فروری ۲۰۱۸

فہرست مضامین

ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی مرحوم

عبد الغفار عزیز | فروری ۲۰۱۸ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

رب ذوالجلال کی بات سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے۔ سورۂ مریم میں ارشاد ہوا: 

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاOجو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا‘‘۔(۱۹:۹۶)

 دنیا میں اللہ کے لاتعداد بندے ایسے آئے اور آتے رہیں گے کہ اخلاص اور صبر و محنت سے اپنا فرض انجام دیتے رہے۔ انھیں نہ کسی ستایش کی فکر تھی اور نہ کسی ملامت کی۔ فکرمندی تھی تو بس یہ کہ آپؐ کا اُمتی ہونے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا ہو، آخرت سنور جائے، اور اپنے بعد علم و عمل صالح کا صدقۂ جاریہ چھوڑ جائیں۔ رب کی جناب میں جن بندوں کی یہ ادا قبول ہوگئی، وہ پھانسی کے پھندے پر بھی یہی پکارتے سنائی دیے کہ: فُزتُ بِرَبِّ الکَعبَۃ، ’’رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا!‘‘۔ ان کی دشمنی میںاندھے ہوجانے والوں کے دل بھی بالآخر گواہی دیتے رہے کہ وہ حق پر تھے اور ہم غلطی پر۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث اس ابدی حقیقت کی مزید وضاحت کرتی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو جبریلؑ کو بلاکر کہتا ہے: جبریلؑ! میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریلؑ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اہل آسمان میں منادی کرکے کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، آپ لوگ بھی اس سے محبت کریں۔ اہل آسمان بھی اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر زمین پر بھی اس کے لیے قبولیت لکھ دی جاتی ہے‘‘۔ (مسند احمد)

۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء کو بھی اللہ کا ایک ایسا ہی بندہ، اللہ کے حضور حاضر ہوگیا۔ محمد مصطفےٰ الاعظمی دنیا سے رخصت ہوئے تو دنیا کے نمایاں ترین اہلِ علم نے ان کے فراق کا دُکھ محسوس کیا۔ ۱۹۳۲ء میں اعظم گڑھ، ہندستان میں پیدا ہونے والے کے والدین نے محمد مصطفےٰ نام رکھتے ہوئے شاید سوچا بھی نہ ہوگا، کہ اس نومولود کی ساری زندگی دامنِ مصطفےٰ سے وابستہ ہوجائے گی۔ دورِ جدید کی سہولیات اور ٹکنالوجی کو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے جناب اعظمی نے اس طور وقف کیا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے خیر کے وسیع ابواب کھل گئے۔

 قطر میں دوران تعلیم اعظمی صاحب سے ملاقات کا موقع ملا، لیکن بہتر ہے کہ خود کچھ عرض کرنے کے بجاے ان کے بارے میں دو جلیل القدر ہستیوں کی تحریریں من و عن پیش کردی جائیں۔ ان میں سے ایک تو ہیں ان کے ہم عصر اور رفیق و ہم دم علامہ یوسف القرضاوی اور دوسرے ہیں ان کے براہِ راست شاگرد اور گذشتہ ۳۵ سال سے امام کعبہ جناب شیخ صالح بن عبداللہ بن حُمید۔

  •  علامہ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں: میرے پیارے بھائی، میرے ادیب دوست، علمِ حدیث کے علامہ کہلانے والے محقق، ثقافت اسلامی کے دانا نبض شناس، ہندستان کے دینی مدارس و جامعات سے فارغ التحصیل، ہندستان کے چوٹی کے علما و شخصیات کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے والے جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی سے میں تب واقف ہوا، جب وہ علما کے اس قول کے مطابق کہ: ’علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین جانا پڑے‘ کے مصداق مصر کی جامعہ ازہر پہنچ گئے۔

’اعظمی‘ کا نام ان کی جاے ولادت ہندستان کے اعظم گڑھ سے منسوب ہے۔ اس شہر سے کئی علماے ہند منسوب ہیں۔ واضح رہے کہ اعظمی کہلانے والی کئی شخصیات بغداد کے علاقے ’اعظمیہ‘ سے بھی منسوب ہیں۔یہ بغداد کا وہ علاقہ ہے جہاں امام ابو حنیفہ کی جامع مسجد ہے۔ اس علاقے اور جامع مسجد کو ان کے جلیل القدر شاگرد علماے کرام نے اپنے امام اعظم سے منسوب کرتے ہوئے ’اعظمیہ‘ کا نام دے دیا۔ اس کے مقابل ایک دوسرا علاقہ ہے، جہاں امام موسیٰ کاظم کی قبر ہے،   وہ علاقہ ان کی نسبت سے ’کاظمیہ‘ کہلاتا ہے۔

اپنے بھائی ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی سے جامعہ ازہر میں میرا تعارف وہاں ان کی گرفتاری سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔ ان کی گرفتاری پر ہم سب کو حیرت ہوئی۔ اس گرفتاری کا اصل ماجرا   یہ تھا کہ وہ جامعہ ازہر میں احمد العسال اور الصفطاوی، ہم اخوانی طلبہ سے اکثر ملا کرتے تھے۔   اس وقت وہاں موسم سرما کا آغاز تھا۔ اعظمی صاحب، ہندستانی علما کا معروف لباس شیروانی اور جناح کیپ پہنتے تھے۔ لمبی سیاہ شیروانی، سیاہ ٹوپی اور سیاہ داڑھی، حکومت کے شکاری کتوں نے سمجھا کہ یہ کوئی عیسائی پادری ہیں۔ وہ اخوان کے طلبہ اور کارکنان کو گرفتار کررہے تھے۔ ایک روز گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’کسی …  کے بچو! تم مسلم نوجوانوں کو تو اخوان میں شامل کرہی رہے تھے اب عیسائیوں کو بھی نہیں بخشا؟ انھیں بھی اخوان میں شامل کرلیا ہے؟ انھوں نے اعظمی صاحب کو  اُٹھا کر جیل میں بند کردیا۔ یاد نہیں وہ کتنا عرصہ گرفتار رہے، لیکن مختلف وسیلوں اور واسطوں کے ذریعے وہ ہم سے پہلے رہا ہوگئے تھے۔

اس دور کے بعد اللہ نے ہمیں ایک خلیجی ریاست قطر میں اکٹھا کردیا۔ انھیں اس وقت قطر کے حکمران علی بن عبد اللہ آل ثانی کی ذاتی لائبریریوں کا نگران مقرر کیا گیا تھا۔ بعد میں قطر کی  ’نیشنل لائبریری دارالکتب‘ تعمیر ہوئی تو یہ سابق الذکر تمام لائبریریاں بھی اس میں شامل کردی گئیں۔ اعظمی صاحب اس کے نگران اعلیٰ اور جناب عبدالبدیع صقر اس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیے گئے۔

میں جب دوحہ پہنچا تو اعظمی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ وہاں ہماری مستقل مجالس منعقد ہونے لگیں۔ جن میں جناب عبدالحلیم ابوشقہ، احمد العسال، ڈاکٹر حسن المعایرجی جیسے احباب شریک ہوتے تھے۔ ہم سب کا تعلق مصر سے تھا، جب کہ ازہر میں رہنے اور اخوان کے ساتھ جیل میں رہنے کے باعث، اعظمی صاحب بھی مصری ہوگئے تھے۔

ہمارے اہل خانہ بھی ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آتے تو کہتے ’’آپ کا کھانا مزیدار تو ہے، لیکن ہے بے جان، بے روح‘‘۔ ہم نے پوچھا کہ اسے زندہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہنے لگے صرف ایک چیز سے، اور وہ ہے مرچ مصالحہ، مرچوں کے بغیر کھانے کا بھلا کیا فائدہ۔ ہم نے کہا: بس ٹھیک ہے، کھانا ہم بنایا کریں گے، مرچ مصالحہ آپ لایا کریں گے۔ ایک قہقہہ لگا اور پھر یہ معمول ہوگیا کہ وہ آتے تو اپنے لیے بیگ میں سرخ مرچیں ہمراہ لاتے۔ برعظیم کے ہمارے بھائی اتنی مرچیں کھاتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے میٹھے میں بھی مرچیں ہوتی ہیں۔

مصر سے آنے والے ہم سب دوست اور اعظمی صاحب اکثر کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے، مختلف اُمور پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہوتا۔ لندن سے پی ایچ ڈی کرکے آنے والے ڈاکٹر عزالدین ابراہیم ان مجالس کو ’راہِ سلوک‘ کی ابتدائی مجالس کہا کرتے تھے۔ پھر عبدالحلیم ابوشقہ صاحب  تالیف و تصنیف میں مصروف ہوگئے اور جناب اعظمی صاحب سعودی جامعات میں تدریس کے لیے چلے گئے اور یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔

قطر میں مرکز بحث سنت و سیرت قائم کیا گیا اور امیر قطر نے مجھے اس کی ذمہ داری دے دی، تو میں نے کئی اُمور میں ڈاکٹر اعظمی صاحب سے مشورہ کیا۔ ان کے تعاون سے ہم نے دارالکتب اور دیگر لائبریریوں سے کئی اہم کتب اور ان کی کاپیاں حاصل کیں۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی نے ندوۃ العلما کی ۸۵ سالہ تقریبات منعقد کیں تو اس موقعے پر بھی ان سے مفصل ملاقاتیں رہیں۔

ہمارے بھائی ڈاکٹر عبدالعظیم الدیب نے ایک بار ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا:  ’کمپیوٹر دورِ حاضر کا حافظ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دور گذشتہ کے طلبہ اپنے اساتذہ او رمشائخ کو ’حافظ‘ کا لقب دیا کرتے تھے، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ سیوطی .. تو آج کے دور میں یہ لقب کمپیوٹر کو دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے مقالے میں اس ٹکنالوجی اور سہولت کو علوم حدیث و فقہ کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اعظمی صاحب اس میدان کے سرخیل تھے۔ ہم نے تقریباً ۳۰ سال قبل قطر میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی، جس کا عنوان تھا: ’حدیث نبویؐ کا جامع انسائی کلوپیڈیا‘۔ اس وقت اعظمی صاحب نے ہمیں بتایا کہ انھوںنے سنت نبویؐ کی ۱۷ کتب جن میں ۳ لاکھ احادیث کا مجموعہ ہے، ایک مختصر ڈِسک میں محفوظ کرلی ہیں، اور وہ اس پر مزید کام کررہے ہیں۔

اعظمی صاحب کا زیادہ تر علمی کام حدیث ہی پر تھا۔ اگرچہ قرآن کریم کے دفاع اور ترویج کے لیے بھی انھوں نے اہم خدمات انجام دیں۔ اس ضمن میں انگریزی زبان میں لکھے جانے والے ان کے مقالے کو بھی اہل زبان نے بہت پسند کیا ہے۔ لیکن جس دور میں انھوں نے حدیث نبویؐ کو کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کا کام کیا، اس وقت ان کا کوئی اور ثانی نہ تھا۔

مجھے ذاتی طور پر کئی بار ان کی خدمات سے استفادے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے امام احمد کی بیان کردہ بعض احادیث پر بات کی جو مطبوعہ مسند احمد میں شامل نہیں ہیں۔ حافظ المنذری نے الترغیب و الترھیب میں ان کا حوالہ بھی دیا ہے اور ان کے بارے میں     ائمہ حدیث کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے وہ احادیث کمپیوٹر پر موجود مسند سے نکال دیں۔ پھر ہم نے کئی بار تجربہ کیا اور ہر بار نتائج بالکل درست برآمد ہوئے۔ انھوں نے چار جلدوں میں سنن ابن ماجہ کی تخریج کی۔ اغلاط کی نشان دہی کی اور بحث و تمحیص کے بعد علما و مفکرین کے سامنے اپنی راے پیش کی۔ ان کی ایک اور عظیم خدمت یہ ہے کہ انھوں نے احادیث کا وہ مجموعہ دریافت کیا، جو بعض علما کے نزدیک کئی صدیوں سے مفقود ہوچکاتھا۔ یہ مجموعہ تھا:صحیح ابن خزیمہ۔ اس کتاب کا شمار حدیث کی معروف اور صحیح کتب میں ہوتا ہے۔ کئی اہل اختصاص علما کے نزدیک وہ صحیح ابن حِبَّان سے زیادہ بہتر سند و منہج کی حامل ہے۔ علامہ اعظمی صاحب صحیح ابن خزیمہ    کا ایک حصہ دریافت کرگئے۔ اللہ کرے کوئی اور اللہ کا بندہ اس کا باقی حصہ بھی ڈھونڈ نکالے اور وہ مکمل صورت میں شائع کردی جائے۔

کئی سال قبل و ہ قطر کے دورے پر آئے، ملاقاتوں کی تجدید ہوئی، لیکن اب طویل عرصے سے ان کے ساتھ کوئی رابطہ یا ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ اچانک ان کی رحلت کی اطلاع ملی تو ہم نے  ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ ان کی تمام نیکیاں قبول فرمائے، ان کا بہترین صلہ عطا فرمائے، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ اُمید ہے کہ ان کے صاحبزادے بالخصوص عزیزم ڈاکٹر عقیل محمد الاعظمی اپنے والد کے علمی ذخیرے کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور  ان کے چھوڑے ہوئے علم سے سب کو مستفید کرنے کی عملی سبیل نکالیں گے، کیونکہ علم نافع ہی دنیا سے جانے والوں کے لیے سب سے عظیم ورثہ ہوسکتا ہے۔

  •  امام کعبہ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حُمید اپنے مرحوم استاد کا ذکر خیر کرتے ہوئے، طویل پیراے میں علماے کرام کا مقام و منزلت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم علم کے عظیم ترین میدانوں میں سے اہم ترین میدان ہے۔ قدیم ہی نہیں اس بارے میں جدید ابحاث بھی بہت اہم ہیں۔ اس میدان کی اہم علمی شخصیات میں جلیل القدر عالم دین، ہر حوالے سے قابل اعتماد محقق و محدث ہمارے شیخ اور ہمارے استاد علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کا شمار ہوتا ہے۔ تمام تر علمی رعنائی کے باوجود وہ خود کو نمایاں و مشتہر کرنے سے بچتے تھے۔ انھوں نے حدیث نبویؐ کی تعلیم دی، اور سنت نبویؐ کا دفاع کیا۔ ان کا شمار دورِ حاضر میں   علم حدیث کے بلند پایہ علما میں ہوتا ہے۔  وہ اسلاف کے بعد آنے والے ان علما میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے مدون احادیث کو نیا جمال بخشا۔ اس ضمن میں ان کی نمایاں ترین خدمت صحیح ابن خزیمۃ  کے مخطوطے کی تلاش و تحقیق اور اشاعت و تعلیق تھی۔

آپ ہندستان کے صوبہ اترپردیش کے علاقے میو میں ۱۳۵۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ۱۳۷۰ ہجری میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ۱۹۵۵ء میں جامعہ ازہر سے تدریس کی اجازت ملی اور ۱۹۶۶ء میں کیمبرج سےپی ایچ ڈی کی۔ ۱۹۵۶ء سے ۱۹۶۸ء تک قطر کے دارالکتب کے ذمہ دار رہے اور اس دوران کئی قیمتی مخطوطات حاصل کیے۔ ۱۳۸۸ھ ہجری میں  مکہ مکرمہ منتقل ہوگئے جہاں۱۳۸۸ھ سے ۱۳۹۳ھ ہجری تک کلیہ الشریعہ و الدراسات الاسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۳۹۳ ہجری میں ریاض منتقل ہوگئے۔ ۱۴۱۲ ہجری تک شاہ سعود یونی ورسٹی میں مصطلحات حدیث کی تعلیم دی۔ اس دوران وہ حدیث فیکلٹی کے سربراہ بھی بنادیے گئے اور انھوں نے مکہ مکرمہ اور ریاض میں پی ایچ ڈی کے  کئی مقالوں کی نگرانی کی۔ ۱۹۸۱ء میں ایک سال کے لیے امریکا کی مشی گن کی یونی ورسٹی میں تدریس کے لیے چلے گئے۔ ۱۹۹۱ء میں کولو راڈو یونی ورسٹی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے کام کیا۔

اپنے موضوع پر انھوں نے کئی اہم کتب سپرد قلم کیں۔ دراسات  فی الحدیث النبویؐ، تاریخ تدوین حدیث اور  معاصر محدثین کی منہج پر تنقید ان کی معروف کتاب ہے۔  موطأ امام مالک بروایت یحییٰ بن یحییٰ اللیثی، سنن ابن ماجہ اور صحیح ابن خزیمہ کے ایک حصے کی تحقیق و تخریج بھی اہم ہے۔ انھوں نے انگریزی میں تاریخ تدوین قرآن پر ایک شاہکار کتاب لکھی، جس کے ذریعے مستشرقین کے ان الزامات کا مسکت جواب دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں نعوذ باللہ تحریف ہوچکی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین حدیث کے بارے میں اور معروف مستشرق شاخت کی کتاب شریعت محمدی کے اصول پر بھی انھوں نے اہم تنقیدی کتاب لکھی۔ عروہ بن الزبیر کی غزوات الرسولؐ جیسی کئی اہم کتب پر ان کا مطالعہ بحث و تحقیق کے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔ ان تمام علمی خدمات کے نتیجے میں ۱۴۰۰ ہجری میں انھیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، جس کی خطیر رقم انھوںنے مستحق اور ذہین مسلم طلبہ کے لیے وقف کردی۔

علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی اسلامی آداب اور شرعی اصولوں کی کڑی پابندی کرتے تھے۔ جو بھی ان کے ساتھ رہا، اسے ان کی ان عادات کا بخوبی علم ہے۔ آخری عمر میں وہ مختلف امراض کا شکار رہے۔ یقینا یہ بھی ان کی بلندیِ درجات کاسبب بنا ہوگا۔ لیکن بیماری و کمزوری کے باوجود وہ اپنی  علمی و تحقیقی سرگرمیاں اور اپنے معمولات جاری رکھے رہے۔ آخری دنوں میں ان سے ملاقات کرنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میں نے ان کے محلے کی مسجد میں نماز پڑھی، وہ بھی مسجد میں تھے اور نماز کے بعد اپنے دو بیٹوں کا سہارا لیے انتہائی مشقت سے چل رہے تھے۔ بیماری کے باعث ان کے لیے لکھنا ممکن نہ رہا تو بیٹے کو املا کروانا شروع کردیا۔ جب ان کے لیے بولنا بھی ممکن نہ رہا، تب بھی وہ اشاروں اور کمپیوٹر کی جدید صلاحیتوں کے ذریعے کام کرتے رہے۔ قرآن و سنت کے بارے میں مستشرقین کے مغالطوں کا جواب دینا ان کی اولین ترجیح رہی۔

رہا ان سے میرا ذاتی تعلق، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مکہ مکرمہ میں کلیۃ الشریعۃ و الدراسات الاسلامیۃ کے تیسرے سال میں لائبریری سائنس کا مضمون ان سے پڑھنے کا موقع عطا فرمایا۔ اس وقت یونی ورسٹی میں یہ ایک نیا مضمون تھا۔ طلبہ بھی اس سے زیادہ متعارف نہیں تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ایک بہترین استاد ثابت ہوئے۔ انھوںنے ہمارے لیے بحث و تحقیق اور  علمی مصادر سے براہِ راست استفادے کے نئے دروازے کھول دیے۔ انھوں نے کارڈوں اور مختصر نوٹسز کے ذریعے تحقیق کرنے کا جدید طریقہ سکھایا ۔ استاذ مرحوم نظم و ضبط اور دوران تعلیم سنجیدگی کا بے مثال نمونہ تھے۔ طلبہ کو زیادہ سے زیادہ مستفید کرنے اور غیر مفید کاموں میں ان کا وقت ضائع ہونے سے انھیں بچانے میں، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے اپنے طلبہ کو تصنیف و ترتیب اور براہِ راست علمی مصادر بلکہ ثانوی ذرائع سے استفادہ کرنے کا گر سکھادیا۔ اللہ ان پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائیں۔

مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ ایک عرصے سے میں ان کے ساتھ وہ ملاقاتیں نہیں کرسکا، جو ایک شاگرد کو اپنے استاذ سے کرتے رہنا چاہییں۔ شاید اس کی ایک وجہ خود ان کا زہد اور شہرت سے دُور رہنے کی عادت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے چاہنے والے بھی اس وجہ سے بعض اوقات ان سے غافل ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اب انھیں بہترین اجر و جزا سے نوازے اور درجات بلند فرمائے، آمین!

یہاں ان کے بچوں کا ذکر کرنا بھی مفید ہوگا۔ استاذ محترم کی حسن تربیت، حصولِ علم کی تڑپ اور نظم و ضبط کی پابندی کا عکس ان کے تینوں بچوں پر بھی واضح ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے کمپیوٹر میں تخصص کیا ہے اور اس وقت شاہ سعود یونی ورسٹی میں کمپیوٹر کی تدریس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ ریاضیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ پہلے شاہ سعود یونی ورسٹی ریاض اور پھر دبئی کی زاید یونی ورسٹی میں پڑھاتی رہیں، جب کہ ڈاکٹر انس کا تخصص جینیاتی سائنس ہے اور وہ شاہ فیصل ہسپتال کے تحقیقاتی سنٹر میں کلیدی ذمہ داری پر ہیں۔ پروردگار ہمارے استاد جلیل علامہ محمد مصطفےٰ الاعظمی کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ نبیوں، صدیقین شہدا اور صالحین کا بہترین ساتھ نصیب فرمائے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاO (مریم ۱۹:۹۶) جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، یقینا رحمٰن ان کے لیے عنقریب دلوں میں محبت پیدا فرمادے گا۔

پروردگار! ہم سب کو بھی اپنے ان بندوں میں شامل فرما، آمین!