لندن میں قائم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ (IA) انسانی حقوق کی کوئی واحد عالمی انجمن نہیں ہے کہ جس نے اسرائیل کو ’نسل پرست ریاست‘ قرار دیا ہو۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے دوسرے گروپ بھی صہیونی ریاست کے خلاف ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشل اپنی تازہ رپورٹ کے بعد انسانی حقوق کی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ سمیت دو اسرائیلی انجمنوں (بتسلیم اور یش دین) کی ہم نوا بن گئی ہے، جو ماضی میں اسرائیل کے نسل پرست اقدامات کا پردہ چاک کر چکی ہیں۔
ایمنسٹی کی اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسیوں اور ضابطوں کے ذریعے نسل پرستی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اسی طرح فلسطینی شہریوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر غیر نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔
اسرائیل کے دفتر خارجہ نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ’جھوٹ، تضادات کا مجموعہ‘ قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بے بنیاد الزامات کے ذریعے ادارے کی اسرائیل سے نفرت واضح ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’یہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے قیام کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور اس رپورٹ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، اس کا مقصد اسرائیل کو بدنام کرنا اور یہود مخالف جذبات کو اُبھارنا ہے۔
نسل پرست صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ’بیانیے کی جنگ‘ جیسی اصطلاحات کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اس کے حواری ’پروپیگنڈا کی جنگ‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ طرزِعمل ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے پہلوتہی برت رہا ہے۔
اسرائیل میں نسل پرستی کے مظاہر تو پہلے دن سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد بخوبی جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے ان کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ۲۰ ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے ۹۵ فی صد مقامی باسیوں کے حقوق کی بُری طرح پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین نے صہیونی منصوبے پر واضح اور دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریز کیا کہ شاید مستقبل بعید میں کوئی نہ کوئی، کسی دن تل ابیب کی حکومت کو ’نسل پرستی‘ کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔
برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے، جو حقائق کے بجائے عقیدے کو بنیاد مانتے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انھوں نے ۲۰۱۷ء میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا دو ریاستی حل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔پھر فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شاطرانہ بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی، ایسے میں ان کے استصواب رائے کے حق کی بات چہ معنی دارد؟
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات رکھتے تھے۔ واشنگٹن میں ۲۰۱۴ء کے دوران ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں، تو اسرائیل کے نسل پرست ریاست بننے کے خطرات دوچند ہو جائیں گے‘۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈریان کے بقول: ’نسل پرستی کا خطرہ بہت زیادہ ہے، اور اس سنگین صورتِ حال کے جوں کا توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے‘۔
یہ دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ’سٹیٹس کو‘ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی نسل پرست جمہوریت سے متعلق ان کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں، جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق جنرل سکیرٹری بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے متعلق اعتبار بھی کچے دھاگے سے بندھا تھا۔ گذشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا، ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں‘۔ بان کی مون کا تبصرہ اسرائیل کے نسل پرست ریاست ہونے سے متعلق اقوام متحدہ کے خیالات سے آگاہی کا نقیب ثابت ہوا۔ اگرچہ عالمی ادارے کے موجودہ جنرل سیکرٹری انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی ۲۰۱۷ء میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔ یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔
اب اسرائیلی رہنما اس بات پر متفکر ہیں کہ مبادا یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار نہ ٹھیرا دیا جائے۔ صہیونی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرے کو بھی ظاہری طور پر سجایا گیا ہے۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں‘، تاہم صہیونی ریاست ’پھسلتی ڈھلوان‘ پر اسی سمت سفر کر رہی ہے۔اسی طرح سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی جدوجہد‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب یہ جنگ ہار بھی سکتا ہے‘۔
بزرگ اسرائیلی رہنما کے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا، اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کا خاتمہ نوشتۂ دیوار ہوگا‘۔
دوسرے اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندۂ جاوید حقیقت ہے۔ سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں کہ’ اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے‘۔ سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘
اسرائیل بڑی مدت سے امریکی یونی ورسٹیوں میں اسرائیل کی حمایت کے لیے ’ہاسبارہ‘ تنظیم کے ذریعے کوشاں ہے۔ اس ضمن میں اطلاعاتی پروپیگنڈے سے اپنا ’روشن چہرہ‘ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ تکنیک‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے نقصان پہنچایا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اس کا نقطۂ عروج بننے جا رہی ہے۔ ’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ کے عنوان سے ۲۰۰۶ء میں سامنے آنے والی جمی کارٹر کی کتاب اسرائیل کی نسل پرستانہ روش کے بارے میں بحث کا نقطۂ آغاز بنی۔
کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق انھیں یہود مخالف خیالات کا پرچارک قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا، جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اَٹا ہوا تھا۔
دو عشرے گزرنے کے بعد کئی امریکی ادارے، اسرائیل کے بارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل ناجائز قبضے کے بوجھ تلے دبی اپنی جمہوریت کو دنیا کے سامنے مہنگے داموں مزید نہیں بیچ سکتا‘۔
ایمنسٹی کی حالیہ رپورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ تل ابیب اس وقت تک نسل پرست ریاست ہی قرار پائے گا، جب تک وہ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مساوی حقوق دینے پر تیار نہیں ہوتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل موجودہ رپورٹ جاری کرنے کے بعد ان اداروں کی فہرست میں شامل ہو گئی جو اسرائیل کے متعصبانہ رویہ کی کھلے عام مذمت کرتے ہیں اور اقوام عالم کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ’’بہت ہوگیا، اسرائیل کی جواب دہی اب نہیں تو کب؟ ‘‘
۲۷۸ صفحات پر مشتمل یہ مدلّل رپورٹ امریکی سینیٹ ممبران کی تنقید کی زد میں آئی ہے ۔ امریکی قانون سازوں کی اسرائیل نوازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف فلسطینی نژاد امریکی بزرگ اسدعمر کی اسرائیلی فوج کے تشدد کے نتیجے میں موت واقع ہوجاتی ہے تو یہ سب خاموش ۔ دوسری جانب جب انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل پر انگلی اٹھانے کی جسارت کرتے ہیں تو اُلٹا ان اداروں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ پر برہم مقتدر لوگوں میں سر فہرست نام امریکی امور خارجہ کی سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رابرٹ مینی ڈیز کے بارے میں شنید ہے کہ اسرائیل گذشتہ ۱۶ برس سے ان کی انتخابی مہم کے لیے ہزاروں ڈالر فنڈنگ کر رہا ہے ۔ جیسے ہی یہ رپورٹ سامنے آئی، تو رابرٹ مینی ڈیز نے فی الفور اس تنظیم کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور واضح طور پر اس رپورٹ کو غلط فہمی اور گمراہ کن حقائق پر مبنی قرار دیا۔
بلاشبہہ اسد عمر نامی بزرگ شہری کی موت کی ذمہ دار ان کی بےجا حراست تھی۔ اسرائیلی فوجیوں نے ان کو مغربی کنارے کے ایک قصبے سے شبہہ کی بنیاد پر گرفتار کیا، جب وہ اپنی کار پر جا رہے تھے۔ تشدد کی وجہ سے اسی روز ان کی موت واقع ہوگئی۔ روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق اسرائیلی فوجی سربراہ نے اس حادثے پر اظہار افسوس کیا مگر معافی مانگنے سے گریز کیا ۔
اس سارے معاملے کو دیکھا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ مذکورہ رپورٹ واقعی اسرائیل کے متعصبانہ رویے، غاصبانہ نظام حکومت اور انسانیت کے خلاف جرائم پر ایک مؤثر اور چشم کشا دستاویز ہے۔ تاہم، اس پر امریکی اربابِ اختیار کی خاموشی لمحۂ فکریہ ہے ۔