مضامین کی فہرست


جون ۲۰۲۲

کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟

یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔

اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔

ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔

ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔

اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں،  اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔

جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵  سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔

یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!

 

قرآن کریم میں عقل اور فکر کی قوت استعمال میںلانے کی تاکیدکے پس منظر میںکئی طرح کے اعمال کا ذکر ہے، جیسے درایت (reasoning)، فہم (understanding)، ادراک (consciousness)، تفکر(thinking)، تدبر (deliberation)، تذکر (refreshing ) ، اور تفقہ  (comprehension) وغیرہ۔ لیکن قرآن نے سب سے زیادہ لفظ ’ تفکر‘ کا ہی استعمال کیا ہے، یعنی غور و فکرکرنا۔

اسی طرح قرآن نے کئی جگہ غور و فکر کو تجربی مشاہدہ (empirical observation) سے جوڑ کر بیان کیا ہے، جیسے سورۂ یونس: ۱۰۱، الاعراف: ۱۸۵ اور الطارق: ۵ وغیرہ آیات میں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے غور و فکر کے مختلف طریقے بتائے ہیں، جن سے انسان کو نہ صرف یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ اسے اپنی قوتِ فکروعقل کا استعمال کہاںکہاں کرنا چاہیے،بلکہ ان سے فہم و شعور کی بہت سی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نئے شعبوں کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کے ذریعے بتائے گئے طریقوں کو درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:

  •  تفکر فی القرآن (Pondering on the Quran): قرآن کریم کی کئی آیات میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی کتاب کے اندر غور و فکر کی دعوت دی ہے ۔جیسے ارشاد ہے:كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۲۹ (صٓ ۳۸: ۲۹)’’یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پراس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل فہم اس سے نصیحت حاصل کریں‘‘۔ایک جگہ قرآن حکیم میں غور و فکر نہ کرنے والوںکی یوں مذمت فرمائی ہے: اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۝۲۴ (محمد۴۷: ۲۴) ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگ رہے ہیں؟‘‘ اس مضمون کی اور بھی آیات ہیں مثلاً البقرہ: ۲۱۹، النسآء: ۸۲ وغیرہ۔

ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آیات میں غور و فکر کیا جائے اور ان سے نصیحت و رہنمائی حاصل کی جائے، نیز یہ کہ قرآن حکیم سے صحیح استفادہ عقل مند لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ سورۃ النسآء کی آیت ۸۲ خصوصی طور پر یہ واضح کرتی ہے کہ جو لوگ قرآن حکیم میں غور وفکر نہیں کرتے، وہ اکثر شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن حکیم میں غور وفکر کرنے والوں پر حق بتدریج واضح ہوتا جاتا ہے اور وہ ایمان و یقین کی منازل طے کرتے رہتے ہیں اور بالآخر ہدایت اور کامیابی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں۔

قرآن حکیم میں غور وفکرکے لیے عربی ادب، علم لغت، علم التجوید اور علم تفسیر کا ایک خاص مقام ہے۔ ان کے علاوہ مطالعہ سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم علم حدیث اور علم فقہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

  •  تفکر فی الآفاق (Pondering over the Universe): غور و فکر سے متعلق دوسری قسم کی آیات وہ ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے کائنات، اس کے محکم نظام اور اس میں بکھری ہوئی اپنی مخلوقات میں غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہے: اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَيْءٍ۝۰ۙ  (الاعراف ۷: ۱۸۵) ’’کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیاآسمان و زمین کے عالم میںاور دوسری چیزوں میںجو اللہ نے پیدا کی ہیں؟‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ (یونس ۱۰: ۱۰۱) ’’آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ا نھیں آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔

ایک جگہ یوںفرمایا: اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴  (البقرہ۲: ۱۶۴)’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے بدلتے رہنے میں، اور ان کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لیے ہوئے سمندر میںچلتی پھرتی ہیں اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے اور اس میںہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلاتا ہے اور ہوائوں کی گردش میں اور بادل میں جو تابع فرمان ہو کر آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں، نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں‘‘۔

اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں مثلاً: الانعام: ۹۵ - ۹۹، النحل: ۱۰ - ۱۷، ۶۵ - ۶۹، ۷۸ - ۸۱، العنکبوت: ۲۰، یٰسین: ۳۲ - ۴۴، الغاشیہ: ۱۷ - ۲۰،  فاطر:  ۲۷ - ۲۸، الروم: ۱۹ - ۲۵، الجاثیۃ: ۵ وغیرہ۔ ایک جگہ اللہ پاک نے ایسے بندوں کی تعریف کی ہے جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں اور انھیں کائنات کی حقیقت کا ادراک اور اس کے خالق کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔

ان آیات میں اللہ رب العزت نے انسان کو کائنات، اس کے مختلف مظاہر اور آثار میں رُونما ہونے والے مختلف حادثات و تغیرات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ جو لوگ ان میں ایمانداری کے ساتھ غور و فکر کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی حکمت اور صناعی کے قائل ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ انھیں کائنات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل مل جاتے ہیں۔ اس طرح انھیں اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ اب ذرا آپ بھی ان آیات پر غور کیجیے، کیا ان میںعلم کائنات (Cosmology)، علم ہیئت (Astronomy)، علم طبیعیات (Physics) خصوصاً فلکی طبیعات (Astrophysics)، علم جغرافیہ (Geography)، بحری جغرافیہ (Oceanography) اور علم الارض (Earth Science) جیسے علوم کو حاصل کرنے کی ترغیب نہیں ہے؟

  •  تفکر  فی الخلق (Pondering over the Creatures):  غور و فکر کا تیسرا منہج اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات ایسی ہیں، جن میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوقات خصوصاً عالم حیوانات اور نباتات کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے کہ ان کی ساخت، رہنے سہنے کے انداز اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد پر غور و فکر کریں اور اللہ کی قدرت اور حکمت کو پہچانیں۔ جیسے فرمایا:’’اور بے شک تمھارے لیے چوپایوں میں( مقام) عبرت (و غور) ہے، ہم تمھیں پلاتے ہیں دودھ خالص اس سے جو گوبر اور خون کے درمیان ان کے پیٹوں میں ہے، پینے والوں کے لیے خوشگوار۔ اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے (بھی پینے کی چیز یعنی رس حاصل کرتے ہو)، کہ تم اس سے شراب بناتے ہواور اچھا رزق(حاصل کرتے ہو)۔ بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔ اور تمھارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیاکہ تو پہاڑوں میں گھر بنالے اور درختوں میں اور اس جگہ جہاں لوگ چھتریاں بناتے ہیں۔ پھر کھا ہر قسم کے پھلوں سے، پھر اپنے ربّ کے نرم اور ہموار راستوں پر چل، ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد)، اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔(النحل۱۶: ۶۶ - ۶۹)

ارشاد ہے: 

  • اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ۝۰ۭ مَا يُمْسِكُہُنَّ اِلَّا اللہُ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۷۹ (النحل۱۶: ۷۹)  ’’کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی فضا میں حکم کے پابند (اڑتے رہتے) ہیں، انھیں کوئی نہیں تھامتا سوائے اللہ تعالیٰ کے، بے شک اس میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔ 
  • اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ۝۱۷۪ (الغاشیۃ ۸۸: ۱۷) ’’کیاوہ لوگ نہیں دیکھتے اونٹ کی طرف کہ وہ کیسے (عجیب طور پر) پیدا کیا گیا ہے؟‘‘
  • ہُوَالَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَـرٌ فِيْہِ تُسِيْمُوْنَ۝۱۰ يُنْۢبِتُ لَكُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُوْنَ وَالنَّخِيْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَۃً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۝۱۱ (النحل۱۶: ۱۰ - ۱۱) ’’وہی توہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمھارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے، اور وہ اسی سے تمھارے لیے اگاتاہے کھیتی، اور زیتون، اور کھجور، اور انگور اور ہر قسم کے پھل، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی بڑی) نشانیاں ہیں‘‘۔

انسان اگرعالم حیوانات اور عالم نباتات کا مطالعہ کرے تو اس کا اس نتیجے پر پہنچنا دشوار نہیں کہ یہ سب فقط نامیاتی ارتقا (organic evolution) کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی تخلیق کے پیچھے ایک حکمت آمیز منصوبہ بندی اور طے شدہ مقاصد ہیں۔ یہ سب چیزیں اپنے مشاہدہ کرنے والوں کو اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کی قدرت و حکمت کو سمجھنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ انسان اس پر بھی غور کرے کہ جس رب نے ان تمام مخلوقات کو ایک مقصد کے تحت پیدا فرمایا، کیا اس نے اسے یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے۔ ان آیتوں سے علم حیوانات، علم حیوانات پروری ، خصوصاً علم الطیور (Ornithology)، نحل پروری، علم نباتات اور زرعی تعلیم کے حصول کی طرف بھی رہنمائی ہوتی ہے۔

  •  تفکر  فی الانفس  (Pondering over Self): غور و فکر کے اس چوتھے منہج کی طرف رہنمائی ان آیات سے ہوتی ہے، جن میں اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی ذات میں غور وفکر کی دعوت دی ہے۔ ان میں بعض آیات ایسی بھی ہیں جن میں انفس وآفاق دونوں کا ہی تذکرہ ہے، جیسے یہ آیت: اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ۝۰ۣ مَا خَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى۝۰ۭ (الروم ۳۰: ۸)  ’’کیا انھوں نے کبھی اپنی ذات میں غور و فکر نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے نہیں پیدا کیا آسمانوں کواور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں مگر حق (یعنی درست تدبیر و حکمت ) کے ساتھ اور ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی‘‘۔ ایک جگہ ارشاد ربی ہے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۝۰ۭ (حٰمٓ السجدۃ ۴۱:۵۳) ’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ (قرآن ) واقعی حق ہے‘‘۔

 ایک جگہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کویوں متوجہ فرمایا: فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ۝۵ۭ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۝۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۝۷ۭ (الطارق۸۶: ۵ - ۷) ’’پس، انسان کو چاہیے کہ (خود ہی) دیکھے (یعنی غور کرے) کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اسے پیدا کیا گیا ہے اچھلتے ہوئے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوںکے درمیان سے نکلتا ہے ‘‘۔ اتناہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی بعض آیات میں انسان کی تخلیق و پیدایش اور اس کی زندگی کے مراحل کو واضح طور پر بیان بھی کردیا ہے تاکہ انسان ان پر غور و فکرکرے اور اپنے خالق کو پہچانے اور پھر اس کے احکام پر ایمان لے آئے۔ مثلاً سورۃ الحج میں دیکھیں:

’’اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) کہ ہم نے تمھیں (ابتداً) مٹی سے پیدا کیا، پھراس سے نطفہ بناکر، پھر اس سے جمے ہوئے خون کا لوتھڑا بناکر، پھر اس سے گوشت کی بوٹی بناکر صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) تاکہ ہم تمھارے لیے ( اپنی قدرت) ظاہر کردیں اور ہم جس کو چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مدت تک ٹھیرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں نکالتے ہیںبچے (کی صورت میں) تاکہ پھر تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہوجاتا ہے اور تم میں سے کوئی لوٹایا جاتاہے بدترین عمر تک تاکہ وہ (بہت کچھ) جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے (یعنی ناسمجھ ہوجائے)، اور تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک پڑی ہوئی ہے، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہوگئی اور ابھر آئی اور وہ اگا لائی ہر قسم کی خوش منظر نباتات۔یہ اس لیے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔(الحج۲۲: ۵ - ۶)

 ایک جگہ قرآن کریم نے دنیا کے مختلف خطے کے انسانوں کے درمیان رنگ و نسل اور زبان کے فرق کی طرف غور و فکر کرنے کے لیے یوں متوجہ کیا ہے: وَمِنْ اٰيٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــلْعٰلِمِيْنَ۝۲۲(الروم ۳۰: ۲۲) ’’اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنااور تمھاری زبانوں اور تمھارے رنگوں کا مختلف ہونا، بے شک اس میں دانشوروں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘ ۔ اس کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جیسے القیٰمۃ: ۳۶ - ۳۹، الانفطار: ۶ - ۸، الزمر: ۵ -۶، المؤ منون: ۱۲ - ۱۴، السجدہ: ۷ - ۹، عبس: ۱۷ - ۲۰، المؤمن: ۶۷، الدھر: ۱ - ۲ وغیرہ جن میں بار ی تعالیٰ نے ا نسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے تاکہ انسان ان میں غور و خوض کرے اور اللہ کی قدرت، اس کی خالقیت، صنعت اور حکمت کو پہچان سکے۔ سائنس دراصل اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کی پرتوں کو ہی کھولتی جارہی ہے جو اس نے انسان اور آفاق کے اندر پنہاں کی ہوئی ہیںاور جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ عنقریب وہ دن آئے گاکہ لوگ قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔

ان آیات میں اگر غور کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچنادشوار نہیں کہ ان میں علم کائنات، علم ہیئت، علم طبیعیات بالخصوص فلکی طبیعات، علم الجنین، علم تشریح الاعضا، علم افعال الاعضا ، علم حیاتیاتی کیمیا، علم نفسیات، علم تزکیہ نفس اور علم بشریات کے حصول کے لیے واضح اشارے موجود ہیں۔

  •  تفکر فی الاحکام (Thinking over the Commandments): غور و فکر کا پانچواں منہج وہ آیات بتاتی ہیں جن میں اللہ نے انسان کو اپنے تشریعی احکام کی حکمتوں میںغور و فکر کی طرف متوجہ کیا ہے تاکہ وہ ان آیات و احکام کو اچھی طرح سمجھے اور اپنی عملی زندگی پر منطبق کرے۔

مثال کے طور پر دیکھیے: يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ۝۰ۭ قُلْ فِيْہِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ  وَّمَنَافِعُ   لِلنَّاسِ۝۰ۡ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝۲۱۹(البقرہ۲: ۲۱۹) ’’وہ پوچھتے ہیں آپ سے شراب اور جوئے کی بابت، آپ فرمائیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور کچھ فائدے بھی ہیںلوگوں کے لیے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ اور پوچھتے ہیں آپ سے کیا خرچ کریں؟ آپ فرمائیے جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اسی طرح صاف صاف بیان کرتا ہے اللہ تمھارے لیے اپنے احکام تاکہ تم غور و فکر کرو‘‘۔ احکام قصاص کے بیان کے بعد فرمایا:وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوۃٌ يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۷۹ (البقرہ۲: ۱۷۹) ’’اے فہیم لوگو! (اس قانون) قصاص میں تمھارے لیے زندگی ہے، امید ہے کہ تم لوگ (اس قانون کی خلاف ورزی کرنے سے) پرہیز کروگے‘‘۔

اسی طرح روزہ میں رخصت کے پہلو کو بیان کرکے فرمایا: وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۱۸۴ (البقرہ۲: ۱۸۴) ’’ اور روزہ رکھنا ہی تمھارے حق میں بہترہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو‘‘۔ نماز جمعہ کے سلسلے میں فرمایا:يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝۹ فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۰  (الجمعۃ۶۲: ۹)’’اے ایمان لانے والو ! جب اذان دی جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے حق میں زیادہ بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘۔

اس موضوع کی اور بھی آیات ہیں مثلاً البقرۃ: ۱۸۵، ۲۳۰، ۲۴۰ -۲۴۱، ۲۸۲، النسآء: ۲۳ - ۲۶، المآئدۃ: ۸۹، ۱۰۰، الانعام: ۱۱۹، العنکبوت: ۴۵، الحشر: ۷ وغیرہ۔یہ آیات  علم فقہ (Jurisprudence) اور علم تزکیہ کے حصول کی ترغیب دیتی ہیں،جن میں علی الترتیب شرعی احکام کے دلائل اور ان کی روح سے بحثیں کی جاتی ہیں،لیکن وہ علم تصوف مطلوب و مقصود ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو نہ کہ بدعات و خرافات۔

  •  تفکر فی الاقوام  (Thinking over the Past Nations): غور و فکر سے متعلق چھٹے منہج کا اشارہ ان آیات میں ہے، جن میں تاریخی مراحل میں قوموں کے اندر جاری اللہ تعالیٰ کی سنت پر غور کرنے کی دعوت ملتی ہے۔

ملاحظہ کیجیے :اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَّكُمْ وَاَرْسَلْنَا السَّمَاۗءَ عَلَيْہِمْ مِّدْرَارًا۝۰۠ وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْۢ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِيْنَ۝۶ (الانعام۶: ۶) ’’کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے زمین میں ایسا اقتدار دیا تھا جیسا کہ تمھیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے نہریں بنادیں جو ان کے (مکانوں کے) نیچے بہہ رہی تھیں۔ پھر ہم نے ان کوان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کرڈالا اور ان کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کردیا‘‘۔

پھر فرمایا: وَلَقَدْ اَہْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا۝۰ۙ وَجَاۗءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا۝۰ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ۝۱۳ ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ۝۱۴ (یونس ۱۰: ۱۳ - ۱۴) ’’اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا، جب کہ انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر ( بھی) دلائل لے کر آئے، مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے۔ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تم کو جانشیں کیاتاکہ ہم دیکھ لیں کہ تم کس طرح کام کرتے ہو‘‘۔

ایک اور جگہ ایمان والوں کے لیے یہ ضابطہ بتایا ہے :وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۝۰ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۵۵ (النور۲۴: ۵۵)’’اللہ وعدہ فرما چکا ہے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں کہ انھیں ضرور زمین میںخلافت (اقتدار) عطا کرے گا جیسا کہ ان لوگوں کوخلافت عطا کی تھی جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا،جسے ان کے لیے وہ پسند فرماچکا ہے اور ان کے اس خوف (کی حالت) کو امن و امان سے بدل دے گا، وہ صرف میری عبادت کریں گے (اور) میرے ساتھ کسی چیز کو بھی شریک نہ ٹھیرائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر (ناشکری) کریں تو وہ یقیناً فاسق ہیں‘‘۔ اس طرح کی اور بھی آیات ہیں مثلاً: آل عمران: ۱۳۷ - ۱۳۸، الانعام: ۱۱، الاعراف: ۹۶، ۱۳۶ - ۱۳۷، ھود: ۱۸ - ۲۰، یوسف: ۱۰۹، الحج: ۴۰ - ۴۱، النمل: ۶۹، القصص: ۴ - ۶، الروم: ۹  وغیرہ۔

ان آیات سے علم تواریخ کے مطالعے کی طرف رہنمائی حاصل ہوتی ہے، جس کا مقصد گذشتہ قوموں کے اندر جاری اللہ تعالیٰ کی سنت کو سمجھناہو، یعنی وہ کیا عوامل ہیں، جن سے کسی قوم کو عروج اور ترقی حاصل ہوتی رہی ہے اور جن سے کسی قوم کا زوال ہوتا آیا ہے؟ انسان تاریخ کے مطالعے سے اگر ان عوامل کو سمجھ لے تو بہت سی غلطیوں سے بچ سکتا ہے اور ترقی و عروج کے بلند و بالا مقام کو پاسکتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت بدلتی نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں قرآن کا اعلان ہے۔

واضح رہے کہ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت کائنات میں رونما ہونے والے حادثات و تغیرات میں بھی جاری ہے، جسے سائنس دان Law of Nature  (قانونِ قدرت) کہتے ہیں۔ سائنس درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ان سنتوں، یعنی ’قدرتی قوانین‘ کو ہی سمجھنے اور ان کی وضاحت کرنے کا عمل ہے۔

ان تفصیلات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے انسان کو غور و فکر کی دعوت کس اہتمام سے دی ہے ۔ یہ اہتمام انسانی زندگی میں غور و فکر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ غور و فکر اور تدبرو تفکر ہی ہے جس سے علمی تحقیق کی راہیں کھلتی ہیں۔ انسان قرآن کے بتائے ہوئے نہج کے مطابق جس رخ پر بھی اپنے تدبر و تفکر کو مرکوز کرے گا ، خود کو علم کے ایک اتھاہ سمندر میں غوطہ زن پائے گا۔ اس لیے قرآن کریم کی غور و فکر پر یہ تاکید دراصل علم و تحقیق کی دعوت ہے جو تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور ایک مسلمان چونکہ اس کا خصوصی مخاطب ہے، اس لیے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرے، جن کی نشاندہی مختلف ذیلی عناوین کے تحت سطور بالا میں کی گئی ہے اور دیگر نامناسب اور غیرمفیدمیدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچائے۔

قرآن حکیم نے علم کے سلسلے میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق نہیں کی، صرف اس کے نفع کے پہلو کو ملحوظ رکھا ہے۔ لہٰذا جو شخص مذکورہ علوم کو کائنات میں بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو دریافت کرنے، اس کی قدرت اور کاریگری کو سمجھنے اور اس کی مخلوقات خصوصاً عالم انسانیت کی نفع رسانی کی غرض سے جس کا حتمی مقصد حصول رضائے الٰہی ہو ، حاصل کرنے کی سعی کرے گا تو اس کا یہ عمل عینِ دین ہوگا اور وہ ان تمام فضیلتوں کا مستحق ہوگا جو علم کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ ماضی میں ہماری درسگاہوں میں بھی علم کے سلسلے میں ایسی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔

 فقہ، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، تصوف، علم لغت، تاریخ کے ساتھ ساتھ مختلف سائنس اور ریاضی کے میدان میں مسلم اسکالرز کی کاوشوں سے جو علمی سرمایہ وجود میں آیا، اس کا محرک دراصل وہ قرآنی آیات ہی تھیں، جن میں ضروری علم کے ساتھ غور و فکر اور تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے اورجس نے مسلمانوں کو علم و ترقی کے بام عروج پر پہنچایا اور یورپ کے نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کا بھی موجب بنا، جس کا اعتراف مغربی مفکرین بھی کرتے ہیں۔ تاہم، جب سے مسلمانوںکی اکثریت نے قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرنا چھوڑدیا اور مختلف علوم کے درمیان تفریق شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ان کا زوال شروع ہوا اور آج یہ قوم آبادی کے لحاظ سے دوسرے مقام پر ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں بے وزن ہے۔ وہ قوم جو کبھی دیگر اقوام عالم کی امام تھی آج ہر جدید نفع بخش علم کے سلسلے میں دوسروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔

 

عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ اس قدر گہرے فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور ابلاغی امراض میں مبتلا ہے، کہ ان امراض نے ملّت کے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہ امت زندہ ہے!

یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان امراض کی کثرت اور ہلاکت آفرینی کے باوجود یہ امت کسی نہ کسی طرح اپنا وجود رکھتی ہے، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ امراض تو ایسے ہیں کہ جو امتوں اور قوموں کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہیں، چاہے وہ قومیں کتنی ہی بڑی آبادی یا کتنے ہی وافر وسائل رکھتی ہوں۔

 امت کی اس شدید خستہ حالی کے باوجود، شاید آج تک اس کی بقا کا سبب کتاب الله اور سنت ِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے ایک نسبت رکھنا اور اس کے نیک و صالح کرداروں کا توبہ و استغفار کرتے رہنا ہے:

وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِيْہِمْ۝۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۝۳۳ (الانفال ۸: ۳۳) اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا، جب کہ تُو ان کے درمیان موجود تھا اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دے دے۔

امت مسلمہ کو چمٹی ان خطرناک ترین بیماریوں میں سے ایک بیماری کا نام ’اختلاف‘ یا ’باہم دشمنی‘ ہے۔ یہ متعدی مرض ہر میدان، ہر شہر اور ہر مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس جان لیوا مرض کا دائرہ: فکروعقیدہ، تصورات و خیالات، آراء، سلوک وعمل، اخلاق و کردار، رہن سہن کے طریقوں، آپس کے میل جول، انداز گفتگو، اور اہداف و مقاصد تک پھیل چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں خود اُمت کے اندر ایسے گروہوں نے جنم لیا جو باہم برسر پیکار ہیں؛ گویا کہ اس امت کے پاس اختلاف اور جھگڑنے کی ترغیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے بعد سب سے زیادہ زور امت کے اتحاد و اتفاق میں وسعت اور اختلاف سے بچنے پر دیا ہے، اور ہر اس چیز سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، جو مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کو خراب کرتی ہو، یا دینی بھائی چارے میں رخنہ ڈالتی ہو۔ یقیناً اسلام کے اصول و مبادی میں شرک باللہ کے بعد سب سے زیادہ برائی امت کے اختلاف اور آپس کے جھگڑوں سے منسوب ہے۔ نیز ایمان باللہ کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ ابھارا اور ترغیب دی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے احکامات واضح طور پر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے، دلوں کو جوڑنے اور متحد رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔

اسلام میں کسی چیز پر اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا ’کلمۂ توحید‘ اور باہمی اتحاد و اتفاق پر دیا گیا ہے۔ پہلی چیز، یعنی کلمۂ توحید اللہ پر ایسے خالص ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہو۔ اور دوسری چیز توحید کا عملی اظہار ہے۔ جس قوم کا ربّ ایک، نبی ایک، کتاب ایک، قبلہ ایک، اور تخلیق و حیات کا مقصد ایک ہو تو فطری نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ان کی صفوں میں اتحاد ہو:

 اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۝۰ۡۖ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ۝۹۲﴾ (الانبیاء۲۱: ۹۲ ) یہ تمھاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔

لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے کلمۂ توحید کے تقاضے پورا کرنے میں کوتاہی کی، اور اتحادو اتفاق سے بے رُخی برتی۔

انھی امراض کی تشخیص اور ان امراض سے بچنے کی تدابیر کو وضاحت سے پیش کرنا مقصود ہے۔ جس کا مقصد اسلامی آگہی پیدا کرنا، اختلاف کی دراڑوں کو پُر کرنا، بحران کی جڑوں کی تشخیص کرنا اور مسلمانوں کے دلوں میں ایمانی روح کو بیدار کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ہمارے تعلقات کی استواری اور ان کو صحیح رخ دینے کی جانب سفر میں ہماری کمزور ایمانیات کے سبب کوئی کردار نہیں رہا۔ اسی وجہ سے درست دینی فہم کے فقدان کے ہاتھوں، غلط طرزِ عمل اور غیراسلامی معاشروں کے دباؤ نے مسلم اُمہ کو شدید دبائو کی گرفت میں لے لیا ہے۔

 تعلقات کے درست سمت میں ہونے کی حقیقی ضمانت، اختلافات کے خاتمے اور دلوں کی کدورتیں نکال پھینکنے کا اصل ذریعہ ایمان کی مضبوط بنیادوں اور تصورِ دین کا درست ہونا ہے۔

آج ہمارا اصل مسئلہ دین کے اہداف و مقاصد کے صحیح ادراک کا نہ ہونا ہے۔ ہمیں درست سمت کی طرف رہنمائی کی ضرورت ہے، جو ہماری سلامتی کی ضامن ہو اور علم و معرفت سے درست طریقے سے استفادے کو یقینی بنائے۔ بہت سے دارالعلوم اور یونی ورسٹیوں سے ہم نے علم اور ڈگریاں تو حاصل کیں، لیکن اسلام کے عطا کردہ تصورِ اخلاقیات سے محروم ہیں۔ ہم نے بہت حد تک دُنیاوی اسباب حاصل کیے، مگر اہداف و مقاصد تک نہ پہنچ سکے۔ بارہا مستحب یا مباح امور پر اختلاف کی بنا پر ہم فرض و واجب یا اعلیٰ مقاصد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے مقابلے، دلیل بازی اور اختلاف کے فن میں تو مہارت حاصل کرلی، لیکن اس کے آداب و اخلاقیات کو کھودیا۔ نتیجتاً ہم اندرونی شکست و ریخت، باہمی تنازعات اور محاذ آرائی کا شکار ہوگئے، جس کے نتیجے میں ہرقسم کی ناکامی ہمارے حصے میں آئی۔ ہماری شان و شوکت قصہٴ پارینہ ہو گئی، اور ہم بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ﴾ (الانفال ۸:۴۶) اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کرنے، اور عبرت حاصل کرنے کے لیے پچھلی امتوں کے واقعات بیان فرمائے ہیں، اور خبردار کیا ہے کہ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال میں کونسے عوامل کار فرما ہوتے ہیں، نیز تفرقہ بازی، عناد و اختلاف، اور گروہ بندی کی بیماریوں میں مبتلا  ہونے سے خبردار کیا:

وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ۝۳۱ۙ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا۝۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَ۝۳۲ ( الروم ۳۰: ۳۱- ۳۲) اور ان مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے۔

جو اختلاف انتشار و تفرقہ بازی کی طرف لے جائے، اس کو اُسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نسبت نہیں:

اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَہُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِيْ شَيْءٍ۝۰ۭ (الانعام ۶ :۱۵۹ ) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے، یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں۔

اہلِ کتاب علم کی کمی کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئے، بلکہ ان کی ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس علم کو آپس کے ظلم، ضد اور زیادتی کے لیے استعمال کیا:

 وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَھُمْ۝۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳: ۱۹) اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرزِ عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’کیا ہم کتاب کے بجائے اہلِ کتاب کی اخلاقی بیماریوں کے وارث بنے ہیں؟‘‘ بجائے اس کے کہ ہم علم اور معرفت حاصل کرتے، مگر بدقسمتی سے ہمارے حصے میں ضد اور عناد کا ورثہ ہی آیا ہے۔ یہی اختلاف ودشمنی اور دینی بنیاد پر تفرقہ بازی، اہلِ کتاب کے وہ امراض تھے، جن سے وہ ہلاک ہوئے اور ان کا دین منسوخ کیا گیا۔ کتاب و نبوت کی وارث بننے والی امت کے لیے ان کے قصے سبق حاصل کرنے کے ذریعے کے طور پر بیان کیے گئے۔ چونکہ مسلمان، آخری دین کے پیروکار ہیں، ان کے دین میں تغیر وتبدل اور نسخ کی کوئی گنجایش نہیں، اس لیے یہ امراض امت کے وجود کا کلّی خاتمہ نہیں کرسکتے، لیکن اگر یہ باقی رہیں گے تو امت ہمیشہ کمزور رہے گی، اور اگر ان کا علاج کر دیا جائے تو وہ صحت و عافیت اور عروج پالے گی۔

چیزوں کو سمجھنے اور ان پر حکم لگانے میں نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ اس کا تعلق بڑی حد تک فطری انفرادیت سے ہے، جو ہر شخص میں الگ الگ پائی جاتی ہے (جو کہ تنوع میں اپنا کردار ادا کرتی ہے اور انسانی معاشرے کی متوازن تشکیل کے لیے ضروری ہے)۔ اس لیے کہ لوگوں میں معاشرتی تعلق قائم کرنا ایسی صورت میں ناممکن ہے، جب وہ بالکل یکساں صلاحیتیں اور ایک جیسی ذہنی ساخت رکھتے ہوں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ لوگوں کی انفرادی مہارتوں،چاہے وہ فطری ہوں یا محنت سے حاصل ہوں، اور دنیا کے معاملات کے مابین کچھ بنیادی اتفاق و تعاون کے رشتے قائم ہوں، تاکہ زندگی کا پہیہ رواں دواں رہے اور ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں حصہ ڈالے۔ یہی وجہ ہے کہ  لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ صلاحیتوں اور سمجھ بوجھ کے حامل ہیں۔ نیز اہل ایمان کےبھی مختلف درجے ہیں؛ ان میں سے کوئی اپنے اوپر ظلم کرنے والا ہے، کوئی درمیانہ، اور کوئی نیکیوں میں سبقت لے جانے والا:

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ۝۱۱۸ۙ  (ھود۱۱: ۱۱۸) تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔

اگر فطری اختلاف ایک صحت مند سرگرمی کے طور پر رہتا تو وہ مسلمانوں کے ذہن کو جلا بخشتا اور فکری ارتقا کو تحریک دیتا۔ اختلاف رائے اور معاملے کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر مثبت سرگرمی ہے، مگر افسوس کہ زوال و انحطاط کے دور میں یہ ایک لاعلاج مرض اور انتہائی جلداثر کرنے والے زہر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ جس سے تفرقہ و نزاع اور نسلی و علاقائی کش مکش نے جنم لیا ہےاور مسلم تشخص شکست و ریخت اور انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ انتہائی دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ تو اختلاف رائے رکھنے والوں کی جان لینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ بعض اس حد تک انتہاپسندی کا شکار ہو گئے ہیں کہ دین کے دشمن، ان کے زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ان مسلمان بھائیوں کے جو ان سے رائے کا اختلاف رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عقیدہ اور خالص توحید کی نسبت سے ان کے زیادہ قریب ہیں۔ ماضی اور حال کی تاریخ میں ہمیں اس کی بہت سی افسوس ناک مثالیں ملتی ہیں۔ امت کی بے پناہ صلاحیتوں، وسائل اور قوت و طاقت اختلافات کا ایندھن بنا کر ضائع کر دیے جانے پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ انسان معاملات کو ان کے اصل زاویے اور درست تناظر میں نہیں دیکھ پاتا۔ اس طرح وہ کئی دور رس نتائج و مضمرات رکھنے والے مسائل کے بارے میں جامع اور متوازن تصور قائم کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس کا ذہن ایک محدود ضمنی نقطے پرہی مرکوز ہو جاتا ہے، جسے وہ مبالغہ آمیزی کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور پھر وہی اس کی سوچ اور فکر کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے، اس حد تک کہ پھر وہ کسی چیز یا ایسے شخص کو خاطرمیں نہیں لاتا جو اسے غلطی پر خبردار کرتا ہے۔ وہ اسی ضمنی نقطے کی بنیاد پر تعلق رکھتا اور قطع تعلقی کرتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر محبت اور بغض رکھتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات مختلف رائے رکھنے والوں کے خلاف اُمت اور دین کے دشمنوں سے مدد حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

روایت کیا گیا ہے کہ واصل بن عطاء اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ تھا کہ خوارج سے ان کا  آمنا سامنا ہوگیا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’یہ تمھارا کام نہیں، تم الگ ہو جاؤ اور مجھے ان سے نمٹنے دو‘‘۔ سفر کی تھکاوٹ سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکے تھے۔

انھوں نے کہا: ’’آپ کی مرضی‘‘۔

پھر وہ خوارج کے پاس گئے تو انھوں نے پوچھا: تم اور تمھارے ساتھی کون ہو؟

واصل نے جواب دیا: ’’مشرک ہیں، اور تم سے پناہ کے طالب ہیں تاکہ اللہ کا کلام سن سکیں اور اس کی حدود پہچان سکیں‘‘۔

انھوں نے کہا: ’’ہم نے تمھیں پناہ دی‘‘۔

واصل نے کہا: ’’پھر تم ہمیں پڑھاؤ‘‘۔ وہ اسے اپنے مسائل بتانے لگے، اور وہ جواب میں کہتا جاتا کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے قبول کیا۔

انھوں نے کہا: ’’اب ہمارے ساتھی بن کر چلو کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو‘‘۔

 واصل نے کہا: تمھارے لیے ایسا کرنا جائز نہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْہُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ۝۰ۭ (التوبہ ۹: ۶) [اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سُن لے) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن (محفوظ مقام ) تک پہنچا دو]۔ اس لیے اب تم ہمیں ہمارے محفوظ مقام تک پہنچا دو‘‘۔

 انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر کہا: ’’ہمیں منظور ہے‘‘۔ پھر ان سب کو ساتھ لے کر چلے یہاں تک کہ انھیں محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔ 

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اختلاف کی شدت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ بعض مسلمان فرقے جو اپنے آپ کو ہی خالص حق کا علَم بردار سمجھتے تھے، ان کے ہاں مشرک کی جان اس مسلمان سے زیادہ محفوظ تھی جو ان سے فروعی اور اجتہادی مسائل میں اختلاف رکھتا تھا۔ اس ماحول میں تشدد اور سزا سے بچنے کے لیے اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو مشرک ظاہر کرے۔

یہ مذموم اختلاف اور دل و دماغ کو ماؤف کر دینے والی ہوائے نفس ہے، جو مسلسل بڑھتی رہتی ہے، اور انسان کے ہوش و حواس اور عقل و خرد کو شل کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پہ وہ شریعت کی کلّی حکمتیں، عمومی اصول و مبادی، مسلمانوں کے مشترکات، اور اسلام کے بنیادی قواعد اور اہداف و مقاصد کو فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا شخص بصیرت و بصارت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسلامی اخلاق کی ابجد تک کو بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کے معیارات و تصورات میں بگاڑ آجاتا ہے۔ حق و باطل گڈمڈ ہوجاتے ہیں اور دین کی ترجیحات نظر سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ علم کے بغیر بولنا، بصیرت کے بغیر فتویٰ دینا، بلا دلیل اعمال کی انجام دہی اور مسلمانوں کی تذلیل و تکفیر اور ان پر بہتان طرازی اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ ایسا مریض اندھے تعصب کی گہری کھائی میں جا گرتا ہے، اور اس کی دنیا اندھیر ہوجاتی ہے۔ دراصل یہ اس کی تاریک نفسیات کا عکس ہوتا ہے، جس میں علم کا نور بجھ جاتا ہے اور سمجھ بوجھ کا دِیا ماند پڑ چکا ہوتا ہے: وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ۝۴۰ (النور۲۴:۴۰)  ’’جسے اللہ نُور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نُور نہیں‘‘۔

اجتہادی آراء، اور فقہی مکاتب فکر جو اہل نظرو اجتہاد کا میدان ہیں، نا تجربہ کار، اندھے پیروکاروں کے ہاتھ لگ کر مذہبی گروہ بندی اورسیاسی تعصب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے نہج کے مطابق آیات اور احادیث کی تاویل کرتے ہیں اور پھر وہ آیت یا حدیث جو ان کی مذہبی گروہ بندی سے مطابقت نہ رکھتی ہو، اس کی یا تو تاویل کی جاتی ہے یا وہ منسوخ قرار پاتی ہے۔ بسااوقات تعصب انتہائی شدت اختیار کرلیتا ہے۔

سلف صالحین رضوان اللہ علیہم کے مابین بھی اختلاف رائے موجود تھا، لیکن یہ اختلاف ان کے درمیان دوری اور تفرقے کی بنیاد نہیں بنا۔ ان میں اختلاف توہوا مگر تفرقہ پیدا نہیں ہوا، اس لیے کہ دلوں کی الفت اور اہدا ف و مقاصد کی یگانگت اس قدر راسخ تھی کہ کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ انھوں نے نفسانی عوارض سے چھٹکارا پا لیا تھا، اگرچہ ان میں سے بعض سے کچھ عملی کمزوریاں سرزد ہوگئی ہوں۔ سماجی سطح پر نیکوکاروں اور صالح افراد کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین مجلس کو یہ رہنمائی دی تھی کہ اب ان کے پاس فلاں فلاں خصوصیات کا حامل ایک جنتی شخص آنے والا ہے۔ ایسے شخص کے معمولات اور طرز عمل کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ وہ کبھی اس حال میں نہیں ہوتا کہ اس کے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ و کدورت ہو۔

اس کے برعکس آج ہمارا اصل مسئلہ ہماری ذات میں ہے۔ اتحاد و اتفاق کے بیش تر روپ اور رنگ محض دکھلاوا ہیں۔ اس کے حق میں دلیل بازی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے،   اس نفاق اور کھلے تضاد میں ہم دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ۝۰ۭ ( الانعام۶: ۱۲۰ ) تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چُھپے گناہوں سے بھی۔

عالم اسلام جو کبھی ایک متحدہ ملک تھا، جہاں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بالا دستی حاصل تھی، آج یہ ۵۷سے زائد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکا ہے، جن کے آپس میں گہرے تنازعات ہیں۔ مگر اس سے بڑا مذاق یہ بھی ہے کہ ہرمسلم ملک اتحاد کا نعرہ بھی بلند کرتا ہے، جب کہ ہر ملک کے اندر مزید تقسیم در تقسیم پائی جاتی ہے۔ بعض تنظیمیں جو اسلام کے لیے سرگرم عمل ہیں، اوران پر امت کی نجات و فلاح کی ذمہ داری ہے،ان کا حال بھی سرکاری اداروں کے ملازمین میں پائے جانے والے حسد اور کدورتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔

ہمارا بحران دراصل فکری بحران ہے۔ ہمارا مسئلہ امت کے ساتھ سنجیدہ تعلق کا فقدان ہے۔ جب امت مسلمہ میں قرآن و سنت کو بالا دستی حاصل تھی تو اس نے اپنا مشن بخوبی ادا کیا۔ انتہائی تنگ مادی حالات کے باوجود اس نے ایک اعلیٰ تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی، تب معاشی تنگی کے باوجود زندگی آسان تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب و سنت سے انحراف اور باہمی تنازعات ناکامی، ضعف اور ہوا اُکھڑنے کا باعث ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا۝۰ۭ (الانفال ۸:۴۶) اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔

اسلام نے تفرقہ بازی کا خاتمہ کیا، عربوں کا رخ پھیر کر ایک معبود بر حق کی طرف کر دیا اور ان تمام جھوٹے خداؤں کو مٹا دیا، جو ہر قبیلے نے اپنے لیے گھڑ رکھے تھے۔

 آج مسلمانوں کو وسائل کی قلت اور معاشی تنگی کا سامنا نہیں، مگر وہ افکار و نظریات کا میدان ہو یا مادی ساز و سامان کا، ہر لحاظ سے صارف اقوام میں سر فہرست ہیں۔ ان کا اصل مرض یہ ہے کہ وہ مشترکہ مقاصد و اہداف، یکساں نصب العین اور اصل مقصدحیات فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اس چیز سے ان کا بنیادی فکری ڈھانچا متاثر ہوا ہے۔ مسلم ذہن کو جو فکری اور اخلاقی بحران لاحق ہے، اس سے نکلنے کی کوئی سبیل اس کے سوا نہیں کہ فکری بحران کی بنیاد اور سوچ اور فکر کے طریق کار کی اصلاح کی جائے، مناہج فکرکی ترتیب نو کی جائے، گم گشتہ ترجیحات کو از سر نو مرتب کر کے مسلمان نسلوں کی اس کے مطابق تربیت کی جائے۔

یہ سب صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ہم قرنِ اول کے اسلاف کے طرز عمل کے مطابق کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیں، افکار و نظریات کو منضبط کرنے کے لیے قیاس و استنباط کے قواعد و ضوابط کا تعین کریں، علم و آگہی کو آداب و اخلاقیات کے ساتھ جوڑ دیں، نیز ایسی تحقیقات اور مطالعات کو پروان چڑھائیں جو اتحاد امت، مشترکہ عوامل، اور اعلیٰ اہداف و مقاصد کو تقویت پہنچائیں، تاکہ صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو، اور نقوش راہ نکھر کر سامنے آئیں، اور منظم انداز سے منزل کی طرف پیش قدمی ہو۔

اس سلسلے میں جب میں نے اپنے مشاہدات اور افکار بیان کرنے کی کوشش کی تو مختلف ردعمل سامنے آئے:

  •  مسئلے کی سنگینی کا گہرا احساس رکھنے والے ایک طبقے نے یہ خواہش ظاہر کی کہ دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں لکھا جائے،اور ان معاصر اختلافات کا تجزیہ کیا جائے، جن کے باعث ایک مسلم ملک کی اسلامی تحریک سے درجنوں الگ الگ تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں۔ لیکن سچ بات ہے کہ غفلت کی دبیز تہہ، اور باطل اغراض و مقاصد کی دھند اس قدر گہری ہے کہ نرم الفاظ سے دلوں کی گہرائیوں تک پہنچنا ممکن نہیں۔

تاہم، یہ بات قلبی راحت کا باعث ہے کہ آج کا مسلمان اختلاف کے اثرات سے چھٹکارا پانے کی خواہش رکھتا ہے، مگر ہرآن جاہلوں کی جہالت، دشمنوں کےشور و شغب، آستین کے سانپوں کی سازشوں اور شدت پسندوں کی بے جا سختی کا ڈر غالب رہتا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان آداب و اخلاقیات کا موجودہ صورت حال پر انطباق کرنا اور معاصر مسلم گروہوں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنا، بہت مشکل بنادیا گیا ہے۔

  •  بعض احباب نے تجویز دی کہ ’’مخصوص فقہی اور علمی مزاج کے دائرے سے نکل کر اُمت کے تمام گروہوں کے مابین اختلاف رائے کے جملہ آداب و اخلاقیات سامنے لانے چاہییں۔ چاہے ان کا تعلق ان گروہوں سے ہو جو بجا طور پر اسلامی صف میں شمار ہوتے ہیں، یا ان سے جو خود کو جدیدیت سے منسوب کرتے ہیں، یا انھیں اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ خاص طور پہ وہ گروہ کہ جنھوں نے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا ہے اور اسلام کو امت کے بنیادی عناصر میں شمار کرتے ہیں، اور اس صورتِ حال سے نبٹنے پر زور دیتے ہیں کہ جس دور میں یہ امت جی رہی ہے۔

بلاشبہہ اس میدان میں کوششیں کی جانی چاہییں، اس لیے کہ اختلاف رائے کی اخلاقیات کا شعور دینے اور امت کے تمام گروہوں کی ان اصولوں کے مطابق تربیت کرنے سے امت کو ایسی بڑی صلاحیتیں میسر آئیں گی، جو فضول باہمی چپقلش میں ضائع ہو رہی ہیں۔جب مسلم ذہن اپنے تہذیبی کردار کا شعور حاصل کر لے گا، تو یہ امت کے ان افراد کو واپس لانے کی کوشش بھی کرے گا، جو اجنبی بن گئے ہیں۔ اسلام کے شعوری فرزندوں پر امت کے اتحاد اوراس کی صحت و تندرستی بحال کرنے کے لیے ایک مضبوط اور ٹھوس بنیاد کھڑی کرنے کے فوری کام اور پھر اسلامی تہذیب کو دوبارہ تعمیر کرنےکے ذمہ داری ہے۔ زندگی کو موت سے الگ کرنے والا ایک لمحہ ہی تو ہوتا ہے، اور اگر عزم مصمم کر لیا جائے توہمارے لیے کوئی چیز اپنے مسلمان بھائیوں کو شیطانوں کے اثرات سے نکال لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے جس روز اُمت کے تمام گروہوں کی تعمیری قیادت نے اتحاد کی اُمنگ اور اختلاف کی حدود کا پاس و لحاظ کرلیا،اُس روز اہلِ ایمان اللہ کی تائید و نصرت سے سرفراز ہوں گے اور وہ سب خائب و خاسر ہوں گے، جو حق کے ادراک سے محروم رہ کر اسے مٹادینے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے۔

  • ایک نقطۂ نظر یہ بھی سامنے آیا: ’’مسلمانوں میں اختلاف ہونا ہی نہیں چاہیے، اور اگر ہوجائے تو اس پر زور دیا جائے کہ اختلاف حرام اور کفر ہے، اسے شدت سےکچل دینا چاہیے۔ اس کے بجائے آگے بڑھ کر اس کے آداب پر گفتگو کرنا، اختلاف کو مضبوط کرنے اور اسے گوارا کرنے کے مترادف ہے‘‘۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دوستوں سے کیا کہا جائے؟ مگر تعجب ہے کہ سادگی انسان کو اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ بنیادی اُمور کی حقیقت تک سے انکار کرنے لگتا ہے یا ان سے نظریں چُرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے مجھے امیر المومنین حضرت علیؓ کے کرب کا بھرپور احساس ہوا، جب انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب بھی مجھ سے اہلِ علم نے بحث مباحثہ کیا تو مجھے اس پر غلبہ حاصل ہوا، مگر جب کبھی کسی جاہل سے بحث ہوئی تو اس نے مجھے لاجواب کردیا!‘‘

بہرحال، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس گروہ کو اور ہمیں بھی راہ صواب دکھائے!

 

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے کے تسلسل میں فیصلہ سنا دیا۔ یہ فیصلہ ملکی نظام معیشت میں حُرمت ِسود کو فیصلے کی حد تک یقینی بناتا ہے۔ فیصلے پر اخبارات و جرائد میں اور دیگر ذرائع ابلاغ پر داد و تحسین اور نقد و جرح کا عمل جاری ہے۔

 یہ فیصلہ چونکہ ملکی آئین و قانون کے مطابق ہے، اس لیے قرآن و سنت، اصولِ فقہ، عمرانی علوم اور اسلامی علوم کے ماہرین کی آراء اس میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ملکی معیشت، معاشرتی تعلقات، قانون بین الممالک، شماریات، تجارت، اکاؤنٹنگ، وفاق اور صوبوں کے تعلقات اور ایسے کئی شعبوں کے ماہرین بھی اس فیصلے سے لاتعلق نہیں ہیں، لہٰذا وہ بھی تحریر و تقریر کے ذریعے اپنی اپنی آراء دے رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس فیصلے کا مختصر سا پس منظر بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین ماضی کے پورے عدالتی عمل سے بخوبی واقف ہو جائیں۔

حُرمتِ سود پر پہلا فیصلہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو دیا تھا، جس میں سود کی تمام شکلوں کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ترمیم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ آئینی اعتبار سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اگر وفاقی یا کسی صوبائی قانون کو متاثر کرتا ہو تو متعلقہ حکومت چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے۔ ورنہ وہ قانون غیر مؤثر ہو جاتا ہے اور فیصلہ  نافذ ہوجاتا ہے۔فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں کی جاتی ہے۔ اس پانچ رکنی بینچ کے لیے آئینی تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے تین مسلم ججوں کے ساتھ دو عالم جج بھی ہوں۔ اپیل ہوجانے پر غیر مؤثر قرار دیا گیا قانون مؤثر رہتا ہے اور نئے فیصلے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے۱۹۹۱ء کے فیصلے کے بعد ایسے ہی ہوا۔ شریعت اپیلٹ بینچ نے اس اپیل پر آٹھ سال بعد ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ءکو فیصلہ دیا۔ بینچ نے حکومت کو متعلقہ قوانین میں ڈیڑھ سال کے اندر ترمیم کرنے کی مہلت دے کر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی۔

جنرل مشرف حکومت نے شریعت اپیلٹ  بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ بنایا، جس میں نئے جج تھے۔ بینچ میں سماعت کے دوران میں کئی پہلے سے طے شدہ امور پر گفتگو کا آغاز نئے سرے سے ہوا۔ یوں سماعت کا دورانیہ بڑھتا گیا، حالانکہ اپیل میں تفصیل کے بجائے چند متعین نکات پر بحث ہوا کرتی ہے۔ طویل سماعت کے دوران میں سابقہ اصل بینچ کی دی گئی ڈیڑھ سالہ مدتِ مہلت ختم ہوگئی۔ لہٰذا حکومت کو قوانین میں ترمیم کے لیے اس نئے بینچ نے ایک سال کا مزید وقت دیا۔ یہ وقت ختم ہونے کے قریب پہنچا تو بینچ نے کچھ نکات کو نشان زد کرتے ہوئے اس ہدایت کے ساتھ مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیج دیا کہ ’’ان نکات کو ازسرنو دیکھا جائے‘‘۔

 ۱۹۹۱ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو ۱۹۹۹ء کے اصل بینچ نے برقرار رکھا تھا۔ یہ دونوں فیصلے چند متعین نکات کے گردا گرد تھے، لیکن ۲۰۰۲ء میں نئے شریعت اپیلٹ  بینچ نے مقدمہ  وفاقی شرعی عدالت کو واپس بھیجتے وقت یہ دروازہ کھول دیا کہ ’’مقدمے کے فریقوں نے جو امور شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے رکھے ہیں، وفاقی شرعی عدالت میں از سر نو سماعت میں وہ نئے امور بھی سامنے لاسکتے ہیں‘‘۔ اس حکم پر وفاقی شرعی عدالت میں مقدمے کی سماعت از سر نو شروع ہوکر ۲۰برسوں تک پھیل گئی، جس کی بڑی وجہ بعض فریقوں کی طرف سے اٹھائے گئے نئے نئے نکات تھے، حتیٰ کہ زیر نظر فیصلہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو سنا دیا گیا۔

فیصلے کا اطمینان بخش پہلو

اس فیصلے کا اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ عدالت نے اپنے ۱۹۹۱ء کے اور پھر شریعت اپیلٹ  بینچ کے ۱۹۹۹ء کے فیصلے سے انحراف نہ کرتے ہوئے سود کی تمام شکلوں کو خلافِ اسلام قرار دینا، برقرار رکھا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ’’سود کو انٹرسٹ (Interest) کہا جائے یا نفع، یا کسی قانون میں اسے کچھ اور کہا گیا ہو، اس کی تمام صورتیں حرمت سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ قانون اور بنکاری صنعت میں اس کی کوئی بھی اصطلاح مستعمل ہو، سب حرام ہیں‘‘۔ اس تفصیل میں سود کا ایک اور انگریزی نام ’یوژری‘ (Usuary) بھی شامل ہے۔ قارئین کے لیے یہ وضاحت دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سودی لین دین کے فریقین کے مابین لین دین کی عمومی شکلوں پر شرح سود حکومتی یا ریاستی بنک کی مقررہ حدود کے اندر ہو تو اسے ’سود‘، ’منافع‘ یا ’انٹرسٹ‘ کہتے ہیں، لیکن حکومت یا مرکزی بنک کی مقررہ شرح سود سے زیادہ سود پر لین دین پر اتفاق ہو تو اس اضافہ شدہ شرح کو ’یوژری‘ کہتے ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے یوژری سمیت ان تمام سودی اقسام کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر ان کے لین دین سے روک دیا ہے۔یہ اس فیصلے کا سب سے مستحسن حصہ ہے۔

فیصلے کا دلچسپ حصہ

شریعت اپیلٹ  بینچ کی طرف سے مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو از سر نو غور کے لیے بھیجا گیا تو نیا فیصلہ آنے میں بیس سال لگے۔ اس طویل مدت کو شرعی عدالت یوں باعثِ اطمینان قرار دیتی ہے کہ اس مدت میں متوازی عمل کے ذریعے اسلامی بنکاری اور بلاسود بنکاری کو اتنا فروغ ملا کہ اس کے نظری مباحث، عملی حقیقت کے رُوپ میں ڈھل گئے۔ اسی عرصے میں علمی مطالبات، عملی شکل اختیار کر گئے۔ عدالت کے خیال میں ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۹ء کے دو فیصلوں کے نتیجے میں ٹھوس علمی بنیادوں پر وہ بہترین لٹریچر تیار ہوا، جس کی ستائش نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بیرون ملک میں بھی کی گئی۔ نتیجہ یہ کہ بعض سوالات کی نوعیت بدل کر رہ گئی۔ مثلاً یہ سوال کہ ’کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری عملاً ممکنات میں سے ہے یا نہیں؟‘ یوں غیرمتعلق ہوچکا ہے کہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے جواب کے مطابق اسلامی بنکاری عملی طور پر معرض وجود میں آکر علما کی نگرانی میں بحسن وخوبی کام کر رہی ہے۔ عدالت کے خیال میں اس ۲۰ سالہ عرصے میں متعدد حل طلب امور، غیر متعلق ہو چکے ہیں ( پیرا -۹)۔

عدالت نے قرار دیا ہے کہ اسٹیٹ بنک نے اپنے جواب میں اوّل تو ان متعدد اہل علم کی آراء کے بنیادی مآخذ نہیں بتائے، جن پر بنک کے جواب کا انحصار تھا، بلکہ اس نے دوسرے درجے کے مآخذ کا سہارا لے کر جواب دیا( پیرا -۱۲)۔ بنک نے جو نظری نقطۂ نظر اختیار کیا، اپنے عملی اقدامات کا ذکر کرتے وقت وہ اس سے الگ نقطۂ نظر اپناتا نظر آیا۔ اسٹیٹ بنک، اسلامی بنکاری کے ان مختلف طریقوں کا ذکر کرتا ہے جو ملک میں رائج ہیں۔ لیکن نظری گفتگو کرتے وقت بنک نے جن ثانوی حوالہ جات کا سہارا لیا ، وہ یا تو کسی اسکالر کے مقالے سے لیے گئے تھے یا وہ کسی کتاب میں محض بطور حوالہ ملتے ہیں۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ بنک نے جن فاضل اہل علم کے سہارے اپنے جواب کی بنیاد رکھی، ان میں سے مفتی عبدہٗ اور رشید رضا دونوں مصلحین ہیں، فقیہ نہیں۔ ان دونوں معزز مصلح رہنماؤں نے فقہ اور شریعت کے باریک اور پیچیدہ امور میں اوّل تو کبھی حتمی رائے نہیں دی اور اگر دی تو اس رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ انھیں عہدحاضر کے پیچیدہ فنی امور میں پیش نظر رکھا جائے۔ رہے باقی فاضل اہل علم کے حوالہ جات تو وہ علمی اعتبار سے یونی ورسٹیوں کے طالب علموں کی پڑھائی میں تو کام آتے رہے ہیں، پیچیدہ اور عملی امور میں ان کا لیا جانا محل نظر ہے۔

بلاسود اقتصادی نظام: پانچ سالہ مدت کیوں؟

۳۱۸صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے آخری حصے میں چند حقائق بیان کرتے ہوئے عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کے وکیل سے ہمارا سوال تھا کہ روایتی سودی نظام کو مکمل بلاسود اقتصادی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بنک کو کتنا وقت درکار ہے؟ جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ ’’گورنر اسٹیٹ بنک، وزیر خزانہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مشاورت کے بعد اس سوال کا جواب دیا جائے گا۔ لیکن متعدد تاریخیں گزرنے کے باوجود اٹارنی جنرل نے نہ صرف اس سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ یہ اصرار کیا کہ اس ضمن میں عدالت کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تب عدالت نے ماہرین معاشیات اور دیگر ماہرین سے یہی استفسار کیا۔ ان ماہرین کی رائے میں تین سے دس سالہ مدت ایسی تھی، جس میں ملک میں مکمل بلاسود اقتصادی نظام قائم ہو سکتا ہے۔

ایک درمیانی رائے سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود صاحب کی تھی، جسے عدالت نے اختیار کر لیا کہ یہ کام پانچ سالہ مدت میں ممکن ہے۔ تاہم، عدالت نے اٹارنی جنرل کی یہ درخواست تسلیم نہیں کی کہ کوئی حتمی تاریخ نہ دی جائے بلکہ قرار دیا کہ حتمی تاریخ مقرر کرنا نفاذِ شریعت کے لیے دستوری تقاضا ہے (پیرا-۱۳۶ )۔

چنانچہ، ان متعدد ماہرین معاشیات اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی آراء پر انحصار کرتے ہوئے عدالت نے اگر پانچ سال کی مدت مقرر کر دی ہے تو بظاہر اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن خدشہ موجود ہے کہ اس مدت میں حکومتوں نے اگر فیصلے پر عمل درآمد کی طرف رخ ہی نہ کیا اور اختتام مدت کے آخری ایام میں معذرت خواہانہ اپیل کر دی گئی تو گویا لوڈو کے کھیل کی طرح  ننانوے سے نیچے ایک پر آنا پڑے گا۔لہٰذا، اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار عدالتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔

با اختیار عمل درآمد کمیشن کیوں نہیں؟

جولائی ۲۰۱۷ءمیں ’پانامہ پیپر‘ سے متعلق سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تو اسی فیصلے کے مطابق عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج مقرر ہوئے،جنھوں نے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی مکمل نگرانی کر کے معزول وزیراعظم نواز شریف کو جیل بھیج کر دم لیا۔

 ۲۰۱۴ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب نے متعلقین تعلیم اور ماہرین تعلیم کو سنے بغیر تعلیم سے متعلق ایک فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ اصولِ قانون اور عدالتی روایات سے انحراف کی ایک بدنما مثال تھا۔ لہٰذا، اس پر عمل درآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔ شاطر این جی اوز اور اقلیتی رہنماؤں نے موقعے کا انتظار کیا، تاوقتیکہ ان کے ہم خیال چیف جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ کی باگ ڈور سنبھال لی تو وہ ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ جا پہنچے اور پانچ سال پرانے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے،پولیس کے ایک سابق اعلیٰ افسر شعیب سڈل پر مشتمل یک رکنی کمیشن مقرر کرایا، جنھوں نے وہ نامعقول سفارشات پیش کیں کہ جن سے مسلمانوں کے سینے تو چھلنی ہوئے ہی تھے، خود غیرمسلم بھی مسلمانوں کی تائید و حمایت کے لیے آن کھڑے ہوئے۔(اس بحث کے لیے دیکھیے راقم کے دو مضامین عالمی ترجمان القرآن ،مئی، جون ۲۰۲۱ء)

یہاں پر مذکورہ حوالے کو دُہرانے کا مقصد یہ ہے کہ عدالتیں اپنے فیصلوں پر عمل کرانے کے لیے ماضی میں کمیشن مقرر کرتی رہی ہیں۔ لہٰذا، اس موقعے پر وفاقی شرعی عدالت سے بجا طور پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے اس انتہائی اہم فیصلے پر عمل درآمد کرانے اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کے لیے ایسا ہی ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے گی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔یہ کام اب بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا، وفاقی شرعی عدالت سے اب یہ درخواست اور توقع ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے مناسب افراد پر مشتمل ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے۔

دوسری اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ کہ عدالت نے خود اپنے فیصلے میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’حکومتی ایوانوں سے عدالت کو کبھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ عدالت نے ملکی معیشت کو شرعی سانچے میں ڈھالنے کے لیے اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ بنک کو متعدد مواقع دیئے کہ وہ بتائیں کہ یہ کام کتنے عرصے میں ممکن ہے؟ اس کا جواب تو دینا رہا ایک طرف، اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ عدالت اس کام کے لیے کوئی حتمی تاریخ بھی نہ دے‘‘۔حکومتی سطح پر اس رویے کی بنیاد پر انتظامیہ کی جانب سے کسی اچھی اُمید کا باندھنا بظاہر ممکن نہیں نظر آتا، اسی لیے تنفیذ کے لیے عدالتی نگرانی ضروری ہے۔

 اب ذرا حرمت سود پر عدالتی فیصلوں پر مختلف حکومتوں کے رویوں کا جائزہ ایک بار پھر لیجیے:

۱۹۹۱ء میں عدالت نے حرمت سود پر ایک بھرپور فیصلہ دیا تو حکومت اپیل میں چلی گئی۔ ۱۹۹۹ء میں شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تو ایک دوسری طرح کی حکومت نے بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔ اس نئی فوجی حکومت نے فیصلہ سنانے والا بینچ تحلیل کر کے نیا بینچ قائم کر دیا۔ فوجی حکومت کے اس پسندیدہ نئے بینچ کو انحراف پر مبنی فیصلہ دینے کی جسارت تو نہیں ہوسکی، لیکن اس نے ۲۰۰۲ء میں مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو اَز سرنو غور کے لیے بھیج دیا۔ پھر اگلے ۲۰برسوں میں چار سیاسی جماعتوں کے ۹ وزرائے اعظم آئے، لیکن معلوم ہوا کہ کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں اور سابقہ عدالتی نظائر کے پیش نظر وفاقی شرعی عدالت سے یہ توقع رکھنا فطری تقاضا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے ایک بااختیار کمیشن مقرر کرے، جس کی سفارشات پر حکومتیں عمل درآمد کرنے کی پابند ہوں۔ یہ کمیشن، عدالت کی صوابدید پر اپنی سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ رپورٹ وفاقی شرعی عدالت کو پیش کرکے مزید رہنمائی لینے کا پابند ہونا چاہیے۔

اپیل پر کمیشن کا مستقبل

کہا جا سکتا ہے کہ ’’موجودہ زیر نظر فیصلے کا کوئی متاثرہ فریق شریعت اپیلٹ  بینچ میں اپیل کر گزرا تو عمل درآمد کمیشن کا کام موقوف ہو جائے گا۔

یہ اعتراض بے وزن ہے۔ آئینی طور پر حکومت اور انتظامیہ، ملک سے سود ختم کرنے کی پابند ہے۔ یہ کام بے دلی سے کیا جائے تو اس میں وقت زیادہ تو لگ سکتا ہے، لیکن ریاست و حکومت کے کندھے سے بوجھ نہیں ہٹ سکتا۔ مذکورہ اپیل کی صورت میں عمل درآمد کمیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بشرطیکہ عدالت اس کمیشن کے مقاصد کو فیصلے سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ اسے آئینی ذمہ داری کی چھتری تلے لے آئے۔ یوں اپیل کی صورت میں کمیشن کے کام کا صرف وہ معمولی سا حصہ متاثر ہوگا جو فیصلے سے متعلق ہوگا۔ عدالت نے اس بااختیار عمل درآمد کمیشن کو اگر باریک بینی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ آئینی وظائف بھی سونپ دیئے، تو اپیل پر فیصلہ آنے تک یہ کمیشن بڑا مفید علمی اور عملی کام نمٹا چکا ہوگا۔ علاوہ ازیں اپیل کی سماعتوں کے دوران میں دیگر کے ساتھ کمیشن کی آراء بھی بڑی سودمند اور وقعت کی حامل ہوں گی، جو شریعت اپیلٹ  بینچ کو فیصلہ کرنے میں خوب سہولت فراہم کریں گی۔امید ہے کہ معزز عدالت ان معروضات پر غور کرے گی۔

فیصلے کا بہت اہـم ، مگر مبہم حصہ

فیصلے کے آخری حصے میں عدالت نے اپنی گذشتہ بحث کے نتائج نکال کر احکام جاری کیے ہیں۔ حکومت کو مہلت عمل دیتے ہوئے پیراگراف ۱۳۳ میں دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل ۲۰۳-ڈی کا سہارا لیا جس میں عدالت کو وہ تاریخ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے، جس تک وہ حکومت کو یہ مہلت دیتی ہے کہ وہ ضروری اقدامات کرے۔ اس کے بعد قانون کے بجائے عدالتی حکم مؤثر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہی دستور حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ چھ ماہ کے اندر فیصلے کے خلاف شریعت اپیلٹ  بینچ میں اپیل کرے۔ اپنے اس فیصلے میں عدالت نے پندرہ قوانین یا بعض حصوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے کر فیصلہ دیا کہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے یہ قوانین یا ان کے حصے غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ اگلے ہی جملے میں عدالت نے حکومتوں کو ان قوانین کو ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء تک تعلیمات اسلامی سے ہم آہنگ کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ حکومت یہ قانون سازی مؤثر بہ ماضی (Retrospectively) بھی کر سکتی ہے۔

جہاں تک قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی عدالت کی مدتِ مہلت کا تعلق ہے، تو یہ مدت حکومت کو حاصل دستوری مدت اپیل (چھ ماہ) سے قدرے زائد، یعنی آٹھ ماہ تک پھیلادی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف حکومت چھ ماہ کے اندر اپیل کرتی ہے تو فیصلہ غیرمؤثر ہو جائے گا۔ اب فرض کریں کہ حکومت چھ ماہ کے آخری ہفتے میں جاکر کہیں اپیل کرتی ہے تو اپیل کے ساتھ ہی فیصلہ امتناع کی نذر ہو جائے گا اور ماضی میں ایسے ہوتارہا ہے۔ لیکن اس بار زیرنظر فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ۳۳ دن بعد پندرہ اہم اور معیشت کے لیے رگ جان جیسے قوانین غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ گویا ان پندرہ قوانین کی درجنوں شقیں فیصلے کے صرف ۳۳ دن بعد غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ حکومت کو ملی ہوئی چھ ماہ کی دستوری مدت اپیل کہاں گئی؟

گویا حکومت کے خیال میں اگر فیصلہ لائق اپیل ہے تو اسے ہر قیمت پر صرف ۳۳دن کے اندر اپیل کرنا ہوگی جو بجائے خود چھ ماہ کی دستوری رعایت کے برعکس ہے۔عدالت نے ان دوتاریخوں میں تطابق پیدا کرنے کی خاطر بالوضاحت کہا ہے کہ ’’حکومت مؤثر بہ ماضی قانون سازی کر سکتی ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ اگر حکومت نے آخری دنوں، یعنی دسمبر ۲۰۲۲ء میں غیر مؤثر قوانین کی جگہ   نئی قانون سازی کی تو وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے مؤثر ہو سکتی ہے۔ واپس آئیے! حکومت واقعتاً چھ ماہ تک نہ اپیل کرتی ہے اور نہ یکم جون ۲۰۲۲ء تک ان قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرتی ہے تو ۳۳ دن بعد یکم جون ۲۰۲۲ء سے ملک بھر میں جو ممکنہ مالیاتی افراتفری مچ سکتی ہے اس بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں اور نہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بارے میں کچھ واضح کیا ہے۔

ہم نے اس نکتے پر نہایت منجھے ہوئے قانون دانوں اور فیصلے سے براہ راست متعلق چند ماہرین معیشت اور ماہرین مالیات سے طویل تبادلہ خیال کیا، لیکن سب نے فیصلے کے اس حصے کی کوئی شافی وضاحت دینے سے معذوری ظاہر کی۔ یہ دو تاریخیں، یعنی یکم جون ۲۰۲۲ء اور ۳۱دسمبر ۲۰۲۲ء  ملک کے ۱۵ قوانین یا ان کے حصوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان پندرہ قوانین میں سے ہر قانون یا اس کے حصے پر الگ الگ گفتگو کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہبازشریف حکومت میں وفاقی وزیر خزانہ جناب مفتاح اسماعیل نے فیصلے کا خیر مقدم تو کیا ہے، لیکن شاید اسی لیے یہ اضافہ بھی کر دیا کہ ’’حکومت عدالت سے مزید رہنمائی حاصل کرے گی‘‘۔اس مبہم صورت حال میں مذکورہ بالا ۱۵ممکنہ طور پر کالعدم قوانین یا ان کے حصوں پر الگ الگ رائے زنی کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے، تا وقتیکہ یکم جون ۲۰۲۲ء گزر جائے اور فیصلے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں یا وفاقی شرعی عدالت از خود یا حکومت کی درخواست پر ان دو تاریخوں میں کوئی تطابق پیدا کردے۔

ایک وضاحت

وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ مفصل نقد و جرح کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرحال، اس مختصر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ فیصلے کو بنظر استحسان دیکھتے ہوئے اس کے اہم، توجہ طلب اور تشریح طلب نکات پر پہلے نظر ڈالی جائے۔ یہاں پر قارئین کو دو باتوں کی طرف توجہ دلانا سود مند اور مفید ہوگا:

۱- عدالتیں ہمیشہ آئین، قانون، واقعات اور شواہد پر انحصار کرتے ہوئے فیصلے سناتی ہیں۔ اس عمل میں طویل مدت لگے تو عدالت اس کی کسی حد تک ذمہ دار تو ہوسکتی ہے، مگر بڑی حد تک نہیں۔ حرمت سود کے خواہش مند حلقوں کے لیے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۱ء میں اور ۲۰۲۲ء میں ایک ہی فیصلہ دیا۔ حالانکہ ۳۱ سال کے وقفے میں عدالت کے جج تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو علیٰ حالہ برقرار رکھا۔ گمان غالب ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے اپنے وضع کردہ شریعت اپیلٹ  بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بدلنے کے بجائے ان کی توقعات کے برعکس اسے وفاقی شرعی عدالت کو واپس تو بھیج دیا، لیکن فیصلہ بدلنے کی ہمت اس بینچ میں بھی نہیں تھی۔ لہٰذا اللہ سے دعا کی جانی چاہیے کہ اس مستحسن فیصلے سے آیندہ خیر ہی نکلے۔

۲- عدالتی عمل میں حکومتوں کا رویہ دیکھا جائے تو ان سب میں سیاسی عدم یکسانیت اور بُعد المشرقین ہوتے ہوئے بھی آپ کو یکسانیت اور ہم آہنگی نظر آئے گی۔ ۱۹۹۱ء میں عدالتی فیصلے پر مسلم لیگ کی نواز شریف حکومت نے اپیل کی۔ ۱۹۹۹ء میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے شریعت اپیلٹ  بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور اسی نے اپنی پسند کا نیا شریعت اپیلٹ بینچ بنادیا۔ ۲۰۰۲ء سے ۲۰۲۲ء تک متعدد سیاسی حکومتوں کے متعدد اٹارنی جنرل آئے۔ عدالت سب سے مسلسل کہتی رہی کہ حکومت اسلامی نظام اقتصاد کی کوئی حتمی تاریخ دے۔ سب نے نہ صرف حتمی تاریخ نہ دے کر، مل جل کر دو عشرے ضائع کیے بلکہ سبھی اٹارنی جنرل مصر رہے کہ عدالت بھی کوئی حتمی تاریخ نہ دے۔ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر عہد کے کوچۂ اقتدار میں حرمت سود کا یا تو کوئی تصور ہی نہیں یا یہ تصور نہایت دھندلا سا ہے۔(iqbal.malik888@mail.com)

 

وفاقی شرعی عدالت نے اب سے تقریباً ۳۱ برس قبل ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء کو جو فیصلہ دیا تھا اُس میں بھی کہا گیا تھا کہ سود بھی ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے، اور عدالت نے سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا تھا۔ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۸(ایف) میں بھی کہا گیا ہے کہ ’’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد (معیشت سے) ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے‘‘۔ یہ بات بہرحال حیران کن ہے کہ شرعی عدالتوں میں ربوٰ کا مقدمہ تقریباً ۳۱ برس زیرسماعت رہا، جس کا قطعی کوئی جواز نہیں تھا۔ ان تاخیری حربوں میں مختلف حکومتوں اور اسٹیٹ بنک کا بھی بڑا اہم کردار رہا۔ یہ امرافسوس ناک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، بیش تر دینی و مذہبی جماعتوں، علما و مفتی صاحبان، دانش وروں اور وکلا وغیرہ کی طرف سے اس ضمن میں کوئی بہت زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، اور نہ معاشرے میں کوئی ارتعاش پیدا ہوا۔

سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک کی مہلت دی تھی۔ جون ۲۰۰۱ء میں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے اس فیصلے پر عمل درآمد کی مدت میں بلا کسی جواز کے ایک سال کی توسیع، حکومت سے یہ تحریری ضمانت لیے بغیر کردی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقیناً کرے گی اور توسیع صرف اس لیے مانگ رہی ہے کہ اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ فیصلہ اسلامی بنکاری کے نفاذ کی کوششوں کو بڑا دھچکا تھا۔

 سپریم کورٹ کے اس بینچ میں پاکستان کے ایک ممتاز اور عالمی شہرت کے حامل مفتی بھی عالم جج کی حیثیت سے شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور شریعت اپیلٹ بینچ نے جس میں دوعالم جج بھی شامل تھے، صرف ۱۰ روز کی سرسری اور رسمی سماعت کے بعد ۲۴ جون ۲۰۰۲ء کو ایک فیصلہ سنایا، جس کے تحت سود کو حرام قرار دینے کے ۱۴ نومبر ۱۹۹۱ء اور ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا، جس نے تقریباً ۲۰برس بعد ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو فیصلہ سنایا جس میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے سود کے خاتمے کے لیے مزید پانچ برس کا وقت دے دیا۔ اگر ربوٰ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو سود کے خاتمے کے ضمن میں حوصلہ افزا پیش رفت ہوچکی ہوتی۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں مقتدر طبقوںاور بنکاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے ایک مربوط حکمتِ عملی وضع کر رکھی ہے، جس کا مقصد یہ یقینی بنانارہا ہے کہ:

  • معیشت سے سود کے خاتمے کو لمبی مدت تک التوا میں رکھا جائے۔
  • اسلامی نظامِ بنکاری کے نام پر ۲۰۰۲ء میں شروع کیے جانے والے نظامِ بنکاری کو سودی نظام ہی کے نقشِ پا پر استوار کیا جائے۔
  • ’اسلامی بنکاری‘ اور سودی نظامِ بنکاری کو لمبی مدت تک ساتھ ساتھ، یعنی متوازی چلنے دیا جائے۔
  • اس دوران معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ اور پیچیدگیاں پیدا کردی جائیں کہ ملک میں آنے والے عشروں میں بھی معیشت سے سود کے خاتمے کی طرف معنی خیز پیش رفت، محض خواب و خیال بن کر رہ جائے۔

مندرجہ بالا حکمت ِ عملی کے تحت کیے گئے فیصلوں اور اقدامات کے نتیجے میں ۲۰ برسوں کے دوران میں سود کے خاتمے کے لیے ماحول پہلے سے بھی زیادہ معاندانہ اور مخالفانہ ہوگیا ہے، مثلاً:

  •  ۳۰ جون ۲۰۰۲ء کو ملک کے داخلی قرضوں و ذمہ داریوں کا مجموعی حجم ۱۸۰۰؍ارب روپے تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو ۳۰,۳۶۰؍ارب روپے ہوگیا۔
  •  ۳۰ جون ۲۰۰۲ء کو پاکستان کے بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم ۳۵؍ارب ڈالر تھا، جو ۳۱مارچ ۲۰۲۲ء کو ۱۲۸؍ ار ب ڈالر ہوگیا۔

وزارتِ خزانہ نے جون ۲۰۰۱ء میں ربوٰکے مقدمے میں جو حلف نامہ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا، اُس میں کہا گیا تھا کہ ’’سود کی بنیاد پر ملک کے داخلی قرضوں کو اسلامی فنانسنگ کے طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا گیا تو پاکستان کے معاشی استحکام اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے‘‘۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ گذشتہ ۲۰ برسوں میں ملک کے قرضوں کے حجم میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے، اور معیشت اور معاشرے میں اتنا زیادہ بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے کہ معیشت سے سود کے خاتمے کے لیے معنی خیز پیش رفت اُسی وقت ممکن ہے جب اس کے لیے متعدد انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں، جس کے لیے زیادہ عوامی حمایت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں میں کوئی عملی عزم نظر نہیں آرہا۔

غیر اسلامی اور غیر آئینی ، متوازی بنکاری

سپریم کورٹ سے ربوٰ کے مقدمے میں ایک سال کی توسیع ملنے کے صرف تین ماہ بعد ۴ستمبر ۲۰۰۱ء کو اُس وقت کے فوجی حاکم جنرل مشرف کی صدارت میں پاکستان کے ’مالیاتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے‘ کے نام پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سودی نظام کو عملاً پاکستان میں تقویت دینے اور زندگی بخشنے کے لیے غیرآئینی اور غیر اسلامی فیصلے کیے گئے تھے۔ اس اجلاس میں اسٹیٹ بنک کے اس وقت کے گورنر، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور کچھ ارکان کے علاوہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کے ایک ممتاز عالم جج بھی شامل تھے۔

ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ ’’یہ متوازی بنکاری نظام، غیر اسلامی ہے، اور یہ کہ اس اجلاس میں شریک علما اور دوسرے ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر یہ بھی معروضات پیش کیں: مروجہ ’اسلامی بنکاری‘ کی پشت پر علما و مفتی صاحبان اور اسٹیٹ بنک کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے اور اس کے ذریعے سودی نظام کو عملاً دوام مل گیا ہے، مگر وہ سب ۲۰ برس سے اس معاملے میں خاموش ہیں۔

بلاسودی بنکاری اور اسلامی بنکاری

سودی نظامِ بنکاری کے متبادل کے طور پر اسلامی بنکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے اس میں مندرجہ ذیل عوامل لازماً شامل ہونے چاہییں:

  •   اسلامی نظامِ بنکاری میں سود کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔
  •  اسلامی نظامِ بنکاری میں سودی نظام سے ہونے والے ہر قسم کے ظلم، ناانصافی اور استحصال کا لازماً خاتمہ ہونا چاہیے۔
  •  اسلامی بنکاری کے نفاذ سے اسلامی نظام معیشت کے مقاصد کی تکمیل میں لازماً معاونت ہونی چاہیے اور تمام پارٹیوں کو سماجی انصاف ملنا چاہیے۔

یہ مقاصد صرف اُس وقت حاصل ہوں گے، جب اسلامی بنکاری کی اساس ’نفع و نقصان میں شراکت‘ کی بنیاد پر ہو۔ اس کے لیے معاشرے کی اصلاح، اسلامی نظامِ معیشت کا مکمل نفاذ اور تمام ملکی قوانین کو شریعت کے تابع بنانا ہوگا۔ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام استحصالی ہے اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ معیشت دستاویزی (documented) نہیں ہے۔ ان تبدیلیوں کے لیے اقتدار کے سرچشموں پر فائز طبقوں میں عزم موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ بنک نے ربوٰ کے مقدمے میں جو حلف نامہ جمع کرایا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ:

  •  بنکاری کے نظام کو اسلامی نظام بنکاری میں تبدیل کرنے کے ضمن میں متعدد خطرات ہیں اور اس کے نتیجے میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اس سے معیشت غیر مستحکم ہوجائے گی۔
  • اگر بنکاری میں نفع و نقصان میں شرکت کا اسلامی نظام اپنایا گیا تو بنکاری کے شعبے میں بحران پیدا ہوجائے گا اور ملک سے سرمائے کا فرار شروع ہوجائے گا۔

گذشتہ دو عشروں سے پاکستان میں ’اسلامی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے جو نظام اپنایا گیا ہے اس کو ’اسلامی نظامِ بنکاری‘ کہا ہی نہیں جا سکتا بلکہ بنکوں کو اسلامی بنک بھی نہیں کہا جاسکتا۔ وہ علمائے کرام جو مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں یا بنکوں کی شریعہ کمیٹی کے رکن ہیں، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان بنکوں کو اسلامی بنک نہیں کہا جا سکتا، مگر گذشتہ ۲۰ برس سے ان کے ہاں بھی خاموشی ہے۔

اگر کوئی بنک سود سے پاک بنکاری کے نام پر کھاتے داروں کا استحصال کرتا ہے، سٹے بازی یا منافع خوری وغیرہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسلامی نظام معیشت سے انحراف کرتا ہے تب بھی اسے ’بلاسودی بنک‘ کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے جو بنک کام کررہے ہیں وہ دراصل بلاسودی بنک ہیں، البتہ ان بنکوں میں سود کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔

پاکستان میں اسلامی بنکاری کے نام پر جو نظام وضع کیا گیا ہے، وہ سودی نظام کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ ایک اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’بنک کا کاروبار شرعی اصولوں کے مطابق ہے‘‘، جب کہ اس اسلامی بنک کے کھاتے داروں کو منافع کی تقسیم اسٹیٹ بنک کی ہدایات کے تحت ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ ایک اور اسلامی بنک کی شریعہ کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنک کا کاروبار بڑی حد تک شریعت کے مطابق ہے۔ حالانکہ شریعت میں ’بڑی حد تک‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، اس کو ’مکمل طور پر‘ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔

ان معروف اسلامی بنکوں میں کچھ ایسی پروڈکٹس یا اسکیمیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو صاف صاف سود کے زمرے میں آتی ہیں۔ مثلاً رننگ مشارکہ، مشارکہ، تورّق، صکوک، کرنسی سلم، اسپیشل مشارکہ سرٹیفکیٹس اور صکوک البنک بیع معجل وغیرہ۔ اسی طرح پاکستان میں اسلامی بنک اپنے ڈیپازٹ کھاتے داروں کو مناسب شرح سے منافع نہیں دے رہے، جوکہ غیر اسلامی ہے۔اگر اسلامی بنک نفع و نقصان میں شرکت کو اپنائیں تو بنکوں کے کھاتے داروں کو زیادہ منافع ملے گا، تمام پارٹیوں سے انصاف ہوگا، افراطِ زر میں کمی ہوگی اور اسلامی معیشت کے فیوض و برکات بھی حاصل ہوں گے۔

اسلامی نظامِ معیشت کے خلاف گٹھ جوڑ

پاکستانی معیشت دراصل طاقت ور معاشی اور مقتدر طبقوں (Elite) کی معیشت ہے۔ ملک کے طاقت ور طبقے بشمول وفاقی و صوبائی حکومتیں و صوبائی اسمبلیاں، دوسرے فیصلہ ساز ادارے اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والی متعدد اہم اور قابلِ احترام شخصیات بھی عموماً نہیں چاہتیں کہ پاکستان سے سود کا خاتمہ ہو اور اسلامی نظامِ معیشت اسلام کی حقیقی روح کے مطابق استوار ہو۔

عدل اور سماجی انصاف پر مبنی اسلامی نظام کے نفاذ سے ٹیکس چوری کرنے والوں، ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات حاصل کرنے والوں، کالا دھن رکھنے والوں، قومی دولت لوٹنے یا ناجائز طریقوں سے دولت بٹورنے والوں، قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر ناجائز دولت کا قانونی تحفظ حاصل کرنے والوں، بنکوں سے غلط طریقوں سے قرضے معاف کرانے والوں، ذخیرہ اندوزی، اوور اور انڈر انوائسنگ، اسمگلنگ کرنے والوں اور اپنا جائز و ناجائز پیسہ قانونی و غیرقانونی (ہنڈی/ حوالہ وغیرہ) طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کرنے والوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑے گی۔ چنانچہ اس ڈسپلن سے بچنے کے لیے ان سب میں ایک گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔

یہی نہیں، اقتدار میں آنے، اقتدار برقرار رکھنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی اشرافیہ (استعماری طاقتیں اور آئی ایم ایف و عالمی بنک وغیرہ) کی حمایت بھی درکار ہوتی ہے۔ چنانچہ ملکی اور بیرونی اشرافیہ میں بھی عملاً ایک گٹھ جوڑہے۔ یہ سب پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کو روکنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتے رہے ہیں اور جاتے رہیں گے۔ البتہ یہ تمام قوتیں اسلامی بنکاری کے نام سے جاری ’بلاسودی نظام بنکاری‘ کے فروغ میں معاونت کرتی رہیں گی، کیونکہ یہ عملاً صرف نام کی تبدیلی اور سودی نظام کے نقشِ پا کی پختگی پر کھڑا ہے۔

اسلامی معیشت وبنکاری کے لیے اسلام جو مقاصدمتعین کرتا ہے، ان میں عدل وانصاف، معاشرے کی عمومی فلاح وبہود اور عدم ارتکاز دولت شامل ہیں ۔ ان مقاصد شریعہ کی روشنی میں ملک میں ’عمومی یا سود ی بنکوں‘ اور’ اسلامی بنکاری‘ کے تحت کام کرنے والے بنکوں کی کارکردگی کا جائزہ دیکھیے:

۱- بنکوں کے ڈیپازٹس اور قرضہ جات (فنانسنگ ) ملین روپے

نام            اسلامی بنک           عمومی بنک

ڈیپازٹ کھاتے         ۷ء۹۰      ۶۲ء۸۸

قرض خواہ کھاتے   ۰ء۲۴      ۳ء۹۰

تناسب (فی صد )    ۳ء۰۰      ۶ء۰۰

 محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے : ’’(سودی) بنک درحقیقت پوری قوم کا بلڈ بنک ہیں،جہاں پہ سرمایہ دار پوری قوم کا خون چوس چوس کر پھلتے پھولتے رہتے ہیں اور پوری قوم اقتصادی اعتبار سے نیم جان لاش رہ جاتی ہے ‘‘۔ درج بالا اعدادوشمار اس بات کی بڑی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ’اسلامی بنک ‘درحقیقت’سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں زیادہ استحصالی کردار ادا کررہے ہیں۔

۲- بنکوں کے قرضوں اور فنانسنگ کا حجم، فی صد حصہ (۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء کے مطابق)

شعبہ جات               اسلامی بنک           عمومی بنک

چھوٹے اور درمیانے درجہ کے ادارے ۲ء۳         ۴ء۸

زراعت    ۰ء۸         ۳ء۷

صارفین کی فنانسنگ             ۱۰ء۷      ۷ء۵

ان اعداد وشمار سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے ’اسلامی بنکوں ‘ نے’ عمومی سودی بنکوں‘ کے مقابلے میں صارفین کی فنانسنگ اسکیموں کے تحت گاڑیوں اور اشیائے تعیش کی خریداری کے لیے زیادہ فنانسنگ (قرضہ جات کی فراہمی )کی ہے ، جب کہ چھوٹے قرضوںکی اسکیم کے تحت چھوٹے کسانوں اور تاجروں کو سودی بنکوں نے زیادہ قرضے فراہم کیے ہیں ۔ یہ صورت حال اسلامی معیشت اوربنکاری کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

۳- بنکوں کی ایکویٹی پر قبل از ٹیکس منافع فی صد میں

نام            ۲۰۲۰ء   ۲۰۲۱ء

اسلامی بنک           ۳۶ء۴      ۳۲ء۶

عمومی بنک            ۲۳ء۲      ۲۴ء۰

ان اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ’ اسلامی بنک ‘اپنی ’ایکویٹی ‘ پر سودی بنکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ منافع کما رہے ہیں، مگر ’اسلامی بنک ‘اپنے کھاتہ داروں کو سودی بنکوں کے مقابلے میں کم منافع دے کر کھاتہ داروں کااستحصال کر رہے ہیں۔

اب ملک میں عام لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ’اسلامی نظام بنکاری‘ کے نفاذ سے جس بہتری کے دعوے گذشتہ کئی عشروں سے کیے جاتے رہے ہیں، وہ صرف کتابی باتیں ہیں اور گذشتہ ۲۰ برسوں میں یہ بہتری کہیں نظر نہیں آئی۔ یہ سوچ نتائج کے اعتبار سے انتہائی تباہ کن ہے۔

تجاویز

۱-شریعہ اسکالرز، اسلامی نظریاتی کونسل، اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ، مالیاتی سوجھ بوجھ رکھنے والے علما خصوصاً وہ علما جو پاکستان میں مروجہ اسلامی بنکاری کی پشت پر ہیں، ان سب کو واضح طور پر کہنا ہوگاکہ وہ ملک میں ’سودی بنکاری‘ اور ’اسلامی بنکاری‘ کو ساتھ ساتھ چلانے کی حکومت اور اسٹیٹ بنک کی پالیسی کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ یہ غیراسلامی ہے۔ اب ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سودکے خاتمے کے لیے پانچ سال کا وقت دیا ہے۔ چنانچہ ہم تجویز کرتے ہیں کہ اگر اس مدت کو مان کر کام کرنا ہے تو پھر ہر سال سودی بنکوں کے کاروبار کا ۲۰ فیصد بلاسودی بنکاری کے تحت تبدیل کیا جائے اور اسٹیٹ بنک اس ضمن میں احکامات جاری کرے۔

۲- اسٹیٹ بنک و بنکوں کے شریعہ بورڈ اور وہ علما جو مروجہ اسلامی نظامِ بنکاری کی پشت پر ہیں، اپنی ۲۰ سالہ خاموشی کو توڑ کر قوم کو واضح طور پر بتائیں کہ کیا پاکستان میں اسلامی بنکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بنکوں/ سودی بنکوں کی شاخوں اور سودی بنکوں کے اسلامی بنکاری کے ذیلی اداروں کو ’اسلامی بنک‘ کہنا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر انھیں ’بلاسودی بنک‘ کہا جائے مگر اس بات کویقینی بنایا جائے کہ ان کے کاروبار میں سود کا عنصر شامل نہ ہو۔

اس ضمن میں کیا ہی اچھا ہو کہ اسٹیٹ بنک یہ احکامات جاری کرے کہ یکم جولائی ۲۰۲۲ء سے یہ ’اسلامی بنک‘ ،بلاسودی بنک کہلائیں گے۔

۳- جون ۲۰۲۲ء میں پیش کیے جانے والے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو ممکنہ حد تک اسلامی نظامِ معیشت کے اصولوں پر بنانا ہوگا۔ اس عمل سے یہ واضح ہوجائے گا کہ سود کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ہمارا حکومتی نظام کتنا مخلص ہے؟

۴-حکومت اور اسٹیٹ بنک وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں بلاسود بنکاری، بلاسود معیشت اور اسلامی نظام بنکاری اور اسلامی نظام معیشت میں فرق واضح طور پر روا رکھیں، اور اس ضمن میں الگ الگ ٹائم فریم اور حکمت عملی کا اعلان کریں۔

وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ، ردِعمل اور لائحہ عمل

پاکستان میں کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی بنک، وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸ اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔دوسری طرف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں متعدد غلطیاں ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ سود پر مبنی جن قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا ہے ، وہ یکم جون ۲۰۲۲ء سے ہی کالعدم قرار پائیں گے۔ یہ بات آئین کی خلاف ورزی ہے ، کیونکہ دستور کے مطابق، اپیل کی مدت ختم ہونے تک یہ قوانین برقرار رہنے چاہئیں۔ اس کی آڑ میں پاکستان بنکس ایسوسی ایشن اس فیصلے کے متعدد نکات کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کے شریعت بنچ میں اپیل دائر کر سکتی ہے ، اور اس فیصلے کے ضمن میں متعدد مشکلات کی آڑ لے کر اس کے اہم حصوں کو کالعدم قرار دینے کی استد عا کر سکتی ہے۔

’اسلامی بنکاری‘ کے ضمن میں ہماری مندرجہ بالا معروضات سے قطع نظر یہ ازحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ میں فیصلے کی تاریخ کے دو ماہ کے اندر اپیل داخل کی جائے، جس میں درج ذیل نکات لازماً شامل ہوں:

۱- چونکہ’ اسلامی بنکاری‘ کے نام سے منسوب بنکوں کی متعدد ایسی پیش کشیں اور پراڈکٹس ہیں، جن میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے، اور وہ شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود جاری رہ سکتی ہیں، اس لیے ان تمام پیش کشوں اور پراڈکٹس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

۲-’ اسلامی بنک‘ نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر کھولے گئے کھاتوں پر منافع شرعی اصولوں کے بجائے اسٹیٹ بنک کے احکامات کے تحت دے رہے ہیں،جس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔

۳- سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے کہ ’اسلامی بنکوں ‘کو’ بلاسودی بنک ‘قرار دے۔

تنبیہ :پاکستان میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ’بلاسود بنکاری‘ کا نفاذ کیا گیا ۔اس متوازی نظام کے شروع ہونے کے ساتھ ہی ۲۰برس سے ’بلاسودی بنکاری‘ کے جھنڈے تلے کام کرنے والے   ان بنکوں کو یک جنبش ’سودی بنک‘ اور ۲۰۰۲ء سے قائم ہونے والے بنکوں کو ’اسلامی بنک‘ قرار دے دیا گیا۔ ہم یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:اوّل: یہ متوازی نظام اپنی روح اور عمل کے اعتبار سے غیر اسلامی ہے۔ دوم: ان بنکوں کو اسلامی بنک کہا نہیں جاسکتا، اور سوم: ان بنکوں کی متعدد پروڈکٹس کے اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں، جن میں سود کا عنصر بھی شامل ہے، اسے درست کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ان ’اسلامی بنکوں‘ کو ’بلاسودی بنک‘ قرار نہ دیا گیا تو یہ سنگین خطرہ موجود ہے کہ مستقبل میں نیک نیتی یا بدنیتی سے ان ’اسلامی بنکوں‘ کو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔

دردمندانہ گزارش: اگر وفاقی شرعی عدالت کے ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کے فیصلے کی درستگی کے لیے مقررہ تاریخ کے اندر سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل داخل نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ آنے والے عشروں میں بھی ’اسلامی بنکاری‘ کے نام پر سود پہ مبنی بلاسودی نظام جاری رہ سکتا ہے۔

 

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلامیانِ برعظیم نے تحریک پاکستان کی پرجوش تائید و حمایت اس مقصد سے کی تھی کہ وہ ایک آزاد و خودمختار مسلم مملکت ’پاکستان‘ میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اپنے دین و عقیدے کے مطابق گزار سکیں گے اور وہاں شریعت کے مطابق قوانین پاس ہوکر نافذ ہوں گے۔{ FR 986 } چنانچہ قیام پاکستان کی صورت میں انھیں عملاً اپنی اس آرزو کی تعبیر و تکمیل کا موقع میسر آگیا تھا۔ اب اس مملکت کی اسلامی تشکیل، یعنی اس کے دستوری و سیاسی، قانونی و عدالتی، تعلیمی و معاشرتی اور اقتصادی نظام کو اسلام کے اصول و تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ کام آسان نہ تھا بلکہ حد درجہ دشوار تھا۔

محمد اسد کی نگاہ میں پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں متعدد بڑی رکاوٹیں موجود تھیں، جن کا ازالہ کیے بغیر پاکستان کی اسلامی تشکیل کی طرف پیش رفت کسی طور پر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ ان مشکلات کا تدارک بے حد ضروری تھا۔ اسد کی نگاہ میں پاکستان کو اسلامی نمونے پر ڈھالنے میں جو رکاوٹیں موجود تھیں، ان میں سب سے اہم مسلم عوام کی بھاری اکثریت کا اسلام کے حقیقی فہم و شعور سے عاری ہونا تھا۔ کیونکہ ’’صدیوں سے اسلام کی اصلی و حقیقی تعلیمات سے ان کا رشتہ منقطع ہوچکا تھا۔ وہ صدیوں سے اسلام کے نام پر توہمات اور لایعنی رسومات میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ اسلام سے ان کا تعلق عقلی و شعوری نہیں بلکہ رسمی اور موروثی و پیدائشی تھا‘‘۔{ FR 987 }

اسد کا تجزیہ تھا کہ جدید مغربی نظام تعلیم جو برطانوی نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملا تھا اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم تھا۔ لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام تعلیم اسلامی معاشرہ و ریاست کی تشکیل میں ہرگز معاون نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ چنانچہ اس نظام کے بجائے اسلامی اصول و تصورات سے ہم آہنگ نظام تعلیم کی تشکیل بے حد ضروری تھی۔{ FR 988 } اسد کے نزدیک اسلامی معاشرے اور ریاست کی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ملت کا اخلاقی بگاڑ و انحطاط تھا، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دوری ہی کا نتیجہ تھا۔ ان کو ملّت کی روحانی و اخلاقی زبوں حالی اور پستی و ادبار کا گہرا ادراک و شعور حاصل تھا۔ انھوں نے ملت کے اس بگاڑ کا برصغیر میں قیام کے دنوں میں بڑے قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور تحریک پاکستان کے دنوں میں ہی سیاسی قیادت کو ملت کی روحانی و اخلاقی اصلاح کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔{ FR 989 }

پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اخلاقی پستی و گراوٹ کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے، اسد اس پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے عوام و خواص میں لُوٹ مار، متروکہ املاک پر قبضہ اور ان کی بندربانٹ، رشوت ستانی و اقربا پروری، حرص و ہوس اور دھوکا دہی کے واقعات اور بے سروسامان لٹے پٹے مہاجرین کی آبادکاری کے معاملے میں مقامی آبادی کی طرف سے ایثاروقربانی سے کام لینے کے بجائے سنگ دلی اور خود غرضی کے رویّے کا مشاہدہ کیا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے:

The Muslim Millat, which a short while ago had offered a splendid picture of unity and determination, has overnight been changed into a chaotic, demoralised mass of human beings...... And many of those who had been asserting that their one and only object was selfless service of the Millat, seem now to regard Pakistan as a happy hunting ground for all kind of selfish endeavours, and have no thought for anything but the securing, by hook or by crook, of petty economic advantages, jobs, careers and government contracts for themselves and their relatives. Instead of growing in spiritual stature under the weight of a unique and tragic experience, the Millat appears to have sunk to almost unbelieveable depths of confusion and corruption. { FR 990 }

مسلم اُمت ، جس نے ابھی کچھ دیر پہلے تک اتحاد اور عزمِ استقلال کی بڑی شاندار تصویر (مثال) پیش کی تھی، راتوں رات ایک منتشر اور پست حوصلہ انسانی ہجوم کی شکل اختیار کرلی ہے… اور ایسے بہت سے لوگ جو اپنی جگہ ملّت کی بے غرض و بے لوث خدمت کے مدعی تھے، انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ پاکستان کو اپنی جملہ نفسانی و معاشی اغراض کی تکمیل کے لیے ایک آسان چراگاہ تصور کرنے لگے ہیں۔ اب ان کا مطمح نظر ہر طور پر اپنے اور اپنے اعزہ و اقربا کے لیے جائز و ناجائز طریقوں اور مکروفریب سے پست و گھٹیا معاشی مفادات، ملازمتوں اور تعمیروترقی کے سرکاری ٹھیکوں کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا۔ ملت جن اندوہناک حالات سے دوچار ہوئی ہے، ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اخلاقی و روحانی اعتبار سے ترقی کرجاتی مگر اس کے بجائے یوں لگتا ہے کہ یہ ملّت ناقابلِ تصور حد تک اخلاق و کردار کی اتھاہ گہرائیوں میں جاپڑی ہے۔

اسد کی نگاہ میں خود اہل مذہب کا مذہبی طرز فکر بھی پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ روایتی مذہبی ذہن نہ صرف یہ کہ دورِحاضر کے سیاسی و سماجی، قانونی و اقتصادی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کے ادراک اور پھر ازروئے شریعت ان کا قابلِ عمل حل تجویز کرنے سے معذور ہے بلکہ وہ اس نوع کی کسی بھی مثبت اجتہادی کاوش کی راہ میں مزاحم ہے۔ وہ رجعت پسند ہے اور ذہنی جمودو تعطل کا شکار ہے اور صدیوں پرانی فقہ کو من و عن جاری و نافذ کرنا چاہتا ہے۔

اسد کے نزدیک شریعت کے نام پر قدیم روایتی فقہ کے نفاذ کا مطلب پاکستان کو زوال و انحطاط کی راہ پر بدستور گامزن رکھنا ہے۔{ FR 991 } گویا ان کی نظر میں جس طرح سے فرنگیت و مغربیت (مغرب زدگی) پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، بالکل اسی طرح قدامت پسندی بھی مانع ہے۔ پھر ایک اور رکاوٹ جو اس راہ میں درپیش تھی وہ اسلامی قانون کا مرتب و مدون حالت میں نہ ہونا ہے۔ اسد کے الفاظ میں: ’’دور جدید میں احیائے ملت کے راستے میں اسلامی نقطۂ نظر سے جو بڑی مشکل پیش آتی ہے اور جس کی وجہ سے ہم کوئی صاف، واضح اور عملی اسکیم تیار نہیں کرسکتے یہ ہے کہ ہمارے پاس قوانین شریعت کا کوئی ایسا جامع ضابطہ (Code) موجود نہیں ہے جس کا اطلاق تمام اجتماعی امور میں متفقہ طور پر ہوتا ہو، یعنی جس کے بارے میں سب مذاہب نہیں تو کم از کم اکثریت کا اتفاق موجود ہو‘‘۔{ FR 992 }

اسلامی تشکیل کے لیے  محمد اسد کا تجویز کردہ لائحہ عمل

محمد اسد پاکستان کے قیام کو جدید مسلم دُنیا میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کی تشکیل کی طرف صرف پہلا قدم قرار دیتے تھے کہ اس سے اسلامیانِ برعظیم پاک و ہند کو اپنے دین و عقیدہ کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر و تنظیم کا موقع میسر آگیا تھا۔ تاہم، ان کی نظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست میں بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ اسلامی ریاست خود بخود اور دفعتاً وجود میں نہیں آجاتی بلکہ وہ تو مسلم معاشرہ کے افراد کے اخلاق و کردار اور ان کے نظریاتی اور سماجی و سیاسی مطمح نظر کی عکاس اور آئینہ دار ہوتی ہے۔

چنانچہ اسد کے نزدیک پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اس ملک کے باشندوں میں صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کرنا، انھیں دین کی اصلی اقدار و تعلیمات سے روشناس کرانا اور ان کے اخلاق کی اصلاح اور ان کے معاشرتی رویوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا ضروری تھا۔ ان کی رائے میں جب تک مسلم معاشرے کے افراد کی زندگی اسلام کے اصول و اقدار اور احکامات و تعلیمات سے ٹھیک طور پر ہم آہنگ نہ ہوجائے، وہ دین کے مقاصد کے صحیح شعور و فہم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پوری طرح سے آمادہ نہ ہوجائیں اسلامی ریاست کا قائم ہونا ایک مشکل کام ہے۔{ FR 993 } محمد اسد نے ستمبر ۱۹۴۷ء کو ریڈیو پاکستان سے ایک نشری تقریر میں کہا:

The Muslims were determined, after all the centuries of their decay, to have an Islamic State; and the establishment of a Muslim homeland was the first step in this direction. It was the first step only, for a truly Islamic State can not be produced by a conjurer's trick. A country that was for centuries ruled by an alien government in accordance with principles entirely alien to the spirit of Islam can not overnight, as if by magic, be changed into a state similar to that of al-Khulafa' al-Rashidun. We must not forget that it is the spirit of the people which is ultimately, and always, responsible for the spirit of the state; and as long as we, the people, are unable to rise to the demands of Islam, no leader in the world can ever succeed in making Pakistan an Islamic State in the full sense of this word.{ FR 994 }

مسلمانوں نے صدیوں تک انحطاط و زوال سے دوچار رہنے کے بعد اس امر کا عزم کیا تھا کہ وہ اسلامی ریاست قائم  کریں گے، اور ایک مسلم مملکت (وطن) کا حصول تو محض اس راہ کی پہلی منزل ہوگی۔ یہ محض پہلا قدم ہے کیونکہ ایک حقیقی اسلامی ریاست کسی شعبدہ باز کے کرتب کی طرح آناً فاناً ریاستی وجود میں نہیں آجاتی۔ ایک ایسے ملک کو جس پر صدیوں تک اغیار نے ایسے اصول و قوانین کے مطابق حکمرانی کی، جو سراسر اسلامی روح کے منافی تھے، اسے راتوں رات کسی شعبدہ بازی سے خلفائے راشدین کی مملکت جیسی ریاست میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اس امر کو ہرگز طور پر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اصل چیز عوام کی ایمانی اور اخلاقی و روحانی طاقت ہے جو انجام کار اور ہمیشہ ریاست کی روح اور مزاج کا تعین کرتی ہے، جب تک ہم، یعنی ہمارے عوام، اسلام کے تقاضوں پر پورا نہیں اُتریں گے، دُنیا کا کوئی رہنما پاکستان کو، حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں بنا سکتا۔

محمد اسد پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اسلامی دستور کی تدوین کے علاوہ ملت کے دینی و اخلاقی احیاء، نوجوان نسل کی صالح بنیادوں پر تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرت و معیشت اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اسلامی تشکیل کا لائحہ عمل تجویز کیا، جس کو اپنا کر ان کے خیال میں پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو اسلام کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے:

۱- اخلاقِ ملّی کا احیاء اور اصلاحِ معاشرت: محمد اسد کے نزدیک ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے افراد معاشرہ کے اخلاق و کردار اور طرز زندگی کو اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ بنانا ازحد ضروری ہے۔{ FR 995 } اسد پاکستان کے تحفظ و استحکام کی غرض سے بھی اسلامی اخلاق ملّی کے احیاء کو بے حد ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ چیز شہری اخلاقیات (civic morality) کے لیے بھی تقویت کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔{ FR 996 }  اسد نے قیام پاکستان کے بعد مجلہ عرفات  اَز سر نو جاری کیا، تو اس کے پہلے ہی شمارے میں ملت کی اخلاقی حالت کی اصلاح کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور معاشرے کے صالح اور مخلص افراد کو اس مقصد سے اپنا کردار ادا کرنے کی تحریک ان الفاظ میں کی:

 The most perturbing aspect of our communel life is the utter deterioration of our morale from the Islamic and civic point of view. If Pakistan is to attain to its cherished goal and to become the cradle of a resourgent Islamic civilization, the active co-operation of all well-meaning Muslims must be secured in the Aervice of civic morale. Otherwise, even the best intentions of the Government cannot possibly bring about that change of outlook which is indispensable for our becoming an Islamic Millat in the true sense of the word.{ FR 1025 }

ہماری ملّی زندگی کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو وہ زبردست زوال اور پستی ہے جو اسلامی اور شہریتی (civic)دونوں اعتبار سے ہمارے اندر پیدا ہوچکی ہے۔ لہٰذا، اگر پاکستان کو اپنا محبوب نصب العین حاصل کرنا ہے اور ایک بار پھر سے حیات آفرین اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارا بننا ہے تو اخلاق ملّی کی تعمیر اور تربیت کے لیے ہر اچھے، نیک اور مخلص مسلمان کی خدمات سے استفادہ کرنا ضروری ہے، ورنہ مسلمانوں کے اندر وہ مطمح نظر پیدا نہ ہوسکے گا کہ جس کے بغیر ناممکن ہے کہ ہم فی الواقعی ایک اسلامی ملت کے خطاب کے مستحق قرار پاسکیں۔

اسد کے نزدیک اخلاقی و معاشرتی اصلاح اور اسلامی تعلیمات اور اصول و اقدار کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے افراد کی تیاری کے بغیر محض شرعی قوانین خصوصاً حدود و تعزیرات کے نفاذ سے اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسد کے الفاظ میں:

An Islamic State should be the result of Islamic consciousness, not beginning. If anyone think that an Islamic State will automatically make everyone in it a good Muslim, he is greatly mistaken. But if a people become good Muslims, then an Islamic State will fall to them like a riple plum from a tree.{ FR 998 }

قیامِ اسلامی ریاست کو شعوری ایمان (اذعان) کا ثمر و حاصل تصور کرنا چاہیے نہ کہ اس کا نقطۂ آغاز۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اسلامی ریاست اپنے اندر بسنے والے ہرہرفرد و بشر کو خود بخود ایک اچھا مسلمان بنا دے گی، تو وہ بہت بڑے مغالطے میں ہے۔ البتہ اگر عوام اچھے، نیک اور صالح مسلمان بن جائیں گے تب ایک اسلامی ریاست پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گی۔

اسد کے نزدیک افراد معاشرہ میں سچے اسلامی احساس و شعور کی بیداری اور ان کے اخلاق و کردار اور طرزِ فکروعمل کو اسلامی رنگ میں رنگنے کا کام اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور دعوتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات و جرائد کے کردار کو بڑا مفید و معاون خیال کرتے ہیں۔ وہ مساجد کو خاص طور سے اسلامی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ اور عوام کی اخلاقی و روحانی تربیت کے مراکز بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سرکاری ذرائع ابلاغ خصوصاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسد بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے ملت کو اخلاقی پستی کے عمیق گڑھے سے باہر نکالا جاسکتا ہے اور اس کے افرادکے دل و دماغ میں حق وراستی اور پاکیزگی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں۔{ FR 999 }

اسد اصلاح اخلاق و معاشرت کے سلسلے میں بعض اخلاقی و اجتماعی مفاسد مثلاً شراب نوشی، قمار بازی اور قحبہ گری وغیرہ کا ریاستی قوت و طاقت سے انسداد چاہتے ہیں۔ وہ شراب نوشی کو قطعاً ممنوع اور عصمت فروشی کی ہر شکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک ان اجتماعی مفاسد کا قلع قمع نہیں ہوجاتا ہمارا معاشرہ کسی طور سے بھی اسلامی و اخلاقی نہیں قرار پاسکتا۔{ FR 1000 }

۲-نظام تعلیم کی اصلاح و تشکیل نَو: اگرچہ اسد مسلمان ملت کو بحیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے روشناس کرانا ضروری سمجھتے ہیں، تاہم وہ نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ اس غرض سے وہ نظام تعلیم کی تشکیل نو، اور نصابات کو اسلامی نظریۂ حیات سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں اسلامی روح سمونے جیسے بنیادی اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ انھوں نے اسکولوں اور کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جو اقدامات تجویز کیے وہ اس طرح سے ہیں:

الف: تمام اسکولوں اور کالجوں میں عربی زبان کی تدریس اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ اسد نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ’’اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بننا ہے تو مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر عربی زبان کی تعلیم و تدریس اور اشاعت مطلقاً ناگزیر ہے‘‘۔{ FR 1001 } 

اسی لیے اسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ مئی ۱۹۴۷ء میں عربی زبان کی تدریس سے متعلق تجویز پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر ہماری موجودہ سیاسی جدوجہد کا مطمح نظر اور نصب العین ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، تب یہ امر انتہائی ضروری و اہم ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اسلامی تعلیمات سے واقفیت پیدا کریں۔ وہ قرآن اور احادیث رسول کے متن کو سمجھنے کی قابلیت و استعداد پیدا کریں۔ اس غرض سے ہر تعلیم یافتہ مسلمان کو عربی زبان میں قابلیت حاصل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ تقاضا پورا نہیں کیا جاتا ہم اسلامی طرز معاشرت کے قیام میں کامیاب نہ ہوسکیں گے، نہ ملت کے تعلیم یافتہ افراد ان نظریاتی وفکری مسائل پر سوچ بچار اور بحث و گفتگو کے قابل ہوسکیں گے، کہ جن کا گہرا تعلق معاشرت اور معیشت و سیاست سے ہے۔ چنانچہ انھیں چاروناچار اسلام کے خود ساختہ شارحین کی تعبیرات و تشریحات پر انحصار کرنا پڑے گا، یا پھر انھیں اسلام کے بجائے کوئی اور راستہ، سیکولرازم وغیرہ، اختیار کرنا پڑے گا۔{ FR 1002 }

 عربی زبان کی تدریس محمد اسد کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ وہ اس کام کو قیام پاکستان تک مؤخر کرنے اور التوا میں ڈالنے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ متحدہ ہندستان کے جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں کی قانون ساز مجالس ایک قانونی بل کو منظور کرکے ان صوبوں کے ہائی اسکولوں، کالجوں اور ایسے تعلیمی اداروں میں جو حکومت سے مالی امداد (گرانٹس) وصول کررہے تھے، عربی زبان کو ایک لازمی مضمون بنادیں۔ انھوں نے آغاز میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ماہر اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے عرب ممالک سے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے اور ملک میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے تربیتی اداروں کے قیام کی بھی تجویز پیش کی۔ ان کے خیال میں اس اقدام کی بدولت چند برسوں کے اندر اندر کثیر تعداد میں عربی زبان میں اعلیٰ استعداد اور مہارت کے حامل اساتذہ تیار کیے جاسکتے ہیں۔{ FR 1003 }

ب:اسد پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات کی تدریس چاہتے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلمان طالب علموں کے لیے اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ اسلامیات کی تعلیم میں قرآن و حدیث کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اعلیٰ جماعتوں میں اصول تفسیر و کتب تفسیر کا مطالعہ بھی ضروری ہوگا۔اسلامیات کی تدریس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ قرآن حکیم اور سنت رسولؐ کا فہم حاصل کرسکیں اور پھر نصاب کے آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے اس امر کو بھی جان لیں کہ مختلف فقہی مذاہب کا قرآن و سنت سے احکام کے اخذواستنباط کا اسلوب اور طریق کارکیا ہے؟ وہ اسلامیات کے نصاب میں اسلام کے ابتدائی عہد کی تاریخ کے مفصّل و تنقیدی مطالعہ کو شامل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مزید برآں وہ عام فلسفہ کے علاوہ اسلامی فلسفہ و کلام کے مطالعے کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ { FR 1004 }

وہ اسلامیات کے نصاب کے آخری مرحلوں اور درجوں میں بحیثیت مجموعی اسلام کی اسکیم کا، معاشیات اور عمرانی علوم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عصری مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، تجزیاتی مطالعہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ اسد کی اس تعلیمی اسکیم کے مطابق اسلامیات کے نصاب کی آخری منزلوں میں اس امر کا التزام رکھا جائے گا کہ اسلام نے جو نظام حیات پیش کیا ہے، اس پر موجودہ زمانے کے ان مسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے، جن کا تعلق معاشیات اور علوم اجتماعیہ سے ہے، ان پر گہری اور وسعت سے نظر ڈالی جائے۔{ FR 1005 } گویا کہ اسد کے نزدیک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی مقاصد کا از سر نو تعین کرتے ہوئے عربی اور اسلامیات کی تعلیم و تدریس کو تعلیمی نصابات کا ایک انتہائی مؤثر جزوبنادیں۔

ج: جدید اسلامی دارالعلوم:علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں محمد اسد ایک جدید اسلامی دارالعلوم کا قیام بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس تجویز کا باعث موجودہ روایتی دینی نظام تعلیم (دینی مدارس و جامعات کا تعلیمی نظام و طریق کار) سے ان کی بے اطمینانی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ دینی تعلیم کا روایتی نظام، عہد حاضر کی ضروریات اور تقاضوں سے میل نہیں کھاتا۔ دورِحاضر میں ملت کو اپنی عملی و اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور نت نئے فکری ونظریاتی مسائل، جن میں سے بہت سے جدید عمرانی علوم کی پیداوارہیں، ان کے حل میں جو رہنمائی درکار ہے وہ دینی تعلیم کا موجودہ نظام بہم پہنچانے سے قاصر ہے۔ اسد اسی نقطۂ نگاہ کے سبب سے دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے اسلامی تعلیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعاون و اشتراک عمل پر آمادہ ہوئے تھے اور اس غرض سے انھوں نے علامہ محمداقبال اورسیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مل کر عملی کوششیں بھی کی تھیں۔{ FR 1006 }

محمد اسد پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ایک اعلیٰ پائے کے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔ اس کا تخیّل انھوں نے ان الفاظ میں پیش کیا:

If Pakistan is to become a cuttural centre of the modern word of Islam - as she deserves to become by virtue of her great resources and her political position - we must posses in this country a central Dar-al-Ulum which would train outstanding Ulama for all purposes of the community... This academy should not only try to follow the example of the famous Al-Azher University of Egypt but also, if possible, introduce fresh elements to bring it into greater accord with the present requirements of life. To this end, the students shall receive thorough trainging in Qur'an, hadith, fiqh (of various schools of thought) and in the allied subjects, including old and modern Arabic literature; in addition to this, they should acquire that measure of general knowledge and awareness of contemporary developments, social and economic, which enable them to act - like the Ulama of the early period of Islam - as the real leaders of the community.{ FR 1026 }

اگر پاکستان کو جدید دنیائے اسلام کا ثقافتی مرکز بننا ہے، جیسا کہ اپنے زبردست وسائل اور سیاسی حیثیت کے اعتبار سے اس کا حق ہے، تو ہمیں اس ملک میں ایک مرکزی دارالعلوم قائم کرنا پڑے گا۔ جہاں ہماری علمی ضروریات کے لیے بڑے بڑے مقتدر علما پیدا ہوں۔ اس ادارے کو مصر کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ الازہر کے نقش قدم ہی پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ ممکن ہوا تو اس کے نصابات میں عہد جدید کے وہ عناصر تعلیم بھی داخل کردیے جائیں گے جو اس زمانہ کے مقتضیات کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا، اس دارالعلوم کے طلبہ کو قرآن، حدیث، فقہ اور علوم متعلقہ، جس میں قدیم و جدید عربی کا مطالعہ بھی شامل ہے، کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی اور اجتماعی علوم میں ہونے والی پیش رفت سے بھی اس حد تک باخبر رکھا جائے گا کہ وہ علمائے متقدمین کی طرح ملت کے حقیقی معنوں میں رہنما و پیشوا بن سکیں۔

اسد مجوزہ اسلامی دارالعلوم کا سربراہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل کسی ایسے مصری عالم کو مقرر کرنا چاہتے تھے، جو وسیع النظر ہونے کے ساتھ ساتھ عصر جدید میں ملت اسلامیہ کو درپیش سیاسی و قانونی، معاشی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل سے واقفیت ہی نہیں بلکہ ان کا گہرا ادراک و شعور رکھتا ہو۔ اسد کے خیال میں اس طرح کی اہلیت رکھنے والے کسی فرد کا ہمارے روایتی علما کے طبقے سے میسر آنا محال تھا۔ { FR 1008 }

محمد اسد نے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق اپنے تخیّل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جنوری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی حکومت پنجاب کو علما اور علوم شرقیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک منصوبہ ساز کمیٹی (پلاننگ کمیٹی)، جس کا مقصد دارالعلوم سے متعلق تفصیلی تجاویز مرتب کرنا اور عملی اقدامات تجویز کرنا ہو، اس کے قیام کی تجویز پیش کی، جسے حکومت نے منظور کرلیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ [یکم جوری ۱۹۰۶ء-۱۸؍اکتوبر ۱۹۶۹ء] نے محمد اسد کو اس مجلس کا کنوینر مقرر کیا۔  اسد کو اس طرح کے کسی تعلیمی منصوبے کے بارے میں، خصوصاً جو حکومتی سطح پر قائم کیا جارہا تھا، روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کا بھی خدشہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے کسی مخالفت و مزاحمت سے بچنے کے لیے منصوبہ ساز کمیٹی کی سربراہی علامہ شبیر احمد عثمانی [۲۸ستمبر ۱۸۸۷ء-۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء]کو پیش کی، جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ پھر دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسدنے بطور احتیاط مختلف مذہبی مکاتب فکر کے علما کو بھی اس مجلس میں شامل کیا،جب کہ جدید الخیال علما کو اس مجلس میں غالب حیثیت دینے سے گریز کیا۔{ FR 1009 }

جدید اسلامی دارالعلوم سے متعلق روایتی طبقۂ علما کی طرف سے مخالفت کے بارے میں اسد کے خدشات بالکل درست ثابت ہوئے۔اسد نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کرتے ہوئے قدیم فقہ کو ملکی قانون بنانے کے بجائے قرآن و سنت کے نصوص پر نئے سرے سے غور و فکر کرکے اجتہاد کو بروئے کار لاکر اسلامی قانون کی تدوین جدید کی ضرورت پر زور دیا تو بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ان کے اس نقطۂ نظر کی سخت مخالفت کی گئی۔ ان کے دستوری خاکے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا گیا اور ان پر ’حنفیّت کو جڑ سے اکھاڑنے اور الحادو زندقہ پھیلانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت سے ان کے مجلہ عرفات کی اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں جمعیت علمائے پاکستان (بریلوی مکتب فکر کے علما و مشائخ کی جماعت) بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اس جماعت کے سربراہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری [۱۸۹۶ء-۲۰جنوری ۱۹۶۱ء] کی قیادت میں علما و مشائخ کے ایک وفد نے جنوری ۱۹۴۹ء میں افتخار حسین ممدوٹ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور محمد اسد کے دستوری خاکے کو خلاف اسلام قرار دے کر اور مجلہ عرفات   کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا۔{ FR 1023 }

محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم سے یہ امر بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل کو بھی عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل میں نئے تعلیمی اجزا کی آمیزش سے ایک نیا تعلیمی ماڈل ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ وہ جدید دور میں ملت کی ذہنی و فکری رہنمائی کے لیے مطلوبہ اہلیت و استعداد کے حامل علما کی تیاری کے لیے ایک ایسی تعلیمی و تربیتی درس گاہ کا قیام چاہتے ہیں، جس کے نصابات میں قرآن و حدیث، فقہ اور عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ جدید عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس بھی شامل ہو۔

محمد اسد نے اسکولوں، کالجوں میں تدریس اسلامیات اور اسلامی دارالعلوم کے قیام اور اس کے نصابات سے متعلق جو تجاویز پیش کیں، وہ علامہ محمد اقبال کی ان تجاویز سے گہری مماثلت رکھتی ہیں، جو انھوں نے ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسلامیات کی تدریس اور نصاب کی تدوین کے بارے میں پیش کی تھیں۔ علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے سیکرٹری صاحبزادہ آفتاب احمد خاں [۱۸۶۷-۱۹۳۰ء] کے نام ایک خط میں دورحاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اعلیٰ پائے کے علما کی تیاری کی غرض سے علوم اسلامیہ کی تدریس و تعلیم کے لیے قدیم روایتی مدارس کے منہج پر کسی ادارے کے قیام کو نامناسب قرار دیا۔ انھوں نے ایک ایسے نئے طرز کے ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی تھی، جس کے نصابات میں جدید سائنس اور فلسفہ کے علاوہ اقتصادیات اور عمرانیات کو بھی جگہ دی جائے۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعلیمی نظام کے بہترین اجزا کے ساتھ جدید تعلیمی اجزا شامل کرکے اسلامیات کی تعلیم و تدریس کا ایک نیا نظام مرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔{ FR 1010 }

 علامہ محمد اقبال کے خیال میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے ایسے فضلا کو، جو فقہی و کلامی ذوق رکھتے ہوں، جدید فلسفہ و سائنس، اسلامی فرقوں کے نظام اعتقادات، مسلمانوں کے فلسفۂ اخلاق و مابعد الطبیعات، علم الکلام اور تفسیر، اصول فقہ، جدید اصول قانون (جورس پروڈنس) اور جدید معاشیات و عمرانیات سے متعلق مناسب تعلیم و تربیت دے کر ایسے عالم بنایا جاسکتا ہے، جو واقعی جدید دور میں ملت کی مناسب رہنمائی کرسکتے ہوں۔ { FR 1011 }

علامہ محمد اقبال نے اپنے مشہور مقالے ’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی اور دارالعلوم کے قیام کو ملت اسلامیہ کے اسلامی و تہذیبی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت قراردیا۔ علامہ کے الفاظ میں:

اسلامی یونی ورسٹی کے خیال کا ہمارے دل میں پیدا ہونا حقیقت میں ہماری قومی ہستی کے حق میں ایک مبارک علامت ہے۔ جب ہم اپنی قوم کی نوعیت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس قسم کے دارالعلم کی ضرورت میں شک اور شبہہ کی مطلق گنجایش نہیں رہتی بشرطیکہ یہ دارالعلم ٹھیٹھ اسلامی اصول پر چلایا جائے۔ مسلمانوں کو بے شک علوم جدید کی تیزپا رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی تہذیب کا رنگ اسلامی ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ایک ایسی یونی ورسٹی موجود نہ ہو، جسے ہم اپنی قومی تعلیم کا مرکز قرار دے سکیں۔ ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کی تعلیمی اٹھان اسلامی نہیں ہے تو ہم اپنی قومیت کے پودے کو اسلام کے آبِ حیات سے نہیں سینچ رہے۔

ہندستان میں اسلامی یونی ورسٹی کا قائم ہونا ایک اور لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں، جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانہ کے واعظ کو تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اورتخیّل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔

الندوۃ، علی گڑھ کالج، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کررہے ہیں اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم ہونا چاہیے۔ پس یہ امرقطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دارالعلم قائم کیا جائے جس کی مسندنشین اسلامی تہذیب ہو، اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دلکش انداز سے ہوئی ہو۔{ FR 1024 }

محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم کو ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی کا ’بنیادی اور عملی خاکہ‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔{ FR 1012 } اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات اور عربی زبان کی تدریس سے متعلق اسد کی تجاویز ایسی جان دار ہیں کہ اگر ان کو ٹھیک طور سے برسرعمل لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو مغربی تعلیم کے فاسد اثرات سے کافی حد تک بچایا جاسکتا ہے، بلکہ ان کو گہرے طور سے اسلام کے اصول و تعلیمات اور اس کی تہذیب و تاریخ سے واقف کرایا جاسکتا ہے۔ مجوزہ دارالعلوم کا قیام پاکستان کے قانونی اور سیاسی و معاشی نظام کی اسلامی تشکیل کے لیے مطلوبہ علمی و فکری استعداد کے حامل افراد کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

 محمد اسد کی جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق تجاویز اسلامی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے سلسلے میں اپنے اندر رہنمائی کا سامان رکھتی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں پاکستان میں اسلامی مدارس کی اصلاح کے لیے متعدد اصحاب فکرونظر نے محمد اسد کی تجاویز سے ملتی جلتی تجاویز پیش کی ہیں۔ سنجیدہ علمی و فکری حلقوں میں اس امر کا گہرا احساس و شعور پایا جاتا ہے کہ سائنسی و عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس کو روایتی اسلامی مدارس کے نصابات کا حصہ بنانا چاہیے، تاکہ ان مدارس کے فضلا روایتی دینی علوم میں درک رکھنے کے علاوہ جدید امور و مسائل سے بھی واقفیت پیدا کرسکیں۔{ FR 1013 }

۳- اسلامی قانون کی تدوین جدید: محمد اسد کے نقطۂ نگاہ سے کسی بھی معاشرے میں اسلام اس وقت تک غالب نہیں ہوسکتا، جب تک اس (اسلام) کے قانون، یعنی شریعت کو اس معاشرے کے قانونی نظام کی اساس نہ بنا دیا جائے۔{ FR 1014 } اسی وجہ سے وہ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کو لازمی اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ازحد ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے تجزیے کے مطابق اسلامی قانون کی ترویج و تنفیذ کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسلامی قانون مرتب و مدون حالت میں موجود نہیں۔

اسد کے نزدیک قدیم عہد کے مرتب اور مدون کردہ فقہی مجموعے عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ جس زمانے میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں، اس وقت ایسے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے، جو عصرحاضر میں سامنے آئے ہیں، اس لیے ان مسائل کا صریح جواب ان کتابوں میں نہیں ملتا۔ مزیدبرآں اجتماعی مسائل میں فقہا کے مابین جو اختلافات کا تنوّع پایا جاتا ہے، وہ جدید ذہن کے لیے پریشان فکری کا موجب ہے۔ پھر ان فقہی مجموعوں کی ترتیب و تدوین کا اسلوب بھی ایسا ہے کہ کسی بھی فقہی و قانونی معاملے کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے متعلقات تک رسائی صرف ایک ایسے فرد ہی کے لیے ممکن ہوسکتی ہے، جو اسلامی فقہ و شریعت میں گہرا درک رکھتا ہو۔ انھی وجوہ کی بناپر پر محمد اسد فقہی و قانونی سرمایہ کو جدید تعلیم یافتہ افراد کے فہم سے قریب تر لانے کے لیے اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ناگزیر ضرورت خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف یہی ایک راستہ ہے، جس کو اختیار کرکے مغرب کے قانونی نظام کی تقلید سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔{ FR 1015 } محمد اسد نے اسلامی قانون کی تدوین جدید کا طریق بھی تجویز کیا۔{ FR 1016 }

محمد اسد کے نزدیک اسلامی قانون کی تدوین جدید کا کام جس قدر اہم اور ضروری ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ جس کے لیے طویل محنت و ریاضت اور اجتہادی بصیرت درکار ہے۔ پھر اس کام کے لیے مطلوبہ اجتہادی استعداد و قابلیت رکھنے والے علما، جو ایک طرف احکام شریعت سے گہری واقفیت رکھتے ہوں اور دوسری طرف زمانہ کے حالات و مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہوں، کی تعداد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھی اہداف کے لیے وہ ایک اعلیٰ پائے کے اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک انتہائی اہم ملی ضرورت قرار دیتے ہیں کہ جہاں مطلوبہ استعداد و اہلیت رکھنے والے علما تیار کیے جاسکیں، جو اجتہاد اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کا وظیفہ انجام دے سکیں۔{ FR 1017 }

محمد اسد بیک جُنبشِ قلم شریعت کے نفاذ کو قابلِ عمل خیال نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی رائے میں یہ کام بتدریج ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں اسلامی قانون کی مکمل طور پر تدوین اور پھر اس کی ٹھیک طور پرتنفیذ کے لیے دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔{ FR 1018 }  اسد نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز حدود و تعزیرات کے قانون کے نفاذ و اجراء سے کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ وہ حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے قبل مسلم عوام کی اسلامی و اخلاقی تربیت کے لیے وسیع و مؤثر کوششوں کے علاوہ عدل اجتماعی کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں۔{ FR 1019 }

۴- اصلاحِ نظامِ معیشت: محمد اسد کے نزدیک شریعت کا منشا معاشی استحصال سے پاک ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہے۔ شریعت نے جو سماجی اور اقتصادی احکام دیے ہیں، ان کی غایت معاشرے کے تمام افراد کے لیے یکساں معاشی مواقع کی ضمانت فراہم کرنا ہے اور کمزور افراد و طبقات کو طاقت وروں کی طرف سے ہر قسم کے اقتصادی ظلم و استحصال سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت جو معاشی نظام ورثہ میں ملا تھا، وہ بہت حد تک جاگیردارانہ اور ایک محدود حد تک سرمایہ دارانہ تھا۔ اسد کے نزدیک جاگیردارانہ نظام عوام کے معاشی استحصال کا ایک طاقت ور ذریعہ اور اجتماعی عدل و انصاف کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے خیال میں صدیوں سے مسلم اقوام کی اقتصادی بدحالی کا ایک بڑا سبب زرعی املاک کا چند ہاتھوں میں جاگیردارانہ ارتکاز رہا ہے۔

چنانچہ اسد جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی جاگیروں کو ختم کرکے اور انھیں خلاف قانون قرار دے کر ان کا انصرام امداد باہمی کے اصول پر کرنا چاہتے ہیں۔زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرکے جاگیرداروں کے پاس مقررہ حد سے زائد زمین کو بے زمین کسانوں اور کاشتکاروں میں تقسیم کرنے کے حامی ہیں۔ مزید برآں وہ معاشرے کے کمزور افراد کو طاقت وروں کی اقتصادی دھونس اور دھاندلی سے تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے نجی ملکیت کی تحدید بھی تجویز کرتے ہیں۔ وہ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کی غرض سے وراثت اور ترکے کی تقسیم اور زکوٰۃ سے متعلق شرعی احکام و قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے عشر و زکوٰۃ کے علاوہ دیگر محاصل کے اجراء و نفاذ کا حق و اختیار بھی تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ سود کے لین دین، تجارتی سٹہ، اجارہ داری اور قابل فروخت اشیا کی ذخیرہ اندوزی جیسی قبیح اقتصادی سرگرمیوں کا مکمل طور پر انسداد چاہتے ہیں۔{ FR 1020 }

محمد اسد نے نظام معیشت کو اسلامی اصول و اقدار پر استوار کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اسلامی تحقیقاتی ادارے کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ان کی رائے میں اس ادارے سے منسلک ماہرین شریعت اور ماہرین معیشت کا وظیفہ یہ ہو کہ وہ کتاب و سنت کے نصوص کی روشنی میں بعض جدید معاشی امور و مسائل مثلاً بنک کاری، بیمہ، قرضوں کا لین دین، اجتماعی مقاصد کے لیے نجی املاک میں تصرّف کا حق اور زرعی اصلاحات، جس میں زمینوں کی قومی تحویل و تقسیم نو کا سوال بھی آجاتا ہے، وغیرہ مسائل کی تحقیق کرے اور ان مسائل کے متعلق شرعی نقطۂ نظر کی وضاحت کرے۔ یہ ادارہ اس امر کی بھی وضاحت کرے کہ ہم اپنی موجودہ معاشی سرگرمیوں اور ضروریات کو اس اجتماعی نظام کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں جو اسلام کے پیش نظر ہے؟ یہ ادارہ اس امر سے متعلق بھی عملی تجاویز مرتب کرے کہ ہماری معاشی زندگی میں ازروئے اسلام کس طرح صحیح نشوونما ہوسکتی ہے؟{ FR 1021 }

مراد یہ ہے کہ اسد نہ تو جاگیردارانہ نظام کو ملت کے مفاد میں خیال کرتے ہیں اور نہ جدیدمغربی سرمایہ دارانہ نظام کی من و عن اسلامی ریاست میں ترویج کے حق میں ہیں، بلکہ وہ ملّی ضروریات کے مطابق نظام معیشت کی اسلامی تشکیل (Islamization) کے حامی و علَم بردار ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام معیشت اپنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں، جو زور آور اور زردار طبقے کے ہاتھوں کمزور طبقات کے ہر نوع کے استحصال کی لعنت سے پاک ہو اور اجتماعی عدل کے قیام میں معاون ہوسکتا ہو۔

نفاذِ شریعت : ترجیحات

پاکستان کی اسلامی تشکیل کے بارے میں محمد اسد کی مجوزہ اسکیم اور لائحہ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شریعت کا ایک بڑا واضح تصوّر رکھتے ہیں۔ شریعت ان کے نزدیک صرف تعزیراتی قوانین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لیے ایک مثبت اور جامع پروگرام بھی ہے۔ ان کے نزدیک شریعت کا مقصد و منتہائے نظر انسانیت کی فلاح اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ شریعت کے ٹھیک ٹھیک طور پر نفاذ سے مسلم معاشرے میں صدیوں سے موجود بگاڑ و فساد اور عدم توازن کو دور کیا جاسکتا ہے۔ شریعت کی بنیاد پر عدل اجتماعی اور اقتصادی مساوات کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ محمد اسد شریعت کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ایک مکمل و ہمہ گیر انقلاب لانے کا منصوبہ تجویز کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کو اسلام کی اخلاقی و رُوحانی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔

شریعت کے نفاذ و اجراء کے معاملے میں ایک بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے کی جائے؟ موجودہ وقت میں شریعت کے نفاذ کے لیے کون سی ترجیحات ہوں؟ کیا اس کی ابتدا معاشی و اجتماعی عدل کے قیام اور اخلاقی و معاشرتی اصلاح سے کی جائے یا تعزیرات و حدود کے اجراء و نفاذ سے؟ محمد اسد نے اس بات کو صاف کردیا ہے۔ ان کی رائے میں اس کام کی ابتدا اخلاقی و دینی تربیت، معاشرتی اصلاح اور معاشی عدل و انصاف کے قیام سے کی جائے۔ اس کا آغاز ہرگز طور پر حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے نہ کیا جائے۔

 حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے اسد نے جو ترجیحات مقرر کی ہیں، ان میں اخلاقی انحطاط و علمی زوال کا ازالہ اور معاشی و سماجی ناہمواریوں اور ظلم و استحصال کے جملہ مظاہر کے انسداد کو حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ پر بہرحال فوقیت حاصل ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں بعض مسلم ممالک (بشمول پاکستان) میں اسلامائزیشن کی طرف جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے،  اس میں اصلاح معاشرت، عوام کی اخلاقی و دینی تربیت اور سماجی و معاشی عدل کے قیام کے بجائے حدود و تعزیرات اور بعض دوسرے سطحی اقدامات پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے۔ محمد اسد اس کو درست حکمت عملی تصور نہیں کرتے۔(Asad, Law of Ours, "Author's Note", p.3.)

پاکستان کی اسلامی تشکیل سے متعلق محمد اسد کے اس لائحہ عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملی زندگی کے بگڑے ہوئے ڈھانچے کو سنوارنے اور اسے اسلامی نمونے پر ڈھالنے کے لیے وہ اجتماعی زندگی کے جملہ شعبوں کی تعمیر نو چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں تعلیم، قانون اور معیشت کے شعبے ایسے ہیں جو کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور جن کی اصلاح و تشکیلِ نو از حد ضروری ہے۔ تاہم، ان کے نزدیک دینی تعلیم و تربیت اور معاشرتی و اخلاقی اصلاح کا کام ان سب پر مقدم ہے۔(مکمل)

 

علامہ اقبال کے بقول: ’’جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندو ں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے‘‘، یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہیں۔خود اس جمہوری ڈرامے کو بے اثر کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں میں مخصوص گروپ، پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

تاہم، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت نے حال ہی میں مسلم اکثریتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی چالاکی اور دھوکا دہی (Gerrymandering)کا سہارا لیتے ہوئے جس طرح پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے ، اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام میں ملتی ہے، جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی سیاہ فام آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنا دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں طاقت کے سبھی اداروں ، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمایندگی پہلے سے ہی برائے نام ہے، وہاں ایک موہوم سی اُمید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمایندگی پر ٹکی ہوتی تھی، جس پر اب نئی دہلی حکومت کے حلقہ بندی حملے سے ایک کاری ضرب پڑ چکی ہے۔ اس اقدام کے بعد شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو جموں و کشمیر میں میر صادقوں یا میرجعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ’چالاکی اور دھوکے‘ کے اس نظام کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔ 

 ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جموں و کشمیر کے سیاسی و انتظامی وجود کو تحلیل کرنے کے بعد بھارتی حکومت نے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دیا اور اسے سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا۔

دنیا بھر میںانتخابی حد بندی کے لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، مگر چونکہ کشمیر کی مثال ہی انوکھی ہے، اس لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کے  ان دونوں معیارات کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے عمل کو مستحکم کیا گیا ہے۔ کمیشن میں ہندو نسل پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمایندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے اگرچہ وادیٔ کشمیر کو برتری حاصل ہے، تاہم جغرافیے کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔ مگر بعد میں ان کو خیال آیا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے ، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اس کے دومسلم اکثریتی ذیلی علاقوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب۷۴ء۵۲  فی صد اور ۵۹ء۹۷ فی صد ہے۔

’حد بندی کمیشن‘ نے اپنی رپورٹ میں جموں کے لیے ۶ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کے لیے محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اب نئی اسمبلی میں وادیٔ کشمیر کی ۴۷ اور جموں کی ۴۳سیٹیںہوں گی۔ان نشستوں میں ۱۶ محفوظ نشستیں ہوں گی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں، یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ کے لیے ۷؍ اور قبائلیوں، یعنی گوجر، بکروال طبقے کے لیے ۹سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ اس سے قبل کشمیر کے پاس ۴۶ اور جموں کے پاس ۳۷سیٹیں تھیں۔ وادیٔ کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ ۲۰۱۱ءکی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۸ء۸لاکھ تھی، جب کہ جموں خطے کی آبادی ۵۳ء۷ لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے ۱۳لاکھ زیادہ تھی۔  جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے ۹ سیٹیں زیادہ تھیں، جب کہ اصولاً یہ فرق ۱۲سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ ۵۰ ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا،جب کہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ ۴۵ ہزار رکھی گئی تھی۔

پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمایندگی جو آبادی کے اعتبار سے ۶۸ء۳۱ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۶۶ء۶۶ فی صد تھی،جب کہ ہندو نمایندگی ، جو ۲۸ء۴۳ فی صد ہونی چاہیے تھی، ۳۱فی صد تھی۔ اب وادیٔ کشمیر میں ۱ء۴۶ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں ۱ء۲۵ لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ فرق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں ۱ء۴۰  لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جب کہ ہندو اکثریتی جموں۔ توی خطے میں ۱ء۲۵  لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے ۰ء۸ ووٹ کے برابر ہوگا۔

جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر پنچال کی  ۸  میں سے ۵ سیٹوں کو گوجر آبادی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔ اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیرتعداد میں آباد ہے، اس لیے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازع کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ قبائل کا درجہ دیا گیا ہے، مگر انھی علاقوں میں انھی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اس سے آزاد رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے سفارش کی ہے کہ ۱۹۹۰ء میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں، یعنی ہندوؤں کے لیے دو نشستیں محفوظ کی جائیںگی۔جس میں ایک کے لیے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہیے۔ ان دو نشستوں کے لیے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کرے گی۔ اسی طرح دہلی ، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں بسنے کے لیے ۱۹۴۷ءمیں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کے لیے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامزد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کے لیے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے ۔ ان دونوں زمروں میں آنے والے اُمیدوار اگرچہ نامزد ہوں گے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔عام طور پر حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کا حق براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ۱۹۴۷ءکے مہاجرین کے لیے ۴ سے ۵ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔ چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں ۹۰سے اوپر ہیں، اس لیے ان کے لیے جولائی میں پارلیمان کے مون سون اجلاس میں قانون سازی کی جائے گی۔ اس طرح ۹۶ یا ۹۷رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں ۴۹یا ۵۱تک ہوں گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ نشستیں پاکستانی زیرانتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہوں گی، جہاں ۱۲نشستیں مہاجروں کے لیے مخصوص ہیں، جو اس علاقے سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔

اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیتے ہوئے حدبندی کمیشن نے جموں اور کشمیر کے خطو ں کی الگ الگ کلچرل اور مذ ہبی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر سفارشات کی ہیں۔ مگر جب پارلیمانی سیٹوں کا معاملہ آگیا، تو کمیشن نے یکایک یہ فیصلہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر کو ایک اکائی مانا جائے گا۔ یہ حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کے پونچھ -راجوری علاقے سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر ۔پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں-توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقے سے ہارتا تھا۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔

دراصل پرانے زمانے سے ہی وادیٔ کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں:

’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ ، شوپیان)

 ’یمراز‘ یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور

 ’کمراز‘ یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شامل ہیں___

یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ’مراز‘ یعنی جنوبی کشمیر واحد خطہ ہے، جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمایندگی کرتا ہے۔ اسی لیے چاہے ۱۹۷۹ءمیںپاکستانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہو،یا ۱۹۸۷ء کا ’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘ (MUF) کا الیکشن ہو، یا ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ءکے انتخابات ہوں،یا برہان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ دیگر د و خطے ’یمراز‘ یا ’کمراز‘ مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔

لگتا ہے جنوبی کشمیر کو پونچھ- راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اس کی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔یہ دونوں خطے صرف مغل روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ رابطہ چھ ماہ تک بھاری برف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔ اگر کبھی انتخابات اکتوبر اور مئی کے درمیان منعقد ہوتے ہیں، تو اس سیٹ پر قسمت آزمائی کرنے والے امیدواروں کو اننت ناگ سے پونچھ جانے کے لیے رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھم پوراور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً ۶۰۰کلومیٹر سے زائد پہاڑی اور دشوار گذار راستہ طے کرنے کے بعد اس پارلیمانی نشست کے دوسرے حصے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جا نا پڑے گا۔

اس کے علاوہ ’حدبندی کمیشن‘ نے۱۳نشستوں کے نام تبدیل کیے ہیں اور ۲۱کی سرحدیں اَز سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میںمرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقے زینہ گیر کو سوپور سے علیحدہ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا ہے اور سنگرامہ حلقے کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔ یہ ساری کارگزاری، مسلم آبادی کی عددی اور سیاسی قوت کی کمر توڑنے کے لیے کی گئی ہے۔

دنیا بھر میں شورش اورعدم استحکام کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بااختیار بناتے ہوئے ان کا غصّہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، مگر کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے اور بیگانہ بنانے کا ایک گھنائونا کھیل جاری ہے۔

کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل تو جاری ہے اور اب ’حدبندی کمیشن‘ نے اس عمل کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے بانی آنجہانی وید بھسین ۱۹۴۷ءکے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ تھے، جوقتل عام کو روکنے کے لیے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجا ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے:’’ ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے رُوبرو لے جایا گیا۔ وہ اُلٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے‘‘۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا:’’یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے؟‘‘ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’بالکل اس طرح‘‘۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے‘‘۔ـ بقول وید جی، ’’ہری چند مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا‘‘۔

 ۲۰۲۲ء میں یہ خواب ’حد بندی کمیشن‘ کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو ۱۹۴۷ءسے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر سیاسی یتیمی اور بے وزنی کی علامت بناکر رکھ دیاہے۔ جب خونیں سرحد کے پار سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو اس صورت حال پر نوحہ خوانی کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے!

 

ہرسال ۱۵ مئی کو فلسطینی دُنیا بھر میں ’یومِ نکبہ‘ یا بڑی ’تباہی کا دن‘ مناتے اور ۱۹۴۸ء میں اس روز فلسطین میں بڑے پیمانے پر نسلی تطہیر اور ظلم و ستم کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

برطانوی حکومت کی اسرائیل کے قیام کے لیے حمایت حاصل کرنے کے بعد ۱۴مئی ۱۹۴۸ء کو فلسطین میں جیسے ہی برطانوی انتداب (mandate)ختم ہوا، صہیونی قوتوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے پہلی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز کردیا۔ صہیونی فوج نے کم از کم ۷لاکھ ۵۰ہزار فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے فلسطین کے ۷۸ فی صد رقبے پر قبضہ کرلیا۔ فلسطین کا باقی ماندہ ۲۲فی صد رقبہ آج مقبوضہ مغربی کنارہ اورمحصور غزہ کی پٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جنگ جنوری ۱۹۴۹ء تک جاری رہی اور پھر مصر، لبنان، اُردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ ۱۹۴۹ء کی جنگ بندی لائن کو گرین لائن بھی کہا جاتا ہے، اورعام طور پر اسے اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان حدبندی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ گرین لائن کو۱۹۶۷ء سے قبل کی سرحد بھی کہا جاتا ہے جب ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے باقی ماندہ فلسطین پرقبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل کا فلسطین پر فوجی قبضہ عشروں پر محیط مرکزی تنازع ہے جو فلسطینیوں کی زندگی کو مسلسل اور بُری طرح متاثر کر رہا ہے۔

اسرائیل نے ۱۹۴۷ء اور ۱۹۴۹ء کے درمیان فلسطین کی نقشہ کشی کے لیے صہیونی فوجیوں کے ذریعے فلسطین کے بڑے شہروں پرحملہ کیا اور ۵۳۰ دیہات کو تباہ کر دیا۔ بڑے پیمانے پر قتل عام اور سفاکیت کے نتیجے میں ۱۵ہزار فلسطینی مارے گئے۔ ۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کو صہیونی فوجیوں نے دیریاسین گائوں میں جو یروشلم کے مغربی دیہاتی علاقے میں واقع ہے، جنگ کے دوران بدنامِ زمانہ قتل عام کیا۔اسرائیلی ریاست کےقیام سے قبل کی Irgun اور Stern صہیونی ملایشیا کے ہاتھوں ۱۱۰سے زیادہ مرد و خواتین اور بچے مارے گئے۔ فلسطینی محقق سلمان ابوستہ نے اپنی کتاب: The Atlas of Palestine میں ان ۵۳۰ دیہات پر جو تباہی و بربادی گزری، اس کا مفصل تذکرہ اعداد و شمارکےساتھ کیا ہے۔ نیز مختلف چارٹوں اور گراف کی مدد سے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

فلسطینی پناہ گزین کہاں ہیں؟

۶۰ لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزین ۵۸ کیمپوں میں رہتے ہیں جو پورے فلسطین اور ہمسایہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے ایجنسی (UNRWA) مشرق قریب میں مہاجرین کو بنیادی ضروریاتِ زندگی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سیکڑوں اسکولوں کو چلانے میں معاونت کر رہی ہے۔ اس وقت اُردن میں ۲لاکھ ۳۰ہزار فلسطینی مہاجرین ہیں، جب کہ ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ میں، ۸لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین مقبوضہ مغربی کنارہ میں، ۵ لاکھ ۷۰ہزار فلسطینی مہاجرین شام میں اور ۴لاکھ ۸۰ہزار فلسطینی مہاجرین لبنان میں ہیں۔ ان میں بڑے فلسطینی مہاجر کیمپ بقع، اُردن، جبلیا، غزہ، جنین ،مقبوضہ مغربی کنارہ، یرموک، شام اور ال ہلوان، لبنان میں ہیں۔

غزہ کے ۷۰ فی صد سے زیادہ رہایشی مہاجرین ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ ۵۰ہزار فلسطینی مہاجرین غزہ کی پٹی میں قائم آٹھ مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں۔بین الاقوامی قانون کے مطابق مہاجرین اپنے گھروں اور زمینوں پر واپس آباد ہونے کا حق رکھتے ہیں، جہاں سے انھیں نکالا گیا تھا۔ بہت سے فلسطینی آج بھی فلسطین واپسی کی اُمید کے ساتھ جی رہے ہیں۔

فلسطینی مہاجرین کی حالت ِ زار کے پیش نظر یہ دُنیا کا طویل ترین ناقابلِ حل مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے فوجی کنٹرول کی وجہ سے ان کی زندگی کا ہرپہلو متاثر ہے، خواہ وہ سہولیات کا حصول ہو یا سفر کرنا ہو، شادی کرنا ہو یا کہیں رہنا ہو۔ معروف بین الاقوامی این جی او ہیومن رائٹس واچ (HRW) کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف انسانیت کی توہین، نسلی امتیاز اور ظلم و سفاکیت کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے‘‘۔

’ہیومن رائٹس واچ‘ نے اسرائیل کی زیادتیوں کے ثبوت فراہم کیے ہیں، جن مظالم میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا، لاقانونی قتل و غارت گری، زبردستی علاقے سے بے دخلی، نقل و حمل پر شدید پابندیاں، نظربندی اور قیدوبند اور فلسطینیوں کو شہریت کے حق سے محروم رکھنا شامل ہیں۔

ہرسال اسرائیل فلسطینیوں کے سیکڑوں گھر تباہ کر دیتا ہے۔ مصدقہ اعدادوشمار کےمطابق ۲۰۰۹ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان کم از کم ۸ہزار ۴سو ۱۳ فلسطینیوں کے مکانات اسرائیلی فوج نے گرا دیئے اور اس کے نتیجے میں ۱۲ہزار ۴سو ۹۱ افراد بے گھرہوگئے۔بین الاقوامی قانون کے مطابق لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے بے دخل کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ان مکانات میں سے بیش تر (۷۹ فی صد) مقبوضہ مغربی کنارے کے Area C میں واقع ہیں، جو اسرائیل کے زیرانتظام ہے۔ ان میں سے ۲۰ فی صد مکانات مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ہیں۔

اسرائیل نے ۴ہزار ۴سو ۵۰ فلسطینیوں کو قید کر رکھا ہے جن میں ۱۶۰بچے اور ۳۲خواتین شامل ہیں اور ۵۳۰ افراد کو قانونی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر قید کیا ہوا ہے۔ ہرسال ۱۷؍اپریل کو ’فلسطینی یومِ قید‘ منایا جاتا ہے تاکہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر ظلم و ستم کو نمایاں اور فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے ان کی جدوجہد کو اُجاگر کیا جاسکے۔

فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیاں مضبوط حصاروں کے ساتھ غیرقانونی طور پر تعمیر کی جارہی ہیں۔ تقریباً ۷لاکھ ۵۰ہزار اسرائیلی آبادکار تقریباً ۲۵۰ غیرقانونی بستیوں میں مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں۔ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے مطابق غیرقانونی ہیں۔ اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں پر اکثر حملہ آور ہوکر ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں تقریباً تین لاکھ فلسطینی یہ عذاب سہہ رہے ہیں۔

اسرائیلی حکومت اسرائیلی یہودیوں کے رہنے کے لیے ان بستیوں کی تعمیر کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈ فراہم کرتی ہے اور انھیں رہنے کے لیے مختلف سہولتوں کی پیش کش کے ساتھ ساتھ سستے گھر بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اسرائیلی آبادکاروں کی آبادی اسرائیل کی آبادی کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

غزہ کی پٹی ۲۰۰۷ء سے اسرائیل کی زمینی اور فضائی ناکہ بندی سے دوچار ہے۔ ۲۰۰۸ء سےاسرائیل فلسطینی علاقےپر چار جنگیں مسلط کرچکا ہے۔اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے درمیان بحیرہ روم کے ساحل پر واقع غزہ کی پٹی ۳۶۵ مربع کلومیٹر (۱۴۱ مربع میل) پرمشتمل ہے، جو کیپ ٹائون، ڈیٹریٹ یا لکھنؤ کے برابر ہے۔ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے اور اسرائیل کے مسلسل قبضے کی وجہ سے اسے ’دُنیا کی سب سے بڑی جیل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر حالیہ بمباری میں جو ۱۰ سے ۲۱مئی ۲۰۲۱ء تک جاری رہی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس میں اسرائیلی فوج نے ۲۶۱ ؍افراد کو ہلاک کیا جن میں ۶۷ بچے بھی شامل ہیں اور ۲ہزار ۲ سو سے زائد افراد کو زخمی کیا۔ فلسطینیوں کے لیے ’نکبہ‘ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسلسل جاری عمل ہے جس کے نتیجے میں انھیں گھر سے بے گھر اور زمینوں سے بے آباد کیا جارہا ہے اور یہ عمل کبھی نہیں رُکتا۔ (الجزیرہ، ۱۵مئی ۲۰۲۲ء)

 

  •  س: شام میں انقلابی تحریک کے آغاز کے بارے میں کچھ بتایئے؟
  •  ج:عرب دُنیا کے لوگ چاہتے تھے کہ ملک پر مسلط ظالمانہ نظام حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہاں شام میں بھی صورتِ حال بالکل ویسی ہی تھی جیسی ’عرب بہار‘ کے بعد خطے کے دیگر عرب اور مسلم ملکوں میں تھی۔ مصر اور تیونس میں عوامی ضربوں سے جوں جوں آمریت کا بت چکنا چور ہو رہا تھا، توں توں ہمارے ہاں بھی توقعات اور اُمیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

شامی انقلاب کسی کی منصوبہ سازی کا حصہ نہیں تھا بلکہ یہ برسوں سے جمع ہونے والے اس عوامی غم و غصے کا مظہر تھا جو آخرکار بشار الاسد کے دورِ حکومت میں پھٹ پڑا۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ان مظاہروں کو دیکھ رہے تھے اور جمعہ کے جمعہ ہونے والے مظاہرے بھی ہمارےسامنے تھے۔ یہ مظاہرے اپنے حجم اور تعداد کے لحاظ سے بڑھتے چلے جارہے تھے اور ملک کے ہر ہرشہر اور قریے میں ہو رہے تھے۔ بڑے شہروں میں بلامبالغہ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مظاہرین ضرور جمع ہوتے رہے تھے۔آپ ذہن میں رکھیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں چالیس پچاس برسوں سے چارآدمیوں کے اکٹھے ہونے پر بھی پابندی چلی آرہی تھی، وہاں ہزاروں لوگوں کا جمع ہونا بہت بڑی بات تھی۔ ہمیں بہرحال یہ  ڈر تھا کہ قوم کسی دلدل میں نہ پھنس جائے۔ ملک پر مسلط آمریت کوئی عام طرح کی آمریت نہیں تھی بلکہ یہ تو اجتماعی قتل عام اور انسانی نسل کشی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے نہ کترانے والی آمریت تھی

  • اس جنگ اور تباہی کے بعد کیا ایک بار پھر بشارالاسد شام کو متحد کر پائیں گے؟
  •  شام ایک تھااور ضروری ہے کہ ایک ہی رہے، لیکن خون کی گہری خلیج حائل ہوجانے اور اعتماد کی دیوار ڈھے جانے کے بعد اب شام کی سالمیت کا انحصار صرف اور صرف بشار الاسد کے ظالمانہ نظام کے خاتمے اور اس کے لائے ہوئے دو قبضہ گیر ملکوں کے انخلا سے ہی ممکن ہے۔

شام کے پاس تہذیب و تمدن کے سارے اساسی عناصر موجود ہیں۔ یہ قوم اللہ کے حکم سے وطن عزیز کے لیے مشترکات پرمشتمل پروگرام کے ساتھ ایک ایسا وطن بناسکتی ہے، جو آزادی اور عدل کے دائمی اور سنہرے اصولوں پر قائم ہو۔

  •  شامی قوم انقلاب سے بے زار ہو چکی ہے یا اب بھی انقلاب کی متمنی ہے؟
  • اہلِ شام کے لیے انقلاب کے اس راستے کو ترک کر دینا ممکن نہیں ہے جس نے ان میں آزادی اور عزّت مندی کی اُمنگ جگائی ہے۔ وہ اس ظالم و فاجر نظام حکمرانی سے بے زار ہے، جس نے اسے گہرے زخم اور چرکے لگائے ہیں، انھیں دردناک عذاب سے دوچار کیا ہے۔اس استبدادی نظام سے بیزار ہے جواپنا استبدادی شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے دوسری قوموں کو ان پر چڑھا لایاہے۔ جس کی وجہ سے شام جو کبھی تہذیب و تمدن کا روشن منارہ تھا، اب ناکام ترین ریاست اور دوسروں کا دم چھلابن کر رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہو یا سیاسی آزادیوں اور معاشی تحفظ کا، ہر ہر حوالے سے شام آج ایک ناکام ترین ریاست کادرجہ رکھتا ہے۔وہ لوگ جو آج کہہ رہے ہیں کہ ہم عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے، دراصل یہ لوگ ذلت اور غلامی کے قائل تھے اور ہیں۔ یہ لوگ ایسی حالت میں جی رہے ہیں کہ انھیں بحران کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
  •   بعض یورپی ملکوں میں بھی بشارالاسد کے فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا بشارالاسد کا نظام ختم ہوسکے گا؟
  •  شامی بریگیڈیئر انوررسلان کے خلاف جرمنی کی عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب ثابت ہوچکا ہے اور اسے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ بشارالاسد کی فوج کا یہ افسر انٹیلی جنس یونٹ کی ۲۵۱ بریگیڈمیں خدمات انجام دیتا رہا ہے۔اس مقدمے میں مجرم کو ملنے والی سزا صرف اس کے لیے نہیں بلکہ بشار الاسد کے پورے نظام کے لیے کلنک کاٹیکہ ہے۔بالآخر بشار کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر ان سارے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔
  •  اس منظرنامے میں ترکی کا کیا کردار ہے اور اہلِ شام ترکی کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
  • شامی انقلاب کے لیے ترکی کا وجود گویا انسانی جسم میں موجود پھیپھڑوں کی طرح ہے جہاں انقلاب کے حامیوں کو کچھ سانس لینے کی مہلت مل جاتی ہے۔ ترکی ہمارا پڑوسی اور دوست ملک ہے۔ ہماری طویل مشترک سرحد اور ہماری مشترک تاریخ ہے۔ شامیوں کے لیے مشکلات کے اس دور میں ترکی کا کردار بڑا مثبت رہا ہے۔ ترکی نے شامی قوم کی مدد کے لیے بڑا بوجھ اور دباؤ برداشت کیا ہے اورہماری بڑی مدد کی ہے۔ موجودہ مشکل حالات، دُکھ اور الم کی ان گھڑیوں میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشارکے ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگ جان بچا کر بھاگے تو ترکی نے ان بے آسرا لوگوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں۔ اپنے ہسپتالوں اور اپنے اسکولوں کے دروازے ان پر وا کر دیے۔ ان کی ہر ممکن مدد کی۔ اسی طرح بشار الاسد کی استبدادی حکومت کے پنجے سے آزاد کرائے جانے والے علاقوں میں بھی ترکی نے پہنچ کر خیمہ بستیاں بسانے، عارضی ہسپتال قائم کرنے اور محفوظ علاقے قائم کرنے میں بہت مدد کی۔ بشارالاسد کے درندوں اور ایرانی ملیشیا کو ان علاقوں میں آگے بڑھنے سے روک دیا اور لاکھوں شامی باشندے جن کی زندگیاں داؤ پر لگ چکی تھیں، انھیں جلاوطنی،دربدری اور قتل و غارت گری سے بچا لیا۔
  •  کیا عرب ملکوں نے بھی اس عوامی شامی انقلاب کی کچھ مدد کی؟
  • اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے۔ انقلاب کے بالکل ابتدائی برسوں میں عرب ممالک کا موقف عموماً بہت مثبت تھا۔ اگرچہ انقلابی قوتوں کی توقعات سے یہ کہیں کم تھا۔ تاہم، سیاسی و اخلاقی تائید فراہم کی اور بشار الاسد کے ظلم و استبداد کی کھلے عام مذمت بھی کی۔ تقریباً سبھی عرب ملکوں کا یہی موقف تھا اور اس موقف سے انحراف کرنے والے ممالک صرف وہ تھے جن کے مفادات کے ڈانڈے ایران کے ساتھ جڑے تھے۔یقینا  بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا یا بنانا گویا کہ شامی قوم کے ساتھ اس کے ظلم و جور کو جواز فراہم کرنا ہے۔ ہم ان تمام عرب اور غیر عرب ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ثابت قدمی سے ایک عادلانہ موقف پر قائم ہیں۔
  •  اس ضمن میں اقوام متحدہ کردار کیا رہا ہے؟
  •  اقوام متحدہ کا کردار نہایت شرمناک رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں روس اور چین ویٹو کا استعمال کرتے رہے اور شام میں جاری قتل عام کواقوام متحدہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
  •  ایک عشرہ گزر جانے کے بعد بشار حکومت کو ایک ہمسایہ  ملک کی فوجی امداد اور صلاح کاری کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
  •  بدقسمتی سے اس ملک نے انقلاب کے اوّل روز سے ہی شام میں مداخلت شروع کر دی تھی بلکہ ظلم و ستم میں بشار اور اس کے فوجی گماشتوں کی عملی مدد جاری رکھی۔ یہ چیز شامی عوام کے سینے میں پیوست خنجر کی طرح ہمیشہ کسک دیتی رہے گی۔
  •  شامی لوگ اپنے ہاں روس کی موجودگی پر کیا سمجھتے ہیں؟
  • عوامی انقلاب کو دبانے اور بشارالاسد کی ڈوبتی کشتی کو بچانے میں، اور شام کے اکثر و بیشتر وسائل کو لوٹنے کے عمل کی وجہ سے شامی عوام روس کو ایک قابض ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں،  جس نے شام کی نہتی شہری آبادیوں کے خلاف لاکھوں جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ ہسپتالوں پر بمباری کی ہے، اسکولوں کو نشانہ بنایا ہے، روٹی اور غلے کے گوداموں کوتباہ کیا ہے۔ اس کے ظلم و ستم اور وحشیانہ بمباری سے مہاجروں کی خیمہ بستیاں بھی نہیں بچ سکیں۔ روس نے اپنا ہر طرح کا مہلک اسلحہ نہتے شامی عوام کے قتل عام کے لیے بے دریغ استعمال کیا ہے۔
  •  کیا شام میں روسی موجودگی سے نجات ممکن ہے ؟
  •  بشار الاسد نے ہم پر دو بیرونی ملکوں کا وحشیانہ تسلط قائم کیا ہے، اور یہ صرف اس لیے کہ کسی طرح اس کا اقتدار بچا رہے۔ بشارالاسد حکومت قانونی جواز سے محروم ہے۔ شامی عوام اپنے حق دفاعِ وطن اور بیرونی تسلط سے چھٹکارے کے جائز حق پر قائم ہیں۔
  •  کیا شام کے مسئلے کا   سیاسی حل ممکن ہے؟
  •  عالمی رہنماؤں کے اکثر بیانات تو اسی طرح سامنے آتے رہے ہیں کہ شام کے مسئلے کا حل سیاسی ہے اور ہم بھی اس کا سیاسی حل ہی چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا خیال ہے کہ یقینا اس کے نتیجے میں ہی سیاسی حل نکل پائے گا اور شام مزید انتشار اور خون خرابے سے بچ سکے گا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و اعلانِ نبوت کے مکی مرحلےمیں ایک نمایاں مقام ’ہجرتِ حبشہ‘ کو حاصل ہے۔ ہجرتِ حبشہ اعلانِ دعوت کے پانچویں برس پیش آئی تھی۔اہلِ مکہ کے ہر خاندان نے اپنے اپنے لوگوں میں سے اسلام قبول کرلینے والوں کو اذیت پہنچانے کی ذمہ داری سنبھا لی تھی۔ سردارانِ قریش کی جانب سے نومسلموں کو اذیتیں پہنچانے کی منظم مہم کا سامنا کرنے کے بعد اللہ کے رسولؐ نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ حبشہ میں جا کر پناہ گزیں ہو جائیں۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا: ’’وہاں (حبشہ میں) ایک ایسا بادشاہ ہے، جس کی موجودگی میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا‘‘۔

پہلی ہجرتِ حبشہ میں ۱۶ صحابہ و صحابیات (۵ نبوی میں) حبشہ گئے۔ چند ماہ بعد مزید ۸۳مرد اور ۱۸خواتین ، یعنی۱۰۱؍ اہلِ ایمان حبشہ پہنچ گئے۔ ان کے قائد اور امیر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ کرامؓ مثلاً زبیر بن العوام، عثمان بن عفان اور ان کی زوجۂ محترمہ سیّدہ رقیہ بنت رسول اللہ، مصعب بن عمیراور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل تھے۔ ان کی واپسی آگے پیچھے کرکے ہوئی، جن میں حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ، حضرت زبیرؓ، اور حضرت مصعب بن عمیرؓ سب سے پہلے واپس آئے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد جو واقعات پیش آئے، ان میں یہ حضرات شریک کی حیثیت سے موجود تھے۔ بعض لوگوں کی واپسی ساتویں صدی ہجری میں ہوئی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت حبشہ بارہ برس تک رہی۔

حبشہ ہی کیوں؟

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی اور ملک کے ہوتے ہوئے متعین طور پر حبشہ کا انتخاب ہی کیو ں کیا گیا؟’’تاریخِ دعوتِ محمدیؐ کے مطالعے میں اس سوال کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ رسولؐ کو ’’بواسطہ الٰہی اس کی ہدایت دی گئی تھی‘‘۔ لیکن موضوعی مطالعہ یہ سوال اُٹھاتا ہےکہ ہجرت حبشہ کے واقعات کے پس پشت اسباب کو پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جزیرۂ عرب اور اس کے باہر موجود دیگر ممالک کی بہ نسبت حبشہ اگر واحد انتخاب نہیں بھی تھا تو سب بہترین انتخاب ضرور تھا۔ جزیرۂ عرب کے کسی اور خطے کی طرف ہجرت کرنا محفوظ و مامون نہیں تھا، خواہ وہ خطہ آزاد رہا ہو یا ایرانی وبازنطینی سلطنت کے زیرتسلط رہا ہو۔ کیوں کہ ان خطوں کے قبائل ، خاندان اورریاستیں، قریش کے ساتھ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھی ہوئی تھیں۔ اس لیے ان کے لیے یہ بات قرینِ مصلحت نہیں تھی کہ وہ سربراہانِ مکہ کے دشمنوں کو پناہ دیں۔

دوسری طرف یہ خطرہ تھا کہ اگر اِن سرداران نے مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کردیا تو ان کے اس مطالبے کو فوراً مان لیا جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی آسان نہیں تھا کہ مسلمان بازنطینی یا ایرانی علاقوں کی طرف چلے جاتے۔ کیوں کہ حیرہ اور غساسنہ دونوں ریاستیں دو عظیم سلطنتوں [بازنطین اور فارس] کے لیے’دربان‘ کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ بازنطین یا فارس کی طرف رختِ سفر باندھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ضروری تھا کہ پہلے حیری یا غسانی بادشاہ، جس طرف اس کا رُخ ہوتا، اس کی آشیرواد حاصل کرے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ غساسنہ اور حیرہ، یہ دونوں بھی مذکورہ معاہدۂ ’ایلاف‘ سے بندھے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں، بازنطین کا علاقہ مسیحی گروہوں کے مابین تصادم یا پھر یہودیوں کے خلاف ریاستی ظلم وجبر کی شکل میں مذہبی جنگ کی صورت حال سے دوچار تھا۔ اس اعتبار سے یہ خطہ، ہجرتِ صحابہ و صحابیات کے لیے محفوظ و مامون نہیں تھا۔

حبشہ کی منفرد حیثیت

دوسرے پہلو سے دیکھیں تو حبشہ — یا مملکت اکسوم ایک منفردصورتِ حال کی نمایندگی کر رہا تھا۔یہ ایک مسیحی ملک تھا ،لیکن بازنطین حکمرانی کے تابع نہیں تھا، بلکہ بازنطین کے ظلم سے دوچار قبطی آرتھوڈوکس عیسائیت کا پیرو تھا۔ اس چیز نے وہاں کے سیاسی اقتدار کے اندر ظلم سے فرار کی سمجھ کا کچھ عنصر پیدا کر دیا تھا۔یہ ملک قریش کے ساتھ معاہدوں سے بھی مربوط نہیں تھا، بلکہ قریش اور جزیرۂ عرب کے ساتھ اس کے تعلقات اضمحلال کا شکار تھے، جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ عرب یمن سے ان حبشیوں کو کھدیڑنے کا حامی تھا جو حبشہ پر قابض تھے، اور دوسرے یہ کہ حبشہ نے مکہ پر چڑھائی کرکے اَبرہہ کی قیادت میں ان پر حملہ کیا تھا ۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ حبشہ تک پہنچنے کے لیے ان راستوں سے گزرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا پڑتا تھا، جو قریش کے حلیفوں کے علاقوں سے گزرتے ہوں۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ صرف یہ کہ بحر احمر کی بعض بندرگاہوں مثلاً جدہ یا ینبع کی بندرگاہوں تک پہنچیں اور پھر سمندر کو کشتیوں کے ذریعے عبور کر جائیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصدقہ معلومات کی بنا پر ہی فرمایا تھا کہ وہاں کا بادشاہ عادل و انصاف پسند ہے۔ آپؐ تجارت، سفر اور تاجروں سے ملاقات اور اس ملک یا کسی دوسرے ملک کےتازہ ترین حالات سے واقف رہتے تھے۔ اسی عمل کے دوران آپؐ تک بادشاہِ حبشہ کے عدل وانصاف کی خبر پہنچی ہو جو آپؐ کے نزدیک اس انتخاب کے لیے نقطۂ ترجیح بن گئی ہو۔ اس اعتبار سے حبشہ خالص عملی نقطۂ نظر سے ہجرت کے لیے مثالی مقام تھا۔

مسلمانوں کی ہجرت کے آڑے آنے میں قریشیوں کی ناکامی کے بعد انھوں نے حبشہ کے بادشاہ سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس کے لیے انھوں نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو بھیجا، جو بادشاہ، اس کے افسران اور فوجی کمانڈروں کے لیے تحائف سے لدے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ آخرکار ابن العاص نے بادشاہ نجاشی کے سامنے پیش ہوکر اس کی حکومت تک حکومتِ مکہ کی بات پہنچائی اور یہ وجہ بیان کی کہ مسلمان (اسلام لے آنے والے لوگ) ’’احمق لوگ ہیں کہ انھوں نے ہمارا دین چھوڑ دیا اور وہ تمھارے دین پر بھی نہیں ہیں‘‘۔ ہجرت حبشہ پر قریشیوں کا پریشان ہونا سمجھ میں آنے والی بات تھی۔ اس لیے کہ مکہ کے لیے اَبرہہ کا حملہ ابھی سامنے کا واقعہ تھا اور سردارانِ مکہ کو اس بات کا ڈر کھا رہا تھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے اِن لوگوں کو یہ موقع نہ مل جائے کہ نجاشی کو قوت پہنچائیں اور اسے بلادِ عرب پر حملہ کے لیے اُکسا دیں ، بالکل اسی طرح جس طرح سیف بن ذی یزن نے فارسیوں کو یمن پر حملےکے لیے قائل کر لیا تھا، یا جس طرح نجران کے عیسائیوں کی اپیل پر حبشیوں نے یمن پر حملہ کر دیا تھا ۔

’باہر سے قوت حاصل کرنے‘ کا خیال بہرحال پریشان کن تو تھا ہی، کیوں کہ یہ مذہبی غرض اور خالص اقتصادی منفعت کی غرض سے قابلِ عمل تھا۔ مذہبی غرض سے اس طرح قابلِ عمل تھا کہ نجاشی اسلام قبول کرلے اور مسلمانوں کو فوجی و عسکری حمایت و مدد پیش کردے۔ مسلمانوں کے وفد، جس کی نمایندگی حضرت جعفر بن ابی طالبؓ فرما رہے تھے، کو طلب کرنے پر وفد نے اپنا مسئلہ اس کے سامنے پیش کیا تو بادشاہ نے انھیں اپنے ملک میں قیام کی اجازت دے دی۔ پھر جب عمرو بن العاص نے اس دلیل کے ساتھ اسے مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی کہ حضرت مسیحؑ کی حقیقت کے بارے میں وہ اس کے مذہب کے مخالف ہیں تو بادشاہ نے اور بھی شدت سے اس حد تک [ان مسلمانوں کی]حمایت کر دی کہ ان کوگزند پہنچانے والے کسی بھی شخص پر جرمانہ عائد کر دیا۔ شاہ نجاشی نے تحائف لوٹا کر قریش کے وفد کی سرزنش بھی کی تھی۔

نجاشی کا یہ موقف اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ حبشہ بہترین انتخاب تھا، محض اس لیے نہیں کہ اس کا بادشاہ وسیع القلب وکشادہ ظرف تھا،جو فیصلہ سنانے سے پہلے فریق مخالف کا موقف بھی سنتا تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ مسیحی دنیا اُس وقت حضرت مسیح ؑکی حقیقت وماہیت کے تعلق سے بحث و مناقشے کی بازگشت کے ماحول میں جی رہی تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو حضرت مسیح ؑ کی بشری اور لاہوتی دونوں حقیقت کے قائل تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ وہ شخصیت تو ایک ہی ہیں لیکن اس کے متعدد پہلو ہیں۔ ایک طرف، جب کہ بازنطینی سلطنت اپنے سرکاری مذہب رومن آرتھوڈکس چرچ —کے مخالفین کے لیے ظالم بنی ہوئی تھی، بقیہ مسیحی دنیا اس مخالفت کے ساتھ بازنطینوں کی بہ نسبت نرمی سے نبٹتی تھی ۔ دوسری طرف بازنطینی قیصروں کی طرح حکومت ِ حبشہ نے خود کواس مذہبی جنگ میں نہیں دھکیلا تھا ۔ بازنطینی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ’’حکومت ہی چرچ پر حکمران ہے اور وہی اس کی حفاظت کرتی ہے‘‘۔ اس طرح ظاہر ہے نجاشی کسی ایسے دین کے ساتھ معاملہ کرنے میں کہیں زیادہ وسیع الظرف ہوسکتا تھا، جو دین حضرت مسیحؑ کی خالص بشری حقیقت کو بیان کرتا ہو۔

روحانی بـے چینی

محسوس یہ ہوتا ہے کہ ایک ذاتی نوعیت کا عنصر خود نجاشی کی اپنی ذات کے اندر بھی تھا، جسے  ہم ’روحانی بے چینی‘ کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کی اُن آیات کو سن کر جن میں حضرت مسیحؑ کا ذکر ہوا ہے، اس کا یہ کہنا کہ ’’یہ کلام اور وہ کلام جسے عیسیؑ لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی چراغ کی لو ہیں‘‘، اُس کی شخصیت پر مذکورہ مذہبی جدل و بحث کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے اور اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اس کے اندر ایسے کسی بھی موقف کو قبول کرلینے کی صلاحیت تھی، جو اس کی بے چینی کو دُور کرسکے۔ نجاشی کی شخصیت کا یہ جائزہ ومطالعہ اور حبشہ کے سلسلےمیں نبیِ اکرمؐ کا یہ فرمان کہ وہ ’ارضِ صدق‘ ہے، دونوں اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہجرت کی تجویز سے پہلے غور وفکر، موازنے اور معلومات اکٹھا کرنے کا عمل انجام پایا تھا۔ یہ محض ’بے آس تجویز‘ یا ’بے سوچی سمجھی مہم‘ نہیں تھی۔ اس کے علاوہ یہ کام، یعنی حالات سے آگاہی اور معلومات کا حصول، مکہ جیسے شہر میں رہتے ہوئے آسان کام تھا، جہاں مختلف شہریتوں کے لوگ رہتے تھے اور مختلف خطوں کی خبریں یہاں پہنچتی تھیں۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ہجرت کے مقام کے طور پر حبشہ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اول درجے میں اہل کتاب، یعنی یہود و نصاریٰ کو اپنا مخاطب بناتا ہے؟ مذہبی قصص و واقعات کے مطالعے سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی بھی رسول ہو یا کوئی بھی نبی، وہ اپنی قوم کو مخاطب کرتا ہے، خواہ اس قوم کا مذہب کچھ بھی ہو۔ اس اعتبار سے آپؐ کی اولین مخاطب آپؐ کی اپنی قوم تھی:’’اور اپنے قریبی اہلِ خانہ کو ڈراؤ‘‘۔(الشعراء۲۶: ۲۱۴)

اور پھر جب علانیہ دعوت کا مرحلہ آیا تو قرآن کے مخاطب غیر مسلمین تھے، جنھیں قرآن نے يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ  کہہ کر مخاطب کیا ہے، یعنی خطاب عمومی طور پر تمام انسانو ں سے ہے۔ گویا انبیا و رُسل کے ذمے جو پیغام کیا جاتا ہے وہ نہ تو ’جغرافیائی‘ ہوتا ہے اور نہ ’خاندانی‘، بلکہ اس کی اپیل وسیع تر ہوتی ہے۔ لیکن دوسرے پہلو سے دیکھیے کہ قرآن کا مضمون اس جانب اشارہ کرتا ہے محمد رسولؐ اللہ،   حضرت عیسٰیؑ اور حضرت موسٰی کی لائی ہوئی تعلیمات کو مکمل کرنے کے لیے تشریف لائے تھے ، اور اس لیے تشریف لائے تھے کہ ’راستے سے بھٹکے ہوؤوں ‘ کو ’حق‘ کی طرف لے آئیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔

ایک اور پہلو سے دیکھیں کہ قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جو یہ اشارہ دیتی ہیں کہ نصاریٰ [یعنی مسیحی]،مسلمانوں سے ’’دوستی میں قریب ترین‘‘ ملیں گے۔ توکیا ہجرت کے لیے مسیحی ملک کے انتخاب کا کوئی تعلق اس حقیقت سے بھی ہے؟ لیکن سورۂ مائدہ کی آیات ۸۲، ۸۳ (جن میں مذکورہ مضمون بیان ہوا ہے) کا نزول تاریخی اعتبار سے ہجرتِ حبشہ کے بعد کا بیان کیا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق نجاشی نے مسلمان مہاجروں کا موقف سننے کے بعد پادریوں اور راہبوں کا ایک وفد مکہ کی طرف روانہ کیا۔ اس وفد نے محمد رسولؐ اللہ سے ملاقات کی ، آپؐ کے ارشادات سنے اور اسلام قبول کر لیا۔ دوسری روایت کے مطابق یہ وفد اس آخری مہاجر کے ساتھ آیا تھا، جو حبشہ سے واپس لوٹ کر آ رہا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ’اسلامی مسیحی قربت‘ کی یہ صورت حال ہجرت پر اثر انداز ہونے والی تھی، نہ کہ اس کے برعکس تھی۔

حبشہ میں مسلمانوں کی زندگی

حبشہ کے اندر اوّلین مسلمانوں کی زندگی کے حالات کے سلسلے میں مؤرخین نے جو کچھ جمع کیا ہے ، افسوس کہ وہ کافی نہیں ہے۔ اس لیے راقم کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں کہ بین السطور سے مفہوم اخذ کرنے کی صلاحیت کو کام میں لائے:

پہلانتیجہ یہ کہ نجاشی نے مسلمانوں کو صرف رہنے سہنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ انھیں تنگ کرنے اور ان سے دشمنی کرنے والوں پر جرمانہ عائد کرکے انھیں اپنی حمایت بھی فراہم کی۔ نجاشی کے ساتھ مسلمانوں کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے نجاشی سے اس جرمانے کی رقم میں اضافے کا مطالبہ کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عملاًانھیں بعض طریقوں سے پریشان بھی کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر نجاشی کے رابطے میں رہتے تھے اور ایک سے زائد صورت حال سے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ حبشہ سے واپس تشریف لے آنے کے بعد اکثر بادشاہ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب بادشاہ نجاشی کسی سے خوش ہوتا تھا تو اسے اٹھاتا اور والہانہ اظہار کرتا تھا۔ یا یہ کہ بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد اس نے اپنی خوشی کا اظہار اس طرح کیا کہ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس زمین پر بیٹھ گیا، جو تواضع و انکسار اور اس فتح پر اللہ کے شکر کا اظہار تھا۔یا پھر اس وقت کا حال بیان کرتے تھے جب ابی سفیان کی صاحب زادی ’رمل‘ معروف بہ اُمِ حبیبہؓ کا نکاح ان کے شوہر کے انتقال کے بعد اللہ کے رسولؐ سے ہوا تھا۔ گویا مسلمان مہاجرین کی حالت محض ان لوگوں کی طرح نہیں تھی، جو ملک میں آکر بس گئے ہوں، بلکہ وہ ایک ایسے گروہ میں تبدیل ہو گئے تھے جسے نجاشی کا قرب حاصل تھا اور جو اس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ رسولؐ اللہ اور نجاشی کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی قائم تھا۔ اسی میں سے ایک خط وہ ہے جو آپؐ نے اس کے پاس اسلام کی دعوت کی غرض سے ارسال فرمایا تھا، جس طرح ایران و بازنطین کے شاہان اور مصر کے مقوقس کے پاس بھیجا تھا۔

اسی طرح ان خطوط میں یہ خبر بھی تھی کہ نجاشی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اپنی فوج کو جمع کیا اور مسلمانوں کو کشتیوں پر سوار کرا کر انھیں یہ حکم دیا کہ اس کی شکست کی صورت میں یہاں سے ملک چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ اس کا دشمن ملک پر قابض ہوجانے کے بعد انھیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ جنگ طویل ہوئی تو مسلمانوں نے زبیر بن عوامؓ کو روانہ کیا کہ دریاکو تیر کر پار کریں اور نجاشی کی خبر لے کر آئیں۔ وہ واپس آئے اور یہ خوش خبری سنائی کہ نجاشی کو فتح نصیب ہوئی ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مؤرخین نے تکرار کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ نجاشی اسلام قبول کر چکا تھا اور اپنے اسلام کو اپنے آدمیوں سے چھپائے ہوئے تھا تاکہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہ کردیں۔ مؤرخین نے یہ تک ذکر کیا ہے کہ جب رسولؐ اللہ تک وحی کے ذریعے نجاشی کی موت کی خبر پہنچی تو آپؐ نے اس کی غائبانہ طور پر نماز جنازہ ادا کی۔بہرحال، نجاشی کا ایسے پناہ گزینوں سے اظہارِ ہمدردی جو اس کے ہم مذہب نہ ہوں، ایک الگ چیز ہے اور اس کا اپنے دین سے علیحدگی اختیار کرنا ایک دوسری چیز ہے، جس کی بدولت اسے بعض خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہ چیزاس روایت کی نفی کرتی ہے کہ نجاشی کی وفات اپنے قبولِ اسلام کا اعلان کرنے کے لیے مدینہ کی طرف سفر کے دوران راستے میں ہوئی تھی۔

اسی طرح ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان ہجرت کے اس مقام پر کوئی قیدی یا پابند نہیں تھے، بلکہ اہلِ حبشہ کے ساتھ مل جل کر رہ رہے تھے۔ اور لوگ ان سے مذہبی معاملات میں بحث و مباحثہ بھی کیا کرتے تھے۔ کیوں کہ ایک مہاجر جن کا نام عبید اللہ بن جحش تھا اور وہ اُمِ حبیبہ کے شوہر بھی تھے، بعض پادریوں سے مذہبی معاملات میں ان سے مباحثہ کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے مسیحیت کو قبول کر لیا تھا۔ اس واقعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے تھے۔

اسی طرح بعض مؤرخین ، مثلاً ابن اسحاق نے ان افراد کی فہرست تیار کی ہے، جن کی پیدائش یا وفات حبشہ میں ہوئی تھی اور وہیں دفنائے گئے تھے۔ اس لیے کہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ کچھ لوگ کسی افرادِ قوم کے درمیان ۱۲ برس گزاریں ، لیکن ان سے کنارہ کشی اختیار کیے رہیں۔ اسی طرح ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ بیش تر مہاجرین کی واپسی ہجرتِ مدینہ کے ساتویں برس تک مؤخر کیوں رہی؟ یہ تمام لوگ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی کیوں نہیں مل گئے، جنھوں نے (حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مصعب بن عمیر ؓاور حضرت زبیر بن عوام ؓ)اپنا ’دارِہجرت‘ تبدیل کرکے مدینہ کو دارِ ہجرت بنا لیا تھا۔ اس کا منطقی جواب شاید یہی ہو کہ رسولؐ اللہ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ غزوۂ احزاب کی طرح اگر مسلمانوں کی دشمن طاقتوں کو متحد ہو کراچانک حملہ آور ہونے اور مدینہ میں ان کے خلاف جنگ کرنے کا موقع مل گیا تو مسلمانوں کے لیے ایک ایسا ’خارجی پشت پناہ‘ باقی رہےجہاں، وہ پناہ لے سکیں۔ اور واقعتاً حبشہ کا آخری مہاجر اس وقت تک واپس نہیں آیا تھا جب تک فتح خیبر کا واقعہ پیش نہیں آگیا اور مسلمان مؤثر قوت و طاقت میں تبدیل نہیں ہو گئے۔

 

نصابی کتابوں سے ’مغل اور مسلم تاریخ کا صفایا‘ کردیاگیا!

مودی اور بی جے پی کی حکومت کے اس عمل کو محض’ تاریخ کا بھگوا کرن‘ کہنا درست نہیں ہے اور نہ اسے ’تعلیمی پروپیگنڈا‘ کہنا، مکمل سچ ہے ۔ یہ عمل ’ صفائی‘ (cleansing) کا عمل ہے ، ’تطہیر‘ کا عمل ہے۔ اسے ایک مذہب اور ایک فرقے کی ’ نسل کشی ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس کی تاریخ کا صفایا کردیا جائے گا ، اس کی نسل کہاں باقی رہ سکے گی؟

ابھی یہ خبر آئی ہے کہ بھارت کے’سینٹرل بورڈآف سیکنڈری ایجوکیشن‘ (CBSE) نے نصاب کی کتابوں سے افریقی، ایشیائی خطوں میں اسلامی مملکتوں کے پھلنے پھولنے اور قیام سے متعلق ابواب ہٹادیئے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ بھارت میں مغل حکومت کے ابواب بھی نکال دیئے ہیں۔ مزید جو ابواب ہٹائے گئے ہیں ، وہ ’ناوابستہ تحریک‘ ’ سرد جنگ‘ اور ’ صنعتی انقلاب‘ سے متعلق ہیں۔  ایک حصہ مذہب ، فرقہ پرستی، سیاست اور سیکولر ریاست کا تھا ، اس حصے سے اردو کے مشہور شاعر فیض احمد فیض [م:۲۰نومبر ۱۹۸۴ء]کی نظموں تک کو ہٹادیاگیا ہے ۔

یہ ابواب ’تاریخ‘ اور ’ سیاست‘ کی نصابی کتابوں میں شامل تھے ۔ یہ تبدیلیاں مبینہ طور پر ’نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ (NCERT) کی تجاویز پر کی گئی ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف سی بی ایس ای کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں ، صوبائی تعلیمی بورڈوں نے بھی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ’مہاراشٹر اسٹیٹ ایجوکیشن بورڈ‘ نے ساتویں اور نویں جماعتوں کی ’تاریخ‘ کی نصابی کتابوں سے مغل دور کو حذف کیا اور درسی کتابوں میں ’ مراٹھا دور، بالخصوص شیواجی کے دور‘ کو مکمل طور پرشامل کیا ہے۔ مہاراشٹر کی تاریخ کی درسی کتابوں سے تاج محل ، قطب مینار اور لال قلعے کا تذکرہ مکمل طور پر غائب ہے ۔

 سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس لیے ہیں ؟

 اس سوال کا جواب مودی کی مرکزی اور بی جے پی کی صوبائی حکومتوں کے ’ اعمال ناموں‘ پر ایک نظر ڈال کر بخوبی ہوجاتا ہے ۔ اترپردیش کی مثال لے لیں ، وہاں جب سے یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلیٰ بنے ہیں، انھوں نے اُن تمام شہروں کے ناموں کو ، جو مسلم شناخت کو ظاہر کرتے تھے ، تبدیل کرنا ، یا حرفِ غلط کی طرح مٹانا شروع کردیا ہے ۔

اس ضمن میں مثال کے طور پر دیکھیے: ’فیض آباد‘ ضلع کا نام ’ایودھیا‘ کردیا گیا ہے ، ’الٰہ آباد‘ کا نام ’پریاگ راج‘ رکھ دیا گیا ہے ، ’مغل سرائے‘ ریلوے اسٹیشن کو ’دین دیال اپادھیائے‘ جنکشن کردیاگیا ہے ۔ ’علی گڑھ‘ کا نام ’ہری گڑھ‘ کرنے کی تیاری ہے، تاکہ اس طرح ’اکبرالٰہ آبادی‘ کو ’اکبر پریاگ راجی‘ پڑھا جائے، یا اسی طرح ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کو ’ہری گڑھ مسلم یونی ورسٹی‘ کردیا جائے گا۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دہلی کے اطراف کے ۴۰دیہات کے نام تبدیل کردیئے جائیں۔ حال ہی میں جنوبی دہلی کے ’محمدپور‘نام کے ایک گاؤں کا نام تبدیل کرکے ’مادھو پورم‘ رکھا گیا ہے۔ اس کو بی جے پی اور سنگھی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ مزید ۴۰ گاؤں کے نام تبدیل کردیے جائیں۔ فہرست تیار کرلی گئی ہے اور جلد ہی ناموں کی تبدیلی کی تجویز، دہلی حکومت کو بھیج دی جائے گی ۔

دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا کا کہنا ہے کہ ’’یہ نام ’غلامی کی علامت ہیں‘ اور یہ کہ ’لوگ خود ان ناموں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں‘‘ ۔ حالانکہ دہلی کی کیجری وال حکومت نے بی جے پی پر یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ ’’جب بی جے پی کارپوریشن پر خود حکومت کررہی تھی، تو اس وقت یہ نام کیوں تبدیل نہیں کیے گئے؟‘‘ لیکن اندازہ یہی ہے کہ ناموں کو تبدیل کردیا جائے گا ۔ ناموں کی تبدیلی کا یہ عمل ہراس ریاست میں ہورہا ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ مہاراشٹر میں اگرچہ بی جے پی کی حکومت نہیں ہے،مگر شیوسینا ، جس کے سربراہ وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے ہیں ،عرصۂ دراز سے ’اورنگ آباد‘ کا نام ’سمبھاجی نگر‘ کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مطالبہ پھر شدت اختیار کرے ، اور اس بار اسے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے اور بی جے پی کے لیڈران اٹھائیں ۔

 مسلم ناموں کی تبدیلی کے اس عمل کا مقصد کیا ہے ؟

ا س سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ اس سچ کو کہ اس ملک پر مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی اور مغلوں کی حکومت تین سوسال رہی، لوگوں کے حافظے سے نکال دیا جائے۔  لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات کھرچ کر پھینک دی جائے کہ مسلم حکمرانوں نے:

  • اس ملک کو  سونے کی چڑیا بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا
  • یہاں تعمیرات کے فن کو عروج پر پہنچایا تھا lملک کو لال قلعہ وتاج محل جیسی عالی شان عمارتیں دی تھیں 
  • ادب وثقافت کو مالا مال کیا تھا 
  • اور ان کے دورِحکومت میں مذہبی جبر کے واقعات شاذونادر ہی ہوتے تھے۔ مغل تاریخ مٹانے کا مقصد اس بات پر زور دینا بھی ہے کہ ’اس ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں ہے‘ ۔ اور یہ بھی بتانا ہے کہ ’ملک کی آزادی میں نہ ان بادشاہوں کا کوئی حصہ ہے اور نہ مسلمانوں کا ‘۔

خیر ، مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کا ، درسی ونصابی کتابوں سے ، نکالے جانے کا عمل تو بہت پہلے شروع ہوگیا تھا، اتنا پہلے کہ آج مسلمانوں کی جو نئی نسل ہے، اسے بھی یہ پتہ نہیں ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں کی قربانیاں کیا ہیں! انھیں یہ نہیں پتہ کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر [م: ۷نومبر ۱۸۶۲ء]کو اس لیے رنگون میں قید کیا گیا تھا کہ وہ مجاہد آزادی تھے اور صرف قیدہی نہیں کیاگیا تھا ان کے دوبیٹوں کے سروں کو کاٹ کر طشت میں سجاکر ان کے سامنے پیش کیاگیا تھا۔ سچ یہی ہے کہ ہندستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔

دہلی کے ’انڈیا گیٹ‘ پر ۹۵ہزار ۳۰۰  آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے حُریت پسندوں کے نام تحریر ہیں، جن میں سے۹۴ہزار ۵سو ۶۲ نام مسلم مجاہدین آزادی کے ہیں ۔ آزادی کی جدوجہد تو ۱۷۸۰ء میں ہی شروع ہوگئی تھی جب عظیم مجاہد آزادی ٹیپوسلطان [شہادت: ۴مئی ۱۷۹۹ء]نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ اب تو درسی اور نصابی کتابوں سے ٹیپو سلطان کا نام ہٹانے کی بھی تجویز آگئی ہے ، بلکہ کرناٹک میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ، اس پر عمل شروع ہوچکا ہے ۔ہماری آج کی نسل نہ تو اشفاق اللہ [شہادت:۱۹دسمبر ۱۹۲۷ء]کو جانتی ہے ، نہ امیر حمزہ ، مولانا محمود حسن [م:۳۰نومبر ۱۹۲۰ء]، مولانا برکت اللہ بھوپالی [م: ۲۰ستمبر ۱۹۲۷ء]، مولانا کفایت اللہ [م:۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء]کو ۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا محمد علی جوہر [م:۴جنوری ۱۹۳۱ء]،مولانا حسرت موہانی [م:۱۳مئی ۱۹۵۱ء] اور مولانا ابوالکلام آزاد [م:۲۲فروری ۱۹۵۸ء]تک کو بھلا دیاگیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تو یہ نام لوگوں کو قطعی یاد نہیں رہیں گے۔گویا جن کی ایک روشن تاریخ ہے، انھیں تاریخ سے حذف کیا جارہا ہے ، اور جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے ، جیسے کہ ’سنگھ پریوار‘ ، جو نہ آزادی کی لڑائی میں شامل تھا اور نہ آزادی کی تحریک میں ، انھیں تاریخ میں شامل کیا جا رہاہے۔

 ظاہر ہے کہ جس قوم کی تاریخ مٹادی جائے گی وہ قوم ازخود مٹ جائے گی ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی مرکزی وصوبائی حکومتوں کے توسط سے یہی کوشش ہے کہ اس ملک کی مسلم تاریخ کو مٹادیا جائے ، تاکہ اس ملک کے مسلمان بغیر کسی تاریخ کے رہ جائیں ۔ یہ بھی ’ نسل کشی‘ (genocide) کا ہی ایک طریقہ ہے ۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ ۹ برسوں سے تیز تر کوششیں جاری ہیں، اور آیندہ دو برسوں میں اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کا منصوبہ ہے ۔ دوسال بعد ۲۷ستمبر ۲۰۲۵ء کو آر ایس ایس کے قیام کو پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے۔ اس کے لیڈروں نے آزاد ، جمہوری، سیکولر بھارت کو ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کے لیے سوسال کی مدت طے کی تھی، لہٰذا سوسال ہوتے ہی اُن کے نزدیک یہ ملک مکمل’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل ہوجائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہوسکے، لیکن ان کی پوری کوشش یہی ہے۔

۲۰۱۹ء میں ایک کتاب آئی تھی: The RSS Roadmaps for The 21st Century (اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا منصوبہ) جسے روپا پبلی کیشنز نے شائع کیا۔ یہ کتاب سنیل امبیکر نے لکھی ہے ، جو سنگھ کے مرکزی ’ پرچارک‘ اور ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘(ABVP) ، بی جے پی کی طلبہ تنظیم کے آرگنائزنگ سکریٹری ہیں۔ اس کتاب میں ایک باب ’ بھارت کی تاریخ‘ کے عنوان سے ہے ۔ جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’یہ جو تاریخ آج پڑھائی جاتی ہے، اس میں نہ ’سوتنترا‘ ( آزادی) ہے اور نہ ’سوادھرما‘ ( اپنا خود کا دھرم)۔ یہ تاریخ ’بھارتیتا‘ کے خلاف اور مسخ شدہ ہے ، لہٰذا اسے درست کرناہے۔اور’سنگھ پریوار‘ تاریخ کو ’ درست‘ کرنے کا مشن لے کر آگے بڑھ رہا ہے ‘‘۔ مزید یہ کہ : ’’ہندستانی تاریخ کو تحریر کرنے کا منصوبہ بڑا اہم ہے ، اور اس سوال پر غور ضروری ہے کہ ہماری اقدار کیا تھیں ؟‘‘ وہ سوشل ہسٹری‘ یعنی ’ سماجی تاریخ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس ’اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا‘ کے تحت ، من پسند تاریخ کے سوال بنانے اور جواب دینے کے لیے مخصوص تاریخی منصوبوں پر کام کررہا ہے۔

یہ کام کیا ہے ؟’’مسخ شدہ بھارتی تاریخ کو درست کرنا‘‘ ہی ہے۔ اسے اگر میں ’’مسخ شدہ تاریخ کو مزید مسخ کرنا‘‘ کہوں تو شاید زیادہ درست ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’تعلیم کا بھارتیہ کرن کیا جائے گا‘ ‘۔ اس میں ’’پرواسی بیانیہ کی شمولیت ہوگی‘‘ اور ’’متعصبانہ تعبیرات کو حذف کردیا جائے گا‘‘۔ وہ رام مندر کی بھی بات کرتے ہیں اور نئے عجائب گھروں کی بھی، تاکہ ’’گم شدہ تاریخ کی بازیافت کی جاسکے ‘‘ ۔ تو یہ ہے منصوبہ ، اور سال۲۳-۲۰۲۲ء سے اس منصوبے پر عمل شروع ہورہا ہے ۔ ابھی تو درسی کتابوں سے مسلم اور مغل نام ہٹاکر فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کرنے کا خطرناک کھیل شروع ہوا ہے ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

 

برادرم اسماعیل الفاروقی نے کینیڈا اور امریکا میں قیام کے دوران بحیثیت مسلمان اپنی ہستی پر غور کرنے اور اپنی اصل شناخت کو دریافت کرنے پر پوری توجہ دی۔ ان کو صہیونی غاصبوں کے ہاتھوں اپنے گھربار اور مادرِوطن کو چھوڑنا پڑا تھا۔ انھوں نے جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی یلغار کے دوران اُردن، شام اور مصر کی شکست، بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے اور عرب قومیت کے شرمناک زوال کا مشاہدہ کیا تھا۔

غریب الوطنی کے اس زمانے میں الفاروقی نے آزادی کے ان مواقع کی قدر کی، جن سے وہ مغرب کی علمی دُنیا سے استفادہ کررہے تھے۔ پھر فکری، ثقافتی، سیاسی اور سامراجی جبر کی ناقابلِ قیاس گرفت اور اُمت مسلمہ اور دوسری متاثرہ اقوام پر کثیرجہتی غلامی کے تباہ کن اثرات کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ وہ سامراجی طاقتوں کے دُہرے معیارات کو پردۂ سیمیں کے پیچھے سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پھر انھوں نے امریکا میں تعلیم کی غرض سے آنے والے نوجوان مسلمانوں [مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن-  MSA : ۱۹۶۲ء] کے انقلابی تصورات سے حرارت لی۔ اس طرح مسلمانوں اور انسانیت کے نئے مستقبل کی تعمیر کی منظم کوششوں کے حلقۂ اُلفت سے وہ وابستہ ہوئے۔

اسماعیل الفاروقی نے نوجوانوں کی اس روح پرور دنیا [MSA]میں، خود کو بڑا بے تکلف اور بہت آسودہ خاطر محسوس کیا۔ وہ ان میں سے ایک ہوگئے اور ان نوجوانوں نے بھی جذبۂ سپاس سے انھیں ایک شفیق معلّم اور دُور اندیش قائد کی حیثیت سے دیکھا۔ میں یہ لکھ کر کوئی انکشاف نہیں کروں گا، اگر اپنے دو عزیز ترین بھائیوں ڈاکٹر احمد توتونجی [پ: ۱۹۴۱ءعراق] اور ڈاکٹر عبدالحمید ابوسلیمان [م:۱۸؍اگست ۲۰۲۱ء] کے کردار کو ضبط تحریر میں لائوں۔ ان دو قیمتی ساتھیوں کی دل سوزی نے اس عمل کو باثمر بنایا۔ الفاروقی کے لیے فی الواقع یہ رفاقت بڑی رحمت و برکت کا ذریعہ بنی۔ وہ اب اس دنیا میں مضبوط قدموں سے واپس آگئے تھے کہ جس دنیا سے ان کا ازلی تعلق تھا۔ زندگی کے آخری دو عشروں کے دوران انھوں نے ایک پختہ کار اسلامی اسکالر، اسلامی تعلیمات کے ایک محترم استاد، ایک منفرد داعی اور اسلام کے ایک سچے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انھوں نے شعوری اور روحانی تبدیلی کے اس سفر کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے:

میری زندگی میں ایک وقت تھا… جب مجھے فکری سطح پر یہ ثابت کرنا تھا کہ میں اپنی جسمانی اور شعوری بقا، مغرب سے جیت سکتا ہوں۔ لیکن جب اس مقصد میں قدرے کامیابی حاصل کرلی، تو پھر یہ ہدف بھی میرے لیے بے معنی ہوکر رہ گیا۔

میں نے خود سے سوال کیا:

’میں کون ہوں؟ ایک فلسطینی، ایک فلسفی یا ایک آزاد خیال انسانیت کا حامل؟ ‘

میرے داخلی وجود نے جواب دیا:

’مَیں مسلمان ہوں‘۔

 برادرم الفاروقی اس داخلی تبدیلی کو، دوسرے انداز میں اپنے دوست کے نام ایک خط میں، جو انھوں نے اپنی شہادت سے صرف ۲۶دن قبل یکم مئی ۱۹۸۶ء کو لکھا، یوں بیان کرتے ہیں:

بیروت کی امریکی یونی ورسٹی سے گریجویشن کے بعد میں نے فلسطین میں ’عرب کوآپریٹو سوسائٹیز‘ میں رجسٹرار، اور پھر گلیلی کے صوبے میں انتظامی افسر کی حیثیت سے کام کیا۔ جب جیش الانقلابی قائم کی گئی، تب میں شمالی خطے میں انتظامی گورنر کی حیثیت سے کام کررہا تھا، جو اس وقت تک دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ تھے۔

اسی دوران مزید پڑھائی کے لیے امریکا چلا گیا۔ مغربی فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد میں اسلامی علوم کے ورثے سے دُوری اور اپنی جاہلیت کی کیفیت سے آگاہ ہوا۔ چنانچہ واپسی پر الازہر یونی ورسٹی میں نئے سرے سے سیکھنے کے لیے داخلہ لیا۔ لیکن  یہ بہت ہی خصوصی تیز تر پروگرام تھے، گویا کہ ان تین برسوں پر پھیلا وقت، جو الازہر کے کیمپس میں گزار رہا تھا، اس میں ایک مزید ڈاکٹریٹ کر رہا تھا۔ اس کے بعد مختلف یونی ورسٹیوں میں مطالعہ اسلامی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمت کی۔ اسی دوران امریکا میں طلبہ کی اسلامی تحریک  [یعنی MSA]سے وابستگی نے مجھے وہ سوچ عطا کی، جس کا مقصد امریکا میں مسلمان نوجوانوں کے اخلاق و کردار کی تربیت اور ان کے اسلامی تصورات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ اسلامی فکر کی ترویج اور اس کا فروغ تھا۔ یہی ہے وہ سرگرمی ،جس میں، الحمدللہ آج تک مصروفِ عمل ہوں۔

اطالوی نژاد امریکی پروفیسر ڈاکٹر جان ایل ایسپوزیٹو [پ:۱۹۴۰ء] جو اسماعیل راجی الفاروقی کے براہِ راست شاگرد بھی رہے، وہ الفاروقی کی زندگی کے اس پہلو کو یوں بیان کرتے ہیں:

وہ ایک مرکز کے گرد متحرک، تخلیقی مفکر، مقابلہ کرنے والے دل آویز فرد اور میدانِ کار میں لگن سے کام کرنے والے انسان تھے۔ اسلام اور اسلام کی تعلیمات کا جوہر ان کے عقیدے، پیشے اور صلاحیت میں رَچ بس گیا تھا۔ ان کی زندگی کو اختصار سے بیان کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محتاط لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق مطلوب مسلمان وہ ہے، جو سرتسلیم خم کرکے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرے۔ اسماعیل الفاروقی واقعی ایک مجاہد تھے۔

پروفیسر اسپوزیٹو کے گراں قدر الفاظ میں صرف یہ اضافہ کروں گا:

اسماعیل راجی الفاروقی نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ایک مسلمان عرب قوم پرست کی حیثیت سے کیا، الحمدللہ، آخرکار وہ ایک اسلامی داعی کی حیثیت میں دُنیا سے رخصت ہوئے۔وہ ایک ثابت قدم مجاہد کے طور پر زندہ رہے اور اسی مشن سے وابستگی کی وجہ سے شہادت پائی۔

تریپولی میں ملاقات کے بعد ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ سرگرم رابطہ ۲۷مئی ۱۹۸۶ء کی اس رات تک رہا کہ جب وہ اور ان کی اہلیہ امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہروینکوٹ میں ایک قاتل کی خنجرزنی کے زخموں کی تاب نہ لاکر ربّ کے حضور پیش ہو گئے۔

میں دی اسلامک فائونڈیشن، لیسٹر اور ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ میں سرگرم تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کی اساس اور حرکیات پر کانفرنسوں اور سیمی ناروں کے ایک سلسلے کی نہ صرف کامیاب منصوبہ بندی کی، بلکہ اس کی تنظیم میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسی سلسلے کے توسیعی منصوبۂ عمل کے تحت: اسلام میں بنیادی حقوق کے اعلامیے کی تیاری، ایک مثالی اسلامی دستور کے بنیادی خدوخال اور اسلام اور مسئلۂ فلسطین کی وضاحت کے باب میں گراں قدر حصہ ڈالا۔

عیسائی مسلم مکالمے کے لیے کوششیں

جون ۱۹۷۶ء سے عیسائی مشن کی تنظیمChambesy Dialogue Consultation  اور اسلامی دعوۃ کے موضوع پر ہم نے ایک ساتھ کام کیا۔’ورلڈ کانگریس آف چرچز‘ (WCC) جنیوا ،  دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر(برطانیہ) اور ’مطالعہ برائے اسلام اور عیسائی مسلم تعلقات‘ سیلیوک کالج برمنگھم (برطانیہ) نے اس منصوبے پر مشترکہ کاوش کی تھی۔ اس مشاورت کا مَیں شریک چیئرمین تھا۔ اسماعیل الفاروقی اس تاریخی مشاورت میں ایک محور کی حیثیت رکھتے تھے۔ عیسائی اخلاقیات پر اسماعیل الفاروقی  کی کتابChristian Ethics کو عیسائی اسکالروں نے ’’ایک متاثر کن شاہکار قرار دیا‘‘۔

اس مشاورت کا حتمی اعلامیہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ اعلامیہ ایک صاحب ِ فکروعمل مسلمان کی سوچ کا مظہر تھا، جسے زیادہ تر الفاروقی ہی نے لکھا تھا اور جس کو حتمی اعلامیے کی بنیاد کے طور پر دونوں مذاہب کے علما نے قبول کیا تھا۔ ’مسلم ،عیسائی مکالمے‘ کی عالمی تحریک میں یہ پہلا ٹھوس قدم تھا کہ جس میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر اتنے مؤثر طریقے سے اور کسی عصبیت کے بغیر اور حقیقت پسندانہ انداز میں اتنے بڑے فورم پر پیش کیا گیا تھا۔ اس دستاویز کو دی اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے ۱۹۸۲ء میں شائع بھی کیا تھا۔

افسوس کہ اس تاریخی دستاویز کو مستقبل کے ’مسلم، عیسائی مکالمات‘ کی بنیاد نہیں بنایا جاسکا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں مذاہب کی برادریوں کی توجہ اصل مسائل اور تشویش کے اُمور سے ہٹ گئی، اور پوری قوت محض بے جان مذہبی لفاظی، بے معنی تواضع اور نمائشی خوش خلقی کی طرف مڑگئی۔ الفاروقی بھائی نے بڑی جرأت سے مشاورت میں اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں بیان کیا تھا:

یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی نظام اور توسیع پسندانہ ذہنیت ایک منفی قوت ہے۔ اس مشاورت میں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی طاقت کے دائروں کے اندر بات کرنے کے وہ طریقے اور ذرائع دریافت کریں، اور یہ دیکھیں کہ ہم کیا حکمت عملی اختیار کرسکتے ہیں؟ میں ذاتی طور پر اس شخص کے ساتھ بحث کرنے کو تیار نہیں ہوں، جو یہ دلیل دیتا ہے کہ ’آج کل انڈونیشیا میں کوئی نوآبادتی جبر نہیں ہے‘۔ میں یہاں پر اپنی اس تشویش کا برملا اظہار کرتا ہوں کہ انڈونیشیا میں عیسائی مشنری تحریک اور نوآبادتی جبر کے درمیان گہرے رابطے موجود ہیں۔ اگر آپ کو یہ منظر دکھائی نہیں دیتا کہ تنزانیا اور انڈونیشیا میں سامراجی طاقتیں عیسائیوں کو کس انداز سے استعمال کر رہی ہیں تو پھر ہمیں مکالمہ جاری رکھنے کی کوئی ٹھوس بنیاد اور ضرورت دکھائی نہیں دیتی ہے۔

ڈاکٹر اسماعیل الفاروقی نے مزید کہا:

عیسائی مبلغین کے طرزِعمل کا ضابطہ تیار کرنا پہلی چیز نہیں ہے کہ جس پر ہمیں تشویش ہو، یہ دوسرے مرحلے کا تقاضا ہے۔ پہلا مرحلہ لازمی طور پر باہمی اعتماد کا فہم ہے۔ یہ بات عیسائی مبلغین سے، جو مسلمانوں کے مقابلے میں تبلیغی سرگرمیوں میں بہت آگے رہے ہیں اور جن کی مشنری سرگرمیوں کی تاریخ گذشتہ کئی عشروں کے دوران ایسے واقعات و حادثات سے بھری پڑی ہے، کہ وہ مسلمانوں کی نظروں میں شکوک پیدا کرتی ہیں۔ اس تاریخ کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ پھر اس عزم کا بھی اظہار کریں کہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے آیندہ مثبت قدم اُٹھایا جائے گا۔ یہ کام مسلمانوں کے ساتھ تعاون کے اصول و ضوابط مرتب کرنے اور طریق کار کی تیاری کے لیے مل بیٹھنے سے قبل ہونا چاہیے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ بین المذاہب کانفرنسوں کے اس حتمی بیان میں مسلمانوں کی تشویش کو واضح الفاظ میں یوں منظور کیا گیا تھا:

  • کانفرنس، عیسائیوں اور مسلمانوں کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کے نظام کو اپنے مذہبی اصولوں اور قوانین کے مطابق تشکیل دیں، اور تمام ضروری اداروں کو مذہبی اصولوں اور قوانین کے مطابق برابر کے شہریوں کی حیثیت سے قائم اور برقرار رکھیں۔
  • عیسائی شرکا اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ان اخلاقی غلطیوں کے حوالے سے پوری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، جن کی وجہ سے نوآبادیاتی طاقتوں اور ان کے ہمراہیوں کے ہاتھوں [مسلم آبادیوں کو] مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کانفرنس پر یہ حقیقت واضح ہے کہ بداعتمادی اور خوف کی وجہ سے ’مسلم عیسائی تعلقات‘ متاثر ہوئے ہیں۔ مشترکہ اچھائی کے لیے باہمی تعاون کرنے کے بجائے مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا اور ایک دوسرے سے بیگانہ ہی رہے ہیں۔
  • نوآبادیاتی نظام کے ایک صدی سے زیادہ عرصے کے بعد بھی متعدد عیسائی مشنری، نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کے لیے جان بوجھ کر یا غیرشعوری طور پر کام کرتے رہے ہیں، اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرنے میں بے دلی محسوس کرتے رہے ہیں، اور انھیں ظالموں کا ایجنٹ تصور کرتے ہوئے ان سے لڑتے رہے ہیں۔ اگرچہ اب اس تعلق میں یقینی طور پرکچھ تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم، مسلمان اس کے باوجود کوئی بھی قدم اُٹھانے سے اس لیے گریزاں ہیں کہ عیسائیوں کی نیت پر ان کو شک ہے۔ اس کی وجہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ آج کے عیسائی مشنریوں کی متعدد سرگرمیاں مخصوص مفادات کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں۔
  • اس ضمن میں مسلمانوں کی بے خبری، مسلمانوں کی تعلیم، صحت، ثقافتی اور معاشرتی خدمات، مسلمانوں کی سیاسی پریشانیوں اور بحرانوں، ان کے معاشی انحصار، سیاسی تقسیم اور عمومی ضعف کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، ان [مسیحی]مبلغین نے مذہب کی تبدیلی میں وسعت لانے اور عیسائیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ دوسرے مقاصد کے لیے کام کیا۔ حال ہی میں بعض بڑی طاقتوں کے خفیہ اداروں سے ان کے خدمتی تعلق کے انکشاف نے ان خدشات کی تصدیق کرکے موجودہ خراب صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔
  • کانفرنس کے مسیحی ارکان، عیسائیت کے نام پر ہر ایسی خدمت سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں، جس نے اللہ اور ہمسائے سے محبت کے سوا کوئی اور مقصد اختیار کرکے اس کے مقصد کی اہمیت کو کم کردیا۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ایسی کوئی بھی خدمت جو کسی مذموم مقصد کے لیے کی جائے، وہ پراپیگنڈے کا ہتھیار ہے اور خدا اور ہمسائے سے محبت نہیں ہے۔ انھوں نے اتفاق کیا کہ وہ اپنی پوری طاقت اور ان کے اختیار میں جو بھی ذرائع ہوں گے، انھیں استعمال کرتے ہوئے عیسائی گرجاگھروں اور مذہبی تنظیموں کو اس صورت حال سے مناسب طور پر آگاہ کریں گے۔ کانفرنس بڑے دکھ کے ساتھ عیسائی مشن کے بارے میں مسلمانوں کے ان رویوں سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے، جو خدمت کے غلط استعمال سے متاثر ہوئے، عیسائی گرجاگھروں اور مذہبی تنظیموں پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم دُنیا میں ایسی مذموم خدمات کو معطل کردیں۔
  • یہ بنیادی اقدام مسلم عیسائی تعلقات کی فضا کو سازگار بنانے اور باہم تعاون کے فروغ میں اضافے کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔ کانفرنس واضح الفاظ میں زور دیتی ہے کہ گرجا گھروں اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے عطاکردہ امدادی مال و اسباب کو، ان ممالک کی مقامی آبادی کے لوگوں کے تعاون کے ذریعے تقسیم کیا جائے، کہ جہاں یہ امداد دینے کا ارادہ ہو اور اس طرح متعلقہ لوگوں کی عزت ، وقار اور تشخص کا احترام کیا جائے۔

علمی و فکری خدمات

اس مشاورت میں مسلمان مندوبین نے بڑی لگن کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا، لیکن جناب اسماعیل الفاروقی کی خدمات فیصلہ کن تھیں۔ الفاروقی نے ۲۵ کتابیں تصنیف کیں، اور ایک سو سے زیادہ تحقیقی مقالات لکھے۔ لیکن میری نظر میں ان کا ممتاز ترین اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ  ان کی تین کتب ہیں:

  • Tawhid: Its Implications for Thought and Life [توحید، نظریہ اور زندگی کے لیے اس کی دلالت ] (انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ ورجینیا، یوایس اے ۱۹۸۲ء/
  • The Cultural Atlas of Islam [اسلام کا ثقافتی نقشۂ جہان]، لویس لمیاء الفاروقی کے ساتھ (میک ملن، نیویارک ۱۹۸۶ء)/
  • Islam and The Problem of Israel [اسلام اور اسرائیل کا مسئلہ] (اسلامک کونسل آف یورپ، لندن، ۱۹۸۰ء) ۔

برادرم الفاروقی شہید، اسلامی روح کا لب ِ لباب چند الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’اس میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی تہذیب کا جوہر اسلام ہے، اور اسلام کی روح التوحید ہے۔ یہ التوحید ہی ہے جو اسلامی تہذیب کو اس کی ثقافت دیتی ہے‘‘۔ (التوحید،ص ۱۷)

اسماعیل الفاروقی کے ہاں اسلام کا تصور، ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر ہی ہے، جو آئینے کی طرح صاف دکھائی دیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اسلام، دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔ اسلام کا اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے کہ زندگی اللہ کی مرضی کے تحت، اپنے اور معاشرے کے ساتھ احساسِ ذمہ داری کے ساتھ گزاری جائے‘‘۔

اسلامی تاریخ اور اسلامی قانون کے کردار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسماعیل الفاروقی لکھتے ہیں: ’’انھوں نے مسلم دنیا کو ادارے، اخلاق، طرزِزندگی اور کلچر دیا۔ انھوں نے تمام نسلوں اور ثقافتوں کے مسلمانوں کو ایک ہی نظریے کے تحت تعلیم دی اور ایک ہی نصب العین کے تحت ایک برتر قوت میں باہم جوڑ دیا۔ اسلامی قوانین کی بنیادی قوت نے کامیابی کے ساتھ اتحاد کو فروغ دیا اور تفریق کے ان تمام خطرات کو روک دیا، جن میں مسلم تاریخ کی چودھویں صدی میں غیرملکی طاقتوں کی فتوحات بھی شامل ہیں۔ یہ بجا ہے کہ شریعت یا اسلامی قانون دونوں ہی دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد میں ہراول دستے اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ہے وہ حقیقت، جو اُمت مسلمہ کو عالم گیر اخوت بنادیتی ہے‘‘۔

برادرم الفاروقی کے ہاں اُمت کا نصب العین بڑا واضح ہے: ’’ظاہری طور پر اُمت کی نشوونما کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی مرضی کے اظہار کا ذریعہ ہے، جس کا مقصد  اس اُمت کے ذریعے زمان و مکان کی حقیقت کی تلاش ہے اور دُنیا کے سامنے اس حقیقت کا اظہار ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حتمی وحی کی بنیاد، اس کی مرضی کے ذریعے اس نکتے کی تشکیل کرتی ہے، اور جہاں خدائی کائنات رضائے الٰہی کے اظہار کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جیساکہ قرآن میں اُمت مسلمہ کے وجود کا مقصد بیان کیا گیا ہے: ’’تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو‘‘۔

برادرم الفاروقی، اسلام کے اداراتی کردار اور اسلام کے مستقبل کی وضاحت کرتے ہیں:

اسلام وہ واحد مذہب ہے ، جس نے زیادہ تر مذاہب کا مقابلہ انھی کے مضبوط مراکز اور ماحول میں کیا، خواہ یہ مقابلہ افکار و خیالات کے میدان میں تھا یا تاریخ کے میدانِ جنگ میں۔ اسی طرح اسلام ان تمام معرکوں میں شریک رہا، خواہ وہ روحانی تھے یا سیاسی۔ یوں اسلام نے اپنے نظام کو مکمل کیا ، اور یہ آج بھی تمام محاذوں پر بڑی مضبوطی کے ساتھ معرکہ آرا ہے۔ مزیدبرآں اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے یہودیت، عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت کے ساتھ بین المذہبی اور بین الاقوامی آویزش کے تمام معرکوں میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی، جو ان مذاہب کے ساتھ برپا ہوئے۔

یہ واحد مذہب ہے، جس نے دنیابھر میں مغربی نوآبادیاتی نظام اور سامراجیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام کوششوں کو جھونک دیا، جس کے نتیجے میں یہ نوآبادیاتی نظام ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔اسلام آج بھی فکری سطح پر ترقی کر رہا ہے اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے پھیل رہا ہے، اور کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اس میں شامل ہونے والوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہی وہ مذہب ہے، جس کے دشمنوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہی وہ مذہب ہے جس کو سب سے زیادہ غلط سمجھا گیا ہے۔

اسماعیل الفاروقی نے دسمبر ۱۹۸۱ء میں کوالالمپور میں منعقدہ ۱۵ویں صدی ہجری کانفرنس میں اپنے مقالے Dawah in the West: Promise and Trial میں یہ پُرجوش اپیل کی:

آج ہجری صدی کو منانے کا مقصد، درحقیقت انسانیت کو اس تہذیب کی طرف متوجہ کرنا ہے، جو فطرت سے بغاوت کے نتیجے میں خوار و زبوں ہے۔ چودہ سوسال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور ایک صحت بخش  عالمی نظام (World Order) عطا کیا۔ آج تڑپتی انسانیت کو اس الٰہی نظامِ جہاں سے زیادہ کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہے....  مسلمان بھائی پہلے اس کو قائم کریں اور اس کے بعد انسانیت سے اپیل کریں کہ وہ ان کی صفوں میں شامل ہوجائیں، تاکہ امن اور انصاف، تقویٰ اور نیکی کے نئے عالمی نظام کے لیے جدوجہد ثمربار ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ، دلیل اور مثال کے ساتھ عمل کا حکم دیتا ہے۔ ہم سب اس ربِ ذوالجلال کی وحی کے قابل خود کو ثابت کیوں نہیں کرسکتے؟

برادرم اسماعیل الفاروقی مستقبل بین اور مستقبل ساز سوچ کے مالک تھے۔ وہ کسی پُرسکون لائبریری کے اسکالر نہیں تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دو عشروں میں وہ جس تبدیلی کے خواہش مند تھے، اس کا انھیں پورا شعور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم دُنیا کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے  متحرک رہے۔ اُمت کے پاس موجودہ تمام وسائل، خاص طور پر نوجوانوں کو بروئے کار لانے کے لیے اور اسلامی نظامِ جہاں کے قیام کے لیے وہ شب و روز اور مسلسل جدوجہد میں مصروف رہے۔  وہ مسلمانوں کی ان قومی، سیاسی قیادتوں کے بھی نقاد تھے، جنھوں نے اس کردار اور ذمہ داری کی ادائی سے مجرمانہ حد تک پہلوتہی برتی تھی، وہ بنیادی ذمہ داری کہ جو دین اور تاریخ نے ان پر ڈالی تھی۔ الفاروقی نے بڑے واضح الفاظ میں بیان کیا:

عالم اسلام کی قومی حکومتوں نے (جو خواہ دستوری بادشاہتیں ہوں، جمہوری یا فوجی آمرانہ حکومتیں ہوں) جتنی بھی حالیہ زمانے میں اصلاحات کی ہیں، وہ زیادہ تر ریت پر تعمیر کی گئی ہیں۔ مسلم دُنیا میں ’جدیدیت‘ اس لیے ناکام ہوگئی کہ یہ مغرب زدہ تھی اور جو مسلمانوں کو ان کے ماضی سے الگ کررہی تھی، اور ہم وطن مسلمانوں کو مغربی انسان کی بگڑی ہوئی صورت (caricature) میں ڈھالنا چاہتی تھی۔

اُمت مسلمہ کی موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے ان کا نسخہ بڑا سادہ اور تیربہدف ہے۔ انھوں نے مکمل تبدیلی پر زور دیا، لیکن اس طریق کار کی کلید ان کے نزدیک دعوت، تعلیم اور اس میں بھی زیادہ اہم کام علم (knowledge)کو اسلامی رنگ میں رنگنا ہے:

اسلام کی عالمی اُمت اس قوت سے دوبارہ نہیں اُٹھ پائے گی، یا اُمت ِ وسط نہیں بنے گی جب تک وہ ا پنے مقصد ِ زندگی، اس کے کردار، اس کی تقدیر، یعنی اسلام پر عمل نہیں کرے گی۔ یہ اُمت صرف اللہ کا خلیفہ بن کر اور اسلام کے صحیح تصور کے ساتھ وابستگی ہی سے گردوپیش میں پھیلے ہوئے چیلنج کا جواب دے سکتی ہے۔

برادرم اسماعیل الفاروقی نے جس لائحہ عمل کی نشان دہی کی ہے، اس کے اہم اجزائے ترکیبی میں تعلیم کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا، کردار سازی کی طرف متوجہ ہونا، خاندان کی حفاظت کرنا، معیشت کی مضبوطی و خودانحصاری، معاشرے اور طرزِحکومت کے اداروں کی شریعت کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق اصلاح اور تعمیر کرنا شامل ہے۔ اسی طرح ہرسطح پر دعوتِ حق اس مشن کے لیے لازمی طاقت، روحانی زندگی کا حصول، اخلاقیات کی قوت، مادی وسائل کے تمام ذرائع کا استعمال اور ان کی نشوونما میں تیزی لانا شامل ہے۔

چونکہ اس تبدیلی کے لیے انھوں نے خود جدوجہد کی ہے، اسی لیے ان کا لائحہ عمل ہمہ پہلو ہے، جیساکہ انھوں نے توحید: نظریہ اور زندگی کے لیے اس کی دلالت  میں بیان کیا ہے۔   وہ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں شعوری انقلاب کے لیے خاص طور پر یکسو اور وقف تھے۔ ایسا شعوری انقلاب جو مکمل تبدیلی کے لیے عمل کی قوت سے سرشاری عطا کرتا ہے۔ اس ضرورت کا احساس بیدار کرنے کے لیے انھوں نے مسلم دنیا کے تمام دانش وروں سے دل سوز اپیل کی تھی، جو ان کی شہادت کے بعد امریکن جرنل آف اسلامک سوشل سائنسز (AJISS)میں شائع ہوئی:

ہمارے سامنے انتہائی اہم کام ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم کب تک اپنے آپ کو روٹی کے  ان چند ٹکڑوں پر راضی اور مطمئن رکھیںگے، جو مغرب ہماری طرف پھینک رہا ہے۔  آج یہی وقت ہے کہ ہم اپنا اصل کردار سمجھیں اور اسے ادا کریں۔ صحت مند اور عادل معاشرے کی تشکیل کے ماہرین کی حیثیت سے ہمیں اپنی ترتیب اور تربیت کا جائزہ لینا اور اُسے قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمارے اجداد نے تاریخ، قانون اور ثقافت میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ مغرب نے اس ورثے کو ہم سے عاریتاً لیا اور اس کو سیکولر قالب میں ڈھال دیا۔ کیا اس کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم آگے بڑھ کر اس کو حاصل کریں اور پھر اسی طرح اس کو اسلامی بنادیں؟

مختصر ترین الفاظ میں برادرم اسماعیل راجی الفاروقی کی یہی وصیت ہے۔ میں دعا اور اُمید کرتا ہوں کہ مسلم دانش ور، ان کی پیشہ ورانہ تنظیمیں اور عام طور پر اسلامی تحریکیں، وقت کی اس فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لازماً پہل کریں گی۔


(انگریزی سے ترجمہ: عارف الحق عارف / سلیم منصور خالد)

ساتویں صدی کی مدینہ اکنامکس، محمد منیراحمد۔ ناشر: ایوانِ علم و فن۔ ملنے کا پتا: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔ فون:۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲ صفحات: ۴۰۰،قیمت: ۸۰۰ روپے۔

انسانیت کے تین بڑے مسائل میں روحانیات، اخلاقیات اور معاشیات سرفہرست ہیں۔ یہ چیلنج ہزاروں برسوں سے انسان کے لیے بڑے نازک اور سلگتے سوال لے کر سامنے آتا ہے، جن کا جواب دینے کے لیے فلسفیوں، دانش مندوں اور ماہرین اجتماعیات نے سرتوڑ کوششیں کیں، مگر ناکام رہے۔ وہ ایک سوال کا جواب دینے کے قریب آئے تو دوسرا سوال پھن پھیلائے ڈسنے کو لپکا۔

یہ اسلام ہی ہے اور پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ رہنمائی کہ جنھوں نے بہ یک وقت روح، اخلاق اور معاش کو درپیش مسائل کا ایک چھت کے نیچے اس خوب صورت اور متوازن انداز سے حل فرمایا کہ معاشرہ خداترسی،سکون اور عدل اجتماعی کی تصویر بن گیا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق محقق اور ممتاز ماہر معاشیات محمد منیراحمد کی یہ کتاب درحقیقت اسی کارنامۂ نبویؐ کی تشریح پر مبنی تاریخی، علمی اور عملی دستاویز ہے، جو پندرہ ابواب پر مشتمل ہے۔

کتاب کا مطالعہ فرد کو گذشتہ ۱۵سو برسوں کے دوران انسان کی معاشی زبوں حالی اور مدنی ؐ   دست گیری سے متعارف کراتا ہے۔ ایسی خوب صورت علمی کتاب کا استقبال اہلِ علم پر واجب ہے۔ (س م خ)


امیرمینائی کی نعت، ایک مطالعاتی تناظر، مرتب: صبیح رحمانی، اکیڈمی بازیافت، کتاب مارکیٹ، آفس۱۷، سٹریٹ۳، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۷۵۱۴۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۲۰۰۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

صبیح رحمانی نے زیرنظر کتاب میں معروف شاعر امیرمینائی کی نعتیہ شاعری پر مختلف اہلِ قلم اور نامور نقادوں کے مضامین جمع کیے ہیں۔ امیرمینائی نے محبت ِ رسولؐ کا اظہار طرح طرح سے کیا ہے۔ امیرمینائی کی نعت پر مضامین کے ساتھ، ان کے قصائد اور غزلوں میں نعتیہ رنگ اور ان کی نعتیہ تضمینات پر نقدوتبصرہ بھی شامل ہے۔ مرتب نے اپنے پیش لفظ میں امیرمینائی کی نعت پر اہم نکات پیش کیے ہیں۔(رفیع الدین ہاشمی)

ہمارے دیہاتی علاقوں میں ہرجگہ مسیحی برادری کا پُشت پناہ ایک پادری موجود ہے، جو تھانے سے لے کر سکرٹریٹ تک ہردرجے اور مرتبے کے حکام سے مسیحیوں کے لیے بے جا رعایتیں تک حاصل کرلیتا ہے۔ مسلمانوں کے کسی عالم کو ان حاکموں کی بارگاہوں میں وہ رسائی حاصل نہیں ہے، جو عیسائی پادریوں کو حاصل ہے۔ [وہ] ان حکام کی نگاہوں میں ویسے ہی ذلیل و خوار ہیں، جیسے انگریز حاکموں کی نگاہ میں کبھی تھے۔ مگر مسیحی پادری ان کا بھی اسی طرح ’فادر‘ ہے، جس طرح انگریز حاکموں کا تھا۔ یہ ایک اور سبب ہے جس کی بناپر دیہات کے بے سہارا لوگ اپنے آپ کو پولیس اور زمین داروں اور بااثر غنڈوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مسیحیت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہورہے ہیں۔

رہے کھاتے پیتے طبقے، تو [وہ] اپنی اولاد کو اُردو زبان اور اپنی قومی تہذیب اور اپنےدین کی تعلیم و تربیت دینا لاحاصل سمجھتے ہیں اور ان کو ایسی تعلیم و تربیت دلوانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے وہ زبان اور اَطوار و عادات کے اعتبار سے پورے انگریز یا امریکی بن جائیں۔ اس غرض کے لیے وہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو مسیحی اداروں میں بھیجتے ہیں، جہاں کا پوراماحول ،ان کو اسلام اور اسلامی تہذیب سے بیگانہ اور اسلامی تعلیمات سے محض ناواقف ہی نہیں بلکہ منحرف اور باغی بنادیتا ہے۔ اس کے بعد اگر یہ نوجوان عیسائی نہ بھی بنیں تو بہرحال مسلمان تو نہیں رہتے،بلکہ مسلمانوں کی بہ نسبت عیسائیوں سے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔ یہی لوگ تعلیم سےفارغ ہوکر ہمارے بڑے بڑے افسر بنتے ہیں اور اُونچے عہدے انھی کے لیے مخصوص ہوجاتے ہیں۔ ان سے کون یہ اُمید کرسکتا ہے کہ ان کی ہمدردیاں مسیحیت کے مقابلے میں کبھی اسلام کے ساتھ ہوں گی۔

اِن حالات میں محض مسیحی عقائد کی تردید میں مضامین لکھنے یا گائوں گائوں تبلیغ کے لیے دورے کرنے سے مسیحیت کے اس سیلاب کو کہاں تک روکا جاسکتا ہے؟(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۳، جون ۱۹۶۲ء، ص ۵۶-۵۷)