سیّد سعادت اللہ حسینی (جنوری ۲۰۱۸ء) نے بڑے مدلل، دل نشین اور مؤثرانداز سے فریضہ اقامت ِ دین کی اہمیت واضح کی ہے، اور آپ نے مولانا امین احسن صاحب کا مضمون دے کر اس حلقے کو بے دست و پا کیا ہے جو اسلامی ریاست کے تصور کا انکاری ہے۔
جنوری ۲۰۱۸ء کا شمارہ مجموعی طور پر معلومات افزا اور قابلِ غوروفکر تحریروں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں کا بہترین حل پیش کیا۔ عابدہ فرحین نے بڑے جان دار اور پُرکشش انداز میں بیان کیا کہ عورت عورت کی دشمن کیوں بن جاتی ہے اور اس کا قابلِ عمل حل بتایا۔ اگر ان باتوں پر ہمارے گھروں میں عمل درآمد ہوجائے تو یہی گھر جنّت کا نمونہ بن جائیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ’آپ بھی کچھ لکھیے‘ کے عنوان سے جو لکھا ہے، اس پر بھرپور توجہ بلکہ بلاتاخیر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس مضمون نے رہنمائی دی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
افتخار گیلانی نے ’یروشلم سے کشمیر تک‘ صورتِ حال کو ایک تازیانے کی صورت میں تحریر کیا ہے، کاش اُمت اس کی ضرب کو اپنی روح اور جسم پر محسوس کرے۔پھر سعادت اللہ کا مضمون فکری رہنمائی کا ذریعہ ہے۔
’کشمیر آبادی کی تبدیلی اور بھارتی عزائم‘ (دسمبر ۲۰۱۷ء) شیخ تجمل الاسلام نے بھارتی سازش سے جس طرح پردہ اُٹھایا ہے یہ نہ صرف اہلِ پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ ہے بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ کیا پاکستان میں مختلف اَدوار میں، مختلف جماعتوں کی حکومتوں نے اس سلسلے میں کوئی نوٹس نہیں لیا؟ ایک عرصہ سے قائم ’کشمیر کمیٹی‘ نے اس خطرناک صورتِ حال کے سدباب کے لیے کیا کوئی قابلِ ذکر قدم اُٹھایا ہے؟ جائزہ سامنے آنا چاہیے۔
’پاکستان، اسلامی یا سیکولر ریاست‘ (دسمبر ۲۰۱۷ء) اختر حسین عزمی نے بہت اچھے طریقے سے پاکستان کے وجود کے مقصدکی وکالت کی ہے۔ کیا ہمارے نام نہاد سیکولر حضرات یہ بات نہیں سمجھتے کہ برعظیم کے مسلمانوں کو آخر کیا پڑی تھی کہ وہ جان و مال اور عزت کی بازی لگاکر ایک سیکولر ملک حاصل کریں ، جب کہ بھارت خود سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
’اُردو ہندسے‘ اب کم پڑھے، پڑھائے جاتے ہیں، اور انگریزی ہندسے ہی ہرجگہ استعمال ہوتے ہیں۔ ترجمان کےقارئین کو سہولت فراہم کرنے کے لیے انگریزی الفاظ گنتی میں استعمال کیے جائیں۔