اسلامی معاشیات ایک ارتقا پذیر سماجی علم ہے۔ یہ اقتصادیات کے اصولوں، اقدار، اداروں اور اسلامی تعلیمات کو یکجا کرنے اور نظامِ کار تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے، تاکہ ایک نیا اقتصادی نظریہ فروغ پاسکے۔اس کا مقصد عصری اقتصادی سائنس میں محض ایک شاخ یا ذیلی شعبہ کا اضافہ نہیں بلکہ جوہری بنیادوں پر علم الاقتصاد کی تعمیروتشکیل ہے۔
مغرب میں آدم اسمتھ کے زمانے سے آج تک معاشی علوم کی تعمیر کے لیے نت نئی کوششیں اور تجربے کیے جارہے ہیں۔ یہ کوششیں فلاحی معاشیات (Welfare Economics)، رویوں کی معاشیات (Behavioral Economics)، ارتقائی معاشیات (Evolutionary Economics)، گھریلو معاشیات (Home Economics) ، سیاسی معاشیات (Political Economy)، مارکسی معاشیات (Marxist Economics) اور ماحولیاتی معاشیات (Environmental Economics) وغیرہ جیسے علوم کی صورت میں کی گئی ہیں۔
عصری اقتصادیات کا سارا تانا بانا سائنس کو اخلاقیات اور مذہب سے الگ کرنے کے تصور کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ اس طرح معاشیات کو ’سماجی سائنس‘ ہونے کے باوجود ایک فطری سائنس (Natural Science) کے سانچے میں ڈھالنے کی منظم کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے نہ صرف بنیادی طور پر تجرید اور انتخاب پر انحصار کیا بلکہ رفتہ رفتہ خود کو معاشرے اور انسانیت سے بھی دُور کرلیا۔ نتیجتاً سارے ہی معاشی اُمور کے بارے میں فیصلہ سازی میں منڈی نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پوری معاشی فکر انسان کے ایک یک جہتی (unidimensional) تصور کے گرد منڈلا رہی ہے، جس کا محرک مفاد پرستی اور منافع کا حصول بن گیا۔ اس کے نتیجے میں ایک بے رحم اورسفاکانہ صورتِ حال نے جنم لیا، کیونکہ ایک طرف مغرب نے پیداوار اور دولت کی تخلیق میں شان دار ترقی کی تودوسری طرف ایک ایسی معیشت اور معاشرہ تخلیق کیا، جہاں دولت کی وسیع پیمانے پر غیرمساویانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر معاشی استحصال پایا جاتا ہے۔
اس عمل نے معاشرے کو وسائل رکھنے اور وسائل پر دسترس نہ رکھنے والوں میں تقسیم کردیا اور یوں طبقاتی تقسیم پیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انسان، قومیں اور ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہوگئے، جس سے انسانیت کی بقا کو خطرہ لاحق ہوگیا۔
اقوام متحدہ کی ’غذا کے بارے میں چوٹی کی کانفرنس‘ (۲۳ستمبر ۲۰۲۱ء) کے مطابق ۲۰۲۰ء میں دنیا کے ۷۶۸ملین افراد بھوک اور افلاس کا سامنا کر رہے تھے، جن کی تعداد میں پچھلے سال اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔ دُنیا بھر میں تقریباً ۲۷۴ملین افراد کو زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، جب کہ دُنیا کے امیرترین ایک فی صد لوگوں کے پاس دُنیا کے تقریباً ۷؍ارب لوگوں سے دوگنی زیادہ دولت ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں تین امیر ترین افراد کے پاس ۱۶۰ملین افراد کی دولت کے برابر دولت ہے۔
امریکا اس وقت دُنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دُنیا کی ۵ فی صدآبادی کے ساتھ یہ دُنیا کی مجموعی پیداوار کے ۲۰ فی صد کا حامل ہے۔ اس کے باوجود خود ۲۰ فی صد امریکی خاندانوں کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ ۳۷ فی صد سیاہ فام امریکی خاندانوں کی صورتِ حال ابتر ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ امریکا میں ایک مڈل ایگزیکٹو اور اعلیٰ کارپوریٹ ایگزیکٹو کی تنخواہوں کے درمیان فرق ۱۹۵۰ء میں ۲۰ گنا تھا لیکن اب یہ بڑھ کر ۴۰۰ گنا ہوگیا ہے۔
عالمی وبائی مرض کورونا نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ تقریباً ۸۹ملین امریکی ملازمتیں کھوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے ۴۴ء۹ ملین سے زائد افراد بیمار ہوچکے ہیں اور ۷لاکھ ۲۴ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکی ارب پتی، خاص طور پر وہ لوگ جو دواسازی کی صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، لالچ کے اسیر اور عام انسانوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے والے ہیں۔ عالمی تباہی کے ان دوبرسوں کے دوران ۴۵؍ارب پتیوں کی دولت میں ۲ء۱ ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ امریکی فارٹیکس فیئرنس (AFT) اور انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز پروگرام آن اِن ایکویلٹی کے تجزیہ کردہ ’فوربس‘ (Forbes) کے اعداد و شمار کے مطابق، ان کی اجتماعی دولت میں ۷۰ فی صد اضافہ ہوا۔ ۱۸مارچ ۲۰۲۰ء کو کورونا وبا کے آغاز میں ان کی دولت ۳ٹریلین ڈالر تھی، جو ۱۵؍اکتوبر ۲۰۲۱ء تک بڑھ کر ۵ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہوگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ آج عالمی معیشت کے ساتھ ساتھ معاشیات کی سائنس دونوں ہی بحران کا شکار ہیں۔ پروفیسر ابھیجیت وی بینرجی (Abhijit V. Banerjee) اور ایستھرڈ فلو (Esther Dufly) نے اپنی کتاب: Good Economics for Hard Times (۲۰۱۹ء) میں عصری معاشیات پر نہایت جامع تنقید کی ہے۔انھوں نے اچھی معاشیات اور فاسد معاشیات (Bad Economics)کے درمیان فرق واضح کرتے ہوئے، اس عدم اعتماد پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جو عام آدمی معاشیات کے بارے میں رکھتا ہے۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح معاشیات اور اخلاقیات کے درمیان علیحدگی ایک ایسے معاشرے کی پیدائش کا باعث بنی ہے، جس میں انصاف اور اس کے تمام ارکان کی فلاح و بہبود کا فقدان ہے۔ ان مصنّفین کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہے کہ یہاں بڑے پیمانے پر فاسد معاشیات کا دور دورہ ہے۔
مصنّفین، مغرب میں معاشیات کے ناقص نقطۂ آغاز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معاشیات کی ناکامی کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’معاشی ماہرین کا رجحان فلاح و بہبود کے تصور کو اپنانے کی طرف ہے، جو اکثر بہت محدود ہوتا ہے، آمدنی یا مواد کی کھپت کے کچھ حصے کی حد تک۔ پھر ہم سب کو ایک مکمل زندگی گزارنے کے لیے برادری کے احترام، خاندان اور دوستوں کی راحت، وقار، خوشی اور سہل زندگی سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے۔صرف آمدنی پر توجہ ایک آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسخ کرنے والی عینک ہے، جس نے اکثر ذہین ماہرینِ اقتصادیات کو گمراہ کیا ہے، پالیسی سازوں کو غلط فیصلوں اور ہم میں سے اکثر پر غلط تصورات کو مسلط کیا ہے‘‘۔
جدید معاشیات کے بارے میں ان کی تنقید بہت باوزن ہے: ’’فاسدمعاشیات نے معیشت کی تمام چابیاں اور وسائل امیروں کے حوالے کر دیئے، پھر عوام کے لیے فلاحی پروگراموں کو کم کرنے پر زور دیا۔ اس تصور کو غالب کر دیا کہ ریاست کمزور اور بدعنوان ہے اور غریب سُست ہیں۔ یہ وہ حکمت عملی تھی، جس نے عدم مساوات اور عوامی سطح پر جمود اور تلخی کو جنم دیا، جس سے تصادم کی فضا رُونما ہوئی ہے۔
نظریں خیرہ کرنے والی اس معیشت نے ہمیں بتایا کہ تجارت سب کے لیے اچھی ہے اور تیز تر ترقی ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اندھی معیشت نے پوری دُنیا میں عدم مساوات کے خوفناک دھماکے اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے سماجی مسائل، اور سر پر کھڑی ماحولیاتی تباہی کو نظرانداز کر دیا‘‘۔ (Good Economics for Hard Times، پینگوئن بُکس، برطانیہ،۲۰۱۹ء)
اچھی معاشیات کی تلاش وقت کی پکار ہے۔ اسلامی معاشیات کو ترقی دینے کی کوشش اس سمت میں ایک مثبت کردار ہے۔اس سلسلے میں جن اہل علم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۲۵ستمبر ۱۹۰۳ء-۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء] اور پھر باقرالصدر [یکم مارچ ۱۹۳۵ء- ۹؍اپریل ۱۹۸۰ء] کا نام نمایاں ہے۔ مولانا مودودی نے نہ صرف علم معیشت کے تمام دائروں کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو واضح الفاظ میں بیان کیا، اور ان کی علمی اور عملی فوقیت پر مؤثر دلائل دیے، بلکہ پورے معاشی مسئلے کو دیکھنے اور حل کرنے کے لیے جس نئے نقطۂ نظر کی ضرورت ہے، اسے بڑی گرفت کے ساتھ واضح کیا۔ اس طرح معاشیات کے علم کی تشکیلِ جدید کی تحریک، بیسویں صدی کی ایک مؤثر تحریک بن گئی۔
معاشی حوالوں سے سیّد مودودی کی تحریریں پانچ بڑے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں:
ہمارے نزدیک 'تصور اور 'تجزیےمیں پیدا کردہ تفریق ہی روایتی معاشیات کی ناکامی کی اصل وجہ ہے۔ اسی لیے سیّد مودودی نے زور دے کر یہ سمجھایا ہے کہ اسلام کے تصورِ حیات، اخلاقی ضابطے اور انفرادی و اجتماعی تنظیم کا، معاشی نظریے، معاشی زندگی اور فیصلہ سازی سے لازمی ربط ہے۔ اگر اس میں سے کوئی ایک اکائی غائب ہے یا نظرانداز ہے، تو اس کو اپنی جگہ فعال اور بحال ہونا چاہیے ۔ مراد یہ ہے کہ معاشیات کی اسلامی تشکیل کی نمایاں ترین خصوصیت معاشی تجزیے اور پالیسی سازی میں بھی اخلاقی اقدار کی کارفرمائی کا کلیدی کردار ہے۔
مولانامودودی نے معاشیات کے اس پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ایک انسان دوست معیشت، مربوط طرز فکر کے ذریعے معاشرے کے تمام افراد کے لیے اچھی زندگی کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ ایک صحت مند معاشیات وہ ہوگی، جس میں معاشیات اور اخلاقیات کا ناتا ٹوٹا ہوا نہ ہو۔ مولانا نے معاشی زندگی اور اس کی انجام دہی کے مختلف پہلوؤں پر اس مربوط طرز فکر کے اثرات کو نمایاں کیا ہے۔
مولانا مودودی برملا کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی کا ہرپہلو دیگر تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلاشبہہ تخصص کا ایک کردار موجود ہے، لیکن زندگی کو ایسے جدا جدا خانوں میں تقسیم کر دینا غیرحقیقت پسندانہ اور انتہائی نقصان دہ ہے، جن میں ہر شعبۂ علم انسانی زندگی کے کسی پہلو کو ایک الگ دنیا میں زیر مطالعہ لاتا ہو۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران معاشیات کو جس طرح ایک جدا اور اپنے آپ میں مکمل علم کے طور پر پروان چڑھایا گیا ہے، اس نے ایسے یک رُخے علم کی تشکیل کی ہے، جس کی ساری توجہ ذاتی مفاد، نفع اندوزی اور مال جمع کرنے کی دوڑ میں ایک نہ ختم ہونے والے مقابلے پر ہے ۔
اس مفاد پرستانہ ذوقِ شکم و زرکا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشی مفاد کا حصول ہی تمام انسانی کوششوں کا مدار ٹھیرا ۔ دروغ گوئی، جعل سازی،اشتہاربازی اور ناانصافی کا بازار گرم ہوا، جو آج کے معاشی حقائق ہیں۔ معاشرے کا مفہوم مجرد معیشت سمجھ لیا گیا اور معیشت کو منڈی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آغاز تو مادی ضروریات کے لیے اخلاقی فلسفے کے پھیلاؤ سے ہوا تھا، لیکن اس نے محدود ہوتے ہوتے مالی فوائد و نقصانات کی حساب بندی کی شکل اختیار کر لی۔ پھر معاشیات کا تعلق مذہب اور اخلاقیات سے توڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے رفتہ رفتہ فلسفے، سیاسیات، عمرانیات، نفسیات، تاریخ سمیت دیگر شعبہ ہائے علم سے بھی جدا کر دیا گیا ۔اگر انسانی مسائل کا حل واقعی درکار ہے تو زندگی سے متعلق تمام شعبہ ہائے فکر سے معاشیات کے تعلق کو بحال کر کے مضبوط کرنا ہوگا ۔ اس نئے آغاز کے لیے مختلف شعبہ ہائے علم سے استفادہ ناگزیر ہے۔
اگرچہ منڈی (مارکیٹ)کی حرکیات، فیصلہ سازی کے لیے مناسب بنیاد ہیں، لیکن خود منڈی کو واضح طور پر طے شدہ اخلاقی، قانونی اور سماجی دائروں میں کام کرنا چاہیے۔ انسانوں کا اپنا مرکزی کردار ہے، لیکن اداروں کا بھی اپنا خاص مقام ہے، جو بعض صورتوں میں زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ عمل تخلیق میں مقابلہ آرائی تو لازم ہے، لیکن معیشت و معاشرت کی حرکیات میں باہم تعاون اور درد مندی بھی اہم تر ہے۔ ریاست خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی اور نہ اسے لاتعلق ہونا چاہیے۔ اسے تنظیم اور اصلاح کا کام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ معاشرتی اہداف کا حصول ممکن ہو۔ سیّدمودودی کہتے ہیں کہ تمام دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ریاست اور افراد معاشرہ کو بھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سماجی ترقی، معاشرے کے تمام ارکان کے لیے عدل و فلاح کی ضامن ہو۔
موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کا ایک بڑا المیہ مالی معیشت اور حقیقی معیشت میں بڑھتی ہوئی خلیج ہے۔ آج کی دنیا، حقیقی اور معنوی رقوم کے سیلاب کی لپیٹ میں ہے جس میں اضافی قدر پیدا کرنے کا ٹھوس عمل، عالمی انسانی برادری کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسی خود مختار فضا قائم کردی گئی ہے، جس میں دولت کو دولت کھینچتی ہے، لیکن حقیقی معیشت میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ اُدھار کو حقیقی دولت پیدا کرنے کے لیے صرف استعمال ہی نہیں کیا جاتا بلکہ یہ خود ایک الگ معیشت بن گئی ہے۔ گھروں، کاروباری اداروں اور ریاستوں سمیت ہر سطح پر گویا سودی قرض کے پھیلائو کی ایک دھماکا خیز صورتِ حال ہے، جس سے پیدا ہونے والے بلبلے پھیل بھی رہے ہیں اور بڑھ بھی رہے ہیں، لیکن مصنوعات اور خدمات کی حقیقی فراہمی، جو انسانی ضروریات اور سہولیات کا باعث بنیں، ان میں اضافہ نہیں ہو رہا۔
مولانا مودودی اسلامی معاشیات کے چلن سے اقتصادی میدان میں حقیقی وسائل کے درمیان ربط کو بحال کرنے کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما بھی ایک تقریر میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ ’’دنیا کو معاشی انجینئرنگ سے زیادہ حقیقی انجینئرنگ کی ضرورت ہے‘‘۔ دنیا کی معیشت کی موجودہ صورت حال سخت تشویش ناک ہے، جس میں بیرونی زرمبادلہ کی روزانہ خریدوفروخت اشیا و خدمات کی حقیقی بین الاقوامی تجارت سے تقریباً پچاس گنا زیادہ ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی معاشیات کی بنیادی خصوصیت، حقیقی معیشت اور اثاثہ جات کی پیداوار کا باہم تعلق ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے ذمہ دار عوامل میں ربا (سود)، میسر (تخمینے کی بنا پر خرید و فروخت) اور غرر (تلون اور ابہام) شامل ہیں۔ اسلام ان سب کو حرام قرار دیتا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ایک قرطاس عمل (ایکشن پلان) میں یہ دلچسپ تبصرہ موجود ہے:’’اسلامی بنکوں کی کارکردگی کا عالمی سطح پر روایتی بنکوں سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں معاشی بحران کے نتیجے میں روایتی بنکوں کو جو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے پیش نظر اسلامی بنکوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے‘‘۔
اسلامی معاشیات پر نظری اور عملی حوالوں سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کا اثر کم ازکم تین سمتوں میں واضح نظر آتا ہے:
اوّل:یہ کہ انھوں نے نہ صرف قرآن اور سنت کی معاشی تعلیمات کو پوری وضاحت اور اس مضمون پر پوری گرفت کے ساتھ بیان کیا بلکہ اسلامی معاشیات کی ایک الگ شعبۂ علم کے طور پر تشکیل کا عملی آغاز بھی کیا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے معاشیات کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق میں گذشتہ پچاس برس کے دوران نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اس مقصد کے لیے متعدد تحقیقی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ درجنوں بین الاقوامی کانفرنسوں اور لاتعداد سیمی ناروں اور مباحثوں کے ذریعے اس جدید اور اُبھرتے ہوئے شعبۂ علم کو مختلف پہلوؤں سے پروان چڑھانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسلم دنیا میں الگ سے اور اس سے باہر ڈیڑھ سو سے زائد یونی ورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک تدریسی شعبۂ علم کے طور پر الگ سے شامل کیا جاچکا ہے۔ اس پیش قدمی میں سیّد مودودی کا کردار نمایاں ہے۔
دوم: یہ کہ مولانا مودودی محض ایک کتابی مفکر نہ تھے۔ اسلام، تبدیلی چاہتا ہے اور مولانامودودی نے مرد و خواتین کی روحانی اور اخلاقی قلب ماہیت کے لیے اور اسلام کے طے کردہ معیارات، اقدار اور اصولوں پر مبنی ایک نئے سماجی نظام کے قیام کے لیے عالمی تحریک کی تشکیل اور تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا مودودی کا اصل مقصد اسلامی نظام کو اس کی مکمل شکل میں قائم کرنا تھا۔ گویا ان کا پیغام یہ تھا کہ اسلامی معیشت، سماجی تبدیلی کے بغیر نمو نہیں پا سکتی۔ لہٰذا، اسلامی معاشیات کے تین پہلو ایک دوسرے سے وابستہ بلکہ باہم پیوست ہیں، یعنی: اس کا اخلاقی و معیاری پہلو، ایجابی یا تجزیاتی پہلو، اور معیشت و معاشرت میں تبدیلی کے لیے اس کا تغیر اتی کردار۔
اسلامی معاشیات کو عملی شکل دینے کے لیے مولانا مودودی نے فرد اور معاشرے کے طور پر بھی اور سماج اور ریاست کی سطح پر بھی مسلمانوں کی معاشی زندگی کی تشکیل نو پر بھی مسلسل زور دیا۔ اسلامی معیشت، بنکاری اور انشورنس کے لیے عالمی تحریک کا ظہور پذیر ہونا پیش نظر رہنا چاہیے۔ دیگر حوالوں سے ہونے والی پیش رفت میں زکوٰۃ، صدقات اور انفاق سے متعلق تعلیمات کو باقاعدہ شکل دینے کے لیے تنظیموں کا قیام اہم ہے۔ یہ پیش رفت اسلام کی عصری تشکیل کے معاشی پہلو کی آئینہ دار ہے۔ تاہم، مولانا مودودی زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ ساری کوششیں ایک بڑی تبدیلی، یعنی سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے کی جامع تبدیلی کے لیے محض ایک نقطۂ آغاز ہیں۔
پھرمولانا مودودی کا اثر پالیسی سازی کے میدان میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے معاشی فیصلہ سازی کے ہر مرحلے پر فرد، کاروباری اداروں،معاشرے اور ریاست کے حوالے سےپورے منظرنامے کو نئے سرے سے تشکیل دینے پر زور دیا ہے۔ ان سب کا مقصد ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہونا چاہیے۔ مسلم ممالک کے وہ دساتیر جو مولانا مودودی کے اصل عرصۂ تصنیف و تحقیق سے قبل لکھے گئے تھے، ان کا موازنہ اسلامی احیا کی تحریکوں کے زیر اثر بننے والے دساتیر سے کیا جائے تو حیرت انگیز مشاہدات سامنے آئیں گے۔ اگر صرف تین مثالیں مقصود ہوں تو پاکستان، ایران اور سوڈان کے دساتیر میں ریاستی پالیسی کے لیے وضع کردہ رہنما اصول، اسلام کے سماجی و معاشرتی معیارات اور احکام پر مبنی اس نئی معاشی فکر کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ ۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ۳۲
(اٰل عمرٰن۳:۳۲) (اے نبیؐ) ان سے کہو کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک لا متناہی اور متلاطم سمندر ہے۔ علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی ایک انتہائی اہم، انتہائی دلچسپ اور انتہائی مفید داستان ہے۔ اس مضمون میں ہم سیرت النبیؐ کی جمع، تدوین اور اس کے مختلف مراحل، جہتیں اور مناہج کا مطالعہ کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایک مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو باعمل، باشرع، اور بامقصد بنانے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا کردارادا کرتا ہے۔
سیرتِ پاکؐ کا اولین اور بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن پاک شاید پہلی اور یقینا آخری مذہبی کتاب ہے جس کواس کے نزول کے ساتھ تحریر کیا گیا، تو کہا جا سکتا ہے کہ جب قرآن پاک جمع ہورہا تھا اور اس کو مدون کیا جارہا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ سیرت بھی مدون ہورہی تھی۔ یہ تدوین سیرت کا آغاز تھا یعنی قرآن پاک کی تدوین اور جمع ایک طرح سے سیرت کی جمع اور تدوین کے مترادف تھی۔ سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث صحیحہ ہیں۔ حدیث کی تدوین کی تاریخ بھی ایک اعتبار سے سیرت کی تدوین کی تاریخ ہے۔ حدیث کی ہر کتاب میں سیرت پاک سے متعلق مستند اور ضروری مواد موجود ہے۔ علمِ حدیث مسلمانوں میں روز اول سے ایک انتہائی محترم اور مقدس اور مقبول علم رہا ہے۔ ہر دور کی سعید روحوں اور بہترین دماغوں نے علم حدیث کی خدمت کی ہے۔ ان دو بنیادی مواخذ کے علاوہ کتب سیرت ومغازی، کتب تاریخ، کتب ادب/ادبیات بھی مواخذ سیرت شمار کیے جاتے ہیں۔
شمائل کے بعد دوسرا میدان حضورؐ کی تقاریر ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائیں۔ سیرت نگاروں نے انھیں ’خطبات سیرت‘ کے عنوان تلے جمع کیا ہے۔ ہمارے نبی افصح العرب ہیں۔ ان کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت کا جو معیار تھا آج تک عربی زبان کا کوئی خطیب اس تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع اور مناسبت سے بہت سی دستاویزات تیار کروائیں، خطوط تحریر کروائے، ان تمام کو سیرت نگاروں نے ’وثائق سیرت‘ کے عنوان تلے جمع کیا ہے۔ سیرت پر جہاں تحقیقی اور عالمانہ کام ہوئے ہیں وہاں عوامی انداز میں بھی بہت کام ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس کے لیے ’لوک سیرت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کا اہم نمونہ میلاد نامے اورموالید ہیں۔ سیرت کا ایک اہم موضوع ’تعلیمات سیرت‘ بھی ہے۔ اس سے مراد سیرت کی وہ معلومات یا شعبہ ہیں جن کا تعلق علم کی نشرواشاعت اور تعلیم سے ہے۔ سیرت کا ایک اہم عنوان ’روحانیات سیرت‘ ہے۔ اس میں بنیادی طور پر تزکیۂ نفس کے سلسلے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات جمع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی عنوانات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے تحت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مدون کیا گیا ہے۔ ان میں’ادبیات سیرت‘، ’اجتماعیات سیرت‘،’نفسیات سیرت‘، ’جغرافیۂ سیرت‘ اور ’مصادر سیرت‘ اہم ہیں۔
۱- محدثانہ اسلوب: یہ سیرت نگاری کا قدیم ترین اسلوب ہے۔ اس اسلوب پران شخصیات نے کام کیا ہے جو دراصل حدیث کے متخصص (specialist ) تھے اور ان کی عمر کا بیش تر حصہ علم حدیث کے قواعد اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے علم حدیث کی تدریس میں گزرا۔
۲- مؤرخانہ اسلوب: اس اسلوب میں جب سیرت نگار کسی واقعے کو بیان کرتا ہے تو اس سے متعلق تمام معلومات کو یکجا اور مرتب کرکے بیان کرتا ہے۔ مثلاً ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ میں مکہ مکرمہ سے روانگی سے لے کر مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان میں ٹھیرنے کی پوری تفصیل کا بیان موجود ہے۔
۳-مؤلفانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے مختلف ماخذ اور کتب کو سامنے رکھ کر تصنیفی اندازجس میں ایک مرتب اور مربوط کتاب لکھی جاتی ہے کا انداز اختیار کرکے سیرت پر کتابیں تیار کی جاتی ہیں۔
۴- فقیہانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات پر اس طرح سے روشنی ڈالی جاتی ہے کہ ان سے کون کون سے فقہی احکامات نکلتے ہیں۔
۵-متکالمانہ اسلوب: اس اسلوب میں علم کلام کے نقطۂ نظر سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے اور جو چیزیں علم کلام کے نقطۂ نظر سے اہم ہیں انھیں نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہاں علم کلام سے مقصد یہ ہے کہ وہ علم یا فن جس میں اسلامی عقائد کو عقلی دلائل سے بیان کیا جائے اور دوسرے مذاہب کے عقائد پر عقلی انداز سے تنقید کی جائے اور عقلی دلائل کی بنیاد پر اسلامی عقائد کی برتری ثابت کی جائے۔
۶-ادیبانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات کو خالص ادبی اسلوب، نظم یا نثر میں مرتب کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عامتہ الناس میں وہ لوگ جو سیرت پر تحقیقانہ کتابیں پڑھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کے لیے سیرت کے مواد میں ایسی ادبی چاشنی اور رنگ پیدا کردیا جائے کہ غیر متخصص شخص بھی سیرت کا مطالعہ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
۷- مناظرانہ اسلوب: اس سے مراد وہ اسلوب تھا جو مسلمان مسالک یا مدارس فکر کے مناظروں کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ان مناظروں کے نتیجے میں مسلمانوں میں مختلف رائے رکھنے والے لوگوں نے سیرت کے مختلف واقعات کی تعبیر اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کی۔
۱- تدوین سیرت کا سب سے پہلا مرحلہ معلومات اور ڈیٹا کی جمع اور فراہمی کا مسئلہ تھا۔ اس مرحلے کا اصل اور بنیادی ہدف یہ تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات با برکات کے بارے میں تمام متعلقہ معلومات کو جمع کر لیا جائے، ان کو ضائع ہونے یا فراموش ہونے سے محفوظ کر لیا جائے تاکہ آیندہ آنے والی نسلوں تک اس کو پہنچا دیا جائے۔ اس مرحلہ کے دوحصے ہیں۔ ایک حصہ تو وہ، جو اللہ ربّ العزت کی حکمت بالغہ اور تکوینی حکم سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔ علم الانساب اس کی ایک مثال ہے۔ یقینا ان لوگوں کے علم میں جو یہ معلومات جمع کر رہے تھے کہیں دور دور بھی یہ خیال نہیں تھا کہ یہ معلومات کس کی خاطر جمع کی جا رہی ہیں؟ کس کے جمال کو سامنے لانا مقصود ہے کہ یہ سارے پردے ایک ایک کر کے ہٹائے جارہے ہیں؟ لیکن یہ ساری معلومات انھی حضرات کے ہاتھوں جمع ہوئیں جن کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک جاری رہا۔ اسی پہلے مرحلے کے دوسرے حصے کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے فوراً بعد شروع ہوا اور جب تک صحابہ کرامؓ اس دنیا میں موجود رہے اس وقت تک یہ مرحلہ بھی موجود رہا۔ آخری صحابی کا انتقال کب ہوا؟ اس کے بارے میں محدثین میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ عام طور پر محدثین کا اتفاق ہے کہ ۱۰۵ یا ۱۰۶ ہجری میں آخری صحابی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد صحابہ کرامؓ کے ذریعے آنے والی معلومات کا راستہ بند ہو گیا۔
۲- تدوین سیرت کے دوسرے مرحلہ کو ہم ’دور تدوین و ترتیب‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے جو معلومات آئی تھیں اور پہلے سے جو معلومات حضورؐ کے خاندان، جغرافیۂ عرب اور آپؐ کے قبیلے اور برادری کے بارے میں دستیاب تھیں، ان سب کو اس طرح سے موضوع وار مرتب کرنے کا کام کرلیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا وہ نقشہ مکمل طور پر دنیا کے سامنے آجائے جو آج ہمارے سامنے ہے۔ تدوین و ترتیب کا یہ مرحلہ تابعین اور تبع تابعین کے دور میں مکمل ہوا۔ اندازاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مرحلہ ۲۱۰ ہجری کے لگ بھگ ختم ہوگیا۔ محدثین نے تابعین کا آخری زمانہ ۱۷۰، اور ۱۷۵ ہجری کے قریب قرار دیا ہے اور تبع تابعین کا آخری دور ۲۱۰ اور ۲۱۵ ہجری کے قریب قرار دیا ہے۔ گویا ۲۱۰ اور ۲۱۵ہجری کے درمیان یہ مرحلہ بھی ختم ہوگیا۔ جو جو مجموعہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ہاتھوں مرتب ہونے تھے وہ اس دور میں مرتب ہو گئے۔ وہ سارا ذخیرۂ معلومات محفوظ ہوگیا۔ ساتھ ہی اس وقیع اور قیمتی ذخیرۂ معلومات کےضائع ہونے کا خدشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
۳-تدوین سیرت کے تیسرے مرحلے کو ’تصنیف و تالیف‘ کا دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ دور ۲۰۰ہجری کے لگ بھگ شروع ہوا اور کم و بیش اگلے دو سو سال تک جاری رہا۔ ۴۰۰ ہجری تک یہ مرحلہ بھی تقریباً مکمل ہوگیا۔ اس دور میں پہلے دونوں ادوار بالخصوص دوسرے دور سے آنے والے تمام چھوٹے بڑے مجموعوں کو جمع کرکے مفصل اور مکمل کتابیں تیار کی گئیں۔ سیرت کو ایک باقاعدہ علم کے طور پر منظم اور مرتب کیا گیا۔اس دورکی سب سےپہلی اورسب سے اہم کتاب جو انتہائی قابل ذکر ہے وہ علامہ عبد الملک بن ہشام کی کتاب کا وہ نسخہ ہے جو انھوں نے ابن اسحاق کے کام کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔
۴- چوتھا مرحلہ جو ۴۰۰ ہجری سے شروع ہوا اور آیندہ مزید دو سو سال تک جاری رہا۔ اس کو مرحلہ ’استیعاب و استقصاء‘ کہہ سکتے ہیں، یعنی سیرت سے متعلق تمام بلاواسطہ معلومات کا مکمل سروے اور استیعاب و استقصاء۔ واضح رہے کہ سیرت کے بارے میں علم حدیث اور سیرت کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی بہت سی قیمتی معلومات موجود تھیں۔ مختلف علوم و فنون میں منتشر طور پر یہ معلومات موجود تھیں۔ کچھ معلومات علم تفسیر میں تھیں، کچھ علم حدیث میں تھیں، کچھ مؤرخین مرتب کررہے تھے۔ کچھ معلومات لغت نویس مرتب کر رہے تھے، کچھ معلومات جغرافیہ نویسوں کے پاس تھیں۔ ان سب کو جمع کرکے اور پچھلے دو ادوار میں مرتب کردہ سیرت کے چھوٹے مجموعوں میں دستیاب مواد کو اَزسرنو کھنگال کر بڑے بڑے مجموعوں کی شکل میں مرتب کیا گیا۔ یہ دور سیرتِ مبارکہ پر بڑی بڑی کتابوں کا دور ہے۔ اس دور میں چھ چھ، آٹھ آٹھ اور دس دس جلدوں پر مشتمل ضخیم اور جامع کتابیں لکھی گئیں۔
۵- پانچواں مرحلہ جوکہ تقریباً ۶۰۰ ہجری کے لگ بھگ شروع ہوا اور آج سے کم و بیش ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک جاری رہا۔ یہ ’تجزیہ، مطالعہ اور تشعیب‘ یعنی diversification کا زمانہ ہے۔ اس دور میں سیرت کے مختلف پہلوؤں پر الگ الگ مطالعے سامنے آئے۔ کتاب النبی، وثائق النبی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے بارے میں، صحابہ کرامؓ کے الگ الگ طبقات اور مجموعوں پر سارا کام تقریباً اسی دور میں ہوا۔ اس مرحلے میں سیرت کے بارے میں دستیاب تمام معلومات اور جزئیات کو اہل علم، محدثین اور سیرت نگاروں نے اس طرح جمع کر دیا کہ ایک ایک پہلو الگ الگ ہمارے سامنے آگیا۔
۶- چھٹا دورانیسویں صدی کے نصف دوم (تقریبا" ۱۲۸۰ھ) میں شروع ہوا۔ علومِ سیرت پر ایک نئے انداز سے غور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ سیرت کے بارے میں مغربی دانشوروں نے وسیع پیمانے پر زور و شور سے اظہار خیال کیا۔ بہت سے ایسے سوالات اٹھائے جو پہلے گزرے ہوئے مسلمان سیرت نگاروں کے سامنے نہیں تھے۔ بعض سوالات حقیقی اور بظاہر علمی انداز کے تھے۔ ایسے سوالات کا جواب سیرت نگاروں، محدثین اور اہل علم نے دیا اورسیرت کے فن کو ایک نئی جہت سے روشناس کیا۔ ان نئی نئی جہتوں کے ساتھ ساتھ مغربی اہل علم کی طرف سے بہت سے اعتراضات بھی کیے گئے اور شبہات کا اظہار بھی کیا گیا جن کا مسلمان محققین اور سیرت نگاروں کی طرف سے جواب دینے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے اس دور کوتدوین سیرت میں تجدید کا دور بھی کہہ سکتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہل مغرب کو یا تو اہل روم کہا جاتا تھا یا بنی الاسفر کہا جاتا تھا۔ عام اسلامی اصطلاح یعنی زرد قوم کی اولاد۔ ذخیرۂ احادیث میں بنی الاسفر سے مراد اہل یورپ اور خاص طور سے روم کے باشندے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار تبصرے ہیں جو احادیث میں اہل یورپ اور مغرب کے بارے میں ملتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اہل مغرب کی ان خصوصیات سے واقف تھے اورمسلمانوں کو وقتاً فوقتاً متنبہ بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک اور چیز جس کی جانب ڈاکٹر صاحب نے توجہ مبذول کروائی وہ یہ ہے کہ بہت سی احادیث اور سیرت کی کتابوں میں قدیم مذہبی اور آسمانی کتابوں کے حوالے بیان ہوئے ہیں۔ تورات میں یہ آیا ہے، انجیل میں یہ آیا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو مستند احادیث میں بھی آئی ہیں اور کچھ روایات وہ ہیں جو تابعین کے ذریعے آئی ہیں۔ ایسی روایات کا بڑا حصہ ان تابعین کے ذریعے آیا ہے جو اسرائیلیات کی روایات کیا کرتے تھے۔ اگر اسرائیلیات کی روایات کو فی الحال چھوڑ دیا جائے اور صرف ان روایات کو لیا جائے جو احادیث صحیحہ میں آئی ہیں ور صحابہ اور مستند تابعین نے بیان کی ہیں، ان کا حوالہ قدیم کتابوں میں آج کس حد تک دستیاب ہے اور ان بیانات کی اپنی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اس پر ابھی تک کوئی مناسب تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ یہ موضوع ابھی تشنۂ تحقیق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مواد کا ازسرنو باقاعدہ مطالعہ کیا جائے اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے اس کا تقابل کیا جائے اور عوام الناس کواس سے روشناس کرایا جائے۔
ہر مسلمان حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قانون اور شریعت کا ایک ماخذ سمجھتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت ہی میں نجات ہے۔ ’’اگرتم اطاعت کرو گے توہدایت پاجاؤ گے‘‘ (النور۲۴: ۵۴)۔ اگر کسی مسلمان کے لیے کوئی اسوۂ حسنہ ہے تووہ صرف رسولؐ اللہ کی ذات گرامی میں ہے۔ اللہ کی اطاعت اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف رسولؐ اللہ کی اطاعت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ اسوۂ حسنہ کا انگریزی ترجمہ Role Model یا بہترین / واحد Role Model ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ایک ایسا جامع رول ماڈل ہے کہ یہ مقام دنیا میں کسی اورشخصیت کو حاصل نہیں ہے۔ انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں انسانوں کے اجتماعی اور قومی مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام اور ممالک کو جن مشکلات و مصائب سے واسطہ رہا ہے، ان میں سے ایک مشکل قوموں کی باہمی عصبیت اور دوسری چیز دولت مندوں، غریبوں اور بھوکوں کے درمیان کش مکش ہے۔ ماضی میں انسانیت کو جتنی مشکلات پیش آئیں، جتنی جنگیں ہوئیں اور جتنا خون بہا ہے شاید۹۹ فی صد یا اس سے بھی زیادہ تباہی انہی دو مسائل کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے کام کا آغاز کیا تو عرب کے معاشرے میں یہ دونوں مشکلات مکمل طور پر موجود تھیں۔ قومی عصبیت تو قومی سطح پر ہوتی ہے جو بہرحال بڑی سطح ہے، عرب میں تو قبائل کی بنیاد پر بھی شدید عصبیتیں موجود تھی۔ قبیلوں میں پھر مزید ذیلی شاخوں اور ان کے درمیان عصبیت پائی جاتی تھی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ صرف ۲۳سال کے مختصر سے عرصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عصبیتوں کو ختم کردیا۔ سیرتِ مطہرہؐ نے افراد کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ ذیل میں مطالعۂ سیرت کی اجتماعی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ تمام اہل اسلام کو سیرت النبیؐ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور پیغام سیرت حتی المقدورپھیلانا چاہیے کہ یہی وقت کی آواز بھی ہے اور ضرورت بھی۔(ماخذ:محاضرات سیرت ، از ڈاکٹر محمود احمد غازی، خطبات مدراس از سید سلیمان ندوی، The Life and Work of The Prophet of Islam از ڈاکٹر حمید اللہ)
انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم اور ضروری چیز مال ہے، جس کے پاس مال ہے اسے امیر اور جس کے پاس مال نہیں اسے غریب کہا جاتا ہے۔ امیری وغریبی کی یہ تقسیم نظامِ قدرت کے کمال کی خصوصیت ہے۔ اگر سب کے سب امیر ہی ہوتے تو پھر کوئی بھی محکوم نظر نہ آتا۔ جس کے پاس ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے مال نہ ہو اسے قرض کی ضرورت پڑتی۔ ایسے ہی ضرورت مند اور حاجت مندوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ، صدقہ اور قرض جیسی چیزوں کومشروع کیااور زکوٰۃ وصدقہ کی طرح قرض کوبھی باعث ثواب قرار دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی تکلیف کودُور کرے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور کرے گا۔ اس حدیث سے پتا چلا کہ قرض دینا بھی ایک مستحسن عمل ہے۔
بعض موقعوں پرمحتاج اورتنگ دست حضرات بلاسودی قرض نہ ملنے کی وجہ سے سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ شاہد ہے کہ ایک طرف بینکنگ کے نظام نے سودی قرضہ سے لوگوں کے خون کو اس طرح چوسنا شروع کیا کہ لوگ یاتو خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے یا اپنے اہل وعیال کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگئے،تو دوسری طرف بعض لوگوں نے اپنے آپ کو بنک بنا کرخود سے سود پر قرضہ دینا شروع کیا۔ حالانکہ ایک زمانے تک نہ بینک کا نام ونشان تھااور نہ اس طرح کا کوئی کاروبار۔ اس کے باوجود محتاجوں کو برابر قرض مل رہا تھااور لوگ اللہ کی رضا کے لیے غریبوں کو بغیر سود کے قرض دیتے آرہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے اندر سے قرض دینے کا مستحسن عمل کیوں متروک ہورہاہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ قرض لینے والوں نے باوجود قرض کی ادائی پر قدرت کے بروقت قرض ادا کرنے میں کوتاہی اور تساہل سے کام لینا شروع کیا۔ حالانکہ قرض لینا مباح اور جائز کام ہے،اس میں کوئی شرمندگی نہیں ، اللہ کے رسولؐ نے بھی قرض لیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ایک یہودی کے پاس سے ۳۰صاع جَو قرض لیے تھے اور اس کے بدلے آپؐ نے اپنی زرہ رہن میں رکھی تھی (سنن ابن ماجہ: ۲۴۳۹﴾)۔ اس لیے کہ قرض کی ادائی واجب اور ضروری ہے اور عدم ادائی باعث گناہ ہے۔
قرض ادا نہ کرنے والے کے سلسلے میں حدیث میں وعید آئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْـنِہٖ حَتّٰی یُقْضٰی عَنْہُ (سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۳﴾)۔ علامہ عراقی نے اس حدیث کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ مقروض میت کے بارے میں نہ نجات کا فیصلہ ہوگا اور نہ ہلاکت کا یہاں تک کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا گیا یا نہیں(تحفۃ الاحوذی، ج۴،ص۱۶۴﴾)۔ علامہ خطیب شربینی ؒ نے اس حدیث کامطلب اس طرح بیان کیا کہ جب کوئی شخص مقروض ہونے کی حالت میں مرتا ہے تواس کی روح قبر میں محبوس ہوتی ہے اور عالم برزخ میں دیگر روحوں کے ساتھ اسے کشادگی حاصل نہیں ہوتی،اور اسے جنت کی سیر سے محروم رکھا جاتاہے۔ یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کیا جائے(مغنی المحتاج: ج۳،ص ۹۰﴾)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس حالت میں مرجائے کہ اس پر ایک دینار یادرہم قرض باقی ہو، تو اس وقت جب درہم و دینار کام نہیں آئے گا،اس کی نیکیوں کے ذریعے قرض ادا کیا جائے گا(سنن ابن ماجہ: ۲۴۱۴﴾)۔ ایک حدیث میں بغیر قرض کے مرنے والے کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت سنائی۔آپؐ نے فرمایاکہ جس شخص کی روح اس کے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ اس پر کسی کا قرض نہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا(سنن ابن ماجہ:۲۴۱۲﴾)۔ ایک موقع پر آپؐ نے قرض ادا نہ کرنے والوں کو اس فعل سے بچنے اور اس فعل کے سخت گناہ ہونے کو بتلانے کے لیے ایک مقروض پر نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ صحابہ کویہ حکم دیا کہ تم پڑھ لو۔(شرح مسلم،ج۴، ص۵۴﴾)
شریعت اسلامیہ میں کئی مقامات پر قرض کی ادائی کا وقت ہونے پرقرض ادا نہ کرنے والے کے حق میں سختی کا معاملہ کیا گیا ہے۔ مِن جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد دائن (قرض دینے والے) کو اس بات کا مکمل اختیار ہے کہ وہ مقروض کو سفر کرنے سے روکے ، یہاں تک کہ وہ قرض ادا کرے پھر سفر کرے(الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۵،ص۴۵۹﴾)۔ اسی طرح باوجود دین کی ادائی پر قدرت کے جو دین ادا نہ کرے یا ٹال مٹول کرے تو اسے قاضی کے حکم سے قید کیا جائے (الفقہ الاسلامی وادلتہ ،ج۵،ص۴۶۲﴾ )۔اسلام میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن جب مقروض قرض ادا نہ کرے جس کی بنا پر قرض دینے والا مقروض کا مال اپنے قرض کے بقدر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جائے گا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج۶، ص۱۱۸﴾)
اسلام میں جہاد جیسے اہم وعظیم کام کی فضیلت واہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن قرض کی ادائی کو جہاد پر مقدم کیا گیا ہے۔چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں: وَالدَّیْنُ الْحَالُّ یُحَرِّمُ سَفَرَ جِھَادٍ وَغَیْرِہٖ اِلَّا بِـاِذْنِ غَرِیْــمِہٖ’’ کہ قرض کی ادائی کا وقت ہونے کے بعد قرض دینے والے کی اجازت کے بغیر جہاد کی غرض سے سفر کرنا حرام ہے (منھاج الطالبین،ج۳،ص۲۶۱﴾)۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْقَتْلُ فِی سَبِیْلِ اللہِ یُکَفِّرُ کُلَّ شَیْ ءٍ اِلَّا الدَّیْنَ ’’ کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کا ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے، سوائے قرض کے(مسلم :۴۸۸۴﴾)۔ لہٰذا قرض کی ادائی اس پر لازم ہونے کے بعد جہاد جیسے کام کے لیے ادائے قرض کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرض ادانہ کرنے کا گناہ کتنا سخت ہے اور اسلام میں قرض ادا نہ کرنے والے کے ساتھ کس طرح سخت ر ویہ اختیار کیا گیا ہے۔ لہذا قرض لینے والوں کو چاہیے کہ وعدے کے مطابق قرض کو ادا کرنے کوشش کریں، تا کہ قرض دینے والے آیندہ بخوشی قرض دے سکیں۔ آج اگر سارے قرض لینے والے پوری ایمان داری ودیانت داری کے ساتھ قرض ادا کرنے لگیں تو مال داروں کو بھی قرض دینے میں کوئی پریشانی نہ ہوگی، اور سود جیسے بڑے گناہ سے حفاظت بھی ہوگی۔البتہ قرض دینے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مقروض اگر حقیقت میں قرض کی ادائی پر قادر نہیں ہے تو اسے کچھ دنوں تک مہلت دیں۔اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے:وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰى مَيْسَرَۃٍ ۰ۭ (البقرہ۲: ۲۸۰﴾) ’’تمھارا قرض دار تنگدست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو‘‘۔
معاشرے کی تعمیروتشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوش گوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی، سب کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر کوئی معاملہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے، لیکن بروقت اس کی تعمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی پیداہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایفائے عہد کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں بہ کثرت یہ حکم ملتا ہے کہ جو معاملہ کرو یا کسی سے وعدہ کرو اس کو بروقت پورا کرو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات بابرکات کے حوالے سے متعدد مقامات پر فرمایا ہے:
اِنَّ اللہَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ۳۱(الرعد ۱۳:۳۱) یقینا اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ (التوبہ ۹:۱۱۱) اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کون ہے؟
وعدے کا پورا کرنا اللہ کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں بھی اس صفت کو جلوہ گر دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے اس نے عہد کی پابندی کی بار بار تاکید کی ہے:
وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا۳۶ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۷) اور عہد کو پورا کرو، عہد کے بارے میں (اللہ کے یہاں) ضرور بازپُرس ہوگی۔
اور ایک جگہ ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰہَدْتُّمْ وَلَا تَـنْقُضُوا الْاَيْمَانَ (النحل ۱۶:۹۱) اللہ کے عہد کو پورا کرو، جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد کیا ہو اور قسموں کو توڑا نہ کرو۔
ایک اور جگہ عہد ِالٰہی کے ایفا کی نصیحت کی گئی ہے، فرمایا:
وَبِعَہْدِ اللہِ اَوْفُوْا۰ۭ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِہٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۱۵۲ۙ (انعام۶:۱۵۲) اور اللہ کا قرار پورا کرو۔ یہ اسی نے تم کو نصیحت کردی ہے تاکہ تم دھیان رکھو۔
مومنین کا ایک وصف یہ بھی قرار دیا گیا کہ وہ نہایت درجہ امانت دار اور پابند ِ عہد ہوتے ہیں:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۸ۙ (المومنون۲۳:۸) اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں۔
دوسری آیت میں ہے:
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۰ۚ(البقرہ۲:۱۷۷) اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے پورا کریں۔
عہد، ایک تو وہ معاہدہ (Agreement) ہے، جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے۔ اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اس کے خلاف کرنا غدر اور دھوکا ہے، جو کہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتےہیں کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً لازم و واجب ہے۔ حدیث میں آیا ہے: الْعِدَّۃُ دِین (وعدہ ایک قسم کا قرض ہے)۔ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معنٰی صرف قول و قرا ر کے سمجھتے ہیں۔ اسلام میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ حقوق اللہ، حقوق العباد، معاشرت، سیاست، تجارت، اخلاق اور معاملات کی ان تمام صورتوں کو محیط ہے، جن کی پابندی انسان پر عقلاً، شرعاً، قانوناً اور اخلاقاً فرض ہے۔ امام قرطبیؒ نے لکھا ہے:
اَلْاَمَانَۃُ وَالْعَھْدُ یَجْمَعُ کُلَّ مَا یَحْمِلُہٗ الْاِنْسَانُ مِنْ أَمْرِ دِیْـنِہٖ وَدُنْیَاہُ قَوْلًا وَفِعْلًا (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، جز۱۲، ص ۱۰۷) امانت اور عہد دینی و دُنیوی معاملے پر حاوی ہے، چاہے وہ قولی ہو یا فعلی اور جس کا انسان پابند اور متحمل ہو۔
علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
الآیَۃُ عِنْدَ أَکْثَرِ الْمُفَسِّرِیْنَ عَامَّۃٌ فِیْ کُلِّ مَا ائْتُمِنُوْا عَلَیْہِ وَعُوْھِدُوْا مِنْ جِھَۃِ اللہِ تَعَالٰی وَمِنْ جِھَۃِ النَّاسِ (روح المعانی ، جز۹، ص ۲۱۴) یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک ہر قول و قرار کے لیے عام ہے ، چاہے وہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے مابین ہو یا دو انسانوں کے درمیان۔
عہد اگر خلافِ شرع نہ ہو تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَہْدِىْٓ اُوْفِ بِعَہْدِكُمْ۰ۚ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ۴۰ (البقرہ ۲:۴۰) اور تم پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمھارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔
قرآن کریم میں عہد کے قریبی معنٰی میں ایک اور لفظ ’عقد‘ استعمال کیا گیا ہے:
يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۰ۥۭ (المائدہ ۵:۱) اے ایمان والو، اپنے وعدوں کو پورا کرو۔
وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ۰ۚ (المائدہ ۵:۸۹)مگر جو قسمیں تم کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔
’عقد‘ کےلفظی معنی گرہ کے ہیں۔ اس سے مراد معاملات کی باہمی پابندیوں کی گرہ ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں:
اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اللہ تعالیٰ کے قول: يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ کے ہم معنٰی ہے۔ اس قول میں تمام عقد و معاملات مثلاً بیع، شرکت، یمین، نذر، صلح اور نکاح وغیرہ داخل ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو عقد اور جو عہد طے پائے دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔(التفسیر الکبیر، ج۱۰، ج۲۰، ص ۱۶۸)
حضرت حسن بصریؒ نے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
اس سے مراد دینی معاملات ہیں جن کو انسان اپنے اُوپر لازم کر دیتا ہے، مثلاً خریدوفروخت،اجارہ، نکاح، طلاق، زراعت، صلح ، تملیک، خیار، آزادی، سیاست و انتظام وغیرہ۔ یہ تمام اُمور شریعت سے خارج نہیں ہیں۔ اسی طرح جو اُمور اطاعت و بندگی سے متعلق ہیں، مثلاً حج، روزہ، اعتکاف، قیامِ لیل، نذر وغیرہ یہ سب اسلامی احکام ہیں۔(قرطبی، الجامع الاحکام القرآن ، ج۵، جز۶، ص ۳۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کو نفاق کی خصلتوں میں شمار کیا ہے اور وعدہ خلاف شخص کو منافق قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ ، وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ (بخاری، ۳۳) منافق تین باتوں سے پہچانا جاتا ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
اسی مضمون کی ایک حدیث کچھ مختلف الفاظ میں عبداللہ بن عمروؓ سے بھی مروی ہے:
اَرْبَعٌ مِّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ، وَ اِذَا خَاصَمَ فَـجَرَ (بخاری، ۳۴، ۲۴۵۹، ۳۱۷۸)چار خصلتیں ہیں کہ جس کے اندر پائی جائیں گی، وہ خالص منافق ہوگا اور جس کے اندر اِن میں سے ایک خصلت پائی گئی اس میں منافقت کی ایک خصلت موجود ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے ترک نہ کردے: ۱-جب بولے تو جھوٹ بولے ۲-جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۳-جب معاہدہ کرے تو توڑ دے ۴- جب جھگڑے تو گالیاں دے۔
اسلام نے محض ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی وعیدیں بھی آئی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللہِ وَاَيْـمَانِہِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَۃِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَلَا يُزَكِّـيْہِمْ ۰۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۷۷(اٰل عمرٰن ۳:۷۷) وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کر ے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں عہد کی خلاف ورزی کرنے والے پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں:
۱- ان کو جنت کی نعمتوں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ایک حدیث میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا:
مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ، فَقَدْ أَوْجَبَ الله لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ وَاِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيْرًا، يَا رَسُولَ اللّهِ؟ قَالَ: وَ اِنْ قَضِيْبًا مِنْ أَرَاكٍ (مسلم، کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرۃ بالنار، ۲۲۱) جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق دبا دیا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کرلیا۔ راوی نے عرض کیا کہ خواہ وہ چیز معمولی ہو تب بھی اس کے لیے آگ واجب ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں خواہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔
۲- اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا۔
۳- اللہ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔
۴- اللہ تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ کیوں کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے بندے کا حق تلف ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔
۵- اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اِذَا جَمَعَ اللّٰہُ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃُ یُرْفَعَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِـوَاءٌ فَقِیْلَ: ہٰذِہٖ غَدْرَۃُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ (مسلم، باب تحریم الغدر: ۳۳۵۲) اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں جہاں تمام اوّلین و آخرین جمع ہوں گے، عہدشکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطورِ علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔
لِکُلِّ غَادِرٍ لِـوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدْرِ غَدْرِہٖ اَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِیْرِ عَامَّۃٍ (مسلم ،باب تحریم العذر، ۴۵۳۸) ہر غدار و عہد شکن کی بے ایمانی کا اعلان کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جو اس کے غدرکے مطابق ہوگا اور یاد رکھو کہ جو سردارِ قوم غدر کرے اس سے بڑا کوئی غدار نہیں ہے۔
اس سے یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آگئی کہ قیامت کے روز وعدہ ایفا نہ کرنے والے شخص کی ذلت و رُسوائی میں کوئی کسر باقی نہ رہے گی۔ ناکامی، ذلت اور نکبت کا ساراسامان بہم ہوگا۔
جس شخص سے معاہدہ ہے چاہے وہ کافر و مشرک ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ عہدشکنی نہ کرے تو اس کے لیے عہد کی پابندی و استواری اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا ناگزیر ہے اور یہی تقویٰ کا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَہْدٌ عِنْدَ اللہِ وَعِنْدَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۷ (التوبہ ۹:۷) ان مشرکین کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک کوئی عہد آخر کیسے ہوسکتا ہے؟ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا، تو جب تک وہ تمھارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیوں کہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
بَلٰي مَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۷۶ (اٰل عمرٰن ۳:۷۶) جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور بُرائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا ، کیوں کہ پرہیزگار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔
متذکرہ بالا دونوں آیتوں سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ عہد کا ایفا اللہ کی خوشی و مسرت اور محبت و رضامندی کا موجب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندے کے لیے عظیم انعام و اعزاز ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی اِکرام نہیں۔
انیسویں صدی کے تیسرے عشرے تک مغربی افکار، مادہ پرستانہ معاشرت اور الحادی تہذیب و تمدن کا مقابلہ کرنے اور ان کے منفی اثرات سے معصوم اور نوخیز طلبہ و نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جدید اسلوب، منطقی انداز اور سائنٹفک طرز استدلال پر مبنی اسلامی لٹریچر موجود نہیں تھا، جو جدید تعلیم یافتہ نسل کو اپنے بنیادی عقائد، تہذیبی اقدار اور اسلامی طرز معاشرت کا گرویدہ بناتا۔ اکبر الٰہ آبادی [ ۱۶؍نومبر ۱۸۴۶ء - ۹ ؍ستمبر ۱۹۲۱ء] اورشاعر مشرق علامہ اقبال [۹ ؍ نومبر ۱۸۷۷ء- ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء] کے بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی [ ۲۵ ؍ ستمبر ۱۹۰۳ء- ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء] وہ پہلے فرد تھے، جنھوں نے مغربی افکار اور الحادی تمدن پر نہ صرف یہ کہ کاری ضرب لگائی، بلکہ تمام باطل نظریات کے مقابلے میںاسلام کی حقانیت ،صداقت اور بالا دستی کو نقلی اورعقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ۔
شاہ ولی اللہ [ ۱۷۰۳- ۱۷۶۲ء] کے بعد مولانامودودی نے برصغیر میں پہلی بار منطقی استدلال کے ساتھ دین کی تعبیر و تشریح کی اور اسلام کو ایک صوفیانہ خانقاہی مذہب کے بجائے مکمل نظام زندگی اورتحریک کی شکل میں پیش کیا۔
بیسویں صدی کے تیسری عشرے میں، جب کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بیشتر طلبہ الحاد اور دہریت کا شکارہورہے تھے ‘مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں ، ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ میں (جس کا اجراء ۱۹۳۲ء میں حیدر آباد دکن سے ہوا ) ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘ اور’ مسئلہ قومیت ‘ پر ان کے سلسلہ وار مضامین نے طلبۂ علی گڑھ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لاہور کی ’سیرت کمیٹی‘ اور کُل ہند مسلم لیگ ان مضامین کو علی گڑھ میں بار بار مفت تقسیم کررہی تھی۔چنانچہ طلبہ کے فکر و نظر میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اوراسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرنے والے طلبہ کا ایک اسلامی حلقہ قائم ہوا ۔ (۱)
مولانا مودودی ،علی گڑھ سے اپنے ربط و تعلق کے بارے میں خود بیان کرتے ہیں :
’’میرے والد مرحوم مولوی سید احمد حسن صاحب ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ۲ سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے بالکل ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے ۔ سرسید مرحوم نے جب مدرسہ قائم کیا تھا تو وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں میں سے بھی بہت سے لڑکوں کو چن کرعلی گڑھ لے گئے تھے۔ چونکہ میری دادی کی مرحوم(سر سیداحمد) سے قرابت ہوتی تھی‘( نعیم صدیقی نے کتاب ’ المودودی ‘میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ’’سرسید احمد خاں ایک قریبی رشتہ سے میری دادی کے بھائی ہوتے تھے اور میرے والد اُن کے بھانجے تھے ‘‘)۔ اس لیے میرے والد مرحوم کا انتخاب بھی اسی سلسلے میں ہوا ۔مدرسہ میں سر محمد رفیق اور سر بلند جنگ وغیرہ ان کے رفیق جماعت تھے ۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں۔ میرے دادا کو والد کا علی گڑھ میں تعلیم پانا سخت ناگوا رتھا مگر سر سید کے خیال سے خاموش تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے ایک عزیز علی گڑھ تشریف لے گئے اور اتفاقاً ایک جگہ کرکٹ کا کھیل دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ وہاں ان کی نظر والد مرحوم پر پڑی اور یہ دیکھ کر انھیں سخت رنج ہوا کہ ایک پیر طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے انگریزی طرز کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ دہلی واپس ہوئے تو دادا صاحب سے مل کر کہا کہ ’’بھائی صاحب! احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجئے، میں نے اس کو علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کرتی پہنے گیند بلا کھیل رہا تھا ۔ یہ سن کر دادا کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور انھوں نے فوراً والد مرحوم کو علی گڑھ سے واپس بلا لیا ۔ اس طرح وہ وہاں تکمیل تعلیم نہ کرسکے‘‘ ۔(۲)
یونی ورسٹی کے سابق طالب علم محمد یوسف بُھٹّہ نے مولانا کے بھائی ابو الخیر مودودی کے حوالے سے لکھا ہے :’’ مولانامودودی کے والد احمدحسن صاحب غالباً دوسرے یا تیسرے بیچ کے علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے،جب اُن کے والد کویہ معلوم ہوا کہ کافر کرتی پہنے فرنگیوں کے ساتھ گیندبلا کھیلتا ہے تو انھوںنے اپنے بیٹے کو فی الفور واپس بلالیااور تطہیر کے لیے مولانا رشید احمدگنگوہی کے پاس بھیج دیا، جہاں احمد حسن صاحب نے اُن سے باقاعدہ درس حدیث لیا۔صحیح مسلم پراُن کے جو نوٹس تھے مولانا گنگوہی بعد میں آنے والے بیچ کے طالب علمو ںسے کہا کرتے تھے کہ وہ یہ نوٹس لے کر دیکھ لیں ۔ مولانا وحید الزماں حیدرآبادی جنھوں نے صحاح ستہ اور قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ‘ان کے ساتھ احمد حسن مودودی نے سات مرتبہ ’صحاح ستہ‘ کا دورہ کیا ۔ بخاری اور مسلم وغیرہ کا جو ترجمہ وہ کرتے، نظر ثانی کے لیے احمد حسن صاحب کے پاس بھیجتے ۔(۳)
شعبۂ عربی کے سابق استاذ پروفیسر ریاض الرحمان خاں شروانی [اگست ۱۹۲۴ء- ۴؍ نومبر ۲۰۱۹ء] کے مطابق : ’’ میں ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۲ء تک یونی ورسٹی اسکول اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک یونی ورسٹی کا طالب علم رہا ہوں۔ سال میں ایک بار اسلامی ہفتہ منایا جاتا تھا، ۴۰ء سے قبل یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ تاریخ کے استاد امیر حسن صاحب اور فلسفہ کے استاذ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب اس میں پیش پیش رہتے ۔ اسلامی ہفتے کے دوران اُن علماء کو مدعو کیا جاتاجو کانگریس سے دُور اور اس کے مخالف تھے ۔طلبہ کی اکثریت اس زمانے میں مولانا سید سلیمان ندوی سے متاثر تھی اور ان کی تقریر سننے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوتی تھی ۔ کچھ طلبہ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ تھے۔ میں نے جماعت اسلامی کا لٹریچر اسی زمانے میں پڑھا تھا ۔ ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا۔ مولانا مودودی کو اسٹریچی ہال میں سنا ہے اوران سے ملاقات بھی کی تھی‘‘ ۔ (۵)
شعبۂ کیمسٹری کے سابق استاد پروفیسر احمد سورتی[۱۳ فروری۱۹۲۲ء -۲۴؍ اگست۲۰۱۷ء ] کے مطابق:’’ میں نے ۱۹۴۰ء میں گیارہویں کلاس میں داخلہ لیا تھا ‘مگرمولانا مودودی کی ’سیاسی کشمکش‘ حصہ اول اور ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ نویں کلاس میں ہی شروع کردیاتھا۔ ۱۹۴۰ء میں اسٹریچی ہال میں مولانا مودودی نے خطاب کرتے ہوئے ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ میں اس جلسہ میں شریک تھا۔ اس زمانے میں’سیاسی کشمکش‘ کے تمام حصے پڑھ لیے تھے اور ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا ۔ شمشاد مارکٹ میں طلبہ کے اسلامی اجتماع میں شریک ہوتاتھا ۔راؤ شمشاد علی اس زمانے میں کافی متحرک تھے ۔ مولانا مودودی کے مضامین اور ان کا رسالہ ’ترجمان القرآن‘ اسلام پسند طلبہ میں کافی مقبول تھا ‘‘۔(۶)
محفوظ الحق حقی علیگ زمانہ ٔ طالب علمی کی یادداشتوں میں لکھتے ہیں : ’’اسلامی ہفتہ منانا علی گڑھ کی قدیم روایات میں سے ایک ہے۔ یہ ہفتہ ہرسال بڑے احترام اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس زمانے میں ڈاکٹرامیرحسن صدیقی اس کے نگراں ہوا کرتے تھے۔ ہفتوں پہلے ہندوستان کے جیدعلماء کو اس میںشرکت کی دعوت دی جاتی۔ ایک سال مولانا عبدالماجد دریابادی اور نواب بہادر یار جنگ تشریف لائے تواسٹریچی ہال میں اوپر نیچے تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
پروگرام کے مطابق مولاناعبدالماجد دریابادی کو مقالہ پڑھنا تھا، چنانچہ وہ تشریف لائے اور مقالہ پڑھنا شروع کیا تواُن کامقالہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ادھر طلبہ نے بے چینی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنا شروع کردیا۔ مولانا اس بات کو تاڑ گئے اور مقالہ ختم کیے بغیر بیٹھ گئے۔ صدر اجلاس ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے طلبہ کو ڈانٹ پلائی اور مولانا سے درخواست کی کہ وہ اپنا مقالہ مکمل کریں لیکن وہ تشریف نہ لائے۔آخر صاحب صدر نے قائدملت نواب بہادر یار جنگ سے تقریر کی درخواست کی۔اس وقت جلسہ کا ماحول بڑا خراب ہوگیا تھا ، ایک مقرر کے لیے بڑا ہی کٹھن وقت تھا، لیکن نواب صاحب کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔آپ ڈائس پرتشریف لائے اور بڑے اطمینان سے مخاطب ہوئے :
’’حضرات ! اِس سردی کے موسم میں آپ کی دعوت پر پانچ سو میل کی مسافت طے کرکے یہاںتک پہنچا ہوں، مولانا عبدالماجد نہیں ہوںکہ بیٹھ جاؤں گا۔ اچھی طرح سن لیجیے کہ جب تک ایک ایک لفظ نہ کہہ لوں گا اسٹریچی ہال سے جاؤں گااور نہ جانے دوں گا‘‘۔ اس کے بعد نواب بہادر یار جنگ بولے اوربڑے ہی دھڑلے کے ساتھ تقریر کی۔ تقریر کیا تھی ایک سحر تھا کہ کسی کو ہاتھ ہلانے کا بھی ہوش نہ تھا،ایک جوار بھاٹا تھا جس میںپتھر لڑھکنے کے بجائے موتی رول رہے تھے۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بنا ہوا تھا‘‘۔(۷)
مبارک علی خاں میرٹھی جو ۴۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی کے طالب علم تھے‘ اپنی یاد داشتوں میں رقم طراز ہیں :’’یہ واقعہ ۱۹۴۰ء کے آخری ایام کا ہے ،مسلم یونی ورسٹی میں’ اسلامی ہفتہ‘ منائے جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں ۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی اس کے کرتا دھرتا تھے۔اس ہفتہ میںشرکت کے لیے مولانا مودودی بھی مدعو کیے گئے تھے۔ ہم لوگ مولانا کی تحریروں سے ’ترجمان القرآن‘ کے ذریعہ تین چار سال سے واقف تھے۔ یہ رسالہ دوسرے علمی و ادبی ماہناموں کے ساتھے یونین کی لائبریری میں آتا تھا اور علم دوست طلبہ اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتا۔ ترجمان میں ’سیاسی کشمکش‘ کے مضامین کا سلسلہ قسط وار شروع ہواتو اُس نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دلکش انداز تحریر اور معقول و مضبوط دلائل نے نوجوانوں کو ہی نہیں بزرگوں کو بھی متاثر کیاہوا تھااور ہرشخص مولانا مودودی کی آمد کی اطلاع سے مسرور اور ان سے ملاقات کامشتاق تھا۔
’’یونی ورسٹی نے جو اس زمانے میں علم و فن کا عظیم الشان مرکز بنی ہوئی تھی، ایک علم دوست کی حیثیت سے مولانا مودودی کا شایان شان استقبال کیا۔ مولانا صبح کو دس بجے یونی ورسٹی کے تاریخی اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور زمانہ مقالہ ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ پڑھنے والے تھے، لیکن وقت مقررہ سے بہت پہلے ہی ہال اس طرح بھر گیا کہ کھڑے ہونے کو بھی جگہ نہ رہی۔ پروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست )نے اس نشست کی صدارت کی۔ مولانا اپنا مقالہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو پورے ہال میں سناٹا چھا گیا اور مقالہ ختم ہونے تک یہی عالم رہا حالانکہ مولانا نے اس مقالے میں بغیر نام لیے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے طریقۂ کار پر تنقید کی تھی۔ مقالے کے بعد صدر جلسہ کی اجازت سے سوالات و جوابات کی بھرپور نشست ہوئی۔اس زمانے میں اکثر مسلم نوجوان مسلم لیگ سے بہت متاثر تھے، خود میرا تعلق نیشنلسٹ گروپ سے تھا۔ طلبہ نے خوب خوب سوالات کیے۔ بعض نوجوانوں نے مولانا سے بڑے اچھے سولات پوچھے، لیکن بعض ایسے بھی تھے جن کا لہجہ کافی تلخ و تند تھا، مگر مولانانے ان سب کا جواب جس قدر سکون، شگفتگی اور ٹھنڈے انداز سے دیا، اس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ آخر میں صدر مجلس پروفیسر محمدحبیب نے بھی مولانا سے ایک سوال کیا ’’آپ پھر کب ہمیں اپنا دوسرا مقالہ سننے کا موقع دیں گے؟‘‘ دوسرے دن انھوں نے اپنے شعبہ میں مولانا کو مدعو کیا اور اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایک لیکچر دلوایا۔
’’مولانا مودودی کا قیام اولڈ بوائز لاج میں تھا۔ مجھے بھی مولانا سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا اشتیاق ہوا۔ اس زمانے میں شعبۂ ریاضی میں ایک نئے استاد پروفیسر ڈاکٹر میاں ضیاء الدین صاحب آئے تھے، ان کی وساطت سے ہم کئی طلبہ مولانا سے ملنے گئے۔ مولانا کا مذکورہ مقالہ مجلس اسلامیات کی طرف سے شائع ہوکر تقسیم کیا جاچکا تھا۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جو سوالات ہمارے ذہن میں آئے، مولانا نے بڑے دل پسند انداز میں ان کے جواب دیے اور ہمارے شکوک و شبہات کو دُور فرمایا۔آخر میں مولانا نے کہا’’ ہر انقلاب کے لیے نوجوان ہی کام کرتے ہیں، اس لیے میںآپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ لوگ غور کریں اور اگر میری بات صحیح معلوم دے تو پھر اپنے آپ کو ذہنی اور علمی طور پر تیار کریں اور اپنی زندگیوں کو عملاً اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں‘‘۔(۸)
۳۰ کی دہائی میںیونی ورسٹی کے طالب علم رام پور کے محمد یوسف بُھٹّہ ایک انٹر ویو کے دوران کہتے ہیں : ’’یہ زمانہ غالباً۱۹۳۳ء کے آخر کا ہے جب ہم علی گڑھ پہنچے تو وہاں کمیونسٹ تحریک زوروں پر تھی۔ انھی ایام میں ایک صاحب نے مجھے’’ الجہاد فی الاسلام‘‘پڑھنے کے لیے دی۔ اس کو پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ میں اسلامی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ اسی مصنف کی دوسری کتابوں کی تلاش رہنے لگی۔ پتہ چلنے پر ’ترجمان القرآن‘ بھی منگوانا شروع کردیا، اور یہ سلسلہ اُس وقت سے آج تک جاری ہے‘‘۔( ۹)
پروفیسر آسی ضیائی، لاہور اپنے مضمون بعنوان ’’ تیری چنگاری ‘ چراغ انجمن افروز تھی ‘‘میں رقم طراز ہیں : ’’۴۶ء میںمیںنے علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں جماعت اسلامی سے متاثر چند طلبہ اور ایک استاذ (جلیل الدین احمد خاں صاحب) سے رابطہ پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میںطلبہ کے’ حلقۂ ہمدردان جماعت‘ کاامیر بھی مجھے بنادیا گیا ‘‘۔(۱۰)
پروفیسر سیدمحمد سلیم،شکار پور ،سندھ زمانہ ٔ طالب علمی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۱۹۴۴ء میں دہلی سے بی اے کرنے کے بعد میں ایم اے، ایل ایل بی کرنے کے لیے علی گڑھ گیا۔ وہاں انگریزی کے استاد پروفیسر جلیل الدین احمد خاں سے ملاقات ہوئی جو وہاںجماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ علی گڑھ میں کچھ عرصہ قبل اشتراکیت زدہ طلبہ کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں تھیں، اس لیے یونی ورسٹی کے ارباب اختیار نے طلبہ کی انجمن سازی پر سخت بندشیں عائد کررکھی تھیں۔ طلبہ کی صرف ایک انجمن ’مجلس اسلامیات‘ کے نام سے قائم تھی جس کے سربراہ شعبۂ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب تھے۔ ڈاکٹر صاحب کافی ضعیف تھے،انھوں نے نگرانی کے فرائض ڈاکٹر افضال قادری کے سپرد کر رکھے تھے۔ خود ڈاکٹر افضال صاحب بے حد مصروف آدمی تھے اس لیے انھوں نے پروفیسر جلیل الدین احمد خاں کو متعین کردیا تھا کہ ’مجلس اسلامیات‘ کی نگرانی کریں۔
’’پروفیسر جلیل الدین احمد خاں جونیئر لیکچرار تھے اور اپنی طویل داڑھی کی وجہ سے نمایاں تھے۔ انھوں نے گویا ’مجلس اسلامیات‘ پر قبضہ کرلیا تھا۔نام تو اس کا وہی رہا مگر عملاً اس کو’ حلقۂ ہمدردان جماعت اسلامی‘ میں تبدیل کردیااور راقم کواس حلقہ کاناظم مقرر کیا۔ ایک کلاس روم میں ہفتہ وار اجتماع ہوتا تھا، راقم درس قرآن دیتا تھا،رپورٹیں لی جاتی تھیں۔ناظم نشر واشاعت کتابوں کا تھیلا ساتھ لاتے تھے۔رفقاء پڑھی ہوئی کتابیں واپس کرتے تھے اور نئی کتابیں لے جاتے تھے۔ سارا زور مطالعہ اشتراکیت کی تردید پر تھا۔
’’اس حلقے میں اچھے اچھے لوگ شامل تھے۔ فروغ احمدصاحب، صفدر صدیقی صاحب، کاظم سباق، آسی ضیائی ، معظم علی علوی(انگلستان)وغیرہ۔ علی گڑھ کی مشہور نمایش میں ہم نے جماعت اسلامی کی کتابوں کی بک اسٹال پہلی مرتبہ لگائی تھی۔صفدر صدیقی ناظم نشرو اشاعت اس کے انچارج تھے۔ ایک ہفتہ میں ہم نے تین ہزار روپیہ کی کتابیںفروخت کی تھیں۔ ہمیں اس کی بڑی خوشی ہوئی تھی، ہمارے خزانچی ہادی عطا بڑے ذہین اور محنتی طالب علم تھے، حافظ قرآن تھے، تراویح ہم نے ممتاز ہوسٹل میں ان کے پیچھے پڑھی تھیں۔ جب نتیجہ برآمد ہوا تو بی اے، بی ایس سی دونوں میںوہ سرفہرست تھے۔ مگر وائے افسوس نتیجہ نکلنے سے قبل ہی وہ فوت ہوگئے تھے۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محدث شاہ حلیم عطا کے وہ فرزند تھے اور شاہ حسن عطا کے وہ بڑے بھائی تھے۔
’’علی گڑھ میں میں نے ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔اس سال قمرالدین خاں نے بھی وہاں داخلہ لیا۔ دو سال تک ہم ساتھ رہے۔ قمرالدین خاں پہلے ایم اے انگریزی‘ علی گڑھ میں تھے، مگر بعض وجوہ کی بنا پر چھوڑ کر ڈی اے وی کالج لاہور چلے گئے۔وہاں داخلہ لیا لیکن وہاں بھی تکمیل نہ کرسکے۔ پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میںعربی کی تعلیم حاصل کی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے اور پہلے ناظم تنظیم مقرر ہوئے۔ ایک کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی انھی کے قلم کا ہے۔ پھر مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ میں نے جماعت اسلامی سے ان کی اور مولانا منظور نعمانی کی علیحدگی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کوشش کی، مگر انھوںنے کوئی خاص بات بتاکر نہیں دی ۔
’’اپریل ۱۹۴۶ء میں جماعت اسلامی ہند کا سالانہ اجتماع الٰہ آباد میںمنعقد ہوا تو ’مجلس اسلامیات‘ کے پندرہ طالب علموں کے ہمراہ میں نے بھی اس اجتماع میں شرکت کی‘‘۔ (۱۱)
پدم شری حکیم سید ظل الرحمن( سابق پرنسپل طبیہ کالج علی گڑھ وڈائریکٹر ابن سینا اکیڈمی ، علی گڑھ ) کے مطابق :’’میں ۱۹۵۵ء سے۱۹۶۰ء تک یونی ورسٹی کا طالب علم رہا ہوں ۔ اس زمانے میں مولانا مودودی کی کتابیں طلبہ میں بہت مقبول تھیں۔ پردہ، سود، تنقیحات، تفہیمات، اور تفہیم القرآن وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ ذہین اور با صلاحیت طالب علم حتیٰ کہ شیعہ اور بوہرہ طلبہ بھی مولانا مودودی کی کتابوں کو ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔شمشاد مارکیٹ میں واقع دارالمطالعہ سے میرا تعلق ۱۹۵۵ء میں قائم ہوگیا تھا ۔لائبریری عصر کے بعد کھلتی تھی ،طلبہ اور اساتذہ سبھی وہاںمطالعہ کے لیے آتے تھے ‘‘ ۔ (۱۲)
۵۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی کے ایک سنجیدہ طالب علم حکیم شاکر حسین عباسی (ناگپور) نے جو بوہرہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں،ایک مضمون میں لکھا ہے’’ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودی کی شخصیت مسلم نوجوانوں کے لیے پُرکشش تھی۔ ان کا انداز ِتحریر بڑا دلکش اور مؤثر ثابت ہورہا تھا اور پڑھا لکھا سنجیدہ نوجوان طبقہ ان کی طرف مائل تھا۔ مولانا کی اس وقت کی تحریروں میں اصلاحی‘ سماجی‘ اور معاشی پہلوؤں پر زور تھا اور ان کی تحریر کے ادبی انداز کو امتیاز مل رہا تھا۔ (۱۳)
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد علی گڑھ کے انتہائی ذہین، باصلاحیت ،غیرت مند اور دینی و ملّی جذبات رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ نے پاکستان کی راہ لی ۔کیمپس میںمسلم لیگ کی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگیا، مگر مولانا مودودی کے فکری منہج پر چلنے والے طلبہ کی اسلامی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ شمشاد مارکیٹ کا دار المطالعہ ان کی سرگرمیوں کا مرکزتھا ۔ ۱۹۵۲ء میںفکر مودودی کے علَم بردار طلبہ یونی ورسٹی میںعددی اعتبار سے اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ طلبہ یونین کے انتخابات میں دارالمطالعہ سے وابستہ اسلامی حلقہ کے طالب علم انوار علی خاں سوزاپنے مد مقابل ترقی پسند امید وار کو شکست دے کریونین کے سکریٹری منتخب ہوگئے۔ ۱۹۵۶ء میں اسی حلقے کے رکن طالب علم سید ضیاء الحسن ہاشمی (حیدر آباد)کا اسٹوڈنٹس یونین صدراور ۱۹۵۸ء میں صغیر احمد بیدار (بھوپال) کا یونین سکریٹری منتخب ہونا،طلبہ میں مولانا مودودی کے افکار و نظریات کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے۔
اسلامی حلقہ سے منسلک یونی ورسٹی کے متعدد ممتاز طلبہ ’علی گڑھ میگزین‘ کے اردو اور انگریزی شماروں کے مدیر اور اس کی مجلس ادارت کے رکن رہے ۔اس زمانے میںمولانامودودی کی تحریروں کے اقتباسات ’علی گڑھ میگزین‘ کی زینت بنتے تھے ۔ ایم اے انگریزی کے طالب علم سیدزین العابدین ۱۹۴۸ء میں ’علی گڑھ میگزین‘ ( انگریزی ) کے ایڈیٹر تھے ۔ فروغ احمد صاحب ’علی گڑھ میگزین‘ کی مجلس ادارت میں رہے، ان کی متعددنظمیں اور مضامین ۴۷،۴۸ ء میں شائع ہوئیں ۔ انوار علی خاں سوز انجمن اردوئے معلی سے وابستہ تھے اورعابد اللہ غازی کے ساتھ انجمن کی جانب سے دہلی کالج کے مباحثوں(Debates)میں شرکت کے لیے جاتے ۔مولانا کے دینی افکار سے متاثر ایم اے کے طالب علم انور صدیقی ۱۹۵۸ء میں ’علی گڑھ میگزین‘ کے ایڈیٹر رہے۔اسلامی حلقہ سے وابستہ ابن فرید اور افتخار اعظمی وغیرہ بھی اس زمانے میں یونی ورسٹی کی علمی اور ادبی فضا میں ایک روشن ستارے کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں (مولانا کے نظریات سے متاثراور ان کے افکار کے علَم برداریونی ورسٹی کے نامورطلبہ کے علمی کارناموں اور خدمات پر علیحدہ تحقیق کی ضرورت ہے ) ۔
شعبۂ عربی میں پرفیسر عبد العزیز میمن کے شاگرد رشید اور کراچی یونی ورسٹی میں عربی کے استاذڈاکٹر سید محمد یوسف اپنے ایک مضمون بعنوان ’’مولانا مودودی بحیثیت ایک ادیب‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’مولانا مودودی‘‘ میرے لیے یہ دو جادو کے بول ہیں جن سے ۱۹۳۷ء تا ۱۹۴۷ء کے علی گڑھ کی تصویر نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ہندوپاکستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ دور ہرلحاظ سے فیصلہ کُن تھا۔ علی گڑھ کو نصف صدی سے وہ حیثیت حاصل تھی جو جسم انسانی میں قلب کی ہوتی ہے۔ اس دَور میں ملت اسلامیہ ہند کا قلب اُمنگوں اور آرزوئوں سے معمور تھا۔ ہر نوجوان مستقبل کے متعلق مصروف فکر نظر آتا تھا۔ ’دانش فرنگ‘کے ساتھ ساتھ ’شاہین کا تجسس‘ رکھتا تھا۔ کانگریس شکست کھاچکی تھی لیکن لہو گرم رکھنے کے بہانے کی حد تک باقی تھی۔ کمیونزم اپنے خلیہ یا یوں کہیے کہ بِل میں سمٹا اور دبکا پڑا تھا،مسلم لیگ کا بول بالا تھا۔ سیاسی پہلو سے قطع نظر اس کا ایک نمایاں ا ثر یہ تھا کہ اسلام کے مطالعہ کا شوق عام تھا۔ گپ اور مزاح بھی نظریاتی کش مکش کا آئینہ دار ہوتا تھا۔ عین اس دور میں مجھے اپنے تعلیمی مراحل طے کرنے کا موقع ملا اور اسی عہد میں میرے بحر کی موجیں طوفان آشنا ہوئیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ کوئی تقریر، مباحثہ اور جھڑپ ایسی نہ ہوتی تھی جس میں مولانا مودودی کا حوالہ کسی نہ کسی پیرایہ سے نہ دیا جاتا ہو۔
’’ اسلامی رجحانات رکھنے والوں کے لیے مولانا مودودی کے ارشادات چراغ راہ تھے اور مخالفین بھی اس چراغ پر پھونک مارنے کے لیے مجبور تھے۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلم لیگی بھی مسلم لیگ پر اگر کسی کے نقد اور تبصرہ کو قابل اعتنا سمجھتا تھا اور ٹھنڈے دل سے سنتا تھا تو وہ مولانا مودودی کا نقد اور تبصرہ تھا۔ الغرض ہر جماعت اور ہر محفل کی گرمی انھی کے دم سے تھی‘‘۔( ۱۵)
پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی’مولانا مودودی کی ادبی حیثیت‘کے حوالے سے رقم طراز ہیں : یہاں گفتگو مولاناکی ادبی حیثیت سے ہے۔ سرسید جدید ا دب کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، مودودی صاحب کے افکار و تصورات سرسید کے ذہنی معتقدات سے کتنے ہی مختلف سہی‘لیکن ان کا اسلوب سرسید کے اسلوب کی ایک ارتقا یافتہ صورت ہے۔ سرسید نے اسلام سے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ اُن کے دینی خیالات سے ممکن ہے کہ آپ کو اختلاف ہو،لیکن شاید یہ بات ماننے میں تامل نہ ہو کہ سرسید نے اسلام پر جس انداز سے قلم اُٹھایا، اُس نے محسن الملک، حالی، شبلی، سلیمان ندوی اور مولانا مودودی کے اسالیب کی شیرازہ بندی کی ہے۔ مختصراً اُسے یوں کہہ لیجیے کہ مولانا مودودی کی تحریر سرسید کے اسلوب کے ایک پہلو کی تکمیل کرتی ہے، لیکن وہ سرسید کے مقلدِ محض نہیں ہیں۔ اُن کے اسلوب کی بنیادِ اوّل اُن کی ذات ہے۔ شخصیت کا اظہار نہ ہو تو کوئی تحریر ادبی نہیں بن سکتی۔ شخصیت کی اسی نمود کو اقبال نے ’خونِ جگر‘ کہا ہے۔ ملٹن نے اسے Life Blood کہا تھا اور میرامّن نے اسے ’خونِ دل‘ سے تعبیر کیا تھا۔ (۱۶)
پروفیسرخورشید احمد نے’ادبیات مودودی‘ (مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶،اشاعت مئی ۱۹۸۰ء) کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں عبد الماجد دریابادی کے علاوہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی علیگ نے بھی مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش پر خط میں اپنی رائے کااظہارکیا تھا جو کسی وجہ سے اس مجموعہ میں شائع نہیں ہوپایا ہے ۔ توقع ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان قیمتی خطوط کو لازما شائع کیا جائے گا(مگر صد افسوس اتنی بلند پایہ عبقری شخصیات کے ایسے قیمتی علمی خطوط معلوم نہیں کن اسباب کی بنا پر۶۰ برس بیت جانے کے باجود اب تک منظر عام پر نہیں آسکے یا ضائع ہوگئے ہیں)۔
مولانا کے طویل مقالے کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:’’ حکومت کی صحیح شکل اس کے سواکوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے۔ خلافت کی ذمہ داری جوہمارے سپردکی گئی ‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپناحکم چلائیں، اُن کواپناغلام بنائیں، اُن کے سراپنے آگے جُھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش، اپنی نفس پرستی اوراپنی کبریائی کاسامان کریں۔ بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالاگیاہے کہ ہم خدا کے قانونِ عدل کواس کے بندوںپر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اوراس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذراسی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرّہ برابر بھی خودغرضی‘ نفس پرستی‘ تعصب‘جانب داری‘اور بددیانتی کودخل دیاتوہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے خواہ دنیامیں ہرسزاسے محفوظ رہ جائیں‘‘۔( ۱۷)
عبدالرحمٰن عبد اپنی تصنیف ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ میں رقم طراز ہیں : ’’ مولانا نے ۱۲ستمبر ۱۹۴۰ء کو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’وہ قومی حکومت جس پر ’اسلامی‘ کا نمایشی لیبل لگا ہوا ہوگا‘ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہوگی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے‘ وہ مسلم قومی حکومت اُن پر سزا پھانسی اور جلا وطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمت اللہ علیہ ہی رہیں گے‘‘۔مولانا نے اگلے سال اسی جگہ اسٹریچی ہال میں ’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘ کے عنوان سے خطاب کیا۔ (۱۹)
’’قدیم ترین زمانے میں انسان کے لیے معاش کا مسئلہ قریب قریب اتنا ہی سہل تھا، جتنا حیوانات کے لیے ہے۔ خدا کی زمین پر بے شمار سامانِ زندگی پھیلا ہوا ہے ۔ہرمخلوق کے لیے جس قدر رزق کی ضرورت ہے وہ بافراط مہیا ہے۔ ہر ایک اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکلتاہے اورجاکر خزائن رزق میں سے حاصل کرلیتاہے۔ کسی کونہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اورنہ اس کا رزق کسی دوسری مخلوق کے قبضے میں ہے۔ تقریباً یہی حالت انسان کی بھی تھی کہ گیا اور قدرتی رزق خواہ وہ پھلوں کی شکل میں ہویاشکار کے جانور کی شکل میں‘حاصل کر لیا۔ قدرتی پیداوار سے بدن ڈھانکنے کا انتظام کرلیا، زمین میں جہاں موقع دیکھا ایک سر چھپانے اور پڑ رہنے کی جگہ بنالی۔ لیکن خدانے انسان کواس لیے نہیں پیدا کیاتھاکہ وہ زیادہ مدت تک اسی حال میں رہے۔ اس نے انسان کے اندر ایسے فطری داعیات رکھے تھے کہ وہ انفرادی زندگی چھوڑ کر اجتماعی زندگی اختیار کرے اوراپنی صنعت سے اپنے لیے ان ذرائع زندگی سے بہتر ذرائع پیداکرلے جوقدرت نے مہیّا کیے تھے‘‘۔ (۲۲)
یونی ورسٹی میںابوالاعلیٰ مودودی کے دوروں اورطلبہ سے ملاقاتوں کے سبب صالح فکر کے ذہین طلبہ کی ایک قابل ذکر تعداد اُن کے قریب ہوگئی تھی ۔انھوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہر پہلو سے ہمہ گیر تربیت کی ۔
۴۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی میں ’اسلامی حلقہ‘ سے متعلق معروف اور سرگرم طلبہ میںافضل حسین (قیم جماعت اسلامی ہند)،عبد العظیم خاں، راؤ شمشاد علی خاں (دہلی) ،آسی ضیائی (پاکستان) عبداللہ صفدر علی ( دہلی)،شمس الہدیٰ (بہار)، سید حسین (الٰہ آباد )، سعید احمد (الٰہ آباد )، فروغ احمد (ڈھاکہ)، احمد سورتی (علی گڑھ)، رحمت اللہ شاہ ( بہاولپور، پاکستان)، اعجاز حسن قریشی (لاہور) اورسیدزین العابدین (سعودی عرب)وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔(۲۳)
۱۹۴۰ء میںپروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست) کی آل انڈیا ریڈیو کے لیے کی گئی تقریروںکا مجموعہ ’دنیا کی کہانی‘ جب مکتبہ جامعہ، دہلی سے شائع ہوا، تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’ نوجوان طلبہ کو تاریخ و تمدن سے آگاہ کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ مجموعہ ہے۔ اسلام کی تہذیب کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’اسلام نے دولت کو امانت قرار دیا ہے اور جماعت جب چاہے اس دولت کو واپس لے سکتی ہے، یا اسے نئے سرے سے تقسیم کرسکتی ہے‘‘۔ اسی طرح انھوںنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’جماعت جب چاہے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی ممانعت کرسکتی ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ہندوستان میں پردے کی جو رسم قائم ہوئی اس کے لیے اسلامی قانون میں کوئی سند نہیں‘‘۔ یہ سب بیانات غیر صحیح ہیں۔ ایک محقق سے ہم بجا طورپر یہ توقع رکھتے ہیںکہ جن امور کے متعلق اس کے پاس ذرائع معلومات نہ ہوں ان پر قطعی رائے ظاہرکرنے سے وہ اجتناب کرے گا‘‘۔ (۲۵)
۱۹۳۷ء میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرڈاکٹر سید ظفرالحسن کا رسالہ ’نبوت اور نبی‘ منظر عام پر آیا، تواس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا : ’’یہ وہ خطبہ ہے جو ڈاکٹر سید ظفرالحسن صاحب استاد فلسفہ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ’یوم النبیؐ، کی تقریب پر یونی ورسٹی کی مجلس اسلامیہ کے سامنے پڑھا تھا۔ یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ ہماری یونی ورسٹی میں جو شخص فلسفہ کا پروفیسر ہے وہ ایک سچا اور صحیح العقیدہ مسلمان ہے، اور اپنے علم کو دہریت و الحاد کے بجائے ایمان باللہ و ایمان بالرسول کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔ ہم اپنے ناظرین سے اس خطبہ کے مطالعہ کی پُرزور سفارش کرتے ہیں۔مجلس اسلامیات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے غالباً مفت مل سکے گا‘‘۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے ساتھ ۱۹۳۸ء میںمولانا مودودی کی خط کتابت اور ذاتی مراسم کا سراغ ملتا ہے ۔ (۲۶)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب ’مجدد الف ثانی کا تصور توحید‘ کے نام سے کشمیری بازار لاہور سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر نقد کرتے ہوئے انگریزی زبان میں تصنیف کی گئی اس تحریر کی بعض خامیوں اور غلطیوںپر گرفت کی اور صاحب کتاب کے سرسیداحمد خاں اورحافظ محمد عبداللہ چکڑالوی کے متعلق نوٹ پر سخت تبصرہ کیا ۔(۲۷)
جب ۱۹۴۴ء میں جناب محمد فضل الرحمٰن انصاری کی انگریزی تصنیف Our Future Educational Program کے نام سے شائع ہوئی، تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ’ترجمان القرآن‘ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :’’یہ انگریزی کتاب مسلمانوں کی تعلیم کے پیچیدہ اور اہم ترین مسئلہ سے بحث کرتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ مصنف نے مسلمانوں کے لیے ’غیر مسلم تعلیم‘ کے بجائے ’مسلمان تعلیم‘ کا پروگرام تجویز کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اس بنیادی نقطہ کی اہمیت کو موصوف نے اچھی طرح سمجھا اور سمجھایا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کو ’مذہبی‘ اور’غیر مذہبی‘ دو حصوں میں تقسیم کرنا اور مروجہ نصاب کے ساتھ دینیات کے مضمون کو بطور ضمیمہ شامل کردینا نہ صرف یہ کہ غیر مفید ہے، بلکہ اُلٹا مضر ہے۔ اس طریق کار کی جگہ یہ کتاب پورے نظام تعلیم کو ’مسلمان‘ بنانے کے حق میں ہے، یعنی اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زبان دانی‘ ریاضی‘ تاریخ‘ جغرافیہ‘ سائنس‘ فلسفہ اور تمام مضامین کو ’دینیات‘ بن کر رہنا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر نصاب کا جو تفصیلی خا کہ پیش کیا گیا ہے وہ اگرچہ بسا غنیمت ہے مگر اس میں اختلاف کی گنجایش تو بہرحال ہے ہی‘‘۔(۲۸)
انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ۱۹۴۱ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی تصنیف ’اسلامی تمدن کی کہانی اسی کی ز بانی‘ شائع کی تومولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ’ترجمان القرآن‘ میں اس پر تبصرہ کیا :’’جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس مقالے میں ’تمدن اسلام کی کہانی خود اسی کی زبانی‘ سنوائی گئی ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک مختلف انبیاء کے دَور میں جس طرح اسلام اور جاہلیت کا مقابلہ ہوا اور اس مقابلہ میں جس طرح اسلام اپنے آپ کو نمایاں کرتا رہا، پہلے اسے قصہ و دا ستان کے پیرائے میں مختصراً بیان کیا گیا ہے، پھر اسی پیرایۂ بیان کو جاری رکھتے ہوئے تمدن اسلام کے مختلف اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، معاشی پہلوئوں کو جاہلیت کے مظاہر سے ممیز کرکے دکھایا گیا ہے۔ کسی موضوع پر مفصل تحقیقی بحث تو ظاہر ہے کہ اس طرز بیان میں نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن ایک طالب حق کے لیے ضلالتوں کے مقابلہ میں ہدایت کے آثار و علائم کی نشان دہی فاضل مقالہ نگار نے بڑی خوبی کے ساتھ کی ہے۔ ایک دو مقا م نگاہ سے ایسے بھی گزرے جہاں مصنف کا قلم راست روی سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ خلیفہ اسلام کے لیے ’ڈکٹیٹر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جو با لکل ہی نامناسب ہے اور ایک دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی قلمرو میں پوری پوری ’شاہنشاہیاں‘ داخل تھیں، حالاں کہ اسلام کی قلمرو میں انسان کی شہنشاہی تو درکنار شاہی تک کے لیے گنجایش نہیں ہے۔ یہ اگرچہ محض تعبیری لغزشیں ہیں، لیکن ناواقف لوگوں کو بڑی غلط فہمیوں میں ڈال سکتی ہیں، اس لیے بہتر ہو کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کردی جائے‘‘۔(۲۹)
۳۲ صفحات پر مشتمل مولانا سید سلیمان ندوی کا رسالہ بعنوان ’ایمان‘۱۹۴۱ء میں انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ سے شائع ہوا، تو مولانامودودی نے اس پر بھی ایک جامع تبصرہ کیا :’’یہ مقالہ انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر علی گڑھ میں پڑھا گیا ۔ اس میں مولانا نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ جماعتوں، قوموں اور ملتوں کا عروج و ارتقاء در اصل کسی عقیدے یا تخیل پر ایمان کا رہین منت ہوتا ہے۔ اسی ایمان پر ان کی پوری زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اسی کے استحکام پر ان کی تعمیر حیات کا استحکام موقوف ہوتا ہے اور اسی کے ضعف سے ان کے نظام ہستی کی بندشیں ڈھیلی ہوجاتی ہیں۔آگے چل کر مولانا نے مختلف قوموں اور ملتوں کے اساسی عقائد کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ اسلامی عقائد کے سوا اور کوئی دوسرا عقیدہ ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی عالمگیر اور صالح نظام تمدن کی بنیاد قائم ہوسکتی ہو۔ در حقیقت یہ پورا مقالہ اس لائق ہے کہ اس کا نہایت غور سے مطالعہ کیا جائے۔
’’آغاز میں مولانامحمدطیب صاحب، مہتمم دار العلوم دیوبند کی تقریظ میں یہ تمنا ظاہر کی گئی ہے کہ خدائے برتر ’ہماری یونی ورسٹی کے کار آمد اور کارکن اجزا و اعضاء کو اس مقدس پیغام کا علماً حامل، عملاً قابل اور قولاً سچا داعی بنادے‘۔ بہتر ہوتا کہ صاحب تقریظ اس مقدس تمنا کا اظہار کرنے کے ساتھ ا پنے مخاطب نوجوانوںکو اس تلخ حقیقت پر بھی متنبہ فرمادیتے کہ اگر کہیں واقعی یہ حرکت کرنے پر تم آمادہ ہوگئے تو سب سے پہلے وہی لوگ تمھیں فتنہ ثابت کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوںگے جو یہ بیش قیمت مقالہ تمھیں سنایا کرتے ہیں۔ عافیت چاہتے ہو تو ان مقالوں کو سنو اور صرف اسلام کی نظری کرامات پر سر دُھن کر اپنے اُنھی کاموں میں لگ جائو جو دنیا میں ہورہے ہیں‘‘۔ (۳۰)
’’ لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیاہے، وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ —جدید اور قدیم دونوں — اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل ودماغ کے پردے کھول رہا ہے، جس نے علوم جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو محض دور سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے، اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدایشی اور خاندانی پورپین ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظرنہیں بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس کے گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں۔
’’ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے ، کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اوران کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا، وہ آج خود آپ کو آگاہ کررہے ہیں کہ ’’خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا، یہ ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچاچکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود اس وقت تریاق خالص کے محتاج ہیں ، اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملاکر ہماری اس زہرآلود معجون کے مزے پر لگ جائو‘‘۔ (۳۲)
’’یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میںکافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جب یونی ورسٹی قائم کی جارہی تھی، اس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھاکہ ہم کو ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیاضرورت ہے اور اس ضرورت کوپورا کرنے کی کیاسبیل ہے، مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے ہیںاور سوچتے بعد میں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی انھیں بس یونی ورسٹی ہی بنانے کی دھن تھی،اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا ۔ یہ سوال سرے سے پیش نظر ہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اور کن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کو ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل بلا فکر کانتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہوگئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ اور تیسری ڈھاکہ میں ہے‘‘۔ (۳۳)
اس موقعے پر ابوالاعلیٰ مودودی نے سوالات کے جواب میں اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیمی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے ایک جوابی تحریر ارسال کی جو۱۹۵۷ء میں’ تعلیمات‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ۔ مولانا نے اس میں لکھا تھا :’’اس وقت مسلم یونی ورسٹی میںجو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیم جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میںکوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دوبالکل متضاد اوربے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ان میں یہ صلاحیت پید انھیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطۂ نگاہ سے بھی اگر دیکھاجائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصر کی آمیزش اصلاً غلط ہے اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘‘۔(۳۴)
یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر جناب جاوید حبیب نے فرمایا ’’ مولانا مودودی نے حاکمیت الٰہ کی بات اس وقت کی جب عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے عالم دین‘ اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو پیش کرنے سے کتراتے تھے ۔ مولانا کی جہد مسلسل کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا ہے کہ اب ایک ملک میں نہیںبلکہ متعدد ممالک میں اسلامی حکومت کی بات ہو رہی ہے‘‘۔ عرب اور ایرانی طلبہ کے نمایندوں نے بتایا کہ ’’مولانا کی تحریروں نے انھیں اسلام کی سمجھ اور انقلابی جذبہ دیا ہے‘‘۔
یونی ورسٹی ناظم دینیات مولانا محمدتقی امینی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا : ’’ مولانا مودودی کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے نئی نسل کے ذہن کو سمجھا اور اس کے مطابق اسلام کو نئے اسلوب میں پیش کیا ۔ نماز، روزہ جیسی روز مرہ کی چیزوں کو دلفریب حسن اور گہری معنویت بخشی۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور علمی کوششوں سے مغربی مادیت اور کمیونسٹ الحاد کی جھلسا دینے والی آندھیوں سے ٹکرلے کر اسلام کی ٹھنڈی ہوا چلائی۔‘‘ (۳۷)
مولانا مودودی کے جنازے میں شرکت کے لیے ایم اے فلسفہ کے طالب علم مسٹر مقیم الدین اور بی یو ایم ایس کے محمو د احمد راتھر ۲۴ ؍ستمبر کو پاکستان روانہ ہوئے اور ۲۵؍ ستمبر کویہ لوگ مولانا کی تدفین میں شریک ہوئے ۔ پاکستان سے واپسی کے بعد محمود احمد راتھر صاحب نے مولانا مودودی کے جنازہ اور تجہیز و تکفین کا آنکھوں دیکھا حال اپنے ایک مضمون میں بیان کیا جو پندرہ روزہ ’ہمقدم‘، علی گڑھ کی نومبر ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں موجود ہے ۔
مسلمانان ہند کی فکری و عملی زندگی پر مغربی علوم اور انگریزی تمدن و تہذیب کے غلبے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :’’ اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا توانھیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں رکھ دی ہے ۔اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرتے ، چنانچہ مرحوم سر سید احمد خان کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا ۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی ۔ دولت ، عزت ا ور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصل طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انھوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا ۔ ہندوستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے ، قوم کا تلچھٹ پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے اور خوش حال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیے گئے تاکہ ان کے دل و دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں ‘‘۔(۴۱)
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اسلامیات کے پروفیسر مولانا اسلم جیراج پوری[ ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۲ء-۲۸؍ دسمبر ۱۹۵۵ء] کی تصنیف تعلیمات القرآن جب منظر عام پر آئی تو مولانا مودودی نے اس پر اپنے طویل قسط وار تبصرہ کے دوران سر سید اور ان کے متبعین پر بھی نقد کیا : ’’ پرانے زمانے کے علماء یہ غلطی کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کو انھوں نے قدیم فلسفہ اور ہیئت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اس زمانے کے بندگان عقل کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن کو ارسطو اور افلاطون اور بطلیموس کے نظریات پر منطبق کرڈالا ۔ لیکن موجودہ دور کے نظری اور تجربی علوم نے جب پچھلے نظریات کو باطل کردیا تو وہ تمام تاویلیں جو پہلے کی گئی تھیں ‘ غلط ثابت ہوئیں اور وہ تمام سہارے ٹوٹ گئے جن پر قرآن مجید کی تاویل کا مدار رکھا گیا تھا ۔ پھر سرسید احمد خانی دور میںدوبارہ اسی غلطی کا اعادہ کیا گیا، مگر سائنس کی جدید ترقیات نے ان سہاروں میںسے بھی بہتوں کو توڑ دیا جن پر سید مرحوم اور ان کے متبعین نے تاویل کی عمارت قائم کی تھی‘‘ ۔(۴۲)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب’ مجدد الف ثانی کا تصورِ توحید‘ کے نام سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تو مولانانے انگریزی زبان کی اس تصنیف کی بعض خامیوں اور غلطیوںپر گرفت کرتے ہوئے سر سید پر بھی تبصرہ کیا : ’’اول تو ان دونوں حضرات (سرسید اورمولوی عبداللہ چکڑالوی ) کا ذکر مجدد صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ اسماعیل شہید، اور سید احمد بریلوی کے سلسلے میں لانا یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ گویا یہ بھی اسی سلسلے کے آدمی ہیں، پھر سرسید کے کام کو اصلاح اور تنقید عالی کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ ’’مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی اور تعلیمی تحریکیں اٹھیں ان سب کا سر رشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے‘‘ دراصل وہ مبالغہ کی حد سے بھی متجاوز ہے۔ علی گڑھ کے تعلق کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو خواہ سرسید سے کتنی ہی ارادت ہو مگر جب وہ ایک مسلمان محقق کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں تو انھیں بے لاگ حق کا اظہار کرنا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ ۵۷ ۱۸ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہیں ان کا شجرۂ نسب بالواسطہ یا بلاواسطہ سرسید کی ذات تک پہنچتا ہے۔ وہ اس سرزمین میں تجدّد کے امام اول تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کر دنیاسے رخصت ہوئے‘‘۔(۴۳)
سر سید احمد خاں پر مولانا مودودی کے بعض تند و تیز تبصرے گوبادی النظر میں آج متعدد اہل علم کو نا مناسب اور جادۂ اعتدال سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی علت کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی کے سماجی ‘ معاشرتی اور مذہبی احوال و کوائف نیز طبقہ علما اور مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے ذہنی ‘ فکری ‘ دینی اور مذہبی شعور کی سطح کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے ۔عمر کے ابتدائی زمانے میںسر سید پر مولانا کی تنقیدوں کے پس منظر میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ابتدائی نسلوں کی مغرب پرستی ‘ انگریزی تہذیب و تمدن سے والہانہ رغبت اور دینی شعائر سے لاپروائی کی عمومی روش صاف نظر آتی ہے۔
تاہم،سلیم منصور خالد (لاہور، پاکستان)نے واٹس ایپ پرمجھے ارسال کی گئی اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے : ’’یہ ۱۹۷۷ کی بات ہے کہ ہم تین دوستوں نے مولانا مودودی کی تحریروں اور گفتگوؤں سے مختلف شخصیات کے بارے میں اقتباسات مرتب کرنے کا ڈول ڈالا۔ ان دوستوں میں شامل تھے: سمیع اللہ بٹ اور خالد ہمایوں۔ جونہی مجموعے کی شکل بنی تو دوستوں نے کہا: اس کو چھپواتے ہیں، مگر مجھے اس کی فوری اشاعت سے اتفاق نہ تھا کہ ابھی خاصا کام باقی ہے اور ترتیب و تدوین بھی معیاری نہیں ہے۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ پہلے مولانا سے اجازت تو حاصل کرلی جائے۔ ہم کتابت شدہ مسودہ لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے توانھوں نے فرمایا: ’’ایک ہفتہ بعد معلوم کرلیجیے‘‘۔ ہفتے کے بعد مولانا کے ہاں پہنچے تو انھوں نے فرمایا:’’دیباچے کے لیے ملک غلام علی کو دے دیجیے‘‘۔ اور پھر کتابت کا لفافہ واپس کرتے ہوئے تین چار کتابت شدہ صفحات نکال کر ایک طرف رکھتے ہوئے فرمایا: ’’اسے رہنے دیں، شامل نہ کریں‘‘۔ وہ کتابت شدہ صفحات سرسید احمدخاں کے بارے میں مولانا محترم کے چند در چند تنقیدی تبصروں پر مشتمل تھے، میں نے سوال کیا:’’مولانا، انھیں کیوں نکال دیں؟‘‘ مولانا نے بڑی شفقت سے فرمایا :’’دیکھیے، سید احمد بنیادی طور پر مذہبی شخصیت نہیں تھے۔ انھوں نے انیسویں صدی میں مسلمانوں کی تہذیبی، علمی، معاشی، اور تمدنی تباہی کا ایک نہ ختم ہونے والا منظر دیکھا تھا۔ انھوں نے محسوس کیا تھا کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو مسلمانوں کے لیے بربادی کا عمل تیز سے تیز تر ہوگا، اسی لیے انھوں نے انگریز ہندو اتحاد کے خطرات سے بچنے کے لیے، دوسرے قوم کو جدید تعلیم کے ذریعے آگے بڑھنے کے لیے ایک قومی مصلح اور خدمت گزار کی حیثیت سے جاں توڑ کوششیں کیں۔ مگر اس کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ بے جا طور پر الٰہیاتی اور دینی علوم پر بھی خامہ فرسائی شروع کردی جس کی نہ گنجایش تھی، نہ ضرورت تھی اور نہ کوئی جواز۔ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اس ہمہ گیر ابتلاکے دوران قوم کو ریاستی دھارے میں لانے کے لیے اپنی سی بھرپور کوششیں کیں۔یہی وجہ ہے کہ قوم نے ان کے مذہبی تفردات و خیالات کو کوئی اہمیت نہ دی اور نہ اسے قبول کیا مگر قومی مفاد، بیداری اور تعلیم کے لیے ان کی کاوشوں کو قبول کیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ان کی قابلِ قدر اور مثبت خدمات کی قبولیت کے لیے ،نیز ان کی کاوشوں کے منفی پہلوؤں اور غلطیوں سے درگزر کے لیے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور ان بحثوں کو نہیں اٹھانا چاہیے‘‘۔ (۴۴)
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی’ مجالس سیدمودودی‘ میں رقم طراز ہیں :’’ سرسید احمد خاں مرحوم کے بارے میں ایک صاحب نے کوئی سوال کیا تو مولانا نے فرمایا : ’’ مذہبی لحاظ سے انھوں نے بہت سی ٹھوکریں کھائیں اور کئی مسائل میں ان کی تحقیق ناقص تھی، مگر جو کچھ انھوں نے کیا اس میں بدنیتی شامل نہیں تھی۔ اپنے نزدیک وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ دین کی حفاظت کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے۔ انھوں نے بعض چیزیں بڑے درد کے ساتھ لکھی ہیں، مثلاً: برطانوی مستشرق سرولیم میور نے جب اپنی کتاب دی لائف آف محمد(The Life of Muhammad ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر حملے کیے توسر سید نے بڑی محنت کے ساتھ اس کے جوابات لکھے۔ پھر یہ کہ آج کل کے بعض نام نہاد ’مجتہدین‘ کی طرح وہ محض نقال نہ تھے۔ انھوں نے جو بات کہی، اپنی ذاتی تحقیق کے بعد کہی‘‘۔(۴۵)
پروفیسرسید ظفرالحسن، ڈاکٹر افضال قادری، دی اسکالر یونین مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، صالح بیگم شروانی غریب منزل علی گڑھ، شفاء الملک حکیم عبداللطیف صاحب طبیہ کالج علی گڑھ، اصغر علی صاحب، پروفیسر حلیم پرووائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، راحیلہ خاتون شروانی، محمد عبدالشکور خاں شروانی، ناظم دینیات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، ڈاکٹر محمود احمد نائب صدر اسلامیات علی گڑھ، ملک عنایت اللہ نسیم علی گڑھ، مفتی عبدالعزیز، ابوبکر احمد حلیم، معتمد آفتاب مجلس مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، لٹن لائبریری مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، حاجی علی بخش سلطان محمود، بیگم سید محمد منیر، سیشن جج علی گڑھ، عبدالمجید، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، پرنسپل ہنری مارٹن اسکول علی گڑھ۔ (۴۶)
حواشی و تعلیقات
(۱) ’عکس راہ‘،عبدالعزیز سلفی فلاحی ۔ شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا، نئی دہلی
(۲) مجدّد سید مودودی نمبر، ماہنامہ ’حیات نو‘ ،جامعۃ الفلاح ،بلیریا گنج ، اعظم گڑھ، یوپی ، اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۹ء
(۳) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ ،اوّل [مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد] ادارہ معارف اسلامی، منصورہ،لاہور، اپریل ۱۹۸۶ء،صفحہ ۳۲۵
(۴) ’علی گڑھ میگزین‘ ۹۵-۱۹۹۷ء /انٹرویو،بتاریخ ۱۴؍مئی ۲۰۱۴ء بمقام علی گڑھ
(۵) ’دھوپ چھاؤں‘،ریاض الرحمٰن شروانی،حبیب منزل ،میرس روڈ ،علی گڑھ۔ / انٹرویوبتاریخ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۴ء بمقام حبیب منزل
(۶) انٹرویو ، بتاریخ ۱۴؍ مئی ۲۰۱۴ بمقام سر سید نگر ،علی گڑھ
(۷) ’علی گڑھ میںچار سال‘، محفوظ الحق حقی علیگ،پندرہ روزہ ’خبر نامہ‘ ،شمشاد مارکیٹ ،علی گڑھ ،۱۵فروری ۱۹۸۲ء
(۸) ہفت روزہ ’دعوت‘ ، نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء
(۹) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘، اوّل، صفحہ ۳۲۰،۳۲۱۔( محمد یوسف بُھٹّہ،مصنف: ’’ مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں)
(۱۰) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ اوّل،صفحہ ۴۰۰۔(پروفیسر آسی ضیائی کا وطن رامپور، یوپی اور ان کا اصل نام امان اللہ خاں تھا۔ستمبر ۱۹۴۸ء میں لاہور پاکستان منتقل ہوگئے تھے ۔پبلک لائبریری رامپور کے صدر مولوی ضیاء اللہ خاں اُن کے والد تھے) ۔
(۱۱) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘، اوّل،مضمون بعنوان ’’ بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو ‘‘صفحہ ۴۸۵ تا ۴۸۸۔(پروفیسر سیدمحمد سلیم کا وطن میوات کے علاقہ تجارہ، ریاست الور میں تھا ۔۱۹۴۶ء میں علی گڑھ سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس گئے تو وہاں ایک دار المطالعہ اور لائبریری قائم کی اورنوجوان طلبہ کو جماعت اسلامی سے متعارف کرایا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں ان کا قصبہ فسادات کی زد میں آیا اور ہندو بلوائیوں نے مکمل طور پر تباہ کردیاتو وہ بالآخر ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور نواب شاہ سندھ میں سکونت اختیار کی۔
(۱۲) انٹرویو بتاریخ ۹ ؍ اپریل ۲۰۱۴،ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ
(۱۳) ’حکیم سید ظل الرحمان: حیات وخدمات‘،مرتبین: ڈاکٹر سید حسن عباسی‘ڈاکٹر عبد اللطیف ۔مرکز تحقیقات اردو و فارسی‘باقر گنج ، سیوان ،بہار
(۱۴،۱۵،۱۶) ’ادبیات مودودی‘ ،مرتبہ خورشید احمد ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶۔اشاعت مئی ۱۹۸۰ء۔
(۱۷) ’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘ ،ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ،اگست ۱۹۴۰ء
(۱۸) ہفت روزہ ’صدق‘ لکھنؤ یکم تا ۸ دسمبر ۱۹۴۰ء۔( یہ مجلہ عبد الماجد دریابادی نے یکم مئی ۱۹۳۵ء کو جاری کیا تھا ۔ اس سے قبل ’سچ‘نکلتا تھا۔)
(۱۹) عبدالرحمٰن عبد، ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور۔
(۲۰) گفتگو بتاریخ ۱۵ ؍اکتوبر ۲۰۱۷ء بمقام بدر باغ ، علی گڑھ
(۲۱) ہفت روزہ ’دعوت‘ ، نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء (۲۲) عبدالرحمٰن عبد، ایضاً
(۲۳) ’عکس راہ‘ ،عبدالعزیز سلفی فلاحی، شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا ۱۵۱سی ذاکرنگر نئی دہلی ۲۵۔
(۲۴) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ، اپریل۱۹۴۱ء (۲۵) ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ،جولائی ۱۹۴۰، صفحہ ۴۰۸ (۲۶) ’ترجمان القرآن‘ ، لاہور ،جمادی الآخر و رجب۱۳۵۶ھ (۲۷) ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘، لاہور ، دسمبر۱۹۴۰ء، جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۴۱ (۲۸) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ، بابت مئی-جون ۱۹۴۴ء، جلد ۲۴عدد ۶۰۵ (۲۹) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، لاہور، بابت دسمبر ۱۹۴۱ء و جنوری ،فروری ۱۹۴۲ء، جلد۱۹،عدد۴، ۵،۶(۳۰) ایضاً (۳۱) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدرآباددکن ، فروری ۱۹۳۷ء
(۳۲) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، محرم ۱۳۵۷ھ، مطابق مارچ ۱۹۳۸ء ۔( ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ کی فروری ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق : لارڈ لوتھیَن کی ایما پر اس کے ایک دوست نے جو انگلستان میں رہتا ہے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو ایک چغہ ہدیہ کے طور پر دیا ہے جس پر تمام قرآن مجید لکھا ہوا ہے۔یہ چغہ غدر ۱۸۵۷ء کے دوران ہندوستان سے انگلستان بھیج دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے ساتھ دوستی کی علامت کے طور پر ہندوستان کو واپس دیا گیا ہے ‘‘۔
(۳۳) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن ، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ / اگست ۱۹۳۶ء
(۳۴) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ / اگست ۱۹۳۶ء(مئی ۱۹۵۷ء میں یہ مقالہ تعلیمات کے نام سے مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ،رامپورنے شائع کیا تھا )۔
(۳۵) ’تذکرۂ سید مودودی‘، اوّل، صفحہ ۱۰۷ -۱۱۴
(۳۶) ہفت روزہ ’صدق‘ لکھنؤ، ۲۸ ؍ اکتوبر ۱۹۴۰ء
(۳۷) پندرہ روزہ ’ہمقدم‘ ، علی گڑھ۵؍اکتوبر ۱۹۷۹ء ۴ عبد القادر مارکیٹ ،جیل روڈ ،علی گڑھ
(۳۸) ماہنامہ ’معارف‘، دارالمصنفین، اعظم گڑھ،فروری و مئی۱۹۴۱ء
(۳۹) ہفت روزہ ’صدق، لکھنؤ ، ۲۷ ؍ جنوری ۱۹۴۱ء
(۴۰) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،حیدر آباد دکن ، جولائی ۱۹۳۶ء ص ۴۲۸
(۴۱) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آبا ددکن ، ستمبر ۱۹۳۴ء
(۴۲) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن ،جولائی ۱۹۳۴ء
(۴۳) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، دسمبر۱۹۴۰ء، جنوری ۱۹۴۱ء، صفحہ نمبر ۱۴۱
(۴۴) سلیم منصور خالد کا تحریری پیغام بذریعہ واٹس ایپ، بتاریخ ،۲۴ ؍اگست۲۰۲۲ء
(۴۵) ’مجالس سید مودودی‘،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،دسمبر ۲۰۲۰ء ناشرمنشورات، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
(۴۶) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ ، اوّل، ادارہ معارف اسلامی،منصورہ،لاہور،اپریل ۱۹۸۶ء،صفحہ۹۸۹
پاکستانی معاشیات کی تاریخ غیرمتوازن اور ناہموار ہے۔ اس دوران معاشی ترقی کے مختلف اوقات میں مختلف ماڈلوں کی پیروی کی ہے۔ ان پالیسیوں اور نتائج سے کئی اَدوار ممتاز بھی ہیں۔ ان اَدوار کی کلیدی خصوصیات کی ہم نشان دہی کرتے ہوئے ان کی نمایاں کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کریں گے۔ اتنے پھیلے موضوع کے ایک مختصر جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عرصے کے دوران معاشی پالیسی کی نوعیت کیا تھی اور ملک کو کس طرح کی ناکامیوں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا؟
اس زمانے میں ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سرمایہ داروں کے منتخب گروہ کی معاشی ترقی کے عمل کی سرپرستی کی گئی۔ اس طرح اُس زمانے کے سوشلسٹ ماڈل کے چیلنج کو ناکام بنانے کے لیے ایک فعال معاشی نظم و نسق کو بروئے کار لانے میں بظاہر کامیابی حاصل ہوئی۔ تاہم، ۱۹۶۹ء کی فوجی مداخلت نے اس ماڈل کو پیچھے دھکیل دیا۔
یہ پاکستانی معیشت کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس دوران میں کئی حکومتیں برسرِاقتدار آئیں۔ تاہم، اس پورے عرصے کی نمایاں ترین خصوصیت اس کی منصوبہ بند نوعیت تھی۔ اس کا سب سے مرکزی حوالہ ۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سطحی ترقی کا عشرہ شامل ہے۔ سرد جنگ میں امریکا کے اتحادی کے طور پر، پاکستان کو کافی فوجی اور اقتصادی امداد ملی۔ ’ہارورڈ ایڈوائزری گروپ‘ نے جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان قائم کیا تھا، وہ اس وقت تمام معاشی منصوبہ بندی اور ترقیاتی وسائل کی تقسیم کا مرکز و محور تھا، جس نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کا فریم ورک تیار کیا۔ تمام اہم اقتصادی سرگرمیوں جیسے سرمایہ کاری، درآمدات اور صنعتی مقامات پر وسیع پیمانے پر معاشی کنٹرول اور لائسنسنگ کا نظام رائج کیا گیا۔ ٹرکل ڈاؤن نظریے کی بنیاد پر صنعت کاروں کے ایک منتخب گروپ کو غلبہ پانے کے لیے سرپرستی حاصل تھی۔
پچھلی حکومت کی معاشی ناکامیوں کے نتیجے میں، اور مشرقی پاکستان کے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء میں برسرِاقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں، اب صرف مغربی پاکستان پر مشتمل پاکستان میں معاشی ترقی اور انتظام کے سوشلسٹ ماڈل کو اپنانے کا راستہ چُنا گیا۔ صنعت، تجارت، مالیات اور بنکاری نظام کو بڑے پیمانے پر قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ ملکی معیشت میں ایک بہت بڑا حصہ سرکاری شعبے کی صورت میں اُبھرا۔ بدنامی کی علامت ۲۲ خاندان منظر سے غائب ہوگئے کیونکہ ان کے زیادہ تر اثاثوں کو قومیا لیا گیا تھا۔پانچ سالہ منصوبے کا فریم ورک معطل کردیا گیا۔ پبلک سیکٹر میں بڑے پیمانے پر غیرمنصوبہ بند ترقی ہوئی، کیونکہ معیشت کے تمام اہم شعبوں پر نجی شعبے کے لیے متعدد بنیادی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ معاشی اقدار کے بدل جانے سے معاشرے میں سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کا احترام اور مقام کم ہوگیا، جب کہ پیشہ ور مزدور یونینوں کو کافی طاقت اور اختیارات مل گئے۔
نیشنلائزیشن اور سوشلزم کی مخالفت معاشرے میں شدید تر تھی۔ ابتدائی طور پر جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے نیشنلائزیشن کو کالعدم کرنے کا عزم کیا، لیکن اس راستے پر قدم رکھتے ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ تو سیاسی سرپرستی کے لیے ایک بہت بڑی چابی ہے اور اس سے اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت نے پانچ سالہ ترقیاتی فریم ورک کو بحال کردیا،اور آہستہ آہستہ نجی شعبے کے لیے معیشت کو کھولنا شروع کیا۔ دوسری جانب افغانستان پر اشتراکی روسی حملے (۱۹۷۹ء) نے امریکا کی طرف سے بھی اہم حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔
جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت سمنگٹن /پریسلر ترامیم کے آغاز کے ساتھ اختتام کو پہنچا، جس سے پاکستان کوامریکی مالی امداد کا خاتمہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس (سوویت یونین) کے زوال نے عالم گیریت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور فورم آف ایڈ ٹو پاکستان کنسورشیم کے ذریعے فنانسنگ کے روایتی ماڈل کو نئے متحرک نجی سرمائے کے حق میں ختم کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے بجلی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں کو بین الاقوامی یا قومی نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا۔ اس عشرے کو سیاسی عدم استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہوئیں اور چار حکومتوں کی اوسط مدت تقریباً ڈھائی سال رہی۔ اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت ملک میں آئی ایم ایف کے ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کا آغاز تھا، جو بعد میں معاشی انتظام کی باقاعدہ ضرورت اور خصوصیت بن گیا۔
سیاسی عدم استحکام، ایک اور فوجی مداخلت کا باعث بنا۔ بظاہر معاشی نظم و نسق میں بہتری آئی اور نائن الیون کے بعد وسائل کی دستیابی آسان ہوگئی۔ اس عرصے میں قیمتوں میں نمایاں استحکام کے ساتھ اعلیٰ نمو بھی دیکھنے میں آیا۔ آئی ایم ایف کےدو پروگراموں پر عمل کے لیے بنیادی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جلد ہی اقتصادی اور سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کی ملکی معیشت کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
عدالتی بحران اوردسمبر۲۰۰۷ء میں بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد، ۲۰۰۸ء کے اوائل میں فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلزپارٹی کی اگلی مخلوط حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے نئی حکومت بنائی اور اس نے بھی اپنی مدت پوری کی۔
۲۰۱۸ء میں چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے ایک نئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئی، جس کی قیادت عمران خان نے کی۔ ن لیگ کے آخری دوبرسوں میں بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ (CAD) دونوں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ میکرو اکنامک فریم ورک کمزور ہوگیا۔ نئی حکومت کو وراثت میں ملنےوالے بدتر معاشی منظرنامے کے پیش نظر، آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام کی فوری ضرورت تھی۔ تاہم، پہلے پہل اپنی حکمت عملی کے تحت، حکومت نے اس پروگرام پر عمل کرنے کی مزاحمت کی۔ اس تگ و دو اور تذبذب کی کیفیت میں تقریباً ایک سال ضائع ہوگیا۔ اس طرح آئی ایم ایف پروگرام قبول کرنے سے پہلے ہی، نمایاں کمی اور شرح سود میں اضافہ کیا گیا تھا۔ پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، زیادہ قدر میں کمی، شرح سود میں اضافے پر بھاری ٹیکس عائد کے گئے، جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ۲۰-۲۰۱۹ء کے دوران، ملک کووڈ ۱۹ کی زد میں آیا جس سے معاشی خلل پڑا۔ دوسرے سال اس وجہ سے منفی ترقی دیکھی گئی۔ یہ تیسرا سال تھا جب معاشی بحالی کا آغاز ۵ء۶ فی صد نمو کے ساتھ ہوا، جس کے بعد ۲۲-۲۰۲۱ء میں اس شرح میں ۶ فی صد تک اضافہ ہوا۔
بظاہر یہ بات مہمل اور متضاد ہے کہ عمران حکومت کی ۲۲-۲۰۲۱ء کی کارکردگی، جس میں اعلیٰ اقتصادی ترقی، اعلیٰ برآمدات اور ترسیلاتِ زر اور زراعت اور صنعت دونوں میں نمایاں نمو دیکھنے میں آئی۔ آخرکار اس کا خاتمہ اسی بیرونی کھاتوں کےعدم توازن پر ہوا، جو اس حکومت کو ورثے میں ملا تھا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے ایک اُمید بھرے دور کا ایسا خاتمہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اسی طرح کے کئی اَدوار اختتام کے گھاٹ اُترے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ۲۰۱۳ء- ۲۰۱۶ء کے دوران آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ لیکن جلد ہی فوائد کو معیشت کی صلاحیت سے زیادہ ترقی کے راستے پر بڑھانے کی قربان گاہ پہ قربان کر دیا گیا۔ پانامہ پیپرز کا اجرا حکومت کے لیے ایک بڑے بحران میں بدل گیا اور بالآخر وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی پر منتج ہوا۔ کامیاب معاشی ٹیم، فنڈ پروگرام کے تحت حاصل ہونے والے فوائد سے لاتعلق تھی اور جولائی ۲۰۱۸ء میں الیکشن ہونے والے تھے۔ مالی سال ۲۰۱۶ء کا مالی خسارہ ۴ء۶فی صد تھا، جو مالی سال ۲۰۱۸ء میں ۶ء۶ فی صد تک پہنچ گیا، جب کہ مالی سال ۲۰۱۶ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ریکارڈ سطح تقریباً ۲۰بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔یہ سب ۵ء۸ فی صد کی بلند شرحِ نمو حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جسے بعد میں جی ڈی پی کی بحالی کے بعد ۶ء۳ فی صد کر دیا گیا۔
اسی طرح کی صورت حال پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال کے دوران بھی ہوئی، جس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، لیکن یہ تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ آغاز کرنے میں ناکامی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بنائے گئے ذخائر کے بیش تر حصے کو مایوس کن سطح پر لے جانے کے پس منظر میں مالی سال ۲۰۱۳ء میں اپنی مدت کے اختتام پر پیش آیا۔
یہاں تک کہ صدر جنرل مشرف کی نسبتاً مستحکم حکومت بھی ترقی اور ووٹروں کی خوشنودی کے حصول کے اسی طرح کے دبائو کے سامنے جھک گئی۔ اپنے آخری مالی سال ۰۸-۲۰۰۷ء میں، عدالتی بحران، جنوری ۲۰۰۸ء میں طے شدہ انتخابات، اورعالمی مالیاتی بحران کے پیش نظر حکومت نے پی او ایل کی اُونچی قیمتوں کو عوام تک منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ ۴ فی صد سے تقریباً ۸ فی صد تک پہنچنے اور دگنا ہونے کا باعث بنا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بلند ترین سطح، یعنی جی ڈی پی کا ۸ فی صد تھا۔ پی پی حکومت کو اکتوبر ۲۰۰۸ء میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح اس دور کی نسبتاً اچھی کارکردگی کا خاتمہ ایک پریشان کن صورتِ حال پر ہوا۔
بھارت میں مذہبی تفریق کی بنیاد پر فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ۱۹۴۷ءمیں آزادی کے بعد سے پچھلے ۷۴برسوں کے دوران بھارت کے طول و عرض میں ۶۰ ہزار سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۰ءکے عرصے میں ۴ہزار ایک سو ۷۵ فسادات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر روز دوفسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات کے نہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کو شاید ہی کبھی سزا ملتی ہے۔ جہاں تک ہمارے علم میں ہے، ۱۹۸۴ءکے سکھ مخالف فسادات اور ۲۰۰۲ءکے گجرات کے مسلم کش فسادات، صرف دوایسی مثالیں ہیں، جن کی پیروی کی گئی اور قصورواروں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔
سکھوں کے خلاف بلوہ کرنے والے کانگریسی رہنماؤں اور فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام گوردوارپرببندھک کمیٹی نے کیا، تو گجرات کے فسادات میں ملوث بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں تک پہنچانے کا کریڈٹ سماجی کارکن تیستا سیٹلوارڑ، ان کے شوہر جاوید آنند اور چند باضمیر پولیس افسران کے سر جاتا ہے۔ جنھوں نے ہزاروں مشکلات کے باوجود برسوں تک عدالتوں میں گجرات فسادات کی پیروی کی،گواہوں اور مقدمے کی دستاویزات اور ثبوتوں کی حفاظت کروائی، کئی کیسوں کو گجرات سے باہر مہاراشٹرہ منتقل کروایااور قصور واراں کو سزائیں دلوائیں۔ شاید یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ ۲۰۰۲ءکے بعد گجرات میں کوئی بڑی فرقہ وارانہ واردات برپا نہیں ہوئی۔ ورنہ ایک سابق سینیر پولیس افسر وبھوتی نارائین رائے کے بقول جنھوں نے ۱۹۸۹ء میں اترپردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھیں، ’’فسادات سے نپٹنے کے نام پر پولیس اکثر مسلمان نوجوانوں کو ہی حراست میں لیتی ہے، پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے‘‘۔
تین عشروں پر پھیلے صحافتی کیریر کے دوران فسادات کو کور کرتے ہوئے میں نے بھی یہی دیکھا ہے کہ ایک توپولیس کا کردار جانب دارانہ رہتا ہے اور پھر فسادات تھمنے کے بعد وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیتی ہے، تاآنکہ وہ جیل میں ہی سمجھوتہ کرکے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔چند سال قبل آسام میں انتخابات کے دوران جب میں نے وہاں چند سیاسی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ ’’۱۹۸۳ء میں اس صوبہ میں نیلی کے مقام پر دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ ‘‘ تو وہ میرا منہ تکتے رہے او ر کہا کہ ’’ہم اب آگے بڑھ گئے ہیں اور ان فسادات کو ہم نے یادداشت سے کھرچ دیا ہے۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں ممکن ہے؟‘‘
گجرات فسادات کیس میں نہ صرف اب تیستا سیتلواڑ اور ان کی تنظیم ’سب رنگ ٹرسٹ‘ کو حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے پنجہ آزمائی کی سزا دی جارہی ہے،بلکہ جن قصور واروںکو انھوں نے عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا تھا ، اب ان کی سزائیں معاف کی جارہی ہیں یا ان کو ضمانتوں پر رہا کیا جا رہا ہے۔ سیتلواڑ کی تنظیم پر پہلے غیر ملکی عطیہ لینے پر پابندی عائدکی گئی اور اس کے بعد ان کے خلاف تفتیش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ابھی جون میں ان کی ممبئی میں واقع رہایش گاہ پر گجرات پولیس نے یلغار کرکے ان کو حراست میں لے لیا۔ سیتلواڑ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اورایک اور پولیس آفیسر سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائرکر کے جیل پہنچا دیا گیاہے۔
گجرات ہی میں ایک کیس بلقیس بانو کا تھا، جنھیں ۳مارچ ۲۰۰۲ء کو فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت ۱۹ سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے بیٹی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر دے مارا تھا۔عدالت کے فیصلہ کو ،جس میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آخر ایک انسان اس قدر درندہ صفت کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سبھی قصور وار اور مجرمان بلقیس بانو کے پڑوسی تھے۔ پچھلے ہفتے اس کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔صوبہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) راج کمار نے صحافیوں کو بتایا ’’چونکہ مجرموں نے ۱۴سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی ہے۔ تاہم، راج کمار یہ بتانا بھول گئے کہ خواتین کو ہراساں کرنے اور زنا بالجبر جیسے جرائم میں معافی نہیں ہے۔ پھر ان مجرموں کی رہائی کے وقت ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے ایک پیغام تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کو برداشت کیا جائے گا اور اس کو انجام دینے والا ہیرو ہے۔ دراصل مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے ۱۴ سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور کورٹ نے اس کو قیدیوں سے متعلق صوبہ کی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا کے موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی سی کے راؤلجی کا کہنا ہے کہ ’’یہ مجرمین ’برہمن‘ ہیں اور ’اچھے اخلاق‘ کے مالک ہیں‘ ‘۔
یہ صرف بلقیس بانو کا کیس نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے نئی دہلی میں مودی کی حکومت آنے کے بعد سے تو کئی قصورواروں کو رہا کیا گیا ہے۔ آنند ضلع کے اوڈ گاؤں کے ۴۰سالہ ادریس نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ:’’میری دادی، والدہ اور ایک قریبی دوست کو میرے سامنے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ قاتلوں کی اس بھیڑ میں میرے سکول کے دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔ میرے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں ۸۰ ملزمان نامزد تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہے۔ سب کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے‘‘۔
احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اسے ۲۸ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں ’بجرنگ دل‘ کے بابو بجرنگی کو بھی قصوروار ٹھیرایا گیا تھا ۔جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوڈنانی نے بطور مقامی ممبر اسمبلی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ نریندرا مودی کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر تھیں۔ اس معاملے میں موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شا نے مایا کوڈنانی کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے کوڈنانی کو ریاستی اسمبلی میں دیکھا تھا‘‘۔اس کیس کے ۳۲ قصورواروں میں سے۱۸کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا، جن میں کوڈنانی بھی شامل ہیں، جب کہ ۱۳؍ افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سزا پانے والوں میں بابو بجرنگی بھی شامل ہیں، تاہم ان کی عمر قید کی سزا کو کم کر کے ۲۱ سال کر دیا گیا۔
شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے سردار پورہ گاوٗں میں ۳۳مسلمانوں نے ایک گھر میں پناہ لی تھی۔ فسادیوں نے اس کا گھیراؤ کرکے اس میں بجلی کے ایک ننگے تار سے کرنٹ دوڑا دیا جس سے ۲۹؍افراد کی جائے حادثہ پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ہجوم نے گاؤں کی تمام سڑکیں بند کر دیں تاکہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کا موقع نہ ملے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی) کی تشکیل کر دی گئی اور ۲۲ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل بھی کئی افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں دو سرکردہ افراد سرپنچ کچرا بھائی پٹیل اور سابق سرپنچ کنو بھائی پٹیل ملوث تھے اور ان دونوں کا مبینہ طور پر بی جے پی سے تعلق تھا۔ان فسادات کے ایک اہم گواہ ادریس وورا ، جس نے اپنی دادی، اپنی ماں اور اپنے ایک قریبی دوست کو کھو دیا تھا، صرف اس لیے بچ گئے کہ انھوں نے خود کو ۱۰گھنٹے سے زیادہ بیت الخلا میں بند رکھا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں یہ حقیقت ہضم نہیں کر سکتا کہ سب کچھ تباہ کرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں اور ۲۰سال بھٹکنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا‘‘۔
اسی طرح مہسانہ کے وِس نگر کے دیپدا دروازہ علاقے میں گیارہ مسلمانوں کے قتل کے الزام میں پولیس نے ۷۹؍ افراد کو گرفتار کیا تھا اور پھر ان سبھی کو ضمانت دے دی گئی ۔ ا ن میں اب ۶۱لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے، جن میں وس نگر کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی پرہلاد پٹیل اور میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے صدر داہیا بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ان فسادات کے دوران تین برطانوی شہریوں کو بھی اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے، لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت سے رہا کر دیا گیا۔
۲۸ فروری ۲۰۰۲ءکو چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے ۶۹؍ افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ سوسائٹی میں ۱۹بنگلے اور ۱۰؍ اپارٹمنٹس تھے۔ مقامی پولیس نے میگھانی نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بعد ۴۶ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ایس آئی ٹی کی جانچ شروع ہونے کے بعد اس معاملے میں ۲۸دیگر کو گرفتار کیا گیا اور کل ۱۲ چارج شیٹ داخل کی گئیں۔ کل ملزمان میں سے ۲۴کو سزا سنائی گئی،جب کہ ۳۹ کو بری کر دیا گیا۔اس قتل عام میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والی ۶۴سالہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، شناخت ہونے کے بعد بھی انھیں ضمانت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے ہی ممکن ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے سے چند منٹ قبل تک احسان جعفری، پولیس ، وزارت داخلہ کے افسران ، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر مسلسل فون کرتے ہوئے مدد کی درخواست کررہے تھے۔
بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور ان میں فسادیوں کا چھوٹنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق تو یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کا منہ چڑا کر اس کو بے دست و پا کردیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجے کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔ چونکہ کانگریسی دور میں سیکولرازم کا ملمع چڑھا ہوتا تھا، اس لیے فسادات کے بعد کوئی مرکزی وزیر یا حکمران پارٹی کا بڑا لیڈر دورہ پر آتا تھا۔ پہلے تو وہ ہندو علاقوں میں جاکر ان کی پیٹھ تھپتھپاتا تھا اور پھر مسلم علاقے میں آکر اشک شوئی کرکے ریلیف بانٹتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک لیکچر دے کر چلا جاتا تھا۔ اب رسمی طور پر بھی کوئی لیڈر مسلم علاقے کا رخ نہیں کرتا ہے۔ بھارت کی مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے مستعفی ہونے کے بعد اب کوئی ایک مسلمان وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت والے ۱۶صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا ۲۶ء۲۹ فی صد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔ بھارت میں صوبائی اسمبلیوں میں کل ۴۱۲۱ نشستیں ہیں۔ ان میں صرف ۲۳۶ مسلمانوں اراکین ہیں۔کل ۲۸صوبوں میں ۵۳۰کے قریب وزرا ہیں۔ جن میں صرف ۲۴مسلمان ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ وزیر حال ہی میں بہار میں اس لیے شامل کیے گئے، کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اتحادی بی جے پی سے ناتا توڑ کر سیکولر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مل کر اَزسر نو حکومت تشکیل دی۔ یہ تو طے ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمایندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بھارت کی سیاست نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ مگر سوال ہے کہ کیا ۲۰کروڑ سے زائد افراد کو پس پشت ڈال کر اور ان کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور کسمپرسی کا احساس دلا کر اس نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے؟ بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
۵؍اگست ۲۰۲۲ء فلسطینیوں کے لیے سخت آزمایش کا دن تھا کہ اس روز ان پر اسرائیلی آتش و آہن کی بارش ہوئی۔ جس طرح ایسی آزمایشوں میں فلسطینی بھائی پہلے کامیاب ہوئے، اسی طرح اب بھی اللہ نے ان کے جذبۂ آزادی کی لاج رکھ لی۔
دوسری آزمایش یہ تھی کہ دُنیا بھر میں پھیلے ملّی برادارن اس مشکل اور آزمایش کی گھڑی میں کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟
تیسری آزمایش بین الاقوامی سطح پرانسانی آزادیوں، حقوق اور بین الاقوامی قراردادوں، بین الاقوامی معاہدات، اقوام متحدہ کی طے شدہ پالیسیوں اور بلندو بالا عالمی اداروں اور ایوانوں کے دعووں اور وعدوں کی بھی تھی۔ آزمایا یہ جانا تھا کہ عالمی ادارے اسرائیل کی اس نسل کشی اور فلسطین دشمنی کو اس بار بھی نظر انداز کر جاتے ہیں یا وہ اپنے ضمیر کی آواز پر جاگتے ہیں۔
فلسطینی عوام تو اپنے محاذ پر سرخرو ہوئے کہ وہ ڈٹے رہے، کھڑے رہے۔ لیکن دوسری دو آزمایشوں کا فیصلہ تاریخ کے حوالے کرتے ہیں کہ تاریخ انھیں سرخرو قرار دیتی ہے یا سیاہ رو ثابت کرتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ تین روزہ جنگی جارحیت بظاہر جمعے سے شروع ہو کر اتوار کی شب ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوئی۔ مصر کی مدد سے ہونے والی اس جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہم غزہ پر زیادہ وسیع اہداف کو سامنے رکھ کر پھر حملہ کریں گے‘‘۔
گویا فلسطینیوں کو موت اور خون کے اس دریا کے پار ایک اور دریا کا سامنا ایک بار پھر کرنا ہوگا۔ سہ روزہ اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران چھ کم سن فلسطینی بچوں، بچیوں اور کئی خواتین سمیت مجموعی طور پر ۴۶ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۵۰۰گھروں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ دو درجن کے قریب گھر مکمل تباہ ہوئے اور ۷۱ کو ایسا نقصان پہنچا کہ اب رہایش کے قابل نہیں رہے۔ تقریباً دو درجن دیگر کئی منزلہ عمارات بھی تباہ ہوئی ہیں۔
بجلی و پانی کا نظام متاثر اور ادویات کی فراہمی معطل ہونے سے ہسپتالوں میں علاج معالجہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ گویا زخمی فلسطینیوں کے زخموں پر جس طرح سفارتی اور انسانی حوالے سے مرہم رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے میدان میں کوئی موجود نہ تھا، اسی طرح ہسپتال کے معالجین بھی نظام کے تعطل کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہ رہے۔ یہ سب تو غزہ اور اہل فلسطین کے لیے ایک معمول کے درجے میں پہنچ چکا ہے۔ ان کے اغوا، گرفتاریاں، شہادتیں اور گھروں کی مسماری معروف معنوں میں دُنیا کے لیے کوئی خبر نہیں بلکہ معمول کا ایک کام ہے۔
اس بار اسرائیل نے برطانیہ کی مدد سے تیار کردہ ڈرون طیاروں کا استعمال فلسطینیوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے کیا۔ وہی ڈرون جن کے پرزوں کی فیکٹری پر برطانیہ میں فلسطینی احتجاج کر چکے ہیں کہ یہ پرزے اسرائیل کو ملنے سے فلسطینیوں کی ناحق جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں۔ احتجاج اپنی جگہ اور برطانوی کاشتہ صیہونی راج اپنی جگہ۔ جب امریکی صدر جو بائیڈن خود کو ’صیہونی‘ کہہ کر اسرائیل میں اپنا تعارف کرا رہے ہوں تو پھر اسرائیل کو فلسطینیوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے ڈرون اسی صیہونی سوچ کے تحت دیے جانے میں کوئی کیونکر رکاوٹ پیدا کر سکے گا۔
غزہ میں اس بار اسرائیل نے اپنے حملے کا بطور خاص ہدف ’اسلامی جہاد‘ کے نام سے سرگرم گروپ کو بنایا، اور یہ گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے پچھلے ماہ جولائی میں مشرق وسطیٰ کے دورے پر آنے سے تقریباً تین چار ہفتے پہلے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ارکان کانگریس نے ایک مشترکہ بل کانگریس میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو فضائی دفاع کو اجتماعی چھتری کے نیچے لانے کی تجویز تھی۔ اجتماعی دفاعی چھتری کے دو مقاصد بیان کیے گئے۔ ایک یہ کہ اسرائیل اور عرب دنیا کو ایران کے حملوں خصوصاً ڈرون حملوں اور میزائل حملوں سے بچانا۔ دوم یہ کہ خطے میں موجود امریکی فوجی اہلکاروں کو واپس اپنے گھروں کو جانے میں مدد دینا، کہ ان کی قیمتی جانوں کو خطرناک ماحول سے نکال لیا جائے ،کیونکہ امریکی کی جان ’قیمتی‘ اور ’مقدم‘ سمجھی جاتی ہے۔
بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے تو بھی ان کے دورے کی اصل ’کاروباری مہم‘ ایران اور ایران کی وجہ سے خطے کے ممالک کو درپیش خطرات سے منسوب تھی۔ ان کے کلام و بیان میں ایرانی خطرے کی ایسی تکرار تھی کہ صاف لگتا تھا کہ یہ ترکیب کارگر رہے گی اور جو بائیڈن کامیاب دورے کے بعد واپس جائیں گے۔ ان کی کامیابی میں اسرائیل کے حوالے سے معاہدے کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا عمل آگے بڑھانا اور خود امریکا کے لیے توانائی یا مالیاتی اعتبار سے وسائل اور امکانات کو ممکن بنانا تھا کہ نومبر میں ہونے والے امریکی درمیانی مدت کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت کا امکان پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ بصورتِ دیگر ۳۷ فی صد تک گر جانے والے مقبولیت کے گراف کے بعد جو بائیڈن اپنی جماعت کے لیے ’خطرناک‘ ہو چکے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کے دورے سے پہلے اور اس دورے کے دوران جو فضا بنائی گئی تھی، اس میں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ خطے میں جنگی ماحول اب زیادہ دور نہیں ہے کہ اسی صورت امریکی اسلحے کی فروخت کے امکانات بڑھیں گے اور امریکی مالیاتی مسائل میں کمی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
مبصرین اس اسرائیلی جارحیت سے مقابلتاً زیادہ پھیلی ہوئی جنگ کا ماحول دیکھ رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں اسلامی جہاد کو بطور خاص نشانہ بنا کر بقول اسرائیل ’ایرانی پراکسی جنگ‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں قائم ہوئے اسلامی جہاد گروپ کو فلسطین میں ایران کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ یہ گروپ اگرچہ حماس کے مقابلے میں ایک چھوٹا مزاحمتی گروپ ہے، مگر تصور یہ ہے کہ اسلحے کے اعتبار سے یہ کافی مضبوط گروپ ہے۔البتہ حماس کی راکٹ ٹکنالوجی زیادہ دور تک مار کرنے والی ہے۔
اسرائیل نے اس ایرانی حمایت یافتہ گروپ کے سیاسی شعبے کے رہنما سعد السعدی کو چند دن قبل مقبوضہ مغربی کنارے سے گرفتار کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس گرفتاری میں فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کی سہولت کاری کا بھی دخل تھا۔ یہ سہولت کاری انھوں نے جو بائیڈن کے اسرائیل آنے سے پہلے اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ اسی ملاقات میں طے کر دی تھی کہ نہ صرف جوبائیڈن کے دورے کے موقعے پر امن کو بحال رکھا جائے گا بلکہ سکیورٹی کے سلسلے میں دوطرفہ تعاون بھی برقرار رکھا جائے گا۔ اسی دو طرفہ تعاون کی تجدید نے اسرائیل کو اسلامی جہاد کے سیاسی شعبے کے اہم رہنما سعد السعدی کی گرفتاری کا موقع دیا تھا۔
اسرائیل نے ایک جانب یہ اہم گرفتاری کی اور دوسری طرف خود غزہ پر چڑھائی کر دی کہ اس گرفتاری کے بعد اسے خطرہ تھا کہ اسلامی جہاد گروپ اسرائیل پر حملہ کردے گا۔ اس حملے میں اگرچہ عام فلسطینی شہید، زخمی اور بےگھر ہوئے، مگر اسرائیل نے اسے صرف ’اسلامی جہاد‘ کے خلاف حملہ قرار دیا کہ یہ ایرانی حمایت یافتہ گروپ ہے۔
اسرائیل کی یہ کوشش کامیاب رہنے کا امکان نسبتاً زیادہ تھا کہ ایران کے بارے میں اس طرح کی بات مشرق وسطیٰ میں آسانی سے فروخت کی جا سکتی تھی، جیسا کہ جو بائیڈن نے بھی ایران کو ہی اپنا ’کاروباری ہدف‘ بنایا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران کی طرف سے سب اچھا قرار دیا جارہا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خطے کی ترقی و استحکام کے لیے ان مسلم ممالک کے درمیان تعلق کو سیاسی بہتری کے برعکس ان میں تصادم اور ٹکراؤ کو بڑھاوا دے کر امریکا نے اسرائیل کے لیے گنجایش اور سہولت پیدا کرنے کا موقع بنا لیا ہے۔
اسرائیل کی ناجائز ریاست کو اس وقت نسبتاً زیادہ قبولیت کے قابل بنا کر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا اور ایران کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے بجائے انھیں مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔یقیناً اس صورت حال میں خطے میں حقیقی امن و استحکام کا امکان بڑھانے کے بجائے کم کیا جا رہا ہے۔ یہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی مشرق وسطیٰ کے وسائل پر نظر رکھنے اور اپنے لیے ایک اچھی خرچیلی مارکیٹ پیدا کرنے کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔
اسی کو اسرائیل نے بروئے کار لاتے ہوئے ’ایرانی پراکسی جنگ‘ میں جوابی حملے کا نام دیا۔ ابھی زیادہ بڑے حملے کی دھمکی اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات ہونے والی جنگ بندی کے فوری بعد دے دی ہے۔گویا امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی سرپرستی میں اسرائیل غزہ کو کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، اور یہ ان حالات میں کیا جاتا رہے گا کہ جب ایک طرف خطے میں اسرائیل کے لیے ’نارملائزیشن‘ کی مہم جاری ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
افغانستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ ہمالیائی پہاڑی سلسلے ہندوکش کے دامن میں ۶لاکھ ۵۲ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ملک، دنیا میں رقبہ کے لحاظ سے ۴۱ ویں نمبر پر ہے، جب کہ آبادی کے لحاظ سے ۳۷ویں درجے پر آتا ہے۔ ملک میں زراعت کی روایتی فصلوں کے علاوہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی پیداوار نے اسے دنیا میں ممتاز حیثیت دی ہے۔
مہمان نوازی، افغان تہذیب و ثقافت کا اہم جز و ہے۔ مہمان نوازی کا بہترین مظاہرہ ہم نے کابل کے قریب وادی پغمان کے خوب صورت باغ میں ولی محمد صراف کے ہاں دیکھا۔ اسی موقعے پر صراف صاحب نے اپنی قید کی تفصیلات سنائیں تو سب دوست آبدیدہ ہوگئے۔ انھوں نے ۱۸سال بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتے نامو بے میں گزارے تھے۔ جہاں ان کے ساتھ انسانیت سوز اور بدترین سلوک روا رکھا گیا تھا ۔ ان کے ایک اور ساتھی روحانی صاحب بھی ان کے ساتھ اس جیل میں ۱۶سال تک ظلم و ستم سہتے رہے تھے اور اس وقت امارت اسلامی کے ایک اہم عہدے دار ہیں۔
۱۹ جو ن کی کانفرنس کے بعد کابل میں ہماری کئی اہم ملاقاتیں اور متعدد اہم اداروں کے دورے ہو ئے۔ افغان وزراء نے اپنے شعبوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین مستقبل کے تعلقات کار کے حوالے سے مفید تجاویز پر گفتگو رہی۔ اس کے علاوہ ایک اہم ملاقات کابل میں پاکستان کے تجربہ کار سفیر جناب منصور احمد خان کے ساتھ ہوئی، جوپاک افغان اُمور پر خاص دسترس رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ طورخم کراسنگ، پاکستانی ویزوں کے اجرا، پاک افغان تجارت ،طب اور تعلیمی شعبوں میں اشتراک عمل پر تفصیلی گفتگو رہی۔
ایک اہم ملاقات گلبدین حکمت یار سے کابل میں ہو ئی، جو افغانستان کے ساتھ پاکستان میں بھی ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ امارت اسلامی افغانستان کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔لیکن گاہے گاہے ان کے بعض اقدامات پر تعمیری تنقید بھی کرتے ہیں ۔ انھوں نے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا: ’’افغانستان کو امن اور مستحکم حکومت درکار ہے۔ افغان طالبان نے ایک بڑی طاقت کے خلاف جنگ جیتی ہے۔ اس لیے حکومت انھی کا حق ہے اور دنیا کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیے۔ البتہ، طالبان کو اپنی حکومت کے استحکام کے لیے آئینی ادارے قائم کرکے افغان قوم کی نمایندگی کو یقینی بنانا ہوگا‘‘۔ انجینئر صاحب اپنا زیادہ تر وقت علمی، تحقیقی کام اور تصنیف و تالیف میں گزارتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
وفد میں شامل صحافیوں ،ڈاکٹروں،تاجروں ،علمائے کرام اور طلبہ تنظیموں کے نمایندوں نے بھی ملاقاتوں اور مختلف سرکاری اور نجی اداروں کے دوروں میں بھرپور تبادلۂ خیال کیا۔ ان اداروں میں ’سلام یونی ورسٹی‘ الحیات ہسپتال،خدمت خلق کے دوملک گیر ادارے EHSAS اور HAS، صحافیوں کا ادارہ گہیز اور طلبہ تنظیم ’نجم‘ شامل ہیں ۔
جمعیت الاصلاح، افغانستان میں ایک اہم دینی و اصلاحی تحریک ہے۔ اس وقت ان کے سربراہ یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر اور دینی عالم مولانا ڈاکٹر محمد مزمل ہیں،جن سے ہماری ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی۔ پاک افغان تعلقات اورمستقبل کےمنظرنامے پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ وہ افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام اور مستقبل کے امکانات کے بارے میں پُراُمید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں ہم لوگ تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغان نوجوان طبقے تک اسلامی تعلیمات جامع انداز اور جدید اسلوب کے ساتھ پہنچانا ان کا بنیادی کام ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ٹی وی چینل، ریڈیو سٹیشن ،کتب کی اشاعت ،انٹرنیٹ کا استعمال ،درس قرآن جیسی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد اسماعیل صاحب اور مولانا حنیف اللہ صاحب کے ہمراہ پہلے ہم کابل کی تاریخی جامع مسجد پل خشتی گئے۔ وہاں ہماری ملاقات مسجد کے امام و خطیب اور مقامی طالبان رہنماؤں سے ہوئی، جو شہر کے بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ کابل کے مضافات میں واقع سید المرسلین مدرسہ کا بھی دورہ کیا۔وہاں ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے ۔ پھر ہم نے کابل سے جلال آباد کا سفر کیا، اور وہاں تین مدارس میں گئے۔ جہاں اکثر اساتذہ پاکستانی تعلیمی اداروں سے پڑھے تھے۔
دورے کے آخری دن ہم نے صوبہ کنڑ کا دورہ کیا۔سابق رکن افغان پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد ہمارے شریک سفر تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے، مدرسۃ البنات اور دارالیتامٰی دکھائے۔ کنڑ میں مجلس علمائے کرام اور قبائلی عمائدین سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے بتایا کہ ایک اہم ترین مسئلہ پاکستانی چوکیوں سے افغانستان کی جانب فائرنگ اور گولہ باری ہے۔جس کا ہدف تو تخریب کار ہوتے ہیں، لیکن اس کا شکار وہاں مقامی آبادی اور مویشی بھی بنتے ہیں۔
افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں افغانستان میں ایک طویل عرصے کے بعد ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو ئی ہے۔ ۳۴صوبے اور ۴۰۰ کے لگ بھگ اضلاع ایک نظام کے تحت آچکے ہیں۔اس وقت جو حکومت قائم کی گئی ہے اس کو عبوری دور قرار دیتے ہوئے مستقبل میں مستقل حکومت کے قیام کی بات کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کب قائم ہوگی؟ ملک کا باضابطہ دستور و آئین کب بنے گا اور کون بنائے گا؟کیا ملک میں کوئی پارلیمنٹ وجود میں لائی جائے گی اور اس کے لیے انتخابات کا طریقۂ کار اپنایا جائے گا یا وہ نامزد قومی جرگہ ہو گا؟ گذشتہ ماہ کابل میں امارت اسلامی نے ایک بڑی علما کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔جس سے خطاب کے لیے افغان طالبان کےامیر جناب مُلّا ہبت اللہ قندھار سے کابل تشریف لائے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مستقبل کا نقشۂ کار پیش نہیں کیا ۔ یقیناً تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ میں اس موضوع پر صلاح مشورے جاری ہیں ،کچھ عرصہ پہلے ایک دستوری ڈرافٹ بھی منظر عام پر آیا تھا، لیکن عوام کی شرکت سے جس شرعی نظام مملکت کی ضرورت ہے، اس کا انتظار ہے۔
افغانستان کا دوسر ا بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ایک سال گزرنے کے بعد ابھی تک پاکستان سمیت کسی ملک نے سفارتی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔یہ طالبان قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کئی ممالک کے سفارت خانے کابل میں فعال ہیں، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ آمد ورفت بھی جاری ہے ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بعض ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔ روس ،چین اور امریکا کے ساتھ سفارتی سطح پر ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن رسمی طور پر تسلیم کرنے کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
یہی معاملہ بین الاقوامی پروازوں کا بھی ہے۔ کابل،ہرات ،مزار شریف، قندھار سے بین الاقوامی پروازیں بند ہیں ۔صرف امدادی سامان لے کر جہاز اُترتے ہیں۔ حج کے موقعے پر سعودی عرب کے لیے حج پروازوں کی آمدورفت ہو ئی تھی ۔مقامی سطح پر ہوائی سفر ہو رہا ہے، پاکستان کے ساتھ باقاعدہ پروازیں بحال ہیں، لیکن باقی دنیا سے فضائی سفر نہ ہونے کے برابر ہے۔
پھر بین الاقوامی بنکاری اور رقوم کی ترسیلات کا معاملہ بھی معطل ہے۔ آج کل ملکوں کا دارومدار بیرونی ممالک میں مقیم شہریوں کے ترسیل کردہ زرمبادلہ پر ہے۔ مقامی طور پر خاندانوں کی معاشی حالت کا انحصار بھی اس پر ہے ۔لیکن اکثر ممالک کی پابندیوں کے باعث افغانستان میں بنک کے ذریعے قانونی طور پر ترسیل ممکن نہیں۔ اس لیے زیادہ انحصار ہنڈی کے ذریعے رقومات بھیجنے پر ہے۔
امریکا نے امریکی بنکوں میں جمع شدہ ۹ بلین ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کیا ہوا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے ۔اب صرف بعض شعبہ جات کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ایک محدود رقم افغانستان بھیجی جا تی ہے۔ اس لیے افغانستان ایک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہے ۔امارت اسلامی نے اپنی مدد آپ کے تحت ملکی محصولات میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے، جس سے کاروبار مملکت کو چلایا جا رہا ہے اور محدود پیمانے پر ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں ۔اقوام متحدہ کے اداروں ،اور کئی دوست ممالک کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی عوام کو ریلیف پہنچانے میں مدد دے رہی ہیں ،لیکن بڑے گمبھیر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ۔گذشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغان شہری بے روزگار ہو گئے ہیں۔ فوج، پولیس اہلکار غیر ملکی اڈوں اور افواج سے وابستہ افراد بے روزگاری کا شکار ہو ئے، جس سے ملک کی شہری آبادی خاص طور پر متاثر ہو ئی۔
یورپی ممالک اور امریکا نے بڑی تعداد میں افغانوں کو اپنے ملکوں میں بسانے کا متبادل منصوبہ پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو مغربی ممالک میں بسنے کا موقع نظر آیا تھا، لیکن وہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ جرمنی نے گذشتہ چند ماہ میں ۷ ہزار افغان باشندوں کو لے جانا تھا، لیکن صرف ایک ہزار کا بندوبست کیا گیا۔ طالبان حکومت کے خیال میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ افغان شہریوں کا ملک سے انخلا قومی نقصان ہے۔ امارت اسلامی نے بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ کابل انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا: ’’ہم نے کابل میں ۱۰ ہزار نوجوان پولیس میں بھرتی کر لیے ہیں، اور ۷۰ہزار جوانوں پر مشتمل سرکاری فوج تیار ہو چکی ہے‘‘۔
امارت اسلامی کے خلاف عالمی سطح پر سب سے بڑا الزام، خواتین کارکنان اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ چند ماہ قبل امیر تحریک طالبان کے حکم سے ساتویں جماعت سے بارھویں جماعت تک کے سرکاری اسکول بند کر دیئے گئے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مخلوط تعلیم کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،حالانکہ افغانستان میں صرف یو نی ورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم ہے، اور ثانوی سطح تک بچوں اور بچیوں کے علیحدہ تعلیمی ادارے ہیں ۔اس فیصلے پر بین الاقوامی سطح پہ شدید ردعمل ہوا اور مختلف اداروں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی گئی۔
طالبان کے ایک مرکزی وزیر انس حقانی نے بتایا: ’’ ۱۰ صوبوں میں تعلیم پر پابندی ختم کردی گئی ہے اور باقی صوبوں میں بھی بتدریج ختم ہو جائے گی۔ ہم یہ امر یقینی بنارہے ہیں کہ بچیوں کو صرف زنانہ اسٹاف پڑھائے، جب کہ بچوں کو مردانہ اسٹاف پڑھائے‘‘۔ گذشتہ دور میں محکمۂ تعلیم میں بڑے پیمانے پر خواتین کو بھرتی کیا گیا تھا۔صرف کابل میں ۳۲ ہزار اساتذہ میں ۲۸ہزار خواتین تھیں ۔ اس وقت پرائمری سطح پر بچیوں کی تعلیم جاری ہے اور یونی ورسٹیوں، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں بھی طالبات زیر تعلیم ہیں ۔تاہم، مجموعی طور پر بچیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں جرمنی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری، پشاور میں ہمارے انسٹی ٹیوٹ آئے تھے اور انھوں نے بھی افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا:’’افغان بچیوں کی تعلیم افغان ملت اور ان کی قیادت کا معاملہ ہے۔ آپ انھیں خود اپنے مسائل حل کرنے دیں ۔آپ اگر ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو مشروط طور پر نہ کریں‘‘۔
امارت اسلامی افغانستان کو ’داعش‘ کی موجودگی اور اس کی جانب سے تخریب کاری سے امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ ہم جس روز کابل پہنچے تھے، اسی دن کابل میں سکھوں کے گردوارے پر حملہ ہوا تھا۔ملک میں بعض مقامات پر گذشتہ حکومت کے حامی جتھے بھی موجود ہیں ۔لیکن امارت اسلامی کی قیادت بااعتماد ہے اور ان معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ پا ک افغان تعلقات ہیں۔اس سلسلے میں طورخم بارڈر پر پاکستانی اہلکاروں کی بدسلوکی اور مناسب اقدامات کے فقدان کا فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ افغانستان کے شہریوں کے لیے پاکستانی ویزے کا حصول ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے افغان طالبان تک کی صفوں میں بھی قوم پرستی کے جذبات اور اشتعال موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں اور ان کے درمیان سماجی رابطوں میں ویزہ ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔بڑی تعداد میں افغان مریض پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کاروباری حضرات کے لیے بھی ویزہ فوری طور پر درکا ر ہوتا ہے۔ لیکن ہماری ویزہ پالیسی ان زمینی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، جس پر نظر ثانی کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستانی طالبان (TTP) کی بڑی تعداد میں افغانستان میں موجودگی اور پاکستان میں ان کی سرگرمیاں اور تخریب کاری کے بڑھتے ہو ئے واقعات اہلِ پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔پاکستانی فوج کی ایما پر امارت اسلامی کے قائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان سے مذاکرات کا پابند کیا گیا ۔ جس کے کئی دور چلے ،باقاعدہ سیز فائر کا بھی اعلان ہوا۔قبائلی وفود اور علما کا وفد بھی گیا، لیکن تاحال مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی نظام کی بحالی اور اسلحہ سمیت ان کی موجودگی پاکستان کو قبول نہیں ہے۔ مذاکراتی عمل معطل ہے اور سیز فائر کی خلاف ورزی بھی جاری ہے۔ کابل میں ایک افغان طالب رہنما نے بتایا کہ ہم نے ان کے رہنماؤں سے کہہ دیا ہے: ’’آپ کو پاکستان سے لازماً مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنا ہو گا، بصورت دیگر ہم آپ کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہیں رہنے دیں گے اور بالائی علاقوں میں منتقل کر دیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ افغانستان کے سرحدی صوبوں ،کنڑ،لوگر، پکتیا، خوست، پکتیکا وغیرہ میں ۲۰سے ۲۵ ہزار پاکستانی طالبان اپنے بال بچوں سمیت مقیم ہیں۔ افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت تھی اور ناٹو اور امریکی افواج کی موجودگی میں یہ لوگ باآسانی افغانستان منتقل ہوکر آباد ہوگئے تھے۔
۱۵؍ اگست کو افغانستان کے طول و عرض میں ایک سالہ امارت اسلامی کے قیام کا جشن منایا گیا۔تمام شہروں میں باقاعدہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جس میں اعلیٰ ملکی قیادت شریک ہو ئی۔کئی جگہ جلوس بھی نکالے گئے اور عوامی ریلیاں بھی منعقد ہو ئیں ۔یہ سب آثار افغانستان کے روشن مستقبل کی اُمید دلاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امارت اسلامی کی قیادت دانش مندی اور حکمت سے ملک میں دیرپا امن قائم کرنے اور ریاستی اداروں کے قیام میں کامیاب ہو ۔آمین!
حاکم اور محکوم کے تعلق کو سیاسی فلسفے کی اصطلاح میں ’معاہدۂ عمرانی‘ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسی ریاست، جو کسی معاہدے پر اتفاق کے نتیجے میں قائم ہو ، اس کا تصور تو قدیم یونانی دور میں بھی موجود تھا۔ تاہم، ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں یورپی فلسفیوں تھامس ہوبز [م:۴دسمبر ۱۶۷۹ء] ، جان لاک[م:۲۸؍اکتوبر ۱۷۰۴ء] اور فرانسیسی فلسفی ژین ژاک روسو [م:۲جولائی ۱۷۷۸ء] نے اس تصور کی بجاطور پر وضاحت کی۔ان کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ سب انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں، سب برابر اور مساوی ہیں، مگر وہ اپنی فطری آزادی کو زندگی گزارنے اور مال و جائیداد کی ملکیت کے حقوق کے بدلے، شفاف قوانین کے تحت، ریاست کے حوالے کر دیتے ہیں۔
جان لاک نے اس بات پر زور دیاہے کہ ’ریاست کی تابع داری شہریوں کے بنیادی فطری حقوق کی حفاظت سے مشروط ہے۔ ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے حکمران کو اقتدار سے بجاطور پر نکالا جا سکتا ہے۔ جدید جمہوری ریاست میں من مانے اختیارات کی کوئی گنجایش نہیں‘۔
اگر ان بنیادی اقدار کا اطلاق حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت میں بنگلہ دیش کی موجودہ صورت حال پر کیا جائے، تو ہر سمجھ دار شخص اس نتیجے پر پہنچے گا کہ بنگلہ دیش اپنے حکمرانوں کی طرف سے عمرانی معاہدے کی یک طرفہ اور صریح خلاف ورزیوں کی وجہ سے ریاست ہی نہیں رہا۔
۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۶ء تک ملک کی مختلف جیلوں (ڈھاکہ کی قدیم مرکزی جیل، قاسم پور اور راج شاہی کی جیل) میں قید و بند کے تقریباً پانچ برسوں کے دوران، مَیں درجنوں ایسے نوجوانوں سے ملا ہوں، جن کی ٹانگیں پولیس کے تشدد کی وجہ سے ضائع ہو چکی تھیں۔ کئی نوجوانوںکو (جن میں سے کئی بالکل نو عمر تھے) بلاوجہ گرفتار کیا گیا تھا اور تھانوں کے اندر ظلم کے دوران ان کے گھٹنوں کے خول بندوق کے بٹ مارمار کر توڑ دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے بعدازاں ایسے مجروحین کی ٹانگوں کو کاٹنا پڑا تھا۔ میں نے جیل میں قید کے دوران، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگی کی ہولناک داستانیں بھی سنیں۔ پھر خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح پولیس تھانوں میں نوجوانوں پر تشدد کے بعد ان کو نیم مردنی کے عالم میں ان کی کال کوٹھڑیوں میں واپس لایا جاتا تھا۔ متعلقہ اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق تو ان لوگوں کاکوئی وجود ہی نہ تھا ۔ ذہنی اذیت دینے اور دھمکانے کے لیے ایک طریقے کے طور پر مجھے جسمانی تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات دکھائے گئے۔کچھ پولیس اہلکاروں نے مجھے فخریہ انداز سے یہ بتایا کہ ’’ہم نے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے فن اور سائنس کی تربیت امریکا سے حاصل کی تھی‘‘۔
روسوکے مطابق ریاست ایک اخلاقی وجود ہے، جو عوام کی مرضی کے مطابق قوانین بناتی ہے، تاکہ سب شہریوں کو آزادی اور مساوات میسر ہو۔ اگر کوئی فرد یا کچھ افراد کا گروہ، عوام کا اختیار سلب کرتا ہے، تو معاہدۂ عمرانی کے نظریہ سازوں کے مطابق، شہریوں پر ریاست کی فرماں برداری کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی اور بغاوت کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ان کےلیے جائز ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھاکا کی موجودہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی اور بنگلہ دیش کے عوام غیرقانونی، فسطائی اور آمرانہ حکومت کے خلاف ضرور اُٹھ کھڑے ہوں گے۔
جہاں تک خود مختاری کا مسئلہ ہے تو اقوام متحدہ کا اعلامیہ واضح طور پر کہتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کوئی رکن ملک یا خود اقوام متحدہ بھی کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ بد قسمتی سے بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے اپنی خود مختاری کو غلامانہ رضامندی، ڈھٹائی اور بڑی بے شرمی سےبھارت کے سامنے گروی رکھ دیا ہے۔
بھارت کے سابق صدر [۱۷-۲۰۱۲ء] پرناب مکھر جی نے اپنی سوانح اتحاد کے سال ( The Coalition Years: 1996-2012) میں لکھا ہے کہ ’’بھارت کی حکومت نے [عوامی لیگ] حسینہ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ۲۰۰۸ء میں بنگلہ دیش کےانتخابات کے نتائج کا فیصلہ انتخابات کے انعقاد سے تقریباً دس ماہ پہلے ہی کر لیا تھا‘‘۔ پرناب مکھر جی نے بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ جنرل معین کو یقین دلایا کہ ’’شیخ حسینہ کی حکومت میں وہ اپنے عہدے پر برقرار رہے گا‘‘۔ نئی دہلی کی براہِ راست اور صریح مداخلت کی وجہ ہی سے حسینہ واجد ۲۰۰۸ء سے اپنی گرفت قائم رکھے ہوئے ہے۔
۲۰۱۴ء میں اس وقت، اُمورِ خارجہ کے بھارتی سیکرٹری سجاتا سنگھ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور حسینہ کی حکومت کو جواز دینے کی خاطر محض دکھاوے کے، اور اصلاً یک جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) حسین محمد ارشاد پر دباؤ ڈالا۔ امریکی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لیے حسینہ واجد نے واشنگٹن کا بھی ایک چکر لگایا۔ اس وقت بنگلہ دیش میں امریکی سفیر ڈان موزینا نے فوری طور پر دہلی کا رخ کیا اور بنگلہ دیش میں آزاد اور منصفانہ ، اور سب کی شمولیت کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کی درخواست کی، جو بے کار گئی، کیونکہ امریکی سفیر کی بات بھارت کے دارالحکومت میں جھٹک دی گئی اور اس کو خالی ہاتھ واپس آنا پڑا۔ اس طرح واشنگٹن انتظامیہ کو جنوبی ایشیا میں اپنے اسٹرے ٹیجک اتحادی کے ایما پربنگلہ دیشی آمرانہ حکومت کو اپنے ہی عوام پر ظلم و ستم جاری رکھنے کی اجازت دینا پڑی۔
۲۰۱۸ میں حسینہ واجد نےاپنی ایک پریس کانفرنس میں فخریہ کہا تھا: ’’میں نے بھارت کے لیے جو کچھ کیا ہے اسے ’پڑوسی‘ ہمیشہ یاد رکھے گا‘‘۔بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی ترجمان نوپورشرما کی طرف سے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پرعالم اسلام میں سفارتی سطح پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، مگر اس معاملے میں بھی بنگلہ دیش حکومت نے بھارت کی مذمت سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ ہندو نسل پرست حکومت کی تعریف کی۔ ایک سابق جنرل، حسن سہروردی کا دعویٰ ہے کہ ’’بنگلہ دیش کی فوج کے سربراہ کے تعین کا اختیار، دہلی کےپاس ہے‘‘۔
۱۷ کروڑ کی آبادی، جس میں ۹۰ فی صد مسلمان ہیں، اس ملک بنگلہ دیش پربھارتی تسلط کے ہر طرف بکھرے ثبوت بڑی آسانی سے پیش کر سکتا ہوں، مگر میرے خیال میں حسینہ واجد کی بدعنوان، غیرجمہوری، غیراصولی اور فسطائی ۱۴ سالہ حکومت کے چلن کو دیکھنے کے بعد ایسے کسی مزید ثبوت کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ بین الاقوامی برادری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں بنگلہ دیش غیرعلانیہ طور پر بھارت کی طفیلی ریاست بن چکا ہے۔
راقم نے حال ہی میں اس خطے کی سیاسی و زمینی صورت حال پر ایک تحقیقی کام مکمل کیا۔ اس ہوش ربا تحقیق کے مطابق سارک ( SAARC) ممالک میں سے بنگلہ دیش اور بھوٹان کے حکمرانوں نے بھارتی جارحیت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بھارت ۱۹۴۷ سے ہی جنوبی ایشیا میں استعماری عزائم اور بڑی طاقت بننے کے خبط میں مبتلا چلا آرہا ہے۔ تاہم، بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت اور فوجی قوت کے باوجود،علاقائی او ر عالمی حیثیت حاصل کرنے کے لیے اس کا خواب متزلزل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا میں نئی دہلی کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اتحادی حسینہ واجد نے، نہ صرف جمہوری انتخابی نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے بلکہ بنگلہ دیشی عوام کی آزادی تک کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے، جس کے نتیجے میں اب وہاں مکمل فاشسٹ آمریت برقرارہے۔ مسلم دشمن بھارتی سرکار کی مسلسل آشیرباد کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیشی حکومت بلاجھجک، ظالمانہ ہتھکنڈے اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم اس مختصر تجزیے کا اختتام ان الفاظ پر کریں گے کہ بنگلہ دیش کے غیور عوام کے بھارتی تسلط کے خلاف شدید جذبات رکھنے کے باوجود بھارت، بنگلہ دیش میں اپنے سیاسی و نظریاتی اتحادیوں کی بدولت اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن عوام کی طرف سے تائید اور اعتماد اس کو کبھی حاصل نہ ہوگا۔
درحقیقت ڈھاکا پر مسلط موجودہ ٹولے کی بھارت کے حوالے سے محکومانہ خارجہ پالیسی اور بنگلہ دیش کی داخلی سیاست میں بھارتی مداخلت نے یہاں کے عوام کو سخت پریشان کیا ہے جس کے نتیجے میں بھارت مخالف جذبات میں رفتہ رفتہ شدت آرہی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں ’نسل پرست برہمنی لہر‘ ، ۲۱ویں صدی میں انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست کی ایک انتہائی کریہہ شکل ہے۔ اس طرح بھارت کی اندرونی سیاست میں تبدیلی نےپورے جنوبی ایشیا کو خطرناک غیریقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔
جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے قانون کے تحت برطانوی ہند کی ریاستوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہاں کے حکمران پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے وقت ریاستی عوام کی خواہشات کو پیش نظر رکھیں گے۔ ریاست جموں و کشمیر کا حکمران غیرمسلم تھا، جس پر مظلوم، محکوم اور اکثریتی مسلمانوں کا اعتماد نہیں تھا کہ اُس نے ان پر زندگی تنگ کر دی تھی۔ چنانچہ، قیامِ پاکستان سے قبل ہی ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو ریاستی مسلمانوں کی نمایندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سرینگر میں سردار محمد ابراہیم خان جوکہ ریاستی اسمبلی کے ممبر اور مسلم کانفرنس کے چیف وہپ تھے، اُن کی رہایش گاہ پر اپنے اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد کےذریعے مہاراجا سے الحاقِ پاکستان کا مطالبہ کیا۔
۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو قیامِ پاکستان کے بعد مہاراجا نے بظاہر پاکستان سے ’معاہدہ قائمہ‘ کیا، لیکن درونِ خانہ بھارت سے معاہدہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ بیدارمغز کشمیری قیادت نے ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہی مہاراجا کے خلاف راولاکوٹ کے مقام پر ۳۰ہزار نیشنل گارڈز کی موجودگی میںبغاوت کا اعلان کرکے مسلح جدوجہد آزادی کا آغاز کردیا۔ اس طرح پہلے مرحلے میں مختصر علاقے کی آزادی حاصل کرکے ۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ایک جانشین انقلابی حکومت کے قیام کااعلان کردیا، اور پلندری کو دارالحکومت سے قرار دیا۔
مجاہدین کی یلغار اور ریاستی اقتدار سے محروم ہوتے مہاراجا کی طرف سے سازباز کرتے ہوئے ایک نام نہاد دستاویز ہندستان کے ساتھ الحاق کرکے اور مجاہدین آزادی کی سرکوبی کی غرض سے بھارتی فوج سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اپنی فوجیں ریاست جموں و کشمیر میں داخل کردیں اور خودمعاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ بھارتی اور پاکستانی نمایندوں کے ساتھ کشمیریوں کے نمایندہ اور انقلابی حکومت کے صدرسردار محمدابراہیم خان کا موقف سننے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ قراردادیں منظور کیں، جن کے ذریعے بھارت سے مہاراجا کے الحاق کو غیرقانونی اور غیرمؤثر قرار دیتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا۔ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرکے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب رائے کے لیے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر بھی کردیا۔ فائربندی اور سیزفائر لائن کےتعین کے لیے بھی کمیشن مقرر کیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے عالمی برادری کے سامنے اُن قراردادوں کو تسلیم کیا۔
آزاد علاقوں کے نظم و نسق اور دفاع کے لیے آزادحکومت جموں و کشمیر کو لوکل اتھارٹی تسلیم کرتے ہوئے ’آزاد جموں و کشمیر فورسز‘ (AJKF)کو بحال رکھنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔ بھارت، اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے رائے شماری کے لیے اقدامات سے گریزاں رہا۔ چنانچہ، حکومت ِ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کا نظام بہتر طورپرچلانے اور بقیہ ریاست کی آزادی کے حوالے سے ایک جامع حکمت عملی اختیار کی۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تسلیم شدہ ’لوکل اتھارٹی آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر‘ کے تحت ۲۸مارچ ۱۹۴۹ء کو کراچی میں ایک معاہدہ کیا، جو ’معاہدۂ کراچی‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے پر حکومت پاکستان کی جانب سے مشتاق احمد گورمانی ،صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سردار محمد ابراہیم خان اور صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس چودھری غلام عباس نے دستخط کیے۔ جس کے تحت گلگت بلتستان کی انتظامی نگرانی حکومت پاکستان کے سپرد کردی گئی، جب کہ آزاد جموں و کشمیر میں قائم حکومت کو مستحکم کیاگیا۔ اس وقت سے یہ لوکل اتھارٹی اپنے دارالحکومت مظفرآباد میں ساڑھے چار ہزار مربع میل کے علاقے پر اس صورت میں قائم ہے کہ اس حکومت کا اپنا صدر،وزیراعظم، سپریم کورٹ، آئین، ریاستی پرچم،ریاستی ترانہ اور قانون ساز اسمبلی موجود ہے۔ تاہم، گلگت بلتستان میں معقول، فعال اور عادلانہ نظام تشکیل نہیں دیا جاسکا، جس پر یہاں کے عوام میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
’معاہدۂ کراچی‘ کے علاوہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر اور حکومت پاکستان کے درمیان معاملات کو چلانے کے لیے رولز آف بزنس ۱۹۵۰ء، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۸ء ترتیب دیے گئے۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۶۰ءکے صدارتی انتخاب میں کے ایچ خورشیدصدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں ایک ایکٹ منظور کیا گیا، جسے بعد میں ایکٹ ۱۹۶۸ء میں تبدیل کیا گیا۔ یہ ایکٹ کسی طور پر بھی ایک ریاستی حکومت کے شایانِ شان نہیں تھا۔ پھر اس کو ایکٹ ۱۹۷۰ء کے ذریعے تبدیل کیا گیا اور آزاد ریاست جموں و کشمیر میں ۱۹۷۰ء میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ۲۵رکنی ریاستی اسمبلی اور براہِ راست انتخاب کے ذریعے صدر ریاست نے نظامِ حکومت سنبھالا۔
بھارت نے ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنادیا۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب فوجی اور سول پاکستانی بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ اُس صورتِ حال میں، صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو، شملہ گئے اور جولائی ۱۹۷۲ء میں بھارت کے ساتھ ’معاہدۂ شملہ‘ پردستخط کیے۔ جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں سیزفائرلائن کو کنٹرول لائن تسلیم کرلیا گیا، اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات کو باہم بات چیت کے ذریعے حل کرنا طے پایا۔
۱۰جون ۱۹۷۴ء کو آزاد ریاست جموںو کشمیر میں بھی پارلیمانی طرزِ حکومت کے لیے، کشمیری قیادت نے حکومت پاکستان سے ’معاہدئہ اسلام آباد‘ کیا۔ اس کے تحت آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے ۲۴؍اگست ۱۹۷۴ء کو ’عبوری آئین ایکٹ‘ پاس کیا، جو فوری طور پر نافذالعمل ہوا۔ اس ایکٹ میں پہلی بار وزارتِ اُمور کشمیر پاکستان کی موجودگی میں ۱۴رکنی کشمیر کونسل کا وجود تخلیق کیا گیا، جس کا چیئرمین وزیراعظم پاکستان/چیف ایگزیکٹو کو رکھا گیا، جب کہ چھ ممبران کا انتخاب آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی قانون سازاسمبلی نے کرنا مقرر کیا۔ پھر پانچ ممبران کو چیئرمین کونسل، پاکستان کی پارلیمنٹ سے نامزد کرتا ہے۔ وزیراُمورِ کشمیر کو بربنائے عہدہ ممبرقرار دیتے ہوئے ووٹ کا حق دیا گیا۔ صدر آزاد جموں و کشمیر کو، کشمیر کونسل کا وائس چیئرمین قرار دیا گیا۔ یہ کونسل، ایکٹ ۱۹۷۴ء کی دفعہ ۲۱ کےتحت معرضِ وجودمیں آئی، تاہم مختلف آئینی ترامیم کے ذریعے اس کے اختیارات میں رَد وبدل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء میں تیرھویں ترمیم کے بعد کشمیر کونسل کے بیش تر اختیارات حکومت ریاست جموں و کشمیر، قانون ساز اسمبلی اوروزیراعظم پاکستان کو منتقل کر دیے گئے۔ یوں کونسل کی حیثیت محض ایک مشاورتی ادارے کی سی رہ گئی۔اس طرح آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا پارلیمانی نظام بے اختیار ہوکر رہ گیا۔
پھر ’آزاد جموںو کشمیر آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء‘ میں ۱۳ویں ترمیم ’ایکٹ ۲۰۱۸ء‘ کے نام سے وفاقی کابینہ نےاپنے اجلاس میں منظوری دے کر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی اورکونسل کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے منظور کرا لیا۔ ہائوس میں اسمبلی کے ۴۹ ممبران، کشمیر کونسل کے ۶ممبران اور وزیر اُمورکشمیر ایک ووٹ ڈالتے ہیں۔ یکم جون ۲۰۱۸ء کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے۵۶ میں سے ۳۵ ووٹروں کی اکثریت سے ترمیم منظور کی۔ اس طرح سیکشن ۳۱ ،اور ۳۳ میں بڑی تبدیلیاں کر دی گئیں۔ حزبِ اختلاف کے ممبران نے سیکشن ۳۱ میں تبدیلیوں پر شدید اعتراض کرتے ہوئے بطورِ احتجاج واک آؤٹ کیا۔
آرٹیکل ۶ میں پہلے صدر ریاست پر عدم اعتماد کے لیے مشترکہ اجلاس بلایا جاتا تھا، مگر اب قانون ساز اسمبلی کی ایک تہائی تعداد یعنی ۱۷ ممبران اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک پیش کرسکتےہیں۔ آرٹیکل ۱۴ کی شق کے تحت وزرا کی تعداد کل ممبران اسمبلی کا ۳۰فی صد طے کی گئی ہے۔ آرٹیکل ۱۴-اے کے تحت اب وزیراعظم آزاد کشمیر، پانچ پارلیمانی سیکرٹریوں اور دو معاون خصوصی یا مشیر بھی تعینات کرسکتے ہیں۔ آرٹیکل۱۷ کی شق ۳ کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کی عدم موجودگی میں سینئر وزیر، قائم مقام وزیراعظم ہوتا تھا۔ آرٹیکل ۱۸ کی ایک شق میں ترمیم کے بعدوزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کل ممبران کا ۲۵ فی صد یعنی ۱۳ ممبران پیش کریں گے۔ قبل ازیں ایک ممبر بھی تحریک پیش کرسکتا تھا۔ اسی طرح بہت سی جگہوں پر ’جائنٹ سیشن‘ کے بجائے ’حکومت آزاد کشمیر اور قانون ساز اسمبلی‘ سے تبدیل کر دیا گیا۔ آرٹیکل ۱۹ میں نئی شقیں شامل کی گئیں، جس کے مطابق حکومت پاکستان کی وزارت ڈویژن یا ادارے کے ذریعے ریاست کے اندر قانون کے تحت ہی اقدامات کرسکےگی، اور دوسری شق میں آزاد کشمیر حکومت کو ۱۱مئی ۱۹۷۱ء کے وفاقی کیبنٹ ڈویژن کے مراسلے کے تحت رکھا گیا ہے۔
عبوری آئین ایکٹ ۱۹۷۴ء کے آرٹیکل ۲۱ میں کشمیر کونسل کے اختیارات کا تعین واضح تھا۔ جس میں ترامیم کے بعد ۱۴ میں سے ۷ شقیں نکال دی گئیں اور کونسل کو ایک مشاورتی باڈی بنادیا گیا ہے۔ آرٹیکل ۲۲ میں ترمیم کرکے اسمبلی کی نشستیں ۴۹ سے بڑھا کر ۵۳ کردی گئیں۔ ۴۵ پر براہِ راست، جب کہ پانچ خواتین، ایک علماء مشائخ /ٹکنوکریٹ اور ایک سمندرپار کشمیریوں کے لیے مختص ہے۔ یہ بات خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ ۴۵ نشستوں میں ۱۲نشستیں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کی نمایندگی کے لیے رکھی گئی ہیں، جن پر وادیٔ کشمیر سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین چھ نشستوں پر، جب کہ جموں کے علاقوں سے آنے والے مہاجرین چھ نشستوں پر ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔
آرٹیکل ۲۷ میں بھی ترمیم کی گئی، جس کے مطابق تین ماہ میں ایک دفعہ اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری تھا، جو اَب سال میں ۶۰ دن ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ترمیم کی گئی ہے کہ ’جائنٹ سیشن‘ کے بجائے ’اسمبلی دو تہائی اکثریت سے‘ آئینی ترمیم کرسکتی ہے۔ آرٹیکل۳۷ کو بھی ختم کیا گیا، جس کے تحت کشمیر کونسل اپنے پاس ریونیوجمع کیا کرتی تھی۔ اسی طرح آرٹیکل ۴۲-اے کے تحت سپریم کورٹ رولز بنانے کے لیے اب کشمیر کونسل کے بجائے حکومت آزاد کشمیر سے مشاورت کرے گی۔ آرٹیکل ۴۳ میں نئی شقوں کے تحت صدر آزاد کشمیر، وزیراعظم آزاد کشمیر کی مشاورت سے شریعت بنچ میں عالم جج مقرر کرسکیں گے۔ آرٹیکل ۵۰ میں الیکشن کمشنر کے بجائے اب الیکشن کمیشن ہوگا، جو تین ارکان، چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل ہوگا۔ آرٹیکل۵۱-اے کے تحت کونسل کے جملہ اثاثہ جات اور فنڈز آزاد کشمیر حکومت کو منتقل کیے گئے ہیں اور آرٹیکل ۵۲-سی کے تحت ریاست کے قدرتی وسائل پر حکومت پاکستان کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔
۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے دفعہ ۳۷۰ کو ختم کرتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر کو انڈین یونین ٹیرٹری،(بھارتی مملکت کا حصہ) قرار دیا اور دفعہ ۳۵-اے ختم کرکےغیر ریاستی غیرمسلم افراد کو ریاست جموں و کشمیر میں آباد کرنے اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کرکے یہ پیغام دیا کہ اب ہمیں کشمیریوں کی نہیں صرف کشمیر کی ضرورت ہے۔ اس طرح کشمیریوں کی نسل کشی کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے اور انھیں ’ریڈ انڈینز‘ کی طرح اقلیت بنانے کا گیٹ کھول دیا گیا ہے۔ ۷۳برسوں میں ایک طرف بھارت نے متعدد کشمیری لیڈروں کو مراعات دے کر اور شریکِ اقتدار کرکے بھارتی بنانا چاہا، کچھ لوگوں کو خرید کر مرکزی حکومت میں وزارتیں اور ریاستی حکومت میں اہم ذمہ داریاں بھی دیں، مگر دوسری طرف چھ لاکھ کشمیریوں کو شہید کرکے بھی کشمیریوں کو ریاستی دہشت گردی سے بھارتی نہیں بناسکا۔
افسوس کہ بھارت کے اس اقدام کے خلاف کوئی جوابی لائحہ عمل دینے کے بجائے ۱۵ویں ترمیم کے ذریعے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششوں میں مصروف لوگ یہ بات بھول گئے کہ آج ہم چین کے ساتھ عظیم اور لازوال دوستی کی بات کرتے ہیں اور معاشی ترقی کے لیے ’سی پیک‘ ریڑھ کی ہڈی قراردےرہے ہیں، تو جب ہم نے ۱۹۶۳ء میں ریاست جموں و کشمیر کا ۱۲ہزار مربع میل کا علاقہ ’بائونڈری ٹریٹی‘ کے ذریعے چین کے حوالے کیا تھا، اس وقت بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان، ریاست کے کسی حصے کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرسکتا۔ اب، جب کہ بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کو باقاعدہ بھارت کا آئینی حصہ قرار دے دیا ہے اور ہم خاموش تماشائی ہیں تو بھارت گلگت کو صوبہ بنانے کے عمل پر کیونکر خاموش رہ سکتا ہے۔ درحقیقت یہ خاموشی دونوں ممالک کے درمیان ریاست جموں و کشمیر کی بندربانٹ کے علاوہ اور کوئی پیغام نہیں دے سکے گی۔
ان حالات میں اس وقت آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے اندر ایک بااختیار حکومت کو پوری دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے بجائے ۱۵ویں ترمیم کے ذریعے ایک بلدیاتی ادارہ بنانے کی کوشش نے آزاد ریاست کے اندر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی اور تمام سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اندر متفقہ طور پر ریاستی ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور اختیارات واپس کشمیر کونسل کے حوالے کیے جانے کے لیے ۲۶صفحات پر مشتمل ۱۵ویں ترمیم کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اور پوری ریاست کے اندر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بھارت اسی احتجاج کو پاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر استعمال کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ ساتھ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے کسی بھی مرحلے پر وہ اقوام متحدہ سے رائے شماری کے لیے کہتے ہوئے پوری ریاست پر اپنے ناجائز قبضہ کو جائز قرار دلوانے کی طرف بڑھ سکتا ہے، جب کہ عاقبت نااندیش پاکستانی حکمران محض گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر قناعت کرتے نظر آرہے ہیں۔
سری لنکا کے حالات خود ان سری لنکائیوں کے لیے غیر متوقع ہیں، جو اپنے ملک کو ’غیربودھوں‘ سے پاک کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے یہ ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت دیکھ کر ہی راجا پاکسا خاندان کو ملک کی باگ ڈور تھمائی تھی۔
یہ ملک نیم جمہو ری ہے۔ یہاں وزیر اعظم توہوتا ہے، لیکن حکومت کا سربراہ صدر ہی ہوتا ہے۔صدر ہی وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں سے ’ عاملہ اختیارات‘ کا استعمال کرتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ جس وقت سری لنکائی عوام پاکسا خاندان کو منتخب کر رہے تھے، ان کے سامنے اس خاندان کا اور خاص طور پر ’گوٹابیا راجا پاکسا‘ کا ماضی اپنی کریہہ شکل کے ساتھ موجود تھا۔انھیں علم تھا کہ یہی شخص ہزاروں شہریوں کو گھیر کر ان پر بمباری کرکے موت کے گھاٹ اتارنے کا ’اعزاز‘ رکھتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر گوٹابیا کی بدنامی کے باوجود ووٹروں نے انھیں منتخب کیا۔ گوٹابیا ۲۰۰۹ء میں جب ڈیفنس سیکریٹری تھے تو انھوں نے پہلے ہزاروں تملوں کو امان دینے کے وعدہ پر ’نوفائر‘ زون میں دھکیلا اور پھر دھوکے سے ۴۰ ہزار لوگوں کو گیس سے گلا گھونٹ کر اور بمباری کرکے ماردیا۔ اس وقت ان کے بھائی مہندا راجا پاکسا صدر تھے۔ اسی دوران انھوں نے ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر وی پربھاکرن کو بھی ماردیا تھا۔پاکسا خاندان نے سری لنکا کو ذاتی ملکیت میں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس وقت بھی اس کے ۱۲ممبران ہی حکومت چلارہے تھے۔
سری لنکا ایک عرصے تک ’لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم‘ (ایل ٹی ٹی ای) نامی تنظیم کی خونی دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔’ایل ٹی ٹی ای‘ شمال مشرقی سری لنکا میں قائم تھی۔اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ۱۷فی صد تمل ہندوئوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے‘‘۔یہ تنظیم شمال مشرقی سری لنکا میں تملوں کے لیے ایک الگ ریاست ’تمل ایلم‘ قائم کرنا چاہتی تھی۔اس تمل قوم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں انگریز اپنے چائے کے باغات میں محنت مزدوری کرانے کے لیے ہندستان سے لائے تھے۔ ان کا اعتراض تھا کہ ’’سری لنکا کی اکثریتی آبادی اور حکومت ان کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے‘‘۔
تملوں اور (اکثریتی آبادی) بودھوں کے درمیان ہمیشہ کش مکش رہی۔اس کش مکش کا سبب لسانی اور ثقافتی فرق بھی تھا۔ تمل ہندو، سری لنکائی لہجے میں تمل زبان بولتے ہیں اور بودھ زیادہ تر سنہالی زبان بولتے ہیں۔سری لنکا کے بودھ اپنی زبان کے حوالے سے اتنے متعصب ہیں کہ پارلیمنٹ میں سرکاری زبان کے ایکٹ (۱۹۵۶کی شق ۳۳) کے مطابق یہ قانون پاس کردیا گیا تھا کہ ’’سیلون (سری لنکا کا پہلا نام) میں انگریزی کے بجائے صرف سنہالی زبان ہی بولی جائے گی‘‘۔ اس کے بعد تملوں کابڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔’تمل سینٹر فار ہیومن رائٹس‘ (TCHR) کے مطابق ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۴ء تک دو لاکھ سے زیادہ عام تمل مارے گئے یا لاپتہ ہوگئے‘ جب کہ ۵۰ہزار جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔
۱۹۸۷ءمیں حکومت ہند کے دبائو کے تحت سری لنکا نے زبان کے ایکٹ میں ترمیم کی اور سنہالی کو پہلی سرکاری زبان‘ تمل کو دوسری اور انگریزی کو رابطہ کی زبان قرار دیا گیا۔لیکن اس وقت تک زبان اور ثقافت کی بنیاد پر نفرت کا درخت تناور ہوچکا تھا۔ بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے زمانے میں سری لنکا میں ہندستان نے ’امن فوج‘ بھیجی تھی۔اس پر تمل ٹائیگرز ناراض تھے۔ سری لنکا کے دورہ کے دوران جب راجیو گاندھی ’گارڈ آف آنر‘ کا معائنہ کر رہے تھے تو ان پر ایک ناراض سپاہی نے بندوق کے بٹ سے حملہ کیا تھا۔پھر تامل ناڈو کے سری پیرمبدور میں ان پر خود کش حملہ کرکے تمل دہشت گردوں نے انھیں ہلاک کردیا تھا۔
تمل ٹائیگرز کو یہ بھی شبہہ تھا کہ سری لنکا کے مسلمان ان کی مخبری کرتے ہیں اور ان کے مخالف ہیں، جب کہ دوسری طرف سری لنکا کے بودھوں کی تنظیم ’بودو بالا سینا‘ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی۔اس طرح ۱۰فی صد کے آس پاس سری لنکائی مسلمان چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے۔ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شمال مشرقی سری لنکا کے مختلف علاقوں سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔حالانکہ بعد میں ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر ویلو پلی پربھاکرن نے مسلمانوں سے یہ کہہ کر معافی مانگ لی تھی کہ مسلمانوں کو باہر نکالنے کی مہم ہماری بہت بڑی سیاسی غلطی تھی‘‘۔ لیکن ان کے برعکس بودھوں نے مسلمانوں سے نفرت کا کھیل جاری رکھا۔
گوٹابیا کے آنے کے بعد مسلم مخالف مہم میں حکومت بھی شامل ہوگئی۔۳؍اگست ۱۹۹۰ء کو ’کٹن کوڑی‘ کی مسجد میں جب تین سو لوگ عشاء کی نماز میں مصروف تھے تو ۳۰ مسلح دہشت گردوں نے اندھا دھند گولیاں برساکر ۱۴۷ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔ حکومت‘ عینی شاہدین اور بچ جانے والوں نے تمل ٹائیگرز کو مورد الزام قرار دیا۔ لیکن خود ایل ٹی ٹی ای نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’’یہ کام بودو بالا سینا کا ہے‘‘۔
۲۰۱۲ء کی مردم شماری کے مطابق سری لنکا میں ۲۰ لاکھ مسلمان ہیں، جب کہ تملوں کی تعداد ۳۰ لاکھ ہے۔ان میں سری لنکن‘ انڈین اور مورس تمل شامل ہیں۔۱۹۸۱ء میں مسلمانوں کے ایک دانشور گروپ نے ’سری لنکن مسلم کانگریس‘ قائم کی تھی۔یہ ایک سیاسی پارٹی تھی اور اس کا منشور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر سری لنکائی کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا۔اس گروپ نے اکثریتی آبادی ’بودھوں‘ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ ’’۲۱ویں صدی کے سری لنکا کی تعمیر و ترقی میں مسلمان بھی برابر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔اس کے قائد ایم ایم ایچ اشرف تھے۔ حالانکہ اس جماعت کے قیام سے پہلے بھی کچھ مسلمان سیاست میں متحرک تھے۔ایم اے بکیر مارکر ۱۹۷۷ءسے ۱۹۸۳ء تک پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر رہے۔
مسلمانوں کی ایک اور پارٹی ’مسلم نیشنل الائنس ‘(MNA) قائم ہوئی۔نویں پارلیمنٹ میں دونوں مسلم جماعتوں کا ایک ایک ممبر الیکشن جیت کر پہنچا تھا۔لیکن ’بودو بالا سینا‘ نے مسلسل نفرت بھری مہم چلائی اور مسلمانوں کے لیے سیاسی مہم میں حصہ لینا مشکل ہوگیا۔اس کے باوجود وہاں مسلمان اپنے دین و مذہب پر قائم اور عامل رہے۔ سری لنکا میں سرکاری طور پر دینی مدارس کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا، لیکن وہاں ۲۰۰ سے زائد مدارس کے ساتھ ساتھ ۸۰۰ کے قریب مسلم اسکول بھی قائم تھے۔ اس کے علاوہ بیرووالا میں ایک اسلامک یونی ورسٹی بھی کام کر رہی تھی۔
۱۳ مارچ ۲۰۲۱ءکو راجا پاکسا انتظامیہ نے مسلم خواتین کے برقعہ اوڑھنے اور ایک ہزار سے زیادہ مدارس اور اسکولوں پر پابندی کا اعلان کردیا۔ یہی نہیں برقعہ اور مدارس کے خلاف متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون (پی ٹی اے) کے استعمال کا بھی اعلان کردیا۔’پی ٹی اے‘ کو حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک خوفناک سیاہ قانون قرار دیتی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ قانون بھی ہندستان کے یواے پی اے کی طرح ہے، جو ملزم کو دوسال تک انصاف طلبی کے حق سے محروم رکھتا ہے۔اس قانون کے تحت پولیس کسی کو بھی مشتبہ بتاکر گرفتار کرکے جیل میں ڈال سکتی ہے۔
نومبر۲۰۱۹ء میں جب گوٹابیا نے الیکشن لڑا تھا، تو ہم وطنوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’انتہاپسندوں‘ کی جڑ پر حملہ کرکے انھیں مٹادیں گے۔سری لنکا کے بودھوں کو ان کی یہ ادا پسند آئی تھی۔ نہیں معلوم کہ تمل ہندوئوں نے کیا رویہ اختیار کیا، لیکن اپریل ۲۰۱۹ء میں ایسٹر کے موقع پر مبینہ طور پر آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردانہ بمباری کے بعد سری لنکا کے مسلمانوں سے نفرت میں قومی سطح پر اضافہ ہوگیا تھا۔
یہ نفرت اس وقت عروج پر پہنچی جب کورونا کے دوران وفات پاجانے والے مسلمانوں کو قبرستان میں یہ کہہ کردفن ہونے نہیں دیا گیا کہ اس سے زیر زمین پانی خراب ہوگا۔ایسی اموات کے لیے ’نذرآتش‘ کرنے کو لازمی قرار دے دیا گیا۔پولیس نے مسلم علاقوں میں ایک خوفناک مہم چلاکر اس امر کو یقینی بنایا کہ کورونا سے مرنے والے مسلمانوں کی لاشیں جلائی جائیں۔حقوق انسانی کے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے دبائو کے بعد حکومت نے یہ متنازعہ حکم واپس لیا۔
کولمبو سے انڈین ایکسپریس کے صحافی شبھاجیت رائے نے لکھا ہے کہ گوٹابیا اور مہندا مسلسل ’سنہالافخر‘ کی مہم کو آگے بڑھاتے رہے، جس سے بودو بالا سینا کو مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ ۲۰۰۹ء میں جس وقت گوٹابیا نے ایل ٹی ٹی ای کے لیڈر وی پربھاکرن کو ہیبت ناک طور پر ہلاک کیا تھا تو دانش علی کی عمر ۱۸سال تھی۔دانش کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس وقت ہر سری لنکائی ہیرو مان رہا تھا۔ لیکن میں اور میرے اہل خانہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ گوٹابیا ایک نسل پرست ہے، جو اقلیتی مسلمانوں پر اکثریتی سنہالا کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔
دانش علی اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا چلے گئے تھے۔آج ان کی عمر ۳۱ سال ہے اور اس وقت وہ ’ارگلایا‘ مہم کا نمایاں چہرہ ہیں۔دراصل سری لنکا کے عوام کی یہی وہ متحدہ مہم ہے جس نے پاکسا خاندان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔گوٹابیا نے اپنے مخالفوں کو ہی نہیں بلکہ نکتہ چینوں تک کو اپنے آہنی ہاتھوں سے خاموش کردیا۔ایسے تمام صحافیوں کو ’سفید وین‘ کے ذریعے اغوا کرکے ٹھکانے لگادیا، جنھوں نے گوٹابیا پر تنقید کرنے کی جرأت کی۔
سفید وین کا واقعہ بہت مشہور ہے۔اس میں سنڈے لیڈر کے ایڈیٹر ’لتھانسا وکرما تنگے‘ کو ۲۰۰۹ء میں ہلاک کردیا گیا تھا۔۲۸ سالہ فائنانسر’سنکاجیا سیکرے‘ کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس کے ’اعمال بد‘ نے زمین دوز کردیا۔اس نے کہا کہ یہ المیہ ہی ہے کہ جس لیڈر نے ’سنہالا فخر‘ کے نام پر سری لنکا کے عوام کو آپس میں بانٹ دیا تھا، آج انھی عوام کے اتحاد کے سبب وہ روبہ زوال ہوگیا۔
’گوٹابیا کہانی‘ کا ایک پہلو سری لنکا کی معیشت کا ڈوب جانا بھی ہے۔لوگ ’سنہالافخر‘ کا نشہ کرکے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا کھیل کھیلتے رہے اور گوٹابیا چین اور ہندستان سے قرض در قرض لے کر’سری لنکا کی تعمیر‘ کے نام پر اپنے خاندان کی تجوریاں بھرتے رہے۔جب سری لنکا مختلف منصوبوں میں چین کے قرض تلے دب گیا تو ایک وقت وہ آیا کہ گوٹابیا حکومت نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ اور اس سے ملحق زمین کو چین کو ۹۹سال کی لیز پر دے دیا۔اس کے عوض چین نے اسے ۱ء۱ بلین ڈالر دیئے، جس سے حکومت ملک کی معیشت کو چلارہی تھی۔
گوٹابیا نے قرض لے کرایک ساتھ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کردیئے، جو کبھی پورے نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ ۱۹۰ملین ڈالر سے تعمیر کردہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ رُوبہ عمل نہ آسکا اور آج وہاں گائوں والے کالی مرچ کی فصل پھیلاکر خشک کرتے ہیں۔سری لنکا کی اس کہانی میں آپ کو کچھ اور دیکھنے اور موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔صرف یہ سمجھنا کافی ہے کہ دنیا بھر میں جو حکمران قوم پرستی کے نام پر اپنے شہریوں کو لڑائیں‘ اپنی خواہشات کے مطابق دیو قامت تعمیرات کرائیں اور جو ملک کی معیشت کی طرف سے بے فکر ہوجائیں، آج نہیں تو کل ان کا انجام گوٹابیا جیسا ہونا ہے۔
معاشرے کے وہی طبقات جنھیں بانٹ کر وہ اپنے اقتدار کو جلا بخشتے ہیں، ایک دن حکمرانوں کے ہی خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے ہیں۔انگریزی ناول The Spire کے مصنف ولیم گولڈنگ نے ۱۹۶۴ءمیں لکھا تھا: ’’خدا کی مرضی کے خلاف جو طاقت ور حکمران اپنی خواہشات کی پیروی کا انتخاب کرتا ہے، اس کا بنایا ہوا سونے کا محل ڈوب جاتا ہے‘‘۔
سوال : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے ہیں، تو غصے میں فرمایا کہ ’’کیا تم اصحابِ رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟‘‘ دوسری روایت میں ہے: حضر ت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو مَیں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟‘‘دوسری طرف صحیح البخاری اور مسلم میں ہے کہ ’’فرشتے ذکر ِ الٰہی کی مجالس کو ڈھونڈتے ہیں اور ان میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ ان احادیث کی روشنی میں ’حلقۂ ذکر‘ کا بدعت ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟
جواب : لفظ ’ذِکر‘ کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے: اس کے ایک معنی ’دل میں اللہ کو یاد کرنے‘، یا ’یاد رکھنے‘ کے ہیں۔ دوسرے معنی ’اُٹھتے بیٹھتے ہرحال میں طرح طرح سے اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں، مثلاً: موقع بہ موقع الحمدللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کہنا۔ بات بات میں کسی نہ کسی طریقے سے اللہ کا نام لینا، رات دن کے مختلف احوال میں اللہ سے دُعا مانگنا، اور اپنی گفتگوئوں میں اللہ کی نعمتوں اور حکمتوں اور اس کی صفات اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر کرنا‘۔ تیسرے معنی ’قرآن مجید اور شریعت ِ الٰہیہ کی تعلیمات بیان کرنے کے ہیں، خواہ وہ درس کی شکل میں ہوں، یا باہم مذاکرہ کی شکل میں، یا وعظ و تقریر کی شکل میں‘۔ چوتھے معنی’تسبیح و تہلیل و تکبیر کے ہیں‘۔
جن احادیث میں ذکر ِ الٰہی کے حلقوں اور مجلسوں پر حضوؐر کے اظہارِ تحسین کا ذکر آیا ہے، اُن سے مراد تیسری قسم کے حلقے ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جس چیز پر اظہارِ ناراضی کیا ہے، اس سے مراد چوتھی قسم کا حلقہ ہے ، کیونکہ رسول ؐ اللہ کے عہد میں حلقے بنا کر تسبیح و تہلیل کا ذکر جہری کرنا رائج نہ تھا، نہ حضورؐ نے اس کی تعلیم دی، اور نہ صحابہؓ نے یہ طریقہ کبھی اختیار کیا۔ رہا پہلے دو معنوں میں ذکر ِ الٰہی ، تو ظاہر ہے کہ وہ سرے سے حلقے بنا کر ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ لازماً انفرادی ذکر ہی ہوسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)
سوال : اس سے قبل میں مبتلائے کبائر تھا، مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اللہ کا شکر ہے کہ ایک ’شعوری مسلمان‘ ہوگیا ہوں۔ لیکن دن رات اپنے اُخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجائے دُنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں، مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون رائج نہیں ہے۔ آپ میری مدد کریں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں۔
جواب : اللہ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچّے دل سے نادم ہو کر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔ توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہِ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اللہ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اللہ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۲ء)
پروفیسر احمد سعید (م: ۱۳جنوری ۲۰۲۱ء) کی شخصیت علم، تحقیق اور پاکستان کے لیے قربان تھی۔ اس مشن کے لیے انھوں نے سماجی زندگی، صحت اور تمام مادی وسائل نچھاور کردیے تھے۔ صلے، شہرت اور اعتراف کی طلب سے بے نیاز سراپے اور اعلیٰ کردار کے ساتھ ’ایک فرد ہی ایک ادارہ‘ کے عنوان سے زندگی گزار دی۔ افسوس کہ بے قدری سے بار بار سابقہ پیش آیا۔ اُردو میں ۳۱ ،اور انگریزی میں ۷کتب کے علاوہ متعدد قیمتی مسودات بطور قومی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں۔
زیرنظر کتاب بظاہر ایک شہر کا تذکرہ ہے جو دُنیا کے ہزاروں شہروں میں ایک شہر ہے۔ تاہم، احمد سعید صاحب نے لاہور کی پرانی تاریخ کھوجنے کے بجائے بیسویں صدی کے نصف اوّل کو تہذیبی، علمی، سماجی، سیاسی اور پیشہ ورانہ تاریخ کے سانچے میں رواں دواں انداز میں پیش کیا ہے، جس سے واقعی لاہورشہر مسلم تہذیب کا ایک درخشاں مرکز بن کر دل و نگاہ میں سما جاتا ہے۔ وہ شہر کہ جو برطانوی غلامی میں تڑپ بھی رہا تھا اور آزادی کی تحریک میں اپنا کردار بھی ادا کررہا تھا۔ کتاب کا ہرباب باریک بینی اور معلومات کی مصدقہ پیش کاری کا نمونہ ہے، جس میں زندگی کا جدل اور تہذیب و ثقافت کا ہررنگ اپنے جوبن پر نظر آتا ہے۔ آخری باب (۲۷۵-۳۳۰) میں ادبی حلقوں کا احوال پڑھیں تو شہر کا ثقافتی اور تخلیقی رُوپ روشن ہوجاتا ہے۔
اللہ کرے کہ اس کتاب کا دوسرا حصہ بھی جلد شائع ہو۔ آج کے پیروجواں اس کتاب کا مطالعہ کرکے تاریخ کے ضرب و کرب کی ٹیس محسوس کرسکتے ہیں۔ (س م خ)
پنجاب یونی ورسٹی کے ادارہ علومِ اسلامیہ نے سابق جیّد اساتذہ کرام کی علمی، تدریسی اور تحقیقی خدمات کے اعتراف کے لیے، فرداً فرداً منسوب ارمغان شائع کرنے کا قابلِ قدر اہتمام کیا ہے۔ زیرنظر کتاب اس سلسلے کی پانچویں کڑی ہے۔
پروفیسر خالد علوی (نومبر ۱۹۴۰ء، خوشاب- ۱۸نومبر ۲۰۰۸، لاہور) ایک ہردل عزیز استاد، خوش گوار رفیق،پُرعزم رہنما، اَن تھک محقق، راست رو مصنف اور جرأت مند خطیب تھے۔ اندرونِ پاکستان اور برطانیہ میں ان سے فیض یافتگان کا ایک وسیع حلقہ موجود ہے۔
زیرنظر کتاب، جناب خالد علوی کی حیات و خدمات سے منسوب ۱۶مضامین اور علمی حوالے سے گیارہ موضوعات پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں پروفیسر ڈاکٹر سفیراختر کے دونوں مشمولات نہایت مؤثر ہیں۔ انھوں نے ایک مضمون ’علوی صاحب کے علمی وفکری کارنامے‘ کے بارے میں بڑے نپے تلے انداز میں لکھا ہے، اور دوسری چیز ،علوی صاحب کے ایک علمی مکالمے کا شُستہ اور رواں اُردو ترجمہ ہے۔ اسی طرح ملک محمد حسین اور ڈاکٹر سیّد عزیز الرحمٰن ، ڈاکٹر خالد ظفراللہ اور دیگر احباب نے یادوں کا معطر گلدستہ سجایا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ مقالات پر مشتمل ہے، جن میں علمی اور روایتی دونوں طرح کے رشحات موجود ہیں۔
ارمغان میں، پروفیسر موصوف کے مقالات اور مطبوعات کی ممکن حد تک مکمل فہرست شامل ہوتی تو ایک قیمتی اضافہ ہوتا۔ دوسرے یہ کہ خدمات پرلکھے گئے مضامین میں ان کی کتابوں کے تعارف کی تکرار کھٹکتی ہے۔ اسی طرح یادداشتی مضامین اورمقالات کو تدوین و ترتیب کی مزید ضرورت تھی۔ بلاشبہہ مرتبین نے خدمت انجام دے کر اس یادگارکو پیش کیا۔ (س م خ)
حافظ محمد ادریس ایک ہشت پہلو شخصیت ہیں: خطیب، ادیب، مؤرخ، مترجم ،خاکہ نویس، افسانہ نویس، لیڈر اور منتظم۔ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوا تھا، جس پر پروفیسر آسی ضیائی صاحب نے لکھا تھا کہ اس مجموعے کے تحریکی اور نصب العینی نقطۂ نظر رکھنے والے یہ سب افسانے اپنے پلاٹ اور اندازِ بیان کے اعتبار سے فن افسانہ نگاری کے معیار پر پورے اُترتے ہیں۔
مصنف نے لکھا ہے کہ ان افسانوں میں جتنے بھی کردار آپ کو نظر آئیں گے وہ کسی نہ کسی پہلو سے جدوجہد کررہے ہیں۔ کوئی مقصد حاصل کرنا ان کے پیش نظر ہے، اس کے لیے جو بھی وسائل ان کو میسر ہیں، انھیں استعمال کرتے ہیں۔ کٹھن اور مشکل حالات میں بھی اپنے مقصد کی لگن سینے میں سجائے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر افسانے اور دیگر تحریریں دلچسپ اور قابلِ مطالعہ ہیں۔ طباعت و اشاعت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رسالہ ارقم کی نوعیت علمی، ادبی اور تعلیمی ہے۔ زیرنظر خاص نمبر نہایت خوب صورت اور دیدہ زیب ہے۔ صرف صوری اعتبار سے خوب صورت نہیں، بلکہ معنوی اعتبار سے بھی فکرانگیز اور معلومات افزا مضامین پر مشتمل ہے۔ کشمیر کی تاریخ، تحریک آزادی جموں و کشمیر، کشمیر میں زبان و ادب کا ارتقا، کشمیر میں سیاحت اورثقافت کا تذکرہ، چند اہم مکاتیب اور کتابوں پر تعارف ۲۱۲ صفحات میں سمو دیا گیا ہے۔ کشمیر پر یہ قیمتی دستاویز اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ہم کشمیر ، اہلِ کشمیر کو بھولتے جارہے ہیں۔ یہ نمبر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ارقم کی تدوین کے لیے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اور ڈاکٹر فیاض نقی شکریے کے مستحق ہیں۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رزق کی کمی و بیشی، اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ اس کی رضا سے۔ مشیت ِ الٰہی کے تحت اچھے اور بُرے، ہرطرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پارہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اُس کا مغضوب ہے۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اُٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔
لہٰذا، وہ شخص سخت گمراہ ہے جو مادّی فوائد و منافع کو خیروشر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دُنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو، اور اس کے ساتھ دُنیا کی نعمتوں سے نوازا جارہا ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت بازپُرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہورہا ہے۔
رازق، صانع، مُوجد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ہیں، جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں، مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ’خیرالرازقین‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں، اُن سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ ہے۔(تفہیم القرآن، سورئہ سبا،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۲ء، ص ۲۵)