسی کو جنم دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ایسی تبدیلی میں سنجیدہ نہیں جس سے ان کی طاقت کے مقابلے میں سیاسی کارکنوں کی طاقت میں اضافہ ہو۔

سیاسی جماعتوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ اگر ان کے مقابلے میں سیاسی جماعت مضبوط ہوگی تو وہ عملی طور پر کمزور ہوں گے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو بالادست رکھنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی کمزوری کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتے ہیں۔ یہ بھی ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر تبدیلی اور معاشرے میں اس کا نتیجہ نظر نہ آنے کی وجہ ایک جاگیردارانہ سوچ، قبائلی طرزِ سیاست، برادری کی سیاست کو مضبوط بنا کر پیش کرنے کے عمل سے مشروط ہے۔ اس لیے اس صورت حال کو تبدیل کیے بغیر یہ سمجھ لینا کہ ہماری سیاسی قیادتیں جمہوریت پر گامزن ہوسکیں گی ایک مشکل عمل   نظر آتا ہے۔ لوگ آمریت کے خلاف تو بات کرتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اس قبائلی سرداری سیاست، برادری، دولت اور شخصیت پرستی کی سیاست کو چیلنج نہیں کرتے۔ یہ طرزِ عمل، عملی طور پر ہمیں اور ہماری سیاست کو کمزور کرکے ایک آمرانہ مزاج اور فردِ واحد کی سیاست کو تقویت دیتے ہوئے عام آدمی کو سیاست سے دُور کردیتا ہے اور اس کے ذمہ دار ایک سطح پر ہم بھی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر وہ لوگ جوسیاست میں بہتر تبدیلی کے خواہش مند ہیں، وہ اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کریں؟ اسی طرح سیاسی کارکنوں میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم موجودہ صورت حال میں سیاسی جماعتوں کے اندر موجود قیادت کی اس آمریت کا مقابلہ کرکے جمہوری سوچ اور قدروں کو بحال کرسکیں گے؟

یقینا صورت حال سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سمیت سیاسی سطح پر کافی مخدوش ہے لیکن ایسی مایوسی کی بات بھی نہیں۔ یہ سوچ کہ ان برے حالات میں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا، ایک مایوسی کی کیفیت ہے اور ہمیں اس سے باہر نکل کر اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ مایوسی کی یہ کیفیت ایک طرف لوگوں کو کسی بڑی تبدیلی کے لیے عملی مزاحمت سے روکتی ہے تو دوسری طرف ان بالادست طبقوں کو جنھوں نے سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے ان کو مضبوط بناتی ہے۔ لوگوں میں مایوسی کا پیدا ہونا ان بالادست طبقوں کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے اور ہمیں اس حکمت عملی کے مقابلے میںاپنے مفادات پرمبنی سیاسی حکمت عملی کو وضع کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے اندر موجود ان مختلف سیاسی، سماجی و شخصی تضادات کو ختم کرنا ہوگا جو ہماری بربادی اور تباہی کے اصل محرکات ہیں۔ ہمیں ضرور اپنی موجودہ سیاسی قیادتوں سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں بھی کھول کر رکھنی ہوں گی کہ وہ ان کے مقابلے میں کس کی سیاست کررہے ہیں۔ یہ سیاسی کارکنوں کا ہی فرض اور ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود اندرونی جمہوریت کے مسائل کے حل کے لیے اصولی موقف کو اپنانے پر زور دیں۔ سیاسی جماعت کے دستور، منشور، پروگرام اور جمہوری روایات کے فروغ کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا اور مؤثر دبائو کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں بھی جمہوری طرز عمل اختیار کریں۔ سیاسی قیادتوں کی یہ سوچ کہ ہمارے بغیر جمہوریت نہیں چل سکے گی، ایک آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سوچ کو بدلنے اور اصولی سیاست کو بنیاد بنانے کی ضرورت ہے۔

ہندستان میں بی جے پی کی سطح پر پچھلی دو دہائیوں میں قیادت پر کئی لوگ آئے اور چلے گئے لیکن ان کی جماعت کا جمہوری عمل ایک تسلسل کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی سطح پر جمہوری انتخابی عمل موجود ہے اور قیادت یہاں موروثی کے مقابلے میں ایک جمہوری طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے ۔ اسی طرح سیاسی کارکنوں کی سطح پر ان کی سیاسی تعلیم جو سیاسی جماعتوں کے اندر عملاًً نہ ہونے برابر ہے، اسے سامنے لانا ہوگا تاکہ انھیں معلوم ہو کہ سیاست اور اس کے مسائل کے ساتھ بطور سیاسی کارکن ان کی کیا ذمہ داری ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن عملاً ایک پریشر گروپ کا بھی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ کردار محض ان کی جماعتوں کی سیاست کے باہر تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع ہو نا چاہیے اور اندرونی سطح پر ہونے والے غلط فیصلوں پر انھیں مزاحمتی عمل کو مضبوط بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کے مقابلے میں نامزدگی اور بلامقابلہ انتخاب کا رجحان ایک خطرناک عمل ہے اور اس کو روکنا چاہیے وگرنہ قیادتیں اپنی مرضی کے مطابق مخصوص خاندانی لوگوں اور دوستوں کو اہم عہدے نوازتی رہیں گی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں کی طرح اہم عہدوں پر قیادت کی نامزدگی کے عمل کو عوامی انتخاب سے قبل اپنی سیاسی جماعتوں کے اندرانتخابی عمل سے گزاریں، اور یہ فیصلہ کہ سیاسی جماعت کے اندر کون ان کی قیادت کا اہل ہوگا وہ کسی فرد واحد کی بجاے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے فیصلے سے مشروط ہو۔

یہ سمجھنا کہ یہ سب کام بغیر کسی سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کے ممکن ہوجائے گاتو ایسا نہیں ہوگا ۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود سیاسی اشرافیہ اور سول سوسائٹی کونہ صرف موجودہ سیاسی قیادتوں کے آمرانہ طرزِ عمل کے خلاف مضبوط آواز اٹھانی ہوگی بلکہ اپنی طاقت سیاسی قیادتوں کے پلڑے میں ڈالنے کی بجاے سیاسی کارکنوں کے ساتھ اپنے آپ کو کھڑا کرنا ہوگا۔ یہ عمل سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکن کی بھی طاقت کو مضبوط  بناتے ہوئے ملک کی سیاست میں ایک نئے کلچر کو متعارف کروائے گا۔ اس عمل سے سیاسی کارکن مستقبل کی سیاست میںایک نئی طاقت بن کر سیاسی عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی سطح پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اگر دیکھیں کہ ان کی جماعت میں سیاسی کارکن کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں تو وہ اس پر خاموش رہنے کی بجاے آواز اٹھائیں ورنہ جو کچھ آج    ان کے سامنے ہورہا ہے وہ کل کسی اور کے سامنے ان کے ساتھ بھی ہورہا ہوگا۔

جب ہم سیاسی جماعتوں کی قیادتوں، کارکنوں اور ان کی اندرونی جمہوریت کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں تو اس کا براہ راست تعلق ملک کی جمہوریت اور اس کے سیاسی نظام کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس ہونے کی بجاے اپنی طاقت کو نئے سرے سے منظم کرکے معاشرے کے اندر موجود اس سیاسی کلچر کے خلاف جدوجہد کرنا ہوگی جو عملاً ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرتا ہے۔ اگر سیاسی قیادتیں اور دیگر بالادست گروپ اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کو نہ صرف تقویت دیتے ہیں بلکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ان کا سیاسی استحصال کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ سیاسی کارکن اپنی طاقت کو منظم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کی اندرونی جمہوریت ملک میں سیاسی نظام کی مضبوطی کے لیے پہلی سیڑھی ہے اور اس کو بنیاد بناکر ہم ملک کو ایک جمہوری، فلاحی اور اسلامی معاشرے میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہمیں اس ایجنڈے کو بنیاد بناکر اپنی سیاسی جدوجہد کو بہتر سمت دیتے ہوئے تیز کرنا ہوگا تاکہ لوگوں میں تبدیلی کے تناظر میں موجود مایوسی کی کیفیت کو ختم کیا جاسکے۔

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ اُردو کے مجلے معیار (جولائی-دسمبر ۲۰۰۹ئ) میں اسی یونی ورسٹی کے ریکٹر پروفیسر فتح محمد ملک نے اسٹیفن کوہن کی کتاب پاکستان کا تصور پر تبصراتی مقالہ لکھا ہے۔ اس کے کچھ حصے شکریے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)

پاکستان کا جغرافیائی وجود علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان سے پھوٹا ہے۔ برطانوی ہند میں    الٰہ آباد کے مقام پر، کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش کرتے وقت  علامہ اقبال نے برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر، آزاد اور خودمختار مسلمان مملکتوں کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ ۱۰ برس بعد لاہور کے مقام پر کُل ہند مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں اقبال کے تصورِ پاکستان کو قراردادِ پاکستان کی صورت بخشی اور یوں اقبال کا یہ تصور تحریکِ پاکستان کا سب سے بڑا محرک بن گیا۔ عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان نے صرف سات برس کے عرصے میں پاکستان قائم کر دکھایا۔ ہماری قومی آزادی اور خودمختاری کی تحریک کے آخری تین مراحل تصورِ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا ناگزیر ربطِ باہم، اختلاطِ جان و تن کی حیثیت  رکھتا ہے۔ اِس باہمی ربط کو توڑنا گویا پاکستان کے بدن سے پاکستان کے تصور کو نکال باہر پھینکنا ہے۔ جسم سے جان کو جدا کردینے کی مساعی ہے۔ زیرنظر کتاب The Idea of Pakistanاور اُس کا ترجمہ پاکستان کا تصور [وین گارڈ بکس، لاہور] ایک ایسی ہی سعی ٔ نامشکور ہے۔

امریکی سپاہِ دانش (تھنک ٹینکس) پاکستان کے خلاف نظریاتی جارحیت کا ہراول دستہ ہیں۔ مغربی حکومتوں کی مالی اور نظریاتی سرپرستی میں پاکستان کی اصل نظریاتی بنیادوں کو مٹاکر ایک نئی نظریاتی تشکیل کی سرگرمی روز بروز زور پکڑتی چلی جارہی ہے۔ وہ پاکستان مخالف سوالات جو ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان سے لے کر قیامِ پاکستان تک، تحریکِ پاکستان کے مخالف دانش وروں نے بڑی شدومد کے ساتھ اُٹھائے تھے، پھر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔

تحریکِ پاکستان کے دوران ہمارے آبائواجداد نے پاکستان کے تصور اور پاکستان کی تحریک کے خلاف پیش کیے گئے استدلال کی اپنی فہم وفراست کے ساتھ مؤثر طور پر تردید کر دی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے ووٹ کے ذریعے پاکستان قائم کرکے اُس مخالفانہ استدلال کو باطل ثابت کردکھایا تھا۔ آج پاکستان کے اندر اُس ردکردہ اور باطل استدلال کو مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نئے فریب کے ساتھ پذیرائی بخشنے میں کوشاں ہیں۔ اِس کی ایک تازہ مثال اسٹیفن فلپ کوہن کی کتاب The Idea of Pakistan ہے۔

جناب اسٹیفن کوہن آج کل امریکی حکومت ہی کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے Brookings [بروکنگز] میں فارن پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینیرفیلو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب امریکی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔ جناب کوہن اکھنڈ بھارت کی آئیڈیالوجی پر کاربند ہیں۔ چنانچہ اُن کے نزدیک تحریکِ پاکستان کی کامیابی ایک المناک کامیابی (tragic victory) ہے۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے اور اس کے انجام سے ہمیں اور دنیا کو ڈرانے کے متعدد منظرنامے پیش کرتے ہیں۔ میں اپنی اس مختصر تحریر میں پاکستان کے تصور کی ’ناکامی‘ پر اُن کی راے سے بحث کروں گا۔ لکھتے ہیں:

بانیانِ پاکستان کو اُمید تھی کہ پاکستان کا تصور، ریاست پاکستان کی تشکیل کرے گا۔ اس کے بجاے ایک فوجی، نوکرشاہی ریاست پر حکومت کر رہی ہے، اور پاکستانی قوم کا اپنا وژن مسلط کر رہی ہے

یہ بات درست ہے کہ ہم اب تک پاکستان کے اندر تصورِ پاکستان کو مؤثر طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، مگر یہ ناکامی ہماری ناکامی ہے نہ کہ تصورِ پاکستان کی۔ ایسی ہی ناکامی امریکا اور بھارت کو بھی ہوئی ہے۔ کیا آج کا امریکا تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن اور اُن کے پیروکار امریکیوں کے خوابوں کاامریکا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ریاست ہاے متحدہ امریکا کے بانیوں کے خواب تو جارج ڈبلیوبش نے مٹی میں ملاکر رکھ دیے ہیں۔ کیا مہاتماگاندھی کے خواب و خیال بھارت کی عملی زندگی میں جلوہ گرہوگئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مہاتما گاندھی کو تو عین اُس وقت تشدد کا نشانہ بناکر مارڈالا گیا تھا، جب وہ عدم تشدد کا پرچار کرنے میں مصروف تھے۔ یا جواہر لعل نہرو کا سوشلسٹ گریٹر انڈیا وجود میں آگیا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر کیا امریکا اور بھارت بھی ناکام ریاستیں ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی اعتبار سے پاکستان بھی ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ مثالی تصورات کو عملی قالب عطاکرنا دشوار عمل ہے۔ خواب اور حقیقت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ جب تک خوابوں سے رشتہ قائم ہے اور اُنھیں حقیقت میں ڈھالنے کی تمنا زندہ ہے، افراد اور اقوام جہدآزما رہتی ہیں۔ یہی جدوجہد اُن کی بقا اور ارتقا کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمارے عوام تصورِ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور اُسے پاکستانی زندگی میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں مگر لیاقت علی خاں کی شہادت کے فوراً بعد ہمیں اُس قیادت سے محروم کردیا گیا، جو تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو پاکستان میں حقیقت کا روپ دینے میں مصروف تھی۔ شہیدِ ملت کے جانشین برطانوی افسرشاہی کے نمایندے تھے، جنھوں نے امریکی مفادات کی چاکری کا چلن اپناکر تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو فراموش کر دیا۔یہ چلن حکمران طبقے کا تھا اور ہے۔ پاکستان کے عوام اس چلن سے نفرت رکھتے ہیں اور تصورِ پاکستان سے اٹوٹ اوروالہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے اس قومی جوش و جذبہ سے خائف بیرونی قوتیں پاکستان کے وژن کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہمارے ہاں فکری انتشار اور نظریاتی خلفشار پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو نت نئے استدلال کے ساتھ ناکام ریاست کیوں ثابت کیا جارہا ہے؟ فقط اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہرچند تحریکِ پاکستان کے  خواب و خیال پاکستان کی اجتماعی زندگی کے ٹھوس قالب میں اب تک نہیں ڈھالے جاسکے، تاہم  اس امرکا قوی امکان موجود ہے کہ آیندہ ہم اُن خواب و خیال کو پاکستان میں عملاً نافذ کردیں۔  آج پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، مگر امکانی طور پر ایک اسلامی ریاست ضرور ہے۔ امریکی اور بھارتی سپاہِ دانش اسی خوف میں مبتلا ہے۔ چنانچہ امریکی سپاہِ دانش آج پاکستان کی اصل نظریاتی شناخت کو مٹاکر امریکا اور بھارت کے مفید مطلب ایک نئی نظریاتی اساس ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کی ’تباہی‘ کے مختلف منظرنامے پیش کرنے کے بعد اسٹیفن کوہن پاکستان کو ممکنہ تخریب سے بچانے کا درج ذیل نسخہ تجویز فرماتے ہیں:

یہاں میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کون سی اقتصادی، سیاسی اور اسٹرے ٹیجک پالیسیاں ہیں، جو اسے بدترین نتائج سے دُور رکھنے میں ممد ثابت ہوسکتی ہیں؟ جو اس ملک کو راستے کا مسافر بناسکتی ہیں، جس پر چل کر یہ اپنے تشخص اور مفادات کا تحفظ  بھی کرسکے اور امریکا اور اس کے اہم ہمسایوں کے کلیدی مفادات بھی محفوظ رہیں۔ ایک مستحکم، خوش حال اور مرحلہ وار ترقی کرتا ہوا پاکستان افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے نئی مہمیز کا کام دے سکتا ہے۔ (ص ۲)

درج بالا سطور میں ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تباہی سے بچنے کی خاطر پاکستان اپنی قومی شناخت کو امریکا کے کلیدی مفادات اور اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی    راہ اپنائے۔ آخری سطر میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اہم ہمسایہ ممالک سے مراد بھارت اور افغانستان ہیں۔ گویا چین، ایران اور روس جیسے اہم ترین ہمسایہ ممالک کو بھول جانا بھی اس نئی پاکستانی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ اسی بحث کے دوران اسٹیفن کوہن صاحب روس کی مثال پیش کرتے ہیں، جس نے سوویت یونین کی اشتراکی نظریاتی شناخت کو مٹاکر زارشاہی کی روایات پر مبنی نئی روسی شناخت ایجاد (reinvent) کرلی ہے۔ اسٹیفن کوہن صاحب کے محاکمے کی رُو سے پاکستان کو اپنی بقا کی خاطر اپنی اصل نظریاتی شناخت مٹاکر وہ پُرانی جغرافیائی شناخت اپنا لینی چاہیے، جس سے پاکستان کے بارے میں بھارت کے تحفظات بھی ختم ہوسکیں اور امریکا اور بھارت    ہردو کے کلیدی مفادات (key interests)کا حصول بھی یقینی بن سکے۔ یہ ہے وہ نیا وژن، جسے مقبولِ عام بنانے کی خاطر پاکستان کے اصل وژن کی ’ناکامی‘ کی ہوائی اُڑائی جارہی ہے۔

پاکستان کی ھندستانی شناخت؟

’تصورِ پاکستان‘ کے دوسرے باب بہ عنوان ’دی اسٹیٹ آف پاکستان‘ میں یہ لازم ٹھیرایا ہے کہ پاکستان نائن الیون کے بعد کے حقائق کی روشنی میں اپنے لیے ایک نیا خطۂ خواب (New ideological territory) تلاش کرے۔ لکھتے ہیں:

پاکستان کا تصور اور پاکستانی ریاست، دونوں غیر متوقع سمتوں میں ارتقا پذیر ہیں۔ دونوں پاکستانی رہنمائوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نئے سیاسی اور نظریاتی علاقے دریافت کریں۔ متعدد وجوہ کی بنا پر ابتدائی نظریہ ناپید ہوچکا ہے۔ (ص ۹۳)

ہرچند حقیقی تصورِ پاکستان سے دست بردار ہوکر ایک نئی سیاسی اور نظریاتی شناخت اپنالینے کا یہ مشورہ امریکا کے ہنگامی اور وقتی مفادات کے پیشِ نظر قابلِ فہم ہے، تاہم تصورِ پاکستان کے  بے اثر یا ازکارِ رفتہ ہونے کی بات ایک ایسا جھوٹ ہے، جسے اکثر مغربی دانش ور سچ کر دکھانے میں دُور کی کوڑی لانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا تصور ایک زندہ تصور ہے، جسے عملی زندگی میں جاری و ساری کرنا ہماری عصری زندگی کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی   اِس اہم ترین ضرورت کو ہم گذشتہ ۵۰ برس سے امریکی مفادات کی خاطر پسِ پشت ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ ’سردجنگ‘ کے زمانے میں پاکستان کے مفادات کو امریکی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر ہمارے حکمران طبقے نے پاکستان کی نظریاتی اساس کی تفسیر و تعبیر میں تراش خراش کا عمل مسلسل جاری رکھا۔ اتنی طویل مدت تک تصورِ پاکستان میں ترمیم کا یہ عمل جاری رہا کہ ترمیم پسندی ہمارے حکمران طبقے کا مسلک ہوکر رہ گئی۔ اب مطالبہ ترمیم کا نہیں تنسیخ کا ہے۔ آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ ہمیں اُس تصور سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، جس کے اندر سے پاکستان کا جغرافیائی وجود نمودار ہوا تھا، اور جسے ترک کردینے سے پاکستان کے جغرافیائی وجود کا مٹ کر رہ جانا ایک قدرتی سی بات ہے۔ اسٹیفن پی کوہن امریکا اور پاکستان کے مابین نئے    اتحادِ فکروعمل کے تقاضوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

۲۰۰۱ء میں امریکا اور پاکستان کے درمیان اتحاد کے پس پردہ کارفرما منطق، پاکستان کی ملکی سیاست میں کئی تبدیلیوں کا باعث بن گئی۔ اگر مذکورہ اتحاد کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا، تو ان گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا کشیدہ ہوجانا ناگزیر تھا، جو واشنگٹن کے لیے باعثِ تفکر تھے، اور جن کے حامیوں کی بڑی تعداد پاکستان کے اندر بھی موجود تھی۔ پاکستان پر زیادہ دبائو ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کم کرنے    کے لیے ڈالا گیا، جو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں برسرِپیکار تھے۔ (ص ۹۱)

امریکا سے دوستی نبھانے کی خاطر پاکستان کو اب اپنے اندرونی معاملات میں بھی بھارت کی عینک سے دیکھنا اور بھارت کے ذہن سے سوچنا ہوگا۔ امریکا کے بھارت کے ساتھ نئے تعلقات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان حریت پسندی کو دہشت گردی قرار دے۔ پاکستان نے مزاجِ یار     کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا اور یوں ہم کل جس سرفروشانہ جدوجہد کو حریت پسندی کا نام دیتے تھے، آج وہی جہادِ آزادی ہماری لغت میں ’دہشت گردی‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال    ؎

تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہُوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

امریکا اور بھارت خود تو دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط بنانے بلکہ سرسبز و شاداب رکھنے میں ہمہ تن مصروف ہیں، مگر پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اُن کے اُگائے اور پروان چڑھائے ہوئے ان زہریلے درختوں کے پھل پات کو سمیٹنے کا فریضہ سرانجام دے۔ اُن کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا بس ایک مفہوم ہے۔ اُن کے نزدیک پاکستان کی بقا فقط اُس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ امریکا اور بھارت کے خاکروب کا یہ کردار سرانجام دیتا رہے۔ اگر پاکستان، امریکا اور بھارت کی پھیلائی ہوئی اس گندگی کو صاف کرنے میں ناکام رہا تو پھر اُس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی باب کے آخر میں اسٹیفن کوہن اپنے دُکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اِس دُکھ کا علاج بھی تجویز فرماتے ہیں:

بیرونی محاذ پر پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے، جو خطے میں بھارت کے تسلط اور اجارہ داری کو کھلم کھلا اور مسلسل چیلنج کر رہا ہے… لیکن دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مراسم نے اس کے حامیوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ یہ امر کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں کہ پاکستان بہ یک وقت اس مسئلے کا حصہ بھی ہے اور حل بھی۔ (ص ۹۵)

امریکی سپاہِ دانش کا دُکھ یہ ہے کہ پاکستان اس حال میں بھی بھارت کی بالادستی کو چیلنج کرنے پر مُصر ہے۔ اِس دُکھ سے نجات کا راستہ خود پاکستان سے ’نجات‘ ہے۔امریکا اور بھارت کے لیے پاکستان کی بس اتنی سی ضرورت ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی جن انسانی گروہوں پر ’دہشت گردی‘ کا سامراجی لیبل لٹکائیں، پاکستان اُن کے انسداد میں مشین کی سی سرگرمی دکھائے۔ ہرچند پاکستان اس اسکرپٹ کا مکمل مفہوم سمجھے بغیر اس کے حرف و معنی پر عمل پیرا ہے، تاہم امریکا اب ایسے سوالات پر غور کرنے لگا ہے کہ کیا خود پاکستان دہشت گردی کا سرچشمہ نہیں ہے؟ اور کیا دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے خود پاکستان کو ختم کردینا ضروری نہیں ہے؟

دین یا لادینیت؟

آج کل ہمیں امریکا کے کلیدی مفادات اور بھارت سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کی خاطر ایک نئے خطۂ خواب کے جادو میں مبتلا کرنے کے لیے نت نئے جتن کیے جارہے ہیں۔ امریکی سپاہِ دانش بڑی سرگرمی کے ساتھ اس نئی نظریاتی سرزمین کو جانے والے راستوں کو سیکولرزم کے پتھروں سے تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اسٹیفن کوہن اپنی کتاب کے باب بہ عنوان ’سیاسی پاکستان‘ کی اختتامی سطروں میں ہمارے سیاست دانوں کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پاکستان میں فوجی مداخلت سے آزاد، جمہوری عمل اُس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کسی انقلاب، فوجی شکست یا نظریاتی کایا کلپ (ideological transformation) کا سامان نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ زیرنظر کتاب میں   بانیانِ پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے انھوں نے عقل کے گھوڑے خوب دوڑائے ہیں۔

اسٹیفن کوہن کے خیال میں قائداعظم کا تصورِ پاکستان ایک سیکولر تصور تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی اور ’قراردادِ مقاصد‘ میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اُس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولراسلام کا ذکر تک نہیں:

یہ قرارداد، پاکستانی ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کا مطلب بتاتی اور انھیں تعریف فراہم کرتی ہے۔ [اس کے مطابق] پاکستان کو ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی تشخص کی شکل اختیار کرنا تھا، لیکن اس میں یہ درج نہیں تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک سیکولر زندگی گزاریں گے، یا اسلام کو سیکولر بنا لیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اس میں ’سیکولر‘ کا لفظ    بطورِ اصطلاح بھی موجود نہیں تھا۔ (ص ۵۷)

’قراردادِ مقاصد‘ جس قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اُس کے ممبران تحریکِ پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھی۔ قرارداد منظور کرنے والوں کو بخوبی علم تھا کہ پاکستان کا وژن کیا ہے؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی ہی میں انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ میں سیکولر کی اصطلاح بھی سرے سے موجود نہیں ہے۔ سیکولرزم کے خوش گوار عناصر، یعنی تھیاکریسی (شہنشاہیت+ ملائیت) سے انکار، ہرمذہب و ملّت کو اپنے عقیدہ اور مسلک کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی، وسیع النظری اور انسان دوستی تو اسلام سے مستعار ہیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار مدینۃ النبیؐ میں ان تصورات کا عملی ظہور سامنے آیا تھا۔ اقبال اور قائداعظم اسلام کے مفہوم سے بھی آگاہ تھے اور سیکولرزم کے مفہوم سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ’سیکولرمسلم‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ ’سیکولرائزڈ اسلام‘ کی۔ بانیانِ پاکستان مسلمانوں پر ملوکیت اور ملائیت کے جبرواستبداد کے زیرسایہ صدیوں تک پنپنے والے مروجہ اسلام کے بجاے اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت چاہتے تھے۔ ہردو بانیانِ پاکستان، اسلام کی اس حقیقی روح کو ازسرِنو دریافت کرکے اور اسے روحِ عصر سے ہم آہنگ کرکے پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر کا فریضہ سرانجام دینا چاہتے تھے۔

---اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں سیکولرزم اور اسلام کی بحث کے دوران اسلامیانِ ہند سے سوال کیا تھا، کہ کیا وہ سیکولرسیاست کو اپناکر اسلام کا بھی وہی حشر کردینا چاہتے ہیں، جو مغربی دنیا نے عیسائیت کا کررکھا ہے؟ اقبال نے خود اس سوال کا جواب یوں دیا تھا کہ اسلامیانِ ہند،    اسلام کے روحانی سیاسی مسلک پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے سامنے روحانی جمہوریت کی مثال پیش کریں گے۔ وہ اسلام کے دینی مسلک اور سیاسی اور معاشرتی مسلک کی یک جائی پر انتہائی استقلال کے ساتھ قائم رہیں گے۔ تحریکِ پاکستان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامیانِ ہند نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کر کے اقبال کے اس اعتماد کو سچ ثابت کردکھایا تھا۔

--- امریکی سپاہِ دانش کا سب سے بڑا خوف ہی یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کا دل ابھی تک نظریاتی سرحدوں ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ کیوں نہ ہو، پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں تو اُن نظریاتی سرحدوں ہی سے نمودار ہوئی ہیں جوگذشتہ ایک ہزار سال سے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے درمیان قائم ودائم ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہماری نظریاتی سرحدیں پامال کردی گئیں تو پھر جغرافیائی سرحدیں خودبخود مٹ کر رہ جائیں گی۔ اسٹیفن کوہن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے وہ امریکی حکومت کو مختلف پیرایوں میں بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں:

اس امر پر دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان کو اپنے تشخص کے ’اسلامی‘ جزو کی جگہ ۲۱ویں صدی کے حقائق کو دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زریں اصول ترک کردیے جائیں، بلکہ ان کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ (ص ۲۹۹)

یہاں ۲۱ویں صدی کے ’حقائق‘ سے مراد دنیاے اسلام کے خلاف جاری سامراجی جنگ میں امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ناپاک اتحاد سے پھوٹنے والی حقیقتیں ہیں۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی حقیقی نظریاتی بنیاد کو مٹاکر اُس نئی نظریاتی سرزمین کی جانب فرار کی راہ لے، جس کا قدیم نام ’اکھنڈ بھارت‘ ہے، اور جدید نام ’سائوتھ ایشین یونین‘۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ مطالبہ ماننے سے مسلسل انکار کرتا چلا جائے تو پھر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے ہی غائب کردینا چاہیے۔ پاکستان کے حکمران طبقے (core elite) کی آئیڈیالوجی آف پاکستان سے بیزاری سے اسٹیفن کوہن کی بہت سی خوش گمانیاں وابستہ ہیں۔ جانے اُنھیں یہ کس نے بتایا ہے کہ: ’’پاکستان کے مستقبل پر بنیادی اشرافیہ کے اعتماد میں کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔ (ص ۲۹۵)

چلیے، ہم اُن کا یہ مفروضہ بلاچوں وچرا مان لیتے ہیں اور اپنے عسکری وجود کی پاکستانیت اور اسلامیت سے اُن کے خوف کی بات چھیڑتے ہیں۔ موصوف امریکی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کی غلامی پر آمادہ کرنے کے لیے گُڑ کھلانے کا گُر بھی آزمانا چاہیے اور زہر کھلانے کی متبادل حکمت ِ عملی بھی بروے کار لانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اول یہ کہ:

امریکا کے لیے بہترین پالیسی یہ ہوگی کہ وہ موجودہ حکومت کی حمایت کرے، خواہ مشرف اس کا سربراہ ہو یا نہ ہو۔ مگر پاکستان پر ان سیاسی، معاشی حتیٰ کہ نظریاتی تبدیلیوں    کے لیے سخت دبائو ڈالے، جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، بہ شمول بھارت کی طرف ایک نیا نقطۂ نظر اختیار کرنے کے۔ (ص ۲۹۵)

اُوپر کی سطروں میں جن نظریاتی قلابازیوں کو پاکستان کی بقا سے لازم و ملزوم ٹھیرایا گیا ہے، اُنھیں افواجِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول بنانے کی حکمتِ عملی بھی پیش کی گئی ہے۔ ص ۲۶۹ پر بدلی ہوئی صورتِ حال میں فوج کے نئے کردار کو بھی متعین کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان میں نظریاتی فراموش کاری کے مقصد کے حصول کے لیے کوہن صاحب کا نسخہ یہ ہے کہ سرحدوں سے افواجِ پاکستان کی توجہ ہٹاکر اُنھیں بتدریج اندرونِ ملک انتظامی ذمہ داریوں میں اُلجھا دیا جائے۔ اسی طرح  افواجِ پاکستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام قیامِ امن کی ذمہ داریوں کو ملکی سرحدوں کی حفاظت کے فریضہ سے زیادہ پُرکشش بنا دیا جائے۔ اُنھیں امید ہے کہ یہ پالیسی بالآخر افواجِ پاکستان کے خواب و خیال کو بدل کر رکھ دے گی اور یوں دارالاسلام کی بقا کی خاطر جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت کے خواب وخیال، ہرشہر کی ہر ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک نئے کارنر پلاٹ کے حصول کے سے خواب و خیال بن کر رہ جائیں گے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسٹیفن کوہن کو اس پالیسی کی ناکامی کے اندیشوں نے بھی گھیر رکھا ہے کہ وہ بجاطور پر اس فکر میں مبتلا ہیں کہ آزمایش کی گھڑی آنے پر ہمارے عسکری وجود کے دل میں پھر سے وہی حقیقی خواب و خیال جاگ اُٹھیں گے، جو جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت سے آن کی آن میں سرسبز و شاداب ہوجایا کرتے ہیں۔ یہ احساس کوہن صاحب کو مسلسل بے چین رکھتا ہے کہ جہاں تک بھارت کی غلامی کا تعلق ہے ہمارا عسکری وجود امریکی دبائو کو ہرگز برداشت نہ کرے گا۔ شاید اسی لیے آج کل وہ اس وجود کی تباہی کے خواب دیکھنے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ موصوف زیرنظر کتاب میں متعدد مقامات پر پاکستان کی فوجی شکست سے پاکستان کے عسکری وجود کی تباہی اور قومی وجود کی رُسوائی کا سامان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر  گُڑ کھلانے سے کام نہ چلے تو پھر پاکستان کو زہر دے کر مار ڈالا جائے، کیونکہ بھارت اور امریکا کا مشترکہ مفاد اسی مہم جوئی میں مضمر ہے:

مزید غیرمعمولی راستے مثلاً: بھارت کے ساتھ مل کر ایک ایسے پاکستان کو حد میں رکھنا جو اپنی اصلاح آپ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (ص ۳۲۵)

اور

دوسرے منظرنامے بھی دیکھے جاسکتے ہیں: پاکستان کو فوجی شکست دینے کے لیے بھارتی فیصلہ، امریکی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ جنگ کو مختصر رکھنے کے لیے بھارت کا ساتھ دے۔ (ص ۳۰۸)

یہ وحشیانہ استدلال نائن الیون سے شروع ہونے والے نئے دورِ وحشت کا ناگزیر شاخسانہ ہے۔ یا تو آپ اپنی اسلامی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست بردار ہوجائیں اور یا پھر اپنی مکمل تباہی کے لیے تیار ہوجائیں۔ امریکی سپاہِ دانش آپ کو صرف دو راستے ہی دے سکتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اسٹیفن کوہن صاحب ہمیں جن دو راہوں میںسے ایک راہِ عمل کے انتخاب کا حق دے رہے ہیں، وہ دونوں راہیں پاکستان کے جداگانہ قومی وجود کی فنا کی راہیں ہیں۔ پہلی راہ ’پُرامن‘ ہے اور دوسری بھارت اور امریکا کی مشترکہ فوجی جارحیت سے تباہی کی راہ ہے۔ دونوں راہیں اکھنڈ بھارت کی نام نہاد ’نئی نظریاتی سرزمین‘کو جاتی ہیں۔ اسٹیفن کوہن پہلی راہ کو ترجیح دیتے ہوئے ہمیں یہ سنائونی سناتے ہیں کہ ہماری core elite [بنیادی اشرافیہ] پاکستان کی پُرامن نظریاتی کایا کلپ کی راہ پر گامزن ہے۔

آستیں میں دِشنہ پنھاں ، ھاتھ میں خنجر کہلا

۲۰ویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں برطانوی ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کو ٹھکرا کر جداگانہ مسلمان قومیت کے تصور کو اپنا لیا تھا۔ برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی بنیاد پر جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگرس کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی نظریاتی اساس پر ایک عوامی جمہوری تحریک کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا تھا۔ قدرتی طور پر قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جداگانہ مسلمان قومیت کا یہی نظریہ پاکستانی قومیت کی اساس بن گیا۔ آج پاکستانی قومیت کی یہی بنیاد اور پاکستان کی یہی اسلامی شناخت ہدفِ ملامت ہے۔ امریکی سپاہِ دانش مختلف اور متنوع انداز میں اس جھوٹ کو سچ ثابت کردکھانے میں منہمک ہے کہ پاکستان کے تمام تر مصائب و مشکلات کا سرچشمہ پاکستان کی یہی اسلامی نظریاتی شناخت ہے۔ اسٹیفن کوہن کی کتاب ’تصورِ پاکستان‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ایک رپورٹ ہے، اور رپورٹ بھی ایسی جو بقول مولانا الطاف حسین حالی    ؎

کچھ کذب و افترا ہے ، کچھ کذبِ حق نما ہے

یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا

گذشتہ پانچ سال سے امریکی سپاہِ دانش سے سستے داموں تیار کرائی گئی اس قبیل کی رپورٹیں مسلسل و متواتر گردش میں ہیں۔ آج سے پانچ برس پیش تر ’یو-ایس ایس کمیشن آن نیشنل سیکورٹی اِن دی ٹونٹی فَسٹ سنیچری‘ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ۲۱ویں صدی کے پہلے ۲۵سال کے دوران پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اس رپورٹ پر وائٹ ہائوس نے بھی اپنی مہرتصدیق ثبت کررکھی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تباہی کے متعدد امکانات درج ہیں۔ ان میں سے ایک امکان یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی بدحالی اور سیاسی بے عملی کے باعث اندرونی عدمِ استحکام کا شکارہوکر ٹوٹ جائے گا، اور الگ الگ بلوچ، پشتون اور مہاجر ریاستیں وجود میں آجائیں گی۔ اسٹیفن کوہن کی زیرنظر کتاب میں ’علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی‘ کے عنوان سے جو باب شامل ہے، اُس میں بھی پاکستان کی ممکنہ تباہی کے موضوع پر امریکی سپاہِ دانش کی ان تمنائوں کی صورت گری موجود ہے۔ بھارت نواز بلّی کے خواب میں یہ چھیچھڑے بے شک ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا چاہیے، مگر ایسا کرتے وقت ہمیں اس حقیقت کو ضرور پیشِ نظر رکھناچاہیے کہ پاکستان کی تباہی کے  یہ منظرنامے امکانات کم ہیں اور عزائم زیادہ۔ اگر ہم اپنے ’دوست‘ کے ان عزائم میں پوشیدہ ’دشمنی‘ کے اسرار و رموز سے بروقت خبردار ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ یہ امکانات معدوم ہوکر رہ جائیں۔

--- یہی وجہ ہے کہ امریکی سپاہِ دانش آج ہمیں ہندستانیت کامسلک اپناکر پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت سے رُوگردانی پر مجبور کر رہی ہے: ’’پاکستان کی شیرازہ بندی کے لیے ایک نئے نظریے کی ضرورت ہے، جو علاقائی قومیتوں کے لیے، اور ایک ایسے تشخص کے لیے، جو خوف سے مبرا ہو، گنجایش رکھے‘‘۔ (ص۲۲۶)

کوہن صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ ہم روحانی یگانگت کی پاے دار بنیاد کو چھوڑ کر رنگ و نسل کی ناپاے دار بنیاد پر پاکستانی قومیت کی نئے سرے سے تعمیر کریں۔ اُن کے خیال میں پاکستان کی سالمیت اور پاکستانیوں کے اتحاد کا یہ نیا تصور (new organizing idea) بھارت اور امریکا ہردو کے لیے پسندیدہ ٹھیرے گا۔ پاکستان کے حقیقی تصور کو ترک کردینے اور اس نئے تصورِ پاکستان کو اختیار کرنے کی فضا تیار کرنے کے لیے وہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہی نہیں۔ صوبوں کو مرکزسے جائز شکایات ہیں۔ صوبائی خوداختیاری کی حدود کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے مطالبات زور پکڑتے چلے جارہے ہیں۔ ان برحق مطالبات پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان گفت و شنید جاری ہے۔ ان میں سے کوئی بھی گروہ پاکستان سے علیحدگی کی تمنا نہیں رکھتا۔ بھارت میں جس طرح علیحدگی کی متعدد تحریکیں جداگانہ ممالک کے قیام کی خاطر سرگرمِ عمل ہیں، پاکستان میںاُس طرح کی کوئی تحریک موجود نہیں۔اس کا اعتراف اسٹیفن کوہن صاحب کو بھی ہے۔ چنانچہ بالآخر انھوں نے پاکستان کے دیگر صوبوں سے مایوس ہوکر پنجاب کو اپنی تخریبی تمنائوں کامرکز و محور بنا لیا ہے۔

امریکی سپاہِ دانش امریکا اور بھارت کے مشترکہ ’کلیدی مفادات‘ کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو بھارت کی ایک ذیلی ریاست کا مقام دینا چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج یہ مقام قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ چنانچہ کوہن صاحب کی زیرنظر کتاب میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کی تقسیم کے خوابوں کو روبہ عمل لانے کی خاطر متعدد خاکے پیش کیے ہیں۔ اگر  متحدہ پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرنے سے انکاری ہے تو پھر پاکستان کوعلاقہ پرستی کی بنیاد پر متعدد چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں میں بانٹ دیا جائے۔ یہ چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستیں بھارت کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کردی جائیں گی۔ پاکستان کی یہ مجوزہ تقسیم دیوانے کا خواب ہے، اس لیے کہ پاکستان کا کوئی بھی صوبہ پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتا، بلکہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خودختیاری کے لیے جہدآزما ہے۔ عوام کی یہ پاکستانیت امریکی سپاہِ دانش کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ کوہن صاحب کی عیار عقل انھیں افواجِ پاکستان کی شیعہ سُنّی کی   فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم سے پاکستان کی تقسیم کی راہ سُجھاتی ہے۔ اس راہ پر چند قدم چلتے ہیں تو کھلتا ہے کہ  ع  ایں خیال است و محال است و جنوں۔

پاکستان کو توڑنے کے ان منصوبوں کے بے اثر ہونے کا احساس انھیں پھر سے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت کو بدل کر رکھ دینے کا خیال آتا ہے۔ پاکستان کے لیے نئے امریکی نصابِ تعلیم کی بحث چھڑتی ہے، مگر یہ کام آن کی آن میں سرانجام نہیںپاسکتا۔ نہ پاکستان کو مغربی بنگلہ دیش، پنجابستان، نیا پنجاب اور آزاد پنجاب کے سے اسماے تحقیر سے موسوم کرنے سے پاکستانیوں کی اسلامیت کی نفی ممکن ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں اسٹیفن کوہن سوچتے ہیں کہ فوری نتائج کے حصول کی خاطر پاکستانی قیادت کو ترغیب دی جائے کہ وہ روس کی مثال کو اپنا لے۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ جس طرح سوویت یونین، کمیونسٹ آئیڈیالوجی اور سوویت یونین کی غیر روسی ریاستوں سے دست بردار ہوکر پھر سے روس بن گیاہے، اسی مثال کو اپناتے ہوئے پاکستان کا بھلا اس میں ہے کہ وہ اپنی اسلامی آئیڈیالوجی کو ترک کرکے پاکستان کے بجاے پنجابستان ہوجائے:

سوویت تاریخ، پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے ایک تیسرا راستہ دکھاتی ہے۔ سوویت یونین اس لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ اس کی غالب جمہوریہ (روس) نے حساب لگایا کہ وہ اپنی بعض غیریورپی جمہوریائوں کے بغیر زیادہ بہتر رہے گا، اور یہ کہ روس کا مستقبل ایک جدید روسی ریاست بننے میں ہے۔ کیا پاکستان کی ارتقا یافتہ شکل پنجابستان ہوسکتی ہے جو ایک چھوٹی، جوہری اسلحے سے لیس، زیادہ مؤثر اور عمومی طور پر مستحکم ریاست ہو؟ (ص ۲۹۲)

کوہن صاحب بھی کیا سادہ ہیں؟کس اعتماد کے ساتھ ہمیں سمجھانے آئے ہیں کہ ہمارا فائدہ اس میں ہے کہ تاریخِ اسلام کے بجاے روسی تاریخ کو اپنا سرچشمۂ فیضان بنا لیں؟ اُن کاخیال ہے کہ ترکِ اسلام کی یہ راہ اپناکر پاکستان کی مجوزہ جانشیں ریاست پنجابستان، پاکستان سے زیادہ خوش حال، طاقت ور، ترقی یافتہ اور محفوظ ریاست بن کر اُبھرے گی۔ اُن کے اس استدلال نے اس حقیقت پر ایک اور مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ سندھی، بلوچی اور پٹھان اسلامیت اور پاکستانیت پر غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں۔ اُنھیں امریکی کھلونے دے کر پنجابیوں کی طرح نہیں بہلایاجاسکتا۔ چنانچہ بھارتی امریکی لابی کی تمام تر توجہ پنجابستان پر ہے۔ ننکانہ صاحب کو خالصہ وَیٹی کن اور لاہور کو لاہُو کے مندروں کا شہر بنانے کی خاطر رات دن ایک کردیے گئے ہیں۔ فکری اور نظریاتی محاذ پر اسلام اور سیکولرزم… دین اور لادینیت کی بحث کا بازار گرم کردیاگیا ہے، مگر کیا غم کہ اقبال جاگ رہا ہے    ؎

دُنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو پکارا

گلگت بلتستان تاریخی اعتبار سے ریاست جموںو کشمیر کا حصہ ہے ۔تقسیم ہند سے قبل اسے سیاسی لحاظ سے تین صوبوں، یعنی جموں، کشمیر اور لداخ و گلگت میں تقسیم کیاگیا تھا۔۱۹۴۷ء میں شروع ہونے والی تحریک جہاد کے نتیجے میں ریاست کا ایک حصہ آزاد ہو کر آزاد جموں وکشمیر کہلایا، جب کہ لداخ اور گلگت کو مجاہدین نے اپنی جدوجہد سے آزاد کروا کر یکم نومبر ۱۹۴۷ء کو آزادی کا اعلان کیا اور حکومت ِ پاکستان کو خطے کے انتظام و انصرام کی دعوت دی۔ ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء اور۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو جو قرار دادیں منظور ہوئیں، ان کی رو سے بھی پاکستان اور بھارت دونوں نے ان اضلاع کو ریاست جموں وکشمیرکا حصہ تسلیم کیا جس کا اعتراف دونوں کے ریاستی آئین میں بھی موجود ہے ۔ نیز جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے جو مبصرین تعینات ہوئے وہ ریاست کے باقی حصوں کی طرح یہاں پر  اب بھی موجود ہیں ۔

اس وقت چونکہ رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع بہت محدود تھے، اس لیے ۲۸؍اپریل ۱۹۴۹ء کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدے کے تحت  گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام عارضی طور پر حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی طرف سے مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی اور حکومت آزاد جموں وکشمیر کی طرف سے صدر ریاست سردار محمد ابراہیم خان اور چودھری غلام عباس مرحوم صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے دستخط کیے۔خود عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ معاہدے اور پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے بھی یہ علاقے ریاست کا حصہ ہیں۔

سیاسی عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہاں یک جہتی کی فضا متاثر ہو رہی ہے ۔ صدیوں سے وہاں تمام مکاتب ِفکر مکمل بھائی چارے کی فضا میں رہتے رہے ہیں۔لیکن رفتہ رفتہ بیورو کریسی نے راے عامہ کو تقسیم کرنے کے لیے اہل تشیع اور آغا خان کمیونٹی کو باور کرایا کہ آزاد جموں وکشمیر میں شمولیت سے آپ ایک کمزور سی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے۔ آپ لوگ تعلیم و ترقی کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں، اس لیے الگ صوبے کا مطالبہ کرو،تا کہ آپ ا قلیت میں تبدیل ہونے سے بچ سکیں۔ بیورو کریسی کو اس علاقے کی تاریخی حیثیت کا کماحقہٗ علم تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی تھی کہ    مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں الگ صوبہ بنانا محال ہے ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس ہتھکنڈے سے راے عامہ تقسیم ہو گی اور آزاد جموںو کشمیر کے ساتھ ملنے کا امکان مسدود ہو کر موجودہ ’جوں کی توں‘ حیثیت برقرار رہے گی، جہاں وہ سیاہ و سفید کی مالک ہے۔

ایک اہم عامل آغا خان کا بھی ہے، جن کے پیرو کاروں کی ایک بڑی تعداد ہنزہ اور   غذر کے اضلاع میں مقیم ہے ۔ یہ کمیونٹی نہایت تعلیم یافتہ اور باوسائل ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) کے ذریعے پورے گلگت بلتستان میں خاص طور پر جہاں جہاں ان کی اپنی کمیونٹی ہے، وہاں ان کے تعمیر و ترقی کے لیے گذشتہ تین عشروں سے مسلسل کام ہو رہا ہے ۔ آغا خان کو ان کے پیرو کار ’حاضر امام‘ تصور کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں انھیں حتمی اتھارٹی تسلیم کرتے ہیں۔ موجودہ امام پر نس کریم آغا خان کو پاکستان میں آمد کے موقع پر سربراہ ریاست کا پروٹوکول ملتا ہے، بلکہ ساری دنیا میں وہ اس نوعیت کے پروٹوکول سے مستفید ہوتے ہیں۔

بین الاقوامی اداروں سے خصوصی تعلقات کی وجہ سے وہ آغا خان فائونڈیشن کے لیے  بے پناہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن سے بیورو کریسی بھی مستفید ہوتی ہے ۔اسلام آباد اور گلگت کے بیورو کریٹس ریٹائرمنٹ کے بعد آغا خان فائونڈیشن اور ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘ میں بھاری معاوضوں پر ملازمتوں کے حصول کے لیے مواقع پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ محتاط اندازے کے مطابق شمالی علاقہ جات کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ وسائل آغا خان فائونڈیشن سالانہ بروے کار لاتی ہے۔اس کے باوسائل ہونے کا اندازہ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ فائونڈیشن کے پاس   تین ہیلی کاپٹر موجود ہیں، جو بیورو کریسی کی صواب دید پر ہی رہتے ہیں ۔دل چسپ امر یہ ہے کہ ’آغا خان رورل سپورٹ پروگرام‘کے تحت  صرف گلگت بلتستان میں نہیں، بلکہ چترال اور وسطی ایشیا میں بھی اثرونفوذ میں وسعت آرہی ہے۔ بڑی تعداد میں یورپی باشندے بھی ان اداروں میں   کام کرتے ہیں، جن کی دل چسپیوں اور اہداف کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہیں؟ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جس طرح تعلیم کو آغا خان بورڈ کی وساطت سے مغربی آقائوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی وجہ سے بعض باخبر حلقے یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ایسے ادارے جن کا بین الاقوامی کردار بھی بڑا مشکوک ہے، ان کواس قدر اہمیت کیوں دی جا رہی ہے ؟  کیا ریاست کے بغیر سربراہ حکومت کے پروٹوکول سے مستفید ہونے والی شخصیت کے لیے کسی ریاست کا بندوبست تو مطلوب نہیںہے ؟

پاکستان میں پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت نے گلگت بلتستان کو بااختیار نظامِ حکومت دینے کا جس طرح اعلان کیا ہے اس سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ۔اس لیے کہ جن اصطلاحات اور اختیارات کے ساتھ یہ نظام دیا گیا ہے یہ وہاں ایک خاص مکتبۂ فکر کے علاوہ کسی کا بھی مطالبہ نہ تھا۔

راے عامہ تقسیم ہونے کے نتیجے میں تین نقطۂ ہاے نظر سامنے آئے ہیں:

۱- ’’علاقے کو اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ شامل کیا جائے‘‘۔ اہل سنت، جماعت اسلامی، جمعیت العلماے اسلام، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور قوم پرست جماعتیں اس نقطۂ نظر کی حامی ہیں۔

۲- ’’ان علاقوں کو صوبائی درجہ دیا جائے‘‘۔ تحریک جعفریہ، ان کی برادر تنظیمیں اور پیپلز پارٹی اسی نقطۂ نظر کی حامی ہیں، اور آغا خان بحیثیت کمیونٹی بھی اس نقطۂ نظر کی وکالت کرتے ہیں۔

۳- ’’ان علاقوں کو بالکل خود مختار ریاست بنایا جائے‘‘۔ نیشنل بلاورستان فرنٹ سے وابستہ تنظیمیں اسی نقطۂ نظر کا پرچار کرتی رہی ہیں۔

طویل عمل کے بعد ۲۰۰۰ء میں تمام جماعتوں پر مشتمل گلگت بلتستان نیشنل الائنس معرضِ وجود میں آیا، جس میں تینوں نقطۂ ہاے نظر کے حامیوں نے اپنے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے ایک متفقہ موقف پر اتفاق کر لیا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :

اپنے تاریخی پس منظر کے اعتبار سے چونکہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں،  اس لیے مسئلہ کشمیر کے حل تک ان علاقوں کو :

۱- آزاد جموں وکشمیر طرز کا با اختیار نظام حکومت دیا جائے، جس میں انتظامی اور عدالتی  تمام ادارے داخلی لحاظ سے خود مختار اور بااختیار ہوں ۔

۲- دونوں یونٹس، یعنی آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کو تحریک آزادیِ کشمیر کی تقویت اور ریاست کی علامتی وحدت کے لیے کشمیر کونسل میں مساوی نمایندگی دی جائے اور کونسل کو دواکائیوں کا ایوان بالا قرار دیا جائے جس کے سربراہ وزیر اعظم پاکستان ہوں۔

۳- مسئلہ کشمیر پر ہونے والی بات چیت کے تمام مراحل میں گلگت بلتستان کے نمایندگان کو بھی حق نمایندگی دیا جائے۔

جناب عنایت اﷲ شمالی، جناب مشتاق احمد ایڈووکیٹ اور دیگر قائدین نے شب و روز محنت کر کے تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو اس موقف پر متفق کر لیا لیکن حکومت نے نہ صرف اس متفقہ موقف کو نظر انداز کر کے پیکیج کا اعلان کیا، بلکہ ان قائدین سے کماحقہٗ مشاورت کا اہتمام بھی نہیں کیا جس سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

شکوک و شبہات میں مزید اضافہ یوں بھی ہوا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس میں جہاں آزاد جموں و کشمیرکی قیادت نے دو ٹوک انداز میں اس پیکیج کو مسترد کرتے ہوئے اسے تحریک آزادی کشمیر کے لیے سمِ قاتل قرار دیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، وہاں آخر میں کم از کم مطالبہ یہ کیاگیا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کی اصطلاحات کو تبدیل کر دیا جائے تا کہ اس تاثر کی تصحیح ہو سکے کہ  آپ ان علاقوں کو صوبہ بنانے جا رہے ہیں جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ساری قیادت سے وعدہ کیا کہ آپ کے تحفظات نوٹ کر لیے گئے ہیں اور اعلامیے کے حتمی اجرا پر ان کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔ مقام افسوس ہے کہ ایسا نہ ہوا اور چند دن کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا، وہ جوں کا توں تھا۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس سارے عمل کے پیچھے کوئی ایسی نادیدہ طاقت ور قوت کار فرما تھی جس کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔کڑیاں ملائی جائیں تو وہ وہی قوت ہے جس کے دبائومیں سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر سے دست برداری اختیار کی اور تقسیمِ کشمیر کے مختلف مجہول فارمولے پیش کیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مشرف  حکومت کے اختتام کے باوجود کشمیر پر پسپائی کا عمل جاری ہے اور صدر آصف علی زرداری کے زیرقیادت حکومت ہر وہ کام کرنے پر تلی بیٹھی ہے جو مشرف کے ہاتھوں بھی نہ کرایا جاسکا تھا ۔اس لیے اس امر کا قوی اندیشہ موجود ہے کہ نئی اسمبلی قائم کرنے کے بعد، اس سے قرارداد پاس کرواتے ہوئے گلگت بلتستان کو حتمی طور پر صوبہ قرار دیا جائے ۔یوں یہ عمل پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے یک طرفہ دستبرداری سمجھا جائے گا جس سے مسئلہ کشمیر کی بنیادیں منہدم ہو جائیں گی کہ جس کے بل پر حق خود ارادیت کی تحریک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو ترغیب ملے گی کہ وہ اپنے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کرتے ہوئے ہندو اکثریتی صوبہ جموں کو براہِ راست بھارت میں شامل کرلے، اور وادی کشمیر کے مسلمانوں کو مزید سبق سکھانے کا اہتمام کرے ۔

ان خدشات کے پیش نظر جماعت اسلامی آزاد جموںو کشمیر نے پیش قدمی کرتے ہوئے سب سے پہلے گلگت میں ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی، جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوںنے شرکت کی۔ اس کانفرنس نے اس پیکیج کو مسترد کیا اور گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر اپنا متفقہ مطالبہ بنایا ۔۱۱ستمبر ۲۰۰۹ء کو راولپنڈی میں جماعت اسلامی ہی کے زیر اہتمام ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد جموں وکشمیر، گلگت بلتستان اور حریت قائدین نے شرکت کرکے اس پیکیج کو مسترد کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ’گلگت بلتستان نیشنل الائنس‘ کے مطالبات پر مبنی ڈیکلریشن منظور کیا ۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر براہِ راست شریک رہے اور انھوںنے بھی ڈیکلریشن پر دستخط کیے ۔

پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ مظفر آباد کے موقع پر ۸؍اکتوبر ۲۰۰۹ء کو کشمیری قیادت نے ایک مرتبہ پھر متفقہ طور پر اپنے موقف کا اعادہ کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ۔ستم یہ ہے کہ وزیرامور کشمیر اپنے موقف کی رٹی رٹائی وضاحت تو کرتے رہے ہیں، لیکن کشمیری قیادت کے تحفظات اور سوالات کا کوئی جواب ان کے پاس موجود نہیں ہے۔

حکومتی اعلامیے میں علاقے کی تاریخی حیثیت کا کوئی تعارف شامل نہیں ہے اور نہ یہ وضاحت موجود ہے کہ یہ اعلامیہ کب تک مؤثر رہے گا۔ اصولی طور پر آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین ۱۹۷۴ء کی طرح اس اعلامیے میں بھی یہ وضاحت ہونی چاہیے تھی کہ مسئلہ کشمیرکے حل تک نظام کو موجودہ شکل دی جا رہی ہے اور اس میں حسب ضرورت ترامیم و اضافے ہوتے رہیں گے۔ درحقیقت اس اعلامیے کے ذریعے گلگت بلتستان کو کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنے کے بجاے گلگت بلتستان کے نظام کو کشمیر سے الگ رکھنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے، مثلاً انچارج وزیر کو جگہ جگہ وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان تحریر کیاگیا ۔ اس طرح وزارت امور کشمیر کو بھی وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان قرار دے کر بین السطور یہ پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان  دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت اورامریکہ کا موجودہ شیطانی اتحاد پاکستان کو اپنی شہ رگ سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے ۔پاکستان میں بر سر اقتدار موجودہ کمزور اور بے سمت قیادت سے ایسے فیصلے کروانا آسان سمجھا جا رہا ہے ۔اگر پاکستان کے محب وطن قائدین اور جماعتوں نے مخمصے سے نکل کر بھر پور کردار ادا نہ کیا تو مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادیِ کشمیر ہی کو نہیں،بلکہ خود پاکستان کی سلامتی کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔ کشمیریوں سے بڑھ کر نظریاتی پاکستانی شاید ہی کوئی اور ہو۔ گذشتہ ۶۱ برس سے وہ اپنی آزادی اور پاکستان کی بقا کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں اور  اب تک پانچ لاکھ شہدا کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں ۔قائد تحریک حریت سید علی گیلانی سمیت تمام کشمیری قائدین مضمرات کو بھانپتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران طے کیے ہوئے ہیں کہ کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لایا جائے گا اور نہ کسی معقول دلیل ہی کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔ یہ پسپائی کا عمل اس وقت رُکے گا جب پاکستانی قیادت اور راے عامہ اپنا فرض ادا کرے گی۔