حال ہی میں مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱نومبر کو دہلی کی تہاڑ جیل نمبر۱ کے وارڈ ’سی‘ اور ’ایف‘ میں جیل کے سیکورٹی پر مامور اہل کاروں نے ۱۸قیدیوں پر بے پناہ تشدد کرکے اُنھیں شدید زخمی کر دیا۔ یہ وحشیانہ عمل کرنے والوں میں جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کے اسپیشل دستے اور کوئیک رسپانس فورس سے وابستہ اہل کار شامل تھے۔
جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سیّد صلاح الدین کے فرزندسیّد شاہد یوسف کا نام قابلِ ذکر ہے۔ ۲۳نومبر ۲۰۱۷ء کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ میں مفادِ عامہ کی درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعے کی تفصیلات بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور پر شاہد یوسف کی خون آلود بنیان بھی پیش کی۔ ۲۸نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعے کو زیربحث لاکر جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویش ناک قرار دیا۔ قائم مقام چیف جسٹس گپتامتل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا: ’’ہمیں دیکھنا ہوگا، یہ واقعہ قطعی طور پر بلاجواز ہے، اگر یہ صورتِ حال دہلی میں ہے تو دیگر جگہوں میں کیا قیامت ٹوٹتی ہوگی؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’معاملہ انتہائی سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی، جسے واقعے کی تحقیقات کرکے کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔
خود بھارت کے کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیری قیدیوں کو زبردستی پیشاب پینے پر مجبور کیا۔ اس واقعے کی تصویروں میں قیدیوں کے لہولہان بدن اور جسم کی چوٹیں ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حملہ کس قدر درندگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ قیدیوں کے تمام جسم پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وردی پوشوں کے حملے کا ہرگز کوئی جواز نہیں تھا، یعنی قیدیوں کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔ اس خبر کے منظرعام پر آنے سے ریاست جموں و کشمیر میں بالعموم اور بیرون وادی نظربندوں کے لواحقین میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے تہاڑ جیل کے اس واقعے کو وحشیانہ اور مہذب دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں پہلے ہی سے اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ کشمیری قیدی، بھارت کی جیلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اُن پر ہروقت حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسی طرح کا واقعہ کٹھوعہ جیل میں بھی پیش آیا، جہاں کشمیر ی قیدیوں کی بڑے پیمانے پر مارپیٹ کی گئی۔ بیرونی ریاست کشمیری قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا وحشیانہ سلوک روز کا معمول بن چکا ہے اور ان جیلوں میں کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کی رُوداد سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ ہوئی ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار نہ صرف تہاڑ جیل کے بارے میں بلکہ بھارت کی دیگر جیلوں کے حوالے سے بھی یہ خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ وہاں نظربند کشمیری قیدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جموں کے کوٹ بلوال جیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جیل حکام بالکل ننگا کر کے اس کی مارپیٹ کر رہے تھے، حتیٰ کہ جموں کے ایک اخبار میں چنداعلیٰ پولیس افسروں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جیل کی سیکورٹی پر مامور کئی اہل کار اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کے لیے قیدیوں کو بالکل ننگا کرتے ہیں، اُنھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا ظلم روا رکھتے ہیں۔
۲۰۱۶ء میں جب وادی میں عوامی احتجاج کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاکر اُنھیں جموں کے کورٹ بلوال، امپھالہ، ہیرانگر، ادھم پور، کٹھوعہ اور ریاسی کی جیلوں میں منتقل کیا، تو وہاں سے کچھ ہی عرصے میں یہ خبریں موصول ہونے لگیں کہ ان جیلوں میں نظربند کشمیری قیدی نسلی تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ کورٹ بلوال میں جیل حکام نے غیرقانونی طور پر یہ قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے کہ کشمیری قیدیوں کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا، جو اُنھیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیتے تھے۔ کھانے پینے کے اوقات ایسے مقرر کیے گئے تھے کہ لوگوں کو اِن جیلوں کے مقابلے میں ابوغریب اور گوانتاناموبے بہت چھوٹے نام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن کا کھانا صبح آٹھ بجے دیا جاتا تھا اور شام کا کھانا دن کے چار بجے فراہم کیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اخبارات میں مسلسل خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔
تہاڑ جیل کے بارے میں یہ بات اب عیاں ہے کہ یہاں کشمیری قیدی انتہا درجے کے تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ اُن کے مقابلے میں جیل میں قید جرائم پیشہ افراد کو زیادہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری قیدیوں کو یہاں غیرملکی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیری مزاحمتی تحریک کی علامت خاتون رہنما زمرد حبیب نے اس جیل میں پانچ سال گزارے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے جیل کے شب وروز کو ایک کتابی صورت ’قیدی نمبر۱۰۰‘ میں شائع کیا ہے۔ اُس میں درجنوں دل خراش واقعات درج ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح کا سلوک کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب دلی میں مقیم معروف کشمیر ی صحافی افتخار گیلانی نے بھی تحریر کی ہے۔ اُنھیں بھی کشمیری ہونے کے جرم میں تہاڑ جیل میں مہینوں گزارنے پڑے ۔ تہاڑجیل سے رہائی پانے والے کسی بھی کشمیری نوجوان سے جب ملاقات کرتے ہیں تو اُن کی رودادِ قفس میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ جیل حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے عام قیدی بھی ہمارے ساتھ وہاں غیرانسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔
یہی حالات بھارت کی دوسری جیلوں کے بھی ہیں۔ راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان محمد اسلم خان گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے مقید ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے باعزت بَری کیے جانے کے بعد اُنھیں ممبئی منتقل کیا گیا، وہاں اُنھیں کسی اور کیس میں ملوث کرکے عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس وقت وہ امراواتی کی جیل میں بند ہیں ۔ دو ماہ پہلے اُن کے والدین کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہاں ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کئی سال کے بعد اُن کے والدین کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا موقع مل رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے ۲۰فٹ کی دُوری پر مائیکروفون کے ذریعے ان کی چندمنٹ کی ہی ملاقات کروائی گئی۔ وکیل کے ذریعے اسلم کے والدین کو معلوم ہوا کہ اُنھیں وہاں ۴/۴سائز کے سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس قید تنہائی میں اُنھیں صبح کے وقت دوبالٹی پانی دیتے ہیں، جو اگلی صبح تک کے لیے ہوتا ہے۔ ان ہی دو بالٹی پانی سے اُنھیں اپنی ضروریات پوری کرنا ہوتی ہیں۔ وضو کے لیے وہی پانی ہے اور استنجا کے لیے بھی۔ کپڑے دھونے ہوں یا پھر غسل کرنا ہو، پیاس بجھانی ہو یا پھر کھانے کے برتن صاف کرنے ہوں، یہ ضروریات اُنھیں محض اس ۵۰لیٹر کے پانی سے ہی پوری کرنی ہیں ۔ تصور کیا جائے کہ ۴/۴ کے سیل میں ایک انسان کو برسوں قید میں رکھا جائے، اُسے جھلسادینے والی گرمی میں بھی محض چندلیٹر پانی فراہم کر کے، اسی پانی سے ۲۴گھنٹے تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے تو اُس اللہ کے بندے کی جسمانی و ذہنی حالت کیا ہوتی ہوگی؟ المیہ یہ ہے کہ ایسے اسیران کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہیں ہے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ ملاقات کو لے کر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے میڈیا نے کئی ہفتوں تک خوب پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان نے اس ملاقات میں کلبھوشن کی والدہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ بغل گیر ہونے کی اجازت نہیں دی، اُن کے درمیان شیشے کی دیوار کھڑا کردی۔ لیکن اُن کی اپنی جیلوں میں کشمیری اور مسلم قیدیوں کے ساتھ جب اُن کے عزیز واقارب ہزاروں میل کا سفر طے کرکےملاقات کرنے کے لیے آجاتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُنھیں نامراد ہی واپس لوٹ آنا پڑتا ہے۔ اگر ملاقات ہوبھی جاتی تو ملاقاتیوں اور قیدی کے درمیان پندرہ بیس فٹ کا فیصلہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ساتھ دیوار کے سامنے بیسیوں قیدی ملاقات کے لیے لائے جاتے ہیں۔ پندرہ فٹ کی دوری پر دیوار کی اگلی سمت میں درجنوں عزیز واقارب چِلّا چِلّا کر اپنے پیاروں سے بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن شور و غل میں نہ قیدی ہی اپنے ملاقاتیوں کی بات سنتا ہے اور نہ ملاقاتی ہی، قیدی کی بات کو سمجھ پاتا ہے۔ اس طرح ۱۰،۱۵منٹ میں یہ لوگ مایوسی کے عالم میں واپس مڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی سختی کی وجہ سے اب کشمیر میں بیش تر والدین نے بیرون ریاست مقید قیدیوں سے ملاقات کا سلسلہ ہی ترک کردیا ہے۔
بھارت کی جیلوں میں بند اِن ستم رسیدہ کشمیری قیدیوں کے مقدمات بھی طویل عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں، جن کے خلاف مختلف غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی چارج شیٹ مختلف ایجنسیوں نے تیار کی ہوتی ہے۔ اُن کے خلاف کارروائی کے لیے ایسی پیچیدگی سے مقدمات درج کیے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ کو بھی چھوٹ جانے میں برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ۲۰۱۷ء ہی میں ریاست کے اسیران طارق احمد ڈار، رفیق احمد شاہ اور اُن کے ایک ساتھی کو تہاڑجیل سے ۱۲سال بعد کورٹ نے باعزت رہا کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی کے قیمتی ۱۲سال کس کھاتے میں جائیں گے؟بے گناہ افراد کو بے گناہ ثابت ہونے میں کیوں ۱۲سال لگے؟ یہ کچھوے کی چال چلنے والی عدالتی کارروائی بھی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ کشمیری قیدیوں کے لیے نہ ریاستی حکومت فکرمند ہے اور نہ دلّی میں کوئی ایسا صاحب ِ دل فرد ہے، جو انصاف اور اصولوں کی بات کرتے ہوئے ظلم و جبر کے اس سلسلے پر لب کشائی کرکے اربابِ اقتدار کو اقدامات کرنے کے لیے کہے۔
جیل مینول میں قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، مقید افراد کے حقوق ہوتے ہیں، لیکن بڑا ہی ہولناک المیہ ہے کہ اس ملک میں اس طرح کے تمام اصول، قواعد و ضوابط اور قانون کو بالاے طاق رکھا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ کشمیری قیدیوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تہاڑ اور دیگر ریاستوں کی جیلوں سے اُنھیں اپنی ریاست کی جیلوں میں منتقل کرکے اُن کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے سبب جس طرح سے کشمیریوں کے بارے میں ایک انتہاپسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بیرون ریاستوں کی جیلوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر عوامی جگہوں پر بھی کشمیریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہیں۔ گذشتہ دو برسوں سے کئی بھارت کے شہروں میں کشمیری طلبہ، تاجر اور دیگر لوگوں پر جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے قبل دہلی جانے والی ایک فلائٹ میں سوار دیگر سواریوں کی شکایت پر تین کشمیری نوجوانوں کو جہاز سے اُتار کر ان سے کئی گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں نے اُنھیں مشکوک تصور کیا او ر اُن کی موجودگی میں سفر کرنے سے انکار کردیا۔ ریل میں ٹکٹ کے بغیر سفر کرنے کا جرمانہ ۵۰سے ۱۰۰روپے ہے۔ ماہِ جنوری کے پہلے ہفتے میں بھارت کی ریاست اترپردیش میں ایک کشمیری طالب علم جلدی میں ٹکٹ لینا بھول گیا۔ اُنھیں ریلوے پولیس پکڑ کر جرمانہ کرنے کے بجاے دلی پولیس کی خصوصی سیل کے حوالے کردیتی ہے۔ اس لیے کہ وہ کشمیری ہونے کی وجہ سے دلی پولیس یہ دیکھ لے کہ کہیں اُن کا تعلق کسی ’ دہشت گرد‘ گروہ سے تو نہیں ہے۔ دلی پولیس نے بعد میں اُن کے دیگر دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کرکے اُن کی کئی روز تک پوچھ گچھ کی۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی بات کرنے والوں کا شہریوں کے ساتھ یہ دوہرا رویہ ہی بتا رہا ہے کہ کشمیری بھارتی شہری نہیں ہیں۔ نفرت پھیلانے کے لیے منظم طریقے سے کشمیریوں کے خلاف راے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے، جس کا براہِ راست اثر یہ ہو رہا ہے کہ ریاست سے باہر ہرجگہ کشمیری مسلمان کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔
کشمیریوں کی جدوجہد کی کمر توڑنے اور تحریکی قیادت کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اب کشمیری لیڈروں کو حوالہ کیسز میں ملوث کیا جارہا ہے۔ حریت لیڈران بالخصوص سید علی گیلانی کے قریبی ساتھیوں کو این آئی اے کے ذریعے گرفتار کرکے دلی منتقل کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ۲۰۱۶ء کے عوامی انتفادہ میں اُن کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں اُن کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ حزب کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد جب عوامی تحریک برپا ہوئی تو اُس کے فوراً بعد یہ تمام لیڈران گرفتار کرلیے گئے۔اُنھیں سزا دینے کے لیے این آئی اے کا اسپیشل کورٹ تشکیل دیا جاچکا ہے۔ یہ طے ہے کہ اُنھیں فرضی الزامات کے تحت طویل عرصے کے لیے جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید رکھا جائے گا۔ بھارتی حکمران کشمیر کے ہر مسئلے کا حل طاقت کے بل پر نکالنا چاہتے ہیں۔ دھونس، دبائو، زور زبردستی کے ذریعے سے عام کشمیریوں کو یہ باور کرایا جارہاہے کہ اُن کی جدوجہد ایک لاحاصل عمل ہے۔ حال ہی میں بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن روات نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ کشمیر میں برسر پیکار عسکریت پسندوں اور سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک کرنے کا وقت آچکا ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ جس طرح عسکریت پسند کو بغیر ہچکچاہٹ کے شہید کردیا جاتا ہے اُسی طرح اب سیاسی طور پر پُر امن جدوجہد کرنے والوں کو بھی گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ حالانکہ یہ کار بدِ پہلے سے جاری ہے۔ عام اور نہتے کشمیری آئے روز شہید کردیے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ بھارتی فوجی سربراہ نے علانیہ کہہ دیا کہ وہ ایسا کرنے والے ہیں۔
بدقسمتی سے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ دُنیا بھر میں بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ہرجگہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘ والا معاملہ بن چکا ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور قوموں کے خلاف کتنے ہی گھنائونے ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال میں لائیں، اُنھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اُن پر کہیں سے کوئی انگلی نہیں اُٹھتی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں بیان بازیوں سے آگے بڑھ کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ حکومتوں پر دبائو بڑھانے کے لیے عالمی سطح کی مہم نہیں چلاتیں۔ حالاںکہ گذشتہ تین عشروں کی تاریخ میں کس طرح کشمیر کی سرزمین پر انسانیت کی مٹی پلید کی گئی، کس طرح انسانی حقوق کی پامالی کی گئی، اس کی دنیابھر میں کہیں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوا ہوتا، دہلی سرکار کی جگہ پر کوئی مسلمان ملک ہوتا، تو شاید ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوجاتا۔ لیکن جب کشمیریوں کی بات آتی ہے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔