افغانستان ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ ہمالیائی پہاڑی سلسلے ہندوکش کے دامن میں ۶لاکھ ۵۲ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ملک، دنیا میں رقبہ کے لحاظ سے ۴۱ ویں نمبر پر ہے، جب کہ آبادی کے لحاظ سے ۳۷ویں درجے پر آتا ہے۔ ملک میں زراعت کی روایتی فصلوں کے علاوہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی پیداوار نے اسے دنیا میں ممتاز حیثیت دی ہے۔
مہمان نوازی، افغان تہذیب و ثقافت کا اہم جز و ہے۔ مہمان نوازی کا بہترین مظاہرہ ہم نے کابل کے قریب وادی پغمان کے خوب صورت باغ میں ولی محمد صراف کے ہاں دیکھا۔ اسی موقعے پر صراف صاحب نے اپنی قید کی تفصیلات سنائیں تو سب دوست آبدیدہ ہوگئے۔ انھوں نے ۱۸سال بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتے نامو بے میں گزارے تھے۔ جہاں ان کے ساتھ انسانیت سوز اور بدترین سلوک روا رکھا گیا تھا ۔ ان کے ایک اور ساتھی روحانی صاحب بھی ان کے ساتھ اس جیل میں ۱۶سال تک ظلم و ستم سہتے رہے تھے اور اس وقت امارت اسلامی کے ایک اہم عہدے دار ہیں۔
۱۹ جو ن کی کانفرنس کے بعد کابل میں ہماری کئی اہم ملاقاتیں اور متعدد اہم اداروں کے دورے ہو ئے۔ افغان وزراء نے اپنے شعبوں کے حوالے سے تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین مستقبل کے تعلقات کار کے حوالے سے مفید تجاویز پر گفتگو رہی۔ اس کے علاوہ ایک اہم ملاقات کابل میں پاکستان کے تجربہ کار سفیر جناب منصور احمد خان کے ساتھ ہوئی، جوپاک افغان اُمور پر خاص دسترس رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ طورخم کراسنگ، پاکستانی ویزوں کے اجرا، پاک افغان تجارت ،طب اور تعلیمی شعبوں میں اشتراک عمل پر تفصیلی گفتگو رہی۔
ایک اہم ملاقات گلبدین حکمت یار سے کابل میں ہو ئی، جو افغانستان کے ساتھ پاکستان میں بھی ایک معروف شخصیت ہیں۔ وہ امارت اسلامی افغانستان کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔لیکن گاہے گاہے ان کے بعض اقدامات پر تعمیری تنقید بھی کرتے ہیں ۔ انھوں نے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا: ’’افغانستان کو امن اور مستحکم حکومت درکار ہے۔ افغان طالبان نے ایک بڑی طاقت کے خلاف جنگ جیتی ہے۔ اس لیے حکومت انھی کا حق ہے اور دنیا کو یہ حق تسلیم کرنا چاہیے۔ البتہ، طالبان کو اپنی حکومت کے استحکام کے لیے آئینی ادارے قائم کرکے افغان قوم کی نمایندگی کو یقینی بنانا ہوگا‘‘۔ انجینئر صاحب اپنا زیادہ تر وقت علمی، تحقیقی کام اور تصنیف و تالیف میں گزارتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
وفد میں شامل صحافیوں ،ڈاکٹروں،تاجروں ،علمائے کرام اور طلبہ تنظیموں کے نمایندوں نے بھی ملاقاتوں اور مختلف سرکاری اور نجی اداروں کے دوروں میں بھرپور تبادلۂ خیال کیا۔ ان اداروں میں ’سلام یونی ورسٹی‘ الحیات ہسپتال،خدمت خلق کے دوملک گیر ادارے EHSAS اور HAS، صحافیوں کا ادارہ گہیز اور طلبہ تنظیم ’نجم‘ شامل ہیں ۔
جمعیت الاصلاح، افغانستان میں ایک اہم دینی و اصلاحی تحریک ہے۔ اس وقت ان کے سربراہ یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر اور دینی عالم مولانا ڈاکٹر محمد مزمل ہیں،جن سے ہماری ملاقات ان کے دفتر میں ہوئی۔ پاک افغان تعلقات اورمستقبل کےمنظرنامے پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا۔ وہ افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام اور مستقبل کے امکانات کے بارے میں پُراُمید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں ہم لوگ تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔ افغان نوجوان طبقے تک اسلامی تعلیمات جامع انداز اور جدید اسلوب کے ساتھ پہنچانا ان کا بنیادی کام ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ٹی وی چینل، ریڈیو سٹیشن ،کتب کی اشاعت ،انٹرنیٹ کا استعمال ،درس قرآن جیسی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد اسماعیل صاحب اور مولانا حنیف اللہ صاحب کے ہمراہ پہلے ہم کابل کی تاریخی جامع مسجد پل خشتی گئے۔ وہاں ہماری ملاقات مسجد کے امام و خطیب اور مقامی طالبان رہنماؤں سے ہوئی، جو شہر کے بلدیاتی اداروں سے وابستہ ہیں۔ کابل کے مضافات میں واقع سید المرسلین مدرسہ کا بھی دورہ کیا۔وہاں ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم تھے ۔ پھر ہم نے کابل سے جلال آباد کا سفر کیا، اور وہاں تین مدارس میں گئے۔ جہاں اکثر اساتذہ پاکستانی تعلیمی اداروں سے پڑھے تھے۔
دورے کے آخری دن ہم نے صوبہ کنڑ کا دورہ کیا۔سابق رکن افغان پارلیمنٹ مولانا شہزادہ شاہد ہمارے شریک سفر تھے۔ انھوں نے ہمیں اپنے تعلیمی ادارے، مدرسۃ البنات اور دارالیتامٰی دکھائے۔ کنڑ میں مجلس علمائے کرام اور قبائلی عمائدین سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے بتایا کہ ایک اہم ترین مسئلہ پاکستانی چوکیوں سے افغانستان کی جانب فائرنگ اور گولہ باری ہے۔جس کا ہدف تو تخریب کار ہوتے ہیں، لیکن اس کا شکار وہاں مقامی آبادی اور مویشی بھی بنتے ہیں۔
افغانستان میں امارت اسلامی کے قیام کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں افغانستان میں ایک طویل عرصے کے بعد ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم ہو ئی ہے۔ ۳۴صوبے اور ۴۰۰ کے لگ بھگ اضلاع ایک نظام کے تحت آچکے ہیں۔اس وقت جو حکومت قائم کی گئی ہے اس کو عبوری دور قرار دیتے ہوئے مستقبل میں مستقل حکومت کے قیام کی بات کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حکومت کب قائم ہوگی؟ ملک کا باضابطہ دستور و آئین کب بنے گا اور کون بنائے گا؟کیا ملک میں کوئی پارلیمنٹ وجود میں لائی جائے گی اور اس کے لیے انتخابات کا طریقۂ کار اپنایا جائے گا یا وہ نامزد قومی جرگہ ہو گا؟ گذشتہ ماہ کابل میں امارت اسلامی نے ایک بڑی علما کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔جس سے خطاب کے لیے افغان طالبان کےامیر جناب مُلّا ہبت اللہ قندھار سے کابل تشریف لائے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں مستقبل کا نقشۂ کار پیش نہیں کیا ۔ یقیناً تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ میں اس موضوع پر صلاح مشورے جاری ہیں ،کچھ عرصہ پہلے ایک دستوری ڈرافٹ بھی منظر عام پر آیا تھا، لیکن عوام کی شرکت سے جس شرعی نظام مملکت کی ضرورت ہے، اس کا انتظار ہے۔
افغانستان کا دوسر ا بڑا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ایک سال گزرنے کے بعد ابھی تک پاکستان سمیت کسی ملک نے سفارتی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔یہ طالبان قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کئی ممالک کے سفارت خانے کابل میں فعال ہیں، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ آمد ورفت بھی جاری ہے ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بعض ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔ روس ،چین اور امریکا کے ساتھ سفارتی سطح پر ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن رسمی طور پر تسلیم کرنے کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
یہی معاملہ بین الاقوامی پروازوں کا بھی ہے۔ کابل،ہرات ،مزار شریف، قندھار سے بین الاقوامی پروازیں بند ہیں ۔صرف امدادی سامان لے کر جہاز اُترتے ہیں۔ حج کے موقعے پر سعودی عرب کے لیے حج پروازوں کی آمدورفت ہو ئی تھی ۔مقامی سطح پر ہوائی سفر ہو رہا ہے، پاکستان کے ساتھ باقاعدہ پروازیں بحال ہیں، لیکن باقی دنیا سے فضائی سفر نہ ہونے کے برابر ہے۔
پھر بین الاقوامی بنکاری اور رقوم کی ترسیلات کا معاملہ بھی معطل ہے۔ آج کل ملکوں کا دارومدار بیرونی ممالک میں مقیم شہریوں کے ترسیل کردہ زرمبادلہ پر ہے۔ مقامی طور پر خاندانوں کی معاشی حالت کا انحصار بھی اس پر ہے ۔لیکن اکثر ممالک کی پابندیوں کے باعث افغانستان میں بنک کے ذریعے قانونی طور پر ترسیل ممکن نہیں۔ اس لیے زیادہ انحصار ہنڈی کے ذریعے رقومات بھیجنے پر ہے۔
امریکا نے امریکی بنکوں میں جمع شدہ ۹ بلین ڈالر کے افغان اثاثوں کو منجمد کیا ہوا ہے۔ افغانستان میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے ۔اب صرف بعض شعبہ جات کے ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ایک محدود رقم افغانستان بھیجی جا تی ہے۔ اس لیے افغانستان ایک بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہے ۔امارت اسلامی نے اپنی مدد آپ کے تحت ملکی محصولات میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے، جس سے کاروبار مملکت کو چلایا جا رہا ہے اور محدود پیمانے پر ترقیاتی کام بھی ہورہے ہیں ۔اقوام متحدہ کے اداروں ،اور کئی دوست ممالک کی غیر سرکاری تنظیمیں بھی عوام کو ریلیف پہنچانے میں مدد دے رہی ہیں ،لیکن بڑے گمبھیر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ۔گذشتہ حکومت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افغان شہری بے روزگار ہو گئے ہیں۔ فوج، پولیس اہلکار غیر ملکی اڈوں اور افواج سے وابستہ افراد بے روزگاری کا شکار ہو ئے، جس سے ملک کی شہری آبادی خاص طور پر متاثر ہو ئی۔
یورپی ممالک اور امریکا نے بڑی تعداد میں افغانوں کو اپنے ملکوں میں بسانے کا متبادل منصوبہ پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو مغربی ممالک میں بسنے کا موقع نظر آیا تھا، لیکن وہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ جرمنی نے گذشتہ چند ماہ میں ۷ ہزار افغان باشندوں کو لے جانا تھا، لیکن صرف ایک ہزار کا بندوبست کیا گیا۔ طالبان حکومت کے خیال میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ افغان شہریوں کا ملک سے انخلا قومی نقصان ہے۔ امارت اسلامی نے بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ کابل انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا: ’’ہم نے کابل میں ۱۰ ہزار نوجوان پولیس میں بھرتی کر لیے ہیں، اور ۷۰ہزار جوانوں پر مشتمل سرکاری فوج تیار ہو چکی ہے‘‘۔
امارت اسلامی کے خلاف عالمی سطح پر سب سے بڑا الزام، خواتین کارکنان اور بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ چند ماہ قبل امیر تحریک طالبان کے حکم سے ساتویں جماعت سے بارھویں جماعت تک کے سرکاری اسکول بند کر دیئے گئے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مخلوط تعلیم کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،حالانکہ افغانستان میں صرف یو نی ورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیم ہے، اور ثانوی سطح تک بچوں اور بچیوں کے علیحدہ تعلیمی ادارے ہیں ۔اس فیصلے پر بین الاقوامی سطح پہ شدید ردعمل ہوا اور مختلف اداروں نے افغانستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی گئی۔
طالبان کے ایک مرکزی وزیر انس حقانی نے بتایا: ’’ ۱۰ صوبوں میں تعلیم پر پابندی ختم کردی گئی ہے اور باقی صوبوں میں بھی بتدریج ختم ہو جائے گی۔ ہم یہ امر یقینی بنارہے ہیں کہ بچیوں کو صرف زنانہ اسٹاف پڑھائے، جب کہ بچوں کو مردانہ اسٹاف پڑھائے‘‘۔ گذشتہ دور میں محکمۂ تعلیم میں بڑے پیمانے پر خواتین کو بھرتی کیا گیا تھا۔صرف کابل میں ۳۲ ہزار اساتذہ میں ۲۸ہزار خواتین تھیں ۔ اس وقت پرائمری سطح پر بچیوں کی تعلیم جاری ہے اور یونی ورسٹیوں، پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں بھی طالبات زیر تعلیم ہیں ۔تاہم، مجموعی طور پر بچیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں جرمنی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری، پشاور میں ہمارے انسٹی ٹیوٹ آئے تھے اور انھوں نے بھی افغانستان میں خواتین کی تعلیم کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا:’’افغان بچیوں کی تعلیم افغان ملت اور ان کی قیادت کا معاملہ ہے۔ آپ انھیں خود اپنے مسائل حل کرنے دیں ۔آپ اگر ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو مشروط طور پر نہ کریں‘‘۔
امارت اسلامی افغانستان کو ’داعش‘ کی موجودگی اور اس کی جانب سے تخریب کاری سے امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ ہم جس روز کابل پہنچے تھے، اسی دن کابل میں سکھوں کے گردوارے پر حملہ ہوا تھا۔ملک میں بعض مقامات پر گذشتہ حکومت کے حامی جتھے بھی موجود ہیں ۔لیکن امارت اسلامی کی قیادت بااعتماد ہے اور ان معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بحیثیت پاکستانی ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ پا ک افغان تعلقات ہیں۔اس سلسلے میں طورخم بارڈر پر پاکستانی اہلکاروں کی بدسلوکی اور مناسب اقدامات کے فقدان کا فوری طور پر حل کرنا ضروری ہے۔ افغانستان کے شہریوں کے لیے پاکستانی ویزے کا حصول ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے افغان طالبان تک کی صفوں میں بھی قوم پرستی کے جذبات اور اشتعال موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان خاندان دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں اور ان کے درمیان سماجی رابطوں میں ویزہ ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔بڑی تعداد میں افغان مریض پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کاروباری حضرات کے لیے بھی ویزہ فوری طور پر درکا ر ہوتا ہے۔ لیکن ہماری ویزہ پالیسی ان زمینی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے، جس پر نظر ثانی کی فوری ضرورت ہے۔
پاکستانی طالبان (TTP) کی بڑی تعداد میں افغانستان میں موجودگی اور پاکستان میں ان کی سرگرمیاں اور تخریب کاری کے بڑھتے ہو ئے واقعات اہلِ پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔پاکستانی فوج کی ایما پر امارت اسلامی کے قائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان سے مذاکرات کا پابند کیا گیا ۔ جس کے کئی دور چلے ،باقاعدہ سیز فائر کا بھی اعلان ہوا۔قبائلی وفود اور علما کا وفد بھی گیا، لیکن تاحال مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے قبائلی نظام کی بحالی اور اسلحہ سمیت ان کی موجودگی پاکستان کو قبول نہیں ہے۔ مذاکراتی عمل معطل ہے اور سیز فائر کی خلاف ورزی بھی جاری ہے۔ کابل میں ایک افغان طالب رہنما نے بتایا کہ ہم نے ان کے رہنماؤں سے کہہ دیا ہے: ’’آپ کو پاکستان سے لازماً مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنا ہو گا، بصورت دیگر ہم آپ کو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہیں رہنے دیں گے اور بالائی علاقوں میں منتقل کر دیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ افغانستان کے سرحدی صوبوں ،کنڑ،لوگر، پکتیا، خوست، پکتیکا وغیرہ میں ۲۰سے ۲۵ ہزار پاکستانی طالبان اپنے بال بچوں سمیت مقیم ہیں۔ افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت تھی اور ناٹو اور امریکی افواج کی موجودگی میں یہ لوگ باآسانی افغانستان منتقل ہوکر آباد ہوگئے تھے۔
۱۵؍ اگست کو افغانستان کے طول و عرض میں ایک سالہ امارت اسلامی کے قیام کا جشن منایا گیا۔تمام شہروں میں باقاعدہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جس میں اعلیٰ ملکی قیادت شریک ہو ئی۔کئی جگہ جلوس بھی نکالے گئے اور عوامی ریلیاں بھی منعقد ہو ئیں ۔یہ سب آثار افغانستان کے روشن مستقبل کی اُمید دلاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امارت اسلامی کی قیادت دانش مندی اور حکمت سے ملک میں دیرپا امن قائم کرنے اور ریاستی اداروں کے قیام میں کامیاب ہو ۔آمین!