عورت معاشرے کانصف حصہ ہے۔ تعمیر معاشرہ کے لیے عورت ومرد کے تعلقات میں احترام اور توازن ناگزیر ہے۔ آج کا دور مسائل ومصائب کادورہے۔ اس میں قدم قدم پر عورت کی اختیاریت، مختلف سرگرمیوں اور معاشرتی معاملات میں شرکت کی بحثیں ہیں، اورسماجی مصلحین کے تبصرے۔ان حالات میں بذاتِ خود عورت اپنی کم علمی کے سبب تذبذب کا شکار ہے کہ آیااس کی حدود کیاہیں؟ایک صحت مندمعاشرے کے لیے اس کی خدمات کیا ہوسکتی ہیں؟
چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے،اس لیے اسلامی شریعت میں فرد اورمعاشرہ دونوں کے لیے قوانین ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واعمال میں مسلم عورت کی شخصیت کا ہرپہلو موجود ہے۔عہدنبویؐ کے تحقیقی مطالعے سے عورت کی آزادی اوراس کے حقوق کااسلامی تصور سامنے آتاہے اوراس کے دائرۂ کار کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے۔غوروفکرکووہ صحیح سمت میسر آتی ہے، جس کی دورِجدید میں سخت ضرورت ہے۔اسی تناظر میں عورت کے تمام حقوق، جس کا تعلق عبادت، معاشرت، سیاست ،تجارت،امانت،تعلیم وتعلّم اوردیگر امورجو کہ عہدِ نبویؐ کی مسلم خواتین کو حاصل رہے ہیں، ان کامستند جائزہ لیاجارہاہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ عورت کے حدود اور اختیارات کاتعیین براہِ راست کلامِ نبوتؐ سے کیاجائے ،کیونکہ وہی قول سب کے لیے قولِ فیصل اوروہی حرفِ آخرہے۔
نبویؐ معاشرہ میں ہم خواتین کوعبادات سے معاملات تک کے مختلف میدانوں میں مردوں کے ساتھ شریک پاتے ہیں۔ اسی تناظر میں خواتین کی مختلف میدانوں میں شرکت سے متعلق مستند احادیث پیش کی جارہی ہیں، جس سے نبویؐ معاشرے کی صحیح تصویر اُبھرکرسامنے آجائے گی۔
اجتماعی عبادات میں خواتین کی شرکت
عورتوں کا نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنا : ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سے تمھاری عورتیں رات کومسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو اجازت دے دیاکرو۔(صحیح بخاری،باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: ۸۴۱)
عورتوں کی نماز جمعہ کی مسجد میں ادائیگی: اُمِ ہشام بنت حارث نے کہاکہ میں نے سورئہ ق ٓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سن کر ہی یاد کی ہے کہ آپؐ ہرجمعہ کو خطبہ میں منبر پرپڑھاکرتے تھے۔(صحیح مسلم،کتاب الجمعہ، باب تخفیف الصلوٰۃ والجمعۃ، حدیث: ۱۴۸۷)
ماں کی مشقت کا خیال :عبداللہ بن ابوقتادہ انصاریؓ اپنے والد ابوقتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نماز کے لیے کھڑاہوتاہوں اورجی چاہتا ہے کہ طویل کروں، مگربچوں کے رونے کی آواز سن کرہلکی کردیتا ہوں۔ اس کونامناسب خیال کرتے ہوئے کہ اس کی ماں کومشقت میں ڈالوں۔(صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ،باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس، حدیث: ۸۴۴)
عورتوں کو عیدین میں شرکت کا حکم :اُمّ عطیہ ؓ نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ہم عیدالفطر اورعیدقرباں میں کنواری جوان لڑکیوں کواورحیض والیوں کو اور پردہ والیوں کولے جائیں۔ سو،حیض والیاں نماز کی جگہ سے جدارہیں اوراس کارِنیک اور مسلمانوں کی دعامیں حاضر ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ العیدین، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین، حدیث: ۱۵۲۰، صحیح ابن حبان)
گھر والوں کی امامت : اُمِّ ورقہؓ بنت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ملاقات کے لیے ان کے گھرتشریف لے جاتے اوران کے لیے ایک مؤذن مقررکردیاتھا جواذان کہاکرتا اوروہ امامت کرتی تھیں اپنے گھروالوں کی رسول ؐاللہ کے حکم سے۔ عبدالرحمٰن نے کہا میں نے ان کے مؤذن کودیکھا بہت بوڑھے تھے۔(سنن ابوداؤد، باب امامۃ النساء، حدیث:۵۰۵)
بوڑھے والدین کی طرف سے حج کی ادائیگی : ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ فضل رسولؐ اللہ کے ہمراہ سوارتھے۔بنی خثعم کی ایک عورت آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ میرے باپ پرحج فرض ہے، لیکن وہ (ضعف کے باعث)سواری پرنہیں بیٹھ سکتا۔کیامیں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟فرمایا: ہاں! یہ واقعہ حجۃ الوداع کاہے۔(صحیح بخاری،ابواب العمرۃ،باب حج المرأۃ عن الرجل، حدیث: ۱۷۶۵)
حائضہ اور ارکانِ حج کی ادائیگی : حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ ہم آپؐ کے ساتھ حج کے لیے نکلے۔ سفر میں میں حائضہ ہوگئی اوررونے لگی۔ حضورؐ نے پوچھا کہ کیا تم کو حیض ہواہے؟میں نے کہا،ہاں! آپ ؐ نے فرمایا:یہ توآدمؑ کی بیٹیوں کے لیے اللہ نے لکھ دیاہے۔ سو،اب تم حج کے کام کرو سوائے طواف کے کہ وہ غسل کے بعدکرنا۔ اورآپؐ نے اپنی بیبیوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان وجوہ الاحرام، حدیث: ۲۱۹۰)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیض اورنفاس والی عورت جب میقات پرآئیں توغسل کریں اوراحرام باندھ لیں اورسب ارکان اداکریں سوائے طواف کے۔(سنن ابوداؤد، باب الحائض تھلّ بالحج، حدیث: ۱۴۹۵)
حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزہ ترک کرنے کی اجازت :حضرت انس بن مالکؓ بنی عبدالاسہل کے ایک شخص نے علی بن محمدسے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے ہم پر چڑھائی کی، میں حضورؐ کی خدمت میں آیا۔ آپؐ صبح کاکھاناکھارہے تھے، آپ ؐنے فرمایا: قریب آجائو اورکھائو۔ میں نے عرض کیامیں روزے سے ہوں ۔آپؐ نے فرمایا:بیٹھ جائو تم سے روزے کے احکام بیان کرتا ہوں۔ اللہ نے مسافر کوآدھی نماز معاف فرمادی ہے اوراسی طرح مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی سے روزہ ۔(سنن ابن ماجہ،ابواب الصیام،باب ماجاء فی الافطار للحامل والمرضع، حدیث: ۱۶۶۳)
ذبح کرنے کا حق :حضرت ابن کعبؓ نے فرمایا: ایک عورت نے بکری کوپتھر سے ذبح کیا۔نبیؐ سے اس کاذکر کیاگیاتوآپؐ نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحی،باب ذبیحۃ المرأۃ، حدیث: ۳۱۸۰)
سماجی سرگرمیوں میں عورت کے مختلف میدان ہیں۔عہدِ رسالت ؐ میں عورت کی شرکت ہمیں جابجا نظرآتی ہے۔ ذیل میں ان کاجائزہ لیاجارہاہے:
جہاد میں شرکت
امان دہی کا حق :حضرت اُمّ ہانیؓ بنت ابی طالب نے ایک مشرک کوامان دی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امان کوبرقراررکھتے ہوئے فرمایا:اے امّ ہانی! جس کوتم نے امان دی، اس کوہم نے امان دی۔(سنن ابوداؤد،باب فی امان المرأۃ، حدیث: ۲۳۹۷)
جہاد میں شرکت کا حق اور زخمیوں کی مرہم پٹی : حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّ سلیم کوجہاد میں لے جاتے تھے اور انصار کی کئی اورعورتوں کوبھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔جب صحابہؓ جہادکرتے تویہ عورتیں ان کوپانی پلاتیں اورزخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الجہاد، باب فی النساء یغزون، حدیث: ۲۱۸۲)
طبّی امداد میں مشغولیت اور عسکری کاموں میں معاونت: حضرت خالد بن ذکوان کابیان ہے کہ حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریکِ جہاد تھے، چنانچہ مسلمانوں کوپانی پلانا،ان کی خدمت کرنانیز شہیدوں اورزخمیوں کومدینہ منورہ پہنچاتے تھے۔(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب ھل یداوی الرجل المرأۃ اوالمرأۃ الرجل، حدیث: ۵۳۶۳)
حضرت اُمّ عطیہؓ ان چندخواتین میں تھیں، جنھیں حضوؐر غزوات میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ آپؓ مجاہدین کے کجاووں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے رہتیں،کھانا پکاتیں،زخمیوں کاعلاج کرتیں اور مصیبت زدوں کی نگہداشت کرتیں۔ (صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب النساء الغازیات، حدیث: ۳۴۶۸)
حق مشاورت
حضرت اُمّ سلمہؓ صلح حدیبیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔صلح کے بعد آنحضرتؐ نے حکم دیاکہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں۔ لیکن سب اس قدردل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اُٹھا۔تین مرتبہ باربارکہنے پربھی کوئی آمادہ نہ ہوا (چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں) اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اورغصہ میں تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیمے میں تشریف لے گئے اورحضرت امّ سلمہؓ سے لوگوں کے رویہّ کاذکر کیا۔تب اُمّ سلمہؓ نے کہا: ’’آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں،بلکہ باہرنکل کرخودقربانی کریں اور احرام اُتارنے کے لیے بال منڈوائیں‘‘۔ آپؐ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے۔اب جب لوگوں کویقین ہوگیاکہ اس فیصلے میں تبدیلی نہیں ہوسکتی توسب نے قربانیاں کیں اوراحرام اُتارا۔ہجوم کایہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑتے تھے اور عجلت اس قدرتھی کہ ہرشخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب الشروط،باب الشروط فی الجہاد والمصالحہ مع اہل العرب،حدیث: ۲۶۰۱)
رائـے دہی کا حق :عہدِ نبویؐ میں خواتین محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتی تھیں۔قرآن کریم میںا س کا تذکرہ ہے: ’’اے پیغمبرؐ! جب مسلمان عورتیں آپ ؐ سے ان باتوں پربیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں گی،چوری نہ کریں گی،زناکاری نہ کریں گی،اپنی اولاد کونہ مارڈالیں گی اورکوئی ایسابہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑلیں اورکسی نیک کام میں تیری نافرمانی نہ کریں گی، توآپؐ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اورمعاف کرنے والاہے‘‘۔( الممتحنہ۶۰:۱۲)
عائلی معاملات میں ’ظہار‘ کا حق :عہدِ رسالتؐ میں عائلی معاملات میں خواتین نے سنجیدگی سے حصہ لیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کی۔حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہؓ کے خاوند حضرت اوس بن صامتؓ نے ان سے ’ظہار‘ کرلیاتھا۔حضرت خولہؓ سخت پریشان ہوئیں۔ اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہواتھا، اس لیے وہ نبیؐ کے پاس آئیں توآپؐ نے بھی کچھ توقف کیا، جس پرسورئہ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں جن میں ’ظہار‘ کی تفصیلات ہیں۔
معاشی حقوق
بیوی کے حقوق : حضرت حکیم بن معاویہ القشیری ؓ سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یارسولؐ اللہ! ہمارے اوپر بیوی کاحق کیاہے؟آپؐ نے فرمایا جب توکھانا کھائے تواس کو کھلا اور جب توکپڑاپہنے تواس کوپہنا اوراس کے منہ پرمت مار اوربرامت کہہ اورسوائے گھر کے اس سے جدامت رہ۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح، باب فی حق المرآۃ علی زوجھا، حدیث: ۱۸۴۳)
مہر کا حق : حضرت سہل ابن سعدؓ نے فرمایاکہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی۔ آپؐ نے فرمایا:اس سے کون نکاح کرتاہے؟ ایک شخص نے عرض کیاکہ میں۔آپؐ نے فرمایا: اسے کچھ دوچاہے لوہے کی انگوٹھی کیوں نہ ہو۔ اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے پاس کچھ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا تیرے پاس جوقرآن کریم ہے، میں اس کے بدلے تیرانکاح کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب النکاح،باب صداق النساء، حدیث: ۱۸۸۵)
ترکہ میں حق : حضرت اسود بن یزیدؓ سے مروی ہے کہ معاذ بن جبلؓ نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیاکہ آدھا مال بیٹی کودلایا اورآدھا بہن کو(کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے)۔ اس وقت حضرت معاذؓ یمن میں تھے اور نبیؐ حیات تھے۔(سنن ابوداؤد، کتاب الفرائض،باب ماجاء فی میراث الصلب، حدیث: ۲۵۲۱)
تجارت کا حق : حضرت قیلہ اُمِ بنی أنمارؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ آئے تاکہ عمرہ مکمل کرکے حالتِ احرام سے باہرنکلیں۔ میں آپؐ کے پاس عصاسے ٹیک لگائے ہوئے پہنچی، پھر میں نے کہا یارسولؐ اللہ! میں ایسی عورت ہوں، جوبیع وشرا،یعنی تجارت میں مشغول رہتی ہوں۔(الطبقات الکبریٰ،ابن سعد، دارصادر، بیروت، ۱۹۶۸ء، ج:۸، ص:۳۱۱)
شوہر کی کمائی سے بخوشی خرچ کرنا : حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:عورت اگرشوہر کے مال میں سے کچھ خرچ کرے بغیر بدنیتی کے، تواسے خرچ کرنے کاثواب دیاجائے گا اورشوہر کوبھی اتناہی اجرہوگا اورخزانچی کو بھی اورکسی کے اجرمیں کمی نہ ہوگی۔(سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات، باب ماللمرأۃ من مال زوجھا، حدیث: ۲۲۹۱)
بخیل شوہر کے مال سے بغیر اجازت تصرف کا حق :حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایاکہ ہندہ عرض گزارہوئیں یارسولؐ اللہ! بے شک (میراخاوند) ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے ، پس کیامیرے اوپرگناہ ہوگااگرمیں ان کے مال سے اتنا لے لیاکروں، جومیرے اورمیری اولاد کے لیے کافی ہو؟فرمایا کہ دستور کے مطابق لے سکتی ہو۔(صحیح بخاری،کتاب النفقات، باب وعلی الوارث مثل ذٰلک وھل علی المرأۃ منہ شیٔ، حدیث: ۵۰۶۱)
مالی اُمور میں دخل دینے کا حق : حضرت عمران بن حذیفہؓ سے مروی ہے کہ اُم المومنین میمونہؓ قرض لیاکرتی تھیں۔ان کے بعض رشتہ داروں نے انھیں روکا، لیکن انھوں نے ان کی بات نہیں مانی اورفرمایا: میں نے اپنے محبوب نبی کریم ؐسے سنا ہے کہ جوشخص قرض لے اوراللہ جانتاہے کہ وہ اداکرنے کی نیت سے لے رہاہے، تو اللہ تعالیٰ اس کاقرض دنیاہی میں ادافرمادے گا۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الصدقات،باب من اوّان دینا وھوینوی قضاء ہ، حدیث: ۲۴۰۵)
تمدنی حقوق
شوہر دیدہ کی رضامندی نکاح میں ضروری: حضرت خنساء بنت خزام انصاریہؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کانکاح کردیا، جب کہ یہ شوہر دیدہ تھیں اوراس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں۔ پس یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئیں۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ نکاح نہیں ہوا۔(صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب اذا زوّج ابنتہ وھی کارھۃ فنکاحہ مردود ، حدیث: ۴۸۴۷)
بیٹیوں کے نکاح میں ماں کو ترجیح :حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشورہ لوعورتوں سے ان کی بیٹیوں کے نکاح میں۔(سنن ابودائود،کتاب النکاح،باب فی الاستمار، حدیث: ۱۸۰۶)
ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف : حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس کی دوبیویاں ہوں اوروہ ایک کی طرف مائل ہوتووہ قیامت کے دن جب آئے گا تواس کا آدھا دھڑگراہوا[یعنی فالج زدہ] ہوگا۔(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب القسمۃ بین النساء، حدیث: ۱۹۶۵)
مال کے عوض خلع کا حق : حضرت حبیبہ بنت سہل الانصاریہؓ سے روایت ہے کہ وہ ثابت بن قیسؓ بن شماس کے نکاح میں تھیں۔ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کونکلے، دیکھاتوحبیبہ بنت سہلؓ آپؐ کے دروازے پرکھڑی ہیں اوراندھیرے میںآپؐ نے فرمایا: کون ہے؟ وہ بولی: میں حبیبہ بنت سہلؓ ہوں۔آپؐ نے فرمایا:کیوں کیاحال ہے تیرا؟بولی: یامیں نہیں یاثابت بن قیس نہیں(کیوں کہ ثابت بن قیس نے حبیبہ کوماراتھا)۔ جب ثابت ؓبن قیس آئے تو حبیبہؓ نے کہا: یارسولؐ اللہ! ثابت نے جومجھ کودیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے۔ رسولؐ اللہ نے ثابتؓ بن قیس سے فرمایا:اچھا اس سے تم لے لوجوکچھ تم نے دیاہے۔ثابتؓ بن قیس نے وہ لے لیا۔ پھرحبیبہؓ اپنے لوگوں میںبیٹھ رہیں۔(سنن ابوداؤد،کتاب النکاح،باب فی الخلع، حدیث: ۱۹۱۳)
مطلقہ کا بیٹے پر حق : حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورعرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ میرابیٹا ہے ،میراپیٹ اس کا غلاف تھااورمیری چھاتی اس کے پینے کابرتن تھی اورمیری گوداس کا گھر تھا۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اورچاہتاہے کہ لڑکا مجھ سے چھین لے۔ آپؐ نے فرمایا : انت احق بہ مالم تنکحی، تواس کی حق دار ہے جب تک کسی سے نکاح نہ کرے۔(سنن ابوداؤد،کتاب الطلاق، باب من احق بالولد، حدیث: ۱۹۵۱)
بیوی کی معاونت :حضرت اسودبن یزید ؓ نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ نبیؐ کااپنے گھر میں کیامعمول ہوتا تھا؟ انھوں نے جواب دیاکہ آپؐ اپنی زوجۂ مطہرہ جن کے پاس ہوتے کام کرتے اور جب اذان کی آواز سنتے توتشریف لے جاتے۔(صحیح بخاری، کتاب النفقات ،باب خدمۃ الرجل فی اھلہ، حدیث: ۵۰۵۴)
بیوہ کا حق : حضرت صفوان بن سلیم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :بیوہ اورمسکین کے لیے سعی اور کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یادن کوروزہ رکھنے اوررات کونماز میں کھڑے رہنے والے کی مانند ہے۔(سنن ترمذی،ابواب البر، والصلۃ عن رسول اللہ، باب ماجاء فی السعی علی الارملۃ والمسکین، حدیث: ۱۹۴۱)
حائضہ عورت کے ساتھ انس و محبت: حضرت انسؓ نے فرمایا کہ یہودی حائضہ کے ساتھ نہ توگھرمیں بیٹھتے ،نہ کھاتے ،نہ پیتے۔ حضوؐر سے اس کا ذکر کیاتواللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’اورتم سے پوچھتے ہیں حیض کاحکم توفرمائو وہ ناپاکی ہے‘‘۔آپ ؐ نے فرمایا:ان سے سوائے جماع کے ہرکام کرسکتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ وستھا، باب ماجاء فی مواکلۃ الحائض وسؤرھا، حدیث: ۶۴۱)
حائضہ کے ساتھ خوش دلی کا برتاؤ :حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ میں حالتِ حیض میں ہڈی چوساکرتی تھی، پھراسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیتے اور اپنامنہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھاتھا۔میں پانی پیتی توآپؐ برتن میرے ہاتھ سے لے کر اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھاتھا۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ وستھا، باب ماجاء فی مواکلۃ الحائض وسؤرھا، حدیث: ۶۴۰)
عورت حُسنِ سلوک کی مستحق : حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہتروہ ہے جواپنی بیوی کے لیے بہترہو اورمیں اپنی بیوی کے لیے بہتر ہوں۔(سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حسن المعاشرۃ النساء، حدیث: ۱۹۷۳)
معاشرتی حقوق
تفریح کا حق : حضرت سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے حجرے کے دروازے پردیکھااور حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے۔ آپ ؐ نے مجھے بھی اپنی چادرکی اوٹ میں کھڑاکرکے کھیل دکھایا۔(صحیح بخاری،کتاب الصلوٰۃ، باب اصحاب الحراب فی المسجد، حدیث: ۴۴۵)
تعزیت کے لیے عورت کا گھر سے نکلنا : حضرت عبداللہ بن عمربن عباسؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک میت کو دفنایا۔جب وہاں سے فارغ ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اورہم بھی آپؐ کے ساتھ لوٹے یہاں تک کہ ہم میت کے مکان تک پہنچے۔ وہاں آپؐ ٹھیرگئے دیکھاتو ایک عورت سامنے سے چلی آتی ہے ۔راوی نے کہا کہ میں سمجھتاہوں کہ آنحضرتؐ نے اس عورت کو پہچان لیا۔جب وہ عورت چلی گئی تومعلوم ہواکہ سیّدۃ النساء فاطمہ زہراؓ تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: تم کس واسطے نکلیں؟ توانھوں نے کہا:یارسول ؐاللہ! میں اس گھر میں آئی تھی، جہاں میت ہوگئی تھی تاکہ اس کے لوگوں کو تسکین دوں اورتعزیت کروں۔(سنن ابوداؤد،کتاب الجنائز ،باب التغزیہ ، حدیث: ۲۷۳۲)
قانونی دعویٰ کا حق :حضرت سعد بن اطول ؓ نے فرمایا کہ میرے بھائی کاانتقال ہوگیا۔ انھوں نے تین سودرہم اوراپنے بچے چھوڑے ،میراخیال ہواکہ ان درہموں کوان بچوں پر صرف کردوں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :تمھارابھائی مقروض ہے، تمھیں چاہیے کہ اس کاقرضہ ادا کرو۔سعد نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے ان کا تمام قرضہ ادا کردیالیکن دودینار باقی ہیں، جن کا دعویٰ ایک عورت نے کیاتھا۔ وہ میں نے نہیں دیئے کیونکہ اس کے پاس گواہ نہ تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اسے بھی دے دوکیونکہ وہ عورت سچی ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب ادآء الدین عن ا لمیت، حدیث: ۲۴۳۰)
ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اُمّ المؤمنین حضرت سودہ بنت رفعہ ؓ رات کے وقت باہر نکلیں توانھیں حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا اورکہا: اے حضرت سودہؓ !آپ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ پس جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس لوٹیں توآپؐ سے اس بات کاذکرکیا اورحضورؐ اس وقت میرے حجرے میں شام کا کھانا تناول فرمارہے تھے اورایک ہڈی آپ کے دستِ مبارک میں تھی کہ وحی کانزول شروع ہوگیا۔ جب وحی نازل ہوچکی توآپؐ فرمانے لگے:تمھیں ضروری حاجت کے تحت باہرنکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔(صحیح بخاری ،کتاب النکاح،باب خروج النساء لحوائجھن، حدیث:۴۹۴۳)
حائضہ کا مہندی لگانا : حضرت معاذہؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ کیا حائضہ مہندی لگاسکتی ہے؟انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں مہندی لگاتے تھے ،آپؐ نے ہمیں اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الطہارہ،باب الحائض تختضبُ،حدیث: ۶۵۴)
لباس میں عورت کے ذوق کا احترام: حضرت عبداللہ زُرَیرالغافقی سے مروی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں دستِ اقدس میں ریشم اور دائیں دستِ اقدس میں سونالے کرفرمایا: میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور عورتوں پر حلال ہے۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب اللباس،باب لبس الحریر والذھب للنساء، حدیث: ۳۵۹۳)
عورتوں کو مسجد کی صفائی کا بھی حق : حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیاکرتی تھی،وہ نظرنہ آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیاوہ تومرگئی ،فرمایا: تم نے مجھے کیوں نہ بتایا! مجھے اس کی قبربتائو۔ چنانچہ لوگوں نے اس کی قبر کی نشان دہی کی ،پھرآپؐ نے اس پر نماز پڑھی۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلوٰۃعلی القبر، حدیث: ۱۵۲۲)
عورت کا سفر کرنا : حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی عورت تین دن کاسفر نہ کرے، مگریہ کہ کوئی محرم رشتہ دار اس کے ساتھ ہو۔ (صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ، ابواب تقصیر الصلوٰۃ ،باب فی کم یقصرالصلوٰۃ، حدیث: ۱۰۵۰)
مطلقہ ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہـے : حضرت جابربن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوئی اورانھوں نے چاہاکہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑیں، سو ایک شخص نے ان کو باہر نکلنے پر جھڑکا۔ وہ نبیؐ کے پاس حاضر ہوئیں اورآپؐ نے فرمایا: نہیں، تم جائو اوراپنے باغ کی کھجوریں توڑو ،اس لیے کہ شایدتم اس میں سے صدقہ دو(تواوروں کاہو) اورکوئی نیکی کرو(کہ تمھاراہو)۔(صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب جواز خروج المعتدہ البائن، حدیث: ۲۸۰۵)
عورتوں کو مال میں سے خیرات کرنے کی تلقین : حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپؐ نے فرمایا :روپیہ پیسہ تھیلیوں میں بند کرکے مت رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی بند کرکے رکھے گا، جہاں تک ممکن ہوخیرات کرتی رہو۔ (صحیح بخاری،کتاب الزکوٰۃ،باب الزکوٰۃ علی الزّوج والایتام فی الحجر، حدیث: ۱۴۰۹)
عورتوں کو زندہ رکھنے کا حق : جس شخص کی لڑکی ہووہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اورنہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اورنہ اس پراپنے لڑکے کوترجیح دے، تواللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(ابوداؤد،باب فضل من عال یتامی)
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق : حضرت یحییٰ بن کثیر سے روایت ہے کہ ان سے محمدبن ابراہیم نے حضرت ابوسلمہؓ کایہ قول نقل کیا کہ ان کے اورکچھ لوگوں کے درمیان زمین کی بنیاد پرجھگڑا تھا۔اس کاتذکرہ انھوں نے حضرت عائشہؓ سے کیا،توانھوں نے فرمایا: اے ابوسلمہؓ! زمین چھوڑدو،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:جس نے ایک بالشت بھرزمین پرظالمانہ قبضہ کیااللہ اس کوسات زمینوں کاطوق پہنائیں گے۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب اثم من ظلم شیئًا من الارض، حدیث: ۲۳۴۱)
تعلیمی حقوق
عورتوں کی تعلیم کا خصوصی اہتمام : حضرت عبدالرحمٰن بن عبداللہ صہبائی نے کہا میں نے ابوصالح ذکوان سے سنا، اور وہ ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے تھے کہ عورتوں نے آنحضرتؐ سے عرض کیا :مرد آپ کے پاس آتے ہیں اور ہم پرغالب ہوتے ہیں، تو آپؐ اپنی طرف سے (خاص) ہمارے لیے ایک دن مقرر کردیجیے۔آپؐ نے ان سے ایک دن ملنے کا وعدہ فرمایا۔ اس دن ان کو نصیحت کی اورشرع کے حکم بتلائے۔ ان باتوں میں جوآپؐ نے فرمائیں یہ بھی تھا کہ تم میں سے جوعورت اپنے تین بچے آگے بھیجے (ان کاانتقال ہوجائے) تو آخرت میں اس کے لیے دوزخ سے آڑ بن جائیں گے۔ ایک عورت نے عرض کیا کہ اگردوبچے تو آپ نے فرمایا اور دوبھی۔(صحیح بخاری،کتاب العلم،باب ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم؟، حدیث:۱۰۱)
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ : حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے، اُس کے لیے جنّت ہے۔(سنن ترمذی، ابواب البّر والصلۃوالآداب، باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات والاخوان، حدیث:۱۸۸۸)
علمی، معاشرتی ،سیاسی اورمختلف سرگرمیوں میں عورت کے حقوق کا جو تصور اسلام نے ہمیں دیا ہے وہ عہدِ رسالت میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ دیگر معاملات و مسائل کی طرح دورِ حاضر کے معاشرتی و دیگرمسائل میں ہمیں مذکورہ احادیث سے استنباط کرناچاہیے۔