پاکستانیات


 آپ معاشرے کے وہ منتخب، سنجیدہ اور فہمیدہ لوگ ہیں ، جو اپنے اپنے شعبۂ علم میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دلی مبارک باد اور بھرپور تحسین کے مستحق ہیں کہ اسلام کے غلبے اور ملک و ملّت کی فلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ پھر یہ حقیقت بھی اپنے ذہن میں تازہ رکھتے ہیں کہ  علّامہ محمد اقبال جیسے عاشقِ قرآن اور عاشقِ رسولؐ نے اس مملکت کا تصور پیش کیا۔ قائداعظمؒ ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست کا قیام عمل میں لائے، اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے قیامِ پاکستان کے بعد اسے ایک واضح نظریاتی اور آئینی سمت دی۔

ہم آج جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں، اس میں دنیا کی فکری سمت بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ دنیا کا نقشہ بھی بدل رہا ہے، ٹکنالوجی کی تیزرفتار ترقی اور میڈیا کی یلغار نے معاشرے کی قدروں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ طریقۂ تعلیم اور معیارِ تعلیم کے زاویے بدل گئے ہیں۔ سرمایے کی گردش نے سوچ، فکر اور نظریات کو تبدیل کر دیا ہے۔ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے  خاص طور پر ہمارے معاشرے کو تتربتر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اچھی حکمرانی ایک خواب لگتا ہے۔ معاشرتی نظم و ضبط زوال پذیر ہے۔ دورِحاضر کے ان چیلنجوں سے آج کا پاکستان اور اسلامی تحریک بھی اسی شدت سے دوچار ہیں۔ ان سے نکلنے کے لیے ایک نقشۂ کار کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اہلِ علم آپس میں ملیں اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ ہوں۔ پھر درپیش مسائل و مشکلات سے نمٹنے کے لیے باہم مشورہ کریں۔

علم، اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت بیش قیمت تحفہ ہے۔ اس لیے جو صاحب ِ علم ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ علم کی اس روشنی کو اللہ کی اطاعت اور بندوں کی فلاح کے لیے استعمال کریں۔

اسی طرح علم کا تعلق دعوت سے بھی ہے۔ دعوت نام ہے اسلام کی طرف بلانے اور دلائل کے ساتھ اسے اللہ کے بندوں کے سامنے پیش کرنے کا، اور زندگی کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرنے کا۔ اسی طرح دعوت نام ہے شکوک و شبہات کو دُور کرنے کا۔ اسلام کا علم جتنا زیادہ پھیلے گا، شہادتِ حق کا کام اسی قدر آسان ہوگا اور عوام الناس اسی رفتار سے اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے آئیں گے۔

سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیب و تمدن کی سطح پرکوئی پیش رفت، علمی جدوجہد کے بغیر نہیں کی جاسکتی، اور سیاسی کامیابی بھی دراصل علمی محاذ پر کامیابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسلام کا غلبہ   علمی خدمت کے بغیر ممکن نہیں۔ اصحابِ علم و دانش کی قیادت، فکری رہنمائی اور علمی لحاظ سے برتری کامیابی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اِسی فرض اور ذمہ داری کا شعور اُجاگر کرنا موجودہ زمانے کا سب سے اہم چیلنج ہے۔

مستقبل میں تحریک اسلامی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تحریک ِ اسلامی ایک علمی تحریک کے طور پر اپنی نظریاتی ساکھ کو ٹھوس بنیادوں پر مضبوط کرے، اپنے کارکنان اور اپنی قیادت کو    علمی لحاظ سے مضبوط بنائے اور حق کی دعوت کو علم و دلیل کی قوت سے پیش کرے۔

پاکستان کی تعمیر و ترقی اور تحریک اسلامی کی جدوجہد سے وابستگی رکھنے والے تحقیق کاروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حق کی اشاعت کریں، باطل کے جھاڑ جھنکار کی صفائی کریں اور ایمان و یقین کی فضا کو چاروں طرف پھیلائیں۔ ان شاء اللہ، اس سے اسلام غالب ہوگا، معاشرے کی اصلاح ہوگی، سیاست، معیشت، معاشرت، ثقافت اور مملکت کے تمام شعبوں میں بہتری آئے گی۔

آج کی دُنیا پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر بے پناہ مادی ترقی اور روز مرہ سہولتوں کی دست یابی کے باوجود انسانیت سسک رہی ہے، پریشان ہے، خوف زدہ ہے اور مایوس بھی۔ ان تکلیف دہ مسائل کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دنیا کا نظامِ کار اور تبدیلی کا عمل توحید کے بنیادی تصورات پر مبنی نہیں ہے۔توحید سے انکار درحقیقت آخرت کی جواب دہی سے انکار ہے۔ یہ کمزوری یا بیماری ہی دراصل انسانی دُکھوں کا مرکز ہے۔ ہمیں توحید ، توحید کے پیغام اور توحید کے تقاضوں کو اپنے ایمان، اپنے علم اور اپنے طرزِ زندگی کا محور بنانا ہے۔

مولانا مودودی  نے تحریکِ اسلامی کی کامیابی کی شرائط  میں ایک جگہ فرمایا ہے: ’’دنیا میں جو نظامِ زندگی بھی قائم ہے اُن کو اعلیٰ درجے کے ذہین اور ہوشیار لوگ چلا رہے ہیں اور ان کی پشت پر مادی وسائل کے ساتھ عقلی اور فکری طاقتیں اور علمی و فنی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرے نظام کو قائم کردینا اور کامیابی کے ساتھ چلا لینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ سادہ لوح خواہ کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں اس سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے گہری بصیرت اور تدبر کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دانش مندی اور معاملہ فہمی درکار ہے‘‘۔

اس پس منظر میں تحقیق،تحریر، مکالمے اور دانش کی دنیا سے تعلق رکھنے والے قابلِ قدر افراد سے تحریک اور اُمت کی بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ انھیں رجحان ساز طبقے کی حیثیت سے رہنمائی کرنی ہے اور یہ کام کم از کم حسب ذیل نکات کی صورت میں ضرور کیا جانا چاہیے:

  •  علم، تحقیق اور فکر کی دنیا میں اسلامی رجحانات کا فروغ اور غیر اسلامی فکری تصورات کا دلیل سے مقابلہ۔
  •  تحریک اسلامی کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں علمی کام کے ذریعے قوت فراہم کرنا۔
  •  سیکولرزم ایک جارح نظریے کے طور پر ایمان، اخلاق، تہذیب بلکہ قومی سلامتی پر حملہ آور ہے۔ اس یلغار کا احساس اور شافی جواب ۔
  •  مختلف پالیسیوں پر اسلام کی منشا کے مطابق موقف پیش کرنا۔
  • تعلیم، نصاب، تعلیمی انتظامیات اور تدریس کے ماحول میں اسلام کے عادلانہ ، فکری اور رفاہی رجحانات کا فروغ۔
  • ملک میں عمومی سطح پر تحقیق کے ذوق کی آبیاری اور اپنے تحقیقی یا دل چسپی کے میدانوں میں اسلامی فکر کی بنیاد پر تحقیق و تجزیے کی ترویج۔
  •  اسلام کا دفاع اور شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے جدوجہد ۔
  • عربی، انگریزی میں کام کرنے کے ساتھ خود مقامی زبانوں میں بھی کام کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسلام کے عطا کردہ فہم کا تقاضا بھی ہے اور دعوت کا ذریعہ بھی۔ اسلامی افکار و علوم کے تحت اعلیٰ درجے کا فکری اور اطلاقی کام ۔
  • پاکستان کا نظامِ حکومت اور نظامِ ریاست آپ کی توجہ اور مطالعے کا موضوع رہنا چاہیے۔ آج ہماری معاشی پالیسی ہو یا ماحولیاتی پالیسی، یہ سب غیروں کے ہاتھوں میں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، اُن کا حل ڈھوندنے کے لیے بھی ہمیں مغرب، عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی بنک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ پالیسی سازی کے مباحث ملک کے پالیسی سازاداروں، حکومتی ایوانوں اور قومی تحقیقی اداروں میں موضوعِ بحث نہیں بنتے۔ یہاں تک کہ قانون سازی جیساحساس کام بھی پارلیمنٹ میں اپنی اصل روح کے ساتھ نہیں ہوپاتا۔

اس صورتِ حال میں ملک و ملّت کی آیندہ نسلوں کی ذمہ داری آپ کے سوا کون اُٹھا سکتا ہے کہ نوخیز نسل کے فکروعمل کو اسلام کی روح کے مطابق ڈھالا جائے۔ اس ضرورت کو اپنی تعلیم وتربیت کی بنا پر آپ ہی پورا کرسکتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی علمی کاوشیں تحریک اسلامی کی جدوجہد کا جزولاینفک بنیں۔ جماعت کے مرکزی شعبۂ تحقیق و تجزیہ اور ادارہ معارفِ اسلامی کراچی اور لاہور سے آپ کا براہِ راست تعلق بنے، تاکہ آپ کا تحقیقی کام تحریک اسلامی اور اسلامی و خوش حال پاکستان کے لیے ممدومعاون ثابت ہو۔

قائد اعظمؒ نے واشگاف لفظوں میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ تحریک پاکستان کا مقصد صرف ’آزادی ‘ نہیں بلکہ ’اسلامی نظریہ‘ ہے۔ سیکولر تہذیب کے علَم برداروں، انگریز اور کانگریس سے اس اصول کو تسلیم کرا لینا اور مغربی تہذیب کے غلبے کے دور میں ، جو مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے اصول پر قائم ہے، اس نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد ریاست کا قیام ملت اسلامیہ پر اللہ کا خصوصی کرم تھا۔ لیکن پاکستان میں سیکولر سوچ کا حامل ایک قلیل گروہ اس بنیاد کو کمزور اور پاکستان کے حقیقی وژن کو غبار آلود کرنے کے لیے مسلسل پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ قائد اعظمؒ تو پاکستان کو  ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے، اور نظریۂ پاکستان اور ’اسلام ‘ محض انتہا پسند ملاّئوں کی اختراع ہے۔ اس بات کو بعض سادہ لوح علما نے بھی قبول کر لیا کہ قائد اعظمؒ محض ایک سیاسی رہنما تھے اور ان کے پیش نظر کوئی اسلامی نظریہ نہ تھا۔

قائد اعظمؒ کی جس تقریر کی بنیاد پر ان کے تصّور ِ ریاست کو سیکولر قرار دیا جاتا ہے وہ ان کی ۱۱ ؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر ہے۔ اقتباس ملاحظہ کریں:

You are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this state of Pakistan.

اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں: اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں___  مزید فرمایا :

میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان ، مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ترجمہ: اقبال احمد صدیقی، بزمِ اقبال، لاہور،جلد چہارم، ۱۹۴۶ء- ۱۹۴۸ء،ص ۳۵۹-۳۶۰ )

یہ ہیں وہ الفاظ جن کی بنیاد پر قائد اعظمؒ کے ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کے تمام ارشادات کی نفی کی جاتی ہے۔ حالانکہ یہاں ان کا مقصد غیر مسلم اقلیتوں کو اس امر کا اطمینان دلانا ہے کہ تمام غیر مسلم اقلیتوں کو اس نئی اسلامی ریاست میں عقیدہ وعبادات اور معاشرتی ومذہبی رسوم ورواج کی ادایگی کی پوری آزادی ہو گی، نیز پاکستان میں کسی کو مذہبی جبر کا اختیار نہ ہو گا۔  قائد اعظمؒ جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ملک میں قانون سازی اسلامی اقدار کو سامنے رکھ کر ہی کی جائے گی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جب ’قرار دار ِ مقاصد‘ پاس ہوئی تو اس میں وہ تمام باتیں شامل تھیں جو کسی بھی اسلامی دستور کا حصہ ہونا چاہییں۔

اب یہ بات انصاف کے منافی ہے کہ ایک شخص کے ایک جملے یا اقتباس کو لے کر اس کے دس سالہ تمام فرمودات اور اعلانات کی نفی کر دی جائے۔ قائد اعظمؒ کے بارے میں اس بات کو تو دوست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دہرے کردار کے حامل سیاستدان نہ تھے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے محض لوگوں کے جذبات کو اپیل کرنے کے لیے اسلام کا نام لیا ، بہت بڑی جسارت ہے۔ ذیل میںہم قائد اعظمؒ کے ان ارشادات کو پیش کرتے ہیں، جن سے یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ قائد اعظمؒ نہ صرف اسلام کے مکمل ضابطہ ٔ حیات ہونے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے قائل تھے بلکہ وہ مغربی جمہوریت اور مغربی نظام معیشت سے نالاں تھے۔ بزمِ اقبال لاہور نے ان کے اخباری بیانات اور تقاریر اور ان کے ترجمے کو چار چار جلدوں میں شائع کیا ہے جن میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

اسلام ایک حقیقت پسند اور عملی نظام

قائد اعظمؒ دین اسلام کو محض ایک پوجا پاٹ کا مذہب تصور نہ کرتے تھے بلکہ وہ اسے اجتماعی زندگی کا مکمل ضابطہ تصور کرتے تھے۔ وہ دین اسلام کو محض ایک مذہبی نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند اور عملی نظام تصور کرتے تھے۔ چنانچہ ۳فروری ۱۹۳۸ءکو طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

اسلام کے معنی صرف دین نہیں ہے۔ اسلام کا مطلب ہے ایک ضابطہ جس کا دنیا میں اور کوئی ثانی موجود نہیں ہے۔ یہ ہے ایک مکمل قانونی اور عدالتی نظام اور معاشرتی اور معاشی نظام۔ اس کے اساسی اور بنیادی اصول ہیں مساوات، اخوت اور آزادی۔

قائد اعظمؒ کے نزدیک اسلام محض روحانی نظریۂ نہیں بلکہ انفرادی واجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی نظام ہے۔ ۸ ستمبر ۱۹۴۵ء میں قائد اعظمؒ کے ’پیغام عید ‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے۔ زندگی کے ہر شعبے پر  من حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔

کیا ان خیالات کے حامل شخص کو کسی طرح بھی سیکولر کہا جاسکتا ہے اور ان خیالات کا اظہار آپ نے پاکستان کے قیام سے صرف دو سال قبل کیا ہے۔

قرآن ایک مکمل اجتماعی ضابطہ

قائد اعظمؒ بھی علامہ اقبالؒ کی طرح قرآن کو روز مرّہ کے مسائل کا حل اور اجتماعی وانفرادی زندگی کا رہنما تسلیم کرتے تھے۔ ان کی نظر میں قرآن مسلمانوں کو سماجی وسیاسی ،معاشی وعسکری، عدالتی وتعلیمی میدانوں میں، نیز مذہبی رسوم سے لے کر روز مرہ زندگی تک، روحانی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، اخلاقیات سے لے کر جرم وسزا تک ہرمعاملے میں رہنمائی دیتا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں اپنے ’عید کے پیغام‘ میں اس پر تفصیلی انداز سے فرمایا:

ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی اُمور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطےکے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، نہ صرف دینیات کے اعتبا ر سے بلکہ سول اور فوجداری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلاکے سوا ہرشخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآنِ کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی ، عدالتی ، فوجداری ضابطہ ہے۔ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک، حقوق العباد سے لے کر فردِ واحد کے حقوق تک، اخلاقیات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں  سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآنِ کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔

پیغمبرؐ اسلام عظیم قانون ساز

قائد اعظمؒ نے ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون (Law Giver ) پیغمبر ؐ اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔

جُدا ہو دیں سیاست سے …

سیکولر ازم کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑہے، وہ اجتماعی وسیاسی معاملات میں دین ومذہب کا کردار ہے ، جب کہ انسانوں کی اصلاح وتربیت کے لیے اسلام کے پیش نظر جو انقلاب برپا کرنا ہے وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک سیاست کو دین کے تابع نہ کر دیا جائے ورنہ بقول اقبال 

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

قائد اعظمؒ پر مخالفین نے ایک الزام یہ لگایا کہ وہ سیاست کے اندر مذہب کو لا رہے ہیں جیسے کہ آج بھی نفاذِ اسلام چاہنے والوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ قائد اعظمؒ بجاے اس پر کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے ،اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارے دین میں سیاست دین کے تابع ہے۔ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا ایک بیان ملاحظہ ہو:

بہت سے لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، بالخصوص ہمارے ہندو دوست۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا پرچم ہے، تو وہ سمجھتےہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں___ یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہمیں فخر ہے!

جمہوریت مگر کیسی …؟

قائد اعظمؒ کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کے دل دادہ تھے۔ حالاںکہ جمہوریت پسند ہونے کے باوجود وہ مغربی جمہوریت سے سوفی فیصد متفق نہ تھے ۔ ان کے نزدیک ڈیمو کریسی گرگٹ کی طرح ہے جو حالات اور ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۹ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں ان کا شائع شدہ بیان ملاحظہ ہو جس میں وہ مغربی جمہوریت کے بجاے اسلامی مساوات اور آزادیِ اظہار کی تائید کرتے ہیں:

 جمہوریت تخیل کے طور سے اور عمل کے اعتبار سے مختلف ہے، اور جمہوریت گرگٹ کی مانند ہے، جو ماحول کے مطابق اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ انگلستان میں جمہوریت اس وضع کی نہیں ہے جیسی کہ فرانس اور امریکا میں ہے۔ اسلام مساوات، آزادی اور اخوت کا قائل ہے، لیکن مغربی طرز کی جمہوریت کا نہیں۔

قائد اعظمؒ کس قسم کی جمہوریت چاہتے تھے وہ ہے اسلامی شورائیت ۔ چنانچہ ۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو سبّی دربار بلوچستان سے خطا ب میں فرمایا:

ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ اسلام کا سبق ہے کہ مملکت کے امور ومسائل کے بارے میں فیصلے باہمی مشورے سے کیا کرو۔

 مسلم قومیت کی بنیاد ___   صرف اسلام

سیکولرازم قومیت کی بنیاد رنگ، نسل، وطن اور زبان کو قرار دیتا ہے لیکن اسلام قومیت کی ان تمام بنیادوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں ۸ مارچ ۱۹۴۴ء کو اپنے خطاب میں فرمایا:

 مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن ، نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہ رہا تھا، وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔  آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرّکہ کیا تھا ؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی اور نہ انگریزوں کی چال___  اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔

قومیت کی بجاے ملّت اسلامیہ

قائد اعظمؒ قومیت کے مغربی تصور کی بجاے ملّت اسلامیہ کے نظریے کے داعی تھے۔ ۲جنوری ۱۹۳۸ء کو پرچم کشائی کے بعد جلسۂ عام سے خطاب کیا جس میں عالمی ملت اسلامیہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کی جھلک نظر آتی ہے:

پرچم آپ کے وقار کی، مسلمانوں کے وقار کی اور اسلام کے وقار کی علامت ہے۔ مسلم لیگ کا پرچم اسلام کا پرچم ہے۔ یہ نئی چیز نہیں۔ یہ گذشتہ ۱۳سو برس سے موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے ہم اسے فراموش کربیٹھے تھے۔ اس پرچم کو بلند کرنے کا مطلب ہے اپنے وقار کو بلند کرنا۔

عالم اسلام کے اتحاد کے نقیب

قائد اعظمؒ پوری ملت اسلامیہ کی وحدت کے علَم بر دار تھے۔ New York Times  میں ۱۳ فروری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ کا ایک انٹرویو شائع ہوا۔ نامہ نگار نے قائد سے پوچھا کہ عربوں کے ساتھ آپ کی ہمدردی کا کیا تصور ہے ؟قائد اعظمؒ نے جواب دیا:

اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میں اعلان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے۔

’’یعنی عربوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے طاقت بھی استعمال کرنا پڑی تو کریں گے‘‘ ۔

قائد اعظمؒ جیسے ٹھنڈے دل ودماغ کے شخص کا ایسی انتہائی بات کہنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عالم اسلام کی بقا کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ کیا ایسی بات کوئی سیکولر لیڈر کہہ سکتا ہے ؟

پاکستان کا مقصد ___  اسلامی تجربہ گاہ کا قیام

قیامِ پاکستان کے بعد ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حکومت پاکستان کے اعلیٰ افسروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا:

پاکستان کو معرض وجود میں لانا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصد کے حصول کے ذریعے کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایسی مملکت تخلیق کریںجہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں جو ہماری تہذیب وتمدن کی روشنی میں پھلے پھولے ۔ اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی اصولوں کو پوری طرح پنپنے کا موقع مل سکے۔

۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے اسی بات کا اعادہ کیا:

اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھابلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھےجہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

واحد تمنّا ___ خدمت اسلام

آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کی واحد تمنّا قرار دیا ۔ ۲۱ ؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کے روزنامہ  انقلاب  لاہور کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

 میری زندگی کی واحد تمنّا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد وسربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غدّاری نہیں کی ۔ میں آپ سے اس کی داد اور شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ میرا خدا    یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔

اقلیتوں کا تحفظ حکمِ قرآن ہـے

قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان کی صورت میں اقلیتوں کو یہ اطمینان دلایا کہ ان کے ساتھ شودروں جیسا برتائو نہیں کیا جائے گا۔ اپنے اس عہد کی تائید میں انھوں نے قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ کا حوالہ دیا ۔ ۲۹ مارچ ۱۹۴۴ء کے سول اینڈ ملٹری  گزٹ میں شائع شدہ رپورٹ ملاحظہ ہو:

کوئی حکومت اقلیتوں میں احساسِ تحفظ اور اعتماد پیدا کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی جس کی حکمت عملی اور پروگرام اقلیتوں کے ساتھ غیرمنصفانہ، ناروا اور ظالمانہ ہو۔ ایک نمایندہ قسم کی حکومت کی کامیابی کی کسوٹی یہ ہے کہ اقلیتوں کو  یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ عادلانہ اور منصفانہ برتائو کیا جائے گا۔ اس ضمن میں ہم دنیا کے کسی مہذب ملک سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ مجھے اعتماد ہے کہ جب وقت آئے گا ہمارے وطنوں میں اقلیتیں یہ محسوس کریں گی کہ ہماری روایات، ہمارا ورثہ اور اسلام کی تعلیمات نہ صرف مناسب اور منصفانہ ہوں گی بلکہ فیاضانہ !

مغرب کے معاشی نظام کی بجاے اسلامی معیشت

قائد اعظمؒ کی نظر میں مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو خوش حال بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے سٹیٹ بنک میں ایک شعبۂ تحقیق قائم کیا۔ یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

مجھے اس بات سے بہت دل چسپی رہے گی کہ میں معلوم کرتا رہوں کہ یہ ریسرچ سیل بنکاری کے ایسے طریق کار کیوںکر وضع کرتا ہے جو سماجی ومعاشی زندگی کے اسلامی نظریات کے مطابق ہوں۔ مغربی معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لاینحل مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ مغربی نظام انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کرنے اور بین الاقوامی میدان میں کش مکش اور چپقلش دُور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگر ہم نے معیشت کا مغربی نظام اختیار کیا تو عوامی خوش حالی کی منزل ہمیں حاصل نہ ہو سکے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے معاشی نظام پیش کرنا ہے جو مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر قائم ہو۔ ایسا کر کے گویا ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دیں گے۔

ان خیالات کے حامل شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ پاکستان کو مغربی تصور کے مطابق سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے ، صریحاً علمی بد دیانتی ہے کہ ۳۷ء سے ۴۷ء تک ان کی ساری جدوجہد میں سواے ایک اقتباس کے کوئی ایسی بات نہیں جو بظاہر سیکولر ازم کی حمایت میں ہو ۔ اور جس جملے پر یہ ساری عمارت تعمیر کی جا رہی ہے، اس سے یہ مفہوم اصل عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔

قائد اعظم ___ اسلام کی تلوار

مغربی لباس میں ملبوس انگریزی میں گفتگو کرنے والا یہ شخص بظاہر بودوباش کے اعتبار سے سیکولر نظر آتا تھا، مگر اس مغربی لباس کے اندر کے انسان کو دشمن بھی اسلام کا سپاہی تصور کرتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک دس رکنی وفد ہندستان کے سیاسی زعما کے موقف کو سمجھنے کے لیے آیا ۔ اس وفد کے ایک رکن مسٹر سورنسن نے بعد میں My Impression of India  نامی کتاب لکھی جس میں اس نے ۱۰؍جنوری ۱۹۴۶ء کو قائد اعظمؒ سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے قائد اعظمؒ کو سیکولر نیا م میںرکھی ہوئی اسلام کی تلوار قرار دیا۔ الفاظ ملاحظہ ہوں:

He (Mr. Jinnah) is a sword of Islam resting in a secular scabbard.

سیکولر عناصر کا یہ کہنا بھی ایک مغالطہ آمیزی ہے کہ علما کی اکثریت نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی یا قائد اعظمؒ  علما کے خلاف تھے۔ علما کے ایک طبقے نے اگر کانگریس کا ساتھ دیا تو علما و مشائخ کے ایک بڑے طبقے نے اپنے اپنے انداز میں دو قومی نظریے اور تحریک پاکستان کے فروغ کے لیے  خدمات انجام دیں۔ اور اس میں ہر مسلک اور مکتب فکر کے علما نے قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ جدوجہد کی:  مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ، مفتی محمد شفیعؒ ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا اطہر علیؒ، مولانا راغب احسنؒ، مولانا ابن الحسن جارچویؒ، مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ، مولانا عبدالستار خاں نیازیؒ، پیرجماعت علی شاہؒ، پیر صاحب مانکی شریفؒ، پیر صاحب زکوڑی شریفؒ، مولانا دائود غزنویؒ وغیرہ نے عوامی سطح پر لوگوں کو تحریک پاکستان کا پشتیبان بنایا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کانگریسی علما کے متحدہ قومیت کے نعرے کو مدلل انداز میں چیلنج کیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تحریک کی تائید کی۔ اسی لیے ان کے انتقال پر مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے قائداعظمؒ کی زیر صدارت ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ قیامِ پاکستان کے صرف چار ماہ بعد مولانا مودودیؒ سے ریڈیو پاکستان پر اسلام کے اخلاقی ، سیاسی، معاشرتی ، اقتصادی اور روحانی نظام پر تقاریر اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ قائد اعظمؒ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ان تاریخی حقائق کو جھٹلائے بغیر قائداعظمؒ کو سیکولر سٹیٹ کاحامی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ قائد اعظمؒ کے واضح نظریات اور نظریۂ پاکستان کے بارے میں نئی نسل کو ابہام اور کنفیوژن کا شکار کرنے والے ملک و قوم کی کوئی صحیح خدمت نہیں کررہے۔

اسلام میں جہاں ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، وہیں عقیدۂ ختم نبوت بھی اس ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ اگر ایمان و اعتقاد کی یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اسلام سے وابستگی کی پوری بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے۔

۲۲مئی ۱۹۷۴ء سے شروع ہونے والی ’تحریک ختم نبوت‘ کے دوران پاکستان کی قومی اسمبلی کے تمام ارکان نے بطور تحقیقاتی کمیٹی جب اپنی کارروائی مکمل کرلی، اور دستور میں ترمیم کرکے  منکرینِ ختم نبوت (قادیانیوں) کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا، تب قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے انگریزی میں ایک طویل خطاب کیا۔ ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ دیا جارہا ہے۔بعض مخصوص این جی اوز ’قادیانیت‘ کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں مذکورہ ترمیم کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ تو صرف علما کے ایک طبقے نے اُٹھایا تھا۔ جناب بھٹو کے زیرنظر خطاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ فیصلہ پوری قوم نے کیا تھا، جس میں علما اور منتخب عوامی نمایندے بھی شامل تھے اور کوئی ایک ووٹ بھی اس ترمیم کی مخالفت میں نہیں ڈالا گیا تھا۔(مترجم)

جناب اسپیکر، میں جب یہ کہتاہوں کہ یہ فیصلہ ایوان کا متفقہ فیصلہ ہے، تو اس سے میرا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلۂ خیال کیا، جن میں تمام پارٹیوں اور ہرطبقۂ خیال کے نمایندے موجود تھے۔ اور آج کے روز جو فیصلہ ہوا ہے، یہ ایک قومی فیصلہ ہے۔

یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اور ان کے جذبات کا عکاس ہے۔ میں نہیں چاہتا ہے کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف و تحسین کا حق دار بنے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مشکل فیصلہ، کئی پہلوئوں سے بہت ہی مشکل فیصلہ، جمہوری اداروں اور جمہوری حاکمیت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا۔

یہ ایک بہت پرانا مسئلہ ہے۔ یہ ۹۰ سال پرانا مسئلہ ہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس نے ہمارے معاشرے میں بہت سی تلخیاں اور تفرقے پیدا کیے ہیں، لیکن آج کے دن تک اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ:   ’یہ مسئلہ ماضی میں بھی پیدا ہوا تھا، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔‘ ہمیں بتایا گیا کہ: ’ماضی میں اس مسئلے پر جس طرح قابو پایا گیا تھا، اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘ مجھے نہیں معلوم کہ ماضی میں اس مسئلے سے کس طرح نبٹا جاتا رہا، لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے کیا کِیا گیا تھا۔

۱۹۵۳ء میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وحشیانہ انداز سے طاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔  جناب اسپیکر اور اس ایوان کے محترم ارکان، کسی مسئلے کو دبا دینے سے آپ اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔ اگر اسی طرح کے کچھ صاحبانِ عقل و فہم، حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کرکے اس مسئلے کو حل کیا جائے اور عوام کے جذبات اور ان کی خواہشات کو کچل دیا جائے، تو ہم شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکال لیتے، لیکن یہ مسئلے کا صحیح اور درست (genuine)حل نہ ہوتا۔ اس سے ابھرے ہوئے جذبات کو دبایا نہ جا سکتا۔ ممکن ہے مسئلہ پس منظر میں چلا جاتا، لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا۔

ہماری موجودہ کوششوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم نے صحیح اور درست حل تلاش کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ درست ہے کہ لوگوں کے جذبات مشتعل ہوئے، اورغیر معمولی احساسات اُبھرے، قانون اور امن و امان کا مسئلہ بھی پیدا ہوا، جایداد اور جانوں کا نقصان ہوا، پریشانی کے لمحات بھی آئے۔ پوری قوم گذشتہ تین ماہ سے تشویش کے عالم میں رہی، کش مکش اور امید اور بے امیدی کے عالم میں رہی۔ طرح طرح کی افواہیں کثرت سے پھیلائی گئیں اور تقریریں کی گئیں۔ مسجدوں اور گلیوں میں بھی تقریروں کا سلسلہ جاری رہا، جس سے اور زیادہ پریشانی ہوئی۔

میں یہاں اس وقت یہ دہرانا نہیں چاہتا کہ ۲۲اور ۲۹ مئی [۱۹۷۴ء] کو کیا ہوا تھا۔{ FR 579 }  میں موجودہ مسئلے کی فوری وجوہ کے بارے میں بھی کچھ کہنا نہیں چاہتا، کہ یہ مسئلہ کس طرح رونما ہوا، اور کس طرح اس نے جنگل کی آگ کی طرح تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرے لیے اس وقت یہ مناسب نہیں ہے کہ موجودہ معاملات کی تہہ تک (genesis)جائوں لیکن میں اجازت چاہتا ہوں کہ اس معزز ایوان کی توجہ اس تقریر کی طرف دلائوں، جو میں نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے ۱۳جون کے روز کی تھی۔

اس تقریر میں ، میں نے پاکستان کے عوام سے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ: ’یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی اور اصولی طور پر مذہبی مسئلہ ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ پاکستان، مسلمانوں کے مادرِ وطن کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ اگر کوئی ایسا فیصلہ کر لیا جاتا، جسے اس ملک کے مسلمانوں کی اکثریت، اسلام کی تعلیمات اور عقیدے کے خلاف سمجھتی، تو اس سے پاکستان کے مقصدِوجود (raison d'etre)اور اس کے تصور کو بھی خطرناک حد تک صدمہ پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ چونکہ یہ مسئلہ خالص مذہبی مسئلہ تھا، اس لیے میری حکومت کے لیے یا ایک فرد کی حیثیت سے میرے لیے مناسب نہ تھا کہ اس پر ۱۳جون ہی کو کوئی فیصلہ دے دیا جاتا۔

لاہو رمیں مجھے ایسے بہت سے لوگ بھی ملے، جو اس مسئلے کے باعث شدید طور پر مشتعل (agitated)تھے۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ: ’’آپ آج ہی، ابھی ابھی اور یہیں وہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے، جو پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت چاہتی ہے۔ اوراگر میں یہ اعلان کر دوں تو اس سے میری حکومت کو بڑی دادوتحسین ملے گی۔ اور ایک فرد کے طور پر نہایت شان دار شہرت اور ناموری حاصل ہوگی‘‘۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’اگر آپ نے عوام کی خواہشات کو پورا کرنے کا   یہ موقع گنوا دیا، تو آپ اپنی زندگی کے ایک سنہری موقعے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘۔

میں نے اپنے ان احباب سے کہاکہ: ’’یہ ایک انتہائی پیچیدہ، گہرا اور نہایت بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے نے برعظیم کے مسلمانوں کو فکری سطح پر ۹۰ سال سے مشتعل کررکھا ہے اور پاکستان بننے کے ساتھ ہی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنا ہے‘‘۔ میرے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ میں اس اضطراری (exigencies) موقعے سے فائدہ اٹھانے (Capitalise) کی کوشش میں کوئی فیصلہ کردیتا۔ میں نے ان کرم فرمائوں سے کہا کہ: ’ہم نے پاکستان میں جمہوریت قائم کی ہے۔ ہم نے جمہوریت بحال کی ہے۔ پاکستان کی ایک قومی اسمبلی موجود ہے۔  یہ ملکی مسائل پر بحث کرنے کا سب سے بلند مرتبہ ادارہ ہے۔ میری راے میں،میری ناچیز راے میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان کی قومی اسمبلی ہی مناسب جگہ ہے اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے میں قومی اسمبلی کے ممبروں پر کسی طرح کا دبائو(whip) نہیں ڈالوں گا۔ میں اس مسئلے کے حل کو ارکانِ قومی اسمبلی کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں اور اپنی پارٹی کے ارکان کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود فیصلہ کریں۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکانِ سمبلی میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ جہاںمیں نے کئی مواقع پر انھیں بلا کر اپنی پارٹی کے موقف سے آگاہ کیا اور انھیں پالیسی کے مطابق ہدایات دی ہیں، اور انھیں پارٹی کے اختیارات دیے ہیں، لیکن اس مسئلے پر اور اس موقعے پر میں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک ممبر کو بھی بلا کر نہ کوئی ہدایت دی ہے اور نہ اس پراثر انداز ہونے کی کوئی کوشش کی ہے۔

آپ کو یہ بتاتے ہوئے جنابِ اسپیکر، مجھے حیرت نہیں ہو رہی کہ اس مسئلے کے باعث اکثر میں پریشان اور راتوں کو نیند سے محروم رہا ہوں۔ اس مسئلے پر جو فیصلہ ہوا ہے، میں اس کی شاخ درشاخ پیچیدگیوں (ramifications) اور اس ردِعمل (repercussion)سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ جس کا اثر، مملکت کی سلامتی(security) پر ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی سا (light)مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جو برعظیم کے مسلمانوں کی اس خواہش پر وجود میں آیا کہ وہ اپنے لیے علیحدہ مملکت چاہتے تھے، اور اس ملک کے باشندوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے۔ میں اس فیصلے کو جمہوری طریقے سے راہ یاب کرنے (channelising) میں، اپنے کسی بھی اصول سے انحراف نہیں کررہا:

  •  پاکستان پیپلز پارٹی کا پہلا اصول یہ ہے کہ ’اسلام ہمارا دین ہے۔‘ اسلام کی خدمت پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے اوّلین اہمیت رکھتی ہے۔
  • ہماری سیاست کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ’جمہوریت ہماری سیاست ہے۔‘ چنانچہ ہمارے لیے فقط یہی درست راستہ تھا کہ ہم اس مسئلے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کرتے۔
  •  اوراس کے ساتھ میں فخرسے کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی پارٹی کے اس اصول کی بھی پوری طرح پابندی کریں گے کہ ’پاکستان کی معیشت کی بنیاد سوشلزم پر ہو۔‘ ہم سوشلسٹ اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔{ FR 580 }

یہ فیصلہ جو کیا گیا ہے، اس فیصلے میں ہم نے اپنے کسی اصول سے انحراف نہیں کیا ہے۔   ہم اپنی پارٹی کے تینوں بنیادی اصولوں پر پختگی سے پابند رہے ہیں۔ میں نے بارہا  یہ بات کہی ہے کہ اسلام کے بنیادی اصول اور اعلیٰ ترین معیارات (norms) سماجی انصاف کے حصول کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہیں اور سوشلزم کے ذریعے معاشی استحصال کو ختم کرنے کے حامی ہیں۔

یہ ایک مذہبی فیصلہ بھی ہے اور ایک سیکولرفیصلہ بھی۔ مذہبی فیصلہ اس لحاظ سے ہے کہ یہ فیصلہ ان مسلمانوں کو متاثر کرتا ہے، جو پاکستان میں اکثریت میں ہیں،اور سیکولر فیصلہ{ FR 581 } اس لحاظ سے کہ ہم دور جدید میں رہتے بستے ہیں۔ ہمارا آئین ایک دنیاوی آئین ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ہر پاکستانی کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ فخرواعتماد سے، بغیر کسی خوف کے اپنے مذہبی عقائد، اپنے طبقے کی امنگوں اور اپنے مکتب فکر (sect) کی سوچ کا اظہار کر سکے۔پاکستان کے آئین میں، پاکستانی شہریوں کو اس امر کی ضمانت دی گئی ہے۔

میری حکومت کے لیے اب یہ بات انتہائی اہم فرض کی حیثیت اختیار کر گئی ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے۔ یہ نہایت ضروری ہے اور میں اس بات میں کسی قسم کے ابہام (ambiguity) کی گنجایش نہیں رکھنا چاہتا۔ پاکستان کے تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہمارا اخلاقی اور مقدس اسلامی فرض ہے۔

میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں جناب اسپیکر،اور اس ایوان سے باہر کے ہر شخص کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ فرض پوری طرح اور مکمل طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں کسی شخص کے ذہن میں کوئی شبہہ نہیں رہنا چاہیے۔ ہم اپنے ملک میں کسی قسم کی غارت گری(vandalism) اور تہذیب سوزی یا کسی پاکستانی طبقے یا شہری کی توہین اور بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔

جناب اسپیکر، گذشتہ تین مہینوں کے دوران، اور اس بڑے شدید(acute)بحران کے عرصے میں کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں، کئی لوگوں کو جیل بھیجا گیا اور چند مزید اقدامات کیے گئے۔ یہ بھی ہماری منصبی ذمہ داری تھی۔ ہم اس ملک میں بدنظمی اور فسادی عناصر کا غلبہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ بدنظمی اور سرکش قوتیں حاوی ہو جائیں۔ حفاظتی اقدامات کرنا ہمارے فرائض میں شامل تھا، جن کے تحت ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا لیکن میں اس موقعے پر، جب کہ تمام ایوان نے متفقہ طور پر ایک اہم فیصلہ کر لیا ہے، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ہر معاملے پر فوری اور جلد از جلد غور کریں گے۔ اب، جب کہ اس مسئلے کا باب بند ہوچکا ہے، ہمارے لیے یہ ممکن ہو گا کہ ایسے افراد سے نرمی(lenience) برتی جائے۔ مجھے امید ہے کہ    ان لوگوں کو جلد رہا کر دیا جائے گا، جنھوں نے اس عرصے میں اشتعال انگیزی سے کام لیا، یا کوئی اور مسئلہ پیدا کیا تھا۔

جناب اسپیکر، جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہم نے اس مسئلے کا   باب بند کر دیا ہے۔ یہ میری کامیابی نہیں، یہ حکومت کی بھی کامیابی نہیں ہے۔ میں بار بار زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے، جس میں ہم بھی شریک ہیں۔ میں اس فیصلے پر سارے ایوان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیا جاسکتا تھا، اگر تمام ایوان کی جانب سے اور یہاں موجود تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اور مفاہمت کا جذبہ نہ ہوتا۔

آئین سازی کے وقت بھی ہم میں تعاون اور سمجھوتے کا یہ جذبہ موجود تھا۔ آئین ہمارے ملک کا بنیادی قانون ہے۔ اس آئین کے بنانے میں ۲۷برس صرف ہوئے، اور وہ وقت پاکستان کی تاریخ میں تاریخی اور یاد گار لمحہ تھا، جب اس آئین کو تمام پارٹیوں نے قبول کیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ { FR 582 }اسی جذبے کے تحت ہم نے یہ مشکل فیصلہ بھی کر لیا ہے۔

یہ بات کسے معلوم ہے جناب اسپیکر، کہ مستقبل میں ہمیں مزید مشکل، اور زیادہ مشکل ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن میری ناچیز راے میں، میں سوچتا ہوں کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، یہ مسئلہ سب سے زیادہ مشکل ترین مسئلہ تھا۔ میں شاید یہ سوچنے کی غلطی پر ہوں کہ کل کو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں، جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

لیکن، ماضی کو دیکھتے ہوئے، اور اس مسئلے کے تاریخی پہلوئوں پر اچھی طرح غور کرتے ہوئے میں پھر کہوں گا کہ یہ بہت زیادہ مشکل مسئلہ تھا۔ گھر گھر میں اس کا اثر تھا۔ ہر گائوں میں اس کا اثر تھا اور ہر فرد پر اس کا اثر تھا۔ یہ مسئلہ اپنی وسعت کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک عفریت (monster) کی شکل سی اختیار کر گیا۔

ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہی تھا۔ ہمیں تلخ حقائق کا دیانت داری سے سامنا کرنا ہی تھا، کہ ہمارے لیے اس سے فرار کی کوئی راہ نہیں تھی۔ بلاشبہہ ہم ٹال مٹول سے کام لینے کے لیے، اس مسئلے کو سپریم کورٹ یا اسلامی مشاورتی کونسل کے سپرد کر سکتے تھے، یا اسلامی سیکرٹریٹ کے سامنے اس کو پیش کر سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اور حتیٰ کہ افراد بھی مسائل کو ٹالنے کا فن جانتے ہیں اور جس کے تحت وہ انھیں جوں کا توں رکھ سکتے ہیں، اور درپیش صورت حال سے نمٹنے کے لیے معمولی اقدامات پر گزارا کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس مسئلے کو اس انداز سے نبٹانے کی کوشش نہیں کی ہے، کیوںکہ ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔

ہم نے اس مسئلے کو حتمی طور پر حل کرنے کے جذبے سے قومی اسمبلی کو ایک کمیٹی کی صورت میں رازدارانہ اجلاس کرنے کا کام سونپا۔ پھر قومی اسمبلی کے راز دارانہ اجلاس شروع ہوئے۔   قومی اسمبلی کے رازدارانہ اجلاس منعقد کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔ اگر قومی اسمبلی اس رازداری سے اجلاس نہ کرتی، تو جناب! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سچی باتیں اور حقائق ہمارے سامنے آ سکتے تھے؟ اور لوگ اس طرح آزادی اور بغیر کسی جھجک کے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے تھے؟ اگر ان کو معلوم ہوتا کہ یہاں گیلری میں بیٹھنے والوں کا ان پر دبائو ہے اورلوگوں تک ان کی باتیں پہنچ رہی ہیں، اور ان کی تقاریر اور بیانات کو اخبارات کے ذریعے شائع کرکے ان کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، تو قومی اسمبلی کے ممبر ان اس اعتماد اور کھلے دل سے اپنے خیالات کا اظہار نہ کرسکتے، جیسا کہ انھوں نے ان رازدارانہ اجلاسوں میں اظہار خیال کیا۔

اب ہمیں ان رازدارانہ اجلاسوں کی کارروائی کا کافی عرصے تک احترام کرنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بات بھی خفیہ نہیں رہتی۔ تاہم اُن باتوں کے عام کرنے کا ایک موزوں وقت ہوتا ہے۔ چونکہ اسمبلی کی کارروائی خفیہ (in camera)رہی ہے، اور ہم نے اسمبلی کے ہر رکن کو، اور ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی، جو ہمارے سامنے پیش ہوئے انھیں یہ کامل یقین دلایا تھا کہ ان کی باتوں کو راز رکھا جائے گا، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، ان بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جائے گا۔ ان باتوں کو سیاسی یا کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔

میرے خیال میں، ایوان کے لیے یہ ضروری اور مناسب ہے کہ وہ ان اجلاسوں کی کارروائی کو ایک خاص وقت تک راز داری (secrecy) میں رکھے اور ظاہر نہ کرے۔ ایک مناسب وقت گزرنے کے بعد ہمارے لیے ممکن ہوگا کہ ہم ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو منظرعام پر لے آئیں،کیوں کہ اس کے ریکارڈ کا ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان اجلاسوں کے ریکارڈ کو دفن (bury) ہی کر دیا جائے، ہرگزنہیں(Not at all)۔ اگر میں یہ کہوں تو یہ ایک  خلافِ واقعہ اور غیر حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔ { FR 583 } میں فقط یہ کہتا ہوںکہ اگر اس مسئلے کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنے، اور ایک نئے آغاز کے لیے، نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے، آگے بڑھنے کے لیے اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لیے اور پاکستان کے حالات معمول پر رکھنے کے لیے، اور اس مسئلے کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ دوسرے مسائل کی بھی مناسبت سے، ہمیں ان اُمور کو خفیہ رکھنا ہوگا۔

میں ایوان پر یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا حل، دوسرے کئی مسائل پر تبادلۂ خیال اور بات چیت اور مفاہمت کا نقیب بنے گا۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ یہ حل ہمارے لیے نیک شگونی کا باعث ہے، اور اب ہم آگے بڑھیں گے، اور تمام توقعات، لڑائی جھگڑے کی دعوت دینے والے مسائل کو مفاہمت اور مطابقت کے جذبے سے حل کریں گے۔

جناب اسپیکر، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے، انھیں بیان کر چکا ہوں۔ میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے، جس کا ہمارے عقائد سے تعلق ہے۔ یہ پورے ایوان اور پوری قوم کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔ میرے خیال میں یہ انسانی (humanly)طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کر سکتا۔ اسی طرح میرے خیال میں یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے موجودہ فیصلے سے کم کوئی اور فیصلہ ہو سکتا۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں، جو اس فیصلے سے خوش نہ ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ فیصلہ ناگوار ہو۔ یہ ایک فطری سی بات ہے۔ ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ اس مسئلے کے فیصلے سے تمام لوگ خوش ہوں گے، جو گذشتہ ۹۰سال سے حل نہیں ہو سکا۔ اگر یہ مسئلہ سادہ سا ہوتا اور ہر ایک کو خوش رکھنا ممکن ہوتا، تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو گیا ہوتا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ ۱۹۵۳ء میں بھی ممکن نہیں ہو سکا تھا۔

وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ۱۹۵۳ء میں حل ہو چکا تھا، وہ لوگ اصل صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کرتے۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اس فیصلے پر نہایت ناخوش ہوں گے۔ اب میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کروں، لیکن میں یہ کہوں گا کہ یہ ان لوگوں کے طویل المیعاد مفاد میں ہے کہ   یہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔ آج یہ لوگ غالباً ناخوش ہی ہوں گے، انھیں یہ فیصلہ پسند نہیں ہوگا اور اس فیصلے پر رنجیدہ ہوں گے۔ لیکن حقیقت پسندی (objectively) سے کام لیتے ہوئے، اور  ذاتی طور پر  ان لوگوں سے یہ کہوں گا، کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا ہی چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہوا، اور ان کو آئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہوگئی۔

مجھے یاد ہے کہ جب حزبِ اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی[م:۲۰۰۳ء] نے یہ تحریک پیش کی، تو انھوں نے ان لوگوں کو فیصلے کی روشنی میں مکمل تحفظ دینے کا ذکر کیا تھا، جو اس فیصلے سے متاثر ہوں گے۔ اس یقین دہانی پر یہ پورا ایوان اور پوری قوم پُرعزم ہے۔ اب یہ ہرپارٹی کا فرض ہے، یہ حکومت کافرض ہے، یہ حزبِ اختلاف کا فرض ہے اور یہ ہر شہری کافرض ہے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کی یکساں طور پر حفاظت کرے۔

یہ اَمر واقعہ ہے کہ اسلام کی یہی روح (essence) ہے، اور اس کی نصیحت رواداری ہے۔ مسلمان ہمیشہ رواداری پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اسلام نے فقط رواداری کی تبلیغ نہیں کی، بلکہ پوری تاریخ میں اسلامی معاشرے نے رواداری سے کام لیا ہے۔ اسلامی معاشروں نے اس تیرہ و تاریک زمانے (Dark Days)میں یہودیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا، جب کہ یورپ میں عیسائیت ان پر ظلم کر رہی تھی اور یہودیوں نے سلطنت عثمانیہ میں آکر پناہ لی تھی۔اگر یہودی دوسرے حکمران معاشروں سے بچ کر، عربوں اور ترکوں کے اسلامی معاشرے میں پناہ لے سکتے تھے، تو پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری مملکت ایک اسلامی مملکت ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا مقدس (sacred)فرض ہے کہ ہم تمام فرقوں، تمام لوگوں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو یکساں طور پر تحفظ فراہم کریں۔

جناب اسپیکر، ان الفاظ کے ساتھ ہی مَیں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔آپ کا شکریہ!

[ترجمہ: سلیم منصور خالد]

اگست ۲۰۱۷ء کے شروع ہی میں یہ خبر پاکستان بھر میں تشویش کے ساتھ سنی گئی کہ:   ’’عالمی بنک جس نے ۱۹۶۰ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم کا مشہور سندھ طاس معاہدہ کروایا تھا، اس نے بھارت کو دریاے جہلم کے معاون دریا کشن گنگا، جسے پاکستان کے اندر دریاے نیلم کہا جاتاہے، پر ۸۶۴ ملین ڈالر کی لاگت سے ’کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ‘ اور دریاے چناب پر ریٹل پاور پلانٹ کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے‘‘۔

کشن گنگا ڈیم مقبوضہ کشمیر میں ۱۳۳میٹربلند اور ۸ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والے رینٹل پاور پلانٹ، کشمیر ہی کے موضوع ریٹل، ضلع ڈوڈا میں تعمیر کیا جائے گا۔ بھارت اس سے ۸۵۰میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس پر پاکستانی اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے عالمی بنک نے کہا ہے کہ: ’’۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ       وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں پر بجلی کی پیداوارکے لیے منصوبے تعمیر کرسکتا ہے‘‘۔ بھارت نے یہ منصوبہ ۲۰۰۷ء میں شروع کیا تھا اور اُسے توقع تھی کہ ۲۰۱۶ء تک اس کی تعمیر مکمل ہوجائے گی، لیکن ابتدائی کام کے دوران ہی ۲۰۱۱ء میں ہالینڈ میں قائم Permanent Arbitration Court نے پاکستان کے اعتراضات پر اس کی تعمیر رکوا دی تھی۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کشن گنگا اور ریٹل ڈیموں کی تعمیر کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا وہ پانی یقینا  شدید متاثر ہوگا۔ اسی طرح زیریں حصے میں پاکستان کے اندر تعمیر ہونے والے نیلم جہلم پراجیکٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کس طرح پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور مستقبل مزید گمبھیر ہوتا جا رہا ہے:

سترھویں صدی کے مشہور برطانوی مصنّف تھامس فِلر نے پانی کی اہمیت کے بارے میں کہا تھا: We never know the worth of water, till the well is dry (ہم اُس وقت تک پانی کی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے جب تک کہ کنواں خشک نہ ہوجائے)۔

جنوبی ایشیا، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کا مسکن ہے، جہاں زرعی معیشت ہی گزراوقات کا بڑا ذریعہ ہے۔ فصلات، مویشی و ماہی پروری، جنگلات اور باغات سب کچھ پانی ہی سے ممکن ہے۔ خطّے کا ایک بڑا حصہ انتہائی گرم اور خشک ہے، جہاں بارش کی سالانہ اوسط بمشکل ۲۵۰ملی میٹر ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر فی کس سالانہ پانی کی فراہمی بمشکل ایک ہزار سے ۱۲۰۰ کیوبک میٹر ہے، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں ۱۵۰۰ سے ۲۵۰۰ کیوبک میٹر پانی فی کس دستیاب ہے، بلکہ ناروے اور کینیڈا میں تو سالانہ فی کس ۷۰ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔

پاکستان کی آبادی اور معیشت کا انحصار مکمل طور پر دریاے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں بہتے پانی پر ہے، جن کا منبع کوہ ہمالیہ اور دیگر پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیرز ہیں۔ تاہم، ان دریائوں کا راستہ بھارت سے ہوکر آتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو ہزاروں سال سے لوگ یا تو بارش کے پانی پر انحصار کرتے آئے ہیں، یا پھر دریائوں کے کنارے ہی بستیاں بسائی گئی ہیں۔ وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب (ہڑپہ، موہنجوڈارو وغیرہ) دریاے سندھ کے کنارے ہی پھل پھول سکی تھی۔ پھر انیسویں صدی میں آب پاشی کے جدید نظام کی تشکیل (ذخائر کی تعمیر، نہروں، کھالوں کی کھدائی وغیرہ) کے ساتھ بڑے پیمانے پر ریگستانوں کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ اس طرح بڑے پیمانے پر صحرا سرسبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل ہوگئے۔

سندھ طاس کا آب پاشی نظام، ۳۲۰۰ کلومیٹر لمبے دریاے سندھ اور اس کے معاون پانچ مشرقی دریائوں (جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج) پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر ان دریائوں کی لمبائی ۴۵۰۰ کلومیٹر ہے، جب کہ پانی کی مقدار یا بہائو ۱۸۰ بلین کیوبک میٹر سالانہ ہے۔   یہ دریا صدیوں سے برصغیر میں آب پاشی کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل ہندستان کی مختلف ریاستوں یا صوبوں (پنجاب، بہاول پور، سندھ اور بیکانیر) کے درمیان بھی پانی کی تقسیم اور انتظام پر اختلافات اور تنازعات اُٹھتے رہے ہیں۔ تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان چار ریاستوں کے درمیان اُبھرنے والے تنازعات دو ملکوں کے تنازعات میں بدل گئے ہیں۔ مغربی پنجاب، پاکستان کے حصے میں آیا، چوںکہ اس کی زمینیں زرخیز تھیں، اس لیے برطانوی حکومت نے آب پاشی کا وسیع نظام مغربی پنجاب میں تعمیر کیا۔ تقسیم کے وقت ریڈکلف جنھیں تقسیم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، نے نہ صرف زمین پر تقسیم کی لکیر کھینچی، بلکہ دریائوں کے پانی اور اس کے منبعے کو بھی تقسیم کردیا۔ لہٰذا، دونوں نئی مملکتوں پر ایک ناخوش گوار ذمہ داری پہلے دن سے ہی عائد ہوگئی کہ وہ پانی کی تقسیم بارے ایک منصفانہ اور قابلِ عمل معاہدہ اور طریق کار طے کریں۔

گزرتے وقت کے ساتھ بھارت نے مشرقی پنجاب میں ہماچل پردیش، ہریانہ اور راجستھان میں آب پاشی کا ایک نظام تعمیر کرنا شروع کیا۔ دوسری طرف پاکستان کے چونکہ تمام ہی دریائوں کا منبع بھارت کے قبضے میں تھا، لہٰذا پاکستان کو پانی کی مستقل بندش، خشک سالی یا قحط کا خدشہ لگا رہا۔ مئی ۱۹۴۸ء میں اثاثہ جات کی تقسیم پر ہونے والے معاہدات میں بھارت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ پاکستان کا پانی بند یا کم نہیں کرے گا۔ جون ۱۹۴۹ء میں پاکستان نے بھارت سے تحریری طور پر مطالبہ کیا کہ پانی کے معاملات میں عالمی عدالت ِ انصاف کو مداخلت اور تصفیہ کا حق دیا جائے، لیکن بھارت نے کسی بھی تیسری قوت کی مداخلت سے پہلے باہمی مذاکرات یا منصفین کے تقرر سے اختلافات کم کرنے کی تجویز دی۔ ۱۹۵۱ء میں عالمی بنک کے صدر نے پاک بھارت وزراے اعظم کو واشنگٹن مدعو کیا، جہاں اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوئی بھی ملک پانی کی فراہمی کے موجود نظام میں خلل نہیں ڈالے گا۔ لیکن تحریری یقین دہانیوں اور معاہدات کے باوجود پاک بھارت پانی کا تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات، علاقائی کش مکش اور جنگ کے خطرات کا باعث بنتا جارہا ہے، خاص طور پر، جب کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

جدول نمبر۱ میں پاکستان میں بہہ کر آنے والے دریا، اُن کے منبع اور روٹ، یعنی جن علاقوںسے گزرکر وہ پاکستان میں داخل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تمام ہی دریائوں کے منبع ہمالیہ، کوہِ سلیمان اور ہندوکش کی بلند پہاڑی چوٹیوں پر واقع ہیں، جہاں سے مقبوضہ کشمیر، بھارت کے راستے بہتے ہوئے وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اِسی لیے کہا تھا کہ ہماری Life Line اسی کشمیر سے ہوکر آتی ہے:

پاکستانی دریا اور اُن کا منبع

دریا

منبع

لمبائی

(کلومیٹر)

روٹ؍ کن علاقوں سے ہوکر پاکستان آتا ہے

سندھ

جھیل مانسرور،

 تبت، چین

۳۲۰۰

پانی کے بہائو کے لحاظ سے دنیا کا ۲۱واں بڑا دریا ہے۔  یہ تبت سے جموں کشمیر، بھارت میں ۷۰۹ کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور پھر پاکستان سے گزرتے ہوئے بحیرئہ عرب میں جاگرتا ہے۔ دریاے اَستور، دریاے بلرام، دریاے گلگت، دریاے کابل، دریاے تنوبل اور دریاے زنسکر سمیت کئی چھوٹے دریا مختلف مقامات پر دریاے سندھ کاحصہ بنتے ہیں۔

جہلم

وُلّر جھیل، پیر پنجال، کشمیر

۷۷۴

وادیِ کشمیر کے جنوب مشرق سے نکل کر سری نگر اور پھر مظفرآباد کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے، جہاں دریاے نیلم اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں ۵ء۹ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے والا منگلا ڈیم اِسی دریا پر تعمیر کیا گیا۔زیریں علاقوں میں رسول بیراج اور تریموں بیراج اس پر تعمیر ہیں۔

چناب

درہ باڑہ، کوہ ہمالیہ سے نکلنے والے دریا چندرا اور بھاگا

۹۶۰

ہمالیہ کی چوٹیوں سے جموں وکشمیر اور پھر سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تریموں (ضلع جھنگ) کے مقام پر دریاے جہلم اور اوچ شریف (بہاول پور) کے مقام پر دریاے ستلج میں شامل ہوکر پنجند کے مقام پر دریاے سندھ میں جا شامل ہوتا ہے۔

راوی

کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں

۷۲۰

ہمالیہ کی چوٹیوں سے بہہ کر وادیِ کشمیر اور پھر بھارتی پنجاب کے جنوب مغرب سے بہتا ہوا لاہور کے مقام پر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی کا پانی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔

ستلج

تبت، چین

۵۵۰

جنوبی کوہ ہندوکش ، کوہ ہمالیہ اور کوہ سلیمان کے سنگم سے نکلنے والا یہ دریا بھارتی پنجاب کی تاریخی گزرگاہ سے بہتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ تقسیم سے پہلے ریاست بہاول پور کا بیش تر حصہ اسی دریا سے سیراب ہوتا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریاے ستلج کا پانی بھی بھارت کے حصے میں آیا ہے۔

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کو اپنی آبی ضروریات کے حوالے سے تین بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا:

                ۱-            ملک کی تقسیم کے لیے زمین پر کھینچی گئی لکیر نے زمین اور آبادی کے ساتھ پاکستان کی شہ رگ، یعنی تمام دریائوں کو بھی کاٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح اُن کے منبعے پاکستان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ ایک طویل مذاکراتی عمل کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کی حکومتیں عالمی بنک کی شراکت سے ۱۹۶۰ءمیں سندھ طاس معاہدے کی صورت میں اس سنگین تنازعے سے  عہدہ برآ ہوئیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں تین مغربی دریا: سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے، جب کہ تین مشرقی دریا: راوی، ستلج اور بیاس کا پانی بھارت کے لیے مختص ہوکر رہ گیا۔ سندھ طاس کے پانی کا ۷۵ فی صد پاکستان، جب کہ ۲۵ فی صد بھارت کے حصے میں آیا۔

                ۲-            پاکستان کے لیے دوسرا بڑا چیلنج یہ تھا کہ اُس کے حصے میں مغربی دریا آئے، لیکن اس کی بیش تر زرعی زمینیں مشرق اور جنوب میں واقع تھیں۔ پاکستانی انجینیروں نے عالمی بنک اور دیگر ڈونر اداروں کی مدد سے یہ حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا کہ منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم کی صورت میں پانی ذخیرہ کرنے والے بڑے ڈیم تعمیر کیے اور سیکڑوں کلومیٹر لمبی رابطہ نہریں جو بالترتیب دریاے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی مشر ق اور جنوبی علاقوں تک لے گئیں، تعمیر کی گئیں۔ وسیع علاقے آب پاشی کے ذریعے گل و گلزار بن گئے۔

                ۳-            رابطہ نہروں اور دریائوں کے رُخ تبدیل کرنے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے وسیع علاقے سیم تھور کا شکار ہوگئے۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں مکعب میٹر پانی رسائو (Seepage) کی وجہ سے زیرزمین چلا گیا۔ یوں زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوئی، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو زیرزمین پانی بالکل سطح زمین تک آگیا اور کسی بھی طرح کی کاشت ممکن نہ رہی۔ سیم تھور اور کلّر کاعلاج لاکھوں ٹیوب ویل لگا کر کیا گیا، جس سے نہ صرف زیرزمین پانی اطمینان بخش حد تک نیچے چلا گیا، بلکہ زائد نمکیات بھی پانی میں گھل کر زیرزمین چلے گئے۔ ایک عذاب سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ پاکستان کے زرعی اور آبی ماہرین کی بڑی کامیابی تھی۔

درپیش آبی مسائل

لہٰذا درج بالا شاندار کارکردگی کو دیکھ کر ہم پاکستان کے آبی وسائل کے گلاس کو یقینا   نصف سے زائد بھرا ہوا کہہ سکتے ہیں۔ اَمرِواقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل و مسائل کی    یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھیں تو آبی وسائل کا یہ گلاس نصف سے زیادہ خالی نظر آتا ہے۔ ۲۲کروڑ انسانوں اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان کا مستقبل شدید خطرات سے گھِرا ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے درج ذیل نکات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں:

  •  پاکستان دنیا کے انتہائی خشک اور کم پانی والے خطّوں میں شمار ہوتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہم خطرے کی اُس حد سے بھی نیچے چلے گئے ہیں، جو قحط اور خشک سالی کے لیے دنیا میں متعین کی گئی ہے۔
  •  ہمارے پاس اضافی پانی کے کوئی بھی ذرائع یا ذخائر نہیں ہیں، جن سے ہم اپنے آبی وسائل میں اضافہ کرسکیں۔ گذشتہ ۴۰ برسوں میں ہمارے دریائوں اور نہروں میں سالانہ بہائو ۱۱۴ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر ۹۵ملین ایکڑ فٹ رہ گیا ہے ، جب کہ ہماری ضروریات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
  •  پانی کی ضروریات کے لیے پاکستان کا انحصار صرف ایک ہی دریا (سندھ اور معاون) پر ہے ، جب کہ دنیا کے بیش تر ممالک میں متبادل یا ایک سے زیادہ دریائی نظام موجود ہیں۔ ایک ہی دریا پر انحصار پاکستان کے لیے خطرات اور خدشات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
  • پاکستان کی کمزور معاشی صورتِ حال اور قدرتی وسائل کے تحفظ سے لاپروائی ہمارے مسائل میں مسلسل اضافے کا باعث ہے، مثلاً نہری اور زیرزمین پانی کے استعمال سے ہم سالانہ ۱ء۵ کروڑ ٹن نمکیات آب پاشی کے دوران اپنے کھیتوں میں ڈال رہے ہیں، جو یقینا زمین کو کلراٹھا اور شورزدہ کر رہا ہے۔ اسی طرح ہرسال کروڑوں ٹن ریت اور مٹی ہمارے آبی ذخائر کی تہہ میں بیٹھ کر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت مسلسل کم کر رہی ہے۔ مختلف جائزوں کے مطابق تربیلا اور منگلا ڈیم کی صلاحیتِ ذخیرہ تقریباً ۳۰ فی صد کم ہوچکی ہے۔
  • ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فصلوں کی آبی ضروریات کے بڑھنے اور زیادہ سے زیادہ رقبے کو زیرکاشت لانے کے لیے ہم غیر دانش مندانہ طور پر زیادہ ٹیوب ویل لگا رہے ہیں، جس سے زیرزمین پانی کی بڑی مقدار پمپ ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیرزمین پانی کے پمپنگ کو کسی ضابطے کا پابند بنایا جائے۔ اُتنا ہی پانی پمپ کیا جائے جتناکہ وہ زمین میں سالانہ چارج (اضافہ) ہوتا ہے۔ ایک بنک اکائونٹ کی مثال سے بخوبی اس پیش آمدہ خطرے کا احساس دلایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اکائونٹ سے ماہانہ یا سالانہ جمع کروائی جانے والی رقم سے زیادہ نکال رہے ہوں تو جلد ہی ہمارا چیک خالی لوٹا دیا جائے گا۔
  •  گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب اور سندھ میں ہرسال  آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ہمارے تمام ہی دریا ہمالیہ کی مغربی  چوٹیوں پر موجود بڑے بڑے گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے رواں رہتے ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے یہ گلیشیرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین شدید خطرات سے متنبہ کر رہے ہیں کہ شاید آیندہ پچاس برس تک ہمیں یہ نعمت میسر نہ رہے گی اور یوں ہمارے دریائوں میں سالانہ بہائو خطرناک حد تک کم ہوجائے گا۔
  •  آبی وسائل کے لحاظ سے ایک اور بڑا خطرہ آبی وسائل کی تعمیروترقی اور ممکنہ خطرات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے مطلوبہ علم اور مہارت کی کمی کا ہے۔ ملک کے اندر آبی وسائل،  آبی ذخائر کی تعمیر، ماحولیات پر ان کے اثرات، مستقبل بینی جیسے موضوعات پر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور فنی ماہرین کی اشد ضرورت ہے۔
  •  کمزور معیشت اور غلط ترجیحات کے پیش نظر ہمارے آبی ذخائر، بیراج، دریائوں اور نہروں وغیرہ کی تعمیرو مرمت کے لیے مطلوبہ فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔
  • پاکستان کو نئے آبی ذخائر کی فوری تعمیر (Invest & Invest soon) کے لیے جرأت مندانہ اقدام کی ضرورت ہے۔ جب دریائوں میں پانی کا بہائو سال کے مختلف حصوں میں کم و بیش ہوتا رہے تو آبی ذخائر کی تعمیر ضروری ہوجاتی ہے تاکہ طلب اور رسد میں توازن رکھا جاسکے۔ دنیا کے دیگر خشک خطّوں (Arid Regions) کے مقابلے میں پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت خطرناک حد تک کم ہے۔

جدول نمبر۲: دنیا کے مختلف ممالک میں آبادی کے لحاظ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت

فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کیوبک میٹر

امریکا

۶۰۰۰

مراکش

۳۵۰

آسٹریلیا

۵۰۰۰

بھارت

۲۵۰

چین

۲۲۰۰

پاکستان

۱۵۰

اسپین

۱۳۰۰

ایتھوپیا

۱۰۰

ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے فی کس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت افریقا کے قحط زدہ ممالک ایتھوپیا وغیرہ سے کچھ ہی بہتر ہے۔

اسی طرح جدول نمبر۳ میں دنیا کے خشک خطوں میں بہنے والے دریائوں پر تعمیرشدہ ذخائر (Dams) کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

تعمیرشدہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت (بہائو کے دن)

کلوراڈو، امریکا

۹۰۰

بھارت مختلف دریا

۲۲۰

مُرے دارلنگ، آسٹریلیا

۹۰۰

تربیلا منگلا ،پاکستان

۳۰

اورنج ، جنوبی افریقا

۵۰۰

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سالانہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں ایک ملین ایکڑ فٹ کی کمی ہرسال ۱۰لاکھ ایکڑ رقبے کو ایک فٹ کم پانی کی فراہمی ہے، جو یقینا پیداوار میں لاکھوں ٹن کی کمی کا باعث بنتی ہے۔

  •   حکومتوں کی بُری انتظامی کارکردگی اور باہمی اعتماد کی کمی، ملک کے اندر پانی کی منصفانہ اور ضرورت کے مطابق تقسیم، ایک مستحکم اور پُراعتماد حکومت کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی حکومتیں اس لحاظ سے قابلِ اطمینان کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی ہیں۔
  •   پانی کی کمی کے باعث فصلوں کو آب پاشی کے باکفایت اور مؤثر طریقے متعارف اور اختیار کیے جائیں، مثلاً ڈرپ، اسپرنکلر وغیرہ۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک پرانے اور فرسودہ طریقہ ہاے آب پاشی میں مروج ہیں، جن سے پانی کا ضیاع بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں الحمدللہ، زرخیز زمین، محنتی کسان اور وافر سورج کی روشنی موجود ہے۔ لیکن فرسودہ اور پرانے طریقہ ہاے آب پاشی کے باعث دنیا بھر کی فی کیوبک میٹر پانی غلّہ پیدا کرنے کی اوسط سے ہم بہت نیچے ہیں۔ مثلاً: ترقی یافتہ ممالک امریکا وغیرہ میں ایک کیوبک میٹر پانی سے ۱ء۱ کلوگرام غلّہ پیدا کیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ شرح ۰ء۸۵کلوگرام فی کیوبک میٹر ہے، جب کہ پاکستان میں ہم بمشکل ۰ء۵ کلوگرام غلّہ فی کیوبک میٹر پیدا کرتے ہیں۔

آبی وسائل اور مسائل کے لحاظ سے یقینا ہمارا گلاس آدھا خالی ہے، لیکن نصف سے کم جو بھرا ہوا ہے، وہ اُمید اور مستقبل کی روشن تصویر بن سکتا ہے۔

آبی وسائل کی ترقی سے وابستہ ، اُمید کی روشن کرنیں

پاکستان کے آبی وسائل کی ۷۰سالہ تاریخ بیان کرتے ہوئے جہاں تشویش اور غفلت کے بے شمار در وَا ہوئے ہیں ، وہیں اُمید کی چند روشن کرنیں بھی نظر آتی ہیں، جو یقینا ہمیں عمل پر اُبھاریں گی:

                    l           ۱۹۶۰ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت بین الاقوامی طور پر پاکستان کا سندھ طاس کے ۷۵ فی صد پانی پر حق تسلیم کیا گیاہے۔ دنیا بھر میں بہت سے ملکوں کے اندر دریائوں کی شراکت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پھر ۱۹۹۱ء کے Water Accord کے تحت ملک کے چاروں صوبوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم بھی طے پاچکی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ پاکستان سمندر میں بہہ جانے والے پانی اور زیرزمین پانی کے استعمال بارے رہنما اُصول طے کرے اور دُور رس ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مناسب فیصلے کرے۔

  •   بھارت میں کاشت کاروں کو ٹیوب ویل کے ذریعے مفت یا سستی بجلی ضرورت سے زیادہ زیرزمین پانی کے اخراج (Pumping) کا باعث بنی ہے۔ پاکستان نے کاشت کاروں کے شدید دبائو کے باجود اس معاملے میں لچک نہیں دکھائی۔ نتیجتاً ہمارے ہاں زیرزمین پانی کی کمی ابھی خطرے کی حدوں کو نہیں پہنچی ہے۔
  •   زرعی شعبہ جو پانی کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے کے اندر فی مکعب میٹر پانی سے زیادہ غلّہ پیدا کرنے کی کافی گنجایش موجود ہے، مثلاً جب ۱۹۹۹-۲۰۰۲ء کے تین برسوں میں ہمارا سالانہ دریائی بہائو ۱۱۰ ملین ایکڑ فٹ سے کم ہوکر ۸۰ملین ایکڑ فٹ رہ گیا تھا، تو سارے کاشت کاروں نے تمام ہی بڑی فصلات کی قومی پیداوار میں نمایاں کمی نہیں آنے دی۔
  •  آبی ذخائر اور پن بجلی کے منصوبوں پر خرچ کی گئی رقوم توقع سے بڑھ کر منافع بخش ثابت ہوئی ہیں، مثلاً تربیلا ڈیم سے ۹۸-۱۹۷۵ء کے ۲۳برسوں میں ملک کو ۲۴۰۰ ملین ڈالر کا منافع متوقع تھا، لیکن پن بجلی اور آب پاشی کی مَد میں ہمیں ۳۰۰۰ ملین ڈالر سے زائد منافع حاصل ہوا ۔ پھر معاشرے کے تمام ہی طبقات، مثلاً کاشت کار، صنعت کار، تاجر، زرعی، صنعتی و دیہی مزدور اس سے خوب مستفید ہوئے ہیں۔ مختلف طبقات کی آمدن میں ۳۰ سے لے کر ۸۰ فی صد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
  •  پاکستان جو گذشتہ ۳۰ سال سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے اور یہ بحران ہماری معیشت، معاشرت، صنعت ، غرض یہ کہ تمام ہی شعبہ جات پر منفی اثرات ڈال رہا ہے،  کے لیے یہ اَمر خوش آیند ہے کہ پاکستان میں معاشی طور پر منافع بخش (Economically Feasible) ۵۰ہزارمیگاواٹ ہائیڈرو پاور جنریشن (آبی توانائی) کے امکانات موجود ہیں۔ ہم نے ابھی تک صرف ۱۴ فی صد امکانات کو عمل کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ جاپان، امریکا اور یورپ اپنے ہاں موجود ۷۰ سے ۸۰ فی صد آبی توانائی کے امکانات کو رُوبہ عمل لاچکے ہیں، جب کہ ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت تقریباً ۲۵ فی صد امکانات کو بروے کار لا کر سستی توانائی سے مستفید ہورہے ہیں۔
  • آبی وسائل کے حوالے سے ۱۹۶۰ء کا سندھ طاس معاہدہ ، آبی ذخائر و رابطہ نہروں اور بیراجوں کی تعمیر، سیم تھور کے تدارک کے لیے ٹیوب ویلوں کی تنصیب اور نکاسی نالوں کی تعمیر، شاہراہِ ترقی کے کامیاب سنگ میل ہیں۔ کامیابی کی یہ داستانیں ہماری کسی بڑے سے بڑے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی استعداد کو ظاہر کرتی ہیں۔

پس چہ باید کرد!

  •  پانی جیسے ایک بہت ہی پیچیدہ قدرتی اثاثے (زراعت، صنعت، توانائی، ماحولیات، زمین، زیرزمین، مویشی و ماہی پروری، جنگلات، سیلاب، خشک سالی، حال، مستقبل، بین الاقوامی و بین الصوبائی ، سیم تھور غرضیکہ لامتناہی جہتوں کو ملحوظ رکھنا) کا دیرپا انتظام و اِنصرام جس میں مستقبل کی ۵۰ یا ۱۰۰ سالہ ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔
  •  سب سے پہلے ہمیں نیچرل سائنسز، انجینیرنگ سائنسز اور سوشل سائنسز میں اعلیٰ تعلیمی اور فنی صلاحیتوں کا حصول درکار ہے، مثلاً ذخائر کی تعمیر، ماحول پر اُس کے اثرات، گلیشیرز کے غیرمعمولی رفتار سے پگھلنے، آب پاشی کے وسیع ترین ڈھانچے کی نگہداشت اور تعمیروتوسیع، کروڑوں ٹن نمکیات کا زرخیز زمینوں میں جمع ہونا، زیرزمین پانی کی مسلسل گھٹتی بڑھتی مقدار اور معیار کا مطالعہ وغیرہ ، تاکہ ہم ایک جامع اور دیرپا نظام اُستوار کرسکیں۔
  • بلاشبہہ دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی نظام، تربیلا اور منگلا جیسے ذخائر اور رابطہ نہروں وغیرہ کی کامیاب تعمیر سے ہمارے انجینیرز نے دنیا بھر میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔ اُنھیں دنیا بھر میں ایک قائدانہ مقام بھی حاصل تھا۔ لیکن وہ ایک نسل تھی جو اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہوگئی۔ اگلی نسل کے ایری گیشن انجینیرز میں یہ فنی مہارت منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
  •  زراعت جو پانی کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے، میں باکفایت اور مؤثر طریقہ ہاے آب پاشی کو متعارف اور فروغ دیا جائے۔
  • زیرزمین پانی جو دریائی پانی کے بعد ہمارے آبی وسائل کا سب سے بڑا ماخذ ہے، اس کی ریگولیشن ، یعنی کسی بھی علاقے سے سالانہ زیادہ سے زیادہ کتنا پانی پمپ کیا جائے کیوں کہ الل ٹپ اور حد سے بڑھی ہوئی مقدار میں پمپنگ اس قیمتی متاع کو Deplate کررہی ہے۔
  •  آبی ذخائر کی فوری تعمیر کے لیے قومی اتفاق راے اور وسائل کی فراہمی ترقیاتی منصوبوں کی اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔

ایک ہوتی ہے فکری اساس اور دوسری ہوتی ہے روزمرہ کی سوچ، یعنی روزمرہ کے زندگی کے مسائل کا ادراک___ فکری اساس مستقل اثاثہ ہوتی ہے جو تربیت، مطالعے اور گہرے غوروفکر سے تشکیل پاتی ہے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے اور غوروفکر اسے مستقل چمکاتا رہتا ہے۔ روزمرہ کی سوچ یا وقتی سوچ حالات کے تابع ہوتی ہے اور روزمرہ کی زندگی کے مسائل اور چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کا راستہ دکھاتی ہے۔ سیاست دانوں کے حوالے سے آپ اسے سیاسی سوچ بھی کہہ سکتے ہیں، جب کہ فکری اساس ایک ایسے فلسفے اور فکر کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ صرف غوروفکر کا منبع اور سرچشمہ ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہوتی ہے۔

فکری اساس تربیت اور گہرے مطالعے سے بنتی ہے۔ تربیت سے مراد گھریلو تربیت اور سکول کی تربیت ہے، جو اساتذہ کی ذاتی توجہ کی محتاج ہوتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ استاد خود بھی صاحب ِ فکر ہو اور اپنی سوچ اور مطالعے کو شاگردوں میں منتقل کرنے کا فن جانتا ہو۔ اگر استاد محض دیہاڑی دار مزدور ہو، مطالعے اور فکر سے محروم ہو، جذبے سے تہی دامن ہو، تو وہ محض رٹ رٹا کر کورس پڑھاتا رہے گا، جس سے شاگرد شدید محنت کر کے امتحانات میں اچھے نمبر تو لے لیں گے، لیکن وہ فکری اساس یا نظریاتی محور سے محروم رہیں گے۔ گھریلو تربیت بھی صرف ان گھروں میں ملتی ہے جہاں والدین کو بچوں کی تربیت کا خیال ہو، والدین اخلاقی قدروں کے عملی نمونہ ہوں اور بچوں پر بھرپور توجہ دیں۔ جن گھرانوں میں ماں باپ خود اخلاقی قدروں سے بے نیاز ہوں اور عدیم الفرصت ہوں، وہاں بچے کٹی پتنگ کی مانند ہوتے ہیں جن کی ڈور کسی کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اور وہ ہوا میں اُڑتے کسی درخت کی ٹہنی سے اُلجھ جاتے ہیں۔

میرے تجربے، مشاہدے اور مطالعے کے مطابق بچوں کی فکری اساس یا بنیاد ۱۸،۲۰سال کی عمر تک تعمیروتشکیل کے مراحل سے گزرتی ہے اور اگر وہ اسی ڈگر پر چلتے رہیں تو وہ بنیاد مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ کالجوں، یونی ورسٹیوں کے آزاد ماحول میں کسی خاص گروہ کے ہتھے چڑھ جائیں، تو وہ عام طور پر پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ بعدازاں اپنے محور و مرکز کی جانب    لوٹ آتے ہیں، بشرطیکہ ان کی فکری و اخلاقی اساس مضبوطی سے تعمیر کی گئی ہو۔ لیکن اگر اس میں کمزوریاں اور خامیاں زیادہ ہوں، تو وہ اپنے حلقے، دوستوں اور ساتھیوں کے زیراثر اپنے نظریات بدل لیتے ہیں۔ میرے سامنے کتنی ہی مثالیں ہیں کہ جن بچوں کی جوانی تک تربیت مذہبی ماحول میں ہوئی، جہاں گھر کی فضا پر مذہب کا راج تھا اور والدین کی سخت گیری کی حکمرانی تھی، وہ عام طور پر یونی ورسٹی کی آزاد فضا یا آزاد منش دوستوں کے زیراثر چند ہی برسوں میں مذہب ہی سے باغی ہوگئے۔

اسی سے متعلق ایک دوسری قسم بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مذہبی ماحول اور نظریاتی و تنظیمی گروہ سے فکری اساس لے کر باصلاحیت نوجوان جب عملی زندگی کی دوڑ میں شریک ہوئے، تو کچھ عرصے تک اپنے نظریاتی اصولوں پر قائم رہے۔ اپنے اصولوں کے لیے ایثار بھی کرتے رہے اور اپنے آئیڈیلز کے حصول کے لیے، اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قیدوبند بھی مستقل مزاجی اور جرأت سے برداشت کرتے رہے۔ لیکن جوں جوں وہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھے اور انھیں معاشی دبائو کا سامنا ہوا، تو ان میں سے قلیل تعداد اپنے اصولوں پر قائم رہی، جب کہ اکثریت نے دھیرے دھیرے ’عملیت پسندی‘ کی پالیسی اپنا لی۔ بظاہر آئیڈیلز اور اعلیٰ مقاصد کا دامن بھی تھامے رکھا لیکن معاشی مفادات، حکومتی اثرورسوخ، معاشرے میں اہمیت کے حصول اور دوسرے دنیاداری کے تقاضوںکے تحت سمجھوتے کرنے بھی شروع کر دیے۔

جوانی میں جو باغی بن کر اُبھرے، جوانی ہی میں عملیت پسند بن کر دولت اور شہرت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہوگئے اور بعض تو اس دوڑ کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے خاصی تعداد ان حضرات کی ہے جو صحافت، قلم یا سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور ہماری نگاہوں کے سامنے حق گوئی کا علَم اُٹھائے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر مفادپرستی کی علامت   بن گئے۔ نظریاتی بنیادوں پر حکمرانوں یا جماعتوں پر تنقید کرتے کرتے مفادات کی خاطر انھی کے غیرسرکاری مشیر بن گئے اور دولت میں کھیلنے لگے۔

تاہم، اس کاررواں کے وہ لوگ جو آئیڈیلز، اصولوں اور خوابوں سے وابستہ رہے، عشروں کا سفر طے کرنے کے باوجود مادی پس ماندگی کا شکار رہے یا مالی آسودگی سے محروم رہے۔ گویا مضبوط فکری اساس کے لیے محض گھریلو یا جماعتی اور تنظیمی تربیت ہی کافی نہیں، زندگی کے سفر کے دوران راستہ طے کرنے میں ذاتی کردار اہم ترین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو استقامت، جواں مردی اور عزم کی کتنی دولت ملی ہے، آپ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت اور استقامت ہے، یہ سارے عناصر عملی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

میرے سامنے ایسے لاتعداد محترم حضرات کی مثالیں بھی موجود ہیں، جنھوں نے صحافت، سیاست، قلم اور تدریس کے شعبے میں ایک خاص نظریاتی پس منظر یا حوالے سے قدم رکھا۔کچھ پر مذہب کا غلبہ تھا، کچھ اسلامی تنظیموں سے تربیت لے کر آئے تھے اور نظریاتی حوالوں سے دائیں بازو کے زیراثر تھے، اور کچھ لبرل ازم کے ’پروردہ‘ ذاتی زندگی میں ہرقسم کی اخلاقی قدروں سے آزاد تھے، لیکن میری گنہگار آنکھوں نے ان میں سے اکثریت کو بدلتے دیکھا لیکن اقلیت بہرحال اپنے اصولوں اور نظریات پر قائم و دائم رہی۔ جب میں کہتا ہوں ’بدلتے دیکھا‘ تو سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے حق گوئی و بے باکی کے علَم بردار صحافیوں، اہلِ قلم اور سیاسی کارکنوں کو حکومتوں، سیاست دانوں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے کارندے بنتے دیکھا۔ بالآخر دولت کو نظریات پر غالب آتے دیکھا۔ بس فرق صرف ڈگری کا رہا قِسم کا نہیں۔ مراد یہ ہے کہ فرق تھوڑے بہت کا رہا، قسم ایک ہی تھی۔ دیوانے تو فرزانے بنتے رہے لیکن فرزانوں میں سے کسی کو دیوانہ بنتے نہ دیکھا۔ میں نے ایسے نظریاتی حضرات بھی دیکھے جو بعض نظریات، آئیڈیالوجی یافلسفۂ حیات کے پرچارک تھے لیکن ان کی عملی زندگی یا اپنی شخصیت پر ان نظریات کی پرچھائیں بھی موجود نہیں تھی۔

فکری اساس کے حوالے سے یاد رکھیں کہ فکری اساس مکتب کی کرامت، والدین کی بھرپور توجہ سے مزین تربیت اور اپنے طور پر گہرے مطالعے اور غوروخوض سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ نہ تو وراثت میں ملتی ہے اور نہ آسمانوں سے اُترتی ہے۔ ملکوں اور قوموں میں جتنے بھی قابلِ ذکر یا تاریخی انقلابات رُونما ہوئے، وہ سب کے سب اُن لیڈروں کے مرہونِ منت تھے جن کی فکری اساس گہری اور مستحکم تھی۔ مائوزے تنگ ہوں یا چواین لائی، گاندھی ہوں یا ڈاکٹر مارٹن لوتھر، اقبال ہوں یا قائداعظم محمدعلی جناح، ملایشیا کے مہاتیر ہوں یا سنگاپور کے مسٹرلی___ ان سب حضرات کی فکری اساس نہایت مستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر قائم تھی اور فکری، سماجی یا سیاسی انقلاب برپا کرنے میں ان کی فکری اساس یا فلسفے کا اہم کردار تھا۔ فکری اساس سے محروم قیادت ایڈہاک اور وقت گزارنے کی پالیسیوں کی بنیاد پر حکمرانی کرتی ہے۔ اپنے تجربے اور ساتھیوں کے مشورے سے بعض اچھی پالیسیاں بھی بنالیتی ہے لیکن کوئی بنیادی تبدیلی یا ملک و قوم کی زندگی میں انقلاب لانے کی اہل نہیں ہوتی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے بعد پاکستان کو ایسی قیادت نصیب نہ ہوئی، جو مضبوط اور بے لوث فکری اساس کی بنیاد پر ملک و قوم کی زندگی میں وہ انقلاب لاسکتی ہو، جس کا سلسلہ اقبال کی شاعری اور پیغام سے شروع ہوا تھا اور جسے قائداعظم نے پروان چڑھایا تھا۔ نتیجے کے طور پر معاشرتی، ذہنی اور سیاسی انقلاب کا وہ سلسلہ جاری نہ رہا جو ارتقائی منازل طے کرتا ہوا پایۂ تکمیل تک پہنچتا۔

اندازِ حکمرانی یا گورننس کے سوتے فکری اساس، نظریات، ذہنی پس منظر اور غوروفکر سے پھوٹتے ہیں لیکن جہاں نہ تو فکری اساس ہو اور نہ پختہ نظریات، وہاں اندازِ حکمرانی ناپاے دار ہونے کے سبب بدلتا رہتا ہے۔ آج ان کا انداز ایک اسلامی ذہن رکھنے والے فرد کے مانند ہے تو     کل روایات سے انحراف کرتے ہوئے نظریاتی تقاضوں سے باغی ہونے کا ثبوت دینے لگے گا۔  گویا آج گورننس کو اسلامی لبادہ اوڑھایا جارہا ہے تو کل گورننس کو لبرل ازم کی خلعت پہنائی جارہی ہوگی۔ یہ رویہ ذہنی و نظریاتی ناپختگی کی چغلی کھاتا ہے۔ سیاست میں ارتقا اور بات ہے اور نظریات سے انحراف بالکل مختلف امر ہے۔ سیاسی ارتقا قائداعظم کی زندگی میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا علیحدہ وطن کا مطالبہ اسی سیاسی ارتقا کا کرشمہ تھا۔ لیکن فکری اساس اتنی پختہ تھی کہ شروع سے      آخر تک اس میں دراڑیں پڑیں اور نہ وہ اس راستے ہی سے ہٹے۔ بھلا ان کی فکری اساس تھی کیا؟ اول آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنا، اور دوم اسلامی روایات کی پابندی اور یہ پابندی   ان معنوں میں کہ اپنی سیاست اور عوامی زندگی کو اسلام کے اصولوں کا تابع رکھنا۔

اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ قائداعظم نے انگلستان سے واپسی پر سب سے پہلے جن جلسوں میں شرکت کی، وہ عید میلادالنبیؐ کی تقریبات تھیں۔ یاد رہے وہ اس وقت ایک نوجوان تھے۔ دوسرا ثبوت قانون ساز ادارے کا رکن بننے کے بعد مسلمانوں کے لیے وقف الاولاد کی قانون سازی تھی۔ اسی طرح نواب صدیق علی خان لکھتے ہیں: جارج ششم انگلستان کا بادشاہ تھا۔ قائداعظم مذاکرات کے سلسلے میں لندن میں موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ انگلستان کا بادشاہ اپنی کالونی ہندستان کا بھی بادشاہ تصور ہوتا تھا۔بادشاہ کی طرف سے قائداعظم کو ظہرانے کی دعوت موصول ہوئی، جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ قائداعظم نے یہ کہہ کر دعوت مسترد کردی کہ آج کل رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے اور اس میں مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ یہ رویہ تھا ایک مسلمان کا، جس کی فکری و نظریاتی اساس مستحکم تھی۔ ورنہ کوئی اور مسلمان لیڈر ہوتا تو روزہ قضا کرکے یہ اعزاز حاصل کرنے پہنچ جاتا۔

قائداعظم آئینی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔سیاسی زندگی میں صرف ایک بار ان کو احتجاج کی کال دینا پڑی کیوںکہ یہ گاندھی کی احتجاجی سیاست نے ناگزیر بنادی تھی اور ہندستان میں مسلمانوں کے مستقبل اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے زندگی و موت کا مسئلہ درپیش تھا۔ بات ہے مائنڈسیٹ کی، لیکن افسوس کہ مجھے پاکستان کی کئی عشروں کی سیاست پر آئینی سوچ کے بجاے احتجاجی اور ہڑتالی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ قانونی و آئینی طریقے اختیار کرنے کے بجاے ہڑتالیں، توڑپھوڑکی ترجیح نظر آتی ہے۔ ایک اور تضاد بھی قابلِ غور ہے: حکومت میں ہوں تو قانون اور ضابطے کی باتیں کرتے ہیں اور اپوزیشن میں ہوں تو ہڑتالوں اور احتجاجی حربوں سے تخت اُلٹنے کی سیاست۔

قائداعظم کی شخصیت کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ وہ اپوزیشن میں بھی قانون اور ضابطے کی تلقین کرتے تھے اور اقتدار میں بھی اسی اصول پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں نے قائداعظم کے سیاسی ورثے سے انحراف یا بغاوت کیوں کی؟ مجھے تو یہ مسئلہ کردار، ذہنی ساخت اور فکری اساس کا لگتا ہے۔ ہماری سیاست میں باتیں اور دعوے کچھ اور کیے جاتے ہیں لیکن عمل بالکل متضاد، یعنی کہ منافقت۔ انتخابی مہم میں سادگی اور حکومتی خرچے گھٹانے کی نوید سنائی جاتی ہے، لیکن اقتدار میں آکر ہمارے حکمران مغل بادشاہوں کے طرزِ حیات کو بھی شرما دیتے ہیں۔ قائداعظم کا کردار ایسی منافقت سے پاک تھا۔ اس حقیقت کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے ہیں۔

ہمارے وزراے اعظم اور وزرا ہر سال غیرملکی دوروں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ قائداعظم کی قومی خزانے سے محبت، سادگی اور بچت کا کون سا واقعہ سنایا جائے۔ ان کے اے ڈی سی حضرات اور سٹاف کی کتابیں، یادیں اور انٹرویو ہی پڑھ لیجیے۔ فی الحال اتنا ہی سن لیجیے کہ قائداعظم بیمار تھے اور مشرقی پاکستان میں بے چینی کے پیش نظر وہاں جانا چاہتے تھے۔ گورنرجنرل کا سرکاری جہاز ڈیکوٹا نہایت چھوٹا تھا اور اس سفر میں تکلیف دہ تھا۔فائل پر تجویز کیا گیا کہ گورنر جنرل کے دورے کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی سے جہاز کرایے پر لیا جائے۔ اس پر ۵ہزار پونڈ صرف ہوں گے، جو اس وقت کوئی ۸، ۱۰ ہزار روپوں کے برابر تھے۔ قائداعظمؒ نے لکھا: ’’غریب ملک کا خزانہ اتنے خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں گورنر جنرل کے چھوٹے طیارے ہی پر جائوں گا‘‘۔ آج کل ہمارے وزیراعظم اور صدرہائوس کا روزانہ خرچہ لاکھوں اور سالانہ اربوں میں ہے۔

قائداعظمؒ ایک ایک آنے کے خرچ پر نگاہ رکھتے تھے۔ گورنر جنرل کے لیے کراچی کی ایک بیکری سے روزانہ تازہ ڈبل روٹی آتی تھی۔ ایک دن بیکری کے مالک کو محترمہ فاطمہ جناح کی جانب سے فون موصول ہوا کہ آپ ڈبل روٹی بڑی بھیجتے ہیں۔ ہم ایک چوتھائی استعمال کرتے ہیں باقی ضائع ہوجاتی ہے، آیندہ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں۔ بیکری کے مالک نے مؤدبانہ عرض کیا: ’’ہمارے پاس اس سے چھوٹا سانچہ نہیں ہے‘‘۔ مادرِ ملّت نے تجویز کیا کہ: ’’نیا بنوائیں، آپ کے کام آئے گا‘‘۔ اس کے بعد سے گورنر جنرل کو چھوٹی ڈبل روٹی کی سپلائی شروع ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں کے کھانوں، باورچیوں اور متنوع کھانوں کی خواہشات بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں۔ میزپر سجے لاتعداد کھانوں سے پیٹ تو بھر جاتے ہیں لیکن آنکھیں نہیں بھرتیں۔ قائداعظمؒ زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے، ہمارے لیڈر کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں۔

گورنر جنرل پاکستان کے اے ڈی سی جناب عطا ربانی کے بقول: قائداعظمؒ نے اپنے لیے ریلوے پھاٹک کھلوانے سے انکار کر دیا، حالانکہ ٹرین آنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور وہ آسانی سے گزر سکتے تھے۔ لیکن قائداعظمؒ نے کہا: قانون سب کے لیے برابر ہے۔ میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔ ہمارے حکمران جدھر جاتے ہیں، خلقِ خدا کی زندگی اجیرن بنادیتے ہیں۔ مریض گاڑیوں میں تڑپتے اور طلبہ اسکولوں سے لیٹ ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ سالانہ امتحان دینے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ ان ’اعلیٰ حاکموں‘کی آمد پر ہر قانون پامال ہوتا ہے۔ قانون کی پامالی قومی رویہ بن گیا ہے۔ کیا آپ ہر طرف افراتفری اور انتشار نہیں دیکھتے؟

مختصر یہ کہ ہماری قوم کئی المیوں کا شکار ہے اور ان میں ایک اہم المیہ، یعنی ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ قوم قائداعظم کے بعد ایسی کرشمہ ساز قیادت سے محروم ہے، جو مستحکم اور گہری فکری اور فلسفے کی مالک ہو اور جو قومی زندگی میں فکری تبدیلی یا انقلاب لانے کی اہل ہو۔ قومی انقلاب ہمیشہ لیڈروں کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ قیادت اہل اور مخلص ہو تو قوم کو پستی سے نکال کر بلندی پر لے جاتی ہے اور نہ صرف معاشی بلکہ ذہنی انقلاب بھی برپا کردیتی ہے۔ ہماری قومی زندگی میں اقبال کی شاعری اور قائداعظم کی سیاست نے جس فکری آگہی، بیداری اور تحریک کا آغاز کیا تھا وہ قیامِ پاکستان پر منتج ہوکر پس پردہ چلی گئی، اور ان کے بعد ایسی قیادت نصیب نہ ہوسکی جو اس انقلابی تحریک کو  آگے بڑھا سکتی اور قوم کی ذہنی سمت متعین کرسکتی۔ اس المیے کی بنیادی وجہ وہی تھی کہ ہماری قیادت کسی ٹھوس فکری اساس سے تہی دامن تھی اور آج بھی تہی دامن ہے۔

   سننے اور دیکھنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔بعض چیزیں کتابوں میں پڑھنے کو ضرور ملتی ہیں، مگر ان کی عملی نظیردستیاب ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر قاری اپنے ذہن و دماغ کے مطابق ایک خیالی تصویرذہن میں بنا لیتا ہے اور ان خیالی تصاویر کے مصورین کی مصوری کا ایک جیسا ہونا بھی ناممکن ہوتا ہے ۔

چار شہید بیٹوں کی صابرہ و شاکر ہ ماں حضرت خنسائؓ کی بہادری اور شجاعت کی داستانِ بے بدل تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کو تو ملتی ہے مگر دورِ حاضر میں بھی روے زمین کی مظلوم ترین سر زمین کشمیرمیں ایک ایسا گھرانہ اپنی غربت ،مفلسی مگر خودداری اور حمیت ِ دینی کا نمونہ نظر آتا ہے، جہاں بوڑھے والدین کے کندھوں نے چارمجاہد لخت ِ جگروں کے جنازے اٹھائے ہیں۔

یہ ہے مرحوم لسّہ خان ساکن سونا براری ککر ناگ (اسلام آباد)کا گھر انا۔جن کی وفات ۵مارچ۲۰۱۶ء کو ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔شہید شیخ داؤد(کیموہ ،اسلام آباد) کے بھائیوں سے تعزیت کے بعدمیں اپنے چند دوستوں کے ساتھ لسّہ خانؒ کے گھر تعزیت کے لیے روانہ ہوا۔ماگام سونا براری وسیع ترین پہاڑی علاقہ ہے ۔لسّہ خانؒ کا گھر ایک پہاڑ کے بالکل  دامن میں واقع ہے ۔اس گھر میں اب نہ لسّہ خان ہے نہ اس کے بیٹوں میں سے کوئی ایک ۔یہاں صرف چار شہیدوں کو اپنی گود میں پروان چڑھانے اور جنازے دیکھنے والی صابرہ و شاکرہ ایک بوڑھی ماں، ان کی چھوٹی بیٹی، اس کا شوہر (منظور احمدکچھے)،ان کے تین معصوم بچے اور ایک شہید کے تین معصوم پھول۔ یہ ہے کُل کائنات لسّہ خان کے گھر کی ۔

میرا خیال تھا کہ لسّہ خان ؒ کشمیر کی کسی دینی تنظیم کے رکن ضرور ہوں گے۔ اس لیے انھیں اپنے دینی کارناموں پر ناز ہونا چاہیے۔ مگر میری حیرت اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب لسّہ خان کی بیوہ نے کہا کہ ان کا تعلق کسی بھی دینی یا سیاسی تنظیم سے کبھی بھی نہیں رہا ہے ۔میں نے استفساراً عرض کیا کہ کشمیر کی کسی دینی تنظیم کا یہاں کوئی یونٹ موجود ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیا ۔مجھے اس بات سے یقین ہوا کہ بے نیاز رب اپنے دین کی خدمت کے لیے جب چاہتا ہے سنگلاخ چٹانوں سے چشمۂ شیریں جاری کردیتا ہے ۔

لسّہ خانؒ کی کہانی ایک دو سال کی نہیں بلکہ پورے ۲۸ برس کی ایسی داستان ہے، جس میں ہمیں ایمان،تقویٰ،پہاڑ جیسی استقامت،مروت،ایثار،محبت اور فنا فی اللہ کی سچی تصویر نظر آتی ہے۔    ان کے تینوں بیٹے شہید غلام حسن،شہید مختار احمد اور شہید اعجاز احمد سب مجاہد تھے، جب کہ ایک ۱۳سالہ آخری بیٹا بھی بھارتی فوج کے ہاتھوں نزدیکی جنگل میں شہید ہوا ہے ۔جس پر لسّہ خانؒ کبھی بھی غمگین نہیں ہوا ۔چار شہیدوں کی ماں سے جب میں نے یہ پوچھا کہ کیا آپ کا ۱۳سالہ بیٹا بھی مجاہد تھا تو میرا سوال سنتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور ہچکی لیتے ہو ئے کہا: ’’نہیں، وہ مجاہد نہیں تھا بلکہ جنگل میں بھائیوں کا کھانا لے کر گیا کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز دیر تک سنائی دی۔ گاؤں میں خوف و دہشت کا ماحول طاری تھا۔ فوج نے لسّہ خانؒ کو بلایا تاکہ لاشوں کی شناخت کرسکے۔    ہم نے اُڑتی اُڑتی خبر سنی تھی:’’ آٹھ مجاہد شہید ہوئے ہیں‘‘ ۔ہمیں یقین سا ہوا کہ آج میرا بیٹا اعجاز احمد شہید ہوا ہوگا مگر ہمارے اُوپر بجلی گری جب اعجاز کے برعکس میرے ۱۳سالہ محمد عباس کی لاش تھما دی گئی‘‘۔

بوڑھی اماں کا کہنا تھا کہ: ’’اس روز لسّہ خان بے قابو سا ہوگیا، اس لیے کہ چھوٹو کے سینے کو  بہت ساری گولیوں نے چھلنی کر دیا تھا۔ لسّہ خان اور فوجی افسر کے درمیان اس کی شہادت پر سخت تکرار شروع ہوئی کہ آخر ایک معصوم بچے کو مارنے کی ضرورت کیا تھی؟ فوجی افسر نے ہاتھ میں بندوق لہراتے ہوئے کہا کہ یہ ہے تیرے معصو م کی بندوق جس سے اس نے فوج پر فائرنگ کی ہے، حالانکہ یہ صریحاً جھوٹی کہانی تھی جس میں رتی بھر صداقت نہیں تھی ۔یہ کہہ کر بوڑھی ماں خاموش ہوگئی۔

    لسّہ خان نے تحریک کے لیے اپنے چار لخت جگروں کی قربانی ہی نہیں دی بلکہ دوبھانجوں کو بھی تحریک کشمیرکے لیے قربان کردیاہے۔ اس کا بھانجا۲۶سالہ حبیب اللہ خان  ولدسبحان خان حزب المجاہدین ہی کے ساتھ وابستہ تھا۔ وہ بھی ایک جھڑپ کے دوران شہید ہو اہے۔

لمبے وقفے کے بعد اعجازاحمد گھر لوٹ آیا، تاہم اسے معلوم نہ تھا کہ فوج نے کئی ماہ سے   ان کے گھر کو ہی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے۔تصور سے بالاتر صورتِ حال نے اعجاز کو خاصا پریشان کردیا۔ وہ کسی جگہ آڑ لینے کے لیے الٹے پاؤں پیچھے ہٹاتو فوج نے فوراًعلاقے کو گھیر لیا۔ فوج نے اعجاز احمدکو سرنڈر کرکے جان بچانے کی پیش کش کی مگر اس نے کسی پس و پیش کے بغیر رد کردی، جھڑپ کا آغاز ہوا جس میں بالآخر اعجاز احمد شہید ہوگیا۔

اس کے کچھ عرصے بعد ایک طویل جھڑپ میں حبیب اللہ بھی شہید ہوا۔اس جھڑپ کے دوران لسّہ خان کا دوسرا گھر اور گاؤ خانہ بھی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا۔پانچ برس کی قلیل مدت میں تین بیٹے اوردو بھانجے کھونے کے بعد لسّہ خان اور ان کی اہلیہ اب چوتھے بیٹے ۲۸سالہ غلام حسن کی سلامتی کی دعائیں کررہے تھے۔ تاہم، اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

اُ م الشہدا کے بقول غلام حسن بھی حزب المجاہدین کے ساتھ ۹۰ کے عشرے میں وابستہ ہواتھا کہ اچانک گرفتار ہوا ۔کئی سال بعد رہائی نصیب ہوئی،پھراس نے شادی کی اور بچے بھی ہوئے تھے۔اپریل۲۰۰۳ء میں جب وہ کام کے بعد گھر لوٹ رہا تھا تو فوج نے اسے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ ہلڑ نامی گاؤں لے گئے جہاں اس کا شدید ٹارچر کیاگیا اور بے ہوشی کی حالت میں ایک کھیت میں پھینک دیاگیا۔وہ تین ماہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہا اور بعد میں جب گھر میں رو بہ صحت ہورہا تھا تو اچانک اپریل۲۰۰۳ء کی ایک شب کے دوران میں فوجی اہلکار اس کے کمرے میں گھس گئے اور وہیں گولیاں مار کر ابدی نیند سُلادیا۔

اُم الشہدا کا کہنا ہے کہ: اس کے شوہر لسّہ خان کو فوج اور پولیس بار بارگرفتار کر کے ٹارچر کرتی تھی جس کے نتیجے میں وہ کئی بیماریوں کے شکار ہو گئے ۔دل،آنکھ اور پھیپھڑوں کی بیماری کی تکلیف وہ عرصۂ دراز سے جھیل رہے تھے مگر آخری تین سال میںوہ بستر تک محدود ہوگئے تھے ۔  ان ساری مشکلات کے باوجود میرے مرحوم شوہر کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے، بلکہ انھیں اپنے بیٹوں کی شہادت پر فخر تھا اور ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا ۔ وہ علالت کے باوجود بھی عبادت کرتے رہے۔ وہ تہجد اور تلاوت قرآن کے سخت پابند تھے، حتیٰ کہ عین آخری وقت بھی وہ عبادت میں ہی محوتھے۔

    یہ مصیبتیں مرحوم لسّہ خان نے تنہا نہیں جھیلیں، بلکہ قدم قدم پر ان کی صابرہ و شاکرہ اہلیہ نفیسہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔چار بیٹوں کے شہید باپ کو تشدد کے ذریعے جسمانی عوارض میں مبتلا کردیا گیا۔ جب وہ انھی مصیبتوں اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کا ذکر کر رہی تھیں، تو ان کے آنسو رُکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔اس واقعے کو یاد کرکے وہ تڑپ اٹھیں جب وہ جنگل گئیں۔ گھر میں شوہر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ بھارتی فوج جنگل سے نفیسہ کو گرفتار کرکے اس حال میں لائی کہ نہ دوپٹہ سر پر رہا اور نہ پاؤں میں پھٹی چپل!کسی طرح لسّہ خان کو اطلاع ہوئی۔ وہ فوراً پہنچے تو ان کی بیوی کو رہا کردیا گیا،  مگر اس رہائی کے بعد وہ دوبارہ سنبھل نہیں پائے۔اس المیہ کا یہی اَلم ناک پہلو نہیں ہے کہ سیکورٹی ایجنسیاں بیٹوں کا انتقام والدین سے لیتی رہیں، بلکہ اپنوں کی بے اعتنائی نے اس درد میں بے پناہ اضافہ کردیا ۔مسلسل چھاپوں میں سرچھپانے کی جگہ کی عدم دستیابی ،اپنوں کے عدم تعاون ،مکان کی مسماری، معصوم اور یتیم بچوں کی دربدری اور تین بیٹوں اور دو بھانجوں کو اپنے ہاتھوں دفنانے اور پھر آخری بیٹے کو گولیوں سے چھلنی دیکھنے کا دل دوز منظر!

پاکستان کے ایک اعلیٰ سول افسر اور دانش ور قدرت اللہ شہاب مرحوم اپنی یادداشتوں شہاب نامہ  میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے ابتدائی دنوں [اکتوبر،نومبر ۱۹۵۸ئ] کے ایک اہم واقعے سے متعلق لکھتے ہیں، جس کا تعلق ہمارے آج سے بہت گہرا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:  اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی اُن کے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لا نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات، قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے، اُن میں صرف ’حکومت ِ پاکستان‘ کا حوالہ دیا جارہاہے۔ ’حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کا کہیں ذکر نہیں آرہا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فروگزاشت ہوگئی ہوگی، لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگزاشت دُہرائی جارہی ہے، وہ سہواً کم اور التزاماً زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اس پر میں نے ایک مختصر نوٹ میں فیلڈمارشل محمد ایوب خان کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارتِ قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورتِ حال کی طرف دلائی جائے اور اُن کو ہدایت کی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی تصحیح کی جائے اور آیندہ اس غلطی کو نہ دُہرایا جائے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹاکر واپس بھیج دیا کرتے تھے، لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک واپس نہ آیا۔ ۵نومبر کی شام میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پر ایوب خان صاحب اپنے چندرفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر بحث کر رہے تھے۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو ایوب صاحب میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لیے کمرے میں آئے اور کہا: ’’تمھیں   غلط فہمی ہوئی ہے۔ ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر یہی طے کیا ہے کہ ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ سے ’اسلامک‘ کا لفظ نکال دیا جائے‘‘۔ شہاب صاحب نے پوچھا: ’’یہ فیصلہ ہوچکا یا ابھی کرنا ہے؟‘‘ ایوب خان نے کسی قدر غصے سے گھورا اور سخت لہجے میں کہا:  ’’ہاں ہاں، فیصلہ ہوگیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے۔ اس میں دیر نہ ہو‘‘۔ اتنا کہہ کر وہ تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے…

اگلی صبح قدرت اللہ شہاب نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا، بلکہ اُس کی جگہ ایک نوٹ لکھا، جس کا لب ِ لباب یہ تھا کہ: ’’پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی، لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے درمیان ریڈکلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطۂ ارضِ اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حدبندی کی یہ لائن معدوم ہوجائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ افغانستان ، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیرباد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی، ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہِ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لیے ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو ، اسلام ہماری طرزِ زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لیے نہیں تو اسی چند روزہ زندگی میں خودغرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ہمیں اسلام کی بات ہرحال میں ڈنکے کی چوٹ کرنا ہی پڑے گی، خواہ اس کی دھمک ہمارے حُسنِ سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ ’جمہوریہ پاکستان‘ کے ساتھ ’اسلامک‘ کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرونِ وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[شہاب نامہ، ص۷۱۹، ۷۲۰]

پھر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: ساتھ ہی میں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفا بھی لکھ دیا کہ میرا استعفا منظور کرکے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے… (دوسرے روز) میں اپنے آفس وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ ایوب خان صاحب کے آنے سے پہلے اپنا نوٹ ٹائپ کروا رکھوں گا، لیکن وہاں دیکھا تو وہ پہلے ہی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمرے میں آگئے اور پوچھا: ’ڈرافٹ تیار ہے؟‘ میں نے جواب دیا کہ: ’تیار تو ہے، لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا‘۔ ’کوئی بات نہیں‘۔ انھوں نے کہا: ’ایسے ہی دکھائو‘۔ وہ سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ پڑھنے لگے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر ازسرِنو شروع سے پڑھنے لگے۔ جب پڑھ چکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے: Yes, you are right۔   یہ فقرہ انھوں نے دوبارہ دہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لیے کمرے سے چلے گئے۔ چند روز کے بعد میں کچھ فائلیں لے کر ایوب صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے: ’’کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ’ماڈرن ازم‘ اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں اُن سے کہتا ہوں: Pakistan has no escape from Islam۔ اس کے بعد انھوں نے پے درپے میرے نوٹ کے کئی فقرے بھی دُہرائے۔ [ص ۷۲۱، ۷۲۲]l

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے سامنے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کا مستقبل دھندلا دیا گیا ہے اور دھندلایا جارہا ہے۔ صدر ایوب نے تو ایک غلطی کی جس کو درست کرنے کے سلسلے میں ایک سرکاری افسر نے اپنا فرض ادا کیا، جس پر اللہ تعالیٰ   قدرت اللہ شہاب کو اجرعظیم عطا فرمائے، آمین!۔ لیکن آج پاکستان کو لاالٰہ الا اللہ کے نام پر قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ کے ’وارث‘ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کو ’لبرل‘ اور ’ترقی پسند‘ بنانے کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ اِس دور کے سرکاری افسروں میں تو کسی قدرت اللہ شہاب کا پیدا ہونا شاید ممکن نہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ن لیگ کا کوئی لیڈر نواز شریف کو یہ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا کہ: ’’وہ لبرل ازم کا نعرہ لگاکر پاکستان کے قیام کے نظریے کی نفی کر رہے ہیں اور اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے رفقا میں سے کوئی اپنی آخرت کے لیے، اور پاکستان کے مستقبل کے لیے نواز شریف کو یہ نکتہ سمجھا نہیں رہا کہ وہ کیسی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ اس معاملے پر پارٹی کے بڑوں کو وزارت کی قربانی بھی دینی پڑے تو گھاٹے کا سودا نہیں۔

حزبِ اختلاف کا تو ویسے ہی کوئی حال نہیں ہے۔ پاکستان کو اسلامی آئین اور جوہری بم دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے وارث بلاول زرداری تو خود بھٹو کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کے لیے پیش پیش اور پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکا و یورپ سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہوئے پیپلزپارٹی نے سندھ میں ہولی اور دیوالی پر سرکاری چھٹی کا اعلان کیا اور یہی مطالبہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ کیا امریکا اور یورپ میں عید کے موقعے پر قومی تعطیل ہوتی ہے؟ وہاں تو مسلمانوں کو عید کی چھٹی نہیں دی جاتی۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے مذہبی تہوار منانے کے لیے چھٹی دینا دُرست ہے، لیکن ایسے تہواروں کے لیے قومی تعطیل کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پالیسی پر ایک اعلیٰ افسر نے مجھے یہ پیغام بھیجا: ’’یومِ اقبال کی چھٹی ختم اور ہولی اور دیوالی کی چھٹی شروع ہوئی، جب کہ پاکستان میں ہندو ۶ئ۱ فی صد سے بھی کم… یہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ سرحدیں پامال کی جاچکی ہیں… افسوس اب اس قوم کو محض ایک ہجوم سمجھا اور ہجوم بنایا جارہا ہے‘‘۔

اور کیا واقعی پاکستان کی نظریاتی بنیاد اور پہچان کا معاملہ کوئی چھوٹا مسئلہ ہے؟

قائداعظم پاکستان کے رہنے والوں کے عظیم ترین محسن ہیں کہ انھوں نے اپنی صحت، نجی زندگی، گھربار سب کچھ تیاگ کر ہمیں ایک آزاد خطۂ زمین لے کر دیا اور انتقال سے قبل اپنی محنت سے کمائی گئی دولت بھی قوم میں تقسیم کرگئے۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ قائداعظم ہماری تاریخ کے ایک مظلوم کردار بنتے نظر آتے ہیں۔

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان کے نظریات،افکار، سیاسی و ذاتی زندگی پر بحث جاری ہے اور یہ کشتی کنارے لگتی نظر نہیں آتی۔ اصول تو یہ ہے کہ کسی بھی عظیم سیاسی رہنما کو اس کی تقریروں، فرمودات، تحریروں اور سیاسی زندگی کے حوالے سے جانچا پرکھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی ایجنڈے ، ذاتی فلسفے اور ذاتی مفاد سے بلند ہوکر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہاں صورت مختلف ہے۔

قائداعظم کا نقطۂ نظر، تصور، جدوجہد اور وژن ان کی تقریروں سے روزِ روشن کے مانند واضح ہے، لیکن ہمارے ہاں خاص کر گذشتہ چار عشروں سے رسم چل نکلی ہے کہ ایجنڈا بردار حضرات ان کو پورے تناظر میں سمجھنے اور ان کی سیکڑوں تقاریر و بیانات پڑھنے کے بجاے، سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنے اپنے مطلب کے فقرے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ پھر انھی جملوں پر اپنے فلسفے اور اپنی خواہشات کا خول چڑھا کر مخصوص فکری  ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی تحریف نگاری کا یہ موضوع ایک کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ مجھے قائداعظم کے سیکڑوں حوالے اور تقاریر یاد ہیں۔ یہاں پر صرف مثال کی خاطر عرض کر رہا ہوں کہ روزنامہ جنگ (۹فروری ۲۰۱۶ئ) نے ایک صاحب کا کالم شائع کیا، جس میں انھوں نے قائداعظم کی چند تقاریر سے من پسند اور وضع کردہ جملوں کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر من پسند نتائج اخذ کیے۔ اس سے مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔

مثال کے طور پر موصوف نے لکھا کہ یکم فروری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں فرمایا: ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا، جس میں مُلّائوں کو مذہبی نصب العین کی روشنی میں حکومت کرنے کا اختیار ہو‘‘ ۔ چونکہ موصوف نے اس جملے کو خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے منتخب کیا ہے، اس لیے قائد کے اصل الفاظ اور پورا سیاق و سباق ملاحظہ فرمایئے اور پھر ان کا اُردو ترجمہ:

The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I do not know what the ultimate shape of this constitution is going to be. But, I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they [means `Principles of Islam`] are as applicable in actual life, as they were 1,300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fairplay to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions and are fully alive to our responsibilities and obligations as framers of the future constitution of Pakistan. In any case Pakistan is not going to be a theocratic state __ to be ruled by priests with a divine mission. (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam, Vol: 4, ed: Khurshid A. Yusufi,(بزمِ اقبال، لاہور، ص ۲۶۹۴ 

مجلس دستورِ پاکستان کو ابھی پاکستان کا دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے، جیسے کہ ۱۳۰۰ برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہرشخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستورکے مرتبین کی حیثیت سے ہم انھی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہرنوع، پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی، جس پر آسمانی مقصد کے ساتھ پاپائوں کی حکومت ہو‘‘۔

کالم نگار موصوف نے حضرت قائداعظم کی تقریر کے اس مکمل پیراگراف سے اپنی مرضی کا ایک چھوٹا ٹکڑا نکال کر، قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ پورا اقتباس دیکھ لیجیے، یعنی قیامِ پاکستان کے پانچ ماہ بعد بھی قائداعظم بیان فرماتے ہیں:پہلے یہ کہ ’’دستور، دستور ساز اسمبلی نے بنانا ہے‘‘، مراد یہ ہے کہ ’’دستور میری ذات نے شاہانہ اختیار کے ساتھ تشکیل نہیں دینا‘‘۔ دوسرا یہ کہ’’ وہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے لازمی اصولوں پر مبنی ہوگا‘‘۔  سوال یہ ہے کہ اسلام کے لازمی اصول رُوبہ عمل ہوں گے تو پھر پاکستان سیکولر کیسے ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ’’اسلام کے اصول ۱۳۰۰سال بعد بھی ویسے ہی قابلِ اطلاق ہیں اور ہم اہلِ پاکستان قطعاً معذرت خواہ نہیں ہیں کہ ۲۰ویں صدی میں آٹھویں صدی ہجری کے عطا کردہ ضابطوں کو رُوبہ عمل لانے سے کسی طور پر شرمائیں‘‘۔ چوتھا یہ کہ’’ اسلام ہرشخص کے ساتھ (یعنی غیرمسلموں کے ساتھ بھی) عدل اور انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور دستورسازی انھی اصولوں پر ہوگی‘‘۔ پانچواں یہ کہ ’’یہاں پر حکمرانی پاپائوں کی نہیں ہوگی، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہوں اور اپنے ہر بُرے بھلے فعل کو تقدس کی مُہر سے نافذ کرنے کی دھونس جمائیں‘‘۔ (ایسا اختیار یا استثنا اسلام میں سرے سے ہے ہی نہیں، جب کہ ایسا مذہبی اقتدار صرف عیسائیوں میں تھا،جس سے مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی تعلق نہیں)۔ اب آپ جناب دانش ور کی دیانت اور قائد کی بصیرت کا موازنہ کرکے دیکھیے، کیا واقعی قائدکے بیان کردہ اصولی موقف سے کاٹ کر، استعمال کردہ ٹکڑے کا وہی مطلب ہے، یا اس کا مقصد ایک بڑی جچی تلی اور مبنی برصداقت راے کا اظہار ہے؟

قائداعظم کے یکم فروری ۱۹۴۸ء کو امریکی عوام کے نام ریڈیو خطاب کا ذکر پڑھ کر مجھے اس لیے حیرت ہوئی کہ اسی خطاب میں قائداعظم کے ان الفاظ کو کیوں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا، جو بنیادی اصول اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذرا ان الفاظ کو پڑھ لیجیے جو امریکی عوام نے اپنے کانوں سے سنے: Pakistan is the premier Islamic state [پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت ہے]۔ مجھے اس پر ہرگز حیرت نہیں ہوتی کہ ایک مخصوص مکتب فکر سے وابستہ یہ لوگ قائداعظم کی تقاریر کو پڑھتے ہوئے ایسے تمام الفاظ کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اُن کا جی چاہتا ہے کہ ان الفاظ کو قائداعظم کی تقاریر سے حذف کر دیا جائے۔

اسی مضمون میںیہ کالم نگار مزید لکھتے ہیں: ’’۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام تقریر میں قائداعظم نے اعلان کیا کہ ’’پاکستانی ریاست میں مُلّائوں کی حکومت (Theocracy) کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘۔ یہاں پر مَیں مجبور ہوں کہ ایک مرتبہ پھر مظلوم قائداعظم سے رجوع کروں۔ وہ ۱۹فروری ۱۹۴۸ء کو آسٹریلوی عوام کے نام ریڈیائی خطاب میں فرماتے ہیں:

West Pakistan is separated from East Pakistan by about a thousand miles of the territory of India....How can there be unity of government between areas so widely separated? I can answer this question in one word. It is 'Faith': Faith in Almighty God, in ourselves and in our destiny. But, I can see that people, who do not know us well might have difficulty in grasping the implications of so short an answer. Let me, for a moment, build up the background for you.

The great majority of us [means Pakistanis] are Muslims. We follow the teachings of the Prophet Muhammad (peace be on him). We are members of the brotherhood of Islam in which all are equal in right, dignity and self-respect. Consequently, we have a special and a very deep sense of unity. But, make no mistake: Pakistan is not a theocracy or anything like it. Islam demands from us the tolerance of other creeds and we wellcome in closest association with us all those who, of whatever creed, are themselves willing and ready to play their part as true and loyal citizens of Pakistan. Not only are most of us Muslims, but we have our own history, customs and traditions, and those ways of thought, outlook and instinct, which go to make up a sense of nationality.  (حوالہ مذکور، جلد۴، ص ۸۸-۲۶۸۷

مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہزار میل کے قریب بھارتی علاقہ ہے۔ اس قدر طویل فاصلہ ہو تو اتحاد عمل کیسے ہوسکتا ہے؟ میں اس سوال کا ایک لفظ میں جواب دے سکتا ہوں، اور وہ ہے ’ایمان‘۔ ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اپنے اُوپر اعتماد اور اپنے مقدر پر بھروسا۔ لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہم سے واقف نہیں ہیں، انھیں اس مختصر سے جواب کے مضمرات کو سمجھنے میں شاید کچھ مشکل محسوس ہو۔ لیجیے، میں آپ کے سامنے تھوڑ ا سا پس منظر بیان کیے دیتا ہوں:

ہماری عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسولِ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں، جس میں حق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیں، پاکستان میں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پُرتپاک خیرمقدم کرتے ہیں، جو خود پاکستان کے سچّے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ اور رضامند ہوں۔ نہ صرف یہ کہ ہم میں سے بیش تر لوگ مسلمان ہیں، بلکہ ہماری اپنی تاریخ ہے، رسوم و روایات ہیں اور وہ تصوراتِ فکر ہیں ، وہ نظریہ اور جبلّت ہے جس سے قومیت کا شعور اُبھرتا ہے۔

آسٹریلیا کے عوام کے نام قائداعظم کے اس خطاب کا یہ حصہ ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی بات وہ یہ فرما رہے ہیں کہ: ’’پاکستان کے قومی اتحاد کی بنیاد ’ایمان‘ ہے‘‘۔ پھر لفظ ’ایمان‘ کی وہ تشریح فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ پر ایمان‘‘۔ قائد اسی بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ابہام کو دُور کرنے کے لیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’’یہ ملک عظیم مسلم اکثریت رکھتا ہے‘‘۔ یہاں وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’مسلم، ہندو ، سکھ، عیسائی، پارسی کیا ہوتا ہے؟ ہم بس پاکستانی ہیں‘‘۔ نہیں، بلکہ وہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ’مسلم اکثریت‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ دوسرا وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ ’’پاکستان بن گیا ہے، اب ہمارا کیا تعلق اسلام اور غیراسلام کے سوال سے۔ اس لیے اب رہنمائی کے لیے ارسطو، روسو، والٹیر اور ابراہام لنکن کی طرف دیکھو‘‘۔ اس کے بجاے وہ بڑے واضح لفظوں میں فرماتے ہیں: ’’ہم رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں‘‘۔ اور رسولؐ اللہ کی تعلیمات کا مطلب محض ’محمدعلی‘ نام رکھنا نہیں ہوتا بلکہ قرآن، سنت اور حدیث محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہوتی ہیں۔ پھر وہ یہ نہیں کہتے کہ: ’’سرحد اور قومیت کی بنیاد کیا ہوتی ہے‘‘ بلکہ اس کے بجاے کہتے ہیں: ’’ہم اسلامی ملّت و برادری کے رکن ہیں‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’مسلمان اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں‘‘ اور پھر واضح کرتے ہیں کہ: ’’یہاں کوئی پاپائی نظام رائج نہیں ہے؟‘‘ اور آگے چل کر غیرمسلم شہریوں کا پورا احترام ملحوظ رکھنے کی بات کو وہ محض پاکستانی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ پاکستان سے وفاداری سے مشروط کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کالم نگار صاحب نے جو الفاظ قائداعظم سے منسوب کیے ہیں، وہ اپنے سیاق و سباق میں بالکل دوسرا منظرنامہ پیش کرتے ہیں، جو عین اسلامی فکریات سے مطابقت رکھتا ہے۔

قائداعظم نے یہ بات ۱۲،۱۳ مرتبہ کہی کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہوگی اور کئی بار وضاحت کی، جو ان کے فہم اسلام کا ثبوت ہے کہ اسلام میں مذہبی ریاست کا تصور موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ مذہبی ریاست عوام پرمذہب مسلّط کرتی ہے اور اقلیتوں کو برابر کے حقوق نہیں دیتی، جب کہ اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابر کے شہری تصور کیا جاتا ہے اور ان پر ریاستی مذہب مسلّط نہیں کیا جاتا۔ ایک واضح اور روشن مثال ریاست مدینہ ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم نے میثاقِ مدینہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے تحت غیرمسلموں کو برابر کے حقوق دیے گئے تھے۔ غیرمسلموں کے حوالے سے حُسنِ سلوک، احترام، برابری اور برداشت کی مثالیں سیرتِ نبویؐ میں موجود ہیں، جس پر بہت لکھا جاچکا ہے۔ گویا اسلام یا اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جھگڑا نہیں بلکہ اس ساری بحث اور جدوجہد کا مقصد کچھ اور ہے۔ پاکستان ہرگز مذہبی ریاست نہیں، بلکہ یہ اصول ہمیشہ کے لیے طے ہوکر آئین کا حصہ بن چکا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قوانین، آئین، ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔

یہی بات قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل ۱۰۱ بار اور قیامِ پاکستان کے بعد ۱۴بار برملا اور واشگاف الفاظ میں بیان فرمائی کہ پاکستان کا آئین، نظام، قانون، انتظامی ڈھانچے وغیرہ کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرات پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں وہ بھی ناکام ہوں گے اور جو اسے اسلامی کے بجاے محض جمہوری ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس پر سیکولرزم کا غلاف چڑھانا چاہتے ہیں، وہ بھی ناکامی کے مقدر سے ہم کنار ہوں گے۔ قائداعظم نے بارہا ’مسلمان ریاست‘ کا لفظ استعمال کیا، لیکن ہربار ’مسلمان ریاست‘ کے بعد ان الفاظ کا اضافہ کیا کہ ’’جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی‘‘۔

اب ظاہر ہے کہ جس ریاست کی بنیاد اسلام ہو، اسے اسلامی ریاست یا اسلامی ملک ہی کہتے اور سمجھتے ہیں، اسے مذہبی ریاست نہیں کہتے۔ لیکن سیکولرزم کے پردے میں خود دو قومی نظریے کی نفی کرنے کے درپے ان حضرات کے لیے اصل وبالِ جان یہ تصور ہے کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات‘‘ ہے، جو ذاتی زندگی، سیاسی زندگی، ریاستی زندگی، حتیٰ کہ ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی سیاست، طرزِحکمرانی، قانون کی تشکیل، تنفیذ اور تعبیر وغیرہ کو اسلام سے آزاد نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح مسلمان ریاست میں غیراسلامی رسومات و عادات، مثلاً: شراب، زنا، سود، جوا، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، استحصال، چوری وغیرہ وغیرہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گھر کی چار دیواری کے اندر آپ کیا کرتے ہیں، یہ بندے اور اللہ کا معاملہ ہے۔ مگر ریاست کا تعلق اجتماعی معاشرت سے ہے، اور اس کے بارے میں ریاست کو ایک واضح تصور اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ریاست ِ پاکستان کے اس تصور کی تشکیل ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو نہیں بلکہ طویل، جاں گسل اور صبرآزما جدوجہد کے دوران میں ہوئی تھی۔ اسی کمٹ منٹ نے پاکستان کی صورت گری کی ہے۔

تاریخی پس منظر اور قائداعظمؒ کی ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۸ء تک ساری تقاریر کے تناظر میں دیکھیں تو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کا مدعا فقط یہ تھا کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور مذہب ان کی ترقی، تمدن اور اندازِ زندگی میں حائل ہوگا، نہ رکاوٹ بنے گا اور غیرمسلم اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں گے۔ مختصر یہ کہ ریاست ان پر مذہب مسلّط نہیں کرے گی۔

کراچی بار ایسوسی ایشن سے عیدمیلاد النبیؐ کے موقعے پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم نے بڑے بلندآہنگ الفاظ میں اعلان فرمایا کہ: ’’وہ شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو (applicable) ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے‘‘ (قائداعظم کے بیانات، تقاریر، جلد چہارم، ص ۲۶۶۹)۔ ظاہر ہے کہ اسلامی شریعت کا نفاذ غیرمسلموں پر تو نہیں ہونا تھا۔ جو مذہبی عناصر شریعت کے نام پر تشدد پھیلاتے، خدائی فوج دار بنتے اور اقلیتوں کے حقوق پر ضرب لگاتے ہیں، وہ زیادتی بلکہ کھلم کھلا قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو حضرات اسلام کے نام پر’ لبرل ازم‘ یا ’سیکولرزم‘ کی آڑ میں مادرپدر آزادی و اخلاق باختگی پھیلاتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون و ضابطے کو توڑتے اور اسلامی حدود کو پامال کرتے ہیں۔

ذہنی ارتقا انسانی زندگی کا حصہ ہے۔قائداعظم کی جانب سے تحریک خلافت کی مخالفت کی کئی وجوہ تھیں۔ برطانیہ سے ۱۹۳۴ء میں واپسی کے بعد اور خاص طور پر آٹھ صوبوں میں کانگریسی حکومت (Congress Rule) کی مسلم دشمنی پر مبنی کارروائیوں کو دیکھنے کے بعد قائداعظم کے خیالات میں بے پناہ تبدیلی نظر آتی ہے، جس کی بہترین جھلک مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے ۱۹۴۶ء میں دہلی کنونشن [۷-۹؍اپریل]کے خطاب اور قرارداد میں ملتی ہے۔ دہلی کنونشن میں منظور کردہ قرارداد کو پڑھیے تو تصورِ پاکستان سمجھ میں آئے گا۔ اس قرارداد کے متن کے مطابق مستقبل میں تشکیل پانے والی مملکت پاکستان کے اسلامی، تہذیبی، سماجی اور آئینی دائرئہ کار کی بھرپور وضاحت ہوتی ہے۔ ازاں بعد جو حلف نامہ شرکاے اجلاس نے متفقہ طور پر پڑھا، جس کا ایک ایک جملہ نواب زادہ لیاقت علی خان بلندآواز میں پڑھتے تھے اور قائداعظم سمیت تمام منتخب ارکان اُن جملوں کو باآواز بلند دہراتے تھے۔ اس حلف نامے کے الفاظ بھی واضح کرتے ہیں کہ کُل ہند مسلم لیگ کے ارکان کس پاکستان کو بنارہے تھے۔ اس حلف نامے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

اوراس حلف نامے کا اختتام قرآنِ پاک کی اس آیت پر ہوتا ہے:

رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ

اے پروردگار، ہمیں صبرواستقامت دے۔ ہمیں ثابت قدم رکھ اور قومِ کفار پر ہمیں فتح و نصرت عطا فرما۔(سیّد شریف الدین پیرزادہFoundation of Pakistan،جلددوم، ناشر: سینٹر آف ایکسی لینس، قائداعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۷ئ، ص ۴۷۷- ۴۷۹ اور ۴۸۷-۴۸۸)

ہندستانی سفیر سری پرکاش کی کتاب بہت سے جھوٹوں کا مجموعہ ہے۔ قائداعظم کی شخصیت کے وقار کے پیش نظر ہندستانی سفیر گورنر جنرل کو سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کر لے، ناقابلِ فہم ہے۔ پھر قائداعظم جیسا کھرا انسان کیسے کہہ سکتا تھا کہ: ’’میں نے کبھی ’اسلامی‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا‘‘۔ قائداعظم کو معذرت خواہانہ رویے اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور نہ اُن کا یہ مزاج تھا، جب کہ  وہ اسلامی نسبت کا لفظ کئی بار ادا کرچکے تھے۔ سری پرکاش نے یہ واقعہ ستمبر ۱۹۴۷ء کا لکھا ہے،  صرف ایک ماہ بعد قائداعظم نے پنجاب یونی ورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو اعلان کیا تھا: Be prepared to sacrifice his all, if necessary, in building up Pakistan as a Bulwark of Islam [اس امر کے لیے تیار رہیے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اگر ضروری ہو تو اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے]۔ (ایضاً، جلد چہارم، ص ۲۶۴۳)

یہ اعلان اہلِ پنجاب نے براہِ راست اور اہلِ پاکستان نے بذریعہ ریڈیو سنا کہ: ’’پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔کیا یہ قلعہ ہوا میں تعمیر ہونا تھا؟ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عزم رکھنے والے قائداعظم یہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہوگی۔ میں سیکڑوں حوالے دے سکتا ہوں لیکن جنھوں نے نہیں ماننا، انھوں نے بہرحال نہیں ماننا۔

اسی طرح یہ اصولی بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ تحقیق اور تحریر کا ایک طے شدہ اصول ہے۔ کسی بھی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی پوری شخصیت، انداز و اَطوار، کردار وغیرہ کو ذہن میں رکھا جاتا ہے اور ایسے من گھڑت واقعات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جو اس شخص کی شخصیت سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، لگانہ کھاتے ہوں۔ اللہ پاک نے عقلِ عام (common sense) اسی لیے دی ہے کہ اسے استعمال کیا جائے اور اس کی کسوٹی پر سچ جھوٹ کو پرکھا جائے۔ قائداعظم کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے، خاص طور پر ۱۹۳۵ء سے لے کر ستمبر ۱۹۴۸ء تک ان کی شخصیت کا ہرشعبہ بے نقاب ہے۔ ان برسوں میں قائداعظم نے باربار سارے ہندستان کے دورے کیے، بہت سی جگہوں پہ قیام کیا۔ ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح اکثر ساتھ ہوتی تھیں۔ قائداعظم درجن بار سے زیادہ لاہور آئے ، ممدوٹ ولا، فلیٹیز ہوٹل اور پھر گورنر ہائوس میں قیام کرتے رہے، لاکھوں لوگوں سے ملتے رہے، لیکن آج تک کسی شخص نے وہ بات نہیں کہی، جو روزنامہ جنگ کے ایک کالم نگار   نے لکھی۔ مَیں تحریکِ پاکستان اور قائداعظم سے بار بار ملنے والے سیکڑوں کارکنوں سے ملا ہوں۔ بانیِ پاکستان کے بارے میں کسی بھی واقعے کو ہوا دینے سے پہلے یہ جانچنا ضروری ہے کہ کیا اس میں سچائی ہوسکتی ہے؟ اور کیا یہ کامن سنس کو اپیل کرتا ہے؟

یاد رہے کہ قائداعظم سیکڑوں بار اعلان کرچکے تھے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہوگی۔ قائداعظم اصول پرست، سچے اور کھرے انسان تھے۔ مصلحت یا منافقت کے الفاظ اُن کی ڈکشنری میں موجود ہی نہیں تھے۔ اُن کی سیاسی زندگی میں بہت سے ایسے مقامات آئے، جب اُن کو مصلحت کی بنیاد پر ایسا مشورہ دیا گیا، جو اُن کے کھرے اصولوں کے خلاف تھا۔ اُنھوں نے نقصان برداشت کرلیا، لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہ کیا۔ وہ جن اصولوں، تصورات اور وژن کا پرچار کرتے تھے، اُن پر خود بھی سختی سے عمل کرتے تھے۔ اس حوالے سے اُن کی سوانح عمری سیکڑوں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کہتے تھے، اور اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کرتے تھے۔ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کے دن پہلے یومِ آزادی کے موقعے پر پاکستان کے پرچم کشائی کی تقریب میں قائداعظم، مولانا شبیراحمد عثمانی کو خاص طور پر اپنے ساتھ لے کر گئے اور اُن سے پرچم کشائی کروائی۔ ڈھاکہ میں قائداعظم کے حکم پر ہی مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفراحمد عثمانی سے پرچم کشائی کروائی گئی۔ دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس میں اُس وقت بھی ایک واضح پیغام تھا اور آج بھی موجود ہے۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد صوبوں میں اسلامک ری کنسٹرکشن بورڈ یا اسلامی تعلیمات بورڈ تشکیل دیے گئے، جن کا فرضِ منصبی یہی تھا کہ وہ پاکستان میں شہریوں کی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سفارشات دیں۔ ان بورڈوں کی سفارش پر ۳۰ستمبر ۱۹۴۸ء میں پنجاب اور سرحد میں شراب پر پابندی لگادی گئی۔ اس پابندی کے سرکاری حکم نامے، یعنی نوٹیفیکیشن کی خبر پاکستان کرونیکل  از عقیل عباس جعفری کے صفحہ ۲۶ پر موجود ہے اور پڑھی جاسکتی ہے۔

قائداعظم پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری جدید ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے ایک طرف عید میلادالنبیؐ کی تقریب منعقدہ کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں شریعت کے نفاذ کی بات کی، تو دوسری طرف یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ماہرین معیشت و مالیات سے پاکستانی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی نصیحت کی۔

اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے یہ خطاب، قائداعظم کی آخری عوامی تقریر تھی، جس کے بعد بیماری نے اُنھیں آرام پہ مجبور کر دیا۔ ذرا قائداعظم کے الفاظ کے باطن میں جھانکیے اور اُن کا مدعا اور وژن سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ انھوں نے کہا:

I shall watch with keeness the work of your Research Orgnanization in evolving practices compatible with Islamic ideals of social and economic life.... The adoption of Western economics theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice.

میں دل چسپی سے اس امر کا انتظار کروں گا کہ آپ کا شعبۂ تحقیق ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرے… مغربی  معاشیات اور عمل، خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اورمعاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔(ایضاً،جلد چہارم، ص ۲۷۸۷)

اس سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جب قائداعظم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو اُن کا کیا مدعا تھا۔ وہ مغرب کے نظامِ معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظامِ معیشت پر مبنی معاشی و معاشرتی ڈھانچا وضع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔قائداعظم عہد اور عزم کے پکّے تھے۔ وہ زندہ رہتے تو اپنے وژن کو عملی شکل دے کر دم لیتے، لیکن موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ مشن کی تکمیل کا انتظار نہیں کرتی۔ اس طرح وہ مشن اگلی نسل کو منتقل ہوجاتا ہے۔

قائد ملت لیاقت علی خان، قائداعظم کے معتمد ترین ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ وہ قائداعظم کی سوچ اور وژن کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ قائداعظم کی وفات کے سات ماہ بعد دستورساز اسمبلی میں ’قراردادِ مقاصد‘ پیش کرتے ہوئے، وزیراعظم لیاقت علی خان نے یقینا قائداعظم کے وژن کو ذہن میں رکھا۔ جو دانش ور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:’ ’قراردادِ مقاصد کا مسودہ قائداعظم کو دکھایا گیا تھا، لیکن اُنھوں نے اس کی منظوری نہ دی‘‘، وہ جھوٹ بولتے ہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسے کسی انکار کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔ ہمارے سیکولر دوستوں کو قائداعظم کے حوالے سے ’ہوائیاں‘ اُڑانے، بے بنیاد دعوے کرنے ، اُن کی تقاریر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اور بعض اوقات الفاظ میں تحریف کرکے من پسند نتائج اخذ کرنے کا دائمی عارضہ لاحق ہے۔

جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں قائداعظم کی ایک تقریر کے الفاظ میں اپنی طرف سے تبدیلیاں کرکے سیکولرزم کے لیے بنیاد فراہم کی ہے۔ پاکستانی نژاد  محترمہ سلینہ کریم نے اپنی کتاب Secular Jinnah - Munir's Big  Hoax Exposed میں تقریر کے اصل الفاظ دے کر جسٹس منیرکی دیانت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ جسٹس منیر کی کتاب سے یہی الفاظ لے کر سیکولرزم کے علَم بردار، قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے اپنی ذہنی توانائیاں صرف کرتے رہے لیکن محترمہ سلینہ کریم نے ان الفاظ کوغلط اور من گھڑت ثابت کرکے ان کی دانش وَری کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مصنفہ کا بجاطور پر کہنا ہے کہ: جب میں نے جسٹس منیر کی کتاب اور اس میں قائداعظم کی تقریر کا حوالہ پڑھا تو میں پریشان ہوگئی کہ ان الفاظ کی انگریزی غلط تھی، جب کہ قائداعظم غلط انگریزی نہیں بول سکتے تھے۔ میں نے تحقیق کی تو رازکھلا کہ جسٹس منیر نے یہ الفاظ اپنے پاس سے لکھے تھے‘‘___ دیانت دارانہ تحقیق کی بنیاد پر قائداعظم کو کسی صورت بھی سیکولر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے میں سیکولر دانش وروں سے گزارش کرتا ہوں کہ خدارا! قائداعظم کو معاف کردو۔ اپنے ایجنڈے کا جواز قائداعظم کی تقریروں یا شخصیت میں مت تلاش کرو۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور ان شاء اللہ اسی سمت میں سفر جاری رکھے گا۔

عقیدے اور نظریے کے بعد ایک قوم کی پہچان اور اس کی شناخت جس چیز سے عبارت ہے، وہ اس کی زبان اور ادب ہے۔ قومی یک جہتی اور سلامتی اور اس کی ترقی و خوش حالی ہر ایک کا انحصار نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنے اور زبان کے ذریعے فکر وعمل کی راہیں استوار کرنے پر ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ دونوں ہماری قوت کا ذریعہ رہے ہیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، ان کے پیدا کرنے میں نظریہ اور زبان دونوں کے بارے میں ہماری غفلت اور بے وفائی کا  بڑا دخل ہے۔ استعمار کے خلاف جنگ میں ہمارے مضبوط اور مؤثر ترین ہتھیار اسلامی نظریہ اور اُردو زبان ہی تھے، لیکن آزادی کے حصول کے بعد استعمار کی فکری اور تہذیبی ذرّیت نے آہستہ آہستہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی، اس ذرّیت نے نظریے کو کمزورکرنے اور ذہنی اور فکری انتشار پیدا کرنے کے ساتھ پوری چابک دستی سے جو حربہ استعمال کیا، وہ ملک و قوم کو استعماری زبان کی گرفت میں محصور رکھنے کا تھا۔

۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل قومی اتفاق راے کے ساتھ یہ طے کیا گیا تھا کہ قومی زبان اُردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی اور تمام کاروبارِ مملکت قومی زبان میں انجام دیا جائے گا اور یہ عمل زیادہ سے زیادہ ۱۵سال کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ دستور کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ حکم ’shall be‘ کے لفظ کے ساتھ دیا گیا تھا اور ۱۵سال تک انگریزی میں کاروبارِ ریاست چلانے کے معاملے کی محض اجازت اور رخصت ’may be‘ کے لفظ کی شکل میں دی گئی تھی، مگر حکمران قوتوں، خصوصیت سے بیوروکریسی، ایچی سن کالج اور انگلش میڈیم سے نکلنے والی سیاسی قیادت اور انگریزی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے اس پورے عمل کو سبوتاژ کیا اور دستور کے نافذ ہونے کے ۴۲سال بعد بھی قوم انگریزی زبان کی غلامی میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کام کرنے والے تین ججوں پر مشتمل بنچ (جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ)نے ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو ایک تاریخی فیصلے میں قومی زبان کو اس کا اصل کردار دلانے کے لیے جو فیصلہ کیا ہے، وہ بڑا خوش آیند ہے۔ قومی احساسات اورعزائم کا حقیقی ترجمان ہے اور اگر اس پر دیانت اور تندہی سے عمل کیا جائے تو ہماری تاریخ میں ایک روشن اور سنہرے باب کا اضافہ کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلوئوں کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس امر کی بھی نشان دہی کریں کہ اس پر عمل کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستور اور اس میں قومی زبان کے بارے میں طے کردہ پالیسی کو بڑے واضح اور واشگاف انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ دستور نے جو باتیں طے کردی ہیں وہ یہ ہیں:

                الف:         اُردو قومی زبان ہے اور اسے ہی لازمی طور پر تمام حکومتی ، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی دائروں میں اور ہرسطح پر استعمال ہونا چاہیے۔

                ب:           یہ ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دستوری حکم ہے جس پر ۱۵برس کے اندر اندر عمل ہوجاناچاہیے تھا۔

                ج:            انگریزی زبان میں کاروبارِ ریاست چلانے کی اجازت صرف ۱۵سال کے لیے تھی۔ اس طرح ۱۹۸۸ء کے بعد سے دستور کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔

                د:             قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ترقی بھی ایک ضروری امر ہے جس کی طرف خاطرخواہ توجہ کی ضرورت ہے۔

دستور: نظامِ حکومت ، ریاستی انتظامات اور کارروائیوں اور تعلیم کے نظام کے لیے ایک فریم ورک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت کی مناسبت سے دوسری زبانوں، خصوصیت سے انگریزی کی تعلیم اور حسب ِ ضرورت استعمال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگر استعماری حکمرانوں کی زبان کو زبردستی قوم پر مسلط رکھنا دستور کے واضح احکام اور ان کے تقاضوں کے منافی ہے۔

فیصلے کا یہ بڑا ہی روشن پہلو ہے کہ جہاںاس نے انگریزی کی حسب ضرورت تعلیم اور استعمال کو تسلیم کیا ہے، وہیں اس استعماری پالیسی پر بھرپور گرفت کی ہے جس کے تحت یہ غیرملکی زبان ہمارے ملک اور قوم پر مسلط رکھی گئی ہے اور اس سے نجات کو آزادی اور استعماری حاکمیت کے شکنجوں کو توڑنے (de-colonization) کے عمل کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ اس بارے میں جو غفلت اور مجرمانہ کوتاہی ملک کے حکمرانوں اور بااختیار طبقات نے کی ہے، اس پر قوم کی توجہ مبذول کروا کے عدالت ِ عالیہ نے ایک اہم فکری اور تہذیبی خدمت انجام دی ہے۔

عدالت نے کہا ہے کہ دستور کی دو دفعات، یعنی دفعہ ۲۵۱ اور دفعہ ۲۸ قومی اور علاقائی زبانوں کی حیثیت اور ان کے بارے میں قومی پالیسی کو واضح کرتی ہیں اور ان پر بھرپور انداز میں اور بلاتاخیرعمل ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری نگاہ میں فیصلے کا یہ حصہ بڑا اہم ہے کہ عدالت نے اس پالیسی کو واضح کرنے کے ساتھ بڑے صاف الفاظ میں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ ملک میں پوری بے حسی کے ساتھ صرف ان دو دفعات ہی کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی، بلکہ کم از کم تین مزید دفعات کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ سب دفعہ ۵ کی زد میں بھی آتی ہیں کہ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔

عدالت نے متوجہ کیا ہے کہ انگریزی زبان کو قوم اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی کے پورے عمل پر مسلط رکھنے کا نتیجہ ہے کہ قوم ایک مفاد یافتہ طبقے اور اختیارات سے محروم عوام الناس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک عام شہری کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ملک کا قانون کیا ہے، عدالتی فیصلے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، سرکاری نظام کس طرح چل رہا ہے، لیکن یہ سب ایک ایسی زبان میں ہو رہا ہے جس سے عوام کی عظیم اکثریت واقف ہی نہیں اور اس طرح ان کو عملاً کاروبارِ حکمرانی سے نکال  باہر کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دستور کی دفعہ ۱۴ کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ہرشخص کی عزتِ نفس کی ضمانت دیتی ہے۔ دفعہ ۲۵ اور ۲۵-اے کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے جو تمام شہریوں کے درمیان مساوات اور معاملات کی انجام دہی میں یکسانی اوران کے لیے ابتدائی تعلیم لینے میں ان سب کا مطالبہ کرتی ہے۔ عدالت نے یہاں تک کہا ہے اور اس سلسلے میں عدالت ِ عالیہ کے ایک سابقہ مقدمے (PLD 2009 SC 876) کا حوالہ بھی دیا ہے کہ ملک میں جو لاقانونیت اور افراتفری ہے اس میں کہاں تک اس امر کا دخل ہے کہ ملک میں ایک مفاد یافتہ بالاتر طبقہ وجود میں آگیا ہے جو اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اُوپر سے نیچے تک لاقانونیت کا دوردورہ ہے۔ ہماری نگاہ میں قومی زبان، سرکاری معاملات میں غیرملکی زبان کی سفاکانہ حاکمیت کے نتیجے میں قوم: مفاد یافتہ طبقے اور محروم طبقات میں بٹ گئی ہے۔ قومی زبان کے باب میں دستور کے احکامات کی سرکاری سطح پر خلاف ورزی کی نشان دہی بھی اس فیصلے کے بڑا اہم پہلو ہے، جس پر پوری قوم، میڈیا اور پارلیمنٹ کو توجہ دینی چاہیے۔

عدالت نے حکومت، مرکزی اور صوبائی دونوں کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بڑے دُکھ کے ساتھ اس بات کو فیصلے کا حصہ بنایا ہے کہ مقدمے کے دوران بھی حکومتوں کا رویہ غیرذمہ دارانہ اور سہل انگاری کا رہا ہے۔ صرف ۲۰۱۵ء کے سات مہینے میں ۱۴ ایسے مواقع آئے ہیں کہ عدالت کے اصرار کے باوجود حکومت اور اس کے اہل کار کم سے کم معلومات بھی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدالت کو کہنا پڑا کہ: ’’یہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ دفعہ ۲۵۱ کے نفاذ کے لیے الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔

یہ حکمرانوں کے کردار کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے اور ہمارے سیاسی نظام کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔

فیصلے میں تاریخی حقائق کے ساتھ یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ قومی زبان کو سرکاری کاروبار اور تعلیم کے لیے استعمال کرنے میں اصل رکاوٹ حکمرانوں کی غفلت، غیرذمہ داری اور  فرض ناشناسی ہے۔ مشوروں، تجاویز اور منصوبوں کی یا صلاحیت کار کی کمی نہیں ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور مجبوراً عدالت کو مداخلت کرکے ایسے احکام جاری کرنے پڑ رہے ہیں جو دستور کے، خصوصیت سے اس کی دفعہ ۲۵۱ اور ۲۸ کے نفاذ کے لیے ضروری ہیں، دستور اور بنیادی حقوق پر عمل کو مؤثر بنانے کے لیے عدلیہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے کو مجبور پاتی ہے۔

اس تاریخی فیصلے میں عدالت نے نو واضح احکام جاری کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:

                ۱-            آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات یعنی ’’اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی و علاقائی زبانوں کے فروغ‘‘ کو بلاغیرضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔

                ۲-            حکومت کی جانب سے اس عدالت کے رُوبرو عہد کرتے ہوئے جولائی ۲۰۱۵ء میں اس حوالے سے عمل درآمد کی جو میعاد مقرر کی گئی ہے، اس کی ہرحال میں پابندی کی جائے۔

                ۳-            قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔

                ۴-            تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے۔

                ۵-            بغیر کسی غیرضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم کرنے والے ادارے (قومی زبان کے استعمال سے متعلق) آرٹیکل ۲۵۱ کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی بنائیں۔

                ۶-            وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔

                ۷-            عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں کا یا ایسے فیصلوں کا جو آرٹیکل ۱۸۹ کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اُردو میں ترجمہ کروایا جائے۔

                ۸-            عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اُردو میں پیش کریں تاکہ عام شہری بھی اس قابل ہوسکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔

                ۹-            اس فیصلے کے اجرا کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہل کار آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔

اس فیصلے کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس نے عوام کا ایک نیا حق تسلیم کرلیا ہے، یعنی یہ کہ اگر قومی زبان کے سرکاری اُمور میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے کسی بھی شہری کا کوئی حق متاثر ہوا ہے یا وہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی وجہ سے خسارے میں رہا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور ہرجانے اور تلافی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس حق کا تسلیم کیا جانا اور تلافی کے لیے دروازہ کھول دینا عدالت عظمیٰ کا بڑا ہی انقلابی اقدام ہے جس کو اب ایک عام شہری بھی استعمال کرسکتا ہے اور اس طرح حکومت پر ایک ایسا دبائو پڑسکتا ہے جو اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔

آخر میں ہم دو باتیں اور عرض کرنا چاہتے ہیں: ایک کا تعلق پارلیمنٹ، سول سوسائٹی، سیاسی اور دینی جماعتوں اور ملک کے نظریے سے وفادار، دانش وروں، اہلِ قلم اور مؤثر افراد سے ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بہت آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے لیکن اس ملک کے دوسرے متعلقہ عناصر (stake holders) کیوں غافل ہیں۔ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کررہی؟ میڈیا اس باب میں کیوں خاموش ہے؟ سیاسی اور دینی جماعتیں کیوں متحرک نہیں؟ قومی زبان کو کاروبارِ مملکت کی حقیقی زبان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بڑا ظلم تو مقتدر قوتوں (بیوروکریسی، سیاست دان، فوجی حکمران) نے بھی کیا ہے جس نے نام تو اُردو زبان کا لیا مگر اس زبان کو جو پوری قوم کی زبان ہے اور جسے ملک کی آبادی کا ۸۰فی صد سے زیادہ حصہ سمجھتا ہے اور رابطے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ۶۰ فی صد سے زیادہ بولنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اسے صرف ۸ فی صد کی زبان بنا کر رکھ دیا اور ایسے تعصبات کو فروغ دیا، جنھوں نے اُردو بحیثیت قومی زبان کے کردار پر منفی اثرات ڈالے۔

کچھ افراد کی مادری زبان ہونے کے باوجود اُردو کسی خاص طبقے کی زبان نہیں بلکہ پاکستان کے تمام لوگوں کی قومی زبان ہے اور اس اعتبار سے اسے اپنا کردار زندگی کے ہرمیدان میں ادا کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اسی سمت میں رہنمائی کرتا ہے۔ حکومت کے معاملات کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اس کے کردار کی فوری فکر کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ مہم محض خواہشات سے سر نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے سب کو سرتوڑ کوشش کرنی ہوگی۔ماضی میں اس عظیم ملّی اور قومی تحریک کی رہنمائی قائداعظم نے کی، جب کہ اسے عملی تحریک بنانے میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی مساعی ہماری قومی تاریخ کا روشن حصہ ہے۔

دوسری بات ہے تو کچھ سخن گسترانہ مگر اس کا اظہار بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ جہاں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے ہمارے سربلند کر دیے ہیں، جس کے لیے ہم عدالت  عظمیٰ کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، وہیں فیصلے ہی میں کیے جانے والے اس اعتراف سے کیسے صرفِ نظر کرلیں کہ اُردو کے اس مقدمے کا آغاز خود عدالت ِ عالیہ میں ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا اور پھر ۲۰۱۲ء میں دوسری پٹیشن آئی، مگر اس اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس اہم ترین معاملے پر فیصلہ کرنے میں ۱۲سال لیے۔ خدا بھلا کرے جسٹس جواد خواجہ اور ان کے بنچ کا کہ انھوں نے اپنے چیف جسٹس ہونے کے ۲۳ دنوں میں جہاں کچھ دوسرے تاریخی فیصلے کیے، وہاں اُردو کے اس مقدمے کو بھی کامیابی سے ہم کنار کیا اور قوم اور ملک کے لیے اپنی زبان میں اپنے معاملات طے کرنے کے اس بند دروازے کو کھول دیا، جس پر مفاد پرست طبقے اور اس کے ہم نوا دانش ور تالے لگائے ہوئے تھے اور بڑی دیدہ دلیری سے ان تالوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ عدالت نے صرف دروازہ کھولا ہے___ اس دروازے سے داخل ہونے اور اسے کھلا رکھنے کی   ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اگر ہم سب بھی متحرک ہوجائیں تو شاید آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق دہلوی کی یہ پیش گوئی ایک نئے رنگ میں پوری ہوسکے گی   ع

کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

بلدیاتی ادارے،عوامی مسائل کے حل کاذریعہ ہوتے ہیں۔لوگوں کو اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل،اپنی دہلیز پر ملتا ہے۔ان کے لیے سڑکیں بنتی ہیںاوران کی گلیاں پختہ ہوتی ہیں۔ان کے لیے پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہوتا ہے اور محلے سے گندے پانی کے نکاس کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان کے معمولی معمولی باہمی تنازعات ،کچہری تھانے کے بجاے محلے کی مصالحتی عدالت میں طے ہوتے ہیں۔پھر یہی ادارے عوامی قیادت کے لیے نرسریوں کا کام دیتے ہیںاور جمہوریت کی تجربہ گاہیں بھی ثابت ہوتے ہیں۔

یہ بھی امر واقعہ ہے کہ بلدیاتی ادارے اور ضلعی حکومتیں محض گلیوں،سڑکوں، شاہراہوں کی تعمیر ومرمت اورفراہمی ونکاسی ِ آب کی اسکیموں کا نام نہیں بلکہ یہ ریاست کی اہم ترین اور مضبوط ترین بنیاد ہیں۔یہ فرد اور ریاست کے درمیان سب سے قریبی اور سب سے مضبوط رابطے کا ذریعہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی بلدیاتی ادارے مضبوط ہیں وہاں ریاست اور جمہوریت بھی مضبوط ہے۔لہٰذا جو سیاسی جماعتیں بلدیات میں کامیابی ملنے کے بعد عوام کی توقعات پر پورا اترتی ہیں، وہی جماعتیں ملکی انتخابات میں بھی واضح اور شان دار کامیابی حاصل کرتی ہیں ۔

ترکی میں طیب اردوگان کی مسلسل کامیابی کی اصل بنیاد،ان کی بطور میئر استنبول کامیابی ہے۔وہ استنبول کے مئیر بنے تو انھوں نے عوام کی بے مثال خدمت کی ۔استنبول کا دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیرپڑے نظر آتے تھے۔انسانی اسمگلنگ ،   جعلی کرنسی، منشیات ،قبضہ گروپوں اور جوا خانوں سمیت ہر طرح کے مافیا کا شہر پر غلبہ تھا ۔مہنگائی اپنے عروج پر تھی ۔بنیادی خوراک، یعنی روٹی تک،غریب آدمی کی دسترس سے باہر تھی ۔پھر اردوگان اور نجم الدین اربکان کی جماعت کے لوگوں کی انتھک محنت کے نتیجے میں شہر بدلنے لگا۔ صفائی کا نظام درست ہوا۔ ٹریفک پر کنٹرول پایا گیا۔ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بڑھیں۔مافیا کو لگام ڈالی گئی۔سرکاری انتظام میں سستی روٹی کا بندوبست ہوا۔تب طیب اردگان عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔ سیکولر ترکی کے تمام طبقوں نے بھی ان کا ساتھ دیا اوروہ تین مرتبہ ترکی کے وزیرِ اعظم بنے۔

بلدیاتی اداروں کی اس اہمیت اور افادیت کے باوجود،پاکستان میںکسی بھی جمہوری اور عوامی حکومت نے اپنے دورمیں ان مقامی حکومتوں کے انتخابات کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، بلکہ جتنے بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیںوہ آمرانہ فوجی حکومتوں کے دور میںہی ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فوجی آمر بھی اپنے اپنے دور میں بلدیاتی اداروں کا قیام نہ تو عوام سے خیرخواہی کے جذبے کے تحت عمل میں لائے اور نہ انھوں نے ایساجمہوریت کی محبت میں کیا بلکہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا۔

۲۰۰۸ء میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی۔ ۲۰۰۹ء آیا تو بلدیاتی اداروں کی نئی قیادت کے انتخابات کروانے کے بجاے،ان میں ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیے گئے۔اس پر بلدیاتی اداروں کی سابقہ قیادت سپریم کورٹ میں چلی گئی۔اسی دوران ا ٹھارھویںآئینی ترمیم کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو صوبوں کے اختیار میں دے دیاگیا۔صوبائی اسمبلیوںنے سپریم کورٹ کے دباؤ میں ۲۰۱۳ء میںاپنی اپنی مرضی کے ’’لوکل باڈیز ایکٹ‘‘پاس کرلیے۔جس کے خلاف صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ کی اپوزیشن پارٹیوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ پنجاب اوربلوچستان اسمبلی نے  جنرل ضیاء الحق کے رائج کردہ لوکل باڈیز ایکٹ کو کچھ بنیادی ترامیم کے ساتھ اختیار کرلیا ۔اسی طرح خیبر پختونخوا اسمبلی نے جنرل پرویز مشرف کے متعارف کروائے ہوئے لوکل باڈیزایکٹ میں کچھ بنیادی ترامیم کیں اور نچلی سطح تک اختیارات کی حقیقی منتقلی کا نظام متعارف کرایا۔صوبہ سندھ نے مذکورہ دونوں فوجی آمروں کے بلدیاتی نظاموں کو یک جا کرکے،ایک ملغوبہ تیار کرلیا۔

صوبہ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے انتظامی اختیارات اور مالی وسائل، صوبائی انتظامیہ کی نگرانی میں رکھے ہیں تاکہ بہرصورت اگریہ بلدیاتی ادارے تشکیل پا ہی جائیں تو’اپاہج‘ رہیںاور سارے اختیارات صوبائی انتظامیہ کے پاس ہوں۔ اس کے علاوہ ان انتخابات کے جماعتی؍غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے کو بھی انھوں نے متنازع بنا ئے رکھااورحلقہ بندیاں بھی اپنی اپنی پسند کی کر رکھی ہیں۔پھر مخصوص سیٹوں پر بالواسطہ انتخابات کا معاملہ بھی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ ان سول حکومتوں کے یہ سارے اقدامات ،بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ان کے تاخیری حربوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے دباؤ اور صوبائی حکومتوں کی نیم دلی کے درمیان ،الیکشن کمیشن آف پاکستان’سینڈ وچ‘ بنا رہاہے، جب کہ آئینی طور پر انتخابات کا انعقاد اس کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ سپریم کورٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ دوسری طرف انتظامی اور مالی معاملات میں یہ حکومتوں کا مرہونِ منت ہے۔ان معاملات میں یہ ابھی خودمختار نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس نے سپریم کورٹ میں ’سرخروئی‘ کی غرض سے ،۲۰۱۳ء میںبلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا۔جو مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے ۲۰۱۵ء میں مکمل ہوئے ہیں۔اب دو سال بعد، وہاں بلدیاتی اداروں کے برسرِکار ہونے کا مرحلہ آیا ہے تو بلدیاتی اداروں کی نئی قیادت نے،بر ملا اپنی بے اختیاری پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ان اداروں کو اختیار نہیں دینا تو ان کو ختم ہی کر دیا جائے۔یہاں جماعت اسلامی کے جیتنے والے ہر کیٹیگری کے کونسلرز کی تعداد۲۵ ہے۔ایک یوسی چیئرمین بھی اس میں شامل ہے۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میںبھی ۲۰۱۳ء کے لوکل باڈیز ایکٹ نے۲۰۱۵ء میں آخرِکار حتمی شکل اختیار کرلی اور ۳۰۔مئی کو یہاں بھی بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ جس میں    ’ویلج کونسلز‘ اور’ نیبر ہڈکونسلز‘کے کامل، جب کہ ضلع ،تحصیل اور ٹاؤن کونسلز کے صرف کونسلرزکے انتخابات ہوئے۔ ضلع کی سطح پر جماعت کے ۸۷ کونسلرز اور تحصیل سطح پر ۱۳۴کونسلرز منتخب ہوئے ہیں۔ویلیج کونسلز اور نیبر ہڈ کونسلز کے انتخابات کے نتائج،صوبائی نظم ابھی مرتب کر رہا ہے۔ اس کے بعد والے مرحلے میں ضلع ،تحصیل اور ٹاؤن کی سطح پر ناظمین اور نائب ناظمین کے الیکشن ہوئے ہیںتو ان میں جماعت اسلامی کے چار ضلعی ناظم ، تین نائب ضلعی ناظم،۱۳تحصیل ناظم اور ۱۷ نائب تحصیل ناظم منتخب ہوئے ہیں۔نیزاپردیر،لوئردیر،چترال اور بونیرکی مکمل ضلعی اور تحصیل کونسلز میںتو جماعت اسلامی کے پورے پورے پینل کامیاب ہوئے ہیں۔یوں ان چاروں اضلاع اور ان کی تحصیلوںکے بلدیاتی اداروں میں جماعت اسلامی کو واضح برتری حاصل ہے۔

اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میںجو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے ،ان میںبھی کراچی بلدیہ میں جماعت اسلامی کو واضح برتری حاصل ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے عبدالستار افغانی مرحوم دو بار میئر کراچی منتخب ہوئے ۔ان کا یہ انتخاب کراچی کے شہریوں کی طرف سے، ان کی دیانت دار قیادت میں جماعت اسلامی کی کراچی کے لیے خدمات کا اعتراف تھا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے پہلے بلدیاتی دور ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۴ء میں ،جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ ،کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ناظم منتخب ہوئے۔ان کے دور میں کراچی میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے۔ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے بین الاقوامی سطح پر معاہدے کیے جو عالمی اداروں کا ان کی قابلیت واہلیت اور امانت ودیانت پر اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

اب صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں یہ بلدیاتی انتخابات تین مراحل میں ہورہے ہیں۔ دونوں صوبوں میں پہلے مرحلے کے انتخابات۳۱؍اکتوبر کومنعقد ہوں گے۔دوسرے مرحلے کے انتخابات۱۹ ۔نومبر کو ہونے قرار پائے ہیں، جب کہ تیسرے مرحلے کے انتخابات ۳۔دسمبر کو ہوں گے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ۱۰ستمبر کو اسلام آباد میں ،ان انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے نمایندوں سے،ایک مشاورتی اجلاس منعقد کر کے تفصیلات طے کی ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان ہمیشہ کی طرح اب بھی بلدیاتی انتخابات میں بھر پور حصہ لے رہی ہے۔ہرضلعی نظم اپنے اپنے ضلع کے معروضی حالات کے مطابق کسی بھی جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا بناسکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی رابطہ عوام مہم ،اگلے عام انتخابات کے لیے ’ انتخابی مہم‘ کی بنیاد بنے گی۔ اس طرح ان بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی،آیندہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو ایک ’مؤثر پارلیمانی قوت‘ بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوگی اور جماعت کی دعوت اور پیغام کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا ذریعہ بنے گی، ان شاء اللہ !               

عدالت عظمیٰ کی حالیہ ہدایات کے تحت دستور کی دفعہ ۲۵۱(۱) کے مطابق قومی زبان کو اختیار کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ نہایت خوش آیند ہے ۔ لیکن یہ کام مختصر اور آسان نہیں۔ اس حوالے سے یہ تحریر پیش ہے۔ ادارہ

اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے یا مبالغے پر، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

  •  دینی پھلو: یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اُردو میں ہے۔ اُردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور غیر استعماری سازش کے تحت اُردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اُردو کا وجود بس ۲۰، ۲۵ سال کی کہانی ہے (یعنی اُردو بس بول چال کا ذریعہ رہ جائے گی، لکھنے پڑھنے اور برتنے کی چیز نہیں ہو گی)۔

ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ آنے والی نسلیں اُردو ادب سے تو کٹتی  جا رہی ہیں، وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کیا جائے توہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ کیوں نا مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے؟

کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں۔ ایک تو سورہ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔

پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)۔خود سوچ لیجیے کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘۔ اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔

  •  سیاسی پھلو: اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کسی ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی ہو؟ کرۂ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد فاتح امریکا نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا: مانگو کیا مانگتے ہو؟ تو دانا اور محبِّ وطن شہنشاہ نے جواب دیا: اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘‘۔ اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ  اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً ۵۰ فی صد توانائی (بعض اوقات تو ۷۰ اور۸۰ فی صد )دوسری زبان سمجھنے پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ ۲۰ تا ۳۰ فی صد نفسِ مضمون پر۔

دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے ۱۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۶۴ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔

  •  معاشی پھلو: پاکستان میں اُردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یوں بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ’کالے انگریزوں‘ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان لوگوں کا اقتدار اور برتری قائم ہے۔ اگر اُردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے تو ان کالے انگریزوں اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اُردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی اسامیاں مقتدر طبقے ہی کے بچوں کا مقدر بنیں گی۔ سی ایس ایس کے امتحان اُردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو)میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل سلیمین کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانان ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پایہ کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بو علی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یوروپین بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور گھٹیا محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔

ہم کیا تھے اور ہمارے انگریز آقا ہمیں کیا بنانا چاہتے تھے۔ اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں کسی کو بھکاری دیکھا ہے نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے افراد دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی و روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے نظامِ ثقافت کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت داستانِ ماضی ہو جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنہیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح مغلوب قوم....‘‘۔

 چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے اوّل   علم دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزاے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، بالآخر طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے۔

  •  معاشرتی پھلو: اُردو اپنے حق کے مطابق اگر مروج نہیں ہو سکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوتِ کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساس برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ان کی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے، نیز وہ اپنی زبان کو بگاڑ لیتے ہیں۔

جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اُردو ذریعۂ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں، ان کی بہت بڑی اکثریت اُردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے۔ انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔

آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت حمیت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ یہاں پر دو واقعات ملاحظہ کیجیے جوآنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

ایک معالجِ امراضِ ذہنی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصیص (اسپیشلائزیشن) کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔  ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو اپنی زبان ہے۔

دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیرِ تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے کالے انگریزوں نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انھوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

  •  آئینی پھلو: پاکستان میں اُردو کا نفاذسیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں ان الفاظ میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے:

پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری   و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج بھی خلفشار کے اس دور میں یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے پچھلی صدی سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر اُردو رسم الخط میں کام کے حوالے سے یہ تا ثر پایا جاتا ہے کہ اِن پیج کے سوا کام نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے اُردو معلومات کو ترسیم(گراف)، چارٹ، جدول میں اُس طرح پیش کرنا ممکن نہیں جیسے انگریزی میں ممکن ہے۔ مگر اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ سافٹ ویئر ما ہرین نے اب ان پیج  ایپلی کیشن کو مائکرو سافٹ ورڈ اور ایکسل کے ساتھ جوڑ کر ان سافٹ ویئرز پر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ان پیج کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جا سکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca  سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔

  •  صوبائی زبانوں کے لیے اھمیت: پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ ہمارا آئین بھی دفعہ ۲۵۱- (۳) کے تحت انھیں ان الفاظ میں تحفظ دیتا ہے:’’قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی‘‘۔

ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔

 ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے یا پھر المیہ کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔ دراصل اُردو کے نفاذ سے اقتدار، عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اُردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔

  • انگریزی کا مقام: ہم نے انگریزی (بمقابلہ اُردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہم  انگریزی سے قطع تعلق کر لیں۔   فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان ہے۔ اگر ہمیں سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی۔ ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور سرکاری زبان ہو۔ ہم انگریزی کے بطور مضمون پڑھائے جانے کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اُردو تراجم ہونے چاہییں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یاد رکھیے!ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچیے ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوںگی لیکن زبان اپنی نہیں ہوگی۔

کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اُردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔

نفاذِ اُردو:کرنے کے کام

  • کسی بھی کام کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ خدا کی نصرت درکار ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ دعا کی جائے کہ نفاذِ اُردو کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
  • جو لوگ اُردو کو نافذ کروانا چاہتے ہیں وہ آپس میں مل کر تنظیمیں بنا لیں۔ منظم ہونے سے کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی تمام تنظیموں کے درمیان اشتراکِ عمل ہو۔
  • دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے دستخط اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ)اُردو میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے چیک ہمیں اُردو ہندسوں میں لکھنے چاہییں۔ ایک عدالتی فیصلے کے تحت بنک ایسے چیک قبول کرنے کے پابند ہیں۔
  • ہمارے یہاں دعوت نامے اس زبان میں چھاپے جاتے ہیں، جو نہ بلانے والے کی زبان ہے اور نہ بلائے جانے والوں ہی کی۔ ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے موبائل فون کی ترتیب ہمیں اُردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • ہمارے دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اُمور اُردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
  • اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈ ہمیں اُردو (یا انگریزی کے ساتھ اُردو) میں لکھوانے چاہییں۔
  • ہمیں حسب استطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِاُردو کے لیے وقف کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر اَجر کی توقع رکھنی چاہیے۔ ہم نفاذِاُردو کے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو ملک کی تقدیر بدلنے میں ہمارے مال کا حصہ بھی گنا جائے گا۔
  •  ہمارے ایک دن کے وقت کا ایک فی صد تقریباً ۱۴منٹ بنتا ہے اور مہینے کا ایک فی صد تقریباً سات گھنٹے۔ اس وقت میں اپنے اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں کے ساتھ اور دفتر کے ساتھیوں سے اس موضوع پر بات کریں اور انھیں اُردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان امور پر عمل کرنے میں شروع میں ہمیں تکلیف تو ہو گی لیکن ان شاء اللہ یہ مشکل جلد رفع ہو جائے گی۔ یاد رکھیے!ہر بڑا کام محنت اور مستقل مزاجی چاہتا ہے۔

 ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟

 

مقالہ نگار میڈیکل آفیسر، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، کراچی ہیں

پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کی ۶۵ فی صد آبادی کی گزربسر زراعت پر ہے۔ اگر ایسے زرعی ملک کے کسان بلبلا اُٹھیں اور کاشت کار چیخ رہے ہوں کہ حکومت کو ان کے مسائل کا اِدراک نہیں اور اربابِ بست و کشاد کو ان کے دُکھ درد کا احساس نہیں تو یہ ایک الم ناک صورتِ حال ہے۔

اس وقت وطن عزیز کی پانچوں بڑی فصلیں: چاول، کپاس، گندم، گنا اور آلو بدترین بحران کا شکار ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے چاول برآمد نہیں ہوسکا، پرانے اسٹاک گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کاشت کار کو پچھلے سال کی نسبت چاول کی آدھی قیمت بھی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال باسمتی مونجی ۲۵۰۰ روپے من بکتی رہی، جب کہ اس سال کسان کے لیے وہی مونجی ۱۲،۱۳ سو روپے فی من بیچنا بھی مشکل تھا۔ کپاس کی کاشت پر فی ایکڑ تقریباً ۴۴ہزار روپے اخراجات آتے ہیں، جب کہ کاشت کار کو ۲۰ سے ۲۲ ہزار روپے فی ایکڑ قیمت وصول ہوئی، جو اخراجات سے کہیں کم ہے۔ گندم کی سرکاری قیمت خرید ۱۳۰۰ روپے فی من مقرر ہے مگر کھیت میں کاشت کار کو دو سے تین سو روپے فی من کم ملتی رہی ہے۔ گنے کی فصل اچھی تھی مگر شوگر ملوں کے مالکان نے کاشت کاروں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا، لہٰذا انھیں گنے کے بہت کم نرخ مل سکے۔ آلو کے کاشت کارنے جب اندازہ لگایا کہ فروخت کے بعد وصول ہونے والی رقم اس پر اُٹھنے والے اخراجات سے کہیں کم ملے گی تو اس نے آلو کی فصل کو منڈی تک پہنچانے کی زحمت ہی نہیں کی اور پکی ہوئی تیار فصل کو ہل چلا کر زمین کے اندر ہی دفن کر دیا۔ یہ ہے اس ملک کے اس کاشت کار کی کہانی جو برفانی راتوں، جان لیوا حبس اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلا کر ملک کے کروڑوں باشندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیا کر رہا ہے۔

کچھ عرصے سے اجناس کی برآمد رُک گئی ہے جس کے باعث سفیدپوش کسان عرش سے فرش پر آگرا ہے۔ غربا و مساکین کو خیرات و صدقہ دینے والے کنبے خود صدقہ و خیرات کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی ایک سفیدپوش گھرانے کے ایک بزرگ پچھلے دنوں بتا رہے تھے: ’’چند سال پہلے تک اللہ کے فضل سے فصل اچھی ہوتی تھی اور نرخ بہت اچھے مل رہے تھے‘‘۔ پھر یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ’’مگر اب کاشت کاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہم دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔

بلاشبہہ اس ملک کو قدرت کی طرف سے بے پناہ نعمتیں اور وسائل میسر ہیں۔ یہاں کے موسم اور مٹی قدرت کا اَنمول تحفہ ہیں۔ رواں دواں دریا اور رواں نہریں موجود ہیں۔ مگر بے نیاز حکومتوں، قومی جذبے سے عاری نوکر شاہی، فاترالعقل منصوبہ سازوں اور ذاتی مفادات کے غلام عوامی نمایندوں نے مل کر اس کی زراعت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

جدید تحقیقی اداروں کی اھمیت

زرعی شعبے کی ترقی کے لیے جدید طرز کی ریسرچ اور تحقیقی ادارے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں زرعی تحقیق کے ادارے کبھی بہت فعال ہوتے تھے، حکومت کا رویہ ہمدردانہ اور سرپرستانہ تھا۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا، اس لیے ان کی کاوشوں کے ثمرات کسانوں تک پہنچتے تھے۔ اب یہی ادارے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر میڈیا کا موضوع بنارہا ہے۔ زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی تحقیق کے لیے مختص جگہ پر کسی بیوروکریٹ کی ہوس ناک نظریں پڑگئیں اور اس نے کچھ مقامی سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر زراعت کے لیے مختص زمین پر بھی اپنے لیے پلاٹ لینے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ زرعی تحقیق کے لیے مخصوص جگہ ہتھیاکر اُس پر ہائوسنگ کالونی بنانے کی سازش کی گئی۔ ہوس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی زرعی تحقیق کے لیے وفاقی سطح پر چند قومی ادارے قائم کیے گئے۔ ۱۹۷۵ء میں نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی گئی۔یوایس ایڈ کے تعاون سے اس ادارے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا اور ۱۰سال کی شبانہ روز محنت کے بعد اس سنٹر نے عالمی معیار کی حامل جدید ترین لیبارٹریز، تجرباتی پلانٹس، گرین ہائوسز، گلاس ہائوسز اور اینمل شیڈز پر مشتمل ایک متحرک نظام قائم کرلیا۔ یہ ادارہ ملک کا ایک قومی اثاثہ ہے جو دنیا کے ۱۷۰۰؍ اداروں  میں اٹھارھویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔

یہ ادارہ زرعی تحقیق، فوڈ سیکورٹی، پیداوار میں اضافے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس میں ۴۰۰ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان اور ۸۰۰سے زائد دیگر ملازمین کام کر رہے ہیں۔ نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی ادارے نے ملک کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے اور کئی فصلوں کی بیماریوں کا تدارک کیا ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جاپان کے تعاون سے یہاں منفرد ’جین بنک‘ قائم کیا گیا جو ملکی غذائی تحفظ کا اہم ترین ستون ہے اس میں ۳۵ہزار سے زائد جرم پلازمز (germplasms) محفوظ ہیں۔

 اس ادارے نے ۱۹۹۵ء سے اب تک ملکی پولٹری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کی۔ ۲۰۰۸ء میں قائم شدہ ’قومی ادارہ براے پولٹری امراض‘ نے پاکستان کو برڈفلو    سے پاک ملک ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ اس کے بعد پاکستان سے شرق اوسط کے ممالک میں پولٹری مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی اُٹھا لی گئی۔

پاکستان ہر سال تقریباً ۱۲؍ ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے درآمد کرتا ہے۔ ’ریسرچ سنٹر‘ کسان بھائیوں سے مل کر زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ٹماٹر کی اقسام اور پیداواری ٹکنالوجی کو متعارف کروا رہا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۴۰ مقامات پر ۸۰ کسان خاندانوں کو تربیت دی جارہی ہے جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے گی بلکہ کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اسی ریسرچ سنٹر نے کینولا، سرسوں، اسٹرابری (توتِ فرنگی)، انگور اور زیتون کی کاشت متعارف کروائی ہے جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا۔ اس ادارے نے اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی ترویج و ترقی کے لیے ایک منصوبہ مکمل کیا ہے جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ منظور کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں موزوں مقامات پر ۵۰؍ایکڑ پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔پاکستان سویابین اور سویامیل کی درآمد پر ہرسال ۶۵؍ارب روپے خرچ کرتا ہے۔ NARC نے ملکی سطح پر سویابین کی ترویج و ترقی کے لیے جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۲۰۰ ٹن بیج پیدا کرلیا گیا ہے جس کے بے پناہ فوائد سے اس فصل کو وسیع رقبے پر کاشت کرنا ممکن ہوگا۔

اس ادارے نے گندے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کی ٹکنالوجی متعارف کروائی ہے۔ اس کے تیار کردہ ’ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘ کی بدولت وطن عزیز آم برآمد کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۹۱ملین ٹن ریکارڈ برآمد کی گئی، جب کہ پڑوسی ملک پر بدستور پابندی عائد ہے۔

اس ادارے کا مزید دعویٰ ہے کہ اس نے نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سسٹم کے تحت گندم، چاول، مکئی، کپاس، کماد، دالیں، چارہ جات، تیل والی فصلیں، سبزیوں اور پھلوں کی ۶۰۰ سے زائد  نئی اقسام اور ہائبرڈ تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ   پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ٹشوکلچر ٹکنالوجی سے وائرس سے پاک کیلے کے لاکھوں پودے تیار کر رہا ہے کی بنیاد پر کیلے کی فصل کو صوبہ سندھ میں جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ یہ قومی ادارہ ہر سال ملک بھر سے سیکڑوں کسانوں اور سائنس دانوں کو جدید تکنیکی تربیت بھی فراہم کر تا ہے۔

زراعت قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں ۲۲ فی صد ہے اور جو ۶۵ فی صد لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت کسی طرح بھی ایٹم بم سے کم نہیں۔ یاد کیجیے سوویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا، جس نے سیکڑوں ایٹم بم بنا لیے، چاند ستاروں پر کمندیں ڈال لیں، لیکن خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے سوویت یونین کے طور پر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔

زراعت کی بہتری کے بغیر معیشت میں کبھی بہتری نہیں آسکتی اور زراعت میں بہتری اعلیٰ معیار کی ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ۲۰۰۱ء تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھارت سے زیادہ تھی۔ بھارت سالانہ ۱۲ہزار ملین گانٹھیں، جب کہ پاکستان ۱۳ہزار گانٹھیں پیدا کرتا تھا مگر بھارت نے بہتر بیج پیدا کرلیا جس کی مدد سے اب اُس کی سالانہ پیداوار ۳۵ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اسی طرح مستند اور بہتر بیج کے باعث بھارت میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی تحقیق کے اداروں پر توجہ دی جائے۔ انھیں فنڈز مہیا کر کے ہدف دیے جائیں اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا موثر نظام وضع کیا جائے۔

مجوزہ اقدامات

یہ ایک بڑا قومی المیہ ہے کہ وزارتِ تجارت بیرونی منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام ہے، جس کے باعث چاول برآمد نہیں ہوسکا اور پچھلے دو سال سے گوداموں میں پڑا خراب ہو رہا ہے۔ اس کے تین طریقے ہیں: اوّل یہ کہ مونجی کی اگلی فصل کی سرکاری قیمت (سپرباسمتی مونجی کی قیمت ۲۲۰۰ روپے فی من اور باسمتی ۸۶ کی ۱۴۰۰ روپے فی من) مقرر کردی جائے اور حکومت پاسکو کے ذریعے خود مونجی خریدے۔ دوسرا یہ کہ ڈیلرز کے پاس پڑا ہوا چاول حکومت خرید کر خود برآمد کرے ورنہ پھر سبسڈی یا چھوٹ کے ذریعے ڈیلروں کی مدد سے یہ کام کیا جائے۔ چند ارب روپے کی حکومتی امداد سے چاول کا سنگین بحران حل ہوسکتا ہے۔ حکومت اور قوم کو یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وطن عزیز کو خوراک کی خود کفالتی حیثیت سے محروم کرنا عالمی ساہوکاروں کا پرانا ایجنڈا ہے اور اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے وہ براہِ راست یا بالواسطہ ہماری قومی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔

اس وقت بھی ایسے لگتا ہے کہ زرعی شعبے کے پالیسی ساز اداروں میں کچھ ملک دشمن عناصر موجود ہیں جن کی بے جا مداخلت سے اس اہم سیکٹر کو کئی طرح سے نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہماری زرعی آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ ۲۴ فی صد سے کم ہوکر ۲۱ فی صد رہ گیا ہے۔ شعبۂ زراعت کی افرادی قوت جو کوئی دوسرا کام نہیں جانتی بے روزگاری کا شکار ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک کو خوراک کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ بلاروک ٹوک انتہائی زرخیز زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنائی جارہی ہیں جس سے زیرکاشت رقبہ سمٹ رہا ہے اور خوراک کی فراہمی مزید کم ہورہی ہے۔ زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتوں کا زراعت کے شعبے کے ساتھ اسی طرح بے نیازانہ رویہ رہا اور ہماری پالیسیاں زمینی حقائق کے برعکس  بنتی رہیں تو آیندہ چند برسوں میں ہماری فوڈ سیکورٹی کے حالات انتہائی خطرناک ہوجائیں گے۔

تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ کاشت کاروں کو وہ تمام سہولیات فراہم کریں جن سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس ضمن میں معیاری بیج کی فراہمی، مناسب نرخوں پر کھاد کی دستیابی، کم نرخوں (subsidised rates) پر ٹریکٹر، تیل اور بجلی کی فراہمی اور کسانوں کو ان کی محنت کے معقول معاوضے کی فوری ادایگی، کسانوں اور کاشت کاروں کا حق ہے، جو انھیں ہرصورت ملنا چاہیے۔ حکومت زراعت کی اہمیت سمجھتے ہوئے اسے اپنی ذمہ داری سمجھے۔

بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق نئے بیج تیار کرنے اور بیماریوں سے مدافعت کے لیے مؤثر دوا اور سپرے کی ضرورت اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آزادی کے ۶۸سال بعد بھی کاشت کاروں کو کسی بھی فصل کے لیے ۱۰۰ فی صد سرٹیفائیڈ سیڈ (مصدقہ بیج) میسر نہیں۔ ابھی تک صرف ۲۰ فی صد کاشت کار مصدقہ بیج استعمال کر رہے ہیں۔ اس بیج کے استعمال سے فصل کی نمو اور فی ایکڑ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاشت کار کو مارکیٹ سے جو بیج اور ادویات ملتی ہیں وہ زیادہ تر غیرمعیاری یا جعلی ہیں۔ اس کے علاوہ بیج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ اسے خریدنے کے لیے کاشت کار کو قرض درکار ہوتاہے۔ کاشت کاروں کو آسان اقساط پر قرضے دینا بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ تمام زرعی بنکوں کو پابند کرے کہ وہ بیج کے لیے دیے جانے والے قرضے کو نقد رقم کے بجاے سیڈکارپوریشن کے نام ووچر دے تاکہ کاشت کار بیجائی کے لیے لازماً مستند بیج استعمال کریں۔ نیز کاشت کار کو میڈیا کے ذریعے مستند بیج اور قابلِ اعتماد دوائیوں کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ کپاس، گندم اور گنے کے ماہرین جدید بیج کے نام پر ہرسال سیڈمافیا سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ وہ تنخواہ اور مراعات حکومت سے لے رہے ہیں، مگر اچھا بیج بناکر پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ ایسے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ کمپنیاں اعلیٰ معیاری بیج تیار کرنے والے سائنس دان سے ملی بھگت کرکے اپنی ناقص اور دو نمبر دوائیاں (جن پر یورپ میں پابندی لگ چکی ہے) یہاں کھلے عام بیچ رہی ہیں۔ اس کا فوری تدارک بہت ضروری ہے۔

فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کھاد بنیادی ضرورت بن چکی ہے مگر اس کے نرخ کسان کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں میں یوریا کے نرخ میں ۲۹۳ فی صد اور فاسفیٹ کھاد میں ۲۸۹ فی صد اضافہ ہوا ہے، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کھاد کے استعمال میں ۲۰ فی صد کمی ہوگئی ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ ہمسایہ ملک میں بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی میں کاشت کاروں کو دل کھول کر سبسڈی دی جارہی ہے جس سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں کھاد اور بجلی کے نرخوں کا موازنہ ملاحظہ فرمالیں:

بھارت کے صوبہ پنجاب میں زراعت کے لیے بجلی بالکل مفت ہے، جب کہ گجرات میں ایک روپیہ فی یونٹ اور راجستھان میں ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے، جب کہ ہمارے ہاں زرعی مقاصد کے لیے کاشت کاروں کو ۱۰ روپے ۳۵ پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے۔ غریب کاشت کاروں کے لیے بجلی کے نرخ ناقابلِ برداشت ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ تر کاشت کاروں نے بجلی کے کنکشن کٹوا دیے ہیں اور وہ بیچارے دوبارہ ڈیزل انجن کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اگر اسے ہمسایہ ملک جیسی امداد اور سہولتیں میسر آجائیں تو یہاں یقینی طور پر سبز انقلاب آجائے گا اور ہماری معاشی ترقی کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا۔

پانی کے بغیر زراعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں صوبہ پنجاب کو ۵۴ فی صد نہری پانی مل رہا تھا جو ۱۹۹۱ء میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ۹ئ۴۸ فی صد رہ گیا ہے۔ اب ناکافی پانی کی وجہ سے کاشت کار کو ٹیوب ویلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے کُل کاشتہ رقبے کا ۷۰ فی صد سب سے بڑے صوبے میں ہے۔ نہری اور ٹیوب ویل کے پانی کی کوالٹی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ۷۰ فی صد ٹیوب ویلوں کا پانی آب پاشی کے لیے غیرموزوں ہے۔ نیز یہ نہری پانی سے ۱۸ سے ۲۵ فی صد زیادہ مہنگا ہے، جس کی وجہ سے کاشت کار کا خالص منافع کم ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہمیں پانی کی کمی کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمارا ملک ۹ملین مکعب فٹ سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے۔ دونوں بڑے ڈیموں میں مٹی جمع ہونے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجایش کم ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ ۳۸سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا۔

دنیا بھر میں کسانوں کو رعایتی قیمت اور اجناس کی مددگار قیمت ملتی ہے۔ کاشت کار کی سبسڈی کی مخالفت کرنے والے نام نہاد معیشت دانوں کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ سبسڈی زرعی شعبے میں دی جاتی ہے۔

زراعت سے متعلق تحقیقی اداروں کا بجٹ بڑھایا جائے اور ان کی ضروریات کے مطابق انھیں فنڈز فراہم کیے جائیں، مگر ساتھ ہی ان کی کارکردگی کی سختی سے نگرانی کی جائے۔ چاول کے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ ایک سال میں چاول، کپاس اور گندم کے ہائبرڈ بیج (جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کم از کم ۳۰ فی صد اضافہ ہو) تیار کرکے کاشت کاروں کو فراہم کریں۔ ہدف حاصل کرنے والے ماہرین کو انعامات اور ترقیاں دی جائیں اور نااہلوں اور کام چوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔

زرعی ترقیاتی بنک کو اس طرح فعال اور کارآمد بنایا جائے کہ کاشت کار صحیح معنوں میں اس کی خدمات سے مستفید ہوسکیں۔ تمام صوبوں میں زراعت کے محکمے کو متحرک کیا جائے اور زراعت کے اہل کاروں کا کسان کے ساتھ دوبارہ تعلق استوار ہو۔ کسان، محکمہ زراعت اور زرعی بنک کے درمیان رابطے کے فقدان کو ختم کر کے ان کے درمیان قریبی، مفید اور مستقل رابطہ استوار کیا جائے۔ چھوٹے کاشتکار کو آڑھتی کے استحصال سے بچایا جائے اور آڑھتی کا مناسب کمیشن حکومت مقرر کرے۔

سیم اور تھور کے خاتمے کے لیے کبھی بڑے زور شور سے مہم چلا کرتی تھی۔ ہر دو لعنتوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی زمانے میں نہروں اور راجباہوں کی بھل صفائی بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی قصۂ پارینہ بن گئی ہے۔ صوبائی حکومتیں اس طرف توجہ دیں اور نہروں کو پختہ کرنے کے طویل مدتی منصوبوں پر بھی عمل درآمد کریں۔ نیز سیلاب کی روک تھام کے لیے طویل مدتی منصوبے بنائیں۔

سندھ میں بُری گورننس کی وجہ سے نہری پانی کی چوری بڑے دھڑلے سے ہورہی ہے۔ اس لیے ٹیل پر پانی دستیاب نہیں ہوتا، خاص طور پر بدین، تھرپارکر اور میرپور خاص میں پانی کی  عدم دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ صوبائی حکومت اس کا تدارک کرے۔

اٹہارہویں ترمیم اور زراعت و تعلیم

آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے محرک اور حامی غالباً اُس وقت اس کے مضر اثرات کا اندازہ نہ کرسکے۔ صوبوں کی خودمختاری بجا مگر خودمختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دست بردار ہی ہوجائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں توانائی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے۔ مگر اٹھارھویں ترمیم میں توانائی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے، جس سے آئے روز مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کے لیے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے۔ اسی طرح فوڈ سیکورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ ہے  مگر اٹھارھویں ترمیم کے حامیوں نے اس کے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے۔ اسٹاف کالج میں اس ترمیم کے سب سے بڑے وکیل رضا ربانی صاحب سے کورس کے شرکا نے پوچھا کہ فوڈ سیکورٹی مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور تعلیمی نظام ایک قوم بنانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ آپ نے پاکستان کو اس سے کیوں محروم کردیا ہے؟ ربانی صاحب نے دلیل سے جواب دینے کے بجاے ایک جذباتی تقریر کرڈالی، جس پر ایک دوست نے کہہ دیا: ’’آپ جذباتی خطبے سے ہمیں مرعوب کرسکتے ہیں مگر قائل نہیں کرسکتے‘‘۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم، زراعت اور توانائی کے شعبوں کو اٹھارھویں ترمیم کے شکنجے سے آزاد کرایا جائے اور ان اہم شعبوں پر مرکز کی نگرانی بحال کی جائے۔

 

مضمون نگار سابق انسپکٹر جنرل پولیس نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز ہیں