۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلہ نامی پمفلٹ لکھنے کے ’جرم‘ میں لاہور کی ایک فوجی عدالت نے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو سزائے موت سنائی، جو اندرون اور بیرونِ ملک شدید عوامی احتجاج پر عمرقید بامشقت میں تبدیل کرکے سیّدمودودیؒ کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان منتقل کردیا گیا، جہاں سے تقریباً پچیس ماہ بعد رہائی ہوئی۔اُس وقت ڈسٹرکٹ جیل ملتان کے سپرنٹنڈنٹ دینی رجحان کے حامل تھے۔
اُن دنوں کالجوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے زیراہتمام طلبہ تقریبات منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جن میں مختلف کالجوں کی ٹیموں کے درمیان مشاعروں اور مباحثوں کے مقابلے ہوتے تھے۔ مباحثوں میں مقررین کسی متعین موضوع کے حق اور مخالفت میں اظہارِ خیال کرتے تھے اور پھر سامعین کی رائے سے موضوع کے منظور یا مسترد ہونے کا فیصلہ ہوتا تھا۔
مولانا مودودیؒ کی مذکورہ جیل میں قید کے دوران نشتر میڈیکل کالج، ملتان کا ہفتۂ طلبہ منایا جارہا تھا، جس میں ایک مباحثے کا عنوان تھا: ’’اس ایوان کی رائے میں پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟‘‘
ملتان ویمن کالج سے جیل سپرنٹنڈنٹ کی بیٹی بھی اس مباحثے میں حصہ لینے کی خواہش مند تھیں اور چاہتی تھیں کہ دلائل سے ثابت کریں کہ ’’پردہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے‘‘، لیکن مدلل تقریر تیار کرنا بس میں نہ تھا۔انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے والدصاحب سے کیا، جنھوں نے بیٹی کو تسلی دی کہ’’ پردہ کتاب کے مصنف ہماری جیل میں بطور ’قیدی‘ موجود ہیں، ان سے مشورہ کرتا ہوں‘‘۔ اگلے روز افسر موصوف نے مولانا محترم کے سامنے یہ مسئلہ رکھا اور کچھ دیربعد مولانا مودودی نےتقریر لکھ کر دے دی۔
طالبہ نے تقریر اَزبر کرلی اور بڑے اعتماد کے ساتھ موضوع کی مخالفت میں خطاب کیا۔ تمام تقاریر ہوگئیں تو حاضرین و سامعین نے رائے شماری پر بھاری اکثریت کے ساتھ موضوع کو مسترد کرکے پردے کے حق میں رائے دی۔
مباحثے کے اگلے دن اخبارات میں نمایاں طور پر یہ خبر شائع ہوئی، اور طالبہ کے دلائل کی داد و تحسین کی گئی، اور ملتان کے ایک اخبار نے مکمل تقریر شائع کردی۔ سیّد نصیراحمد مرحوم جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما نے اُس روز اپنے دوستوں کے سامنے تقریر کی چند سطریں پڑھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تقریر اس بچی کی نہیں ہوسکتی، اس کے پیچھے کوئی بڑا دماغ کام کر رہا ہے‘‘۔
چند روز بعد مولانا مودودی سے جیل میں ہفتہ وار ملاقات میں جماعت کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن سیّد نصیراحمد شاہ بھی گئے۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے: ’’جیل میں مَیں نے مولانا سے پوچھا کہ کیا پردے کے موضوع پر کالج کے مباحثے میں ایک لڑکی کی تقریر آپ کی نظر سے گزری ہے؟‘‘ مولانا مسکراکر فرمانے لگے: ’’جی ہاں، نہ صرف نظر سے گزری ہے بلکہ لکھی بھی ہے اور سنی بھی ہے‘‘۔ (تذکرۂ سیّد مودودیؒ، اوّل، ص ۵۹۴-۵۹۵)
تفصیل یہ معلوم ہوئی کہ تقریر مولانا نے لکھ کر دی تھی اور سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں ان کی بیٹی پروین رضوی کو خطاب کے لیے رہنمائی بھی دی تھی۔ والد نے بیٹی کی تقریر کو جلسے میں ریکارڈ بھی کرایا اور بعدازاں مولانا کو ریکارڈنگ سنوائی بھی۔
یہ تقریر جماعت اسلامی کے رہنما مولانا خان محمد ربانی نے پمفلٹ کی صورت میں شائع کی۔ اس پمفلٹ کا عنوان ’کیا پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟‘ تھا۔