بھارت میں مذہبی تفریق کی بنیاد پر فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ۱۹۴۷ءمیں آزادی کے بعد سے پچھلے ۷۴برسوں کے دوران بھارت کے طول و عرض میں ۶۰ ہزار سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ انڈین نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۰ءکے عرصے میں ۴ہزار ایک سو ۷۵ فسادات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں ہر روز دوفسادات ہوئے ہیں۔ ان فسادات کے نہ ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادات میں ملوث افراد کو شاید ہی کبھی سزا ملتی ہے۔ جہاں تک ہمارے علم میں ہے، ۱۹۸۴ءکے سکھ مخالف فسادات اور ۲۰۰۲ءکے گجرات کے مسلم کش فسادات، صرف دوایسی مثالیں ہیں، جن کی پیروی کی گئی اور قصورواروں کو عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔
سکھوں کے خلاف بلوہ کرنے والے کانگریسی رہنماؤں اور فسادیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا کام گوردوارپرببندھک کمیٹی نے کیا، تو گجرات کے فسادات میں ملوث بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں تک پہنچانے کا کریڈٹ سماجی کارکن تیستا سیٹلوارڑ، ان کے شوہر جاوید آنند اور چند باضمیر پولیس افسران کے سر جاتا ہے۔ جنھوں نے ہزاروں مشکلات کے باوجود برسوں تک عدالتوں میں گجرات فسادات کی پیروی کی،گواہوں اور مقدمے کی دستاویزات اور ثبوتوں کی حفاظت کروائی، کئی کیسوں کو گجرات سے باہر مہاراشٹرہ منتقل کروایااور قصور واراں کو سزائیں دلوائیں۔ شاید یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ ۲۰۰۲ءکے بعد گجرات میں کوئی بڑی فرقہ وارانہ واردات برپا نہیں ہوئی۔ ورنہ ایک سابق سینیر پولیس افسر وبھوتی نارائین رائے کے بقول جنھوں نے ۱۹۸۹ء میں اترپردیش کے میرٹھ شہر میں ہاشم پورہ اور ملیانہ قتل عام کی ابتدائی تحقیقات کی تھیں، ’’فسادات سے نپٹنے کے نام پر پولیس اکثر مسلمان نوجوانوں کو ہی حراست میں لیتی ہے، پھر فسادیوں کے ساتھ تصفیہ کرواکے رہا کراتی ہے‘‘۔
تین عشروں پر پھیلے صحافتی کیریر کے دوران فسادات کو کور کرتے ہوئے میں نے بھی یہی دیکھا ہے کہ ایک توپولیس کا کردار جانب دارانہ رہتا ہے اور پھر فسادات تھمنے کے بعد وہ دونوں اطراف کے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیتی ہے، تاآنکہ وہ جیل میں ہی سمجھوتہ کرکے ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔چند سال قبل آسام میں انتخابات کے دوران جب میں نے وہاں چند سیاسی رہنماؤں کو یاد دلایا کہ ’’۱۹۸۳ء میں اس صوبہ میں نیلی کے مقام پر دس ہزار بنگالی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا، اس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟ ‘‘ تو وہ میرا منہ تکتے رہے او ر کہا کہ ’’ہم اب آگے بڑھ گئے ہیں اور ان فسادات کو ہم نے یادداشت سے کھرچ دیا ہے۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں ممکن ہے؟‘‘
گجرات فسادات کیس میں نہ صرف اب تیستا سیتلواڑ اور ان کی تنظیم ’سب رنگ ٹرسٹ‘ کو حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے پنجہ آزمائی کی سزا دی جارہی ہے،بلکہ جن قصور واروںکو انھوں نے عدالتوں کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا تھا ، اب ان کی سزائیں معاف کی جارہی ہیں یا ان کو ضمانتوں پر رہا کیا جا رہا ہے۔ سیتلواڑ کی تنظیم پر پہلے غیر ملکی عطیہ لینے پر پابندی عائدکی گئی اور اس کے بعد ان کے خلاف تفتیش کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ ابھی جون میں ان کی ممبئی میں واقع رہایش گاہ پر گجرات پولیس نے یلغار کرکے ان کو حراست میں لے لیا۔ سیتلواڑ کے علاوہ سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آر بی سری کمار اورایک اور پولیس آفیسر سنجیو بھٹ پر بھی مقدمہ دائرکر کے جیل پہنچا دیا گیاہے۔
گجرات ہی میں ایک کیس بلقیس بانو کا تھا، جنھیں ۳مارچ ۲۰۰۲ء کو فسادات کے دوران اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ اس وقت ۱۹ سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ احمد آباد کے قریب فسادیوں نے اس کی تین سالہ بیٹی سمیت اس کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ ایک آدمی نے بیٹی کو اس کی ماں کے بازو سے چھین کر اس کا سر پتھر پر دے مارا تھا۔عدالت کے فیصلہ کو ،جس میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ آخر ایک انسان اس قدر درندہ صفت کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سبھی قصور وار اور مجرمان بلقیس بانو کے پڑوسی تھے۔ پچھلے ہفتے اس کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے گیارہ افراد کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، کیوں کہ گجرات حکومت نے معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی ہے۔صوبہ کے ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) راج کمار نے صحافیوں کو بتایا ’’چونکہ مجرموں نے ۱۴سال جیل میں گزارے ہیں اور ساتھ ہی دیگر عوامل جیسے عمر، جرم کی نوعیت، جیل میں سلوک کی بنیاد پر یہ درخواست منظور کی گئی ہے۔ تاہم، راج کمار یہ بتانا بھول گئے کہ خواتین کو ہراساں کرنے اور زنا بالجبر جیسے جرائم میں معافی نہیں ہے۔ پھر ان مجرموں کی رہائی کے وقت ان کا جس طرح استقبال کیا گیا، اس سے ایک پیغام تو واضح ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جرم کو برداشت کیا جائے گا اور اس کو انجام دینے والا ہیرو ہے۔ دراصل مجرموں میں سے ایک، رادھے شیام شاہ نے ۱۴ سال قید کی سزا کاٹنے کے بعد معافی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور کورٹ نے اس کو قیدیوں سے متعلق صوبہ کی کمیٹی سے رجوع کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن اور گودھرا کے موجودہ بی جے پی ممبر اسمبلی سی کے راؤلجی کا کہنا ہے کہ ’’یہ مجرمین ’برہمن‘ ہیں اور ’اچھے اخلاق‘ کے مالک ہیں‘ ‘۔
یہ صرف بلقیس بانو کا کیس نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے نئی دہلی میں مودی کی حکومت آنے کے بعد سے تو کئی قصورواروں کو رہا کیا گیا ہے۔ آنند ضلع کے اوڈ گاؤں کے ۴۰سالہ ادریس نے حال ہی میں بی بی سی کو بتایا کہ:’’میری دادی، والدہ اور ایک قریبی دوست کو میرے سامنے ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔ قاتلوں کی اس بھیڑ میں میرے سکول کے دوست اور پڑوسی بھی شامل تھے۔ میرے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں ۸۰ ملزمان نامزد تھے، لیکن ان میں سے کوئی بھی جیل میں نہیں ہے۔ سب کو عدالت سے ضمانت مل چکی ہے‘‘۔
احمد آباد سے متصل نرودا پاٹیہ میں ہوئے قتل عا م میں نچلی عدالت نے بی جے پی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے اسے ۲۸ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اس معاملے میں ’بجرنگ دل‘ کے بابو بجرنگی کو بھی قصوروار ٹھیرایا گیا تھا ۔جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کوڈنانی نے بطور مقامی ممبر اسمبلی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ جب انھیں گرفتار کیا گیا تو وہ نریندرا مودی کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کی وزیر تھیں۔ اس معاملے میں موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شا نے مایا کوڈنانی کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے کوڈنانی کو ریاستی اسمبلی میں دیکھا تھا‘‘۔اس کیس کے ۳۲ قصورواروں میں سے۱۸کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا، جن میں کوڈنانی بھی شامل ہیں، جب کہ ۱۳؍ افراد کو قصوروار پایا گیا۔ سزا پانے والوں میں بابو بجرنگی بھی شامل ہیں، تاہم ان کی عمر قید کی سزا کو کم کر کے ۲۱ سال کر دیا گیا۔
شمالی گجرات کے پٹن ضلع کے سردار پورہ گاوٗں میں ۳۳مسلمانوں نے ایک گھر میں پناہ لی تھی۔ فسادیوں نے اس کا گھیراؤ کرکے اس میں بجلی کے ایک ننگے تار سے کرنٹ دوڑا دیا جس سے ۲۹؍افراد کی جائے حادثہ پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ہجوم نے گاؤں کی تمام سڑکیں بند کر دیں تاکہ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کو اپنی جان بچانے کا موقع نہ ملے۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اسپیشل انوسٹیگیشن ٹیم ( ایس آئی ٹی) کی تشکیل کر دی گئی اور ۲۲ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔اس سے قبل بھی کئی افراد کو پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس قتل عام میں دو سرکردہ افراد سرپنچ کچرا بھائی پٹیل اور سابق سرپنچ کنو بھائی پٹیل ملوث تھے اور ان دونوں کا مبینہ طور پر بی جے پی سے تعلق تھا۔ان فسادات کے ایک اہم گواہ ادریس وورا ، جس نے اپنی دادی، اپنی ماں اور اپنے ایک قریبی دوست کو کھو دیا تھا، صرف اس لیے بچ گئے کہ انھوں نے خود کو ۱۰گھنٹے سے زیادہ بیت الخلا میں بند رکھا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں یہ حقیقت ہضم نہیں کر سکتا کہ سب کچھ تباہ کرنے والے کھلے عام گھوم رہے ہیں اور ۲۰سال بھٹکنے کے بعد بھی انصاف نہیں ملا‘‘۔
اسی طرح مہسانہ کے وِس نگر کے دیپدا دروازہ علاقے میں گیارہ مسلمانوں کے قتل کے الزام میں پولیس نے ۷۹؍ افراد کو گرفتار کیا تھا اور پھر ان سبھی کو ضمانت دے دی گئی ۔ ا ن میں اب ۶۱لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے، جن میں وس نگر کے سابق بی جے پی ممبر اسمبلی پرہلاد پٹیل اور میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے صدر داہیا بھائی پٹیل بھی شامل ہیں۔ان فسادات کے دوران تین برطانوی شہریوں کو بھی اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر کر رہے تھے۔ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے، لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انھیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ اس معاملے میں چھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت سے رہا کر دیا گیا۔
۲۸ فروری ۲۰۰۲ءکو چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی میں رہنے والے ۶۹؍ افراد کو ہجوم نے قتل کر دیا۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ سوسائٹی میں ۱۹بنگلے اور ۱۰؍ اپارٹمنٹس تھے۔ مقامی پولیس نے میگھانی نگر پولیس سٹیشن میں شکایت درج کرنے کے بعد ۴۶ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ایس آئی ٹی کی جانچ شروع ہونے کے بعد اس معاملے میں ۲۸دیگر کو گرفتار کیا گیا اور کل ۱۲ چارج شیٹ داخل کی گئیں۔ کل ملزمان میں سے ۲۴کو سزا سنائی گئی،جب کہ ۳۹ کو بری کر دیا گیا۔اس قتل عام میں اپنے رشتہ داروں کو کھونے والی ۶۴سالہ سائرہ بانو کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، شناخت ہونے کے بعد بھی انھیں ضمانت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اس کے مطابق ملزموں کی گرفتاری تیستا سیتلواڑ اور آر بی سری کمار جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے ہی ممکن ہوئی تھی۔ ہلاک ہونے سے چند منٹ قبل تک احسان جعفری، پولیس ، وزارت داخلہ کے افسران ، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر مسلسل فون کرتے ہوئے مدد کی درخواست کررہے تھے۔
بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات تو پہلے بھی ہوتے تھے اور ان میں فسادیوں کا چھوٹنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فرق تو یہ ہے کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے اور سزائیں پانے کے بعد بھی انصاف کے عمل کا منہ چڑا کر اس کو بے دست و پا کردیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ۲۰کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو بتایا جارہا ہے کہ یا تو وہ دوسرے درجے کے شہری بننا منظور کریں یا کہیں اور چلے جائیں۔ چونکہ کانگریسی دور میں سیکولرازم کا ملمع چڑھا ہوتا تھا، اس لیے فسادات کے بعد کوئی مرکزی وزیر یا حکمران پارٹی کا بڑا لیڈر دورہ پر آتا تھا۔ پہلے تو وہ ہندو علاقوں میں جاکر ان کی پیٹھ تھپتھپاتا تھا اور پھر مسلم علاقے میں آکر اشک شوئی کرکے ریلیف بانٹتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر ایک لیکچر دے کر چلا جاتا تھا۔ اب رسمی طور پر بھی کوئی لیڈر مسلم علاقے کا رخ نہیں کرتا ہے۔ بھارت کی مرکزی کابینہ میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی کے مستعفی ہونے کے بعد اب کوئی ایک مسلمان وزیر نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت والے ۱۶صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا ۲۶ء۲۹ فی صد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔ بھارت میں صوبائی اسمبلیوں میں کل ۴۱۲۱ نشستیں ہیں۔ ان میں صرف ۲۳۶ مسلمانوں اراکین ہیں۔کل ۲۸صوبوں میں ۵۳۰کے قریب وزرا ہیں۔ جن میں صرف ۲۴مسلمان ہیں۔ ان میں سے بھی پانچ وزیر حال ہی میں بہار میں اس لیے شامل کیے گئے، کیونکہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اتحادی بی جے پی سے ناتا توڑ کر سیکولر راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مل کر اَزسر نو حکومت تشکیل دی۔ یہ تو طے ہے کہ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمایندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ بھارت کی سیاست نے ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ مگر سوال ہے کہ کیا ۲۰کروڑ سے زائد افراد کو پس پشت ڈال کر اور ان کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور کسمپرسی کا احساس دلا کر اس نظام کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے؟ بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔