انیسویں صدی کے تیسرے عشرے تک مغربی افکار، مادہ پرستانہ معاشرت اور الحادی تہذیب و تمدن کا مقابلہ کرنے اور ان کے منفی اثرات سے معصوم اور نوخیز طلبہ و نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جدید اسلوب، منطقی انداز اور سائنٹفک طرز استدلال پر مبنی اسلامی لٹریچر موجود نہیں تھا، جو جدید تعلیم یافتہ نسل کو اپنے بنیادی عقائد، تہذیبی اقدار اور اسلامی طرز معاشرت کا گرویدہ بناتا۔ اکبر الٰہ آبادی [ ۱۶؍نومبر ۱۸۴۶ء - ۹ ؍ستمبر ۱۹۲۱ء] اورشاعر مشرق علامہ اقبال [۹ ؍ نومبر ۱۸۷۷ء- ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء] کے بعد سیّد ابوالاعلیٰ مودودی [ ۲۵ ؍ ستمبر ۱۹۰۳ء- ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء] وہ پہلے فرد تھے، جنھوں نے مغربی افکار اور الحادی تمدن پر نہ صرف یہ کہ کاری ضرب لگائی، بلکہ تمام باطل نظریات کے مقابلے میںاسلام کی حقانیت ،صداقت اور بالا دستی کو نقلی اورعقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ۔
شاہ ولی اللہ [ ۱۷۰۳- ۱۷۶۲ء] کے بعد مولانامودودی نے برصغیر میں پہلی بار منطقی استدلال کے ساتھ دین کی تعبیر و تشریح کی اور اسلام کو ایک صوفیانہ خانقاہی مذہب کے بجائے مکمل نظام زندگی اورتحریک کی شکل میں پیش کیا۔
بیسویں صدی کے تیسری عشرے میں، جب کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے بیشتر طلبہ الحاد اور دہریت کا شکارہورہے تھے ‘مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں ، ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ میں (جس کا اجراء ۱۹۳۲ء میں حیدر آباد دکن سے ہوا ) ’ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘ اور’ مسئلہ قومیت ‘ پر ان کے سلسلہ وار مضامین نے طلبۂ علی گڑھ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لاہور کی ’سیرت کمیٹی‘ اور کُل ہند مسلم لیگ ان مضامین کو علی گڑھ میں بار بار مفت تقسیم کررہی تھی۔چنانچہ طلبہ کے فکر و نظر میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اوراسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرنے والے طلبہ کا ایک اسلامی حلقہ قائم ہوا ۔ (۱)
مولانا مودودی ،علی گڑھ سے اپنے ربط و تعلق کے بارے میں خود بیان کرتے ہیں :
’’میرے والد مرحوم مولوی سید احمد حسن صاحب ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ۲ سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے بالکل ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے ۔ سرسید مرحوم نے جب مدرسہ قائم کیا تھا تو وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں میں سے بھی بہت سے لڑکوں کو چن کرعلی گڑھ لے گئے تھے۔ چونکہ میری دادی کی مرحوم(سر سیداحمد) سے قرابت ہوتی تھی‘( نعیم صدیقی نے کتاب ’ المودودی ‘میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ’’سرسید احمد خاں ایک قریبی رشتہ سے میری دادی کے بھائی ہوتے تھے اور میرے والد اُن کے بھانجے تھے ‘‘)۔ اس لیے میرے والد مرحوم کا انتخاب بھی اسی سلسلے میں ہوا ۔مدرسہ میں سر محمد رفیق اور سر بلند جنگ وغیرہ ان کے رفیق جماعت تھے ۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں۔ میرے دادا کو والد کا علی گڑھ میں تعلیم پانا سخت ناگوا رتھا مگر سر سید کے خیال سے خاموش تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے ایک عزیز علی گڑھ تشریف لے گئے اور اتفاقاً ایک جگہ کرکٹ کا کھیل دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ وہاں ان کی نظر والد مرحوم پر پڑی اور یہ دیکھ کر انھیں سخت رنج ہوا کہ ایک پیر طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے انگریزی طرز کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ دہلی واپس ہوئے تو دادا صاحب سے مل کر کہا کہ ’’بھائی صاحب! احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجئے، میں نے اس کو علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کرتی پہنے گیند بلا کھیل رہا تھا ۔ یہ سن کر دادا کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور انھوں نے فوراً والد مرحوم کو علی گڑھ سے واپس بلا لیا ۔ اس طرح وہ وہاں تکمیل تعلیم نہ کرسکے‘‘ ۔(۲)
یونی ورسٹی کے سابق طالب علم محمد یوسف بُھٹّہ نے مولانا کے بھائی ابو الخیر مودودی کے حوالے سے لکھا ہے :’’ مولانامودودی کے والد احمدحسن صاحب غالباً دوسرے یا تیسرے بیچ کے علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے،جب اُن کے والد کویہ معلوم ہوا کہ کافر کرتی پہنے فرنگیوں کے ساتھ گیندبلا کھیلتا ہے تو انھوںنے اپنے بیٹے کو فی الفور واپس بلالیااور تطہیر کے لیے مولانا رشید احمدگنگوہی کے پاس بھیج دیا، جہاں احمد حسن صاحب نے اُن سے باقاعدہ درس حدیث لیا۔صحیح مسلم پراُن کے جو نوٹس تھے مولانا گنگوہی بعد میں آنے والے بیچ کے طالب علمو ںسے کہا کرتے تھے کہ وہ یہ نوٹس لے کر دیکھ لیں ۔ مولانا وحید الزماں حیدرآبادی جنھوں نے صحاح ستہ اور قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ‘ان کے ساتھ احمد حسن مودودی نے سات مرتبہ ’صحاح ستہ‘ کا دورہ کیا ۔ بخاری اور مسلم وغیرہ کا جو ترجمہ وہ کرتے، نظر ثانی کے لیے احمد حسن صاحب کے پاس بھیجتے ۔(۳)
شعبۂ عربی کے سابق استاذ پروفیسر ریاض الرحمان خاں شروانی [اگست ۱۹۲۴ء- ۴؍ نومبر ۲۰۱۹ء] کے مطابق : ’’ میں ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۲ء تک یونی ورسٹی اسکول اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک یونی ورسٹی کا طالب علم رہا ہوں۔ سال میں ایک بار اسلامی ہفتہ منایا جاتا تھا، ۴۰ء سے قبل یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ تاریخ کے استاد امیر حسن صاحب اور فلسفہ کے استاذ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب اس میں پیش پیش رہتے ۔ اسلامی ہفتے کے دوران اُن علماء کو مدعو کیا جاتاجو کانگریس سے دُور اور اس کے مخالف تھے ۔طلبہ کی اکثریت اس زمانے میں مولانا سید سلیمان ندوی سے متاثر تھی اور ان کی تقریر سننے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوتی تھی ۔ کچھ طلبہ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ تھے۔ میں نے جماعت اسلامی کا لٹریچر اسی زمانے میں پڑھا تھا ۔ ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا۔ مولانا مودودی کو اسٹریچی ہال میں سنا ہے اوران سے ملاقات بھی کی تھی‘‘ ۔ (۵)
شعبۂ کیمسٹری کے سابق استاد پروفیسر احمد سورتی[۱۳ فروری۱۹۲۲ء -۲۴؍ اگست۲۰۱۷ء ] کے مطابق:’’ میں نے ۱۹۴۰ء میں گیارہویں کلاس میں داخلہ لیا تھا ‘مگرمولانا مودودی کی ’سیاسی کشمکش‘ حصہ اول اور ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ نویں کلاس میں ہی شروع کردیاتھا۔ ۱۹۴۰ء میں اسٹریچی ہال میں مولانا مودودی نے خطاب کرتے ہوئے ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ میں اس جلسہ میں شریک تھا۔ اس زمانے میں’سیاسی کشمکش‘ کے تمام حصے پڑھ لیے تھے اور ’ترجمان القرآن‘ کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا ۔ شمشاد مارکٹ میں طلبہ کے اسلامی اجتماع میں شریک ہوتاتھا ۔راؤ شمشاد علی اس زمانے میں کافی متحرک تھے ۔ مولانا مودودی کے مضامین اور ان کا رسالہ ’ترجمان القرآن‘ اسلام پسند طلبہ میں کافی مقبول تھا ‘‘۔(۶)
محفوظ الحق حقی علیگ زمانہ ٔ طالب علمی کی یادداشتوں میں لکھتے ہیں : ’’اسلامی ہفتہ منانا علی گڑھ کی قدیم روایات میں سے ایک ہے۔ یہ ہفتہ ہرسال بڑے احترام اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس زمانے میں ڈاکٹرامیرحسن صدیقی اس کے نگراں ہوا کرتے تھے۔ ہفتوں پہلے ہندوستان کے جیدعلماء کو اس میںشرکت کی دعوت دی جاتی۔ ایک سال مولانا عبدالماجد دریابادی اور نواب بہادر یار جنگ تشریف لائے تواسٹریچی ہال میں اوپر نیچے تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
پروگرام کے مطابق مولاناعبدالماجد دریابادی کو مقالہ پڑھنا تھا، چنانچہ وہ تشریف لائے اور مقالہ پڑھنا شروع کیا تواُن کامقالہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ادھر طلبہ نے بے چینی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنا شروع کردیا۔ مولانا اس بات کو تاڑ گئے اور مقالہ ختم کیے بغیر بیٹھ گئے۔ صدر اجلاس ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے طلبہ کو ڈانٹ پلائی اور مولانا سے درخواست کی کہ وہ اپنا مقالہ مکمل کریں لیکن وہ تشریف نہ لائے۔آخر صاحب صدر نے قائدملت نواب بہادر یار جنگ سے تقریر کی درخواست کی۔اس وقت جلسہ کا ماحول بڑا خراب ہوگیا تھا ، ایک مقرر کے لیے بڑا ہی کٹھن وقت تھا، لیکن نواب صاحب کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔آپ ڈائس پرتشریف لائے اور بڑے اطمینان سے مخاطب ہوئے :
’’حضرات ! اِس سردی کے موسم میں آپ کی دعوت پر پانچ سو میل کی مسافت طے کرکے یہاںتک پہنچا ہوں، مولانا عبدالماجد نہیں ہوںکہ بیٹھ جاؤں گا۔ اچھی طرح سن لیجیے کہ جب تک ایک ایک لفظ نہ کہہ لوں گا اسٹریچی ہال سے جاؤں گااور نہ جانے دوں گا‘‘۔ اس کے بعد نواب بہادر یار جنگ بولے اوربڑے ہی دھڑلے کے ساتھ تقریر کی۔ تقریر کیا تھی ایک سحر تھا کہ کسی کو ہاتھ ہلانے کا بھی ہوش نہ تھا،ایک جوار بھاٹا تھا جس میںپتھر لڑھکنے کے بجائے موتی رول رہے تھے۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بنا ہوا تھا‘‘۔(۷)
مبارک علی خاں میرٹھی جو ۴۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی کے طالب علم تھے‘ اپنی یاد داشتوں میں رقم طراز ہیں :’’یہ واقعہ ۱۹۴۰ء کے آخری ایام کا ہے ،مسلم یونی ورسٹی میں’ اسلامی ہفتہ‘ منائے جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں ۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی اس کے کرتا دھرتا تھے۔اس ہفتہ میںشرکت کے لیے مولانا مودودی بھی مدعو کیے گئے تھے۔ ہم لوگ مولانا کی تحریروں سے ’ترجمان القرآن‘ کے ذریعہ تین چار سال سے واقف تھے۔ یہ رسالہ دوسرے علمی و ادبی ماہناموں کے ساتھے یونین کی لائبریری میں آتا تھا اور علم دوست طلبہ اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتا۔ ترجمان میں ’سیاسی کشمکش‘ کے مضامین کا سلسلہ قسط وار شروع ہواتو اُس نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دلکش انداز تحریر اور معقول و مضبوط دلائل نے نوجوانوں کو ہی نہیں بزرگوں کو بھی متاثر کیاہوا تھااور ہرشخص مولانا مودودی کی آمد کی اطلاع سے مسرور اور ان سے ملاقات کامشتاق تھا۔
’’یونی ورسٹی نے جو اس زمانے میں علم و فن کا عظیم الشان مرکز بنی ہوئی تھی، ایک علم دوست کی حیثیت سے مولانا مودودی کا شایان شان استقبال کیا۔ مولانا صبح کو دس بجے یونی ورسٹی کے تاریخی اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور زمانہ مقالہ ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ پڑھنے والے تھے، لیکن وقت مقررہ سے بہت پہلے ہی ہال اس طرح بھر گیا کہ کھڑے ہونے کو بھی جگہ نہ رہی۔ پروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست )نے اس نشست کی صدارت کی۔ مولانا اپنا مقالہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو پورے ہال میں سناٹا چھا گیا اور مقالہ ختم ہونے تک یہی عالم رہا حالانکہ مولانا نے اس مقالے میں بغیر نام لیے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے طریقۂ کار پر تنقید کی تھی۔ مقالے کے بعد صدر جلسہ کی اجازت سے سوالات و جوابات کی بھرپور نشست ہوئی۔اس زمانے میں اکثر مسلم نوجوان مسلم لیگ سے بہت متاثر تھے، خود میرا تعلق نیشنلسٹ گروپ سے تھا۔ طلبہ نے خوب خوب سوالات کیے۔ بعض نوجوانوں نے مولانا سے بڑے اچھے سولات پوچھے، لیکن بعض ایسے بھی تھے جن کا لہجہ کافی تلخ و تند تھا، مگر مولانانے ان سب کا جواب جس قدر سکون، شگفتگی اور ٹھنڈے انداز سے دیا، اس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ آخر میں صدر مجلس پروفیسر محمدحبیب نے بھی مولانا سے ایک سوال کیا ’’آپ پھر کب ہمیں اپنا دوسرا مقالہ سننے کا موقع دیں گے؟‘‘ دوسرے دن انھوں نے اپنے شعبہ میں مولانا کو مدعو کیا اور اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایک لیکچر دلوایا۔
’’مولانا مودودی کا قیام اولڈ بوائز لاج میں تھا۔ مجھے بھی مولانا سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا اشتیاق ہوا۔ اس زمانے میں شعبۂ ریاضی میں ایک نئے استاد پروفیسر ڈاکٹر میاں ضیاء الدین صاحب آئے تھے، ان کی وساطت سے ہم کئی طلبہ مولانا سے ملنے گئے۔ مولانا کا مذکورہ مقالہ مجلس اسلامیات کی طرف سے شائع ہوکر تقسیم کیا جاچکا تھا۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جو سوالات ہمارے ذہن میں آئے، مولانا نے بڑے دل پسند انداز میں ان کے جواب دیے اور ہمارے شکوک و شبہات کو دُور فرمایا۔آخر میں مولانا نے کہا’’ ہر انقلاب کے لیے نوجوان ہی کام کرتے ہیں، اس لیے میںآپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ لوگ غور کریں اور اگر میری بات صحیح معلوم دے تو پھر اپنے آپ کو ذہنی اور علمی طور پر تیار کریں اور اپنی زندگیوں کو عملاً اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں‘‘۔(۸)
۳۰ کی دہائی میںیونی ورسٹی کے طالب علم رام پور کے محمد یوسف بُھٹّہ ایک انٹر ویو کے دوران کہتے ہیں : ’’یہ زمانہ غالباً۱۹۳۳ء کے آخر کا ہے جب ہم علی گڑھ پہنچے تو وہاں کمیونسٹ تحریک زوروں پر تھی۔ انھی ایام میں ایک صاحب نے مجھے’’ الجہاد فی الاسلام‘‘پڑھنے کے لیے دی۔ اس کو پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ میں اسلامی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ اسی مصنف کی دوسری کتابوں کی تلاش رہنے لگی۔ پتہ چلنے پر ’ترجمان القرآن‘ بھی منگوانا شروع کردیا، اور یہ سلسلہ اُس وقت سے آج تک جاری ہے‘‘۔( ۹)
پروفیسر آسی ضیائی، لاہور اپنے مضمون بعنوان ’’ تیری چنگاری ‘ چراغ انجمن افروز تھی ‘‘میں رقم طراز ہیں : ’’۴۶ء میںمیںنے علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں جماعت اسلامی سے متاثر چند طلبہ اور ایک استاذ (جلیل الدین احمد خاں صاحب) سے رابطہ پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میںطلبہ کے’ حلقۂ ہمدردان جماعت‘ کاامیر بھی مجھے بنادیا گیا ‘‘۔(۱۰)
پروفیسر سیدمحمد سلیم،شکار پور ،سندھ زمانہ ٔ طالب علمی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’۱۹۴۴ء میں دہلی سے بی اے کرنے کے بعد میں ایم اے، ایل ایل بی کرنے کے لیے علی گڑھ گیا۔ وہاں انگریزی کے استاد پروفیسر جلیل الدین احمد خاں سے ملاقات ہوئی جو وہاںجماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ علی گڑھ میں کچھ عرصہ قبل اشتراکیت زدہ طلبہ کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں تھیں، اس لیے یونی ورسٹی کے ارباب اختیار نے طلبہ کی انجمن سازی پر سخت بندشیں عائد کررکھی تھیں۔ طلبہ کی صرف ایک انجمن ’مجلس اسلامیات‘ کے نام سے قائم تھی جس کے سربراہ شعبۂ فلسفہ کے سربراہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب تھے۔ ڈاکٹر صاحب کافی ضعیف تھے،انھوں نے نگرانی کے فرائض ڈاکٹر افضال قادری کے سپرد کر رکھے تھے۔ خود ڈاکٹر افضال صاحب بے حد مصروف آدمی تھے اس لیے انھوں نے پروفیسر جلیل الدین احمد خاں کو متعین کردیا تھا کہ ’مجلس اسلامیات‘ کی نگرانی کریں۔
’’پروفیسر جلیل الدین احمد خاں جونیئر لیکچرار تھے اور اپنی طویل داڑھی کی وجہ سے نمایاں تھے۔ انھوں نے گویا ’مجلس اسلامیات‘ پر قبضہ کرلیا تھا۔نام تو اس کا وہی رہا مگر عملاً اس کو’ حلقۂ ہمدردان جماعت اسلامی‘ میں تبدیل کردیااور راقم کواس حلقہ کاناظم مقرر کیا۔ ایک کلاس روم میں ہفتہ وار اجتماع ہوتا تھا، راقم درس قرآن دیتا تھا،رپورٹیں لی جاتی تھیں۔ناظم نشر واشاعت کتابوں کا تھیلا ساتھ لاتے تھے۔رفقاء پڑھی ہوئی کتابیں واپس کرتے تھے اور نئی کتابیں لے جاتے تھے۔ سارا زور مطالعہ اشتراکیت کی تردید پر تھا۔
’’اس حلقے میں اچھے اچھے لوگ شامل تھے۔ فروغ احمدصاحب، صفدر صدیقی صاحب، کاظم سباق، آسی ضیائی ، معظم علی علوی(انگلستان)وغیرہ۔ علی گڑھ کی مشہور نمایش میں ہم نے جماعت اسلامی کی کتابوں کی بک اسٹال پہلی مرتبہ لگائی تھی۔صفدر صدیقی ناظم نشرو اشاعت اس کے انچارج تھے۔ ایک ہفتہ میں ہم نے تین ہزار روپیہ کی کتابیںفروخت کی تھیں۔ ہمیں اس کی بڑی خوشی ہوئی تھی، ہمارے خزانچی ہادی عطا بڑے ذہین اور محنتی طالب علم تھے، حافظ قرآن تھے، تراویح ہم نے ممتاز ہوسٹل میں ان کے پیچھے پڑھی تھیں۔ جب نتیجہ برآمد ہوا تو بی اے، بی ایس سی دونوں میںوہ سرفہرست تھے۔ مگر وائے افسوس نتیجہ نکلنے سے قبل ہی وہ فوت ہوگئے تھے۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محدث شاہ حلیم عطا کے وہ فرزند تھے اور شاہ حسن عطا کے وہ بڑے بھائی تھے۔
’’علی گڑھ میں میں نے ایم اے عربی میں داخلہ لیا۔اس سال قمرالدین خاں نے بھی وہاں داخلہ لیا۔ دو سال تک ہم ساتھ رہے۔ قمرالدین خاں پہلے ایم اے انگریزی‘ علی گڑھ میں تھے، مگر بعض وجوہ کی بنا پر چھوڑ کر ڈی اے وی کالج لاہور چلے گئے۔وہاں داخلہ لیا لیکن وہاں بھی تکمیل نہ کرسکے۔ پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میںعربی کی تعلیم حاصل کی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے اور پہلے ناظم تنظیم مقرر ہوئے۔ ایک کتاب کا انگریزی میں ترجمہ بھی انھی کے قلم کا ہے۔ پھر مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے ساتھ جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ میں نے جماعت اسلامی سے ان کی اور مولانا منظور نعمانی کی علیحدگی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کوشش کی، مگر انھوںنے کوئی خاص بات بتاکر نہیں دی ۔
’’اپریل ۱۹۴۶ء میں جماعت اسلامی ہند کا سالانہ اجتماع الٰہ آباد میںمنعقد ہوا تو ’مجلس اسلامیات‘ کے پندرہ طالب علموں کے ہمراہ میں نے بھی اس اجتماع میں شرکت کی‘‘۔ (۱۱)
پدم شری حکیم سید ظل الرحمن( سابق پرنسپل طبیہ کالج علی گڑھ وڈائریکٹر ابن سینا اکیڈمی ، علی گڑھ ) کے مطابق :’’میں ۱۹۵۵ء سے۱۹۶۰ء تک یونی ورسٹی کا طالب علم رہا ہوں ۔ اس زمانے میں مولانا مودودی کی کتابیں طلبہ میں بہت مقبول تھیں۔ پردہ، سود، تنقیحات، تفہیمات، اور تفہیم القرآن وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ ذہین اور با صلاحیت طالب علم حتیٰ کہ شیعہ اور بوہرہ طلبہ بھی مولانا مودودی کی کتابوں کو ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔شمشاد مارکیٹ میں واقع دارالمطالعہ سے میرا تعلق ۱۹۵۵ء میں قائم ہوگیا تھا ۔لائبریری عصر کے بعد کھلتی تھی ،طلبہ اور اساتذہ سبھی وہاںمطالعہ کے لیے آتے تھے ‘‘ ۔ (۱۲)
۵۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی کے ایک سنجیدہ طالب علم حکیم شاکر حسین عباسی (ناگپور) نے جو بوہرہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں،ایک مضمون میں لکھا ہے’’ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودی کی شخصیت مسلم نوجوانوں کے لیے پُرکشش تھی۔ ان کا انداز ِتحریر بڑا دلکش اور مؤثر ثابت ہورہا تھا اور پڑھا لکھا سنجیدہ نوجوان طبقہ ان کی طرف مائل تھا۔ مولانا کی اس وقت کی تحریروں میں اصلاحی‘ سماجی‘ اور معاشی پہلوؤں پر زور تھا اور ان کی تحریر کے ادبی انداز کو امتیاز مل رہا تھا۔ (۱۳)
۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد علی گڑھ کے انتہائی ذہین، باصلاحیت ،غیرت مند اور دینی و ملّی جذبات رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ نے پاکستان کی راہ لی ۔کیمپس میںمسلم لیگ کی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوگیا، مگر مولانا مودودی کے فکری منہج پر چلنے والے طلبہ کی اسلامی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں۔ شمشاد مارکیٹ کا دار المطالعہ ان کی سرگرمیوں کا مرکزتھا ۔ ۱۹۵۲ء میںفکر مودودی کے علَم بردار طلبہ یونی ورسٹی میںعددی اعتبار سے اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ طلبہ یونین کے انتخابات میں دارالمطالعہ سے وابستہ اسلامی حلقہ کے طالب علم انوار علی خاں سوزاپنے مد مقابل ترقی پسند امید وار کو شکست دے کریونین کے سکریٹری منتخب ہوگئے۔ ۱۹۵۶ء میں اسی حلقے کے رکن طالب علم سید ضیاء الحسن ہاشمی (حیدر آباد)کا اسٹوڈنٹس یونین صدراور ۱۹۵۸ء میں صغیر احمد بیدار (بھوپال) کا یونین سکریٹری منتخب ہونا،طلبہ میں مولانا مودودی کے افکار و نظریات کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے۔
اسلامی حلقہ سے منسلک یونی ورسٹی کے متعدد ممتاز طلبہ ’علی گڑھ میگزین‘ کے اردو اور انگریزی شماروں کے مدیر اور اس کی مجلس ادارت کے رکن رہے ۔اس زمانے میںمولانامودودی کی تحریروں کے اقتباسات ’علی گڑھ میگزین‘ کی زینت بنتے تھے ۔ ایم اے انگریزی کے طالب علم سیدزین العابدین ۱۹۴۸ء میں ’علی گڑھ میگزین‘ ( انگریزی ) کے ایڈیٹر تھے ۔ فروغ احمد صاحب ’علی گڑھ میگزین‘ کی مجلس ادارت میں رہے، ان کی متعددنظمیں اور مضامین ۴۷،۴۸ ء میں شائع ہوئیں ۔ انوار علی خاں سوز انجمن اردوئے معلی سے وابستہ تھے اورعابد اللہ غازی کے ساتھ انجمن کی جانب سے دہلی کالج کے مباحثوں(Debates)میں شرکت کے لیے جاتے ۔مولانا کے دینی افکار سے متاثر ایم اے کے طالب علم انور صدیقی ۱۹۵۸ء میں ’علی گڑھ میگزین‘ کے ایڈیٹر رہے۔اسلامی حلقہ سے وابستہ ابن فرید اور افتخار اعظمی وغیرہ بھی اس زمانے میں یونی ورسٹی کی علمی اور ادبی فضا میں ایک روشن ستارے کی مانند چمکتے نظر آتے ہیں (مولانا کے نظریات سے متاثراور ان کے افکار کے علَم برداریونی ورسٹی کے نامورطلبہ کے علمی کارناموں اور خدمات پر علیحدہ تحقیق کی ضرورت ہے ) ۔
شعبۂ عربی میں پرفیسر عبد العزیز میمن کے شاگرد رشید اور کراچی یونی ورسٹی میں عربی کے استاذڈاکٹر سید محمد یوسف اپنے ایک مضمون بعنوان ’’مولانا مودودی بحیثیت ایک ادیب‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’مولانا مودودی‘‘ میرے لیے یہ دو جادو کے بول ہیں جن سے ۱۹۳۷ء تا ۱۹۴۷ء کے علی گڑھ کی تصویر نظروں میں گھوم جاتی ہے۔ہندوپاکستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں یہ دور ہرلحاظ سے فیصلہ کُن تھا۔ علی گڑھ کو نصف صدی سے وہ حیثیت حاصل تھی جو جسم انسانی میں قلب کی ہوتی ہے۔ اس دَور میں ملت اسلامیہ ہند کا قلب اُمنگوں اور آرزوئوں سے معمور تھا۔ ہر نوجوان مستقبل کے متعلق مصروف فکر نظر آتا تھا۔ ’دانش فرنگ‘کے ساتھ ساتھ ’شاہین کا تجسس‘ رکھتا تھا۔ کانگریس شکست کھاچکی تھی لیکن لہو گرم رکھنے کے بہانے کی حد تک باقی تھی۔ کمیونزم اپنے خلیہ یا یوں کہیے کہ بِل میں سمٹا اور دبکا پڑا تھا،مسلم لیگ کا بول بالا تھا۔ سیاسی پہلو سے قطع نظر اس کا ایک نمایاں ا ثر یہ تھا کہ اسلام کے مطالعہ کا شوق عام تھا۔ گپ اور مزاح بھی نظریاتی کش مکش کا آئینہ دار ہوتا تھا۔ عین اس دور میں مجھے اپنے تعلیمی مراحل طے کرنے کا موقع ملا اور اسی عہد میں میرے بحر کی موجیں طوفان آشنا ہوئیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ کوئی تقریر، مباحثہ اور جھڑپ ایسی نہ ہوتی تھی جس میں مولانا مودودی کا حوالہ کسی نہ کسی پیرایہ سے نہ دیا جاتا ہو۔
’’ اسلامی رجحانات رکھنے والوں کے لیے مولانا مودودی کے ارشادات چراغ راہ تھے اور مخالفین بھی اس چراغ پر پھونک مارنے کے لیے مجبور تھے۔سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلم لیگی بھی مسلم لیگ پر اگر کسی کے نقد اور تبصرہ کو قابل اعتنا سمجھتا تھا اور ٹھنڈے دل سے سنتا تھا تو وہ مولانا مودودی کا نقد اور تبصرہ تھا۔ الغرض ہر جماعت اور ہر محفل کی گرمی انھی کے دم سے تھی‘‘۔( ۱۵)
پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی’مولانا مودودی کی ادبی حیثیت‘کے حوالے سے رقم طراز ہیں : یہاں گفتگو مولاناکی ادبی حیثیت سے ہے۔ سرسید جدید ا دب کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، مودودی صاحب کے افکار و تصورات سرسید کے ذہنی معتقدات سے کتنے ہی مختلف سہی‘لیکن ان کا اسلوب سرسید کے اسلوب کی ایک ارتقا یافتہ صورت ہے۔ سرسید نے اسلام سے متعلق بہت کچھ لکھا ہے۔ اُن کے دینی خیالات سے ممکن ہے کہ آپ کو اختلاف ہو،لیکن شاید یہ بات ماننے میں تامل نہ ہو کہ سرسید نے اسلام پر جس انداز سے قلم اُٹھایا، اُس نے محسن الملک، حالی، شبلی، سلیمان ندوی اور مولانا مودودی کے اسالیب کی شیرازہ بندی کی ہے۔ مختصراً اُسے یوں کہہ لیجیے کہ مولانا مودودی کی تحریر سرسید کے اسلوب کے ایک پہلو کی تکمیل کرتی ہے، لیکن وہ سرسید کے مقلدِ محض نہیں ہیں۔ اُن کے اسلوب کی بنیادِ اوّل اُن کی ذات ہے۔ شخصیت کا اظہار نہ ہو تو کوئی تحریر ادبی نہیں بن سکتی۔ شخصیت کی اسی نمود کو اقبال نے ’خونِ جگر‘ کہا ہے۔ ملٹن نے اسے Life Blood کہا تھا اور میرامّن نے اسے ’خونِ دل‘ سے تعبیر کیا تھا۔ (۱۶)
پروفیسرخورشید احمد نے’ادبیات مودودی‘ (مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶،اشاعت مئی ۱۹۸۰ء) کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں عبد الماجد دریابادی کے علاوہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی علیگ نے بھی مولانا مودودی کے ادب اور ان کے طرز نگارش پر خط میں اپنی رائے کااظہارکیا تھا جو کسی وجہ سے اس مجموعہ میں شائع نہیں ہوپایا ہے ۔ توقع ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان قیمتی خطوط کو لازما شائع کیا جائے گا(مگر صد افسوس اتنی بلند پایہ عبقری شخصیات کے ایسے قیمتی علمی خطوط معلوم نہیں کن اسباب کی بنا پر۶۰ برس بیت جانے کے باجود اب تک منظر عام پر نہیں آسکے یا ضائع ہوگئے ہیں)۔
مولانا کے طویل مقالے کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے:’’ حکومت کی صحیح شکل اس کے سواکوئی نہیں کہ انسان خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے کام کرے۔ خلافت کی ذمہ داری جوہمارے سپردکی گئی ‘ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر اپناحکم چلائیں، اُن کواپناغلام بنائیں، اُن کے سراپنے آگے جُھکوائیں، ان سے ٹیکس وصول کرکے اپنے محل تعمیر کریں، حاکمانہ اختیارات سے کام لے کر اپنے عیش، اپنی نفس پرستی اوراپنی کبریائی کاسامان کریں۔ بلکہ یہ بار ہم پر اس لیے ڈالاگیاہے کہ ہم خدا کے قانونِ عدل کواس کے بندوںپر جاری کریں۔ اس قانون کی پابندی اوراس کے نفاذ میں ہم نے اگر ذراسی کوتاہی بھی کی، اگر ہم نے اس کام میں ذرّہ برابر بھی خودغرضی‘ نفس پرستی‘ تعصب‘جانب داری‘اور بددیانتی کودخل دیاتوہم خدا کی عدالت سے سزا پائیں گے خواہ دنیامیں ہرسزاسے محفوظ رہ جائیں‘‘۔( ۱۷)
عبدالرحمٰن عبد اپنی تصنیف ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ میں رقم طراز ہیں : ’’ مولانا نے ۱۲ستمبر ۱۹۴۰ء کو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’وہ قومی حکومت جس پر ’اسلامی‘ کا نمایشی لیبل لگا ہوا ہوگا‘ اسلامی انقلاب کا راستہ روکنے میں اس سے بھی زیادہ جری اور بے باک ہوگی جتنی غیر مسلم حکومت ہوتی ہے۔ غیر مسلم حکومت جن کاموں پر قید کی سزا دیتی ہے‘ وہ مسلم قومی حکومت اُن پر سزا پھانسی اور جلا وطنی کی صورت میں دے گی اور پھر بھی اس حکومت کے لیڈر جیتے جی غازی اور مرنے پر رحمت اللہ علیہ ہی رہیں گے‘‘۔مولانا نے اگلے سال اسی جگہ اسٹریچی ہال میں ’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘ کے عنوان سے خطاب کیا۔ (۱۹)
’’قدیم ترین زمانے میں انسان کے لیے معاش کا مسئلہ قریب قریب اتنا ہی سہل تھا، جتنا حیوانات کے لیے ہے۔ خدا کی زمین پر بے شمار سامانِ زندگی پھیلا ہوا ہے ۔ہرمخلوق کے لیے جس قدر رزق کی ضرورت ہے وہ بافراط مہیا ہے۔ ہر ایک اپنا رزق تلاش کرنے کے لیے نکلتاہے اورجاکر خزائن رزق میں سے حاصل کرلیتاہے۔ کسی کونہ اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اورنہ اس کا رزق کسی دوسری مخلوق کے قبضے میں ہے۔ تقریباً یہی حالت انسان کی بھی تھی کہ گیا اور قدرتی رزق خواہ وہ پھلوں کی شکل میں ہویاشکار کے جانور کی شکل میں‘حاصل کر لیا۔ قدرتی پیداوار سے بدن ڈھانکنے کا انتظام کرلیا، زمین میں جہاں موقع دیکھا ایک سر چھپانے اور پڑ رہنے کی جگہ بنالی۔ لیکن خدانے انسان کواس لیے نہیں پیدا کیاتھاکہ وہ زیادہ مدت تک اسی حال میں رہے۔ اس نے انسان کے اندر ایسے فطری داعیات رکھے تھے کہ وہ انفرادی زندگی چھوڑ کر اجتماعی زندگی اختیار کرے اوراپنی صنعت سے اپنے لیے ان ذرائع زندگی سے بہتر ذرائع پیداکرلے جوقدرت نے مہیّا کیے تھے‘‘۔ (۲۲)
یونی ورسٹی میںابوالاعلیٰ مودودی کے دوروں اورطلبہ سے ملاقاتوں کے سبب صالح فکر کے ذہین طلبہ کی ایک قابل ذکر تعداد اُن کے قریب ہوگئی تھی ۔انھوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی ہر پہلو سے ہمہ گیر تربیت کی ۔
۴۰ کی دہائی میں یونی ورسٹی میں ’اسلامی حلقہ‘ سے متعلق معروف اور سرگرم طلبہ میںافضل حسین (قیم جماعت اسلامی ہند)،عبد العظیم خاں، راؤ شمشاد علی خاں (دہلی) ،آسی ضیائی (پاکستان) عبداللہ صفدر علی ( دہلی)،شمس الہدیٰ (بہار)، سید حسین (الٰہ آباد )، سعید احمد (الٰہ آباد )، فروغ احمد (ڈھاکہ)، احمد سورتی (علی گڑھ)، رحمت اللہ شاہ ( بہاولپور، پاکستان)، اعجاز حسن قریشی (لاہور) اورسیدزین العابدین (سعودی عرب)وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔(۲۳)
۱۹۴۰ء میںپروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست) کی آل انڈیا ریڈیو کے لیے کی گئی تقریروںکا مجموعہ ’دنیا کی کہانی‘ جب مکتبہ جامعہ، دہلی سے شائع ہوا، تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا : ’’ نوجوان طلبہ کو تاریخ و تمدن سے آگاہ کرنے کے لیے یہ ایک عمدہ مجموعہ ہے۔ اسلام کی تہذیب کو بیان کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’اسلام نے دولت کو امانت قرار دیا ہے اور جماعت جب چاہے اس دولت کو واپس لے سکتی ہے، یا اسے نئے سرے سے تقسیم کرسکتی ہے‘‘۔ اسی طرح انھوںنے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’جماعت جب چاہے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی ممانعت کرسکتی ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ہندوستان میں پردے کی جو رسم قائم ہوئی اس کے لیے اسلامی قانون میں کوئی سند نہیں‘‘۔ یہ سب بیانات غیر صحیح ہیں۔ ایک محقق سے ہم بجا طورپر یہ توقع رکھتے ہیںکہ جن امور کے متعلق اس کے پاس ذرائع معلومات نہ ہوں ان پر قطعی رائے ظاہرکرنے سے وہ اجتناب کرے گا‘‘۔ (۲۵)
۱۹۳۷ء میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرڈاکٹر سید ظفرالحسن کا رسالہ ’نبوت اور نبی‘ منظر عام پر آیا، تواس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا : ’’یہ وہ خطبہ ہے جو ڈاکٹر سید ظفرالحسن صاحب استاد فلسفہ، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ’یوم النبیؐ، کی تقریب پر یونی ورسٹی کی مجلس اسلامیہ کے سامنے پڑھا تھا۔ یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ ہماری یونی ورسٹی میں جو شخص فلسفہ کا پروفیسر ہے وہ ایک سچا اور صحیح العقیدہ مسلمان ہے، اور اپنے علم کو دہریت و الحاد کے بجائے ایمان باللہ و ایمان بالرسول کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔ ہم اپنے ناظرین سے اس خطبہ کے مطالعہ کی پُرزور سفارش کرتے ہیں۔مجلس اسلامیات علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے غالباً مفت مل سکے گا‘‘۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے ساتھ ۱۹۳۸ء میںمولانا مودودی کی خط کتابت اور ذاتی مراسم کا سراغ ملتا ہے ۔ (۲۶)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب ’مجدد الف ثانی کا تصور توحید‘ کے نام سے کشمیری بازار لاہور سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پر نقد کرتے ہوئے انگریزی زبان میں تصنیف کی گئی اس تحریر کی بعض خامیوں اور غلطیوںپر گرفت کی اور صاحب کتاب کے سرسیداحمد خاں اورحافظ محمد عبداللہ چکڑالوی کے متعلق نوٹ پر سخت تبصرہ کیا ۔(۲۷)
جب ۱۹۴۴ء میں جناب محمد فضل الرحمٰن انصاری کی انگریزی تصنیف Our Future Educational Program کے نام سے شائع ہوئی، تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ’ترجمان القرآن‘ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :’’یہ انگریزی کتاب مسلمانوں کی تعلیم کے پیچیدہ اور اہم ترین مسئلہ سے بحث کرتی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ مصنف نے مسلمانوں کے لیے ’غیر مسلم تعلیم‘ کے بجائے ’مسلمان تعلیم‘ کا پروگرام تجویز کیا ہے۔ اس سلسلہ میں اس بنیادی نقطہ کی اہمیت کو موصوف نے اچھی طرح سمجھا اور سمجھایا ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم کو ’مذہبی‘ اور’غیر مذہبی‘ دو حصوں میں تقسیم کرنا اور مروجہ نصاب کے ساتھ دینیات کے مضمون کو بطور ضمیمہ شامل کردینا نہ صرف یہ کہ غیر مفید ہے، بلکہ اُلٹا مضر ہے۔ اس طریق کار کی جگہ یہ کتاب پورے نظام تعلیم کو ’مسلمان‘ بنانے کے حق میں ہے، یعنی اس کا مطالبہ یہ ہے کہ زبان دانی‘ ریاضی‘ تاریخ‘ جغرافیہ‘ سائنس‘ فلسفہ اور تمام مضامین کو ’دینیات‘ بن کر رہنا چاہیے۔ اس اصول کی بنیاد پر نصاب کا جو تفصیلی خا کہ پیش کیا گیا ہے وہ اگرچہ بسا غنیمت ہے مگر اس میں اختلاف کی گنجایش تو بہرحال ہے ہی‘‘۔(۲۸)
انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ نے ۱۹۴۱ء میں مولانا عبدالماجد دریابادی کی تصنیف ’اسلامی تمدن کی کہانی اسی کی ز بانی‘ شائع کی تومولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ’ترجمان القرآن‘ میں اس پر تبصرہ کیا :’’جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس مقالے میں ’تمدن اسلام کی کہانی خود اسی کی زبانی‘ سنوائی گئی ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک مختلف انبیاء کے دَور میں جس طرح اسلام اور جاہلیت کا مقابلہ ہوا اور اس مقابلہ میں جس طرح اسلام اپنے آپ کو نمایاں کرتا رہا، پہلے اسے قصہ و دا ستان کے پیرائے میں مختصراً بیان کیا گیا ہے، پھر اسی پیرایۂ بیان کو جاری رکھتے ہوئے تمدن اسلام کے مختلف اخلاقی، معاشرتی، سیاسی، معاشی پہلوئوں کو جاہلیت کے مظاہر سے ممیز کرکے دکھایا گیا ہے۔ کسی موضوع پر مفصل تحقیقی بحث تو ظاہر ہے کہ اس طرز بیان میں نہیں کی جاسکتی تھی، لیکن ایک طالب حق کے لیے ضلالتوں کے مقابلہ میں ہدایت کے آثار و علائم کی نشان دہی فاضل مقالہ نگار نے بڑی خوبی کے ساتھ کی ہے۔ ایک دو مقا م نگاہ سے ایسے بھی گزرے جہاں مصنف کا قلم راست روی سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ خلیفہ اسلام کے لیے ’ڈکٹیٹر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جو با لکل ہی نامناسب ہے اور ایک دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ اسلام کی قلمرو میں پوری پوری ’شاہنشاہیاں‘ داخل تھیں، حالاں کہ اسلام کی قلمرو میں انسان کی شہنشاہی تو درکنار شاہی تک کے لیے گنجایش نہیں ہے۔ یہ اگرچہ محض تعبیری لغزشیں ہیں، لیکن ناواقف لوگوں کو بڑی غلط فہمیوں میں ڈال سکتی ہیں، اس لیے بہتر ہو کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کردی جائے‘‘۔(۲۹)
۳۲ صفحات پر مشتمل مولانا سید سلیمان ندوی کا رسالہ بعنوان ’ایمان‘۱۹۴۱ء میں انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ سے شائع ہوا، تو مولانامودودی نے اس پر بھی ایک جامع تبصرہ کیا :’’یہ مقالہ انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر علی گڑھ میں پڑھا گیا ۔ اس میں مولانا نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ جماعتوں، قوموں اور ملتوں کا عروج و ارتقاء در اصل کسی عقیدے یا تخیل پر ایمان کا رہین منت ہوتا ہے۔ اسی ایمان پر ان کی پوری زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اسی کے استحکام پر ان کی تعمیر حیات کا استحکام موقوف ہوتا ہے اور اسی کے ضعف سے ان کے نظام ہستی کی بندشیں ڈھیلی ہوجاتی ہیں۔آگے چل کر مولانا نے مختلف قوموں اور ملتوں کے اساسی عقائد کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ اسلامی عقائد کے سوا اور کوئی دوسرا عقیدہ ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی عالمگیر اور صالح نظام تمدن کی بنیاد قائم ہوسکتی ہو۔ در حقیقت یہ پورا مقالہ اس لائق ہے کہ اس کا نہایت غور سے مطالعہ کیا جائے۔
’’آغاز میں مولانامحمدطیب صاحب، مہتمم دار العلوم دیوبند کی تقریظ میں یہ تمنا ظاہر کی گئی ہے کہ خدائے برتر ’ہماری یونی ورسٹی کے کار آمد اور کارکن اجزا و اعضاء کو اس مقدس پیغام کا علماً حامل، عملاً قابل اور قولاً سچا داعی بنادے‘۔ بہتر ہوتا کہ صاحب تقریظ اس مقدس تمنا کا اظہار کرنے کے ساتھ ا پنے مخاطب نوجوانوںکو اس تلخ حقیقت پر بھی متنبہ فرمادیتے کہ اگر کہیں واقعی یہ حرکت کرنے پر تم آمادہ ہوگئے تو سب سے پہلے وہی لوگ تمھیں فتنہ ثابت کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوںگے جو یہ بیش قیمت مقالہ تمھیں سنایا کرتے ہیں۔ عافیت چاہتے ہو تو ان مقالوں کو سنو اور صرف اسلام کی نظری کرامات پر سر دُھن کر اپنے اُنھی کاموں میں لگ جائو جو دنیا میں ہورہے ہیں‘‘۔ (۳۰)
’’ لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیاہے، وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ —جدید اور قدیم دونوں — اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبے میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل ودماغ کے پردے کھول رہا ہے، جس نے علوم جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو محض دور سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے، اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدایشی اور خاندانی پورپین ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظرنہیں بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس کے گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں۔
’’ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے ، کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اوران کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا، وہ آج خود آپ کو آگاہ کررہے ہیں کہ ’’خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا، یہ ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچاچکی ہے اور تمھیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود اس وقت تریاق خالص کے محتاج ہیں ، اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمھارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملاکر ہماری اس زہرآلود معجون کے مزے پر لگ جائو‘‘۔ (۳۲)
’’یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میںکافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جب یونی ورسٹی قائم کی جارہی تھی، اس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھاکہ ہم کو ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیاضرورت ہے اور اس ضرورت کوپورا کرنے کی کیاسبیل ہے، مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے ہیںاور سوچتے بعد میں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی انھیں بس یونی ورسٹی ہی بنانے کی دھن تھی،اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا ۔ یہ سوال سرے سے پیش نظر ہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اور کن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کو ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل بلا فکر کانتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہوگئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ اور تیسری ڈھاکہ میں ہے‘‘۔ (۳۳)
اس موقعے پر ابوالاعلیٰ مودودی نے سوالات کے جواب میں اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیمی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے ’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے ایک جوابی تحریر ارسال کی جو۱۹۵۷ء میں’ تعلیمات‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ۔ مولانا نے اس میں لکھا تھا :’’اس وقت مسلم یونی ورسٹی میںجو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیم جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میںکوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دوبالکل متضاد اوربے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ان میں یہ صلاحیت پید انھیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطۂ نگاہ سے بھی اگر دیکھاجائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصر کی آمیزش اصلاً غلط ہے اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘‘۔(۳۴)
یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر جناب جاوید حبیب نے فرمایا ’’ مولانا مودودی نے حاکمیت الٰہ کی بات اس وقت کی جب عام مسلمان تو کیا بڑے بڑے عالم دین‘ اسلام کے اس بنیادی عقیدے کو پیش کرنے سے کتراتے تھے ۔ مولانا کی جہد مسلسل کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا ہے کہ اب ایک ملک میں نہیںبلکہ متعدد ممالک میں اسلامی حکومت کی بات ہو رہی ہے‘‘۔ عرب اور ایرانی طلبہ کے نمایندوں نے بتایا کہ ’’مولانا کی تحریروں نے انھیں اسلام کی سمجھ اور انقلابی جذبہ دیا ہے‘‘۔
یونی ورسٹی ناظم دینیات مولانا محمدتقی امینی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا : ’’ مولانا مودودی کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے نئی نسل کے ذہن کو سمجھا اور اس کے مطابق اسلام کو نئے اسلوب میں پیش کیا ۔ نماز، روزہ جیسی روز مرہ کی چیزوں کو دلفریب حسن اور گہری معنویت بخشی۔ انھوں نے اپنی تحریروں اور علمی کوششوں سے مغربی مادیت اور کمیونسٹ الحاد کی جھلسا دینے والی آندھیوں سے ٹکرلے کر اسلام کی ٹھنڈی ہوا چلائی۔‘‘ (۳۷)
مولانا مودودی کے جنازے میں شرکت کے لیے ایم اے فلسفہ کے طالب علم مسٹر مقیم الدین اور بی یو ایم ایس کے محمو د احمد راتھر ۲۴ ؍ستمبر کو پاکستان روانہ ہوئے اور ۲۵؍ ستمبر کویہ لوگ مولانا کی تدفین میں شریک ہوئے ۔ پاکستان سے واپسی کے بعد محمود احمد راتھر صاحب نے مولانا مودودی کے جنازہ اور تجہیز و تکفین کا آنکھوں دیکھا حال اپنے ایک مضمون میں بیان کیا جو پندرہ روزہ ’ہمقدم‘، علی گڑھ کی نومبر ۱۹۷۹ء کی اشاعت میں موجود ہے ۔
مسلمانان ہند کی فکری و عملی زندگی پر مغربی علوم اور انگریزی تمدن و تہذیب کے غلبے کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا نے لکھا ہے :’’ اس دوہری کمزوری کی حالت میں مسلمانوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا توانھیں نظر آیا کہ انگریزی سلطنت نے اپنی ہوشیاری سے معاشی ترقی کے تمام دروازے بند کردیے ہیں اور ان کی کنجی انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں رکھ دی ہے ۔اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرتے ، چنانچہ مرحوم سر سید احمد خان کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوگیا ۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی ۔ دولت ، عزت ا ور اثر کے لحاظ سے قوم کی اصل طاقت جن لوگوں کے ہاتھ میں تھی انھوں نے اس نئی تحریک کا ساتھ دیا ۔ ہندوستان کے مسلمان تیزی کے ساتھ انگریزی تعلیم کی طرف بڑھے ، قوم کا تلچھٹ پرانے مذہبی مدرسوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تاکہ مسجدوں کی امامت اور مکتبوں کی معلمی کے کام آئے اور خوش حال طبقوں کے بہترین نونہال انگریزی مدرسوں اور کالجوں میں بھیج دیے گئے تاکہ ان کے دل و دماغ کے سادہ اوراق پر فرنگی علوم و فنون کے نقوش ثبت کیے جائیں ‘‘۔(۴۱)
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اسلامیات کے پروفیسر مولانا اسلم جیراج پوری[ ۲۷؍ جنوری ۱۸۸۲ء-۲۸؍ دسمبر ۱۹۵۵ء] کی تصنیف تعلیمات القرآن جب منظر عام پر آئی تو مولانا مودودی نے اس پر اپنے طویل قسط وار تبصرہ کے دوران سر سید اور ان کے متبعین پر بھی نقد کیا : ’’ پرانے زمانے کے علماء یہ غلطی کرچکے ہیں کہ قرآن مجید کو انھوں نے قدیم فلسفہ اور ہیئت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی اور اس زمانے کے بندگان عقل کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن کو ارسطو اور افلاطون اور بطلیموس کے نظریات پر منطبق کرڈالا ۔ لیکن موجودہ دور کے نظری اور تجربی علوم نے جب پچھلے نظریات کو باطل کردیا تو وہ تمام تاویلیں جو پہلے کی گئی تھیں ‘ غلط ثابت ہوئیں اور وہ تمام سہارے ٹوٹ گئے جن پر قرآن مجید کی تاویل کا مدار رکھا گیا تھا ۔ پھر سرسید احمد خانی دور میںدوبارہ اسی غلطی کا اعادہ کیا گیا، مگر سائنس کی جدید ترقیات نے ان سہاروں میںسے بھی بہتوں کو توڑ دیا جن پر سید مرحوم اور ان کے متبعین نے تاویل کی عمارت قائم کی تھی‘‘ ۔(۴۲)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے سابق طالب علم ڈاکٹر برہان فاروقی کی پی ایچ ڈی کا مقالہ جب’ مجدد الف ثانی کا تصورِ توحید‘ کے نام سے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا تو مولانانے انگریزی زبان کی اس تصنیف کی بعض خامیوں اور غلطیوںپر گرفت کرتے ہوئے سر سید پر بھی تبصرہ کیا : ’’اول تو ان دونوں حضرات (سرسید اورمولوی عبداللہ چکڑالوی ) کا ذکر مجدد صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ اسماعیل شہید، اور سید احمد بریلوی کے سلسلے میں لانا یہ غلط فہمی پیدا کرتا ہے کہ گویا یہ بھی اسی سلسلے کے آدمی ہیں، پھر سرسید کے کام کو اصلاح اور تنقید عالی کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ ’’مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی اور تعلیمی تحریکیں اٹھیں ان سب کا سر رشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے‘‘ دراصل وہ مبالغہ کی حد سے بھی متجاوز ہے۔ علی گڑھ کے تعلق کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو خواہ سرسید سے کتنی ہی ارادت ہو مگر جب وہ ایک مسلمان محقق کی حیثیت سے سامنے آرہے ہیں تو انھیں بے لاگ حق کا اظہار کرنا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ ۵۷ ۱۸ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئی ہیں ان کا شجرۂ نسب بالواسطہ یا بلاواسطہ سرسید کی ذات تک پہنچتا ہے۔ وہ اس سرزمین میں تجدّد کے امام اول تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کر دنیاسے رخصت ہوئے‘‘۔(۴۳)
سر سید احمد خاں پر مولانا مودودی کے بعض تند و تیز تبصرے گوبادی النظر میں آج متعدد اہل علم کو نا مناسب اور جادۂ اعتدال سے ہٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی علت کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی عیسوی کی تیسری دہائی کے سماجی ‘ معاشرتی اور مذہبی احوال و کوائف نیز طبقہ علما اور مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے ذہنی ‘ فکری ‘ دینی اور مذہبی شعور کی سطح کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے ۔عمر کے ابتدائی زمانے میںسر سید پر مولانا کی تنقیدوں کے پس منظر میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ابتدائی نسلوں کی مغرب پرستی ‘ انگریزی تہذیب و تمدن سے والہانہ رغبت اور دینی شعائر سے لاپروائی کی عمومی روش صاف نظر آتی ہے۔
تاہم،سلیم منصور خالد (لاہور، پاکستان)نے واٹس ایپ پرمجھے ارسال کی گئی اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے : ’’یہ ۱۹۷۷ کی بات ہے کہ ہم تین دوستوں نے مولانا مودودی کی تحریروں اور گفتگوؤں سے مختلف شخصیات کے بارے میں اقتباسات مرتب کرنے کا ڈول ڈالا۔ ان دوستوں میں شامل تھے: سمیع اللہ بٹ اور خالد ہمایوں۔ جونہی مجموعے کی شکل بنی تو دوستوں نے کہا: اس کو چھپواتے ہیں، مگر مجھے اس کی فوری اشاعت سے اتفاق نہ تھا کہ ابھی خاصا کام باقی ہے اور ترتیب و تدوین بھی معیاری نہیں ہے۔ بہرحال یہ طے ہوا کہ پہلے مولانا سے اجازت تو حاصل کرلی جائے۔ ہم کتابت شدہ مسودہ لے کر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے توانھوں نے فرمایا: ’’ایک ہفتہ بعد معلوم کرلیجیے‘‘۔ ہفتے کے بعد مولانا کے ہاں پہنچے تو انھوں نے فرمایا:’’دیباچے کے لیے ملک غلام علی کو دے دیجیے‘‘۔ اور پھر کتابت کا لفافہ واپس کرتے ہوئے تین چار کتابت شدہ صفحات نکال کر ایک طرف رکھتے ہوئے فرمایا: ’’اسے رہنے دیں، شامل نہ کریں‘‘۔ وہ کتابت شدہ صفحات سرسید احمدخاں کے بارے میں مولانا محترم کے چند در چند تنقیدی تبصروں پر مشتمل تھے، میں نے سوال کیا:’’مولانا، انھیں کیوں نکال دیں؟‘‘ مولانا نے بڑی شفقت سے فرمایا :’’دیکھیے، سید احمد بنیادی طور پر مذہبی شخصیت نہیں تھے۔ انھوں نے انیسویں صدی میں مسلمانوں کی تہذیبی، علمی، معاشی، اور تمدنی تباہی کا ایک نہ ختم ہونے والا منظر دیکھا تھا۔ انھوں نے محسوس کیا تھا کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو مسلمانوں کے لیے بربادی کا عمل تیز سے تیز تر ہوگا، اسی لیے انھوں نے انگریز ہندو اتحاد کے خطرات سے بچنے کے لیے، دوسرے قوم کو جدید تعلیم کے ذریعے آگے بڑھنے کے لیے ایک قومی مصلح اور خدمت گزار کی حیثیت سے جاں توڑ کوششیں کیں۔ مگر اس کے ساتھ ظلم یہ کیا کہ بے جا طور پر الٰہیاتی اور دینی علوم پر بھی خامہ فرسائی شروع کردی جس کی نہ گنجایش تھی، نہ ضرورت تھی اور نہ کوئی جواز۔ مگر امر واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اس ہمہ گیر ابتلاکے دوران قوم کو ریاستی دھارے میں لانے کے لیے اپنی سی بھرپور کوششیں کیں۔یہی وجہ ہے کہ قوم نے ان کے مذہبی تفردات و خیالات کو کوئی اہمیت نہ دی اور نہ اسے قبول کیا مگر قومی مفاد، بیداری اور تعلیم کے لیے ان کی کاوشوں کو قبول کیا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ان کی قابلِ قدر اور مثبت خدمات کی قبولیت کے لیے ،نیز ان کی کاوشوں کے منفی پہلوؤں اور غلطیوں سے درگزر کے لیے ان کی مغفرت کی دعا کرنی چاہیے اور ان بحثوں کو نہیں اٹھانا چاہیے‘‘۔ (۴۴)
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی’ مجالس سیدمودودی‘ میں رقم طراز ہیں :’’ سرسید احمد خاں مرحوم کے بارے میں ایک صاحب نے کوئی سوال کیا تو مولانا نے فرمایا : ’’ مذہبی لحاظ سے انھوں نے بہت سی ٹھوکریں کھائیں اور کئی مسائل میں ان کی تحقیق ناقص تھی، مگر جو کچھ انھوں نے کیا اس میں بدنیتی شامل نہیں تھی۔ اپنے نزدیک وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ دین کی حفاظت کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے۔ انھوں نے بعض چیزیں بڑے درد کے ساتھ لکھی ہیں، مثلاً: برطانوی مستشرق سرولیم میور نے جب اپنی کتاب دی لائف آف محمد(The Life of Muhammad ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر حملے کیے توسر سید نے بڑی محنت کے ساتھ اس کے جوابات لکھے۔ پھر یہ کہ آج کل کے بعض نام نہاد ’مجتہدین‘ کی طرح وہ محض نقال نہ تھے۔ انھوں نے جو بات کہی، اپنی ذاتی تحقیق کے بعد کہی‘‘۔(۴۵)
پروفیسرسید ظفرالحسن، ڈاکٹر افضال قادری، دی اسکالر یونین مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، صالح بیگم شروانی غریب منزل علی گڑھ، شفاء الملک حکیم عبداللطیف صاحب طبیہ کالج علی گڑھ، اصغر علی صاحب، پروفیسر حلیم پرووائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، راحیلہ خاتون شروانی، محمد عبدالشکور خاں شروانی، ناظم دینیات مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، ڈاکٹر محمود احمد نائب صدر اسلامیات علی گڑھ، ملک عنایت اللہ نسیم علی گڑھ، مفتی عبدالعزیز، ابوبکر احمد حلیم، معتمد آفتاب مجلس مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، لٹن لائبریری مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، حاجی علی بخش سلطان محمود، بیگم سید محمد منیر، سیشن جج علی گڑھ، عبدالمجید، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، پرنسپل ہنری مارٹن اسکول علی گڑھ۔ (۴۶)
حواشی و تعلیقات
(۱) ’عکس راہ‘،عبدالعزیز سلفی فلاحی ۔ شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا، نئی دہلی
(۲) مجدّد سید مودودی نمبر، ماہنامہ ’حیات نو‘ ،جامعۃ الفلاح ،بلیریا گنج ، اعظم گڑھ، یوپی ، اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۹ء
(۳) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ ،اوّل [مرتبہ: جمیل احمد رانا، سلیم منصور خالد] ادارہ معارف اسلامی، منصورہ،لاہور، اپریل ۱۹۸۶ء،صفحہ ۳۲۵
(۴) ’علی گڑھ میگزین‘ ۹۵-۱۹۹۷ء /انٹرویو،بتاریخ ۱۴؍مئی ۲۰۱۴ء بمقام علی گڑھ
(۵) ’دھوپ چھاؤں‘،ریاض الرحمٰن شروانی،حبیب منزل ،میرس روڈ ،علی گڑھ۔ / انٹرویوبتاریخ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۴ء بمقام حبیب منزل
(۶) انٹرویو ، بتاریخ ۱۴؍ مئی ۲۰۱۴ بمقام سر سید نگر ،علی گڑھ
(۷) ’علی گڑھ میںچار سال‘، محفوظ الحق حقی علیگ،پندرہ روزہ ’خبر نامہ‘ ،شمشاد مارکیٹ ،علی گڑھ ،۱۵فروری ۱۹۸۲ء
(۸) ہفت روزہ ’دعوت‘ ، نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء
(۹) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘، اوّل، صفحہ ۳۲۰،۳۲۱۔( محمد یوسف بُھٹّہ،مصنف: ’’ مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں)
(۱۰) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ اوّل،صفحہ ۴۰۰۔(پروفیسر آسی ضیائی کا وطن رامپور، یوپی اور ان کا اصل نام امان اللہ خاں تھا۔ستمبر ۱۹۴۸ء میں لاہور پاکستان منتقل ہوگئے تھے ۔پبلک لائبریری رامپور کے صدر مولوی ضیاء اللہ خاں اُن کے والد تھے) ۔
(۱۱) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘، اوّل،مضمون بعنوان ’’ بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو ‘‘صفحہ ۴۸۵ تا ۴۸۸۔(پروفیسر سیدمحمد سلیم کا وطن میوات کے علاقہ تجارہ، ریاست الور میں تھا ۔۱۹۴۶ء میں علی گڑھ سے فارغ ہو کر اپنے وطن واپس گئے تو وہاں ایک دار المطالعہ اور لائبریری قائم کی اورنوجوان طلبہ کو جماعت اسلامی سے متعارف کرایا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں ان کا قصبہ فسادات کی زد میں آیا اور ہندو بلوائیوں نے مکمل طور پر تباہ کردیاتو وہ بالآخر ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور نواب شاہ سندھ میں سکونت اختیار کی۔
(۱۲) انٹرویو بتاریخ ۹ ؍ اپریل ۲۰۱۴،ابن سینا اکیڈمی، علی گڑھ
(۱۳) ’حکیم سید ظل الرحمان: حیات وخدمات‘،مرتبین: ڈاکٹر سید حسن عباسی‘ڈاکٹر عبد اللطیف ۔مرکز تحقیقات اردو و فارسی‘باقر گنج ، سیوان ،بہار
(۱۴،۱۵،۱۶) ’ادبیات مودودی‘ ،مرتبہ خورشید احمد ،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی ۶۔اشاعت مئی ۱۹۸۰ء۔
(۱۷) ’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘ ،ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ،اگست ۱۹۴۰ء
(۱۸) ہفت روزہ ’صدق‘ لکھنؤ یکم تا ۸ دسمبر ۱۹۴۰ء۔( یہ مجلہ عبد الماجد دریابادی نے یکم مئی ۱۹۳۵ء کو جاری کیا تھا ۔ اس سے قبل ’سچ‘نکلتا تھا۔)
(۱۹) عبدالرحمٰن عبد، ’مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی‘،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور۔
(۲۰) گفتگو بتاریخ ۱۵ ؍اکتوبر ۲۰۱۷ء بمقام بدر باغ ، علی گڑھ
(۲۱) ہفت روزہ ’دعوت‘ ، نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء (۲۲) عبدالرحمٰن عبد، ایضاً
(۲۳) ’عکس راہ‘ ،عبدالعزیز سلفی فلاحی، شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا ۱۵۱سی ذاکرنگر نئی دہلی ۲۵۔
(۲۴) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ، اپریل۱۹۴۱ء (۲۵) ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ،جولائی ۱۹۴۰، صفحہ ۴۰۸ (۲۶) ’ترجمان القرآن‘ ، لاہور ،جمادی الآخر و رجب۱۳۵۶ھ (۲۷) ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘، لاہور ، دسمبر۱۹۴۰ء، جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۴۱ (۲۸) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،لاہور ، بابت مئی-جون ۱۹۴۴ء، جلد ۲۴عدد ۶۰۵ (۲۹) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، لاہور، بابت دسمبر ۱۹۴۱ء و جنوری ،فروری ۱۹۴۲ء، جلد۱۹،عدد۴، ۵،۶(۳۰) ایضاً (۳۱) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدرآباددکن ، فروری ۱۹۳۷ء
(۳۲) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، محرم ۱۳۵۷ھ، مطابق مارچ ۱۹۳۸ء ۔( ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ کی فروری ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق : لارڈ لوتھیَن کی ایما پر اس کے ایک دوست نے جو انگلستان میں رہتا ہے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو ایک چغہ ہدیہ کے طور پر دیا ہے جس پر تمام قرآن مجید لکھا ہوا ہے۔یہ چغہ غدر ۱۸۵۷ء کے دوران ہندوستان سے انگلستان بھیج دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے ساتھ دوستی کی علامت کے طور پر ہندوستان کو واپس دیا گیا ہے ‘‘۔
(۳۳) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن ، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ / اگست ۱۹۳۶ء
(۳۴) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن، جمادی الاولیٰ ۱۳۵۵ھ / اگست ۱۹۳۶ء(مئی ۱۹۵۷ء میں یہ مقالہ تعلیمات کے نام سے مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ،رامپورنے شائع کیا تھا )۔
(۳۵) ’تذکرۂ سید مودودی‘، اوّل، صفحہ ۱۰۷ -۱۱۴
(۳۶) ہفت روزہ ’صدق‘ لکھنؤ، ۲۸ ؍ اکتوبر ۱۹۴۰ء
(۳۷) پندرہ روزہ ’ہمقدم‘ ، علی گڑھ۵؍اکتوبر ۱۹۷۹ء ۴ عبد القادر مارکیٹ ،جیل روڈ ،علی گڑھ
(۳۸) ماہنامہ ’معارف‘، دارالمصنفین، اعظم گڑھ،فروری و مئی۱۹۴۱ء
(۳۹) ہفت روزہ ’صدق، لکھنؤ ، ۲۷ ؍ جنوری ۱۹۴۱ء
(۴۰) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ،حیدر آباد دکن ، جولائی ۱۹۳۶ء ص ۴۲۸
(۴۱) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آبا ددکن ، ستمبر ۱۹۳۴ء
(۴۲) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، حیدر آباد دکن ،جولائی ۱۹۳۴ء
(۴۳) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن‘ ، دسمبر۱۹۴۰ء، جنوری ۱۹۴۱ء، صفحہ نمبر ۱۴۱
(۴۴) سلیم منصور خالد کا تحریری پیغام بذریعہ واٹس ایپ، بتاریخ ،۲۴ ؍اگست۲۰۲۲ء
(۴۵) ’مجالس سید مودودی‘،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی،دسمبر ۲۰۲۰ء ناشرمنشورات، منصورہ ملتان روڈ، لاہور
(۴۶) ’تذکرۂ سیّد مودودی‘ ، اوّل، ادارہ معارف اسلامی،منصورہ،لاہور،اپریل ۱۹۸۶ء،صفحہ۹۸۹