فروری ۲۰۱۸

فہرست مضامین

بچوں پر طلاق کے اثرات اور ان کا تحفظ

ڈاکٹر نازنین سعادت o | فروری ۲۰۱۸ | معاشرت

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے: اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللہِ تَعَالٰی الطَّلَاقُ (ابوداؤد، کتاب الطلاق، باب فی کراھیۃ الطلاق، حدیث: ۱۸۷۶)۔  آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شیطان مردود سب سے زیادہ اس چیلے سے خوش ہوتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کا اثر صرف میاں بیوی پر نہیں پڑتا ، بلکہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔

بچوں پر طلاق کے فوری اور دیر پا اثرات

طلاق کا سب سے زیادہ نقصان دہ اور دیر پا اثر معصوم بچوں پر پڑتا ہے، جس سے ان کی زندگی میںبہت بڑی محرومی پیدا ہوجا تی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کا نظام ہی کچھ ایسا بنایا ہے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں دونوں کا اپنا اپنا کردار اور حصہ ہوتا ہے۔ ماں کا پیار باپ ، یا کوئی بھی اور نہیں دے سکتا اور اسی طرح باپ کا   شفیق سایہ ماں نہیں دے سکتی۔ بچوں کو نہ صرف ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ایسے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے، جو ایک دوسرے سے گہری محبت کرتے ہوں۔ ان کی باہم محبت کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے۔

اس لیے بچوں کی پرورش کے لیے مثالی اور فطری ماحول یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے والے ماں باپ ان کے ساتھ رہیں اور مل کر ان سے بھی محبت کریں۔ انھیں ماں باپ میں سے ہر ایک کی محبت بھی درکار ہوتی ہے اور ’اس خوب صورت ٹیم یا جوڑے کی مشترکہ محبت بھی درکار ہوتی ہے جو دونوں مل کرتے ہیں۔ اسی فطری ماحول میں بچوں کی شخصیتیں صحت مند خطوط پر پروان چڑھتی ہیں۔ جو ماں باپ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں یا معمولی مسئلوں پر اپنی اَنا (ego)کو لے کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں، معصوم بچوں پر وہ سب سے زیادہ   ظلم ڈھاتے ہیں۔ ان کے بچپن کے خوش گوار اور پر مسرت دور کو زہرآلود کر دیتے ہیں، اور زندگی کے بالکل آغاز ہی میں ، ان کی زندگی کا مزا کر کرا کر دیتے ہیں۔

طلاق کا فوری اثر تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے اندر ماں یا باپ کو کھونے کا شدید احساس پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے ۔ بہت سے بچوں کا تعلیمی گراف اس کے بعد تیزی سے گرنا شروع ہو جاتا ہے اور بسا اوقات پھر بحال نہیں ہو پاتا۔ بہت سے بچے ماں باپ کے درمیان دُوری کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ احساسِ جرم ان کے اندر منفی رجحانات پیدا کرتا ہے۔ وہ رات میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتے ہیں۔ بہت سے بچوں کا مزاج بدل جاتا ہے۔ وہ تنہائی پسند ہو جاتے ہیں۔ سماج سے خود کا تعلق توڑ لیتے ہیں۔ کچھ بچے شدید غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی کا مزا لینا چھوڑ دیتے ہیں ۔ نا اُمیدی ، مایوسی ، اور منفی سوچ کے شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ ہی منفی ہو جاتا ہے۔

ان فوری اثرات کا نوٹس نہیںلیا گیا تو یہ اثرات معصوم بچے کے مزاج اور نفسیات پر دیر پا اثرات مرتب کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کا غصے پر قابو نہیں رہتا۔ ساری دنیا سے وہ  نفرت کرنے لگتے ہیں۔ معمولی باتوں پر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ انتہائی صورتوں میں ایسے بچے معاشرے کے متشدد عناصر کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کے لاشعور پر ماں باپ کے تنازعات اور جدائی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانی تعلقات میں محبت اور اعتماد کی قدروں پر بھی بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ وہ کسی سے محبت کر پاتے ہیں اور نہ کسی کی محبت کی قدر یا اس پر اعتماد کر پاتے ہیں۔ ایسے بچے خود بھی مستقبل میں خوش گوار ازدواجی زندگی کے لائق نہیں رہتے ۔

امریکا کے ایک سروے کے مطابق طلاق یافتہ والدین کی بیٹیوں میں طلاق کی شرح دیگر عورتوں کے مقابلے میں ۶۰فی صد زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے بچے ڈرگس یا نشہ وغیرہ کے زیادہ آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ بعض بچوں میں مستقل نفسیاتی امراض، جیسے ڈپریشن یا بی پی ڈی ( Bipolar Disorder) وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ مستقل ڈپریشن ان کے اندر بلڈ پریشر، ذیابیطس وغیرہ جیسے دائمی جسمانی امراض کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ ان بچوں کی تعلیم پر د یر پا اثرات تو بہت عام ہیں۔ وہ تعلیم پر دھیان نہیں دے پاتے۔ زندگی کی امنگ اور کچھ کر گزرنے کا حوصلہ نہ ہونے کہ وجہ سے وہ تعلیم اور کیرئیر میں بھی پیچھے ہٹنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کا اثر ان کے مستقبل پر پڑتا ہے۔

اس طرح طلاق دینے یا لینے سے پہلے شوہر اور بیوی کو ان سب اثرات کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ثالثی کرنے والوں اور کونسلر کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کو ان سب باتوںسے آگاہ کرے اور ان کو احساس دلائے کہ وہ کتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہے ہیںاور اس کے کتنے دیر پا اثرات ان کے بچوں پر پڑ سکتے ہیں۔ طلاق کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو بھی اس کی فکر کرنی چاہیے اور یہ پورے سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر اور بیوی کے اختلافات کو ختم کر کے دوبارہ خوش گوار زندگی شروع کرنے میں ان کی مدد کرے۔ طلاق کو تو ،  آخری صورت میں اختیار کرنا چاہیے جب ساری کوششیں ناکام ہو جائیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اوپر جو نقصانات بتائے گئے ہیں، وہ صرف طلاق یافتہ ماں باپ کے بچوں کو درپیش نہیں ہوتے بلکہ ان ماں باپ کے بچوں کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے درمیان ہمیشہ سخت تنائو ، گالی گلوچ اور مارپیٹ کی صورت رہتی ہے۔ ماں باپ کے درمیان تکلیف دہ تعلقات (abusive relationship)  بچوں کے حق میں طلاق سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ طلاق کے بعد، ان کے اثرات سے بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں لیکن اگر بچوں کی ساری عمر ماں باپ کے درمیان شدید نوعیت کی ناچاقی اور جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے  گزر جائے تو اس کا مداوا بہ مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے طلاق کا آپشن رکھا ہے کہ اگر تعلقات کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے تو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو دوزخ بنانے سے بہتر ہے کہ دونوں الگ ہو جائیں۔

بہر حال وجہ جو بھی ہو، اگر طلاق ہو ہی جائے ، تو اب ماں باپ کی اور ان کے خاندانوں کی بلکہ پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بھی اور اپنے بچوںکو بھی اس کے مضر اثرات سے بچانے کی فکر کریں۔ مغربی ملکوں میں اس کے لیے تربیت یافتہ کونسلروں اور ماہرین کی مدد لی جاتی ہے۔ اس کا انتظام ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے میںبھی ہونا چاہیے ۔ وہ موجودنہ ہو تو خاندان کے بزرگوں اور سماج کے ذمہ دار لوگوں کا یہ فرض ہے کہ وہ پورے شعور اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی مدد کریں اور انھیں صحیح مشورے دیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ زندگی ہے۔ ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی اسلامی شریعت نے بہت واضح احکام دیے ہیں۔ یہ احکام ہمارے خالق ومالک نے ہمارے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر ہمارے ہی فائدے کے لیے دیے ہیں۔ جو لوگ کونسلنگ کا یا طلاق لینے والے جوڑے کو مشورہ دینے کا کام کریں، انھیں اس ضمن میں اسلامی احکام سے بھی واقف ہونا چاہیے اور جدید نفسیات کے اصولوں اور تکنیکوں سے بھی۔

مختلف عمر کے بچوں پر طلاق کے اثرات

ہر عمر کے بچوں کے شعور اور جذبات کی سطح مختلف ہوتی ہے اور ہر عمر کی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ان کی عمر کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر گھر میں الگ الگ عمر کے کئی بچے ہوں تو ان سب سے ان کی عمر کے لحاظ سے الگ الگ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ اور ماں یا باپ کا رویہ ایسا ہونا چاہیے جو ان سب بچوں کی ضرورت کے مطابق ہو:

  •  پانچ سال سے کم عمر کے بچے طلاق جیسے پیچیدہ معاملے کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔ البتہ،   ماں باپ لڑتے جھگڑتے ہوں یا طلاق کے بعد ماں یا باپ بہت افسردہ اور ہر دم روتے یا چیخ پکار کرتے رہیں تو بچے کا لاشعور اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ ایسے بچوں کے والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ممکنہ حد تک بچے کو مطمئن اور نارمل نظر آئیں۔ اس عمر کے بچے کا انحصار بہت زیادہ اپنے والدین پر ہوتا ہے۔ خصوصاً ماں پر تو وہ اپنی زندگی کی ہر ضرورت کے لیے منحصر ہوتا ہے۔ اگر ماں دُور ہو جائے تو اس کا اثر اس کے لاشعور پر بہت گہرا ہو سکتا ہے۔

باپ کی جدائی کا بھی اثر ہو سکتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ باپ نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کا حل یہی ہے کہ اس کے معمولات کو کم سے کم ڈسٹرب کیا جائے، اور طلاق کے بعد بھی باپ اس سے برابر ملتا رہے۔ اس کو باپ کے گلے لگنے ، اس کو پیار کرنے وغیرہ کے مواقع معمول کے مطابق ملتے رہیں۔ اگر ان بچوں کے مزاج میں اچانک تبدیلی واقع ہو جائے ، ان کی شخصی تعمیروترقی کا عمل رُک جائے یا پیچھے ہو جائے (مثلاً وہ پھر سے انگوٹھا چوسنا شروع کر دیں یا خود سے باتھ روم جانا بند کر دیں)، رات میں بار بار اٹھنے لگیں یا اچانک چڑ چڑے ہو جائیں، تو یہ گہرے نفسیاتی اثر کی علامات ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں کسی ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔

  •  چھے سے آٹھ سال کے بچے، سوچنا اوراپنے جذبات کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے بچوں کو آسان طریقے سے لیکن صاف صاف بتائیے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ماں یا باپ ایک دوسرے پرالزام تراشی کے بغیر صرف اس بات کی وضاحت کر دیں کہ اب وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو رہے ہیں لیکن بچے سے الگ نہیں ہو رہے۔ اس کو ان کی محبت پہلے کی طرح ملتی رہے گی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اس سے سنیں اور اس کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
  •  نو سال سے ۱۱سال کے بچے چیزوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ماں باپ کے درمیان شدید تنائو ہے۔ ماں یا باپ میں سے کسی ایک کو وہ قصور وار ٹھیرانا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن ان کا لا شعور فیصلہ کرنے کے لیے معلومات آپ کے رویوں ہی سے حاصل کرتا ہے۔ اس لیے اگر ماں باپ، ان کی خود اعتمادی اور عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں    ایک دوسرے کی بُرائی کرنے سے بچنا چاہیے۔ یہ بچے طلاق کے بعد مستقل ماں باپ کے    دوبارہ ملاپ کے خواب دیکھتے ہیں۔ خود کو قصور وار سمجھ سکتے ہیں۔ انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے اور اب یہ تبدیلی مستقل ہے۔ ماں باپ دوبارہ نہیں مل سکتے۔
  • ۱۲ سال کی عمر کے بعد بچے کے اندر آزاد انہ سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔  ایسے بچے سوالات کرتے ہیں ۔ ماںباپ کے رویوں پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ بچوں کے اس عمر سے، گھر کے باہر تعلقات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ دوستوں کے حلقوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ایک اثر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گھر میں رہنا کم کردیں اور باہر سکون اور محبت تلاش کرنا شروع کر دیں۔ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مجھے نہ تمھاری ضرورت ہے اورنہ تمھارے مسئلوں سے  کوئی سروکار ۔ لیکن اندرونی طور پر وہ بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں ۔ ایسے بچوں سے کھلے ماحول اور پیار کے ساتھ ، ان کے جذبات کی رعایت کرتے ہوئے اور ان بدتمیزیوں کو گوارا کرتے ہوئے بات کرنا اور ان کے اعتماد کو جیتنا ضروری ہوتا ہے۔
  • ۱۴سال سے زیادہ کی عمر، یعنی ٹین ایج نفسیاتی لحاظ سے سب سے مشکل عمر ہوتی ہے۔  عام حالات میں بھی اس عمر کے بچوں کی تربیت سب سے مشکل کام ہے۔ طلاق کے اثرات کے معاملے میں بھی اس عمر کے بچوں کا مسئلہ سب سے زیادہ شدید اور واضح ہوتا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن اور تنائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والد یا والدہ ، جو اس سے  دُور ہو گیا ، اس کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اب اس کو اس سے محبت نہیں رہی۔ گھر سے نکلتے ہیں تو یہ خوف انھیں ستاتا ہے کہ کہیں واپس آنے پر گھر ان سے چھن نہ جائے۔ والدین کے سلسلے میں یا کسی ایک کے سلسلے میں انتہائی شدید منفی تصورات پیدا ہونے لگتے ہیں۔

اس نفسیاتی دبائو کے نتیجے میں ان کے اندر جارحیت بڑھ سکتی ہے۔ ڈرگس یا نشے کی عادت لگ سکتی ہے۔ وہ گھر سے فرار ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کے اسکول کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہو، روز مرہ کی سرگرمیوں میں ان کی دل چسپی کم ہو رہی ہو، وہ خاموش خاموش رہنے لگے ہوں، یا خود کو نقصان پہنچانے والے کام کرنے لگے ہوں،تو فوری ماہر نفسیات کی مدد لینی چاہیے۔

مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کی تدابیر

طلاق سے پہلے یا اس کے بعد بچوں کے سلسلے میں ماں باپ کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، اس کے سلسلے میں کچھ مشورے نیچے درج کیے جا رہے ہیں۔ ان مشوروں پر عمل ہو تو اس کا امکان ہے کہ بچوں پر طلاق کے مضر اثرات کم سے کم ہوں اور وہ بھی دیگر بچوں کی طرح نارمل زندگی گذارسکیں۔ طلاق لینے والے ماں باپ کو ان باتوں کی ضروری تربیت دی جانی چاہیے:

۱- بچوں کو طلاق کے بارے میں قبل از وقت بتائیں۔ یہ نفسیات کا بنیادی اصول ہے کہ اچانک پہنچنے والے صدمے کا نفسیاتی نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔ کسی حادثے میں اچانک مرنے والے جوان آدمی کے اعزہ کو جو صدمہ پہنچتا ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو ایک کینسر کے مریض کی اندیشے کے مطابق موت سے ہوتا ہے ۔ اس لیے بچوں کو پہلے ہی بتایا جائے کہ اب ان کے امی ابو ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں۔ یہ بات ماں بھی پیار اور محبت سے سمجھا کربتائے اور باپ بھی بتائے ۔ ان کو یہ بھی ذہن نشین کرایا جائے کہ اس دوری کا سبب وہ، یعنی بچہ نہیں ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ماں باپ کی یہ بھی کوشش ہونی چاہیے کہ یہ خبر دیتے ہوئے ایک دوسرے کی بُرائی نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھیرائیں۔ یہ ایک مشکل بلکہ بہت مشکل کام ہے۔ لیکن بچوں کے مستقبل کے لیے ماں باپ کو کم سے کم یہ مشکل ضرور برداشت کرنی چاہیے اور اس کی تربیت ان کو دی جانی چاہیے۔

۲۔ بچے کی حوالگی،حضانت(کسٹڈی) کو لے کر جھگڑوں اور مقدمہ بازیوں سے بچیں۔ یہ بچے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ہوتی ہے۔ وہ اگر ماں باپ کے درمیان تنازعے کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھنے لگے تو یہ احساس اس کی شخصیت کوتباہ کر کے رکھ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے     عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ طلاق کے بعد باپ بچے کی حضانت کے لیے جھگڑے شروع کر دیتے ہیں، اور بچے کو لے کر مارپیٹ ، مقدمہ بازی اور پولیس ، ان سب کی نوبت آ جاتی ہے۔ بچہ دونوں کے درمیان فٹ بال بنا رہتا ہے اور اس دوران ایسی نفسیاتی کیفیتوں سے گزرتاہے جو اس کی خوداعتمادی ، عزت نفس اور زندگی کے جوش اور اُمنگ کو بُری طرح مسل کر رکھ دیتی ہیں۔ کاش کہ ماں باپ سمجھیں کہ ایسا کر کے وہ اپنے بچے پر کتنا بڑا اور ناقابل تلافی ظلم ڈھا رہے ہیں۔ یہ سب اسلام کی تعلیم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔

اسلام نے اس سلسلے میں بہت واضح تعلیم دی ہے۔ حضانت (یعنی بچے کی کسٹڈی یا تربیت) کے احکام فقہ کی ہر کتاب میں مل جاتے ہیں۔ شریعت نے ہدایت کی ہے کہ چھوٹے بچوں، یعنی سات سال سے کم عمر لڑکوں اور نابالغ لڑکیوں کی حضانت کے لیے ماں کو ترجیح دی جائے۔ یہ ماں کا حق ہے اور ماں نہ ہو تو اس کے بعد نانی ، پھر دادی، پھر بہن اور پھر خالہ کا حق ہے۔ بچے کی کفالت کا خرچ اس کے باپ کے ذمے ہے۔ ان معاملات میں بعض فقہی اختلافات بھی ہیں ۔ یہاں فقہی مسائل بیان کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانا پیش نظر ہے کہ اس سلسلے میں واضح احکام شریعت نے دیے ہیں، اور ایک مسلمان کے لیے اس مسئلے پرکسی تنازعے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجایش ۔ شریعت کے احکام کی پابندی کی جائے گی تو ایسے جھگڑوں کی نوبت ہی نہیں آئے گی جو بچے پر بُرا اثر ڈالتے ہیں۔

۳- بچے کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگرچہ بچہ ماں کے پاس رہ رہا ہو تب بھی اسے باپ کے ساتھ بھی وقت گزارنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ماں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بچے کا حق بھی ہے اور اس کی شدید نفسیاتی ضرورت بھی ۔ باپ کے سایۂ شفقت سے   وہ محروم رہے گا تو اس کا بُرا اثر پڑے گا۔ طلاق سے شوہر اور بیوی کا باہمی رشتہ ختم ہوا ہے، نہ باپ بیٹے کا رشتہ ختم ہوا ہے اور نہ ماں بیٹے کا۔ باپ کی زندگی میں، اپنے بیٹے کو یتیمی کی زندگی پر مجبور کرنے والی ماں کوئی اچھی ماں نہیں ہو سکتی۔ باپ (یا ماں ) سے ملاقات اور اس کے ساتھ  وقت گزاری کے لیے باقاعدہ شیڈول اور اصول طے کیے جا سکتے ہیں۔ باپ کو یہ حق بھی ملنا چاہیے کہ وہ بچے کو تحفے دے، اسے کھلائے پلائے ، اس کی خوشیوں میں شریک ہو۔ اگر بچہ باپ سے ملنے گیا ہے تو ماں کو ہرگز یہ ظاہر نہیں کرنا چاہیے کہ اس سے اسے دکھ ہوا ہے۔ اگر ماں باپ، ایک دوسرے سے ملنے پر بچے سے ناراض ہو جائیں یا بچے کو لگے کہ یہ ملاقات ماں یا باپ کو پسند نہیںہے، تو اس کا اثر بھی بچے پر بہت بُرا پڑتا ہے۔

اسلام نے بھی اس کو ضروری قرار دیا ہے کہ طلاق کے بعد بھی بچے کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ وقت گزارنے کا اور ان کی محبتوں اور شفقتوں سے فیض اٹھانے کا موقع ملتا رہے۔ حضانت (ماں کے ذمے ) اور کفالت (باپ کے ذمے ) کی تقسیم کار کے ذریعے اسلا م نے اس کا مؤثر انتظام کیا ہے کہ بچے کا تعلق دونوں سے ہمیشہ برقرار رہے۔

۴-ماں باپ ایک دوسرے کی بُرائی نہ کریں اور نہ ایک دوسرے کی شخصیتوں کو بچے کی نظروں میں مجروح ہونے دیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے سے جدائی ، عام طور پر تنازعے ، لڑائی اور اَنا کے ٹکرائو کا نتیجہ ہوتی ہے۔ایسی صورت میں اکثر عقل اندھی ہو جاتی ہے۔ دوسری پارٹی کی کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی اور وہ سرا سر شر لگتا یا لگتی ہے۔ اس ماحول میں یہ بہت مشکل ہے کہ ایک دوسرے کی بُرائی بیان کرنے سے خود کو روکا جائے۔ لیکن یہ بھی بچے کی بڑی ضرورت ہے۔ سابقہ شوہر کی حیثیت عورت کے لیے تو ایک ایسے ناپسندیدہ مرد کی ہے جس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے بچے کے لیے وہ بہر حال اس کا باپ ہے، جس کے اثرات وہ ہرحال میں قبول کرے گا۔ اگر باپ کی بہت خراب تصویر بچے کے لاشعور میں بیٹھ جائے تو وہ ایک خراب انسان کے بیٹے کے طور پر ہی پرورش پائے گا۔ ان خرابیوں کو، جن کا صحیح یا غلط طور پر، متواتر ذکر ہورہا ہو، اس کا لاشعور موروثی خرابیوں کے طور پر قبول کرے گا اور باپ کی اتباع میں  یہ درست یا فرضی خرابیاں اس کی شخصیت کا جز بنیں گی۔ با پ سے نفرت یا اس کے بارے میں لاشعور میں غلط تصویر کسی بھی بچے کی نفسیات پر کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کو تاریخ میں ایسی عظیم عورتوں کے واقعات بھی ملتے ہیں جنھوں نے زندگی بھر اپنے ظالم ، وحشی ، لٹیرے ، شرابی یا عادی مجرم شوہر کی خرابیوں کو اپنے بچوں سے چھپائے رکھا، اور کوشش کی کہ ان خرابیوں کا کوئی اثر ان کے بچوں پر نہ پڑے ۔ بچے اپنے باپ کے اچھے پہلوئوں کو تو جانیں لیکن خراب پہلو ان کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہیں۔ 

یہی معاملہ شوہر کا بھی ہے۔ وہ اگر اپنی مطلقہ کے تئیں نفرت اپنے بچوں میں پیدا کرتا ہے تو دراصل ان کے اندر اپنی ماں سے نفرت پیدا کرتا ہے اور قطع نظر اس کے کہ ایسی نفرت کی بنیاد یں صحیح ہیں یا غلط ، ماں سے نفرت بذات خود ایک بُرائی اور ایک نفسیاتی عیب ہے اور بہت سے نفسیاتی عوارض کا سبب بھی ۔

اس لیے ماں باپ کو یہ سمجھایا جائے کہ اب ان کا رشتہ ختم ہو گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ ایک دوسرے کی بُرائی سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ البتہ ان کے بچوں کا بہت کچھ چھین جائے گا۔

۵- بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعمیری اور صالح سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔ ان کو اچھی صحبت فراہم کی جائے۔ ان کے جذبات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جائے۔ یہ ضرورت تمام بچوں کی ہے ۔ لیکن چونکہ والدین کی جدائی کے صدمے کی وجہ سے طلاق یافتہ والدین کے بچے زیادہ حساس اور زیادہ نازک طبع ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کے سلسلے میں ان باتوں کا زیادہ توجہ کے ساتھ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔