فروری ۲۰۱۸

فہرست مضامین

اخلاق باختگی کے واقعات، لمحۂ فکریہ

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | فروری ۲۰۱۸ | اشارات

Responsive image Responsive image

قصور میں ہونے والی وحشیانہ اور جنسی درندگی کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا۔ پھر اس واقعے پر جس یک جہتی کے ساتھ قوم نے مظلوم زنیب کے ساتھ اپنی ہمدردی اور   اس درندہ صفت شخص کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے،وہ ایک قابلِ تعریف احساس ہے۔   یہ ردِعمل اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں بھی ہرپاکستانی اس وحشیانہ عمل کے سد باب اور مظلوموں کو بلاتاخیر انصاف اور مجرموںکو قرار واقعی اور عبرت ناک سزا کے بارے میں یک آواز ہے (اسی نوعیت کے شرم ناک واقعات انھی دنوں کراچی، ڈیرہ اسماعیل خاں اور مردان وغیرہ میں بھی ہوئے ہیں)۔

حقیقت یہ ہے کہ بچے قوموں کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر وہ تحفظ ، تعلیم ،محبت ، عزت اور تربیت کی جگہ عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر قومیں روشن مستقبل سے محروم ہو جاتی ہیں ۔بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جو فضا پائی جاتی ہے ، اس میں نہ صرف بچوں کو بلکہ بالغ اور معمر افراد وخواتین کو بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کا شدید احساس ہو رہا ہے۔ یہ نظام کی ناکامی اور اجتماعی بگاڑ کا واضح ثبوت ہے، جس کی اصلاح اور فوری اور مؤثر اقدامات وقت کی ضرورت ہے۔

ہم نے انگریز سے جو نظام، وراثت میں لیا ، اس میں جا گیردارانہ نظام کا تحفظ ، پولیس ، سول انتظامیہ اور سیا سی شخصیات سے تعاون جائز تصور کیا جاتا تھا ۔ بڑی زمینداریوں کا وجود  اکثر و بیش تر انگریز سرکاری کی وفاداری کا مرہونِ منت تھا ۔خان بہادر اور نائٹ یا سر کا خطاب بھی   اِلا ماشاء اللہ، انھی کو دیا گیا جو برطانوی سامراج کی نگاہ میں بےضرر یا وفادارِ تاج برطانیہ تھے۔   یہی لوگ سیاسی لیڈر بنے اور انگریز کی نگاہ میں اپنی قوم کے نمایندہ قرار پائے۔

ہمارے ملکی نظام میں سیاسی اداروں پر انھی افراد کا قبضہ رہاجو معاشی طور پر خوش حال تھے اور جو اپنے مزدور اور کسان پر مکمل قابو رکھتے تھے ۔ جس کے نتیجے میں قانون مال داروں کے تحفظ میں تو دل چسپی رکھتا تھا لیکن کمزور اور بے سہارا کے لیے انصاف حاصل کرنا جوے شیر لانا تھا۔   ہم نے اس نظام کو برقرار رکھا اور ماضی میں خواتین کے ساتھ زیادتیوں ، انھیں سرعامِ برہنہ کرنے اور انتقامی جذبات کی تسکین کے لیے خواتین کی بے عزتی کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنائے رکھا۔      اگر معاشرے میں قانون کا احترام کم ہو جائے اور اخلاقی روایات کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، تو    نہ صرف خواتین بلکہ کسی بھی عمر کے انسان کے ساتھ کسی قسم کا واقعہ ہو سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سانحے پر غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ایسا کیوں ہوا اور آیندہ ایسے اندوہناک واقعات کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔

ظلم کے اسباب

ہمارے ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار عموماًبیرونی امداد سے قائم ہونے والی این جی اوز جمع کرتی ہیں (جن میں حقائق سے زیادہ ظن و تخمین کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، تاہم ان کی بنیاد سے انکار نہیں کیا جاسکتا)۔ پاکستان کے مقامی اخبارات نے ایک ایسے ہی ادارے کے اعداد و شمار شائع کیے ہیں، جن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں پاکستان میں روزانہ بچوں سے زیادتی کے۱۱ واقعات ہوئے ہیں(ڈیلی ٹائمز ، ۱۸ جنوری ۲۰۱۸ء، د ی نیوز، ۲۳جنوری ۲۰۱۸ء)۔ یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ ان اعداد و شمار میں نمونے (sample)کا حجم کیا ہے؟ اور جب تک تمام تفصیلات معلوم نہ ہوں  کسی بھی جائزے اور اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اس کے باوجود یہ تعداد بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے حوالے سے ایک خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے ۔بچوں پر زیادتی کا جائزہ لیتے وقت مناسب ہو گا کہ ایک سرسری نگاہ بنیادی اسباب پر ڈال لی جائے۔

معاشی اسباب

بالعموم تجزیاتی جائزے یہ بتاتے ہیں کہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں بااثر معاشی آقا اپنے سے کم تر طبقات کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے ۔ہمارے ہاں بھی اخباری اطلاعات یہی بتاتی ہیں کہ با اثر افراد کی بنا پر اس قسم کے ظالمانہ کام کرنے والے قانون کی گرفت سے بچ جاتےہیں، اور معاشی طور پر کم زور افراد کی عزت اور ذات ان ظالموں کے ہاتھوں برباد ہوتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بچوں ، کم عمر لڑکیوںکو پیسےکا لالچ دے کر ایسے کاموں میں پھنسایا جاتا ہے۔ قصور ہی میں کچھ عرصہ قبل ایک گروہ کا پردہ چاک ہوا جو بچوںکی عریاں ویڈیو فلمیں بنا کر اپنی دھمکیوں کے ذریعے انھیں اپنے زیرِ تصرف لا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بڑا سبب معاشی بدحالی بتایا جاتا ہے۔

 لیکن تجزیہ کرنے والے افراد یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ ظلم نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں بھی عام ہے جو ہمارے کم فہم افراد کے لیے ایک ’مثالی معاشرہ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکا اس کی چشم کشا مثال ہے جہاں اس کا سبب محض غربت نہیں بلکہ نشہ آور اشیا کا استعمال ، مخلوط معاشرہ اور انفرادیت پرستی کا نظریہ اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔سب سے زیادہ بنیادی بات اخلاقی اور دینی تربیت کا فقدان ہے ، جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔

نفسیاتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ وہ بچے جو ذہنی طور پر پریشان یا کسی فطری کمی کی بنا پر اپنا اچھا بُرا نہیں سوچ سکتے،ایسے افراد کا شکار ہو جاتے ہیں جو انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ لیکن نظری طور پر درست ہونے کے باوجود ہمارے پاس ابھی تک سائنسی بنیادوں پر جمع شدہ اور مصدقہ اعداد وشمار کا ایسا کوئی جائزہ نہیں ہے جو ان بچوں کے بارے میں جن سے زیادتی کی گئی ہو یہ بات وثوق سے بتائے کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے اور اس بنا پر انھیں غلط استعمال کیا گیا۔

اس کے مقابلے میں جو اعداد وشمار ملتے ہیں وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس عمر کے اتنے بچے ان مظالم کا شکار ہوئے یا ان ان صوبوں یا شہروں میں اتنے بچوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے جائزوں میں بالعموم پنجاب میں ایسے واقعات کی کثرت بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سماجی بگاڑ اور اخلاقی فساد دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہے اور ہرجگہ اور ہرصورت میں ناقابلِ برداشت ہے ۔ اس کے رد عمل کے طور پر کچھ علاقوں میں ہجوم اور بلوہ کی کیفیت نظر آر ہی ہے ۔ قا نون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور عوامی غم وغصہ مل کر جومنظر پیش کررہے ہیں، وہ انتہائی ہولناک ہے ۔ قصور اس کی ایک مثال ہے ۔

معاشرتی اسباب

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ایسے مقام پر آگیا ہے کہ بعض اوقات سوتیلے رشتوں اور بعض اوقات جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر ان خاندانی رشتوں سے احتیاط نہیں کی جاتی جنھیں ہمارے دین نے ہمارے لیے ’خطرناک‘کہا ہے ۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب وہ نام نہاد مشرقیت ہے ، جس میں ایک سالی ، بھابی ، سالے یا دیور سے تعلقات کی نوعیت وہ نہیں ہوتی جو دین چاہتا ہے، بلکہ اس حد کو پار کرکے انتہائی بے تکلفی کی حد تک تعلقات کو بڑھا دیا جاتا ہے جو آخر کار کسی غیر اخلاقی عمل کی شکل میں انجام تک پہنچتا ہے۔یہ معاملہ بالغوں تک محدود نہیں ۔ اس میں بچے (اگر ہم انھیں یونیسکو کی تعریف کی رُو سے ۱۸ سال کی عمر تک بچہ کہیں) بھی شامل ہیں ۔ گویا ہمارے معاشرے میں ہندووانہ رسومات اتنی جڑ پکڑ چکی ہیں اور مغربی معاشرت کو اتنا اپنا لیا گیا ہے کہ اب ان سے خطرناک نتائج کثرت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

قانونی مشکلات

ایک بات جو بار بار بچوں پر زیادتی کے حوالے سے سننے میں آتی ہے بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں پائی جاتی ہے وہ معاشی ، دیوانی، اور فوجداری معاملات میں نظام عدل میں تاخیر ، مالی اور سیاسی اثرات اور قانونی دفعات کا غلط استعمال ہے۔ جس میں نہ صرف محرراور وکیل بلکہ پولیس اہلکار، حتیٰ کہ وہ منصف بھی شامل ہیں جو ان قوانین کے بارے میں درست معلومات نہیں رکھتے جن کی بنیاد پر وہ فیصلے لکھتے ہیں ۔حدود کے معاملات میں صحیح اور مصدقہ معلومات نہ ہونے کی بناپر      ان دفعات کا استعمال کیا گیا جن کےا ستعمال کی ضرورت نہیں تھی۔خود عوام کو اپنے قانونی حقوق نہیں معلوم ، حتیٰ کہ قانون کے طالب علم اپنے ملک کے دستور کی تمام دفعات سےآگاہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ کر دینے سے مسئلے کا حل ہوجائے گا، ایک خیالی جنت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

قانون کا ایک بنیادی کردار معاشرے کے افرادا کو تحفظ اور احساسِ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ قانون کا احترام احساسِ تحفظ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر کسی معاشرے میں احساسِ تحفظ اُٹھ جائے تو پھر قانون محض ان کتابوں تک محدود ہو جاتا ہے جو کلیاتِ قانون میں پڑھائی جاتی ہیں۔قانون کا احترام قوت سے نہیں بلکہ تہذیبی شعور سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو ایک انسان کو اپنے ضمیر کی آواز سننے اور اس پر عمل کرنے پر ابھارتی ہے ۔کوئی اسے اندر سے پکارتا ہے: یہ غلط ہے، یوں مت کرو!یہ احساس اور کیفیت تنہا کسی خوف سے نہیں بلکہ انسانی فطرت کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں جرم اور گناہ عام ہو ، صحیح انسانی فطرت ایسے کام کو غلط ہی سمجھتی ہے ۔

جب تک ایک قوم اپنی تہذیبی اقدار پر عامل ہو،اور جب ہر ادارہ سرگرمی کے ساتھ اور شعوری طور پر بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی اہمیت سے آگاہ کرےاورعملاً مثال قائم کرے  تو یقینا اس کا مثبت اثر آنے والی نسل پر ضرور پڑے گا۔ اگر ایک تین سال کا بچہ اپنے باپ یا ماں کو کار چلاتے وقت سرخ بتی کا احترام کرتے ہوئے نہیں دیکھتا، تو وہ خود بھی بڑا ہو کر جب کار چلائے گا تو اس کے تحت الشعور کی آوازاسے ایک غلط کام کرنے سے نہیں روکے گی۔

بُرائی کو روکنے کے لیے قانون کا احترام وہ مثبت ذریعہ ہےجو سزا کے خوف سے زیادہ قانون کے احترام کے ساتھ انسان کی پوری کیفیت کو متاثر کرتا ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم جس تہذیب کو اپنی پہچان قرار دیتے ہیں، وہ اصلاً ایک اخلاقی تہذیب ہے ۔  قرآن کریم نے اخلاق کی اصطلاح کو اس کے وسیع تر مفہوم میں استعمال فرمایا ہے۔چنانچہ اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اخلاق ہے جسے قرآن نے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا خُلُقٍ عَظِیْمقرار دیا ہے، یعنی اخلاق کا نقطۂ کمال۔

ہماری تہذیب جن دو بنیادوں پر قائم ہے وہ حلال و حرام یا طیب اور خبیث یا پاک اور ناپاک ہونے کا احساس ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی کسی معاشرے سے پاک اور   ناپاک ہونے کا تصور مٹ جاتا ہے، وہ معاشرہ درندگی ، دہشت ، ظلم و زیادتی اور بداعمالیوں کا مرکز بن جاتا ہے۔ اگر ایک بچے کو ابتدا ہی سے یہ احساس ہو جائے کہ اس کے لباس پر اس کے جسم سے نکلنے والا ایک قطرہ بھی لگ گیا تو وہ ناپاک ہو جائے گا، تو وہ مرتے دم تک نہ صرف اپنے لباس بلکہ اپنی زندگی کے ہرہر عمل کو آلودگی سے شعوری طور پر بچانا چاہتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر ایک بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی جگہ کارٹون نیٹ ورک کے سپر د کر دی جائے جو اسے روز چار سے چھے گھنٹے تک دوسروں کو تکلیف پہنچانے ، چکر دینے اور مارنے کی تعلیم دے ، پھر اس سے یہ امید رکھنا کہ اس میں اخلاقی اقدار پیدا ہوں گی ، ایک نیک خواہش سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

تہذیبی اور ثقافتی اسباب

حصولِ آزادی سے قبل غیرمنقسم خطے میں حصولِ آزادی کے لیے جدوجہد کے عمل سے جو مسلمان قوم وجود میں آئی وہ اپنی ترکیب میں ایک منفرد قوم تھی۔اس انفرادیت کی بنیاد نہ ہندستان کی زمین تھی،نہ یہاںکا پانی اور ہوا،نہ ان کا رنگ و نسل ، نہ ان کے معاشی فوائد ، نہ ان کی قبائلی اور علاقائی وابستگی۔ وہ جنوب ہند سے ہوں، یا سرحد کے غیور افراد، وہ پنجابی بولنے والے ہوں یا بنگالی بولنے والے ،وہ تاجر ہوں یا ملازمت پیشہ ، ان کا رنگ گندمی ہو یا سیاہ یا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہوں ، ان سب نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہونے کا اعلان اور پاکستان کے حصول کے لیے نعرہ بلند کیا تاکہ یہاں اپنی تہذیب و ثقافت اور دین کو آزادی کے ساتھ قائم کرسکیں۔ یہ تہذیب نہ بلوچی تھی ، نہ پنجابی، نہ پشتون، نہ سندھی،بلکہ اسلامی اور صرف اسلامی تھی۔لیکن ملک بننے کے بعد بانیِ پاکستان اور بانیانِ پاکستان کے تصورات کو پس پشت ڈال کر عصبیت ، علاقائیت اور صوبائیت کو فروغ دیا گیا  اور ملّی یک جہتی کے لیے کو ئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا گیا ۔

اس خلا کو مغربی تہذیب اور لادینیت نے پُر کیا اورہماری تعلیم ، تجارت ، سیاست، تمدن، معیشت اور ابلاغِ عامہ نے صرف اور صرف لادینیت کی اشاعت کو اپنا مشن قرار دیا۔ تہذیبی زاویے سے دیکھا جائے تو ہم اپنی نئی نسل کو گذشتہ ۷۰برسوں سے اپنی حقیقی تہذیب سے آگاہ نہیں کراسکے۔ ہماری تہذیب میں بچوں کی محبت ، ماں باپ کا احترام، ایثار اور قربانی ، رشتوں کا احترام، سچائی ، ایمان داری، حلال و حرام کا احساس، پاک اور ناپاک میں تمیز بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ ایک فرد چاہے نمازباقاعدہ نہ پڑھتا ہو، لیکن اس میں یہ احساس ہمیشہ رہا کہ وہ رشتوں کا احترام کرے، لیکن جدیدیت ، مغربیت اور مغرب کی مرعوبیت کے نتیجے میں ہم نے نئی نسل کی  تعلیم و تربیت سے اخلاقی اقدار کو خارج کر دیا اور بزعمِ خویش ’جدیدیت‘ کے راستے پر گامزن ہوگئے۔

ہم نے پہلی جماعت کی کتاب سے لے کر بارھویں جماعت کی کتاب سے ہر اس واقعے کو نکال دیا جس سے اخلاق، مروّت، نرمی ، محبت، ایثار، قربانی کا کوئی سبق مل سکتا تھا۔ نوجوانوں میں بے راہ روی کا ایک سبب یہ تہذیبی اور اخلاقی خلا ہے جو ہمارے نظام تعلیم نے پیدا کیا ہےاور جسے پُر کرنے کی کوشش میں والدین بھی مکمل ناکام رہے ۔

آج ہمیں جس اخلاقی بحران کا سامنا ہے،اس کا ایک اہم سبب تہذیبی اور ثقافتی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ ادارے ہماری تہذیبی پہچان اور ایک وقت میں ہمارے عروج کا سبب تھے۔ لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی اور انھیں اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔      ان اداروں میں سب سے پہلا ادارہ خاندان ہے۔ہماری ثقافت اور تہذیب میں خاندان محض شوہر، بیوی اور ان کے حد سے حد دو بچوں کا نام نہیں ہے، بلکہ خاندان کا مطلب وہ سب رشتے ہیں جو ہماری تہذیب کو وجود بخشتے ہیں ۔

 ہماری تہذیب میں بچے کی آمد وہ لڑکا ہو یا لڑکی ایک با برکت چیز تصور کی جاتی تھی۔کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان افراد کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا تھا جو اپنی تین یا دو یا ایک بیٹی کی صحیح تربیت کر کے اسے صالح لڑکی بنائیں ۔ہم نے جاہلی روایات کو خوش آمدید کہتے ہوئے لڑکیوں کی پیدایش کو ناپسند کیا اور جاگیر دارانہ ثقافت میں ان کےمقام کو ہمیشہ کم تر سمجھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بچوں اور خواتین پر جنسی زیادتی کے واقعات کا تناسب ملک کے ان حصوں میں زیادہ ہے ، جہاں جاگیردارانہ ذہن معاشرے پر حاوی ہے۔

ہم نے اپنی تہذیبی روایات کو چھوڑ کر جس کی پہچان شرم و حیا تھی، بے حیائی کے ساتھ عریانیت اور جسم کی نمایش کو اپنے معاشرے میں ہر سطح پر عام کر دیا۔آج ہمارے اخبارات ہوں،  ٹی وی نیٹ ورک ہوں، ہر جگہ عریانیت کو عام کر دیا گیا ہے۔اس کے اثرات دیکھنے والوں پر شہوانیت ہی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جنسی جذبات و ہیجان کو ابھارنے میں ہمارے ابلاغ عامہ کا کردار بڑا واضح نظر آتاہے۔ظاہر ہے تعلیم اخلاق و تربیت سے خالی ہو اور ۲۴گھنٹے جو مناظر   ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہوں اور وہ جنسی جذبات کو اُبھارنے والے ہوں اور پھر مخلوط معاشرت کو جانتے بوجھتے فروغ دیا جائے، تو نوجوانوں میں بے راہ روی کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے ۔

مغربی سامراجیت ، لادین جمہوریت ، خود پرست انسان، انفرادیت پسند معاشرتی تصوّر کو ’جدیدیت‘ کے زیر عنوان ہمارے اخبار نویسوں ، دانش وروں ، سیاستدانوں نے ملک پر مسلط کرنے کے لیے تعلیم ،معیشت، معاشرت، ہر چیز کو مغرب کے ساتھ مربوط کر دیا ۔ مغربی جمہوریت نے شعوری طور پر خود کو کلیسا کے اثرات سے آزاد کرایا تھا ، ہم نے بھی اس میں خیر سمجھی کہ ’مذہب‘ کو زندگی کے ہر خانے سے خارج کرنے میں پوری قوت صرف کردی جائے۔

پاکستان کی بنیاد ہی اسلام کی آفاقی ، الہامی ، اقدار و اخلاق پر تھی۔ قائداعظم نے خاصی سوچ بچار کے بعد کہا تھا: ایمان، اتحاد ، تنظیم۔ یہ محض تین الفاظ نہیں تھے، بلکہ پورانظریۂ پاکستان ان تین الفاظ کے اندر سمویا ہوا ہے۔ ہم نے اس کا مفہوم آج تک نہیں سمجھنا چاہا ۔

مغربی تہذیب میں جنسی اختلاط ایک روز مرہ کا عمل ہے ۔ اسکول ہوں یا تجارتی ادارے یا سرکاری دفاتر، ہر جگہ مرد و خواتین ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔ ہم نے بھی اسی کو ترقی کی علامت سمجھااور اپنے معاشرے میں ’مساوات‘ کے نام پر مخلوط اداروں کو فروغ دیا ۔ اور یہ بھول گئے کہ  یہ تجربہ خود مغرب میں بُری طرح ناکام رہا ہے۔

مغرب کی مخلوط معاشرت اور معیشت کےحوالے سے صرف امریکا میں اس کے نتائج کو دیکھا جائے تو ہم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ ادارہ والٹر اینڈ میلک (Walters and Melick) کے مطابق امریکا میں ہر سال۱۲لاکھ ۷۰ ہزار خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں، حتیٰ کہ فوج جیسے منظم ادارے میں بھی ان کی عصمت محفوظ نہیں رہتی۔

یورپ اور امریکا میں آج نہیں ۷۰سال پہلے ’جنسی آگاہی‘ کو متعارف کروایا گیا۔ حتیٰ کہ بچوں کے اسکولوں میں مشروبات اور ماکولات کی دکانوںمیں وہ مصنوعات بھی فراہم کر دی گئیں جو جنسی بے راہ روی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ان تمام دانش ورانہ اقدامات کے باوجود اگر دیکھا جائے تو مطبوعہ اعداد و شمار (جو کوئی بھی محقق چند لمحات میں نیٹ سے حاصل کر سکتا ہے)، یہ گواہی دیتے ہیں کہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں جنسی تعلیم نہ اخلاقی بے راہ روی کو روک سکی ،اور نہ اس کی بنا پر معصوم بچیاں درندہ صفت انسانوں کی دست برد سے محفوظ ہو سکیں۔

دُورجانے کی ضرورت نہیں صرف امریکا میں بچوں کے ساتھ جنسی بے ضابطگی کے حوالے سے چلڈرن بیورو  نے ۲۰۱۷ء میں ۲۰۱۵ءکے اعداد و شمار پر مبنی جو رپورٹ طبع کی ہے ، اس کے مطابق امریکا میں ایک سال میں ۱۷۴۰بچے جنسی استحصال کی وجہ سے جان سے گئے۔ گویا روزانہ پانچ بچوں کی موت جنسی استحصال سے واقع ہوئی ۔اس سے بڑھ کر جو چیز افسوس ناک ہے وہ یہ کہ ان میں سے ٪ ۸۰واقعات وہ ہیں جن میں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جب کہ اس ظلم میں ان کے والدین میں سے کسی ایک کا براہِ راست دخل تھا۔ جنسی استحصال کے کُل واقعات میں کم از کم ۶۰کا تعلق جنسی تعلق سے رہا اور ان میں سے ۹۰ فی صد کسی اجنبی کے ہاتھوں شکارنہیں ہوئے ۔اعداد و شمار   یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان حادثات میں تین سال کی عمر سے ۱۷سال کی عمر تک کے بچوں میں     تین سال کی عمر والے۱۰ء۷ فی صد، جب کہ ۱۷سال کی عمر والے ۳ء۵  فی صد بچے تھے۔گویا   اس درندگی میں عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔اور گذشتہ تین سال کے جائزے اس رجحان میں اضافے کا پتا دے رہے ہیں۔

کیا کرنا چاہیے؟

مختلف اسباب پر غور کرنے کے بعد عموماً برقی ابلاغ عامہ اور اخبارات میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں ان میں اولاً: اسکولوں میں جنسی تعلیم ، ثانیاً: تعلیم میں بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں سے خبردار رہنے کی تعلیم تجویز کی گئی ہے ۔یہ وہی حل ہے جو امریکا اور یورپ میں گذشتہ ۵۰ برسوں سے متعارف کیا جا چکا ہے،اور اس کے باوجود اوپر کے اعداد و شمار یہ پتا دیتے ہیں کہ اس حل سے مسئلہ وہیں کا وہیں رہا ۔

مغرب میں بچوں کو جنسی تعلیم دینا اس لیے اختیار کیا گیا کہ وہاں معاشرے نے ’محفوظ جنسی‘ تعلق کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے اگر کوئی دوا یا مانع حمل تدابیرکا استعمال کرنا سیکھ لے تو ان کے خیال میں ایڈز اور حمل دونوں سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ ا س تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ جنسی بے راہ روی کوئی بری چیز نہیں ، صرف احتیاط کر لی جائے تو مناسب ہے !کیا یہ حل ایسے افراد کے لیے جن کا دین نکاح کے علاوہ ہر قسم کے جنسی تعلق کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتا ہو ، قابل قبول ہو سکتا ہے؟

لیکن کوشش یہ کی جارہی ہے کہ ایک جذباتی فضا میں زینب کے سانحے کے سہارے اس مذموم حل کو نافذکروایا جائے ، بلکہ بہت سے اسکولوں میں جنسی تعلیم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔  ہرباشعور پاکستانی اس حل کو رد کرتا ہے ، کیوں کہ یہ اس کے دین ، تہذیب اور اس کی اخلاقی روایات کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حل کہ بچوں کو اپنے رشتہ داروں سے خبردار کیا جائے، خاندان کے ادارے کو تباہ کرنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے ۔کیا خاندان کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ  صرف اپنے ماں باپ پر اعتماد کرے اور باقی ہر رشتے کو شک کی نگاہ سے دیکھے ؟ کیا خاندان صرف   ماں باپ کا نام ہے؟جن مقامات پر یہ فکر اختیار کی گئی ہے وہاں بات رشتہ داروں پر نہیں بلکہ خود والدین تک بھی پہنچی ہے ۔امریکا میں ہونے والے بچوں کے جنسی استحصال میں ۸۰بچوں کی موت میں خود ان کے والدین میں سے کسی کا دخل بتایا جاتا ہے ۔ احتیاط کس کس سے اور کب تک کرائی جائے گی؟

مسئلہ شک و شبہے سے نہیں بلکہ اسلام کے مثبت نظام خاندان سے حل کیا جاسکتا ہے۔  جس میں ماں باپ کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کیا جائے کہ وہ کس طرح تربیتِ اولاد کریں۔ وہ کس طرح محبت اور نرمی کے ساتھ بچوں کو طہارت اور پاکیزہ کردار کی تعلیم دیں ۔ ہمارا فقہی سرمایہ روزِ اوّل سے بچے کو سمجھاتا ہے کہ پاکی اور ناپاکی میں کیا فرق ہے ۔ وہ یہ سمجھاتا ہے کہ وہ نہ اپنے اعضا کسی کو دیکھنے دے، نہ کسی کے اعضا دیکھے ۔ وہ روزِ اوّل سے اس میں ایک اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے جو جنسِ مخالف سے مناسب دُوری اس کی فطرت میں شامل کر دیتی ہے ۔وہ نگاہ کے فتنے سے ، جسم کے لمس سے ، زبان کے فتنے سے ، بچپن سے تعلیم کے ذریعے اپنے گھر کے ماحول میں اسے یہ سب باتیں سکھانا چاہتا ہے ۔ اگر ہم اسلام کی ان عملی اور آفاقی تعلیمات کو خاندان کی   ذمہ داری کے طور پر ادا نہ کریں توقصور خاندان کا ہے یا کسی اور کا ؟

مسئلے کا حل اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں آداب و اخلاق کی تعلیم ہے ۔ یہ کام کتابوں میں جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر نہیں کیا جاسکتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جنسی تعلیم انھیں جنسی تجربے پر اُبھارے گی ،جب کہ پاکیزگی ، عصمت و عفت اور رشتوں کے احترام کی تعلیم انھیں مثبت طور پر ایک صالح معاشرے اور خاندان کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گی ۔

اس کے ساتھ میڈیا کے کردار اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو بد اخلاقی پھیلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کا فوری اور مؤثر تدارک ضروری ہے ۔بعض افسانے اور ڈرامے بھی جنسی جذبات اُبھارنے کا سبب بنتے ہیں۔ ۵۰ کے عشرے میں تو سعادت حسن منٹو پر فحاشی پھیلانے پر مقدمے بھی چلے اور ایک مقدمے میں تو سپریم کورٹ نے انھیں تین ماہ قید ِ سخت کی سزا بھی سنائی۔ اس طرح کے افسانے آج کل بھی لکھے جارہے ہیں۔ لہٰذا ادیبوں کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ اسی طرح فیسٹیول کے نام پر بعض ادارے جو مخلوط گانے بجانے کی مخلوط محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ آزادیِ اظہار بجا لیکن وہ آزادی جو اخلاقی بگاڑ اور بے راہ روی کا ذریعہ بنے ، آزادی نہیں فساد اور تباہی کا آلہ ہے ، جسے ملک کے آئین و قانون اور اخلاقی قدروں کا پابند بنانا ضروری ہے ۔پھر اس نوعیت کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون کی اصلاح ، قانون کا بے لاگ نفاذ ، انتظامیہ ، پولیس اور عدالت کے نظام کی اصلاح اور مجرموں کو قانون کے مطابق بروقت اور قرار واقعی سزا کا دیا جانا اصلاحِ احوال کے لیے اولین ضرورت ہے ۔

روزنامہ جنگ  اور دی نیوز کے صابر شاہ نے ۱۷ جنوری ۲۰۱۸ء کی اشاعت میں ایک چشم کشا جائزہ مرتب کیا ۔ جس میں اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ کے فروغ میں انٹرنیٹ اور میڈیا کے کردار پر بحث کی گئی ہے اور پاکستان اور مغربی دنیا کے حوالوں سے اُن دروازوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، جس سے یہ تباہی خود ہمارے معاشرے کو تہ وبالا کر رہی ہے۔ جہاں ان دروازوں کو بند کرنا ضروری ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو مؤثر سزاکے ذریعے نشانِ عبرت بنانا بھی   ان جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے ۔ صابر شاہ رقم طراز ہیں: ’’ہم میں سے اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ ۱۹۸۱ء میں ’پپو‘ نامی لڑکے کو لاہور کے علاقے باغبانپورہ (نزد شالا مار باغ) سے اغوا کیا گیا اور   چند روز بعد اس کی لاش قریبی ریلوے لائن کے جوہڑ سے ملی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں اغوا کنندگان اور قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی اور ایک ہفتے کے اندر ان مجرموں کو سرعام پھانسی     دی گئی۔ ان مجرموں کی لاشوں کو غروب آفتاب تک لٹکائے رکھا گیا اور اس سخت سزا کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے ایک عشرے یا اس سے زائد عرصے کے دوران وہاں کوئی لڑکا اغوا ہوا نہ کسی کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔

ہمارے مسائل کا حل ہماری اپنی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور مطلوبہ خاندان کی روشنی میں ہونا چاہیے۔درآمد کیے ہوئے حل نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آج ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی مستقبل کی نسلوں سے محبت ہے تو ہمیں خاندان ، نظامِ تعلیم اور ابلاغِ عامہ کو صحیح کردار  ادا کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ اس وقت نہ خاندان اپنا فرض پورا کر رہا ہے ، نہ اسکول اور نہ ریاست۔ ہمیں تینوں محاذوں پر کام کرنا ہو گا۔قانون کا مؤثر استعمال اس کا اہم حصہ ہے۔

ہمارے ابلاغِ عامہ کو آفاقی اسلامی اقدارِ حیات کو متعارف کروانا ہو گا اور عریانیت، فحاشی، اور ہندووانہ ثقافت کو جو اس وقت ہمارے ابلاغ عامہ کی پہچان بن گئی ہے ،خیرباد کہنا ہو گا۔ جب تک ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ اس کام کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچاتے جو ظلم اور زیادتی ملک میں ہو رہی ہے ، اس سے اپنے آپ کو بری نہیں کر سکتے۔