اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم پاکستان کا ۷۵واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے لیے ۱۴؍اگست کا دن بھی اللہ کی ایک نشانی ہے۔ صرف سات سال کی بھرپور اور پُرامن جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے سیاسی نقشے پر، اور وہ بھی ایک ایسے سیاسی نقشے پر جس کے سبھی نقش مغربی تہذیب، مادیت، سیکولرزم اور لبرلزم کے رنگوں سے آلودہ تھے، عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر ایک ریاست کا قیام ایک تاریخی کرشمے سے کم نہ تھا۔ تحریکِ پاکستان کی اصل بنیاد اور روح ہی یہ تھی کہ برعظیم ہند میں مسلمان محض دوسری اکثریت نہیں بلکہ ایک نظریاتی قوم ہیں۔ ان کا مقصد صرف یورپی استعمار سے آزادی ہی نہیں، توحید اور رسالت ِ محمدیؐ کی بنیاد پر ایک نئے سیاسی اور اجتماعی نظام کا قیام ہے۔ جو بہرحال وقت کے غالب تصورات سے بغاوت اور ایک نئے نظریاتی مستقبل کی تعمیر کے عزم سے عبارت تھا۔ آزادی کا حصول اس اصل مقصد کے لیے تھا۔ ان دونوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ تھا، جسے علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے اور پھر قائداعظم محمدعلی جناحؒ کے نام اپنے خطوط میں بہت صاف الفاظ میں بیان کردیا تھا:
انگریزوں سے آزادی اور حصولِ ملک برائے قیامِ نظامِ اسلامی‘ ہی تحریکِ پاکستان کی امتیازی خصوصیت ہے اور قائداعظم کی قیادت میں جو تاریخی کامیابی قیامِ پاکستان کی شکل میں حاصل ہوئی، اس کا سہرا اسی تصور اور اس تصور کی خاطر برعظیم کے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے سر ہے۔ ۱۴؍اگست کی اصل اہمیت ہی یہ ہے کہ یہ تاریخ ہرسال پوری قوم کو تحریکِ پاکستان کے اصل مقصد اور ہدف و منزل کی یاددہانی کراتی ہے، اور ہمیں اس امر پر سوچنے کی دعوت دیتی ہے کہ سات سال میں کیا کچھ اس قوم نے حاصل کرلیا تھا پھر آزادی کے چھے عشروں میں اس اصل مقصد سے غفلت اور بے وفائی کا راستہ اختیار کیا، تو اب ٹامک ٹوئیاں مارنے کے نتیجے میں موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہیں، لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اللہ کی اس نشانی سے سبق سیکھتے ہوئے راہِ راست کی طرف آنے کی کوشش اور جدوجہد نہیں کررہے۔
آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر ہم قوم کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم موقعے کو محض چند روایتی اور نمایشی کارروائیوں کی نذر کرنا ایک سنگین مذاق اور بڑا المیہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس عظیم دن کی اصل نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس سبق اور پیغام کو حرزِ جاں بنایا جائے، جس کی نشانی (آیت) ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء، ۲۷رمضان المبارک ۱۳۶۶ھ ہے۔
پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ اس ملک کے قیام کی جدوجہد جہاں زوال پذیر برطانوی استعمار اور اُبھرتے ہوئے ہندو سامراج کی گرفت سے آزادی کی تحریک تھی، وہیں اس سے زیادہ یہ ایک نظریاتی اور تہذیبی احیا کی تحریک تھی۔ اس کا اصل مقصد برعظیم کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں کے لوگوں کو اپنے دین، ایمان، تصورِ حیات، روایات اور ملّی عزائم کی روشنی میں آزاد فضا میں ایک روشن مستقبل کی تعمیر کا موقع فراہم کرنا تھا۔ سیاسی آزادی اور دینی و تہذیبی تشکیلِ نو کا مقصد اور عزمِ تحریکِ پاکستان کے دو اہداف تھے، جو ایک ہی تصویر کے دو رُخ کی حیثیت رکھتے ہیں___ ان دونوں کا ناقابلِ انقطاع تعلق اسلامیانِ پاکستان کی قوت کا راز ہے اور ان میں تفریق اور امتیاز بگاڑ اور خرابی کی اصل وجہ ہے۔
تحریکِ پاکستان کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے برعظیم کے مسلمانوں کو ان کی قومی شناخت دی اور اس شناخت کی بنیاد پر ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے ان کو سرگرم اور متحرک کردیا، جس کا نتیجہ تھا کہ سات سال کی مختصر مدت میں برعظیم کے دس کروڑ مسلمانوں نے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند اپنی آزادی اور دین کے تحفظ کی جنگ لڑی اور بلالحاظ اس کے کہ پاکستان کے قیام سے کس کو کیا فائدہ پہنچے گا اور کس کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی، ایک نظریاتی جنگ کے نتیجے میں ایک آزاد ملک قائم کیا۔
تحریکِ پاکستان کی بنیاد اسلام کا تصورِ قومیت ہے جس کی روشنی میں قوم کی آزادی اور آزادی کے سایے میں قوم کی اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے لیے مملکت کا حصول عمل میں آیا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ یہ المیہ رُونما ہوا کہ وہ قوم جسے مختصر ترین وقت میں یہ مملکت ِ خداداد ملی تھی، اسی قوم کے اہلِ حل و عقد اسلامی قومیت کی بنیاد پر ملک کی تعمیر سے غافل ہوگئے۔ نظریاتی شناخت اور بنیاد سے ہٹ کر ملک کو ’ترقی یافتہ‘ بنانے کی سعی لاحاصل میں ملک کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ جس کانتیجہ ہے کہ صرف ۲۴برس بعد ۱۹۷۱ء میں ملک عزیز دولخت بھی ہوگیا اور آج جو کچھ موجود ہے، اس کی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آج جس حقیقت کے اِدراک اور اقرار کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اور پاکستان کے وجود،بقا اور ترقی کا انحصار اس نظریے پر ہے، جو تحریک کی روح اور کارفرما قوت تھی۔ قائداعظم نے ایک جملے میں اس حقیقت کو بیان کردیا تھا:
اسلام ہمارا بنیادی اصول اور حقیقی سہارا ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں ایک قوم کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ تب ہی ہم پاکستان کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ قائد کے اس انتباہ کو ہم نے بحیثیت قوم نظرانداز کیا۔
۱۴؍اگست ایک عظیم یاددہانی ہے، اور یہ ایک انتباہ بھی ہے کہ اگر ملک اور نظریے کے رشتے کو نظرانداز کیا گیا تو ملک کا وجود بھی معرضِ خطر میں ہوگا (یوں تو اس وقت بھی معرضِ خطر ہی میں ہے) ۔ ہم قیامِ پاکستان کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر اسی بنیادی نکتے پر قوم کو غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں کہ ملک آج جن مشکلات میں پھنسا ہوا ہے، ان سے نکلنے کے لیے اس بنیاد کی طرف لوٹ کر آنے کے سوا کوئی راستہ نہیں، جو تحریکِ پاکستان کی اساس ہے، جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے، جس کے ذریعے ہم یہ ملک حاصل کرسکے اور جس کے بغیر ہم اس کو نہ قائم رکھ سکتے ہیں اور نہ ترقی دے سکتے ہیں۔
آج سب سے بڑی ضرورت قوم اور ملک کے اس تعلق کو سمجھنے اور اس پر سختی سے قائم رہنے میں ہے کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد یا قوم اس کی نعمتوں پر شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے انعامات میں بیش بہا اضافہ ہوتا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرتے ہیں تو پھر اس کی پکڑ بھی بہت ہی شدید ہے___ اور ناشکری کے نتیجے میں جو بگاڑ اور تباہی رُونما ہوتی ہے، اس کی ذمہ داری صرف اور صرف فرد اور قوم کے اپنے رویے اور کرتوتوں پر ہوتی ہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o (ابراہیم ۱۴:۷) اور یاد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر تم شکرگزار ہو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
اور یاد رکھو:
وَ مَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرٰٓی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ o(القصص ۲۸:۵۹) اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہوجائیں۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ پاکستان کا قیام ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ جس میں ہمیں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے ساتھ یہ موقع بھی ملا کہ آزاد فضا میں اپنے تصورات کے مطابق نئی زندگی تعمیر کریں۔ لیکن افسوس کہ ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو عناصر قیادت پر قابض ہوگئے تھے، انھوں نے نہ صرف ان مقاصد کو فراموش کیا، بلکہ ملک کو انھی باطل نظریات اور مفادات کے حصول کی بھٹی میں جھونک دیا، جن سے نکلنے کے لیے تحریکِ پاکستان برپا کی گئی تھی۔ وہ یک سوئی جو تحریکِ پاکستان کا طرئہ امتیاز تھی، ختم ہوگئی اور ملک اندرونی کش مکش اور بیرونی سازشوں کی آماج گاہ بن گیا اور آج ہماری آزادی بھی معرضِ خطر میں ہے اور ملک بھی معاشی، سیاسی، ثقافتی، اخلاقی، غرض ہراعتبار سے تنزل کا شکار نظر آتا ہے۔
۱۴؍اگست ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ان اصل مقاصد کی نشان دہی کریں جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا محرک اور اس تحریک کی امتیازی خصوصیت تھے اور پھر اس بگاڑ کی نشان دہی کریں جس نے ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ اس تجزیے کی روشنی میں ایک بار پھر اس راستے اور منزل کی نشان دہی کریں جو اس تباہی سے بچنے اور اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا راستہ ہے۔
قیامِ پاکستان کا یہی وہ پہلو ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد پوری مسلم دنیا میں اسلامی ریاست اور اسلامی تہذیب کے احیا کی لہریں بار بار اُٹھ رہی ہیں اور سارے نشیب و فراز کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
آیئے، قیامِ پاکستان کے ان مقاصد اور عزائم کے پس منظر میں اپنی قومی زندگی کے اس نئے سال کے آغاز پر اس امر کاجائزہ لیں کہ پاکستانی قوم اور اس کی قیادتوں نے کہاں تک ان اہداف کی طرف پیش قدمی کی اور ملک عزیز کو آج کون سے مسائل، خطرات اور چیلنج درپیش ہیں؟ نیز ان حالات میں اصل منزل کی طرف پیش رفت کے لیے صحیح حکمت عملی اور لائحہ عمل کیا ہے؟
تحریکِ پاکستان اور تاریخ ِ پاکستان کے معروضی تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان کا اصل سہرا اللہ تعالیٰ کے فضلِ خاص کے بعد اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ قائداعظمؒ کی فراست و قیادت اور مسلمان عوام کا جذبہ اور قربانی ہے۔ آزادی کے فوراً بعد ان کی بیماری اور وفات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی، جس میں وہ کھوٹے سکّے، جو ان کے گرد جمع ہوگئے تھے، اقتدار پر قبضہ جماکر ریاست کی مشینری کو بالکل دوسرے ہی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
پہلے وزیراعظم کو گولی کا نشانہ بنا کر قومی منظر سے ہٹا دیا گیا، دوسرے وزیراعظم کو برطرفی کی تلوار کے بل پر نکال باہر کیا گیا اور ان کے مخلص ساتھیوں کو سازشوں کے ذریعے غیر مؤثر بنادیاگیا، اور چند ہی برسوں میں بساط سیاست ایسی اُلٹی کہ اصل نقشہ درہم برہم کرکے یہ مخصوص ٹولہ اقتدار کے ہرمیدان پر قابض ہوگیا۔قانون اور ضابطے کا احترام ختم ہوگیا۔ منتخب دستور ساز اسمبلی کو بار بار توڑ دیا گیا۔ انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی قیادت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو بالآخر انھی کے ہاتھوں اسیر ہوکر رہ گئی۔ فوج کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور پھر فوج نے اپنے لیے سیاسی کردار حاصل کرلیا۔ عدلیہ نے کچھ مزاحمت کی، لیکن اسے بھی زیردام لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
نوسال بعد پہلا دستور بنا، جسے دوہی سال کے بعد توڑ دیا گیا، اور دستور شکنی کی ایک ایسی ریت چل پڑی، جس کے مذموم اثرات کی گرفت میں ملک و قوم زبوں حال ہیں۔ جس احساس تشخص نے قوم کو جوڑا تھا، اس پر ہر طرف سے تیشہ چلایا گیا، لادینی نظریات، علاقائیت، لسانیت، برادری کا تعصب، قبائلیت، غرض کون سا تیشہ ہے جو اس پر نہ چلایا گیا ہو۔
آزادی کے بعد۲۳سال تک بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب نہ کرائے گئے اور پھر دسمبر ۱۹۷۰ء میں انتخابات منعقد ہوئے تو وہ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کا شاہ کار رہے کہ عوامی مینڈیٹ ایک مذاق بن گیا۔ سیاسی جماعتوں میں ذاتی بادشاہت، خاندانی قیادت اور علاقائی اور لسانی تعصبات کا غلبہ رہا اور حقیقی جمہوریت کے فروغ کا ہر راستہ بند کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں علاقائی تعصبات نے سیاست کو آلودہ کیا اور قومی سیاست کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی۔ مغربی اور ہندو تہذیب کو رواج دینے کی دانستہ کوشش کی گئی۔
معاشی ترقی کا وہ راستہ اختیار کیا گیا جس نے ملک کو ایک طرف طبقاتی تصادم میں مبتلا کیا تو دوسری طرف مغرب کے سودی سامراج کے چنگل میں اس طرح گرفتار کردیا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ جیسے بوجھ تلے سسک رہاہے۔
پاکستان کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ اصل اقتدار اور اختیار آج تک عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا، اور سارے وسائل پر ایک طبقہ قابض ہے جس کا تعلق سیاسی، انتظامی اور عسکری اشرافیہ سے ہے اور جو باری باری اقتدار پر براجمان ہوکر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا ہوا ہے۔ قومی دولت کا ۸۰فی صد آبادی کے اُوپر کے ۱۰ فی صد کے پاس ہے۔ ۱۰/۱۲ہزار بڑے خاندان ہیں جو زراعت، صنعت اور تجارت پر مکمل تصرف رکھتے ہیں اور یہی خاندان سیاست پر بھی چھائے ہوئے ہیں، پارٹی خواہ کوئی بھی ہو۔ سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی اس گٹھ جوڑ کا اہم حصہ ہیں۔
دستور موجود ہے مگر کبھی فوج کے ہاتھوں او ر کبھی سول حکمرانوں کے ہاتھوں اس کا بڑا حصہ عملاً معطل رہا ہے۔ قانون صرف کتاب قانون کی ’زینت‘ ہے، اور عملاً قانون، ضابطے اور میرٹ کا کوئی احترام نہیں۔ پولیس سیاسی قیادت کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے۔ ہرسمت کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کا کسی کو درد نہیں اور نہ کوئی ان کا پُرسانِ حال ہے۔ عدالت، خصوصیت سے اعلیٰ عدالت نے کچھ آزادی حاصل کی ہے مگر اس کے فیصلوں اور احکام کو بھی کھلے بندوں نظرانداز کیا جاتا ہے، یا عملاً انھیں غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی،گیس اور پانی کے بحران نے تباہی مچائی ہوئی ہے اور لاقانونیت اور دہشت گردی کے سبب عوام کی جان، مال اور عزت، سب معرضِ خطر میں ہیں۔
ان حالات کو اور بھی سنگین بنادینے والے چند پہلو اور بھی ہیں، جن کا اِدراک ضروری ہے۔
ملک کے معاملات میں بیرونی قوتوں اور خصوصیت سے امریکا اور مغربی اقوام کی دراندازیاں سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ سلسلہ توملک غلام محمد اور جنرل ایوب خان کے دور ہی سے شروع ہوگیا تھا، مگر جنرل پرویز مشرف کے اَدوار میں یہ اپنے عروج کو پہنچ گیا اور یہی اُلٹا سفر آج بھی جاری ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی انھی قوتوں کی گرفت ہماری معیشت پر مضبوط تر ہورہی ہے اور سیاسی اعتبار سے بھی اندرونی معاملات کی باگ ڈور انھی کے ہاتھوں میں نظر آرہی ہے۔ سول اور فوجی تعلقات کے نشیب و فراز کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ معاشی پالیسیوں کی صورت گری جس طرح عالمی بنک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے اشاروں پر کی جارہی ہے اور سیاسی اُفق پر تبدیلیوں کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس نے آزادی اور قومی خودمختاری کی حقیقت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اس پر مستزاد وہ نظریاتی انتشار ہے جو ملک و قوم اور خصوصیت سے نئی نسلوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ بھی آج متنازع موضوع بنایا جارہا ہے۔ قراردادِ مقاصد ہدف تنقید و ملامت ٹھیری ہے۔ تاریخ کے قتل کا ہوّا دکھا کر تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ ریاست اور مذہب کے تعلق تک کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔
ایک فی صد سے بھی بہت کم تعداد رکھنے والا سیکولر اور لبرل طبقہ ہے جو میڈیا پر قابض ہے، اور آزادیِ فکر کے نام پر قومی زندگی کے مسلمات کو چیلنج کر رہا ہے اور ملک و قوم میں فکری انتشار اور خلفشار پیدا کرنے اور بھارت اور مغربی اقوام کے سامراجی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ان ۷۵برسوں میں جو طبقہ حکومت، معیشت اور سیکورٹی کے نظام پر قابض رہا ہے وہ یہی سیکولر گروہ ہے جو کبھی سوشلزم کے نام پر، کبھی سرمایہ داری کے نام پر، اور کبھی ’روشن خیال جدیدیت‘ کے نام پر حکمران رہا ہے اور سارے بگاڑ کا سبب رہا ہے۔ ملّا کو گالی دینا اور ہر خرابی کو جنرل ضیاء الحق کے سر تھوپنا تو اس کا وتیرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام محمد کے دور سے لے کر مشرف اور زرداری کے دور تک اقتدار اگر کسی طبقے کے ہاتھوں میں رہا ہے تو وہ یہی سیکولر مراعات یافتہ اشرافیہ ہے۔ سول دور ہو یا عسکری ، اس دوران میں یہی سیکولر طبقہ حکمران رہا ہے، اور ساری خرابیوں کی جڑ، اس کا ملک کے اجتماعی معاملات میں کردار ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ چیزیں اسلام کے احکام کے مطابق ضرور ہوئیں، لیکن بحیثیت مجموعی اس دور میں بھی اصل فکر اور اصل کارفرما ہاتھ بہت مختلف نہ تھے۔ اس لیے اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ آزادی کے سات عشروں میں اگر کوئی فکر اور کوئی طبقہ حکمران رہا ہے تو وہ یہی سیکولر فکر اور سیکولر طبقہ ہے۔ چند مغربی محققین نے بھی اس امر کا برملا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک میں خود مسلمانوں کی مغرب زدہ سیکولر قیادت ہے جو ناکام رہی ہے اور بگاڑ کی بھی بڑی حد تک ذمہ دار یہی بدعنوان اور نااہل قیادت ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ اور پروفیسر کیتھ کیلارڈ نے بہت صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ ان ممالک میں آج جو بھی حالات ہیں وہ مذہبی قوتوں کے پیدا کردہ نہیں ہیں، بلکہ ان ممالک میں مغرب نواز سیکولر قیادتیں ان کی ذمہ دار ہیں۔
انھی حالات کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج صرف سیاسی اور معاشی بحران ہی کا شکار نہیں، نظریاتی، اخلاقی اور تہذیبی انتشارمیں بھی مبتلا ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے اس طرح کی ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک اور جدوجہد کی ضرورت ہے، جیسی برعظیم کے مسلمانوں کو برطانوی اور برہمن سامراج سے نجات دلانے کے لیے اقبال کی فکری اور قائداعظم کی سیاسی رہنمائی میں برپا کی گئی تھی۔
اس ہمہ گیر بگاڑ کے تین بڑے تشویش ناک پہلو ہیں:
یہی حال قانون سازی کا ہے۔ قانون بناتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ ملک و ملّت کا مفاد کیا ہے یا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا ہے؟ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ امریکا اور مغرب کس بات پر خوش ہوں گے؟ اور کس پر نکتہ چیں؟ چونکہ مغرب نے آج کل فنڈامنٹلزم اور تشدد کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، اس لیے ہماری قومی قیادت کی جانب سے نہ صرف قسمیں کھائی جارہی ہیں کہ ہم فنڈامنٹلسٹ نہیں ہیں بلکہ ہرقانون اور اخلاقی قدر کو پامال کر کے واشنگٹن اور اس کے گماشتوں کے آگے ناک رگڑی جارہی ہے اور انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ خود اقتدار میں آنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے عوام اور پارلیمنٹ کے بجاے واشنگٹن کی خوش نودی حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
غرض سیاست، معیشت اور ثقافت و تمدن، ہر میدان میں ہم اپنی آزادی اور حاکمیت پر سمجھوتے کر رہے ہیں اور جو کچھ مسلمانانِ پاک و ہند نے اپنی جان، مال اور آبرو کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا، اسے چند طالع آزما اپنے مفاد کی خاطر مسلسل دائو پر لگاتے چلے آرہے ہیں۔
یہ ہے وہ حالت ِزار جس میں، آزادی کے ۷۵سال کے بعد ماضی کے کچھ فوجی اورماضی اور حال کی کچھ نام نہاد جمہوری قوتوں کی حکمرانی کے طفیل پاکستان اور اہلِ پاکستان مبتلا ہیں۔ وہ ملک جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے نئی اُمیدوں اور ایک روشن مستقبل کا پیغام لے کر سیاسی اُفق پر نمودار ہوا تھا، اسے ان اتھاہ تاریکیوں میں پہنچا دیا گیا ہے اور بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔
صورتِ حال کا بگاڑ اور تاریکی کی شدت کا انکار ، دراصل حقیقت کے انکار اور عاقبت نااندیشی کے مترادف ہوگا۔ اس کے باوجود ہماری نگاہ میں مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اس لیے بھی کہ مایوسی کفر ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حالات کیسے ہی خراب کیوں نہ ہوں، مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا (لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط)۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مخلص انسانوں کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دے گا، جن کے خون اور عصمتوں کی قربانی سے یہ ملکِ عزیز وجود میں آیا ہے۔ اس لیے بھی کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ بگاڑ کی قوتیں ایک خاص حد پر پہنچنے کے بعد شکست و ریخت کا نشانہ بنتی ہیں اور خیر اور صلاح کی قوتیں بالآخر غالب ہوتی ہیں۔ جس طرح زوال اور انتشار ہماری تاریخ کی ایک حقیقت ہے، اسی طرح تجدید اور احیا بھی ایک درخشاں حقیقت ہیں: ؎
گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے
آغوش میں ہرشب کے سحر ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ اصلاح کا راستہ کیا ہے؟ ہماری نگاہ میں نہ فوج کی مداخلت حالات کو درست کرسکتی ہے اور نہ تشدد کی سیاست۔ ملکی سیاست میں تصادم اور تلخی جس حد کو پہنچ گئی ہے، اس سے صرف سیاست ہی نہیں ملک کا وجود بھی خطرے میں ہے، جس کی بڑی وجہ حکومتوں کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری ہے۔ اگر ایک طرف معاشی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور وسائلِ حیات کی قلت اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے تو دوسری طرف لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ یہی وہ حالات ہیں جو تشدد کی سیاست کو جنم دیتے ہیں۔
اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے وہ تمام عناصر جو حالات سے غیرمطمئن ہیں، بگاڑ کے اسباب پر متفق ہیں اور جو اصلاح کے خواہاں ہیں، وہ مل جل کر مؤثر سیاسی جدوجہد کے ذریعے نظام کو بدلنے کی جدوجہد کریں۔ بگاڑ کے ایک ایک سبب کو دُور کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک نئی قیادت اُبھرے جس کا دامن پاک ہو ، جو عوام میں سے ہو اور جو عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔
قائداعظمؒ نے اپنا مقدمہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور روایتی سیاست کاروں کے سامنے نہیں، برعظیم کے مسلم عوام کی عدالت میں پیش کیا تھا۔ ان کو بیدار اور متحد کرتے ہوئے ایک ایسی عوامی اور جمہوری لہر پیدا کی تھی کہ روایتی قیادتیں اس سیلاب کے آگے بہہ گئیں۔ آج پھر اس کی ضرورت ہے کہ جمہوری ذرائع سے جمہور کو بیدار اور منظم کیا جائے اور قیامِ پاکستان کے مقاصد کے لیے ان کو متحرک کیا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سازشی عناصر کا اصل توڑ عوام کی بیداری اور ان کی منظم قوت ہے۔
خودقائداعظم نے اپنی ۱۹۳۶ء کی ایک تقریر میں قیادت کے لیے بڑے نپے تلے انداز میں مطلوبہ معیار کی نشان دہی کی تھی، جس پر آج ہمیشہ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا: ’’ملکی حالات کا بغور مطالعہ کیجیے، تجزیہ کیجیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس بات کو یقینی بنایئے کہ مقننہ (Legislature) میں دیانت دار، حقیقی، مخلص اور محب ِ وطن نمایندے پہنچیں‘‘۔
اس کے لیے ایک طرف امریکا کے اعلان کردہ دبائو سے ہمارانکلنا ضروری ہے، تو دوسری طرف ملکی وسائل کی بنیاد پر معاشی ترقی کا نقشۂ کار بنانا ضروری ہے۔ عسکری میدان میں بھی پہلے قدم کے طور پر اسلحے کے نظام اور خریداری میں مختلف ممالک سے رابطوں کی ضرورت ہے تو دوسری طرف جو حکمت عملی ۱۹۷۰ء میں بنیادی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے سلسلے میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور اسٹیل ملز کے قیام کی صورت میں اختیار کی گئی تھی، اسے نئے حالات کی روشنی میں ایک نئے انداز میں فروغ دینا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں بھارت سے تعلقات کے باب پر بھی جامع نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ جزوی اُمور میں اُلجھنے کے بجاے اصل بنیادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کی جائے اور اس کے لیے فوری اور دیرپا دونوں نوعیت کی پالیسیاں بنائی جائیں۔ کشمیر اور پانی کے مسئلے کے حل ہی پر بھارت سے سیاسی اور معاشی تعلقات کا دیرپا بنیادوں پر فروغ ممکن ہے۔ ان اساسی پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض ’اعتماد سازی‘ کے اقدامات اور تجارت کا راستہ اختیار کرنا سیاسی اور معاشی ہردوپہلو سے مہلک ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک آزاد اور حقیقی معنی میں پاکستانی مفادات اور ترجیحات پر مبنی خارجہ پالیسی اختیار کی جائے اور اس کے لیے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی عوام کے حقیقی جذبات اور خطوطِ کار میں بُعدالمشرقین ہے۔ تمام عوامی سروے اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم امریکا اور بھارت کو اپنا دوست نہیں سمجھتی اور ان کی پالیسیوں کو ملک کے لیے سب سے اہم خطرہ شمار کرتی ہے، جب کہ جنرل مشرف دور سے اب تک حکومت کی پالیسی اور ترجیحات عوام کے جذبات اور خواہشات کی ضد ہیں۔
یہ وہ بنیادی نکات ہیں، جن پر عمل کر کے قوم ایک بار پھر اسلام کے حیات بخش نظام کے قیام کے لیے متحد اور سرگرمِ عمل ہوسکتی ہے اور چمن میں اس کی روٹھی ہوئی بہار واپس آسکتی ہے۔
دہلی میں ہمارا محلہ ’قرول باغ‘ کہلاتا تھا۔ اس محلے کے اردگرد تو ہندو اکثریت میں تھے، لیکن ہمارے گھر کے آس پاس کی ساری آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ہندو اس طرف کم ہی آتے تھے،بلکہ ان کے بچے بھی زیادہ تر اپنی آبادیوں میں ہی کھیلتے تھے۔ ہماری طرف سودا سلف، سبزی، گوشت اور دودھ وغیرہ کی دکانیں بھی مسلمانوں کی تھیں۔ اسی طرح مکینک، الیکٹریشن، دھوبی، درزی، حجام اور گھریلو ملازم، یہ سب لوگ بھی مسلمان ہوتےتھے۔
والد ِ محترم ، ایم بی ہائی اسکول، دہلی میں انگریزی کے ٹیچر تھے اور والدہ محترمہ گھر میں محلے کے بچوں کو قرآن شریف پڑھاتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ محلے کی بچیوں کو گھریلو کام کاج اور سلائی کڑھائی بھی سکھاتی تھیں۔ والدہ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی بہت اہم تھا اور وہ یہ کہ سیاسی طور پر بھی وہ بہت متحرک تھیں اور تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ کی سرگرم کارکن تھیں۔ محلہ قرول باغ اور اس کے قریب کی مسلمان آبادیوں میں خواتین تک تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے کے لیے وہ دن رات محنت کرتی تھیں۔ دہلی میں دُور و نزدیک، جہاں بھی مسلم لیگ کا کوئی چھوٹا بڑا جلسہ ہو رہا ہوتا، والدہ خود بھی اس میں شرکت کرتی تھیں ،اور اپنے ساتھ محلے کی دوسری عورتوں کو بھی لے کے جاتی تھیں۔ دہلی میں خواتین کے یہ جلسے عام طور پر مسلم لیگ کے ایک مقامی رہنما کے گھر میں ہوا کرتے تھے۔ ان جلسوں میں، مَیں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔
یہ واقعہ میرے حافظے میں آج تک محفوظ ہے کہ کراچی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کا وہ مشہور جلسہ، جس میں وہ کسی وجہ سے خطاب نہیں کرسکے تھے، اس میں بھی مَیں اور میری والدہ پہنچے تھے۔ پھر اسی طرح کراچی میں قائداعظم کے جنازے میں بھی وہ مجھے ساتھ لے کر شریک ہوئیں۔ اس جنازے کے رقت انگیز مناظر مَیں زندگی بھر فراموش نہیں کرسکوں گا۔ یوں نظر آتا تھا، سارا شہر ہی جنازے میں اُمڈ آیا ہے،لوگ غم سے نڈھال تھے اور دھاڑیں مارمار کر رو رہے تھے۔ والدہ بھی بہت غمگین تھیں۔ مطلب یہ کہ تحریک پاکستان اور مسلم لیگ سے والدہ کی وابستگی صرف جذباتی نہیں تھی بلکہ عملی بھی تھی۔
والد صاحب کو مسلم لیگ سے نظریاتی اور جذباتی وابستگی تو تھی، لیکن وہ عملی طور پر زیادہ متحرک نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسکول ٹیچر تھے، اور اس بناپر عملی سیاست ان کے لیے قانوناً ممنوعہ قرار پاچکی تھی۔ تحریک پاکستان کے ساتھ والد صاحب کی جذباتی وابستگی میں جتنی شدت تھی، اس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوسکتا ہے۔ محلے میں ہمارے ایک جاننے والے، جنھیں ’کانگریسی‘ سمجھا جاتا تھا، ان کا نام شاید آفتاب تھا، اور باریش بھی تھے۔ تحریکِ پاکستان عروج پر تھی۔ سیاسی اور معاشرتی سطح پر مسلم لیگ اور کانگریس کی تقسیم اتنی گہری ہوچکی تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کسی کے بارے میں یہ شک بھی پیدا ہوجاتا کہ وہ کانگریس کی طرف مائل ہے، یا اس سے کچھ ہمدردی رکھتا ہے، تو اس مسلمان کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔
میں جن صاحب کا ذکر کر رہا تھا، محلے میں ان کی سوداسلف کی دُکان تھی۔ والد صاحب کو جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں، تو ایک روز انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ’’دیکھو میاں، آیندہ سے ان صاحب کی دکان سے سوداسلف خریدنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ میں بہت حیران ہوا اور پوچھا: ’’ابا جان، آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ اب تک تو ہم انھی کی دکان سےسوداسلف لاتے ہیں۔ آج آپ منع فرما رہے ہیں‘‘۔ اس پر والد صاحب نے باقاعدہ ڈانٹ کے کہا: ’’میاں، تم جانتے نہیں ہو کہ وہ ’کانگریسی‘ ہوچکے ہیں اور کانگریس، مسلمانوں کی دشمن ہے‘‘۔ چنانچہ، اس کے بعد ہم نے اس دکان کا بائیکاٹ کردیا۔ مجھے یہ بات بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ان کی دکان کے سامنے سے گزر کے ایک دوسری دکان سے سودا سلف خریدتے، تو وہ ہمیں دیکھ کے گھورتے رہتے تھے۔
پھر یہ منظر بھی ذہن میں تازہ ہے کہ والد صاحب باقاعدگی سے محلّے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تھے۔ نماز کے بعد لوگ مسجدسے باہر آتے، تو کچھ دیر کے لیے وہیں کھڑے ہوجاتے، اور پھر فوراً ہی مسلم لیگ اور کانگریس کی سیاست پر بحث چھڑ جاتی۔ یہ وہ دور تھا، جب برعظیم کی سیاست میں بہت گرما گرمی اور تلخی پیدا ہوچکی تھی۔ محلوں، چوراہوں اور سڑکوں پر، اور مساجد کےباہر، ہرجگہ سیاست ہی موضوع ہوتی تھی۔ نماز کے بعد مسجد کےباہر ہونے والی ان بحثوں میں والد صاحب بھرپور حصہ لیتے تھے اور تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کے موقف کا بھرپور دفاع کرتے تھے۔
والد صاحب کی بزرگی، شرافت اور بطور استاد ان کے مقام و مرتبے کے باعث سبھی لوگ ان کا بے حد احترام کرتے تھے، اور ان کی بات بڑی توجہ سنتے تھے۔ والد صاحب ان لوگوں کو تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کرتے ، اور ان کو سمجھاتے کہ قائداعظم اور مسلم لیگ، قیامِ پاکستان کی جو جدوجہد کر رہے ہیں، یہ جدوجہد برعظیم میں مسلمانوں کی سیاسی بقا اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے۔ اس طرح وہ اپنی سطح پر تحریک ِ پاکستان اور مسلم لیگ کی دعوت پُرجوش انداز میں عام لوگوں تک پہنچاتے رہتے تھے۔
ہمارے گھر میں بھی سب کی زبانوں پر تحریک ِ پاکستان اورمسلم لیگ کا نام ہوتا تھا۔ دہلی میں، ان دنوں ویسے بھی قائداعظم اور لیاقت علی خاں کا بہت چرچا تھا۔ ہمارے محلے میں، جس طرف ہم رہتے تھے، سب گھر مسلمانوں کے تھے، اور سبھی مسلم لیگ کے حامی تھے۔ میری عمر تب کوئی ۶،۷ سال ہوگی۔ لیکن، اتنی چھوٹی عمر میں بھی، میں تحریک ِ پاکستان کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہوچکا تھا، اور جب ہم بہن بھائی، والدین سے پاکستان کے بارے میں سنتے تو ریاست پاکستان کے نام سے ہمارے ذہنوں میں ایک بہت ہی مثالی ریاست کا، مدینہ کی ریاست کا نقشہ اُبھرتا تھا اور وہ نقشہ ہمیں بہت مسحور کر دیتا تھا۔
میری معلومات کی حد تک، قیامِ پاکستان کے بعد جو لوگ ہندستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے، ان کی اکثریت مسلک کے لحاظ سے ’بریلوی‘ تھی۔ نذر نیاز اور میلاد کی محفلوں کے بغیر ان کے یہاں دین اسلام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تقریباً ہرگھرمیں، ہر ماہ گیارھویں کی نیاز ضرور ہوتی تھی۔ اس کو میں اس طرح بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانے میں ہم نے اپنے گردوپیش جو مذہب پسند لوگ دیکھے، وہ زیادہ تر بریلوی مسلک سے وابستہ تھے۔ اسی طرح جاننے والے جانتے ہیں کہ دلّی، یوپی اور بہار [بھارت] سے جو لوگ یہاں ہجرت کرکےآئے، ان کے یہاں ہر ماہ ایک مجلس ضرور ہوتی تھی، اور محرم کی نویں اوردسویں کی مجلسیں اس کے علاوہ تھیں۔ ہمارے گھر میں بھی فاتحہ، نذرنیاز اور ختم شریف اور میلادشریف کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ تاہم ، سیاسی طور پر یہ سب لوگ مسلم لیگی تھے۔
قیامِ پاکستان کے وقت عمر اگرچہ بہت کم تھی لیکن کچھ چیزیں تو یاد ہیں۔ ۱۴، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو جذبات کا عالم تو کچھ نہ پوچھیے، جس رات پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، محلے کے سب مسلمان گھروں میں، دیواروں اور چھتوں پر موم بتیاں روشن کی گئیں۔ ہر طرف چراغاں کا منظر تھا۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور اس لیے، اُس لمحے ہمیں اتنے بڑے اور تاریخ سا ز واقعے کا پورا شعور اور ادراک بھی نہیں تھا، لیکن یہ بات مَیں نہیں بھول سکتا کہ اس رات ہم سب بچے جلوس کی شکل میں محلے کی گلیوں میں شورمچاتے اور نعرے لگاتے پھررہے تھے: ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘، ’’قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘‘۔ تب، شور مچاتے اور یہ نعرے لگاتے ہوئے اپنےمعصوم بچپن میں یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ آج کے اس تاریخی اعلان کے نتیجے میں کل ہم کس قیامت سے گزرنے والے ہیں۔ شاید اس حقیقت کا شعور نہ ہونے کے باعث ہی ہم بے خوف ہوکر خوشی میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔
یادداشت کے کسی گوشے میں، اس رات کا یہ دھندلا سا نقش بھی اب تک باقی ہے کہ بزرگوں اور بڑوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ خوف کی ایک لہر بھی نظر آرہی تھی۔ تحریک ِ پاکستان کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی، ان کو مسرت تو بہت تھی،لیکن دُور و نزدیک سے قتل و غارت اور خوں ریزی کی جو اطلاعات مسلسل آرہی تھیں، وہ بھی ان کو سراسیمہ کررہی تھیں۔ تاہم، ہم بچے ان سب خطرات سے بے نیاز، اپنی دھن میں مست نعرے لگاتے، اور شور مچاتے پھر رہے تھے۔ ہمیں کوئی پروا نہیں تھی، کل کیا ہوگا۔
قرول باغ، دہلی کے ان تین بدقسمت محلوں [قرول باغ، سبزی منڈی، سیدی پورہ] میں سے ایک تھا، جن میں مسلمانوں کو بےدریغ قتل کیا گیا، اور جو لوگ وہاں سے بروقت نکل آئے، وہی زندہ بچ سکے۔ چنانچہ ۱۴؍اگست کی رات کو جیسے ہی قیامِ پاکستان کا باقاعدہ اعلان ہوا، تو قرول باغ مسلمانوں سے خالی ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے دُور و نزیک کے عزیز و اقارب اور جاننے والوں نے بھی پاکستان کی طرف ہجرت کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ ہماری بھی تیاریاں مکمل تھیں، لیکن والد صاحب گھر چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہورہے تھے ، اور بضد تھے کہ ’’میں گھر میں یہیں پر رہوں گا، اور جو بھی مجھے یہاں سے نکالنے آئے گا، اس کا مقابلہ کروں گا‘‘۔ جب ہم نے زیادہ اصرار کیا، تو انھوں نے گھر کے صحن میں مصلیٰ بچھالیا، کہا: ’’آپ چلے جائیں‘‘ اور نوافل پڑھنے لگے۔
یہ صورتِ حال دیکھ کر، اس وقت توان کے بغیر ہی گھر سے نکلنا پڑا۔ تاہم، ایک دو روز بعد کچھ عزیز واقارب دوبارہ ان کے پاس گئے، منت سماجت کی اور ان کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے، جب حالات کچھ بہتر ہوجائیں، تو سب مل کے یہاں واپس آئیں گے، لیکن ابھی یہاں پر رہنا خطرے سے خالی نہیں، آپ ضد نہ کریں، آئیں اور ہمارے ساتھ چلیں، سب لوگ کیمپ میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ کے بارے میں سخت پریشان ہیں‘‘۔اس طرح کی کچھ اور باتیں کر کے انھوں نے والد صاحب کو قائل کرلیا، اور وہ ہمارے پاس کیمپ میں پہنچ گئے۔ان کو آتے دیکھ کر ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔
اپنے گھر سے ہم سب لوگ بغیر سامان کے تانگوں پرسوار ہوئے، اور ’کوچہ پنڈت‘ میں آگئے، اور یہاں تقریباً تین چار ہفتے تک رہے۔ دہلی سے ٹرینوں پر بیٹھ کے جو لوگ لاہور آرہے تھے، ان سب کو دہلی میں پہلے ’پرانا قلعہ‘ میں پہنچنا پڑتا تھا۔ چنانچہ، ہم بھی کوچہ پنڈت سے پرانا قلعہ لائے گئے۔ جس روز ہم پرانے قلعہ پہنچے، تو معلوم ہوا کہ اس روز جو ٹرین مسلمانوں کو لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی، اس کے مسافر جن میں عورتیں، بچے اور مرد سب شامل تھے، سارے کے سارے راستے میں ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر قتل کر دیے ہیں۔
یہ اطلاع ملی ، تو پرانے قلعے میں نئے پرانے سب پہنچنے والوں میں سخت خوف اور دہشت پھیل گئی۔ انڈین حکومت نے اس کے بعد دہلی اور لاہور کے درمیان مسافر ٹرینوں کی آمدورفت فوری طور پر تاحکم ثانی بند کر دی۔ پرانا قلعہ میں خانماں برباد لوگ اتنی بڑی تعداد میں آرہے تھے کہ جگہ کم پڑگئی۔ ایک ایک کمرے میں درجن دو درجن لوگ اکٹھے رہ رہے تھے، اور سب کے سب بے سروسامان تھے۔ ان کے جسموں پر صرف وہی دوکپڑے تھے، جنھیں پہن کر وہ گھر سےچلے تھے۔ پرانا قلعہ میں صفائی ستھرائی کا بندوبست نہایت ناقص، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہرطرف گندگی پھیلی ہوئی تھی، اور اس گندگی کے باعث پرانا قلعہ ایک طرح سے بیماریوں کا گھر بن چکا تھا۔ یہاں انھی ابتر حالات میں ہمیں تقریباً ایک ماہ تک رہنا پڑا۔
حالات کچھ بہتر ہوئے، تودہلی اور لاہور کے درمیان مسافرٹرینوں کی آمدورفت بحال ہوتے ہی جوسب سے پہلی ٹرین دہلی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی، اس میں ہم سات لوگوں پر مشتمل گھرانا بھی سوار تھا۔ اس ٹرین کے اندر کے حالات بھی ناقابلِ بیان ہیں۔ ایک ہی ڈبے میں گنجایش سے بہت زیادہ لوگ بُری طرح پھنس کے بیٹھے تھے۔ سانس مشکل سے لیا جارہا تھا۔ اُوپر سے ہرطرف پھیلتی ہوئی یہ افواہیں پریشان کررہی تھیں کہ ’’راستے میں سکھوں کے مسلح جتھے موجود ہیں، وہ کرپانیں لہرا رہے ہیں، اپنے گھروں سے یہاں تک تو ہم لوگ سلامت پہنچ گئے ہیں، دیکھیے یہاں سے بحفاظت پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟‘‘ہم سب مسافر جانتے تھے کہ اس سے پہلے والی ٹرین کٹ چکی ہے، اس لیے سب لوگ خاموش، سہمے ہوئے بیٹھے تھے، اور صمیم قلب سے دُعائیں مانگ رہے تھے۔
راستے میں امرتسر کے قریب جب ٹرین کی رفتار کچھ کم ہونے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے ٹرین رُک رہی ہے تو سب لوگ دم بخود تھے۔ سانسیں سینے میں اٹک گئیں، اور سب زور زور سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ رفتار تیز ہونے لگی، اور امرتسر پیچھے رہ گیا۔ یہ دیکھتے ہی سب نے سکون کا سانس لیا۔ اس کے بعد ٹرین نے جو رفتار پکڑی، تو راستے میں کہیں نہیں رُکی، اور مسلسل اپنی منزلِ مقصود لاہور، پاکستان کی طرف دوڑتی رہی۔ خدا خدا کر کے ٹرین لاہور پہنچی اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔ یوں لگا کہ جیسے ہم بہت دنوں ایک آہنی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے، اور اذیت ناک قید میں تھے، اور آج جب لاہور پہنچے ہیں، تو ہمیں رہائی نصیب ہوئی ہے۔ سب کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور سب بحفاظت سرزمین پاک پہنچنے پر خدا کے حضور سجدہ ریز تھے۔
لاہور میں ایک سرکاری افسر، جو دہلی میں والد صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے، جب انھیں اس طرح بے سروسامانی کے عالم میں ہمارے یہاں پہنچنے کی اطلاع ملی، تو انھوں نے اپنی کوٹھی میں ایک کمرہ ہمیں عنایت کر دیا۔ چند ہفتے تک ہم اس کمرے میں رہے۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ دہلی سے ہجرت کرکے آنے والے زیادہ تر لوگ کراچی کا رُخ کررہے ہیں، اور ہمارے متعدد عزیز و اقارب بھی وہاں پہنچ چکے ہیں، اس لیے چند ہفتے بعد ہم بھی لاہور سے کراچی پہنچ گئے۔
اپنے گھر سے محرومی کا شدید احساس تو اسی روز ہوگیا، جس روز ہم اپنا گھر چھوڑ کے کوچہ پنڈت آئے، مگر وہ احساسِ محرومی، جو انسان کی روح تک کو چھلنی کردیتا ہے، اس کا احساس ہمیں پرانا قلعہ میں جاکے ہوا، جہاں گندگی کے ڈھیروں کے درمیان رہنا پڑا، اور بدبو کے باعث ٹھیک طرح سے سو بھی نہیں پاتے تھے، اور اردگرد پھیلنے والی متعدی بیماریوں کے باعث ہروقت سر پر موت منڈلاتی نظر آتی تھی۔ جب ہم لوگ پرانا قلعہ میں پہنچے تو ہمیں گھر چھوڑے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہوچکا تھا۔ روزمرہ ضرورت کی اشیا کی عدم فراہمی کا پریشان کن تجربہ ہورہا تھا۔ پھر، پراناقلعہ میں بھی کوچہ پنڈت کی طرح ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے، پریشان حال اور بےسروسامان۔ اس کے بعدجب لاہور سےکراچی پہنچے تو یہاں بھی ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔
اس احساسِ محرومی کے باعث ہم سب کے گھروں میں ہروقت اُداسی چھائی رہتی تھی۔ سبھی کی زبان پر اپنے اپنے ماضی کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اس دوران جب کہیں کوئی بچھڑے ہوئے خاندان اچانک سےدوبارہ مل جاتے، تو عجیب رقت آمیز مناظردیکھنے میں آتے۔ ان گھروں کی عورتیں ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر روتی تھیں۔ کراچی میں ایک مدت تک روزانہ ہی کوئی نہ کوئی اطلاع آجاتی تھی کہ فلاں جگہ پر فلاں جاننےوالے، یا دُور نزدیک کے رشتے دار پہنچ گئے ہیں۔ جب اس طرح کی کوئی اطلاع ملتی، تو میری والدہ تڑپ کر اُٹھتیں، برقع پہنتیں اور ان لوگوں سے ملنے چل پڑتیں۔یہ سب چیزیں مجھے اس لیے بھی یاد ہیں کہ میں بھی والدہ کی انگلی تھامے ان کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ اس وقت میں بچہ ہی تو تھا، مگر ان اَشک بار مناظر کی تاب نہیں لاپاتا تھا ، اور رو پڑتا تھا۔
والد صاحب یوں تو طبعاً خاموش طبع آدمی تھے ہی، لیکن ہجرت کے بعد، کراچی پہنچنے کے بعد تو انھیں چپ ہی لگ گئی۔ بہت ہی کم بولتے تھے، جیسے ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں۔ ماضی پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں سب کچھ بہت مختلف اور بالکل نیا تھا۔ ایک ایسے مرحلے پر، جب بچے جوان ہورہے ہوں، آدمی کے لیے خود کو نئے حالات میں ڈھالنا آسان نہیں ہوتا۔ پھر، ہم سب بچے ابھی پڑھ رہے تھے۔ ہمارے تعلیمی اخراجات کے باعث بھی وہ پریشان رہتے تھے۔
ہمارے خاندان میں یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ کوئی بچہ صرف میٹرک پاس ہو۔ والد صاحب چونکہ دہلی کے ایم بی ہائی اسکول میں ہیڈماسٹر رہ چکے تھے، اس لیے یہاں کراچی میں آئے تو سندھ مدرسہ اسکول میں ان کو ملازمت مل گئی۔ ہم ان دنوں ناظم آباد رہتے تھے۔ ناظم آباد سے سندھ مدرسہ اسکول کا فاصلہ ۱۲،۱۳کلومیٹر تو تھا۔ والدصاحب بچت کے خاطر روزانہ سائیکل پر اسکول جاتے تھے۔ بہت زیادہ محنت و مشقت اور فکرمندی کےباعث ان کی صحت گرنے لگی تھی، اور آخری عمر میں انھیں کینسر بھی ہوگیا تھا۔ اسی مرض میں ۱۹۶۰ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر۶۳ برس تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تقسیم ہند کے بعد جن لوگوں نے اپنا گھربارچھوڑ کے، یہاں پاکستان میں نئے سرے سے زندگی شروع کی، انھیں اپنے آپ کو نئی زندگی میں ڈھالنے کے لیے بہت عرصہ لگ گیا۔ جب تک ان کے گھروں میں بچے بڑے نہیں ہوگئے، ان کی پڑھائی مکمل نہیں ہوگئی، اوران کی شادیاں نہیں ہوگئیں،ان گھروں میں ہجرت کے صدمے کم نہیں ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے تقریباً ۱۰سال بعد تک، ہمارے گھروں میں، ہماری شادی غمی کی مجلسوں میں، جب بھی لوگ اکٹھے بیٹھتے تو چند منٹوں بعد ہی ہجرت اور اس کے تجربات، اور اس کے صدمات کا تذکرہ شروع ہوجاتا تھا۔
ایک خالہ زاد بھائی میرے ہم عمر تھے۔ ہم دونوں میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا فرق ہوگا۔ اسی طرح میرے پھوپھی زاد بھائی بھی قریب قریب میرے ہم عمر تھے۔ ہم سب کے گھر چھن چکے تھے۔ اب جو بات میں کہنے والا ہوں، اس کا اطلاق صرف مجھ پر نہیں، بلکہ ان سب بچوں پر ہوتا ہے، جن کے ماں باپ کو تقسیم ہند کے باعث اپنے گھرچھوڑ کے ہجرت کرنا پڑی۔ ہم بچوں نے جن صدمات کو سہا تھا، ان کے باعث ہمارے مزاجوں میں شرارت نام کا کوئی جذبہ نہیں رہا تھا۔بچوں کی شرارتیں یہی ہوتی ہیں کہ آپس میں چھیڑ چھاڑ کرلیں، یا کبھی کسی ٹیچر کو تنگ کرلیں، مگر ہم میں اس طرح کی بھی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
میری عمر ۹، ۱۰ سال ہوگی، جب نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ میں ہرنماز کے بعد یہ دُعا ضرور مانگتا تھا، ’’یااللہ، ہمارے گھر کے حالات ٹھیک کردے‘‘۔ میں اس وقت یہ تو نہیں جانتا تھا کہ والد صاحب کی تنخواہ کتنی ہے، اور اس تنخواہ سے ہماری ضرورت پوری ہوتی ہے یا نہیں؟ لیکن اتنا ضرور محسوس کرتا تھا کہ ہمارے گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ۹، ۱۰سال کا بچہ، چھوٹا ضرور ہوتا ہے، لیکن اپنے گھریلو حالات سے یکسر لاعلم نہیں ہوتا۔ پھر جو لوگ ہجرت کرکے یہاں پہنچے، ان کے گھروں میں مدت تک سوگواری کی سی کیفیت رہی۔ ہروقت ماضی کا ماتم ہوتا رہتا، ہم کس طرح بے سروسامان اپنے گھروں سے نکلے؟ کس طرح قافلوں میں شامل ہوئے؟ کس طرح ٹرین میں بیٹھے؟ کس طرح پاکستان پہنچے، اور کس طرح یہاں کراچی میں زندگی شروع کی؟ سب ایک دوسرے کو اپنی داستان غم سناتے تھے اورروتے تھے۔
یقین کیجیے، اس افسردہ فضا میں کم و بیش سبھی بچوں کی طبیعت میں ہروقت قربانی، ایثار اور صبروقناعت کے جذبات موجزن رہتے۔ اگرکسی کو پہننے کے لیے کہیں سے کوئی اچھا کپڑا مل جاتا، تو اس کی خواہش ہوتی، یہ اچھا کپڑا کوئی دوسرا پہن لے، کسی کو بہتر کھانا میسر آجاتا تو وہ کوشش کرتا کہ یہ بہتر کھانا کسی دوسرے کو کھلا دے۔ مناسب کمبل یا لحاف نہ ہونے کےباعث، ہم بہن بھائی رات بھر سردی میں ٹھٹھرتے رہتے تھے، لیکن گھر والوں کو نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں سردی لگ رہی ہے۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا، اور مجھے روزانہ تین آنے جیب خرچ ملتا تھا۔ اسکول پہنچنے کےلیے راستے میں دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں۔ ایک بس کا کرایہ ایک آنہ ہوتا تھا۔ اس حساب سے مجھے اسکول آنے جانے کے لیے روزانہ چار آ نے درکار ہوتے تھے، جب کہ مجھے صرف تین آنے ملتے تھے۔ لیکن، آپ حیران ہوں گے کہ ان تین آنوں میں سے بھی، میں روزانہ ایک آنہ بچالیتا تھا۔ میں آدھا آنہ خرچ کرکے بس میں سفر کرتا، اور باقی آدھا آنہ راستہ پیدل چل کر بچا لیتا تھا۔ اس طرح تین آنوں میں سے دوآنے خرچ کرتا تھا، اور روزانہ ایک آنہ بچا لیتا تھا۔
وہ ایک آنہ میں آدھی چھٹی کے وقت کھانے پینے میں بھی خرچ نہیں کرتا تھا، بلکہ وہ آنہ آنہ جمع کرتا رہتا اور جب چند آنے جمع ہوجاتے تو اسکول میں اپنے کسی ضرورت مند ہم جماعت دوست جن میں کسی کے پاس سلیٹ نہیں ہوتی تھی، کسی کے پاس کاپی نہیں ہوتی تھی، ا ن سے کہتا، یہ میری طرف سے قرضِ حسنہ ہے، آپ کاپی یا سلیٹ لے لو۔ یہ قرض، میں واپسی کی نیت سے نہیں دیتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے والد اور والدہ کو میری اس ’بچت اسکیم‘ اور’قرضِ حسنہ اسکیم‘ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، اور ان کی طرف سے مجھے روزانہ تین آنے ملتے رہتے۔
کراچی ہمارے لیے نیا شہر تو ضرور تھا، لیکن یہاں آکر کچھ زیادہ اجنبیت کا احساس اس لیے نہیں ہوا کہ دہلی اور صوبہ جات متحدہ (یوپی) سے ہجرت کرکے آنے والوں کی اکثریت کراچی ہی میں رہتی تھی۔ یہاں میں یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ اہلِ سندھ نےاپنے مہاجر بھائیوں کا بہت خوش دلی اور کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ یہ جو بعد میں، ایم کیو ایم کی سیاست کے باعث مہاجروں اور سندھیوں میں ’تُو تُو ، مَیں مَیں‘ والی فضا پیدا ہوئی، یہ اس زمانے میں نہیں تھی۔ تب کراچی آبادی کے اعتبار سے اتنا گنجان شہر بھی نہیں تھا بلکہ ایک پُرسکون سا شہر تھا، جس کی زیادہ تر مہاجر آبادی چھوٹے چھوٹے سرکاری کوارٹروں میں رہتی تھی۔ کراچی کی اب اصل اہمیت یہ تھی کہ یہ شہر اب پاکستان کا دارالحکومت بھی تھا۔
یہاں ہم سات افراد پر مشتمل خاندان کی پہلی پناہ گاہ جیکب لائن میں دو کمروں کا ایک چھوٹا کوارٹر تھا۔ کراچی میں ہم نے کرایے کے ۱۵ مکانات تبدیل کیے۔ بالکل ابتدائی دور کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جیکب لائن میں ایک دو ماہ بعد جب ہم لارنس روڈ پر آئے تو ہمارے قریب ہی یہاں سے نقل مکانی کرکے جانے والے ہندو خاندانوں کی کچھ کوٹھیاں ابھی تک خالی پڑی تھیں۔ ہرطرف افراتفری مچی تھی۔ لوگ لُٹے پٹے یہاں پہنچے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ہندو خاندان اپنی بھری پری کوٹھیاں چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، تو ایک روز کچھ مشتعل مہاجر نوجوانوں نے ان خالی کوٹھیوں پر ہلہ بول دیا،اوران میں موجود مال و اسباب کو ’مالِ غنیمت‘ سمجھ کے لوٹ لیا۔
اس لُوٹ مار کی اطلاع معلوم نہیں کس طرح، قائداعظم تک بھی پہنچ گئی۔ فوراً ہی ان کا تحریری حکم آگیا کہ ’’ جولوگ ہندوئوں کےمکانات سے ان کا مال و اسباب اُٹھا لے گئے ہیں، آج رات کےاندھیرے میں وہ سب مال و اسباب اسی طرح واپس انھی کوٹھیوں میں رکھ آئیں‘‘۔ قائداعظم کے اس فرمان میں سب کے لیے یہ سرزنش بھی تھی کہ ’’ٹھیک ہے، آپ لوگ بڑی مصیبتیں جھیل کے یہاں پہنچے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ کو یہ حق بھی حاصل ہوگیا ہے کہ آپ ناجائز طور پر دوسروں کے مال و اسباب پر قبضہ کرلیں‘‘۔
آپ حیران ہوں گے کہ قائداعظمؒ کا حکم پہنچنے کی دیر تھی، راتوں رات لوگوں نے ہندوئوں کی کوٹھیوں سے لوٹا ہوامال و اسباب، سارے کا سارا واپس ان کوٹھیوں میں رکھ دیا۔ کسی نے ایک سوئی تک اپنے پاس نہیں رکھی۔یہ اس وقت مہاجروں میں اسپرٹ تھی۔
پاکستان کی تاسیس کے ۷۵ برس پورے ہونے پر، ہم یہاں اُس قلمی مذاکرے سے چند حصے پیش کر رہے ہیں، جسے ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی نے ۱۹۶۱ء کے ’نظریۂ پاکستان نمبر‘ میں شائع کیا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ۶۲برس گزر جانے کے بعد آج تک ہم اسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے قومی، سیاسی، عسکری، انتظامی، صحافتی اور تعلیمی قیادت نہ بنیادی مسئلے کو سمجھنا چاہتی ہے اور نہ ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم رفتہ رفتہ ایک پاکستانی قوم سے ہٹ کر تنگ نظر قومیتوں کی طرف بڑھنے، مفادات کے گرداب میں پھنسنے اور وقتی و عارضی اہداف کے پیچھے بھاگنے والی قوم کا ثبوت دینے پر مُصر ہیں۔ مذاکرے کے تین محترم شرکا: lسیّدابوالاعلیٰ مودودی lڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی lجسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے جوابات یہاں دیئے جارہے ہیں۔(پروفیسر خورشیداحمد)
۱ آپ کی نگاہ میں پاکستان کے بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے؟
۲ اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں کون سی قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں؟
۳ آپ کے خیال میں گذشتہ برسوں میں پاکستان، اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اس سے دور ہٹا ہے؟
۴ آپ کے نزدیک اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ سیاسی اور تہذیبی زندگی پر اس نظریے کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہییں؟
۱ پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ایک مسلمان قوم کا نظریہ اسلامی نہ ہو تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ: ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیر اسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیں اور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟
دوسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم نے متحدہ ہندستان میں سے ’پاکستان‘ کے نام کا ایک الگ خطہ زمین کاٹ کر حاصل کرنے کے لیے جو لڑائی لڑی تھی، وہ تمام دنیا کے سامنے ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ کر لڑی تھی کہ: ہم ایک جداگانہ تہذیب و تمدن رکھنے والی قوم ہیں۔ متحدہ ہندستان میں غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ایک مشترک نظامِ زندگی ہم نہیںبنا سکتے۔ ہمیں اپنے نظامِ زندگی کے مطابق کام کرنے کے لیے ایک الگ علاقہ چاہیے، جہاں ہم اپنی تہذیب اور اپنے تمدن اور اپنے قوانینِ حیات کے مطابق کام کر سکیں ___ اب ایک سخت لڑائی لڑنے کے بعد جب وہ پاکستان ہمیں حاصل ہو گیا، جس کے لیے ہم نے یہ سارے پاپڑ بیلے تھے، تو یہ ایک بالکل عجیب حرکت ہو گی کہ ہم یہاں اسی تہذیب و تمدن اور نظامِ زندگی سے منہ موڑ لیں، جس کا ہم نے نام لیا تھا اور وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیں جو متحدہ ہندستان میں بھی بآسانی کیا جا سکتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک جھوٹی اور مکار، یا احمق اور بوالفضول قسم کی قوم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ آخر دنیا یہ نہ سوچے گی کہ یہ عجیب قوم ہے کہ جس مقصد کا نام لے کر یہ لڑی تھی، لڑائی میں کامیاب ہو کر اسی مقصد کو فراموش کر بیٹھی اور جو کام یہ لڑے بغیر کر سکتی تھی، وہی اس نے جان و مال اور آبرو کے بے شمار نقصانات اٹھانے کے بعد کرنا شروع کر دیا۔ ہماری سوسائٹی میں جن باتوں پر بے چارے سکھوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ہماری یہ حرکت ان سے بدرجہا زیادہ بڑھی ہوئی ہو گی اور دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو مہاسکھ کی حیثیت سے پیش کریں گے۔
تیسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ پاکستان مختلف عناصر سے مرکب ہے، اور جن عناصر سے یہ مرکب ہے اُن کے درمیان آج تک اپنی جداگانہ خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اندر حقیقت میں کوئی امتزاج ایسا نہیںہو سکا ہے، جو ان عناصر کو بالکل یک جان اور یک رنگ کر چکا ہو: ان کی زبانیں مختلف ہیں، لباس، عادات، طرز معاشرت مختلف ہے، نسلیں مختلف ہیں۔ ایک بڑی حد تک اُن کے مفاد بھی نہ صرف مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ ان کے اندر جدا جدا ہونے کا احساس نہ صرف موجود ہے، بلکہ زندہ اور متحرک ہے، اور ایک ذرا سے اشارے پر بہ آسانی ابھر آتا ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان جغرافی حیثیت سے ایک وطن بھی نہیں ہے۔ اس کے دو بڑے ٹکڑے ، جن میں اس کی آبادی تقریباً نصف نصف بٹی ہوئی ہے[جب یہ جوابات لکھے گئے تب پاکستان، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (آج کل بنگلہ دیش) پر مشتمل تھا]، ایک دوسرے سے ہزار میل [ ڈیڑھ ہزار کلو میٹر] کے فاصلے پر ہیں اور بیچ میں ایک ایسی طاقت حائل ہے جس کے ساتھ ہمارے کچھ بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں۔ کسی وقت بھی ان تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ان دونوں ٹکڑوں میں مواصلات کے سارے رشتے کٹ سکتے ہیں۔ اس حالت میں پاکستان کو ایک وحدت بنا کر رکھنے والی قوت سوائے اسلام کے کوئی نہیں ہے۔ محض سیاسی نظام کی وحدت کوئی چیز نہیں۔ کیا اسی طرح کی وحدت آسٹریا اور ہنگری میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت عثمانی سلطنت میں نہ تھی؟ اسی طرح کی وحدت برٹش ایمپائر [برطانوی سلطنت] میں نہ تھی؟ اس وحدت کے بل پر مختلف الجنس عناصر کو ایک ’بنیان مرصوص‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے زبان کی وحدت مددگار ہوسکتی ہے، مگر اس کا یہاں دور دور کوئی امکان نہیں۔ اس کے لیے معاشی مفاد کی وحدت بھی مددگار ہوسکتی ہے، لیکن ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان یہ موجود نہیں ہے۔ اب سوائے ایک عقیدے اور دین کی وحدت اور اصول اخلاق و تہذیب کی وحدت کے اور کیا ایسی چیز ہے جو پاکستان کے مختلف عناصر کو جوڑ کر رکھ سکتی ہو؟
چوتھی اور آخری چیز یہ ہے کہ ملک کی عظیم مسلم اکثریت، جو دراصل پاکستان کی بانی اور اس کی پشت پناہ ہے، سچے دل سے یہ ایمان رکھتی ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل کا حل فی الواقع اسلامی نظام ہی میں ہے، اور اس نظام سے بہتر دوسرا نظام نہیں ہے۔ جن لوگوں کا اصلی عقیدہ یہ نہیں ہے، جو محض مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو جانے کی وجہ سے مسلمان بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے عقائد اور خیالات اور نظریات کے اعتبار سے غیر مسلم ہو چکے ہیں، ان کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ تو بلا شبہہ یہی چاہیں گے کہ ہم اپنے ساتھ بس مسلمان کا نام لگائے رکھیں، مگر کام کسی غیر اسلام نظریہ پر کریں۔ لیکن ایسے لوگ آخر ہماری آبادی میں ہیں کتنے؟ بمشکل ان کا تناسب ایک دو یا دس پانچ فی لاکھ ہوگا۔
آخر عقل و منطق، یا انصاف یا جمہوریت کے کس قاعدے سے اس چھوٹی سی اقلیت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں کوئی نظام زندگی اس کے نظریات کے مطابق اختیار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت یہی چھوٹی سی اقلیت ہمارے ہاں بڑے بڑے مناصب پر مسلط رہی ہے۔ لیکن یہ حالت خواہ کتنی ہی پریشان کن ہو، بہر حال اسے کوئی حقیقی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک میں ایسی ایک اقلیت کے برسر اقتدار ہونے کی حیثیت ایک اجنبی قوم کے برسرِ اقتدار آنے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انگریز بھی جب اس ملک پر حکومت کر رہا تھا تو اس کے کارفرماؤں اور کار پردازوں کی تعداد اس ملک میں اس سے زیادہ نہ تھی۔ اگر وہ اجنبی اقتدار یہاں مستحکم نہ ہو سکا تو یہ اجنبی اقتدار بھی یہاں مستحکم نہیں ہو سکتا۔
جب تک یہ اقتدار یہاں مسلط رہے گا، پاکستان کے باشندوں کی عظیم اکثریت کے جذبات، احساسات اور ان کی گہری جڑوں پر جمی ہوئی روایات سے اس چھوٹی سی اقلیت کے منصوبے پیہم متصادم ہوتے رہیں گے۔ تصادم کی وجہ سے یہ ملک ایک انچ بھی ترقی کے راستے پر آگے نہ بڑھ سکے گا، بلکہ جو کچھ پہلے کا بنا ہوا ہے وہ بھی بگڑتاچلا جائے گا۔ قوم کا دلی تعاون جس طرح بدیسی اجنبیوں کو کبھی حاصل نہ ہو سکا، اسی طرح ان دیسی اجنبیوں کو بھی کبھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ ان کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہے گی، جیسے کوئی شخص ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہو، جو اسے سواری نہ دینا چاہتا ہو، اور سوار اور سواری میں مسلسل کش مکش جاری رہے۔ اس حالت میں کسی نظریے کے مطابق بھی ہماری زندگی کے کسی مسئلے کا حل نہ ہو سکے گا، نہ اسلامی نظریے کے مطابق اور نہ غیر اسلامی نظریے کے مطابق۔ جو کچھ حکمران بنانا چاہیں گے قوم کا عدم تعاون اس کو نہ چلنے دے گا۔ جو کچھ قوم بنانا چاہے گی حکمرانوں کی جبری اور بعض حالات میں مسلح مزاحمت اس کو نہ چلنے دے گی۔ اس کش مکش کو کسی کا جی چاہے تو جب تک چاہے طول دیتا رہے۔ آخر کار پاکستان کی تعمیر کے لیے اگر کوئی کام ہو سکے گا تو اسی وقت ہو سکے گا، جب کہ قوم اور اس کے حکمرانوں کا مقصد اور مسلک ایک ہو، اور وہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہو سکتا ہے۔
ایک اعتراض : اس تجزیے پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام نے مسلمانوں کو ایک نظام تمدن دیا ہے اور اس کی روایات ہماری قوم میں بڑی مضبوط ہیں تو پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہو گا کہ پاکستان کے مختلف عناصر کی معاشرت اور ان کا مفاد ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم ہے؟
اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ جہاں تک تمدن و معاشرت کے مختلف ہونے کا تعلق ہے اس کی وجہ تو بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے، اگر ہم اس ملک میں مسلمانوں کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس ملک میں اسلام کو پوری طرح کام کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا کہ وہ یہاں کے مسلمانوں کو مکمل طور پر ایک تہذیب و تمدن میں رنگ دیتا۔ اسلام کے ساتھ ساتھ دوسری تمدنی قوتیں بھی یہاں کار فرما رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم برعظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں صاف یہ نظر آتا ہے کہ ان کے اندر وحدت کے جتنے عناصر ہیں وہ تو سارے اسلام نے فراہم کیے ہیں، مثلاً: عقائد، اذان، نماز، روزہ، جمعہ اور عیدین، حج، ختنہ، نکاح و طلاق و وراثت کے قوانین، لباس میں ستر کے حدود، کھانے پینے میں حرام و حلال کے قیود، معاشرت میں پردہ، وغیرہ۔
اس کے برعکس ان کی زندگی میں اختلاف اور پچ رنگی کے جتنے عناصر ہیں، وہ سارے کے سارے دوسری تمدنی قوتوں کے فراہم کردہ ہیں۔ اب اگر یہاں اسلام کو کام کرنے کا پورا موقع ملے اور نظامِ تعلیم و تربیت میں، قوانین میں، حکومت کی پالیسی میں اور دوسرے معاملات میں وہ پوری طرح یہاں کارفرما ہو تو وحدت پیدا کرنے والی طاقت زور پکڑتی جائے گی اور اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں کمزور ہوتی جائیں گی۔ لیکن اگر اس کے برعکس وحدت کا یہ واحد رشتہ تعلیم و تمدن، قانون اور دوسرے مؤثر ادارات سے بے دخل رہے تو لا محالہ اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں زور پکڑتی جائیں گی اور ہماری آبادی کے مختلف عناصر کو بکھیر کر رکھ دیں گی۔
رہا معاشی مفاد کا مسئلہ ،تو وہ قدرتی اسباب سے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان تصادم پیدا کرتا ہے۔ اگر اسلام کی رہنمائی میں ہم اپنے معاشی مسائل کو منصفانہ طریقے پر حل کر لیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر اعتقادی اور اخلاقی وحدت کو بھی بڑھائیں تو یہ تصادم روز بر وز خفیف ہوتا جائے گا اور کبھی نازک صورت اختیار نہ کرنے پائے گا۔ لیکن بصورت دیگر اس کو کوئی طاقت روز بروز بڑھنے اور پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم دست و گریبان کر دینے سے نہ روک سکے گی۔
ایک ضمنی سوال: اس سلسلے میں ضمناً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراسلامی نظریے کی یہی اہمیت ہے تو آخر دوسرے مسلم ممالک اس کو چھوڑ کر دیگر نظریات کیوں اختیار کر رہے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر وہی ایک بلا مسلط ہے جو ہمارے اس ملک پر مسلط رہی ہے، یعنی کارفرمائی کی طاقتیں ہر جگہ ان لوگوں کے ہاتھوں میںہیں، جنھوں نے نہ کوئی اسلامی تعلیم و تربیت پائی ہے اور نہ اسلامی ذہنیت ان میں موجود ہے۔ قوم ہر جگہ مسلمان ہے، اسلامی جذبات رکھتی ہے اور اسلامی روایات اس میں گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ لیکن سیاسی اور معاشی طاقت ہر جگہ ایک ایسی مختصر سی اقلیت کے ہاتھ میں ہے، جس نے یا تو براہِ راست مغربی استعمار کی گود میں پرورش پائی ہے یا مغربی استعمار سے چوٹ کھا کر اس کے آگے پوری طرح سپر ڈال دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ [مسلم] قوم اور ان استعمار زادوں کے درمیان کش مکش برپا ہے، اور ہر جگہ مغربی نظام زندگی کا اجنبی پودا بالکل ایک دوسری سر زمین اور مخالف آب و ہوا میں لا کر زبردستی لگایا اور پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
۲ ایک مزاحم طاقت کا تو میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ تین مزاحم طاقتیں اور قابلِ ذکر ہیں:
ایک، عام مسلمانوں کی جہالت اور اسلامی تربیت سے محرومی۔ ہم جب کبھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں اور اسی طرح پاکستان میں بھی مسلمان من حیث القوم اسلام کے دلدادہ ہیں، تو اس سے ہماری مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ان کے جذبات و احساسات اسلامی ہیں، اور روایات کا گہرا اثر ان کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بالکل ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ان عام مسلمانوں کی عظیم اکثریت جس اسلام کی دلدادہ ہے، اس سے نہ تو یہ اچھی طرح واقف ہے اور نہ اس کے اصولوں کے مطابق اس کو اخلاقی تربیت ملی ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ مغربی استعمار کی آمد سے کئی صدیاں پہلے سے مسلمانوں کی حکومتیں اپنے بنیادی فرائض سے غافل رہیں، اور انھوں نے مسلم عوام کو اسلامی تعلیم و تربیت دینے کا فرض پوری طرح انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد جب مغربی استعمار مختلف اسلامی ملکوں میں اور خود ہمارے ملک میں آیا تو اس نے ہمارے عقائد، اخلاق اور تہذیب و تمدن کی جڑیں ہلاڈالیں، اور ہم پر ایک ایسا نظام تعلیم اور نظام سیاست و معیشت اور نظام قانون و تمدن مسلط کیا جو ہمارے فلسفۂ حیات اور نظامِ زندگی سے پوری طرح متصادم تھا۔
ان ساری چیزوں کے اثرات مسلمان قوموں میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور اپنے ملک میں بھی ہم ان سے بری طرح متاثر ہیں۔ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہو جائے تو عوام کے جذبات و احساسات ان شاء اللہ اس کا ساتھ دیں گے۔ لیکن ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ قوم کی جہالت و جاہلیت اس کے قائم ہونے اور چلنے میںمزاحم نہ ہو گی۔ لا محالہ، اسلام کے لیے کام کرنے والوں کوکافی مدت تک جان مار کر محنت کرنا ہو گی، تاکہ قوم کی بگڑی ہوئی عادات و خصائل کو درست کر کے اس نظام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، جسے وہ جذباتی طور پر دل سے پسند کرتی ہے۔ اس معاملے میں اصلاح کرنے والوں کوبڑی حکمت کے ساتھ ایک تدریجی پروگرام اختیار کرنا ہو گا۔ اگر حکمت اور تدریج کو وہ ملحوظ نہ رکھیں اور کسی وقت بھی اصلاح کی پوری خوراک [dose] بیک وقت دے ڈالنے کی کوشش کریں تو سارا کام بگاڑ کر رکھ دیں گے۔
دوسری مزاحم قوت ہمارے مذہبی طبقوں کا جمود ہے۔ ان لوگوں کو پوری طرح اس بات کا احساس و ادراک نہیں ہے کہ اسلام میں درحقیقت ثبات اور حرکت کے درمیان کس طرح توازن قائم کیا گیا ہے۔ کتاب و سنت کی رُو سے مستقل طور پر ثابت و قائم کیا چیزیں رہنی چاہییں اور حرکت کن پہلوؤں اور کن امور میں ہونی چاہیے، جس سے ہم زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ آگے چل سکیں۔ ان کے نزدیک کلیات و اصول اور منصوص احکام سے لے کر استنباطی جزئیات و فروع تک ہر چیز اٹل ہے۔ اس جمود کی وجہ سے بھی بہت سی رکاوٹیں اب تک پیش آئی ہیں اور آگے بھی پیش آنے کا خطرہ ہے۔ اگر اصلاح کے لیے کام کرنے والے لوگ وہ ہوں جو قرآن و سنت اور فقہ اور اسلامی تاریخ پر اچھی نظر رکھتے ہوں، فرقہ بندی کے تعصبات میں مبتلا نہ ہوں اور اپنے مزاج میں حکیمانہ اعتدال اور صبر و تحمل بھی رکھتے ہوں تو یہ مزاحمت تھوڑی یا بہت مشکلات کے باوجود رفع ہو سکتی ہے۔ ورنہ کم علم اور غیر معتدل لوگوں کے ہاتھوں یہ کام ہونے کی صورت میں سخت اندیشہ ہے کہ ہم اصلاح کرنے کے بجائے ملک میں مذہبی جھگڑے برپا کر دیں گے۔
تیسری مزاحم طاقت ملک کے اندر نہیں بلکہ باہر ہے۔ ہمارے مغربی دوست، جن کے ساتھ ہم بہت سے مالی و معاشی و سیاسی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور جنھیں ہمارے آزاد ہو جانے کے باوجود ہماری قسمت پر اثر ڈالنے کے بہت سے مواقع حاصل ہیں۔ وہ خود چاہے کتنے ہی عیسائی ہوں اور عیسائیت پر فخر کریں اور کمیونزم کے مقابلے میں مذہب کے علَم بردار بنیں، مگر مسلمان قوموں کو وہ مسلمان نہیں دیکھنا چاہتے۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ اب تک کمیونزم کے مقابلے میں اسلام کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ تو ضرور ہے کہ مسلمان قومیں مذہب کی بنیاد پر کمیونزم کی مخالف ہوں اور اس کے مقابلے میں ان کا ساتھ دیں۔ لیکن جب کبھی کسی ملک کو وہ اسلام کی طرف پلٹتے دیکھتے ہیں اور انھیں خطرہ ہوتا ہے کہ اب یہاں اسلام کا بول بالا ہونے والا ہے تو اپنی تمام جمہوریت نوازی کو چھوڑ کر اور اپنے تمام اصول، آئین و قانون کو نظر انداز کر کے وہ اس قوم کے اندر غیر آئینی انقلاب کی ہمت افزائی کرنے پر اُتر آتے ہیں، جمہوریت کے مقابلے میں ڈکٹیٹرشپ کی حمایت کرنے لگتے ہیںاور انتہائی وحشیانہ ظلم و ستم جو دینی رہنماؤں اور دینی کارکنوں پر کیا جائے، اس پرنعرہ ہائے تحسین و آفریں بلند کرتے ہیں۔ یہ تماشاہم کئی برس سے مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور ہمیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ مسلم ممالک کے اندر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے راستے میں صرف اندرونی طاقتیں ہی مزاحم نہیں ہیں، بلکہ ان کی پشت پر یہ بیرونی طاقتیں بھی ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ہماری جنگ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں آزادی کے لیے ابھی مزید لڑائی لڑنی ہے۔
پھر بد قسمتی سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت، یعنی امریکا پر ایک شیطان کا سایہ بھی ہے اور اس شیطان کا نام ہے ’’یہود‘‘۔ بین الاقوامی سازشیوں کے اس خطرناک گروہ کے ہاتھ میں بہت بڑی معاشی طاقت بھی ہے اور پریس کی طاقت بھی۔ خصوصیت کے ساتھ امریکا کی خارجہ سیاست پر اس کو جو تسلط حاصل ہے، اس نے تمام امریکیوں کو ان کی خواہش اور ارادے کے بغیر نہ صرف عربوں سے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں سے زبردستی بھڑا دیا ہے۔ یہ یہودی حقیقت میں امریکا کے لیے انگریزی محاورہ کے مطابق evil genius ،نفس امّارہ بنے ہوئے ہیں۔ جس مسلمان قوم کے اندر مذہبی احیا کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں، یہ اس کے متعلق فوراً دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجانے لگتے ہیں اور اس کی خبریں دنیا کو اس طرح سناتے ہیں جیسے دنیا میں کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔ اگر کسی مسلمان قوم میں الحاد اور بے دینی کا زور ہو رہا ہو تو یہ اس پر بغلیں بجاتے ہیں اور دنیا بھر کو خبر کر دیتے ہیں کہ وہ قوم بڑی ’ترقی‘ کر رہی ہے، بہت progressive [ترقی پسند] ہو گئی ہے۔ اگر کہیں کسی دینی تحریک کو کچلا جا رہا ہو، مقدمے چلائے بغیر لوگوں کو قید کیا جا رہا ہو، فوجی عدالتوں میں بالکل مضحکہ خیز طریقوں پر مقدمات چلا کر لوگوں کو پھانسیوں کی سزائیں دی جا رہی ہوں، تو یہ اس کی خبریں دنیا کو اس انداز سے دیتے ہیں گویا کوئی بہت بڑا نیک کام کیا جارہا ہے، اور کوئی شرم ان کو ایسے افعال کی تحسین کرتے وقت لا حق نہیں ہوتی۔
اگر کسی مسلمان ملک میں جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر اور آئین و قانون کی مٹی پلید کرکے کوئی ڈکٹیٹرشپ قائم کر دی جائے تو یہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان قومیںجمہوریت کے قابل ہی نہیں ہیں، ان کے لیے توڈکٹیٹرشپ ہی موزوں ہے۔ امریکا کے عام باشندے ذرا محسوس نہیں کرتے کہ اس طرح اپنی اغراض کے لیے یہودی سرمایہ دار اور یہودی پریس ان کو گواہ کر کے ایک خطرناک بین الاقوامی اُلجھن میں مبتلا کر رہا ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کو اس سے کیا بحث کہ پس پردہ کون تار ہلا رہا ہے۔ وہ تو دیکھتے ہیں کہ عملاً یہی اس وقت امریکا کی پالیسی ہے اور یہودیوں کے زیر اثر اس کی سیاسی طاقت اسی پالیسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا کی وہ تمام مالی اور فنی امداد جو وہ مسلمان ملکوں کو دیتا ہے بجائے کوئی good will [اچھا تاثر] پیدا کرنے کے الٹا اثر مرتب کر رہی ہے۔
اس کی وجہ سے، مسلمان اس کے باوجود کہ کمیونزم کے مقابلے میں ان کا مفاد مغربی طاقتوں سے متحد ہے، اپنے اندر ان کی حمایت کے لیے کوئی جذبہ نہیں پاتے، بلکہ ان کے دلوں میں کمیونسٹ بلاک سے کچھ کم نفرت مغربی بلاک کے لیے نہیں ہے۔ مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ ہم آخر کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کا ساتھ کیوں دیں؟ اگر ہماری عزیز اور محبوب قدریں دونوں کے ہاتھوں سے یکساں طور پر پامال ہوتی ہیں تو ہمارے عمل میں ایک کے مقابلے میں دوسرے کے لیے ہمدردی پیدا ہونے کی کیا معقول وجہ ہے! ایک قوم کے خواص تو اپنے مخصوص مفادات کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن ایک قوم کے عوام میں لڑنے کا جذبہ صرف اسی حالت میں ابھرتا ہے،جب کہ وہ اپنی عزیز و محبوب چیزوں کو خطرے میں دیکھتے ہیں، تو ان کو بچانے کے لیے اٹھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مسلمان عوام بہرحال مغربی بلاک کے لیے کرائے کے سپاہی [mercenaries] نہیں بن سکتے کہ محض مالی امداد لے کر وہ ان کی خاطر کمیونسٹ بلاک سے لڑیں۔ وہ اگر سچے جذبے کے ساتھ لڑ سکتے ہیں تو صرف دینی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنے عقائد و نظریات کو بچانے کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر اسی چیز کو مغربی طاقتیں اپنی مداخلت یا ریشہ دوانیوں سے مسلمان ممالک میں پا مال کرا دیں، تو پھر انھیں مسلمان قوموں سے کسی تائید کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ نوری السعید [م: ۱۹۵۸ء] اور چیانگ کائی شیک[م:۱۹۷۵ء] کی قسم کے لوگ مختلف مسلمان ملکوں میں کھڑے کر کے وہ کچھ دنوں ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔
بہرحال یہ تیسری مزاحمت مسلمان ممالک میں اسلام کا احیا چاہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے، اور جس کو بھی اس مقصد کے لیے ان ملکوں میں کام کرنا ہو وہ اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنے حساب میں رکھ کر ہی اسے اپنا پروگرام بنانا ہوگا۔
۳ قریب بھی آیا ہے اور دُور بھی ہٹا ہے۔
قریب اس لحاظ سے آیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اسلامی نظام کے حق میں مسلسل اتنا کام، اتنے وسیع پیمانے پر ہوا ہے کہ نہ اس سے پہلے اس ملک میں کبھی ہوا تھا اور نہ کسی دوسرے مسلمان ملک میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ ا س کام کی وجہ سے ایک طرف علمی حیثیت سے اسلامی نظام کے تمام گوشے اچھی طرح روشنی میں آ گئے ہیں، اور اب ساون کے چند اندھوں کو چھوڑ کر اس ملک کے ایمان دار اہل علم و اصحابِ فکر میں کوئی ایسا نہیں رہا ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ ’اسلامی نظام‘ کوئی مبہم سا تخیل ہے جس کا نقشہ ہمارے سامنے واضح نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کے اندر اس مسئلے پر اتنی بیداری پیدا ہو چکی ہے او را س کے حق میں ایسی مضبوط رائے عام تیار ہوگئی ہے کہ اب کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ کھل کر اس ملک میں لا دینی نظام لانے کا ارادہ ظاہر کرسکے۔
اس کے علاوہ دو چیزیں اور بھی ہیں، جنھوں نے اسلامی نظریے کے لیے یہاں راہ ہموار کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے: ایک یہ کہ بے شمار مذہبی اختلافات کے باوجود تمام اہلِ دین شروع سے اب تک اسلامی نظام کے مطالبے اور اس کی اصولی صورت کے بارے میں پوری طرح متفق رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لا دینی کے حامی مغربیت زدہ طبقے کے ہر عنصر کو پچھلے [تمام عرصے کے دوران] میں یہاں اپنا امتحان دینے کا پورا موقع مل چکا ہے اور انھوں نے اپنا ایسا برا حساب ساری قوم کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان کی کوئی اخلاقی ساکھ اب باقی نہیں رہی ہے۔ حقیقتاً قوم اب ان سے پوری طرح مایوس ہو چکی ہے اور ان کے اندر اب کوئی عنصر ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کو آزمایش کا موقع دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہو۔
دُور اس لحاظ سے ہوا ہے کہ [ان برسوں] میں بر سر اقتدار مغرب پرست طبقے کی مختلف تدبیروں سے اور اس کے بیرونی حامیوں کی مالی امداد اور ’’قومی ترقی‘‘ کے پروگراموں سے قوم کے اخلاق میں اتنا بگاڑ رونما ہو چکا ہے، جتنا آزادی سے پہلے غلامی کی پوری ڈیڑھ صدی میں بھی نہیں ہو سکا تھا۔ تعلیم و تربیت کا ناقص نظام نئی نسل کا ستیا ناس کر چکا ہے اور کرتا چلا جا رہا ہے۔ ’ثقافت‘ کے نئے رنگ ڈھنگ اور اس کے ساتھ ریڈیو، سینما [ ٹیلی ویژن] اور فحش لٹریچر، اونچے طبقوں سے لے کر دیہاتی عوام تک کو رنگیلا اور عیاش اور جرائم پیشہ بنانے میں شب و روز سرگرم ہیں، اور ان کی بدولت اخلاقی پستی کا زہر قوم کی رگ رگ میں اتر گیا ہے۔
اُونچے طبقوں کی بد ترین مثالوں سے متاثر ہو کر عورتوں میں بے پردگی بڑھ رہی ہے۔ مرد و زن کے اختلاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے حیائی کے مظاہروں کا ایک سیلاب امڈا چلا آ رہا ہے، اور ان سب اسباب کے ساتھ مل جل کر ’ضبط ولادت‘ کی تحریک وہ خطرناک ’خدمت‘ا نجام دے رہی ہے، جو ہماری آبادی میں زنا اور اس کے قدرتی نتائج کو نقطۂ عروج پر پہنچا دے گی اور ہمارے عائلی نظام کی جڑیں ہلا ڈالے گی۔
پھر ہمارے سرکاری افسروں اور ملازموں میں، تاجروں اور صنعت کاروں میں اور دوسرے طبقات میں حرام خوری، خیانت، فرض ناشناسی اور آئین و قانون کی بے احترامی ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے، جسے روکنے کی ہر تدبیر، مرض میں مزید اضافے ہی کی موجب ثابت ہوئی ہے۔ یہ حالات، ظاہر ہے کہ اسلامی نظریے کے مطابق اصلاح کو روز بروز مشکل سے مشکل تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔
۴ سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تو اس ملک میں جمہوریت کی بحالی ہے۔ اس لیے کہ اگر اس ملک کی حیثیت اس گھوڑے کی ہی ہو جس کے منہ میں لگام ڈال کر ہر طاقت ور شخص اس پر زبردستی سوار ہو جائے اور اسے اپنے راستے پر چلانا شروع کر دے، تو ایسی حالت میں گھوڑے غریب کے لیے یہ سوچنا ہی لا حاصل ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کے راستے پر جانے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے___ ہمیں سب سے پہلے اس حالت کو بدلنا چاہیے۔
ہم کو یہاں ایک آزادانہ جمہوری ماحول درکار ہے جس میں اظہار خیال، اجتماع، تنظیم اور سعی و جہد کی آزادی ہو، جس میں ہر شخص اپنے خیالات کے مطابق رائے عام کو ہموار کرنے کی کوشش کر سکے۔ جس میں رائے عام کا کسی نظریے کے حق میں ہموار ہو جانا ہی اُس نظریے کے مطابق قیادت میں تبدیلی ہو جانے کے لیے کافی ہو، اور جس میں قیادت کی تبدیلی کے لیے ایک پُرامن آئینی راستہ موجود ہو۔ ایسے ماحول میں تو یہ ممکن ہے کہ میں اپنے نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ اقدامات سوچ سکوں، انھیں بیان کر سکوں، لوگ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق کوئی رائے قائم کر سکیں، اور جن کے نزدیک وہ صحیح ہوں وہ میرے ساتھ مل کر عملاً ان اقدامات کے لیے کوشش کر سکیں۔ لیکن اگر یہ ماحول موجود نہ ہو تو میرا اور آپ کا کسی قسم کے اقدامات کو سوچنا بے کار ہے۔ پھر تو سوچنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو گھوڑے پر سوار ہونے کی طاقت رکھتے ہوں۔
یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بیک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے:
سوال کا آخری حصہ بڑی تفصیلی بحث چاہتا ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مختصر طور پر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم ’من حیث القوم‘ دنیا میں دین حق کے سچے نمائندے بن کر کھڑے ہو سکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں وہی سب کچھ کررہے ہیں جو کوئی غیر مسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظام زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رو یے میں، غرض ہماری ہر چیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتابوں کو پڑھنے کے بجائے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔
۱ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بغیر پاکستان ہرگز قائم نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ پاکستان کی وحدت کا [واحد] سبب صرف اسلام ہے، بلکہ اس وحدت میں اور عناصر بھی شامل ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت اسلام کو حاصل ہے۔ اگر اسلام نہ ہو تو پاکستان کے شیرازے کو جمع رکھنا بہت دشوار ہو جائے گا۔
۲ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم قوت جو اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں مزاحمت کر رہی ہے، اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام میں کارفرما ہے وہ ایک ہی ہے، خواہ پاکستان ہو، عرب ممالک ہوں یا کوئی اور ملک، اصل مزاحم قوت مغربیت کا غلط تصور ہے۔ مغربی ممالک کی وہ خوبیاں جو اُن کی ترقی میں معاون ہیں، اسلام کی مزاحم نہیں ہیں۔ لیکن مغربی اثرات کی وجہ سے بعض غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں اور ہم نے ان غلط نظریات کو بھی تقلیداً بغیر کسی قسم کے غور و فکر کے اختیار کر لیا ہے ۔ہم میں ذہنی خود اعتمادی نہیں ہے، ایمان کی وہ قوت نہیں ہے جو ہمیں اچھے بُرے اور کھرے کھوٹے کو پرکھنے کے قابل بنائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے دین کی اقدار اور اُن کے تقاضوں سے واقف ہوں اور انھیں مقدم رکھیں، مؤخر نہ کر دیں۔
اس کے برعکس ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو بھی دوسروں کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ کسوٹی سچی بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہماری ذہنیت ٹھیک ہو جائے اور یہ ایک ذہنی انقلاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر میرے خیال میں کوئی قوت ایسی نہیں جو ہمارے صحیح اسلامی رجحانات کو روک سکے اور اسلام کی طرف پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو سکے۔ میرے ان الفاظ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم روشن خیالی یا ترقی کے تصورات سے دور ہو جائیں ، لیکن بے سوچے سمجھے مغرب کی ہر معاملے میں تقلید کا نام ترقی یا روشن خیالی نہیں ہے۔ خصوصاً،جب کہ مغرب خود بعض غلط نظریوں اور عقیدوں کے مضر اثرات کے پنجے میں گرفتار ہے۔
۳ اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اورجو رائے بھی ظاہر کی جائے وہ ایک تعصب سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ بغیر کسی عملی جائزے اور سائنسی مطالعے کے، کسی عمرانی مسئلے کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں یقینا پاکستان اسلامی نظریے کے قریب آیا ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں پاکستان اسلامی نظریے سے دور ہوا ہے۔ لیکن ایک چیز ضرور ایسی ہے جس سے مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے کالجوں اور اسکولوں کے طالب علموں میں اسلام کی طرف سے ایک بد ذوقی پیدا ہو رہی ہے۔ اس رجحان کی وسعت کا صحیح اندازہ تو نہیں لگا سکتا، تاہم میرا اندازہ صرف اس چیز پر قائم ہے کہ جن نوجوانوں سے میری ملاقات ہوتی ہے، ان سے گفتگو کے دوران مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ اپنے دین کی طرف سے بد عقیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کو دخل نہ ہو۔
اس بحرانی کیفیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کہیں بھی صحیح طریقے پر نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور ان کی تعلیم بڑی ناقص ہے۔ اسلام کی تعلیم محض دینیات کی چند کتابیں پڑھا دینے سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ دینیات تو ایک ایسی چیز ہے کہ اگر انسان میں صحیح ذوق ہو تو اس کی تعلیم وہ خود بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ طالب علموں میں صحیح دینی ذوق پیدا کریں اور ان میں ٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور اسلامی رجحانات کو ترقی دیں۔فرائض کی تعلیم کاانتظام ضرورہوناچاہیے، لیکن محض اسی پرقناعت کرلیناہرگز درست نہیں۔ یہ تو اور بھی مناسب نہیں ہے کہ صرف فرائض کی شدبد کو دینی تعلیم کا اہم ترین جزو تصور کر لیا جائے۔ زیادہ اہم چیز تو یہ ہے کہ طلبہ میںجوش ایمانی پیدا کیا جائے، ان کے اسلامی رجحانات کو مضبوط بنایا جائے اور اسلام کی خدمت اور تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا جائے۔ اس قسم کی تعلیم ہماری ذہنیتوں کو بدل دے گی اور من حیث القوم ہم اسلام کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں گے۔
۴کچھ عرصہ پیش تر مجھے ڈیوک یونی ورسٹی [درہام، شمالی کیرولینا، امریکا] نے ایک مذاکرے کے لیے بلایا تھا، جہاں پر مَیں نے ایک مقالہ اسی عنوان سے پیش کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا: پاکستان میں آئین ناکام نہیں رہا ہے بلکہ آئین کو چلانے والے ناکام رہے ہیں، ہماری ناکام حکومتیں کردار کی خامی کے سبب سے صحیح نہ چل سکیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کمی کردار کی تھی، اگر کردار درست ہوتا اور آئین ناقص بھی ہوتا تو ہم کردار کے زور پر اسے کامیاب بنا سکتے تھے۔ لیکن اگر آئین اچھا بھی ہو اور کردار ناقص ہو تو آئین کبھی نہیں چل سکتا، اس لیے کہ ہرآئین اور ہر حکومت کو چلانے والے بہرحال انسان ہوتے ہیں، اگر یہ انسان ایمان داری سے کام لیں اور صحیح طریقے پر کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو نہ پا لیں۔
اگر ان میں ایمان داری کا، حب اسلام اور حب وطن کا سچا جذبہ نہ ہو، اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں تو پھر اچھے سے اچھا آئین بھی ناکام ہو کر رہ جائے گا اور ان کی کوئی مدد اور رہنمائی نہ کر سکے گا۔ آخر یہ کردار ہی تو ہے کہ ایک شخص مسجد میں جا کر نماز پڑھتا ہے اور اسی مسجد میں قدم رکھنے والا دوسرا فرد جوتیاں چراتا ہے۔ اب اس میں مسجد بے چاری کا کیا قصور؟ اگر کوئی شخص وہاں جا کر جوتیاں ہی چراتا ہے تو یہ کردار کی خرابی ہے، مسجد کی نہیں، مسجد کا اگر کچھ اثر ہے تو وہ نماز کی ترغیب دینے کی طرف ہے کسی اور سمت نہیں!
اس سوال کے آخری حصے کے سلسلے میں میری گزارش یہ ہے کہ سب سے بنیادی چیز کردار ہے۔ کردار کے بغیر دنیا میں کوئی چیز کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آپ غور کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ اگر لوگوں میں اسلام ہوتا اور ان کے دل میں ایمان کا جذبہ ہوتا اور اگر وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے، تو یہ نا ممکن تھا کہ وہ تمام خرابیاں پیدا ہوتیں جو نہ صرف ہماری سیاست بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ ہماری حکومت اصل میں ہماری قوم کے کردار کا آئینہ بھی تھی۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں خود غرضی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہم اپنی چھوٹی سے چھوٹی غرض کو پورا کرنے کے لیے بڑے سے بڑے اصول کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بالکل ظاہر ہے کہ اگر ہمارے ہاں پچھلی حکومتیں ناکام رہیں تو وہ اسلام کی وجہ سے یا اسلامی اصولوں کی وجہ سے ناکام نہیں رہیں، بلکہ اس وجہ سے ناکام رہیں کہ انھوں نے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ رشوت لو، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ رشوت نہ لو۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ انسان پر سب سے بڑا فریضہ جو عائد ہوتا ہے وہ حقوق العباد ہیں، مگر ہم نے حقوق العباد کو پس پشت ڈالا اور کسی مظلوم غریب کا کام ہم نے بغیر رشوت کے نہیں کیا۔ ہم نے فرائض کو فرائض نہ سمجھا۔ ہمارے دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہی ختم ہوتا چلا گیا۔ جس قوم کے دل سے اللہ کا خوف چلا جائے اور جس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اس نے تو صرف اسی دنیا کو بنانا ہے___ دنیا بھی ایسی نہیں بنانی جس سے ساری قوم کو یا ملک کو فائدہ پہنچے بلکہ مقصود محض ذاتی منفعت ہو ، ایسی قوم لازماً اپنے آپ کو تباہ کرلیتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی خود غرضیوں ہی کو اصول اور ایمان سمجھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو بھی یقینا تباہ کر لیتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی۔ پھر اس سے بڑی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ قوم تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے اور وہ تو خوش حال رہے گا۔ ایسے خود غرض افراد، ملت کی قبر کھودتے ہیں اور اسلام کو ضعیف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ اسلامی اصول سے بالکل قطع تعلق کر لینے کی وجہ سے، محض اسلام کا نام زبان سے لینے اور اسے عمل کی دنیا میں کسی طرح داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کون سا طریقہ اور کون سے اقدامات ضروری ہیں، تو انھیں مختصراً بیان کر دیتا ہوں:
ہمیں سب سے بڑی ضرورت عمل کی ہے۔ ہر شعبے میں اور ہر دائرہ زندگی میںمحض زبانی جمع خرچ سے لوگوں پر اثر نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ اچھا عمل نہ د یکھیں، وہ کسی چیز پر حقیقی اعتماد نہیں کرتے۔ بہترین عمل کی مثال پیش کیے بغیر عوام میں حرکت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ آپ دیکھیے کہ اگر عمل کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ، قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں بھیج دیتا اور اس کتاب ہدایت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوۂ حسنہ بنا کر نہ بھیجتا۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہی تھا کہ جس نے لوگوں کو قرآن کی تعلیم کا گرویدہ کیا۔ اپنے متن اور الفاظ میں قرآن کریم اب بھی وہی ہے، لیکن ہمارے دلوں میں وہ اس وجہ سے گھر نہیں کرتا کہ ہم میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہوں، اور جو اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے رہنما، ہمارے تاجر، ہمارے اساتذہ، ہمارے والدین ___ اور وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی دائرے میں زندگی کی رہنمائی کر رہے ہیں، اسلامی کردار کا بہترین نمونہ پیش کریں اور اپنے عمل سے قوم کی رہنمائی کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کے کردار میں ایک انقلاب پیدا کیا جائے، اور اس انقلاب کو پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ اسلام کو محض ایک عقیدے کے طور پر پیش نہ کیا جائے، بلکہ اس پر زور دیا جائے کہ اسلام ایک طریقۂ زندگی ہے جس کے بغیر فلاح ممکن نہیں ہے۔
ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہم نے اس دوران میں اسلامی کردار کو چھوڑا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے اور اگر اب ہمیں اس تباہی کے کنارے سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے کردار کو درست کرنا پڑے گا، اور اس کے لیے استاد کو، والدین کو اور ہر شخص کو کمر بستہ ہونا پڑے گا۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھول گئے ہیں، کاش! ہمیں وہ آج یاد آئے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
تم سب راعی (یعنی حاکم، صاحب امر اور منتظم) ہو اور ہر ایک سے اس کی رعیت (یعنی وہ چیز جس پر تم کو اختیار دیا گیا ہے) کی بابت باز پرس ہو گی۔ حکمران راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے حقوق ادا کرنے کی بابت پوچھا جائے گا۔ اور ہر مرد اپنے عیال میں راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت دریافت کیا جائے گا اور ہرعورت اپنے خاوند کے گھر کی منتظمہ ہے اور اس سے اس کے مفوضہ فرائض کی بابت پوچھا جائے گا اور خدمت گار اپنے آقا کے مال و اسباب کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت سوال کیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
پس، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص امیر [منتظم] ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ۔ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں۔ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں کچھ اختیار ہے یا جو دوسروں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جس کے نمونے سے دوسرے لوگوں کے کردار بہتر ہو سکتے ہیں، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو درست کرے، یہی اسلام کا راستہ ہے۔
اگر پوری قوم اس طرف توجہ نہیں کرتی تو ہماری حکومت کا فرض ہے کہ صحیح کردار کو اسلام کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ اس بنیادی سبق کو ذہن نشین کرا دیں۔ سب سے زیادہ اُن سمجھ دار لوگوں کا فرض ہے کہ جو ان چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ فرض کہ وہ اپنے کردار سے اصول کی پابندی کا نمونہ قائم کریں۔ ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ اصول کی پابندی سے [ مالی] نقصان پہنچتا ہے، لیکن ایسا سوچنا ایک خام خیالی ہے۔ اصول کی پابندی سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا ہے۔ بد کرداری سے ذرا سی مدت کے لیے تھوڑا سا فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن آخر میں اس کا نتیجہ نقصان ہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصول ہماری رہنمائی کے لیے پیش کیے ہیں، انھی میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے:
اللہ تعالیٰ کوئی ایسا جابر بادشاہ نہیں ہے جو محض اپنے کو خوش کرنے کے لیے دوسروں سے اطاعت چاہتا ہے، وہ اطاعت اس لیے چاہتا ہے کہ اس کی اطاعت ہی میں لوگوں کا بھلا ہے۔ اس کی اطاعت میں افراد کا بھی بھلا ہے اور اس کی اطاعت میں قوموں کا بھی بھلا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)
اگر اس نقطۂ نظر کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کریں، پورے استدلال سے پیش کریں، جوش و خروش سے پیش کریں، نرمی سے پیش کریں، غرض اُس طرح جس طرح سے پیش کرنا ممکن ہے تو کچھ عرصے میں ہماری حالت ان شاء اللہ درست ہو جائے گی۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی دین بغیر تبلیغ کے قائم نہیں رہ سکتا۔ دین اسلام تو مسلسل تبلیغ ہی کا نام ہے۔ یہ تبلیغ صحیح ہونی چاہیے۔ بچپن ہی سے مسلمان بچوں کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے، خواہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے یا اس کے باہر، چھوٹے دائرے میں کام کرے یا پوری انسانیت کے سامنے، اسی طرح ان لوگوں او رمعاشروں میں اسلام زندہ رہ سکتا ہے اور ملت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی روح اور اسلام کی تعلیمات ایسی چیزیں ہیں جو ہر زمانے اور ہر دور کے مسائل پر قابو پا سکتی ہیں، بشرطیکہ ان پر صحیح طریقے سے عمل ہو۔ ایک زمانہ ایسا تھا، جب انسانی زندگی میں اتنی پیچیدگی نہیں تھی جتنی موجودہ زمانے میں ہے۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے بجا طور پر یہ فرمایا ہے:
جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے معاشرت میں اتنی ہی پیچیدگی پیدا ہوتی جاتی ہے، اور جتنی معاشرت پیچیدہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر معاملات کو سلجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔(ایضاً)
آج کی دنیا میں حکومت اور ریاست کا دائرہ عمل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا حلقۂ اقتدار اور اس کے ذرائع و وسائل بھی وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے وسائل کا اسلامی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب تک ریاست کا دائرہ عمل مختصر تھا اور انسان کی زندگی پر اس کا اثر کم پڑتا تھا، اس صورت میں اگر ریاست گمراہ بھی ہوتی اور اس میں ضلالت بھی ہوتی تو اس کے باوجود لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر نہیں پڑتا تھا۔ چھوٹی بستیاں اپنی زندگی کے پرانے طریقے پر قائم رہتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں انگریز کی حکومت آئی اور چلی گئی۔ اس کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان بھی پہنچا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی کتنی ایسی چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں جن کی دینی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، اور وہ اپنی زندگی ویسے ہی گزارتی رہیں، جیسے پہلے گزارتی تھیں۔ مگر آج یہ بات ناممکن ہے۔ اس لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ ریاست کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں میں اسلام کو دخل ہو۔
عقلی بنیاد پر بھی اگر آپ غور کریں تو یہ حقیقت صاف ظاہر ہے کہ حکومت کا لائحہ عمل اور دائرۂ کار جتنا بڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اخلاقی قدریں حکومت کے پیش نظر رہیں، ورنہ حکومت کا وسیع تر اختیار ظلم و استبداد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح اخلاقی اقدار اور نظریات وہی ہیں جو اسلام نے پیش کیے ہیں۔
اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسلام کے دو پہلو ہیں: ایک انفرادی، دوسرا اجتماعی۔ جہاں تک انفرادی پہلو کا سوال ہے، اس کا تعلق میری اپنی ذات یا میرے اللہ سے ہے اور اس میں کسی دوسرے شخص کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن دوسرا پہلو وہ ہے جو میرے ان تعلقات پر حاوی ہے جو میرے اور دوسرے مسلمانوں کے، تمام انسانوں کے، زندگی کی تمام وسعتوں کے درمیان قائم ہیں۔ ان تمام تعلقات کو درست کرنا اسلام کا اولین مشن ہے۔ اسلام محض بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک اجتماعی نظریہ بھی ہے، بلکہ اس کا اصل کام ہی خاص دائرے میں ہے۔ اسی لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَارَھَبا نِیَّۃَ فَیْ اِلْاِسَلَامِ ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ اسی وجہ سے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم ان تعلقات کو جو ہمارے اور دوسرے افراد کے درمیان ہیں، نظر انداز کر دیں۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ان تعلقات کو صحیح بنیادوں پر استوار کریں، اور اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے کار فرما اصول وہی ہو سکتے ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں۔
یاد رکھیے کہ اسلام کے اصولوں میں بہت گنجایش ہے اور وسعت بھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ معاشی تعلقات کے لیے جو نظریات کچھ عرصہ قبل قائم ہوئے تھے، ان میں کسی توسیع کی یا تبدیلی کی ضرورت یا گنجایش نہیں ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اسلام کو موجودہ دور کے حالات کے مطابق سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب کی ضرورت ہے، لیکن اس کام کے لیے سچے ایمان اور صحیح فہم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو ہماری روایات ہیں، اُنھیں ہم ناکارہ سمجھ کر اور بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ ان میں کیا خوبی ہے، پس پشت نہ ڈال دیں۔ اس لیے کہ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو گی کہ تیرہ سو سال کی جو پونجی ہمارے پاس موجود ہے اسے ہم بغیر سوچے سمجھے پھینک دیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس کے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بعض جگہ اس پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تمام کام ایمان داری، اخلاص اور فہم کے ساتھ ہو سکتے ہیں، اندھی نقالی کے ساتھ نہیں۔
۱ پاکستان کو اپنی بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اہمیت اور ضرورت اس لیے ہے کہ اس ملک میں مختلف قومیں آباد ہیں، جو مختلف زبانیں بولتی ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسری کے متصل نہیں۔ اُن میں اگر کوئی جذبہ مشترک ہے تو فقط اسلامی جذبہ ہے۔ اگر اس جذبے کو مٹا دیا جائے تو پاکستان بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
۲ اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے کی راہ میں جو قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں، اُن میں سب سے بڑی قوت ’خوف‘ ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی ایک ’خوف زدہ‘ قوم ہیں۔
۳ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب نہیں بلکہ دور ہٹا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقت ہماری قومی خصوصیت بن چکی ہے۔
پاکستان کے دستور اس لحاظ سے ناکام رہے کہ یہ بد قسمت قوم صحیح رہنما پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس قوم میں صحیح رہنما خال خال پیدا ہوتے ہیں۔ اس دوران میں جو سیاسی رہنما ملکی سیاست کے میدان میں آئے ہیں، اُن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو قوم کی قیادت کے اہل نہ تھے، جن کا کوئی اصول نہ تھا، جو محض ذاتی طاقت کے حصول کے درپے تھے، جن کا قوم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، جو قوم کی ضرورت کو نہ سمجھتے تھے اور جو منافق تھے۔ اگر کسی قوم کا دستور ’منافقت‘ کے اصولوں پر قائم کیا جائے تو وہ دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا۔
۴ اسلامی نظریے کو عملاً بروئے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ اگر مستقبل قریب میں ایسا انقلاب وجود میں آ جائے تو اس ملک کی سیاسی اور تمدنی زندگی کی ارتقا کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور اگر نہیں تو ہمارا مستقبل تاریک ہے۔
بھارتی فسطائی اور نسل پرست تنظیم ’راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ‘ (RSS) نے مغالطہ انگیزی پر مبنی تین سوال فضا میں اُچھالے ہیں، جن سے ایک عام سطح کا فرد ان مغالطہ انگیز سوالات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ آر ایس ایس کے مرکزی نظریہ ساز لیڈر نے بھارت میں بسنے والے ۲۰کروڑ سے زاید مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر وہ بھارت میں سکون کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انھیں تین شرطیں پوری کرنا ہوں گی:
درحقیقت یہ تین نکاتی ایجنڈا محض بھارتی نسل پرست برہمنی تنظیم تک محدود نہیںہے، بلکہ آج مغربی ممالک کی حکومتوں اور ان کے زیر اثر مسلم معاشروں کی مقتدر قوتوں کے جارحانہ پروگرام کا بھی حصہ ہے۔تین محترم علماے کرام نے ہماری دعوت پر اس مسئلے پر جو جوابات تحریر کیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ س م خ
بلاشبہہ بھارت میں راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ(RSS) ایک فسطائی (Fascist)، نسل پرست (Racist) اور ہندوئوں کی جنونی مذہبی انارکسٹ ( Anarchist) تنظیم ہے۔اس سے مراد وہ گروہ ہے، جو کسی آئین وقانون کو نہیں مانتا۔ ان کا مقصد لاقانونیت ، نِراج اور فساد ہوتا ہے، وشوا ہندو پریشد (WHP)اس کی ذیلی تنظیم ہے ‘‘، نیز یہ کہ اُن کے فکری رہنما رام مادھو نے بھارتی مسلمانوں کو ہندستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں کہ مسلمان بھارت میں ہندوئوں کی طرح اسلام کو ایک پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کر کے رہیں۔جنابِ افتخار گیلانی لکھتے ہیں: ’’بھارتی آرمی کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر نے ایک تھنک ٹینک کے تحت منعقدہ سیمی نار میں کہا تھا: ’’مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کر کے اس کا طواف کریں یا ہرسال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں ،کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے‘‘۔
ویدانتیوں کا ایک مطالبہ یہ ہے :’’مسلمان اپنے علاوہ دوسروں کو کافر نہ کہیں‘‘، جب کہ اسلام کے نزدیک جو اسلامی عقائد واحکام اور فرائض ومحرمات کو تسلیم نہیں کرتا یا جس کے عقائد ضدِّاسلام ہیں، اُن کا حامل کافر کہلاتا ہے ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جیسے ’’اگرہندو اپنے آپ کوہندو یاویدانتی کہلوائیں یا نصاریٰ اپنے آپ کو مسیحی کہلوائیں یا یہوداپنے آپ کو یہودی کہلوائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘، معنوی اعتبار سے اس کا مآل (consequence) یا نتیجہ ایک ہی ہے، اس لیے کفر کو کفر ہی کہاجائے گا۔
دراصل ہندو انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام ، اسلامی اقدار و روایات اور اسلامی شعائر بھارتی مسلمانوں کو اُمّت سے جوڑتے ہیں۔ اس طرح بھارتی مسلمان ’عالمی اخوتِ اسلامی‘ کے رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ اگر مسلمانانِ عالَم اور مسلم حکومتیں باحمیت ہوں تو وہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک امت اور ملّت کایہی تصورہے، جو انھیں بُری طرح کھٹکتا ہے اور جسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن شعائر کو مسلمان کی ظاہری پہچان قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ،(نماز میں) ہمارے قبلے کی جانب رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مُسلم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ضمان، (یعنی تحفظ) حاصل ہے، سو اللہ کے ضمان کو نہ توڑو، (صحیح البخاری:۳۹۱)۔
حدیث پاک سے مراد یہ ہے: اگر مندرجہ بالا ظاہری علامات کسی میں پائی جائیں ، تو جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو، اُسے مسلمان تصور کیا جائے گا۔ اسی تصور کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مَنفَعت ایک ہے اس قوم کی، نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم مومنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح پائو گے کہ جب اُس کا کوئی عُضو تکلیف میں ہوتا ہے تواس کے سبب سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے، (صحیح البخاری:۶۰۱۱)‘‘۔
علامہ محمد اقبال نے اسی حدیثِ پاک کو منظوم کیا ہے:
مبتلائے درد ہو کوئی عُضو ،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی، ہوتی ہے آنکھ
ہندو فسطائی نسل پرست جنونیوں نے مسلمانانِ ہند پرہندستان میں پُرامن طور پر رہنے کے لیے جو تین شرائط عائد کی ہیں، وہ وہی ہیں جو پاکستان کے لبرل سیکولر عناصر یہاں کے مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی لبرل عناصر بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مسلمان امت اور ملّت کے تصور سے نکل آئیں ، اسلامی ریاست کی بات کرنا چھوڑ دیں اور ’قومی ریاست‘ کی بات کریں۔ کیونکہ جب ہم مسلم دنیا سے لاتعلقی کے اس تصور کو اپنائیں گے تو بھارتی مسلمانوں، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں ،فلسطین کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں پر جوبھی گزرے، اس سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہوگا، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا۔
ہمارے لبرل یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دین سے انحراف، یعنی ارتداد، مذہبی مسلّمات ومقدّسات کی اہانت ،الغرض ایسی کسی بات پر، کسی کو مواخذہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ہرایک اسلام کی اپنی تعبیر کرسکتا ہے، اپنے نظریات میں آزاد ہے،کسی عالم یا مفتی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ کسی کے کفر کو کفر کہہ سکیں۔ یہی ہے مادر پدر آزادی ، بے راہ روی اور دین اور اہلِ دین سے بیزاری۔ نیز وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ: ’’جہاد کی بات نہ کی جائے، کیونکہ اس سے عالَمِ کفر ناراض ہوتا ہے‘‘۔
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں ،سکھوں ، جَین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں ‘‘، جب کہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دینِ اسلام کو حق سمجھے اور اس کے مقابل ادیان کو باطل سمجھے۔ اپنے حالات میں دین کے غلبے کی ہرممکن کوشش کرے ، البتہ اسلام، اپنی قبولیت کے لیے جبر واِکراہ اور دہشت و فساد کی اجازت نہیں دیتا ،مگر دعوت وتبلیغ کے ذریعے دینِ اسلام کو پھیلانا ہرمسلمان کی ذمے داری قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل)ادیان پر غالب کردے ،خواہ مشرک اسے ناپسند کریں، (التوبہ ۹:۳۳، الصف۶۱:۹)‘‘___ اور یہ کہ: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی اس پر کافی ہے (کہ یہ ہوکر رہے گا)، (الفتح ۴۸:۲۸)‘‘۔
اسی طرح کفر کو کفر کہنا پڑے گا۔قرآنِ کریم اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناطِق و شاہد ہیں ۔ حق وباطل میں تمیز کرنا اور حق کوباطل سے ممتاز کرنا ہرمسلمان کی ذمے داری ہے۔ قرآنِ کریم کی ’سورۃ الکافرون ‘اور دیگر متعددآیات اس پر شاہد ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اسلام نے بیانِ حق کے بارے میں مُداہَنت کی اجازت تونہیں دی،لیکن کافروں سے مُدارات ہوسکتی ہے اور قرآن نے اس کی اجازت دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں اُن لوگوں کے ساتھ نیک برتائو کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، جنھوں نے نہ دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور نہ تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمھیں صرف اُن لوگوں کے ساتھ دوستی سے منع فرماتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے نکالنے میں (تمھارے دشمنوں کی )مدد کی ہے اور جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے ، تووہی لوگ ظالم ہیں ،(الممتحنہ۶۰:۸-۹)‘‘۔
سورۃ التوبہ۹:۲۴، اور سورۃ المجادلہ ۵۸:۲۲میں قرآنِ کریم نے واضح طور پربتایاہے کہ ایمان اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے،نیز اسلام نے مومن کوکائنات کی اُن تمام چیزوں سے اپنی حد کے اندررہتے ہوئے محبت کرنے یا وابستگی رکھنے کی اجازت دی ہے، جن سے لگائو انسان کافطری تقاضا ہے۔ لیکن اگران تمام چیزوں کی محبت یکجا ہوکر بھی اللہ تعالیٰ،اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور اُس کی راہ میں جہاد کے مقابل آجائیں تو ایمان تب سلامت رہے گا جب صرف اللہ تعالیٰ ،اُس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی راہ میں جہاد کومحبوب ترین مانا جائے۔
’جہاد‘ایک جامع اصطلاح ہے ،گذشتہ کچھ عشروں سے دشمنانِ اسلام نے جہاد کو فساد کا ہم معنی قرار دے رکھا ہے۔ یہ نظریہ ایک فریب ہے، باطل ہے اور اسلام سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ جہاد کے اپنے تقاضے اور حدود وقیود ہیں۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ جِدال وقِتال کے لیے آمادہ رہتے ہیں ، بحیثیت مسلمان ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ِاس وقت جن اقوام کو دنیا پر مادّی وسائل اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے غلبہ حاصل ہے، انھوں نے آج تک دانستہ انتہاپسندی،دہشت گردی، عسکریت پسندی کی کوئی جامع مانع متفق علیہ(Comprehencive & Agreed upon) تعریف نہیں کی تاکہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں،ان الزامات کو ایک حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرسکیں۔ انھوں نے حریّتِ وطن کی جِدّوجُہد(Struggle for Freedom) اور دہشت گردی میں بھی نہ تفریق کی ہے اور نہ ان دونوں کے درمیان ’مابہ الامتیاز‘ (Distinctive Feature)بتایاہے۔انسانی تاریخ میں جِدال وقِتال ہمیشہ ایک غیر مطلوب اور ناگزیر ترجیح رہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’لوگو! دشمن سے تصادم کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت مانگتے رہو، لیکن جب (ناگزیر طور پر)دشمن سے ٹکرائو ہوجائے تو (پھر) صبر کرو (اور ثابت قدم رہو)، (صحیح البخاری: ۲۹۶۶)‘‘۔
امریکیوں کے اجداد نے بھی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے اٹھارھویں صدی کے رُبعِ آخر میں مسلح جِدّوجُہد شروع کی تھی اور امریکی آج بھی اپنی آزادی کے لیے مسلّح جِدّوجُہد کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور نشانِ افتخار (Symbol of Pride)مانتے ہیں۔
بھارتی دستور کی دفعات ۲۵ تا ۳۰ کے تحت بھارتی شہریوں کو آزادیِ ضمیرو آزادیِ مذہب کی اجازت ہے۔انھیں اپنے مذہب،زبان، رسم الخط، ثقافت ،مذہبی تعلیم اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے ، وقف قائم کرنے اور اُن کے انتظامی امور کو چلانے کاحق حاصل ہے،جب کہ ڈاکٹر پروین بائی توگڑیاجیسے متعصب ہندو توا کے نظریات کے حامل لوگ، مسلمانوں سے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام ایک دعوتی دین ہے۔اسے کسی خاص ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دعوت سارے عالَمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے رسولِ مکرّم!) آپ کہیے: لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، (الاعراف ۷:۱۵۸)‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(مجھ سے پہلے) نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھااور مجھے سارے عالَمِ انسانیت کا رسول بناکر بھیجا گیا ہے، (صحیح البخاری: ۳۳۵)‘‘، ’’مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے، (صحیح مسلم:۵۲۳)‘‘۔
اسلام میں دین اور ملّت ہم معنی ہیں۔ ان میں فرق محض اعتباری ہے: شریعت ،اِس حیثیت سے کہ اُس کی اطاعت کی جاتی ہے، دین ہے اور جب اُسے مدون اور منضبط کردیا جائے تو یہ ملّت اور مذہب کہلاتی ہے۔دین اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ملّت رسول کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ وہ قوم یا گروہ جس کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے، امت کہلاتی ہے، سو تمام مسلمانانِ عالم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت ہیں۔ اس نظریے سے مسلمان کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے۔ مسلمان مصلحت پسندی کا شکار ہوکر غیر مسلموں کے ساتھ کتنی ہی ملاطفت (leniency) کا برتائوکریں یا مداہنت سے کام لیں، قرآنِ کریم نے متنبہ کیا ہے کہ کافر اس حد تک جانے کے باوجود تم سے خوش نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (۱)’’اور یہود ونصاریٰ آپؐ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے تاوقتیکہ آپؐ ان کی ملّت کی پیروی کریں ،آپؐ کہیے : اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی(حقیقی ) ہدایت ہے (اور اے مخاطَب!) اگر(حق کا) علم آنے کے بعد بھی تم اُن کی خواہشات کی پیروی کروگے تو تمھیں اللہ (کے عذاب سے) بچانے کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار، (البقرہ ۲:۱۲۰)‘‘، (۲)’’اور اگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر آجائیں، پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے ، نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں ،نہ وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، اور (اے مخاطَب!) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو تم بے شک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہوگے، (البقرہ۲:۱۴۵)‘‘، (۳)’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو ،وہ ایک دوسرے کے دوست ہیںاور تم میں سے جو اُنھیں دوست بنائے گا تویقینا وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (المائدہ:۵۱)‘‘۔
الغرض اگرچہ کفار کے درمیان باہم مفادات کا ٹکرائو(Conflict of Interest) بھی ہوتا ہے،وہ ایک دوسرے کو ناپسند بھی کرتے ہیں ، لیکن جب ان کا مقابلہ اسلام اور مسلمانوں سے ہوجائے تو پھر وہ اپنے باہمی اختلافات کوپسِ پشت ڈال کر اسلام کے مقابل یکجا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مشہور مقولہ ہے:اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ،یعنی سارے کافر اسلام کے مقابل ایک ہی ملّت ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تصورِ امّت اور ملّت سے دست بر دار ہوکر اپنے سارے امتیازات اور خصوصیات کو چھوڑ دیں اور کافروں میں اس حد تک گھُل مِل جائیں کہ ان کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے، جَمعِیَّت تیری
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے:’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اورہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنادیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو ،بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بے حد خبر رکھنے والا ہے ، (الحجرات ۴۹:۱۳)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں ،مَحفلِ انجم بھی نہیں
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کو ’یوم الفرقان‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ’’حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا دن‘‘۔ غزوۂ بدر میں جو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے، اُن میں دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے تمام اسباب موجود تھے۔ اُن کی زبان ایک تھی، نسب ، قبیلہ اور برادری ایک تھی، خونی رشتے بھی موجود تھے، رنگ بھی ایک تھا، حتیٰ کہ اگر ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا، ایک طرف چچا تھا تودوسری طرف بھتیجا تھا۔ ایک طرف ماموں تھا تودوسری طرف بھانجا۔ الغرض وہ تمام نسبتیں موجود تھیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ باہم ٹکرائے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ پھر یہی منظر غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں تھا، کم وبیش یہی رشتے صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے ، لیکن جب یہ رشتے اسلام سے متصادم ہوئے توامام الانبیاء والرُّسل،خاتِمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتۂ اسلام کو مقدم رکھا اور ان تمام رشتوں ، نسبتوں اور قربتوں کو اسلام پر قربان کردیا۔
اقوامِ عالَم اگرچہ نظریاتی طور پر حقوقِ انسانیت ،حقِ آزادیِ مذہب اور حقِ آزادیِ اظہار کی داعی ہیں اور حقوقِ انسانی کے منشور پر دستخط کرچکی ہیں، اپنے آپ کو اُن کا پابند سمجھتی ہیں، لیکن کشمیر ،فلسطین ،مشرقی تیموراور سوڈان کے حوالے سے ان کے معیار ات بدل جاتے ہیں۔ بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک اور ایک بڑی عالمی منڈی ہے،نیز امریکا اور اس کے اتحادی اُسے چین کے مقابل قوت بنانا چاہتے ہیں، اس لیے بھارت کی جانب سے حقوقِ انسانی ، مذہبی منافرت وعصبیت اور اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے اس کے خلاف انضباطی اور تادیبی اقدامات نہیں کیے جاتے ، صرف رسمی بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھارت اقوامِ عالَم کی پروا بھی نہیں کرتا، کیونکہ چین کے محاصرے کے لیے جو چار رکنی اتحاد بنایا ہے ،اس میں امریکا ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں جب امریکا اور اشتراکی روس کے درمیان دنیا کے ممالک کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے سرد جنگ جاری تھی ، تو اُس وقت نہرو کی قیادت میں بھارت ’غیر وابستہ ممالک‘ میں اہم کردار ادا کر رہا تھا ، لیکن اب نریندر سنگھ مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر وابستگی کا چولا اُتار پھینکا ہے اور وہ چین کے مقابل امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
اللہ کی قدرت سے بیش تر مسلم ممالک بحری اور برّی ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بعض مسلم ممالک کو معدنیات کی بے پناہ دولت سے مالا مال کررکھا ہے۔یہ ممالک عالمی تجارتی گزرگاہوں پر واقع ہیں،ان کی مجموعی آبادی بھی بہت ہے۔ اگر یہ صدقِ دل سے اپنی اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بلاک اور مشترکہ منڈی قائم کریں تو بلاشبہہ عالمی پالیسیوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور نہ اس کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ ان مسلم ممالک میں باہم آویزش بھی جاری ہے، ان میں سے بیش تر امریکا اور مغرب کے زیرِ اثر ہیں ، بعض ممالک بدستور روس کے زیرِ اثر ہیں ،اس لیے یہ اپنی کوئی متفقہ پالیسی بنانے کی پوزیشن میںنہیں ہیں ، یعنی آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، ورنہ بھارتی انتہا پسند کبھی مسلمانانِ ہند کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کی جسارت نہ کرپاتے۔
بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیم ’آر ایس ایس‘ کے لیڈر رام مادھو کی طرف سے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں سے تقاضا کیا گیا ہے کہ ’’وہ غیرمسلموں کو کافر نہ کہیں، خود کو عالمی مسلم اُمہ کا حصہ سمجھنا ترک کردیں اور نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کرلیں‘‘۔
یہ تقاضا کوئی نیا نہیں ہے اور نہ صرف بھارتی انتہاپسندوں کا یہ مطالبہ ہے، بلکہ آج کے عالمی سیکولر حلقوں کا بھی مسلمانوں سے یہی مطالبہ ہے۔ اس کی بنیاد صرف وطنیت پر نہیں بلکہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں آسمانی تعلیمات سےلاتعلقی اور تمام قومی و معاشرتی معاملات کو طے کرنے کے لیے علاقائی معاشرتی مزاج اور خواہشات کو بنیاد بنانے کے اصول سے منسوب ہے، جسے قرآن کریم نے اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ (النجم ۵۳:۲۳)سے تعبیر کیا ہے اور اس کی نفی کرتے ہوئے وَلَقَدْ جَاۗءَہُمْ مِّنْ رَّبِّہِمُ الْہُدٰى۲۳ۭ (النجم ۵۳:۲۳)کا فطری قانون سب کے سامنے رکھا ہے۔
انڈیا میں چونکہ وطنیت کو ہی تمام اُمور کی اساس قرار دینے کے ہندو فلسفہ میں مسلمانوں کی کش مکش عملاً صدیوں سے چلی آرہی ہے، اس لیے یہاں یہ بات زیادہ شدت اور سنگینی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ عالمی سطح پر اس کش مکش کا تناظر یہ ہے کہ مغرب اپنے فکروفلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو پوری انسانیت کے لیے حتمی معیار قرار دیتے ہوئے، دُنیا بھر میں اس کے غلبے اور تمام تر مذہبی و علاقائی ثقافتوں کو روندتےچلے جانے کے لیے ہرحربہ اختیار کر رہاہے۔
مگر جب یہی بات آسمانی تعلیمات کا فائنل ایڈیشن اسلام کے عنوان سے کہتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود اور نجات و کامیابی کا واحد معیار آسمانی تعلیمات ہیں تو اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ کی پیروکار قوتیں ہرجگہ اسے کسی قسم کے معاشرتی کردارکا موقع دیئے بغیر ہرحال میں روکنے اور کچل دینے پر تلی بیٹھی ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز بروز واضح ہوتی جارہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کو اپنے فائنل ایڈیشن اسلام کی صورت میں دنیا میں کسی جگہ بھی آزادی کے ساتھ معاشرتی کردارادا کرنےکا موقع مل جائے تو مغربی فلسفہ و نظام کے لیے اس کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی خوف سے نہ صرف مغرب بلکہ اپنے محدود تصورات و افکار کو دُنیا پر غالب کرنے کا خواہش مند ہرطبقہ، اسلام دشمنی کا علَم بردار بنا ہوا ہے۔
بھارت میں یہ صورتِ حال قدرےمختلف ہے کہ یہاں اسلامی فلسفہ و ثقافت پر یلغار کا پرچم ہندو مذہب کے انتہاپسندوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور فطری قوانین و احکام پرعمل سےروکنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کے لیے ان کی جدوجہد میں ان کا معاون بننا چاہیے۔ معروضی حالات و ظروف کا لحاظ رکھتے ہوئے، سنجیدگی کے ساتھ ان کی علمی و اخلاقی مدد کرنا چاہیے۔ مسلمانوں پر اسی قسم کی آزمایشیں اور چیلنجز تاریخ کے مختلف اَدوار میں سامنے آتے رہے ہیں،جن کا سامنا عقیدہ و ایمان پر پختگی، استقامت، حوصلہ اور حکمت و تدبر کے ساتھ کرنے والے ہمیشہ سرخرو رہے ہیں اور اب بھی ان شاء اللہ العزیز ایسا ہی ہوگا۔ اگرچہ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید یہ دور زیادہ سنگین اور کہیں زیادہ صبرآزما ہے۔ اللہ تعالیٰ بھارت بلکہ دُنیابھر کے مسلمانوں کو اس میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائے، آمین یارب العالمین!
ہندستان کی شدّت پسند اور’ ہندوتوا‘ کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک راہ نما اور نظریہ ساز رام مادھو نے ایک سہ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، جس پر عمل کرکے ہندستانی مسلمان ملک میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے نکات درج ذیل ہیں:
یہ مطالبات اسی نوعیت کے ہیں، جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے۔آپؐ نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو مشرکین نے اس سے روکنے اور اس کام سے باز رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے۔ ابتدا میں مخالفت ہلکی رہی ، لیکن بعد میں اس میں شدّت آتی گئی۔کمزور سماجی حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آپؐ سے مطالبہ کیا گیا کہ کچھ باتیں آپؐ ان کی مان لیں تو وہ کچھ باتیں آپؐ کی مان لیں گے ، لیکن ان سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ دین کے معاملے میں کوئی مداہنت نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید میں ہے:
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۹ (القلم ۶۸: ۸-۹) لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ۔یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔
قرآن نے مخالفین ِ اسلام کی مسلمانوں سے عداوت اور ان کی قولی اور عملی شر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے دلوں میں چھُپے ارمانوں سے ان الفاظ میںپردہ اٹھایا ہے :
اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ۲ۭ ( الممتحنۃ۶۰:۲)ان کا رویّہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمھارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں ۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً (النساء۴:۸۹)وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔
یہی رویّہ موجودہ دور کے مشرکین کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے امتیازات سے دست بردار ہوجائیں اور جو بنیادی عقائد و تصوّرات ان کے درمیان خطِّ امتیاز کھینچتے ہیں ان سے لاتعلّقی اختیار کرلیں ۔ ہندستانی مسلمانوں سے اِن دنوں جو مطالبات کیے جا رہے ہیں وہ اسی نوعیت کے ہیں۔
ذیل میں ان مطالبات کا ا سلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
’کافر‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ’کفر‘ سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانپنے کے ہیں ۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں ، سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔ اسی لیے وہ لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں،مثلاً رات، سمندر، وادی،دریا، گہرا بادل، کسان،زرہ ،وغیرہ۔اسی طرح اس میں ناشکری کے معنٰی بھی پائے جاتے ہیں۔ لفظ ’کفر‘ کا استعمال اسلام کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر بھی ہوا ہے ، یعنی ’اسلام کو نہ ماننے والا‘۔ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہیں ۔ کچھ لوگ اس کو مانتے ہیں، کچھ نہیں مانتے ۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ چاہے اس پر ایمان لائے، چاہے نہ لائے۔ قرآن مجید میں ہے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منع فرمایا تھاکہ ایمان لانے کے معاملے میں کسی پر جبر سے کام نہ لیں:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰: ۹۹)اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟
اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے ۔انسانوں کو آزادی ہے۔ جو لوگ چاہیں اسے مانیں، جو چاہیں نہ مانیں۔ جو اسے مان لیتے ہیں انھیں قرآن مجید’مومن‘ (یعنی ایمان لانے والا) کہتا ہے اور جو اسے نہیں مانتے انھیں ’کافر‘(یعنی ایمان نہ لانے والا) کہتا ہے۔ یہ حقیقت ِ واقعہ کا بیان ہے ۔ اس میں اہانت اور مذمّت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر دوسرے اہلِ مذاہب کا رویّہ ان سے دشمنی، جنگ اور فساد کا نہ ہو تو وہ بھی ان سے خوش گوار سماجی تعلقات رکھیں، ان سے اچھا برتاؤ کریں اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں۔ صرف ان لوگوں سے دوستانہ اور رازدارانہ تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے، جو دشمنی پر آمادہ ہوں اور مسلمانوں کے جانوں اور مالوں کے درپے ہوں۔ قرآن میں ہے:
لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۸ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۹(الممتحنۃ ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اِخراج میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹ :۱۰)مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان ِ نبوّت کے بعد جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھیں مکہ مکرّمہ میں بہت ستایا گیا ، یہاں تک کہ وہ پہلے حبشہ ، پھرمدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ لوگ’ مہاجر‘ کہلائے ۔مدینہ کے لوگ ، جو پہلے ایمان لا چکے تھے، انھوں نے ان بے سر و ساماں لوگوںکی خوب بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ انھیں ’انصار‘ کہا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت ِ مدینہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان میں’ مواخات‘ (بھائی چارہ) کرائی ۔اس کے نتیجے میں وہ باہم شِیر و شکر ہوگئے۔ انسانی تاریخ نے ایمان کی بنیاد پر ایسے مضبوط رشتے کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسانوں میں دوئی باقی نہیں رہتی ، بلکہ وہ ایک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۰ۭ (الانفال۸:۷۵)اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمھارے ساتھ مل کر جدّوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔
اسلام اہلِ ایمان کو ایک امّت قرار دیتا ہے ، جو ایک عقیدے اور ایک نظریے کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فکر و نظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں ہے:
اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۹۲ (الانبیاء ۲۱: ۹۲) یہ تمھاری امّت حقیقت میں ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔
وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ۵۲ (المومنون۲۳:۵۲) اوریہ تمھاری اُمّت ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے ڈرو۔
موجودہ دور میں وطنیت اورقومی ریاست کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دنیا مختلف ممالک کے دائروں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے وہاں کی حکومت کوشاں رہتی ہے اور اس سلسلے میں جائز و ناجائز کی بھی پروا نہیں کرتی___ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک کے شہریوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اگر رہتا ہے تو وہ بھائی چارہ ، ہمدردی اور مودّت کے بجائے شک و شبہہ، منافرت، بلکہ بسا اوقات دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔یہ سراسر جاہلی تصوّر ہے ، جسے نیا پیراہن پہنا دیا گیا ہے۔جاہلی شاعر دُرید بن صمّہ کہتا ہے:
وَ مَا أنا الاّ مِن غَزیّۃ اِن غَوَتْ غَوَیتُ ، واِن تَرشُدْ غَزِیّۃ أرشُد
(میں تو قبیلۂ غزیّہ کا ایک فرد ہوں۔وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی اسی راہ پر چلوں گا اور اگر وہ صحیح راہ اختیار کرے گا تو میں بھی اس کے پیچھے چلوں گا)۔
اسلام اس نظریے کا قائل نہیں۔ وہ تمام اہل ِ ایمان کو ، چاہے وہ جس علاقے اور جس ملک میں رہتے ہوں، جس رنگ و نسل کے ہوں ، جو زبان بھی بولتے ہوں اور جس سماجی حیثیت کے مالک ہوں، ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بلیغ تمثیل بیان فرمائی:
مَثَلُ المُؤمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِم وَ تَراحُمِہِم وَ تَعَاطُفِہِم مَثَلُ الجَسَدِ ، اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالحُمّیٰ (مسلم:۲۵۸۶)اہلِ ایمان کے درمیان میں باہم محبت، رحم و کرم اور اُلفت کے معاملے میں ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ اسلام اور وطنیت کا کوئی کوئی میل نہیں ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے افکار و خیالات کسی پر زبردستی مسلّط نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اس کے عقائد و نظریات پر غور کریں، عقل و فکر کے دریچے کھلے رکھ کر اسے سمجھیں، پھر چاہیں تو اسے قبول کرلیں اور چاہیں تو نہ قبول کریں۔ وہ بہت تفصیل سے قبولِ حق کے اچھے نتائج و ثمرات بیان کرتا اور انکارِ حق کے نتائج بد سے آگاہ کرتا ہے، لیکن کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۰ۙ (الکہف ۱۸:۲۹)صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔
اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق اور ناحق دونوںکو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ اس آزادی سے کام لے کر کچھ لوگ حق کو قبول کرلیتے ہیں اور اللہ کے فرماں بردار بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ اسے قبول نہیں کرتے اور نافرمانی کی روش پر گام زن رہتے ہیں۔ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اس آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بہرہ ور کیا ہے:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۹۹ (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میںسب مومن اور فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟
اسلامی عقائد و نظریات کے پیچھے دلائل کی قوت ہے اور اسے یقین ہے کہ جو شخص بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ ضرور حلقہ بہ گوشِ اسلام ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ تاکید کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر زور زبردستی نہ کی جائے:
لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔
اسلام پُر امن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔تمام لوگ کھلے ماحول میں، پوری آزادی کے ساتھ بغیر کسی دباؤ کے، اسلام کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔ اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے اسلام پُرامن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فتنہ و فساد، انارکی، بدامنی اور جنگ کی حالت ہو تو افہام و تفہیم کی راہیں اور بھی مسدود ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، جنگ سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اس پر اسی صورت میں آمادہ ہوا جائے جب جنگ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔اسلام امن و امان کا کس حد تک خواہاں ہے، اس کا اندازہ اس تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دورانِ جنگ دشمن کی طرف سے صلح کی پیش کش ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جائے، خواہ اس کے پس پردہ دشمن کی بدنیتی اور دھوکے کا شبہہ ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۰ۭ (الانفال۸:۶۱-۶۲) ’’اگردشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔
۶ھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادے سے نکلے، مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی دشمنوں نے آپؐ کو روک دیا اور آمادۂ جنگ ہوئے۔ اس موقع پر حدیبیہ کے مقام پر جو صلح نامہ تیار ہوا اس کی تمام شرائط یک طرفہ تھیں اور ان سے مسلمانوں کی پسپائی اور ان کے دشمنوں کی برتری ظاہر ہوتی تھی۔ اس بنا پر بہت سے مسلمان بے چینی محسوس کررہے تھے اور بعض اصحابؓ کے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام شرائط تسلیم کرلیں کہ ان کی بدولت امن و امان کا زرّیں موقع ہاتھ آرہا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ درست تھا۔ امن کے نام پر یہ ظاہری پسپائی ’فتح‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور دو سال کے عرصے میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اتنے مدنی عہد کے چھ سال میں بھی نہ ہوئے تھے۔
لیکن جب انسانوں کا ایک طبقہ دوسرے انسانوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے لگے، ان کی آزادیاں سلب کرلے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں مجبور و محکوم بنا کر رکھے تو اسلام ان مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے ظالم و جابر لوگوں کی سرکوبی ضروری ہے، جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں کو ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں آزادی اور سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵ۭ (النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔
اسی طرح اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے جو ان سے جنگ کرنے میں پہل کریں۔ وہ جس طرح دوسروں پر ظلم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اسی طرح ظلم سہنے کا بھی روا دار نہیںہے۔ اسی لیے مشرکین مکہ کے مظالم جب حد سے گزرگئے، تو مسلمان اپنا دین و ایمان بچانے کی غرض سے مدینہ، ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مگر یہاں بھی مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، ان کے خلاف سازشیں کیں اور دوسروںکو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ بالآخر جب پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۰ۭ (الحج ۲۲:۹ ۳-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے:’’ ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔
اسلام میں ’معروف‘ کا حکم دینے اور ’منکر ‘سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک دونوںکی یکساں اہمیت ہے۔ قرآن میں دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے دونوں میں فرق ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو معروف کی دعوت دیتا ہے اور انھیں قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ان کے قبول و اختیار کو ان پر لازم نہیں کرتا۔ تاہم وہ انھیں منکرات کا ارتکاب کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتا، بلکہ ان پر روک لگاتا ہے اور انھیں ان سے باز رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں ظلم و جور کر رہے ہوں، فتنہ و فساد پھیلا رہے ہوں اور برائیاں عام کر رہے ہوں، انھیں دنیا میں اللہ کے قانون کے تابع ہوکر رہنا پڑے گا اور دنیا کے اقتدار کے مالک وہ لوگ ہوںگے، جو اس پر اللہ کا حکم نافذ کریں اور اسے فتنہ و فساد سے پاک رکھیں:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ۰ۚ (الانفال ۸:۳۹) ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔
اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں ’جہاد‘ کا مقصد دوسروں کو زور زبردستی سے مسلمان بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ’شر‘ کا زور ٹوٹے، فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور ان لوگوں کو بے اختیار کردیا جائے، جو اس دنیا میں جبر و اِکراہ، ظلم و زیادتی اور برائیوں کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، تاکہ اللہ کے بندوں کو آزادی نصیب ہو اور وہ بغیر کسی دباؤ کے اللہ کا دین قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نےاپنے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں ایک مرتبہ پھر سود کو ہرشکل میں حرام قراردیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیٹ بنک اور کچھ بنکوں نے ربا کے اس مقدمے میں کچھ عملی مشکلات وغیرہ کو جواز بنا کر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردی ہیں۔ اس سے قبل خود ہم نے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والےبنکوں کی شریعت سے متصادم اور سود پر مبنی ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو بھی بلاتحقیق شریعت کے مطابق قرار دے دیا ہے۔
پھر اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ بنکوں کی جانب سے کی جانے والی ان اپیلوں میں تاخیری حربوں کے طور پرنت نئے نکات اُٹھائے جاتے رہیں گے تاکہ اصل معاملہ، یعنی اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دینے کا معاملہ، پس پشت ڈالا جاسکے۔ دوسری طرف حکومت سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اسٹیٹ بنک اور بنکوں کو احکامات دیئے جائیں کہ وہ اپنی اپیل واپس لیں۔ حالانکہ اسٹیٹ بنک قانونی طور پر ایک خودمختار ادارے کی صورت اختیار کرچکا ہے اور حکومت اسے احکامات دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ پھر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ۲۸؍اپریل کے فیصلے کے مطابق تو اسلامی بنکوں میں سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو قانونی تحفظ مل جائے گا، جو سود کو حرام قرار دیئے جانے کے باوجود پاکستان میں سودی نظام کو دوام بخشنے کے مترادف ہوگا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ وزارتِ خزانہ کے مطابق وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کی طرف سے ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو اُٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات کا مناسب طریقے سے احاطہ نہیں کیا گیا۔
اس وقت قابلِ عمل لائحہ عمل یہ نظر آتا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے پہلے مرحلے میں ملک میں تمام روایتی بنکوں، یعنی سودی بنکوں کو۱۸ماہ کے اندر بلاسودی بنکوں میں تبدیل کردیا جائے۔ اور ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہیں رہنے دیا جائے۔ یہ بھی اَزحد ضروری ہے کہ افراد اور ادارے بنکوں کی فنانسنگ کی بروقت ادائیگیاں کریں۔ چنانچہ قانونی ذرائع اور عدالتوں سے بنکوں کی فنانسنگ کی وقت مقررہ کے چند ہفتوں کے اندر واپسی کو یقینی بنایا جائے۔ ۱۸ماہ کے بعد ان بنکوں کو اپنی نئی سرمایہ کاری صرف سود سےپاک پروڈکٹس میں ہی کرنا ہوگی۔ ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نجی شعبے کی شراکت سے پاکستان میں ایک ماڈل اسلامی بنک قائم کرے، جس کی ڈیپازٹس اور فنانسگ کا کاروبار ۱۰۰ فی صد نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ہو۔ یہ ماڈل اسلامی بنک، ملک میں اسلامی بنکاری کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال پیش کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری دراصل اسلامی نظامِ معیشت کا حصہ ہے۔ چنانچہ اسلامی بنکاری کے مکمل نفاذ کے لیے معاشرے کی اصلاح کی کوششیں جاری رکھنے اور اسلامی نظامِ معیشت کو مکمل طور پر اپنانے کے ساتھ ملک کے تمام متعلقہ قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔
اس ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ربا کے مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بلاجواز تقریباً ۲۰برس کا عرصہ لگادیا۔ یہ یقینا ایک قومی المیہ ہے کہ اس دوران ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان میں سود سے پاک معیشت کے لیے ماحول تیزی سے معاندانہ بنایا جاتا رہا۔ جون ۲۰۰۲ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ کو حکومت نے یقین دلایا تھا کہ حکومت سودی قرضوں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کرے گی، مگرعملاً اُلٹ ہی کیا گیا، مثلاً:
۱- ۳۰ جون ۲۰۰۲ءکو پاکستان پر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً ۱۸۰۰؍ ارب روپے تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو بڑھ کر ۲۸,۸۰۶؍ ارب روپے ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ میں قرضوں کے حجم میں اضافے کی یہ تیزترین رفتار ہے۔ ۲۰۰۲ء میں حکومت نے یہ موقف اختیارکیا تھا کہ داخلی قرضوں کے اس اُونچے حجم کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ تقریباً ۲۰برسوں میں ان سودی قرضوں کے حجم میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ کر دیا گیا ہے اور اب شریعت اپیلیٹ بنچ میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ ان قرضوں کو اگلے پانچ برسوں میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
۲- پاکستان میں تجارتی بنکوں نے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت قرضوں کی فراہمی کے اپنے اصل کام کو ثانوی حیثیت دے کر گذشتہ برسوں میں حکومتی تمسکات میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔ نتیجتاً ۲۰۰۸ء اور جون ۲۰۲۲ء کے آخری ہفتے کے درمیان قرضوں کے حجم میں ۷,۷۱۳؍ ارب روپے اور سرمایہ کاری کے حجم میں اس کے دُگنے سے زیادہ، یعنی ۱۶,۳۳۲؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دُنیا بھر میں اور پاکستان میں تجارتی بنکوں میں اس قسم کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ پہلے بنکوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا اور اب ان بنکوں کی جانب سے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں میں یہ موقف اپنایا جائے گا کہ اتنی بڑی رقوم کی سودی سرمایہ کاری کو مقررہ مدت میں اسلامی طریقوں سے تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بنکوں کو احکامات دینا ہوں گے کہ وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ رکھیں تاکہ یہ مسئلہ مزید سنگین نہ ہو۔
سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں دائر اپیلوں کے ضمن میں ہماری یہ چار اضافی تجاویز ہیں:
۱- آئین پاکستان کی شق ۳۸ (ایف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربا کا خاتمہ کر دیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں واضح طور پر یہ اضافہ کردے کہ ’’سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں ہی آتا ہے‘‘، یعنی سود ہرشکل میں مکمل طور سے حرام ہے۔ اس طرح سود کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا اور بنکوں کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیلوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا، جو کہ بڑی کامیابی ہوگی۔
۲- دینی و مذہبی جماعتوں کو جو ربا کے مقدمے میں فریق ہیں، اس بات کو اوّلیت دینا ہوگی کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ ’اسلامی بنکوں‘ میں رائج ڈیپازٹس اور فنانسنگ کی ان تمام پروڈکٹس کو غیراسلامی قرار دے،جن میں یا تو سود کا عنصر شامل ہے یا وہ شریعت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
۳- پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں کو اس نام کے بجائے بلاسودی بنک قرار دیا جائے، بشرطیکہ ان بنکوں کی کسی بھی پروڈکٹ میں سود کا شائبہ بھی نہ رہنے دیا جائے۔
۴- سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔
وطن عزیز میں اس وقت مہنگائی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے۔ اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا ہوگا کہ بنکوں کی جانب سے نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر فنانسنگ کرنے سے افراطِ زر کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس نظام میں افراطِ زر اور اس کے منفی اثرات کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے سربراہ نےاپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سودپر مبنی ملکی و بیرونی قرضوں کو اسلامی طریقوں کے مطابق تبدیل کرنے کے ضمن میں پیش کی گئی سفارشات کو جگہ دی ہے۔ اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد بھی کافی قابلِ قدر کام ہوچکا ہے جس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ بنیادی بات بہرحال یہی ہے کہ اسلام میں دولت، وسائل اور اختیارات انسان ، اداروں اور حکومت کے پاس اللہ کی امانت ہوتے ہیں۔ اگر ان وسائل اور اختیارات کو اللہ کی امانت سمجھ کر استعمال کیا جائے، اپنے وسائل کے اندرزندہ رہنے اور خودانحصاری کے حصول کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا جائے، تو نئے قرضے لینے کی ضرورت بڑی حد تک کم ہوجائے گی۔ وفاق اورصوبوں کو متوازن بجٹ بنانا ہوں گے، بجٹ خسارے کی مالکاری کے لیے اور پالیسی سے منسلک بیرونی قرضوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ملک پر موجودہ ملکی و بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بنک اور وزارتِ خزانہ کو حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔
وزیراعظم شہبازشریف نے وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کے بعد ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ ’’وہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے شریعت کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں ایک ٹھوس، واضح اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کرے، تاکہ یہ اہم کام آگے بڑھایا جاسکے‘‘۔ تاہم، یہ معاملہ اب اختلافات کا شکار ہوچکا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے ماضی میں جو ’کوششیں‘ کی جاتی رہی ہیں، ان میں سے چند پیش کی جارہی ہیں:
۱- اب سے تقریباً ۳۴ برس قبل ۱۵جون ۱۹۸۸ء کو صدر مملکت نے ’شریعت آرڈی ننس ۱۹۸۸ء‘ کا اجرا کیا تھا، لیکن اسے پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش ہی نہیں کیا گیا۔ چنانچہ یہ آرڈی ننس اور اس کا نظرثانی شدہ آرڈی ننس مقررہ تاریخ کے بعد غیرمؤثر ہوگیا۔
۲- وزیراعظم کی حیثیت سے نواز شریف نے ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کا اجرا کیا تھا۔ اس ایکٹ میں کہا گیا تھا کہ ریاست ایسے اقدامات اُٹھانے کو یقینی بنائے، جن کے تحت پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی نظامِ معیشت کے مقاصد، اصولوں اور ترجیحات کے مطابق استوار کیا جاسکے۔
۳- ’شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء‘ کے تحت معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے جولائی ۱۹۹۱ء میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے تین ورکنگ گروپ بھی قائم کیے تھے، مگر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی ہی نہیں۔
۴- وزیراعظم کی حیثیت سے نوازشریف نے جولائی ۱۹۹۱ء میں تشکیل شدہ کمیشن کی تقریباً چھ برس بعد ۲مئی ۱۹۹۷ء کو تشکیل نو کی۔ اس کمیشن نے ربا کے خاتمے کے لیے اپنی رپورٹ اگست ۱۹۹۷ء میں پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں عمدہ تجاویز پیش کی گئی تھیں، مگر ان پر بوجوہ عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نےسود کو ہرشکل میں حرام قرار دینے کے اپنے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں جو احکامات دیئے تھے، ان میں سے چند یہ ہیں:
۱- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر اسٹیٹ بنک میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس کمیشن کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو شرعی اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کے عمل کی پوری طرح نگرانی کرے۔
۲- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ قانون اور پارلیمنٹری اُمور ایک ٹاسک فورس تشکیل دے۔ اس ٹاسک فورس کے ذمہ ایک اہم کام یہ ہوگا کہ وہ انسداد سود کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کرکے پیش کرے۔
۳- اس فیصلے کے ایک ماہ کے اندر وزارتِ خزانہ اپنے ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دے جس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ سود کی بنیاد پر لیے ہوئے قرضوں کو اسلامی طریقوں پر منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کرے۔
سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے مندرجہ بالا احکامات کی روشنی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن نے انتہائی محنت اورعرق ریزی سے اپنی حتمی رپورٹ اگست ۲۰۰۱ء میں پیش کردی تھی۔ اسی طرح وزارتِ قانون میں قائم ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ میں ایک آرڈی ننس کامسودہ بھی پیش کیا تھا۔ اس مسودہ میں کہا گیا تھا کہ ربا کا مطلب ہے، سود یا کوئی بھی اضافی رقم جو روپے کے لین دین کے معاملات میں اصل زر سے زائد ہو۔ اگر یہ آرڈی ننس جاری ہوجاتا تو سود کے ہرشکل میں حرام ہونے کا معاملہ اسی وقت طے ہوجاتا۔ بدقسمتی سے خود حکومت نے اس آرڈی ننس کے اجرا کی منظوری نہیں دی۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، مذہبی تنظیموں،علما، مفتی صاحبان اور مسلم ماہرین معاشیات وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں بروقت کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیاحالانکہ وفاقی وزیر برائے مذہبی اُمور نے کہا تھا کہ ۳۰جون ۲۰۰۱ء کو ۱۲بجے شب یہ مجوزہ آرڈی ننس قانون کی شکل اختیار کرلے گا۔
اسٹیٹ بنک میں ۴ستمبر۲۰۰۱ء کو مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اجلاس فوجی حکمران کی صدارت میں منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے گورنر، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے چیئرمین، وزارتِ قانون کمیٹی کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی شامل تھے۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو دوام بخشنے، بنکاری کا متوازی نظام وضع کرنے کے غیرآئینی اور غیراسلامی فیصلے فوجی حاکم کے ایک حکم پر کردیئے گئے۔ اس تباہ کن فیصلے پر معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ اسی اجلاس کے شرکا میں وہ حضرات گرامی بھی شامل تھے، جنھیں معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کی انتہائی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وزارتِ خزانہ کی ٹاسک فورس کی رپورٹ اور حکومت پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں داخل کیا جانے والا حلف نامہ اور خود اسٹیٹ بنک کا حلف نامہ ایک ملی بھگت اور مربوط حکمت عملی کے تحت تیار کیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں سماعت صرف ۱۰ روز جاری رہی، اور اس بنچ نے عملاً ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اسٹیٹ بنک میں ہونے والے غیرآئینی و غیر اسلامی فیصلے پر اپنی مُہر ثبت کردی اور ۱۴نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ حکومتی شعبے کے ایک بنک کے وکیل نے شریعت اپیلیٹ بنچ میں کہا تھا:
سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں اسلامی بنکاری کا جو نظام بتلایا گیا ہے، وہ دراصل اسلامی بنکاری کے نام کا غلط اطلاق ہے اور مشارکہ کے علاوہ تمویل (فنانسنگ) کے لیے دوسرے تمام طریقے صرف حیلے کے زمرے میں آتے ہیں، یعنی وہ طریقے جن پر عمل کے ذریعے ربا سے بچنا مقصود ہوتا ہے، مگر وہ دراصل ربا ہی ہوتے ہیں اور ان میں ظلم کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ طریقے نتائج کے اعتبار سے ان طریقوں سے زیادہ خراب ہیں جو مروجہ روایتی بنکاری میں استعمال کیے جارہے ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق یقینا چشم کشا ہیں۔ ان حقائق سے یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ پاکستان کے بااثر مال دار و طاقت ور طبقے جو حکومت و اداروں کی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے ہیں اور خود بیش تر فیصلہ ساز ادارے بھی عملاً نہیں چاہتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظامِ معیشت و بنکاری شریعت کی روح کے مطابق استوار ہو کیونکہ عدل و سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام سے قومی دولت لوٹنے والوں، ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں اور دوسرے غلط طریقوں سے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والوں اور اس کے ایک حصے کو ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ قابلِ احترام علما و مفتی صاحبان اور اسلامی معیشت کے ماہرین کو سود کے خاتمے کے ضمن میں، اس پیش آمدہ تمام صورتِ حال میں اپنی حکمت عملی اَزسرنو مرتب کرنا ہوگی۔
یہ بڑی واضح حقیقت ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں بہت زیادہ کام ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے ۲۳دسمبر ۱۹۹۹ء کو جو فیصلہ سنایا تھا اس میں بھی کہا گیا تھا کہ ’’یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شہادت ہے کہ موجودہ مالیاتی نظام کو اسلامی نظام میں بدلنے کی تدبیر کے لیے بنیادی گرائونڈ ورک کرلیا گیا ہے‘‘۔ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ گذشتہ ۲۲برسوں میں اس ضمن میں مزید مثبت کام اور ریسرچ ورک کیا گیا ہے۔ اب ضرورت کسی ٹاسک فورس کے قیام کی نہیں بلکہ درست فیصلوں اور ان پرتیزی سے عمل درآمد کی ہے۔ اوّلین ترجیح بہرحال یہی ہونا چاہیے کہ حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہرشکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں محبانِ اسلام اور عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کاروبارِ زندگی میں رخنہ ڈالے بغیر، پُرزور مگر پُرامن احتجاج کا راستہ اپنائیں تاکہ وفاقی حکومت اور ممبران پارلیمنٹ کو مجبورکیا جاسکے کہ وہ سود کو ربا کے زمرے میں قراردینے کے لیے آئین کی شق ۳۸ (ایف) میں اس اضافے کو فوری طور پر منظور کریں۔
اگر مندرجہ بالا تمام تجاویز پر تیزی سے عمل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ اگلے چند عشروں میں بھی پاکستان میں سودی معیشت فروغ پاتی رہے گی۔
اس مضمون کے پہلے حصے (عالمی ترجمان القرآن، جولائی ۲۰۲۲ء)میں ’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی اُن شقوں کا تجزیہ پیش کیا گیا تھا،جو بنیادی مالیاتی امور اور حکومتی میزانیہ یا بجٹ سے متعلق ہیں، اور جن کا مربوط ذکر ایک ساتھ وارد ہوا ہے۔ لیکن آئین میں دو او ر شقیں ایسی ہیں، جن کا مالیاتی اُمور سے گہرا تعلق ہے، اگرچہ اِن کا بیان آئین کے ایک دوسرے باب میں کیا گیا ہے۔ یہ شقیں ۱۶۰ اور ۱۶۱ ہیں۔ پہلی شق حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ وفاقی مجتمع کھاتے کی ضمانت پر قرضے حاصل کرسکتی ہے اور ضمانتیں بھی جاری کر سکتی ہے، اُن حدود کے اندر جو مجلس شوریٰ کے بنائے قانون میں درج ہوں۔ شق ۱۶۱، قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل، مدت اور اس کے وظائف کو بیان کرتی ہے۔ یہ کمیشن وفاق کی سطح پر حاصل کیے گئے وسائل کی وفاق اور صوبوں کے درمیان ان کی تقسیم کے لیے سفارشات بتاتا ہے۔
ہم یہاں پر اپنی گفتگو شق ۱۶۰ پر مرکوز رکھیں گے، کیونکہ اس کے اثرات معیشت کے اوپر بہت گہرے ہیں۔ گفتگو کے آغاز سے پہلے ایک اہم حقیقت کو بیان کرنا ضروری ہے، جس کو مدنظر رکھنا، آگے آنے والی گفتگو کو سہل بنا دے گا۔ وہ یہ ہے کہ قومی قرضہ سال بہ سال بجٹ کا جو خسارہ ہے اس کی جمع ہے۔ لہٰذا قومی قرضہ ہمیں اس مقدار کی نشاندہی کرتا ہے، جو مجموعی طور پر ہم نے اپنے ذاتی وسائل سے زیادہ اخراجات کرنے کی وجہ سے پیدا کیا ہے اور جس پر سود کی ادائیگی ہمارے بجٹ کا سب زیادہ بڑا خرچہ ہے جو اس وقت دفاعی اخراجات سے دُگنا ہے۔ یہ اتنا بڑا بوجھ بن گیا ہے، جو نہ صرف اٹھانا مشکل ہے بلکہ اس کی وجہ سے معیشت کے اُوپر سخت بُرے اثرات پڑتے ہیں اور وہ مزید نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب حکومت ہر سال اتنے قرضے مارکیٹ سے اٹھائے گی تو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے ضروری وسائل نہ صرف کم ہوں گے بلکہ ان کی لاگت، یعنی شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا اور یوں ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول خرابی کا شکار ہوجائے گا، جیسا کہ فی الوقت ہورہا ہے۔
علاوہ ازیں اس شق کو جس انداز میں استعمال کیا گیا ہے، وہ ہماری معیشت کی زبوں حالی کی اصل جڑ ہے۔ دستوری طور پر بجٹ کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا گیا کہ وہ اخراجات کی منظوری کے ساتھ ہی اس کے لیے ضروری وسائل کی صراحتاً منظوری حاصل کرے۔ جس کی وجہ سے حکومت آزاد ہوتی ہے کہ وہ وسائل سے زیادہ اخراجات کرے اور اضافی وسائل یا بجٹ کا خسارہ قرضہ لے کر پورا کر لے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو درحقیقت ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے۔ آئین جس طرح ٹیکس کے حصول کے لیے سخت پابندی لگاتا ہے، ویسی سختی قرض کے حصول میں نہیں پائی جاتی۔ ہم نے یہ بات بھی واضح کی تھی کہ سارے محصولات اور قرضے سے حاصل کی گئی رقوم مجتمع کھاتےمیں جمع کیے جاتے ہیں اور کیونکہ کھاتے میں موجود روپوں کا یہ تعین نہیں ہوسکتا کہ وہ ٹیکس سے یا قرض سے حاصل ہوئے ہیں، لہٰذا خرچ کرتے وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ٹیکس کا پیسہ ہے یا قرض کا؟
اس تناظر میں یہ واضح ہے کہ آئین نے حکومت کو یہ کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ جس قدر بھی اخراجات کرنا چاہتی ہے کرسکتی ہے، جس کا بڑا ذریعہ قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ آئین نے یہ بھی کہا ہے کہ قرضوں کو اس حد کے اندر رکھا جائے گا، جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون میں طے کی گئی ہو۔ یہ قانون ۵۸ سال کے بعد بالآخر ۲۰۰۵ء میں بنایا گیا، جس کا عنوان ہے: ’مالیاتی ذمہ داری اور تحدید قرضہ ایکٹ۲۰۰۵ ‘ (Fiscal Responsibility and Debt limitation Act 2005) ۔ اس میں اہم ترین شق یہ تھی کہ قومی قرضہ بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی ۶۰ فی صد سے زیادہ نہیں دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو وزیر خزانہ پارلیمنٹ کے سامنے ایک بیان رکھے گا، جس میں اس حد سے نکلنے کی وجوہ بتائی جائیں گی اور وہ عرصہ بھی بتایا جائے گا، جس میں جلد از جلد قرضے کو متعین حد کے اندر واپس لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس قانون میں یہ بھی ذمہ داری حکومت پر رکھی کہ وہ دو رپورٹیں بھی پارلیمنٹ کے سامنے رکھے: ایک مالیاتی امور سے متعلق اور دوسری قرضے کی حالت پر اور ان دونوں میں حکومت کی پالیسیوں کا بیان ہوگا۔
یہ قانون کچھ عرصے تک بخوبی چلتا رہا کیونکہ صدر مشرف صاحب اور وزیر اعظم شوکت عزیز کے دورِ حکومت میں مالیاتی نظام نسبتاً منظم تھا اور نائن الیون کے بعد وسائل کی فراوانی بھی تھی۔ لیکن بعد ازاں اس میں بگاڑ پیدا ہوگیا ،لہٰذا اس قانون کا توڑنا معمول بن گیا۔ پھر ایک اور عجیب معاملہ سامنے آیا۔ ۲۰۱۶ء میں جب آئی ایم ایف کا تین سالہ پروگرام کامیابی سے پائے تکمیل کو پہنچ رہا تھا، ایک نئی شرط متعارف کرائی گئی، جس میں قومی قرضے کی حد کو ۶۰ فی صد بہ نسبت مجموعی قومی آمدنی سے کم کرکے ۵۰ فی صد پر کرنا تھا۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کے ضرورت تھی، جو کردی گئی۔ یہ کم تر حد ۱۵ سال کے عرصے میں حاصل کرنی تھی۔ اب یہ ستم ظریفی ہے کہ ملک ۶۰فی صد کی حد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہا تھا اور اس کے برعکس اس پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ۔ اس وقت ملکی قرضہ ۱۰۰ فی صد کے قریب ہوتا، لیکن جنوری میں مجموعی قومی پیداوار کا اَز سر نو اندازہ لگایا گیا ہے جس کی وجہ سے سال کے شروع میں ۵۳ ٹریلین کی قومی پیداوار ۶۷ ٹریلین ہوگئی، جو کہ ۲۶فی صد اضافہ ہے۔ جس سے اس نسبت میں بہت کمی واقع ہوگئی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ ۷۰ فی صد کے اطراف میں ہے اور ہر دو نسبتوں، یعنی ۶۰ اور ۵۰ سے بہت زیادہ ہے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے زبردستی اس حد کو کم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے، سوائے اس کے کہ پاکستان کی کارکردگی مزید خراب نظر آئے۔ لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ آج بھی پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام پر عمل کررہا ہے اور اس کے اہداف میں کہیں بھی یہ شرط نہیں ہے کہ اس حد کے اندر رہا جائے اور کم تر حد کی طرف پیش رفت کی جائے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کس قدر قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے گذشتہ پانچ برسوں (جن کی مکمل معلومات موجود ہیں) میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مجموعی بجٹوں میں موجود قرضوں کے تناسب کا جائزہ لیا ہے۔ ۲۰۱۶ء تا ۲۰۲۱ء کہ پانچ برسوں میں اوسطاً ۳۰ فی صد اخراجات قرضوں کے ذریعے پورے کیے گئے ہیں۔ کئی برسوں میں یہ تناسب ۴۰ فی صد تک رہا ہے۔ کیونکہ صوبے خود کو اپنے وسائل کے اندر رکھتے ہیں۔ لہٰذا، اگر ہم یہ تجزیہ وفاقی حکومت تک محدود رکھیں تو یہ تناسب ۵۳ فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں بجٹ کے خسارے میں اضافہ اور روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ کی وجہ سے (جس سے بیرونی قرضے کی مالیت میں اضافہ ہوجاتا ہے) قومی قرضے میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ۳۰ جون ۲۰۱۸ء کو قرضے کی مالیت ۲۵ ٹریلین تھی، وہ اس مارچ ۲۰۲۲ء تک ۴۵ ٹریلین تک پہنچ گیا ہے، جو قرضےکی مالیت میں ۸۰ فی صد اضافہ ہے۔
ایک عبرت ناک حقیقت یہ ہے کہ حکومتی عمال اکثر اس خبط میں مبتلا ہوتے ہیں کہ قرضے کی موجودگی میں خرچہ کرنا مفت کے مترادف ہے، خصوصاً جب یہ بیرونی قرضے کا معاملہ ہو۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں ہے کہ قرضہ ہو یا ٹیکس کی آمدنی، ہر دو صورتوں میں خرچہ اخراجات کو بڑھاتا ہے اور قومی قرضہ میں شامل ہوکر اس کی واپسی اور سووکی ادائیگی کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اس طرح اگلی نسلوں کے لیے ہم بھاری ذمہ داری چھوڑ جاتے ہیں، جس کے بہرحال وہ ذمہ دار تو نہیں ہوتے، مگر ان کو جبری طور پر یہ بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے۔
ملک کے مالیاتی نظام کی جو بدحالی ہم نے پہلے حصے میں بیان کی ہے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرضوں میں اضافے کی رفتار میں تیزی آئے گی اور بجٹ میں سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی بڑھتا جائے گا۔ خصوصاً جب شرح سود میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جیسا کے حال میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے اس شرح کو ۱۵ فی صد تک بڑھا دیا ہے۔ اگر یہ کم از کم سود کی شرح ہوگی تو نجی شعبے کو سرمایہ ۲۰ فی صد پر مشکل سے حاصل ہوگا، اور وہ اس شرح پر سرمایہ حاصل کرکے کسی ایسے منافع بخش کاروبار میں نہیں لگا سکتا جو ۲۰ فی صد سے زیادہ منافع کماسکے۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تحدید قرضہ کا قانون اس قابل نہیں رہا کہ وہ قرضے میں اضافے کو محدود کر سکے۔ ہمیں بہ حیثیت قوم اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی معیشت کو مقروض کرکے ترقی دینا چاہتے ہیں یا کم ترقی ہم کو قبول ہے؟ لیکن اس کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا ضروری ہے۔ قرض ہماری معاشی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے۔ ایک اسلامی اور ایٹمی قوت اپنی معاشی خود مختاری کو کمزور کرکے اپنی اسلامی اور ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
جنگ اور فساد کا سب سے زیادہ خمیازہ خواتین اور بچوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، تاہم ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگست ۲۰۱۹ء سے لے کر اب تین برس کے عرصے میں جموں و کشمیر کے بچوں میں دماغی اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے ۔ ’فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں و کشمیر ، جس کے سربراہان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پرکاش شا اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشنا پلیے ہیں، انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ ، خطے میں نابالغوں کو بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر ریاست کے باہر دُور دراز جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے، اور حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس فورم کے اراکین جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سابق جج صاحبان کے علاوہ سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راؤ، بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک، جنرل ایچ ایس پناگ، میجر جنرل اشوک مہتہ، تاریخ دان رام چندر گوہا اور کئی دیگر باوقارافراد شامل ہیں، کشمیر میں نابالغ افراد ، خاص طور پر بچوں کی ابتر ہوتی صورت حال پر چیخ اُٹھے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’خطے میں بچوں کے لیے قائم کی گئی عدالت، جس کو ’جیوئنایل [Juvenile] جسٹس بورڈ،[ JJB: بچوں کو انصاف فراہم کرنے والا بورڈ] کا نام دیا گیا ہے، یا تو معطل ہے یا سیکورٹی اداروں کے سامنے بے بس ہے‘‘۔ ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جب ’’جے جے بی کی ایک ممبر صفیہ رحیم نے ایک زیر حراست بچے کی ضمانت کی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ، پولیس کو نوٹس جاری کیے، تو پولیس نے ایسے کسی بھی بچے کی موجودگی سے انکار کردیا۔ مگر پھر خاصے لیت و لعل کے بعد ۳۰ دن گزار کر اس کو جے جے بی کے سامنے پیش کیا۔ رہا کرنے کے بجائے ضمانت کی عرضی کے بعد اس پر باضابط ایف آئی آر درج کی گئی۔ ا ن مؤثر افراد کا کہنا ہے کہ: ’’خطے میں صرف ’جیوئنایل جسٹس ایکٹ‘ [۲۰۱۵ء]کی دھجیاں ہی نہیں اڑائی جارہی ہیں، بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات، جن کے مطابق کسی نابالغ کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا، ان کو بھی نظرانداز کیا جاتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں شوپیان کے ۱۴سالہ آفتاب (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا ذکر کیا گیا ہے، جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے پولیس اسٹیشن میں کئی روز رکھا گیا اور پھر سیکڑوں کلومیٹر دُور اتر پردیش کے وارانسی شہر کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ دوسرے مقدمے میں ایک اور نابالغ سلمان کو حراست میں لیا گیا، اگرچہ عدالت، یعنی جے جے بی نے اس کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے، مگر رہا ہوتے ہی اس کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔
مؤثر افراد کے اس فورم کے مطابق کئی مقدمات میں پولیس نے ان نابالغ افراد کی عمریں غلط درج کی تھیں، اور ان کی عمریں ثابت کرنے کی ذمہ داری والدین اور ان بچوں پر ڈالی ہوئی تھی۔ عموماً اگر عدالت Ossification،یعنی ہڈیوں کی تشکیل سے عمر کا تعین کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، تو اس میں میـڈیکل سائنس کی رو سے دو سال کی کمی و بیشی کا مارجن ہوتا ہے۔ دیگر خطوں میں پولیس یا عدالتیں عمر میں کمی کو تسلیم کرتی ہیں، مگر کشمیر میں پولیس عمر میں اضافے کو تسلیم کرکے ان بچوں کو بالغ مان کر ان کی حراست میں توسیع کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان بچوں کی ایک بڑی تعداد شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ دسویں جماعت کے عفان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’’اس کو دفعہ ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے خلاف ایک پُرامن جلوس میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ گو کہ ۱۵دن کے بعد اس کے والدین اس کو رہائی دلانے میں کامیاب تو ہوئے، مگر اس دوران وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہے اور اکثر بدن میں درد کی شکایت کرتا رہتا ہے‘‘۔ اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’’کس طرح ۱۸ماہ سے کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہوگئے؟ آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی احتجاج کا حصہ تھے کہ جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا؟‘‘ فورم کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ’’کم از کم گیارہ ایسے بچوں کے بارے میں ان کو معلومات ملی ہیں، جو پیلٹ گن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں۔ اگر صرف حراست میں لینا یا پیلٹ گن سے نشانہ بنانا کافی نہیں تھا، تو نئی صورت حا ل میں اب بچوں کو گاؤں یا کسی آبادی میں تلاشی کی مہم کے دوران آگے رکھ کر آپریشن کیا جاتا ہے، جس سے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق ۵؍اگست۲۰۱۹ءکو دفعہ۳۷۰ اور ۳۵-اے کے خاتمے سے قبل ہی خطے میں بچوں کے سلسلے میں تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔ وانی گام کے سولہ سالہ حازم کا ذکر کرتے ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان پاس ہی جھڑپ شروع ہوگئی۔ جب سبھی اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ جگہ چلے گئے، تو والدین کو معلوم ہوا کہ حازم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگلے روز کھیت میں اس کی لاش ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’بچوں میں عسکریت اختیار کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے لیے شہری زندگی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ ۱۵سالہ کاشف ،جس کو ۸؍اپریل ۲۰۲۱ء کے ایک معرکہ میں ہلاک کیا گیا، اس نے ۲۰مارچ ۲۰۲۱ء کو عسکریت اختیار کی تھی۔ اسی طرح ۱۴سالہ گلزار کو جب ہلاک کیا گیا، وہ صرف چار روز قبل اپنا گھر چھوڑ کر مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ گو کہ حکومتی حلقوں نے ان مؤثر افراد کو بتایا:’’عسکریت کو پاکستان سے شہہ ملتی ہے، مگر اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اینکروں کے ذریعے چلائی جارہی شر انگیز مہم سے ان بچوں کے اذہان متاثر ہوتے ہیں اور وہ غصے اور بے بسی کا شکار ہوکر عسکریت اختیار کرتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹروں نے یہ رپورٹ مرتب کرنے والے دانش وروں کو بتایا کہ ’’خطے میں۹۴ فی صد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں‘‘۔کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ ’’جنوبی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی سے بچوں میں ذہنی تناؤ، غصہ، چڑچڑاپن، ڈراؤنے خواب اور صدمے کی کیفیت جیسی شکایات عام ہوگئی ہیں‘‘۔ اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ اور نیورو سائنسز کے حوالے سے بتایا گیا: ’’خطے میں نشہ آور ادویات کے استعمال میں ۱۵۰۰گنا کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں ڈراپ آوٹ ریٹ ۱۷ فی صد تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طالب علموں سے زیادہ ہے‘‘۔ رپورٹ کے آخر میں جے جے بی کو مزید اختیارات دینے اور ہائی کورٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً تفتیشی ٹیموں کو حراستی مراکز میں بھیج کر وہاں بچوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ ۲۰۱۰ء کی بات ہے کہ جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے ، تو کیلاش سیتیارتھی ، جن کو بعد میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ ’حقوق اطفال‘ پر نوبیل انعام سے نوازا گیا،کے ایک لیکچر میں ، میںنے شرکت کی۔ لیکچر کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر ہونے والے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ، تو وہ کنی کترا گئے اور اس کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر اپنا دامن چھڑا لیا۔ انھی دنوں اخبارات میں تصاویر چھپی تھیں کہ کس طرح پولیس کے سپاہی تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں پرچے حل کرانے کے لیے لارہے تھے۔ ذرائع ابلاغ میں ہاہاکار مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے ان بچوں کی رہائی کے، پولیس نے ان فوٹو گرافروں کی خوب خبر لی جنھوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوقِ اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقوق دلانے میں سرگرم ہیں، وہیں کشمیر میں ان مظالم کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک عشرہ قبل ہالینڈ کے ایک نوبیل انعام یافتہ عالم گیر نیٹ ورک نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں، ان میں کشمیر میںبچوں کے خلاف تشدد اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے ۔ ہالینڈ کے ادارے (تاسیس: ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء - Medecins Sans Frontieres - MSF) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ ’’وادی میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہےاور اس کا شکار خصوصاً بچے ہورہے ہیں‘‘۔ بلاشبہہ انصاف او ر توجہ کے منتظر ہیں، کشمیر کے بچے اور بچیاں! شایدکوئی ان معزز اور مؤثر افراد کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کان دھرے۔
طورخم کے راستے افغانستان جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی راہداری کے نظام کا عالمی معیار یہاں حددرجہ ناقص ہے۔ میرے سامنے ایک اہلکار نے ایک افغانی کو دھکا دیا تومیں نے اس سے پو چھاکہ ’’آپ نے اس معزز شخص کو کیوں دھکا دیا؟‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ’’اس کے پاس دو کلو چینی ہے جو لانا منع ہے‘‘۔ واپسی پر جب میں افغانستان کی طرف سے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، تو چترال اسکائوٹس کے ایک جوان نے بڑی رعونت سے مجھے کہا: ’’بیگ کھولو‘‘۔ میں نے جواب میں کہا: ’’کیا آپ تمیز سے بات نہیں کر سکتے؟ میں ایک پاکستانی شہری ہوں‘‘۔ مطلب یہ کہ ہم کتنی بھی نیم دلانہ کوششیں کرلیں، پاک افغان تعلقات ان پاکستانی اہلکاروں کی موجودگی میں نہیں سدھر سکتے۔
اس سال ماہ مارچ میں ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز‘ (IRS)، پشاور کے تحت پشاور یونی ورسٹی میں پاک افغان تعلقات پر ایک روزہ مذاکرہ منعقد کیا تھا۔اس مذاکرے میں کئی پاکستانی اہم شخصیات کے علاوہ افغانستان کے عمائدین بھی شریک تھے۔ اسی پروگرام کے دوران یہ تجویز آئی کہ اسی نوعیت کا ایک پروگرام افغانستان میں بھی منعقد کیا جائے۔گذشتہ سال۱۵ ؍اگست کو افغانستان کی قیادت میں جو تبدیلی عمل میں آئی تھی، اس پرپاکستان میں بھی عوامی پسندیدگی کا اظہار ہوا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں افغانستان کی نئی قیادت اہم کردار ادا کرے گی۔
قیامِ پاکستان اگست۱۹۴۷ء کے فوراً بعد سے آج تک، افغان حکومتوں کی جانب سے پاکستان کی مخالفت ایک ایسا طرزِ عمل ہے، جس کو ایک عام پاکستانی سمجھنے سے قاصر ہے۔اس دوران جولائی ۱۹۷۳ء میں افغانستان میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اور پھر کمیونسٹ عناصر غالب آگئے۔ دسمبر ۱۹۷۹ء میں اشتراکی روس کا قبضہ ہوا۔لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان میں پناہ لی، جن کی بھرپور مہمان نوازی کی گئی۔پھر ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت آئی، مزید مہاجرین پاکستان آئے۔ ۷؍اکتوبر ۲۰۰۱ء کو امریکی قیادت میں حملے شروع ہوئے۔ ۲۰سال تک افغانستان پر ناٹو مسلط رہااور افغان طالبان کی مزاحمت جاری رہی۔ اس پورے عرصے میں پاکستان کی حکومت اور عوام افغان قوم کا ساتھ دیتے رہے۔اس کے باوجود پاکستان مخالفت کا پر نالہ اپنی جگہ قائم رہا اور گاہے گاہے اس کا اظہار ہو تا رہا، چاہے وہ مہاجر کیمپوں میں مقیم نوجوان ہوں یا برطانیہ میں پاک افغان کرکٹ میچ کے تماشائی، پاکستان کی مخالفت کے نعرے گونجتے رہے۔اس صورتِ حال کو دیکھ کر عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟ ہمارا قصور کیا ہے؟
۲۰۱۵ء میں کا بل کے ہو ٹل انٹرکانٹی نینٹل میں ایک علاقائی کانفرنس میں شرکت کا مجھے موقع ملاتھا، جو کابل ہی کے ایک تھنک ٹینک ’دی سنٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز [تاسیس: جولائی۲۰۰۹ء- CSRS] نے منعقد کی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ایران اور تاجکستان کے نمایندے بھی شریک تھے۔ اس وقت میری تقریر کے بعد افغان صحافیوں کے ایک ہجوم نے مجھے گھیر کر سوال کیا: ’’پاکستان افغانستان کے امن کو کیوں برباد کر رہا ہے؟‘‘
اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان کے قیام، اگست ۲۰۲۱ء کے بعد ایک اُمید پیدا ہو ئی کہ اب دوطرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ لیکن پھر ایسے اُوپر تلے واقعات سامنے آنے لگے، جس سے تاثر ملا کہ ایں خیال محال است۔کہیں پرپاکستانی پرچم ہٹایا یا جلایا جا رہا ہے اور کہیں پر سرحدی باڑ کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک افغانــ ’’جنرل‘‘ کے دھمکی آمیز بیانات نشر ہورہے ہیں اور سرحد پار سے فائرنگ اور جوابی فائرنگ کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں ۔پاکستان کے ضم شدہ قبائلی علاقوں میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کی طرف سے پاکستانی افواج پر حملے اور فوجی جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔
اس صورتِ حال میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، پشاور نےفیصلہ کیا کہ ایک نمایندہ وفد کے ساتھ کابل جائیں اور وہاں کے اہل دانش اور اہل حل و عقد کے ساتھ بیٹھ کر ان موضوعات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔
چنانچہ، ہم نے از خود ’سی ایس آر ایس‘ کابل کے صدر سے رابطہ کرکے تجویز پیش کی کہ اس نوعیت کا ایک پروگرام کرنا چاہیے۔انھوں نے جواب دیا کہ ہم امارت اسلامی کے خارجہ امور کی وزارت سے اجازت کے بعد آپ کو مطلع کردیں گے۔ اس دوران پشاور میں موجود افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ سے ملاقات میں بھی یہ تجویز دُہرائی۔ انھوں نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے اٖفغان وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے ہمیں مطلع کیا کہ ’’اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جتنے افراد کو ویزے جاری کرنے کی ضرورت ہے، وہ ہم فراہم کریں گے‘‘۔ بالآخر یہ طے ہو گیا کہ ۱۹ جون ۲۰۲۲ء بروز اتوار کابل انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں ایک علاقائی کانفرنس دونوں ادارے مل کرمنعقد کریں گے، جس میں پاکستان ،افغانستان اور ایران کے نمایندے شرکت کریں گے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور دوحہ قطر میں افغان امریکا مذاکرات کی معروف شخصیت الحاج محمد عباس ستانکزئی اور دیگر اٖفغان زعماء افتتاحی پروگرام میں شریک ہوںگے۔
اس پروگرام میں افتتاحی اور اختتامی سیشن کے علاوہ ۵ ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے۔ باہمی تجارت،تعلیم ،صحت،کلچر اور میڈیا اور افغان مہاجرین کے مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیال کے لیے پانچ علیحدہ سیشن بیک وقت منعقد کرنا تجویز کیے گئے، جس میں پاکستانی وفد کی نمایندگی درکار تھی۔چنانچہ صوبائی سطح پر اہل دانش و ماہرین سے رابطے کر نا شروع کیے اور آہستہ آہستہ ایک متوازن نمایندگی کے ساتھ وفد، افغانستان کے سفر کے لیے تیار ہوگیا، جن کے پاسپورٹ جمع کرکے ویزوں کے لیے قونصلیٹ میں جمع کرا دیئے گئے۔
افغان قونصلیٹ جنرل حافظ محب اللہ صاحب نے شرکائے سفر کو ظہرانہ دیا، جن کی تعداد ۴۰ افراد پر مشتمل تھی ۔ لیکن جب اس ظہرانے کی تصویریں میڈیا میں آئیں، تو اس سفر پر جانے کے خواہش مند احباب کی تعداد میں اضافہ ہو گیا،اور ہمارے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی کہ اتنے افراد کو کیسے لے کر جائیں اور وہاں ان کے طعام و قیام کا بندوبست کیسے کریں؟ مختصر یہ کہ جب ۱۸جون کی صبح کو ہم پشاور سے طور خم کی طرف روانہ ہو ئے تو وفد کی تعداد ۶۰ تک پہنچ چکی تھی۔
طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے۔ مشہور تاریخی درہ خیبر کا آغاز طورخم سے ہو تا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان ۲۶۴۰ کلومیٹر طویل سرحد، جو طویل ’ڈیورنڈلائن‘ کے نام سے مشہور ہے، پر ۱۲ مقامات ایسے ہیں جو باقاعدہ راہداری (کراسنگ) کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ ان میں سے چھ پوائنٹ اس وقت استعمال ہو رہے ہیں،جب کہ چھ بند ہیں۔
وفد کے شرکا کا شوق اور جذبہ قابلِ دید تھا۔ ہم پشاور سے طورخم بارڈرپر پہنچے تو وہاں پر عجیب افراتفری کی صورتِ حال دیکھنے کو ملی۔ اس راہداری کو روزانہ ہزاروں افغان باشندے دونوں طرف سے استعمال کرتے ہیں،جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی شہری بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ایک بین الاقوامی راہداری کے شایان شان انتظامات ناپید ہیں ۔ امیگریشن ہال جہاں کھڑکیوں میں بیٹھا ہوا عملہ آپ کے پاسپورٹ اور ویزے وغیرہ کو چیک کرتا ہے، وہاں مسافروں کے لیے نشستوں، پینے کے پانی، ٹوائلٹ، ائیرکنڈیشنز وغیرہ کا کو ئی انتظام نہیں ہے۔ ہڑبونگ اور دھکم پیل کے افسوس ناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہاں پر معلوم ہوا کہ دو سال سے بین الاقوامی سطح کی امیگریشن عمارت بنانے کا ٹھیکہ پاکستان کے سرکاری شعبے ’نیشنل لاجسٹک سیل‘(NLC) کو دیا گیا ہے، لیکن بوجوہ نہیں بن پا رہا۔جس کی ذمہ داری ،پاکستانی حکام، افغان حکومت کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں ۔ افغان شہریوں سے پیسے لے کر پاکستان آنے کی اجازت دینے کے الزامات بھی عام ہیں۔ پاکستانی عملہ جو زیادہ تر بغیر وردی کے ہو تا ہے، اس کا رویہ افغان شہریوں کے ساتھ درشتگی اور بے عزّتی کا ہے۔
پاکستانی امیگریشن سے نکل کر ایک طویل راہداری میں سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل ہے۔ افغان علاقے میں داخلے پر ان کے عملے نے ہمارا استقبال کیا۔ ان کا امیگریشن ہال خاصا بہتر تھا اور عملہ بھی قدرے نفیس رویہ اختیار کیے ہو ئے تھا ۔وہاں نشست گاہ، پانی اور وضو کا بندوبست تھا اور ساتھیوں نے وہاں نفلی نماز بھی ادا کی۔ پھر ایک طویل گزر گاہ سے گزر کر ہم افغانستان میں داخل ہو ئے۔اس پورے راستے میں پاکستانی اور افغانی بچوں کی ایک کثیر تعداد سے آپ کا واسطہ پڑے گا، جن میں بھیک مانگتے بچوں کے علاوہ ویل چئیر اور سامان ڈھونے والے مزدور بچے شامل ہیں ۔یہ مشاہدہ شاید ہی آپ کو کسی اور ملک میں نظر آئے۔
افغانستان میں داخلے کے بعد جلال آباد اور پھر کا بل کا سفر بھی ایک دلچسپ روداد ہے۔ بہرحال، سیدھی اور بڑی شاہراہ پر گاڑیاں سفر پر روانہ ہوئیں۔ جگہ جگہ بازار اور دکانیں سامان سے بھری ہو ئی نظر آرہی تھیں، جو ایک بدحال نہیں بلکہ خوش حال افغانستان کی تصویر تھی۔جلال آباد کے قریب دروانٹہ ڈیم کے قریب جس ہوٹل میں ہم نے بہترین کھانا کھایا، اس کا معیار پاکستانی موٹروے پر قائم ہو ٹلوں سے کم نہیں تھا۔کابل تک پہاڑی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم نے چارڈیموں اور بجلی گھروں کا مشاہدہ کیا، جو مختلف ممالک نے تعمیر کیے ہیں ۔ راستے میں جگہ جگہ چیک پوسٹیں تھیں۔جہاں افغانی اہلکار، امارت اسلامی کا پرچم لیے کھڑے تھے۔ وہ معمولی پوچھ گچھ کے بعد فوراً آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیتے ۔غرض یہ کہ کابل تک ہمارا سفر خاصا خوش گوار گزرا اور طورخم پر ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ہاتھوں جس تکلیف کا شکار ہو ئے تھے،افغان اہل کار بھائیوں نے اس کا ازالہ کردیا ۔
اتوار ۱۹ جون ۲۰۲۲ء کو کابل کے انٹر کانٹی نینٹل ہو ٹل میں سیمی نار منعقد ہوا۔جس کا موضوع ’’ افغانستان کے پڑوسی ممالک سے تعلقات کا مستقبل‘‘ تھا۔ ’سی ایس آر ایس‘ کے ذمہ داران نے ہوٹل کے ’بامیان ہال‘ میں بہترین انتظامات کر رکھے تھے۔۲۰۰ سے زائد مہمان وقت پر پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔چار افغان وزراء اور امارت اسلامی کے دیگر زعماء موجود تھے۔ ۳۰کے لگ بھگ افغان ٹی وی چینلز کی نمایندگی بھی تھی۔ یا درہے کہ ان دنوں کابل سے کو ئی اخبار شائع نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے دوران پابندیا ں اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو چکے ہیں، البتہ ٹی وی نشریات جاری ہیں۔لیکن وہ بھی اشتہاری مواد کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکارہیں۔ چینلز کے نمایندہ رپورٹروں میں خواتین کی تعداد نمایاں تھی ۔
سیمی نار کے افتتاحی سیشن میں افغان وزراء محمد عباس ستانکزئی،وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد اور وزیر مہاجرین امور قاری محمود شاہ نے خطاب کیا، جب کہ پاکستانی وفد کی نمایندگی راقم نے کی۔ ’سی ایس آر ایس‘ ،جمعیت الاصلاح اور دیگر افغان زعماء نے بھی خطاب کیا۔یہ ایک بھر پور سیشن تھا، جس میں تمام مقررین نے پڑوسی ممالک کے درمیان یگانگت،بھائی چارے، باہمی تعاون آمدورفت اور تجارت کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے پر زور دیا ۔افغان نائب وزیر خارجہ نے خاص طور پر ایک نکتہ بیان کیا کہ ’’پاکستان اور ایران کے عوام کو افغان قوم کا شکرگزار ہو نا چاہیے کہ انھوں نے جان و مال کی قربانی دے کر پہلے روسی استبداد اور پھر امریکی جارحیت کو اس خطے میں ناکام بنایا اور اس طرح پڑوسی ممالک کو عالمی طاقتوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا‘‘۔انھوں نے پڑوسی ممالک کا افغان مہاجرین کی مہمان نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہو ئے اپیل کی کہ وہ ’’مزید کچھ عرصے کے لیے مہاجرین کا بوجھ برداشت کریں ‘‘۔ انھوں نے افغان باشندوں کی ان ممالک میں آمدورفت میں آسانیاں پیدا کرنے اور ویزوں کے اجرا میں اضافے پر زور دیا۔
وزیر صحت نے اپنے شعبہ میں پڑوسی ممالک سے تعاون پر زور دیا۔ افغانستان میں صحت کی سہولتوں کی ترقی، میڈیکل تعلیم و تربیت خاص طور پر پوسٹ گریجویٹ استعدادکار کے شعبوں میں پاکستان اور ایران افغانستان کی بہت مدد کر سکتے ہیں۔وزیر مہاجرین نے دونوں پڑوسی ممالک کا شکریہ اد اکیا کہ انھوں نے مشکل وقت میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں بسایا۔ انھوں نے پاکستان میں خاص طور پر جماعت اسلامی کی خدمات کا ذکر کیا، جن کی قیادت اور کارکنان نے اوّل روز سے افغان مہاجرین کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار کیا، جن کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے عناصر بھی تھے، جنھوں نے مہاجرین کو بھگوڑا قرار دیتے ہو ئے نکالنے کا مطالبہ کیا، لیکن اسلامی جمعیت طلبہ کے لیڈروں نے جن میں سراج الحق اور شبیر احمد خان شامل تھے، سینہ تان کر اورکھلے عام ہمارا ساتھ دیا‘‘۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیرینہ تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہو ئے ایک پُر امن اور مضبوط افغانستان کو پاکستان میں امن و سلامتی کے لیے ضروری قرار دیا۔ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے صحت،تعلیم ،تجارت اور میڈیا کے شعبوں میں باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں کہ امارت اسلامی افغانستان میں سیاحت کو فروغ دے تو بڑی تعداد میں پاکستانی ادھر کا رخ کریں گے۔دوسری تجویز یہ پیش کی کہ امارت اسلامی کسی مناسب مقام پر ایک بڑا انڈسٹریل زون قائم کرے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کو وہاں کارخانے قائم کرنے میں سہولتیں فراہم کرے ۔کسی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے دو شرائط لازمی ہیں:ایک مضبوط اور مستقل حکومت، جو امن و سلامتی کی ضمانت دے سکے، اور دوسرا ٹیکس فری زون یا کم ازکم شرح محصولات ۔یہ دونوں شرائط امارت اسلامی افغانستان پوراکر سکتی ہے۔
افتتاحی پروگرام ہی میں’سی ایس آر ایس‘ کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر عبدالصبوح روئوفی نے بہت مفید تجاویز پیش کیں، خاص طور پر تعلیم و صحت کے شعبوں میںدونوں پڑوسی ممالک افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ماہرین کی تیاری ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔افغان طلبہ و طالبات اندرون و بیرون ملک شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیمی اداروں کی عدم موجودگی اور بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اسناد کی قبولیت ایک سوالیہ نشان ہے۔جمعیۃ الاصلاح کے سربراہ پروفیسر مزمل،ممتاز افغان اسکالر استاد محمدزمان مزمل اور عالم دین اور سابقہ رکن پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد نے بھی فکر انگیز گفتگو رکھی۔
چائے کے وقفے کے بعد سیمی نار کے تمام شرکا کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور دو گھنٹے تک ان گروپوں میں شریک ماہرین نے اپنے شعبے کے مسائل پر تفصیلی غور وغوض کیا۔ تعلیم، صحت، تجارت، میڈیا اور افغان مہاجرین کے عنوانات پر قائم گروپوں نے باہمی تعاون کے موضوعات پر مفید تبادلۂ خیال کیا۔ہر گروپ میں امارت اسلامی کے متعلقہ شعبوں کے حکام بھی شریک تھے اور اہم نکات نوٹ کر تے رہے۔ان تمام گروپس کی روداد کو ریکارڈ کر نے کے لیے ’سی ایس آرایس‘ کی جانب سے افراد مقررتھے جنھوں نے تفصیلی رپورٹ متعلقہ حکام اور ذمہ داران کو بھیج دی ہے۔
میں جس گروپ میں شریک تھا وہ شعبۂ صحت سے متعلق تھا، جس کی صدارت خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق صاحب نے کی، جو ہمارے ساتھ وفد میں شامل تھے، جب کہ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر گلشن حسین فاروقی، آفریدی میڈیکل کمپلیکس کے چیف شاہ جہان آفریدی ،افغانستان کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمد یو سف ،ڈاکٹر خالد رشید، افغانستان کے ڈاکٹروں کی تنظیم کے سینئر ارکان ،وزارتی حکام اور ایران کی وزارت صحت کا نمایندہ بھی موجود تھا۔ اس مجلس میں افغانستان کی وزارت صحت کے سابقہ مشیر ڈاکٹر یوسف نے افغانستان کی صحت عامہ کے حوالے سے بہت جامع تفصیلات بیان کیں، جس کو بہت سراہا گیا۔
تعلیمی گروپ میں پاکستان کی نمایندگی پشاور یونی ورسٹی اور صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں سے منسلک اہم عملی شخصیات نے کی، جن میں پروفیسر ارباب آفریدی، ڈاکٹر سید ظاہر شاہ، پرفیسر فضل الرحمٰن قریشی،پروفیسر بشیر ربانی،محمد اشراق وغیرہ شامل تھے۔ اسی طرح جن پاکستانی کاروباری حضرات نے اپنے گروپ میں گفتگو رکھی، ان میں شاہ فیصل آفریدی،حاجی محمد اسلم ،عجب خان وغیرہ شامل تھے۔ میڈیا کے گروپ میں پاکستان کے اہم ٹی وی چینلز کے نمایندے اور صحافی حضرات محمود جان بابر، فدا عدیل ،رسول داوڑ، سدھیر آفریدی،یوسف علی ،شمیم شاہد اور عالمگیر آفریدی موجود تھے۔ افغان مہاجرین کے مسائل پر بریگیڈیر ریٹائرڈ محمد یو نس ،کاشف اعظم، اور الخدمت فائونڈیشن کے نائب صدر ڈاکٹر سمیع اللہ جان نے نمایندگی کی۔
کانفرنس کے آخری سیشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شبیر احمد خان اور ممتاز عالم مولانا محمد اسماعیل نے خطاب کیا۔ ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت ہوٹل کے بامیان ہال میں ہمارا پروگرام ہورہا تھا، اسی وقت ہو ٹل کے قندھار ہال میں ایک بڑا تجارتی پروگرام حکومت کی زیرنگرانی جاری تھا، جس کے مہمان خصوصی افغانستان کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر تھے، جن کے ہمراہ دیگر افغان وزراء بھی شریک تھے۔ اس پروگرام کا موضوع تھاــ: ’’افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات‘‘۔ جس میں کابل میںموجود تمام بیرونی ممالک بشمول پاکستان، ہندستان، چین، روس اور عرب و یورپی ممالک کے سرمایہ کار اور عالمی کمپنیوں کے نمایندے سیکڑوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ مطلب یہ ہے کہ امارت اسلامی،افغانستان کی اقتصادی صورتِ حال کو بدلنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کوشاں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات اُٹھا رہی ہے ۔ (جاری)
اسلامی تحریک کا مقصد اسلامی نظام عدل کا تعارف، اور اس کے قیام کی منظم جدّوجہد ہے۔ ـ اس کام کا اصل مقصد دنیا اور آخرت میں اللہ کی خوشنودی اوراس کی نعمتوں کا حصول ہے ۔ـ اسلامی تحریک کا مشن دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے، جسے ـقرآن میں انبیا ؑکی بعثت کا مقصد قرار دیا گیا ہے:
ہم نے اپنے رسولوںؑ کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اُتارا، جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اُس کی اور اُس کے رسولوںؑ کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ (الحدید ۵۷: ۲۵)
اللّہ عزّوجل نے زمین پرانسانیت کا آغاز اپنے نبیٔ اوّل آدم علیہ السلام سے کیا اور یوں اس مشن کا افتتاح ہوا ـ ۔ رسول اﷲ صلی الله عليہ وسلم کے وصال کے بعد یہ ذمّہ داری امّت مسلمہ کے کاندھوں پرآپڑی ہے ـ :
اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہلِ کتاب ایمان لاتے تو انھی کے حق میں بہتر تھا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیش تر افراد نافرمان ہیں۔(اٰل عِمرٰن۳: ۱۱۰ )
اسلامی تحریک کسی لگے بندھے تنظیمی ڈھانچے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک سیل رواں ہے، جو بدلتے ہوئے حالات میں زمینی حقائق کی معرفت میں نئے راستے تلاش کرتی ہےاور مقامی افراد کار اس جدّوجہد کے جزولاینفک ہیں۔
امریکا میں ایک مؤثّراسلامی تحریک کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کی تاریخ ، جغرافیہ اور معاشرت کا ادراک کیا جائے ۔ـ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس مشن کی تنظیم، وقت اور جگہ کے عین مطابق ہو۔ ـ یہاں ہم امریکی معاشرے کے چند عناصر کا ذکرکریں گے، جن سے واقفیت ضروری ہے:
۱- مقامی مسلم آبادی:امریکا، مغربی دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں مقامی مسلمان کمیونٹی چارصدیوں سے موجود ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے تک امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی امریکی سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔ ان کے برعکس مغرب کے دوسرے ممالک میں مسلم اقلیتوں کی یہ صورتِ حال نہیں ہے۔ـ برطانیہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت کا تعلق برّصغیر سے ہے۔ـ جرمنی میں ترکی باشندے سرفہرست ہیں۔ ـ فرانسیسی مسلمانوں میں افریقیوں کا تناسب زیادہ ہے۔
امریکا کے ساحلوں پر ۱۷ویں صدی (بعد از ۱۶۱۹ء) سے افریقا سے اغوا کیے ہوئے مردوخواتین غلاموں کی جبری آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک عرصے تک چلتا رہاـ۔ ان مظلوموں میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد تھی ـ، جن میں بہت سے لوگوں نے اپنے ایمان کو سلامت رکھاـ ۔
۱۹۷۰ء سے پہلے مقامی امریکی ہی مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے کےدوران شہری حقوق کی مہم میں ان مقامی مسلمان رہنماؤں کا بڑا کردار تھا ۔ـ مسلمانوں کے مراکز، مساجد، اسلامی مکاتب وغیرہ اندرون شہر ہوا کرتے تھے، جہاں سیاہ فام مسلمانوں کی اکثریت تھیـ ۔
افریقی امریکی مسلمانوں نے پچھلے دو سوسالوں میں متعدد اسلامی اور نیم اسلامی تنظیموں اور تحاریک کی داغ بیل ڈالی۔ ـ ان اداروں اور رہنماؤں نے اس سرزمین کے مقتدر اور جابر لوگوں سے کش مکش کو زندہ رکھا، ـ اس طرح یہاں پر اسلام، عدل کی علامت بن کر اُبھرا ۔ـ سیاہ فام امریکیوں نے اسلام کے سایۂ عاطفت میں اپنی مظلومیت کا مداوا اور آزادی کا راستہ تلاش کیا ـ ۔
۲- مسلم اشرافیہ تارکین وطن: ۱۹۶۵ءمیں جاری کردہ ’امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ‘ کی منظوری کے بعد مسلم ممالک سے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آنا شروع ہوئے۔ـ ان کی اکثریت نے تعلیم کے بعد امریکا میں ہی رہایش اختیارکرلی ۔ـ امریکی نظام نے انھیں وہ مواقع فراہم کیے، جو سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کومیسّرنہیں تھے ـ ۔
مسلم ممالک سے آنے والے باشندے معاشی اور تعلیمی اعتبار سے بہت بلند تھے۔ ـ امیگریشن قانون کی بنیاد میرٹ تھی۔ـ اس کے نتیجے میں ترقّی پذیر دنیا کے بہترین دماغ امریکا آئے اور یہیں بس گئےـ۔ بعد میں ان کے رشتہ داروں کی آمد شروع ہوئی۔
مسلم ممالک سے نقل مکانی کا یہ سلسلہ ۱۹۶۵ء سےآج تک جاری ہے ـ۔ ـ مقامی مسلمان اپنے غریب محلّوں تک محدود ہیں، مگر ان کے برعکس اسلامی تنظیموں ، مساجداور دینی اداروں پر ایشیائی اورعرب مسلم تارکین وطن کی مکمّل اجارہ داری ہے۔ ـ
ان نوواردان نے پچھلے ۷۰ برسوں میں کئی قومی اسلامی تنظیمیں اور ادارے قائم کیے ــ۔ انھی کے ذریعے امریکا کے تمام بڑے شہروں میں مساجد کا جال بچھادیا گیا ہے۔ ـ ان تنظیموں اور مساجد کے رہنما ، امام اور بورڈ ارکان عام طور سے اشرافیہ تارکین وطن ہوتےہیں۔ ـ یہ ادارے ما لی اعتبا ر سے خودکفیل ہیں اور تارکین آبادی میں ان کا ایک مضبوط حلقۂ اثر ہے ــ ۔
۳- نسلی تنـوّع : امریکا کی آبادی رنگ و نسل کے اعتبارسے انتہائی متنوع ہے۔ ـ تقریباً ہرزبان بولنے والے یہاں نظر آتے ہیں۔ ـ سفیدفام ، سیاہ فام اور لاطینی اکثریتی گروہ ہیں۔ ـ یہاں کی مسلم آبادی بھی بہت سارے رنگوں اور نسلوں پر مشتمل ہے۔ ـ مقامی افریقی امریکی باشندے مسلمانوں کی آبادی کا ۲۵ فی صد ہیں ۔ـ نومسلموں میں ان کا تناسب نصف کے قریب ہے۔ ـ لاطینی آبادی میں بھی اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ـ ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں ہسپانوی مسلمانوں کی مختلف جماعتیں موجود ہیں ـ۔ بدقسمتی سے یہ تنوّع مسلم تنظیموں اورمساجد کے ذمہ داران میں نظرنہیں آتا ہے۔ وہاں کے ارباب بست و کشاد صرف دیسی اور عرب مہاجرین ہیں، اور کہیں کہیں ان کی اگلی نسل نظرآرہی ہے۔
۴- نسلی امتیازاورغلامی: غلامی اور نسلی عصبیت امریکا کی سرشت کا حصّہ ہے۔ ـ اس وحشی نظام کا آغاز مقامی امریکی انڈین باشندوں کی زمینوں پر قبضوں سے ہوا۔ ـ مفت بیگارکے لیے افریقا سے بے گناہ لوگوں کو اغوا کیا گیا اور غلام بنا کر امریکا میں فروخت کردیا گیا، توـ اس مال مفت اور دل بے رحم کے ساتھ یہ ملک ترقّی کرتا گیا ـ۔ افریقی غلاموں نے امریکی زرعی زمینوں پر کپاس، تمباکو، کافی، زیتون ، انگور، گنا اور دوسری فصلیں کاشت کیں۔ ـ اس غلامی کا سلسلہ کئی صدیوں تک چلتا رہا۔ ـ اس کے ظلم و سفاکیت پر بےشما ر کتابیں اورفلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ـ مشہورزمانہ کوکا کولا مشروب کا اصلی عنصر’کولا نٹ‘ بھی یہی غلام افریقا سے لے کر آئے تھے۔ اس سفّاک اور دہشت گرد غلامی کے ذریعے سفید برتری (white supremacy) کی ناقابلِ شکست معیشت تعمیرہوئی ـ۔
امریکی نظامِ معیشت و معاشرت میں انسان کو قانوناً خریدا ، بیچا اور ملکیت بنایا جاسکتا تھا، تاہم ـ امریکا میں غلامی کے نام بد لتے رہے ہیں ـ۔ ۱۸۶۳ءمیں غلامی کے رسمی خاتمے کے بعد یہ شیطانی نظام ’سیاہ قانون‘ (Black Codes) اور اس کےبعد ’جم کروقانون‘ (Jim Crow Law) کے نام سے ۱۹۶۵ء تک چلتا رہا ۔ـ اس دوران میں سیاہ فام آبادی، بنیادی حقوق کے بغیر جانوروں کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ـ
غلامی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے۔ امریکی دستور کی تیرھویں ترمیم (۱۸۶۵ء) نے غلامی کا قانونی خاتمہ کیا، لیکن اس کی ایک شق نے اسے منطقی طور پر برقرار رکھا۔ ـ اس شق کے مطابق جرم کی سزا کے طور پر مجرمین کو غلام بنایا جاسکتا ہے۔ ۱۹۶۰ءـ کی دہائی میں سول رائٹس مہم کی کامیابی کے بعد بظاہرتمام ظالمانہ قوانین کا خاتمہ ہوگیا ۔ـ منشّیات کے خلاف جنگ (Drug War) کا آغاز ۱۹۷۱ء سے ہوا۔ ـ اصل میں یہ سیاہ فام اور ہسپانوی باشندوں کی غلامی کا جدید ایڈیشن ہے۔ـ اس کے نتیجے میں امریکا کی جیلیں وسیع پیمانے پرآباد ہوئیں۔ ـ ان قیدیوں کی تعداد تمام صنعتی ممالک کی جیلوں سے زیادہ ہے۔ ـ افریقی امریکی نوجوانوں کا ایک بڑاحصہ اس وقت جیلوں میں ہےـ ۔
۵- معاشی درجہ بندی: اقتصادی درجہ بندی امریکی معاشرے کی ایک اور شناخت ہے۔ یہاں رہایشی محلّوں کا تعیّن ساکنان کی آمدنی سے ہوتا ہے۔ امریکا میں ہائی سکول (۱۲جماعتوں تک) تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ـ تعلیمی اخراجات مقامی حکومت کی ذمّہ داری ہے اور مصارف کا بڑا حصّہ مقامی پراپرٹی ٹیکسوں کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ ـ اس کے نتیجے میں امیر محلّوں کے اسکولز وافر وسائل سے مالامال ہوتے ہیں۔ـ طلبہ کے لیے تمام آسایشیں موجود ہوتی ہیں۔ ـ ان اسکولوں سے فارغ التّحصیل طلبہ معاشی طور پر بہت جلد بلند مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف غریب محلّوں کے اسکول، یتیم خانوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ـ واضح رہے کہ ترقّی یافتہ ممالک میں یہ ناانصافی صرف امریکا میں پائی جاتی ہے۔ ـ یہ تعلیمی نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ غریب خاندانوں (رنگدار محلّوں) کے طلبہ اعلیٰ ملازمتوں سے محروم رہیں اور جرائم کی دنیا میں داخل ہوجائیں۔ ـ اس ظالمانہ تعلیمی نظام کے ذریعے امریکا کی جیلوں میں مفت بیگار کی سپلائی برقرار رہتی ہے۔ ـ سرکاری مدارس کا یہ نظام معاشرے میں نسلی اور معاشی تفاوت کا شرطیہ ضامن ہے ـ۔
بدقسمتی سے امریکا کی اسلامی تنظیموں اور مساجد نے آمدنی و اخراجات کے لیے ایسے ہی طریقے کا انتخاب کیا ہے۔ ـ اس کے نتیجے میں مسلم اشرافیہ علاقوں میں عالیشان مساجد جگمگاتی ہیں ، اسلامی مدارس جدید سہولیا ت کے ساتھ موجود ہیں۔ ـ دوسری جانب اندرون شہر(inner cities) کے اسکول اور مساجد کھنڈرکا منظرپیش کرتے ہیں ـ ۔
۱۹۳۰ء سے ۱۹۷۰ء کےعشروں تک امریکا میں تقسیم دولت کا معاملہ بہتر ہورہا تھا۔ ـ متوسط طبقہ مستحکم تھا اور ایک معقول معیارزند گی کا حصول (غیر افریقی امریکی آبادی کے لیے) بہت مشکل نہ تھا۔۱۹۸۱ء میں صدر رونالڈ ریگن نے اقتصادی بحالی ٹیکس ایکٹ پر دستخط کیے۔ ـ اس کے ذریعے محصول کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ـ یہ لعنت امریکا میں ارتکاز دولت کی نہ رُکنے والی تحریک ثابت ہوئی۔ ۱۹۸۰ء سے آج تک دولت چند ہا تھوں ، خاندانوں اور کارپوریشنوں میں مرکوز ہورہی ہےـ۔
۶- ذات پات کا نظام : امریکی معاشرہ ذات پات (Caste) کے معا ملے میں ہندو معاشرے سے بہت مختلف نہیں ہے۔ اس موضوع پر ـ ازابل ولکرسن کی کتاب Caste: Origins of Our Discontents ایک مفید اور معلوماتی تحقیق ہے۔ ـ امریکا میں ذات پات کا نظام سترھویں صدی سے شروع ہوا، جب افریقی انسانوں کو غلام بناکرلایا گیا ۔ـ سیاہ فام غلام اسفل ترین اورسفید فام زمین دار اعلیٰ ذات والے قرار پائے۔ـ ان دوانتہاؤں کے درمیان ابتداً یورپی ملازمین اور دیگرغریب گوروں کا شمارہوتا تھا ـ۔
ذات پات کا یہ نظام آج بھی بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ـ بدقسمتی سے امریکا میں موجود مسلم کمیونٹی کواس موضوع سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ ـ عام طورپریہ سمجھا جاتا ہے کہ ذات پات کی شناخت صرف بھارت تک محدود ہے، حالانکہ ـ امریکا میں ذات پات کے نظام اور سرمایہ داری نے ایک ایسی معاشرت جنم دی ہے، جہاں انسان طبقاتی بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ـ
امریکا کی اسلامی تحریک کے کارکنان اور قیادت کو اس نظام کی گہری معرفت ہونی چاہیے۔ ـ پھر اہم سوال یہ بھی ہے کہ خود امریکی مسلمان اس ذات پات کے نظام میں کہاں کھڑے ہیں؟
یہاں موجود مسلم تارکین وطن کی اکثریت (جو ۶۰ کے عشرے سے آنا شروع ہوئے) جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے آئی ہے۔ ـ ذات پات کے اس نظام میں یہ طبقہ امریکی ’سفید فام برہمن‘ سے قریب ترہے۔ ـ ان کے لیےیہ زمین سونے کی کان (Land of Opportunity) ثابت ہوئی ہے۔ ـ دوسری طرف امریکی مسلمانوں کی ایک چوتھائی تعداد مقامی سیاہ فام مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو چار سو برسوں سے انتہائی تلخ زندگی گزاررہے ہیں۔ ـ یہ لوگ حقیقی معنوں میں امریکی دلت ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم امریکا، ’گندمی برہمن‘ اور ’سیاہ دلت‘ ذاتوں پرمشتمل ہے۔
امریکا میں برپا اسلامی تحریک کی صورت گری جن اُمور کی روشنی میں کی جا نی چاہیے، ـ یہاں ان چند ضروری عناصرکا ذکر کریں گے: ـ
۱- مقامی تحریک: امریکی اسلامی تحریک کا نصب العین اس معاشرے میں اقامت قسط و عدل کی جدوجہد ہے، لیکن اس کی نہج مسلم ممالک کی تحاریک سے مختلف ہوگی۔ـ عالمی اسلامی تحریک کے دانش ور محترم خرم مرادؒ اپنے مضمون: ”مغرب میں اسلامی تحریک:چند مسائل کا تجزیہ“ میں فرماتے ہیں ’’ہمیں مغربی دنیا کی اسلامی تحریک کے لیے ایک مختلف نہج اور اپروچ کی ضرورت ہے، جو یہاں کے حالات و عوامل کو ملحوظ نظر رکھے۔ ـ یہ تحریک یقیناً مسلم اکثریتی معاشرے میں رائج الوقت انداز سے مختلف ہوگی‘‘۔پھر وہ وضاحت کرتے ہیں:’’ یہ فریم ورک کیسا ہوگا؟ اس نہج کا کلیدی نکتہ مقامی افراد کی شمولیت سے منسوب ہے۔ ـ اس تحریک کا حتمی مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک یہ جدوجہد مقامی ہاتھوں میں نہ ہوںـ‘‘ (بحوالہ Modern Islamic Movement ،مرتبہ: ڈاکٹر محمد ممتاز علی)۔دوسرےالفاظ میں اس تحریک کے کارکنان اور قیادت میں مقامی مسلمانوں کا کلیدی کردار ہونا چاہیے۔
خرم مراد صاحب کے مطابق جو مقامی نو مسلم اس تحریک کی دعوت کو قبول کریں ان کی ایک علیحدہ تنظیم بنائی جائے، ـ جہاں وہ آزادی کے ساتھ اسے مقامی ضرورتوں اور معیارات کے مطابق چلاسکیں۔ ـ ایک اور دلچسپ نکتہ وہ مقامی اور تارکین افراد کے انضمام کے بارے میں لکھتے ہیں: ”میرے خیال میں مقامی نومسلموں کو موجودہ اسلامی تنظیموں میں (جہاں غیرملکی مسلمانوں کی اکثریت ہے) داخل کرنا قطعاً فائدہ مند نہیں ہے، ـ ایسا ا نضمام کئی مسائل پیدا کرتا ہے ـ‘‘۔
اقامت دین و عدل کے لیے مقا می تحریک کا تصوّر کوئی اجنبی بیانیہ نہیں ہے۔ ـ قرآن میں یہ ذکر کئی مقامات پر ہے ـ۔سورئہ ابراہیم آیت ۴میں ارشا د ہوتا ہے ـ: ’’اور ہم نے ہر رسولؑ کو اُس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انھیں سمجھا سکے‘‘۔انبیاء و رسل اس جدّوجہد کے لیے رول ماڈل ہیں اور وہ سب مقامی تھے۔ ـ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں اقامت دین وقسط کے لیے مقامی انبیا ورُسل کا انتخاب کیاـ۔ وہ رسلؑ اپنی قوم کے لیے دعوت و ہدایت کا مشن لے کراُٹھے ، اپنے معاشروں میں پلے بڑھے ،اور ان کو وہاں کی تہذیب ، ثقافت اور روایات کی گہری معرفت تھی ـ ۔
پھر نوح علیہ السلام کی دعوت کا اسلوب بیان ہوتا ہے:’’نوحؑ کی قوم نے رسولوںؑ کو جھٹلایا ، جب ان کے بھائی نوح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟‘‘ (الشعراء ۲۶:۱۰۵-۱۰۶)۔ـ یہاں نوحؑ اپنی قوم سے ایک بھائی کی حیثیت سے مخاطب ہیں ۔ـ اگلی آیات میںہود ، صالح اور لوط علیہم السلام یہی برادرانہ پیغام اپنی اپنی قوم کو پیش کرتے ہیں ۔ـ کسی معاشرے میں دعوت اور اقامت کی تحریک کے لیے وہ لوگ زیادہ مخاطب ہیں، جو اس قوم کے بھائی اور اس زمین کے بیٹے ہوں ـ۔
سورئہ ہود (آیات۸۴-۸۵ )میں شعیبؑ کا ذکراس طرح ہوتا ہے:’’اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم الله کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں… اور اے میری قوم، انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگو ں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ‘‘۔ شعیبؑ یہاں اپنے دعوتی سامعین کو ’میری قوم‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ ـ اس سورہ میں ہود ، صالح اور نوح علیہم السلام بھی اسی طرح اپنے سامعین اور ناظرین سے خطاب کرتے ہیںـ۔
انھی رسولوں کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے، اسلامی تحریک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقامی امریکی مسلمانوں پر اپنی توجّہ مرکوز کرے۔ ـ امریکا میں اسلامی جدّوجہد، سیاہ فام مسلمانوں کے بغیر نامکمّل ہے۔ـ ممتاز امریکی مسلمان دانش ور شرمن جیکسن Islam and The Blackamerican میں لکھتے ہیں:’’امریکا میں اسلام، افریقی امریکی مسلمانوں کے ذریعے مقامی دین بن سکتا ہے۔ سیاہ فام مسلمانوں کے بغیر امریکا میں اسلام یتیم ، اجنبی اورصرف ایک غیرملکی مظہر ہے‘‘۔
۲- ایک تسلسل:اسلامی تحریک زمان و مکان سے کلّی آزاد نہیں ہوتی ، یہ ایک جہدمسلسل کا نام ہے۔ ہر تحریک اپنے سے پہلی برپا کی ہوئی جدّوجہد کے ثمرات قبول کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر نئی جہت اور سمت متعیّن کرتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے تجدیدواحیائے دین میں ہندستان میں برپا ہونے والی اسلامی تحریکوں کا بہت تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ ان میں موجود خوبیوں اورخامیوں کی نشاندہی کی اوران تجزیوں کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ آباد شاہ پوری اپنی کتاب سیّد بادشاہ کا قافلہ میں تحریک مجاہدین کا تجزیہ کرتے ہیں: ’’المیۂ بالاکوٹ کے بعد یہ تحریک رُکی نہیں۔ سیّد احمد شہیدؒ نے اپنے چند مخلص قائدین کو اپنی شہادت سے پہلے شمالی ہندستان (صادق پور) بھیج دیا تھا۔ ان نفوس قدسیہ نے احیائےدین کے مشن کو تقریباً سو سال تک زندہ رکھا اور اس جماعت کی شاخیں متّحدہ ہندستان کے مختلف شہروں میں قائم کی گئیں۔ سیّد احمد شہیدؒ کی شہادت ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ میں ہوئی اور ۱۹۳۱ء میں حیدرآباد دکن سے مولانا مودودیؒ نے اپنی جدّوجہد کا آغاز کیا۔
امریکا کی اسلامی تحریک بھی اس سرزمین پر چلنے والی پرانی تحریکوں کا تسلسل ہوگی۔ افریقی غلام اس خطّے میں دین کے پہلے علَم بردار تھے۔ انھوں نے بد ترین حالات میں یہاں پر دین اسلام کوزندہ رکھا۔ ان کی نسل سے میلکم ایکس [مالک الشباز: ۱۹مئی ۱۹۲۵ء۔۲۱فروری ۱۹۶۵ء]، والس فردمحمد [۲۶فروری ۱۸۷۷ء- ۱۹۳۴ء]، اور الایجا محمد [سابق الایجاد رابرٹ پول: ۷؍اکتوبر ۱۸۹۷ء-۲۵فروری ۱۹۷۵ء]، وارث دین محمد [۳۰؍اکتوبر ۱۹۳۳ء- ۹ستمبر ۲۰۰۸ء]، لوئیس فرقان محمد [سابق، یوجین والکوٹ: ۱۱مئی ۱۹۳۳ء] جیسے رہنما تیار ہوئے۔ ان رہنمائوں کے تصورِ دین کو درست سمت اور ساتھ لے کر چلنے کے لیے بڑی گراں قدر ذمہ داری، امریکا میں بسنے والے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان تحاریک کا تجزیہ اور شراکت امریکی اسلامی تحریک کے لیے ناگزیر ہے۔
۳- نسلی ، سماجی اور معاشی تنـوّع : رسولؐ اﷲ کی قائم کردہ اجتماعیّت کی ایک صفت تنوّع تھی۔ اس ٹیم میں مختلف رنگ ونسل کے لوگ موجود تھے۔ معاشی اور سماجی اعتبار سے صحابہؓ مختلف طبقوں سے تعلّق رکھتے تھے۔ عبدالرحمٰن ابن عوفؓ جیسے ریئس اور بلال ابن رباحؓ جیسے مسکین ، دونوں کا اس تحریک میں ایک مقام تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مکّہ میں صحابہؓ کی ایک تہائی تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل تھی۔ اس تحریک میں پہلی شہادت بھی ایک سیاہ فام صحابیہؓ کے حصے میں آئی۔ سمیّہؓ اس جدوجہد کی پہلی جانی قربانی تھیں۔ امریکی اسلامی تحریک افریقی امریکی خواتین کے بغیر نا مکمّل ہے۔
امریکا کی اسلامی تحریک نسل، زبان اور معاشی طبقات کے اعتبار سے ایک متنوّع اجتماعیّت ہونی چاہیے ، جہاں سب کے حقوق برابر ہوں۔ سرِدست امریکی اسلامی اداروں ، تنظیموں اور مساجد کی قیادت مکمّل طورپر اشرافیہ عرب اور پردیسی افراد کے کنٹرول میں ہے۔ ان اداروں کے بنیادی تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے بغیرکسی پائے دار تنوع کی توقّع ایک خام خیالی ہے۔
امریکی اسلامی تحریک کے دستور میں جامع تنوّع ایک مطلوبہ قدر (desirable value) ہونی چاہیے۔ اس کے نمایندہ اداروں (شورٰی، بورڈ وغیرہ) کے انتخاب میں اس قدر کا لحاظ ہونا چاہیے۔
۴- قیام عدل: امریکا میں خیر کی کوئی بھی تحریک یہاں کی سماجی اور معاشی انصاف کی جدّوجہد سے الگ نہیں ہوسکتی ہے۔ امریکی اسلامی تحریک کے لیے ایک اچّھا ماڈل حضرت موسٰی کی جدّوجہد ہے۔ فرعون کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ اس نے مصری عوام کو طبقات میں بانٹ دیا تھا۔ پوری آبادی آقا اور غلام طبقوں پر مشتمل تھی۔ بنی اسرائیل بطور غلام، بنیادی انسانی حقوق کے بغیر ہرظلم کی چکّی میں بُری طرح پس رہے تھے۔
امریکا میں سفیدفام برتری (white supremacy) عصرحاضر کی فرعونی ترکیب معلوم ہوتی ہے ۔ یہاں فرعون ایک فرد نہیں بلکہ ایک نظام ہے۔ بالعموم سمجھا یہ جاتا ہے کہ ’قدامت پسند ری پبلکن‘ سفید فام برتری کے پشتیبان ہیں، مگر امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا کی دونوں سیاسی جماعتیں اس امر پر مکمّل اتفاق رکھتی ہیں۔ امریکی فرعونوں نے عوام کو طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یہاں کی بستیاں، مکینوں کی آمدنی کے مطابق ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں امیر امیر تر اور غریب خاک نشین ہوتا جارہا ہے۔
امریکی اسلامی تحریک کی شناخت اس معاشرے میں قیام عدل کی نسبت سے ہونی چاہیے، اقا مت قسط اورناانصافی کے خلاف جدّوجہد اس کا عنوان ہونا چاہیے۔ سماجی اور معاشی انصاف کا مطالبہ اسلامی دعوت کا ایک مستند عنصر ہے۔ بنی اسرائیل کی آزادی، موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا حصّہ تھی۔ جب انھوں نے فرعون کو اﷲ اور رسولؐ پر ایمان لانے کی دعوت دی، وہیں بنی اسرائیل کی غلامی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی اسلامی تحریک کو بھی یہی نہج اختیارکرنی چاہیے۔ موجودہ امریکا میں فرعون اور بنی اسرائیل کے کردار موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے موسٰی جیسی قیادت مفقود ہے۔
۵- نسلی و نظامی تعصّب سے اجتناب: امریکی اسلامی تحریک کی رکنیت ہررنگ، نسل اور معاشی طبقات کے مسلمانوں کے لیے کھلی ہونی چاہیے۔ بظاہریہ امرآسان لگتا ہے لیکن فی ا لحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ نظامی تعصّب (systemic racism) ہے۔
نسلی و نظامی تعصب کی تفہیم کا آسان طریقہ یہ کہ اس کی تعریف (definition) میں الجھنے کے بجائے اس کے مظاہراور اثرات کو سمجھا جائے۔ نظامی نسل پرستی میں افراد متعصّب نہیں ہوتے لیکن ماحول اور نظام، غالب نسلی تفوق کو برقرار رکھتے ہیں۔ امریکا میں سیاہ فام آبادی کا تقریباً ٪۱۳ فی صد ہیں، مگر قومی دولت میں ان کا تناسب ٪۳ فی صد ہے۔ ایک سفید فام خاندان کی اوسط دولت ۱,۸۴,۰۰۰ ڈالر، جب کہ لاطینی خاندان کی۱۴,۰۰۰ ڈالر اور سیاہ فام خاندان کی صرف۱۱,۰۰۰ ڈالر ہے۔ رابرٹ لیونگ سٹن نے اپنی کتاب The Conversation: How seeking and speaking the Truth about Racism میں ۵۰۰ کامیاب ترین کمپنیوں کے قائدین کا تجزیہ کیا ہے ،جس کے مطابق صرف پانچ کمپنی صدور(CEOs) سیاہ فام ہیں ۔ ان اعدادوشمار کا کیا مطلب ہے؟ بظاہر تمام امریکی کمپنیاں مساوی مواقع (equal opportunity)کی دعوے دار ہیں، لیکن ’نظامی نسل پرستی‘ کی وجہ سے صرف سفید چمڑی والے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ پاتے ہیں، الّا ماشاء اﷲ۔ اگرہم ایسا ہی تجزیہ امریکی اسلامی اداروں اورتنظیموں کی قیادت کے بارے میں کریں تو یہاں بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ سفیدعفریت جیسا سلوک افریقی امریکیوں سے کرتی ہے، مسلم امریکا ویسا ہی معاملہ سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ افریقی امریکی مسلمان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں۔
نظامی تعصّب کا حل آسان نہیں ہے۔ اس کا سب سے پہلا قدم اس عفریت کی موجودگی کا ادراک ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ ہماری اجتماعیت میں نظامی تعصّب ہے، اس کے لیے بہت بڑا دل چاہیے۔ اگلے مراحل اس اعتراف کے بعد ہی شروع ہوسکتے ہیں۔
عقیدۂ آخرت کے سوا کوئی دوسری چیز ایسی نہیں ہے، جو اِس دُنیا میں انسان کو راہِ راست پر قائم رکھنے کی ضامن ہوسکتی ہو۔ اگر کوئی شخص یہ نہ مانتا ہو کہ اسے مرکر دوبارہ اُٹھنا ہے، اور اپنے خدا کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے، تو وہ لازماً گمراہ و بدراہ ہوکر رہے گا، کیونکہ اس کے اندر سرے سے وہ احساسِ ذمہ داری پیدا ہی نہ ہوسکے گا جو آدمی کو راہِ راست پر ثابت قدم رکھتا ہے۔
اسی لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ ، جس سے وہ آدمی کو اپنے پھندے میں پھانستا ہے، یہ ہے کہ وہ اسے آخرت سے غافل کرتا ہے۔ اُس کے اس فریب سے جو شخص بچ نکلے وہ کبھی اس بات پرراضی نہ ہوگا کہ اپنی اصل دائمی زندگی کے مفاد کو دُنیا کی اِس عارضی زندگی کے مفاد پر قربان کردے۔
بخلاف اس کے جو شخص شیطان کےدام میں آکر آخرت کا منکر ہوجائے، یا کم از کم اُس کی طرف سے شک میں پڑجائے، اُسے کوئی چیز اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ جو نقد سودا اِس دُنیا میں ہورہا ہے، اُس سے صرف اس لیے ہاتھ اُٹھا لے کہ اُس سے کسی بعد کی زندگی میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دُنیا میں جو شخص بھی کبھی گمراہ ہوا ہے اسی انکارِ آخرت یا شک فی الآخرۃ کی وجہ سے ہوا ہے، اور جس نے بھی راست روی اختیار کی ہے اس کے صحیح طرزِعمل کی بنیاد ایمان بالآخرۃ ہی پر قائم ہوئی ہے۔(تفہیم القرآن، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۵، اگست ۱۹۶۲ء، ص ۲۸)