مارچ ۲۰۲۲

فہرست مضامین

پاکستان: عالم اسلام کا دفاعی حصار

محمد حاشر فاروقی | مارچ ۲۰۲۲ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

’’میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے جذبے اور ولولوں کے لیے رہنمائی قرآنِ مجید سے حاصل کریں گے تو کامیابی اور فتح یقینا ہماری ہی ہوگی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے، اورآپ کسی سے بھی کم نہیں ہیں۔آپ کو اپنے اندر صرف مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہے۔ آپ ایسی قوم ہیں، جس کی تاریخ، قابل اور صلاحیت کے حامل، باکردار اور بلندحوصلہ افراد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اپنی ان روایات پر قائم رہیے اور ان میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔ میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہرشخص تک میرا یہ پیغام پہنچادیجیے کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دُنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے ضرورت کے وقت اپنا سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہوگا۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیے، موت سے نہ ڈریے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ موت کے استقبال کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کے وقار کا تحفظ کرنے کے لیے اس کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہیے۔ ایک اعلیٰ اور صحیح مقصد کے حصول کی خاطر جدوجہد میں ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر اور کوئی راہِ نجات نہیں ہے۔

یاد رکھیے، قانون کا نفاذ اور امن کی بحالی، ترقی کے لوازمات میں سے ہیں۔ اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہرمسلمان پر یہ ذمہ داری فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کی حفاظت کرے اور بلالحاظ ذات پات اورعقیدہ، اقلیتوں کو تحفظ دے۔ ہندستان میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے، اس کے باوجود ہمیں اس بات کو اپنی عزّت اور وقار سمجھنا چاہیے کہ ہم اپنی اقلیتوں کی جانوں کی حفاظت کریں، اور ان میں احساسِ تحفظ پیدا کریں۔ میں یہ بات ہرمسلمان کے ذہن نشین کرادینا چاہتا ہوں، جو دل سے پاکستان کی فلاح اور بہبود اور اس کی خوش حالی کی خواہش رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے تو دُنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہ کرسکے گی۔ یہ قائم رہنے کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے۱۔   (محمدعلی جناح، خطاب بمقام یونی ورسٹی اسٹیڈیم، لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء)

۲۳مارچ ۱۹۴۰ء ہم عصر مسلم تاریخ کا ایک تاریخ ساز دن تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلمانوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ ان کے لیے ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست تشکیل دی جائے۔ برصغیر کے شمال مغربی اور شمال مشرقی چھے صوبوں میں مسلمان واضح اکثریت میں تھے۔ وہ لگ بھگ دس کروڑ مرد و زن تھے اور قومیت کی ہرتعریف کے اعتبار سے ایک علیحدہ قوم تھے۔ جیساکہ بعد میں مسلم لیگ کے رہنما محمدعلی جناح نے اپنے مدِمقابل ہندوئوں کے لیڈر موہن داس گاندھی (م:۱۹۴۸ء) کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:

ہم ایک قوم ہیں، اور ہمارا جداگانہ تمدن اور تہذیب ہے۔ زبان اور ادب، فنونِ لطیفہ اور فن تعمیرات، نام اورنام رکھنے کا طریقہ، شعورِ اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاقی ضابطے، رسوم اور کیلنڈر، تاریخ اور روایات، رجحانات اور اُمنگیں، مختصر یہ کہ ہمارا زندگی پر اور زندگی کے بارے میں خصوصی نقطۂ نظر ہے۲۔

 اسلام مسلم قومیت کی وجۂ جواز ہے اورمسلم قومیت پاکستان کے قیام کے لیے وجۂ جواز ہے۔ بصورتِ دیگر دوسرا متبادل مسلمانوں کے لیے صرف یہ ہے کہ وہ بادل نخواستہ دائمی طور پر اس جمہوری نظام حکومت میں (ایک مستقل بالذات اکثریت کی) غلامی پررضامند ہوجائیں۔ یہ بات محض نظری اور خیالی اندیشوں پر مبنی نہیں ہے۔

مسلمانوں کو اس (ہندوراج) کا تلخ تجربہ ہوچکا تھا، جب ۳۹-۱۹۳۷ء کے درمیان کانگرس کی وزارتوں کو چھے ہندو اکثریت کے صوبوں میں محدود خودمختاری ملی تھی اور اس نے ہمیں اُس معرکہ آرائی اور آویزش کی یاد دلا دی تھی، جو یورپ بالخصوص جرمنی میں اسکولوں کے نظم و نسق اور تدریس کے حوالے سے چرچ اور حکومت کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔ جب یہ وزارتیں ختم ہوئی تھیں تو مسلمانانِ ہند نے یومِ نجات منایا تھا۔

اگست ۱۹۴۷ء سے آزادی کے بعد کا ہندستان جو دستوری طور پر تو سیکولر، لیکن عملی طور پر ہندوراج کی شکل ہے، وہاں مسلمانوں اور نچلے طبقات کے وہ ہندو بھی جو برہمن زاد نہیں ہیں، مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ ان حقائق نے بلاخوف و تردید یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ قائداعظم بلاشبہہ ایک عظیم لیڈر تھے، جن کی دانش وفراست نے مستقبل کا درست اندازہ کرلیا تھا۔

محمدعلی جناح نے ۱۹۳۴ء میں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی تھی اور یہ وہ وقت تھا، جب ہندستان کے مسلمان شدید انتشار اور بدنظمی کا شکار تھے۔ پانچ برس سے کم عرصے میں انھوں نے مسلم لیگ کو ایک ایسی منظم قوت بنادیا، جس کو نظرانداز کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ ہندو اکثریت کی حامل انڈین نیشنل کانگریس اور برطانوی حکومت دونوں کے لیے اس کی حیثیت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہ رہا۔ جسے ہم ’قرارداد پاکستان‘ کہتے ہیں، وہ ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور کی گئی تھی اور پاکستان دُنیا کے نقشے پر ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو تشکیل پاسکا تھا، جو ۲۷رمضان ۱۳۶۶ھ کی لیلۃ القدر بھی تھی۔

پاکستان دوسری جنگ ِ عظیم [۴۵- ۱۹۳۹ء]کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں محض ایک اور ملک نہ تھا۔ یہ ایک تصور،آدرش اوروژن تھا، جس کا تعلق جغرافیائی بنیاد پر قائم قومیت یا قوم پرستی سے ہرگز نہیں تھا، بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ اور کوشش تھی، جس کا مقصد اُمت اسلامی کے اس آفاقی اور اَبدی تصور کا احیا تھا، جسے نوآبادیاتی یلغار نے بُری طرح مجروح کر دیا تھا۔ اس تصور کو انھوں نے ہی نہیں بلکہ دوسرے باشعور لوگوں نے بھی سمجھنے میں دیر نہیں کی تھی۔

قراردادِ پاکستان کی منظوری کے اگلے دن برطانیہ میں وزیرہند لارڈ لارنس ڈنڈاس زیٹ لینڈ [م: ۱۹۶۱ء] نے برطانوی وائسرائے ہند لارڈ لین لنتھگو [م: ۱۹۵۲ء] کو دہلی میں خبردار کرتے ہوئے یہ لکھا کہ:

اگر پاکستان ایک حقیقت بن جاتا ہے تو یہ اسلام کی جانب دعوت کا ایک ذریعہ ہوگا جس کی کوئی حدود نہیں.... مصطفےٰ کمال پاشا [م:۱۹۳۸ء]کے خلافت کے ختم کردینے سے اسلام کی قوت قدرے کمزور ہوگئی ہے مگر اس کی قابلِ ذکر اپیل اب بھی موجود ہے جس کا ثبوت جناح کا یہ اصرار ہے کہ اس بات کا اطمینان اور یقین دلایا جائے کہ ہندستان کے سپاہیوں کو کسی بھی مسلمان کے خلاف جنگ میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی جناح کا فلسطین کے عربوں کے لیے ہمدردی اور تعاون کا اظہار بھی اسی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے۳۔

لارڈ ڈنڈاس زیٹ لینڈ اپنے حاشیہ خیال میں یہ لائے بغیر بھی نہ رہ سکا کہ اگر مسلم لیگ کے ارادوں کے مطابق ہندستان میں ایک مستقل علیحدہ مسلم ریاست کا قیام ممکن ہوجاتا ہے، تو وہ بالآخر ایک اسلامی دولت مشترکہ میں شمولیت سے باز نہ رہ سکیں گے۔

نوآبادیاتی نظام کا یہ نمایندہ غیرمعقولیت کی حد تک پاکستان کے تصور سے اندیشوں میں مبتلا تھا، لیکن وہ اپنے خیال کی حد تک غلط بھی نہ تھا۔ بہرصورت، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ نہ صرف ہندو نیشنل کانگریس، بلکہ برطانیہ بھی ایک علیحدہ مسلم ریاست کے خلاف تھا۔ یہاں تک آخری انڈین وائسرائے لارڈمائونٹ بیٹن [م: ۱۹۷۹ء] نے یہ مطالبہ طوعاً و کرہاً منظورکرلیا، تو اس میں اس حددرجہ زہرآلود، ناانصافی کا عنصر بھی شامل کرکے رکھ کر اپنے تئیں یہ اطمینان کرلیا کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد زیادہ عرصہ تک ریاستی وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ لیکن بہرصورت پاکستان صرف آزادیِ وطن ہی نہیں ایک منزل اور مقصد کا نام بھی تھا۔ ایک نام نہاد مقدس سامراجیت اور نسل پرست استبداد سے آزادی فطری طور پر مسلمان قوم کی تقدیر سے وابستہ منزل ہے۔ جیساکہ علامہ اقبال [م: ۱۹۳۸ء] نے بڑی خوب صورتی سے کہا تھا:’’اسلام بذاتِ خود تقدیر ہے اور یہ تقدیر کا شکار نہیں ہوگا‘‘۴۔

اس قومی آدرش کے بارے میں قائداعظم کو کبھی کوئی ابہام یا شک نہیں رہا۔ یہی وہ بات ہے، جسے قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد بھی بارہا دُہرایا تھا۔ انھوں نے یہ بات بڑے واشگاف الفاظ میں اور بغیر کسی جھجک اور معذرت خواہانہ انداز کے اس وقت کہی تھی، جب مائونٹ بیٹن نے قائداعظم کو مغل شہنشاہ اکبر [م:۱۶۰۳ء] کی مثال دے کر سمجھانا چاہا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے کہا تھا:

غیرمسلموں کے لیے جس رواداری اور حُسنِ سلوک کا مظاہرہ اس شہنشاہ اکبر نے کیا تھا، وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ۱۳ سوسال قبل ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے اس وقت اس کا مظاہرہ کیا تھا، جب انھوں نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے مسیحیوں اور یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد اور اعمال کے لیے مکمل احترام کیا تھا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے، اسی طرح رہے۔ ان کی پوری تاریخ اسی نوعیت کی انسانیت نواز مثالوں اور ان عظیم اصولوں سے منور ہے، جن پرعمل کیا جانا ضروری ہے‘‘ ۵۔

پاکستان محض ایک اور مسلم ریاست کا نام نہیں بلکہ جیساکہ جناح نے اپنی ریڈیائی نشری تقریر میں فروری ۱۹۴۸ء میں کہا تھا:’’پاکستان سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے اور دُنیاکی پانچویں بڑی ریاست بھی ہے‘‘۔ ان کا یہ خطاب بالخصوص ریاست ہائے امریکا کے لوگوں کی جانب تھا۔ اس میں انھوں نے مزیدفرمایا تھا کہ :

پاکستان کو اپنی زندگی کے گذشتہ پانچ مہینوں میں ہولناک آزمایشوں اور مصائب اور ایسے سانحوں سے گزرنا پڑا ہے، جن کی بنی نوع انسانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاہم، دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی ہماری حکمت عملی ہے۔ ہم کسی ملک اور قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت داری اور انصاف کے قائل ہیں، اور اقوامِ عالم میں امن اور خوش حالی کو فروغ دینےکے لیے اپنی پوری کوشش صَرف کردینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ پاکستان دُنیا کی مقہور اور مجبور قوموں کی مادی اور اخلاقی اعانت اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کو اپنانے میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا ۶۔

یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک تزویراتی اور غیرمبہم بیان بھی تھا، اور پاکستان نے کم از کم اپنے قیام کے ابتدائی چند برسوں اس پر عملی کام بھی کیا تھا۔ پاکستان نے آزادی کے حصول اور نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے ممکن حد تک ہرقسم کی اخلاقی اور مادّی امداد جاری رکھی اور یہ سلسلہ الجیریا، تیونس، لیبیا، سوڈان سے لے کر صومالیہ اور انڈونیشیا تک جاری رہا۔

ایک ایسی خارجہ حکمت عملی جو مسلم دُنیا کی آزادی پر مرکوز ہو، ایک مضبوط عسکری طاقت کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔ آزادی سے صرف گیارہ روز قبل جناح نے ہندستان کے ان فوجی افسران سے ایک غیررسمی ملاقات کی، جنھوں نے پاکستان میں اپنی خدمات پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ ان افسران کے لیے ان کا پیغام مختصر، مگر نہایت واضح تھا: ’’اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ پاکستان کو دُنیا کی عظیم ترین مسلم ریاست بنائیں‘‘ ۷۔

اس ملاقات میں جہاں انھوں نے پاکستان کی مسلح افواج کا ہدف واضح کیا، وہاں ہندستان کی تینوں افواج کے برطانوی سربراہوں کے علاوہ مستقبل کی بھارتی افواج کے تمام سربراہ بھی موجود تھے۔ غالباً اسی لیے انھوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان کا دفاعی عسکری مطمح نظر واضح کر دیا جائے، تاکہ ہرشخص اس حقیقت کو سمجھ بھی لے اور یاد بھی رکھے۔

قائد کا یہ نظریہ کوئی قیاسی اور خفیہ تصور نہیں تھا، اور نہ یہ کوئی نیا نوآبادیاتی خاکہ تھا کہ جس کا ہدف دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی کرنا ہو۔ پاکستان کے کسی بھی دوسرے ملک کے حدودِ ارضی پر کوئی دعوے نہیں تھے۔ علاقائی حوالے سے پاکستان کی تشویش صرف ہندستان کا عسکری طاقت کے زور پر ریاست جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے سے متعلق تھا۔ جو اس نے اپنے ہی کیے ہوئے اس اعلان سے مُکرجانے پر کیا تھا کہ کشمیر کے لوگوں کو ہندستان یا پاکستان سے الحاق کا مکمل اختیار ہوگا، لیکن یہ سیاسی ذرائع اور بین الاقوامی ضابطوں کی روشنی میں طے کیا جائے گا۔

دوسری طرف قیامِ پاکستان تاریخ کی متعین کی ہوئی راہوں کی روشنی میں ہوا تھا۔ لارڈ زیٹ لینڈ نےٹھیک کہا تھا کہ ’’تحریک پاکستان کو روکنا تقریباً ناممکن ہے‘‘۔ لیکن اس کا پاکستان کی تخلیق کو ایک منفی اور نئی نوآبادیاتی سوچ کی آبیاری قرار دینا ایک بڑی غلطی تھی۔ اس کے اندیشوں کے برعکس ایک اسلامی دولت مشترکہ عالمی استحکام اور امن کے قیام میں ایک جزولاینفک کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم، ایک واحد عالمی طاقت امریکا کے زیراثر جب سے دُنیا آگئی ہے، اور جس میں سابقہ برطانیہ عظمیٰ بھی ایک ثانوی درجے کی حیثیت کو پہنچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی بحران اور آویزش نمایاں ہوگئی ہے۔ یہ صورتِ حال خوں آشام بھی ہوسکتی ہے اور یہ طاقت ور اور طاقت سے محروم ملکوں اور قوموں کے لیے عدم تحفظ، انتشار کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ لیکن بہرصورت یہ ایک عارضی مرحلے کی حالت ہے۔ اس لیے کہ جن کو استعماری سلطنت نے اپنے مقاصد کے لیے زندہ رکھا تھا، اپنے مقاصد پورے ہونے کے بعد ان کو اسی سلطنت نے فنا کے گھاٹ بھی اُتار دیا ہے۔

’’پاکستان کا تصور بہرصورت ایک تیسرے بلاک کے درمیانی راہ والے ملک کی حیثیت میں دیکھا جانا چاہیے جو نہ اشتراکیت کو اختیار کرے گا اور نہ سرمایہ دارانہ نظام کو اپنائے گا بلکہ اس کی بنیاد خلیفۂ ثانی سیدنا عمرؓ کے بتائے ہوئے طرزِ حکمرانی پر ہوگی‘‘ ۸۔

یہ بات محمدعلی جناح نے ایک نوجوان مسلم لیگی سیاست دان شوکت حیات خاں [م:۱۹۹۸ء] سے مارچ ۱۹۴۳ء میں کہی تھی۔ جناح نے اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کیا کہا تھا، سنیے: ’’پاکستان وہ جگہ ہوگی، جہاں مسلم دانش وَر، ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات، سائنس دان، اطباء، انجینیرز اور فنکار اسلامی نشاتِ ثانیہ کے لیے مل کر کام کریں گے‘‘۔۹

یہی وہ اعلان تھا جس کی دیانت دارانہ اِتباع اور وفاداری نبھاتے ہوئے پاکستان کی دستورساز اسمبلی نے ۱۲مارچ ۱۹۴۸ء کو ’قرارداد ِ مقاصد‘ منظور کی، جس میں قائداعظم کے مشن اور نظریے کو سمو دیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں پاکستان کے عوام کے اس نقطۂ نظر اور آدرش کو سمو دیا گیا تھا، جس میں تمام دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ جمہوریت، آزادی، مساوات اور معاشرتی عدل کے اصولوں پر مبنی ایسا نظام تشکیل دینے اور نافذ کرنے کا اعلان تھا ،جو اسلام نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے۔

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وہ بنیادی آدرش اور مقصد تھا، جس کے لیے لاکھوں مردوں اور خواتین اور بچوں نے خون کے دریا اور قدم قدم پر موت کی وادیاں عبور کی تھیں، تاکہ وہ اپنے خوابوں کی سرزمین تک پہنچ سکیں۔ انھیں ان کے آبائواجداد کی سرزمین سے بے دخل کرکے تباہ کردیا گیا تھا۔ لیکن وہ نہ اس بربادی سے خوف زدہ ہوئے اور نہ منزل کی جانب سفر سے باز آئے۔ انھوں نے اَزسرنو اپنی زندگی اور اپنی نئی ریاست کی تعمیرنو کا آغاز کردیا۔ چند غیرمرتب ایسے دفاتر میں بیٹھ کرکام شروع ہوگیا، جن میں کرسیاں، میزیں، کاغذ اور لکھنے پڑھنے کا سامان بھی ناکافی تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کی زبان پر نہ شکوہ تھا، نہ گلےاورشکایتیں، بس یہ اطمینان تھا کہ انھوں نے منزل کو پالیا ہے۔

پھر کیا ہوا___ آہستہ آہستہ پاکستان کے نظام پر موقع پرستوں،زرپرستوں اور بِکے ہوئے نمایندوں نے قبضہ کرلیا۔

حواشی

۱-         روزنامہ The Civil & Military Gazette ،لاہور، ۳۱؍اکتوبر ۱۹۴۷ء

۲-         قائداعظم کا خط بنام گاندھی جی، مؤرخہ ۱۷ستمبر ۱۹۴۴ء

۳-         M EUR، دستاویز نمبر ۶۰۹، جلد۱۱، انڈیا آفس لائبریری، حوالہ تقریریں اور بیانات۔

۴-         خطبۂ صدارت محمد اقبال ، ۲۱ویں سالانہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ ، الٰہ آباد، ۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء

۵-         روزنامہThe Star of India، ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء بحوالہ Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam ، ج۴، مرتبہ: خورشید احمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال لاہور، ص ۲۶۱۰

۶-         Speeches..... ،ایضاً، ص ۲۶۹۳

۷-         قائداعظم کی مسلمان عسکری قیادت سے ملاقات، دہلی،اگست ۱۹۴۹ء، بحوالہ میجر جنرل سیّد شاہد حامد [م: ۱۹۹۳ء] Early Years of Pakistan، فیروز سنز،لاہور، ۱۹۹۳ء۔ اس وقت شاہد حمید بطور لیفٹیننٹ کرنل، فیلڈمارشل سر کلاڈ جان آیر آکینلک [م: ۱۹۸۱ء] کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور اس شام کے استقبالیہ کی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

۸-         جب یروشلم نے رضاکارانہ طور پر خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے آگے سرتسلیم خم کر دیا، تو حضرت عمرؓ نے ایک عہدنامہ پر دستخط کیے جس کے مطابق ایلا (Aelia) کے تمام باشندوں کو جن میں کمزور، بیمار اور صحت مند سب شامل تھے، مکمل تحفظ فراہم کیا گیا۔ ان کے جان و مال، عبادت گاہیں اور صلیبوں اور دیگر مذہبی شعائر کو نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت دی گئی۔ ان کو مکمل مذہبی آزادی بھی دی گئی اور یہ ضمانت بھی دی گئی کہ مذہبی عقائد کے حوالے سے کسی کو کوئی گزند نہ پہنچنے دی جائے گی۔

            ان کے مذہبی پیشوا کی معیت میں سیّدنا عمرؓ جب ان کے مرکزی کلیسا پہنچے تو عبادت کا وقت تھا۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے چرچ میں ان کو نماز ادا کرنے کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے معذرت کرلی کہ اگر ’’میں نے ایسا کیا تومبادا میرے پیروکار بعد میں اس کو مسجد نہ بنالیں‘‘۔ اس کے بعد اپنے آخری ہدایت نامے میں حضرت عمرؓ خلافت کے عظیم منصب کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی اپنے جانشینوں کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ ذمیوں کو، جو دوسرے عقائد کے حامل حفاظت میں لیے گئے شہری ہیں، پورا تحفظ فراہم کریں اور ان پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں، جن کو وہ اُٹھا نہ سکتے ہوں۔ بحوالہ تھامس والکر آرنلڈ [م: ۱۹۳۰ء] : The Preaching of Islam، طبع اوّل، ۱۸۹۶ء

۹-         جمیل الدین احمد، Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries، پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، ۱۹۹۶ء