پاکستانیات


پاکستانی معاشیات کی تاریخ غیرمتوازن اور ناہموار ہے۔ اس دوران معاشی ترقی کے مختلف اوقات میں مختلف ماڈلوں کی پیروی کی ہے۔ ان پالیسیوں اور نتائج سے کئی اَدوار ممتاز بھی ہیں۔ ان اَدوار کی کلیدی خصوصیات کی ہم نشان دہی کرتے ہوئے ان کی نمایاں کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کریں گے۔ اتنے پھیلے موضوع کے ایک مختصر جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عرصے کے دوران معاشی پالیسی کی نوعیت کیا تھی اور ملک کو کس طرح کی ناکامیوں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا؟

منصوبہ بند معیشت (۱۹۴۷ء-۱۹۷۰ء)

اس زمانے میں ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سرمایہ داروں کے منتخب گروہ کی معاشی ترقی کے عمل کی سرپرستی کی گئی۔ اس طرح اُس زمانے کے سوشلسٹ ماڈل کے چیلنج کو ناکام بنانے کے لیے ایک فعال معاشی نظم و نسق کو بروئے کار لانے میں بظاہر کامیابی حاصل ہوئی۔ تاہم، ۱۹۶۹ء کی فوجی مداخلت نے اس ماڈل کو پیچھے دھکیل دیا۔

یہ پاکستانی معیشت کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس دوران میں کئی حکومتیں برسرِاقتدار آئیں۔ تاہم، اس پورے عرصے کی نمایاں ترین خصوصیت اس کی منصوبہ بند نوعیت تھی۔ اس کا سب سے مرکزی حوالہ ۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سطحی ترقی کا عشرہ شامل ہے۔ سرد جنگ میں امریکا کے اتحادی کے طور پر، پاکستان کو کافی فوجی اور اقتصادی امداد ملی۔ ’ہارورڈ ایڈوائزری گروپ‘ نے جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان قائم کیا تھا، وہ اس وقت تمام معاشی منصوبہ بندی اور ترقیاتی وسائل کی تقسیم کا مرکز و محور تھا، جس نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کا فریم ورک تیار کیا۔ تمام اہم اقتصادی سرگرمیوں جیسے سرمایہ کاری، درآمدات اور صنعتی مقامات پر وسیع پیمانے پر معاشی کنٹرول اور لائسنسنگ کا نظام رائج کیا گیا۔ ٹرکل ڈاؤن نظریے کی بنیاد پر صنعت کاروں کے ایک منتخب گروپ کو غلبہ پانے کے لیے سرپرستی حاصل تھی۔

  •  اہم کامیابیاں: اس عرصے میں پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں سے ایک ماڈل بن کر اُبھرا تھا، جس کی شرح نمو ۶ فی صد سے زیادہ تھی۔ زیادہ پیداوار کی وجہ سے افراطِ زر کم رہا اور ایک صنعتی بنیاد قائم کی گئی۔ دوسرا، زراعت میں سبزانقلاب، کسانوں کے لیے پیداواری فوائد اور بہترین آمدنی کا باعث بنا۔ تیسرا، تیزی سے صنعت کاری کے نتیجے میں شہرکاری (urbanisation) میں مسلسل اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں دیہی پھیلائو سے شہری مراکز کی طرف ہجرت میں اضافہ ہوا۔ چوتھا،ایک متعین سرمایہ دار طبقہ اُبھرا، جس نےریاستی سرپرستی حاصل کی اور مزدور طبقے پرغلبہ حاصل کیا۔ غلبہ پانے والے طبقے کا انتخاب ریاستی سرپرستی کے ذریعے لائسنس تک رسائی اور ریاست کے زیرکنٹرول کریڈٹ اور مالیاتی سرپرستی کے ذریعے کیا گیا۔
  • بڑی ناکامیاں: بھرپور ترقی کے تاثر کے باوجود، نچلی سطح تک فوائد کی تقسیم میں سنگین عدم توازن موجود تھا۔ بظاہر، ملک کے مغربی حصے(مغربی پاکستان) میں نمایاں طور پر زیادہ ترقی ہوئی، جب کہ مشرقی حصہ (مشرقی پاکستان) اپنے گوناگوں جغرافیائی، زمینی اور تاریخی حقائق کی وجہ سے اس قدر تیزی سے ترقی نہ کرسکا۔ اگرچہ تقسیم ہند کے زمانے کے تقابل سے پوزیشن کافی بہتر ہوئی، لیکن یہی قدرے سُست ترقی وہاں علیحدگی پسندوں کی نعرہ بازی کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوئی۔ سرمایہ دار طبقہ غیرمعمولی طور پر امیر تھا اور کچھ حقیقی یا کچھ افسانوی ۲۲خاندانوں کی نمایندگی کرتا تھا، جو صنعت اور تجارت کے بڑے حصے پر کنٹرول رکھتے تھے۔ برآمدات کے فروغ کی قیمت پر درآمدی متبادل کو فروغ دیا گیا۔ امریکا کے ساتھ کھلے اتحاد کی وجہ سے غیروابستہ دُنیا میں پاکستان کو اپنے موقف پر سمجھوتا کرنا پڑا۔

۲- قومی سطح پر قومیانے کی پالیسی اور سوشلزم (۱۹۷۱ء-۱۹۷۷ء)

پچھلی حکومت کی معاشی ناکامیوں کے نتیجے میں، اور مشرقی پاکستان کے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء میں برسرِاقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں، اب صرف مغربی پاکستان پر مشتمل پاکستان میں معاشی ترقی اور انتظام کے سوشلسٹ ماڈل کو اپنانے کا راستہ چُنا گیا۔ صنعت، تجارت، مالیات اور بنکاری نظام کو بڑے پیمانے پر قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ ملکی معیشت میں ایک بہت بڑا حصہ سرکاری شعبے کی صورت میں اُبھرا۔ بدنامی کی علامت ۲۲ خاندان منظر سے غائب ہوگئے کیونکہ ان کے زیادہ تر اثاثوں کو قومیا لیا گیا تھا۔پانچ سالہ منصوبے کا فریم ورک معطل کردیا گیا۔ پبلک سیکٹر میں بڑے پیمانے پر غیرمنصوبہ بند ترقی ہوئی، کیونکہ معیشت کے تمام اہم شعبوں پر نجی شعبے کے لیے متعدد بنیادی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ معاشی اقدار کے بدل جانے سے معاشرے میں سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کا احترام اور مقام کم ہوگیا، جب کہ پیشہ ور مزدور یونینوں کو کافی طاقت اور اختیارات مل گئے۔

  •  اہم کامیابیاں: اس دوران عوامی شعبے میں بنیادی صنعتوں کو فروغ دیا گیا، جو مضبوط صنعتی بنیادوں کے لیے ضروری تھا۔ دوسرا، مزدور تعلقات کو تحفظ دیا گیا، جب کہ سرمایہ دار طبقہ اس دور میں ایک ’سماج دشمن‘ اور ناپسندیدہ گروہ کی صورت میں نمایاں کیا گیا۔ تیسرا، خارجہ اُمور اور بیرونی اقتصادی تعلقات کو ایک نئی سمت دی گئی۔ چوتھا یہ کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی فراخ دلانہ حمایت نے ملک پر سے امریکی پٹھو ریاست کے لیبل کو ہٹانے میں مدد کی۔ آخرکار تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان ایٹمی پروگرام کی تشکیل و ترقی کی طرف بڑھ گیا۔
  • بڑی ناکامیاں: قومی سطح پر قومیانے (نیشنلائزیشن) کے نتیجے میں سرکاری شعبے کو انتظام کرنے کی خاطر خواہ تیاری اور صلاحیت کے بغیر بہت زیادہ پھیلا دیا گیا۔ نجی شعبہ پس ماندہ ہوگیا۔ انجامِ کار نجی شعبے میں صنعتی ترقی کی رفتار متاثر ہوئی۔ جلد ہی مہنگائی میں اضافہ ہوا، جس نے لوگوں میں عدم اطمینان پیدا کیا۔ افراطِ زر میں اضافے کی وجہ سے آمدنی کی بہتر تقسیم متاثر ہوئی۔ ترقی بھی رُک گئی کیونکہ بہت سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے منصوبے جیساکہ ’پاکستان سٹیل ملز‘ کی تنصیب کی مدت طویل تھی۔ کم ترقی اور زیادہ افراطِ زر کا امتزاج، عمومی عدم اطمینان کا باعث بنا اور پیپلزپارٹی کی حکومت کی مقبولیت متاثر ہوئی۔

۳- مخلوط معیشت اور پبلک سیکٹر (۱۹۷۷ء-۱۹۸۸ء)

نیشنلائزیشن اور سوشلزم کی مخالفت معاشرے میں شدید تر تھی۔ ابتدائی طور پر جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے نیشنلائزیشن کو کالعدم کرنے کا عزم کیا، لیکن اس راستے پر قدم رکھتے ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ تو سیاسی سرپرستی کے لیے ایک بہت بڑی چابی ہے اور اس سے اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت نے پانچ سالہ ترقیاتی فریم ورک کو بحال کردیا،اور آہستہ آہستہ نجی شعبے کے لیے معیشت کو کھولنا شروع کیا۔ دوسری جانب افغانستان پر اشتراکی روسی حملے (۱۹۷۹ء) نے امریکا کی طرف سے بھی اہم حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔

  •  اہم کامیابیاں: سات سال کے وقفے کے بعد، معاشی نمو کو بحال کیا گیا اور سپلائی میں بہتری کے ذریعے اور ہفتہ وار بازاروں کے نیٹ ورک کو فروغ دے کر مہنگائی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی، جو آج تک جاری ہے۔ نجی شعبے کو بتدریج دوبارہ معاشی ترقی میں شامل کیا گیا۔ صنعتی شعبے میں بھی بنیادی طور پر نجی شعبے کی شراکت کو بحال کیا گیا۔ پرائس کنٹرول کے بتدریج ڈی ریگولیشن کا عمل شروع کیا گیا، جس سے زرعی شعبے کے لیے قیمتوں کا تعین بہتر ہوا، اور اس طرح کسانوں کو زیادہ آمدنی حاصل ہوئی۔ غیرملکی کرنسی کے نظام میں اہم اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔
  •  بڑی ناکامیاں: صنعتوں اور مالیاتی اور بنکنگ اثاثوں کی واپسی اور غیرقومیانے کے ابتدائی وعدے کو پورا نہیں کیا گیا، بلکہ عوامی اداروں کا ایک زیادہ منظم اور مضبوط نظام قائم کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سرکا ری شعبہ کے اداروں میں کارکردگی متاثر ہوئی اور بدعنوانی کو خاصا فروغ ملا۔ بہت بڑے سرکاری صنعتی شعبے کو معاشی ترقی کے انجن کے بجائے سیاسی طاقت اور سرپرستی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، جو بگاڑ کا ذریعہ بن گیا۔ اس کی تقسیم یا نجکاری کی فوری ضمانت دی گئی، لیکن اس سمت میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

۴- جمہوریت ، منڈی کی معیشت اور سیاسی عدم استحکام (۱۹۸۸ء-۱۹۹۹ء)

جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت سمنگٹن /پریسلر ترامیم کے آغاز کے ساتھ اختتام کو پہنچا،  جس سے پاکستان کوامریکی مالی امداد کا خاتمہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس (سوویت یونین) کے زوال نے عالم گیریت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور فورم آف ایڈ ٹو پاکستان کنسورشیم کے ذریعے فنانسنگ کے روایتی ماڈل کو نئے متحرک نجی سرمائے کے حق میں ختم کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے بجلی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں کو بین الاقوامی یا قومی نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے  کھول دیا گیا۔ اس عشرے کو سیاسی عدم استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہوئیں اور چار حکومتوں کی اوسط مدت تقریباً ڈھائی سال رہی۔ اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت ملک میں آئی ایم ایف کے ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کا آغاز تھا، جو بعد میں معاشی انتظام کی باقاعدہ ضرورت اور خصوصیت بن گیا۔

  •  اہم کامیابیاں: نجی شعبے کے لیے جگہ بنائی گئی، اور اس کے کردار کو وسعت دی گئی۔ نج کاری کا عمل شروع کیا گیا اور کئی صنعتوں اور سرکاری شعبے کے بنکوں کو الگ کر دیا گیا۔ نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سازگارماحول پیدا کرنے کے لیے وسیع البنیاد اصلاحات نافذ کی گئیں۔ سپلائیز پر بڑی تعداد میں کنٹرول جیسے: سرمایہ کاری کا لائسنسنگ اور امپورٹ پرمٹ ہٹادیئے گئے۔ ٹیرف کی اُونچی دیواریں گرا دی گئیں اور مقامی پیداوار اور درآمدات پر عام تجارتی ٹیکس بتدریج متعارف کرائے گئے۔ آئی ایم ایف کے پروگراموں کو مارکیٹ پر مبنی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ غیرملکی کرنسی پر کنٹرول کو تقریباً ختم کر دیا گیا۔ کرنٹ اکائونٹ میں مکمل تبدیلی کی اجازت تھی۔ پاکستان سے باہر رقوم بھیجنے کی مکمل اجازت کے ساتھ غیرملکی کرنسی اکائونٹس (FCAs) کو برقرار رکھنے کے لیے بیرونِ ملک پاکستانیوںکو دی جانے والی غیر معمولی سہولیات کی وجہ سے کیپٹل اکائونٹ کی تبدیلی بھی مؤثر طریقے سے ہوئی۔ سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے بورڈ آف انویسٹمنٹ قائم کیا گیا۔ ٹیکس نظام کو آمدنی اور سیلزٹیکس کے ساتھ تبدیل کیا گیا۔ جو ایک اہم مارجن ایکسائز اورکسٹم ڈیوٹی سے آگے نکلتے ہوئےریونیو اسپنرز بن گئے۔
  •  بڑی ناکامیاں : حکومتوں میں پے درپے تبدیلیوں کی وجہ سے متضاد پالیسیاں اورسیاسی عدم استحکام، سرمایہ کاروں کے مجروح کرنے کا ذریعہ بنا۔ معاشی نمو متاثر ہوئی اور افراطِ زر کا دبائوبڑھ گیا۔ آئی ایم ایف کے پروگراموں کا تعاقب بڑی بے دلی سے کیا گیا اور اکثر پروگراموں اور وعدوں کو درمیانی مدت میں ترک کر دیا گیا۔ بڑے پیمانے پر معاشی عدم استحکام ایک معمول بن گیا اور اس سے سرمایہ کاروں کی طویل مدتی فیصلے کرنے کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ مئی ۱۹۹۸ء میں ایٹمی دھماکوں کے موقع پر فارن کرنسی اکائونٹس کو منجمد کرنے اور بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں کو کھولنے کے فیصلے نے پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے امکانات کو سخت نقصان پہنچایا۔

۵- منڈی کی معیشت اور فوجی حکمرانی  (۱۹۹۹ء-۲۰۰۸ء)

سیاسی عدم استحکام، ایک اور فوجی مداخلت کا باعث بنا۔ بظاہر معاشی نظم و نسق میں بہتری آئی اور نائن الیون کے بعد وسائل کی دستیابی آسان ہوگئی۔ اس عرصے میں قیمتوں میں نمایاں استحکام کے ساتھ اعلیٰ نمو بھی دیکھنے میں آیا۔ آئی ایم ایف کےدو پروگراموں پر عمل کے لیے بنیادی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جلد ہی اقتصادی اور سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کی ملکی معیشت کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔

  •  اہم کامیابیاں: سیاسی استحکام اور نجی شعبے کی دوستانہ پالیسیوں نے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا۔ اقتصادی ترقی کی رفتار تیز تھی اور افراطِ زر کم تھا۔ امریکی تعاون اور پیرس کلب کی ری شیڈولنگ کی مدد سے غیرملکی ذخائر اس وقت سب سے زیادہ تھے۔ بنکوں کی نجکاری کی گئی، جس سے ان کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی۔ مہنگے قرضوں کی جزوی ادائیگی بھی کی گئی۔
  •  بڑی ناکامیاں : اپنے دورِ اقتدار کے اختتام پر، فوجی حکومت مطمئن تھی، لیکن عدالتی بحران جس میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری صاحب کو غیرفعال کر دیا گیا تھا، اس کے نتیجے میں معیشت پر سے توجہ ہٹ گئی۔ مزید یہ کہ ایک طرف ملک کو عالمی مالیاتی بحران کا سامنا تھا اور دوسری طرف اجناس کی قیمتیں تاریخی طور پر بلند ہوئیں اور تیل کی قیمت ۱۵۰ڈالر فی بیرل کو چھوگئی۔ عالمی مالیاتی بحران اور تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کےپیش نظر، اقتصادی ماڈل کی خرابی نمایاں تھی۔ بجٹ کی صورتِ حال پر سمجھوتا کیا گیا۔ حکومت نے تیل کو اصل قیمت پر صارفین تک نہ پہنچانے کا فیصلہ کیا اور اضافی بوجھ قومی خزانے پر ڈالا۔ جس سے بجٹ کے مقابلے میں مالیاتی خسارہ دگنا ہوگیا اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ سب سے زیادہ رہا۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے کے وقت، زیادہ تر ذخائر ختم ہوکر رہ گئے اور یہاں تک کہ لاکرز کے قبضے اور فارن کرنسی اکائونٹ کے منجمد ہونے کی افواہیں بھی گردش میں رہیں۔ سٹاک مارکیٹ کو تین ماہ سے زائد معطل رہنا پڑا۔

۶- منڈی کی معیشت اور کرونی کیپٹلزم اور جمہوریت (۲۰۰۸ء-۲۰۱۸ء)

عدالتی بحران اوردسمبر۲۰۰۷ء میں بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد، ۲۰۰۸ء کے اوائل میں فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلزپارٹی کی اگلی مخلوط حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے نئی حکومت بنائی اور اس نے بھی اپنی مدت پوری کی۔

  •  اہم کامیابیاں: پیپلزپارٹی کی حکومت میں نیا این ایف سی ایوارڈ دیا گیا اور ۱۸ویں آئینی ترمیم نافذ کی گئی۔ آئی ایم ایف پروگرام اوردیگر رقوم نے فوجی حکمرانی کے مقابلے میں زیادہ ذخائر بنانے میں مدد کی۔
  •  بڑی ناکامیاں : پیپلزپارٹی کی اس حکومت کو عالمی بحران اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے پس منظر میں آئی ایم ایف کا پروگرام لینا پڑا۔ مگر اس پروگرام کو درمیانی مدت میں چھوڑ دیا گیا، کیونکہ حکومت ٹیکس کے حوالے سے کلیدی اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہی تھی۔  شرحِ نمو پانچ برسوں میں اوسطاً تین فی صد سے بھی کم تھی اور افراطِ زر بھی اوسطاً ۱۲ فی صد تھا، تاہم غربت میں کمی آئی۔پاورسیکٹر کے بقایا جات ایک بڑا مسئلہ بن گئے اور لیکویڈیٹی کی کمی نے بجلی کی شدید قلت کو جنم دیا۔ اپنی مدت کے اختتام کے قریب، حکومت نے فرنٹ لوڈڈ فنڈ پروگرام اوردیگر ترقیاتی شراکت داروں کے ذریعے حاصل کیے گئے زیادہ تر بیرونی وسائل کو ضائع کر دیا۔
  •  اہم کامیابیاں: مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کا کامیاب نفاذ، اقتصادی ترقی اورکم افراط زر کی بحالی، سی پیک کا آغاز ایک تبدیلی کے تصور کی صورت میں نمایاں ہوا۔ ایل این جی ٹرمینلز اور ایل این جی کی بڑی مقدار کی درآمد کا اہتمام، تاکہ صنعتی اور بجلی کی پیداوار کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ بجلی، شاہراہوں اوردیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری اور اضافے۔
  •  بڑی ناکامیاں : ن لیگ حکومت کو فنڈ پروگرام حاصل کرنا پڑا، کیونکہ ذخائر تقریباً ختم ہوچکے تھے اور ملک کے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کی صورتِ حال قریب تھی۔ اس نے ’چین پاکستان معاشی راہداری‘ (سی پیک) کے ذریعے اہم سرمایہ کاری سے استفادہ کیا، جو عوامی جمہوریہ چین کے عظیم تر عالمی معاشی ترقیاتی منصوبے کا ایک حصہ تھا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی مدت کے دوران، حکومت نے تیزرفتاری سے اصلاحات پر عمل کیا، لیکن اس کے بعد حفاظتی اقدامات کو بھی بےلگام کردیا اوراخراجات کا سلسلہ جاری رکھا، جب کہ محصولات کی وصولی میں کمی آئی (مالی خسارہ ۶ء۶ فی صد، ریزرو ۱۰ بلین ڈالر)۔ پاور سیکٹر کے بقایا جات کا مسئلہ دوبارہ سراُٹھانے لگا، اور بقایاگردشی قرضے دوبارہ بڑھ کر اسی سطح پر پہنچ گئے، جو ۲۰۱۳ء میں تھے۔

۷- منڈی کی معیشت اور بحالی جمہوریت (۲۰۱۸ء تاحال)

۲۰۱۸ء میں چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے ایک نئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئی، جس کی قیادت عمران خان نے کی۔ ن لیگ کے آخری دوبرسوں میں بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ (CAD) دونوں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ میکرو اکنامک فریم ورک کمزور ہوگیا۔   نئی حکومت کو وراثت میں ملنےوالے بدتر معاشی منظرنامے کے پیش نظر، آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام کی فوری ضرورت تھی۔ تاہم، پہلے پہل اپنی حکمت عملی کے تحت، حکومت نے اس پروگرام پر عمل کرنے کی مزاحمت کی۔ اس تگ و دو اور تذبذب کی کیفیت میں تقریباً ایک سال ضائع ہوگیا۔ اس طرح آئی ایم ایف پروگرام قبول کرنے سے پہلے ہی، نمایاں کمی اور شرح سود میں اضافہ کیا گیا تھا۔ پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، زیادہ قدر میں کمی، شرح سود میں اضافے پر بھاری ٹیکس عائد کے گئے، جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ۲۰-۲۰۱۹ء کے دوران، ملک کووڈ ۱۹ کی زد میں آیا جس سے معاشی خلل پڑا۔ دوسرے سال اس وجہ سے منفی ترقی دیکھی گئی۔ یہ تیسرا سال تھا جب معاشی بحالی کا آغاز ۵ء۶ فی صد نمو کے ساتھ ہوا، جس کے بعد ۲۲-۲۰۲۱ء میں اس شرح میں ۶ فی صد تک اضافہ ہوا۔

بظاہر یہ بات مہمل اور متضاد ہے کہ عمران حکومت کی ۲۲-۲۰۲۱ء کی کارکردگی، جس میں اعلیٰ اقتصادی ترقی، اعلیٰ برآمدات اور ترسیلاتِ زر اور زراعت اور صنعت دونوں میں نمایاں نمو دیکھنے میں آئی۔ آخرکار اس کا خاتمہ اسی بیرونی کھاتوں کےعدم توازن پر ہوا، جو اس حکومت کو ورثے میں ملا تھا۔

  •  اختتامی کلمات:یہ قدرے پریشان کن صورت ہے کہ ۱۹۸۸ء کے بعد سے تمام حکومتوں نے معیشت کو، میکرو اکنامک استحکام کی طرف چلانے کے لیے ایک ہی راستہ اپنایا، جس کے لیے آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کی ضرورت تھی۔

اگرچہ پی ٹی آئی کے ایک اُمید بھرے دور کا ایسا خاتمہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اسی طرح کے کئی اَدوار اختتام کے گھاٹ اُترے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ۲۰۱۳ء- ۲۰۱۶ء کے دوران آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ لیکن جلد ہی فوائد کو معیشت کی صلاحیت سے زیادہ ترقی کے راستے پر بڑھانے کی قربان گاہ پہ قربان کر دیا گیا۔ پانامہ پیپرز کا اجرا حکومت کے لیے ایک بڑے بحران میں بدل گیا اور بالآخر وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی پر منتج ہوا۔ کامیاب معاشی ٹیم، فنڈ پروگرام کے تحت حاصل ہونے والے فوائد سے لاتعلق تھی اور جولائی ۲۰۱۸ء میں الیکشن ہونے والے تھے۔ مالی سال ۲۰۱۶ء کا مالی خسارہ ۴ء۶فی صد تھا، جو مالی سال ۲۰۱۸ء میں ۶ء۶ فی صد تک پہنچ گیا، جب کہ مالی سال ۲۰۱۶ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ  ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ریکارڈ سطح تقریباً ۲۰بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔یہ سب ۵ء۸ فی صد کی بلند شرحِ نمو حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جسے بعد میں جی ڈی پی کی بحالی کے بعد ۶ء۳ فی صد کر دیا گیا۔

اسی طرح کی صورت حال پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال کے دوران بھی ہوئی، جس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، لیکن یہ تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ آغاز کرنے میں ناکامی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بنائے گئے ذخائر کے بیش تر حصے کو مایوس کن سطح پر لے جانے کے پس منظر میں مالی سال ۲۰۱۳ء میں اپنی مدت کے اختتام پر پیش آیا۔

یہاں تک کہ صدر جنرل مشرف کی نسبتاً مستحکم حکومت بھی ترقی اور ووٹروں کی خوشنودی کے حصول کے اسی طرح کے دبائو کے سامنے جھک گئی۔ اپنے آخری مالی سال ۰۸-۲۰۰۷ء میں، عدالتی بحران، جنوری ۲۰۰۸ء میں طے شدہ انتخابات، اورعالمی مالیاتی بحران کے پیش نظر حکومت نے پی او ایل کی اُونچی قیمتوں کو عوام تک منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ ۴ فی صد سے تقریباً ۸ فی صد تک پہنچنے اور دگنا ہونے کا باعث بنا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بلند ترین سطح، یعنی جی ڈی پی کا ۸ فی صد تھا۔ پی پی حکومت کو اکتوبر ۲۰۰۸ء میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح اس دور کی نسبتاً اچھی کارکردگی کا خاتمہ ایک پریشان کن صورتِ حال پر ہوا۔

 

پاکستان کی تاسیس کے ۷۵ برس پورے ہونے پر، ہم یہاں اُس قلمی مذاکرے سے چند حصے پیش کر رہے ہیں، جسے ماہ نامہ چراغ راہ، کراچی نے ۱۹۶۱ء کے ’نظریۂ پاکستان نمبر‘ میں شائع کیا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ۶۲برس گزر جانے کے بعد آج تک ہم اسی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے قومی، سیاسی، عسکری، انتظامی، صحافتی اور تعلیمی قیادت نہ بنیادی مسئلے کو سمجھنا چاہتی ہے اور نہ ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم رفتہ رفتہ ایک پاکستانی قوم سے ہٹ کر تنگ نظر قومیتوں کی طرف بڑھنے، مفادات کے گرداب میں پھنسنے اور وقتی و عارضی اہداف کے پیچھے بھاگنے والی قوم کا ثبوت دینے پر مُصر ہیں۔ مذاکرے کے تین محترم شرکا: lسیّدابوالاعلیٰ مودودی lڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی lجسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے جوابات یہاں دیئے جارہے ہیں۔(پروفیسر خورشیداحمد)

سوالات

            ۱          آپ کی نگاہ میں پاکستان کے بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت کیا ہے؟

            ۲          اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں کون سی قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں؟

            ۳          آپ کے خیال میں گذشتہ برسوں میں پاکستان، اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اس سے دور ہٹا ہے؟

            ۴          آپ کے نزدیک اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ سیاسی اور تہذیبی زندگی پر اس نظریے کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہییں؟


سیّد ابو الاعلیٰ مودودی

۱   پاکستان کے بقا و استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اولین ضرورت و اہمیت یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ایک مسلمان قوم کا نظریہ اسلامی نہ ہو تو اور کیا ہو سکتا ہے۔ مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ: ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب، تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیر اسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیں اور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟

دوسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ ہم نے متحدہ ہندستان میں سے ’پاکستان‘ کے نام کا ایک الگ خطہ زمین کاٹ کر حاصل کرنے کے لیے جو لڑائی لڑی تھی، وہ تمام دنیا کے سامنے ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ کر لڑی تھی کہ: ہم ایک جداگانہ تہذیب و تمدن رکھنے والی قوم ہیں۔ متحدہ ہندستان میں غیر مسلم اکثریت کے ساتھ ایک مشترک نظامِ زندگی ہم نہیںبنا سکتے۔ ہمیں اپنے نظامِ زندگی کے مطابق کام کرنے کے لیے ایک الگ علاقہ چاہیے، جہاں ہم اپنی تہذیب اور اپنے تمدن اور اپنے قوانینِ حیات کے مطابق کام کر سکیں ___  اب ایک سخت لڑائی لڑنے کے بعد جب وہ پاکستان ہمیں حاصل ہو گیا، جس کے لیے ہم نے یہ سارے پاپڑ بیلے تھے، تو یہ ایک بالکل عجیب حرکت ہو گی کہ ہم یہاں اسی تہذیب و تمدن اور نظامِ زندگی سے منہ موڑ لیں، جس کا ہم نے نام لیا تھا اور وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیں جو متحدہ ہندستان میں بھی بآسانی کیا جا سکتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم تمام دنیا کے سامنے اپنے آپ کو ایک جھوٹی اور مکار، یا احمق اور بوالفضول قسم کی قوم کی حیثیت سے  پیش کرتے ہیں۔ آخر دنیا یہ نہ سوچے گی کہ یہ عجیب قوم ہے کہ جس مقصد کا نام لے کر یہ لڑی تھی، لڑائی میں کامیاب ہو کر اسی مقصد کو فراموش کر بیٹھی اور جو کام یہ لڑے بغیر کر سکتی تھی، وہی اس نے جان و مال اور آبرو کے بے شمار نقصانات اٹھانے کے بعد کرنا شروع کر دیا۔ ہماری سوسائٹی میں جن باتوں پر بے چارے سکھوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ہماری یہ حرکت ان سے بدرجہا زیادہ بڑھی ہوئی ہو گی اور دنیا کے سامنے ہم اپنے آپ کو مہاسکھ کی حیثیت سے پیش کریں گے۔

تیسری چیز اس سلسلے میں یہ ہے کہ پاکستان مختلف عناصر سے مرکب ہے، اور جن عناصر سے یہ مرکب ہے اُن کے درمیان آج تک اپنی جداگانہ خصوصیات نمایاں طور پر موجود ہیں۔ ان کے اندر حقیقت میں کوئی امتزاج ایسا نہیںہو سکا ہے، جو ان عناصر کو بالکل یک جان اور یک رنگ کر چکا ہو: ان کی زبانیں مختلف ہیں، لباس، عادات، طرز معاشرت مختلف ہے، نسلیں مختلف ہیں۔ ایک بڑی حد تک اُن کے مفاد بھی نہ صرف مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ ان کے اندر جدا جدا ہونے کا احساس نہ صرف موجود ہے، بلکہ زندہ اور متحرک ہے، اور ایک ذرا سے اشارے پر بہ آسانی ابھر آتا ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ پاکستان جغرافی حیثیت سے ایک وطن بھی نہیں ہے۔ اس کے دو بڑے ٹکڑے ، جن میں اس کی آبادی تقریباً نصف نصف بٹی ہوئی ہے[جب یہ جوابات لکھے گئے تب پاکستان، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان (آج کل بنگلہ دیش) پر مشتمل تھا]، ایک دوسرے سے ہزار میل [ ڈیڑھ ہزار کلو میٹر] کے فاصلے پر ہیں اور بیچ میں ایک ایسی طاقت حائل ہے جس کے ساتھ ہمارے کچھ بہت اچھے تعلقات بھی نہیں ہیں۔ کسی وقت بھی ان تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ان دونوں ٹکڑوں میں مواصلات کے سارے رشتے کٹ سکتے ہیں۔ اس حالت میں پاکستان کو ایک وحدت بنا کر رکھنے والی قوت سوائے اسلام کے کوئی نہیں ہے۔ محض سیاسی نظام کی وحدت کوئی چیز نہیں۔ کیا اسی طرح کی وحدت آسٹریا اور ہنگری میں نہ تھی؟ کیا اسی طرح کی وحدت عثمانی سلطنت میں نہ تھی؟ اسی طرح کی وحدت برٹش ایمپائر [برطانوی سلطنت] میں نہ تھی؟ اس وحدت کے بل پر مختلف الجنس عناصر کو ایک ’بنیان مرصوص‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لیے زبان کی وحدت مددگار ہوسکتی ہے، مگر اس کا یہاں دور دور کوئی امکان نہیں۔ اس کے لیے معاشی مفاد کی وحدت بھی مددگار ہوسکتی ہے، لیکن ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان یہ موجود نہیں ہے۔ اب سوائے ایک عقیدے اور دین کی وحدت اور اصول اخلاق و تہذیب کی وحدت کے اور کیا ایسی چیز ہے جو پاکستان کے مختلف عناصر کو جوڑ کر رکھ سکتی ہو؟

چوتھی اور آخری چیز یہ ہے کہ ملک کی عظیم مسلم اکثریت، جو دراصل پاکستان کی بانی اور اس کی پشت پناہ ہے، سچے دل سے یہ ایمان رکھتی ہے کہ اس کی زندگی کے مسائل کا حل فی الواقع اسلامی نظام ہی میں ہے، اور اس نظام سے بہتر دوسرا نظام نہیں ہے۔ جن لوگوں کا اصلی عقیدہ یہ نہیں ہے، جو محض مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو جانے کی وجہ سے مسلمان بنے ہوئے ہیں، مگر اپنے عقائد  اور خیالات اور نظریات کے اعتبار سے غیر مسلم ہو چکے ہیں، ان کا معاملہ تو دوسرا ہے۔ وہ تو بلا شبہہ یہی چاہیں گے کہ ہم اپنے ساتھ بس مسلمان کا نام لگائے رکھیں، مگر کام کسی غیر اسلام نظریہ پر کریں۔ لیکن ایسے لوگ آخر ہماری آبادی میں ہیں کتنے؟ بمشکل ان کا تناسب ایک دو یا دس پانچ فی لاکھ ہوگا۔

 آخر عقل و منطق، یا انصاف یا جمہوریت کے کس قاعدے سے اس چھوٹی سی اقلیت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں کوئی نظام زندگی اس کے نظریات کے مطابق اختیار کیا جائے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت یہی چھوٹی سی اقلیت ہمارے ہاں بڑے بڑے مناصب پر مسلط رہی ہے۔ لیکن یہ حالت خواہ کتنی ہی پریشان کن ہو، بہر حال اسے کوئی حقیقی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ ملک میں ایسی ایک اقلیت کے برسر اقتدار ہونے کی حیثیت ایک اجنبی قوم کے برسرِ اقتدار آنے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انگریز بھی جب اس ملک پر حکومت کر رہا تھا تو اس کے کارفرماؤں اور کار پردازوں کی تعداد اس ملک میں اس سے زیادہ نہ تھی۔ اگر وہ اجنبی اقتدار یہاں مستحکم نہ ہو سکا تو یہ اجنبی اقتدار بھی یہاں مستحکم نہیں ہو سکتا۔

جب تک یہ اقتدار یہاں مسلط رہے گا، پاکستان کے باشندوں کی عظیم اکثریت کے جذبات، احساسات اور ان کی گہری جڑوں پر جمی ہوئی روایات سے اس چھوٹی سی اقلیت کے منصوبے پیہم متصادم ہوتے رہیں گے۔ تصادم کی وجہ سے یہ ملک ایک انچ بھی ترقی کے راستے پر آگے نہ بڑھ سکے گا، بلکہ جو کچھ پہلے کا بنا ہوا ہے وہ بھی بگڑتاچلا جائے گا۔ قوم کا دلی تعاون جس طرح بدیسی اجنبیوں کو کبھی حاصل نہ ہو سکا، اسی طرح ان دیسی اجنبیوں کو بھی کبھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ ان کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہے گی، جیسے کوئی شخص ایک ایسے گھوڑے پر سوار ہو، جو اسے سواری نہ دینا چاہتا ہو، اور سوار اور سواری میں مسلسل کش مکش جاری رہے۔ اس حالت میں کسی نظریے کے مطابق بھی ہماری زندگی کے کسی مسئلے کا حل نہ ہو سکے گا، نہ اسلامی نظریے کے مطابق اور نہ غیر اسلامی نظریے کے مطابق۔ جو کچھ حکمران بنانا چاہیں گے قوم کا عدم تعاون اس کو نہ چلنے دے گا۔ جو کچھ قوم بنانا چاہے گی حکمرانوں کی جبری اور بعض حالات میں مسلح مزاحمت اس کو نہ چلنے دے گی۔ اس کش مکش کو کسی کا جی چاہے تو جب تک چاہے طول دیتا رہے۔ آخر کار پاکستان کی تعمیر کے لیے اگر کوئی کام ہو سکے گا تو اسی وقت ہو سکے گا، جب کہ قوم اور اس کے حکمرانوں کا مقصد اور مسلک ایک ہو، اور وہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہو سکتا ہے۔

ایک اعتراض : اس تجزیے پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام نے مسلمانوں کو ایک نظام تمدن دیا ہے اور اس کی روایات ہماری قوم میں بڑی مضبوط ہیں تو پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہو گا کہ پاکستان کے مختلف عناصر کی معاشرت اور ان کا مفاد ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متصادم ہے؟

اس کے جواب میں مَیں کہوں گا کہ جہاں تک تمدن و معاشرت کے مختلف ہونے کا تعلق ہے اس کی وجہ تو بہ آسانی سمجھ میں آ سکتی ہے، اگر ہم اس ملک میں مسلمانوں کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس ملک میں اسلام کو پوری طرح کام کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا کہ وہ یہاں کے مسلمانوں کو مکمل طور پر ایک تہذیب و تمدن میں رنگ دیتا۔ اسلام کے ساتھ ساتھ دوسری تمدنی قوتیں بھی یہاں کار فرما رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم برعظیم ہندو پاکستان کے مسلمانوں کی زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں صاف یہ نظر آتا ہے کہ ان کے اندر وحدت کے جتنے عناصر ہیں وہ تو سارے اسلام نے فراہم کیے ہیں، مثلاً: عقائد، اذان، نماز، روزہ، جمعہ اور عیدین، حج، ختنہ، نکاح و طلاق و وراثت کے قوانین، لباس میں ستر کے حدود، کھانے پینے میں حرام و حلال کے قیود، معاشرت میں پردہ، وغیرہ۔

اس کے برعکس ان کی زندگی میں اختلاف اور پچ رنگی کے جتنے عناصر ہیں، وہ سارے کے سارے دوسری تمدنی قوتوں کے فراہم کردہ ہیں۔ اب اگر یہاں اسلام کو کام کرنے کا پورا موقع ملے اور نظامِ تعلیم و تربیت میں، قوانین میں، حکومت کی پالیسی میں اور دوسرے معاملات میں وہ پوری طرح یہاں کارفرما ہو تو وحدت پیدا کرنے والی طاقت زور پکڑتی جائے گی اور اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں کمزور ہوتی جائیں گی۔ لیکن اگر اس کے برعکس وحدت کا یہ واحد رشتہ تعلیم و تمدن، قانون اور دوسرے مؤثر ادارات سے بے دخل رہے تو لا محالہ اختلاف پیدا کرنے والی طاقتیں زور پکڑتی جائیں گی اور ہماری آبادی کے مختلف عناصر کو بکھیر کر رکھ دیں گی۔

رہا معاشی مفاد کا مسئلہ ،تو وہ قدرتی اسباب سے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان تصادم پیدا کرتا ہے۔ اگر اسلام کی رہنمائی میں ہم اپنے معاشی مسائل کو منصفانہ طریقے پر حل کر لیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کے اندر اعتقادی اور اخلاقی وحدت کو بھی بڑھائیں تو یہ تصادم روز بر وز خفیف ہوتا جائے گا اور کبھی نازک صورت اختیار نہ کرنے پائے گا۔ لیکن بصورت دیگر  اس کو کوئی طاقت روز بروز بڑھنے اور پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم دست و گریبان کر دینے سے نہ روک سکے گی۔

ایک ضمنی سوال: اس سلسلے میں ضمناً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگراسلامی نظریے کی یہی اہمیت ہے تو آخر دوسرے مسلم ممالک اس کو چھوڑ کر دیگر نظریات کیوں اختیار کر رہے ہیں؟

اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں پر وہی ایک بلا مسلط ہے جو ہمارے اس ملک پر مسلط رہی ہے، یعنی کارفرمائی کی طاقتیں ہر جگہ ان لوگوں کے ہاتھوں میںہیں، جنھوں نے نہ کوئی اسلامی تعلیم و تربیت پائی ہے اور نہ اسلامی ذہنیت ان میں موجود ہے۔ قوم ہر جگہ مسلمان ہے، اسلامی جذبات رکھتی ہے اور اسلامی روایات اس میں گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ لیکن سیاسی اور معاشی طاقت ہر جگہ ایک ایسی مختصر سی اقلیت کے ہاتھ میں ہے، جس نے یا تو براہِ راست مغربی استعمار کی گود میں پرورش پائی ہے یا مغربی استعمار سے چوٹ کھا کر اس کے آگے پوری طرح سپر ڈال دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ [مسلم] قوم اور ان استعمار زادوں کے درمیان کش مکش برپا ہے، اور ہر جگہ مغربی نظام زندگی کا اجنبی پودا بالکل ایک دوسری سر زمین اور مخالف آب و ہوا میں لا کر زبردستی لگایا اور پروان چڑھایا جا رہا ہے۔

۲  ایک مزاحم طاقت کا تو میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ تین مزاحم طاقتیں اور قابلِ ذکر ہیں:

ایک، عام مسلمانوں کی جہالت اور اسلامی تربیت سے محرومی۔ ہم جب کبھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں اور اسی طرح پاکستان میں بھی مسلمان من حیث القوم اسلام کے دلدادہ ہیں، تو اس سے ہماری مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ ان کے جذبات و احساسات اسلامی ہیں، اور روایات کا گہرا اثر ان کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ بالکل ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ان عام مسلمانوں کی عظیم اکثریت جس اسلام کی دلدادہ ہے، اس سے نہ تو یہ اچھی طرح واقف ہے اور نہ اس کے اصولوں کے مطابق اس کو اخلاقی تربیت ملی ہے۔ یہ ہماری بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ مغربی استعمار کی آمد سے کئی صدیاں پہلے سے مسلمانوں کی حکومتیں اپنے بنیادی فرائض سے غافل رہیں، اور انھوں نے مسلم عوام کو اسلامی تعلیم و تربیت دینے کا فرض پوری طرح انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد جب مغربی استعمار مختلف اسلامی ملکوں میں اور خود ہمارے ملک میں آیا تو اس نے ہمارے عقائد، اخلاق اور تہذیب و تمدن کی جڑیں ہلاڈالیں، اور ہم پر ایک ایسا نظام تعلیم اور نظام سیاست و معیشت اور نظام قانون و تمدن مسلط کیا جو ہمارے فلسفۂ حیات اور نظامِ زندگی سے پوری طرح متصادم تھا۔

ان ساری چیزوں کے اثرات مسلمان قوموں میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور اپنے ملک میں بھی ہم ان سے بری طرح متاثر ہیں۔ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہو جائے تو عوام کے جذبات و احساسات ان شاء اللہ اس کا ساتھ دیں گے۔ لیکن ہمیں یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ قوم کی جہالت و جاہلیت اس کے قائم ہونے اور چلنے میںمزاحم نہ ہو گی۔ لا محالہ، اسلام کے لیے کام کرنے والوں کوکافی مدت تک جان مار کر محنت کرنا ہو گی، تاکہ قوم کی بگڑی ہوئی عادات و خصائل کو درست کر کے اس نظام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، جسے وہ جذباتی طور پر دل سے پسند کرتی ہے۔ اس معاملے میں اصلاح کرنے والوں کوبڑی حکمت کے ساتھ ایک تدریجی پروگرام اختیار کرنا ہو گا۔ اگر حکمت اور تدریج کو وہ ملحوظ نہ رکھیں اور کسی وقت بھی اصلاح کی پوری خوراک [dose] بیک وقت دے ڈالنے کی کوشش کریں تو سارا کام بگاڑ کر رکھ دیں گے۔

دوسری مزاحم قوت ہمارے مذہبی طبقوں کا جمود ہے۔ ان لوگوں کو پوری طرح اس بات کا احساس و ادراک نہیں ہے کہ اسلام میں درحقیقت ثبات اور حرکت کے درمیان کس طرح توازن قائم کیا گیا ہے۔ کتاب و سنت کی رُو سے مستقل طور پر ثابت و قائم کیا چیزیں رہنی چاہییں اور حرکت کن پہلوؤں اور کن امور میں ہونی چاہیے، جس سے ہم زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ آگے چل سکیں۔ ان کے نزدیک کلیات و اصول اور منصوص احکام سے لے کر استنباطی جزئیات و فروع تک ہر چیز اٹل ہے۔ اس جمود کی وجہ سے بھی بہت سی رکاوٹیں اب تک پیش آئی ہیں اور آگے بھی پیش آنے کا خطرہ ہے۔ اگر اصلاح کے لیے کام کرنے والے لوگ وہ ہوں جو قرآن و سنت اور فقہ اور اسلامی تاریخ پر اچھی نظر رکھتے ہوں، فرقہ بندی کے تعصبات میں مبتلا نہ ہوں اور اپنے مزاج میں حکیمانہ اعتدال اور صبر و تحمل بھی رکھتے ہوں تو یہ مزاحمت تھوڑی یا بہت مشکلات کے باوجود رفع ہو سکتی ہے۔ ورنہ کم علم اور غیر معتدل لوگوں کے ہاتھوں یہ کام ہونے کی صورت میں سخت اندیشہ ہے کہ ہم اصلاح کرنے کے بجائے ملک میں مذہبی جھگڑے برپا کر دیں گے۔

تیسری مزاحم طاقت ملک کے اندر نہیں بلکہ باہر ہے۔ ہمارے مغربی دوست، جن کے ساتھ ہم بہت سے مالی و معاشی و سیاسی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور جنھیں ہمارے آزاد ہو جانے کے باوجود ہماری قسمت پر اثر ڈالنے کے بہت سے مواقع حاصل ہیں۔ وہ خود چاہے کتنے ہی عیسائی ہوں اور عیسائیت پر فخر کریں اور کمیونزم کے مقابلے میں مذہب کے علَم بردار بنیں، مگر مسلمان قوموں کو وہ مسلمان نہیں دیکھنا چاہتے۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ اب تک کمیونزم کے مقابلے میں اسلام کو زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ تو ضرور ہے کہ مسلمان قومیں مذہب کی بنیاد پر کمیونزم کی مخالف ہوں اور اس کے مقابلے میں ان کا ساتھ دیں۔ لیکن جب کبھی کسی ملک کو وہ اسلام کی طرف پلٹتے دیکھتے ہیں اور انھیں خطرہ ہوتا ہے کہ اب یہاں اسلام کا بول بالا ہونے والا ہے تو اپنی تمام جمہوریت نوازی کو چھوڑ کر اور اپنے تمام اصول، آئین و قانون کو نظر انداز کر کے وہ اس قوم کے اندر غیر آئینی انقلاب کی ہمت افزائی کرنے پر اُتر آتے ہیں، جمہوریت کے مقابلے میں ڈکٹیٹرشپ کی حمایت کرنے لگتے ہیںاور انتہائی وحشیانہ ظلم و ستم جو دینی رہنماؤں اور دینی کارکنوں پر کیا جائے، اس پرنعرہ ہائے تحسین و آفریں بلند کرتے ہیں۔ یہ تماشاہم کئی برس سے مسلسل دیکھ رہے ہیں، اور ہمیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ مسلم ممالک کے اندر اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے راستے میں صرف اندرونی طاقتیں ہی مزاحم نہیں ہیں، بلکہ ان کی پشت پر یہ بیرونی طاقتیں بھی ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ہماری جنگ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں آزادی کے لیے ابھی مزید لڑائی لڑنی ہے۔

پھر بد قسمتی سے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بین الاقوامی طاقت، یعنی امریکا پر ایک شیطان کا سایہ بھی ہے اور اس شیطان کا نام ہے ’’یہود‘‘۔ بین الاقوامی سازشیوں کے اس خطرناک گروہ کے ہاتھ میں بہت بڑی معاشی طاقت بھی ہے اور پریس کی طاقت بھی۔ خصوصیت کے ساتھ امریکا کی خارجہ سیاست پر اس کو جو تسلط حاصل ہے، اس نے تمام امریکیوں کو ان کی خواہش اور ارادے کے بغیر نہ صرف عربوں سے بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں سے زبردستی بھڑا دیا ہے۔ یہ یہودی حقیقت میں امریکا کے لیے انگریزی محاورہ کے مطابق evil genius ،نفس امّارہ بنے ہوئے ہیں۔ جس مسلمان قوم کے اندر مذہبی احیا کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں، یہ اس کے متعلق فوراً دنیا میں خطرے کی گھنٹی بجانے لگتے ہیں اور اس کی خبریں دنیا کو اس طرح سناتے ہیں جیسے دنیا میں کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔ اگر کسی مسلمان قوم میں الحاد اور بے دینی کا زور ہو رہا ہو تو یہ اس پر بغلیں بجاتے ہیں اور دنیا بھر کو خبر کر دیتے ہیں کہ وہ قوم بڑی ’ترقی‘ کر رہی ہے، بہت progressive  [ترقی پسند] ہو گئی ہے۔ اگر کہیں کسی دینی تحریک کو کچلا جا رہا ہو، مقدمے چلائے بغیر لوگوں کو قید کیا جا رہا ہو، فوجی عدالتوں میں بالکل مضحکہ خیز طریقوں پر مقدمات چلا کر لوگوں کو پھانسیوں کی سزائیں دی جا رہی ہوں، تو یہ اس کی خبریں دنیا کو اس انداز سے دیتے ہیں گویا کوئی بہت بڑا نیک کام کیا جارہا ہے، اور کوئی شرم ان کو ایسے افعال کی تحسین کرتے وقت لا حق نہیں ہوتی۔

اگر کسی مسلمان ملک میں جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر اور آئین و قانون کی مٹی پلید کرکے کوئی ڈکٹیٹرشپ قائم کر دی جائے تو یہ اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اور دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ مسلمان قومیںجمہوریت کے قابل ہی نہیں ہیں، ان کے لیے توڈکٹیٹرشپ ہی موزوں ہے۔ امریکا کے عام باشندے ذرا محسوس نہیں کرتے کہ اس طرح اپنی اغراض کے لیے یہودی سرمایہ دار اور یہودی پریس ان کو گواہ کر کے ایک خطرناک بین الاقوامی اُلجھن میں مبتلا کر رہا ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کو اس سے کیا بحث کہ پس پردہ کون تار ہلا رہا ہے۔ وہ تو دیکھتے ہیں کہ عملاً یہی اس وقت امریکا کی پالیسی ہے اور یہودیوں کے زیر اثر اس کی سیاسی طاقت اسی پالیسی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے امریکا کی وہ تمام مالی اور فنی امداد جو وہ مسلمان ملکوں کو دیتا ہے بجائے کوئی good will  [اچھا تاثر] پیدا کرنے کے الٹا اثر مرتب کر رہی ہے۔

 اس کی وجہ سے، مسلمان اس کے باوجود کہ کمیونزم کے مقابلے میں ان کا مفاد مغربی طاقتوں سے متحد ہے، اپنے اندر ان کی حمایت کے لیے کوئی جذبہ نہیں پاتے، بلکہ ان کے دلوں میں کمیونسٹ بلاک سے کچھ کم نفرت مغربی بلاک کے لیے نہیں ہے۔ مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ ہم آخر کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں مغربی بلاک کا ساتھ کیوں دیں؟ اگر ہماری عزیز اور محبوب قدریں دونوں کے ہاتھوں سے یکساں طور پر پامال ہوتی ہیں تو ہمارے عمل میں ایک کے مقابلے میں دوسرے کے لیے ہمدردی پیدا ہونے کی کیا معقول وجہ ہے! ایک قوم کے خواص تو اپنے مخصوص مفادات کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن ایک قوم کے عوام میں لڑنے کا جذبہ صرف اسی حالت میں ابھرتا ہے،جب کہ وہ اپنی عزیز و محبوب چیزوں کو خطرے میں دیکھتے ہیں، تو ان کو بچانے کے لیے اٹھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ مسلمان عوام بہرحال مغربی بلاک کے لیے کرائے کے سپاہی [mercenaries] نہیں بن سکتے کہ محض مالی امداد لے کر وہ ان کی خاطر کمیونسٹ بلاک سے لڑیں۔ وہ اگر سچے جذبے کے ساتھ لڑ سکتے ہیں تو صرف دینی تہذیب، اپنے تمدن اور اپنے عقائد و نظریات کو بچانے کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ لیکن اگر اسی چیز کو مغربی طاقتیں اپنی مداخلت یا ریشہ دوانیوں سے مسلمان ممالک میں پا مال کرا دیں، تو پھر انھیں مسلمان قوموں سے کسی تائید کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ نوری السعید [م: ۱۹۵۸ء] اور چیانگ کائی شیک[م:۱۹۷۵ء] کی قسم کے لوگ مختلف مسلمان ملکوں میں کھڑے کر کے وہ کچھ دنوں ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔

بہرحال یہ تیسری مزاحمت مسلمان ممالک میں اسلام کا احیا چاہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا دردِ سر بنی ہوئی ہے، اور جس کو بھی اس مقصد کے لیے ان ملکوں میں کام کرنا ہو وہ اس کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنے حساب میں رکھ کر ہی اسے اپنا پروگرام بنانا ہوگا۔

۳ قریب بھی آیا ہے اور دُور بھی ہٹا ہے۔

 قریب اس لحاظ سے آیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک اسلامی نظام کے حق میں مسلسل اتنا کام، اتنے وسیع پیمانے پر ہوا ہے کہ نہ اس سے پہلے اس ملک میں کبھی ہوا تھا اور نہ کسی دوسرے مسلمان ملک میں اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے۔ ا س کام کی وجہ سے ایک طرف علمی حیثیت سے اسلامی نظام کے تمام گوشے اچھی طرح روشنی میں آ گئے ہیں، اور اب ساون کے چند اندھوں کو چھوڑ کر اس ملک کے ایمان دار اہل علم و اصحابِ فکر میں کوئی ایسا نہیں رہا ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ ’اسلامی نظام‘ کوئی مبہم سا تخیل ہے جس کا نقشہ ہمارے سامنے واضح نہیں ہے۔ دوسری طرف عوام کے اندر اس مسئلے پر اتنی بیداری پیدا ہو چکی ہے او را س کے حق میں ایسی مضبوط رائے عام تیار ہوگئی ہے کہ اب کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ وہ کھل کر اس ملک میں لا دینی نظام لانے کا ارادہ ظاہر کرسکے۔

اس کے علاوہ دو چیزیں اور بھی ہیں، جنھوں نے اسلامی نظریے کے لیے یہاں راہ ہموار کرنے میں بہت بڑا حصہ لیا ہے: ایک یہ کہ بے شمار مذہبی اختلافات کے باوجود تمام اہلِ دین شروع سے اب تک اسلامی نظام کے مطالبے اور اس کی اصولی صورت کے بارے میں پوری طرح متفق رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ لا دینی کے حامی مغربیت زدہ طبقے کے ہر عنصر کو پچھلے [تمام عرصے کے دوران] میں یہاں اپنا امتحان دینے کا پورا موقع مل چکا ہے اور انھوں نے اپنا ایسا برا حساب ساری قوم کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان کی کوئی اخلاقی ساکھ اب باقی نہیں رہی ہے۔ حقیقتاً قوم اب ان سے پوری طرح مایوس ہو چکی ہے اور ان کے اندر اب کوئی عنصر ایسا نہیں رہ گیا ہے جس کو آزمایش کا موقع دینے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہو۔

دُور اس لحاظ سے ہوا ہے کہ [ان برسوں] میں بر سر اقتدار مغرب پرست طبقے کی مختلف تدبیروں سے اور اس کے بیرونی حامیوں کی مالی امداد اور ’’قومی ترقی‘‘ کے پروگراموں سے قوم کے اخلاق میں اتنا بگاڑ رونما ہو چکا ہے، جتنا آزادی سے پہلے غلامی کی پوری ڈیڑھ صدی میں بھی نہیں ہو سکا تھا۔ تعلیم و تربیت کا ناقص نظام نئی نسل کا ستیا ناس کر چکا ہے اور کرتا چلا جا رہا ہے۔ ’ثقافت‘ کے نئے رنگ ڈھنگ اور اس کے ساتھ ریڈیو، سینما [ ٹیلی ویژن] اور فحش لٹریچر، اونچے طبقوں سے لے کر دیہاتی عوام تک کو رنگیلا اور عیاش اور جرائم پیشہ بنانے میں شب و روز سرگرم ہیں، اور ان کی بدولت اخلاقی پستی کا زہر قوم کی رگ رگ میں اتر گیا ہے۔

اُونچے طبقوں کی بد ترین مثالوں سے متاثر ہو کر عورتوں میں بے پردگی بڑھ رہی ہے۔ مرد و زن کے اختلاط میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے حیائی کے مظاہروں کا ایک سیلاب امڈا چلا آ رہا ہے، اور ان سب اسباب کے ساتھ مل جل کر ’ضبط ولادت‘ کی تحریک وہ خطرناک ’خدمت‘ا نجام دے رہی ہے، جو ہماری آبادی میں زنا اور اس کے قدرتی نتائج کو نقطۂ عروج پر پہنچا دے گی اور ہمارے عائلی نظام کی جڑیں ہلا ڈالے گی۔

پھر ہمارے سرکاری افسروں اور ملازموں میں، تاجروں اور صنعت کاروں میں اور دوسرے طبقات میں حرام خوری، خیانت، فرض ناشناسی اور آئین و قانون کی بے احترامی ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے، جسے روکنے کی ہر تدبیر، مرض میں مزید اضافے ہی کی موجب ثابت ہوئی ہے۔ یہ حالات، ظاہر ہے کہ اسلامی نظریے کے مطابق اصلاح کو روز بروز مشکل سے مشکل تر کرتے چلے جا رہے ہیں۔

۴  سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ تو اس ملک میں جمہوریت کی بحالی ہے۔ اس لیے کہ اگر اس ملک کی حیثیت اس گھوڑے کی ہی ہو جس کے منہ میں لگام ڈال کر ہر طاقت ور شخص اس پر زبردستی سوار ہو جائے اور اسے اپنے راستے پر چلانا شروع کر دے، تو ایسی حالت میں گھوڑے غریب کے لیے یہ سوچنا ہی لا حاصل ہے کہ وہ کدھر جانا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کے راستے پر جانے کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے___ ہمیں سب سے پہلے اس حالت کو بدلنا چاہیے۔

 ہم کو یہاں ایک آزادانہ جمہوری ماحول درکار ہے جس میں اظہار خیال، اجتماع، تنظیم اور سعی و جہد کی آزادی ہو، جس میں ہر شخص اپنے خیالات کے مطابق رائے عام کو ہموار کرنے کی کوشش کر سکے۔ جس میں رائے عام کا کسی نظریے کے حق میں ہموار ہو جانا ہی اُس نظریے کے مطابق قیادت میں تبدیلی ہو جانے کے لیے کافی ہو، اور جس میں قیادت کی تبدیلی کے لیے ایک پُرامن آئینی راستہ موجود ہو۔ ایسے ماحول میں تو یہ ممکن ہے کہ میں اپنے نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ اقدامات سوچ سکوں، انھیں بیان کر سکوں، لوگ ان کے صحیح یا غلط ہونے کے متعلق کوئی رائے قائم کر سکیں، اور جن کے نزدیک وہ صحیح ہوں وہ میرے ساتھ مل کر عملاً ان اقدامات کے لیے کوشش کر سکیں۔ لیکن اگر یہ ماحول موجود نہ ہو تو میرا اور آپ کا کسی قسم کے اقدامات کو سوچنا بے کار ہے۔ پھر تو سوچنا صرف ان لوگوں کا کام ہے جو گھوڑے پر سوار ہونے کی طاقت رکھتے ہوں۔

یہ لازمی اور ابتدائی شرط پوری ہونے کے بعد جو اقدامات اس نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے درکار ہیں، وہ تین بڑے بڑے شعبوں پر مشتمل ہونے چاہییں، یا دوسرے الفاظ میں اس مقصد کے لیے بیک وقت تین سمتوں میں متوازن طریقے سے کوشش کی جانی چاہیے:

  • ایک، تبلیغ و تعلیم او رتعمیر فکر___ اس سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کی آبادی کو وسیع اور عمیق پیمانے پر اسلام کے عقائد، اصول، احکام اور اخلاقی و عملی تقاضوں سے آگاہ کریں۔ غیر اسلامی نظریات و افکار اور نظام زندگی کے جو اثرات ان کے ذہن میں تھوڑے یا بہت اتر گئے ہیں ان کو صاف کریں۔ مختلف ذہنی طبقات کو ان کی استعداد کے مطابق یہ سمجھائیں کہ اسلام کے مطابق ہماری زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل کس طرح ہونی چاہیے اور مختلف مسائل حیات کو کیسے حل کرنا چاہیے۔
  • دوسرے، اصلاح اخلاق ___ یعنی لوگوں کی عملی زندگی کو اسلام کے تقاضوں کے مطابق درست کرنا اور ان غیر اسلامی اثرات کو عملاً ان کی زندگی سے خارج کرنا جو جہالت و جاہلیت کی وجہ سے یا قدیم غیر اسلامی تقالید کے باعث یا مغربی تہذیب و تمدن کی بدولت ان کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔
  • تیسرے، نظام حکومت کی اصلاح___ تاکہ حکومت کے ذرائع و وسائل اور اس کے قوانین اور اس کے انتظامی اختیارات اسلام کے مطابق ہماری زندگی کی تعمیر نو میں استعمال ہو سکیں، اور بالآخر ہم دنیا میں اس مشن کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں جو ایک امت مسلمہ ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔
  • ان تینوں شعبوں میں جس نوعیت کا کام درکار ہے، اس پر غور کرنے سے خود بخود آپ ایک چوتھی چیز کی ضرورت بھی محسوس کر لیں گے جس کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا، اور وہ یہ ہے کہ ایک گروہ ہمارے اندر ایسا ہو جو اس کام کو انجام دینے کے لیے مخلص، صحیح الفکر اور صالح العمل کارکنوں پر مشتمل ہو۔ وہ منظم طریقے سے اس مقصد کے لیے سعی و جہد کرے، وہ خود اپنے کارکنوں کی اصلاح و تربیت کی طرف بھی متوجہ رہے اور کام کی وسعت کے ساتھ ساتھ مزید کار کن بھی پیدا کرتا رہے۔

سوال کا آخری حصہ بڑی تفصیلی بحث چاہتا ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مختصر طور پر بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری قومی زندگی پر اس نظریے کے یہ اثرات مرتب ہونے چاہییں کہ ہم ’من حیث القوم‘ دنیا میں دین حق کے سچے نمائندے بن کر کھڑے ہو سکیں۔ آج تو یہ ہمارا محض دعویٰ ہی ہے کہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں، ورنہ عملاً ہم اپنی زندگی کے ہر شعبے میں وہی سب کچھ کررہے ہیں جو کوئی غیر مسلم قوم کرتی ہے، بلکہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے لوگ ہمیں بالکل اپنے ہی جیسا پائیں اور ہم کو اپنی نقل مطابق اصل دیکھ کر داد دیں۔ لیکن اسلامی نظام زندگی کو شعوری طور پر اختیار کرنے کا نتیجہ لازماً یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے اخلاق اور معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں، ادب اور فنون میں، معیشت اور مالی معاملات میں، قانون اور عدالت میں، سیاست اور بین الاقوامی رو یے میں، غرض ہماری ہر چیز میں اسلام کا اثر اتنا نمایاں ہو کہ کتابوں کو پڑھنے کے بجائے صرف ہمیں دیکھ کر ہی دنیا یہ جان لے کہ اسلام کیا ہے اور وہ انسان کو کیا کچھ بنانا چاہتا ہے۔


ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی

۱ میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے بغیر پاکستان ہرگز قائم نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ پاکستان کی وحدت کا [واحد] سبب صرف اسلام ہے، بلکہ اس وحدت میں اور عناصر بھی شامل ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت اسلام کو حاصل ہے۔ اگر اسلام نہ ہو تو پاکستان کے شیرازے کو جمع رکھنا بہت دشوار ہو جائے گا۔

۲ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم قوت جو اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے میں مزاحمت کر رہی ہے، اور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام میں کارفرما ہے وہ ایک ہی ہے، خواہ پاکستان ہو، عرب ممالک ہوں یا کوئی اور ملک، اصل مزاحم قوت مغربیت کا غلط   تصور ہے۔ مغربی ممالک کی وہ خوبیاں جو اُن کی ترقی میں معاون ہیں، اسلام کی مزاحم نہیں ہیں۔ لیکن مغربی اثرات کی وجہ سے بعض غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں اور ہم نے ان غلط نظریات کو بھی تقلیداً بغیر کسی قسم کے غور و فکر کے اختیار کر لیا ہے ۔ہم میں ذہنی خود اعتمادی نہیں ہے، ایمان کی وہ قوت نہیں ہے جو ہمیں اچھے بُرے اور کھرے کھوٹے کو پرکھنے کے قابل بنائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے دین کی اقدار اور اُن کے تقاضوں سے واقف ہوں اور انھیں مقدم رکھیں، مؤخر نہ کر دیں۔

اس کے برعکس ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو بھی دوسروں کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ وہ کسوٹی سچی بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہماری ذہنیت ٹھیک ہو جائے اور یہ ایک ذہنی انقلاب ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر میرے خیال میں کوئی قوت ایسی نہیں جو ہمارے صحیح اسلامی رجحانات کو روک سکے اور اسلام کی طرف پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو سکے۔ میرے ان الفاظ کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم روشن خیالی یا ترقی کے تصورات سے دور ہو جائیں ، لیکن بے سوچے سمجھے مغرب کی ہر معاملے میں تقلید کا نام ترقی یا روشن خیالی نہیں ہے۔ خصوصاً،جب کہ مغرب خود بعض غلط نظریوں اور عقیدوں کے مضر اثرات کے پنجے میں گرفتار ہے۔

۳ اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے اورجو رائے بھی ظاہر کی جائے وہ ایک تعصب سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ بغیر کسی عملی جائزے اور سائنسی مطالعے کے، کسی عمرانی مسئلے کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جائے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں یقینا پاکستان اسلامی نظریے کے قریب آیا ہے اور بعض ایسی بھی ہیں جن میں پاکستان اسلامی نظریے سے دور ہوا ہے۔ لیکن ایک چیز ضرور ایسی ہے جس سے مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے کالجوں اور اسکولوں کے طالب علموں میں اسلام کی طرف سے ایک بد ذوقی پیدا ہو رہی ہے۔ اس رجحان کی وسعت کا صحیح اندازہ تو نہیں لگا سکتا، تاہم میرا اندازہ صرف اس چیز پر قائم ہے کہ جن نوجوانوں سے میری ملاقات ہوتی ہے، ان سے گفتگو کے دوران مجھے یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ اپنے دین کی طرف سے بد عقیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اصلاح اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کو دخل نہ ہو۔

اس بحرانی کیفیت کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کہیں بھی صحیح طریقے پر نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور ان کی تعلیم بڑی ناقص ہے۔ اسلام کی تعلیم محض دینیات کی چند کتابیں پڑھا دینے سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ دینیات تو ایک ایسی چیز ہے کہ اگر انسان میں صحیح ذوق ہو تو اس کی تعلیم وہ خود بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ طالب علموں میں صحیح دینی ذوق پیدا کریں اور ان میں ٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور اسلامی رجحانات کو ترقی دیں۔فرائض کی تعلیم کاانتظام ضرورہوناچاہیے، لیکن محض اسی پرقناعت کرلیناہرگز درست نہیں۔ یہ تو اور بھی مناسب نہیں ہے کہ صرف فرائض کی شدبد کو دینی تعلیم کا اہم ترین جزو تصور کر لیا جائے۔ زیادہ اہم چیز تو یہ ہے کہ طلبہ میںجوش ایمانی پیدا کیا جائے، ان کے اسلامی رجحانات کو مضبوط بنایا جائے اور اسلام کی خدمت اور تقاضوں کو پورا کرنے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کیا جائے۔ اس قسم کی تعلیم ہماری ذہنیتوں کو بدل دے گی اور من حیث القوم ہم اسلام کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے لگیں گے۔

۴کچھ عرصہ پیش تر مجھے ڈیوک یونی ورسٹی [درہام، شمالی کیرولینا، امریکا] نے ایک مذاکرے کے لیے بلایا تھا، جہاں پر مَیں نے ایک مقالہ اسی عنوان سے پیش کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا: پاکستان میں آئین ناکام نہیں رہا ہے بلکہ آئین کو چلانے والے ناکام رہے ہیں، ہماری ناکام حکومتیں کردار کی خامی کے سبب سے صحیح نہ چل سکیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کمی کردار کی تھی، اگر کردار درست ہوتا اور آئین ناقص بھی ہوتا تو ہم کردار کے زور پر اسے کامیاب بنا سکتے تھے۔ لیکن اگر آئین اچھا بھی ہو اور کردار ناقص ہو تو آئین کبھی نہیں چل سکتا، اس لیے کہ ہرآئین اور ہر حکومت کو چلانے والے بہرحال انسان ہوتے ہیں، اگر یہ انسان ایمان داری سے کام لیں اور صحیح طریقے پر کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو نہ پا لیں۔

اگر ان میں ایمان داری کا، حب اسلام اور حب وطن کا سچا جذبہ نہ ہو، اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کریں تو پھر اچھے سے اچھا آئین بھی ناکام ہو کر رہ جائے گا اور ان کی کوئی مدد اور رہنمائی نہ کر سکے گا۔ آخر یہ کردار ہی تو ہے کہ ایک شخص مسجد میں جا کر نماز پڑھتا ہے اور اسی مسجد میں قدم رکھنے والا دوسرا فرد جوتیاں چراتا ہے۔ اب اس میں مسجد بے چاری کا کیا قصور؟ اگر کوئی شخص وہاں جا کر جوتیاں ہی چراتا ہے تو یہ کردار کی خرابی ہے، مسجد کی نہیں، مسجد کا اگر کچھ اثر ہے تو وہ نماز کی ترغیب دینے کی طرف ہے کسی اور سمت نہیں!

اس سوال کے آخری حصے کے سلسلے میں میری گزارش یہ ہے کہ سب سے بنیادی چیز کردار ہے۔ کردار کے بغیر دنیا میں کوئی چیز کامیاب نہیں ہو سکتی۔ آپ غور کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ اگر لوگوں میں اسلام ہوتا اور ان کے دل میں ایمان کا جذبہ ہوتا اور اگر وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے، تو یہ نا ممکن تھا کہ وہ تمام خرابیاں پیدا ہوتیں جو نہ صرف ہماری سیاست بلکہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ ہماری حکومت اصل میں ہماری قوم کے کردار کا آئینہ بھی تھی۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں خود غرضی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہم اپنی چھوٹی سے چھوٹی غرض کو پورا کرنے کے لیے بڑے سے بڑے اصول کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ بالکل ظاہر ہے کہ اگر ہمارے ہاں پچھلی حکومتیں ناکام رہیں تو وہ اسلام کی وجہ سے یا اسلامی اصولوں کی وجہ سے ناکام نہیں رہیں، بلکہ اس وجہ سے ناکام رہیں کہ انھوں نے اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ رشوت لو، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ رشوت نہ لو۔ اسلام یہ بتاتا ہے کہ انسان پر سب سے بڑا فریضہ جو عائد ہوتا ہے وہ حقوق العباد ہیں، مگر ہم نے حقوق العباد کو پس پشت ڈالا اور کسی مظلوم غریب کا کام ہم نے بغیر رشوت کے نہیں کیا۔ ہم نے فرائض کو فرائض نہ سمجھا۔ ہمارے دل سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس ہی ختم ہوتا چلا گیا۔  جس قوم کے دل سے اللہ کا خوف چلا جائے اور جس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اس نے تو صرف اسی دنیا کو بنانا ہے___ دنیا بھی ایسی نہیں بنانی جس سے ساری قوم کو یا ملک کو فائدہ پہنچے بلکہ مقصود محض ذاتی منفعت ہو ، ایسی قوم لازماً اپنے آپ کو تباہ کرلیتی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی خود غرضیوں ہی کو اصول اور ایمان سمجھتے ہیں، وہ اپنے آپ کو بھی یقینا تباہ کر لیتے ہیں اور اپنی قوم کو بھی۔ پھر اس سے بڑی کوئی غلط فہمی نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ قوم تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے اور وہ تو خوش حال رہے گا۔ ایسے خود غرض افراد، ملت کی قبر کھودتے ہیں اور اسلام کو ضعیف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، وہ اسلامی اصول سے بالکل قطع تعلق کر لینے کی وجہ سے، محض اسلام کا نام زبان سے لینے اور اسے عمل کی دنیا میں کسی طرح داخل نہ ہونے دینے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اسلامی نظریے کو بروئے کار لانے کے لیے کون سا طریقہ اور کون سے اقدامات ضروری ہیں، تو انھیں مختصراً بیان کر دیتا ہوں:

ہمیں سب سے بڑی ضرورت عمل کی ہے۔ ہر شعبے میں اور ہر دائرہ زندگی میںمحض زبانی جمع خرچ سے لوگوں پر اثر نہیں ہوتا۔ جب تک کہ وہ اچھا عمل نہ د یکھیں، وہ کسی چیز پر حقیقی اعتماد نہیں کرتے۔ بہترین عمل کی مثال پیش کیے بغیر عوام میں حرکت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ آپ دیکھیے کہ اگر عمل کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ، قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں بھیج دیتا اور اس کتاب ہدایت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوۂ حسنہ بنا کر نہ بھیجتا۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہی تھا کہ جس نے لوگوں کو قرآن کی تعلیم کا گرویدہ کیا۔ اپنے متن اور الفاظ میں قرآن کریم اب بھی وہی ہے، لیکن ہمارے دلوں میں وہ اس وجہ سے گھر نہیں کرتا کہ ہم میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہوں، اور جو اچھا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے رہنما، ہمارے تاجر، ہمارے اساتذہ، ہمارے والدین ___ اور وہ تمام افراد جو کسی نہ کسی دائرے میں زندگی کی رہنمائی کر رہے ہیں، اسلامی کردار کا بہترین نمونہ پیش کریں اور اپنے عمل سے قوم کی رہنمائی کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کے کردار میں ایک انقلاب پیدا کیا جائے، اور اس انقلاب کو پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ اسلام کو محض ایک عقیدے کے طور پر پیش نہ کیا جائے، بلکہ اس پر زور دیا جائے کہ اسلام ایک طریقۂ زندگی ہے جس کے بغیر فلاح ممکن نہیں ہے۔

ہم نے دیکھ لیا ہے کہ ہم نے اس دوران میں اسلامی کردار کو چھوڑا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم بالکل تباہی کے کنارے پر پہنچ گئے اور اگر اب ہمیں اس تباہی کے کنارے سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے کردار کو درست کرنا پڑے گا، اور اس کے لیے استاد کو، والدین کو اور ہر شخص کو کمر بستہ ہونا پڑے گا۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھول گئے ہیں، کاش! ہمیں وہ آج یاد آئے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:

تم سب راعی (یعنی حاکم، صاحب امر اور منتظم) ہو اور ہر ایک سے اس کی رعیت (یعنی وہ چیز جس پر تم کو اختیار دیا گیا ہے) کی بابت باز پرس ہو گی۔ حکمران راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے حقوق ادا کرنے کی بابت پوچھا جائے گا۔ اور ہر مرد اپنے عیال میں راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت دریافت کیا جائے گا اور ہرعورت اپنے خاوند کے گھر کی منتظمہ ہے اور اس سے اس کے مفوضہ فرائض کی بابت پوچھا جائے گا اور خدمت گار اپنے آقا کے مال و اسباب کا نگران ہے اور اس سے اس کی بابت سوال کیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

 پس، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص امیر [منتظم] ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ۔ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہییں۔ ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں کچھ اختیار ہے یا جو دوسروں پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جس کے نمونے سے دوسرے لوگوں کے کردار بہتر ہو سکتے ہیں، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے کردار کو درست کرے، یہی اسلام کا راستہ ہے۔

اگر پوری قوم اس طرف توجہ نہیں کرتی تو ہماری حکومت کا فرض ہے کہ صحیح کردار کو اسلام کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کر دے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا فرض ہے کہ اس بنیادی سبق کو ذہن نشین کرا دیں۔ سب سے زیادہ اُن سمجھ دار لوگوں کا فرض ہے کہ جو ان چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ یہ فرض کہ وہ اپنے کردار سے اصول کی پابندی کا نمونہ قائم کریں۔ ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ اصول کی پابندی سے [ مالی] نقصان پہنچتا ہے، لیکن ایسا سوچنا ایک خام خیالی ہے۔ اصول کی پابندی سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا ہے۔ بد کرداری سے ذرا سی مدت کے لیے تھوڑا سا فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن آخر میں اس کا نتیجہ نقصان ہی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصول ہماری رہنمائی کے لیے پیش کیے ہیں، انھی میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ  نے لکھا ہے:

اللہ تعالیٰ کوئی ایسا جابر بادشاہ نہیں ہے جو محض اپنے کو خوش کرنے کے لیے دوسروں سے اطاعت چاہتا ہے، وہ اطاعت اس لیے چاہتا ہے کہ اس کی اطاعت ہی میں لوگوں کا بھلا ہے۔ اس کی اطاعت میں افراد کا بھی بھلا ہے اور اس کی اطاعت میں قوموں کا بھی بھلا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)

اگر اس نقطۂ نظر کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کریں، پورے استدلال سے پیش کریں، جوش و خروش سے پیش کریں، نرمی سے پیش کریں، غرض اُس طرح جس طرح سے پیش کرنا ممکن ہے تو کچھ عرصے میں ہماری حالت ان شاء اللہ درست ہو جائے گی۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی دین بغیر تبلیغ کے قائم نہیں رہ سکتا۔ دین اسلام تو مسلسل تبلیغ ہی کا نام ہے۔ یہ تبلیغ صحیح ہونی چاہیے۔ بچپن ہی سے مسلمان بچوں کو اس مقصد کے لیے تیار کیا جانا چاہیے، خواہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے یا اس کے باہر، چھوٹے دائرے میں کام کرے یا پوری انسانیت کے سامنے، اسی طرح ان لوگوں او رمعاشروں میں اسلام زندہ رہ سکتا ہے اور ملت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی روح اور اسلام کی تعلیمات ایسی چیزیں ہیں جو ہر زمانے اور ہر دور کے مسائل پر قابو پا سکتی ہیں، بشرطیکہ ان پر صحیح طریقے سے عمل ہو۔ ایک زمانہ ایسا تھا، جب انسانی زندگی میں اتنی پیچیدگی نہیں تھی جتنی موجودہ زمانے میں ہے۔

حضرت شاہ ولیؒ اللہ نے بجا طور پر یہ فرمایا ہے:

جتنا زمانہ گزرتا جاتا ہے معاشرت میں اتنی ہی پیچیدگی پیدا ہوتی جاتی ہے، اور جتنی معاشرت پیچیدہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر معاملات کو سلجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔(ایضاً)

آج کی دنیا میں حکومت اور ریاست کا دائرہ عمل وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور اس کا حلقۂ اقتدار اور اس کے ذرائع و وسائل بھی وسیع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ حکومت کے وسائل کا اسلامی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے استعمال ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب تک ریاست کا دائرہ عمل مختصر تھا اور انسان کی زندگی پر اس کا اثر کم پڑتا تھا، اس صورت میں اگر ریاست گمراہ بھی ہوتی اور اس میں ضلالت بھی ہوتی تو اس کے باوجود لوگوں کی زندگی پر گہرا اثر نہیں پڑتا تھا۔ چھوٹی بستیاں اپنی زندگی کے پرانے طریقے پر قائم رہتی تھیں۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں انگریز کی حکومت آئی اور چلی گئی۔ اس کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان بھی پہنچا، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی کتنی ایسی چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں جن کی دینی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، اور وہ اپنی زندگی ویسے ہی گزارتی رہیں، جیسے پہلے گزارتی تھیں۔ مگر آج یہ بات ناممکن ہے۔ اس لیے بہت زیادہ ضروری ہے کہ ریاست کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں میں اسلام کو دخل ہو۔

عقلی بنیاد پر بھی اگر آپ غور کریں تو یہ حقیقت صاف ظاہر ہے کہ حکومت کا لائحہ عمل اور دائرۂ کار جتنا بڑھتا جاتا ہے، اتنا ہی یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اخلاقی قدریں حکومت کے پیش نظر رہیں، ورنہ حکومت کا وسیع تر اختیار ظلم و استبداد میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک صحیح اخلاقی اقدار اور نظریات وہی ہیں جو اسلام نے پیش کیے ہیں۔

اس کے ساتھ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اسلام کے دو پہلو ہیں: ایک انفرادی، دوسرا اجتماعی۔ جہاں تک انفرادی پہلو کا سوال ہے، اس کا تعلق میری اپنی ذات یا میرے اللہ سے ہے اور اس میں کسی دوسرے شخص کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن دوسرا پہلو وہ ہے جو میرے ان تعلقات پر حاوی ہے جو میرے اور دوسرے مسلمانوں کے، تمام انسانوں کے، زندگی کی تمام وسعتوں کے درمیان قائم ہیں۔ ان تمام تعلقات کو درست کرنا اسلام کا اولین مشن ہے۔ اسلام محض بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک اجتماعی نظریہ بھی ہے، بلکہ اس کا اصل کام ہی خاص دائرے میں ہے۔ اسی لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَارَھَبا نِیَّۃَ فَیْ اِلْاِسَلَامِ ’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ اسی وجہ سے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ ہم ان تعلقات کو جو ہمارے اور دوسرے افراد کے درمیان ہیں، نظر انداز کر دیں۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ان تعلقات کو صحیح بنیادوں پر استوار کریں، اور اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے کار فرما اصول وہی ہو سکتے ہیں جو اسلام نے مقرر کیے ہیں۔

یاد رکھیے کہ اسلام کے اصولوں میں بہت گنجایش ہے اور وسعت بھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ معاشی تعلقات کے لیے جو نظریات کچھ عرصہ قبل قائم ہوئے تھے، ان میں کسی توسیع کی یا تبدیلی کی ضرورت یا گنجایش نہیں ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ اسلام کو موجودہ دور کے حالات کے مطابق سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب کی ضرورت ہے، لیکن اس کام کے لیے سچے ایمان اور صحیح فہم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ جو ہماری روایات ہیں، اُنھیں ہم ناکارہ سمجھ کر اور بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ ان میں کیا خوبی ہے، پس پشت نہ ڈال دیں۔ اس لیے کہ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو گی کہ تیرہ سو سال کی جو پونجی ہمارے پاس موجود ہے اسے ہم بغیر سوچے سمجھے پھینک دیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اس کے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بعض جگہ اس پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تمام کام ایمان داری، اخلاص اور فہم کے ساتھ ہو سکتے ہیں، اندھی نقالی کے ساتھ نہیں۔


جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال

 ۱ پاکستان کو اپنی بقا اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی اہمیت اور ضرورت اس لیے ہے کہ اس ملک میں مختلف قومیں آباد ہیں، جو مختلف زبانیں بولتی ہیں اور جو جغرافیائی طور پر ایک دوسری کے متصل نہیں۔ اُن میں اگر کوئی جذبہ مشترک ہے تو فقط اسلامی جذبہ ہے۔ اگر اس جذبے کو مٹا دیا جائے تو پاکستان بھی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔

۲ اسلامی نظریے کی طرف بڑھنے کی راہ میں جو قوتیں مزاحمت کر رہی ہیں، اُن میں سب سے بڑی قوت ’خوف‘ ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی ایک ’خوف زدہ‘ قوم ہیں۔

۳ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب نہیں بلکہ دور ہٹا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقت ہماری قومی خصوصیت بن چکی ہے۔

 پاکستان کے دستور اس لحاظ سے ناکام رہے کہ یہ بد قسمت قوم صحیح رہنما پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس قوم میں صحیح رہنما خال خال پیدا ہوتے ہیں۔ اس دوران میں جو سیاسی رہنما ملکی سیاست کے میدان میں آئے ہیں، اُن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو قوم کی قیادت کے اہل نہ تھے، جن کا کوئی اصول نہ تھا، جو محض ذاتی طاقت کے حصول کے درپے تھے، جن کا قوم سے دور کا واسطہ بھی نہ تھا، جو قوم کی ضرورت کو نہ سمجھتے تھے اور جو منافق تھے۔ اگر کسی قوم کا دستور ’منافقت‘ کے اصولوں پر قائم کیا جائے تو وہ دیر پا ثابت نہیں ہو سکتا۔

 ۴ اسلامی نظریے کو عملاً بروئے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب کی ضرورت ہے۔ اگر مستقبل قریب میں ایسا انقلاب وجود میں آ جائے تو اس ملک کی سیاسی اور تمدنی زندگی کی ارتقا کے امکانات پیدا ہو جائیں گے اور اگر نہیں تو ہمارا مستقبل تاریک ہے۔

غالب نے ایک موقع پر کہا تھا  ع   ’’میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘۔ پاکستانی معیشت کی بنیاد میں بھی ایک خرابی آئینی طور پر رکھ دی گئی ہے۔ اس خرابی کو سمجھنے کے لیے ہمیں آئین پاکستان کی ان شقوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا جو ملک کے مالیاتی امور کو بیان کرتی ہیں۔

آئینِ پاکستان ہمیں دو طرح کی قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ ایک قانون سازی وہ ہے جو کسی بھی موضوع پر کی جاسکتی ہے اور دوسری قانون سازی وہ ہے جو صرف مالیاتی اُمور سے متعلق ہے۔ اس قانون سازی کو ’مالیاتی بل‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے، باقی تمام قانون سازی دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے شروع ہوسکتی ہے، اوردونوں سے اس کی منظوری کے بعد بل، قانون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، جب کہ اختلاف کی صورت میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس مسئلے کو حل کرتا ہے۔

اس کے برعکس ’مالیاتی بل‘ کی منظوری کا کام براہِ راست منتخب عوامی نمایندوں، یعنی ارکانِ قومی اسمبلی ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے،اور یہ منظوری دینا انھی کا اختیار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ کسی بل کو ’مالیاتی بل‘ قرار دینے یا قرار نہ دینے کا اختیار صرف اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے، جسے نہ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ صدرِ مملکت اس میں کوئی دخل دے سکتے ہیں۔ آئین کے اندر یہ بات واضح طور پر درج ہے کہ کون سے معاملات اس اختیار میں آتے ہیں۔ یہاں ہم ان آرٹیکلوں کو مختصراً بیان کرتے ہیں:

آرٹیکل ۷۷ یہ پابندی لگاتا ہے کہ کوئی بھی ٹیکس صرف اور صرف قومی اسمبلی کی منظوری اور اس کے بنائے ہوئے قانون کے تحت لگایا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل ۷۸ یہ کہتا ہے کہ تمام محصولات اور قرضوں سے حاصل شدہ اور ان سے واپس شدہ رقوم وفاقی مجتمع فنڈ (Federal Consolidated Fund) میں جمع کرائی جائیں گی اور دیگر رقوم ایک پبلک اکاونٹ میں جمع کرائی جائیں گی۔

 آرٹیکل ۷۹ یہ پابندی لگاتا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں اکاونٹس سے رقوم صرف پارلیمنٹ کے بنائے قانون کے تحت لی جاسکتی ہیں۔ اور جب تک یہ قانون بنے تو صدر مملکت کی طرف سے بنائے گئے ضوابط کے تحت لی جاسکتی ہیں۔

آرٹیکل ۸۰ تا ۸۴ میں اس طریق کار کا تفصیلی بیان ہے، جس کے تحت بجٹ (میزانیہ) پیش کیا جائے گا اور قومی اسمبلی سے اس کی منظوری لی جائے گی۔ آرٹیکل ۸۰سب سے پہلے پابند کرتا ہے کہ وفاقی حکومت ہر مالی سال کے لیے ایک گوشوارہ ، جسے ’سالانہ بجٹ اعلامیہ‘ (Annaul Budget Statement) کہا جائے گا، اس میں صراحت سے یہ علیحدہ علیحدہ بیان کیا جائے گا کہ کون سے اخراجات ہیں، جو آئین پاکستان کے مطابق وفاقی مجتمع فنڈ پر charged (مطلوبہ) اخراجات ہیں اور کون سے ایسے نہیں ہیں۔

آرٹیکل ۸۱ یہ بتاتا ہے کہ وہ کون سے اخراجات ہیں جو ’مطلوبہ‘ کہلائیں گے: ا- صدرمملکت کی تنخواہ اور ان کے دفتر سے متعلق اخراجات؛ ۲- سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات؛ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہیں اور اخراجات، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تنخواہیں اور اخراجات؛ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تنخواہ اور ان کے دفتر کے اخراجات؛ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قرضوں کی ادائیگی اور ان پر سود کی ادائیگی۔ اس تفریق میں اصل بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی چارجڈ ’اخراجات‘ پر بحث کر سکتی ہے، لیکن ان اخراجات پر ووٹنگ نہیں ہوگی، یعنی ان تجاویز پر کٹوتی کی تحریکیں نہیں لائی جا سکتیں۔ دیگر تمام اخراجات کی تجاویز قومی اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی اور ہر تجویز پر کٹوتی کی تحریک بھی لائی جاسکتی ہے اور بحث کے بعد ان پر ووٹنگ کی جائے گی اور کثرت رائے سے منظور یا نا منظور کی جائے گی۔

تمام تجاویز کا اس مرحلے سے گزرنے کے بعد وزیر اعظم اپنے دستخط کے ساتھ اخراجات کا ایک جدول قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور اس میں شامل تمام اخراجات قومی اسمبلی سے منظور تصور کیے جائیں گے۔ مگر اس جدول پر اس کے بعد کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوگا۔

آرٹیکل ۸۴ وفاقی حکومت کے لیے ایک بہت بڑی سہولت بھی ہے اور مالیاتی نظام میں بگاڑ کی بہت بڑی اور بنیادی وجہ بھی۔ اسمبلی سے منظور شدہ بجٹ میں حکومت تین تبدیلیاں کرسکتی ہے: lاوّل یہ کہ اگر کسی مد میں ضرورت سے کم بجٹ ہو اور دوسری مد ضرورت سے زائد ہو تو زائد بجٹ کو کم مد میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ lدوم یہ کہ اگر منظور شدہ خرچ سے زیادہ خرچ کرنا پڑے تو وہ ضمنی گرانٹ کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ lسوم، اگر کسی مد میں زیادہ اخراجات ہوجائیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ عموماً اگلے مالی سال کے بجٹ کے ساتھ ایک اور بجٹ پیش ہوتا ہے، جس کو ضمنی بجٹ کہا جاتا ہے۔ اصل بجٹ کی منظوری کے بعد اس ضمنی بجٹ کو انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، جو آئین میں درج ہیں اور جن کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن بجٹ اجلاس کا یہ مرحلہ صرف ایک آئینی کارروائی کو مکمل کرنا ہوتا ہے ورنہ اصلی بجٹ میں جوممبران کی دلچسپی ہوتی ہے، اس موقعے پر بالکل مفقود نظرآتی ہے۔ لہٰذا، حکومت کو اس کا دفاع کرنے میں کچھ مشکل پیش نہیں آتی۔ کبھی کبھار یہ ضمنی بجٹ صرف گزرتے مالی سال کا نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے ہونے والے اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔

تو یہ ہے وہ آئینی فریم ورک، جو ہمارے پاکستانی مالیاتی نظام کا احاطہ کر رہا ہے۔ قارئین اس اہم بات کو مدنظر رکھیں کہ جس بجٹ کی قومی اسمبلی منظوری دیتی ہے، وہ صرف اخراجات تک محدود ہے۔ آمدنی کے اندازوں کو بیان ضرور کیا جاتا ہے، لیکن آئین کے تحت یہ کوئی پابندی نہیں ہے کہ آمدنی کے ذرائع اور مقدار کی منظوری بھی لی جائے۔

بجٹ سیشن میں ایک اہم مرحلہ ’فنانس بل‘ کا پیش ہونا اور اس کی منظوری ہے، جس میں سینیٹ کی سفارشات بھی زیر غور آتی ہیں۔ یہ سلسلہ درحقیقت قومی اسمبلی کے اس اختیار کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ ٹیکسوں کو لگا سکتی اور ان میں رَد وبدل کرسکتی ہے۔

مندرجہ بالا بیان کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ حکومت آمدنی سے زیادہ اخراجات کرسکتی ہے، جس کو بجٹ خسارہ یا fiscal deficit کہتے ہیں۔ اس خسارے کو سال در سال اختیار کرتے چلے جانے سے قومی قرضہ وجود میں آتا ہے اور اس پر ادائیگیوں کا بوجھ اور شرح سود کا ردوبدل معیشت کے دوسرے شعبوں پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

بجٹ خسارہ اعداد و شمار میں شامل ہوتا ہے، لیکن کیونکہ یہ قومی اسمبلی کا منظور شدہ نہیں ہوتا، لہٰذا اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک عام طرز عمل ہے کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر اور مختلف گوشواروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں اور عموماً اس کو کم از کم سطح پر بیان کرتے ہیں۔ اور پھر آرٹیکل ۸۴ کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زائد اخراجات کرتے ہیں یا بجٹ میں آمدنی کے جو اندازے لگائے گئے ہیں، اس سے کم آمدنی (خصوصاً ٹیکسوں کی مد میں)حاصل ہوتی ہے۔ ان دونوں امکانات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ بڑھ جاتا ہے اور یوں قومی قرضہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ہم نے گذشتہ پانچ سالوں کے اندر بجٹ میں بیان کردہ خسارے کا اندازہ بمقابلہ واقعی خسارے سے کیا ہے۔ تجزیہ بتاتا ہے کہ اوسطاً تقریباً واقعی خسارہ، بجٹ میں بیان کردہ خسارے سے قومی آمدنی کا کوئی دو فی صد زیادہ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ تفاوت اور بڑھ گیا ہے اور خسارہ بھی بڑھ گیا ہے۔ آیندہ مالی سال کے لیے قومی آمدنی کا اندازہ۶۷ ٹریلین روپے لگایا گیا ہے۔  اس کا ایک فی صد ۶۷۰ ارب روپے بنتا ہے اور دو فی صد ۱۳۴۰ ؍ارب روپے ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خسارے میں اضافہ کتنے بڑے پیمانے پر حکومتی اخراجات کا باعث بنتا ہے، جس پر پارلیمنٹ میں نہ کوئی گفتگو ہوتی ہے اور نہ کوئی منظوری۔ انھی وجوہ سے قومی قرضہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

اس سال جنوری میں قومی آمدنی کا نیا اندازہ (re-basing) لگایا گیا، جس کی وجہ سے تقریباً دس ٹریلین سے آمدنی بڑھ گئی اور جس کی وجہ سے قومی آمدنی کی نسبت خسارہ اور قومی قرضہ کچھ کم نظر آرہا ہے، لیکن اگر یہ اضافہ نہ ہوا ہو تا تو ہمارا قرضہ قومی آمدنی کا سو فی صد سے زائد ہوجاتا۔ لیکن اگر ہم اپنے مالیاتی اُمور اسی انداز سے چلاتے رہے تو بہت جلد اس زائد آمدنی کے باوجود ہم اس حد کو پار کرلیں گے۔

معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ رفتہ رفتہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے، اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔

ابن خلدون نے اپنے ’مقدمہ تاریخ‘ میں لکھا تھا کہ ’’معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ، معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے‘‘۔

  • مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرے اور ریاست کو وجود میں لانے کے لیے قوتِ محرکہ،مسلم قومیت کا احساس تھا،لیکن مسلم قومیت کی یہ بنیاد اِس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی اور علاقائی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے، لیکن یہ افراد معاشرے میں عام نہیں ہیں۔
  • فرقہ وارانہ عصبیت: اگرچہ ۱۹۸۲ء کے بعد فرقہ پرست تنظیمیں اور ان کے  دہشت گرد ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں، لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ بلاشبہہ ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے، لیکن سُنّی ، شیعہ، دیوبندی، بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے یہ تمام خون آشام مناظر کسی فرقہ پرست عوامی لہر کی نمایندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تک محدود چلے آرہے ہیں اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں فرقہ واریت کے خلاف ہی ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا، تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔

ان تنظیموں کو بہرحال انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو،، کی پالیسی کے تحت شہ حاصل رہی ہے، جس کا آغاز عراق، ایران جنگ کے زمانے میں ہوا۔ پھر بعض مواقع پر دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سر اٹھایا ہے، لیکن یہ ہنگامہ اور المیہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے کی بنیاد مساجد پر قبضہ کرنے تک محدود رہا ہے، مگر ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا عوامی فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی یہ مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔

  • لسانی عصبیتیں : مسلکی فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاجوں پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس جذبے اور احساس نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہا ہے، اور اس کے خاتمے کی کسی کو فکر بھی نہیں ہے۔ اس جذبے اور احساس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی و علاقائی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ، کراچی، بلوچستان، سرحد [خیبر] اور پنجاب کا سرائیکی علاقوں میں عصبیتوں کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر خود اعلیٰ بیوروکریسی میںبھی اس کی بڑی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو، پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو، یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو، ان سب اُمور کو عدل، فنی، پیشہ ورانہ یا میرٹ کی بنیادوں پر دیکھنے کے بجائے عصبیت کی عینک سے دیکھا جارہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہوگئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو، اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون، تعصب کی بنیاد پر ہے۔

ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آیندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے، اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے، لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے، اور کسی جوڑنے والے نظریے کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔

پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک ہے مخصوص مذہبیت اور دوسری عریانیت و فحاشی ۔

  • مذہبی رجحان: ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی، جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’دعوت اسلامی‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے، وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی۔ سیاست کے میدان میں جہاد سے وابستگی کا حوالہ رکھنے والی بعض قوتیں پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے، جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے۔ اس امر کا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں گی، جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
  • مذہبی جماعتوں کی صورت حال:  مذہبی جماعتوں کے کارکنوں میں پچھلے جمہوری اَدوار کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا، لیکن یہ انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں ذہن صاف نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ بس فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔

’مسلح جدوجہد‘ یا ’گوریلا جنگ‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے، لیکن آخرکار وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر ایسے ’انقلاب‘ کو مسلط رکھا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کے لیے فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں، تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔

لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا، وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ کے بہترین گروہ تک کو بھی منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے، جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ مزاج کسی راست فکر اصولی اور اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔

  • غیر سیاسی مذہب کا رجحان: پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے، اس کے نتیجے میں بلاشبہہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ، ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے، لیکن اس غیر ’سیاسی مذہب‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی الگ نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت، اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے۔ یہ معاشرے کوبدل نہیں رہے، بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں، ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے، جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔
  • اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان: لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہوچکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکا کے سیاسی، جنگی، معاشی اور فکری طبقات سے ہے، جس پر صیہونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی اور ناگزیر جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے حواریوں کے درمیان ہو گی اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی، اقتصادی صورت حال بھی امریکا اور اس کی آلۂ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے، اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکا سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی ایک تعداد ہے۔ تاہم، انھیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے، جو انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ طرزِ فکر بہرحال مؤثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکا کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکا سے پیدا ہو چکا ہے، وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی، جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔

  • معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: بہرحال، معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔’حیوۃ الدنیا‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص اور مذہبی و غیرمذہبی ریجھا ہوا ہے، ایسا منظر پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف اور دکھلاوے کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر، علم و تحقیق، مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے بربادی کی تصویر پیش کرتے ہیں، تو چند نہایت محدود مثالوں کو چھوڑ کر پرائیویٹ تعلیمی ادارے نئی نسل کا مزاج بگاڑنے اور دولت کمانے کی فیکٹریاں ثابت ہو رہے ہیں۔ گھر جو اخلاقی، تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے، اس ادارے میں بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں، درس گاہوں میں مزید بگڑتے ہیں، اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور بھی زیادہ ہمہ گیر ہوجاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں، مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔
  • اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آیندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ، اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی، ڈاکے، کاروبار میں دھوکا بازی، یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے بلکہ لے جارہی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔
  • جنسی بـے راہ روی میں اضافہ: ایک بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہرطرف سے جنسی جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک میں شرم و حیا کو ختم کیا جا رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور حجاب لینے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز اور نمازِ تراویح پڑھنے اور اعتکاف بیٹھنے والوں کی تعداد میں بھی الحمدللہ، خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں، خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے، لیکن اس سب کے باوجود اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے، اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہورہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات، ٹی وی، انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں، ملبوسات کے نئے فیشن، زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے، اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب، مثلاً شادی میں مہندی کی رسم، یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔
  • وقت کا تقاضا : معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں۔

بلامبالغہ ، ان کے مقابلے میں ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں، تو یہ ہمہ گیر اور ہمہ پہلو کام کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا ۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے، اور جو مزاجِ فاسد پیدا ہو چکا ہے، اس کی روک تھام کرسکیں گے۔

ڈاکٹر عشرت حسین اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر تھے، آٹھ سال تک پاکستان کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے ڈین رہے۔ پاکستان میں بدانتظامی کے بحران پر ان کی کتابGoverning the Ungovernable   سند کا درجہ رکھتی ہے ۔ انھوں نے پاکستانی سیاست کے چار سے پانچ قابل منتظمین کا ذکر کرتے ہوئے کراچی کے سابق سٹی ناظم  [۲۰۰۱ء-۲۰۰۵ء] نعمت اللہ خان کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :’’جماعت اسلامی کے بزرگ میئر نعمت اللہ خان ایک ايسے ایماندار فرد تھے جو مستعدی اور باقاعدگی سے زیرتکمیل کاموں کی نگرانی کرتے تھے۔ ان پر نظر رکھنے کے ساتھ لوگوں کی شکایات اور تکالیف کا ازالہ کرنے میں دانش مندی اور انصاف سے معاملہ کرتے تھے‘‘۔

۱۷دسمبر۲۰۰۴ءکو صدر جنرل پرویز مشرف نے گواہی دی:’’کراچی میں ترقیاتی کاموں کا کريڈٹ نعمت اللہ خان کو جاتا ہے۔ان کی قیادت میں شہر کا نقشہ بدل رہا ہے، ۲۹؍ارب روپے کا ’تعمیر کراچی پروگرام‘ ان ہی کا تصور ہے ، وہی اصل ہيرو ہیں۔ (جنگ،ڈان)

خوش قسمتی سے ہم نے نعمت اللہ خان کی قیادت میں ان کے چار سالہ دور (۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۵ء) کو بہت قریب سے دیکھا ہے، جس کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں :

۱-صوبائی حکومت ان کے سخت ترین مخالفین کے پاس تھی مگر نعمت اللہ خان فنڈز و اختيارات کی کمی کا رونا رونے، کسی سازش یا ماضی پر ملبہ ڈالنے کے قائل نہیں تھے۔ وہ ايک انتہائی تجربہ کاراور حقیقت پسند انسان تھے،جن کی نظریں مستقبل پر تھیں۔ وہ تخریب کے بجائے تعمیر و تدبیر پر یقین رکھتے تھے۔ ساری توجہ اس بات پر تھی کہ چار سالہ دور میں ڈليور کرکے دکھانا ہے ، نظام میں رہتے ہوئے راستہ نکالنا ہے اور دستیاب سرکاري افسران سے کام لینا ہے تاکہ اہداف حاصل کیے جاسکیں۔

۲-نعمت اللہ خان تو ۷۰ سال کی عمر میں میئر بنے، مگر جماعت اسلامی نے مختلف شعبوں کے ليے مشیروں کی جو ٹيم انھیں فراہم کی وہ ۳۵سے۴۰سال عمر کے ديانت دار اور اعلیٰ تعلیم يافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ یہی معاملہ ٹاؤن ناظمین اور یونین کونسل ناظمین کا تھا ۔ اس طرح نعمت اللہ خان نچلی سطح تک مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔

۳-ايک اچھے منتظم کی طرح انھیں کراچی کے تمام مسائل کا ادراک تھا۔ پھر مسائل کا حل اور اہل افراد کی ٹیم ان کے پاس موجود تھی مگر اصل چیلنج یہ تھا کہ وسائل کس طرح حاصل کرنے ہیں؟ 

یہ بات چند مثالوں کے ساتھ دیکھیے کہ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما اور سٹی ناظم نے کس طرح وسائل حاصل کیے؟ گڈ گورننس کی مثال قائم کی اور کرپشن کا خاتمہ کردیا۔

  •  پہلی مثال:کراچی کے ٹرانسپورٹ مسائل کے حل کے لیے شہری حکومت کے پاس اربوں روپے کی میٹرو بس کا بجٹ نہیں تھا۔ انھوں نے اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغاز کیا۔ بسوں کی خریداری پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے سرمایہ کاروں کو شہر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی اور شہر میں۱۵سےزائد روٹس پر ۳۶۴ بڑی،کشادہ اور آرام دہ بسیں رواں ہوگئیں۔ کراچی میں پہلی بار گرین بس انھی کے زمانے میں شروع ہوئی تھی۔ یہ تدبیر اور حسن انتظام کی ایک عمدہ مثال ہے کہ نہ قرض لینا پڑا، نہ حکومت کا سرمایہ خرچ ہوا اور عوام کو ایئر کنڈیشنڈ بسیں بھی مل گئیں۔
  • دوسری  مثال:جماعت اسلامی کی شہری حکومت نے اس دور میں پٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی ماہانہ۷۰لاکھ روپے اور سالانہ ۸کروڑ۴۰ لاکھ کی کرپشن کا خاتمہ کیا، جس سے شہری حکومت کی آمدنی میں نماياں اضافہ ہوا اور نئے منصوبوں کی گنجایش پیدا ہوئی (۲۰۰۱ء میں پٹرول ۲۰روپے ليٹر تھا، جب کہ آج ۲۳۴روپے ليٹر ہے)۔ سوال یہ ہے کہ نچلی سطح پر یہ کرپشن کس طرح ختم ہوئی؟سابق ناظم گلبرگ ٹاؤن فاروق نعمت اللہ کے مطابق: ’’گلبرگ ٹاؤن کے حصے میں کچرا اُٹھانے کی ۱۱۰گاڑیاں آئیں، ۹۰ گاڑیاں بالکل خراب تھیں، ان کے ٹائر تک نہیں تھے۔ ان گاڑیوں کا ماہانہ بل ۲۴لاکھ روپے تھا۔ ہم نے روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنے سامنے ڈیزل بھروانا شروع کیا ،کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اس سے قبل گاڑی میں ۵لیٹر ڈالا جاتا تھا اور پرچی پر ۴۰لیٹر لکھ دیا جاتا، باقی رقم حصے داروں میں بٹ جاتی۔ صرف ۶ماہ بعد صورت حال یہ تھی کہ تمام ۱۱۰ گاڑیاں کچرا اٹھانے کے قابل تھیں اور ڈیزل کا بل ۲۴لاکھ سے کم ہوکر ۸لاکھ پر آگیا تھا۔
  •  تیسری مثال:جب خان صاحب سٹی ناظم بنے تو بل بورڈز یا آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے سالانہ آمدنی صرف سوا دو کروڑ روپے تھی۔ بیش تر بل بورڈز کی آمدنی طاقت ور وزرا کے اکاؤنٹس میں چلی جاتی اور شہري حکومت کےہاتھ کچھ نہ آتا۔ سٹی ناظم نے آوٹ ڈور ایڈورٹائزنگ کا شعبہ اپنے ايک ایک قابل اعتماد مشير زاہد سعید کو اس ہدایت کے ساتھ سونپ دیا کہ یہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے شہر میں ہر سال ایک فلائی اوور کا اضافہ کیا جائے گا۔ سابق یوسی ناظم اور معروف تاجر زاہد سعید کے مطابق: ’’صرف ايک سال میں آؤٹ ڈور ایڈورٹائزنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ سوا دو کروڑ سے بڑھ کر سالانہ ۲۵کروڑ تک پہنچ گئی اور اسی آمدنی سے ایف ٹی سی کا فلائی اوور بنا اور اگلے سال پھر ۲۵کروڑ روپے جمع ہوئے۔
  • چوتھی مثال:کراچی میں سرکاری شعبے میں دل کا صرف ایک اسپتال تھا، اور جناح اسپتال پہنچتے پہنچتے روزانہ چھے افراد راستے میں ہی فوت ہوجاتے۔ اسی زمانے میں فیڈرل بی ایریا میں واقع کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج نارتھ ناظم آباد میں ایک بالکل نئی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ نعمت اللہ خان نے میڈیکل کالج کی پرانی عمارت میں ضروری تبدیلیوں اور نئی تعمیرات کے بعد جدید سہولیات سے آراستہ امراض قلب کا بڑا اسپتال کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کم خرچ اور قلیل مدت میں میں قائم کردیا۔ ۱۷۰بستروں پر مشتمل یہ اسپتال آج بھی ضلع وسطی اور شرقی کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، اگر سندھ حکومت مناسب توجہ دے۔
  • پانچویں مثال: پاکستان انفارمیشن ٹکنالوجی ایکسپورٹ میں اضافہ چاہتا ہے مگر انجینئرز کی تعداد کم ہے۔ماضی میں جب نجی یونی ورسٹیوں میں نہایت مہنگے بی سی ایس پروگرام شروع ہوئے تو نعمت اللہ خان نے کراچی کے چھے بڑے بوائز اور گرلز سرکاری کالجز میں جامعہ کراچی سے منظور شدہ بی سی ایس کمپیوٹر سائنس پروگرام کا آغاز کیا۔ اس طرح بلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو کم فیس پر بہترین ڈگری ملی اور یہ ہزاروں افراد ملک اور بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔
  •  چھٹی مثال:سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے بقول: ’کے تھری واٹر پراجیکٹ‘ نعمت اللہ خان نے ۶؍ارب۸۰کروڑ کے بجائے ۶؍ارب میں مکمل کیا تھا اور ۸۰کروڑ روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بچت کس طرح ممکن ہوئی؟ تب خان صاحب کے مشیر ڈاکٹر فیاض عالم صاحب نے بتایا:’کے تھری پراجیکٹ‘ کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے رقم سٹی گورنمنٹ کے پاس آچکی تھی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی ادارہ سرکاری منصوبوں پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ نعمت اللہ خان نے اس ادارے سے منسلک دو انجینئرز کو بلایا اور کہا کہ ’’یہ ہمارا پہلا میگا پراجیکٹ ہے، آپ ٹینڈر طلب کرنے کے عمل میں شامل ہوجائیں‘‘۔ ان کے انجینئرز نے جواب دیا کہ ’’ہم تو واچ ڈاگ (یعنی نگران) ہیں، ہمارا کام تو آپ پر چیک رکھنا ہے‘‘۔ سٹی ناظم نے جواب دیا: ’’اگر آپ ٹرانسپیرنسی چاہتے ہیں تو ہمارا ساتھ دیں‘‘۔ یوں خان صاحب تقریباً ایک ارب روپے بچانے میں کامیاب ہوگئے ۔ منصوبہ مکمل ہوا تو کراچی کو روزانہ ۱۰۰ملین گیلن پانی کی فراہمی شروع ہوئی۔ ’کے تھری‘ کے بعد ’کے فور‘ آج تک نہیں بن سکا۔
  • ساتویں مثال: ۲۰۰۳ء میں کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئیں۔ نعمت اللہ خان نے کہا: ’’انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ کراچی کو ۲۰؍ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے۔ صدر مشرف نے جواب دیا: ’’آپ لینڈ سے محصول حاصل کریں‘‘۔ نعمت اللہ خان نے جواب دیا: ’’ہم شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے، ہاں ایک آئیڈیا ہمارے پاس موجود ہے‘‘۔ نعمت اللہ خان نے تجویز دی کہ کراچی میں قائم وفاقی ادارے جیسے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان اسٹیل، پورٹ قاسم اتھارٹی، پی آئی اے وغیرہ کراچی کے وسائل استعمال کرتے ہیں مگر شہر پر خرچ نہیں کرتے۔ میں منصوبوں کی نشاندہی کرتا ہوں آپ ان اداروں کو پابند کریں کہ وہ یہ منصوبے اسپانسر کریں گے‘‘۔ جنرل پرویز مشرف اس تجویز پر بہت حیران ہوئے۔اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلایا گیا اور نعمت اللہ خان نے ۲۹؍ارب روپے کے پیکج کی پوری تفصیلات اور منصوبے شرکا کے سامنے رکھے۔ پیکج کے تحت ۱۴؍ارب روپے وفاقی اداروں،۶،۶؍ ارب روپے شہری اور سندھ حکومت، جب کہ تقریباً ۲؍ارب روپے وفاقی حکومت کو دینے تھے ۔ یہ پروگرام کراچی کے لیے تبدیلی کا انجن ثابت ہوا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں ایک انقلاب آگیا۔ کراچی میں انڈرپاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری کوریڈورز بنے تو ٹریفک جام کا مسئلہ بڑی حد تک ختم ہوگیا ۔
  • آٹھویں مثال: تعلیم کے شعبے میں لائی گئی اصلاحات کا فائدہ یہ ہوا کہ چار سال کی مدت میں اے ون اور اے گریڈ میں میٹرک کرنے والے سرکاری اسکولوں کے طلبہ کی تعداد ۱۵۰سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی،جب کہ ۳۲کالجوں کی تعمیر بھی مکمل ہوئی۔

مندرجہ بالا مثالیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ ایک باصلاحیت ایڈمنسٹریٹر کی قیادت میں کس طرح اہل اور دیانت دار ٹیم تمام تر رکاوٹوں کے باوجود، شور شرابے اور ہنگامے کے بجائے تدبیر کے ذریعے راستے بناتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس طرح چار سال میں کراچی کا بجٹ ۶؍ارب روپے سے ۴۳؍ ارب روپے تک پہنچایا اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں انقلاب لے آئی۔

نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم نے اس دور میں ثابت کیا کہ صرف کرپشن میں کمی لے آئیں تو آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے بلکہ عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ چار سال میں سیکڑوں پارکس بنائے مگر کسی پر انٹری فیس نہ رکھی۔ سٹی گورنمنٹ کے ماتحت تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم رائج تھی جو آمدنی کا بڑا ذریعہ تھی۔ نعمت اللہ خان نے سیلف فنانس اسکیم ختم کرکے اوپن میرٹ کا نظام قائم کردیا۔ وہ چار سال میئر کراچی رہے مگر ایک دن بھی سرکاری رہائش گاہ میں نہ رہے… ان کے انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اپنی تنخواہ نہیں نکلواتے تھے اور بلدیہ کی نظامت ختم ہونے کے بعد چار سالہ تنخواہ زلزلہ متاثرین فنڈز میں جمع کرا گئے تھے۔

درحقیقت، نعمت اللہ خان اور ان کی ٹیم کی کامیابی کی بنیادیں بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی رکھ کر گئے تھے، جنھوں نے لکھا ہے: ’’اسلامی نظام محض کاغذی نقشوں اور زبانی دعوؤں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا ۔ اس کے قیام اور نفاذ کا سارا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کی پشت پر تعمیری صلاحیتیں‘ اور ’ صالح انفرادی سيرتیں‘ موجود ہیں يا نہیں ۔ کاغذی نقشوں کی غلطی تو اللہ کی توفیق سے ’علم‘ اور ’تجربہ‘ ہر وقت رفع کرسکتا ہے لیکن ’صلاحیت‘ اور’صالحیت کا فقدان‘ سرے سے کوئی عمارت اٹھا ہی نہیں سکتا اور اٹھا بھی لے تو سہار نہیں سکتا‘‘۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلامیانِ برعظیم نے تحریک پاکستان کی پرجوش تائید و حمایت اس مقصد سے کی تھی کہ وہ ایک آزاد و خودمختار مسلم مملکت ’پاکستان‘ میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اپنے دین و عقیدے کے مطابق گزار سکیں گے اور وہاں شریعت کے مطابق قوانین پاس ہوکر نافذ ہوں گے۔{ FR 986 } چنانچہ قیام پاکستان کی صورت میں انھیں عملاً اپنی اس آرزو کی تعبیر و تکمیل کا موقع میسر آگیا تھا۔ اب اس مملکت کی اسلامی تشکیل، یعنی اس کے دستوری و سیاسی، قانونی و عدالتی، تعلیمی و معاشرتی اور اقتصادی نظام کو اسلام کے اصول و تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ کام آسان نہ تھا بلکہ حد درجہ دشوار تھا۔

محمد اسد کی نگاہ میں پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں متعدد بڑی رکاوٹیں موجود تھیں، جن کا ازالہ کیے بغیر پاکستان کی اسلامی تشکیل کی طرف پیش رفت کسی طور پر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ ان مشکلات کا تدارک بے حد ضروری تھا۔ اسد کی نگاہ میں پاکستان کو اسلامی نمونے پر ڈھالنے میں جو رکاوٹیں موجود تھیں، ان میں سب سے اہم مسلم عوام کی بھاری اکثریت کا اسلام کے حقیقی فہم و شعور سے عاری ہونا تھا۔ کیونکہ ’’صدیوں سے اسلام کی اصلی و حقیقی تعلیمات سے ان کا رشتہ منقطع ہوچکا تھا۔ وہ صدیوں سے اسلام کے نام پر توہمات اور لایعنی رسومات میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ اسلام سے ان کا تعلق عقلی و شعوری نہیں بلکہ رسمی اور موروثی و پیدائشی تھا‘‘۔{ FR 987 }

اسد کا تجزیہ تھا کہ جدید مغربی نظام تعلیم جو برطانوی نوآبادیاتی نظام سے ورثے میں ملا تھا اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم تھا۔ لارڈ میکالے کا مرتب کردہ نظام تعلیم اسلامی معاشرہ و ریاست کی تشکیل میں ہرگز معاون نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ تھا۔ چنانچہ اس نظام کے بجائے اسلامی اصول و تصورات سے ہم آہنگ نظام تعلیم کی تشکیل بے حد ضروری تھی۔{ FR 988 } اسد کے نزدیک اسلامی معاشرے اور ریاست کی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ملت کا اخلاقی بگاڑ و انحطاط تھا، جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دوری ہی کا نتیجہ تھا۔ ان کو ملّت کی روحانی و اخلاقی زبوں حالی اور پستی و ادبار کا گہرا ادراک و شعور حاصل تھا۔ انھوں نے ملت کے اس بگاڑ کا برصغیر میں قیام کے دنوں میں بڑے قریب سے مشاہدہ کیا تھا اور تحریک پاکستان کے دنوں میں ہی سیاسی قیادت کو ملت کی روحانی و اخلاقی اصلاح کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔{ FR 989 }

پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اخلاقی پستی و گراوٹ کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے، اسد اس پر بڑے دل گرفتہ تھے۔ انھوں نے عوام و خواص میں لُوٹ مار، متروکہ املاک پر قبضہ اور ان کی بندربانٹ، رشوت ستانی و اقربا پروری، حرص و ہوس اور دھوکا دہی کے واقعات اور بے سروسامان لٹے پٹے مہاجرین کی آبادکاری کے معاملے میں مقامی آبادی کی طرف سے ایثاروقربانی سے کام لینے کے بجائے سنگ دلی اور خود غرضی کے رویّے کا مشاہدہ کیا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے:

The Muslim Millat, which a short while ago had offered a splendid picture of unity and determination, has overnight been changed into a chaotic, demoralised mass of human beings...... And many of those who had been asserting that their one and only object was selfless service of the Millat, seem now to regard Pakistan as a happy hunting ground for all kind of selfish endeavours, and have no thought for anything but the securing, by hook or by crook, of petty economic advantages, jobs, careers and government contracts for themselves and their relatives. Instead of growing in spiritual stature under the weight of a unique and tragic experience, the Millat appears to have sunk to almost unbelieveable depths of confusion and corruption. { FR 990 }

مسلم اُمت ، جس نے ابھی کچھ دیر پہلے تک اتحاد اور عزمِ استقلال کی بڑی شاندار تصویر (مثال) پیش کی تھی، راتوں رات ایک منتشر اور پست حوصلہ انسانی ہجوم کی شکل اختیار کرلی ہے… اور ایسے بہت سے لوگ جو اپنی جگہ ملّت کی بے غرض و بے لوث خدمت کے مدعی تھے، انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ پاکستان کو اپنی جملہ نفسانی و معاشی اغراض کی تکمیل کے لیے ایک آسان چراگاہ تصور کرنے لگے ہیں۔ اب ان کا مطمح نظر ہر طور پر اپنے اور اپنے اعزہ و اقربا کے لیے جائز و ناجائز طریقوں اور مکروفریب سے پست و گھٹیا معاشی مفادات، ملازمتوں اور تعمیروترقی کے سرکاری ٹھیکوں کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں رہ گیا۔ ملت جن اندوہناک حالات سے دوچار ہوئی ہے، ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اخلاقی و روحانی اعتبار سے ترقی کرجاتی مگر اس کے بجائے یوں لگتا ہے کہ یہ ملّت ناقابلِ تصور حد تک اخلاق و کردار کی اتھاہ گہرائیوں میں جاپڑی ہے۔

اسد کی نگاہ میں خود اہل مذہب کا مذہبی طرز فکر بھی پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ روایتی مذہبی ذہن نہ صرف یہ کہ دورِحاضر کے سیاسی و سماجی، قانونی و اقتصادی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کے ادراک اور پھر ازروئے شریعت ان کا قابلِ عمل حل تجویز کرنے سے معذور ہے بلکہ وہ اس نوع کی کسی بھی مثبت اجتہادی کاوش کی راہ میں مزاحم ہے۔ وہ رجعت پسند ہے اور ذہنی جمودو تعطل کا شکار ہے اور صدیوں پرانی فقہ کو من و عن جاری و نافذ کرنا چاہتا ہے۔

اسد کے نزدیک شریعت کے نام پر قدیم روایتی فقہ کے نفاذ کا مطلب پاکستان کو زوال و انحطاط کی راہ پر بدستور گامزن رکھنا ہے۔{ FR 991 } گویا ان کی نظر میں جس طرح سے فرنگیت و مغربیت (مغرب زدگی) پاکستان کی اسلامی تشکیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، بالکل اسی طرح قدامت پسندی بھی مانع ہے۔ پھر ایک اور رکاوٹ جو اس راہ میں درپیش تھی وہ اسلامی قانون کا مرتب و مدون حالت میں نہ ہونا ہے۔ اسد کے الفاظ میں: ’’دور جدید میں احیائے ملت کے راستے میں اسلامی نقطۂ نظر سے جو بڑی مشکل پیش آتی ہے اور جس کی وجہ سے ہم کوئی صاف، واضح اور عملی اسکیم تیار نہیں کرسکتے یہ ہے کہ ہمارے پاس قوانین شریعت کا کوئی ایسا جامع ضابطہ (Code) موجود نہیں ہے جس کا اطلاق تمام اجتماعی امور میں متفقہ طور پر ہوتا ہو، یعنی جس کے بارے میں سب مذاہب نہیں تو کم از کم اکثریت کا اتفاق موجود ہو‘‘۔{ FR 992 }

اسلامی تشکیل کے لیے  محمد اسد کا تجویز کردہ لائحہ عمل

محمد اسد پاکستان کے قیام کو جدید مسلم دُنیا میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کی تشکیل کی طرف صرف پہلا قدم قرار دیتے تھے کہ اس سے اسلامیانِ برعظیم پاک و ہند کو اپنے دین و عقیدہ کے مطابق اپنی اجتماعی زندگی کی تعمیر و تنظیم کا موقع میسر آگیا تھا۔ تاہم، ان کی نظر میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست میں بدلنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ اسلامی ریاست خود بخود اور دفعتاً وجود میں نہیں آجاتی بلکہ وہ تو مسلم معاشرہ کے افراد کے اخلاق و کردار اور ان کے نظریاتی اور سماجی و سیاسی مطمح نظر کی عکاس اور آئینہ دار ہوتی ہے۔

چنانچہ اسد کے نزدیک پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اس ملک کے باشندوں میں صحیح اسلامی اسپرٹ پیدا کرنا، انھیں دین کی اصلی اقدار و تعلیمات سے روشناس کرانا اور ان کے اخلاق کی اصلاح اور ان کے معاشرتی رویوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا ضروری تھا۔ ان کی رائے میں جب تک مسلم معاشرے کے افراد کی زندگی اسلام کے اصول و اقدار اور احکامات و تعلیمات سے ٹھیک طور پر ہم آہنگ نہ ہوجائے، وہ دین کے مقاصد کے صحیح شعور و فہم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبات اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پوری طرح سے آمادہ نہ ہوجائیں اسلامی ریاست کا قائم ہونا ایک مشکل کام ہے۔{ FR 993 } محمد اسد نے ستمبر ۱۹۴۷ء کو ریڈیو پاکستان سے ایک نشری تقریر میں کہا:

The Muslims were determined, after all the centuries of their decay, to have an Islamic State; and the establishment of a Muslim homeland was the first step in this direction. It was the first step only, for a truly Islamic State can not be produced by a conjurer's trick. A country that was for centuries ruled by an alien government in accordance with principles entirely alien to the spirit of Islam can not overnight, as if by magic, be changed into a state similar to that of al-Khulafa' al-Rashidun. We must not forget that it is the spirit of the people which is ultimately, and always, responsible for the spirit of the state; and as long as we, the people, are unable to rise to the demands of Islam, no leader in the world can ever succeed in making Pakistan an Islamic State in the full sense of this word.{ FR 994 }

مسلمانوں نے صدیوں تک انحطاط و زوال سے دوچار رہنے کے بعد اس امر کا عزم کیا تھا کہ وہ اسلامی ریاست قائم  کریں گے، اور ایک مسلم مملکت (وطن) کا حصول تو محض اس راہ کی پہلی منزل ہوگی۔ یہ محض پہلا قدم ہے کیونکہ ایک حقیقی اسلامی ریاست کسی شعبدہ باز کے کرتب کی طرح آناً فاناً ریاستی وجود میں نہیں آجاتی۔ ایک ایسے ملک کو جس پر صدیوں تک اغیار نے ایسے اصول و قوانین کے مطابق حکمرانی کی، جو سراسر اسلامی روح کے منافی تھے، اسے راتوں رات کسی شعبدہ بازی سے خلفائے راشدین کی مملکت جیسی ریاست میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں اس امر کو ہرگز طور پر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اصل چیز عوام کی ایمانی اور اخلاقی و روحانی طاقت ہے جو انجام کار اور ہمیشہ ریاست کی روح اور مزاج کا تعین کرتی ہے، جب تک ہم، یعنی ہمارے عوام، اسلام کے تقاضوں پر پورا نہیں اُتریں گے، دُنیا کا کوئی رہنما پاکستان کو، حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں بنا سکتا۔

محمد اسد پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے اسلامی دستور کی تدوین کے علاوہ ملت کے دینی و اخلاقی احیاء، نوجوان نسل کی صالح بنیادوں پر تعلیم و تربیت، اصلاح معاشرت و معیشت اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی اسلامی تشکیل کا لائحہ عمل تجویز کیا، جس کو اپنا کر ان کے خیال میں پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو اسلام کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے:

۱- اخلاقِ ملّی کا احیاء اور اصلاحِ معاشرت: محمد اسد کے نزدیک ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے افراد معاشرہ کے اخلاق و کردار اور طرز زندگی کو اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ بنانا ازحد ضروری ہے۔{ FR 995 } اسد پاکستان کے تحفظ و استحکام کی غرض سے بھی اسلامی اخلاق ملّی کے احیاء کو بے حد ضروری خیال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ چیز شہری اخلاقیات (civic morality) کے لیے بھی تقویت کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ ایک اچھا مسلمان ہی اچھا پاکستانی بن سکتا ہے۔{ FR 996 }  اسد نے قیام پاکستان کے بعد مجلہ عرفات  اَز سر نو جاری کیا، تو اس کے پہلے ہی شمارے میں ملت کی اخلاقی حالت کی اصلاح کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور معاشرے کے صالح اور مخلص افراد کو اس مقصد سے اپنا کردار ادا کرنے کی تحریک ان الفاظ میں کی:

 The most perturbing aspect of our communel life is the utter deterioration of our morale from the Islamic and civic point of view. If Pakistan is to attain to its cherished goal and to become the cradle of a resourgent Islamic civilization, the active co-operation of all well-meaning Muslims must be secured in the Aervice of civic morale. Otherwise, even the best intentions of the Government cannot possibly bring about that change of outlook which is indispensable for our becoming an Islamic Millat in the true sense of the word.{ FR 1025 }

ہماری ملّی زندگی کا سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو وہ زبردست زوال اور پستی ہے جو اسلامی اور شہریتی (civic)دونوں اعتبار سے ہمارے اندر پیدا ہوچکی ہے۔ لہٰذا، اگر پاکستان کو اپنا محبوب نصب العین حاصل کرنا ہے اور ایک بار پھر سے حیات آفرین اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارا بننا ہے تو اخلاق ملّی کی تعمیر اور تربیت کے لیے ہر اچھے، نیک اور مخلص مسلمان کی خدمات سے استفادہ کرنا ضروری ہے، ورنہ مسلمانوں کے اندر وہ مطمح نظر پیدا نہ ہوسکے گا کہ جس کے بغیر ناممکن ہے کہ ہم فی الواقعی ایک اسلامی ملت کے خطاب کے مستحق قرار پاسکیں۔

اسد کے نزدیک اخلاقی و معاشرتی اصلاح اور اسلامی تعلیمات اور اصول و اقدار کو دل و جان سے عزیز رکھنے والے افراد کی تیاری کے بغیر محض شرعی قوانین خصوصاً حدود و تعزیرات کے نفاذ سے اسلامی ریاست کے قیام کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسد کے الفاظ میں:

An Islamic State should be the result of Islamic consciousness, not beginning. If anyone think that an Islamic State will automatically make everyone in it a good Muslim, he is greatly mistaken. But if a people become good Muslims, then an Islamic State will fall to them like a riple plum from a tree.{ FR 998 }

قیامِ اسلامی ریاست کو شعوری ایمان (اذعان) کا ثمر و حاصل تصور کرنا چاہیے نہ کہ اس کا نقطۂ آغاز۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اسلامی ریاست اپنے اندر بسنے والے ہرہرفرد و بشر کو خود بخود ایک اچھا مسلمان بنا دے گی، تو وہ بہت بڑے مغالطے میں ہے۔ البتہ اگر عوام اچھے، نیک اور صالح مسلمان بن جائیں گے تب ایک اسلامی ریاست پکے ہوئے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گی۔

اسد کے نزدیک افراد معاشرہ میں سچے اسلامی احساس و شعور کی بیداری اور ان کے اخلاق و کردار اور طرزِ فکروعمل کو اسلامی رنگ میں رنگنے کا کام اسلامی تعلیمات کی اشاعت اور دعوتی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات و جرائد کے کردار کو بڑا مفید و معاون خیال کرتے ہیں۔ وہ مساجد کو خاص طور سے اسلامی تعلیمات کی اشاعت و تبلیغ اور عوام کی اخلاقی و روحانی تربیت کے مراکز بنانا چاہتے ہیں۔ وہ سرکاری ذرائع ابلاغ خصوصاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی اسلامی تعلیمات کی اشاعت کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسد بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ان اقدامات سے ملت کو اخلاقی پستی کے عمیق گڑھے سے باہر نکالا جاسکتا ہے اور اس کے افرادکے دل و دماغ میں حق وراستی اور پاکیزگی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں۔{ FR 999 }

اسد اصلاح اخلاق و معاشرت کے سلسلے میں بعض اخلاقی و اجتماعی مفاسد مثلاً شراب نوشی، قمار بازی اور قحبہ گری وغیرہ کا ریاستی قوت و طاقت سے انسداد چاہتے ہیں۔ وہ شراب نوشی کو قطعاً ممنوع اور عصمت فروشی کی ہر شکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک ان اجتماعی مفاسد کا قلع قمع نہیں ہوجاتا ہمارا معاشرہ کسی طور سے بھی اسلامی و اخلاقی نہیں قرار پاسکتا۔{ FR 1000 }

۲-نظام تعلیم کی اصلاح و تشکیل نَو: اگرچہ اسد مسلمان ملت کو بحیثیت مجموعی اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے روشناس کرانا ضروری سمجھتے ہیں، تاہم وہ نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کو بہت زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ اس غرض سے وہ نظام تعلیم کی تشکیل نو، اور نصابات کو اسلامی نظریۂ حیات سے ہم آہنگ کرنے اور ان میں اسلامی روح سمونے جیسے بنیادی اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ انھوں نے اسکولوں اور کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوان نسل کی اسلامی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جو اقدامات تجویز کیے وہ اس طرح سے ہیں:

الف: تمام اسکولوں اور کالجوں میں عربی زبان کی تدریس اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ اسد نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ’’اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بننا ہے تو مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر عربی زبان کی تعلیم و تدریس اور اشاعت مطلقاً ناگزیر ہے‘‘۔{ FR 1001 } 

اسی لیے اسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ مئی ۱۹۴۷ء میں عربی زبان کی تدریس سے متعلق تجویز پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر ہماری موجودہ سیاسی جدوجہد کا مطمح نظر اور نصب العین ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے، تب یہ امر انتہائی ضروری و اہم ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اسلامی تعلیمات سے واقفیت پیدا کریں۔ وہ قرآن اور احادیث رسول کے متن کو سمجھنے کی قابلیت و استعداد پیدا کریں۔ اس غرض سے ہر تعلیم یافتہ مسلمان کو عربی زبان میں قابلیت حاصل ہونی چاہیے۔ جب تک یہ تقاضا پورا نہیں کیا جاتا ہم اسلامی طرز معاشرت کے قیام میں کامیاب نہ ہوسکیں گے، نہ ملت کے تعلیم یافتہ افراد ان نظریاتی وفکری مسائل پر سوچ بچار اور بحث و گفتگو کے قابل ہوسکیں گے، کہ جن کا گہرا تعلق معاشرت اور معیشت و سیاست سے ہے۔ چنانچہ انھیں چاروناچار اسلام کے خود ساختہ شارحین کی تعبیرات و تشریحات پر انحصار کرنا پڑے گا، یا پھر انھیں اسلام کے بجائے کوئی اور راستہ، سیکولرازم وغیرہ، اختیار کرنا پڑے گا۔{ FR 1002 }

 عربی زبان کی تدریس محمد اسد کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ وہ اس کام کو قیام پاکستان تک مؤخر کرنے اور التوا میں ڈالنے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے سیاسی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ متحدہ ہندستان کے جن صوبوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں، وہاں کی قانون ساز مجالس ایک قانونی بل کو منظور کرکے ان صوبوں کے ہائی اسکولوں، کالجوں اور ایسے تعلیمی اداروں میں جو حکومت سے مالی امداد (گرانٹس) وصول کررہے تھے، عربی زبان کو ایک لازمی مضمون بنادیں۔ انھوں نے آغاز میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے ماہر اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے عرب ممالک سے اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے اور ملک میں عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے لیے اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے تربیتی اداروں کے قیام کی بھی تجویز پیش کی۔ ان کے خیال میں اس اقدام کی بدولت چند برسوں کے اندر اندر کثیر تعداد میں عربی زبان میں اعلیٰ استعداد اور مہارت کے حامل اساتذہ تیار کیے جاسکتے ہیں۔{ FR 1003 }

ب:اسد پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات کی تدریس چاہتے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلمان طالب علموں کے لیے اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ اسلامیات کی تعلیم میں قرآن و حدیث کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اعلیٰ جماعتوں میں اصول تفسیر و کتب تفسیر کا مطالعہ بھی ضروری ہوگا۔اسلامیات کی تدریس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ قرآن حکیم اور سنت رسولؐ کا فہم حاصل کرسکیں اور پھر نصاب کے آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے اس امر کو بھی جان لیں کہ مختلف فقہی مذاہب کا قرآن و سنت سے احکام کے اخذواستنباط کا اسلوب اور طریق کارکیا ہے؟ وہ اسلامیات کے نصاب میں اسلام کے ابتدائی عہد کی تاریخ کے مفصّل و تنقیدی مطالعہ کو شامل کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مزید برآں وہ عام فلسفہ کے علاوہ اسلامی فلسفہ و کلام کے مطالعے کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ { FR 1004 }

وہ اسلامیات کے نصاب کے آخری مرحلوں اور درجوں میں بحیثیت مجموعی اسلام کی اسکیم کا، معاشیات اور عمرانی علوم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عصری مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، تجزیاتی مطالعہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ اسد کی اس تعلیمی اسکیم کے مطابق اسلامیات کے نصاب کی آخری منزلوں میں اس امر کا التزام رکھا جائے گا کہ اسلام نے جو نظام حیات پیش کیا ہے، اس پر موجودہ زمانے کے ان مسائل کا لحاظ رکھتے ہوئے، جن کا تعلق معاشیات اور علوم اجتماعیہ سے ہے، ان پر گہری اور وسعت سے نظر ڈالی جائے۔{ FR 1005 } گویا کہ اسد کے نزدیک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لیے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی مقاصد کا از سر نو تعین کرتے ہوئے عربی اور اسلامیات کی تعلیم و تدریس کو تعلیمی نصابات کا ایک انتہائی مؤثر جزوبنادیں۔

ج: جدید اسلامی دارالعلوم:علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں محمد اسد ایک جدید اسلامی دارالعلوم کا قیام بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس تجویز کا باعث موجودہ روایتی دینی نظام تعلیم (دینی مدارس و جامعات کا تعلیمی نظام و طریق کار) سے ان کی بے اطمینانی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ دینی تعلیم کا روایتی نظام، عہد حاضر کی ضروریات اور تقاضوں سے میل نہیں کھاتا۔ دورِحاضر میں ملت کو اپنی عملی و اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور نت نئے فکری ونظریاتی مسائل، جن میں سے بہت سے جدید عمرانی علوم کی پیداوارہیں، ان کے حل میں جو رہنمائی درکار ہے وہ دینی تعلیم کا موجودہ نظام بہم پہنچانے سے قاصر ہے۔ اسد اسی نقطۂ نگاہ کے سبب سے دارالاسلام، پٹھان کوٹ کے اسلامی تعلیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعاون و اشتراک عمل پر آمادہ ہوئے تھے اور اس غرض سے انھوں نے علامہ محمداقبال اورسیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مل کر عملی کوششیں بھی کی تھیں۔{ FR 1006 }

محمد اسد پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ایک اعلیٰ پائے کے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھتے تھے۔ اس کا تخیّل انھوں نے ان الفاظ میں پیش کیا:

If Pakistan is to become a cuttural centre of the modern word of Islam - as she deserves to become by virtue of her great resources and her political position - we must posses in this country a central Dar-al-Ulum which would train outstanding Ulama for all purposes of the community... This academy should not only try to follow the example of the famous Al-Azher University of Egypt but also, if possible, introduce fresh elements to bring it into greater accord with the present requirements of life. To this end, the students shall receive thorough trainging in Qur'an, hadith, fiqh (of various schools of thought) and in the allied subjects, including old and modern Arabic literature; in addition to this, they should acquire that measure of general knowledge and awareness of contemporary developments, social and economic, which enable them to act - like the Ulama of the early period of Islam - as the real leaders of the community.{ FR 1026 }

اگر پاکستان کو جدید دنیائے اسلام کا ثقافتی مرکز بننا ہے، جیسا کہ اپنے زبردست وسائل اور سیاسی حیثیت کے اعتبار سے اس کا حق ہے، تو ہمیں اس ملک میں ایک مرکزی دارالعلوم قائم کرنا پڑے گا۔ جہاں ہماری علمی ضروریات کے لیے بڑے بڑے مقتدر علما پیدا ہوں۔ اس ادارے کو مصر کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ الازہر کے نقش قدم ہی پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ ممکن ہوا تو اس کے نصابات میں عہد جدید کے وہ عناصر تعلیم بھی داخل کردیے جائیں گے جو اس زمانہ کے مقتضیات کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا، اس دارالعلوم کے طلبہ کو قرآن، حدیث، فقہ اور علوم متعلقہ، جس میں قدیم و جدید عربی کا مطالعہ بھی شامل ہے، کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی اور اجتماعی علوم میں ہونے والی پیش رفت سے بھی اس حد تک باخبر رکھا جائے گا کہ وہ علمائے متقدمین کی طرح ملت کے حقیقی معنوں میں رہنما و پیشوا بن سکیں۔

اسد مجوزہ اسلامی دارالعلوم کا سربراہ جامعہ الازہر سے فارغ التحصیل کسی ایسے مصری عالم کو مقرر کرنا چاہتے تھے، جو وسیع النظر ہونے کے ساتھ ساتھ عصر جدید میں ملت اسلامیہ کو درپیش سیاسی و قانونی، معاشی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل سے واقفیت ہی نہیں بلکہ ان کا گہرا ادراک و شعور رکھتا ہو۔ اسد کے خیال میں اس طرح کی اہلیت رکھنے والے کسی فرد کا ہمارے روایتی علما کے طبقے سے میسر آنا محال تھا۔ { FR 1008 }

محمد اسد نے جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق اپنے تخیّل کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جنوری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کی حکومت پنجاب کو علما اور علوم شرقیہ کے ماہرین پر مشتمل ایک منصوبہ ساز کمیٹی (پلاننگ کمیٹی)، جس کا مقصد دارالعلوم سے متعلق تفصیلی تجاویز مرتب کرنا اور عملی اقدامات تجویز کرنا ہو، اس کے قیام کی تجویز پیش کی، جسے حکومت نے منظور کرلیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ [یکم جوری ۱۹۰۶ء-۱۸؍اکتوبر ۱۹۶۹ء] نے محمد اسد کو اس مجلس کا کنوینر مقرر کیا۔  اسد کو اس طرح کے کسی تعلیمی منصوبے کے بارے میں، خصوصاً جو حکومتی سطح پر قائم کیا جارہا تھا، روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کا بھی خدشہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے روایتی مذہبی طبقے کی طرف سے کسی مخالفت و مزاحمت سے بچنے کے لیے منصوبہ ساز کمیٹی کی سربراہی علامہ شبیر احمد عثمانی [۲۸ستمبر ۱۸۸۷ء-۱۳دسمبر ۱۹۴۹ء]کو پیش کی، جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ پھر دُوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسدنے بطور احتیاط مختلف مذہبی مکاتب فکر کے علما کو بھی اس مجلس میں شامل کیا،جب کہ جدید الخیال علما کو اس مجلس میں غالب حیثیت دینے سے گریز کیا۔{ FR 1009 }

جدید اسلامی دارالعلوم سے متعلق روایتی طبقۂ علما کی طرف سے مخالفت کے بارے میں اسد کے خدشات بالکل درست ثابت ہوئے۔اسد نے اسلامی دستور کا خاکہ پیش کرتے ہوئے قدیم فقہ کو ملکی قانون بنانے کے بجائے قرآن و سنت کے نصوص پر نئے سرے سے غور و فکر کرکے اجتہاد کو بروئے کار لاکر اسلامی قانون کی تدوین جدید کی ضرورت پر زور دیا تو بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ان کے اس نقطۂ نظر کی سخت مخالفت کی گئی۔ ان کے دستوری خاکے کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا گیا اور ان پر ’حنفیّت کو جڑ سے اکھاڑنے اور الحادو زندقہ پھیلانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت سے ان کے مجلہ عرفات کی اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں جمعیت علمائے پاکستان (بریلوی مکتب فکر کے علما و مشائخ کی جماعت) بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اس جماعت کے سربراہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری [۱۸۹۶ء-۲۰جنوری ۱۹۶۱ء] کی قیادت میں علما و مشائخ کے ایک وفد نے جنوری ۱۹۴۹ء میں افتخار حسین ممدوٹ وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور محمد اسد کے دستوری خاکے کو خلاف اسلام قرار دے کر اور مجلہ عرفات   کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا۔{ FR 1023 }

محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم سے یہ امر بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل کو بھی عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ جامعہ الازہر کے تعلیمی ماڈل میں نئے تعلیمی اجزا کی آمیزش سے ایک نیا تعلیمی ماڈل ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ وہ جدید دور میں ملت کی ذہنی و فکری رہنمائی کے لیے مطلوبہ اہلیت و استعداد کے حامل علما کی تیاری کے لیے ایک ایسی تعلیمی و تربیتی درس گاہ کا قیام چاہتے ہیں، جس کے نصابات میں قرآن و حدیث، فقہ اور عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ جدید عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس بھی شامل ہو۔

محمد اسد نے اسکولوں، کالجوں میں تدریس اسلامیات اور اسلامی دارالعلوم کے قیام اور اس کے نصابات سے متعلق جو تجاویز پیش کیں، وہ علامہ محمد اقبال کی ان تجاویز سے گہری مماثلت رکھتی ہیں، جو انھوں نے ۱۹۲۵ء میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسلامیات کی تدریس اور نصاب کی تدوین کے بارے میں پیش کی تھیں۔ علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے سیکرٹری صاحبزادہ آفتاب احمد خاں [۱۸۶۷-۱۹۳۰ء] کے نام ایک خط میں دورحاضر کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اعلیٰ پائے کے علما کی تیاری کی غرض سے علوم اسلامیہ کی تدریس و تعلیم کے لیے قدیم روایتی مدارس کے منہج پر کسی ادارے کے قیام کو نامناسب قرار دیا۔ انھوں نے ایک ایسے نئے طرز کے ادارے کے قیام کی تجویز پیش کی تھی، جس کے نصابات میں جدید سائنس اور فلسفہ کے علاوہ اقتصادیات اور عمرانیات کو بھی جگہ دی جائے۔ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء لکھنؤ کے تعلیمی نظام کے بہترین اجزا کے ساتھ جدید تعلیمی اجزا شامل کرکے اسلامیات کی تعلیم و تدریس کا ایک نیا نظام مرتب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔{ FR 1010 }

 علامہ محمد اقبال کے خیال میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے ایسے فضلا کو، جو فقہی و کلامی ذوق رکھتے ہوں، جدید فلسفہ و سائنس، اسلامی فرقوں کے نظام اعتقادات، مسلمانوں کے فلسفۂ اخلاق و مابعد الطبیعات، علم الکلام اور تفسیر، اصول فقہ، جدید اصول قانون (جورس پروڈنس) اور جدید معاشیات و عمرانیات سے متعلق مناسب تعلیم و تربیت دے کر ایسے عالم بنایا جاسکتا ہے، جو واقعی جدید دور میں ملت کی مناسب رہنمائی کرسکتے ہوں۔ { FR 1011 }

علامہ محمد اقبال نے اپنے مشہور مقالے ’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘ میں ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی اور دارالعلوم کے قیام کو ملت اسلامیہ کے اسلامی و تہذیبی بقا کے لیے ایک ناگزیر ضرورت قراردیا۔ علامہ کے الفاظ میں:

اسلامی یونی ورسٹی کے خیال کا ہمارے دل میں پیدا ہونا حقیقت میں ہماری قومی ہستی کے حق میں ایک مبارک علامت ہے۔ جب ہم اپنی قوم کی نوعیت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس قسم کے دارالعلم کی ضرورت میں شک اور شبہہ کی مطلق گنجایش نہیں رہتی بشرطیکہ یہ دارالعلم ٹھیٹھ اسلامی اصول پر چلایا جائے۔ مسلمانوں کو بے شک علوم جدید کی تیزپا رفتار کے قدم بہ قدم چلنا چاہیے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی تہذیب کا رنگ اسلامی ہو اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ایک ایسی یونی ورسٹی موجود نہ ہو، جسے ہم اپنی قومی تعلیم کا مرکز قرار دے سکیں۔ ہم کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کی تعلیمی اٹھان اسلامی نہیں ہے تو ہم اپنی قومیت کے پودے کو اسلام کے آبِ حیات سے نہیں سینچ رہے۔

ہندستان میں اسلامی یونی ورسٹی کا قائم ہونا ایک اور لحاظ سے بھی بہت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں، جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح سے اہل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مبلغ علم اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت ہی محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانہ کے واعظ کو تاریخ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اورتخیّل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔

الندوۃ، علی گڑھ کالج، مدرسہ دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کررہے ہیں اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم ہونا چاہیے۔ پس یہ امرقطعی طور پر ضروری ہے کہ ایک نیا مثالی دارالعلم قائم کیا جائے جس کی مسندنشین اسلامی تہذیب ہو، اور جس میں قدیم و جدید کی آمیزش عجب دلکش انداز سے ہوئی ہو۔{ FR 1024 }

محمد اسد کی اس تعلیمی اسکیم کو ایک جدید اسلامی یونی ورسٹی کا ’بنیادی اور عملی خاکہ‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔{ FR 1012 } اسکولوں اور کالجوں میں اعلیٰ پیمانے پر اسلامیات اور عربی زبان کی تدریس سے متعلق اسد کی تجاویز ایسی جان دار ہیں کہ اگر ان کو ٹھیک طور سے برسرعمل لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کو مغربی تعلیم کے فاسد اثرات سے کافی حد تک بچایا جاسکتا ہے، بلکہ ان کو گہرے طور سے اسلام کے اصول و تعلیمات اور اس کی تہذیب و تاریخ سے واقف کرایا جاسکتا ہے۔ مجوزہ دارالعلوم کا قیام پاکستان کے قانونی اور سیاسی و معاشی نظام کی اسلامی تشکیل کے لیے مطلوبہ علمی و فکری استعداد کے حامل افراد کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

 محمد اسد کی جدید اسلامی دارالعلوم کے قیام سے متعلق تجاویز اسلامی مدارس کے نظام تعلیم کی اصلاح کے سلسلے میں اپنے اندر رہنمائی کا سامان رکھتی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں پاکستان میں اسلامی مدارس کی اصلاح کے لیے متعدد اصحاب فکرونظر نے محمد اسد کی تجاویز سے ملتی جلتی تجاویز پیش کی ہیں۔ سنجیدہ علمی و فکری حلقوں میں اس امر کا گہرا احساس و شعور پایا جاتا ہے کہ سائنسی و عمرانی علوم کی تعلیم و تدریس کو روایتی اسلامی مدارس کے نصابات کا حصہ بنانا چاہیے، تاکہ ان مدارس کے فضلا روایتی دینی علوم میں درک رکھنے کے علاوہ جدید امور و مسائل سے بھی واقفیت پیدا کرسکیں۔{ FR 1013 }

۳- اسلامی قانون کی تدوین جدید: محمد اسد کے نقطۂ نگاہ سے کسی بھی معاشرے میں اسلام اس وقت تک غالب نہیں ہوسکتا، جب تک اس (اسلام) کے قانون، یعنی شریعت کو اس معاشرے کے قانونی نظام کی اساس نہ بنا دیا جائے۔{ FR 1014 } اسی وجہ سے وہ پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کو لازمی اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ازحد ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے تجزیے کے مطابق اسلامی قانون کی ترویج و تنفیذ کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسلامی قانون مرتب و مدون حالت میں موجود نہیں۔

اسد کے نزدیک قدیم عہد کے مرتب اور مدون کردہ فقہی مجموعے عصر جدید کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ جس زمانے میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں، اس وقت ایسے بہت سے مسائل پیدا نہیں ہوئے تھے، جو عصرحاضر میں سامنے آئے ہیں، اس لیے ان مسائل کا صریح جواب ان کتابوں میں نہیں ملتا۔ مزیدبرآں اجتماعی مسائل میں فقہا کے مابین جو اختلافات کا تنوّع پایا جاتا ہے، وہ جدید ذہن کے لیے پریشان فکری کا موجب ہے۔ پھر ان فقہی مجموعوں کی ترتیب و تدوین کا اسلوب بھی ایسا ہے کہ کسی بھی فقہی و قانونی معاملے کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے متعلقات تک رسائی صرف ایک ایسے فرد ہی کے لیے ممکن ہوسکتی ہے، جو اسلامی فقہ و شریعت میں گہرا درک رکھتا ہو۔ انھی وجوہ کی بناپر پر محمد اسد فقہی و قانونی سرمایہ کو جدید تعلیم یافتہ افراد کے فہم سے قریب تر لانے کے لیے اسلامی قانون کی تدوین جدید کو ناگزیر ضرورت خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف یہی ایک راستہ ہے، جس کو اختیار کرکے مغرب کے قانونی نظام کی تقلید سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔{ FR 1015 } محمد اسد نے اسلامی قانون کی تدوین جدید کا طریق بھی تجویز کیا۔{ FR 1016 }

محمد اسد کے نزدیک اسلامی قانون کی تدوین جدید کا کام جس قدر اہم اور ضروری ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ جس کے لیے طویل محنت و ریاضت اور اجتہادی بصیرت درکار ہے۔ پھر اس کام کے لیے مطلوبہ اجتہادی استعداد و قابلیت رکھنے والے علما، جو ایک طرف احکام شریعت سے گہری واقفیت رکھتے ہوں اور دوسری طرف زمانہ کے حالات و مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہوں، کی تعداد بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انھی اہداف کے لیے وہ ایک اعلیٰ پائے کے اسلامی دارالعلوم کے قیام کو ایک انتہائی اہم ملی ضرورت قرار دیتے ہیں کہ جہاں مطلوبہ استعداد و اہلیت رکھنے والے علما تیار کیے جاسکیں، جو اجتہاد اور اسلامی قانون کی تدوین جدید کا وظیفہ انجام دے سکیں۔{ FR 1017 }

محمد اسد بیک جُنبشِ قلم شریعت کے نفاذ کو قابلِ عمل خیال نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی رائے میں یہ کام بتدریج ہونا چاہیے۔ ان کے خیال میں اسلامی قانون کی مکمل طور پر تدوین اور پھر اس کی ٹھیک طور پرتنفیذ کے لیے دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔{ FR 1018 }  اسد نفاذ شریعت کے عمل کا آغاز حدود و تعزیرات کے قانون کے نفاذ و اجراء سے کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ وہ حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے قبل مسلم عوام کی اسلامی و اخلاقی تربیت کے لیے وسیع و مؤثر کوششوں کے علاوہ عدل اجتماعی کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہیں۔{ FR 1019 }

۴- اصلاحِ نظامِ معیشت: محمد اسد کے نزدیک شریعت کا منشا معاشی استحصال سے پاک ایک عادلانہ معاشرے کا قیام ہے۔ شریعت نے جو سماجی اور اقتصادی احکام دیے ہیں، ان کی غایت معاشرے کے تمام افراد کے لیے یکساں معاشی مواقع کی ضمانت فراہم کرنا ہے اور کمزور افراد و طبقات کو طاقت وروں کی طرف سے ہر قسم کے اقتصادی ظلم و استحصال سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کو اپنے قیام کے وقت جو معاشی نظام ورثہ میں ملا تھا، وہ بہت حد تک جاگیردارانہ اور ایک محدود حد تک سرمایہ دارانہ تھا۔ اسد کے نزدیک جاگیردارانہ نظام عوام کے معاشی استحصال کا ایک طاقت ور ذریعہ اور اجتماعی عدل و انصاف کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے خیال میں صدیوں سے مسلم اقوام کی اقتصادی بدحالی کا ایک بڑا سبب زرعی املاک کا چند ہاتھوں میں جاگیردارانہ ارتکاز رہا ہے۔

چنانچہ اسد جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو بہت ضروری خیال کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی جاگیروں کو ختم کرکے اور انھیں خلاف قانون قرار دے کر ان کا انصرام امداد باہمی کے اصول پر کرنا چاہتے ہیں۔زمین کی ملکیت کی حد مقرر کرکے جاگیرداروں کے پاس مقررہ حد سے زائد زمین کو بے زمین کسانوں اور کاشتکاروں میں تقسیم کرنے کے حامی ہیں۔ مزید برآں وہ معاشرے کے کمزور افراد کو طاقت وروں کی اقتصادی دھونس اور دھاندلی سے تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے نجی ملکیت کی تحدید بھی تجویز کرتے ہیں۔ وہ دولت کے ارتکاز کی حوصلہ شکنی کی غرض سے وراثت اور ترکے کی تقسیم اور زکوٰۃ سے متعلق شرعی احکام و قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے عشر و زکوٰۃ کے علاوہ دیگر محاصل کے اجراء و نفاذ کا حق و اختیار بھی تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ سود کے لین دین، تجارتی سٹہ، اجارہ داری اور قابل فروخت اشیا کی ذخیرہ اندوزی جیسی قبیح اقتصادی سرگرمیوں کا مکمل طور پر انسداد چاہتے ہیں۔{ FR 1020 }

محمد اسد نے نظام معیشت کو اسلامی اصول و اقدار پر استوار کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اسلامی تحقیقاتی ادارے کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ ان کی رائے میں اس ادارے سے منسلک ماہرین شریعت اور ماہرین معیشت کا وظیفہ یہ ہو کہ وہ کتاب و سنت کے نصوص کی روشنی میں بعض جدید معاشی امور و مسائل مثلاً بنک کاری، بیمہ، قرضوں کا لین دین، اجتماعی مقاصد کے لیے نجی املاک میں تصرّف کا حق اور زرعی اصلاحات، جس میں زمینوں کی قومی تحویل و تقسیم نو کا سوال بھی آجاتا ہے، وغیرہ مسائل کی تحقیق کرے اور ان مسائل کے متعلق شرعی نقطۂ نظر کی وضاحت کرے۔ یہ ادارہ اس امر کی بھی وضاحت کرے کہ ہم اپنی موجودہ معاشی سرگرمیوں اور ضروریات کو اس اجتماعی نظام کے مطابق کیسے ڈھال سکتے ہیں جو اسلام کے پیش نظر ہے؟ یہ ادارہ اس امر سے متعلق بھی عملی تجاویز مرتب کرے کہ ہماری معاشی زندگی میں ازروئے اسلام کس طرح صحیح نشوونما ہوسکتی ہے؟{ FR 1021 }

مراد یہ ہے کہ اسد نہ تو جاگیردارانہ نظام کو ملت کے مفاد میں خیال کرتے ہیں اور نہ جدیدمغربی سرمایہ دارانہ نظام کی من و عن اسلامی ریاست میں ترویج کے حق میں ہیں، بلکہ وہ ملّی ضروریات کے مطابق نظام معیشت کی اسلامی تشکیل (Islamization) کے حامی و علَم بردار ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام معیشت اپنانے کی تجویز پیش کرتے ہیں، جو زور آور اور زردار طبقے کے ہاتھوں کمزور طبقات کے ہر نوع کے استحصال کی لعنت سے پاک ہو اور اجتماعی عدل کے قیام میں معاون ہوسکتا ہو۔

نفاذِ شریعت : ترجیحات

پاکستان کی اسلامی تشکیل کے بارے میں محمد اسد کی مجوزہ اسکیم اور لائحہ عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شریعت کا ایک بڑا واضح تصوّر رکھتے ہیں۔ شریعت ان کے نزدیک صرف تعزیراتی قوانین کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لیے ایک مثبت اور جامع پروگرام بھی ہے۔ ان کے نزدیک شریعت کا مقصد و منتہائے نظر انسانیت کی فلاح اور معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ شریعت کے ٹھیک ٹھیک طور پر نفاذ سے مسلم معاشرے میں صدیوں سے موجود بگاڑ و فساد اور عدم توازن کو دور کیا جاسکتا ہے۔ شریعت کی بنیاد پر عدل اجتماعی اور اقتصادی مساوات کو قائم کیا جاسکتا ہے۔ محمد اسد شریعت کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ایک مکمل و ہمہ گیر انقلاب لانے کا منصوبہ تجویز کرتے ہیں اور پاکستانی معاشرے کو اسلام کی اخلاقی و رُوحانی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔

شریعت کے نفاذ و اجراء کے معاملے میں ایک بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہے کہ اس کی ابتدا کہاں سے کی جائے؟ موجودہ وقت میں شریعت کے نفاذ کے لیے کون سی ترجیحات ہوں؟ کیا اس کی ابتدا معاشی و اجتماعی عدل کے قیام اور اخلاقی و معاشرتی اصلاح سے کی جائے یا تعزیرات و حدود کے اجراء و نفاذ سے؟ محمد اسد نے اس بات کو صاف کردیا ہے۔ ان کی رائے میں اس کام کی ابتدا اخلاقی و دینی تربیت، معاشرتی اصلاح اور معاشی عدل و انصاف کے قیام سے کی جائے۔ اس کا آغاز ہرگز طور پر حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ سے نہ کیا جائے۔

 حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کی غرض سے اسد نے جو ترجیحات مقرر کی ہیں، ان میں اخلاقی انحطاط و علمی زوال کا ازالہ اور معاشی و سماجی ناہمواریوں اور ظلم و استحصال کے جملہ مظاہر کے انسداد کو حدود و تعزیرات کے اجراء و نفاذ پر بہرحال فوقیت حاصل ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں بعض مسلم ممالک (بشمول پاکستان) میں اسلامائزیشن کی طرف جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے،  اس میں اصلاح معاشرت، عوام کی اخلاقی و دینی تربیت اور سماجی و معاشی عدل کے قیام کے بجائے حدود و تعزیرات اور بعض دوسرے سطحی اقدامات پر زیادہ زور صرف کیا گیا ہے۔ محمد اسد اس کو درست حکمت عملی تصور نہیں کرتے۔(Asad, Law of Ours, "Author's Note", p.3.)

پاکستان کی اسلامی تشکیل سے متعلق محمد اسد کے اس لائحہ عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملی زندگی کے بگڑے ہوئے ڈھانچے کو سنوارنے اور اسے اسلامی نمونے پر ڈھالنے کے لیے وہ اجتماعی زندگی کے جملہ شعبوں کی تعمیر نو چاہتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں تعلیم، قانون اور معیشت کے شعبے ایسے ہیں جو کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور جن کی اصلاح و تشکیلِ نو از حد ضروری ہے۔ تاہم، ان کے نزدیک دینی تعلیم و تربیت اور معاشرتی و اخلاقی اصلاح کا کام ان سب پر مقدم ہے۔(مکمل)

 

تحریک پاکستان کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر زعمانے پاکستان کی مسلم ریاست کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے ابدی اصولوں سے رہنمائی لینے اور قرآن و سنت کو اس مملکت کا دستور بنانے سے متعلق بیانات و اعلانات کے باوجود مجوزہ اسلامی ریاست کی وضع و ہیئت اور خط و خال واضح نہ کیے جاسکے۔  ایک بھرپور جدوجہد، بعض مؤثر مسلم علما اور سیاسی لیڈروں کی جانب سے مزاحمت اور چاروں طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا کرتے ہوئے مجوزہ ریاست کے دستور اور اس کے سیاسی نظام العمل کی تدوین کی طرف سیاسی قیادت خاطر خواہ توجہ نہ دے سکی۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص پر بھی ایک اسلامی مملکت کے دستور اور اس کے سیاسی نظام کا نقشہ واضح نہ ہوسکا، بلکہ اس معاملے میں بعض ذہنوں میں فکری ابہام پایا جاتا تھا۔ جے ونڈرؤ سویٹ مین نے اس وقت پاکستان میں ریاست کی تشکیل کے بارے میں پائے جانے والے اس فکری الجھاؤ کے بارے میں لکھا ہے:

…there is wide interest in rethinking and reshaping the form of the state, nevertheless there is, for the most part, no clear definition of what an Islamic State in fact is.

[مملکت پاکستان] کی تشکیل و تعمیرنو کے بارے میں بہت وسیع حلقوں میں دلچسپی پائی جاتی ہے، لیکن ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خط و خال کیاہوں، اس سے بہت سے حلقے شناسا نہیں ۔

اسلامی دستور سے متعلق فکری ابہام کے بارے اشتیاق حسین قریشی کا بیان ملاحظہ ہو:

What is an Islamic constitution?? Than, if we take up the question of an Islamic constitution,  what do we mean by it?? Are we thinking of the principles on which an Islamic polity should be based, or of the corpus of the rulings and principles built up by the jurists of Islam and based on the analogy of the Caliphate as it existed in its primeval and classical forms, or of the constitutions of such modern nation states as call themselves Muslim?? There is so much confusion in the minds of the Muslim peoples themselves on these questions.

اسلامی دستور سے کیا مراد ہے؟ کس نوع کے دستور کو اسلامی کہا جائے؟ جب ہم اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ کیا اس سے ہماری مراد ایسے اصول و ضوابط ہیں، جن پر ایک اسلامی نظام مملکت و حکومت کو استوار ہونا چاہیے یا پھر اس سے مراد وہ فقہی و قانونی ذخیرہ مراد ہے، جو ہمارے فقہا نے زمانۂ قدیم کے نظامِ خلافت کے اَطوار و اوضاع پر قیاس کرتے ہوئے وضع کیا یا اسے دورِ جدید کی مسلمان ریاستوں کے دساتیر پر استوار ہونا چاہیے؟ اس بارے میں مسلمانوں کے ذہنوں میں خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔

اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی و معاشی اور تعلیمی و معاشرتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے آزادی سے قبل جو چند ایک اقدامات اٹھائے گئے تھے، وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم ’صوبہ جات متحدہ‘ (UP) مسلم لیگ نے اٹھایا تھا۔ جس نے [غالباً] ۱۹۳۹ء کے اواخر میں نواب محمد اسماعیل خان (۱۸۸۶-۱۹۵۸ء) کی صدارت میں یہ تحریک منظور کی کہ منتخب علما کی ایک مجلس سے ایک مستند ومفصل ’نظام نامہ حکومتِ اسلامی‘ مرتب کرایا جائے۔ چنانچہ نواب سر محمداحمد سعید خان چھتاری (۱۸۸۸ء-۱۹۸۲ء) کی صدارت میں چند علما و اہل دانش پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی، جس کے ارکان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی(۱۹۰۳ء- ۱۹۷۹ء)، مولانا آزاد سبحانی (۱۸۸۲-۱۹۵۷ء) مولانا شبیر احمد عثمانی (۱۸۸۵ء-۱۹۴۹ء)، مولانا عبدالحامد بدایونی (۱۹۰۰- ۱۹۷۰ء)، ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۹۷ء-۱۹۶۹ء) اور مولانا عبدالماجد دریابادی (۱۸۹۲-۱۹۷۸ء) وغیرہ شامل تھے۔ علّامہ سید سلیمان ندوی (۱۸۸۴-۱۹۵۳ء) کو اس کمیٹی کا داعی (کنوینر) مقرر کیا گیا۔

یہ کمیٹی ’مجلس نظام اسلامی‘کہلاتی تھی۔ مجلس کے داعی سیّد سلیمان ندوی نے مولانا ابوالبرکات عبدالرؤف دانا پوری (۱۸۸۴-۱۹۴۸ء)، ڈاکٹر سید ظفرالحسن (۱۸۷۹ء-۱۹۴۹ء)، صدر شعبۂ فلسفہ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، مولانا مناظر احسن گیلانی (۱۸۹۲-۱۹۵۶ء) اور مولانا شبیر احمد عثمانی کو خطوط لکھے اور ان کو اسلامی دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی غرض سے تجاویز پیش کرنے کا کہا۔

سید صاحب نے جن اصحاب علم و نظر کو خطوط لکھے تھے، ان میں سے صرف چار افراد، مولانا عبدالماجد دریابادی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد سبحانی نے دستوری خاکے مرتب کرکے ارسال کیے۔ ان خاکوں کی مدد سے مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے ایک مسودہ ۱۹۴۵ء میں تیار کیا جو سید سلیمان ندوی اور نواب محمد احمد سعید چھتاری کی دلچسپی اور خواہش کے باوجود ۱۹۵۷ء سے قبل چھپ کر منظر عام پر نہ آسکا۔

پاکستان کی مسلم ریاست کے لیے مرتب کیے گئے، اس اسلامی دستور و سیاسی نظام نامہ سے منسوب کتاب اسلام کا سیاسی نظام پر سید مودودی نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا:

زیر نظر کتاب [میں] …اصل مسئلہ کی تحقیق بہت حد تک صحیح ہے، لیکن سائنٹی فک نہیں ہے… ایک بڑی خامی یہ نظر آتی ہے کہ اسلامی اسٹیٹ کے نظام اور دستور العمل پر کس قدر تفصیلی نگاہ [تو] ڈالی گئی ہے، لیکن ہر پہلو تشنہ، غیر مرتّب اور غیر مدلّل ہے۔ تیسری کمی یہ ہے کہ اصطلاحات کے استعمال اور طرز بیان میں علم السّیاست کی زبان سے کافی مدد نہیں لی گئی ہے، اس کا لحاظ بہت ضروری ہے۔ مجموعی طور پر کتاب اچھی، پر از معلومات اور قابل مطالعہ ہے۔

اس سلسلے میں دوسرا اہم اقدام جو تحریک پاکستان کے دنوں میں مستقبل کی مجوزہ مسلم ریاست ’پاکستان‘ کے لیے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی، تعلیمی، معاشی اور دستوری و سیاسی نظام مرتب و مدوّن کرنے کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے اٹھایا گیا، وہ اس کے سالانہ اجلاس منعقدہ کراچی (دسمبر ۱۹۴۳ء) میں ایک ’پلاننگ کمیٹی‘ کا قیام تھا۔ تاہم، اس کمیٹی کی ترکیب و تشکیل اور اس کی کارگزاری کبھی سامنے نہ آسکی۔ اس سے قبل مسلم لیگ کے تیسویں اجلاس منعقدہ ۲۴-۲۶؍اپریل ۱۹۴۳ء ، بمقام دہلی، کے موقع پر آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں قرار پایا تھا کہ چند مستند ماہرین اسلام کی ایک مجلس ’مجلس تعمیر ملّی‘ قائم کی جائے، جو قرآن شریف کو سامنے رکھ کر قومی زندگی کے مسائل پر نظر ڈالے اور ایک اسلامی ریاست کا خاکہ بنائے لیکن یہ مجلس قائم نہ ہوسکی تھی۔

 آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیٹی آف رائٹرز (مسلم لیگ کے رکن اور حامی دانش وروں کی کمیٹی) نے بھی ۱۹۴۶ء میں مجوزہ مسلم مملکت پاکستان کو مستقبل میں درپیش مسائل کے جائزے، اس کے سیاسی نظام کی تدوین اور اس کی صنعتی و اقتصادی اور تعلیمی ترقی کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی سعی کی تھی اور مختلف اُمور و مسائل پر کتابچے (۱۲ عدد) شائع کیے تھے۔ اس کمیٹی کے ایک ممتاز رکن ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی (۱۹۰۲-۱۹۸۱ء)، جو بعد میں وزیر تعلیم اور کراچی یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہوئے، انھوں نے اپنے کتابچے The Future Development of Islamic Polity میں پاکستان کی ریاست و حکومت کی تعمیروتشکیل میں اسلام کے کردار و حیثیت کی وضاحت کی سعی کی تھی۔  تاہم، ڈاکٹر قریشی اس ضمن میں کوئی مربوط اسکیم پیش نہ کرسکے۔ خالد بن سعید کی رائے ہے کہ اس کتابچے میں کوئی گہرائی موجود نہ تھی اور شاید یہ بڑی عجلت میں لکھا گیا تھا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے علاوہ آل انڈیا سنّی کانفرنس (بریلوی مکتب فکر کے علما کی تنظیم، قائم:۱۹۲۵ء) نے اپنے اجلاس بنارس (۲۷-۳۰؍اپریل ۱۹۴۶ء) میں اسلامی حکومت کے لیے ایک مکمل و مفصل لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھیاس کی کارگزاری بھی منظرعام پر نہ آسکی۔ البتہ آل انڈیا سنی کانفرنس نے ۱۳، اکابر علما پر مشتمل ’اسلامی حکومت کے مکمل لائحہ عمل‘ مرتب کرنے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کے ایک سربرآوردہ رکن مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی(۱۸۸۳-۱۹۴۸ء) نے ۱۹۴۸ء میں اسلامی دستور کے خاکہ کے لیے چند دفعات مرتب کی تھیں۔

یہ مجوزہ دستوری خاکہ ایک حقیقی شورائی اسلامی حکومت کی بنیاد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ اس میں امیر کو مطلق العنان کی سی حیثیت تجویز کی گئی تھی۔

اسلامی دستور کی تدوین  میں مشکلات

اسلامی دستور کی تدوین میں تاخیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اہل علم و فکر کو بھی یہ کام دِقّت طلب دکھائی دیتا تھا۔ یوپی مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے قائم کی گئی، ’مجلس نظام اسلامی‘ کے صدر سید سلیمان ندوی نے اس مجلس کے ایک رکن مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ایک خط (۹جنوری ۱۹۴۰ء) میں لکھا:آپ کے ذہن میں سیاسیاتِ اسلامی کا جو نقشہ ہو، اس کو قلم بند فرما کر عنایت فرمائیں۔ کام بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے۔

یہ مشکلات کس نوعیت کی تھیں؟ اس کی نشان دہی اسلام کے نظام سیاست و حکومت کی توضیح و تشریح کرنے والے دو ممتاز علما مولانا حامد الانصاری غازی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کی ہے۔ مولانا حامد الانصاری کی رائے میں مشکل یہ تھی کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اسلام کے نظام حکومت کا کوئی مکمل خاکہ مرتب نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں نے سالہاسال سے اجتماعی میدان کو دوسری طاقتوں کے ہاتھ میں چھوڑ رکھا تھا۔

 علمی دائرہ میں الہٰیات کی درس و تدریس علما کا نصب العین تھا۔ اس کے لیے انھوں نے قابل تعریف کوشش کی، لیکن ان کے افکارو اعمال کی جولانگاہ میں اجتماعیات کو وہ درجہ حاصل نہ ہوسکا جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں (خلفائے راشدین) کے جہادِ حق سے حاصل ہوا تھا۔

 خلافت راشدہ ؓکے بعد مسلمانوں کے دور حکومت نے فرماںروائی کا جو نقشہ تیار کیا، اس نے اسلامیت کی حقیقت پر پردہ ڈال دیا۔ علما کو جزئی قوانین کا وسیع میدان ملا، جس میں انھوں نے شاندار، قابل تعریف اور یاد گار کارنامے کرکے دکھائے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت و سلطنت کے متعلق خلافت نبوی اور ریاستِ عامہ کے جو اصول و احکام تھے، وہ آنکھوں سے اوجھل اور علم و تحقیق کی دسترس سے باہر ہوگئے۔ یہاں تک کہ صدیوں سے اس طرف کافی توجہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ چنانچہ اس زمانے تک کسی کتب خانہ میں کوئی کتاب ایسی نہیں، جس کو گزشتہ چند صدیوں کے مطالبہ کے جواب میں پیش کیا جائے اور جس کو اسلام کے مکمل دستور حکومت کا نام دیا جاسکے۔

جہاں تک اسلامی دستور کے مآخذ (قرآن مجید، سنت ِرسولؐ ، تعامل خلفائے راشدین، اجماع اور مجتہدین امت کے فیصلے) کا تعلق ہے تو بلاشبہہ یہ سب تحریری شکل میں موجود تھے، تاہم ان مآخذ سے قواعد اخذ کرکے ان کو دستور کی شکل دینے میں چند مشکلات اور دِقّتیں حائل تھیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ان مشکلات کا جائزہ ان الفاظ میں پیش کیا:

۱-    اصطلاحات کی اجنبیت: سب سے پہلی دقّت زبان کی ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہ میں احکام کو بیان کرنے کے لیے جو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں، وہ اب بالعموم لوگوں کے ناقابل فہم ہوگئی ہیں، کیونکہ ایک مدت دراز سے ہمارے ہاں اسلام کا سیاسی نظام معطل ہوچکا ہے، اور ان اصطلاحوں کا چلن نہیں رہا ہے۔قرآنِ مجید میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن کی ہم روز تلاوت کرتے ہیں، مگر یہ نہیں جانتے کہ یہ دستوری اصطلاحات [بھی] ہیں، مثلاً: سلطان، ملک، حکم، امر، ولایت وغیرہ۔

۲-    قدیم فقہی لٹریچر کی نامانوس ترتیب: دوسری دقت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں، بلکہ دستور اور قوانین ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ پھر ان کی زبان اور اصطلاحات آج کل کی رائج اصطلاحوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ جب تک کوئی شخص قانون کے مختلف شعبوں، اور ان کے مختلف مسائل پر کافی بصیرت نہ رکھتا ہو، اور پھر عربی زبان سے بھی بخوبی واقف نہ ہو، اس کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کہاں قانونِ ملکی کے درمیان قانونِ بین الاقوام کا کوئی مسئلہ آگیا ہے، اور کہاں پرسنل لا کے درمیان دستوری قانون کے مسئلے پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ پچھلی صدیوں کے دوران میں ہمارے بہترین قانونی دماغوں نے غایت درجہ بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس چھوڑی ہوئی میراث کو چھان پھٹک کر ایک ایک قانونی شعبے کے مواد کو الگ الگ کرنا اور اسے منقح صورت میں سامنے لانا ایک بڑی دیدہ ریزی کا کام ہے۔

۳-    نظام تعلیم کا نقص: تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم ایک کافی مدت سے بڑی ناقص ہورہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں دینی علوم پڑھتے ہیں، وہ موجودہ زمانے کے علم السیاست اور اس کے مسائل اور دستوری قانون اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات سے بے گانہ ہیں۔ ان کے لیے اس وقت کے سیاسی و دستوری مسائل کو آج کل کی زبان اور اصطلاحوں میں سمجھنا اور پھر ان کے بارے میں اسلام کے اصول و احکام کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو زندگی کے جدید مسائل سے تو واقف ہیں، مگر وہ دستور اور سیاست اور قانون کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں، مغربی تعلیمات اور مغرب کے عملی نمونوں ہی کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ قرآن اور سنت اور اسلامی روایات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے، جو ایک صحیح اسلامی دستور کی تدوین میں حارج ہورہی ہے۔

غرض یہ کہ اس وقت وہ مذہبی طبقہ جو اسلامی نظام کی فکری اساس کے لیے قرآن و حدیث سے حوالے پیش کرسکتا تھا وہ تو موجود تھا، عوام میں اس نظام کے لیے جذبہ اور خواہش بھی موجود تھی لیکن وہ طبقہ جو دور جدید کے لیے اسلامی نظام کی عملی، آئینی، سیاسی و معاشی اور انتظامی صورت متعین کرسکتا، وہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ چنانچہ جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت نہ تو اسلامی دستور مرتب شدہ حالت میں کہیں موجود تھا اور نہ اس وقت کی سیاسی قیادت ہی کو اس کی فوری ضرورت و اہمیت کا کوئی شعور و ادراک تھا۔ سیاسی قیادت کی غفلت و کوتاہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ’’معاصر دنیا کے تقاضوں اور خود اسلام کی حقیقی تعلیمات کے حوالے سے لیگی قیادت ذہنی افلاس کی گرفت میں تھی اور وہ ان امور و مسائل میں علمی و فکری سطح پر کوئی معقول موقف اختیار کرنے کی اہلیت سے عاری تھی‘‘۔ چنانچہ عوام تو کجا خواص کے ذہنوں میں بھی اسلامی دستور اور نظام حکومت کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا۔

محمد اسد نے اسلامی دستور اور نظام حکومت کے بارے میں خواص و عوام کے ذہنوں میں پائے جانے والے فکری ابہام کے بارے میں لکھا:

At that time, I was Director of the Department of Isamic Reconstruction.... among the problems which preoccupied me most intensely was, naturally enough, the question of the future constitution of Pakistan. The shape which that constitution should have was then, as it is now, by no means clear to everybody. Although the people of our country were, for the most part, imbued with enthusiasm for the idea of a truly Islamic State - that is a state based (in distinction from all other existing political groupments) not on the concept of nationality and race but solely on the ideology of Qur'an and Sunnah - they had as yet no concrete vision of the methods of government and of the institutions, which would give the state a distinctly  Islamic character and would, at the same time, fully correspond to the exigencies of the present age. Some elements of the populaton naively took it for grauted that, in order to be genuinely Islamic, the government of Pakistan must be closely modeled on the forms of the early caliphate, with an almost dictatorial position to be accorded to the head of the state, utter conservatism to all social forms (including a more or less complete seclusion of women), and a patriarchal economy, which would dispense with the complicated financial mechanism of the twentieth century and would resolve all the problems of the modern welfare state through the sole instrumentatity of the tax known as Zakat. Other sectors - more realistic but perhaps less interested in Islam as a formative element in social life - visualised a development of Pakistan on lines indistinguishable from those commonly accepted on valid and reasonable to the parliamentary democracies of the moder West, with no more that than a formal reference to the wording of the constitution to Islam as the "religion of the state" and possibly, the establishment of a "Ministry of Religious Affairs" as a concession to the emotions of the overwhelmin majority of the population.

اس زمانے میں [۱۹۴۷-۱۹۴۸ء] جو مسائل میرے دل و دماغ پر حد درجہ چھائے ہوئے تھے، طبعاً ان میں سے ایک مسئلہ پاکستان کے آئندہ دستور کا بھی تھا۔ اس زمانے میں اکثروبیشتر لوگوں پر یہ امر واضح نہ تھا کہ [اسلامی] دستور کی وضع و ہیئت کیا ہونی چاہیے؟ اگرچہ ہمارے ملک [پاکستان] کے باشندوں کی اکثریت حقیقی اسلامی مملکت کے تصور سے سرتاپا متأثر تھی، یعنی چاہتی تھی کہ ایک مملکت نسل و قومیت کے تصورات پر نہیں بلکہ خالصتاً قرآن و سنت کے نظریات پر تعمیر کی جائے۔ تاہم، وہ اپنے ذہنوں میں ایک ایسی مملکت جو عملاً واضح طور پر اسلامی ہو اور ساتھ ہی دور حاضر کے تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک طور پر پورا کرسکے، کی حکومت اور اس کے اداروں کے اوضاع و اطوار کے بارے میں کوئی واضح تصوّر نہ رکھتے تھے۔ آبادی کے بعض عناصر سادہ لوحی سے سمجھے بیٹھے تھے کہ حقیقی اسلامی مملکت بننے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کا نظام ابتدائی عہد کی خلافت کے عین مطابق ہو۔ رئیس مملکت کو تقریباً وہی کُلّی اختیارات سونپ دیے جائیں۔ ویسا ہی بالکل ابتدائی اسلامی دور کا اقتصادی نظام بیسویں صدی کے پُرپیچ سلسلۂ نظم و نسق مالیات و معیشت کی جگہ لے لے اور یہ کہ دور حاضر کی فلاحی مملکت کے تمام مسائل صرف ایک محصول (Tax) یعنی محصول زکوٰۃ کی بنا پر حل ہوجائیں گے۔ دوسرے طبقے کے لوگ جنھیں اسلام کو اجتماعی زندگی میں ایک کارفرما عامل بنالینے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ پاکستان کے سیاسی و دستوری نظام کا نشو و ارتقا ان اصولوں پر ہوگا، جنھیں دور حاضر کے مغرب کی پارلیمانی جمہوریتوں میں مشترکاً درست و معقول مانا جاتا ہے اور ان دونوں میں بجز اس کے کوئی فرق نہ ہوگا کہ ہمارے دستور میں رسماً لکھ دیا جائے گاکہ ’’مملکت کا مذہب اسلام ہے‘‘ اور آبادی کی بہت بڑی اکثریت کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ایک وزارتِ مذہبی امور قائم کردی جائے گی-

غرضیکہ اس وقت ضرورت ایسے دستوری خاکے کی تھی جو ایک طرف حقیقی معنی میں اسلامی ہوتا، دوسری طرف عصر حاضر کے تمام عملی تقاضوں کو اس میں پیش نظر رکھا جاتا اور جس میں افراط و تفریط کے مذکورہ دو نظریوں کے درمیان توافق پیدا کیا جاتا۔ اس اہم علمی و فکری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بانی جماعتِ اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور محمد اسد نے قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں مفکرین نے اسلام کے سیاسی نظریے کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابل فہم ہوسکے۔ دونوں نے اسلامی دستور کے بنیادی اُصول کو منقح کرکے پیش کیا اور موجودہ زمانے کے حالات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ان کے عملی طور پر اطلاق و انطباق کی صورتوں کی نقشہ گری بھی کی۔

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تو، جو اقامتِ دین و حکومتِ الٰہیہ کی دعوت لے کر اٹھے تھے، ۱۹۳۹ء سے ہی اسلامی ریاست /حکومتِ الٰہیہ کے نظریے کی توضیح و تشریح اور اس کے عملاً قیام کی دعوت کو اپنی علمی و فکری جدوجہد کا خصوصی میدان بنالیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریروں خصوصاً جدید تعلیم یافتہ افراد کے اجتماعات سے اپنے خطابات میں ’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ (جلسۂ انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈ، لاہور، اکتوبر ۱۹۳۹ء)، ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ (اسٹریچی ہال، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، ۱۲؍ستمبر ۱۹۴۰ء)، ’’اسلامی قانون اور پاکستان میں اُس کے نفاذ کی عملی تدابیر‘‘ (لاء کالج، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور، ۶جنوری و ۱۹فروری۱۹۴۸ء)، ’’اسلام کا سیاسی نظام‘‘ (ریڈیو پاکستان، لاہور، فروری۱۹۴۸ء) اور ’’اسلامی دستور کے بنیادی اُصول‘‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن، ۲۴نومبر ۱۹۵۲ء) جیسے موضوعات و مسائل پر تسلسل کے ساتھ اظہارِ خیال کیا۔

مولانا مودودی نے ان تقریروں اور خطبات میں اسلامی ریاست کے بنیادی نظریے اور اُس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا تاکہ وہ اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ سید مودودی کا مطمح نظر ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو اسلامی ریاست کے نظریے سے محض واقف کرانا ہی نہیں بلکہ انھیں اس کے عملاً قیام کا قائل اور طالب بنانا تھا۔ ۱۹ فروری ۱۹۴۸ء کو لا کالج (پنجاب یونی ورسٹی، لاہور) میں اپنی تقریر میں انھوں نے اسلامی ریاست کے قیام کے حق میں آواز اٹھائی اور ملک کی مجلسِ دستور ساز سے اسلامی دستور کا مطالبہ کیا۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ مجلس دستور ساز ایک قرارداد کے ذریعے واضح طور پر یہ اعلان کرے کہ:

       ۱-    پاکستان کی بادشاہی [حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ] اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور حکومتِ پاکستان کی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی اس کے ملک میں پوری کرے۔

       ۲-    پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔

       ۳-    وہ تمام قوانین جو اسلامی شریعت کے خلاف اب تک جاری رہے ہیں، منسوخ کیے جائیں گے اور آیندہ ایسا قانون نافذ نہ کیا جائے گا جو شریعت کے خلاف ہو۔

       ۴-    حکومتِ پاکستان اپنے اختیارات اُن حدود کے اندر استعمال کرے گی جو شریعت نے مقرر کردی ہیں۔

سید مودودی نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے مطالبۂ دستورِ اسلامی کو نقطۂ آغاز کی حیثیت سے منتخب کیا تھا۔ چنانچہ اپریل ۱۹۴۸ء سے انھوں نے اس مطالبہ کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ملک گیر مہم کا آغاز کیا۔ سید مودودی کی اس دستوری جدوجہد اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈاکٹر عمر حیات ملک جیسے ارکانِ مجلس دستور ساز کی مساعی کے نتیجے میں مجلس دستور ساز نے مارچ ۱۹۴۹ء میں قرار داد مقاصد منظور کی، جسے بعد میں پاکستان کے دستور کے رہنما اصولوں اور اُس کے دیباچہ (Preamble) کی حیثیت حاصل ہوئی۔ مطالبہ دستورِ اسلامی کے حق میں سید مودودی کی عملی سیاسی جدوجہد نے ۱۹۵۶ء کے دستور میں اسلامی اصولوں کو منوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اسلامی دستور کے خاکے کی تدوین

سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کی سیاسی تعلیمات کی توضیح و تشریح کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، بلاشبہہ وہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ مملکتِ پاکستان کے لیے اسلامی دستور کے خاکہ کی تدوین کے معاملے میں محمد اسد کو تقدّم و سبقت حاصل ہے۔ محمد اسد نے ۳جون ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند کے منصوبہ کے اعلان کے ساتھ ہی مجلہ عرفات (Arafat) میں اسلام کے نظریۂ ریاست اور اسلامی دستور کے بنیادی اُصول پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب وہ محکمۂ احیائے ملتِ اسلامیہ (Department of Islamic Reconstruction)، کے ناظم مقرر ہوئے تو پاکستان کی اسلامی تشکیل کے لائحہ عمل بالخصوص ایک اسلامی دستوری خاکہ کی تدوین ان کی علمی و فکری کارگزاریوں کا ہدف ٹھیرا۔ چنانچہ ایک ایسے وقت میں ،جب کہ اسلامی دستور کا کوئی نمونہ موجود نہ تھا محمد اسد نے اس اہم اور مشکل و دقَّت طلب کام کا از خود بیڑا اٹھایا اور اسلامی دستور اور اسلام کے سیاسی نظام کا ایک مفصل خاکہ مرتب کیا، جسے مارچ ۱۹۴۸ء میں محکمۂ احیائے ملت اسلامیہ کی طرف سے شائع کراکے عوام کے سامنے پیش کیا۔

محمد اسد کو مغرب کے سیاسی نظاموں،دستوری و قانونی اصول و تصورات اور دستوری زبان و اصطلاحات کے علاوہ اسلام کے سیاسی اُصول و مبادی سے بھی گہری واقفیت حاصل تھی۔ چنانچہ انھوں نے قرآن و سنت کی نصوص سے عمومی دستوری اصول اخذ کرکے ان کی توضیح و تشریح جدید علم السّیاست کی زبان و اصطلاحات میں کی تاکہ وہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے قابلِ فہم ہوسکیں۔

محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کی تدوین میں صرف قرآن مجید اور سنت رسولؐ کے نصوص کو بنیاد بنایا ہے۔ خلافت راشدہ کے تعامل و نظائر اور فقہاء و مجتہدین امت کے دستوری و سیاسی مسائل میں آراء سے انھوں نے اعتناء نہیں برتا ہے۔ ان کے نزدیک ان دونوں کی تقلید و پیروی امت پر لازم و واجب (binding)نہیں ہے، جب کہ قدیم فقہاء و مجتہدین کے ہاں سے اس بارے میں مناسب رہنمائی بھی نہیں ملتی۔ محمد اسد کی رائے میں دستوری و سیاسی مسائل و معاملات کے بارے میں اسلامی کتب کا جو ذخیرہ اس وقت موجود تھا، اس میں اس مشکل کے لیے رہنمائی کا کوئی سامان نہ تھا۔ کیونکہ گذشتہ صدیوں کے بعض علمائے اسلام نے خصوصاً عباسیوں کے عہد حکومت میں اسلام کے سیاسی قانون پر جو چند کتابیں مرتب کی تھیں، ان میں ان مسائل کے متعلق ان کا طریق فکر و نظر ان کے عہد کے ثقافتی ماحول اور اجتماعی و سیاسی تقاضوں پر مبنی تھا۔ یوں ان کی سعی و نشاط کے نتائج بیسویں صدی کی ایک اسلامی مملکت کی ضرورتوں کا جواب نہیں بن سکتے تھے۔

محمد اسد نے دور حاضر کے مغرب زدہ مسلمان مصنّفین و مفکرین کے دستوری وسیاسی مسائل سے متعلق افکار و خیالات کو بھی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ ان کی رائے میں ’’دور حاضر میں مغرب سے مرعوب و متأثر مسلمانوں نے عموماً یورپ کے ایسے سیاسی تصوّرات و ادارات اور حکمرانی کے طور طریقے بے تکلفی سے قبول کرلیے اور انھیں دورِ حاضر کی مسلم مملکت کا معیار بنالیا جو اسلامی نظریات کے حقیقی تقاضوں سے بالکل متناقض تھے۔ غرض یہ کہ محمد اسد کی رائے میں ان کے معاصرین یا پیشروؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں کہ جس پر پاکستان کی نئی مملکت کے دستور کی عمارت قائم کی جاتی۔ دریں صورت انھوں نے قرآن و سنت کی طرف راست طور پر رجوع کرکے ان کے نصوص سے دستوری اصول اخذ کرکے اس مملکت کے سیاسی و حکومتی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کی کوشش کی۔ اسد کے الفاظ میں:

Thus, neither the works of our predecessors nor those of our contemporaries could furnish a satisfactory conceptual basis on which the new state of Pakistan should be built up. Only one way remained open to me: to turn to the original sources of Islamic Law, Qur'an and Sunnah, and to work out on their basis the concrete premises of the future constitution of Pakistan independently of all that has been written on the subject of the Islamic State.

غرض یہ کہ ہمارے پیش روؤں کی تصانیف کوئی اطمینان بخش فکری بنیاد مہیا نہیں کرتی تھیں، جس پر پاکستان کی نئی مملکت کی عمارت تعمیر کی جاتی۔ میرے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ قانونِ اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوتا۔ اس طرح قدما نے امامت و خلافت (سیاست و حکومت) کے بارے میں جو تصنیفی سرمایہ چھوڑا ہے، اسے ایک طرف رکھتے ہوئے اور آزادانہ غوروفکر سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے آیندہ دستور کے لیے مثبت اصول اخذ کرتا، جو اسلامی مملکت کے موضوع پر مرتبہ کتابوں سے بالکل مختلف ہوتے۔

ڈاکٹر منظور الدین احمد کی رائے میں پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف اہل علم کی طرف سے جو دستوری خاکے منظر عام پر آئے، ان میں سے محمد اسد کا مرتب کردہ یہ خاکہ زیادہ واضح اور جدید ذہن کے لیے زیادہ قابلِ فہم تھا۔

محمد اسد کے دستوری خاکہ کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت سے دستوری اصول اخذ کرتے ہوئے، معاصر مغربی دستوری و سیاسی نظاموں سے اخذو اکتساب کی راہ بھی نکالی ہے۔ اسلام کے سیاسی اصول اور مغرب کے سیاسی تجربات و اجتہادات میں ایک گونہ تطبیق قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ محمد اسد نے گویا اس دستوری خاکہ میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ قرآن و سنت کے اصول و تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے کس طرح سے عصرحاضر میں ایک اسلامی ریاست قائم کی جاسکتی ہے۔ محمد اسد نے اس دستوری خاکہ کو، مملکت پاکستان کے سیاسی نظام اور ریاستی اداروں کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل و تنظیم کی غرض سے، ایک منشور اور دستور العمل کے طور پر پیش کیا ہے۔

محمد اسد نے اسلامی دستور کا مربوط و مفصل خاکہ پیش کرکے بعض اہل سیاست و اہل دانش کے اس اعتراض کو بے اصل ثابت کردیا کہ ’’اسلام دستور سازی اور نظام حکومت و سیاست کے بارے میں قطعاً کوئی رہنمائی نہیں کرتا، اور نہ اصول و مبادی تجویز کرتا ہے‘‘۔

محمد اسد کا تجویز کردہ دستوری خاکہ نوزائیدہ مملکت کے دستور کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں ایک مؤثر بنیاد فراہم کرتا تھا، تاہم حکومت وقت کے مصالح اور سیاسی قائدین کی ذاتی اغراض نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ محمداسد کو اس بات کا قلق رہا کہ دستور سازی کے سلسلے میں ان کی تجاویز سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

تاہم محمد اسد کی یہ کاوش بے اثر نہ رہی اور تحریک پاکستان میں سرگرم عمل علماء اور بعض اہل دانش کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی دستور ساز مجلس نے ۱۹۴۹ء میں مملکت کے دستور کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے جو ’قرارداد مقاصد‘ منظور کی تھی یا پھر مختلف مکاتب فکر کے علما نے اسلامی دستور تشکیل دینے کے لیے جنوری ۱۹۵۱ء میں جو بائیس نکاتی دستوری فارمولا مرتب  کیا تھا، اس میں کسی حد تک محمد اسد کے دستوری خاکہ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔(جاری)

قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد جب محمد اسد نے یہ دیکھا کہ معاشرے اور ریاست کی تعمیروتشکیل میں قرآن حکیم اور تعلیماتِ نبویؐ کو رہنما بنانے سے متعلق قائدین تحریک ِ پاکستان کی طرف سے کیے گئے اعلانات کے باوجود، نہ صرف یہ کہ عملاً اس راہ پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جارہاہے بلکہ حکومت ایک غیر اعلان شدہ پالیسی کے تحت سیکولرازم کی راہ پر چل نکلی ہے، اور نوآبادیاتی نظام کی محافظ و وارث بنتی چلی جارہی ہے ،تو اس منظرنامے پر وہ تڑپ اُٹھے جس پر اپنے تحفظات و خدشات کا انھوں نے اظہار یوں کیا:

In spite of the many pronouncements made on the highest levels to the effect that Pakistan will be run in accordance with the spirit of the Qur'an, it is widely felt that nothing concrete has been done so far to implement this promise, and that on the contrary there is evidence enough to show that the government is drifting towards a more or less pronounced "Secularism" on the model of Western world.

مملکت ِ پاکستان کے سیاسی و حکومتی نظام کو قرآنِ حکیم کی روح کے مطابق چلانے سے متعلق ہمارے صف ِ اوّل کے قائدین کے اَن گنت اعلانات کے باوجود، عام طور پریہ محسوس کیا جارہا ہے کہ تاحال اس عہد کو پورا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اس امر کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ حکومت علانیہ طور پر مغربی طرز کی لادینیت (سیکولرازم) کی راہ پر گامزن ہوچلی ہے۔

.... Today the government is estranged from the innermost longing of our people.They are looking upon it as an heir of the old British bureaucracy, and their original hope is gradually dying out. They wanted leadership in the ideological sense but they did not find it.

آج حکومت ہمارے عوام کی اُمنگوں سے بیگانہ اور لاتعلق ہوچکی ہے ، چنانچہ وہ اسے برطانوی افسرشاہی کی جانشین اور وارث کے طور پر دیکھ رہے ہیں، اور ان کی حقیقی اُمنگیں دم توڑ رہی ہیں۔ وہ تو ایک نظریاتی قیادت کے خواہاں تھے لیکن اس نوع کی قیادت انھیں میسر نہ ہوسکی۔

محمد اسد نے نظریۂ پاکستان سے انحراف و برگشتگی کی روش اور سیکولرقومی ریاست کے تصور کی طرف مقتدر طبقوں کے میلان کو سخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ دراصل وہ اس طرز فکر و عمل کو امت مسلمہ کے دین و عقیدے کے منافی تو گردانتے ہی تھے، ان کی رائے میں سیکولر قومی ریاست کے تصور پر اصرار پاکستان کی بنیادوں پرتیشہ چلانے کے مترادف بھی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اسلامی ریاست کے نظریے، جو ان کی نگاہ میں تحریک پاکستان کا اساسی نصب العین، اس کی حقیقی غایت اور پاکستان کی اصل نظریاتی بنیاد تھا، سے انحراف و برگشتگی کے منفی نتائج و عواقب سے خبردار بھی کیا۔ انھوں نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ پاکستان کا وجود ایک نظریے اور نصب العین کا رہین منت ہے اور یہ ملک اس نظریے اور نصب العین سے پختہ اور غیر متزلزل وابستگی کے سبب ہی سے قائم رہ سکتا ہے۔ اس نظریے سے انحراف اور اس کے بارے میں فکری ابہام کا مطلب پاکستان کو انتشار و افتراق اور خلفشار سے دوچار کرناہے۔

محمد اسد کے نزدیک قوموں کی زندگی میں ایک اعلیٰ و ارفع نصب العین اور مثالیت پسندی (Idealism) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ چیز کسی بھی قوم کی ترقی و عروج کے لیے جذبۂ محرکہ کا کردار ادا کرتی ہے اور اس کے افراد میں اتحاد و یگانگت کا مؤثر ترین ذریعہ ہوتی ہے، جب کہ کسی اعلیٰ نصب العین کی عدم موجودگی میں وہ قوم بے مقصدیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ بنا برایں ان کے خیال میں پاکستان کی بقا اور اس کے استحکام کا راز تحریک پاکستان کے نظریاتی نصب العین سے غیر متزلزل وابستگی اور اس کو عملاً حقیقت میں بدلنے ہی میں مضمر ہے۔{ FR 794 }  اسد کسی عارضی مصلحت یا سیاسی تدبیر کے نام پر بھی تحریک پاکستان کے نصب العین سے انحراف کو مناسب نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک:

".... an evasive postponement of our "long-term", Islamic objectives in favour of what some people regard (quite worngly) as momentarily "expedient" or "politic", must have a determental effect on our community's moral tenor and can only result in our greater estrangement from the ways of true Islam.

اصل اسلامی مقاصد سے وقتی مصلحت کے طور پر گریز پائی ایک ایسی ناعاقبت اندیشی ہے جس سے ہم مسلمانوں کے اخلاق و مزاج پر نقصان دہ اثرات پڑتے ہیں، جس کا نتیجہ حقیقی اسلام کے اصولوں سے انحراف ہوگا۔

محمد اسد کی نگاہ میں پاکستان کے استحکام اور اس کے تحفظ و بقا کے لیے اسلامی قومیت کے نظریے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی نگاہ میں اسلامیانِ پاکستان ایک نظریاتی ملت ہیں، ان کی قومیت کی بنا اسلام ہے۔ اسلام سے جذباتی و شعوری وابستگی کے احساس و جذبے نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سیاسی طور پر متحد و یکجا کیا اور یہی امر مطالبہ و قیامِ پاکستان کا محرک بنا۔ پاکستان عالم اسلام کی دیگر عرب و غیر عرب ریاستوں کے برعکس ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، چنانچہ یہ صرف اسی نظریے سے وابستگی کی بنا پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔ اسلام کو اگر معاشرہ اور ریاست کی تعمیروتشکیل میں فیصلہ کن حیثیت نہ دی جائے تو پاکستانی ملت کے مختلف عناصر کو باہم پیوست اور یکجا کرنے والی کوئی قوت باقی نہیں رہ جاتی۔

 اسلام سے غیر متزلزل وابستگی اور اسلامی قومیت کے تصور کے احیاء سے ہی ملت اسلامیہ پاکستان کے مختلف نسلی و لسانی گروہوں پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی، بنگالی اور پھر مہاجرین اور مقامی آبادی کے درمیان اتحادویگانگت پیدا ہوسکتا ہے۔ جب کہ اسلام کے بعد ان گروہوں کو باہم متحد کرنے والی کوئی حقیقی بنیاد ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ چنانچہ ان کو آپس میں متحد و یکجا اور باہم پیوست کرنے والی بنا کے ڈھ جانے سے یہ گروہ مختلف نسلی و لسانی اور علاقائی عصبیتوں کے نرغے میں آجائیں گے اور پاکستان کی بقا و استحکام اور اس کی سالمیت و یکجہتی خطرے میں پڑجائے گی۔ اسلامی نظریے سے انحراف کی صورت میں یہ ملک افتراق و انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ جب کہ اس کے برعکس اسلامی نظریۂ قومیت کو جس قدرعوام کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے گا پاکستان اسی قدر مضبوط ومستحکم اور طاقت ور ہوگا۔ غرضیکہ محمد اسد کے نزدیک اسلام اور اسلامی قومیت کے نظریے کے علاوہ دوسری کوئی اور چیز، قومیت کا کوئی اور نظریہ اور حُب الوطنی کی کوئی دوسری تدبیر ان مختلف و متنوّع عناصر کو یکجا نہیں رکھ سکتی۔

پاکستان کے استحکام، اس کی علاقائی سالمیت و یکجہتی اور تحفظ و بقا کے بارے میں اسد کا یہ نقطۂ نظر اور تجزیہ، جس کا اظہار انھوں نے قیام پاکستان کے ساتھ کیا تھا، بڑا درست اور مبنی بر حقیقت ثابت ہوا۔ پاکستان میں کسی واضح اور متعین نصب العین کی عدم موجودگی (اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کے مقصد سے دور ہٹ جانے کے بعد) کے سبب فکری ابہام و انتشار نے جنم لیا۔ اسی طرح اس وقت کی سیاسی قیادت کی طرف سے اسلامی قومیت کے تصور کے بجائے پاکستانی قومیت کے تصور پر زور کے نتیجے میں لسانی و نسلی عصبیّتوں کے طوفان نے سراٹھایا۔

صوبائی عصبیت کے اس فتنے کا نتیجہ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا اور باقی ماندہ پاکستان میں پہلے پختون اور بلوچ قوم پرست تحریکوں نے سراٹھایا، پھر مہاجر اور سندھی کش مکش برپا ہوئی۔ قدیم مقامی باشندوں کے مفادات میں ٹکراؤ کی اس صورتِ حال نے ملک کو تباہی سے دوچار کیا۔پاکستان کے جن دانش وروں نے اس ملک کو درپیش حقیقی مسائل و مشکلات کا جائزہ لیا ہے اور داخلی افتراق و انتشار، صوبائیت و علاقائیت اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و محرکات پر بحث کی ہے، وہ کم و بیش انھی نتائج پر پہنچے ہیں، جن سے محمد اسد بہت سال پہلے خبردار کرچکے تھے-

اسلامی ریاست کے تصوّر پر اعتراضات اور محمد اسد کا نقطۂ نظر

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی لامحالہ طور پر اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے نظام سیاست و حکومت کے بارے میں بحث مباحثہ میں تیزی آگئی۔ جدید تعلیم یافتہ افراد، جن میں بعض مسلم لیگی رہنما بھی شامل تھے، ان کی طرف سے اسلامی ریاست کے تصور کی شدید مخالفت، اور سیکولر قومی ریاست کے قیام کی پُر جوش وکالت کی گئی۔ اس طبقے کی طرف سے پاکستان کو ایک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے مطالبے پر جو اعتراضات کیے گئے، یا پھر اس تصور کے جدید دور میں قابلِ عمل ہونے کے بارے میں جو شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے وہ اس طرح کے تھے:

       ۱-    اسلام مملکت و حکومت کے بارے میں کوئی خاص نظام اور اصول تجویز نہیں کرتا۔  قرآن و سنت میں دستور اور سیاست و حکومت کے بارے میں کوئی ضابطے اور اصول ذکر نہیں کیے گئے ہیں بلکہ یہ معاملات انسانی عقل و فہم کے حوالے کیے گئے ہیں۔ تاریخ میں کبھی اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی، لہٰذا یہ تصور محض ایک تصور ہے۔

       ۲-    اسلامی قانون جامد و غیر متحرک ہے۔ صدیوں پرانی فقہ و قانونی سرمایہ دور جدید کی ضروریات اور تقاضوں سے میل نہیں کھاتا، لہٰذا اسے ریاست کا قانون بنانا قطعاً کوئی دانش مندانہ فعل نہیں۔ اسلامی قانون کو جدید دور میں مملکت کا قانون بنانے کا مطلب اسے ترقی سے محروم اور پس ماندہ رکھنا ہے۔ چنانچہ مسئلہ کا بہترین حل یہی ہے کہ آئین و دستور اور نظامِ قانون کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

       ۳-    اسلامی ریاست کے نام پر مملکت میں بدترین تھیاکریسی (مُلاؤں کی حکومت) قائم ہوجائے گی۔

       ۴-    پاکستان میں غیر مسلم ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کا قیام مناسب نہیں۔

       ۵-    جدید دور میں، جب کہ اطراف عالم میں سیکولر حکومتیں قائم ہیں پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کی رائے عامہ کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔

محمد اسد، اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کی بابت مختلف ذہنوں میں پیدا ہونے والے ان اعتراضات اور شکوک و شبہات سے بخوبی آگاہ تھے، بطور خاص جدید تعلیم یافتہ طبقے کی سیکولرزم پسندی کا انھیں گہرا ادراک تھا۔ چنانچہ مجلہ عرفات (بابت مارچ ۱۹۴۸ء) میں اسلامی دستور کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے لکھا:

With the attainment of Pakistan's independence, however, we of the present generation have such a possibility before us: and it is for us to covert this possibility into a certainty - if we so wish - or alternatively, to allow it to recede again into the realm of academic speculations..... There is no gainsaying that countless Muslims in this country passionately desive the first of these two alternatives; but there is also, no doubt that very strong forces are at worth to deflect the community from its Islamic goal and to make Pakistan a "secular" state in slavish deference to what almost all non-Muslim, today regard as desirable. For, the majority of people in other countries - including many Muslim countries - have grown accustomed to look upon institutional religion as something antiquated, and therefore not quite "respectable" from the intellectual point of view: as something out of tune with the so-called "progressive" endeavour to free man from all moral obligations, not devised by himself:..... and for this reason, a suggestion to build a state, on religious foundations is usually described in such circles as reactionary or, at the best - as impractical idealism". Apparently, many educated Muslims think today on these lines; and in this, as in so many other aspects of our contemporary life, the influence of Western thought is un-mistakable.

جب سے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت وجود میں آئی ہے یہ امکان بھی پیدا ہوگیا ہے کہ ریاست کی تأسیس اسلامی اصولوں پر کی جائے۔ بایں ہمہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہمارا سوادِاعظم اگرچہ اس بات کا آرزومند ہے کہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست قائم ہو کچھ قوتیں ایسی بھی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مسلمان اپنی منزل مقصود سے ہٹ جائیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ ہم بھی غیر اسلامی دنیا کی اندھا دھند تقلید میں ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھیں جو اصطلاحاً غیر مذہبی و لادینی (سیکولر) سے تعبیر کی جاتی ہے۔ بات یہ ہے کہ آج کل اسلامی ممالک میں بھی اس خیال کا غلبہ ہے۔ مذہب (اسلام) کے بارے میں یہ تصور کہ وہ بجائے خود ایک نظام حیات ہے، جدید تعلیم یافتہ افراد کے نزدیک پرانا ہوچکا ہے اور ان کے ہاں از روئے علم و حکمت بھی کچھ ایسا وقیع نہیں ہے۔ لہٰذا قدرتی بات ہے کہ جب کبھی ریاست کے لیے کوئی دینی اساس تجویز کی جائے تو یہ لوگ اسے رجعت پسندی سے تعبیر کریں یا پھر محض ناقابل عمل عینیت پسندی (Impractical Idealism) ٹھیرائیں۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے اکثر تو یہی رویہ اختیار کرتے چلے جارہے ہیں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح یہاں بھی ان کا دل و دماغ مغربی اثرات سے مغلوب ہوچکا ہے۔

اسلامی ریاست کے تصور کے بارے میں جدید الخیال مغرب زدہ افراد کے شکوک و شبہات کے ازالے کے طور پر محمد اسد نے تین امور کو صراحت و وضاحت سے بیان کیا:

       ۱-    اسلامی ریاست کا مطلب ہرگز تھیاکریسی (پاپائیت) نہیں۔ اسلام میں قرون وسطیٰ کی ’مسیحی پاپائیت‘ جیسے کسی ادارے کا قطعاً کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ اسلامی ریاست میں قانونی و تشریعی معاملات اور دین کی تعبیروتشریح کے معاملے میں کسی خاص مذہبی گروہ کی اجارہ داری کی کوئی گنجائش نہیں۔

              اسد لکھتے ہیں: ’’اسلام میں پادریوں کی تنظیم جیسا کوئی نظام موجود نہیں اور نہ کوئی ایسا ادارہ پایاجاتاہے،جسے مسیحی کلیسا کے مترادف سمجھا جائے۔ اسلام میں ہر بالغ مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ ہرمذہبی وظیفہ انجام دے۔ اسلام میں کوئی فرد یا گروہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسے مذہبی وظائف کی بجاآوری میں کوئی خاص تقدس اور اجارہ داری حاصل ہے، لہٰذا،اسلامی ماحول میں تھیاکریسی (پاپائیت) کی اصطلاح سراسر بے معنی ہے۔ البتہ اسلامی ریاست میں تمام قوانین کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے‘‘۔

       ۲-    اسلامی قانون جامدوفرسودہ (out dated) ہرگز نہیں ہے، بلکہ حرکی اور ہر لمحہ ارتقا پذیر ہے۔ وہ ثبات و تغیّر کی خصوصیات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور ہر دور کے انسانی معاشرے کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شریعت کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اجتہاد کو بروئے کار لاکر ہر دور کی ضروریات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔

       ۳-    اسلام ایک خودکفیل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ روحانیات و اخلاقیات ہی میں نہیں بلکہ انسانی زندگی کے جملہ مادی و دنیوی معاملات، معاشرے کی تنظیم اور ریاست کی تعمیروتشکیل کے باب میں بھی رہنمائی و ہدایات فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اس خودکفیل نظامِ حیات کی موجودگی میں معاشرہ اور ریاست کی تنظیم و تشکیل کے سلسلہ میں مسلمانوں کو مغرب کے سیاسی و اقتصادی نظاموں کو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ قرآن و سنت کے نصوص نے ریاست کی تعمیروتشکیل کے بارے میں جو بنیادی اور رہنما اصول متعین کیے ہیں ان کی موجودگی میں مغرب کی غیراسلامی تہذیب کے ساختہ و پرداختہ سیاسی و معاشرتی تصورات کی تقلید کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ مغرب کے لادینی سیاسی اصول و تصورات کی تقلید کا صاف صاف مطلب اسلام کے اس دعویٰ کو جھٹلانا ہے کہ وہ ایک دین کامل ہے۔

       ۴-    سیکولر ریاست کا تصور خود نظریۂ پاکستان کے بھی سراسر منافی و متصادم ہے۔ اس کی تقلید و نقالی سے پاکستان کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ایک ایسی ریاست، جس کا قیام اسلامی نظریے کی اساس پر عمل میں آیا ہے، اس کی تعمیروتشکیل میں مغرب کے غیر اسلامی سیاسی تصورات کی تقلید و نقالی کی روش اختیار کرنا گویا اس ریاست کی بنیادوں کو مسمار کرنا ہے۔ اسد رقم طراز ہیں:

The Islamic scheme of the State precludes, of course, an imitation of political concepts evolved in non-Islamic (Western)  civilizations... The Prophet's Message visualises a polity. Those who blindly subscribe to non-Islamic political concepts, not only deny, by implication, Islam's claim to completeness in the ideological sense, but also militate against the idea of Pakistan as such: for, if Islam is not to be the guiding principle of the State, why have a  "Muslim" state at all?? But this is just what many of our intelligentsia seem unable to grasp. They do not realise that a state devised in the name and for the sake of a religious community must be, in the very nature of things, an ideological state: otherwise the innermost purpose of our creating a state is defeated.

اسلامی ریاست کا تصور بلاشبہہ غیراسلامی (مغربی) تہذیبوں کے سیاسی تصورات کی تقلید کو خارج از امکان قرار دیتا ہے…رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام (تعلیمات) میں ایک ایسی ریاست و حکومت کا تصور موجود ہے، جو اپنی ماہیت میں تخلیقی نوعیت کی ہے [اس میں حالات وزمانہ کے تقاضوں کی رعایت موجود ہے] وہ لوگ جو اندھا دھند غیراسلامی سیاسی تصورات و نظریات کے مقلد محض ہوگئے ہیں، محض اس زعم میں کہ وہ اس کو ’جدید‘ خیال کیے بیٹھے ہیں، [اس طرح] وہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے جامع و کامل دین ہونے کا انکار کر بیٹھتے ہیں بلکہ ان کا یہ طرزِ فکروعمل پاکستان کے اس تصور و نظریہ کے بھی صریح طور پر متصادم و منافی ہے۔[سچی بات تو یہ ہے کہ] اگر اسلام کو ریاست و حکومت کا رہنما اصول نہیں مانا جاتا ہے تو پھر ایک [نام نہاد] مسلمان ’ریاست‘ کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے دانش وروں کے فہم سے بالاترہے۔ وہ اس بات کا ادراک نہیں کرپا رہے کہ وہ ریاست جو مذہب کے نام پر اور ایک مذہبی قومیت کے لیے بنائی گئی ہے، کو لازماً فطری طور پر ایک نظریاتی ریاست ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر ایک ریاست کےقیام کا ہمارا بنیادی مقصد شکست و ریخت سے دوچار ہوجائے گا۔

       ۵-    سیکولر ریاست، انسان کو حقیقی مسرت و شادمانی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔ سیکولر ریاست کے مقابلے میں اسلامی ریاست کا قیام نہ صرف زیادہ آسان اور قابل عمل ہے بلکہ وہ ملت اسلامیہ کے سماجی و اقتصادی اور تہذیبی و معاشرتی مسائل کے حل کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔ اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بن سکتی ہے اور ان کو حقیقی مسرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ اگر ملت اسلامیہ نے مغرب کے تہذیبی اور سیاسی واقتصادی نظام کی تقلید کی، تو انجامِ کار وہ ان خرابیوں سے دوچار ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی، جن میں اس وقت مغربی دنیا مبتلا ہے۔ مغرب کے سیاسی و اقتصادی اور سماجی تصورات کی تقلید میں مسلمانوں کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ مسلمانوں کی نجات اور فلاح کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہ اسلام کے اخلاقی و روحانی اصولوں کے مطابق اپنی ریاست قائم کریں۔

 غیر مسلم اقلیت کے خدشات و اعتراضات

پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے تصور پر ملک کی ہندو اقلیت معترض ہی نہیں بلکہ اس کی شدید مخالف تھی۔ اس غیر مسلم اقلیت کو دراصل اسلامی ریاست کی تشکیل کی صورت میں اپنے سیاسی و قانونی، شہری اور مذہبی و ثقافتی حقوق کے تحفظ سے متعلق طرح طرح کے اندیشے لاحق تھے۔ چنانچہ غیر مسلم اقلیت (ہندوؤں) کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ ایک سیکولر پاکستان میں ان کے حقوق و مفادات کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ ہوسکتا ہے۔ غیر مسلموں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے علمبردار بعض مسلم رہنما بھی ملک میں ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کے قیام کو نامناسب خیال کرتے تھے۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اسلامی ریاست کے قیام سے غیر مسلم اقلیتوں میں تشویش پیدا ہوگی اور ملک عدم استحکام سے دو چار ہوجائے گا۔{ FR 808 }

محمد اسد کو غیر مسلموں کی اس تشویش یا بطورِ ہتھیار پیدا کردہ تشویش کا بخوبی احساس تھا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں ہی انھوں نے اپنی اس رائے کا برملا طور پر اظہار کیا تھا کہ ’پاکستان میں ہندو اکثریتی علاقوں کی شمولیت کی صورت میں اسلامی ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہوجائے گا‘۔ چنانچہ انھوں نے عام مسلم سیاسی قائدین اور رائے عامہ کے برعکس بنگال اور پنجاب کی دو دو حصوں میں تقسیم، یعنی ان صوبوں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی بھارت کے ساتھ، جب کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی اسکیم کا پرجوش خیر مقدم کیا تھا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ بنگال اور پنجاب کے ان علاقوں کی، جہاں ہندو آبادی اکثریت میں ہے، پاکستان میں شمولیت اس ملک میں مسلم اور ہندوآبادی کے توازن پر اثر انداز ہوگی اور اس نوزائیدہ ملک میں ایک مؤثر و طاقت ور ہندو اقلیت کی موجودگی میں اسلامی ریاست کا قیام مشکل ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ پنجاب اور بنگال کے صوبوں کی تقسیم کو پاکستان کے لیے خوش آیند خیال کرتے تھے۔

بہرحال، پاکستان میں ایک قابل لحاظ غیر مسلم ہندو اقلیت کا شامل و موجود رہ جانا ناگزیر تھا۔ دریں صورت محمد اسد نے تحریک پاکستان کے آخری مرحلے میں، جب کہ تقسیم ہند کے منصوبے کو حتمی شکل دی جارہی تھی، پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلموں کی تشویش اور ان کے تحفظات و خدشات کے ازالہ کی کوششوں کو ضروری قرار دیا۔ البتہ انھوں نے غیر مسلموں کی تشویش کے ازالے اور ان کی دلجوئی کی خاطر اسلامی ریاست کے تصور سے دست بردار ہونے اور اسے پسِ پُشت ڈالنے کے خیال کی شدت سے مخالفت کی۔

محمد اسد نے یہ خیال پیش کیا کہ اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلم اقلیتوں کی تشویش اور ان کے ذہنوں میں موجود خدشات کے ازالے کی بہترین صورت یہی ہے کہ انھیں باور کرایا جائے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد ملک کے سب شہریوں کے لیے، بلاتفریق مذہب و ملت، عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا۔ ہم مسلمانوں کے مفاد کی خاطر غیر مسلموں کا استحصال نہیں کرنا چاہتے بلکہ انسانی اخلاق کے بنیادی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کے متمنی ہیں۔ ہم ہر حال میں عدل و انصاف کی بالا دستی اور بے انصافی کے انسداد کے لیے جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ اسد کی رائے میں یہ سمجھنا تو انتہائی حماقت ہے کہ اگر ہم اپنے اسلامی مقاصد پر زور نہیں دیں گے تو اس طرح سے غیر مسلم اقلیتوں کی تشویش دور ہوجائے گی، بلکہ ان کی تشویش دور یا کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم صاف دلی اور پوری وضاحت کے ساتھ بتادیں کہ ہمارے ملی و اخلاقی مقاصد کیا ہیں اور پھر روزمرہ کی زندگی میں انھیں یہ مشاہدہ بھی کرادیں کہ ہمارے اسلامی و اخلاقی مقاصد اور ہمارے اعمال و افعال میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

محمد اسد نے خود بھی قیام پاکستان سے پہلے اور پھر بعد میں اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق غیر مسلموں کے خدشات و اعتراضات کے ازالے کی غرض سے ان پر یہ واضح کیا کہ ایک سیکولر مسلم ریاست کے بجائے ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ہی زیادہ بہتر طور پر ان کی مذہبی و ثقافتی آزادی اور ان کے سیاسی و قانونی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے۔ اسد نے قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اپنی نشری تقریروں میںکہا:

When we demanded a state in which the Muslim nation could freely develop its own traditions, in which the genius of Islam could freely unfold, conferring light and happiness not only on Muslims but also on all the people of other communities who could choose to share our living-space with us. The establishment of the Muslim State of Pakistan could not and did not mean oppression of non-Muslims, and that, on the contrary, every one of our citizens, whether Muslim or non-Muslim, could always count on the protection which a civilized state is bound to accord to its loyal citizens, and which, in particular, Islam has enjoined on us with unmistakable insistence.

جب ہم نے ایک آزادمملکت کا مطالبہ کیا تھا کہ جس میں مسلمان [اسلامیانِ ہند] آزادانہ طور پر اپنی روایات کو پروان چڑھا سکیں تو ہمارا اس کے سوا مطالبہ کیا تھا کہ ہم امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔ ایک ایسی دولت مشترکہ کی تعمیر کرسکیں، جس میں اسلام کی عبقریت آزادانہ طور پر آشکارا ہوسکے، جو نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ان دیگر طبقات و اقوام کو بھی ، جو ہم مسلمانوں کے ساتھ قدم بقدم اس ملک کو اپنے وطن کے طور پر منتخب کرلیں، روشنی (ظلمت سے نکال کرروشنی) اور مسرت سے سرفراز کرسکے۔ [بے شمار مواقع پر ہمارے رہنما جن میں قائداعظم سرفہرست ہیں، اس امر کی صراحت کرچکے ہیں اوردُنیا کے سامنے اس بات کو صاف طورپر کہہ چکے ہیں کہ] مملکت پاکستان کے قیام کا مطلب [اس ملک میں] ہرگز طور پر غیرمسلموں کو محکوم و مجبور بنا کر رکھنا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس، اس مملکت کے ہر شہری کو بلاامتیاز مذہب و ملّت [جان و مال کا] وہ تحفظ حاصل ہوگا، جو ایک مہذب ریاست اپنے وفادار شہریوں کو عطا کرنے کی پابند ہوتی ہے، اور جس کا بطورِ خاص اسلام نے ہمیں تاکیداً پابند ٹھیرایا ہے ۔

جناب محمد اسد واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:

The establishment of such a state [Islamic State] does not presuppose and cannot presuppose, an oppressive treatment of non-Muslim minorities: … In an Islamic State no non-Muslim should be afraid of being discriminated against or exploited for the benefit of the Muslim majority. Nor does Islam want us to exert any pressure on non-Muslims with a view to inducing them to embrace Islam. No, the only thing that, an Islamic state demands of every citizen, be he Muslim or non-Muslim, is a loyal co-operation towards common welfare on the basis of the social and economic laws which the Qur'an and the life example of our blessed Prophet have laid down for us.

اس طرح کی ریاست [اسلامی ریاست] کے قیام کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کے غیرمسلم شہریوں [اقلیتوں] کے ساتھ ظالمانہ و غیرمنصفانہ برتائو کیا جائے۔ اسلامی ریاست میں کسی غیرمسلم کو اس بارے میں کوئی خوف لاحق نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر امتیازی سلوک کیا جائے گا یا اس کا استحصال کیا جائے گا۔ اسلام ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ نہ غیرمسلموں کے ساتھ ظلم و زیادتی روا رکھی جائے، اور نہ انھیں ڈرا دھمکا کر حلقہ بگوش اسلام بنایا جائے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہاں، وہ واحد چیز جس کا اسلامی ریاست اپنے ہرشہری سے تقاضا کرتی ہے [خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم] کہ  وہ اجتماعی بہبود و مفاد کے لیے ریاست کے ساتھ وفادارانہ و خیرخواہانہ تعاون ہے۔ اس اجتماعی بہبود کی بنیاد ایسے سماجی و اقتصادی قوانین پر استوار ہے، جن کی صراحت ہمارے لیے قرآنِ حکیم اور اسوئہ رسالتؐ میں ملتی ہے۔

محمد اسد اسلامی ریاست کے تصور کے مخالفین کی اس رائے کو ہرگز درخور اعتناء نہیں سمجھتے کہ اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کی رائے عامہ کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ان کے نزدیک عظیم اقوام کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کی معاصر اقوام اصولاً ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف کرتی ہیں بلکہ ان کے مقدر کا انحصار ان کے اغراض و مقاصد کی روحانی طاقت یا کمزوری پر ہوتا ہے۔ اسد کے خیال میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے سچی کوشش، مذکورہ خدشات کے برعکس، دنیا بھر میں تجدیدو احیائے اسلام کا دروازہ کھول دے گی ’’اگر ہم حیران و سرگرداں انسانیت کو یہ ثابت کردکھائیں کہ اسلام یقینی طور پر انسانیت کے سماجی اور سیاسی امراض کا حل پیش کرتا ہے تو جلد یا بدیر تمام مسلم اقوام لازمی طور پر ہمارے پیچھے چلیں گی‘‘۔ (جاری)

’’میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے جذبے اور ولولوں کے لیے رہنمائی قرآنِ مجید سے حاصل کریں گے تو کامیابی اور فتح یقینا ہماری ہی ہوگی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے، اورآپ کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔آپ کو اپنے اندر صرف مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہے۔ آپ ایسی قوم ہیں، جس کی تاریخ، قابل اور صلاحیت کے حامل، باکردار اور بلندحوصلہ افراد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اپنی ان روایات پر قائم رہیے اور ان میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔ میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچادیجیے کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے ضرورت کے وقت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیے، موت سے نہ ڈریے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ موت کے استقبال کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کے وقار کا تحفظ کرنے کے لیے اس کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہیے۔ ایک اعلیٰ اور صحیح مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد میں ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر اور کوئی راہِ نجات نہیں ہے۔

یاد رکھیے، قانون کا نفاذ اور امن کی بحالی، ترقی کے لوازمات میں سے ہیں۔ اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہرمسلمان پر یہ ذمہ داری فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کی حفاظت کرے اور بلالحاظ ذات پات اورعقیدہ، اقلیتوں کو تحفظ دے۔ ہندستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے، اس کے باوجود ہمیں اس بات کو اپنی عزّت اور وقار سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنی اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت کریں، اور ان میں احساسِ تحفظ پیدا کریں۔ میں یہ بات ہرمسلمان کے ذہن نشین کرادینا چاہتا ہوں، جو دل سے پاکستان کی فلاح اور بہبود اور اس کی خوش حالی کی خواہش رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے تو دُنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہ کرسکے گی۔ یہ قائم رہنے کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے۱۔   (محمدعلی جناح، خطاب بمقام یونی ورسٹی اسٹیڈیم، لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہم عصر مسلم تاریخ کا ایک تاریخ ساز دن تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ ان کے لیے ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست تشکیل دی جائے۔ برصغیر کے شمال مغربی اور شمال مشرقی چھے صوبوں میں مسلمان واضح اکثریت میں تھے۔ وہ لگ بھگ دس کروڑ مرد و زن تھے اور قومیت کی ہرتعریف کے اعتبار سے ایک علیحدہ قوم تھے۔ جیساکہ بعد میں مسلم لیگ کے رہنما محمدعلی جناح نے اپنے مدِمقابل ہندوئوں کے لیڈر موہن داس گاندھی (م:۱۹۴۸ء) کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:

ہم ایک قوم ہیں، اور ہمارا جداگانہ تمدن اور تہذیب ہے۔ زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فن تعمیرات، نام اورنام رکھنے کا طریقہ، شعورِ اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاقی ضابطے، رسوم اور کیلنڈر، تاریخ اور روایات، رجحانات اور اُمنگیں، مختصر یہ کہ ہمارا زندگی پر اور زندگی کے بارے میں خصوصی نقطۂ نظر ہے۲۔

 اسلام مسلم قومیت کی وجۂ جواز ہے اورمسلم قومیت پاکستان کے قیام کے لیے وجۂ جواز ہے۔ بصورتِ دیگر دوسرا متبادل مسلمانوں کے لیے صرف یہ ہے کہ وہ بادل نخواستہ دائمی طور پر اس جمہوری نظام حکومت میں (ایک مستقل بالذات اکثریت کی) غلامی پررضامند ہوجائیں۔ یہ بات محض نظری اور خیالی اندیشوں پر مبنی نہیں ہے۔

مسلمانوں کو اس (ہندوراج) کا تلخ تجربہ ہوچکا تھا، جب ۳۹-۱۹۳۷ء کے درمیان کانگرس کی وزارتوں کو چھے ہندو اکثریت کے صوبوں میں محدود خودمختاری ملی تھی اور اس نے ہمیں اُس معرکہ آرائی اور آویزش کی یاد دلا دی تھی، جو یورپ بالخصوص جرمنی میں اسکولوں کے نظم و نسق اور تدریس کے حوالے سے چرچ اور حکومت کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔ جب یہ وزارتیں ختم ہوئی تھیں تو مسلمانانِ ہند نے یومِ نجات منایا تھا۔

اگست ۱۹۴۷ء سے آزادی کے بعد کا ہندستان جو دستوری طور پر تو سیکولر، لیکن عملی طور پر ہندوراج کی شکل ہے، وہاں مسلمانوں اور نچلے طبقات کے وہ ہندو بھی جو برہمن زاد نہیں ہیں، مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ ان حقائق نے بلاخوف و تردید یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ قائداعظم بلاشبہہ ایک عظیم لیڈر تھے، جن کی دانش وفراست نے مستقبل کا درست اندازہ کرلیا تھا۔

محمدعلی جناح نے ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور یہ وہ وقت تھا، جب ہندستان کے مسلمان شدید انتشار اور بدنظمی کا شکار تھے۔ پانچ برس سے کم عرصے میں انھوں نے مسلم لیگ کو ایک ایسی منظم قوت بنادیا، جس کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ ہندو اکثریت کی حامل انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت دونوں کے لیے اس کی حیثیت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ جسے ہم ’قرارداد پاکستان‘ کہتے ہیں، وہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور کی گئی تھی اور پاکستان دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو تشکیل پاسکا تھا، جو ۲۷رمضان ۱۳۶۶ھ کی لیلۃ القدر بھی تھی۔

پاکستان دوسری جنگ ِ عظیم [۴۵- ۱۹۳۹ء]کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں محض ایک اور ملک نہ تھا۔ یہ ایک تصور،آدرش اوروژن تھا، جس کا تعلق جغرافیائی بنیاد پر قائم قومیت یا قوم پرستی سے ہرگز نہیں تھا، بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور کوشش تھی، جس کا مقصد اُمت اسلامی کے اس آفاقی اور اَبدی تصور کا احیا تھا، جسے نوآبادیاتی یلغار نے بُری طرح مجروح کر دیا تھا۔ اس تصور کو انھوں نے ہی نہیں بلکہ دوسرے باشعور لوگوں نے بھی سمجھنے میں دیر نہیں کی تھی۔

قراردادِ پاکستان کی منظوری کے اگلے دن برطانیہ میں وزیرہند لارڈ لارنس ڈنڈاس زیٹ لینڈ [م: ۱۹۶۱ء] نے برطانوی وائسرائے ہند لارڈ لین لنتھگو [م: ۱۹۵۲ء] کو دہلی میں خبردار کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:

اگر پاکستان ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ اسلام کی جانب دعوت کا ایک ذریعہ ہوگا جس کی کوئی حدود نہیں.... مصطفےٰ کمال پاشا [م:۱۹۳۸ء]کے خلافت کے ختم کردینے سے اسلام کی قوت قدرے کمزور ہوگئی ہے مگر اس کی قابلِ ذکر اپیل اب بھی موجود ہے جس کا ثبوت جناح کا یہ اصرار ہے کہ اس بات کا اطمینان اور یقین دلایا جائے کہ ہندستان کے سپاہیوں کو کسی بھی مسلمان کے خلاف جنگ میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی جناح کا فلسطین کے عربوں کے لیے ہمدردی اور تعاون کا اظہار بھی اسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے۳۔

لارڈ ڈنڈاس زیٹ لینڈ اپنے حاشیہ خیال میں یہ لائے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ اگر مسلم لیگ کے ارادوں کے مطابق ہندستان میں ایک مستقل علیحدہ مسلم ریاست کا قیام ممکن ہوجاتا ہے، تو وہ بالآخر ایک اسلامی دولت مشترکہ میں شمولیت سے باز نہ رہ سکیں گے۔

نوآبادیاتی نظام کا یہ نمایندہ غیرمعقولیت کی حد تک پاکستان کے تصور سے اندیشوں میں مبتلا تھا، لیکن وہ اپنے خیال کی حد تک غلط بھی نہ تھا۔ بہرصورت، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ نہ صرف ہندو نیشنل کانگریس، بلکہ برطانیہ بھی ایک علیحدہ مسلم ریاست کے خلاف تھا۔ یہاں تک آخری انڈین وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن [م: ۱۹۷۹ء] نے یہ مطالبہ طوعاً و کرہاً منظورکرلیا، تو اس میں اس حددرجہ زہرآلود، ناانصافی کا عنصر بھی شامل کرکے رکھ کر اپنے تئیں یہ اطمینان کرلیا کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد زیادہ عرصہ تک ریاستی وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ لیکن بہرصورت پاکستان صرف آزادیِ وطن ہی نہیں ایک منزل اور مقصد کا نام بھی تھا۔ ایک نام نہاد مقدس سامراجیت اور نسل پرست استبداد سے آزادی فطری طور پر مسلمان قوم کی تقدیر سے وابستہ منزل ہے۔ جیساکہ علامہ اقبال [م: ۱۹۳۸ء] نے بڑی خوب صورتی سے کہا تھا:’’اسلام بذاتِ خود تقدیر ہے اور یہ تقدیر کا شکار نہیں ہوگا‘‘۴۔

اس قومی آدرش کے بارے میں قائداعظم کو کبھی کوئی ابہام یا شک نہیں رہا۔ یہی وہ بات ہے، جسے قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی بارہا دُہرایا تھا۔ انھوں نے یہ بات بڑے واشگاف الفاظ میں اور بغیر کسی جھجک اور معذرت خواہانہ انداز کے اس وقت کہی تھی، جب مائونٹ بیٹن نے قائداعظم کو مغل شہنشاہ اکبر [م:۱۶۰۳ء] کی مثال دے کر سمجھانا چاہا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:

غیرمسلموں کے لیے جس رواداری اور حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اس شہنشاہ اکبر نے کیا تھا، وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۳ سوسال قبل ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اس وقت اس کا مظاہرہ کیا تھا، جب انھوں نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے مسیحیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد اور اعمال کے لیے مکمل احترام کیا تھا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے، اسی طرح رہے۔ ان کی پوری تاریخ اسی نوعیت کی انسانیت نواز مثالوں اور ان عظیم اصولوں سے منور ہے، جن پرعمل کیا جانا ضروری ہے‘‘ ۵۔

پاکستان محض ایک اور مسلم ریاست کا نام نہیں بلکہ جیساکہ جناح نے اپنی ریڈیائی نشری تقریر میں فروری ۱۹۴۸ء میں کہا تھا:’’پاکستان سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے اور دُنیاکی پانچویں بڑی ریاست بھی ہے‘‘۔ ان کا یہ خطاب بالخصوص ریاست ہائے امریکا کے لوگوں کی جانب تھا۔ اس میں انھوں نے مزیدفرمایا تھا کہ :

پاکستان کو اپنی زندگی کے گذشتہ پانچ مہینوں میں ہولناک آزمایشوں اور مصائب اور ایسے سانحوں سے گزرنا پڑا ہے، جن کی بنی نوع انسانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاہم، دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی ہماری حکمت عملی ہے۔ ہم کسی ملک اور قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت داری اور انصاف کے قائل ہیں، اور اقوامِ عالم میں امن اور خوش حالی کو فروغ دینےکے لیے اپنی پوری کوشش صَرف کردینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ پاکستان دُنیا کی مقہور اور مجبور قوموں کی مادی اور اخلاقی اعانت اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کو اپنانے میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا ۶۔

یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک تزویراتی اور غیرمبہم بیان بھی تھا، اور پاکستان نے کم از کم اپنے قیام کے ابتدائی چند برسوں اس پر عملی کام بھی کیا تھا۔ پاکستان نے آزادی کے حصول اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے ممکن حد تک ہرقسم کی اخلاقی اور مادّی امداد جاری رکھی اور یہ سلسلہ الجیریا، تیونس، لیبیا، سوڈان سے لے کر صومالیہ اور انڈونیشیا تک جاری رہا۔

ایک ایسی خارجہ حکمت عملی جو مسلم دُنیا کی آزادی پر مرکوز ہو، ایک مضبوط عسکری طاقت کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔ آزادی سے صرف گیارہ روز قبل جناح نے ہندستان کے ان فوجی افسران سے ایک غیررسمی ملاقات کی، جنھوں نے پاکستان میں اپنی خدمات پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ ان افسران کے لیے ان کا پیغام مختصر، مگر نہایت واضح تھا: ’’اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ پاکستان کو دُنیا کی عظیم ترین مسلم ریاست بنائیں‘‘ ۷۔

اس ملاقات میں جہاں انھوں نے پاکستان کی مسلح افواج کا ہدف واضح کیا، وہاں ہندستان کی تینوں افواج کے برطانوی سربراہوں کے علاوہ مستقبل کی بھارتی افواج کے تمام سربراہ بھی موجود تھے۔ غالباً اسی لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کا دفاعی عسکری مطمح نظر واضح کر دیا جائے، تاکہ ہرشخص اس حقیقت کو سمجھ بھی لے اور یاد بھی رکھے۔

قائد کا یہ نظریہ کوئی قیاسی اور خفیہ تصور نہیں تھا، اور نہ یہ کوئی نیا نوآبادیاتی خاکہ تھا کہ جس کا ہدف دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی کرنا ہو۔ پاکستان کے کسی بھی دوسرے ملک کے حدودِ ارضی پر کوئی دعوے نہیں تھے۔ علاقائی حوالے سے پاکستان کی تشویش صرف ہندستان کا عسکری طاقت کے زور پر ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے سے متعلق تھا۔ جو اس نے اپنے ہی کیے ہوئے اس اعلان سے مُکرجانے پر کیا تھا کہ کشمیر کے لوگوں کو ہندستان یا پاکستان سے الحاق کا مکمل اختیار ہوگا، لیکن یہ سیاسی ذرائع اور بین الاقوامی ضابطوں کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔

دوسری طرف قیامِ پاکستان تاریخ کی متعین کی ہوئی راہوں کی روشنی میں ہوا تھا۔ لارڈ زیٹ لینڈ نےٹھیک کہا تھا کہ ’’تحریک پاکستان کو روکنا تقریباً ناممکن ہے‘‘۔ لیکن اس کا پاکستان کی تخلیق کو ایک منفی اور نئی نوآبادیاتی سوچ کی آبیاری قرار دینا ایک بڑی غلطی تھی۔ اس کے اندیشوں کے برعکس ایک اسلامی دولت مشترکہ عالمی استحکام اور امن کے قیام میں ایک جزولاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم، ایک واحد عالمی طاقت امریکا کے زیراثر جب سے دُنیا آگئی ہے، اور جس میں سابقہ برطانیہ عظمیٰ بھی ایک ثانوی درجے کی حیثیت کو پہنچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی بحران اور آویزش نمایاں ہوگئی ہے۔ یہ صورتِ حال خوں آشام بھی ہوسکتی ہے اور یہ طاقت ور اور طاقت سے محروم ملکوں اور قوموں کے لیے عدم تحفظ، انتشار کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ لیکن بہرصورت یہ ایک عارضی مرحلے کی حالت ہے۔ اس لیے کہ جن کو استعماری سلطنت نے اپنے مقاصد کے لیے زندہ رکھا تھا، اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد ان کو اسی سلطنت نے فنا کے گھاٹ بھی اُتار دیا ہے۔

’’پاکستان کا تصور بہرصورت ایک تیسرے بلاک کے درمیانی راہ والے ملک کی حیثیت میں دیکھا جانا چاہیے جو نہ اشتراکیت کو اختیار کرے گا اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنائے گا بلکہ اس کی بنیاد خلیفۂ ثانی سیدنا عمرؓ کے بتائے ہوئے طرزِ حکمرانی پر ہوگی‘‘ ۸۔

یہ بات محمدعلی جناح نے ایک نوجوان مسلم لیگی سیاست دان شوکت حیات خاں [م:۱۹۹۸ء] سے مارچ ۱۹۴۳ء میں کہی تھی۔ جناح نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کیا کہا تھا، سنیے: ’’پاکستان وہ جگہ ہوگی، جہاں مسلم دانش وَر، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات، سائنس دان، اطباء، انجینیرز اور فنکار اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے مل کر کام کریں گے‘‘۔۹

یہی وہ اعلان تھا جس کی دیانت دارانہ اِتباع اور وفاداری نبھاتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو ’قرارداد ِ مقاصد‘ منظور کی، جس میں قائداعظم کے مشن اور نظریے کو سمو دیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان کے عوام کے اس نقطۂ نظر اور آدرش کو سمو دیا گیا تھا، جس میں تمام دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت، آزادی، مساوات اور معاشرتی عدل کے اصولوں پر مبنی ایسا نظام تشکیل دینے اور نافذ کرنے کا اعلان تھا ،جو اسلام نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ بنیادی آدرش اور مقصد تھا، جس کے لیے لاکھوں مردوں اور خواتین اور بچوں نے خون کے دریا اور قدم قدم پر موت کی وادیاں عبور کی تھیں، تاکہ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچ سکیں۔ انھیں ان کے آبائواجداد کی سرزمین سے بے دخل کرکے تباہ کردیا گیا تھا۔ لیکن وہ نہ اس بربادی سے خوف زدہ ہوئے اور نہ منزل کی جانب سفر سے باز آئے۔ انھوں نے اَزسرنو اپنی زندگی اور اپنی نئی ریاست کی تعمیرنو کا آغاز کردیا۔ چند غیرمرتب ایسے دفاتر میں بیٹھ کرکام شروع ہوگیا، جن میں کرسیاں، میزیں، کاغذ اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی ناکافی تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی زبان پر نہ شکوہ تھا، نہ گلےاورشکایتیں، بس یہ اطمینان تھا کہ انھوں نے منزل کو پالیا ہے۔

پھر کیا ہوا___ آہستہ آہستہ پاکستان کے نظام پر موقع پرستوں،زرپرستوں اور بِکے ہوئے نمایندوں نے قبضہ کرلیا۔

حواشی

۱-         روزنامہ The Civil & Military Gazette ،لاہور، ۳۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء

۲-         قائداعظم کا خط بنام گاندھی جی، مؤرخہ ۱۷ستمبر ۱۹۴۴ء

۳-         M EUR، دستاویز نمبر ۶۰۹، جلد۱۱، انڈیا آفس لائبریری، حوالہ تقریریں اور بیانات۔

۴-         خطبۂ صدارت محمد اقبال ، ۲۱ویں سالانہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ ، الٰہ آباد، ۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء

۵-         روزنامہThe Star of India، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء بحوالہ Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam ، ج۴، مرتبہ: خورشید احمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال لاہور، ص ۲۶۱۰

۶-         Speeches..... ،ایضاً، ص ۲۶۹۳

۷-         قائداعظم کی مسلمان عسکری قیادت سے ملاقات، دہلی،اگست ۱۹۴۹ء، بحوالہ میجر جنرل سیّد شاہد حامد [م: ۱۹۹۳ء] Early Years of Pakistan، فیروز سنز،لاہور، ۱۹۹۳ء۔ اس وقت شاہد حمید بطور لیفٹیننٹ کرنل، فیلڈمارشل سر کلاڈ جان آیر آکینلک [م: ۱۹۸۱ء] کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور اس شام کے استقبالیہ کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

۸-         جب یروشلم نے رضاکارانہ طور پر خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے آگے سرتسلیم خم کر دیا، تو حضرت عمرؓ نے ایک عہدنامہ پر دستخط کیے جس کے مطابق ایلا (Aelia) کے تمام باشندوں کو جن میں کمزور، بیمار اور صحت مند سب شامل تھے، مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان کے جان و مال، عبادت گاہیں اور صلیبوں اور دیگر مذہبی شعائر کو نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت دی گئی۔ ان کو مکمل مذہبی آزادی بھی دی گئی اور یہ ضمانت بھی دی گئی کہ مذہبی عقائد کے حوالے سے کسی کو کوئی گزند نہ پہنچنے دی جائے گی۔

            ان کے مذہبی پیشوا کی معیت میں سیّدنا عمرؓ جب ان کے مرکزی کلیسا پہنچے تو عبادت کا وقت تھا۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے چرچ میں ان کو نماز ادا کرنے کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ اگر ’’میں نے ایسا کیا تومبادا میرے پیروکار بعد میں اس کو مسجد نہ بنالیں‘‘۔ اس کے بعد اپنے آخری ہدایت نامے میں حضرت عمرؓ خلافت کے عظیم منصب کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اپنے جانشینوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ ذمیوں کو، جو دوسرے عقائد کے حامل حفاظت میں لیے گئے شہری ہیں، پورا تحفظ فراہم کریں اور ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں، جن کو وہ اُٹھا نہ سکتے ہوں۔ بحوالہ تھامس والکر آرنلڈ [م: ۱۹۳۰ء] : The Preaching of Islam، طبع اوّل، ۱۸۹۶ء

۹-         جمیل الدین احمد، Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries، پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، ۱۹۹۶ء

نو مسلم دانشور محمد اسد (لیوپولڈ وئیس؛۱۹۰۰ء- ۱۹۹۲ء)  کے تصور و فہم اسلام میں دین اور سیاست و حکومت کی یکجائی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ محمد اسد کی نظر میں اسلامی نظریہ ٔ حیات کو کامل طور سے مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری کرنے کے لیے ریاست و حکومت کا قیام ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ ترجمۂ تفسیر قرآن، شرح بخاری شریف کے علاوہ معاشرے کی اسلامی تشکیل اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خدوخال، اور اس کے دستور کی توضیح وتشریح، ان کی تالیفات کے اہم عنوان رہے ہیں۔ محمد اسد ایک جدید جمہوری فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے شدید آرزو مند تھے۔ انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں جدید مسلم دُنیا میں مغرب کی نقالی کی دوڑ میں سیکولر قومی ریاستوں کے قیام (ترکی ، افغانستاان ، اور ایران)، کے علاوہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت (سعودی عرب میں سعودی بادشاہت ) کو سخت تنقید کا ہدف بنایا ۔ اسلامی ریاست کے تصور سے اپنی اس گہری وابستگی کے پیش نظر محمد اسد کو تحریک پاکستان کے نصب العین، یعنی اسلامیان ہند کے لیے ایک جداگانہ اسلامی مملکت کے قیام سے گہری دل چسپی تھی۔ تحریک پاکستان کے فیصلہ کن مرحلے میں (۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء) اور خصوصاً قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے دوران میں انھوں نے اپنے آپ کو دو قومی نظریے کی توضیح و تشریح اور جدید اسلامی مملکت کے دستوری اصول کی تعبیر و تشریح کے لیے وقف کر دیا ۔

 تحریک پاکستان کا حقیقی نصب العین کیا تھا؟ ،بانیا ن پاکستان، خصوصاً علامہ ڈاکٹر محمداقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے؟ محمد اسد نے ان موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میںمحمد اسد کی آرا و خیالات ، سیکولر قومی ریاست کے قیام کے علَم برداروں کی طرف سے مملکتِ پاکستان کی نظریاتی جہت کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شہہات کے ازالے کے ضمن میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ذیل میں محمد اسد کے تصور و نظریۂ پاکستان پر بحث کی گئی ہے:

علّامہ محمد اسد کو اسلامی قومیت کے نظریے کی اساس پر مطالبہ و تحریک پاکستان کی صورت میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق اپنے دیرینہ خواب و آرزو کی تعبیر کے واضح طور پر امکانات دکھائی دیے۔چنانچہ وہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر برطانوی قید سے رہائی پانے کے ساتھ ہی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اس تحریک کے ایک سرگرم داعی و ترجمان بن گئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں مطالبہ و تحریک پاکستان کی نظریاتی اساس، اس کے حقیقی مقصد و غایت اور نصب العین کی وضاحت اور تشہیر کی اور پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے کا مُقدّمہ پوری قوت اور طاقت سے پیش کیا۔ اسی طرح انھوں نے بطور خاص دینی و شرعی اور سیاسی و ملّی نقطۂ نگاہ سے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی ضرورت و اہمیت واضح کی۔

محمد اسد نے برِّعظیم میں اپنے پندرہ سولہ سالہ قیام (۱۹۳۲ء-۱۹۴۷ء) کے دوران میں ہندو مسلم سیاست کا قریبی مشاہدہ کیا۔ وہ اس ملک کی ہندواکثریت اور اس کی نمایندہ سیاسی جماعت کانگریس کے سیاسی عزائم اور بالخصوص اس کے متحدہ وطنی قومیت کے نظریے اور اس کے مضمرات سے بخوبی واقف و آگاہ تھے۔ کانگریسی دورِ وزارت (۱۹۳۷-۱۹۳۹ء) کی مذہبی اور تعلیمی و ثقافتی پالیسیوں، مزید برآں اس دور میں ہندو آبادی کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے جانے سے بھی وہ باخبر تھے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔

دریں حالات وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس خطّے میں مسلمانوں کے تحفظ و بقا اور احیائے اسلام کی غرض سے ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت ’پاکستان‘ کا قیام ایک انتہائی ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان ایسی مسلم مملکت کے قیام کی صورت ہی میں اسلام کو اسلامیانِ ہند کی زندگی کے جملہ شعبوں میں جاری و نافذ کیا جاسکتا تھا اور ان کی اخلاقی و روحانی زندگی میں انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ اسد نے مئی ۱۹۴۷ء کو مجلہ  Arafat (عرفات ) میں What Do We Mean by Pakistan?? (ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟/ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟) کے عنوان سے اپنا ایک مقالہ شائع کیا، جس میں انھوں نے اپنے تصوّر و نظریۂ پاکستان کو وضاحت سے پیش کیا۔ اس مقالہ میں انھوں نے لکھا:

"I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a reality; and that, if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim World by proving that it is possible to establish an ideological Islamic polity in our times no less than thirteen hundred years ago".

میرا عقیدہ ہے اور گذشتہ چودہ سال [۱۹۳۲ء کے وسط میں برِّعظیم میں اپنی آمد کے دنوں] سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ماسوائے اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان و اقعتاً قائم ہوجاتا ہے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی نظام حکومت (Ideological Islamic Polity) قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔

محمد اسد نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا مطالبہ قومیت کے مغربی نظریے کی اساس پر نہیں بلکہ اسلامی نظریہ قومیت کی بنیاد پر کیا ہے،کہ جس کے تحت ہر نسلی، لسانی اور جغرافیائی قومیت کو سیاسی اعتبار سے حق خود ارادیت حاصل ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلامیانِ ہند کے لیے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے مطالبہ کی حقیقی و تاریخی عِلّت اور وجۂ جواز صرف اور صرف یہ نہ تھی کہ وہ اس ملک کے دوسرے باشندوں (خصوصاً ہندوؤں) سے مختلف لباس پہنتے اور مختلف زبان بولتے یا پھر مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے تھے، یا یہ کہ انھیں آزاد و جداگانہ مملکت میں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش اور توقع تھی اور انھیں زیادہ وسیع وکشادہ جگہ کی طلب تھی۔ بلکہ اس کا جواز صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور انھیں سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا، مسلمانوں کے لیے حقیقی اسلامی زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسی مملکت کا قیام ضروری تھا جس میں مسلمان اپنے دین و عقیدے کے مطابق آزادانہ طور پر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل کرسکتے ہوں۔ اسد کے الفاظ میں:

The Pakistan movement, …that the real, historic justification of this movement… is to be found only in the Muslims' desire to establish a truly Islamic polity: in other words, to translate the tenets of Islam into terms of practical life.

مطالبہ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو صرف یہ کہ ایک ایسی حقیقی اسلامی مملکت قائم کی جائے کہ جہاں عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعار رائج کیے جائیں۔

اسد کے نزدیک تحریک پاکستان کی جڑیں اسلامیان بّرعظیم کے اس جبلّی احساس و شعور میں پیوست ہیں کہ وہ ایک نظریاتی قوم ہیں اور ان کا جداگانہ تشخص صرف اور صرف اسلامی نظریۂ حیات سے وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ خود مختار سیاسی وجود کے حق دار ہیں بلکہ ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخّص کے تحفظ و بقا کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریۂ حیات ان کی اجتماعی زندگی کے ہر ہر پہلو اور ہر ہر مظہر میں دکھائی دے۔ ان کی نظر میں یہی تحریک پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین ہے۔ اسد کے الفاظ میں:

As far the Muslim masses are concerned, the Pakistan movement is rooted in their instinctive feeling that they are an ideological community, and have has such every right to an autonomous, political existence … They feel and know that their communal existence is not, as in other communities,based on racial affinities or on the consciousness of cultural traditions held in common, but only, exclusively, on the fact of their common adherence to the ideology of Islam: and that, therefore, they must justify their communal existence by erecting a socio-political structure in which that ideology, the shari'ah, would become the visible expression of their nationhood.... This is the real, historic purpose of Pakistan movement the movement's intrinsic objective, the establishment of an Islamic polity in which our ideology could come to practical fruition.

جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریک ِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلّی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ’ایک نظریاتی قوم‘ ہیں اور اسی لیے وہ ایک خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص دوسری اقوام کی طرح مشترکہ نسلی مشابہتوں [اشتراکات] اورقرابتوں یا مشترکہ  ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد برقرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس برقرار پاتا ہے۔ پس، ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریہ  اور اعتقاد (یعنی شریعت)، ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے… یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ تحریک ِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریۂ [حیات] حقیقت کا رنگ رُوپ اختیار کرسکے۔

محمد اسد نے علامہ محمد اقبال اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرح قومیت کے مغربی تصور کی پر زور طریقے سے نفی و تردید کی اور اسے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم قرار دیا جب کہ اس کے مقابلے میں اسلامی قومیت کے تصور کو نکھار کر پیش کیا۔ ان (اسد) کے نظریۂ اسلامی قومیت کے مطابق مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں نہ کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی وحدت۔ ان کی قومیت کی بنا صرف اسلام ہے۔ وہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح مشترکہ نسلی و لسانی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقداروروایات کے شعور کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی نظریۂ و اعتقاد سے وابستگی کی بنیاد پر ایک ملت ہیں۔ وہ محض مسلمان ہونے کی بناء پر، خواہ وہ جغرافیائی اعتبار سے کسی بھی خطے میں آباد ہوں، ایک ملت ہیں۔ اسد کی رائے میں اسلام مسلمانوں کے جداگانہ تشخّص و وجود کے چند عوامل و خصائص میں سے صرف ایک عامل نہیں بلکہ وہ تو ان کے وجود کی تاریخی علّت اور ان کی قومیت کی حقیقی و اصلی اساس ہے۔  وہ واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:

’’لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں بلکہ اس مفہوم میں ایک قوم (ملت) ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین (عقیدے اور نظریۂ حیات) کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا چاہتے ہیں‘‘۔

’’اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں، ہم لسانی وحدت بھی نہیں، ہر چند کہ ’اُردو‘ نے مسلم ہندستان کی زبان کے طور پر کافی ترقی کرلی ہے۔ ہم انگریزوں اور چینیوں کی طرح قوم نہیں ہیں اور نہ اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں۔  …ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ نصب العین سے بالکل مختلف ہے۔ تمام مسلم اقوام میں ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں، جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف ہٹاکر اُمت ِواحدہ کے اس تصور کی تلاش و جستجو میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، جس کی طرف رہنمائی و ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے کردی ہے‘‘۔

محمد اسد اسلام کو تحریک پاکستان کا پہلا و آخری حوالہ گردانتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں جدید دنیائے اسلام میں یہی ایک ایسی تحریک ہے جس کی اساس اور قوت محرّکہ اسلام ہے اور جس کا واضح نصب العین محض ایک قومی وطن کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ ان کے نزدیک مطالبہ پاکستان کی غایت اور اس کا حتمی و آخری نصب العین محض مادی خوش حالی اور سیاسی اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جس میں اسلام کامل طور پر برگ و بار لائے۔محض معاشی مفادات کے تحفظ یا صرف ایک قومی وطن کے حصول کی آرزو کو وہ تحریک پاکستان کا منفی اور انتہائی پست و کمزور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پاکستان اپنی ماہیت میں سیکولر نہیں بلکہ سرتاسر ایک نظریاتی تحریک تھی اور اس کی کامیابی مسلم دنیا میں اسلام کے احیاء کا محرک بن سکتی تھی۔

غرض یہ کہ محمد اسد کی نگاہ میں تحریک پاکستان کا نصب العین ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں مسلم عوام کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں شریعت کی فرماںروائی قائم ہو۔ اسد کے الفاظ میں ’’ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایک زندہ حقیقت بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسرکرنا ممکن نہیں تاوقتیکہ پورا کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔ لیکن اس قسم کا اصلی و حقیقی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور اسلام کے احکام کو اپنے شخصی و اجتماعی طرز عمل کی اساس نہ بنائیں‘‘۔

تحریک پاکستان کے تقاضے

دنیا کی کسی بھی سیاسی تحریک کی آئیڈیالوجی، اس کا نصب العین اور معاشرہ و ریاست کی تنظیم و تشکیل سے متعلق اس کا پروگرام خواہ کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو اس کے کچھ نہ کچھ تقاضے اور ابتدائی لوازمات و شرائط ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پورا کیے بغیر وہ پروگرام عملی طور پر متشکل نہیں ہوسکتا اور حقیقت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی سیاسی و اقتصادی نظام کسی معاشرے میں یکایک وجود میں نہیں آجاتا اور نہ مناسب تیاری کے بغیر اسے کسی معاشرے میں مصنوعی طور پر جمایا جاسکتا ہے۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول:’’اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اندر اخلاقی،نفسیاتی، تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے اور اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (pre-requisites)، کچھ اجتماعی محرکات، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ ایک [سیاسی نظام اور طرز] حکومت صرف ان حالات کے اقتضاء کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں فراہم ہوگئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے، جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں‘‘۔

چنانچہ جب معاملہ جدید دور میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کا ہو، کہ جسے تحریک پاکستان کے دوران میں اسلامیانِ برِّعظیم نے اپنا مطمح نظر اور نصب العین ٹھہرایا تھا، تو یہ اصول اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے میں تحریک پاکستان کے اس نصب العین کا تقاضا تھاکہ مسلم عوام کو اسلامی ریاست کے قیام کا حقیقی فہم و شعور حاصل ہوتا، انھیں اپنے نظریۂ حیات اور مقصد زندگی پر غیر متزلزل یقین ہوتا نیز ان کے مطالبات سے آگاہ ہوتے۔ ان کی سیاسی قیادت اس معیار اخلاق اور سیرت و کردار کی حامل ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ پھر وہ (سیاسی قیادت) اپنی جدوجہد سے معاشرے میں اسلامی طرزِ فکر اور اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کرتی، عوام کے طرز فکرو عمل کو ہر ممکن حد تک اسلام کی روح و مزاج سے ہم آہنگ بناتی۔ مزید برآں وہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے اجتماعی نظام کے خدو خال واضح کرتی۔ عوام کو ذہنی طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایثار و قربانی کا درس دیا جاتا۔ یہی اسلامی ریاست کے قیام کا ایک فطری طریقہ ہوسکتا تھا۔

تاہم، واقعی صورت حال یہ تھی کہ اجتماعی حیثیت سے اس وقت مسلمان بہت سی کمزوریوں میں مبتلا تھے۔ جو ان کی ملی طاقت کو گھن کی طرح کھاگئی تھیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کا سوادِ اعظم اسلام کی تعلیمات اور اس کی تہذیب و معاشرت سے ناواقف تھا۔ ان میں ان حدود کا شعور تک باقی نہ رہا تھا جو اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرتی ہیں۔ اسلامی تربیت کے صدیوں سے فقدان کے سبب ان کے اندر کوئی اخلاقی قوت باقی نہ رہی تھی۔ غرض اسلام سے ان کا تعلق محض رسمی اورپیدائشی و موروثی تھا۔ دوسری بڑی کمزوری جس میں وہ مبتلا تھے وہ قومی انتشار اور بدنظمی تھی۔ ان میں وہ اخلاقی اوصاف ناپید تھے، جو ذاتی مفاد کو ملی مفاد پر قربان کرنے پر اکساتے ہیں۔ مسلم قوم، نفس پرستی میں مبتلا تھی۔ افلاس، جہالت اور غلامی نے ان کو ملی و اسلامی حمیّت و غیرت سے بڑی حد تک محروم کردیا تھا۔ مزید برآں مسلم قوم دو عملی کا شکار تھی۔ وہ زبانی کلامی اسلام کا دم بھرتی تھی، جب کہ اس کا عمل اسلام سے بہت دور ہٹا ہوا تھا۔ رہی سہی کسر جدید مغربی تعلیم نے پوری کردی تھی۔ اس تعلیم کے سبب سے جدید نسل کا اپنے آبائی دین سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ جدید تعلیم سے بہرہ ور مسلمانوں کی نئی نسل اسلامی شریعت اور قانون کو فرسودہ و دور ازکار رفتہ، جب کہ مغرب کے تہذیب و تمدن اور اس کے طرز حیات کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی و تعلیمی نظام کی تقلید میں ہی مسلمانوں کی نجات خیال کرتی تھی۔

محمد اسد کی نگاہ میں مسلم عوام کی اجتماعی اسلامی و اخلاقی حالت اور اس کی سیاسی قیادت کا طرز فکروعمل تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور ان کے مطالبات اور تقاضوں سے میل نہ کھاتا تھا۔ دریں حالات وہ تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ‘‘ کے تقاضوں اور مطالبات کی وضاحت اور انھیں سیاسی قیادت کے ذہن نشین کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے برملا طور پر سیاسی قائدین سے دین اسلام کو دل و جان سے اختیار کرنے اور اس کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنے کا تقاضا کیا۔ مزیدبرآں انھوں نے سیاسی قیادت پر مسلم عوام کی اخلاقی تربیت اور ان کے طرز فکرو عمل کو دین اسلام کے اصول و تعلیمات سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ اسد نے مجوزہ اسلامی مملکت کے سیاسی و قانونی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کے دستور العمل کی اسلام کے اصول و احکام کی روشنی میں تدوین کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ انھوں نے خاص طور سے اس ضمن میں برتی جانے والی کوتاہی و غفلت اور تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین سے برگشتگی و انحراف کے مستقبل میں ظاہر ہونے والے منفی  نتائج و عواقب سے خبردار بھی کیا۔ اسد تحریک پاکستان کے تقاضوں کے بارے میں کہتے ہیں:

...."that the foremost slogan of the Pakistan movement  is La ilaha ill' Allah; that they are imbued with the desire to establish political forms in which the Muslim world-view, Muslim ethics and Muslim social concepts could find their full expression: and you will  ask me,  in a somewhat aggrieved voice, whatever I  count all this for nothing from the Islamic point of view?   As a matter of fact, I do not " count all this for nothing:"I count it for very much  indeed. I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a  reality; and thatٍ if it becomes a reality hereٍ it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving that it is possible to establish an ideological, Islamic polity in our times no less thirteen hunderd years ago. But ask yourselves: Are all leaders of the Pakistan movementٍ and the intelligentsia  which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islamٍ and nothing but Islamٍ provides the ultimate inspiration of their struggle? Are they really aware of what it implies when they say",The object of Pakistan is La ilaha ill'Allah?" Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan"?

 [آپ کہیں گے] کہ تحریک پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ مقرر ہو ا ہے، یہ کہ انھوں [اسلامیانِ ہند] نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار [ تصورات ونظریات] مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیر اہم خیال کرتا ہوں؟ بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیر اہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے(اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے، تو پورے عالم اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی ہیئتِ حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔ لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا: کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین اور اہل دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعووں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اولیں محرک ہے؟ جب وہ کہتے ہیں کہ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے یا مختلف و متفرق؟‘‘

 اسد کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اگر ہمارے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے تو ضروری ہے کہ ہم قوم کو اس مقصد کے حصول کے لیے اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کریں۔ صرف سیاسی جدوجہد اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے علمی و فکری، اخلاقی و تہذیبی اور سیاسی، غرض ہر میدان میںکام کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر حقیقی مقصد کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔اسد سیاسی قیادت سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ خود اپنے اور عامّۃ النّاس کے طرز فکر و عمل کو اسلامی نظریۂ حیات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ بنانے کا اہتمام کریں گے تاکہ وہ کل کو اسلامی مملکت کی تشکیل و تعمیر کے سلسلہ میں گراں بار ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اسد کو اس حقیقت کا گہرا ادراک و شعور تھا کہ گو مسلم عوام (اسلامیانِ ہند) اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور رکھتے ہیں، لیکن نہ تو اسلامی ریاست کے بارے میں کوئی واضح تصوّر ان کے سامنے ہے اور نہ صحیح معنوں ہی میں وہ اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ یہ اس لیے کہ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے اور صدیوں سے وہ ضعیف الاعتقادی اور سیاسی نکبت و ادبار کے عمیق کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

 مسلم قوم کی اجتماعی حالت کی اصلاح کی ضرورت سے متعلق اسد کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت پست ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے اور وعدے وعید توڑنے سے ہمیں عار نہیں۔ بدعنوانی، خود غرضی، دھوکا بازی، فریب کاری، خود غرضی اور اقربا پروری ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے وجود کے سرچشمے یعنی اسلامی تعلیمات سے بہت دور جاپڑے ہیں۔ اگر ہم موجودہ اخلاقی پستی سے اوپر اٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں تو ایسے حالات میں ہم کیوں کر اسلامی مملکت پاکستان کے شایانِ شان شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر حقیقی اسلامی مملکت قائم کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے موجودہ طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہر قدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے تو نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد حیثیت حاصل ہونے والی ہے وہ حاصل نہ ہوسکے گی۔

محمد اسد تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم عوام کی اخلاقی و روحانی اصلاح اور صحیح اسلامی تربیت (دینی و فکری و عملی) کی غرض سے سیاسی قیادت کے دوش بدوش روحانی و نظریاتی قیادت کی موجودگی کو بھی بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ ایسی قیادت جو مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرسکے، فکری و نظری اور عملی میدان میں ان کی رہنمائی کرسکے اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلہ میں انھیں ایثار اور قربانی پر آمادہ و مستعد کرسکے، جو ان میں اسلام کی روح کو سمودے اور انھیں اخلاقی اصولوں کی علَم بردار ایک نظریاتی جماعت بنادے۔

اسد کو بخوبی احساس تھا کہ مسلم لیگی قیادت نے مسلم عوام کی صحیح رخ پر تربیت کے معاملہ میں کسی بصیرت اور دُور اندیشی سے کام نہیں لیا بلکہ اس ضمن میں اس نے غفلت اور اغماض و چشم پوشی کا مظاہرہ کیا۔ وہ زبانی کلامی اسلام سے وابستگی کا دم تو بھرتی رہی، لیکن اس نے نہ تو اپنے اخلاق کو اسلامی تقاضوں اور مطالبات کے مطابق ڈھالا اور نہ مسلم عوام ہی کے طرز فکر وعمل کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اسد نے اس غفلت و کوتاہی پر مسلم لیگی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا:

How many of our leaders, and of our intelligentsia in general, have an Islamic polity in view when they appeal to the Muslims to close their ranks and to sacrifice their all, if necessary, for the achievement of Pakistan.? But what I blame some of our leaders for, is their apparent inability to rise to the spiritual greatness displayed by the Muslim masses in this decisive hour of their destiny, and deliberately to guide those masses towards the ideal which is fundamentally responsible for their present upheaval. To put it into simple words: our leaders do not seem to make a serious attempt to show that Islam is the paramount objective of their struggle. If the meaning of our struggle for Pakistan is truly to be found in the words la ilaha ill' Allah, our present behaviour must be a testimony of our coming nearer and nearer to this ideal, that is, of becomming better Muslims not only in our words but in our actions as well. It should be our leaders' duty to tell their followers that they must become better Muslims today in order to be worthy of Pakistan tomorrow.

 جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش، حصول پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں، تو ان [میںسے کتنے ہیں، جن ]کے ذہن میں ’’ اسلامی ہیئتِ حاکمہ‘‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو نا ممکنات سے ہے، کہ غیر مسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و پیشتر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیر مسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجائے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں ، ایک منطقی استدلال ہے، ایک امنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجائے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلام قوم بنانے کی کوشش کرتے؟

اسد کا کہنا یہ تھا کہ اگر قائدین تحریک پاکستان و اقعتاً اسلام چاہتے ہیں، اگر وہ واقعی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں تحریک پاکستان کے دنوں ہی میں اپنے طرز فکر و عمل کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کو اسلامی تعلیمات کے تابع بنانا ہوگا اور اسلام کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ تسلیم کرتے ہیں اور محض اسے ایک سیاسی نعرہ نہیں سمجھتے۔اسد اپنے رہنماؤں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کا طرز عمل اس نظریے کے عین مطابق ہو جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔

اسد تحریکِ پاکستان کے دنوں میں ہی مستقبل کی اسلامی مملکت کے سیاسی و معاشی ، تعلیمی و معاشرتی اور قانونی و عدالتی نظام کی اسلامی اصول و تعلیمات کی اساس پر تعمیروتشکیل کے لیے ان شعبوں سے متعلق ایک مفصل دستور العمل کی ترتیب و تدوین کو از حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں مسلمان ماہرین قانون اور علما و دانش وروں پر مشتمل ایک بااختیار مجلس کے قیام کا مشورہ دیا۔ اسد کا کہنا تھا کہ اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی نصب العین اور اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثر انداز ہوناہے تو اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس مقرر کرنی چاہیے جو ان اصولوں کی توضیح و تشریح کا فریضہ انجام دے جس پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔ مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیسا ہوگا؟ کس قسم کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ کیا ہماری ریاست معاصر مسلم ریاستوں کی طرز کی ایک سیکولر قومی ریاست ہوگی یا پھر جدید تاریخ میں اس شاہراہ پر پہلا قدم ہوگا جو انسانِ کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟

قیام پاکستان اور اسلامی نظریاتی ریاست کے تصوّر کی ترجمانی

محمد اسد نے قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں اسلامی نظریاتی ریاست کی تشکیل کا مُقدّمہ بڑی قوت و طاقت سے پیش کیا۔ انھوں نے بڑی درد مندی اور اخلاص سے اس وقت کی سیاسی قیادت اور مسلم عوام کو تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نے خاص طور پر سیاسی قیادت کو تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام سے اس نوزائیدہ مملکت کے سیاسی و دستوری، عدالتی و قانونی، معاشرتی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کو قرآن حکیم اور تعلیمات نبویؐ پر استوار کرنے کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں کے ایفاء کی تذکیرویاد دہانی کرائی۔ انھوں [اسد] نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی اپنی ایک تقریر میں کہا:

Our struggle for Pakistan and our ultimate achievement of independence drew its force from the fundamental desire on the part of Muslims to translate their own world-view and their own way of life into terms of political reality.When we demanded a state in which the Muslim nation could freely develop its own traditions, we demanded no more than our just share of God's earth; we asked for no more than to be allowed to live in peace, to build a commonwealth in which the genius of Islam could freely unfold, conferring light and happiness not only on Muslims but also on all the people of other communities who would choose to share our living space with us.

تحریک پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد اور بالآخر ہمارا آزادی حاصل کرلینا، اس سب کی قوت محرّکہ دراصل اسلامیانِ ہند کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے مذہب و عقیدے اور تصوّرِ حیات و کائنات کے مطابق ایک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک ایسی ریاست کا مطالبہ کیا تھا کہ جس میں ملت اسلامیہ آزادانہ طور سے اپنی تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کو پروان چڑھاسکے۔ ہم نے ایک ایسی مملکت کا تقاضا کیا تھا جس میں اسلام کی عبقریت اور قوت و صلاحیت کامل طور پر آشکار ہوسکے۔

محمد اسد اپنی ایک دوسری تقریر میں فرماتے ہیں:

Our struggle for Pakistan was from its very beginning inspired by our faith in Islam. There is no denying the fact that the Muslims of this sub-continent had a definite ideological goal before themselves when they started on their trek towards an Islamic State. We did not desire a "national" state in the usual sense of the word...

جب ہم پاکستان کا مطالبہ کررہے تھے تو ہماری نگاہوں کے سامنے ایک بڑا واضح اور معین نصب العین تھا کہ ہم اسلامیانِ برّعظیم پاک وہند اپنے لیے ایک ایسا ملک حاصل کریں کہ جس میں ہم اپنے تصور کائنات اور اپنے اخلاقی تصورات و معیارات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہم نے واضح و متعین طور پر ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے سوا ہمارا کوئی اور مطمح نظر اور غایت نہ تھی۔

محمد اسد نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصوّر پاکستان کے بارے میں بعض ذہنوں میں موجود ابہام اور الجھاؤ کو دور کرنے پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے سیکولر و مغرب زدہ افراد کے اس نقطۂ نظر کی تردید و مخالفت کی ہے کہ اقبال اور قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ محمد اسد کی رائے میں ان دونوں بانیانِ پاکستان نے اسلامیانِ ہند کے لیے آزاد مملکت کا مطالبہ اسلامی قومیت کی بنیاد پر کیا تھا۔ دونوں ایک ایسی مسلم ریاست کے قیام کے متمنی اور آرزومند تھے کہ جہاں قانونِ اسلامی یعنی شریعت کی فرمانروائی ہو، مسلمان اپنے دین و عقیدے اور تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کے مطابق اپنے اجتماعی ادارے تشکیل دے سکیں۔ وہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جہاں اسلامی نظریۂ حیات کا بول بالا ہو، اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا کامل طور سے اظہار ہو۔ دونوں ہی ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے متمنی تھے۔محمد اسد لکھتے ہیں:

Whenever Iqbal spoke of God's Kingdom on earth, and whenever the Quaid-i-Azam demanded a political structure in which the Muslim nation could freely develop its own institutions and live in accordance with the genius of the shari'ah, both meant essentially the same. The goal before them was the achievement of a state in which the ideology common to all of us, the ideology of Islam, would fully come into its own: a polity in which the Message of Muhammad (peace and blessings upon him)would be the foundation of our social life and the inspiring goal of all our future endeavours. The Poet-philosopher put greater stress on the spiritual aspect of our struggle, while the Quaid-i-Azam was mainly concerned with outlining its political aspect: but both were one in their intense desire to assure to the Muslims of India a future on Islamic lines.{ FR 740 }

جب بھی اقبال نے زمین پر خدائی مملکت کی بات کی، یا جب کبھی قائداعظم نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کا مطالبہ کیا، جس میں مسلم قوم آزادی سے اپنے ادارے قائم کرسکے، اور شرعی تصورات کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دے سکے، تو ان دونوں کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ ان کے سامنے ہدف ایک ایسی ریاست کا حصول تھا، جس میں وہ نظریہ جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے، اسلام کا نظریہ، مکمل طور پر رُوبہ عمل آسکے: ایک ایسا سیاسی نظام جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہماری معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے اور ہم اپنے مستقبل کے اقدامات کے لیے اسی سے جذبہ حاصل کرسکیں۔ فلسفی شاعر [اقبال] نے ہماری جدوجہد کے روحانی پہلو پر بہت زیادہ زور دیا، جب کہ قائداعظم کی زیادہ تر توجہ اس کی سیاسی جہت کی خاکہ سازی کی طرف رہی۔ مگر دونوں ہندی مسلمانوں کے لیے اسلامی خطوط پر مبنی مستقبل کا حصول یقینی بنانے کے معاملے میں ایک تھے۔

محمد اسد کا یہ بیان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان کے بارے میں دانستہ طور پر پیدا کیے جانے والے ابہام کو دور کردیتا ہے۔ وہ(اسد) اگر علامہ محمد اقبال کے مزاج شناس تھے، تو قائداعظم محمد علی جناح کے افکاروخیالات اور ان کے تقاریر و بیانات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کے خیال میں قائداعظم پاکستان کو بہرحال ایک اسلامی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے:

ایک ایسی ریاست جو ہمارے نظریۂ حیات (اسلام) سے ہم آہنگ ہو، جس کا دستور اور نظام حکومت (Polity) اسلام کے اصول و تعلیمات پر استوار کیا گیا ہو، جو اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل میں قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرتی ہو۔

محمد اسد کو اس امر کا بھی بخوبی احساس ہے کہ عصر جدید میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام کوئی آسان کام نہیں۔ اس دور میں، جب کہ چہار سُو نسلی و لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر وطنیت و قومیت کا تصور سکۂ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ سیکولر قومی ریاستوں کا مشرق و مغرب میں دور دورہ ہے۔ بہت سے لوگوں خصوصاً مغرب کے افکاروخیالات، اس کی تہذیب و معاشرت اور سیاسی نظام سے حد درجہ مرعوب و متاثر جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلامی نظریاتی ریاست کا تصوّر بڑا عجیب و غریب سا لگتا ہے۔ وہ اسے عصر جدید کے تقاضوں اور اس کے میلانات و رجحانات کے بڑا ہی ناموافق خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس نظریے کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔

بایں ہمہ، اسد اسلامی ریاست کے قیام کے عزم پر مضبوطی سے قائم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موجودہ زمانے میں نظریاتی اسلامی ریاست کا نظریہ کچھ بہت مقبول نہیں، بڑے یقین سے یہ دعوت پیش کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی یہ شان نہیں کہ باقی دنیا کی طرح فتنہ و فساد اور سیکولر قومی ریاست کے قیام کے راستے پر چلے۔ ان کے نزدیک ہم مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں، ایک ایسی ملت جو زندگی کے ایک قطعی نصب العین اور اخلاقی قدروں کے ایک قطعی پیمانے پر متفق ہو۔ لہٰذا، ہمارا کام یہ ہے کہ اسلام کی ازلی و ابدی تعلیمات پر لبّیک کہتے ہوئے ایک نظریاتی ریاست کی تأسیس کا بیڑا اٹھائیں۔

 محمد اسد نے پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے مقدّمے کو پیش کرتے ہوئے اس کے جواز کے سلسلے میں تین امور کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے:

            ۱-         اسلامی ریاست کا قیام سراسر ایک دینی و شرعی ضرورت ہے جس کو پورا کیے بغیر مسلمان سچی اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ بدیں وجہ اسلامیانِ پاکستان کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام و تشکیل کا بیڑا اٹھائیں۔ محمداسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ بابت مارچ ۱۹۴۸ء میں لکھا تھا:

Our Struggle for the attainment of Pakistan has been fought on an ideological platform. We have maintained, and we do maintain today, that we Muslims are a not nation by virtue of our adherence to Islam. To us, religion is not merely a set of beliefs and moral rules, but a code of practical behaviour as well. Contrary to almost all other religions. Islam does not context itself with influencing the life of the spirit alone, but aims also ate shaping all the physical aspects of our life in accordance with the Islamic World-view. In the grand scheme propounded to us in the Qur'an and in the Life-example of the Holy Prophet, all the various aspects of human existence - moral and physical, spiritual and intellectual, individual and communal - have been taken into consideration as parts of the indivisible whole which we call "human life".It follows, therefore, that we cannot live a truly Islamic life by merely holding Islamic beliefs, We must do far more than that. If Islam is not to remain an empty word, we must also co-ordiante our outward behaviour, individually and socially, with the beliefs we profess to hold.{ FR 784 }

ہم نے قیام پاکستان کے لیے جو جدوجہد کی تھی وہ اسلامی مطمح نظر کے ماتحت کی۔  ہم نے کہا تھا اور آج بھی کہتے ہیں کہ مسلمان ایک ایسی ملت ہیں جس کا دین اسلام ہے۔ ہمارے نزدیک مذہب کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ محض ایک مجموعۂ عقائد اور ضابطۂ اخلاق ہے۔ وہ محض اس بات پر راضی نہیںہوجاتا کہ اپنا تعلق صرف عالم روحانیات سے رکھے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہماری زندگی کے مادی پہلو بھی اس کے نظریۂ حیات کے مطابق ڈھل جائیں۔قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں زندگی کا جو زبردست نظام ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے جملہ مظاہر اخلاقی اور مادی، روحانی و ذہنی اور انفرادی و اجتماعی کا جامع ہے۔ ہم (مسلمان) محض اسلامی عقائد کے اقرار سے اسلامی زندگی نہیں بسر کرسکتے بلکہ ہمیں اپنے اخلاق وکردار اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو ہر لحاظ سے اسلام کے نظام حیات سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ اسلام کا یہی وہ خاص پہلو ہے جس کی بنیاد پر ہم نے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا، کیونکہ صرف ایک آزاد ریاست ہی میں ہم حکومت و سیاست، قانون اور اجتماعی نظم و نسق کے سارے سازوسامان کے ساتھ اس نظام کی عملاً تعمیل کرسکتے ہیں، جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کی خاطر ہم نے ایک آزاد مملکت کے حصول کی جدوجہد کی۔

            ۲-         محمداسد کی رائے یہ تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام احیائے اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی بے حد ضروری ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پرجب کہ بہت سے مسلم ممالک مغرب کی نو آبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے، اور کچھ آزاد بھی ہورہے تھے اور انھیں معاشرہ و ریاست کی تشکیل و تعمیر نو کا کڑا چیلنج درپیش تھا۔ محمد اسد اس خیال کے محرک و داعی بن کر سامنے آئے کہ پاکستان میں حقیقی اسلامی ریاست کا قیام ان ممالک میں اسلامی ریاستوں کے قیام کے لیے ایک زبردست جذبۂ محرکہ کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وہ اسلامی ملکوں میں احیائے اسلام کی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اسد کی رائے میں پاکستان کی حقیقی اسلامی ریاست مسلم ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی کا بھی ایک بڑا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے اور اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔

 اسد کا خیال تھا کہ’’ اگر ہم پاکستان کے لوگ اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں کہ ہماری ریاست سرتا سر اسلامی ہو اور اگر ہم اس مایوس اور نااُمید دنیا کو سچ مچ بتاسکیں کہ بنی نوع انسان کے تمام سیاسی و اجتماعی امراض کا مداوا، اسلام اور صرف اسلام کے پاس ہے تو ساری دنیا کے مسلمان مجبور ہوجائیں گے کہ جلد یا بہ دیر ہمارے نقش قدم پر چلیں‘‘۔

 اسد گویا ’’روشن خیال دانش وروں‘‘ کے اس نقطۂ نظر کو معقول خیال نہیں کرتے کہ ’’دین اسلام کی بنیاد پر کسی ریاست کے لیے مطالبہ، اسلام کے بین الاقوامی اور عالمگیریت کے پہلو سے بآسانی اور پوری طرح سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا‘‘۔

            ۳-         جناب اسد نے پرزور انداز میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام خود اس ملک کے تحفظ و بقا اور اس کی سالمیت و یکجہتی کے لیے بھی از حد ضروری ہے، کیونکہ پاکستان کی مسلم آبادی مختلف نسلی و لسانی قومیتوں کا مجموعہ ہے، جنھیں صرف اسلام سے شعوری اور غیر متزلزل وابستگی ہی یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی ان کے مابین اتحاد ویگانگت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

            ۴-         پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی جن گوناں گوں اقتصادی و مالی مشکلات کا سامنا تھا اور عوام کی بھاری اکثریت جس تنگدستی و افلاس سے دوچار تھی، وہ سب حالات ایسے تھے کہ اس نوزائیدہ ملک کے کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں بہہ جانے کے قوی خدشات و خطرات موجود تھے۔ دریں صورت محمد اسد پاکستان میں اسلامی نظریۂ حیات کی ترویج و استحکام اور اسلام کے نظام سیاست و حکومت اور اقتصادی و سماجی عدل کے قیام کو ان مزعومہ خطرات کے سدّباب کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں کمیونزم، کہ جس نے ایک بڑے طاقت ور نظریۂ حیات (آئیڈیالوجی) کا روپ اختیار کرلیا تھا، کا مقابلہ ایک زیادہ پُر کشش و جاندار نظریۂ حیات، یعنی اسلام ہی کرسکتا تھا۔  (جاری)

دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۷-ڈی کہتی ہے کہ ’’ریاست سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی‘‘۔ سبھی اہلِ دانش جانتے ہیں کہ جہاںانصاف نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ ’’ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔
ملکی عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر مقدمات انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ اس وجہ سے غریب اور مظلوم طبقہ، بالخصوص خواتین کے ساتھ شدید ناانصافی ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں کُل ججوں کی تعداد ۳ہزار ۶۷، جب کہ ایک ہزار ۴۸ ججوں کی آسامیاں خالی ہیں، یعنی جتنی تعداد میں جج عدالتوں میں ہونے چاہییں تھے، ان میں ایک ہزار ۴۸  جج کم ہیں۔
اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں زیرالتواء یا زیرسماعت مقدمات کی تعداد ۲۱ لاکھ ہے۔سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد۵۱ ہزار ایک سو ۳۸ ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ۱۶ہزار ۳سو۷۴ اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں ۵۱ہزار ۸ سو ۴۹ مقدمات زیرالتواء ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ایک سروے کروایا تھا، جس میں خود سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بہت سےLitigants (سائلین اور درخواست گزاران)ایسے ہیں، جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا۔ اس سروے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جائیداد کے حوالے سے دائر کیے گئے مقدمات دائر ہونے سے لے کر فیصلہ ہونے تک ۳۰ سال لیتے ہیں۔ کیا یہ عمل انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں؟ انصاف کی فراہمی میں تاخیر لوگوں کو انصاف سے محروم رکھنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم کا دور دورہ رہے گا۔
۲۱لاکھ زیرالتواء مقدمات کمزور اور پسے ہوئے طبقات، بالخصوص خواتین کے ساتھ جائیداد کے معاملات میں شدید ناانصافی کا پتا دیتے ہیں۔ مقدمات کے اس التواء کا سب سے زیادہ فائدہ ایلیٹ کلاس، اشرافیہ اور مافیا کو ہورہا ہے اور غریب عوام اس کے نتیجے میں پِس کر رہ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ زیرالتواء مقدمات کی یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات (privileges ) حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دُنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پہلے دس ممالک میں آتا ہے، مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ ۱۲۴ویں نمبر پر آتی ہے، جو حیرت اور افسوس کی بات ہے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تنخواہیں بہت بلند ہیں۔ لیکن انصاف سُست رفتار اور کم یاب ہے۔ مراعات، سہولیات، تنخواہیں،پنشن، پروٹوکول تو خوب ہیں، لیکن۲۱ لاکھ سائلین عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں، ان کو انصاف نہیں مل رہا۔ اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کے لیے سونا چاہیے۔ جس کے پاس سونے کی چابی نہ ہو، اس کے لیے حصولِ انصاف کے لیے عدالت کے ایوان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب پاکستانی عوام انصاف سے محروم ہیں۔
جج صاحبان بعض اوقات مقدمات کی سماعت کے دوران فرماتے ہیں کہ عدل اور قانون کی نگاہ میں کوئی ’مقدس گائے‘ نہیں ہے۔ لیکن ہم جج صاحبان سے عرض کرتے ہیں جب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات زیرالتواء ہیں، تو عدلیہ کی اس کارکردگی کے ساتھ کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ اور جج صاحبان، توہین عدالت کی آڑ میں کہیں خود ’مقدس گائے‘ نہیں بنے ہوئے ہیں؟
اگر ان کا کوئی خودکار احتسابی نظام ہے اور اگر جائزہ اور کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے تو پھر ۲۱لاکھ مقدمات پاکستان کی عدالتوں میںزیرالتوا ء کیوں ہیں؟ یہ پہلو توجہ چاہتا ہے۔
جج صاحبان سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کسی نہ کسی انداز سے سیاست میں ملوث ہوتے ہیں، آئے دن سیاسی رائے دیتے ہیں اور بہت سے مسائل پر سوموٹو اقدام کرتے ہیں اور مختلف چیزوں کی طرف جاتے ہیں جو آپ کا کام ہی نہیں ہے۔ لیکن جو آپ کا بنیادی کام ہے، پاکستان کے عوام کو انصاف فراہم کرنا، اس کو ٹھیک کرنے کی طرف کیوں توجہ نہیں ہے؟ روز بروز پاکستان میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ کون سا مافیا ہے جو عدالتوں نے پکڑا ہے؟ پانامہ پیپر، پینڈورا پیپر، چینی مافیا، پٹرول مافیا، گندم مافیا، کون سا مافیا ہے جس کو ہماری عدالتوں نے بے نقاب کیا ہے اور جن کا احتساب کیا ہے اورعوام پر جو ظلم ہورہا ہے ، اس کا سدباب کیا ہے؟ یہ بہت بڑا ایشو ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش ہیں:
    ۱-    عدلیہ کی تقریباً ایک ہزار ۴۸ خالی آسامیوں پر ججوں کا فوری طور پر تقرر کیا جائے۔
    ۲-    عدلیہ میں سیکنڈ شفٹ شروع کی جائےاور متحرک عدالتی نظام قائم کیا جائے۔
    ۳-    وڈیو لنک اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
    ۴-    قانونی اُمور میں ججوں کی تربیت کی جائے۔ عدلیہ کی طرف سے اکثر صورتوں میں زبان و بیان اور ابہام زدہ اسلوب میں کمزور فیصلے آتے ہیں۔ جس کا ایک سبب قانونی اُمور میں ججوں کی پوری طرح گرفت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ انگریزی میں فیصلے لکھنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی مشاہدہ اور درست نقطۂ نظر لکھنے میں لفظوں کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں۔
    ۵-    اُمورِ دستور کی الگ عدالت قائم کی جائے،اور ہرصوبے میں الگ سپریم کورٹ قائم کی جائے۔
    ۶-    بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کی جائے، اور پیشیوں سے فرار اور التواء کا رویہ اپنانے والے وکلا کے بارے میں کوئی ضابطہ مقرر کیا جائے، تاکہ مقدمات طوالت کا شکار نہ ہوں اور انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے۔
لوگ بھوکے رہ سکتے ہیں، اپنے دیگر حقوق پر بھی سمجھوتا کرسکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیرکوئی نہیں رہ سکتا۔ انصاف نہیں ہوگا تو بدامنی ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو اضطراب ہوگا۔انصاف نہیں ہوگا تو طبقاتی تقسیم ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو حکمران اشرافی طبقے استحصال کریں گے اور استحصالی طبقے عوام کا خون چوسیں گے۔ اسی لیے انصاف کی فراہمی بنیادی چیز ہے۔ اس کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے عوام کو کم از کم انصاف تو فراہم کرسکیں۔

ایک سائنسی سروے اور تجزیے کے مطابق پاکستان میں ہر تیسرا چوتھا فرد ڈپریشن یا مایوسی  اور افسردگی کا شکار ہے۔ ڈپریشن کا مطلب ذہنی عدم توازن کا شکار ہونا ہے۔ یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ ڈپریشن دراصل اس بات کی علامت ہے کہ فرد داخلی طور پر شدید بحران کا شکار ہے۔ اس کا شعور، لاشعور سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہے۔
ڈپریشن کے ظاہری اسباب کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:

  •         مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر، جس نے لوگوں سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔
  •         شہروں سے لے کر قصبوں تک بے روزگار نوجوانوں کے غول پھر رہے ہیں۔
  •         شہر، محلّے سے لے کر قومی سطح تک سرمایہ داروں اور مال داروں کی طرف سے مفلوک اور مسکینوں کی دست گیری کے نظام کا نہ ہونا اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی تک کے انتظام کا نہ ہونا۔
  •         قومی وسائل کے بڑے حصے کا لُوٹ مار، رشوت اور غبن وغیرہ کے ذریعے دوچار فی صد افراد کے قبضہ میں چلے جانا اور عام لوگوں کو قومی وسائل میں شریک کرنے کا انتظام نہ ہونا۔
  •         خواہشات کا بنیادی ضرورت کی صورت اختیار کرنا، جب خواہشات پر مبنی ضروریات کے حصول کی صورت پیدا نہیں ہوتی تو افسردگی کا شکارہونا۔
  •         خوش حال طبقات کی طرف سے زندگی کا جو مصنوعی معیار قائم کیا گیا ہے، اس کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے دل گرفتگی کا ہونا۔
  •         خوش حال اور مال دار طبقوں میں ہونے والے ڈپریشن میں مال کی بڑھتی ہوئی ہوس کا ہونا۔ یہ مال چونکہ اکثر یا تو ناجائز طریقوں سے حاصل ہوتا ہے، یا عوام کو مہنگائی کی بلا میں مبتلا کرنے کی صورت میں، اس لیے مال کی یہ ہوس آگ کی صورت میں خوش حال افراد کے دلوں کو جلانے کا باعث بنتی ہے۔ جس کے نتیجے میں مال دار افراد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ڈپریشن خواص میں ہو یا عوام میں، اس کا بنیادی سبب انسانی شعور اور عمل کا آپس میں ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ شعور بھٹکتا پھرتا ہے تو اسے زندگی بے معنی نظر آتی ہے۔ ایسی زندگی جس کا کوئی پاکیزہ مقصد نہ ہو، جو دل اور روح کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ ہو، جو محبت کے حقیقی تقاضے سے عدم مطابقت رکھتی ہو، اس طرح کی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور مایوسی کا ذریعہ بھی۔
یہ ایسی قابلِ رحم حالت ہے، جس پر درد مند افراد خون کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پاکستانی ملت کے اگر کروڑہا افراد اس بیماری، یعنی ڈپریشن کا شکار ہوں تو اجتماعی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔
ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم و ملّت کے ذہین افراد کی ذہنی توانائیاں اس بات پر صرف ہوتیں کہ ملّت اس بحران سے کیوں دوچار ہے؟ اور اسے اس بحران سے کس طرح نکالا جاسکتا ہے؟ لیکن بے حسی اور بے بسی ملاحظہ ہو کہ اتنے بڑے المیہ کے باوجود کہ ہمارے کروڑہا افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔ افراد اور قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی، جو لوگ مرض کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، انھیں ان نفسیاتی ماہرین کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جو زندگی بھر افراد کو نشہ آور یا نیندآور گولیوں پر چلاتے رہتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو ڈپریشن کی اس بڑھتی ہوئی بیماری کا ذریعہ مادیت پرستی، ہیجان خیز جنسی مناظر اور انسانی ہمدردی کے احساس میں فساد کا نتیجہ ہے۔ احساس میں جب پاکیزگی کے بجائے فساد برپا ہوجاتا ہے، احساس میں جب روحانیت کے بجائے مادیت کے اجزا غالب آجاتے ہیں، احساس جب محبوبِ حقیقی سے محبت کی ہم آہنگی کے بجائے مادی مقاصد سے رشتہ جوڑ لیتا ہے، تو فرد اور افراد کی داخلی زندگی شدید ہیجان خیزی، شدید اضطراب اور بے قراری کے انگاروں پر لوٹنے لگتی ہے۔ اس سے انسانی ذہن شل ہوجاتا ہے۔ وہ پاکیزہ اور صحیح مقصد ِزندگی نہ پاکر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی مایوسی اس کے ذہنی توازن میں خلل پیدا کردیتی ہے اور ڈپریشن کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
ڈپریشن کے مریض کے سامنے آپ دولت کے ڈھیر پیش کردیں، مادی حُسن کا وافر ذخیرہ سامنے کر دیں، ذہنی دبائو کے شدید حملے کی وجہ سے ان چیزوں کی موجودگی سے اس کا ذہنی سکون بحال نہیں ہوسکتا۔ یعنی ڈپریشن دل اور روح کے اس بحران کا نتیجہ ہوتا ہے کہ اسے محبوبِ حقیقی کی معرفت اور اللہ کی محبت سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس عمل میں فرد کا اپنا ذاتی قصور ہو یا معاشرے کا، سردست اس سے بحث نہیں، لیکن بڑھتے ہوئے ڈپریشن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے۔
ڈپریشن کے بڑھتے ہوئے بحران سے بچائو کی صورت یہ ہے کہ ہم اس سلسلے میں مغربی ماہرین نفسیات کی تحقیق سے بلند ہوکر، اپنے تاریخی، تہذیبی پس منظر میں اس کا علاج تلاش کریں۔  مسلم نفسیات کے ماہرین جنھیں ’اہل اللہ‘ کہنا زیادہ صحیح ہے، جب ہم ان کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی خود اختیار کردہ فقر سے عبارت تھی۔ فقر کی اس حالت میں رہ کر ، انھوں نے ہزاروں لاکھوں افراد میں زندگی کی رَو دوڑا دی تھی۔ انھیں خود اعتمادی سے سرشار کر دیا تھا اور انھیں خودشناسی اور اللہ شناسی سے اس طرح آشنا کر دیا تھا کہ ڈپریشن ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سارے سوچنے والے مؤثر طبقات کے ذہنوں پر ہرمعاملے میں مغرب کی نقالی اور جاہلانہ تقلید کی روش غالب ہے۔ وہ زندگی کے سارے معاملات میں مادہ پرست اہلِ مغرب کو ماہر، رہبر اور اپنا استاد سمجھ کر ان کے اختیار کردہ نسخوں پر عمل پیرا ہیں۔ اس صورت میں صحیح سمت میں سوچ کا عمل ہی دشوار ہے۔
یاد رکھیں کہ اگر ہم نے مادیت پرستی کی غیرفطری روش کو جاری رکھا اور نوجوان نسل کی فطرت سے ہم آہنگ پاکیزہ نصب العین سے مطابقت کی صورت پیدا نہ کی تو ہماری آنے والی نسلیں طرح طرح کی سنگین بیماریوں کا شکار ہوتی رہیں گی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوعمر افراد اس قدر فکری انتشار کا شکار ہیں کہ ایک طرف الحاد اور دہریت کے اسیرہیں، تو دوسری طرف جانوروں کی سی جنسی آزادی اور روش پر مٹے چلے جارہے ہیں، اور تیسری جانب امراضِ دل، شوگر اور بلڈپریشر کے بھی دائمی مریض بن رہے ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں پر رحم کھاتے ہوئے، اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی اختیار کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر بچائو کی ساری صورتیں مسدود ہیں۔
جب اپنی پاکیزہ تہذیب سے ہم آہنگی کی صورت پیدا ہوگی تو اس سے معاشی ناہمواری، امیرکے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے کی فضا میں کمی پیدا ہوگی۔ اس لیے کہ پاکیزہ اسلامی تہذیب ہمیں اُن ہدایات پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے گی۔ جن میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے لیے جو کچھ چاہتا ہے، وہی کچھ اپنے دوسرے بھائی کے لیے نہ چاہے۔ (حدیث شریف)
قرآنِ مجید میں ہے: وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۝۰ۥۭ  قُلِ الْعَفْوَ۝۰ۭ  (البقرہ ۲:۲۱۹) ’’یہ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں؟ ان سے کہو کہ ضرورت سے زیادہ سب کا سب‘‘۔ قرآنِ مجید میں ایک دوسری جگہ ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۥۭ (الِ عمرن۳:۹۲) ’’تم نیکی کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ جس چیز سے تمھیں محبت ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو‘‘۔
اپنی پاکیزہ تہذیب پر عمل کرنے اور فطرت میں موجود محبت کے طاقت ور پاکیزہ نصب العینی تقاضے کی تسکین سے ایک تو ذہن، دل، روح اور نفسیات کے درمیان توازن اور مطابقت پیدا ہوگی، جس سے بے پناہ سکون حاصل ہوگا اور ڈپریشن قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے ایسا معاشرہ جنم لے گا، جس کے افراد محبوب حقیقی سے محبت کے جذبات کے ارتقا کی خاطر معاشرے کے مفلوک الحال افراد کو اپنی دولت میں شریک کریں گے، یعنی زکوٰۃ کے علاوہ صدقات وخیرات کی صورت میں اپنی وافر دولت غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر صرف کریں گے۔ اس کام کو وہ اللہ کی رضا اور اللہ سے محبت کی دولت پانے کا ذریعہ سمجھیں گے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے نظام کو، اپنے حالات کو اور اپنے مزاج اور نفسیات کو بدل کر صحت مند خطوط پر تشکیل دیں؟ اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں؟