مئی ۱۹۹۸ء میں پہلے بھارت کے اور پھر جوابی طور پر پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرنے نیویارک پہنچے۔ واجپائی کو اپنی ہمت اور طاقت سے زیادہ کام کرنا گوارا نہیں تھا۔ عام طور پر ظہرانے کے بعد سہ پہر چار بجے تک کوئی مصروفیت نہیں رکھتے تھے اور رات آٹھ بجے کے بعد آرام کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے ان کے غیر ملکی دوروں میں وفد کے ساتھ آئے افسران اور میڈیا کو کھل کر شہر دیکھنے اور شاپنگ کا موقع مل جاتا تھا۔
نیویارک کے اس دورے کے دوران واجپائی کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے ساتھ بھی طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار۱۹۹۶ء میں اقتدار میں آئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی ایک دل چسپ امر ہے کہ تل ابیب اور نئی دہلی میں سخت گیر دائیں بازوکے عناصر ایک ہی وقت اقتدار میں آئے۔ بہرحال، جس وقت واجپائی کی ملاقات نیتن یاہو سے طے تھی، بھارتی مشن نے میڈیا کے لیے شہر کے دورے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا، مگر ہندی اخبار کے ایک ایڈیٹر اپنے ذاتی پروگرام کے تحت ساتھیوں کے ہمراہ نہیں جارہے تھے۔ جب واجپائی ہوٹل میں داخل ہوئے تو پرانی شناسائی کے سبب انھوں نے ایڈیٹرصاحب سے گرم جوشی دکھائی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ملاقات کے کمرے میں لے گئے اور گفتگو میں مگن ہوگئے۔ بھارتی دفترخارجہ کے افسران ابھی ان ایڈیٹر صاحب کو بھگانے کی ترکیب سوچ ہی رہے تھے، کہ نیتن یاہو اپنے وفد کے ہمراہ اس جگہ آگئے۔ واجپائی سے ہاتھ ملاکر اسرائیلی وزیر اعظم نے چھوٹتے ہی ان کو جوہری دھماکوں پر مبارک باد دی اور معانقہ کرتے ہوئے کہا: Mr. Prime Minister, we are now both nuclear power. Let us crush Pakistan like this. (مسٹر پرائم منسٹر ، ہم دونوں جوہری طاقت ہیں، اس طرح ہم پاکستان کو جکڑ کر کرش کریں)۔
اسرائیل آج تک ایک علانیہ ایٹمی طاقت نہیں ہے۔ ایک صحافی کے سامنے اس طرح کے اعتراف نےبھارتی وزارت خارجہ کے افسران کو خاصا پریشان کر دیا۔ واجپائی نے ایڈیٹرصاحب کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا رکھا تھا۔ تب ایک جہاندیدہ افسر نے ان کو بتایا کہ: ’آپ کی ایک ضروری کال آئی ہے‘۔ اور اس بہانے ایڈیٹر کو باہر لے جاکر دروازہ بند کرادیا۔ بعد میں وزارت خارجہ اور اسرائیلی افسران نے اصرار کے ساتھ تاکید کی کہ یہ گفتگو کہیں بھی اور کسی بھی صورت میڈیا میں نہ آنے پائے۔
اب یہی نیتن یاہو۱۳۰ رکنی وفد کے ہمراہ جنوری ۲۰۱۸ء میں بھارت کا چھے روزہ دورہ مکمل کرکے واپس گئے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان ۲۵سال قبل باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے، مگر حقیقت کی دُنیا میں ان کے رشتوں کی تاریخ اس سے بھی بہت پرانی ہے۔ امریکی دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۷۱ءکی جنگ میں، اسرائیل نے جنگی ہتھیار فراہم کرکے، ’پاکستان کے خلاف جنگ‘ کا پانسہ پلٹنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تب مشرقی پاکستان میں پیش قدمی کی کما ن بھارت کی ایسٹرن کمانڈ کے ایک بھارتی یہودی میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی۔ نجی محفلوں میں جنرل جیکب نے کئی بار حسرت سے یہ تذکرہ کیا کہ: ’’جب پاکستانی فوج ہتھیار ڈال رہی تھی تو تقریب اور تصویر کھنچوانے کے لیے کلکتہ سے ایک سکھ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو بذریعہ طیارہ ڈھاکہ لایا گیا، حالاںکہ جگجیت سنگھ آپریشن کا حصہ نہیں تھا۔ یہ وزیراعظم اندرا گاندھی کا فیصلہ تھا کہ ایک مسلمان اور پاکستانی جنرل کا ایک یہودی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈالنا شرقِ اوسط خاص کر عرب اور مسلم ممالک میں اضطراب پیدا کر سکتا تھا، جس کا بھارت متحمل نہیں ہوسکتا تھا‘‘۔
بہرحال، وزیر اعظم نریندرا مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد وہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ جو صرف دفاع اور خفیہ معلومات کے تبادلے تک محدود تھے، ان کو سیاسی جہت ملی ہے۔ اسرائیلیوں کو شکایت تھی کہ بھارتی سیاستدان پردے کے پیچھے ہاتھ تو ملاتے ہیں، مگر اسرائیل کی بین الاقوامی فورم میں مدد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسرائیلی افسروں کے مطابق اس دورے کا مقصد دفاعی خریدوفروخت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجاے دنیا کو یہ بھی پیغام دینا تھا، کہ ہم دنیا میں الگ تھلگ نہیں ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ اور ایک معروف تھنک ٹینک کی طرف سے منعقد ہ ایک جیوپولیٹکل کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ: ’’کسی بھی ملک کی بقا اور اس کو طاقت ور بنانے کے لیے تین چیزیں درکار ہوتی ہیں: فوجی قوت، اس کو برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی ترقی، اور ایسا سیاسی نظام جو آپ کے لیے دنیا میں اتحادی بنانے میں معاون ثابت ہو‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارتی دورہ اور مذکورہ اعتراف یہ بتاتا ہے کہ وہ کس حد تک بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے اور اس کو دُور کرنے کے لیے اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ اس لیے اس دورے کے دوران اسرائیل نے زراعت، ٹکنالوجی، واٹرمینجمنٹ وغیرہ کے شعبوں پر خصوصی توجہ دی۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے آگرہ، احمد آباد اور ممبئی کے دورے کے دوران، ان کے انٹیلی جنس اداروں: موساد اور شن بٹ (Shin Bit) کے سربراہان نئی دہلی میں ہی موجود رہے اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ موساد کے سربراہ یوسی کوہان اور اجیت دوول کے درمیان ملاقاتوں کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوا کہ: ۵۰۰ملین ڈالر کے اسپائیک اینٹی ٹینک میزائل سودے پر دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ بھارت نے یہ سودہ منسوخ کردیا تھا، کیوںکہ اسرائیلی دفاعی کمپنی ٹکنالوجی ٹرانسفر کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔
شن بٹ کے سربراہ نادار ارگامان نے دہلی میں سابق سفارت کاروں، فوجی ماہرین اور ایڈیٹروں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’دونوں ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کے تبادلے کا نظامِ کار (میکانزم) اب خاصا منظم اور وسیع ہے۔ خاص طور پر زیر سمندر ۱۸ہزار کلومیٹر لمبی مواصلاتی کیبل کے ذریعے ہونے والی ترسیل کی نگرانی کے لیے دونوں ممالک تعاون کر رہے ہیں‘‘۔ یاد رہے یہ کیبل سنگاپور، ملایشیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، پاکستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سوڈان، مصر، اٹلی، تیونس اور الجزائر کے لیے ہر طرح کے مواصلات کا ذریعہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’’انفارمیشن یا خفیہ معلومات کی ترسیل سے زیادہ اس کا تجزیہ کرنا اور اس کا بروقت اور اصل استعمال کنندہ تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہے‘‘۔
پاکستان کے بارے میں اسرائیلی افسر سیدھا اور صاف جواب دینے سے کترارہے تھے، مگر ان کا کہنا تھا: ’’بھارت کو سلامتی امور سے نمٹنے کے لیے وہ مدد دینے کے لیے تیار ہیں‘‘۔ تاہم، بار باریہ بھی کہا : ’’ہمارا ہدف (فوکس) وہ تنظیمیں اور ممالک ہیں، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کو پس پردہ ترتیب دینے والے دو افراد گجراتی نژاد امریکی یہودی نسیم ریوبن اور امریکا کی سب سے طاقتور لابی تنظیم امریکن جیوش کونسل کے نائب سربراہ جیسن ایف اساکسون کا کہنا تھا کہ: ’’یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دونوں ممالک کے دشمن الگ الگ ہیں۔ جہاں بھارت کی دشمنی پاکستان سے ہے، وہیں اسرائیل اپنی بقا کے لیے ایرا ن کو خطرہ سمجھتا ہے‘‘۔ نسیم ریوبن کا کہنا تھا کہ: ’’شاید اس معاملے میں دونوں ممالک کے مفادات جدا جدا ہیں، اس لیے دیگر اُمور پر توجہ دینا ضروری ہے، تاکہ ایک پاےدار رشتہ قائم ہو۔ چوں کہ موجودہ وقت میں ترقی پسندانہ سوچ اور جمہوریت کو ریڈیکل اسلام سے خطرہ ہے، اس لیے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے اشتراک کی گنجایش ہے‘‘۔
یہ بات طے ہے کہ اسرائیل اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی قربت کو مودی نے بھارتی داخلی سیاست میں ہندو انتہا پسند طبقے کو رام کرنے کے لیے بخوبی استعمال کیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی سرپرست تنظیم آرایس ایس کے لیے اسرائیل ہمیشہ سے ایک اہم ملک رہا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے۲۰۰۳ء میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کی مہمان نوازی کی تھی، اور مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہِ مملکت ہیں، جنھوں نے تل ابیب کا دورہ کیا، پھر اسرائیلی وزیراعظم کوبھی اپنے یہاں بلالیا۔ ہندو انتہا پسند طبقے کا خیال ہے کہ: ’’اسرائیل دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے اور انھیں ختم کرکے ہی دم لے گا‘‘۔
اس خیال کے برعکس یہودی مذہبی پیشوا ربی ڈیوڈ روزن کی راے یہ ہے: ’’۱۹۷۳ء کی جنگ سوئز اور بعد میں لبنان جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ جدید ہتھیاروں اور امریکی حمایت کے باوجود اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے راقم کو انٹرویو میں بتایا کہ: ’’عام یہودی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اسرائیل ۲۰۰۶ءکی لبنان جنگ ہار گیا تھا۔ عدم تحفظ کا احساس اور سیکورٹی اور انٹیلی جنس پر بے پناہ اخراجات کی وجہ سے اسرائیل میں ضروریاتِ زندگی خاصی مہنگی ہیں۔ اس لیے اپنی بقا اور دیرپا سلامتی، دو ریاستی فارمولے پر عمل میں ہی مضمر ہے۔ ورنہ اگلے ۵۰برسوں میں یہودی ریاست کا نام و نشان مٹ سکتا ہے یا یہودی اپنی ریاست میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آخر کیسے؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’۱۹۶۷ء میں مقبوضہ فلسطین، یعنی اسرائیل میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ۱۴فی صد تھا، جو بڑھ کر ۲۲ فی صد سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ یہ مسلمان ’عرب اسرائیلی‘ کہلاتے ہیں اور اسرائیلی علاقوں میں انتخابات وغیرہ میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ ان میں افزایش نسل بھی یہودیوں سے زیادہ ہے۔ اس لیے اسرائیلی حکومت کو اپنی موجودہ روش ترک کرکے فلسطینیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کرنے کی طرف پیش قدمی کرنے چاہیے ، ورنہ اس ٹائم بم کی وجہ سے یہودی ریاست کا وجود خطرے میں پڑجائے گا اور اگلے دوعشروں میں وہ اقلیت میں ہوں گے‘‘۔