تاریخ کے فیصلے بھی دل چسپ ہوتے ہیں۔ ایک فرد ملک کا غدار ہوتا ہے مگر دوسرے کا ہیرو، اور ایک قوم کا دشمن تو دوسری قوم کی آنکھوں کا تارا قرار دیا جاتا ہے۔ جدوجہد انسانی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن جب سے قومی ریاست کے تصور نے انسانی سوچ پر غلبہ پایا ہے، اس جدوجہد کا رُخ زیادہ تر قومیت کے تصور کی جانب ہوگیا ہے، اور ’قوم پرست‘ کی اصطلاح میڈیا میں استعمال ہونے لگی ہے۔
پاکستان میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف صاحب کی سیاسی منصوبہ سازی اور فیصلو ں پر ممکن ہے کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق، لیکن سچی بات ہے کہ تحریک ِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور تعمیر پاکستان کے حوالے سے ان کے بعض بیانات میں معلومات کا ادھورا پن، سخت تکلیف کا سبب بنتا ہے، اور وہ بھی اس صورت میں،جب کہ وہ ایک طرح سے مسلم لیگ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان کی جانب سے یہ کہنا کہ: ’’مجیب محب ِ وطن تھا، اسے باغی بنا دیا گیا… اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں‘‘۔ سچی بات ہے کہ یہ بیان نہ صرف حقائق کے منافی ہے، بلکہ باعث ِ اذیت بھی۔ اس ضمن میں یہاں کسی علمی، تحقیقی اور تجزیاتی بحث کے بجاے صرف ایک حوالے سے گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
جب یہ کہا جائے کہ: ’شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان توڑنے کی تحریک کا سربراہ تھا اور وہ طویل عرصے سے ہندستان کی مدد سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہا تھا‘، تو اس کے جواب میں ایک افلاطونی گروہ مشرقی پاکستان کی محرومیوں یا بے انصافیوں کا رقّت آمیز انداز میں ذکر کرکے پورے مسئلے کو گڈمڈ کردیتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مجیب نے تحریک ِ پاکستان میں کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور پھر صدارتی انتخابات میں فیلڈمارشل صدر ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ بھارت سے رابطے میں تھا اور ’آزاد بنگلہ دیش‘ ہی اس کی منزل تھی۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے تمام صوبے یا اکائیاں، تمام قصبے، گائوں اور شہر ایک جیسے خوش حال ہیں لیکن اس عدم توازن سے کبھی ملک توڑنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ محب ِ وطن قائدین، اتحاد کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اپنی اکائی یا صوبے کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور کبھی دشمن قوتوں کو ساتھ ملاکر ملک توڑنے کی سازش نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے بڑے اور اہم لیڈران کرام میں خواجہ ناظم الدین، اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، نورالامین، ڈاکٹر ایم اے مالک، فضل القادر چودھری، مولوی تمیزالدین، پروفیسر غلام اعظم، مولوی فریداحمد اور عبدالحمید خاں بھاشانی وغیرہ شامل تھے۔ بھاشانی صاحب سوشلزم کے پرچارک تھے اور فضل الحق نے مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کلکتہ کے دورے کے دوران، متحدہ بنگال کا مطالبہ کردیا تھا، جو مشرقی پاکستان میں گورنر راج کا باعث بنا۔ ان دو حضرات کے علاوہ تمام لیڈر حضرات متحدہ پاکستان کے فریم ورک کے اندر رہ کر بنگالیوں کے حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد میں یقین رکھتے تھے اور نہایت محب وطن تھے۔
فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور سا ز اسمبلی نے اُردو کو قومی زبان قرار دیا، تو قومی سوچ کے حامل بنگالی لیڈروں نے بنگلہ کو بھی قومی زبان بنانے کے لیے سیاسی، آئینی جدوجہد جاری رکھی اور نتیجے کے طور پر مئی ۱۹۵۴ء میں بنگلہ کو بھی دستور ساز اسمبلی نے قومی زبان قرار دیا، اور پھر ۱۹۵۶ء کے دستورِ پاکستان میں اُردو اور بنگلہ قومی زبانیں قرار پائیں۔ پھر جغرافیائی مجبوری کو سمجھتے ہوئے انھی بنگالی لیڈروں نے ۱۹۵۶ء کی دستور سازی میں اہم کردار سرانجام دیا اور دونوں صوبوں کے درمیان آباد ی کے فرق کے بجاے برابری (پیرٹی) کے اصول کو تسلیم کیا۔ اگر اکتوبر ۱۹۵۸ء میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا نہ لگتا تو ۱۹۵۶ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک جمہوری، اسلامی اور فلاحی ریاست کی حیثیت سے اُبھرتا۔
مطلب یہ کہ ایک طرف وہ بنگالی قیادت تھی، جو پاکستان کی سالمیت، اتحاد اور استحکام میں یقین رکھتی تھی اور دوسری طرف شیخ مجیب الرحمٰن بھی قومی سیاست میں متحرک تھا۔ مشرقی پاکستان کی کابینہ میں وزیر بھی رہا، لیکن باطنی طور پر قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کا حامی تھا۔ مجھے اپنے ان احباب کے فہم پر حیرت ہوتی ہے جو مجیب الرحمٰن پر حُب الوطنی کا ’الزام‘ لگاتے ہیں۔ حالانکہ خود مجیب الرحمٰن نے ببانگ دہل جنوری ۱۹۷۲ء میں برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کوٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ: ’’میں تو ۱۹۴۸ء سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا‘‘۔ کیا ان ’دانش ور‘ حضرات کی بے جا سینہ کوبی اور سرٹیفکیٹ کے اجرا کے برعکس مجیب الرحمٰن کا اعترافی بیان زیادہ بھاری اور مقدم نہیں ہے؟
سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے اعلان کے مطابق ۱۹۴۸ء سے کیوں بنگلہ دیش کا خواب دیکھ رہا تھا؟ پس منظر کے طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘۔ اس فیصلے کی بنگالی ارکان اسمبلی کی ایک تعداد نے حمایت کی تھی، اور بالخصوص بنگال سے کانگریس کے ارکان اسمبلی نے مجموعی طور پر مخالفت کی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف مشرقی پاکستان میں غم و غصے کی لہر پھیلا کر ہنگامے کیے گئے۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں قائداعظم نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور اپنی تقاریر میں واضح کیا کہ آپ اپنے صوبے کی حد تک بنگلہ کو سرکاری زبان اور ذریعۂ تعلیم بنا لیں، لیکن قومی رابطے کی زبان اُردو ہوگی، جسے پورے ملک میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔تاہم، بنگلہ آبادی کی اکثریت کے احساس کو شیخ مجیب جیسے شورش پسند لوگوں نے احتجاج اور انارکی کی راہ پر ڈالنے کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کردیں۔ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ مجیب کے ذہن میں علیحدگی کے جراثیم اسی وقت سے پرورش پانے لگے تھے۔ اسی لیے اس نے ڈیوڈفراسٹ کے سامنے سچ بولتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ میں ۱۹۴۸ء سے علیحدگی کے لیے کام کرتا رہوں۔
اسی طرح شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے بھی چند برس قبل اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جب وہ اپنے والد کے ساتھ لندن کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھی تو وہاں ہندستانی ’را‘ کے افسران آیا کرتے تھے، جن سے مل کر بنگلہ دیش کے قیام کے لیے منصوبہ سازی ہوتی تھی۔ کیا دشمن ملک کے ساتھ سازباز کرکے اپنا ملک توڑنا حب الوطنی ہے؟ جب مجیب نے دعویٰ کیا ہے کہ مَیں تو۱۹۴۸ء سے بنگلہ دیش کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا، تو یہاں پر بتایا جانا چاہیے کہ اس وقت مشرقی پاکستان سے کون سی زیادتیاں ہوئی تھیں، جنھوں نے اسے صرف ایک سال کے اندر اندر یہ جواز مہیا کیا تھا؟ ناانصافی کا جواز ہو بھی تو حب الوطنی کا تقاضا ملکی اتحاد کے اندر رہ کر سیاسی جدوجہد کرنا ہوتا ہے نہ کہ ملک توڑنا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کے عزائم، ’را‘ سے تعلقات، ہندستانی حمایت اور یلغار پر کئی کتابیں ہندستان، انگلستان اور دوسرے ممالک میں چھپ چکی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندستان کی مالی، سیاسی اور فوجی مدد کے بغیر مجیب الرحمٰن کبھی بھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔ یہ موضوع تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
سوانح عمری کے انداز میں لکھی گئی وہ کتاب کہ جسے چشم دید گواہ نے بیان کیا ہو، تاریخ کا حصہ تصور ہوتی ہے، بشرطیکہ گواہ قابلِ اعتماد ہو۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے اکثر لکھنے اور بولنے والے حضرات و خواتین،تحقیق اور انصاف کے بجاے جذباتی اور غصیلے انداز سے فتویٰ جاری کردیتے ہیں اور تجزیے کے بجاے مخالفین کی القابات سے تواضع کرتے ہیں جس سے تاریخی مقدمات کا صحیح پس منظر نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔فی الحال اس سلسلے کی ایک اہم کتاب کا حوالہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ کتاب اس لیے اہم ہے کہ اس میں ایک چشم دید بلکہ اس سازش میں شامل ایک اہم کردار کے اعترافات شامل ہیں۔ یہ کتاب ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی، جس کے مصنف کا نام ہے ساشنک ایس بینرجی (Sashank S. Banerjee) اور عنوان India, Mujib-ur-Rehman, Bangladesh Libration & Pakistan ہے۔اس کتاب کا مصنف ڈھاکہ کے ہندستانی قونصلیٹ میں پولیٹیکل افسر کی حیثیت سے متعین تھا۔ پولیٹیکل افسر کا مطلب انٹیلی جنس افسر ہوتا ہے۔
بینرجی نے لکھا ہے: ’’۲۵دسمبر ۱۹۶۲ء کو جب میں کرسمس پارٹی سے فارغ ہوکر نصف شب کو گھر پہنچا تو پیغام ملاکہ ڈھاکہ کے ممتاز بنگلہ اخبار روزنامہ اتفاق کے ایڈیٹر مانک میاں (تفضل حسین) بلارہے ہیں۔ روزنامہ اتفاق کا دفتر قریب ہی تھا۔ میں وہاں گیا تو مانک میاں نے شیخ مجیب الرحمٰن سے میرا تعارف کروایا، جو وہاں پہلے سے موجود تھا۔ دو گھنٹے کی اس ملاقات میں مانک میاں نے وضاحت کی کہ وہ دراصل اٹانومی (صوبائی خودمختاری) کی آڑ میں بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ مجھے اپنی جدوجہد کے لیے ہندستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر مجیب نے مجھے ہندستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے نام ایک خط دیا، جسے ڈپلومیٹک بیگ سے بھجوایا جانا تھا۔ اس خط میں بنگلہ دیش کی آزادی کا روڈمیپ دے کر ہندستان سے ہرقسم کی مدد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ میں نے اپنے باس کو خط دکھا کر بیگ کے ذریعے نئی دہلی بھجوا دیا۔ مجیب نے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ مَیں نہرو سے خفیہ ملاقات کرنا چاہتا ہوں اور لندن شفٹ ہوکر یکم فروری ۱۹۶۳ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کردوں گا اور عبوری حکومت قائم کر دوں گا، جب کہ مانک میاں ڈھاکہ میں رہ کر اپنے اخبار کے ذریعے لوگوں میں آزادی کا شعور بیدار کرتا رہے گا۔ وزیراعظم نہرو نے خط ملتے ہی اپنے انٹیلی جنس چیف سے میٹنگ کی اور پھر اپنے سیکورٹی مشیروں سے مشورہ کر کے مجیب کو پیغام بھیجا کہ ہم حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں‘‘۔
آگے چل کر بینرجی نے بتایا ہے: ’’دراصل چین سے شکست کی ذلت اُٹھانے کے بعد نہرو پریشان تھا، تاہم اس کے باوجود اس نے مجیب کے خط کو حد درجہ اہمیت دی۔ جواب آنے میں کچھ تاخیر ہوئی تو مجیب صبر نہ کرسکا اور بغیرپاسپورٹ بارڈرکراس کر کے ہندستانی ریاست تری پورہ کے دارالحکومت ’اگرتلہ‘ چلا گیا اور وہاں کے وزیراعلیٰ سچندرا لال سنگھ سے ملاقاتیں کرکے اس سے بھی یہی استدعا کی۔ مجیب واپس آیا تو میں نے اسے وزیراعظم نہرو کا پیغام دیا کہ ’’ہندستان آپ کی پوری مدد کرے گا، لیکن فی الحال بین الاقوامی صورت حال موزوں نہیں۔ لندن جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ ڈھاکہ میں رہ کر کام کریں اور وزیراعظم نہرو سے رابطے کے لیے صرف ڈھاکہ کے ہندستانی ڈپلومیٹک مشن کو استعمال کریں۔ جلدبازی نہ کریں، مناسب موقعے کا انتظار کریں۔ جس دن آپ کے جلسے میں ۱۰لاکھ لوگ آگئے تو آپ لیڈر بن جائیں گے۔ آپ سیاسی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ چندا مہم شروع کریں۔ ہندستان مالی امداد بھی دے گا اور رہنمائی بھی کرے گا‘‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’اس دوران مشرقی پاکستان کے انٹیلی جنس بیورو کو مجیب کی اگرتلہ یاترا کا پتا چل گیا اور مجیب گرفتار ہوگیا۔ مقدمہ چلتا رہا اور اس نے مجیب کو ایک انقلابی لیڈر بنادیا۔ صدر ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو دبائو کے تحت فروری ۱۹۶۹ء میں مجیب کو رہا کر دیا گیا۔ مجیب کا چھے نکاتی پروگرام بھی ملک توڑنے کا خاکہ تھا۔ جنرل یحییٰ خان اقتدار میں آیا۔ ’ون مین ون ووٹ‘ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے، اقتدار منتقلی کے بجاے مارچ میں آرمی ایکشن ہوا۔ دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہندستانی فوج نے مشرقی پاکستان فتح کرکے بنگلہ دیش بنادیا‘‘۔
مصنف نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کس قدر تھوڑے عرصے میں ہندستان کے روڈمیپ پر عمل ہوا اور مشن پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ کتاب کے حوالے سے یہ بہت مختصر تفصیلات درج کی جارہی ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ ہماری سیاسی غلطیوں اور آمریتوں نے مجیب کا کام آسان بنادیا، لیکن یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ مجیب علیحدگی چاہتا تھا اور ہندستان کی مدد سے ’آزاد بنگلہ دیش‘ کے قیام کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کر رہا تھا، جس کی تصدیق مزید بہت سے مستند ذرائع سے ہوتی ہے۔
بھارتی بدنامِ زمانہ خفیہ ایجنسی ’را‘ کے بانی بی رامن نے اپنی کتاب Role of Raw میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد سے، مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کے لیے پانچ نکاتی پروگرام پر پوری قوت سے کام کا آغاز کیا گیا اور بنگلہ دیش کی پیدایش اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کا ڈپٹی اسپیکر شوکت علی، پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’میں بھارت کو سو فی صد کریڈٹ دیتا ہوںکہ اس نے بنگلہ دیش کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا‘‘۔ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، ۱۷دسمبر ۲۰۱۱ء)
اس پس منظر میں لوگوں کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ مجیب کی سیاسی وارث حسینہ واجد اتنے طویل عرصے کے بعد کیوں جھوٹے مقدمے قائم کرکے، اور جعلی عدالتیں بنا کر جماعت اسلامی کے ا ن حضرات کو پھانسیاں دے رہی ہے، کہ جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے برحق جدوجہد کی تھی؟ اسی طرح ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے آنے والے بہاری پاکستانیوں کو کیوں آج تک مہاجرکیمپوں میں محدود رکھا گیا ہے اور انھیں شہریت دینے سے کیوں انکاری ہے؟ مجیب کا انجام دُنیا دیکھ چکی ہے، اب دیکھیں اس کی جانشین کا کیا انجام ہوتا ہے؟