رزق کی کمی و بیشی، اللہ کی مشیت سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ اس کی رضا سے۔ مشیت ِ الٰہی کے تحت اچھے اور بُرے، ہرطرح کے انسانوں کو رزق مل رہا ہے۔ خدا کا اقرار کرنے والے بھی رزق پارہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی۔ نہ رزق کی فراوانی اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی خدا کا پسندیدہ بندہ ہے، اور نہ اس کی تنگی اس امر کی علامت ہے کہ آدمی اُس کا مغضوب ہے۔ مشیت کے تحت ایک ظالم اور بے ایمان آدمی پھلتا پھولتا ہے، حالانکہ ظلم اور بے ایمانی خدا کو پسند نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس مشیت ہی کے تحت ایک سچا اور ایمان دار آدمی نقصان اُٹھاتا اور تکلیفیں سہتا ہے، حالانکہ یہ صفات خدا کو پسند ہیں۔
لہٰذا، وہ شخص سخت گمراہ ہے جو مادّی فوائد و منافع کو خیروشر کا پیمانہ قرار دیتا ہے۔ اصل چیز خدا کی رضا ہے اور وہ ان اخلاقی اوصاف سے حاصل ہوتی ہے جو خدا کو محبوب ہیں۔ ان اوصاف کے ساتھ اگر کسی کو دُنیا کی نعمتیں حاصل ہوں تو یہ بلاشبہہ خدا کا فضل ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایک شخص اخلاقی اوصاف کے لحاظ سے خدا کا باغی و نافرمان بندہ ہو، اور اس کے ساتھ دُنیا کی نعمتوں سے نوازا جارہا ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سخت بازپُرس اور بدترین عذاب کے لیے تیار ہورہا ہے۔
رازق، صانع، مُوجد، مُعطی اور ایسی ہی دوسری بہت سی صفات ہیں، جو اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں، مگر مجازاً بندوں کی طرف بھی منسوب ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ہم ایک شخص کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے فلاں شخص کے روزگار کا بندوبست کر دیا، یا اس نے یہ عطیہ دیا، اس نے فلاں چیز بنائی یا ایجاد کی۔ اسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ’خیرالرازقین‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یعنی جن جن کے تم گمان رکھتے ہو کہ وہ روزی دینے والے ہیں، اُن سب سے بہتر روزی دینے والا اللہ ہے۔(تفہیم القرآن، سورئہ سبا،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۸، عدد۶، ستمبر ۱۹۶۲ء، ص ۲۵)