یہ ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ علامہ اقبال نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میری قوم کی ترقی کا راز سیاسی آزادی میں پنہاں ہے۔ برطانوی استعمار راستے کی بڑی رکاوٹ ہے اور ہندوئوں کا غلبہ ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں طرف کا دبائو ہمیں کچل رہا ہے‘‘۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا: ’’مسلمانوں کی فلاح و بہبود میری ساری زندگی کا مشن رہا ہے‘‘ (اوراقِ گم گشتہ، مرتبہ: رحیم بخش شاہین، ص۲۵۵، بحوالہ اقبال اور قائداعظم، مرتبہ: احمدسعید، ص ۷۷)۔ اس زمانے میں علامہ اقبال کی نظر محمدعلی جناح پر کیوں پڑی ؟ علامہ نے وضاحت سے فرمایا: ’’میری بصیرت کہتی ہے کہ مسٹر جناح ، ملّت اسلامی کو منزلِ مقصود تک پہنچائیں گے۔ یہ میری پیش گوئی ہے کہ مسٹرجناح ایسے کردار، اخلاق، فہم، تدبر اور عزمِ محکم کے مالک ہیں، جن کی بناپر بہت جلد ایک ایسے عوامی ہیرو بن جائیں گے کہ مسلم ہندستان میں ابھی تک اس قسم کا کوئی لیڈرپیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ (ایضاً، احمد سعید، ص ۷۷، ۷۸)
۱۹۳۶ء کے اواخر میں اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے کہا:’’مسٹر جناح کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے، جو آج تک ہندستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی۔ [یعنی] He is incorruptible and umpurchasable۔ (آثارِ اقبال، غلام دست گیر رشید، ص ۴۱، ایضاً، ص ۸۲)۔پھر اس زمانے میں ہندستان میں مسلمانوں کی حالت ِ زار کی مناسبت سے فرمایا: ’’مسلمانوں کی طرف سے اگر کسی شخص کو بات کرنے کا حق ہے، تو وہ صرف مسٹر جناح ہیں‘‘۔ (اقبال کے آخری دو سال، عاشق حسین بٹالوی، ص ۳۸۶، ایضاً،ص ۸۰)
راجا حسن اختر نے پوچھا: ’’کیا ہندستان میں کوئی ایسا شخص ہے، جسے ہم آپ کی خودی کا مظہر کہہ سکیں؟‘‘ علامہ اقبال نے جواب دیا: ’’ہاں، بالکل ہے اور وہ محمدعلی جناح ہے۔ اپنی قوم کو مَیں جس خودی کا درس دے رہا ہوں وہ محمدعلی جناح کے وجود میں جلوہ فرما ہے۔حق بات کہنے میں اسے باک نہیں، نہایت اعتباری آدمی ہے۔ مسلم قوم کا نجات دہندہ ہونے کی ساری صفات اس میں پائی جاتی ہیں‘‘ (ایضاً، ص ۷۹)۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قائداعظم نے پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں سے کہا: ’’آج کل مسلمانوں کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تنظیم کریں اور ہندستان کی واحد اسلامی سیاسی جماعت ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے جھنڈے تلے ایک محاذ پر جمع ہوجائیں۔ ہماری اُمیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ مَیں آپ کی کامیابی کے لیے دست ِ بہ دُعا ہوں‘‘(روزنامہ انقلاب، لاہور، ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۷ء، ایضاً، ص ۷۹)۔علامہ اقبال نے قائداعظم کی تائید میں بیان جاری کیا اور فرمایا: ’’میں مسٹر جناح کے ایک ایک لفظ کی تائید کرتا ہوں۔ مسلمان نوجوانوں کو اس سے بہتر مشورہ نہیں دیا جاسکتا‘‘۔ (گفتار اقبال، مرتبہ: رفیق افضل، بحوالہ ایضاً، ص ۷۹)
قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں کانگرسی وزارتوں کے طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’’بندے ماترم‘ مسلم دشمن ترانہ ہے، جسےمسلمان بچوں کو اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بندے ماترم سے شرک کی بُو آتی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرئہ جنگ ہے‘‘۔ علامہ اقبال کو جب اخبار میں قائداعظم کا بیان بڑھ کر سنایا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ لیگ کامیاب ہوگی تو جناح کے سہارے۔ جناح کے سوا اب کوئی مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں‘‘۔ (اقبال کے حضور، نذیر نیازی، ص ۱۳۵، ایضاً، ص ۸۳)
علامہ محمد اقبال نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے پہلے قائداعظم کو ۳۷-۱۹۳۶ء میں نہایت پُرمغز خطوط لکھے، جن میں قائداعظم کی سیاسی و فکری رہنمائی کی۔ اُن کو مسلمانوں کے لیے آزاد مملکت کے مطالبے پر قائل کیا۔ اپنی وفات سے گیارہ ماہ قبل علامہ اقبال نے جناح کے نام خط مؤرخہ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء میں لکھا:
’’مسلم لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے محض اعلیٰ طبقے کی نمایندہ بنی رہے یا عام مسلمانوں کی نمایندگی کرے۔ جب تک کوئی سیاسی تنظیم، عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کا وعدہ نہ کرے، وہ اس وقت تک عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتی۔ نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ وہ گذشتہ دوسو سال سے برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ غربت کی وجہ ہندو سودخوری اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔ اسلامی قانون کے گہرے اور دقت ِنظر مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ روزی تو محفوظ ہوجاتا ہے۔لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرضِ وجود میں نہ آئیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں.... مجھے اتنا ضرور نظر آتا ہے کہ اگر ہندومت نے معاشرتی جمہوریت کو قبول کرلیا تو خود ہندو دھرم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسلام کے لیے معاشرتی جمہوریت کا کسی موزوں شکل میں اور شریعت کے مطابق قبول کرنا کوئی نئی بات یا انقلاب نہیں بلکہ ایسا کرنا اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنا ہے۔ مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے‘‘(مکتوب اقبال بنام جناح، ۲۸مئی ۱۹۳۷ء)۔[پھر علامہ اقبال نے ۲۱جون ۱۹۳۷ء کو قائداعظم کے نام لکھا:]’’اس وقت تمام ہندستان میں جو طوفان بڑھتا چلا آرہا ہے، ہندستانی مسلمان صرف آپ ہی سے رہنمائی کی اُمید رکھتے ہیں‘‘۔
کراچی میں ۱۱؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو مسلم طلبہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ’’آپ اپنی گم شدہ میراث کی بازیابی کے لیے حقیقی اور پُرخلوص کوششیں کریں۔ وقت آگیا ہے کہ آپ اسلام کے لیے اور اقتصادی ، تعلیمی و صنعتی ترقی کے لیے کام کریں۔ مسلمانوں کے پاس [اس وقت] نہ کوئی گھر ہے، نہ کوئی ایسی جگہ جسے وہ اپنی کہہ سکیں۔ مسلم لیگ نے ان کے لیے ایک گھر بنادیا ہے اور ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا ہے۔ اس پرچم کے گرد جمع ہوجایئے‘‘۔(سول اینڈ ملٹری گزٹ، ۱۲؍اکتوبر ۱۹۳۸ء، قائداعظم کی تقاریر، ج۲،ص ۲۶۳)
علامہ اقبال نے انھی خطوط میں قائداعظم کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بلانے کی تجویز دی۔ اسی جذبے کے تحت مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مارچ ۱۹۴۰ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں ’قرارداد لاہور‘ (۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء) منظور کی گئی، جو بہت جلد ’قرارداد پاکستان‘ کہلائی اور مسلمان عوام کے خواب کی تعبیر بن کر اُن کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد یومِ اقبال کی تقریب منعقدہ ۲۵مارچ ۱۹۴۰ء (پنجاب یونی ورسٹی ہال، لاہور) میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا: ’’اگرچہ میرے پاس سلطنت نہیں ہے، لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو مَیں اقبال کو منتخب کروں گا‘‘ (روزنامہ انقلاب، لاہور، ۲۹مارچ ۱۹۴۰ء، بحوالہ گفتار قائداعظم،ص ۲۴۲، ایضاً، ص ۸۹)۔ ۱۹۴۴ء کو ایک مرتبہ پھر یومِ اقبال پر قائداعظم نے اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اقبال ایک عظیم شاعر اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ جہاں انھیں ایک طرف اسلام کے مقاصد سے شیفتگی اور عقیدت تھی، وہاں وہ اُن چند لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے پہلے پہل ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا‘‘۔(محمدعلی جناح ،بزبانِ انگریزی، از مطلوب الحسن سیّد، ص۲۳۱، ایضاً، ص ۹۱)
یہی وہ فکری پس منظر تھا، جس میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے ۲۲مارچ ۱۹۴۰ء کو یہ واضح کیا کہ: ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں ، معاشرتی رسم و رو اج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں، نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے، اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتی ہیں۔ ایسی دوقوموںکو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا، جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا، اور آخرکار وہ تانا بانا ہی تباہ ہوجائے گا‘‘۔ چنانچہ قائداعظم نے آزاد مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جسے قرارداد کی صورت میں پیش کردیا گیا۔
طلبہ اور نوجوانوں کی مجلس نے جب قائداعظم سے مذہب اور مذہبی حکومت کے متعلق سوال کیا تو اُنھوں نے برملا کہا: ’’جب میں انگریزی زبان میں ’مذہب‘ کا لفظ سنتا ہوں تو اِس زبان اور قوم کے عام محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور روابط کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ مَیں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصوّر نہیں ہے۔ مَیں نہ کوئی مولوی ہوں، نہ مُلّا اور نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے۔ البتہ مَیں نے قرآنِ مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اِس عظیم الشان کتاب کی تعلیمات میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو، معاشرت، سیاست، معیشت، سب کے متعلق رہنمائی ہے۔ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جو قرآنِ مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہیں بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی حقوق کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں‘‘۔ (صدق، لکھنؤ، ۱۹ جنوری ۱۹۴۱ء)
اب آپ دیکھیے کہ اقبال اور قائداعظم نے کب، کہاں اور کس شکل میں مذہبی کارڈ استعمال کیا؟ یا دینِ اسلام کو ایک کارڈ کے طور پر نہیں بلکہ ایک باقاعدہ نظام کے طور پر پیش کیا؟ ان دونوں اکابر ملّت کی ساری جدوجہد ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مختص تھی، جسے وہ مسلمانوں کی بقا کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس مذہبی، لسانی، علاقائی کارڈ استعمال کرنے کا مقصد اقتدار کا حصول یا مخالف حکومت کو گرانا یا انتشار پھیلانا یا نفرت کے بیج بو کر علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینا ہوتا ہے۔ اس سے برعکس اقبال اور قائداعظم کا یہ نصب العین مسلمانوں کا اتحاد اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ مسلمانوں میں تہذیبی احیا، قومی شعور اور بقا کے لیے اسلامی جذبہ پیدا کرنا کارڈ نہیں بلکہ ابدی خدمت ہے۔
ہماری صدیوں پر محیط تاریخ کے اس اہم مسئلے پر ذرا گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایک سطحی نقطۂ نظر غلط نتائج اخذ کرسکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مغل سلطنت کی کمزوری، انتشار اور بے بسی نے، مسلمانوں کی دشمن قوتوں کو انتقام پہ اُبھارا، تو مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور ہندو نسل پرستوں نے اپنے آپ کو منظم کرکے مسلمان نوجوانوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تب حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے مسلمان سرداروں اور علاقائی حکمرانوں کو خطوط لکھے، جن کا متن یہ تھا کہ: ’’ہندستان میں مسلمان اور اسلام کی بقا کے لیے مسلمانوں کا کسی نہ کسی حصے میں حکمران رہنا ناگزیر ہے‘‘۔ پھر شاہ ولی اللہ کے جانشینوں سیّداحمد اور شاہ اسماعیل نے جہاد کی تحریک بھی مسلمانوں کے قومی وجود کی بقا کے لیے شروع کی اور غریب الوطنی میں شہادتوں کے مراتب پر فائز ہوئے۔
سرسیّد احمد خاں، اقبال اور قائداعظم تینوں رہنمائوں نے عملی زندگی کا آغاز ’مسلمان ہندو اتحاد سے کیا، لیکن ہندو لیڈروں کی تنگ نظری قریب سے دیکھنے اور ان کے باطنی عزائم کو بھانپنے کے بعد اس خواب کو ترک کردیا اور اپنی صلاحیتیں قومی وجود کی بقا کے لیے وقف کردیں۔ سیّداحمد نے کھل کر کہہ دیا تھا کہ اب ’’یہ دونوں قومیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں اورمسلمان الگ ہوئے تو فائدے میں رہیں گے‘‘۔
۱۹۴۴ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے مسلمانوں کے لاشعورمیں موجزن اسی آرزو کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’اس [مطالبۂ پاکستان] میں میرا کوئی کمال نہیں۔ میں نے فقط وہ بات کہہ دی، جو مسلمانوں کے دلوں میں پوشیدہ تھی‘‘۔ علی گڑھ میں ہی پاکستان کے خواب پر روشنی ڈالتے ہوئے ۸مارچ ۱۹۴۴ء کو کہا کہ :
That Pakistan started the moment the first non-Muslim was converted to Islam in India long before the Muslims established their rule. As soon as a Hindu embraced Islam, he was outcast not only religiously, but also socially, culterally are economically.
ہند میں مسلمانوں کے اپنی حکومت قائم کرنے سے پہلے، جس دن، ہند میں پہلے غیرمسلم نے اسلام قبول کیا، اسی لمحے پاکستان کے قیام کا آغاز ہوگیا۔ جونہی ایک ہندو نے اسلام قبول کیا تو اسے نہ صرف مذہبی اعتبار سے بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی مردود قرار دے دیا گیا۔
کیوں؟ اس لیے کہ مسلمان اپنے تہذیبی، سماجی، شخصی، فکری اور مذہبی حوالے سے اپنا الگ تشخص رکھتا تھا، جو ہندوئوں سے بالکل مختلف تھا۔ غور کرنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ مسلمان کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے جب بھی مسلمانوں کے قومی وجود اور بقا کا سوال ہوگا، تو سب سے پہلے ذکر مذہب کا ہوگا۔ لیکن یہاں مذہب کسی قسم کا مذہبی کارڈ نہیں بلکہ قومی تشخص، تہذیبی پہچان اور انفرادیت کی علامت ہے اور یہ علامت قومی وجود کی بقا کی ضامن ہے۔ اگر آپ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد، اُن کی مختلف تحریریں اور خاص طور پر قائداعظم کے نام ان کے خطوط پڑھیں، تو احساس ہوگا کہ وہ علیحدہ وطن کا مطالبہ مسلمانوں کے معاشی مفادات، تہذیبی، علمی، سماجی اور مذہبی عوامل کے پیش نظر کر رہے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ ہندو مسلم فسادات کا حل تھا۔
قائداعظم کے تصورِ پاکستان کا بغور مطالعہ کریں تو وہ مسلمانوں کو ہندو غلبے اور اکثریتی جبر سے نکال کر ایک ایسے خطۂ زمین کا حصول چاہتے تھے، جہاں مسلمان اسلامی اصولوں کے تحت آزادی سے زندگی گزار سکیں۔ اسی لیے انھوں نے بیسیوں بار کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانونی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ پھر پیر آف مانکی شریف کے سوال پر زور دے کر کہا کہ: ’’پاکستان میں کوئی قانون خلافِ مذہب نہیں بنے گا‘‘۔ کیا متحدہ ہندستان میں ایسا ممکن تھا؟ کیا آج ہندستان کی حکومت ایسی قانون سازی کرسکتی ہے، جس کے تحت مسلمان اپنی شریعت کے تحت زندگی گزار سکیں؟
اس لیے امرواقعہ یہی ہے کہ تحریک ِ پاکستان، اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد مسلمانوں کے قومی وجود کی بقا کے لیے تھی۔ اس میں کارڈ نامی شے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کا تصورِ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کا تھا۔ جس گاندھی کی آرایس ایس کے ہاتھوں موت کو ہمارے لبرل اور سطحیت کے مارے دانش ور مسلمانوں کی ہمدردی کا شاخسانہ کہتے ہیں اُنھیں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ گاندھی نے اپنے مقبولِ عام رسالے ینگ انڈیا میں اس طرح کے مضامین چھاپے جن سے آر ایس ایس اور ’ہندوتوا‘ کی بُو آتی تھی اور جن میں کہا گیا تھا کہ ہندستان میں مسلمانوں سے نبٹنے کے تین طریقے ہیں:
کیا ’ہندوتوا‘ کی فلاسفی یہی نہیں ہے؟آج آر ایس ایس یہی نہیں کر رہی؟ مودی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ میں گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کروا کر اسی خونیں ڈرامے کا ایکٹ پیش نہیں کیا تھا؟ اُسے اپنی مسلمان کُش پالیسیوں کی وجہ سے ہندو اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی؟ اور اسی ایجنڈے کے تحت آج کشمیر ظلم و ستم کی نگری بنا ہوا ہے۔ شیخ عبداللہ جیسے کٹر کانگرسی گھرانے کے جانشین ہوں یا دہلی نواز سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، آج کیوں دو قومی نظریے کی حقانیت کا اقرار کر کے ’جناح‘ سےعقیدت کا اظہار کر رہے ہیں؟ کیونکہ یہ اُن کی قومی بقا کا مسئلہ ہے۔ جب پاکستان کی بنیاد ہی دو قومی نظریے پر ہے اور اسی نظریے کو ہندستانی مسلمانوں کی ۷۵ فی صد تعداد نے ۴۶-۱۹۴۵ء میں ووٹ دیے تھے، تو پھر اس نظریے کو حب الوطنی کا معیار کیوں نہ بنایا جائے؟
اب یہاں پرقائداعظم کے صرف تین بیانات کو مطالعے کے لیے پیش کر رہا ہوں، جو انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد دیے۔
۱۴ دسمبر ۱۹۴۷ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے آخری خطاب میں کہا:
Let it be clear that Pakistan is going to be a Muslim State based on Islamic Ideals. It was not going to be an ecclesiastical state.
میں صاف طور پر واضح کر دوں کہ پاکستان، اسلامی نظریات پر مبنی ایک مسلم ریاست ہوگی، یہ پاپائی ریاست نہیں ہوگی۔
۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں قائداعظم نے کہا:
Islam and its idealism have taught democracy. Islam has taught, equality, justice and fairplay to everybody.... Islam is not only a set of rituals, traditions and spiritual doctrines. Islam is also a code for every Muslim, which regulates his life and his conduct in even politics and economics and the like. It is based on the highest principles of honours, integrity, fairplay and justice for all. One God and equality of manhood is one of the
fundamental principles of Islam.
(سول اینڈ ملٹری گزٹ، ۲۷ جنوری ۱۹۴۸ء، تقاریر ( جلد۴) ، ص ۲۶۶۹، ۲۶۷۰)
اسلام اور اس کے کمال مطلوب نے جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے بتایا ہے کہ انصاف اور زیبائی ہر ایک کا حق ہے۔ اسلام محض چند عبادات ، رسوم اور روحانی کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ’’اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطۂ حیات بھی ہے، جس کے مطابق وہ اپنی روزمرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال، حتیٰ کہ سیاست و معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب کے لیے انصاف، رواداری، شرافت، دیانت اور عزت کے اصولوں پر مبنی ہے۔خداے واحد اور انسانی برابری، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں۔
اسی طرح ۱۴فروری ۱۹۴۸ء کو سبی دربار (بلوچستان) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
It is my belief that our salvation lies in following the golden rules of conduct set for us, by our great law-giver the Prophet of Islam. Let us lay the foundation of our democracy on the basis of truly Islamic Ideals.
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات انھی شہری قوانین کی پابندی میں ہے، جو ہمارے شارع اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار کریں۔
یہ اب سے چند ماہ قبل کا واقعہ ہے کہ ہندستانی ٹی وی کا ایک چینل میرے سامنے چل رہا تھا۔ ایک دانش وَر خاتون عیدالاضحی کے حوالے سے بڑی حقارت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی کہ: ’’ہندستان سرکار کو قربانی پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ مسلمان جانوروں کا خون بہاتے اور گندگی پھیلاتے ہیں۔ اُنھیں چاہیے کہ وہ بکرے کی شکل کا کیک بنوا کر گھر لائیں اور اُس کو کاٹ لیں‘‘۔
یہ گفتگو سن کر جہاں مجھے قائداعظم کے متعدد انتباہ (وارننگ) یاد آئے، وہاں پاکستان کے ’سیکولر اور ابلاغی اجتہادی‘ بھی یاد آئے: ’’جن کا فرمانا ہے کہ: حج کرنے کے بجاے وہ رقم مستحق لوگوں کو دے دینی چاہیے‘‘۔ اُنھیں یہ علم ہی نہیں کہ صاحب ِ استطاعت پر حج فرض ہے۔ اُنھی کے دیکھا دیکھی کچھ از قسم مولوی حضرات نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دینے شروع کر دیے ہیں کہ ’’اپنی قضا و خطا نمازیں ہم سے پڑھوا دیں‘‘، حتیٰ کہ ’’مرحوم والدین کے لیے بھی نمازیں پڑھوانے کا بندوبست ہے، جس کے لیے اتنی ادایگی کرنا ہوگی‘‘۔ خدا جانے ایسے جاہلوں کا ’اجتہاد‘ ہمیں کہاں لے جائے گا؟
یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ ڈاکٹر محمداقبال اور محمدعلی جناح کے حوالے سے ایک مخصوص لابی کی طرف سے یہ کہنا کہ اُنھوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگاکر مذہبی کارڈ استعمال کیا‘‘۔ حقیقی معنوں میں اور تاریخی طور پر درست بات نہیں ہے۔ علامہ اقبال تو اپریل ۱۹۳۸ء میں وفات پاگئے تھے۔ دراصل مسلم لیگ نے باقاعدہ پارٹی کی سطح پر تو یہ نعرہ نہیں لگایا تھا۔ تاہم، مسلم لیگ کے جلسے اور جلوسوں میں کارکنوں کا یہ برق آسا نعرہ تھا۔ اس نعرے کا پس منظر یہ ہے کہ سیالکوٹ سے مسلم لیگ کے ایک پُرجوش کارکن اصغر سودائی [۲۸ستمبر ۱۹۲۶ء-۱۷مئی ۲۰۰۸ء] نے بحیثیت طالب علم ۱۹۴۴ء میں ایک نظم لکھی، جس کا یہ ایک مصرعہ لیگی کارکنوں کے دلوں کو چھو گیا، پورے ہند میں پھیل گیا اور تاریخ کا حصہ بن کراصغر سودائی کو امر کرگیا۔
اگرچہ تاریخ، مسلم لیگ کے ریکارڈ ،اور کسی قرارداد میں کہیں یہ حوالہ نہیں ملتا کہ یہ نعرہ مسلم لیگ نے بحیثیت پارٹی منظور کیا تھا، لیکن اس نعرے سے قطع نظر قائداعظم نے تحریک ِ پاکستان کے دوران اور قیامِ پاکستان کے بعد مجموعی طور پر کم از کم ۱۱۴بار، ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ، دلیل اور منطق کے ساتھ اسلام، اسلامی قانون، شریعت کا ذکر، قانون سازی کے حوالے سے کیا، مگر یہ بات نعرے کے طور پر نہیں کہی۔یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے رفقاے کار اور پہلی دستورساز اسمبلی نے نعرے کے طور پر نہیں، بلکہ نہایت سنجیدگی سے مارچ ۱۹۴۹ء میں ’قرارداد مقاصد‘ منظور کرکے، ایک باقاعدہ نظام کے خدوخال کو واضح کیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کا یہ حقیقی تصور ہے۔
قائداعظم کی ساری جدوجہد ایک اسلامی، جمہوری اور جدید پاکستان کے لیے تھی۔ انھوں نے پوری جدوجہد کو نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل ، قاعدے اور ضابطے کے بل پر اُٹھایا اور منظم کیا۔ اس طرح پاکستان کا حصول ایک تہذیبی ، ملّی اور قومی مقصد تھا۔
یہ ایک انتہائی خطرناک مغالطہ ہے جو پیدا کیا جا رہاہے۔ ہمارے ایک دانش وَر [ایازامیر] نے مخصوص طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے کہا ہے: ’’بھارت اگر ہندو ریاست ہے تو اس میں خرابی کیا ہے؟ ہم بھی تو آخر ایک مسلم ریاست ہونے کے دعوے دار ہیں۔ اگر وہ فاشسٹ ہیں تو پھر ہمیں بھی خودکو فاشسٹ ڈکلیئر کر دینا چاہیے‘‘۔ یہ بات کئی مغالطوںکا ملغوبہ ہے اور اس ملک میں ایک خاص ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ بات کی وضاحت یوں کی جاتی ہے: ’’جناح نے تو ۱۱؍اگست کو جس نظام کا اعلان کیا تھا، ان کے مطابق ایک سیکولر ریاست تھی، جب کہ ان کی وفات کے فوراً بعد اس بات کی کوششیں شروع ہو گئیں کہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست بنا دیا جائے۔ قراردادِ مقاصد اسی کوشش کا نتیجہ ہے‘‘۔
پہلی بار میں نے یہ بات ایم بی نقوی کے ہاں پڑھی جو بائیں بازو کی طرف کھلا جھکائو رکھتے تھے،مگر تھے انتہائی سنجیدہ اور باوقار صحافی۔ انھوں نے لکھا: ’’قائد اعظم کے خیالات سے پہلا انحراف قراردادِ مقاصد تھی‘‘۔ اگلے ہی روز وہ ہمارے ممتاز فلسفی استاد ڈاکٹر منظوراحمد صاحب کے ہاں اس محفل میں موجود تھے، جہاں کراچی کے ۲۰،۳۰ چوٹی کے اہل علم ہر ماہ شریک ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: ’’اگر یہ مان لیا جائے کہ قائد اعظم کا مطلب وہی تھا جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں تو آیا ایک شخصِ واحد کی راے جو چاہے قائد اعظم ہی کی کیوں نہ ہو، اہم ہے یا اس کے مقابلے میں منتخب دستور ساز اسمبلی کی متفقہ راے؟‘‘ ظاہر ہے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ پھر عرض کیا: ’’حضور، پہلے تو آپ جنابِ جناح کو غلط سمجھے اور ان سے سیکولرزم کا تصور منسوب کر دیا، حالانکہ انھوںنے زندگی بھر اس لفظ کو اپنی کسی تقریر میں بھی استعمال تک نہیں کیا‘‘۔ پھر تفصیل کے ساتھ اپنا موقف دہرایا جو میں اس ۱۱؍اگست کی تقریر کے حوالے سے رکھتا ہوں: ’’یہ میثاقِ مدینہ کا عکسِ ثانی ہے، اس کی ایک ایک سطر اس سے مشابہت رکھتی ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے تو خطبہ الٰہ آباد میں واضح کر دیا تھا کہ: اسلام انسان کی وحدت کو کسی ناقابلِ ملاپ دوئی یا ثنویت میں تقسیم نہیں کرتا۔ ایسی دوئی جو مادہ اور روح، ریاست اور کلیسا میں پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح گویا ریاست اور مذہب کے الگ الگ ہونے کے خیال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے یہ دانش ور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ: ’’تم سیکولرزم کا اردو میں غلط ترجمہ کرکے اسے ’لادینیت‘ کے معنوں میں استعمال کرتے ہو‘‘۔ ہم نے عرض کیا: ’’اچھا تو آپ بتادیجیے، پھر اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘
اس کا پس منظر سن لیجیے کہ یہ یورپ میں کلیسا کی بالادستی کے خلاف بغاوت تھی۔ اس لفظ نے مختلف مواقع پر مختلف شکلیں اختیارکیں، تاہم اس کی فلسفیانہ تعبیر سب سے پہلے لندن میں بیٹھے ایک شخص نے اس وقت کی، جب کارل مارکس فروری ۱۸۴۸ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو شائع کر رہا تھا۔ دو سال پہلے ۱۸۴۶ء میں جارج جیکب ہولیاک (۱۳؍اپریل ۱۸۱۷ء- ۲۲جنوری ۱۹۰۶ء) اسی شہر میں بیٹھا سیکولرزم کو باضابطہ منضبط کر رہا تھا ۔اُس نے اسے کلیسا کے مقابلے ایک نظام اور ایک سوچ کے طور پر مرتب کیا۔ فلسفے کی بحث سے قطع نظر، اس وقت دنیا میں اس کے چھے ماڈل ہیں، جن سے سیکولرزم کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد [م: ۳۱؍مارچ ۲۰۱۶ء] نے مذہب اور ریاست کے تعلق پر بڑی عالمانہ شان سے چار مزید اضافے کیے، مگر میں خود کو چھے تک ہی محدود رکھتا ہوں:
۱- پہلا ماڈل امریکا کا ہے، جس کے سیکولرزم کے دو اصول ہیں: ایک یہ کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور دوسرا یہ کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
۲- دوسرا ماڈل برطانیہ کا ہے جس میں ریاست کا مذہب ہے، اس کا اپنا کلیسا ہے اور برطانیہ کا بادشاہ یا ملکہ اس کے سربراہ ہیں، البتہ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
۳- تیسرا ماڈل فرانس کا ہے جو انقلابِ فرانس میں کلیسا سے جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس میں کلیسا یا مذہب سے اس کی مخاصمت واضح ہے، جو گویا اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
۴- ترکی کا ماڈل اسی فرانسیسی ماڈل سے متاثر، مگر بہت آگے بڑھ گیا۔ وہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق شادی کر سکتے تھے نہ عبادت، مگر یہودی ہر معاملے میں آزاد تھے۔ ترکی میں عربی میں اذان تک دینے پر پابندی تھی۔ غیر مسلموں کو بڑی چھوٹ تھی۔ یہ جو میرا دانش وَر پوچھتا ہے کہ: ’’لبرل کو سیکولر سے ملا دیا جائے تو اس سے دین دار طبقہ کیوں چڑتا ہے؟‘‘ اس لیے کہ پھر اس کی یہی شکل ہمارے اس سیکولر یا لبرل طبقے کے لیے پسندیدہ بنتی ہے، جو ترکی میں رہی ہے اور جس سے ترکی اب نجات حاصل کر رہا ہے۔
۵- اس کی پانچویں شکل اشتراکی روس میں پائی جاتی تھی، جس کے مطابق ’مذہب افیون ہے‘۔
۶- اور آخری شکل بھارت کی ہے، جس کے بارے میں اول روز سے کہا جاتا تھا اور درست کہا جاتا تھا: ’’یہ منافقت کے لبادے میں اپنی جنونیت کو چھپانے کا دوسرا نام ہے‘‘۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اب پردہ چاک ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے [یعنی علامہ اقبال، محمدعلی جناح، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی وغیرہ] اس جھانسے میں نہیں آئے۔ وہ اس لفظ سے دُور رہے۔ ان کی نظر میں ان کا اپنا نظام حیات زیادہ طاقت ور اور جان دار ہے جس میں ریاست کا اپنا مذہب ہے۔(برطانیہ کی طر ح) ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل تو ہے، مگر زندگی کے تمام معاملات میں آپ کو مادر پدر آزادی نہیں، آپ ایک ضابطۂ حیات اور ضابطۂ اخلاق کے پابند ہیں۔
اس مختصر مضمون میں گنجایش نہیں ہے کہ اُس اسلوبِ حیات کو بیان کیا جائے جو یہ لبرل سیکولر طبقہ ان لفظوں کی آڑ میں اپنانا چاہتا ہے۔ تاہم، یہ ایک بڑی حماقت ہو گی اگر اس بات پر اصرار کیا جائے کہ: ’’اسلامی جمہوریہ اورہندو توا کے ایک ہی معنی ہیں‘‘۔ آپ کو’ ہندوتوا‘کا متبادل ڈھونڈنا ہے تو پھر ’داعش کا ماڈل‘ دیکھیے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں طالبان کا ماڈل بھی قبول نہیں کیا گیا، جس نے افغانستان سے نہ صرف پوست تک کی کاشت ختم کر دی تھی بلکہ اس ہتھیار بند معاشرے سے نجی ملکیت میں ہتھیار بھی ختم کرنے کا ناقابلِ تصور کارنامہ عملاً کر دکھایا تھا۔ ۲۰۰۲ء میں الیکشن جیتنے کے بعد جب مولانا فضل الرحمان صاحب سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ طالبان کا ماڈل لائیں گے؟‘‘، تو انھوں نے صاف لفظوں میں کہا: ’’طالبان کا اپنا ماڈل ہے اور ہمارا اپنا آئین‘‘۔ ان کا جواب وہی تھا جو فرانس میں بائیں بازو والوں نے اور کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی نے انتخابات جیت کر اختیار کیا تھا۔
’اسلامی جمہوریہ‘ کا ماڈل صاف بتاتا ہے کہ یہ پہلی ’ری پبلک‘ ہے، جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلنا چاہتی ہے۔ یہاں ’ری پبلک‘ کا لفظ اہم ہے۔ پاکستان ان معنوں میںمذہبی ریاست نہیں، جن معنوںمیں اسرائیل ہے اور بھارت ان معنوں میں مذہبی نہیں ہو سکتا، جن معنوں میں اسرائیل ہے۔ اس لیے کہ یہاں ہندوئوں کے علاوہ ایک بہت بڑی اکثریت غیرہندوئوں کی آباد ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت صاف بتا دیا گیا تھا، یہ شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے یا بنگال کے مسلمانوں کے لیے ایک تجویز ہے۔ باقی جو لوگ ہندستان میں رہ جائیں گے، ان میں آبادی کی تقسیم ویسی نہ ہو گی جیسی مسیحی یورپ میں تھی۔ آبادی کے اس مجموعے میں اگر آپ ان اصولوں پر نہیں چلتے، جن کی بنیاد پر ملک بنا تھااور اس کا آئین ترتیب دیا گیا تھا، تو پھر تاریخ اس خطے کے بارے میں ایک بار پھر نئے فیصلے کرے گی۔ شاید ان فیصلوں کا وقت ان ’ہندوتوا‘ والوں نے خود ہی قریب کر دیا ہے۔
ایک ہندو ریاست کے یہ معنی کیسے ہو گئے کہ آپ اپنے اندر موجود ایک مسلم آبادی کے اکثریتی خطے پر فسطائیت نافذ کریں، جیسا کشمیر پر کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ ہندو ریاست سے ڈر کر ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسلام کا نام لینا چھوڑ دیں، وہ سمجھ لیں کہ ہم نے ہر بات میں احتیاط برتی ہے۔ ’جمہوریہ‘ کا لفظ ہم نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا اور ہم کبھی ’تھیوکریسی‘ کے قائل نہیں رہے۔ ہم نے اپنے نظام کو اور کوئی نام بھی نہیں دیا۔ رہی رام راج کی بات تو اس پر قائد اعظم کی سدابہار اور جامع تنقید یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ ہم نے بحیثیت قوم تو ان کو بھی پذیرائی نہیں بخشی، جو حکومت الٰہیہ اور غلبۂ اسلام کا پروگرام پیش کرتے تھے۔ برصغیر میں مسلم فکر کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیجیے آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ یہ دیس کیسا دیس ہے؟ رہا، آپ کے نائو نوش اور عیش وعشرت کا معاملہ، تو اس کے لیے ہم ملک کا نظام نہیں بدل سکتے، بلکہ دوسرے لفظوں میں اپنا دین نہیں چھوڑ سکتے!
کچھ باتوں کو نظرانداز کرنا بہتر ہوتا ہے، لیکن چند بنیادی باتوں کی وضاحت ملک سے محبت کی مجبوری بن جاتی ہے۔ مغالطہ انگیزی پر مشتمل تحریروں میں ایک دل چسپ تضاد بھی نظر آتا ہے۔
ایسے عالم و فاضل اور محقق حضرات، جو سچ لکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اُن میں سیکولر اور اسلام پر عالمانہ اور اجتہادی کالم لکھنے والے دونوں قسم کے حضرات شامل ہیں۔ بعض اوقات یہ ہوتاہے کہ نظریاتی حوالے سے دونوں متضاد گروہ بھی ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں۔
ان دونوں قسم کے فاضل حضرات سے میرا محض ایک سوال ہے: ’’آپ کو کیسے علم ہوا کہ قائداعظم پاکستان کو فلاحی و جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے؟‘‘ اگر تو آپ نے یہ بات محض پروپیگنڈا سن کر لکھ دی ہے تو آپ قارئین سے بے انصافی کر رہے ہیں، کیونکہ قارئین آپ سے تحقیقی اور عالمانہ سچ کی توقع کرتے ہیں۔ اگر آپ نے قائداعظم کی تقاریر پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے، تو آپ ادھورے سچ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
قائداعظم نے اپنی تقریروں اور خطبات میں چند بار فلاحی اور کئی بار جمہوری پاکستان کا تصور پیش کیا۔ لیکن انھوں نے قیام پاکستان سے قبل سو بار سے زیادہ اور قیامِ پاکستان کے بعد بحیثیت گورنر جنرل چودہ بار یہ اعلان کیا کہ وہ ’پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری ریاست‘ بنائیں گے۔ انھوں نے بار بار یہ وضاحت کی کہ: ’’پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی‘‘۔
عید میلاد النبیؐ کے موقعے پر ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے ’پاکستان میں شریعت کے نفاذ‘ کا اعلان دُہرایا، اور فروری ۱۹۴۸ءمیں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں پاکستان کو ’پریمئر اسلامک اسٹیٹ‘ قرار دیا۔ ایسے اَن گنت حوالوں کے پس منظر میں، ان حضرات سے میرا یہ سوال ہے کہ: ’’عزیزو! جہاں آپ کو قائداعظم کے تصورِ پاکستان میں جمہوری فلاحی پاکستان نظر آتا ہے، تو وہاں پر آپ کو اسلامی نظر کیوں نہیں آتا کہ جس پر قائداعظم نے بار بار زور دیا؟‘‘
تحقیق کا پہلا اصول سچ ہے اور جب تحقیق کے نام پر ادھورا سچ بولا یا لکھا جائے، تو سمجھ لیجیے کہ یہ دھماچوکڑی کسی ایجنڈے یا وسیع پروگرام کا حصہ ہے۔ اس میں دل چسپ بات یہ ہے کہ سیکولر اور دین سے بے زار حضرات تو قائداعظم کے پاکستان کو محض ’جمہوری اور فلاحی ریاست‘ تک محدود رکھتے ہی ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر میں نے بعض مذہبی شخصیات کو بھی اسی ایجنڈے کا ’سوداگر‘ پایا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انھوں نے قائداعظم کی تقاریر پر نظر نہ ڈالی ہو، اور یہ بھی ممکن نہیں کہ انھیں ان تقاریر میں اسلام کا سنگ بنیاد نظر نہ آیا ہو۔ یہ محض ان کی مذہب سے بے زاری ہے، جو جمہوری فلاحی ریاست سے پہلے ’اسلامی‘ کا لفظ لکھنے نہیں دیتی۔ حالانکہ آج کا پاکستان بھی کم سے کم آئین کی حد تک اسلامی و جمہوری ہے۔ جب اسلامی کہا جائے تو فلاحی کے اضافی لفظ کی اس لیے ضرورت نہیں رہتی کہ ’اسلامی‘ میں ’فلاحی کا تصور‘ جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی پس منظر میں سیکولر حضرات کی ’قرارداد مقاصد‘ سے بے زاری سمجھ میں آتی ہے۔ یاد رہے کہ ’قراردادِ مقاصد‘ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے منظور کی تھی، اور اسے پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔ قائداعظم کے بعد قائدِ ملت لیاقت علی خان سب سے زیادہ مقبول اور مضبوط قومی لیڈر تھے۔ یہ بھی ایک قابلِ توجہ بات ہے کہ یہ حضرات ’قرارداد مقاصد‘ پر وہی اعتراضات کرتے ہیں، جو اس وقت کے ہندو اور کانگریسی اراکین اسمبلی نے کیے تھے۔ کانگریسی اراکین اسمبلی کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تحفظات تھے، حالانکہ قرارداد کے پیرا۹ اور ۱۰ میں تمام شہریوں کو برابری، بنیادی حقوق، آزادیِ اظہار، آزادیِ مذہب و عقیدہ اور سیاسی و سماجی عدل کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق اور دانش ور جی ڈبلیو چودھری [غلام وحید: ۱۹۲۶ء- ۱۳دسمبر ۱۹۹۷ء] کے بقول: ’قرارداد مقاصد‘ کا قصور یہ ہے کہ اس قرارداد نے پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھنے کا اعلان کیا تھا، حالانکہ یہ وہی بات تھی، جو قائداعظمؒ اپنی زندگی میں بارہا کہہ چکے تھے‘‘۔
میرے مطالعے کے مطابق سیکولر حضرات اور ان کے حامیوں کے ہاں ’قرارداد مقاصد‘ کو مسترد کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرارداد نے اللہ تعالیٰ کا اقتدارِ اعلیٰ(Sovereignty) تسلیم کیا اور ریاست کو دین اسلام کی طے کردہ حدود میں رہ کر قانون سازی اور پالیسی سازی کرنے کا اختیار مانا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، اور یہ ہمارے آئین کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ ان سیکولر حضرات کا کہنا ہے کہ: ’’مغربی جمہوریت کی مانند اقتدارِ اعلیٰ عوام کی ملکیت ہونا چاہیے اور اسلامی اصولوں سے قطع نظر انھیں ہر قسم کی قانون سازی کی اجازت ملنا چاہیے‘‘۔ ظاہر ہے کہ پاکستان میں ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا، اس لیے وہ لفظ’اسلامی‘ کو پسِ پشت ڈال کر ’فلاحی جمہوری ریاست‘ کا راگ الاپتے رہیں گے اور ’قرارداد مقاصد‘ پر نشانے باندھ باندھ کر تیر چلاتے رہیں گے۔
’قرارداد مقاصد‘ کے حوالے سے مجھے مزید حیرت اس وقت ہوئی، جب ایک معروف کالم نگار نے یہ لکھا کہ:’’ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری لے پالک سیاسی قیادت کے جمہوری انحراف کا شاخسانہ تھی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے مقبول ترین وزیراعظم لیاقت علی خان ’لے پالک سیاست دان‘ تھے یا ان کے رفقا، جنھوں نے ’قرارداد مقاصد‘ کی حمایت کی وہ ’لے پالک تھے؟‘ کیا یہ حضرات ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے تھے؟ کیا انھیں کسی جرنیل نے اپنی گود میں پالا پوسا تھا؟ کیا پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا قرارداد منظور کرنا جمہوریت سے انحراف تھا؟ اسی طرح ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’’قرارداد مقاصد کا مسودہ قائداعظم کی زندگی میں تیار کرلیا گیا تھا، لیکن جب قائداعظم کو دکھایا گیا تو انھوں نے نامنظور کر دیا‘‘۔ ’قرارداد مقاصد‘ کے مخالفین نے قرارداد پر ضرب کاری لگانے کے لیے یہ انوکھا افسانہ تراشا اور شوشہ چھوڑا ہے۔ جو سراسر بے بنیاد ہے اور سمجھ لینا چاہیے کہ یہ آخری وار ہرگز نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ لوگ اسلام سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟
۴۰سال کے دوران ایک بار پھر وطن عزیز پاکستان آنا ہوا، لوگوں کا رویہ اور ملک کے حالات دیکھے تو دل غم سے بھر گیا، آنکھیں نم ناک ہوگئیں اور ہاتھ دُعا کے لیے اُٹھ گئے۔ اللہ، ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ہم تو منزل کی مخالف سمت رواں دواں ہیں۔ خود کو ’بدلنے‘ کے لیے تیار نہیں، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ حالات جلد سدھر جائیں گے اور دنیا کے فیصلے ہماری مرضی سے ہوں گے۔ یہ سادہ لوحی ہے یا محض خودفریبی!
بلاشبہہ ماضی کے برعکس، الحمدللہ، مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ کروڑوں افراد صبح و شام اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں مگر حیرت انگیز مشاہدہ یہ ہے کہ ان نمازوں کا، چلتی پھرتی زندگیوں اور معاشرے پر کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ مسجد سے قدم باہر رکھتے ہی لین دین ہو، کاروبار ہو، ملازمت ہو، یا تعلقات، جھوٹ، فریب، حق تلفی، دھوکا اور ملاوٹ شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیسی نماز ہے جو زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لارہی؟ قرآن تو نماز کی یہ خصوصیت بیان کرتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ ۰ۭ (عنکبوت ۲۹:۴۵)۔ لفظ اِنَّ تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے، جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جس کی نماز اسے فحش اور منکرات سے نہیں روکتی، اس کی نماز ہی نہیں ہے۔
چار عشرے گزرے کہ جب روزنامہ ملّت لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے برطانیہ جانا ہوا۔ محترم معظم علی صاحب اُس وقت سمندرپار پاکستانیوں کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق کے مشیر تھے۔ وہ پی پی آئی اورملّت لندن کے بھی چیئرمین تھے۔ اسلامی بنکاری کو متعارف کرانے کے لیے ’اسلامک کونسل آف یورپ‘ کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ مجھے لندن آنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے: میں نے چار افراد سے مشورہ کیا اور چاروں نے ہی تمھارا نام لیا۔ ان محبان میں پروفیسر خورشیداحمد اور محمد صلاح الدین شہید شامل تھے۔ ملّت کے بعد روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے پاکستان اور بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹی سے گہرا رشتہ اور مضبوط ربط رہا۔
پاکستان آکر واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ پیسے کی ریل پیل ہوگئی ہے۔ اُونچی اُونچی عمارتیں بن گئی ہیں۔ بڑے بڑے تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔ اندرونِ ملک ہوائی سفر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ٹکٹ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ریسٹورنٹ بھرے ہوتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار اور ٹریفک سگنلز پر مانگنے والوں کی بھیڑ۔
پاکستان بننے کے بعد ۷۲برسوں میں نااہل اور خائن ہرشعبے میں آگے بڑھتے گئے۔ یوں تو دنیابھر میں جو چیز سب سے کم ہے وہ سچائی اور امانت ہے۔ اس کے بالمقابل جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ جھوٹ اور خیانت ہے۔ لیکن پاکستان میں ان کا تناسب کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے، جب کہ آقا علیہ السلام نے ان دو بُرائیوں سے بچنے کی یہ کہہ کر سخت تاکید فرمائی ہے کہ: ’’مومن کے اندر سب عادت ہوسکتی ہیں، مگر جھوٹ اور خیانت نہیں ہوسکتی‘‘۔ جھوٹ اور خیانت نے پاکستان کے پورے سماجی، اخلاقی اور ریاستی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سارا سیاسی نظام انھی دو خباثت پر چل رہا ہے۔ نااہلوں کو حکمرانی کی امانت سونپی جاتی رہی ہے اور وہ جھوٹ و مکاری سے ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔
بے شک قوم کی بدحالی کے ذمہ دار حکمران ہیں، لیکن میں اس کی ذمہ داری قوم کو دیتا ہوں۔ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی ان پر حکمران آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ بُرے ہوں اور ان پر اچھے حکمران آجائیں، یا لوگ تو اچھے ہوں اور ان پر بُرے حکمران آجائیں۔
قوم کی اچھائی یا بُرائی کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟
اس کے لیے سب سے موزوں پیمانہ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی کتنے فی صد آبادی ’اکل حلال‘ پر قانع ہے؟ ’اکل حلال‘ صرف یہ نہیں ہے کہ سور نہیں کھاتا، یا شراب نہیں پیتا بلکہ اس کے تصور میں وہ سارے پہلو شامل ہیں جن کی اسلام تلقین کرتا ہے، مثلاًاگر ملازم ہے تو رشوت نہیں لیتا، اپنے اوقاتِ کار میں ڈنڈی نہیں مارتا۔ اپنا کام وقت پر پورا کرتا ہے۔ دفتر کے جن اُمور کا وہ رازداں ہے ،اسے دوسروں سے بیان نہیں کرتا۔ دفتر کی چیزیں ذاتی استعمال کے لیے گھر نہیں لے جاتا۔ اگر تاجر ہے تو اچھے مال کے ساتھ خراب مال ملا کر نہیں بیچتا، جھوٹی قسمیں نہیں کھاتا، ٹیکس چھپانے کے لیے دُہرے حساب کھاتے نہیں رکھتا۔ناجائز منافع نہیں لیتا، ملازمین پر زیادتی نہیں کرتا۔ اگر سیاست دان ہے تو وہ اقتدار میں آنے کے لیے یا اقتدار میں آکر عوام سے جھوٹ نہیں بولتا۔ قومی منصوبوں پر ذاتی فوائد حاصل نہیں کرتا۔ اپنی عیاشیوں یا بدانتظامیوں کا ایندھن بنانے کے لیے عوام پر ناجائز ٹیکس نہیں لگاتا، ظلم نہیں کرتا۔ مظلوموں کی دادرسی میں کوتاہی نہیں کرتا اور لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں مَیں نے سیاست دانوں، دانش وروں، صحافیوں، دوستوں اور کئی سرکاری ملازمین سے یہ سوال کیا کہ: ’’پاکستان میں کتنے فی صد لوگ حلال کھا رہے ہیں؟ تو پہلا جواب ہوتا تھا زیادہ نہیں ۲۰، ۲۵ فی صد لوگ ہوں گے۔ جب میں ’اکل حلال‘ کا مفہوم بیان کرتا تو وہ کہتے کہ: ایسے ۵ ، ۱۰ فی صد بھی نہیں ہوں گے‘‘۔ کسی نے کہا: ’’۲ فی صدبھی نہیں ہوں گے‘‘۔ ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم کا جواب سن کر دل کو دھچکا لگا۔ ان کا جواب تھا: ’’صفر اعشاریہ صفر ایک فی صد‘‘۔ہوسکتا ہے کہ اپنے یا چند اور محکموں مثلاً پولیس کے معاملے میں ان کا جواب درست ہو،لیکن پورے ملک کی آبادی پر اس کا انطباق درست نہیں ہوگا۔تمام تر خرابیوں کے باوجود اس ملک میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں، لیکن آٹے میں نمک کے برابر، اور یہ نمک آٹے کو ذائقہ دے رہا ہے۔
ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ نظامِ تعلیم مغرب کے ذہنی غلام پیدا کر رہا ہے، جو اپنی اقدار سے ناآشنا، اپنے ماضی سے کٹے ہوئے، قرآن و حدیث سے نابلد، بلکہ دینی ہدایات پر شرمسار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو سب سے بڑا اثاثہ بن سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تعلیمی اداروں سے عموماً ڈگری یافتہ جُہل نکل رہا ہے۔ تعلیم، حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن کسی حکومت نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ پورے ملک کا نصابِ تعلیم ایک ہونا چاہیے، مگر یہاں تو تقسیم در تقسیم کا منظرچھایا ہوا ہے۔ ان متحارب اور متضاد طبقوں کو جوڑ کر ایک مضبوط اور باوقار قوم کیسے بن سکتی ہے؟
اسلام عدل کے قیام کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، جب کہ پاکستان میں عدل کے بجاے ظلم کا نظام رائج ہے۔ ججوں کے افعال، کردار اور اعمال و معاملات کی جو کہانیاں منظرعام پر آرہی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ اچھوں کے ساتھ بددیانت، خائن، جھوٹے، نااہل اور نالائق لوگ بھی ججوں کے منصب پر فائز چلے آرہے ہیں۔ ججوں کے انتخاب کے طریقۂ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم ابھی تک فوری اور سستے انصاف کی منزل سے بہت دُور ہیں۔
پولیس ظلم،ناانصافی، رشوت ستانی اور لُوٹ مار کی علامت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ پولیس میں دیانت دار، محنتی اور فرض شناس اہل کار اور افسر بھی موجود ہیں، لیکن عام طور پر تاثر یہی سننے میں آیا ہے کہ پولیس مجرموں کو تحفظ دیتی ہے بلکہ جرائم کے فروغ کا سبب ہے۔ پولیس کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ ظالم، مظلوم کی تو صرف دنیا بگاڑتا ہے جو چند روزہ ہے، لیکن اپنی آخرت بھی بگاڑ لیتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔حکمرانوں کو اور وردی والوں کو یہ سبق پڑھانے کی ضرورت ہے کہ دلوں کو فتح کرنے کے لیے تلواروں کی نہیں، محبت اور عمل کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور کراچی میں ایک نیا کلچر جنم لے چکا ہے۔ ان بڑے اور چند چھوٹے شہروں میں بھی بزنس مین اور سیاست دان سرکاریا افسروں سے کام نکلوانے، صحافیوں سے اپنی پبلسٹی کرانے، وزیروں اور اہم شخصیات سے اپنے روابط بڑھانے کے لیے ناچ گانے کی محفلوں اور شباب و شراب کے حربوں سے کام نکلواتے ہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ دنیا کی محبت دل کا اندھیرا ہے، اور سنت کی پیروی اور دین سے محبت، ابدی زندگی کا نُور ہے۔ جائز کمائی انسان خود کھاتا ہے اور ناجائز کمائی انسان کو کھا جاتی ہے۔ تمام گناہوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے۔
پاکستان میں پہلے روز سے بیوروکریسی کی حکومت رہی ہے۔ صرف ایک زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بیوروکریسی کی اس حکمرانی کو حدود میں رکھا تھا، لیکن اس میں بھی براہِ راست بھرتی کا نظام رائج کر کے انھوں نے بیوروکریسی کو ملک کے بجاے حکمران جماعت کا غلام بنا دیا، جسے بعد میں آنے والے حکمرانوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ یوں لگتا ہے کہ ملک بیوروکریسی کی عیاشیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ عوامی حقوق کا کسی کوپاس نہیں ہے۔
شہروں میں گندگیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ صفائی کا کوئی انتظام نہیں۔ پانی اور بجلی کے مسائل نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، اور حکمران عوام کے پیسوں سے شان دار کاروں میں گھوم رہے ہیں۔
ہرآنے والی حکومت پہلے سے زیادہ نالائق ثابت ہوتی ہے۔ پہلی وجہ سیاسی جماعتوں کا موروثی بن جانا ہے۔ دوسری وجہ تعلیم اور تربیت کا فقدان ہے۔ مغرب میں جس طرح حکمران جماعت کابینہ تشکیل دیتی ہے، اسی طرح اپوزیشن جماعت شیڈو کابینہ بناتی ہے۔ شیڈو کابینہ کے ارکان اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح کابینہ کے ارکان کام کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی ہرپالیسی ، ڈائرکشن کا مطالعہ کرتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں، متبادل پالیسی پیش کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اپوزیشن جو بھی کسی منصوبے کے لیے پالیسی کا اعلان کرتی ہے تو نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائے گی؟ نیا ٹیکس لگایا جائے گا؟ یا کسی اور ادارے میں کٹوتی کرکے رقم لائی جائے گی۔
پاکستان میں آج تک میں نے یہ مشق نہیں دیکھی، جس کی بناپر کرپشن آسان ہوجاتی ہے۔ آج حکومت اور نیب بڑی سرگرمی دکھا رہی ہے کہ ’قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو پکڑیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ لوٹ رہے تھے تو اس وقت ان کو کیوں نہیں روکا گیا؟ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کیوں نہیں ہے؟ ایسے معاہدے کیوں کرائے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی عدالتوں سے بھاری جرمانے ہوتے ہیں؟ منصوبوں کے اخراجات کئی گنا اچانک بڑھ جاتے ہیں۔
مغربی اقوام کی خصوصیات میں یہ ہے کہ وہ خود ظلم برداشت نہیں کرتیں، ظالم کے خلاف متحد ہوجاتی ہیں۔ ظالم کا دست و بازو نہیں بنتیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ دوسری اقوام پر حکمرانی کر رہی ہوں تو ظلم کی انتہا کردیتی ہیں۔ ہندستان اور افریقہ کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہنگامی حالات میں___ طوفان آجائے، جنگ چھڑ جائے،غرض کوئی آفت آجائے وہ فوراً منظم ہوجاتی ہیں۔
ہم اخلاقی پستی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیںجہاں بعثت کے وقت عرب بدو بھی نہیں پہنچے تھے۔ ان میں غیرت تھی، حمیت تھی، جھوٹ کو نہایت بُرا سمجھتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بُرائی بچیوں کو زندہ دفن کرنا تھا۔ آج ہم جعلی ادویات اور کھانے میں ملاوٹ کے ذریعے بچوں، بوڑھوں اور جوانوں سب کو مار رہے ہیں، حالانکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
دوسری طرف پاکستا نی نہایت باصلاحیت ہیں۔ معمولی سی تربیت سے وہ کٹھن سے کٹھن کام بآسانی انجام دے لیتے ہیں۔بدقسمتی سے حکمرانوں کو شعورہی نہیں ہے کہ وہ قوم کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں ؟
ا س ملک پر اللہ کا فضل اور آقا علیہ السلام کا کرم ہے کہ اس میں اصلاح کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ لوگوں کو اگر مجبور نہ کیا جائے تو اکثریت بُرائی سے بچنے کو ترجیح دے گی اور ’اکل حلال‘ پر قانع ہوگی۔ سمجھنا اور عام کرنا چاہیے کہ ناپاک ، ناجائز اور حرام ذرائع سے کمائے گئے پیسوں سے بنائے گئے کپڑوں میں نہ نماز قبول ہوتی ہے، نہ روزہ اور نہ زکوٰۃ و حج۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قوم ان سیاست دانوں کا اتباع ترک کردے، جنھیں شیطان بھی چھوڑ چکا ہے۔ شیطان تین قسم کے لوگوں کا پیچھا نہیں کرتا:۱- جو اپنی تعریف آپ کرتا ہو،۲- جو اپنے چھوٹے سے کام کو بڑا کرکے دکھائے ، اور۳- جو گناہ کر کے بھول جائے
پاکستان کو بالآخر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) سے اُسی کی شرائط پر معاملہ کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کیا ہے؟ معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ اور ان کے کیا اثرات متوقع ہیں؟ ان کو علمی اور معروضی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برادرم وقار مسعود نے نہایت سادہ اور عام فہم زبان اور معروضی انداز میں ان پہلوئوں کی وضاحت کی ہے اور معیشت کی اس زبوں حالی پر بھی مختصراً روشنی ڈالی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی ہے اور قوم کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تحریر کی روشنی میں عام قاری کو صورتِ حال سمجھنے میں مدد ملے گی۔ البتہ یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ آئی ایم ایف ہو یا عالمی بنک، یہ نئے عالمی سامراجی معاشی نظام کا حصہ ہیں۔ جہاں یہ ادارے متاثرہ ممالک کو ان کی معاشی مشکلات میں کچھ ریلیف اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہیں عالمی استحصال کے نظام کی گرفت بھی مضبوط تر بناتے ہیں۔اصل مسئلہ انصاف اور حقوق و فرائض کی مؤثر ادایگی کی ضمانت دینے والے ایک معاشی نظام کے قیام کا ہے اور ہم اس سے دُور کیے جارہے ہیں۔ ملک کی متوازن معاشی ترقی اور عوام کی خوش حالی کا انحصار ایک حقیقی اسلامی فلاحی معیشت اور ریاست کے قیام پر ہے ، صدافسوس اس کی طرف پیش قدمی دُور دُور تک نظر نہیں آرہی۔ پہلے بھی ۲۱معاہدے آئی ایم ایف سے ہوچکے ہیں۔ اب یہ بائیسواں معاہدہ وقتی ریلیف سے زیاد کیا اثرات ڈالے گا، اس پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ پھر یہ بھی غورطلب بات ہے کہ یہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں منی لانڈرنگ اور FATF کا ذکر ہے، جو خالص سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا بلاواسطہ کوئی تعلق آئی ایم ایف کے دائرۂ کار سے نہیں۔ یہ بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ (ادارہ)
مئی ۲۰۱۹ء میں حکومت اور ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (IMF) کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی توثیق آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ کرےگا۔ امید ہے یہ پروگرام جون کے آخر تک قابلِ استفادہ (operational) ہوجائے گا۔ اس مضمون میں ہم اس پروگرام کا پس منظر، آئی ایم ایف کے طریق کار، پروگرام کے ممکنہ اہداف اور ان پر عمل درآمد سے معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالیں گے۔
نئی حکومت کی آمد کے ساتھ ایک گرم بحث اس پروگرام کے حوالے سے جاری تھی۔ ماہرین معاشیات کی ایک بڑی تعداد اس خیال کی حامل تھی کہ معیشت کی بگڑتی صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ:’’پاکستان فوراً آئی ایم ایف سے رابط کرے اور جلد از جلد ایک پروگرام میں شامل ہوجائے‘‘۔ اس کے برخلاف حکومت کے لیڈر حضرات اپنی انتخابی مہم کے دوران کی جانی والی نعرہ بازیوں (rhetoric) کے اسیر بنے ہوئے تھے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے تھے اور قرضوں پر چلنے والی معیشت کو بُرا بھلا کہتے رہتے تھے۔ حکومت کا بار سنبھالنے کے بعد اس کے بوجھ کی حقیقت کے لازمی تقاضوں کو سمجھنے اور قبول کرنے میں انھیں بڑی مشکل پیش آرہی تھی اور وقت کا بہائو تیزی سے گھائو لگا رہا تھا۔ اس ذہنی انتشار میں وہ صحیح فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔ آئی ایم ایف سے گریز کی حکمت عملی پہلے انھیں دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کی طرف لے گئی۔جس سے کچھ عرصہ کے لیے معیشت کو لا حق دیوالیہ پن (default) کا خطرہ ٹل گیا۔ اس دوران معیشت انھی خطوط پر چلتی رہی جن پر وہ چلتی آرہی تھی۔ لہٰذا، یہ وسائل بھی استعمال ہوگئے اور ملک پھر دیوالیہ ہونے کے دھانے پر پہنچنے لگا۔
بالآخر حکومت کو احساس ہوا کہ خوف ناک معاشی دبائو سے نبٹنے کے لیے وہ صحیح راستے پر نہیں چل رہی اور دوسری مشکل یہ کہ اس کی معاشی ٹیم بھی مطلوبہ استعداد کی حامل نہیں ہے۔ بیچ منجدھار، حکومت نے بڑے پیمانے پر اس ٹیم میں تبدیلی کرکے نئے کھلاڑیوں کو شامل کردیا۔ جس انداز میں یہ تبدیلیاں کی گئیں اور بعد ازاں ان ساتھیوں کی جو درگت بنائی گئی اس پر حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کے پیچھے پارٹی میں موجود گروہ بندی اور باہمی رقابت کا بھی کردار ہے۔مزید برآں یہ تبدیلی ایسے موقعے پر کی گئی، جب کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہورہے تھے۔ یوں یہ تبدیلی حکومتی ٹیم میں انتشار اور افتراق کی عکاسی کررہی تھی۔ مذاکرات میں شامل ہونے والی ٹیم کس قدر اس نئے پروگرام سے متفق ہے اور کس وابستگی کے ساتھ اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوگی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
قبل اس کے ہم آئی ایف پروگرام کا جائزہ لیں یہ ضروری ہے کہ اس ادارے کا مختصراً تعارف پیش کیا جائے۔ آئی ایم ایف درحقیقت امداد باہمی کے اصول پر وجود میں آنے والا ایک ادارہ ہے۔ اقوام عالم نے دوسری جنگ عظیم (۱۹۳۹-۱۹۴۵ء)کی تباہ کاریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اس کو قائم کیا تھا۔ نئی دنیا میں جنگ سے بچنے اور معاشی ترقی کو باہمی تعاون سے فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے ایک پورے خاندان کو تشکیل دیا گیا۔ جس میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک شامل ہیں، وجود میں لایا گیا۔
آئی ایم ایف کا فرضِ منصبی یہ رکھا گیا کہ: ’’ممبر ممالک میں اگر بیرونی ادایگیوں کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو ان کی معاونت کی جائے کیونکہ ایک مربوط دنیا میں ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے معاشی عدم استحکام کی وبا پھوٹ سکتی ہے اور ساری دنیا کو اس کے بُرے اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے‘‘۔ آئی ایم ایف کا چارٹر اس کو یہ ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ :’’اگر کوئی ملک ایسی پریشانی میں درخواست کرتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے تو وہ یہ مدد فراہم کرے گا‘‘۔ وقت گزرنے کے ساتھ مدد کا یہ سلسلہ ایک باقاعدہ پروگرام کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب مدد مانگی جائے تو آئی ایم ایف ان عوامل کا بغور جائزہ لے، جو اس صورتِ حال کو پیدا کرنے کا باعث بنے اور ان کی درستی اور اصلاح کے لیے اقدامات تجویز کرے۔ مدد مانگنے والا اس کا پابند ہوگا کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام جن نظریات پر مبنی ہے، وہ دنیا میں غیر متنازعہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز نے جو سفارشات مرتب کی ہیں اور جن کو بورڈ آف گورنرز نے منظور کرلیا ہے، وہی اب پروگرام کو منظم کرتی ہیں۔ اس لیے کسی ایک رکن ملک کو ان شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس مروجہ طریق کار کے تحت آئی ایم ایف یہ تصور کرتا ہے کہ: ’’بیرونی ادایگیوں میں عدم توازن کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ملک اپنی برآمدات سے کہیں زیادہ درآمدات کررہا ہوتا ہے اور ایک حد کے بعد اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اس تفاوت کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور نہ اس کے لیے بیرونی ذرائع سے مزید قرضوں کے حصول کا کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ اس تصور کے بعد اصلاح کا ذریعہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یا تو فوری طور پر برآمدات کو بڑھایا جائے یا پھر درآمدات کی مانگ (ڈیمانڈ) کو کم کیا جائے۔ برآمدات کو بڑھانے کا عمل طویل المدت اور صبر آزما ہوتا ہے، جس کے اثرات فوری طور پر مرتب نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کے لیے ملک میں نئی پیداواری صلاحیت کو شروع کرنا اور پھر بیرونی منڈیوں میں فوری کھپت کے مواقع تلاش کرنا فوراً ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں درآمدات کی مانگ کو کم کرنا نسبتاً آسان کام ہے، جو ان کی قیمت کو بڑھا کر کیا جاسکتا ہے، یعنی کسی حد تک شرح تبادلہ (ایکسچینج ریٹ) کو کم کرکے (غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی )۔ علاوہ ازیں اس مانگ میں اس طرح بھی کمی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے اخراجات کو کم کیا جائے۔ درحقیقت بیرونی ادایگیوں کا خسارہ ، بجٹ کے خسارے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بجٹ کا خسارہ، جب کہ وہ ایک مناسب حد سے زیادہ ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر درآمدات کو بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہٰذا، اس کو قابو میں لا کر درآمدات کی مانگ کو کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔
مختصر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دراصل: ’معیشت میں موجود وسائل سے بڑھی ہوئی مانگ یا اخراجات کو کم کرنے کا نسخہ ہے‘۔ یہ صورتِ حال مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا بڑا حصہ تو بجٹ خسارے کی وجہ سے ہے، جو محصولات میں کمی اور اخراجات کی زیادتی سے پیدا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے بجٹ کے علاوہ بھی معیشت میں قابل قدر اضافی مانگ کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے پبلک سیکٹر انٹرپرائز زکی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، لیکن حکومت ان کے خسارے کو فوری طور پر اپنے بجٹ میں قبول نہیں کرتی ہے۔مزید برآں اس میں ایک بڑا تفاوت اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب حکومت گیس، بجلی اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں کرتی جتنا کہ ان کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس فرق کو بصورت مالی رعایت (subsidy) بجٹ سے ادانہیں کی جاتی، جس سے معیشت میں کم قیمتوں پر رسد تو فراہم ہوجاتی ہے، لیکن اس کی قیمت حکومت پر اُدھار رہ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یا تو قیمتوں کو حقیقی سطح پر رکھا جائے یا اس طرح کے معاملات کو شفاف طریقے سے بجٹ میں دکھایا جائے اور مالی نظم و ضبط کا بلا استثنا لحاظ رکھا جائے۔ دوسری جانب نجی شعبہ بھی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کا کردار خصوصاً اس حوالے سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ ملک میں شرح تبادلہ اس کی حقیقی قدر سے زائد رکھی ہوئی ہو۔ علاوہ ازیں یہ مانگ شرح مارک اپ کی کمی کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اس کمی کی وجہ سے قرضوں کی لاگت کم ہوتی ہے اور ان کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
یہ تو پروگرام کے تقاضے ہوگئے۔ اس کے ذریعے جو مدد حاصل ہوتی ہے اس کو بھی سمجھ لیا جائے۔ اپنی شرائط کی موجودگی میں آئی ایم ایف ملکی معیشت کا ایک تین سالہ خاکہ بناتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والے وسائل کی کمی کا اندازہ لگاتا ہے، جس کو مالیاتی شگاف (Financing Gap) کہا جاتا ہے۔ اس کمی کو آئی ایم ایف اپنے اور اپنے ساتھی اداروں، یعنی عالمی بنک اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے ذریعے پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ ان بگڑے ہوئے معاشی حالات میں یہ مدد زرمبادلہ کی گرتی شکل کا بہرحال خاتمہ کردیتی ہے اور معیشت پر اعتبار قائم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جو بالآخر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرتا ہے اور ملک میں سرمایہ کاری کا عمل شروع ہونے کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے، جو ایسی نمو پیداوار کا باعث بنتا ہے جو قابل انحصار وسائل سے حاصل ہوتی ہے۔
اس پس منظر میں ہم موجودہ پروگرام کے ممکنہ خدوخال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔اس پروگرام کے بڑے اہداف میں چار عناصر شامل ہوں گے:
زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے پروگرام یہ شرط عائد کرے گا کہ: ’’اسٹیٹ بنک، مارکیٹ سے زرمبادلہ خریدے‘‘ جو اس کی قیمت پر اثر انداز ہوگا۔ امید کرنی چاہیے کہ بجٹ خسارے میں کمی، درآمدات میں مطلوبہ کمی فراہم کردے اور خریدنے کا عمل محدود رہے۔ پروگرام کی ایک شرط جس کا بڑا چرچا ہے وہ شرح تبادلہ کو آزاد چھوڑنے کا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ: ’’اسٹیٹ بنک پر یہ پابندی ہوگی کہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقصد کے لیے استعمال نہیں کرے گا، جس میں روپے کی آزادانہ حرکت پر اثر انداز ہوا جائے، ما سواے اس کے کہ کوئی غیرمعمولی واقعات ہورہے ہوں اور نظم کو بحال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ ایک معقول شرط ہے، جو معیشت کو نظم و ضبط سے چلانے کے لیے ضروری ہے۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس پروگرام کے فوری طور پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے جتنے ٹیکس لگانے کی ضرورت ہوگی ،وہ لوگوں کے لیے بڑی تکلیف کا باعث ہوگا۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب اس سال ایف بی آر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تمام مراعات اور چھوٹ جو حاصل ہیں اور خصوصاً وہ جو گذشتہ حکومت نے انفرادی ٹیکس گزاروں کو دی تھیں، واپس لینا پڑیں گی۔ موجودہ ٹیکس گزاروں کو اضافی ٹیکس کا سامنا ہوگا، مثلاً جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ دوسری جانب سواے ترقیاتی اخراجات کو کم کرنے کے، کسی اور خرچے کو کم کرنا آسان نہیں ہوگا، جب کہ آئی ایم ایف یہ تقاضا کررہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کو قائم رکھا جائے اور دیگر کو کاٹا جائے۔ ان میں سب سے بڑا حصہ ان مالی رعایتوں (سبسڈی) کا ہے، جو ریلوے ،بجلی، گیس، برآمدات وغیرہ پر دی جاری ہے، اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوگا۔ علاوہ ازیں حکومت کو بہت سے محکموں کو ختم کرنا پڑے گا۔ دفاتر کے دیگر اخراجات اور تزئین و آرایش کے خرچوں کو بھی مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ ان تمام اقدامات کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گے جس کو برداشت کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بنک سے قرضہ لینے پر پابندی اور موجودہ سطح کو تیزی سے کم کرنے کے لیے، بنکوں اور قومی بچت کے ذرائع سے قرضوں کے حصول کو بڑھانا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے شرح مارک اَپ میں اضافہ ناگزیر سمجھا جائے گا، جس سے قرضوں پر سود کی لاگت میں اضافہ ہوگا جو بجٹ کا خسارہ کم کرنے کی کوششوں کو مجروح کرے گا۔ اس میں آسانی صرف اس شکل میں آئے گی، جب آئی ایم ایف کا پروگرام بیرونی قرضوں کے راستے کھول دے، جو اضافی وسائل فراہم کرے گا اور یوں مقامی وسائل پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
مندرجہ بالا صورتِ حال ایک مخدوش و شکستہ معیشت کی عکاسی کررہی ہے۔ ماضی قریب میں جب بھی پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے گیا ہے، اس کو اس قدر بُرے معاشی حالات کا سامنا نہیں تھا۔’پائے رفتن، نہ جائے ماندن‘ کے مصداق پاکستان ایک گرداب میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کے لیے آسان راستے موجود نہیں ہیں ۔ نئے مشیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو ایک بڑی مشکل کا سامنا ہے۔ ہماری گزارش ہوگی کہ وہ وزیر اعظم کے سامنے اس مخدوش و شکستہ صورتِ حال کو بلاکم و کاست بیان کردیں اور یہ بھی بتا دیں کہ اس کی درستی صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم مشکل ترین اور تکلیف دہ فیصلے کرنے کے لیے تیا ر ہوجائیں۔ اس میں شارٹ کٹ کی کوئی گنجایش باقی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور انھیں پارلیمنٹ کا تعاون ناگزیر طور پر لینا ہوگا۔ کیونکہ پروگرام میں کیے جانے والے اقدامات سے عوام سخت متاثر ہوں گے۔ لہٰذا، حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر قومی اتفاق راے ممکن نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی کسی قدر تشویش کا باعث ہے کہ پروگرام کے حصول کے موقعے پر ماضی میں جو گرم جوشی کا سماں ہوتا تھا، وہ اس دفعہ مفقود تھا۔ اسی طرح مارکیٹ نے بھی اس کا استقبال کسی مثبت ردعمل سے نہیں کیا ہے۔ وہ بے یقینی جو اس پروگرام کے بعد ختم ہوجانی تھی وہ ابھی تک باقی ہے۔ اس میں بڑا کردار معلومات کی کمی ہے۔ مشیر خزانہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کو ایک مختصر انٹرویو دیا اور آئی ایم ایف نے واشنگٹن سے ایک پریس ریلیز جاری کی، جو عمومی معلومات کی حامل تھی اور اس میں پروگرام کی جملہ تفصیلات موجود نہیں تھیں۔ عموماً ایسے موقعوں پر پریس کانفرنس کی جاتی ہے، جو ضروری معلومات کی فراہمی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پروگرام سے متعلق معلومات جلد از جلد عوام تک پہنچائی جائیں تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہو۔
آخری بات یہ ہے کہ اس پروگرام کی موجودگی میں یہ توقع باندھی جارہی ہے کہ ہماری بگڑتی معاشی صورتِ حال سنبھل جائے گی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ دل جمعی سے ذمہ داریاں ادا کی جائیں۔ کیوں کہ پروگرام کے حصول سے زیادہ مشکل کام اس کو لے کر آگے چلنا ہے، جو تین سال کی طویل مدت پر محیط ہے، اور جس میں ہر سہ ماہی میں ایک جائزہ لیا جائے گا جس کو پاس کرنا ضروری ہوگا۔ کیا یہ حکومت اتنا بڑا کام مستقل مزاجی سے کرسکے گی؟
پاکستان کے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح سے منسوب قول: ’’میری جیب میں جو کھوٹے سکّے ہیں، ان کا کیا کروں؟‘‘پر علمی حلقوں میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انھوں نے یہ الفاظ اداکیے تھے یا نہیں؟ اور اگر ادا کیے تھے تو ان کا اشارہ کن کھوٹے سکّوں کی طرف تھا؟اس بحث سے قطع نظر کہ یہ بات تو غیر متنازعہ ہے، مگر اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ قائد کی وفات کے بعد پاکستان جس طرح اپنی منزل سے دُور ہوتاگیا، کم از کم اس طرزِعمل نے تو ان الفاظ کو سچ ثابت کردکھایا۔
مجھے عظیم قائد سے منسوب یہ الفاظ گذشتہ دنوں اس وقت بہت شدت سے یاد آئے، جب میں نے غیرمسلم اقلیتوں کے نام پر شراب کے گھناؤنے کاروبار کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی میں بل پیش کرتے ہوئے اپنی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ: مجھے کسی شخص کے ذاتی قول و فعل سے کوئی سروکار نہیں۔پاکستان میں شراب کے کاروبار پر پابندی عائد کرنے کے لیے میرا بل پیش کرنے کا واحدمقصد یہ تھا کہ اس غلیظ دھندے، کاروبار یا عمل کو کسی بھی مذہب سے منسلک نہ کیا جائے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کے لیے خدا کے احکامات پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے، تاکہ انسان خدا کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ایک مفید اور کارآمد شہری ثابت ہو، جب کہ شراب نوشی کرنے والا فرد، خدا کی نافرمانی کرکے معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ ایک پُرامن معاشرے کا دارومدار دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کا احترام کرنے میں ہے۔
میں نے دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور دلائل کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ اُم الخبائث شراب تمام مذاہب میں حرام ہے۔ لیکن یہاں پر نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںشراب کی خرید و فروخت غیرمسلموں کے نام پر کرنے کی اجازت ہے۔ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل۳۷-ح کے مطابق:’’مملکت :نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سواے اس کے کہ وہ غیرمسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کے لیے ہو، روک تھام کرے گی‘‘۔ ملک بھر میںشراب پر پابندی ہے، ماسواے غیرمسلموں کے، جو اپنے مذہبی تہواروں پر شراب استعمال کرسکتے ہیں۔
مجھ سمیت پاکستان بھر کے غیرمسلموں کو اس شق کی موجودگی پر شدید تحفظات ہیں۔ میرے اس موقف کی تصدیق مذہبی علما، پنڈت، پادری اور محقق حضرات سے بھی کرائی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے نمایاں بڑے غیر مسلم مذاہب بشمول ہندومت، سکھ مت، مسیحیت اور بدھ مت وغیرہ میں کسی مذہبی تہوار پر شراب استعمال نہیں کی جاتی، لیکن پاکستان میں سال کے ۳۶۵ دن شراب کی خرید و فروخت جاری رہتی ہے۔ پھر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں غیرمسلموں کی اتنی آبادی نہیں جتنی یہاں پر شراب کی کھپت ہے ۔
میری نظر میں ہر مذہبی تہوار اپنے اندر ایک مقدس روحانی پیغام سموئے ہوتا ہے اور اس موقعے پر خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے بجاے عذابِ الٰہی کو دعوت نہیں دی جاسکتی۔ خدا کے واضح احکامات کے باوجود شراب نوشی ہر دور میں اورہر جگہ کی جاتی ہے۔ اس لیے شراب پینے والے کو فقط ایک شرابی سمجھا جانا چاہیے کہ جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہوسکتا ہے۔ ان حقائق کی بناپر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں شراب نوشی کو اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب سے نتھی کرنا سراسر ناانصافی اورتوہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ دنیا کی وہ تمام قومیں تباہ و برباد ہوئیں، جنھوں نے خدا کے راستے سے بھٹک کر منافقت کا راستہ اختیار کیا۔ ان سارے عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے پاکستان سے مذہب کے نام پر شراب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ میری یہ جدوجہد کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ میں گذشتہ پانچ برسوں سے اس عظیم کاز (مقصد) کے لیے مصروفِ عمل ہوں۔ میں نے گذشتہ حکومت میں بھی اس سماجی ناسور کے خلاف بل پیش کیا تھا، مگر افسوس کہ اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ گذشتہ ۷۰برسوں پر پھیلی تاریخ میں ہر حکومت نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے دعویٰ ضرور کیے، لیکن عملی طور پر پاکستانی معاشرے کو اکثریت اور اقلیت کے مابین تقسیم کرکے مفادات کی سیاست کی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرقیادت پاکستان تحریک انصاف نے ’نئے پاکستان‘ میں مدینہ ماڈل اپنانے کا واضح اعلان کیا۔مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو حرام قرار دینے کا اعلان فرمایا تو اس موقعے پر بعض لوگوں نے پوچھا کہ: ’’ہم غیرمسلموںکوبطور تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟‘‘ مگر آپ نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا۔ پھر شراب کو ادویات کے استعمال کے حوالے سے فرمایا کہ: ’’نہیں، وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے‘‘ اور یوں شراب مدینہ منورہ کی گلیوں میں بہا دی گئی۔
پاکستان میںشراب کا گھناؤنا کاروبار ہم جیسے محب وطن غیرمسلم پاکستانیوں کی نیک نامی کا بھی معاملہ ہے۔ معاشرہ ہماری تمام قابلیت اور صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمیں شراب کے گھناؤنے کاروبار سے نتھی کرتا ہے۔ہمارے آس پاس ایسے بے شمارنامی گرامی لوگ پائے جاتے ہیں، جنھوں نے غریب غیرمسلم باشندے ملازم رکھے ہوئے ہیں اور ان کے نام پر شراب لے کر وہ خود پیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر انھیں شراب پینے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ اپنے نام پر خریدیں ، خدارا کسی مذہب کو بدنام نہ کریں۔
پارلیمان، عدلیہ اور میڈیا کے پلیٹ فارم پر اپنی پُرامن اور آئینی جدوجہد کو آگے بڑھانا میرا جمہوری اور شہری حق ہے۔ لیکن اس وقت مجھے نہایت دکھ ہوا جب قومی اسمبلی میں میرے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کی حمایت کرنے کے بجاے وہاں اراکین اسمبلی نے روڑے اٹکائے ۔ بالخصوص حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، ملک بھر میں بسنے والے محب وطن پاکستانیوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا باعث بنےہیں۔ یہ کتنی مضحکہ خیزصورتِ حال ہے کہ ہم غیرمسلم کہہ رہے ہیں کہ: ’’ہمیں شراب پینا منع ہے ۔ ہمارے نام پر شراب کا کاروبار اور شراب نوشی بند کی جائے‘‘۔ لیکن مسلمان وزیر کہہ رہا ہے کہ: ’’جس کوشراب پینی ہے وہ پیے‘‘۔میں سمجھتا ہوں کہ غیرمسلم اقلیتوں کے خلاف ایسا ناپسندیدہ طرزِعمل ہی امریکا اور عالمی برادری کو مذہبی آزادی کے حوالے سے بنیاد فراہم کرتا ہے کہ وہ ہمارے پیارے وطن کو بلیک لسٹ میں شامل کرے۔
میںقومی اسمبلی میں ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کے ارکان ، میڈیا کے دوستوں، معزز علماےکرام، مذہبی رہنماؤں، سول سوسائٹی سمیت ان تمام خواتین و حضرات کا شکرگزار ہوں، جنھوں نے میری اس عظیم جدوجہد کی حمایت کی۔خدا کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اس نیک نیتی پرمبنی میرے اقدام نے معاشرے کو جس مثبت انداز میں متحرک کیا ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت مثبت انداز سے ملک و قوم کی خدمت کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
میں جانتا ہوں کہ حق و سچائی کے راستے میں بے شمارمشکلات آتی ہیں ، اس لیے میں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر بل جمع کراتے ہوئے راے شماری کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ عوام جان سکیں کہ کون ریاست مدینہ ماڈل نافذکرنے میں سنجیدہ ہے اور کون اسے محض سیاسی نعرہ سمجھتا ہے؟ یہ ایک ایسا اہم ایشو ہے کہ اس پر ریفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے ۔ پاکستانی عوام عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بطور وزیراعظم پاکستان، پارلیمنٹ میں آنے والے غیرضروری بیانات کا بروقت نوٹس لیں گے، ورنہ ’نئے پاکستان‘ کے لیے تحریک انصاف کے بلندعزائم کو، ’کھوٹے سکّوں‘ کی موجودگی کی بنا پر سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ملک میں رائج قوانین کے مطابق واضح طور پر ’قادیانی گروپ‘ یا ’لاہوری گروپ‘ (جو اپنے کو ’احمدی‘ یا کوئی دوسرا نام دیتے ہوں) کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے کر ’غیرمسلم‘ کہا گیا ہے۔
دستور کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ شق (الف) اور (ب)
تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی دفعہ ۲۹۸ سی: قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کا کوئی شخص (جو خود کو قادیانی یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتا ہو)، بلاواسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہو، یا اپنے عقیدے کا بطورِ اسلام کے حوالہ دیتا ہو، یا موسوم کرتا ہو، یا دوسروں کو اپنا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دیتا ہو، الفاظ سے جو چاہے زبانی ہوں یا تحریری یا ظاہری حرکات سے یا کسی طریقے سے خواہ کچھ بھی ہو، مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے، اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی سزاے قید دی جائے گی، جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور سزاے جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر مزید قانون سازی ضروری تھی تاکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ کی شق (الف) پر مکمل عمل درآمد ہوسکے۔
1. قادیانی یا لاہوری جماعت کا کوئی فرد (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتے ہیں) جو زبانی یا تحریری الفاظ سے یا ظاہری بیان سے:
تو اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی ایسی مدت کی سزاے قید دی جائے گی، جو تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
2. قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کا کوئی شخص (جو خود کو قادیانی یا کسی دیگر نام سے موسوم کرتے ہیں) جو زبانی یا تحریری الفاظ سے یا ظاہری حرکات سے، اپنے عقیدے میں پیروی کردہ عبادت کے لیے بلانے کے لیے کسی طریقے یا شکل کو بطور اذان کے حوالہ دے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے دونوں اقسام میں سے کسی قسم کی سزاے قید دی جائے گی، جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔
ملکی دستور و قانون کو تسلیم کرنا پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ اہم عہدوں اور اداروں میں ان کا تقرر ہونا چاہیے، کہ جو ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرتے ہوں۔ مذکورہ بالا زمینی حقائق و تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قادیانی ملکی دستور اور قانون کا صریح انکار کرتے ہیں۔ وہ اپنے کو ’غیرمسلم‘ نہیں مانتے جو کہ دستور و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، لہٰذا، اہم عہدوں اور اہم پالیسی ساز اداروں میں ان کا تقرر دستور و قانون کے حوالے سے نہیں ہونا چاہیے۔ یہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے اور ہر محب ِ وطن پاکستانی اس کا پُرجوش حامی ہے۔
دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان (اختصار کی خاطر ’دستور‘ لکھا اور پڑھا جائے گا) کے حصہ دوم کے باب اوّل کا عنوان بنیادی حقوق (Fundamental Rights) ہے۔ دفعہ ۸ تا ۲۸ تک میں پاکستانی شہریوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ہیں وہ حقوق جو کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ دستور اور دستوری اداروں و نظام میں اقلیتوں کے حقوق درج ذیل ہیں:
یہ تمام حقوق عمومی طور پر تمام پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ان حقوق کی تنفیذ میں اگر کوئی رکاوٹ ہو یا اگر حکومت یا کسی کی طرف سے حقوق پامال ہو رہے ہوں تو دستور کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت پاکستان کے تمام ہائی کورٹوں اور دفعہ۱۸۴ کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا راستہ موجود ہے۔
پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۶۰ ذیلی دفعہ ۳ شق (ب) قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیتی ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے اہم قانون مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی میں واضح طور پر درج ہے کہ: قادیانی اپنے کو اگر ’مسلم‘ ظاہر کرے یا کہے گا تو یہ جرم ہے اور سزا کا مستوجب ہوگا، جب کہ دستور کی دفعہ۵ واضح طور پر ہرمسلم اور غیرمسلم پاکستانی شہری سے تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کے دستور و قانون کو غیرمشروط اور مکمل طور پر مانے اور اطاعت کرے۔
قادیانیوں کو عمومی طور پر مذکورہ بالا تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ان حقوق سے مستفیذ ہورہے ہیں۔ شکایت تو ہم اکثریتی مسلمان پاکستانیوں کو ہے کہ قادیانی اپنی دستوری اور قانونی حیثیت، یعنی ’غیرمسلم‘ ہونے کو قبول نہیں کر رہے، مگر دوسری طرف دستوری حقوق سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں، جب کہ دستور کے تقاضوں کے مطابق ’غیرمسلم‘ کی حیثیت اختیارکرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہرپاکستانی سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اپنے مقاصد کے لیے قادیانیوں کو استعمال کرتا ہے۔ اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے صرف ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ ۱۳نومبر ۲۰۱۷ء کو جنیوا میں Universal Periodic Review of Pakistan میں امریکی وفد کے سربراہ جیس برنسٹین نے مطالبہ کیا کہ:
Repeal blasphemy laws and restrictions and end their use against Ahmadi Muslims and others and grant the visit request of the UN Special Reporter the Promotion and Protection of the Right to Freedom of Opinion and Expression. (Ref:https://geneva.usmission.gov)
توہین رسالتؐ کے قوانین اور پابندیاں منسوخ کی جائیں اور ان کا احمدی مسلمانوں اور دیگر کے خلاف استعمال روکا جائے اور یواین اسپیشل رپورٹر کو آزادیِ اظہار کے قانون کے فروغ اور تحفظ کے لیے دورے کی اجازت دی جائے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پاکستان کے دستور میں درج قادیانیوں کی ’غیرمسلم‘ کی حیثیت سے انکار کی پشت پر امریکی حمایت اور مکمل پشت پناہی موجود ہے۔ امریکی وفد کے سربراہ کا صرف ’احمدی‘ کہنے کے بجاے ’احمدی مسلمان‘ کہنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔اس طرح کا پاکستان کے دستور سے متصادم مطالبہ کیا کوئی دوست ملک کرسکتا ہے؟ نیز جن قادیانی ’غیرمسلم‘ کے حق میں غیردستوری مطالبہ کیا گیا ہے وہ کیا پاکستان کے وفادار ہوسکتے ہیں؟
عام پاکستانی پوچھتا ہے کہ امریکا کے وفد کے سربراہ نے قادیانیوں کے علاوہ دیگر ’غیرمسلم‘ اقلیتوں کے لیے کیوں ایک لفظ بھی نہیں بولا؟ سپریم کورٹ کے سابق دو غیرمسلم چیف جسٹس کارنیلس اور بھگوان داس کے خلاف کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ اسی طرح تقریباً ہرحکومت کے دور میں وفاقی و صوبائی حکومتوں میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے وزیر ہوتے ہیں، مگر ان پر اعتراض نہیں کیا گیا، کیوںکہ وہ دستور کے تقاضوں کو قبول کرتے ہیں اور محب ِ وطن ہیں۔
اس لیے محب ِ وطن پاکستانی مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو اہم عہدوں اور اہم پالیسی ساز اداروں میں اس وقت تک نہ رکھا جائے جب تک وہ ملکی دستور و قانون کے تقاضوں کے مطابق اپنے کو’غیرمسلم‘ تسلیم نہ کرلیں۔
ہرقسم کی علمی، تحقیقی اور اخلاقی حدود یا اقدار سے ماورا، ہمارا سوشل میڈیا، جھوٹ اور مبالغے کا پرچارک یا ذریعہ بن چکا ہے۔اس ذریعے کو سیاسی جماعتیںاپنے مخالفین کی کردارکشی، دانش وَر حضرات نفرت بونے اور کنفیوژن پھیلانے، مذہبی عناصر فتوے دینے اور مذہبی اقلیتیں اپنے مفادات کی آڑ میں جھوٹے دعوے کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کر رہی ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر جھوٹ کا پلندہ بن چکا ہے۔ بلاشبہہ اس میں بعض اوقات نادر تحریریں اور مستند مواد بھی ملتا ہے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خدا جانے یہ صورتِ حال ہمیں کہاں لے جائے گی۔
اس کا ایک پہلو بہرحال بڑا تشویش ناک اور قابلِ توجہ ہے۔ وہ یہ کہ ہماری نوجوان نسل کتاب، مطالعے اور تحقیق سے رشتے منقطع کرکے صرف سوشل میڈیا پر تکیہ کیے بیٹھی ہے اور سوشل میڈیا ہی ان کی معلومات اور ذہنی تربیت کا واحد ذریعہ بن چکا ہے۔ جھوٹ، نفرت، علاقائی و مذہبی تعصبات اور فرقہ واریت کے پرچار کے لیے لکھی گئی تحریریں پڑھ پڑھ کر ہماری نوجوان نسلوں کی سوچ کنفیوژن کا شکار ہورہی ہے۔حال ہی میں مجھے ایک بلاگ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں پاکستانی مسلمانوں پر تبرا بھیج کر ایک مذہبی اقلیت کے دانش وَر نے پھر وہی دعویٰ دہرا ڈالا ہے، جس کی تردید کئی بار کی جاچکی ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ ہزار بار ان کے جھوٹ کی نفی کرے، لیکن یہ عجیب لوگ ہیں کہ وہ غلط بات کو بار بار دہراتے رہیں گے، تاکہ مطالعے سے عاری نوجوان ان کے جھانسے میں آجائیں اور ان کے نقطۂ نظر کو قبول کرکے قائداعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ اور قیامِ پاکستان کو انگریزوں کا تحفہ سمجھ لیں۔
لاعلمی قابلِ معافی ہے لیکن بدنیتی ایسا جرم ہے جس کی سزا دونوں جہانوں میں ملتی ہے۔ جب ایک ایسا شخص جو علم و فضل کی شہرت رکھنے اور مؤرخ ہونے کا دعویٰ بھی کرے، مگر دوسری طرف ببانگ دہل تاریخی حقائق کو مسخ کرے، تو اس کا رویہ لاعلمی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ نرم سے نرم الفاظ میں بھی خبث ِ باطن ہی کہلاتا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں کانگریسی پروپیگنڈے اور ہندو ذہنیت کے ’ہرکارے‘ یا ایسے افراد موجود ہیں، جو وقتاً فوقتاً پاکستان کی نظریاتی اساس میں بدگمانیوں کا زہر گھولتے رہتے ہیں اور قائداعظمؒ سے قیامِ پاکستان کے جرم کا انتقام لیتے رہتے ہیں۔ تحریک ِ پاکستان اور قائداعظمؒ کے حوالے سے نوجوان نسلوں میں بدظنی اور بدگمانیاں پھیلانے کے لیے پہلے جب یہ مہم عبدالولی خان نے شروع کی تھی تو اسی وقت پروفیسر وارث میر مرحوم نے مدلل جواب دے کر انھیں لاجواب اورکانگریسی ہرکاروں کا منہ بند کر دیا تھا۔
قراردادِ لاہور (پاکستان) کی عظمت کو ٹھیس لگانے کے لیے پہلے ان خان صاحب نے اور پھر ڈاکٹر مبارک علی صاحب نے ایک اخبار میں یکم اپریل ۲۰۱۷ء کو یہ دعویٰ کیا کہ: ’’وائسرائے لنلتھ گو نے قراردادِ لاہور سرظفراللہ خاں سے لکھوائی اور یہ مسوّدہ قائداعظمؒ کو دے دیا۔ جنھوں نے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کے اجلاس میں مسلم لیگ سے منظور کروا دی اور پھر قراردادِ پاکستان کا نام دے دیا گیا‘‘۔ حالیہ زمانے میں، پاکستان میں تاریخ کے نام پر اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی بولا گیا ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ قرارداد ِ پاکستان کا اصلی مسودہ کراچی یونی ورسٹی کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ پس منظر کے طور پر ذہن میں رہے کہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے ۲۱مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد ڈرافٹ کرنے کے لیے سرسکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل کمیٹی بنائی تھی۔ اس کمیٹی کے تیار کردہ ڈرافٹ پر سبجیکٹ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی صدارت میں ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو سات گھنٹے بحث کی۔ یہ ڈرافٹ اپنی اصل حالت میں مسلم لیگ آرکائیوز میں موجود ہے۔ مذکورہ سبجیکٹ کمیٹی میں علی محمد راشدی، محمدنعمان، ظہیرالدین فاروقی، مشتاق گورمانی، حسین امام، زیڈ ایچ لاری، رضوان اللہ، عبدالحمید خان، نواب آف چھتاری، عزیز احمد اور عاشق حسین بٹالوی وغیرہ نے ۱۴،۱۵ترامیم تجویز کیں۔ یہ تمام ترامیم صاف طور پر پڑھی دیکھی جاسکتی ہیں۔خودقائداعظمؒ کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ترمیم بھی قرارداد کے مسودے پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ڈرافٹ وائسرائے کی طرف سے آیا تھا تو یہ ترامیم کیا ہوا میں کی جارہی تھیں؟ یہ ساری تحریری کارروائی مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود ہے، جو ڈاکٹر مبارک اور ان کے مریدوں کے دعوئوں کو باطل ثابت کرتی ہے۔ اس طرح یہ بات بھی شواہد سے ثابت ہوتی ہے کہ قراردادِ لاہور کا سر چودھری ظفراللہ خاں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی مناسبت سے سکندرحیات نے ۱۱مارچ ۱۹۴۱ء کو پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ: ’’میری تیار کردہ،قراردادِ لاہور کے ڈرافٹ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں کر دی گئی تھیں کہ اس کی شکل ہی بدل گئی‘‘۔ سرسکندر حیات کا ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ وہ متحدہ ہندستان کی فیڈریشن کی بنیادپر مطالبے کے حق میں تھے، جب کہ کُل ہند مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی تقسیم ہند اور مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ سرسکندر کے لیے ایسی کسی تجویز سے اتفاق ممکن نہ تھا کہ جس پر وہ انگریز وائسرائے اور برطانوی حکومت کو ناراض کرتے۔
اسی طرح پروفیسر اِکرام نے اپنی کتاب Truth is Truth میں، قراراداد پاکستان پر ایک دم یلغار کرنے والے ردعمل کےحوالے سے وائسرائے اور برطانوی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی خط کتابت کے اقتباسات دیے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ برطانوی حکومت، مسلم لیگ سے کس قدر ناراض تھی اور قراردادِ لاہور کو کس طرح تختۂ مشق بنارہی تھی۔ اگر قرارداد لنلتھ گو نے بھجوائی تھی، تو پھر اس قدر غم و غصے کا کیا مطلب؟ یہ خطوط کئی جلدوں پر مشتمل مصدقہ کتاب ٹرانسفر آف پاور میں موجود ہیں۔ برطانوی حکومت نے ۲۳مارچ کا جلسہ ملتوی کروانے کے لیے جو کوششیں کیں، ان کے ثبوت بھی سیّد شریف الدین پیرزادہ [م:۲۰۱۷ء]کی کتب میں موجود ہیں۔
اب دیکھیےکہ خود چودھری ظفراللہ خاں،قراردادِ پاکستان سے اپنے کسی قسم کے تعلق کی نفی اور تردید کرتے ہیں۔ ۲۵دسمبر ۱۹۸۱ءکو ان کا ایک بیان دوسرے اخبارات کے علاوہ معروف انگریزی اخبار ڈان کے پہلے صفحے پر شائع ہوا، جس کے بعد اس بحث کا سلسلہ بند ہوجانا چاہیے تھا۔ سرظفراللہ خاں کا بیان ملاحظہ فرمایئے:
Sir Zafarullah has denied having ever presented a formula of dividing the sub-continent to the then Viceroy vehemently refuting (Wali Khan's assertions) he stated that he only gave opinion to the Viceroy, whenever asked to do so. It is unthinkable that his opinions were passed on the Quaid-e-Azam and he accepted without hesitation. It was unimaginable that a formula initiated on March12 was incorporated on March 23, 1940 during those days it took more than two weeks for a communication to reach India from England.
سر ظفراللہ نے اس سے انکار کیا کہ انھوں نے کبھی [برطانوی ہند کے]وائسرائے کو تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا تھا [ولی خان کے اصرار کو] مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا: میں نے وائسرائے کو صرف اپنی راے دی تھی۔ اور یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ ان کی راے کو قائداعظم تک پہنچایا گیا اور انھوں نے اسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تسلیم کرلیا۔ اسی طرح یہ بات بھی ناقابلِ یقین ہے کہ ۱۲مارچ کو سوچا جانے والا فارمولا ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو [لاہور کے اجلاس میں] پیش بھی کر دیا گیا ہو کہ ان دنوں برطانیہ سے انڈیا پہنچنے میں دو ہفتوں سے زیادہ دن لگتے تھے۔
ظفراللہ خاں نے یہ بھی واضح کیا کہ میں نے وائسرائے لنلتھ گو کے کہنے پر ایک اسکیم بنائی تھی، جس میں متحدہ ہندستان کے اندر فیڈریشن کا تصور دیا تھا۔
تحریکِ پاکستان اور قائداعظمؒ پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ان مصنّفین میں عالمی سطح کے برطانوی ، امریکی، فرانسیسی، سویڈش اور پاکستانی مؤرخین شامل ہیں۔ سب نے قائداعظمؒ کی عظمت کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ممتاز سوانح نگار والپرٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ تاریخ میں اتنا عظیم لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ عالمی سطح کے ان غیرملکی مؤرخین میں سے کسی ایک محقق کو بھی قراردادِ پاکستان سے ظفراللہ خاں کے تعلق کا اشارہ تک نہیں ملا۔ وہ افسانوی اشارہ کہ جو ولی خان کے ذریعے ڈاکٹر مبارک تک پہنچا ہے اور جس جھوٹے دعوے کو اُچک کر پرویز پروازی نے کتابی حوالہ بنادیا ۔ یاد رہے کہ پروازی صاحب کا مذہبی طور پر قادیانیت سے تعلق ہے، اور وہ قیامِ پاکستان کا کریڈٹ قادیانیوں کو عطا کرنے کی کوشش میں ظفراللہ خاں کو قراردادِ پاکستان کا مصنف قرار دے رہے ہیں۔
قائداعظم، دن رات محنت کر کے اور مسلم قوم کو متحد کرکے حصولِ پاکستان میں جب کامیاب ہوگئے تو وہ عرصہ ان کی بیماری میں شدت کا زمانہ تھا۔ تاہم، انھوں نے اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو حصولِ مقصد کے لیے پوری قوت سے جھونک دیا۔ بیماری بڑھ گئی تو ۷جولائی کو قائداعظمؒ آرام کے لیے دوبارہ کوئٹہ چلے گئے۔ جب علالت مزید شدت اختیار کرگئی تو قائداعظمؒ کو زیارت منتقل کردیا گیا۔ کرنل الٰہی بخش کے علاوہ ٹی بی کے ماہر ڈاکٹر ریاض علی شاہ بھی اس وقت قائداعظمؒ کا علاج کرنے والے بورڈ کے رکن تھے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں ایک چشم کشا اور ایمان افروز گفتگو لکھی ہے، جس کا ہرلفظ ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا اور قائداعظمؒ کے باطن کی جھلک دکھاتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض علی شاہ لکھتے ہیں:’’کوئٹہ میں قائداعظمؒ کی صحت بہتر ہوتی گئی تو ایک دن کرنل الٰہی بخش نے کہا کہ: ’’ہم دونوں کی انتہائی کوشش ہے کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہوجائے جتنی آج سے سات آٹھ سال پہلے تھی‘‘۔ قائداعظمؒ مسکرائے اور فرمایا: ’’چند سال قبل یقینا میری بھی یہ آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں۔ میں اس لیے زندگی کاطالب نہیں تھا کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی اور میں موت سے خوف زدہ تھا، بلکہ اس لیے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نےجس [کام] کے لیے مجھے مقرر کیا ہے میں اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ وہ کام پورا ہوگیا ہے۔ میں اپنا فرض ادا کرچکا ہوں۔ پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ قوم کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے۔ اسے ناقابلِ تسخیر اور ترقی یافتہ بنائے، حکومت کا نظم و نسق دیانت داری اور محنت سے چلائے۔ آٹھ برس تک مجھے قوم کے اعتماد و تعاون پر تنہا، مدمقابل عیار اور مضبوط دشمنوں سے لڑنا پڑا ہے۔ میں نے خدا کے بھروسے پر اپنے خون کا آخری قطرہ تک حصولِ پاکستان کے لیے صرف کر دیا ہے۔ مَیں تھک گیا ہوں۔ اب مجھے زندگی سے زیادہ دل چسپی نہیں۔بے شک اللہ کے دوست موت سے نہیں ڈرتے‘‘۔(ڈاکٹر ریاض علی شاہ کا مضمون، مطبوعہ ماہِ نو، کراچی ، ۱۹۴۸ء، بحوالہ قائداعظمؒ کے ۷۲سال از خواجہ رضی حیدر،ص ۳۲۰)
یہی لیڈر جب سفرِآخرت پرروانہ ہوتا ہے تو سرظفراللہ خاں اس کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے کے بجاے، لاتعلقی سے بیٹھے سارا منظر دیکھتے رہتے ہیں۔ اب انھی کو قراردادِ پاکستان کا خالق بنانے کے لیے ہمارے ترقی پسندی اور روشن خیالی کے دعوے دار دانش وروں اور مؤرخ ہونے کا دعویٰ رکھنے والوں کی بے چینی ایک بھونڈے لطیفے سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
پاکستان کے عام انتخابات ۲۰۱۸ء کے بعد نئی حکومت برسرِاقتدار آئی تو وزیراعظم نے ایک ماہر معاشیات عاطف میاں کو اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ فردِ مذکورہ کے بارے میں پہلے یہ کہا گیا کہ وہ پیدایشی قادیانی نہیں مگر اصل حقیقت یہ سامنے آئی کہ اس فرد نے اسلام ترک کرکے قادیانیت قبول کی ہے۔ بالفاظِ دیگر ارتداد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس تقرر پر شدید احتجاج ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے مثبت قدم اُٹھایا اور مذکورہ شخص کو ذمہ داری سے فارغ کردیا۔ اس فیصلے کے بعد وزیراعظم کی معاشی ٹیم کے دو مزید نام نہاد لبرل احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔
یہ فیصلہ سامنے آتے ہی سیکولر اور لبرل طبقات نے ایک طوفان برپا کردیا۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ’’کیا پاکستان میں اقلیتوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں؟ کیا ان کو بحیرۂ عرب میں غرق کردیا جائے گا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس مسئلے میں خلط مبحث یہ ہے کہ اقلیت کن لوگوں کو شمار کیا جائے گا؟ سکھ، عیسائی، ہندو، پارسی سب اقلیتیں ہیں، کیوںکہ وہ اپنے آپ کو غیرمسلم اور ہم لوگوں کو اپنے سے الگ مذہب کے پیروکار اور مسلمان سمجھتے ہیں، جو مبنی برحق ہے۔ اس کے برعکس قادیانی خود کو ’مسلم‘ اور ہم سب اہلِ ایمان کو ’غیرمسلم‘ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں انھیں کس پیمانے سے اقلیتوں کے وہ حقوق دیے جائیں،جو حقیقی اقلیتوں کو حاصل ہیں اور جن کی اسلام اور ہمارا دستور پوری طرح ضمانت دیتا ہے؟
قادیانی نہ صرف ختم نبوت کے منکر ہیں، بلکہ وہ قرآن وحدیث اور دستور پاکستان کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ کسی ملک میں رہنے والا کوئی شخص اس ملک کے دستور کو تسلیم نہ کرے تو ساری دنیا کے ہر ضابطے کے مطابق وہ اس ملک کا غدار قرار پاتا ہے۔ ایسے شخص کو اس ملک کے مناصب پر فائز کرنے کا پوری دنیا میں کیا کہیں کوئی تصور موجود ہے؟ قادیانی آج اعلان کردیں کہ وہ غیرمسلم ہیں، دستور پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں، مسلمانوں کی اکثریت کے معترف ہیں تو انھیں بالکل اسی طرح سب حقوق مل جائیں گے جو دیگر اقلیتوں کو حاصل ہیں۔ اگر اس کے باوجود ان کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ دینِ اسلام اور دستورپاکستان کی خلاف ورزی ہوگی۔
اس دوران ۶ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے قادیانیوں نے تاریخ میں پہلی بار ملک کے معروف قومی اخبار نوائے وقت میں ایک اشتہار شائع کرایا اور کمال عیاری کے ساتھ اوپر نشانِ حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر دی گئیں اور نیچے ان قادیانیوں کو بھی شہید کہا گیا جو مختلف جنگوں میں فوجی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کام آئے۔ اس پر بھی زبردست احتجاج ہوا تو اگلے دن مذکورہ اخبار نے ایک معذرت شائع کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ دھوکے سے یہ اشتہار دے دیا گیا ہے۔ اس حیلہ سازی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ آںحضورؐ کے دور میں بھی بعض جنگوں میں غیرمسلم افراد، صحابہؓ کے ساتھ مل کر کفار سے لڑے تھے اور مارے گئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: وہ شہید نہیں ہیں کیونکہ وہ محض عصبیت یا اپنے مادی مفادات کے لیے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ قادیانیوں نے بھی ایمان کے بغیر جنگوں میں حصہ لیا اور مارے گئے۔ ان کو مراعات اور تمغے تو دیے جاسکتے ہیں، آںحضوؐر کی واضح تعلیمات کی روشنی میں انھیں شہید نہیں کہا جاسکتا۔
عقیدۂ ختم نبوت ایمان کا بنیادی جز ہے۔ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اسلام سے خارج ہے۔ اس پر ساڑھے چودہ سو سال سے پوری امت کا متفقہ ایمان ہے، جس میں کبھی کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا اور نہ ان شاء اللہ قیامت تک پیدا ہوگا۔ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایاگیا ہے: مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا (احزاب۳۳:۴۰) ’’(لوگو) محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
حدیث پاک میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک انداز میں بیان فرمادیا کہ آپؐ آخری نبی اور رسول ہیں، آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول: قَالَ النَّبِیُّ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ۔ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ، وَاِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ (بخاری،کتاب المناقب باب ماذکرہ عن بنی اسرائیل) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاجاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا بلکہ خلفا ہوں گے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ-۱۵۰ھ) کے زمانے میں ایک آدمی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں‘‘۔ اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’جوشخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم، ابی حنیفہ لابن حنبل المکی، ج۱،ص۱۶۱)
مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اس کے لیے جانوں کے نذرانے بے دریغ پیش کیے، مگر کوئی مداہنت نہیں برتی۔ جھوٹے مدعیان نبوت میں سے طلیحہ بن خویلد اور سجاح بنت حارث نے اسلام قبول کیا ،جب کہ باقی تمام دشمنانِ اسلام بشمول الاسود العنسی، لقیط بن مالک (ذوالتاج)، سبھی کو ٹھکانے لگا دیا گیا اور پوری دنیا سے اس فتنے کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ البتہ تاریخ کے مختلف اَدوار میں یہ شیطانی فتنہ سراٹھاتا رہا۔ سب سے خطرناک فتنہ انگریز کا خودکاشتہ جھوٹا مدعی نبوت ملعون مرزا غلام احمد قادیانی ثابت ہوا۔ اس میں کوئی راز نہیں کہ وہ انگریزوں کا ایجنٹ تھا اور اپنی تحریروں میں انگریز سرکار کی تعریف میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کا پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ’جذبہ جہاد‘ کے تجزیے کے لیے برطانوی تھنک ٹینکس بیٹھے اور ’ہندستان میں برطانوی سلطنت کا وُرود ‘(The Arrival of British Empire in India) کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی گئی جو انڈیا آفس لائبریری (لندن) میں آج بھی موجود ہے اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
ملک (ہندستان) کی آبادی کی اکثریت اپنے پیرووں، یعنی روحانی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروی کرتی ہے۔ اگر اس مرحلے پر ہم ایک ایسا آدمی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو اس بات کے لیے تیار ہو کہ اپنے لیے ’ظلی نبی‘(Apostolic Prophet) ہونے کا اعلان کر دے تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے گرد جمع ہوجائے گی لیکن اس مقصد کو سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ ہم نے پہلے بھی اپنی قوم سے بے وفائی کرکے ہماری حمایت کرنے والوں ہی کی مدد سے ہندستانی حکومتوں کو محکوم بنایا۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہییں جن سے ملک میں داخلی بے چینی اور افتراق پیدا ہوسکے۔
اگرچہ اس موضوع پر بہت سے مستند حوالے موجود ہیں، مگر اختصار کے پیش نظر مندرجہ بالا اقتباس پر اکتفا کیا جارہا ہے، جو کافی وشافی ہے۔
۵۰کے عشرے میں جب ملک میں دستور سازی کے لیے جدوجہد جاری تھی کہ حکومتی اقدامات کی بناپر یکایک تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوگیا۔تحریک ختم نبوت نے جید علما کی سربراہی میں قادیانیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جیلوںمیں بھی رہے۔ سب سے زیادہ فیصلہ کن اور تاریخی کردار سیدمودودیؒ نے ادا کیا، جنھوں نے اپنی معرکہ آرا تحریر: قادیانی مسئلہ میں قادیانیوں کو علمی دلائل سے غیرمسلم ثابت کرکے بے دست وپا کردیا۔
اسی کتابچے پر مولانا مودودیؒ کو ۱۹۵۳ء میں مارشل لا عدالت نے سزاے موت سنائی۔ مولانا نے اس موقعے پر فرمایا تھا کہ ناموس رسالت پر جان قربان کرنا ایک سعادت ہے۔ انھوں نے رحم کی اپیل کی پیش کش نہ صرف خود ٹھکرائی بلکہ جماعت اسلامی کی قیادت اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی تنبیہہ کی کہ وہ ان کی طرف سے کوئی اپیل دائر نہ کریں۔ اس واقعے کے اکیس برس بعد ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے طلبہ کو چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے اسٹیشن پر قادیانی فتنہ پردازوں نے بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا۔ نہتے طلبہ کے ساتھ ہونے والے اس اندوہ ناک واقعے پر پورے ملک میں قادیانیت کے خلاف زبردست تحریک اٹھی۔ جس نے ۵۰کے عشرے اور اس سے پہلے کی تحریک ختم نبوت کی یاد تازہ کردی۔
۷۳ء کا دستور منظور ہوچکا تھا۔ تحریک سے پیدا شدہ صورتِ حال پر غور اور فیصلہ کرنے کے لیے پوری قومی اسمبلی نے بطور عدالت کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کے دوران قادیانی جماعت کے مرکزی لیڈر مرزا ناصر احمد کو سوال وجواب کے لیے پارلیمان میں بلایا گیا۔ کئی دنوں تک سوال وجواب ہوتے رہے۔ ایک سوال یہ پوچھا گیا کہ کیا تم لوگ ہمیں (تمام ارکان اسمبلی) کو مسلمان سمجھتے ہو یا غیرمسلم؟ مرزا ناصر نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم تم سب لوگوں کو غیرمسلم سمجھتے ہیں۔ یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ تب پاکستان کی پارلیمنٹ نے بالاتفاق ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو دوسری دستوری ترمیم منظور کی، جس کے مطابق مرزا غلام احمد کو ماننے والے قادیانی اور لاہوری غیرمسلم اقلیت قرار پائے۔
ترمیمِ دستور منظور ہونے کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پارلیمنٹ میں جو انتہائی مدلل خطاب کیا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا ہے، جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے، یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے۔ اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ مشکل فیصلہ، بلکہ میری ناچیز راے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا....اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کے نتائج سے بخوبی واقف ہوں۔ مجھے اس فیصلے کے سیاسی اور معاشی رد عمل اور اس کی پیچیدگیوں کا علم ہے۔یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پاکستان وہ ملک ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت چاہتے تھے۔ اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے نافذ کرنے میں اپنے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی نہیں کر رہا‘‘۔بلاشبہہ بھٹو صاحب کی قیادت میں یہ کارنامہ تاریخی اور یادگار اہمیت کا حامل ہے۔
اس ترمیم کی منظوری کے بعد بھی قادیانی اپنی ریشہ دوانیوں سے باز نہ آئے۔ وہ ہر شعبے میں اہم عہدوں پر فائز تھے۔ بعض معروف ومعلوم انداز میں اور بعض کیموفلاج کرکے۔ ۲۶؍اپریل۱۹۸۴ء کو ، جب کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کی وجہ سے ملک میں اسمبلی موجود نہیں تھی، اس لیے ایک صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے طے کیا گیا کہ مرزائیوں کو مسلمان کہلانے کا کوئی حق نہیں، ان کے عبادت خانوں کو مسجد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اذان اور دیگر شعائراسلامی کو استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ یہ حقیقت میں دستوری ترمیم ہی کی ایک وضاحت تھی، کوئی نیا قانون نہیں تھا۔ مگر افسوس کہ اس آرڈی ننس کے باوجودقرارِ واقعی قانون سازی اور عملی اقدامات نہ کیے گئے۔
مولانا مودودیؒ اسلامی نظام زندگی کےنفاذ کے نقیب اور داعی تھے۔ عصرِحاضر کے اسلامی اسکالروں،مفکرین اور علما میں مولانا مودودیؒ وہ منفرد شخصیت تھے، جنھوں نے اسلامی نظام حیات کے بارے میں ایک مربوط فکر پیش کی۔ اس فکری سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انھوں نے اگست ۱۹۴۱ء میں ایک تنظیم جماعت اسلامی کے نام سے تشکیل دی۔ ان کی فکر نے پاکستان اور پاکستان سے باہر عالم اسلام میں نشاتِ ثانیہ کی ایک لہر کو جنم دیا۔ دنیابھر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے اپنے معاشرے میں مختلف پلیٹ فارموں پر اور مختلف صورتوں میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان مولانا مودودی کے اوّلین مخاطب تھے۔اگست ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ مولانا مودودی نے اس جدوجہد میں قدم قدم پر پیش آنے والی مشکلات کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اس کش مکش میں وہ خود اور ان کی جماعت بار بار آزمایش کا شکار ہوتی رہی۔ اسی پاکستان کے قیام کے صرف چھ سال کے اندر ہی ۱۹۵۳ء میں ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کر دیا گیا، جس کی فوجی عدالت نے ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنادی (جو بعد میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کے باعث عمرقید میں تبدیل کی اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوئی)۔ مقتدر حلقےآزادی ملنے کے برسوں بعد بھی ملک کو ایک متفقہ آئین نہ دے سکے ۔ نو سال کی کش مکش کے بعد ۱۹۵۶ء میں ایک آئین منظور ہوا، لیکن صرف دو سال کے بعد اس آئین کو منسوخ کرکے پاکستان میں مکمل مارشل لا لگا کر تمام سیاست دانوں، ان کی سیاسی سرگرمیوں، اور جماعت اسلامی سمیت سب سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔
چارسال بعد مارشل لا حکومت نے ۱۹۶۲ء میں ایک نیا آئین دیا، جس میں اقتدار کی ساری طاقت فردِ واحد کے ہاتھ میں تھی۔مولانا اور ان کی جماعت نے فرد واحد کی آمریت اور اقتدار کے ارتکاز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی، جس کے باعث وہ حاکم وقت کے نزدیک پاکستان کی ناپسندیدہ ترین شخصیت قرار پائے(اس کی تصدیق چند سال پہلے شائع ہونے والی جنرل ایوب خان کی ڈائری سے ہوتی ہے)۔چند سال بعد جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۹ء میں ایوب خاں کو ہٹاکر مارشل لا لگایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی مارشل لا کے دوران دو سال کے اندر ملک کا ایک حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بن گیا۔ جولائی ۱۹۷۷ءمیں بھٹو حکومت کا خاتمہ ایک اور مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ اس کے بعد۲۰۰۸ء تک پاکستان کی۳۱ سال کی سیاسی تاریخ، مختلف سول اور فوجی حکومتوں کے اقتدار میں آنے اور رخصت ہونے سے عبارت ہے۔
ہمیںاپنی مرضی سےزندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [آزادی حاصل ہوئے] ایک طویل مدت گزر چکی ہے، مگر جہاںہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنےاور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابل ذکر کوشش نہ کرسکے۔
مولانا کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی کے بعد بھی، سامراجی نظامِ حکومت کا جوں کا توں قائم رہنا ہے:’’ہمارا انتظامی ڈھانچا اور اس کا مزاج وہی ہے۔ قانونی نظام وہی ہے۔ تعلیمی نظام وہی ہے۔معاشی نظام وہی ہے۔ اخلاق اور معاشرت کا حال وہی ہے۔مذہبی حالت وہی ہے۔ کسی چیز کی اصلاح وترقی کے لیے ہم کوئی قدم نہ اٹھا سکے، بلکہ قدم اٹھانے کے لیے اس کی سمت تک متعین نہ کر سکے‘‘۔
اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ: ’’فکرونظر کے اختلافات ،اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں ا ور ٹولیوں کے اختلافات ،علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور ابھرتےچلے آ رہے ہیں ۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے، دوسرا اس راہ میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا‘‘۔اس صورتِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نےتوجہ دلائی ہے: ’’تعمیررُکی ہوئی ہے،اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے، خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو‘‘۔
پاکستان میں قومی وحدت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور قوم میں اتحاد و اتفاق کے فروغ کے لیے مولانا نے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے قوم کے سامنے مختلف تجاویز رکھتے ہوئے اپنی قوم اور اس کے رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ:’’ہر حال میں صداقت و انصاف کا احترام کیا جائے‘‘۔ ’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘ کے فکروفلسفے کو ایک ابلیسی اور شیطانی اصول قرار دیتے ہوئے انھوں نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ کوئی بھی اپنے مخالف پر ہر طرح کے جھوٹے الزام لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے ،اور اس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تواسے غدار اور دشمن وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے ،اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصد زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیساہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں‘‘۔
ملک کے تمام طبقوں کو مخاطب کرکے مولانا مودودی نے اس اصول پر زور دیا تھا کہ: ’’اختلاف براے اختلاف سے اجتناب کرتے ہوئے ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے‘‘۔ انھیں اس بات پر بہت دُکھ تھا کہ: ’’یہاںزیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جا تاہےکہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کردی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں ،اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے‘‘۔ اس طرزِ عمل کے مضمرات واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’یہ روش خصوصیت کے ساتھ ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے، جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ مولانا مودودی کا استدلال تھا کہ: ’’اجتماعی طاقت سے ہی کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا ۔ لیکن اگر صورتِ حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسرے کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا‘‘۔
قوم میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے مولانا مودودی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی: ’’جبرو دھونس کے بجاے دلیل و ترغیب کا طریقہ اپنایا جائے‘‘ ۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ: ’’اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے ۔جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہے وہ جبر سے نہیں دلائل سے منوائے،اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب وتلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے‘‘۔ان کا موقف تھا کہ: ’’ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی، – کیوںکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے بات کو منوانے کے لیے طاقت کے استعمال کو انتہائی غلط قرار دیتے ہوئے یاد دلایا تھا: ’’دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی زبردستیوں نے بالا آخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہہ وبالاکر دیے ہیں اوران کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات اور انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے‘‘۔مولانا نے پاکستان کے بااثر لوگوں کو باور کرایا تھا: ’’اگر آپ واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو دھونس کے بجاے دلیل سے اور جبر کے بجاے تر غیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘‘۔
مو لانا مودودی نے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ: ’’ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ یادرہے کہ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کر دیتا ہےاور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کیے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں؟‘‘
سیاسی پارٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا محترم کا کہنا تھا کہ: ’’سیاسی پارٹیاں فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور اختلاف معقول اور شریفانہ طریقوں تک محدود رہے‘‘۔ مولانا نے ہر ایسی سیاسی پارٹی کو ’قزاقوں کی ٹولی‘ قرار دیا تھا، جو پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو سعی وجہد کا مرکز و محور بنا کر بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا ہ نہ کرے۔
مولانا مودودی نے واضح کیا تھا کہ: ’’اگر کوئی جابر طاقت زبردستی اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے، اور ان پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ حیات مسلط کردے تو وہ اسی مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کرلیں کہ جس طرح انگریزی تسلط واقع ہونے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا۔ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے ا س کو کامیابی سے چلایا بھی جا سکتا ہے، تو وہ یقینا سخت نادان ہے‘‘۔
’’ان میں سے پہلے تین طبقے مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر ایک فی ہزار کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کا انتظام اس بنیاد پر تعمیر ہو نہ سکے جسےکروڑوں آدمی چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر تعمیر ہو جسے چاہنے والے چند ہزار آدمیوں سے زیادہ نہیں‘‘۔
مولانا نے اسلامی نظام حیات کے مخالفین کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا: ’’ملک کی بھلائی ایسی ہی بنیادوں پر اس کا نظامِ زندگی تعمیر کرنے میں ہے، جن پر زیادہ سے زیادہ اتفاق ممکن ہو ۔اور یہ اتفاق بہرحال لا دینی پر یا قرآن بلا سنت پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ اپنے خیالات جو کچھ بھی ہیں رکھیں مگر مزاحمت چھوڑ دیں‘‘۔
مولانا نے غیرمسلموں کو یقین دلایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کا مذہب آپ پر مسلط نہیں کیا جائے گا، اور آپ کے مذہب اور تہذیب میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آپ کا پرسنل لا آپ کے لیے محفوظ رہے گا ،اورآپ کو زندگی کے ہر شعبے میں یہاں عملاً اس سے زیادہ حقوق حاصل ہوں گے، جو دنیا میں کہیں اقلیتوں کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
مولانا کو اس بات کا پوری طرح اِدراک تھا کہ: ’’جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو ،اخلاق کمزور ہو ں اور ایسے عناصر کا زور ہو جو ملک کے مجموعی مفاد کی نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی اورگروہی مفاد کو عزیز رکھتے ہو ں‘‘۔ لیکن جمہوریت کے حق میں مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’ان سب حقائق تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے‘‘۔ جمہوریت کے حق میں اپنی راےکی مزید تشریح کرتے ہوئے مولانا نے باور کرایا ہے: ’’جمہوری نظام ہی وہ ایک نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس کی اپنی بھلائی اور برائی ہے ۔یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور بیدا رکرتی ہے۔ اور اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ عام لوگ خود اپنے قومی اور ملکی معاملات کو چلانے کے ذمہ دار ہوں اور وہ تجربے سے سبق سیکھ سیکھ کر اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے چلے جائیں، یعنی ایک یا چند مرتبہ اگر ان کا انتخاب غلط ثابت ہواور اس کے نقصانات ان کے سامنے آجائیں تو کوئی دوسرا مداخلت کرکے اس کی اصلاح کرنے نہ آئے بلکہ وہ خود ہی ایک معروف ومسلّم ضابطے کے مطابق اس کی اصلاح کرتےرہیں‘‘۔ جمہوریت کے مقابلے میں دوسرے نظاموں (بادشاہی، ڈکٹیٹرشپ، اشرافیت) پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا:’’اس میں عوام الناس، حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں اور جب ان حالات کے ردوبدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصان عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔
مولانا مودودی نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی تھی جو یہ کہتے ہیں کہ: ’’یہاں [پاکستان میں] جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اوریہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس ملک کے باشندے اس کے اہل نہیں ہیں۔ یہ حضرات وقتاً فوقتاً اس کے لیے مختلف قسم کی متبادل صورتیں پیش کرتے رہتے ہیں‘‘۔ مولانا کا کہنا تھا: ’’وہ متبادل صورتیں جو جمہوری نظام کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے سے ہی قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی‘‘۔ آمریت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مولانا نے اس کے معکوس نتائج کو بڑ ی تفصیل سے واضح کیا تھا: ’’آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی سے قائم کی جائے ،اس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کر دیتا ہے، جو اس سے کبھی دُور نہیں ہو سکتیں اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی ۔وہ خوشامد پسند ہوتی ہے ۔وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے ۔وہ راے عامہ اور افکار اور نظریات سے غیر متاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردوبدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ سے ہوتا ہے، جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتےہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دروبست پر متصرف ہوتا ہے، اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔اس کا آغاز چاہے کیسی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجام کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بے زار ہوکراس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں، مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتےہیں یہ ان کو چُن چُن کر بند کر دیتی ہے،اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتاہے،جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزل خیر پر پہنچنے دیتے ہیں‘‘۔
مو لانا چاہتے تھے کہ: ’’پاکستان میں جمہوری نظام کے بارے میں ہمیں یکسو ہونا چاہیے‘‘ لیکن وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ: ’’ہم جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اختیار کریں اور اس میں آمریت کے لوازم اور خصائص کی آمیزش نہ کریں ،کیوں کہ اس کے بغیر جمہوریت صیحح طریقے سے کام نہیں کر سکتی اور نہ وہ نتائج دکھاسکتی ہے، جو اس سے مطلوب ہیں‘‘۔
پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے مولانا نے پانچ اصول پیش کیے:
۱- تقسیم اختیارات کا اصول، یعنی ریاست کے تینوں شعبوں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے دائرۂ اختیار کا واضح طور پر الگ ہونا۔
۲- شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی ضمانت اور عدلیہ کا ان کے تحفظ پر قادر ہونا۔
۳- انتخابات کی آزادی اور اس کی حفاظت کے لیے ایسی قانونی و انتظامی تدابیر، جن سے یہ اطمینان ہو سکے کہ انتخابات کے نتائج فی ا لحقیقت راے عام کے مطابق نکل سکیں گے۔
۴- قانون کی حکمرانی ،یعنی یہ امر کہ راعی اور رعایا کے لیے ایک ہی قانون ہو، اور سب اس کے پابند ہوں، اور عدالتوں کو یہ حق ہو کہ سب پر بے لاگ طریقے سے وہ اس کو نافذ کرسکیں۔
۵- ملازمین حکومت کا خواہ وہ سول سروس سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج سے، سیاست میں دخیل نہ ہونا اور اس ہیئت ِحاکمہ کی اطاعت قبول کرنا کہ جسے باشندوں کی اکثریت آئینی طریقے پر ملک کا اقتدار سونپ دے‘‘۔
جمہوریت میں آزادی کے ساتھ انتخاب کی آزادی پر مولانا نے بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک: ’’جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ لوگ اپنی آزاد مرضی سے جس کو چاہیں حکمرانی کے لیے منتخب کریں اور جب چاہیں اپنی آزاد مرضی سے ان کو تبدیل کر دیں۔ اگر دباؤ اور لالچ اور فریب اور حیلوں سے انتخابات کے نتائج اصلی راے عام کے بالکل برعکس برآمد کیے جاسکتے ہوں تو ایسی حالت میں لوگوں کو راے اور انتخاب کا حق دینا اور نہ دینا دونوں برابر ہیں۔
سیاست میں مقتدر اور محافظ حلقوں کی مداخلت کومولانا مودودی نےسخت ناپسند کرتے ہوئےاس عمل کو ایک بہت بڑی خیانت اور نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے لیے ایک خطرناک چیز قرار دیا تھا۔ انھوں نے حکومت کے کارپرداز اور محافظوں کو سچے دل سے جمہوریت کے اصول کو تسلیم کرنے کی یادہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’وہ اس بات کو مان لیں کہ ملک باشندوں کا ہے اور باشندوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سےجن لوگوں کو چاہیں اپنے ملک کا کارفرما بنائیں‘‘ ۔
مولانا مودودی کا نظریہ تھا کہ: ’’ہمارے ملک کو بہت سے درپیش مسائل کی طرف توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لوگوں کی اخلاقی و دینی حالت درست کرنی ہے ۔معاشی بدحالی کا علاج کرنا ہے۔ عام جہالت کو دُور کرنا ہے۔ نظام تعلیم کی اصلاح کرنی ہے اور ایسے ہی بہت سے مسائل ہیں‘‘۔ لیکن ان کے نزدیک سب سے مقدم بات یہ تھی کہ: ’’ہم اپنے نظام زندگی کی بنیادوں پر اتفاق کرلیں اور یہ اتفاق صحیح بنیادوں پر ہو‘‘۔مولانا مودودی کو یقین تھا کہ ہم سب اسی لائحہ عمل کے تحت اپنے مسائل کو حل کر نے کی طرف قدم بڑھاسکیں گے اور ایک مستحکم پاکستان تعمیر کر سکیں گے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دُنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت قائم کر کے جو کرشمہ کر دکھایا ان کے مخالفین ابھی تک اس صدمے سے نڈھال ہیں۔ کبھی وہ ابوالکلام آزاد کے اس قول کا سہارا لیتے ہیں کہ: ’’پاکستان صرف چند برسوں کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے‘‘، کبھی پاکستان کی بنیادوں پر کلہاڑی چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔معاندین قائداعظم کی ذاتی زندگی پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ ان پر ہندستان کی ’وحدت پر کلہاڑی چلانے‘ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کچھ عرصے سے انھیں ’سیکولر‘ ثابت کرنے کی ناکام سعی میں مصروف ہیں۔
۱- عمر میں ایک دفعہ آنے والا۔
۲- صدیوں رہنے والا دوامی جیسے ’چرچ‘ اور ’سٹیٹ‘ کے درمیان مخاصمت۔
۳- دُنیوی و دُنیاوی ، غیر مذہبی اور غیر دینی۔
۴- متشکک، دینی صداقت میں شک کرنے والا یا دینی تعلیم کا مخالف۔
۵- دُنیا دار پادری، متاہلِ پادری، گر ہست پادری۔
ان معنوں میں سے پہلے دو کا اطلاق تو کسی بھی صورت قائداعظم پر نہیں ہوسکتا۔یورپ میں چرچ اور سٹیٹ میں مغائرت کا جو تصور ہے وہ اسلام پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اسلام میں چرچ اور سٹیٹ کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یورپ میں اس تصور کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کُل زندگی کا صرف ۳۵ سالہ دور محفوظ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بطور نمونہ پیش کرسکیں، جب کہ احادیث کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایک ایسا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے۔ صبح سے شام تک زندگی گزارنے کا عمل، پیدایش سے موت تک کے سفر کے لیے ہدایات، ناخن کاٹنے، بیت الخلا جانے، غسل کرنے، کاروبار کرنے، اولاد کی پرورش، جنگ کرنے، صلح کرنے، معاہدہ کرنے، حکومت کرنے، گھر چلانے، غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ ملتی ہو اور جس پر آپؐ کی رہنمائی نظر نہ آتی ہو، لہٰذا اسلام میں چرچ اور سٹیٹ ایک ہی ہیں اور ان میں مخاصمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے معاندین اور دوست نُما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو انھیں نماز آتی ہے اور نہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’ستون‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے ۲۱جولائی ۱۹۴۱ء کو قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور [فیصل آباد] میں تقریرکرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں گناہ گار ہوسکتا ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں، جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتے۔{ FR 644 }
قائداعظم نے ۱۹۳۵ء میں عیدالفطر کی نماز بمبئی کی کرکٹ گرائونڈ میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر ہندستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔{ FR 645 } یکم مئی ۱۹۳۶ء کو قائداعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتیِ اعظم علّامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔{ FR 649 } ۳نومبر ۱۹۴۰ء کو آزاد میدان پارک بمبئی میں نمازِ عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔{ FR 646 }
۳مارچ ۱۹۴۱ء کو آسٹریلیشا مسجد، لاہور میں نمازِ عصر ادا کی تھی۔ اس موقعے پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب ِ تن کر رکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجاے پچھلی صف میں آبیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے تھے۔
۲۹دسمبر ۱۹۴۱ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر خطبے اور دُعا کے بعد لوگ آپ سے مصافحہ کے لیے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عیدمبارک کہہ کر نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: ’اگر آپ سب لوگ میرے ساتھ ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا‘۔{ FR 647 }
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس (۱۹۴۳ء) کے موقعے پر قائداعظم نے نمازِجمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی تھی۔{ FR 648 }
۳۰نومبر ۱۹۴۴ء کو نئی دہلی میں نمازِ عید ادا کی اور اس موقعے پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح ۵نومبر ۱۹۴۵ء کو نماز عیدالاضحی کے بعد مسلمانانِ بمبئی سے خطاب کیا تھا۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعے پر ممتاز حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں کی آباد کی ہوئی تھی ، نماز ادا کی۔ قائداعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: ’میں دیر سے آیا ہوں اس لیے مجھے جہاں جگہ ملی ہے وہی میرے لیے مناسب ہے‘۔{ FR 650 }
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، جس میں آپؐ نے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے آگے صف میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ زیڈ اے سلہری بھی اس موقعے پر قائداعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت ہے کہ قائداعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔
۱۲جولائی ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو ۱۳جنوری ۱۹۴۶ء کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے؟{ FR 672 }
سیکولر کا تیسرا معنی، یعنی دُنیوی، دُنیاوی، غیر مذہبی اور غیردینی۔ آیئے اس کو قائداعظم پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی ابتدائی زندگی پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاندین کے دعویٰ کے برعکس ایک مذہبی اور دینی ذہن رکھنے والے انسان تھے۔
بمبئی پریذیڈنسی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بمبے گزٹ نے اپنی ۱۳؍اگست ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں شہر کی مشہور و معروف سماجی تنظیم انجمن اسلام کے زیرِاہتمام ۱۲؍اگست ۱۸۹۷ء بروز جمعرات منعقدہ ایک محفلِ میلاد کی تفصیل دی ہے۔ انجمن اسلام کی عمارت میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت یہ جلسہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور اس میں ہرطبقے کے مسلمان مغل، عرب، میمن اور بوہرے شریک ہوئے تھے۔ نواب محسن الملک نے اپنی صدارتی تقریر میں اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کیے ان کا ذکر کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیاں احکامِ اسلام کے مطابق پرہیزگاری، تقویٰ و طہارت اور راست بازی سے بسر کریں۔ صدارتی تقریر سے قبل سامعین نے بھرپور توجہ اور دھیان سے مولود شریف سنا۔ اس مولود شریف میں ۲۱سالہ ’سیکولر‘ جناح بھی موجود تھے۔{ FR 651 }
تقریباً چار سال بعد انجمنِ اسلام نے ۳۰جون ۱۹۰۱ء بروز اتوار کو اپنے سکول کے ہال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منایا جس میں چار سو کے قریب مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ مرزا علی محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا بھرپور احاطہ کیا اور آپؐ کے کردار کی سادگی، عالی حوصلگی، عالی ظرفی، شرافت و نجابت کا ذکر کیا۔ اس تقریب میں بھی ’سیکولر‘جناح موجود تھا۔{ FR 668 }
۳۲سال بعد ۷دسمبر ۱۹۳۳ء بروز بدھ لندن کے میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیرِ صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم)، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ شرکا میں محمدعلی جناح کا نام نمایاں تھا۔{ FR 669 }
تقریباً ۱۴سال بعد ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طبقہ دانستہ طور پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق زندگی پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج سے ۱۳سوسال پہلے ہوتا تھا۔ جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں، میں انھیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے ہرشخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:’’ آج ہم اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپؐ ایک عظم مدبّر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسوم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے، بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘۔{ FR 671 }
گویا ایک شخص ۲۱سال کی عمر سے لے کر ۷۲سال کی عمر تک مذہبی مجالس میں شرکت کرتا رہا، عام مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا اور مختلف خطابات میں آں حضوؐر کو خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا، لیکن اس کے باوجود اس پر سیکولرہونے کا الزام ہے۔
یہ بات بھی کیسی عجیب لگتی ہے کہ ۱۹۱۲ء میں اسی سیکولر جناح نے بحیثیت ِ رکن امپریل قانون ساز کونسل میں اسلامی قانون وقف علی الاولاد کا مسودہ پیش کیا اور اسے قانونی حیثیت دلوائی۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہندستان کی آئینی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کونسل نے ایک پرائیویٹ ممبر (Private Member) کے بل کو قانونی شکل دی تھی۔{ FR 670 }
قائداعظم کو’سیکولر‘ بنانے کے لیے ان کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قائداعظم نے شاید اپنی تمام سیاسی زندگی میں صرف ۱۱؍اگست کو ہی تقریر کی تھی، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ آیئے اس تقریر کا جائزہ لیتے ہیں:
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کر دی جائے کہ قائداعظم کی تقاریر کے مندرجہ ذیل مجموعے اب تک شائع ہوچکے ہیں: lمحمدعمر کی مرتبہ: Rare Speeches ، ۱۹۱۰ء تا ۱۹۱۸ء(مطبوعہ صفحات:۲۵۱)، lجمیل الدین احمد مرحوم کی مرتبہ: Speeches and Writings of Mr. Jinnah (شیخ محمد اشرف، لاہور، ۲جلدیں)، lڈاکٹر وحید احمد کی مرتب کردہ: The Nation's Voice (چھے جلدیں)، l ڈاکٹر ایم رفیق افضل کی مرتبہ: Speeches in the Legislative Assembly (مطبوعہ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، صفحات:۳۸۸)، lڈاکٹر ایم رفیق افضل ہی کی Selected Speeches and Statements of the Quaid-i-Azam ، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، مئی ۱۹۷۳ء، صفحات: ۴۷۵، قائداعظم کی تقاریر بحیثیت گورنر جنرل ۱۹۴۷ء تا ۱۹۴۸ء، lگفتارِ قائداعظم، ۱۹۱۱ء تا ۱۹۴۷ء، مرتبہ احمد سعید۔
تقاریر کے یہ مجموعے ثابت کرتے ہیں کہ قائداعظم نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کے علاوہ بھی تقاریر کی تھیں۔ قائداعظم کی پبلک زندگی کی آخری تقریب سٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب تھی جس میں آپ نے معاشی ماہرین پر زور دیا تھا کہ چوں کہ سرمایہ داری نظام اور سوشلسٹ نظام انسانی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ دُنیا کے سامنے اسلامی نظام کی خصوصیات لے کر آئیں۔
۱۱؍اگست کی تقریر کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کا دُور کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ۲۰۰۵ء میں اے آر وائی ٹیلی ویژن پر ایک مؤرخ نما دانش ور نے ایک مضحکہ خیز دعویٰ یہ کیا ہے کہ ’حکومت نے قائداعظم کی اس تقریر پر پابندی لگا دی تھی‘۔ اور یہی غیرمنطقی بات ضمیر نیازی نے بھی لکھی۔
سوال یہ ہے کہ آیا یہ پابندی حکومت ِ پاکستان نے عائد کی تھی یا جواہر لال نہرو کی حکومت ِ ہند نے یا پھر برطانوی حکومت نے؟ ۱۱؍اگست کو حکومت ِ پاکستان تو ابھی معرضِ وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔ ابھی تک حکومت انگریز کی تھی۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان بننے سے تین دن پہلے ہی مسلم لیگ کاروبارِ حکومت و ریاست پر کنٹرول حاصل کرلے؟ اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر وہ کس طرح یہ پابندی عائد کرسکتی تھی۔ دوسرا یہ کہ پنڈت نہرو کی حکومت کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی کے معاملے کو اُچھالتی لیکن مسئلہ یہاں بھی یہی ہے کہ پنڈت جی نے ۱۴؍اگست کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ رہی برطانوی حکومت تو اس کا بھی مفاد اسی میں تھا کہ وہ اس تقریر پر پابندی لگانے کے بجاے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی، مگر اس کے بھی کوئی مظاہر سامنے نہیں آتے۔
قائداعظم کی ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو اس کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اس کے اصل مفہوم کو سمجھنا ایک لاحاصل امر ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں اقلیتوں کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ کوئی اَنہونی یا نئی بات نہیں تھی۔ قائداعظم کی تقاریر میں آپ کو جابجا اقلیتوں کے حوالے سے یہی کچھ نظر آتا ہے، مثلاً ۱۰نومبر ۱۹۴۶ء کو بنگال کے فرقہ وارانہ فسادات پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے آپ نے ہندو اور مسلمانوں دونوں سے اس قتل و غارت کو بند کرنے کی اپیل کی۔{ FR 653 }
۲۶مارچ ۱۹۴۶ء کو قائداعظم نے گوہاٹی میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتےہوئے یقین دلایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا پورا تحفظ کیا جائے گا اور انھیں تمام جائز مراعات حاصل ہوں گی۔ اس کے متعلق کسی قسم کے خوف یا بدگمانی کی ضرورت نہیں۔ وہ پاکستان کے ایسے ہی آزاد شہری ہوں گے جیسے کسی اور مہذب ملک کے ہوسکتے ہیں‘‘۔{ FR 654 }
یکم جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان اچھوت فیڈریشن کے صدر اور لاہور میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر سکھ لال نے قائداعظم سے دہلی میں ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ایک بیان میں انھوں نے اس ملاقات کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ’’قائداعظم نے مہربانی سے پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دُور کردیا ہے اور مسٹر جناح نے یہاں تک کہا ہے کہ ہم رنگ و نسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر بھائیوں کی طرح رہیں گے‘‘۔{ FR 656 }
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کو یقین دلایا کہ’’ ان کے مذہب، ثقافت، جان اور جایداد کی حفاظت کی جائے گی اور وہ پاکستان کے مکمل شہری ہوں گے اور اس سلسلے میں کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔{ FR 655 }
۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی پریس کانفرنس کے بعد آئین ساز اسمبلی کی ۱۱؍اگست کی تقریر ایک تسلسل ہے اور اس پس منظر میں کی گئی ہے کہ نہ صرف مشرقی پنجاب بلکہ دہلی، یوپی اور ہندستان کے دیگر صوبوں میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر تھے جس کا ردعمل مغربی پنجاب میں بھی ظاہر ہوا۔ اب ایک طرف تو انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور دوسری جانب ہندو اور سکھ صنعت کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر ہندستان منتقل ہورہے ہیں اور یوں پاکستان کو دہری ضرب لگ رہی ہے۔ اس آگ و خون کے پس منظر میں قائداقلیتوں کو یقین دلا رہے ہیں نہ کہ وہ اپنے ’سیکولر‘ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں ہم اس دور کے چند اخبارات کے تراشے پیش کرتے ہیں:
آل انڈیا مسلم لیگ کا ترجمان ڈان ابھی دہلی سے شائع ہورہا تھا۔ قائدکی یہ تقریر ۱۲؍اگست کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ ڈان نے اس تقریر کی جو سرخیاں جمائیں وہ ملاحظہ فرمایئے: Jinnah Assures Minorities of Full Citizenship and asks for Co-operation
ایک سابق کانگریسی اور اشتراکی خیالات کے طرف دار لیڈر میاں افتخار الدین کے اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنی ۱۳؍اگست کی اشاعت میں قائداعظم کی مذکورہ تقریر کا مکمل متن جس پر درج ذیل سرخیاں لگائی گئی تھیں، شائع کیا۔ اگر یہ تقریر قائد کے پرانے خیالات سے براءت اور سیکولرازم کی قبولیت کا اظہار ہوتی تو کم از کم میاں افتخار الدین کا اخبار اس طرف تھوڑا بہت اشارہ ضرور کرتا۔ اخبار پاکستان ٹائمز کی سرخیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ تقریر اقلیتوں کو یقین دہانیوں کا چارٹر ہے نہ کہ اپنے سیکولر ہونے کا اعلان۔ تین سرخیاں ملاحظہ ہوں:
- Jinnah calls to concentrate on Mass welfare.
- Hope for End of Hindu-Muslim distinction in Politics.
- Equal rights for all citizens in Pakistan State.
قائداعظم کے متعلق برطانوی سیاست دانوں اور اخبارات کا معاندانہ رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لارڈ لنلتھگو (Linlithgow) کی سوانح، پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری اور مائونٹ بیٹن کی سوانح اور انٹرویو کا ایک ایک لفظ قائد کے خلاف زہر اُگلتا نظر آتا ہے۔ برطانوی پریس کے معاندانہ رویے کے جائزے کے لیے ڈاکٹر کے کے عزیز کی کتاب Britain, India and Pakistan کا مطالعہ کافی ہوگا۔ اب اگر قائداعظم اپنی اس تقریر کو سیکولرازم کی قبولیت کا ذریعہ بنا رہے ہیں تو کم از کم لندن کے اخبار ٹائمز کے پاس سنہری موقع تھا کہ وہ قائداعظم کے کردار کی منافقت کو ظاہر کرتا۔ ٹائمز کے ۱۳؍اگست کے شمارے میں ص۶ پر یہ تقریر اس سرخی کے ساتھ شائع ہوئی تھی: A Call for Tolerance۔یاد رہے کہ اخبار نے یہ تقریر کراچی میں اپنے خاص نمایندے کے حوالے سے شائع کی تھی۔
۱۹۴۹ء میں ایس اے آر بلگرامی نے کراچی سے ایک کتاب Pakistan Yearbook شائع کی تھی، جس میں قائداعظم کی مذکورہ بالا تقریر ص ۸ تا ۱۵ پر موجود ہے۔ اس تقریر پر یہ سرخی جمائی گئی ہے: Jinnah's Charter of Minorities Announced
اقلیتوں ہی کے حوالے سے ایک اور نہایت اہم واقعہ اس تقریر کے ٹھیک تین دن بعد پیش آتا ہے، جو ہمارے اس دعوے کو مزید تقویت بخشتا ہے کہ قائد ہرگز ہرگز اپنے گذشتہ عقائد و نظریات سے دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن نے انتقالِ اقتدار کے وقت اپنی تقریر میں یہ اُمید ظاہر کی کہ: ’پاکستان میں اقلیتوں کے سلسلے میں اکبر بادشاہ کی تقلید کی جائے گی‘۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ:
اکبر بادشاہ کی وہ رواداری اور نوازش جو اس نے اپنی غیرمسلم رعایا پر کی، کوئی حالیہ اختراع نہیں بلکہ تیرہ سو سال قبل ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہ صرف لفظی بلکہ عملی طور پر عالی ظرفی اور فیاضی کا سلوک کیا تھا۔ آپؐ نے ان سے حددرجہ رواداری کا برتائو کیا اور ان کے مذہب اور عقائد کا احترام کیا۔ مسلمانوں کی تمام تاریخ جہاں جہاں انھوں نے حکمرانی کی، ایسے ہی تہذیب و شائستگی سکھانے والے عظیم اصولوں سے بھری ہوئی ہے جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔{ FR 662 }
قائداعظم کے سیکولر ہونے والے معاملے کا ایک اور دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اگر وہ سیکولر تھے تو ان کی قائم ہونے والی ریاست بھی سیکولر ہونی چاہیے۔ اس بارے میں خود قائداعظم کا کیا موقف تھا؟ سنیے: ۱۳جولائی ۱۹۴۷ء کو دہلی میں آخری پریس کانفرنس کے دوران آپ نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے مذہب، عقیدہ، زندگیوں، جایدادوں اور ثقافت کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور وہ تمام معاملات میں پاکستان کے مکمل شہری تصور ہوں گے۔
پریس کانفرنس میں ایک اخباری نمایندے نے سوال کیا کہ:’کیا پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی (Theocratic)؟‘ قائداعظم نے اس پر کہا کہ: ’آپ جو سوال پوچھ رہے ہیں وہ بے معنی اور فضول(absurd) ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ تھیوکریٹک سٹیٹ کا کیا معنی ہے۔ ایک اخباری نمایندے نے کہا کہ: ’تھیوکریٹک سٹیٹ کا مطلب ہے کہ وہ ریاست جہاں مسلمانوں کو تو مکمل شہریت حاصل ہو، جب کہ غیرمسلموں کو یہ حیثیت حاصل نہ ہو‘۔ قائداعظم نے کہا کہ: ’اس کا مطلب ہے کہ اس سے پہلے میں نے جو کچھ کہا وہ بطخ کی پشت پر پانی ڈالنے کے مترادف ہوا۔ خدا کے لیے اپنے ذہنوں سے اس بکواس (nonsense) کو نکال دو‘۔ ایک اور نمایندے نے گرہ لگائی کہ: ’شاید سوال پوچھنے والے کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی ریاست، جسے مولانا حضرات چلائیں گے‘۔ اس پر جب قائداعظم نے کہا کہ: ’ہندستان میں پنڈتوں کی حکومت کے متعلق کیا خیال ہے؟‘ تو سب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔{ FR 673 }
تاریخ کے فیصلے بھی دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک فرد ملک کا غدار ہوتا ہے مگر دوسرے کا ہیرو، اور ایک قوم کا دشمن تو دوسری قوم کی آنکھوں کا تارا قرار دیا جاتا ہے۔ جدوجہد انسانی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن جب سے قومی ریاست کے تصور نے انسانی سوچ پر غلبہ پایا ہے، اس جدوجہد کا رُخ زیادہ تر قومیت کے تصور کی جانب ہوگیا ہے، اور ’قوم پرست‘ کی اصطلاح میڈیا میں استعمال ہونے لگی ہے۔
پاکستان میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف صاحب کی سیاسی منصوبہ سازی اور فیصلو ں پر ممکن ہے کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق، لیکن سچی بات ہے کہ تحریک ِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور تعمیر پاکستان کے حوالے سے ان کے بعض بیانات میں معلومات کا ادھورا پن، سخت تکلیف کا سبب بنتا ہے، اور وہ بھی اس صورت میں،جب کہ وہ ایک طرح سے مسلم لیگ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی جانب سے یہ کہنا کہ: ’’مجیب محب ِ وطن تھا، اسے باغی بنا دیا گیا… اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں‘‘۔ سچی بات ہے کہ یہ بیان نہ صرف حقائق کے منافی ہے، بلکہ باعث ِ اذیت بھی۔ اس ضمن میں یہاں کسی علمی، تحقیقی اور تجزیاتی بحث کے بجاے صرف ایک حوالے سے گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
جب یہ کہا جائے کہ: ’شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان توڑنے کی تحریک کا سربراہ تھا اور وہ طویل عرصے سے ہندستان کی مدد سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا تھا‘، تو اس کے جواب میں ایک افلاطونی گروہ مشرقی پاکستان کی محرومیوں یا بے انصافیوں کا رقّت آمیز انداز میں ذکر کرکے پورے مسئلے کو گڈمڈ کردیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مجیب نے تحریک ِ پاکستان میں کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور پھر صدارتی انتخابات میں فیلڈمارشل صدر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ بھارت سے رابطے میں تھا اور ’آزاد بنگلہ دیش‘ ہی اس کی منزل تھی۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے تمام صوبے یا اکائیاں، تمام قصبے، گائوں اور شہر ایک جیسے خوش حال ہیں لیکن اس عدم توازن سے کبھی ملک توڑنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ محب ِ وطن قائدین، اتحاد کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی اکائی یا صوبے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور کبھی دشمن قوتوں کو ساتھ ملاکر ملک توڑنے کی سازش نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے بڑے اور اہم لیڈران کرام میں خواجہ ناظم الدین، اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، نورالامین، ڈاکٹر ایم اے مالک، فضل القادر چودھری، مولوی تمیزالدین، پروفیسر غلام اعظم، مولوی فریداحمد اور عبدالحمید خاں بھاشانی وغیرہ شامل تھے۔ بھاشانی صاحب سوشلزم کے پرچارک تھے اور فضل الحق نے مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کلکتہ کے دورے کے دوران، متحدہ بنگال کا مطالبہ کردیا تھا، جو مشرقی پاکستان میں گورنر راج کا باعث بنا۔ ان دو حضرات کے علاوہ تمام لیڈر حضرات متحدہ پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہ کر بنگالیوں کے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتے تھے اور نہایت محب وطن تھے۔
فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور سا ز اسمبلی نے اُردو کو قومی زبان قرار دیا، تو قومی سوچ کے حامل بنگالی لیڈروں نے بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے سیاسی، آئینی جدوجہد جاری رکھی اور نتیجے کے طور پر مئی ۱۹۵۴ء میں بنگلہ کو بھی دستور ساز اسمبلی نے قومی زبان قرار دیا، اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں اُردو اور بنگلہ قومی زبانیں قرار پائیں۔ پھر جغرافیائی مجبوری کو سمجھتے ہوئے انھی بنگالی لیڈروں نے ۱۹۵۶ء کی دستور سازی میں اہم کردار سرانجام دیا اور دونوں صوبوں کے درمیان آباد ی کے فرق کے بجاے برابری (پیرٹی) کے اصول کو تسلیم کیا۔ اگر اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا نہ لگتا تو ۱۹۵۶ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک جمہوری، اسلامی اور فلاحی ریاست کی حیثیت سے اُبھرتا۔
مطلب یہ کہ ایک طرف وہ بنگالی قیادت تھی، جو پاکستان کی سالمیت، اتحاد اور استحکام میں یقین رکھتی تھی اور دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن بھی قومی سیاست میں متحرک تھا۔ مشرقی پاکستان کی کابینہ میں وزیر بھی رہا، لیکن باطنی طور پر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کا حامی تھا۔ مجھے اپنے ان احباب کے فہم پر حیرت ہوتی ہے جو مجیب الرحمٰن پر حُب الوطنی کا ’الزام‘ لگاتے ہیں۔ حالانکہ خود مجیب الرحمٰن نے ببانگ دہل جنوری ۱۹۷۲ء میں برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کوٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ: ’’میں تو ۱۹۴۸ء سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ کیا ان ’دانش ور‘ حضرات کی بے جا سینہ کوبی اور سرٹیفکیٹ کے اجرا کے برعکس مجیب الرحمٰن کا اعترافی بیان زیادہ بھاری اور مقدم نہیں ہے؟
سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے اعلان کے مطابق ۱۹۴۸ء سے کیوں بنگلہ دیش کا خواب دیکھ رہا تھا؟ پس منظر کے طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘۔ اس فیصلے کی بنگالی ارکان اسمبلی کی ایک تعداد نے حمایت کی تھی، اور بالخصوص بنگال سے کانگریس کے ارکان اسمبلی نے مجموعی طور پر مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر پھیلا کر ہنگامے کیے گئے۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں قائداعظم نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور اپنی تقاریر میں واضح کیا کہ آپ اپنے صوبے کی حد تک بنگلہ کو سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم بنا لیں، لیکن قومی رابطے کی زبان اُردو ہوگی، جسے پورے ملک میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔تاہم، بنگلہ آبادی کی اکثریت کے احساس کو شیخ مجیب جیسے شورش پسند لوگوں نے احتجاج اور انارکی کی راہ پر ڈالنے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ مجیب کے ذہن میں علیحدگی کے جراثیم اسی وقت سے پرورش پانے لگے تھے۔ اسی لیے اس نے ڈیوڈفراسٹ کے سامنے سچ بولتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ میں ۱۹۴۸ء سے علیحدگی کے لیے کام کرتا رہوں۔
اسی طرح شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے بھی چند برس قبل اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جب وہ اپنے والد کے ساتھ لندن کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی تو وہاں ہندستانی ’را‘ کے افسران آیا کرتے تھے، جن سے مل کر بنگلہ دیش کے قیام کے لیے منصوبہ سازی ہوتی تھی۔ کیا دشمن ملک کے ساتھ سازباز کرکے اپنا ملک توڑنا حب الوطنی ہے؟ جب مجیب نے دعویٰ کیا ہے کہ مَیں تو۱۹۴۸ء سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا، تو یہاں پر بتایا جانا چاہیے کہ اس وقت مشرقی پاکستان سے کون سی زیادتیاں ہوئی تھیں، جنھوں نے اسے صرف ایک سال کے اندر اندر یہ جواز مہیا کیا تھا؟ ناانصافی کا جواز ہو بھی تو حب الوطنی کا تقاضا ملکی اتحاد کے اندر رہ کر سیاسی جدوجہد کرنا ہوتا ہے نہ کہ ملک توڑنا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کے عزائم، ’را‘ سے تعلقات، ہندستانی حمایت اور یلغار پر کئی کتابیں ہندستان، انگلستان اور دوسرے ممالک میں چھپ چکی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندستان کی مالی، سیاسی اور فوجی مدد کے بغیر مجیب الرحمٰن کبھی بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔ یہ موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
سوانح عمری کے انداز میں لکھی گئی وہ کتاب کہ جسے چشم دید گواہ نے بیان کیا ہو، تاریخ کا حصہ تصور ہوتی ہے، بشرطیکہ گواہ قابلِ اعتماد ہو۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لکھنے اور بولنے والے حضرات و خواتین،تحقیق اور انصاف کے بجاے جذباتی اور غصیلے انداز سے فتویٰ جاری کردیتے ہیں اور تجزیے کے بجاے مخالفین کی القابات سے تواضع کرتے ہیں جس سے تاریخی مقدمات کا صحیح پس منظر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔فی الحال اس سلسلے کی ایک اہم کتاب کا حوالہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ اس میں ایک چشم دید بلکہ اس سازش میں شامل ایک اہم کردار کے اعترافات شامل ہیں۔ یہ کتاب ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی، جس کے مصنف کا نام ہے ساشنک ایس بینرجی (Sashank S. Banerjee) اور عنوان India, Mujib-ur-Rehman, Bangladesh Libration & Pakistan ہے۔اس کتاب کا مصنف ڈھاکہ کے ہندستانی قونصلیٹ میں پولیٹیکل افسر کی حیثیت سے متعین تھا۔ پولیٹیکل افسر کا مطلب انٹیلی جنس افسر ہوتا ہے۔
بینرجی نے لکھا ہے: ’’۲۵دسمبر ۱۹۶۲ء کو جب میں کرسمس پارٹی سے فارغ ہوکر نصف شب کو گھر پہنچا تو پیغام ملاکہ ڈھاکہ کے ممتاز بنگلہ اخبار روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں (تفضل حسین) بلارہے ہیں۔ روزنامہ اتفاق کا دفتر قریب ہی تھا۔ میں وہاں گیا تو مانک میاں نے شیخ مجیب الرحمٰن سے میرا تعارف کروایا، جو وہاں پہلے سے موجود تھا۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں مانک میاں نے وضاحت کی کہ وہ دراصل اٹانومی (صوبائی خودمختاری) کی آڑ میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ مجھے اپنی جدوجہد کے لیے ہندستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر مجیب نے مجھے ہندستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط دیا، جسے ڈپلومیٹک بیگ سے بھجوایا جانا تھا۔ اس خط میں بنگلہ دیش کی آزادی کا روڈمیپ دے کر ہندستان سے ہرقسم کی مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میں نے اپنے باس کو خط دکھا کر بیگ کے ذریعے نئی دہلی بھجوا دیا۔ مجیب نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ مَیں نہرو سے خفیہ ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور لندن شفٹ ہوکر یکم فروری ۱۹۶۳ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کردوں گا اور عبوری حکومت قائم کر دوں گا، جب کہ مانک میاں ڈھاکہ میں رہ کر اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں میں آزادی کا شعور بیدار کرتا رہے گا۔ وزیراعظم نہرو نے خط ملتے ہی اپنے انٹیلی جنس چیف سے میٹنگ کی اور پھر اپنے سیکورٹی مشیروں سے مشورہ کر کے مجیب کو پیغام بھیجا کہ ہم حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں‘‘۔
آگے چل کر بینرجی نے بتایا ہے: ’’دراصل چین سے شکست کی ذلت اُٹھانے کے بعد نہرو پریشان تھا، تاہم اس کے باوجود اس نے مجیب کے خط کو حد درجہ اہمیت دی۔ جواب آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو مجیب صبر نہ کرسکا اور بغیرپاسپورٹ بارڈرکراس کر کے ہندستانی ریاست تری پورہ کے دارالحکومت ’اگرتلہ‘ چلا گیا اور وہاں کے وزیراعلیٰ سچندرا لال سنگھ سے ملاقاتیں کرکے اس سے بھی یہی استدعا کی۔ مجیب واپس آیا تو میں نے اسے وزیراعظم نہرو کا پیغام دیا کہ ’’ہندستان آپ کی پوری مدد کرے گا، لیکن فی الحال بین الاقوامی صورت حال موزوں نہیں۔ لندن جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ڈھاکہ میں رہ کر کام کریں اور وزیراعظم نہرو سے رابطے کے لیے صرف ڈھاکہ کے ہندستانی ڈپلومیٹک مشن کو استعمال کریں۔ جلدبازی نہ کریں، مناسب موقعے کا انتظار کریں۔ جس دن آپ کے جلسے میں ۱۰لاکھ لوگ آگئے تو آپ لیڈر بن جائیں گے۔ آپ سیاسی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ چندا مہم شروع کریں۔ ہندستان مالی امداد بھی دے گا اور رہنمائی بھی کرے گا‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’اس دوران مشرقی پاکستان کے انٹیلی جنس بیورو کو مجیب کی اگرتلہ یاترا کا پتا چل گیا اور مجیب گرفتار ہوگیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور اس نے مجیب کو ایک انقلابی لیڈر بنادیا۔ صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو دبائو کے تحت فروری ۱۹۶۹ء میں مجیب کو رہا کر دیا گیا۔ مجیب کا چھے نکاتی پروگرام بھی ملک توڑنے کا خاکہ تھا۔ جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آیا۔ ’ون مین ون ووٹ‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، اقتدار منتقلی کے بجاے مارچ میں آرمی ایکشن ہوا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہندستانی فوج نے مشرقی پاکستان فتح کرکے بنگلہ دیش بنادیا‘‘۔
مصنف نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کس قدر تھوڑے عرصے میں ہندستان کے روڈمیپ پر عمل ہوا اور مشن پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ کتاب کے حوالے سے یہ بہت مختصر تفصیلات درج کی جارہی ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ہماری سیاسی غلطیوں اور آمریتوں نے مجیب کا کام آسان بنادیا، لیکن یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ مجیب علیحدگی چاہتا تھا اور ہندستان کی مدد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا، جس کی تصدیق مزید بہت سے مستند ذرائع سے ہوتی ہے۔
بھارتی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی ’را‘ کے بانی بی رامن نے اپنی کتاب Role of Raw میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد سے، مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے پانچ نکاتی پروگرام پر پوری قوت سے کام کا آغاز کیا گیا اور بنگلہ دیش کی پیدایش اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کا ڈپٹی اسپیکر شوکت علی، پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’میں بھارت کو سو فی صد کریڈٹ دیتا ہوںکہ اس نے بنگلہ دیش کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا‘‘۔ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۱ء)
اس پس منظر میں لوگوں کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ مجیب کی سیاسی وارث حسینہ واجد اتنے طویل عرصے کے بعد کیوں جھوٹے مقدمے قائم کرکے، اور جعلی عدالتیں بنا کر جماعت اسلامی کے ا ن حضرات کو پھانسیاں دے رہی ہے، کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے برحق جدوجہد کی تھی؟ اسی طرح ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے آنے والے بہاری پاکستانیوں کو کیوں آج تک مہاجرکیمپوں میں محدود رکھا گیا ہے اور انھیں شہریت دینے سے کیوں انکاری ہے؟ مجیب کا انجام دُنیا دیکھ چکی ہے، اب دیکھیں اس کی جانشین کا کیا انجام ہوتا ہے؟