نو مسلم دانشور محمد اسد (لیوپولڈ وئیس؛۱۹۰۰ء- ۱۹۹۲ء) کے تصور و فہم اسلام میں دین اور سیاست و حکومت کی یکجائی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ محمد اسد کی نظر میں اسلامی نظریہ ٔ حیات کو کامل طور سے مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری کرنے کے لیے ریاست و حکومت کا قیام ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ چنانچہ ترجمۂ تفسیر قرآن، شرح بخاری شریف کے علاوہ معاشرے کی اسلامی تشکیل اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے خدوخال، اور اس کے دستور کی توضیح وتشریح، ان کی تالیفات کے اہم عنوان رہے ہیں۔ محمد اسد ایک جدید جمہوری فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے شدید آرزو مند تھے۔ انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں جدید مسلم دُنیا میں مغرب کی نقالی کی دوڑ میں سیکولر قومی ریاستوں کے قیام (ترکی ، افغانستاان ، اور ایران)، کے علاوہ موروثی بادشاہت اور ملوکیت (سعودی عرب میں سعودی بادشاہت ) کو سخت تنقید کا ہدف بنایا ۔ اسلامی ریاست کے تصور سے اپنی اس گہری وابستگی کے پیش نظر محمد اسد کو تحریک پاکستان کے نصب العین، یعنی اسلامیان ہند کے لیے ایک جداگانہ اسلامی مملکت کے قیام سے گہری دل چسپی تھی۔ تحریک پاکستان کے فیصلہ کن مرحلے میں (۱۹۴۶ء-۱۹۴۷ء) اور خصوصاً قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے دوران میں انھوں نے اپنے آپ کو دو قومی نظریے کی توضیح و تشریح اور جدید اسلامی مملکت کے دستوری اصول کی تعبیر و تشریح کے لیے وقف کر دیا ۔
تحریک پاکستان کا حقیقی نصب العین کیا تھا؟ ،بانیا ن پاکستان، خصوصاً علامہ ڈاکٹر محمداقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کس طرح کا پاکستان قائم کرنا چاہتے تھے؟ محمد اسد نے ان موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میںمحمد اسد کی آرا و خیالات ، سیکولر قومی ریاست کے قیام کے علَم برداروں کی طرف سے مملکتِ پاکستان کی نظریاتی جہت کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شہہات کے ازالے کے ضمن میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ذیل میں محمد اسد کے تصور و نظریۂ پاکستان پر بحث کی گئی ہے:
علّامہ محمد اسد کو اسلامی قومیت کے نظریے کی اساس پر مطالبہ و تحریک پاکستان کی صورت میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام سے متعلق اپنے دیرینہ خواب و آرزو کی تعبیر کے واضح طور پر امکانات دکھائی دیے۔چنانچہ وہ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر برطانوی قید سے رہائی پانے کے ساتھ ہی بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اس تحریک کے ایک سرگرم داعی و ترجمان بن گئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں مطالبہ و تحریک پاکستان کی نظریاتی اساس، اس کے حقیقی مقصد و غایت اور نصب العین کی وضاحت اور تشہیر کی اور پاکستان کو ایک نظریاتی اسلامی ریاست بنانے کا مُقدّمہ پوری قوت اور طاقت سے پیش کیا۔ اسی طرح انھوں نے بطور خاص دینی و شرعی اور سیاسی و ملّی نقطۂ نگاہ سے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی ضرورت و اہمیت واضح کی۔
محمد اسد نے برِّعظیم میں اپنے پندرہ سولہ سالہ قیام (۱۹۳۲ء-۱۹۴۷ء) کے دوران میں ہندو مسلم سیاست کا قریبی مشاہدہ کیا۔ وہ اس ملک کی ہندواکثریت اور اس کی نمایندہ سیاسی جماعت کانگریس کے سیاسی عزائم اور بالخصوص اس کے متحدہ وطنی قومیت کے نظریے اور اس کے مضمرات سے بخوبی واقف و آگاہ تھے۔ کانگریسی دورِ وزارت (۱۹۳۷-۱۹۳۹ء) کی مذہبی اور تعلیمی و ثقافتی پالیسیوں، مزید برآں اس دور میں ہندو آبادی کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنائے جانے سے بھی وہ باخبر تھے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان کی نگاہ سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔
دریں حالات وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس خطّے میں مسلمانوں کے تحفظ و بقا اور احیائے اسلام کی غرض سے ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت ’پاکستان‘ کا قیام ایک انتہائی ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان ایسی مسلم مملکت کے قیام کی صورت ہی میں اسلام کو اسلامیانِ ہند کی زندگی کے جملہ شعبوں میں جاری و نافذ کیا جاسکتا تھا اور ان کی اخلاقی و روحانی زندگی میں انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ اسد نے مئی ۱۹۴۷ء کو مجلہ Arafat (عرفات ) میں What Do We Mean by Pakistan?? (ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟/ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟) کے عنوان سے اپنا ایک مقالہ شائع کیا، جس میں انھوں نے اپنے تصوّر و نظریۂ پاکستان کو وضاحت سے پیش کیا۔ اس مقالہ میں انھوں نے لکھا:
"I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a reality; and that, if it becomes a reality here, it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim World by proving that it is possible to establish an ideological Islamic polity in our times no less than thirteen hundred years ago".
میرا عقیدہ ہے اور گذشتہ چودہ سال [۱۹۳۲ء کے وسط میں برِّعظیم میں اپنی آمد کے دنوں] سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں کہ ہندستان میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ماسوائے اس کے کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان و اقعتاً قائم ہوجاتا ہے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی نظام حکومت (Ideological Islamic Polity) قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔
محمد اسد نے مسلمانانِ ہند کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا مطالبہ قومیت کے مغربی نظریے کی اساس پر نہیں بلکہ اسلامی نظریہ قومیت کی بنیاد پر کیا ہے،کہ جس کے تحت ہر نسلی، لسانی اور جغرافیائی قومیت کو سیاسی اعتبار سے حق خود ارادیت حاصل ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلامیانِ ہند کے لیے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے مطالبہ کی حقیقی و تاریخی عِلّت اور وجۂ جواز صرف اور صرف یہ نہ تھی کہ وہ اس ملک کے دوسرے باشندوں (خصوصاً ہندوؤں) سے مختلف لباس پہنتے اور مختلف زبان بولتے یا پھر مختلف انداز میں علیک سلیک کرتے تھے، یا یہ کہ انھیں آزاد و جداگانہ مملکت میں زیادہ معاشی مواقع کی خواہش اور توقع تھی اور انھیں زیادہ وسیع وکشادہ جگہ کی طلب تھی۔ بلکہ اس کا جواز صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور انھیں سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا، مسلمانوں کے لیے حقیقی اسلامی زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسی مملکت کا قیام ضروری تھا جس میں مسلمان اپنے دین و عقیدے کے مطابق آزادانہ طور پر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل کرسکتے ہوں۔ اسد کے الفاظ میں:
The Pakistan movement, …that the real, historic justification of this movement… is to be found only in the Muslims' desire to establish a truly Islamic polity: in other words, to translate the tenets of Islam into terms of practical life.
مطالبہ پاکستان کا اگر کوئی جواز ہے تو صرف یہ کہ ایک ایسی حقیقی اسلامی مملکت قائم کی جائے کہ جہاں عملی زندگی میں اسلامی احکام و شعار رائج کیے جائیں۔
اسد کے نزدیک تحریک پاکستان کی جڑیں اسلامیان بّرعظیم کے اس جبلّی احساس و شعور میں پیوست ہیں کہ وہ ایک نظریاتی قوم ہیں اور ان کا جداگانہ تشخص صرف اور صرف اسلامی نظریۂ حیات سے وابستگی کی اساس پر قرار پاتا ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ وہ خود مختار سیاسی وجود کے حق دار ہیں بلکہ ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخّص کے تحفظ و بقا کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریۂ حیات ان کی اجتماعی زندگی کے ہر ہر پہلو اور ہر ہر مظہر میں دکھائی دے۔ ان کی نظر میں یہی تحریک پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین ہے۔ اسد کے الفاظ میں:
As far the Muslim masses are concerned, the Pakistan movement is rooted in their instinctive feeling that they are an ideological community, and have has such every right to an autonomous, political existence … They feel and know that their communal existence is not, as in other communities,based on racial affinities or on the consciousness of cultural traditions held in common, but only, exclusively, on the fact of their common adherence to the ideology of Islam: and that, therefore, they must justify their communal existence by erecting a socio-political structure in which that ideology, the shari'ah, would become the visible expression of their nationhood.... This is the real, historic purpose of Pakistan movement the movement's intrinsic objective, the establishment of an Islamic polity in which our ideology could come to practical fruition.
جہاں تک مسلمانانِ ہند کا تعلق ہے، تحریک ِ پاکستان کی جڑیں ان کے اس جبلّی احساس میں پیوست ہیں کہ وہ ’ایک نظریاتی قوم‘ ہیں اور اسی لیے وہ ایک خودمختار، جداگانہ سیاسی وجود کے حق دار ہیں۔بالفاظِ دیگر وہ محسوس کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کا جداگانہ تشخص دوسری اقوام کی طرح مشترکہ نسلی مشابہتوں [اشتراکات] اورقرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقدار و روایات کے شعور کی بنیاد برقرار نہیں پاتا، بلکہ اسلامی نظریہ و اعتقاد سے مشترکہ وابستگی کی اساس برقرار پاتا ہے۔ پس، ان پر لازم آجاتا ہے کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کے جواز کی خاطر ایسا معاشرتی و سیاسی نظام قائم کریں، جس میں اسلامی نظریہ اور اعتقاد (یعنی شریعت)، ان کی قومیت کے ہرپہلو اور ہرمظہر میں سب کو دکھائی دے… یہ ہے تحریکِ پاکستان کا حقیقی و تاریخی نصب العین۔ تحریک ِ پاکستان کا اصلی نصب العین کیا ہے؟ ایک اسلامی ہیئت حاکمہ کا قیام، جس میں ہمارا نظریۂ [حیات] حقیقت کا رنگ رُوپ اختیار کرسکے۔
محمد اسد نے علامہ محمد اقبال اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کی طرح قومیت کے مغربی تصور کی پر زور طریقے سے نفی و تردید کی اور اسے اسلامی نظریۂ حیات سے متصادم قرار دیا جب کہ اس کے مقابلے میں اسلامی قومیت کے تصور کو نکھار کر پیش کیا۔ ان (اسد) کے نظریۂ اسلامی قومیت کے مطابق مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں نہ کہ نسلی، لسانی اور جغرافیائی وحدت۔ ان کی قومیت کی بنا صرف اسلام ہے۔ وہ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح مشترکہ نسلی و لسانی مشابہتوں اور قرابتوں یا مشترکہ ثقافتی اقداروروایات کے شعور کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی نظریۂ و اعتقاد سے وابستگی کی بنیاد پر ایک ملت ہیں۔ وہ محض مسلمان ہونے کی بناء پر، خواہ وہ جغرافیائی اعتبار سے کسی بھی خطے میں آباد ہوں، ایک ملت ہیں۔ اسد کی رائے میں اسلام مسلمانوں کے جداگانہ تشخّص و وجود کے چند عوامل و خصائص میں سے صرف ایک عامل نہیں بلکہ وہ تو ان کے وجود کی تاریخی علّت اور ان کی قومیت کی حقیقی و اصلی اساس ہے۔ وہ واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں:
’’لفظ ’قوم‘ کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں ہے۔ ہم ایک قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں بلکہ اس مفہوم میں ایک قوم (ملت) ہیں کہ ہم اپنے ایک خاص نصب العین (عقیدے اور نظریۂ حیات) کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا چاہتے ہیں‘‘۔
’’اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں، ہم لسانی وحدت بھی نہیں، ہر چند کہ ’اُردو‘ نے مسلم ہندستان کی زبان کے طور پر کافی ترقی کرلی ہے۔ ہم انگریزوں اور چینیوں کی طرح قوم نہیں ہیں اور نہ اس مفہوم میں قوم بن سکتے ہیں۔ …ہمارا سیاسی نصب العین ترکوں، مصریوں، افغانیوں، شامیوں یا ایرانیوں کے موجودہ نصب العین سے بالکل مختلف ہے۔ تمام مسلم اقوام میں ہم اور صرف ہم مسلمانانِ ہند ہیں، جو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف ہٹاکر اُمت ِواحدہ کے اس تصور کی تلاش و جستجو میں نکل کھڑے ہوئے ہیں، جس کی طرف رہنمائی و ہدایت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لیے کردی ہے‘‘۔
محمد اسد اسلام کو تحریک پاکستان کا پہلا و آخری حوالہ گردانتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں جدید دنیائے اسلام میں یہی ایک ایسی تحریک ہے جس کی اساس اور قوت محرّکہ اسلام ہے اور جس کا واضح نصب العین محض ایک قومی وطن کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ ان کے نزدیک مطالبہ پاکستان کی غایت اور اس کا حتمی و آخری نصب العین محض مادی خوش حالی اور سیاسی اقتدار کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جس میں اسلام کامل طور پر برگ و بار لائے۔محض معاشی مفادات کے تحفظ یا صرف ایک قومی وطن کے حصول کی آرزو کو وہ تحریک پاکستان کا منفی اور انتہائی پست و کمزور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پاکستان اپنی ماہیت میں سیکولر نہیں بلکہ سرتاسر ایک نظریاتی تحریک تھی اور اس کی کامیابی مسلم دنیا میں اسلام کے احیاء کا محرک بن سکتی تھی۔
غرض یہ کہ محمد اسد کی نگاہ میں تحریک پاکستان کا نصب العین ایک ایسی ریاست کا قیام ہے جہاں مسلم عوام کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں شریعت کی فرماںروائی قائم ہو۔ اسد کے الفاظ میں ’’ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایک زندہ حقیقت بنادیں۔ ہم پاکستان اس لیے بنانا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ کسی فرد کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسرکرنا ممکن نہیں تاوقتیکہ پورا کا پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے اور کتاب و سنت کے احکام پر صدق دل سے عمل نہ کرے۔ لیکن اس قسم کا اصلی و حقیقی پاکستان کبھی حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے گا تاوقتیکہ ہم اسلامی قانون کو اپنے مستقبل کے لیے اصل اصول نہ بنائیں اور اسلام کے احکام کو اپنے شخصی و اجتماعی طرز عمل کی اساس نہ بنائیں‘‘۔
دنیا کی کسی بھی سیاسی تحریک کی آئیڈیالوجی، اس کا نصب العین اور معاشرہ و ریاست کی تنظیم و تشکیل سے متعلق اس کا پروگرام خواہ کتنا ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہو اس کے کچھ نہ کچھ تقاضے اور ابتدائی لوازمات و شرائط ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو پورا کیے بغیر وہ پروگرام عملی طور پر متشکل نہیں ہوسکتا اور حقیقت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی سیاسی و اقتصادی نظام کسی معاشرے میں یکایک وجود میں نہیں آجاتا اور نہ مناسب تیاری کے بغیر اسے کسی معاشرے میں مصنوعی طور پر جمایا جاسکتا ہے۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول:’’اس کی پیدائش تو ایک سوسائٹی کے اندر اخلاقی،نفسیاتی، تمدنی اور تاریخی اسباب کے تعامل سے طبعی طور پر ہوتی ہے اور اس کے لیے کچھ ابتدائی لوازم (pre-requisites)، کچھ اجتماعی محرکات، کچھ فطری مقتضیات ہوتے ہیں جن کے فراہم ہونے اور زور کرنے سے وہ وجود میں آتی ہے۔ ایک [سیاسی نظام اور طرز] حکومت صرف ان حالات کے اقتضاء کا نتیجہ ہوتی ہے جو کسی سوسائٹی میں فراہم ہوگئے ہوں۔ پھر حکومت کی نوعیت کا تعین بھی بالکلیہ ان حالات کی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے، جو اس کی پیدائش کے مقتضی ہوتے ہیں‘‘۔
چنانچہ جب معاملہ جدید دور میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کا ہو، کہ جسے تحریک پاکستان کے دوران میں اسلامیانِ برِّعظیم نے اپنا مطمح نظر اور نصب العین ٹھہرایا تھا، تو یہ اصول اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرلیتا ہے۔سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رائے میں تحریک پاکستان کے اس نصب العین کا تقاضا تھاکہ مسلم عوام کو اسلامی ریاست کے قیام کا حقیقی فہم و شعور حاصل ہوتا، انھیں اپنے نظریۂ حیات اور مقصد زندگی پر غیر متزلزل یقین ہوتا نیز ان کے مطالبات سے آگاہ ہوتے۔ ان کی سیاسی قیادت اس معیار اخلاق اور سیرت و کردار کی حامل ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہے۔ پھر وہ (سیاسی قیادت) اپنی جدوجہد سے معاشرے میں اسلامی طرزِ فکر اور اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کرتی، عوام کے طرز فکرو عمل کو ہر ممکن حد تک اسلام کی روح و مزاج سے ہم آہنگ بناتی۔ مزید برآں وہ مستقبل کی اسلامی ریاست کے اجتماعی نظام کے خدو خال واضح کرتی۔ عوام کو ذہنی طور پر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایثار و قربانی کا درس دیا جاتا۔ یہی اسلامی ریاست کے قیام کا ایک فطری طریقہ ہوسکتا تھا۔
تاہم، واقعی صورت حال یہ تھی کہ اجتماعی حیثیت سے اس وقت مسلمان بہت سی کمزوریوں میں مبتلا تھے۔ جو ان کی ملی طاقت کو گھن کی طرح کھاگئی تھیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کا سوادِ اعظم اسلام کی تعلیمات اور اس کی تہذیب و معاشرت سے ناواقف تھا۔ ان میں ان حدود کا شعور تک باقی نہ رہا تھا جو اسلام کو غیر اسلام سے ممیز کرتی ہیں۔ اسلامی تربیت کے صدیوں سے فقدان کے سبب ان کے اندر کوئی اخلاقی قوت باقی نہ رہی تھی۔ غرض اسلام سے ان کا تعلق محض رسمی اورپیدائشی و موروثی تھا۔ دوسری بڑی کمزوری جس میں وہ مبتلا تھے وہ قومی انتشار اور بدنظمی تھی۔ ان میں وہ اخلاقی اوصاف ناپید تھے، جو ذاتی مفاد کو ملی مفاد پر قربان کرنے پر اکساتے ہیں۔ مسلم قوم، نفس پرستی میں مبتلا تھی۔ افلاس، جہالت اور غلامی نے ان کو ملی و اسلامی حمیّت و غیرت سے بڑی حد تک محروم کردیا تھا۔ مزید برآں مسلم قوم دو عملی کا شکار تھی۔ وہ زبانی کلامی اسلام کا دم بھرتی تھی، جب کہ اس کا عمل اسلام سے بہت دور ہٹا ہوا تھا۔ رہی سہی کسر جدید مغربی تعلیم نے پوری کردی تھی۔ اس تعلیم کے سبب سے جدید نسل کا اپنے آبائی دین سے اعتماد اٹھ گیا تھا۔ جدید تعلیم سے بہرہ ور مسلمانوں کی نئی نسل اسلامی شریعت اور قانون کو فرسودہ و دور ازکار رفتہ، جب کہ مغرب کے تہذیب و تمدن اور اس کے طرز حیات کے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی و تعلیمی نظام کی تقلید میں ہی مسلمانوں کی نجات خیال کرتی تھی۔
محمد اسد کی نگاہ میں مسلم عوام کی اجتماعی اسلامی و اخلاقی حالت اور اس کی سیاسی قیادت کا طرز فکروعمل تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور ان کے مطالبات اور تقاضوں سے میل نہ کھاتا تھا۔ دریں حالات وہ تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ‘‘ کے تقاضوں اور مطالبات کی وضاحت اور انھیں سیاسی قیادت کے ذہن نشین کرانے کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے برملا طور پر سیاسی قائدین سے دین اسلام کو دل و جان سے اختیار کرنے اور اس کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنے کا تقاضا کیا۔ مزیدبرآں انھوں نے سیاسی قیادت پر مسلم عوام کی اخلاقی تربیت اور ان کے طرز فکرو عمل کو دین اسلام کے اصول و تعلیمات سے ہم آہنگ بنانے کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ اسد نے مجوزہ اسلامی مملکت کے سیاسی و قانونی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کے دستور العمل کی اسلام کے اصول و احکام کی روشنی میں تدوین کی ضرورت و اہمیت بھی واضح کی۔ انھوں نے خاص طور سے اس ضمن میں برتی جانے والی کوتاہی و غفلت اور تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین سے برگشتگی و انحراف کے مستقبل میں ظاہر ہونے والے منفی نتائج و عواقب سے خبردار بھی کیا۔ اسد تحریک پاکستان کے تقاضوں کے بارے میں کہتے ہیں:
...."that the foremost slogan of the Pakistan movement is La ilaha ill' Allah; that they are imbued with the desire to establish political forms in which the Muslim world-view, Muslim ethics and Muslim social concepts could find their full expression: and you will ask me, in a somewhat aggrieved voice, whatever I count all this for nothing from the Islamic point of view? As a matter of fact, I do not " count all this for nothing:"I count it for very much indeed. I do believe (and have believed it for about fourteen years) that there is no future for Islam in India unless Pakistan becomes a reality; and thatٍ if it becomes a reality hereٍ it might bring about a spiritual revolution in the whole Muslim world by proving that it is possible to establish an ideological, Islamic polity in our times no less thirteen hunderd years ago. But ask yourselves: Are all leaders of the Pakistan movementٍ and the intelligentsia which forms its spearhead, quite serious in their avowals that Islamٍ and nothing but Islamٍ provides the ultimate inspiration of their struggle? Are they really aware of what it implies when they say",The object of Pakistan is La ilaha ill'Allah?" Do we all mean the same when we talk and dream of Pakistan"?
[آپ کہیں گے] کہ تحریک پاکستان کا پہلا نعرہ ہی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ مقرر ہو ا ہے، یہ کہ انھوں [اسلامیانِ ہند] نے ایسی سیاست حاکمہ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس میں مسلم تصورِ کائنات، مسلم اخلاقیات اور مسلم معاشرتی افکار [ تصورات ونظریات] مکمل اظہار کی راہ پاسکیں۔ اور شاید آپ کسی قدر رنجیدگی سے مجھ سے دریافت کریں گے کہ کیا میں ان سب باتوں کو اسلامی نقطۂ نظر سے بے وقعت اور غیر اہم خیال کرتا ہوں؟ بات یہ ہے کہ میں ہرگز ہرگز ان کو بے وقعت اور غیر اہم خیال نہیں کرتا۔ میری نظر میں یہ بہت وقیع اور اہم ہیں۔ میرا عقیدہ ہے(اور گذشتہ چودہ سال سے میں اس عقیدے پر قائم ہوں) کہ پاکستان ایک حقیقت بن کر قائم ہوجائے۔ اگر پاکستان واقعی قائم ہوجاتا ہے، تو پورے عالم اسلام میں ایک روحانی انقلاب آسکتا ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جس طرح تیرہ سو سال پہلے ایک نظریاتی اسلامی ہیئتِ حاکمہ قائم کرنا ممکن تھا، کم و بیش اسی طرح آج بھی ممکن ہے۔ لیکن ہمیں ایک سوال کا جواب دینا ہوگا: کیا تحریک پاکستان کے تمام قائدین اور اہل دانش جو تحریک کے ہراول ہیں، کیا وہ اپنے ان دعووں میں سنجیدہ اور مخلص ہیں کہ اسلام، اور صرف اسلام ہی ان کی جدوجہد کا اولیں محرک ہے؟ جب وہ کہتے ہیں کہ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو کیا وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ پاکستان کا نظریہ اور پاکستان کا خواب کیا ہم سب کے ذہنوں میں ایک ہی ہے یا مختلف و متفرق؟‘‘
اسد کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اگر ہمارے پیش نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے تو ضروری ہے کہ ہم قوم کو اس مقصد کے حصول کے لیے اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کریں۔ صرف سیاسی جدوجہد اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے علمی و فکری، اخلاقی و تہذیبی اور سیاسی، غرض ہر میدان میںکام کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر حقیقی مقصد کا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔اسد سیاسی قیادت سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ خود اپنے اور عامّۃ النّاس کے طرز فکر و عمل کو اسلامی نظریۂ حیات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ بنانے کا اہتمام کریں گے تاکہ وہ کل کو اسلامی مملکت کی تشکیل و تعمیر کے سلسلہ میں گراں بار ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اسد کو اس حقیقت کا گہرا ادراک و شعور تھا کہ گو مسلم عوام (اسلامیانِ ہند) اسلام سے جذباتی وابستگی تو ضرور رکھتے ہیں، لیکن نہ تو اسلامی ریاست کے بارے میں کوئی واضح تصوّر ان کے سامنے ہے اور نہ صحیح معنوں ہی میں وہ اس تصوّر کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ یہ اس لیے کہ صدیوں سے ان کا رشتہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کٹا ہوا ہے اور صدیوں سے وہ ضعیف الاعتقادی اور سیاسی نکبت و ادبار کے عمیق کنوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
مسلم قوم کی اجتماعی حالت کی اصلاح کی ضرورت سے متعلق اسد کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا موجودہ اخلاقی قدوقامت اس معیار سے بہت پست ہے جس کا تقاضا اسلام ہم مسلمانوں سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ ذاتی مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے اور وعدے وعید توڑنے سے ہمیں عار نہیں۔ بدعنوانی، خود غرضی، دھوکا بازی، فریب کاری، خود غرضی اور اقربا پروری ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے وجود کے سرچشمے یعنی اسلامی تعلیمات سے بہت دور جاپڑے ہیں۔ اگر ہم موجودہ اخلاقی پستی سے اوپر اٹھنے کی ذرا بھی کوشش نہ کریں تو ایسے حالات میں ہم کیوں کر اسلامی مملکت پاکستان کے شایانِ شان شہری بن سکتے ہیں؟ ایسے حالات میں ہم کیوں کر حقیقی اسلامی مملکت قائم کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے موجودہ طور طریق اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہر قدم پر شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے تو نظریۂ پاکستان میں سے اس کی روح غائب ہوجائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد حیثیت حاصل ہونے والی ہے وہ حاصل نہ ہوسکے گی۔
محمد اسد تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم عوام کی اخلاقی و روحانی اصلاح اور صحیح اسلامی تربیت (دینی و فکری و عملی) کی غرض سے سیاسی قیادت کے دوش بدوش روحانی و نظریاتی قیادت کی موجودگی کو بھی بے حد ضروری خیال کرتے تھے۔ ایسی قیادت جو مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرسکے، فکری و نظری اور عملی میدان میں ان کی رہنمائی کرسکے اور ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلہ میں انھیں ایثار اور قربانی پر آمادہ و مستعد کرسکے، جو ان میں اسلام کی روح کو سمودے اور انھیں اخلاقی اصولوں کی علَم بردار ایک نظریاتی جماعت بنادے۔
اسد کو بخوبی احساس تھا کہ مسلم لیگی قیادت نے مسلم عوام کی صحیح رخ پر تربیت کے معاملہ میں کسی بصیرت اور دُور اندیشی سے کام نہیں لیا بلکہ اس ضمن میں اس نے غفلت اور اغماض و چشم پوشی کا مظاہرہ کیا۔ وہ زبانی کلامی اسلام سے وابستگی کا دم تو بھرتی رہی، لیکن اس نے نہ تو اپنے اخلاق کو اسلامی تقاضوں اور مطالبات کے مطابق ڈھالا اور نہ مسلم عوام ہی کے طرز فکر وعمل کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اسد نے اس غفلت و کوتاہی پر مسلم لیگی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا:
How many of our leaders, and of our intelligentsia in general, have an Islamic polity in view when they appeal to the Muslims to close their ranks and to sacrifice their all, if necessary, for the achievement of Pakistan.? But what I blame some of our leaders for, is their apparent inability to rise to the spiritual greatness displayed by the Muslim masses in this decisive hour of their destiny, and deliberately to guide those masses towards the ideal which is fundamentally responsible for their present upheaval. To put it into simple words: our leaders do not seem to make a serious attempt to show that Islam is the paramount objective of their struggle. If the meaning of our struggle for Pakistan is truly to be found in the words la ilaha ill' Allah, our present behaviour must be a testimony of our coming nearer and nearer to this ideal, that is, of becomming better Muslims not only in our words but in our actions as well. It should be our leaders' duty to tell their followers that they must become better Muslims today in order to be worthy of Pakistan tomorrow.
جب ہمارے قائدین اور ہمارے اربابِ دانش، حصول پاکستان کی خاطر مسلمانوں سے اتحاد، اخوت، ایثار اور ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی اپیلیں کرتے ہیں، تو ان [میںسے کتنے ہیں، جن ]کے ذہن میں ’’ اسلامی ہیئتِ حاکمہ‘‘ کا نقشہ کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے منفی پہلو سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ یہ منفی پہلو نا ممکنات سے ہے، کہ غیر مسلم غلبے کے تحت مسلمانوں کا آزادانہ زندگی گزارنا۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ اکثر و پیشتر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور ہمارے اکثر سیاسی لیڈروں کے نزدیک اسلام محض غیر مسلموں سے فرقہ وارانہ جدوجہد میں ایک جنگی تدبیر ہے، بجائے اس کے کہ اسلام مقصود بالذات ہوتا۔ گویا اسلام ہماری منزلِ مقصود نہیں ، ایک منطقی استدلال ہے، ایک امنگ نہیں، ایک نعرہ ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہمارے اکثر رہنما نام نہاد مسلم قوم کے لیے زیادہ سیاسی قوت اور زیادہ معاشی مراعات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، بجائے اس کے کہ وہ نام نہاد مسلم قوم کو ایک سچی اسلام قوم بنانے کی کوشش کرتے؟
اسد کا کہنا یہ تھا کہ اگر قائدین تحریک پاکستان و اقعتاً اسلام چاہتے ہیں، اگر وہ واقعی اپنے دعوے میں سچے ہیں تو انھیں تحریک پاکستان کے دنوں ہی میں اپنے طرز فکر و عمل کو تبدیل کرنا ہوگا، اس کو اسلامی تعلیمات کے تابع بنانا ہوگا اور اسلام کے بارے میں نیم دلانہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔ انھیں اپنے معاشرتی رویے سے یہ ظاہر و ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پوری سنجیدگی سے اسلام کو ایک سچا اصول و نظریہ تسلیم کرتے ہیں اور محض اسے ایک سیاسی نعرہ نہیں سمجھتے۔اسد اپنے رہنماؤں سے یہ توقع رکھتے تھے کہ ان کا طرز عمل اس نظریے کے عین مطابق ہو جس کے تحفظ کا وہ اپنی زبان سے دعویٰ کرتے ہیں۔
اسد تحریکِ پاکستان کے دنوں میں ہی مستقبل کی اسلامی مملکت کے سیاسی و معاشی ، تعلیمی و معاشرتی اور قانونی و عدالتی نظام کی اسلامی اصول و تعلیمات کی اساس پر تعمیروتشکیل کے لیے ان شعبوں سے متعلق ایک مفصل دستور العمل کی ترتیب و تدوین کو از حد ضروری خیال کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے سیاسی قیادت کو اس سلسلہ میں مسلمان ماہرین قانون اور علما و دانش وروں پر مشتمل ایک بااختیار مجلس کے قیام کا مشورہ دیا۔ اسد کا کہنا تھا کہ اسلامی و نظریاتی قیادت کی ضرورت آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر مسلم لیگ کے اسلامی نصب العین اور اغراض و مقاصد کو ہماری سیاست پر عملاً اثر انداز ہوناہے تو اربابِ دانش کی ایک بااختیار مجلس مقرر کرنی چاہیے جو ان اصولوں کی توضیح و تشریح کا فریضہ انجام دے جس پر پاکستان کی بنیاد استوار کی جائے گی۔ مسلمان واضعین قانون اور اربابِ دانش کو فوراً ذہنی طور پر خود کو تیار کرلینا چاہیے کہ نئی اسلامی ریاست کا سیاسی نظام کیسا ہوگا؟ کس قسم کا معاشرہ استوار کرنا ہوگا اور قومی مقاصد کیا ہوں گے؟ کیا ہماری ریاست معاصر مسلم ریاستوں کی طرز کی ایک سیکولر قومی ریاست ہوگی یا پھر جدید تاریخ میں اس شاہراہ پر پہلا قدم ہوگا جو انسانِ کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت کو دکھائی تھی؟
محمد اسد نے قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں اسلامی نظریاتی ریاست کی تشکیل کا مُقدّمہ بڑی قوت و طاقت سے پیش کیا۔ انھوں نے بڑی درد مندی اور اخلاص سے اس وقت کی سیاسی قیادت اور مسلم عوام کو تحریک پاکستان کے اسلامی مقاصد اور نصب العین ذہن نشین کرانے کی کوشش کی۔ انھوں نے خاص طور پر سیاسی قیادت کو تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام سے اس نوزائیدہ مملکت کے سیاسی و دستوری، عدالتی و قانونی، معاشرتی اور تعلیمی و اقتصادی نظام کو قرآن حکیم اور تعلیمات نبویؐ پر استوار کرنے کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں کے ایفاء کی تذکیرویاد دہانی کرائی۔ انھوں [اسد] نے ستمبر ۱۹۴۷ء میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی اپنی ایک تقریر میں کہا:
Our struggle for Pakistan and our ultimate achievement of independence drew its force from the fundamental desire on the part of Muslims to translate their own world-view and their own way of life into terms of political reality.When we demanded a state in which the Muslim nation could freely develop its own traditions, we demanded no more than our just share of God's earth; we asked for no more than to be allowed to live in peace, to build a commonwealth in which the genius of Islam could freely unfold, conferring light and happiness not only on Muslims but also on all the people of other communities who would choose to share our living space with us.
تحریک پاکستان کے لیے ہماری جدوجہد اور بالآخر ہمارا آزادی حاصل کرلینا، اس سب کی قوت محرّکہ دراصل اسلامیانِ ہند کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے مذہب و عقیدے اور تصوّرِ حیات و کائنات کے مطابق ایک ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک ایسی ریاست کا مطالبہ کیا تھا کہ جس میں ملت اسلامیہ آزادانہ طور سے اپنی تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کو پروان چڑھاسکے۔ ہم نے ایک ایسی مملکت کا تقاضا کیا تھا جس میں اسلام کی عبقریت اور قوت و صلاحیت کامل طور پر آشکار ہوسکے۔
محمد اسد اپنی ایک دوسری تقریر میں فرماتے ہیں:
Our struggle for Pakistan was from its very beginning inspired by our faith in Islam. There is no denying the fact that the Muslims of this sub-continent had a definite ideological goal before themselves when they started on their trek towards an Islamic State. We did not desire a "national" state in the usual sense of the word...
جب ہم پاکستان کا مطالبہ کررہے تھے تو ہماری نگاہوں کے سامنے ایک بڑا واضح اور معین نصب العین تھا کہ ہم اسلامیانِ برّعظیم پاک وہند اپنے لیے ایک ایسا ملک حاصل کریں کہ جس میں ہم اپنے تصور کائنات اور اپنے اخلاقی تصورات و معیارات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ہم نے واضح و متعین طور پر ایک اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ اس کے سوا ہمارا کوئی اور مطمح نظر اور غایت نہ تھی۔
محمد اسد نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے تصوّر پاکستان کے بارے میں بعض ذہنوں میں موجود ابہام اور الجھاؤ کو دور کرنے پر بھی توجہ دی۔ انھوں نے سیکولر و مغرب زدہ افراد کے اس نقطۂ نظر کی تردید و مخالفت کی ہے کہ اقبال اور قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ محمد اسد کی رائے میں ان دونوں بانیانِ پاکستان نے اسلامیانِ ہند کے لیے آزاد مملکت کا مطالبہ اسلامی قومیت کی بنیاد پر کیا تھا۔ دونوں ایک ایسی مسلم ریاست کے قیام کے متمنی اور آرزومند تھے کہ جہاں قانونِ اسلامی یعنی شریعت کی فرمانروائی ہو، مسلمان اپنے دین و عقیدے اور تہذیبی و معاشرتی اقداروروایات کے مطابق اپنے اجتماعی ادارے تشکیل دے سکیں۔ وہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جہاں اسلامی نظریۂ حیات کا بول بالا ہو، اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا کامل طور سے اظہار ہو۔ دونوں ہی ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے متمنی تھے۔محمد اسد لکھتے ہیں:
Whenever Iqbal spoke of God's Kingdom on earth, and whenever the Quaid-i-Azam demanded a political structure in which the Muslim nation could freely develop its own institutions and live in accordance with the genius of the shari'ah, both meant essentially the same. The goal before them was the achievement of a state in which the ideology common to all of us, the ideology of Islam, would fully come into its own: a polity in which the Message of Muhammad (peace and blessings upon him)would be the foundation of our social life and the inspiring goal of all our future endeavours. The Poet-philosopher put greater stress on the spiritual aspect of our struggle, while the Quaid-i-Azam was mainly concerned with outlining its political aspect: but both were one in their intense desire to assure to the Muslims of India a future on Islamic lines.{ FR 740 }
جب بھی اقبال نے زمین پر خدائی مملکت کی بات کی، یا جب کبھی قائداعظم نے ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کا مطالبہ کیا، جس میں مسلم قوم آزادی سے اپنے ادارے قائم کرسکے، اور شرعی تصورات کے مطابق اپنی زندگی کو ترتیب دے سکے، تو ان دونوں کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ ان کے سامنے ہدف ایک ایسی ریاست کا حصول تھا، جس میں وہ نظریہ جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے، اسلام کا نظریہ، مکمل طور پر رُوبہ عمل آسکے: ایک ایسا سیاسی نظام جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہماری معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے اور ہم اپنے مستقبل کے اقدامات کے لیے اسی سے جذبہ حاصل کرسکیں۔ فلسفی شاعر [اقبال] نے ہماری جدوجہد کے روحانی پہلو پر بہت زیادہ زور دیا، جب کہ قائداعظم کی زیادہ تر توجہ اس کی سیاسی جہت کی خاکہ سازی کی طرف رہی۔ مگر دونوں ہندی مسلمانوں کے لیے اسلامی خطوط پر مبنی مستقبل کا حصول یقینی بنانے کے معاملے میں ایک تھے۔
محمد اسد کا یہ بیان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان کے بارے میں دانستہ طور پر پیدا کیے جانے والے ابہام کو دور کردیتا ہے۔ وہ(اسد) اگر علامہ محمد اقبال کے مزاج شناس تھے، تو قائداعظم محمد علی جناح کے افکاروخیالات اور ان کے تقاریر و بیانات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ ان کے خیال میں قائداعظم پاکستان کو بہرحال ایک اسلامی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے:
ایک ایسی ریاست جو ہمارے نظریۂ حیات (اسلام) سے ہم آہنگ ہو، جس کا دستور اور نظام حکومت (Polity) اسلام کے اصول و تعلیمات پر استوار کیا گیا ہو، جو اجتماعی زندگی کی تعمیروتشکیل میں قرآن حکیم سے رہنمائی حاصل کرتی ہو۔
محمد اسد کو اس امر کا بھی بخوبی احساس ہے کہ عصر جدید میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام کوئی آسان کام نہیں۔ اس دور میں، جب کہ چہار سُو نسلی و لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر وطنیت و قومیت کا تصور سکۂ رائج الوقت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ سیکولر قومی ریاستوں کا مشرق و مغرب میں دور دورہ ہے۔ بہت سے لوگوں خصوصاً مغرب کے افکاروخیالات، اس کی تہذیب و معاشرت اور سیاسی نظام سے حد درجہ مرعوب و متاثر جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلامی نظریاتی ریاست کا تصوّر بڑا عجیب و غریب سا لگتا ہے۔ وہ اسے عصر جدید کے تقاضوں اور اس کے میلانات و رجحانات کے بڑا ہی ناموافق خیال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس نظریے کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔
بایں ہمہ، اسد اسلامی ریاست کے قیام کے عزم پر مضبوطی سے قائم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موجودہ زمانے میں نظریاتی اسلامی ریاست کا نظریہ کچھ بہت مقبول نہیں، بڑے یقین سے یہ دعوت پیش کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کی یہ شان نہیں کہ باقی دنیا کی طرح فتنہ و فساد اور سیکولر قومی ریاست کے قیام کے راستے پر چلے۔ ان کے نزدیک ہم مسلمان ایک نظریاتی ملت ہیں، ایک ایسی ملت جو زندگی کے ایک قطعی نصب العین اور اخلاقی قدروں کے ایک قطعی پیمانے پر متفق ہو۔ لہٰذا، ہمارا کام یہ ہے کہ اسلام کی ازلی و ابدی تعلیمات پر لبّیک کہتے ہوئے ایک نظریاتی ریاست کی تأسیس کا بیڑا اٹھائیں۔
محمد اسد نے پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے مقدّمے کو پیش کرتے ہوئے اس کے جواز کے سلسلے میں تین امور کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا ہے:
۱- اسلامی ریاست کا قیام سراسر ایک دینی و شرعی ضرورت ہے جس کو پورا کیے بغیر مسلمان سچی اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ بدیں وجہ اسلامیانِ پاکستان کا یہ شرعی فریضہ ہے کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام و تشکیل کا بیڑا اٹھائیں۔ محمداسد نے مجلہ عرفات کے شمارہ بابت مارچ ۱۹۴۸ء میں لکھا تھا:
Our Struggle for the attainment of Pakistan has been fought on an ideological platform. We have maintained, and we do maintain today, that we Muslims are a not nation by virtue of our adherence to Islam. To us, religion is not merely a set of beliefs and moral rules, but a code of practical behaviour as well. Contrary to almost all other religions. Islam does not context itself with influencing the life of the spirit alone, but aims also ate shaping all the physical aspects of our life in accordance with the Islamic World-view. In the grand scheme propounded to us in the Qur'an and in the Life-example of the Holy Prophet, all the various aspects of human existence - moral and physical, spiritual and intellectual, individual and communal - have been taken into consideration as parts of the indivisible whole which we call "human life".It follows, therefore, that we cannot live a truly Islamic life by merely holding Islamic beliefs, We must do far more than that. If Islam is not to remain an empty word, we must also co-ordiante our outward behaviour, individually and socially, with the beliefs we profess to hold.{ FR 784 }
ہم نے قیام پاکستان کے لیے جو جدوجہد کی تھی وہ اسلامی مطمح نظر کے ماتحت کی۔ ہم نے کہا تھا اور آج بھی کہتے ہیں کہ مسلمان ایک ایسی ملت ہیں جس کا دین اسلام ہے۔ ہمارے نزدیک مذہب کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ محض ایک مجموعۂ عقائد اور ضابطۂ اخلاق ہے۔ وہ محض اس بات پر راضی نہیںہوجاتا کہ اپنا تعلق صرف عالم روحانیات سے رکھے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہماری زندگی کے مادی پہلو بھی اس کے نظریۂ حیات کے مطابق ڈھل جائیں۔قرآن حکیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں زندگی کا جو زبردست نظام ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ انسانی زندگی کے جملہ مظاہر اخلاقی اور مادی، روحانی و ذہنی اور انفرادی و اجتماعی کا جامع ہے۔ ہم (مسلمان) محض اسلامی عقائد کے اقرار سے اسلامی زندگی نہیں بسر کرسکتے بلکہ ہمیں اپنے اخلاق وکردار اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو ہر لحاظ سے اسلام کے نظام حیات سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔ اسلام کا یہی وہ خاص پہلو ہے جس کی بنیاد پر ہم نے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا، کیونکہ صرف ایک آزاد ریاست ہی میں ہم حکومت و سیاست، قانون اور اجتماعی نظم و نسق کے سارے سازوسامان کے ساتھ اس نظام کی عملاً تعمیل کرسکتے ہیں، جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ہے وہ نصب العین جس کی خاطر ہم نے ایک آزاد مملکت کے حصول کی جدوجہد کی۔
۲- محمداسد کی رائے یہ تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظریاتی ریاست کا قیام احیائے اسلام کے نقطۂ نگاہ سے بھی بے حد ضروری ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پرجب کہ بہت سے مسلم ممالک مغرب کی نو آبادیاتی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے، اور کچھ آزاد بھی ہورہے تھے اور انھیں معاشرہ و ریاست کی تشکیل و تعمیر نو کا کڑا چیلنج درپیش تھا۔ محمد اسد اس خیال کے محرک و داعی بن کر سامنے آئے کہ پاکستان میں حقیقی اسلامی ریاست کا قیام ان ممالک میں اسلامی ریاستوں کے قیام کے لیے ایک زبردست جذبۂ محرکہ کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وہ اسلامی ملکوں میں احیائے اسلام کی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اسد کی رائے میں پاکستان کی حقیقی اسلامی ریاست مسلم ممالک کے مابین اتحاد و یک جہتی کا بھی ایک بڑا مؤثر ذریعہ بن سکتی ہے اور اتحاد عالم اسلامی کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
اسد کا خیال تھا کہ’’ اگر ہم پاکستان کے لوگ اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں کہ ہماری ریاست سرتا سر اسلامی ہو اور اگر ہم اس مایوس اور نااُمید دنیا کو سچ مچ بتاسکیں کہ بنی نوع انسان کے تمام سیاسی و اجتماعی امراض کا مداوا، اسلام اور صرف اسلام کے پاس ہے تو ساری دنیا کے مسلمان مجبور ہوجائیں گے کہ جلد یا بہ دیر ہمارے نقش قدم پر چلیں‘‘۔
اسد گویا ’’روشن خیال دانش وروں‘‘ کے اس نقطۂ نظر کو معقول خیال نہیں کرتے کہ ’’دین اسلام کی بنیاد پر کسی ریاست کے لیے مطالبہ، اسلام کے بین الاقوامی اور عالمگیریت کے پہلو سے بآسانی اور پوری طرح سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا‘‘۔
۳- جناب اسد نے پرزور انداز میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا کہ پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام خود اس ملک کے تحفظ و بقا اور اس کی سالمیت و یکجہتی کے لیے بھی از حد ضروری ہے، کیونکہ پاکستان کی مسلم آبادی مختلف نسلی و لسانی قومیتوں کا مجموعہ ہے، جنھیں صرف اسلام سے شعوری اور غیر متزلزل وابستگی ہی یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ صرف اور صرف اسلام ہی ان کے مابین اتحاد ویگانگت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
۴- پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی جن گوناں گوں اقتصادی و مالی مشکلات کا سامنا تھا اور عوام کی بھاری اکثریت جس تنگدستی و افلاس سے دوچار تھی، وہ سب حالات ایسے تھے کہ اس نوزائیدہ ملک کے کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب میں بہہ جانے کے قوی خدشات و خطرات موجود تھے۔ دریں صورت محمد اسد پاکستان میں اسلامی نظریۂ حیات کی ترویج و استحکام اور اسلام کے نظام سیاست و حکومت اور اقتصادی و سماجی عدل کے قیام کو ان مزعومہ خطرات کے سدّباب کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں کمیونزم، کہ جس نے ایک بڑے طاقت ور نظریۂ حیات (آئیڈیالوجی) کا روپ اختیار کرلیا تھا، کا مقابلہ ایک زیادہ پُر کشش و جاندار نظریۂ حیات، یعنی اسلام ہی کرسکتا تھا۔ (جاری)