سری لنکا کے حالات خود ان سری لنکائیوں کے لیے غیر متوقع ہیں، جو اپنے ملک کو ’غیربودھوں‘ سے پاک کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے یہ ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت دیکھ کر ہی راجا پاکسا خاندان کو ملک کی باگ ڈور تھمائی تھی۔
یہ ملک نیم جمہو ری ہے۔ یہاں وزیر اعظم توہوتا ہے، لیکن حکومت کا سربراہ صدر ہی ہوتا ہے۔صدر ہی وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں سے ’ عاملہ اختیارات‘ کا استعمال کرتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔ جس وقت سری لنکائی عوام پاکسا خاندان کو منتخب کر رہے تھے، ان کے سامنے اس خاندان کا اور خاص طور پر ’گوٹابیا راجا پاکسا‘ کا ماضی اپنی کریہہ شکل کے ساتھ موجود تھا۔انھیں علم تھا کہ یہی شخص ہزاروں شہریوں کو گھیر کر ان پر بمباری کرکے موت کے گھاٹ اتارنے کا ’اعزاز‘ رکھتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر گوٹابیا کی بدنامی کے باوجود ووٹروں نے انھیں منتخب کیا۔ گوٹابیا ۲۰۰۹ء میں جب ڈیفنس سیکریٹری تھے تو انھوں نے پہلے ہزاروں تملوں کو امان دینے کے وعدہ پر ’نوفائر‘ زون میں دھکیلا اور پھر دھوکے سے ۴۰ ہزار لوگوں کو گیس سے گلا گھونٹ کر اور بمباری کرکے ماردیا۔ اس وقت ان کے بھائی مہندا راجا پاکسا صدر تھے۔ اسی دوران انھوں نے ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر وی پربھاکرن کو بھی ماردیا تھا۔پاکسا خاندان نے سری لنکا کو ذاتی ملکیت میں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس وقت بھی اس کے ۱۲ممبران ہی حکومت چلارہے تھے۔
سری لنکا ایک عرصے تک ’لبریشن ٹائیگرز آف تمل ایلم‘ (ایل ٹی ٹی ای) نامی تنظیم کی خونی دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔’ایل ٹی ٹی ای‘ شمال مشرقی سری لنکا میں قائم تھی۔اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ۱۷فی صد تمل ہندوئوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے‘‘۔یہ تنظیم شمال مشرقی سری لنکا میں تملوں کے لیے ایک الگ ریاست ’تمل ایلم‘ قائم کرنا چاہتی تھی۔اس تمل قوم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں انگریز اپنے چائے کے باغات میں محنت مزدوری کرانے کے لیے ہندستان سے لائے تھے۔ ان کا اعتراض تھا کہ ’’سری لنکا کی اکثریتی آبادی اور حکومت ان کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے‘‘۔
تملوں اور (اکثریتی آبادی) بودھوں کے درمیان ہمیشہ کش مکش رہی۔اس کش مکش کا سبب لسانی اور ثقافتی فرق بھی تھا۔ تمل ہندو، سری لنکائی لہجے میں تمل زبان بولتے ہیں اور بودھ زیادہ تر سنہالی زبان بولتے ہیں۔سری لنکا کے بودھ اپنی زبان کے حوالے سے اتنے متعصب ہیں کہ پارلیمنٹ میں سرکاری زبان کے ایکٹ (۱۹۵۶کی شق ۳۳) کے مطابق یہ قانون پاس کردیا گیا تھا کہ ’’سیلون (سری لنکا کا پہلا نام) میں انگریزی کے بجائے صرف سنہالی زبان ہی بولی جائے گی‘‘۔ اس کے بعد تملوں کابڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔’تمل سینٹر فار ہیومن رائٹس‘ (TCHR) کے مطابق ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۴ء تک دو لاکھ سے زیادہ عام تمل مارے گئے یا لاپتہ ہوگئے‘ جب کہ ۵۰ہزار جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔
۱۹۸۷ءمیں حکومت ہند کے دبائو کے تحت سری لنکا نے زبان کے ایکٹ میں ترمیم کی اور سنہالی کو پہلی سرکاری زبان‘ تمل کو دوسری اور انگریزی کو رابطہ کی زبان قرار دیا گیا۔لیکن اس وقت تک زبان اور ثقافت کی بنیاد پر نفرت کا درخت تناور ہوچکا تھا۔ بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے زمانے میں سری لنکا میں ہندستان نے ’امن فوج‘ بھیجی تھی۔اس پر تمل ٹائیگرز ناراض تھے۔ سری لنکا کے دورہ کے دوران جب راجیو گاندھی ’گارڈ آف آنر‘ کا معائنہ کر رہے تھے تو ان پر ایک ناراض سپاہی نے بندوق کے بٹ سے حملہ کیا تھا۔پھر تامل ناڈو کے سری پیرمبدور میں ان پر خود کش حملہ کرکے تمل دہشت گردوں نے انھیں ہلاک کردیا تھا۔
تمل ٹائیگرز کو یہ بھی شبہہ تھا کہ سری لنکا کے مسلمان ان کی مخبری کرتے ہیں اور ان کے مخالف ہیں، جب کہ دوسری طرف سری لنکا کے بودھوں کی تنظیم ’بودو بالا سینا‘ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی۔اس طرح ۱۰فی صد کے آس پاس سری لنکائی مسلمان چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے۔ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شمال مشرقی سری لنکا کے مختلف علاقوں سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔حالانکہ بعد میں ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر ویلو پلی پربھاکرن نے مسلمانوں سے یہ کہہ کر معافی مانگ لی تھی کہ مسلمانوں کو باہر نکالنے کی مہم ہماری بہت بڑی سیاسی غلطی تھی‘‘۔ لیکن ان کے برعکس بودھوں نے مسلمانوں سے نفرت کا کھیل جاری رکھا۔
گوٹابیا کے آنے کے بعد مسلم مخالف مہم میں حکومت بھی شامل ہوگئی۔۳؍اگست ۱۹۹۰ء کو ’کٹن کوڑی‘ کی مسجد میں جب تین سو لوگ عشاء کی نماز میں مصروف تھے تو ۳۰ مسلح دہشت گردوں نے اندھا دھند گولیاں برساکر ۱۴۷ مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔ حکومت‘ عینی شاہدین اور بچ جانے والوں نے تمل ٹائیگرز کو مورد الزام قرار دیا۔ لیکن خود ایل ٹی ٹی ای نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’’یہ کام بودو بالا سینا کا ہے‘‘۔
۲۰۱۲ء کی مردم شماری کے مطابق سری لنکا میں ۲۰ لاکھ مسلمان ہیں، جب کہ تملوں کی تعداد ۳۰ لاکھ ہے۔ان میں سری لنکن‘ انڈین اور مورس تمل شامل ہیں۔۱۹۸۱ء میں مسلمانوں کے ایک دانشور گروپ نے ’سری لنکن مسلم کانگریس‘ قائم کی تھی۔یہ ایک سیاسی پارٹی تھی اور اس کا منشور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر سری لنکائی کی فلاح کے لیے کام کرنا تھا۔اس گروپ نے اکثریتی آبادی ’بودھوں‘ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ ’’۲۱ویں صدی کے سری لنکا کی تعمیر و ترقی میں مسلمان بھی برابر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں‘‘۔اس کے قائد ایم ایم ایچ اشرف تھے۔ حالانکہ اس جماعت کے قیام سے پہلے بھی کچھ مسلمان سیاست میں متحرک تھے۔ایم اے بکیر مارکر ۱۹۷۷ءسے ۱۹۸۳ء تک پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر رہے۔
مسلمانوں کی ایک اور پارٹی ’مسلم نیشنل الائنس ‘(MNA) قائم ہوئی۔نویں پارلیمنٹ میں دونوں مسلم جماعتوں کا ایک ایک ممبر الیکشن جیت کر پہنچا تھا۔لیکن ’بودو بالا سینا‘ نے مسلسل نفرت بھری مہم چلائی اور مسلمانوں کے لیے سیاسی مہم میں حصہ لینا مشکل ہوگیا۔اس کے باوجود وہاں مسلمان اپنے دین و مذہب پر قائم اور عامل رہے۔ سری لنکا میں سرکاری طور پر دینی مدارس کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا، لیکن وہاں ۲۰۰ سے زائد مدارس کے ساتھ ساتھ ۸۰۰ کے قریب مسلم اسکول بھی قائم تھے۔ اس کے علاوہ بیرووالا میں ایک اسلامک یونی ورسٹی بھی کام کر رہی تھی۔
۱۳ مارچ ۲۰۲۱ءکو راجا پاکسا انتظامیہ نے مسلم خواتین کے برقعہ اوڑھنے اور ایک ہزار سے زیادہ مدارس اور اسکولوں پر پابندی کا اعلان کردیا۔ یہی نہیں برقعہ اور مدارس کے خلاف متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون (پی ٹی اے) کے استعمال کا بھی اعلان کردیا۔’پی ٹی اے‘ کو حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک خوفناک سیاہ قانون قرار دیتی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ قانون بھی ہندستان کے یواے پی اے کی طرح ہے، جو ملزم کو دوسال تک انصاف طلبی کے حق سے محروم رکھتا ہے۔اس قانون کے تحت پولیس کسی کو بھی مشتبہ بتاکر گرفتار کرکے جیل میں ڈال سکتی ہے۔
نومبر۲۰۱۹ء میں جب گوٹابیا نے الیکشن لڑا تھا، تو ہم وطنوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’انتہاپسندوں‘ کی جڑ پر حملہ کرکے انھیں مٹادیں گے۔سری لنکا کے بودھوں کو ان کی یہ ادا پسند آئی تھی۔ نہیں معلوم کہ تمل ہندوئوں نے کیا رویہ اختیار کیا، لیکن اپریل ۲۰۱۹ء میں ایسٹر کے موقع پر مبینہ طور پر آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردانہ بمباری کے بعد سری لنکا کے مسلمانوں سے نفرت میں قومی سطح پر اضافہ ہوگیا تھا۔
یہ نفرت اس وقت عروج پر پہنچی جب کورونا کے دوران وفات پاجانے والے مسلمانوں کو قبرستان میں یہ کہہ کردفن ہونے نہیں دیا گیا کہ اس سے زیر زمین پانی خراب ہوگا۔ایسی اموات کے لیے ’نذرآتش‘ کرنے کو لازمی قرار دے دیا گیا۔پولیس نے مسلم علاقوں میں ایک خوفناک مہم چلاکر اس امر کو یقینی بنایا کہ کورونا سے مرنے والے مسلمانوں کی لاشیں جلائی جائیں۔حقوق انسانی کے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے دبائو کے بعد حکومت نے یہ متنازعہ حکم واپس لیا۔
کولمبو سے انڈین ایکسپریس کے صحافی شبھاجیت رائے نے لکھا ہے کہ گوٹابیا اور مہندا مسلسل ’سنہالافخر‘ کی مہم کو آگے بڑھاتے رہے، جس سے بودو بالا سینا کو مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ ۲۰۰۹ء میں جس وقت گوٹابیا نے ایل ٹی ٹی ای کے لیڈر وی پربھاکرن کو ہیبت ناک طور پر ہلاک کیا تھا تو دانش علی کی عمر ۱۸سال تھی۔دانش کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس وقت ہر سری لنکائی ہیرو مان رہا تھا۔ لیکن میں اور میرے اہل خانہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ گوٹابیا ایک نسل پرست ہے، جو اقلیتی مسلمانوں پر اکثریتی سنہالا کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔
دانش علی اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا چلے گئے تھے۔آج ان کی عمر ۳۱ سال ہے اور اس وقت وہ ’ارگلایا‘ مہم کا نمایاں چہرہ ہیں۔دراصل سری لنکا کے عوام کی یہی وہ متحدہ مہم ہے جس نے پاکسا خاندان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔گوٹابیا نے اپنے مخالفوں کو ہی نہیں بلکہ نکتہ چینوں تک کو اپنے آہنی ہاتھوں سے خاموش کردیا۔ایسے تمام صحافیوں کو ’سفید وین‘ کے ذریعے اغوا کرکے ٹھکانے لگادیا، جنھوں نے گوٹابیا پر تنقید کرنے کی جرأت کی۔
سفید وین کا واقعہ بہت مشہور ہے۔اس میں سنڈے لیڈر کے ایڈیٹر ’لتھانسا وکرما تنگے‘ کو ۲۰۰۹ء میں ہلاک کردیا گیا تھا۔۲۸ سالہ فائنانسر’سنکاجیا سیکرے‘ کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس کے ’اعمال بد‘ نے زمین دوز کردیا۔اس نے کہا کہ یہ المیہ ہی ہے کہ جس لیڈر نے ’سنہالا فخر‘ کے نام پر سری لنکا کے عوام کو آپس میں بانٹ دیا تھا، آج انھی عوام کے اتحاد کے سبب وہ روبہ زوال ہوگیا۔
’گوٹابیا کہانی‘ کا ایک پہلو سری لنکا کی معیشت کا ڈوب جانا بھی ہے۔لوگ ’سنہالافخر‘ کا نشہ کرکے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا کھیل کھیلتے رہے اور گوٹابیا چین اور ہندستان سے قرض در قرض لے کر’سری لنکا کی تعمیر‘ کے نام پر اپنے خاندان کی تجوریاں بھرتے رہے۔جب سری لنکا مختلف منصوبوں میں چین کے قرض تلے دب گیا تو ایک وقت وہ آیا کہ گوٹابیا حکومت نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ اور اس سے ملحق زمین کو چین کو ۹۹سال کی لیز پر دے دیا۔اس کے عوض چین نے اسے ۱ء۱ بلین ڈالر دیئے، جس سے حکومت ملک کی معیشت کو چلارہی تھی۔
گوٹابیا نے قرض لے کرایک ساتھ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کردیئے، جو کبھی پورے نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ ۱۹۰ملین ڈالر سے تعمیر کردہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ رُوبہ عمل نہ آسکا اور آج وہاں گائوں والے کالی مرچ کی فصل پھیلاکر خشک کرتے ہیں۔سری لنکا کی اس کہانی میں آپ کو کچھ اور دیکھنے اور موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔صرف یہ سمجھنا کافی ہے کہ دنیا بھر میں جو حکمران قوم پرستی کے نام پر اپنے شہریوں کو لڑائیں‘ اپنی خواہشات کے مطابق دیو قامت تعمیرات کرائیں اور جو ملک کی معیشت کی طرف سے بے فکر ہوجائیں، آج نہیں تو کل ان کا انجام گوٹابیا جیسا ہونا ہے۔
معاشرے کے وہی طبقات جنھیں بانٹ کر وہ اپنے اقتدار کو جلا بخشتے ہیں، ایک دن حکمرانوں کے ہی خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے ہیں۔انگریزی ناول The Spire کے مصنف ولیم گولڈنگ نے ۱۹۶۴ءمیں لکھا تھا: ’’خدا کی مرضی کے خلاف جو طاقت ور حکمران اپنی خواہشات کی پیروی کا انتخاب کرتا ہے، اس کا بنایا ہوا سونے کا محل ڈوب جاتا ہے‘‘۔