دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۳۷-ڈی کہتی ہے کہ ’’ریاست سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گی‘‘۔ سبھی اہلِ دانش جانتے ہیں کہ جہاںانصاف نہیں ہوگا وہاں ظلم ہوگا۔ چوتھے خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے کہا ہے کہ ’’ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔
ملکی عدالتوں میں فیصلوں کے منتظر مقدمات انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ اس وجہ سے غریب اور مظلوم طبقہ، بالخصوص خواتین کے ساتھ شدید ناانصافی ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں کُل ججوں کی تعداد ۳ہزار ۶۷، جب کہ ایک ہزار ۴۸ ججوں کی آسامیاں خالی ہیں، یعنی جتنی تعداد میں جج عدالتوں میں ہونے چاہییں تھے، ان میں ایک ہزار ۴۸ جج کم ہیں۔
اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں زیرالتواء یا زیرسماعت مقدمات کی تعداد ۲۱ لاکھ ہے۔سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد۵۱ ہزار ایک سو ۳۸ ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ۱۶ہزار ۳سو۷۴ اور اسلام آباد ڈسٹرکٹ کورٹس میں ۵۱ہزار ۸ سو ۴۹ مقدمات زیرالتواء ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ایک سروے کروایا تھا، جس میں خود سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بہت سےLitigants (سائلین اور درخواست گزاران)ایسے ہیں، جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا۔ اس سروے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جائیداد کے حوالے سے دائر کیے گئے مقدمات دائر ہونے سے لے کر فیصلہ ہونے تک ۳۰ سال لیتے ہیں۔ کیا یہ عمل انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں؟ انصاف کی فراہمی میں تاخیر لوگوں کو انصاف سے محروم رکھنا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک انصاف نہیں ہوگا اس وقت تک ظلم کا دور دورہ رہے گا۔
۲۱لاکھ زیرالتواء مقدمات کمزور اور پسے ہوئے طبقات، بالخصوص خواتین کے ساتھ جائیداد کے معاملات میں شدید ناانصافی کا پتا دیتے ہیں۔ مقدمات کے اس التواء کا سب سے زیادہ فائدہ ایلیٹ کلاس، اشرافیہ اور مافیا کو ہورہا ہے اور غریب عوام اس کے نتیجے میں پِس کر رہ جاتے ہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ زیرالتواء مقدمات کی یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججوں کو جو مراعات (privileges ) حاصل ہیں ان کے حوالے سے پاکستان دُنیا کے ۱۸۰ ممالک میں سے پہلے دس ممالک میں آتا ہے، مگر انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ ۱۲۴ویں نمبر پر آتی ہے، جو حیرت اور افسوس کی بات ہے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تنخواہیں بہت بلند ہیں۔ لیکن انصاف سُست رفتار اور کم یاب ہے۔ مراعات، سہولیات، تنخواہیں،پنشن، پروٹوکول تو خوب ہیں، لیکن۲۱ لاکھ سائلین عدالتوں اور کچہریوں میں دربدر ہیں، ان کو انصاف نہیں مل رہا۔ اعلیٰ عدالتوں تک رسائی کے لیے سونا چاہیے۔ جس کے پاس سونے کی چابی نہ ہو، اس کے لیے حصولِ انصاف کے لیے عدالت کے ایوان تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس طرح انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب پاکستانی عوام انصاف سے محروم ہیں۔
جج صاحبان بعض اوقات مقدمات کی سماعت کے دوران فرماتے ہیں کہ عدل اور قانون کی نگاہ میں کوئی ’مقدس گائے‘ نہیں ہے۔ لیکن ہم جج صاحبان سے عرض کرتے ہیں جب اتنی بڑی تعداد میں مقدمات زیرالتواء ہیں، تو عدلیہ کی اس کارکردگی کے ساتھ کیا ہماری اعلیٰ عدلیہ اور جج صاحبان، توہین عدالت کی آڑ میں کہیں خود ’مقدس گائے‘ نہیں بنے ہوئے ہیں؟
اگر ان کا کوئی خودکار احتسابی نظام ہے اور اگر جائزہ اور کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود ہے تو پھر ۲۱لاکھ مقدمات پاکستان کی عدالتوں میںزیرالتوا ء کیوں ہیں؟ یہ پہلو توجہ چاہتا ہے۔
جج صاحبان سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کسی نہ کسی انداز سے سیاست میں ملوث ہوتے ہیں، آئے دن سیاسی رائے دیتے ہیں اور بہت سے مسائل پر سوموٹو اقدام کرتے ہیں اور مختلف چیزوں کی طرف جاتے ہیں جو آپ کا کام ہی نہیں ہے۔ لیکن جو آپ کا بنیادی کام ہے، پاکستان کے عوام کو انصاف فراہم کرنا، اس کو ٹھیک کرنے کی طرف کیوں توجہ نہیں ہے؟ روز بروز پاکستان میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ کون سا مافیا ہے جو عدالتوں نے پکڑا ہے؟ پانامہ پیپر، پینڈورا پیپر، چینی مافیا، پٹرول مافیا، گندم مافیا، کون سا مافیا ہے جس کو ہماری عدالتوں نے بے نقاب کیا ہے اور جن کا احتساب کیا ہے اورعوام پر جو ظلم ہورہا ہے ، اس کا سدباب کیا ہے؟ یہ بہت بڑا ایشو ہے۔
اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ تجاویز بھی پیش ہیں:
۱- عدلیہ کی تقریباً ایک ہزار ۴۸ خالی آسامیوں پر ججوں کا فوری طور پر تقرر کیا جائے۔
۲- عدلیہ میں سیکنڈ شفٹ شروع کی جائےاور متحرک عدالتی نظام قائم کیا جائے۔
۳- وڈیو لنک اور جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے لوگوں کو انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
۴- قانونی اُمور میں ججوں کی تربیت کی جائے۔ عدلیہ کی طرف سے اکثر صورتوں میں زبان و بیان اور ابہام زدہ اسلوب میں کمزور فیصلے آتے ہیں۔ جس کا ایک سبب قانونی اُمور میں ججوں کی پوری طرح گرفت نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ وہ انگریزی میں فیصلے لکھنے کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ حقیقی مشاہدہ اور درست نقطۂ نظر لکھنے میں لفظوں کے جنگل میں گم ہوجاتے ہیں۔
۵- اُمورِ دستور کی الگ عدالت قائم کی جائے،اور ہرصوبے میں الگ سپریم کورٹ قائم کی جائے۔
۶- بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کی جائے، اور پیشیوں سے فرار اور التواء کا رویہ اپنانے والے وکلا کے بارے میں کوئی ضابطہ مقرر کیا جائے، تاکہ مقدمات طوالت کا شکار نہ ہوں اور انصاف کی جلد فراہمی ممکن ہوسکے۔
لوگ بھوکے رہ سکتے ہیں، اپنے دیگر حقوق پر بھی سمجھوتا کرسکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیرکوئی نہیں رہ سکتا۔ انصاف نہیں ہوگا تو بدامنی ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو اضطراب ہوگا۔انصاف نہیں ہوگا تو طبقاتی تقسیم ہوگی۔ انصاف نہیں ہوگا تو حکمران اشرافی طبقے استحصال کریں گے اور استحصالی طبقے عوام کا خون چوسیں گے۔ اسی لیے انصاف کی فراہمی بنیادی چیز ہے۔ اس کے لیے ہمیں اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے عوام کو کم از کم انصاف تو فراہم کرسکیں۔