یہ بات خوب سمجھ لیجیے کہ عقیدے،اور خصوصاً عقیدۂ توحید کا معاملہ بڑا ہی نازک ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر کفروایمان اور فلاح و خسران کا مدار ہے۔ اس معاملے میں یہ طرزِعمل صحیح نہیں ہے کہ مختلف احتمالات رکھنے والی آیات اور احادیث میں سے ایک مطلب نچوڑ کر کوئی عقیدہ بنالیا جائے اور اسے داخل ایمانیات کردیا جائے۔ عقیدہ تو صاف اور صریح محکمات سے ماخوذ ہونا چاہیے، جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ایک بات ماننے کی دعوت دی ہو، اور یہ ثابت ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی تبلیغ فرماتے تھے، اور صحابہ کرام ؓ و تابعینؒ و تبع تابعین ؒاور ائمہ مجتہدینؒ اُس پر اعتقاد رکھتے تھے۔کیا کوئی شخص بتا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب والشہادۃ ہونے یا جمیع ماکان وما یکون کے عالم ہونے کا عقیدہ یہ نوعیت رکھتا ہے؟
یہ عقیدہ اگر واقعی اسلامی عقائد میں شامل ہوتاتو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اس کی تصریح فرماتا کہ میرے رسول ؐ کو حاضرو ناظر تسلیم کرو۔ حضورؐ خود یہ دعویٰ فرماتے اور اسے ماننے کی دعوت دیتے کہ میں ہرجگہ موجود ہوں، اور قیامت تک حاضرو ناظر رہوں گا۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ میں یہ عقیدہ عام طور پر شائع ہوتا اور عقائد اسلام کی کتابوں میں اسے ثبت کیا جاتا۔
میں ان مسائل میں [ایسے] خیالات کو تاویل کی غلطی سمجھتا ہوں، اور اسے غلط کہنے میں تامل نہیں کرتا۔مگر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ انھیں ’مشرک‘ کہا جائے اور مشرکینِ عرب سے تشبیہہ دی جائے۔ میں ان کے بارے میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کے قائل ہوسکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ توحید ہی کو اصل دین مانتے ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لیے انھیں ’مشرک‘ کہنا زیادتی ہے۔البتہ انھوں نے بعض آیات اور احادیث کی تاویل کرنے میں سخت غلطی کی ہے اور میں یہی اُمیدرکھتا ہوں کہ اگر ضد دلانے والی باتیں نہ کی جائیں بلکہ معقول طریقے سے دلیل کے ساتھ سمجھایا جائےتو وہ جان بوجھ کر کسی گمراہی پر اصرار نہ کریں گے۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۲ء، ج۵۷، عدد۶، ص ۵۸-۶۰)