’ترقی کے تصور‘ کا بحران ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ اس بندگلی سے نکلنے کے لیے بنیادی راستہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے روایتی مثالیے (Paradigm) کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہم مسائل بھی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقعے پر ہم ان سے متعلقہ چنداُمور کی نشاندہی کریں گے:
۱- حقیقی منصوبہ بندی اور دانش مندانہ اقتصادی پالیسی سازی کے لیے اگر ایک لازمی شرط مناسب تصوراتی ڈھانچے کی فراہمی اور پالیسی سازوں اور اقتصادی ماہرین کے درست ذہنی رویے (مائنڈسیٹ) ہیں۔ دوسری شرط کا تعلق قابلِ اعتماد اعداد و شمارکی فراہمی، فنی مہارت اور فیصلہ سازی کے مناسب نظام، پالیسی پرعمل درآمد، بروقت نگرانی کے بندوبست اور ناکامی، کوتاہی اور غلطی کے نتیجے میں درستی کے مؤثر عمل سے ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس سمت میں اس سب کے باوجود کوششیں ناکافی ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے ایک خودمختار اتھارٹی ہو، جسے اعلیٰ مہارت و دیانت کے حامل ماہرین چلائیں۔ یہ اتھارٹی اسمبلی کو براہِ راست جواب دہ ہو اور اس کی رپورٹیں اسمبلی میں باقاعدگی سے پیش ہوں جس طرح کہ اسٹیٹ بنک کی رپورٹیں پیش ہوتی ہیں۔
۲- نئے ترقیاتی مثالیے کے لیے پلاننگ کمیشن کی تعمیرنو اور اصلاحی پروگرام ایک لازمی تقاضا ہے۔ منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کمیشن کا کردار واضح طور پر متعین ہونا چاہیے۔ اس کا تعلق معاشی اُمور میں ریاست کے کردار سے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے بہت سا ابہام پایا جاتا ہے۔ ریاست کو مارکیٹ اکانومی کے متوازن بنانے میں فعال اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، بلکہ مارکیٹ کی ناکامی کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے اور اس بات پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ سماجی مقاصد پوری طرح سے بروئے کار لائے جارہے ہیں یا سماجی و معاشی زندگی کو روندا جارہا ہے؟ حکومت کی مداخلت واضح طور پر طے شدہ ضابطوں کے تحت ہونی چاہیے تاکہ یہ افسرشاہی کی بے جا مداخلت، سُست روی، رشوت ستانی اور سیاسی کھیل کا آلۂ کار نہ بن سکے۔ طریقِ کار شفاف ہونا چاہیے اور احتساب کے نظام کو پوری طرح مستحکم ہونا چاہیے۔
۳- نظام کی ایک اور کمزوری کا تعلق معاشی پالیسی سازی کے لیے مختلف سطح پرتحقیق کی سہولت کا موجود نہ ہونا ہے۔ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ آزادانہ تحقیق کو فروغ دیا جائے اور اس بات کا انتظام کیا جائے کہ اس تحقیق کے نتائج حکومت اور اس کی ایجنسیوں کو، تعلیمی، تحقیقی اور کاروباری اداروں کو آسانی سے دستیاب ہوں۔ کونسل آف اکنامکس ایڈوائزرز کے وفاقی اور صوبائی سطح پر قیام کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ یونی ورسٹیوں اور نجی سطح پر قائم تحقیقی اداروں کو بھی تحقیقات مصلحت بینی کے بغیر شائع کرنی چاہییں۔ پالیسی سازی کے معیار کی بہتری صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب ان اُمور کو اداراتی سطح پر انجام دیا جائے۔ پھر یہ بھی اہم ہے کہ بیرونی ماہرین پر انحصار کو کم کیا جائے اور پالیسی آپشن اور قدروقیمت کا اندازہ لگانے (evaluation) کے عمل میں اضافہ کیا جائے۔
۴- ایک اہم مسئلہ فیصلہ سازی اور ترقیاتی عمل میں عوام کی شمولیت ہے۔ کچھ اقتصادی ماہرین کا مشورہ ہے کہ ترقیاتی اُمور تین سیکٹر میں باہمی تعاون کے ساتھ انجام دیے جانے چاہییں___ عوامی، نجی، اور عوام اور حکومت کے مابین سول سوسائٹی کے اداروں کی شراکت داری اور انتظام کے ذریعے۔ ایثارپیشہ سیکٹر ایک بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسے ایک مناسب انداز میں ترقی، منصوبہ بندی اور انتظام و انصرام کے عمل سے مربوط کیا جاسکتا ہے۔ اس پہلو کو پوری طرح سے منظم اور مربوط کیا جائے۔
۵- ایک بڑا پیچیدہ پہلو ریاست کے وفاقی کردار اور صوبائی اختیارات کے درمیان ابہام و اختلاف سے متعلق ہے۔ ترقی، منصوبہ بندی اور انتظامیہ اور ریاست کے مالیاتی ڈھانچے اور پالیسی سازی میں حد سے بڑھی مرکزیت (over- centralisation)پائی جاتی ہے۔ اس میدان میں تبدیلی کے لیے بنیادی فکر اور ڈھانچے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ یہ کام قومی ہم آہنگی کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ اگر اس پہلو پر فوری طور پر توجہ نہ دی گئی تو اس کے ملک بالخصوص معیشت اور سیاسی اُمور پر سخت منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔
۶- عارضی (ایڈہاک ازم) اور قلیل مدت کے لیے منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے کلچر کا مسلط رہنا بھی ایک چیلنج ہے۔ درمیانی مدت کی منصوبہ بندی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ملک زیادہ دیر تک اس طرزِعمل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
۷- پاکستان کی ترقی کا مسئلہ شدید خسارے اور عدم توازن کے کچھ پہلوئوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرتا ہے۔ زراعت سے صنعت بشمول بھاری صنعت اور سروسز سیکٹر کی طرف ترقی کا سفر نشیب و فراز پر مبنی ہے۔ پاکستان کے سروسز سیکٹر میں توسیع نظر آتی ہے، لیکن یہ توسیع زراعت اورصنعتی سیکٹر میں متناسب توسیع اور معیار میں بہتری کے بغیر ہے۔ اشیا اور وسائل کے استعمال اور صَرف(consumption) کی اپنی حدود ہیں۔ اندرونِ ملک بچتوں (domestic savings) میں توسیع کے نتیجے میں لازماً سرمایہ کاری بڑھنی چاہیے،مگر اس میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے۔ پھر درآمد و برآمد میں عدم توازن کا مسئلہ بھی بُری طرح درپیش ہے۔ پائدار ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب پیداوار سیکٹر میں توسیع ہورہی ہو، پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو، ملکی بچت اور سرمایہ کاری پر زیادہ انحصار ہو، انفراسٹرکچر میں مناسب سرمایہ کاری کی جائے اور ملکی پیداوار کو بیرونِ ملک فروخت کیا جائے۔ پاکستان کی تجارت، ادائیگی میں عدم توازن، مالیاتی خسارہ، قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ اور افراطِ زر کا دبائو، نظام میں شدید بگاڑ اور کمزوریوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
۸- سماجی شعبے کی ترقی، یعنی تعلیم، صحت، خوراک، مہارت کا فروغ اور انصاف کی فراہمی صحت مند اور پائدارترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ اسی قدر اہم ہے جیساکہ ترقی کی رفتار کی شرح اہم ہے۔ دراصل ان دونوں کے درمیان ایک باہمی تعلق پایا جاتا ہے اور یہ دونوں طرح سے کام کرتا ہے۔ معاشی ترقی، سماجی ترقی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ سماجی ترقی بھی اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا بنیادی عنصر ہے۔ صحت، تعلیم، مہارت میں فروغ اور جدوجہد کے لیے سرگرم جذبہ ترقی کے فروغ کے لیے اہم عناصر ہیں۔ لہٰذا، نیامثالیہ جس کی سفارش کی جارہی ہے، یہ trickle-down ماڈل سے نمایاںفرق ظاہر کرتا ہے اور سماجی ترقی کو معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مرکز بنا دیتا ہے۔
۹- قومی خودانحصاری کا حصول اس بحث کا مرکزی پہلو ہے۔ خودانحصاری کا مطلب معاشی خودکفالت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں اور حکومتوں پرانحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اپنے قومی مقاصد اور اغراض کے پیش نظر اپنی ترجیحات اور پروگراموں کا تعین کرنا چاہیے۔ دوسروں پر انحصار کرنے کے مختلف پہلو ہیں جن میں فہم و دانش، سیاسی، اقتصادی، ٹکنالوجی اور ثقافتی پہلو شامل ہیں۔ یہ تمام پہلو آپس میں مربوط ہیں۔ عالم گیریت کا مطلب لازماً خودانحصاری کا نقصان یا نظریاتی اور ثقافتی تشخص سے محرومی نہیں ہے۔ یہ مکمل خودانحصاری کے ساتھ ایک ملک کا عالم گیریت کے اثرات سے مستفیدہونا اور اس کے مضر اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ بیرونی سرمایے پر بہت زیادہ انحصار اور بڑےپیمانے پر بیرونی قرضوں کا حصول، خودانحصاری سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے پاس ایک بہت اہم اثاثہ (resource) ہے، جسے قومی اقتصادی ترقی کے لیے پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اثاثہ بیرونِ ملک موجود پاکستانی ماہرین، پاکستانی ذہانت (Intellect) اور جوہرِقابل ہے۔ اسی طرح بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات (Remittences) ایک بہت قیمتی مالیاتی سرمایہ ہیں، جو بدقسمتی سے بڑی حد تک روزمرہ مصرف کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ حالانکہ ان کا ایک قابلِ ذکر حصہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے، تاکہ بیرونِ ملک کام کرنے والوں اور ان کے خاندان کے لیے ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بن سکے، اور ملک کی معاشی ترقی میں بیرونی قرض کی جگہ اپنے لوگوں کے وسائل استعمال ہوسکیں۔ ان خداداد اور قیمتی ذرائع سے مؤثر اور مفید انداز میں استفادے کے لیے مناسب حکمت عملی کی تیاری ایک بڑا چیلنج بھی ہے اور ایک تاریخ ساز موقع بھی۔
۱۰- عوام کا معاشی اور سیاسی عمل میں شرکت ایک فیصلہ کن مسئلہ ہے، جسے ترقیاتی مساعی کے ایک لازمی حصے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اقتصادی ترقی، آزادی اور جمہوریت پوری طرح باہم مربوط ہیں۔ بھارتی نوبیل انعام یافتہ ماہرمعاشیات امریتاسین (Amartaya Sen) کا بنیادی کام اس ضمن میں بہت مناسبت رکھتا ہے۔ (دیکھیے: Development as Freedom، نیویارک، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۱۹۹۹ء)
عوام کی شمولیت، آزادیِ اظہار ، اختلافِ رائے اور تنظیم اور پارلیمنٹ کی بالادستی ایک کامیاب ترقیاتی مثالیے کے بنیادی اجزا ہیں۔ عوام کی شرکت کا ایک اور اہم پہلو انھیں ترقیاتی عمل میں ایک حقیقی نگہدار (stakeholder) بناناہے۔ روزگار کی فراہمی، سیلف ایمپلائمنٹ کی تخلیق اور مفید روزگار کی فراہمی کے مواقع میں متواتر اضافہ، اس سکّے کا دوسرا رُخ ہے۔
پاکستان کی مستقبل کی معاشی ترقی کی حکمت عملی ان دس نکات کے تناظر میں بنائی جانی چاہیے۔ اس خواب کی تعبیر ایک نئے مثالیہ کی تشکیل اور اس کی ترویج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم اس قابل ہوسکے گی کہ وہ اپنے ذرائع سے پوری طرح مستفید ہوسکے اور پاکستان جس مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیا گیا تھا، وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکے۔
اس تناظر میں یہ مفید ہوگا کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصورات کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے۔اقبال کہتے ہیں:
چیست قرآں، خواجہ را پیغامِ مرگ
دست گیر بندۂ بے ساز و برگ
قرآن کیا کہتا ہے؟ یہ امیروں کے لیے، وہ امیر لوگ جنھوں نے دولت کو اپنا خدا بنا لیا ہے، موت کا پروانہ ہے۔ قرآن ان لوگوں کا مددگار ہے جو وسائل زندگی نہیں رکھتے۔ اس کا مشن غریبوں کو بلند کرنا اور ان کو طاقت ور بنانا ہے۔
کس نہ باشد درجہاں محتاج کس
نکتۂ شرع مبین ، این است و بس
اسلامی شریعت کا مقصد انسان کی دوسرے انسان پرمحتاجی کو ختم کرنا ہے۔ کسی کو دوسروں کا دست نگر نہ رہنا چاہیے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کی تکمیل شریعت کے پیش نظر ہے۔
یہی وہ مشن تھا جس کی طرف علامہ اقبال نے قائداعظم محمدعلی جناح کو اپنے انتقال سے تقریباً ایک سال قبل خط میں متوجہ کیا۔ ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کو انھوں نے اپنے اس خط میں قائداعظم کو لکھا:
ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ گذشتہ دوسوسال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ عام مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا غربت کی وجہ ہندو کی سودخوری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ یہ احساس کہ غیرملکی حکومت بھی اس افلاس میں برابر کی حصہ دار ہے۔ ابھی پوری طرح ذہنوں میں نہیں اُبھرا، لیکن آخرکار ایسا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کبھی مقبول نہ ہوسکےگی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے؟ اگر اس امر میں مسلم لیگ نے کوئی اُمید نہ دلائی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون (شریعت) کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔
اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظامِ قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو کم از کم ہرشخص کے لیے حقِ معاش محفوظ ہوجاتا ہے۔ لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہیں آتیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کی غربت اور روٹی کا مسئلہ اور ہند میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔ (اقبال اور قائداعظم ،مرتبہ: پروفیسر احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص۱۰۴-۱۰۵)
قائداعظم نے بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسویں سالانہ اجلاس (۲۴؍اپریل ۱۹۴۳ء، دہلی) میں پاکستان کے پیش نظر اقتصادی امور کا ذکر کرتے ہوئے واضح طور پر کہا:
میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو انتباہ کردینا چاہتا ہوں، جو ہمارا خون چُوس کر ایسے نظام کے تحت پلے بڑھے جو اس قدر خبیث اور اس قدر فاسد ہے، جو انھیں اس درجہ خودغرض بنادیتا ہے کہ ان کے ساتھ معقول بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگ و پے میں داخل ہوگیاہے، وہ اسلام کی بنیادی تعلیم کو فراموش کربیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کی حرص اور خودغرضی نے دوسروں کے مفادات کو اپنے تابع کرلیا ہے، تاکہ وہ موٹے ہوتے رہیں۔ یہ درست ہے کہ آج ہم اقتدار میں نہیں ہیں۔ آپ کہیں بھی دیہات کی طرف نکل جائیں۔ میں گائوں میں گیا ہوں۔ ہمارے لوگوں میں لاکھوں ایسے ہیں، جنھیں رات کو روٹی کھانا بھی نصیب نہیں ہے۔ کیا یہ تہذیب ہے؟ کیا پاکستان کا یہ مقصد ہے؟ کیا آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ لاکھوں کا استحصال کیا گیا اور انھیں دن میں ایک بار بھی روٹی نہیں ملتی؟ اگر پاکستان کا تخیل یہ ہے تو میں ایسا پاکستان نہیں لوں گا۔ اگر ان میں عقل ہے تو انھیں خود کو زندگی کے نئے اور جدید حالات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھراللہ ہی ان کی مدد کرے تو کرے، ہم تو ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔ لہٰذا، ہمیں خود پر اعتماد ہونا چاہیے۔ ہمیں ڈگمگانا چاہیے اور نہ ہچکچانا، یہ ہماری منزل ہے، جسے ہمیں حاصل کرنا ہے۔(Speeches, Statements & Messages of The Quaid-e-Azam، جلد۲، مرتبہ: خورشیداحمد خاں یوسفی، بزمِ اقبال، لاہور)
قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعدایک درجن سے زائد تقاریر میں سماجی انصاف کے حصول کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وہ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لیے اس قدر فکرمند تھےکہ ۲۷ستمبر ۱۹۴۷ءکو ولیکا ٹیکسٹائل ملز کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے، انھوں نے صنعتی اور زرعی ترقی پر زور دیتے ہوئےواضح طور پر کہا:
اپنے ملک میں صنعت کاری کے ذریعے ہم اشیائے صرف کی فراہمی کے لیے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے،لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔ قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسے ملک اور عوام کے بہترین مفاد کے لیے استعمال کریں…مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ آپ نے فیکٹری کا منصوبہ بناتے وقت کارکنوں کے لیے مناسب رہایش گاہوں اور دیگر سہولتوں کا بھی اہتمام کیا ہوگا کیونکہ مطمئن کارکنوں کے بغیر کوئی صنعت پنپ نہیں سکتی۔ (ایضاً، جلدچہارم، ص۲۶۲۲)
پاکستان کے اقتصادی مقاصد کے بارے میں ان کے وژن کا بڑا واضح اظہار، قوم سے ان کے آخری خطاب میں ہوتا ہے۔ یہی وہ موقع تھا، جب انھوں نے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ انھوں نے فرمایا:
حکومت پاکستان کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کردے جو تیار کنندہ اور صارف دونوں کے لیے منصفانہ ہو۔ مجھے اُمید ہے کہ اس اہم مسئلہ کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کے لیے آپ کی کوششیں اس پہلو کا لحاظ رکھیں گی۔
آپ کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، میں اس کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے انسانوں کے لیے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچاسکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُورکرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس گذشتہ نصف صدی میں دوعالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اسی کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوجود جس بدترین ابتری کی شکارہے، وہ اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف اسلام ہی اسے بچاسکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسّرت و شادمانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔ (The Civil & Military Gazette، ۲جولائی ۱۹۴۸ء، بحوالہ ایضاً، خورشیداحمد خاں یوسفی،بزمِ اقبال لاہور، جلدچہارم، ص ۲۷۸۵-۲۷۸۸)
یہ اقتصادی تصورات اور تصورِ پاکستان، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باب دوم میں درج ہیں اور پالیسی کے لیے اصول فراہم کرتے ہیں:
دفعہ ۳۱ (۱) پاکستان کے مسلمانوںکو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انھیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
(۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا، اورقرآنِ پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا۔
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور
(ج) زکوٰۃ، عشر ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی بُرائیوں کا خاتمہ
دفعہ ۳۷، مملکت:(الف) پسماندہ طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات کو خصوصی توجہ کے ساتھ فروغ دے گی۔
(ب) کم سے کم ممکنہ مدت کے اندر ناخواندگی کا خاتمہ کرے گی اور مفت اور لازمی ثانوی تعلیم مہیا کرے گی۔
(ج) فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو عام طور پر ممکن الحصول اور اعلیٰ تعلیم کو لیاقت کی بنیاد پر سب کے لیے مساوی طور پر قابلِ دسترس بنائے گی۔
(د) سستے اور سہل الحصول انصاف کو یقینی بنائے گی۔
(ہ)منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے نامناسب ہوں، مقرر کرنے کے لیے، اور ملازم عورتوں کے لیے زچگی سے متعلق مراعات دینے کے لیے احکام وضع کرے گی۔
(و)مختلف علاقوں کے افراد کو تعلیم، تربیت، زرعی اور صنعتی ترقی اور دیگر طریقوں سے اس قابل بنائے گی کہ وہ ہرقسم کی قومی سرگرمیوں میں جن میں پاکستان میں ملازمت کی خدمت بھی شامل ہے، پورا پورا حصہ لے سکیں۔
دفعہ ۳۸، مملکت: (الف) عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائلِ پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجرو ماجور اور زمین دار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہود کے حصول کی کوشش کرے گی۔
(ب) تمام شہریوں کے لیے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کرے گی۔
(ج) پاکستان کی ملازمت میں یا بصورتِ دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔
(د) ان تمام شہریوں کے لیے جو کمزوری، بیماری یا بے روزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، لباس،رہایش، تعلیم اور طبّی امداد مہیا کرے گی۔
(د) ربا کو جتنی جلد ممکن ہو، ختم کرے گی۔
دستورِ پاکستان کے یہ واضح احکامات ہیں اور دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہرسال قومی اسمبلی کو بتایا جائے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور کیا اقدامات اُٹھائے گئے ہیں؟ لیکن یہ وہ کام ہے جس کی حکومت کبھی فکر نہیں کرتی اور یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں مؤثر احتساب کے باب میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔
یہاں پیش کی گئی سفارشات کی روشنی میں ہم اس بات کا مشورہ بھی دیں گے کہ نئے مثالیے میں درج ذیل باتوں کی طرف خاص طور پر توجہ مرکوز رکھی جائے:
۱- قدرت نے انسان اور اس کے ماحول کو جو وسائل فراہم کیے ہیں، ان کی بہترین نشوونما کے ساتھ اُنھیں استعمال کیا جائے۔
۲- ان کی اس طرح سے منصفانہ تقسیم اور استعمال ہو کہ تمام انسانی تعلقات کا فروغ اور تنظیم عدل اور احسان کی بنا پر ہو۔
۳- متوازن اور پائدار ترقی، وسائل کے ضیاع اور غلط استعمال سے اجتناب، ظلم اور انسانوں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔ مالی اور قیمتوں میں استحکام کے ذریعے افراد کے درمیان، علاقوں کے درمیان، شعبہ جات کےدرمیان اور قومی سطح پر مساوات کا حصول ممکن بنایا جائے۔
۴- خودانحصاری کے اعلیٰ مقام کا حصول بشمول اُمت کی اجتماعی خود انحصاری، حقیقی تکثیریت پر مبنی ایک عالمی نظام کا وژن، جس کے نتیجے میں تمام اقوام اور ثقافتوں کا مل جل کر رہنا ممکن ہو اور وہ ایک منصفانہ عالمی نظام میں باہمی مقابلے اور تعاون کے ساتھ رہ سکیں۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے ترقیاتی حکمت عملی کو درج ذیل اوصاف پر مشتمل ہونا چاہیے:
۵- ترقیاتی حکمت عملی کو اخلاقی،روحانی اور مادی پہلوئوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔
۶- ترقیاتی اہداف __ پیداوار میں اضافے کے لیے جدت و ندرت کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی سے کوشش اور اس بات کو پیش نظر رکھنا کہ اس سے تمام لوگوں کی ضروریات کی فراہمی اور بہتری یقینی ہو، اور ایک مضبوط، ترقی پذیر اورنشوونما پانے والی معیشت کا قیام عمل میں آئے۔
۷- دُنیا میں اچھی زندگی کا حصول، آخرت میں ایک کامیاب زندگی کا وسیلہ ہونا چاہیے۔
۸- محرک ___ اخلاقی محرکات مادی جزا و سزا کے ساتھ۔ ذاتی اصلاح سماجی و اخلاقی ذمہ داری اور جواب دہی کے ساتھ۔
۹- اخلاقی فلٹر اور سماجی فلٹر کا نظام جو صَرف، پیداوار اور فیصلہ سازی کے تمام مراحل پر مارکیٹ کے نظام کو درست رکھنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرے۔
۱۰- فرد کی مرکزیت اور فلاح و بہبود کی حامل سوچ کارفرما ہونا، پیداوار اور صَرف کو مفید اور ثمرآور بنانا چاہیے۔ اجتماعی معاملات کا نظام ماحول دوست ہونا چاہیے۔
۱۱- جائیداد بطورِ ٹرسٹ ___ نجی ملکیت کا حق اور منافع کا حصول، سماجی و اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ۔یہ ایک انقلابی تصور ہے، جو سرمایہ کاری کو سرمایہ پرستی سے محفوظ رکھتا ہے۔
۱۲- مالیاتی ڈھانچے کی تشکیل نو میں سود کا یقینی خاتمہ اور ارتکازِ دولت میں کمی۔
۱۳-انصاف کی فراہمی بشمول منصفانہ تنخواہ، آمدنی اور شراکت، رقم کی منتقلی اور مبنی بر عدل وراثت کی تقسیم۔
۱۴-حکومت کا مثبت اور بامقصد کردار۔
۱۵-معیشت اور اس سے متعلق اُمور کی اَزسرنو تشکیل، محض مالیاتی سیکٹر میں اصلاحات نہ ہوں۔
۱۶- پاکستان کی خودانحصاری اور بحیثیت مجموعی اُمت کی خودانحصاری___ معاشی تعاون اور عالم گیریت کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے یک جہتی کا اظہار اور اس کے لیے مواقع کو استعمال کرنا۔
اُمید ہےکہ مندرجہ بالا اقدامات کی روشنی میں حکومت، تحقیقی اداروں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک سنجیدہ اور پائدار کوشش کی جائے گی تاکہ جس مقصدکے لیے یہ ملک قائم کیا گیا تھا، وہ پورا ہوسکے اور ہمارے عہد میں اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کو ایک نئی مہمیز دینے کا باعث بن سکے۔