اس فلسفے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ دنیا میں قومیں اور معاشرے جس بنیاد پر زندہ رہتے ہیں وہ بنیاد انصاف ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل [م:۱۹۶۵ء]سے جنگی تباہ کاریوں اور معاشی بدحالی کا شکوہ کیا گیا تو اُس نے پلٹ کر سوال کیا: ’’کیا برطانوی عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں؟‘‘ جب جواب ’ہاں‘ میں ملا، تو اُس نے کہا: ’’پھر کچھ بھی غلط نہیں۔ ہماری قوم اور حکومت ان مشکلات سے بھی نکل آئیں گی‘‘۔
پاکستان آج کل جن مشکلات کا شکار ہے اس کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تاریخی حقائق پیش نظر رہنے چاہییں:
تحریک پاکستان کے قائدین نے واضح طور پر مسلمانان پاک و ہند کو یقین دلایا تھا کہ مسلمانوں کا علیحدہ وطن نہ صرف ایک خطۂ زمین ہوگا بلکہ اس میں اللہ کی مرضی کے مطابق حکومت کا سارا نظام چلایا جائے گا اور کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف رُوبہ عمل نہیں لایا جائے گا۔
اللہ نے پاکستان کی نعمت سے سرفراز فرمایا تو اللہ اور اُس کی مخلوق سے کیے گئے وعدوں پر عمل کرنے کا مرحلہ آیا۔بہت سے مصائب کا سامنا کرنے اور دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد ۱۹۷۳ء میں متفقہ طور پر آئین پاس ہوگیا۔ چار ہی سال بعد آئین میں کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ زور پکڑ گیا اور۱۹۷۷ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے نتیجے میں جنرل محمد ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لا نافذ کر دیا اور مذہبی، سیاسی جماعتوں اور عوام کے مطالبے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ اسلامی اقدامات اُٹھائے گئے، جن میں سے ’نفاذِ حدود قوانین‘ اور ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا قیام قابلِ ذکر ہے۔
قرار دادِ مقاصد جو کہ دستور پاکستان کا فعال اور مؤثر حصہ (Operative Part) بن چکی ہے، واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکمِ مُطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ لہٰذا، اس قرارداد کے مطابق دستور کی رو سے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کے اسلامی اصولوں کی پوری اتباع کی جائے گی۔
قرار دیا گیا کہ دستورِ پاکستان کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مُقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں اور نظام عدل کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے ’وفاقی شرعی عدالت‘ کا قیام عمل میں آیا۔
وفاقی شرعی عدالت: ساخت اور دائرۂ اختیارات
۲۶ مئی ۱۹۸۰ء کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعدازاں اسے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی نے دستورِ پاکستان کے حصہ ہفتم باب سوم (الف) کے طور پر اس کی باقاعدہ توثیق کر دی۔
دستور کے مطابق یہ عدالت قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) سمیت آٹھ مسلم ججوں پر مشتمل ہے، جن میں پانچ جج ایسے ہوتے ہیں جو ہائی کورٹ کے جج بننے کے اہل ہوں یا جج رہ چکے ہوں اور تین جج جید علمائے کرام میں سے لیے جاتے ہیں۔
l اصل اختیارات : دستور کے مطابق عدالت خود اپنی تحریک پر (Suo-Moto Jurisdiction) یا پاکستان کے کسی شہری، وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت کی درخواست پر اس سوال کا جائزہ لے کر فیصلہ کرسکے گی کہ آیا کوئی قانون یا اُس کا کوئی حکم ان اسلامی احکام کے منافی تو نہیں جن کا قرآنِ حکیم اور رسول کریمؐ کی سنت میں تعین کیا گیا ہے؟ اگر عدالت کسی قانون کو اسلامی احکام کے منافی قرار دے گی تو وہ اپنا فیصلہ دلائل کے ساتھ صدرِ مملکت، گورنر اور متعلقہ حکام کو بھیجے گی اور ساتھ ہی یہ تعین بھی کرے گی کہ اس کا فیصلہ کس تاریخ سے مؤثر ہوگا۔
اختیارِ اپیل: عدالت حدود کے نفاذ سے متعلق قوانین کے تحت کسی فوجداری عدالت کی طرف سے فیصلہ شدہ مقدمے کا ازخود جائزہ لے سکتی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی سن سکتی ہے۔
اختیارِ نظرثانی:عدالت اپنے دیئے گئے فیصلے یا صادر کردہ حکم پر نظرثانی کا اختیار رکھتی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں اپیل: وفاقی شرعی عدالت کے کسی فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں متاثرہ فریق اپیل دائر کرسکتا ہے۔ اس اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنبچ کرے گا جس کی ساخت حسبِ ذیل ہوگی:
عدالت عظمیٰ کے تین سینئر مسلمان جج، دو جج علمائے کرام میں سے عارضی بنیادوں (Adhoc Basis) پر لیے جائیں گے اور جب بھی یہ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی تو انھیں بلا لیا جائے گا، ان کی حیثیت مستقل جج کی نہیں ہوگی۔ پانچ ججوں پر مشتمل اس بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کا سینئر جج ہوگا۔
قابلِ غور نکتہ: یہ نکتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ’’اگر کسی فیصلے کے خلاف شریعت اپیلیٹ بینچ میں اپیل دائر ہو جائے تو وہ فیصلہ معطل تصور ہوگا اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک وہ قابلِ عمل نہیں ہوگا اور اس اپیل کے فیصلہ کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا، اس کے نتیجے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے ایک عضوِ معطل کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآن و سنت کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں پر نظر ڈالی جائے تو اِس نکتے کی اہمیت مزید واضح ہو جائے گی۔
عدالتِ عظمیٰ میں زیرالتواء اپیلوں کی تفصیل
بیگم رشیدہ پٹیل (بنام وفاقِ پاکستان)نے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں ۱۹۸۹ء میں دائر کیں، جو گذشتہ ۳۱ سال سے زیرسماعت ہیں۔
بیگم رشیدہ پٹیل نے شریعت پٹیشن (۱۵-۱۱/۱۹۸۹ء)کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت میں درج ذیل نکات اٹھائے تھے:
وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا کہ ’’نفاذِ حد کے لیے چار مرد گواہوں کی شرط لازم ہے، البتہ اگر مرد گواہ موجود نہ ہوں تو عورتوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے مگر اس کے نتیجے میں حد نافذ نہیں ہوگی بلکہ تعزیری سزا دی جائے گی‘‘۔
شریعت پٹیشن نمبر۱۹۸۵ (۱۰، ۱۳) مسترد کر دی گئیں،جب کہ شریعت پٹیشن نمبر ۱۹۸۳ (۱۴)، ۱۹۸۵ (۲)کو جزوی طور پر قبول کیا گیا۔ فیصلہPLD 1989 FSC 95میں شائع ہوا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان اور صوبوں نے سپریم کورٹ میں شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل ۱۹۹۲ (۶۱، ۶۴) دائر کر دی۔ یہ اپیل ۱۹۹۲سے اب تک زیرالتواہے۔ اس اپیل کا پس منظر یہ ہے: درخواست گزار اشفاق احمد نے بذریعہ شریعت پٹیشن نمبر۵ (۱/۱۹۸۵) وفاقی شرعی عدالت میں ’کنٹونمنٹ رینٹ رسٹرکشن ایکٹ ۱۹۶۳ ‘ کو چیلنج کیا تھا، جس میں عمارت کے مالک اور کرایہ دار کے حقوق کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’’ہر ذاتی جائیداد کے مالک کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی اور یہ مالک اور کرایہ دار کی معاہدہ کرایہ داری کی شرائط کے مطابق ہی درست تصور ہوگا‘‘۔ اس شریعت درخواست میں عدالت نے درج ذیل قوانین کا بھی جائزہ لیا: ’پنجاب اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹‘، ’ویسٹ پاکستان اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹ ‘جو سرحد میں بھی نافذ ہے، ’بلوچستان اربن رینٹ رسٹرکشن آرڈی ننس ۱۹۵۹‘،’ سندھ،رینٹڈ پرمسز آرڈی ننس ۱۹۷۹‘۔
شریعت درخواست ۵ (۱/۱۹۸۵) مسترد کر دی گئی، تاہم ۱۹۹۰ (۹) اور ۱۹۹۰ (۷۱) کے حق میں فیصلہ دیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہPLD 1992, FSC 286 میں رپورٹ ہوا ہے۔
گورنمنٹ آف پاکستان وزارت قانون نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل (حکومت پاکستان بنام ملک عثمان، حبیب وہاب الخیری وغیرہ ۱۹۸۹، ۱۹-۲۴) دائر کر دی جوکہ گذشتہ ۳۲برسوں سے زیرسماعت ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ مختلف درخواست گزاروں نے ’محمد صلاح الدین بنام حکومت پاکستان‘ اور چار دیگر درخواست گزاروں نے درخواستوں میں درج ذیل قوانین کو خلافِ اسلام ہونے کی بنیاد پر چیلنج کیا :
پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ ۱۹۷۶ء کی چار دفعات mممبران پارلیمنٹ کی کوالیفکیشن سے متعلق دفعات۱۴، ۲۵ آف نیشنل اینڈ پراونشل اسمبلیز الیکشن ایکٹ ۱۹۷۷ الیکٹورل رول ایکٹ ۱۹۷۴کی دفعات ۱۶ اور ۲۶ عوامی نمایندگی ایکٹ آف ۱۹۷۶ کی دفعہ ۹۹
وفاقی شرعی عدالت نے ان میں سے کچھ دفعات کو کلی یا جزوی طور پر خلاف اسلام قرار دیا۔ مکمل فیصلہPLD 1990, FSC 1 پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اپیل ’حکومت سندھ بنام نصرت بیگ مرزا‘ (۷۹/۱۹۹۲) پچھلے ۲۹برس سے سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔
نصرت بیگ مرزا نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی کہ سندھ رولز ۱۹۷۴ اور سول سرونٹس ایکٹ ۱۹۷۳ء میں جو کوٹہ سسٹم کی گنجایش رکھی گئی ہے، اسے قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں غیراسلامی قرار دیا جائے۔ ۲۳؍ اپریل ۱۹۹۲ء کو عدالت نے یہ اپیل منظور کرلی۔ فیصلہPLD 1992, FSC 412 پر رپورٹ ہوا ہے۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دی گئیں، جوکہ ابھی تک فیصلے کی منتظر ہیں۔
’وفاقی حکومت بنام ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل‘ (۶۲،۱۹،۱۳/۱۹۹۱)اور (۷۸/۱۹۹۲) مرکزی حکومت کے علاوہ پنجاب، سرحد اور سندھ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کے خلاف ۱۹۹۱ء میں اپیل دائر کردی، جو پچھلے ۳۰ برسوں سے سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہیں۔
ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ۱۹۹۰ء میں (۱/۲۸) درخواست دائر کی کہ کورٹ فیس ایکٹ ۱۸۷۰ء کی دفعہ ۴ غیراسلامی ہے، لہٰذا اسے قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں غیراسلامی قرار دے کر قرآن و سنت کے دائرے میں لانے کی ہدایات جاری کی جائیں۔ یہ درخواست ۲۷؍اپریل ۱۹۹۱ء کو منظور کرلی گئی۔ فیصلہ PLD 1992, FSC 195 میں چھپ گیا، مگر حکومت پاکستان، حکومت صوبہ پنجاب، حکومت صوبہ سندھ اور حکومت صوبہ سرحد نے سپریم کورٹ میں مذکورہ بالا اپیل دائر کر دی جوکہ آج تک زیرسماعت ہے۔
’وفاق پاکستان بنام حبیب وہاب الخیری ‘ ۱۹۹۱ء (۲۲، ۲۱، ۲۰) تین اپیلیں گذشتہ ۳۰برس سے سپریم کورٹ میں زیرالتواء ہیں۔حبیب وہاب الخیری نے ۱۹۹۱ء میں وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ ’قانون ضابطہ فوجداری‘ کی دفعات ۴۹۵، ۴۹۴، ۴۰۲، ۴۰۱، اور دفعہ ۱۰ (۴) آف پاکستان فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ ۱۹۵۸ء غیراسلامی ہیں، لہٰذا پیش کردہ دلائل کی روشنی میں ان کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ جس کا فیصلہ ۸؍اگست ۱۹۹۱ءکو کر دیا گیا، جو PLD 1999, FSC 236 میں رپورٹ ہوا ہے۔ مگر اس کے خلاف حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی، جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔
’’وفاق پاکستان اور دیگر‘‘ کی چار اپیلیں رانا شبیر بنام اسماعیل قریشی (۸۰/۱۹۹۲) وفاقِ پاکستان بنام اسماعیل قریشی (۸۷-۱۹۹۲)، نیشنل بنک بنام خالد فاروق (۹۲/۱۹۹۲)، نیشنل بنک بنام اسماعیل قریشی (۹۲/۱۹۹۳) عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۲۹ سال سے زیرالتواء ہیں۔ایم اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے ’نفاذ شریعہ ایکٹ ۱۹۹۱‘ کی دفعہ ۳کی ذیلی دفعہ۲ کو چیلنج کیا کہ یہ خلاف اسلام ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے متعدد سماعتوں کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کو اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا جوکہ PLD 1992, FSC 445 پر رپورٹ ہوا ہے۔
اپیلیں ۱۹۹۲ (۸۸، ۸۹، ۹۰) عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۲۹ سال سے زیرسماعت ہیں۔
روشن دین روشن نے پراویڈنٹ فنڈ ایکٹ ۱۹۲۵ کی دفعات۲ اور۵ کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا کہ یہ دفعات خلافِ قرآن و سنت ہیں۔ متعدد سماعتوں کے بعد عدالت نے ۱۰؍ اگست ۱۹۹۲ءکو درخواست گزار کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ صادر کر دیا جو کہ SD 1993 1 پر شائع ہوچکا ہے۔
’’صوبہ پنجاب اور سرحد [خیبرپختونخوا] کی جامعات بنام ڈاکٹر ایم اسلم خاکی‘‘ والی تین اپیلیں ۲۰۰۵ (۱،۳،۴) گذشتہ ۱۶ سال سے عدالتِ عظمیٰ کی خصوصی توجہ کی منتظر ہیں۔
ڈاکٹر اسلم خاکی نے گومل یونی ورسٹی ایکٹ ۱۹۷۴ کی دفعات ۳۹ اور ۲۱، بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی ایکٹ ۱۹۷۵ کی دفعات ۲۵ اور ۴۳، اسی طرح انجینئرنگ یونی ورسٹی لاہور ایکٹ ۱۹۷۴ کی دفعات ۲۳ اور ۴۱ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی بنا پر شرعی عدالت میں ۱۹۹۲ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے درخواست دہندہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ۶ دسمبر۲۰۰۴ء کو فیصلہ دے دیا جوکہ PLD 2005, FSC 3 میں رپورٹ ہوا ہے۔ اس پر تمام یونی ورسٹیوں نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں، جو ابھی تک زیرالتواءہیں۔
یہ دو اپیلیں ۲۰۰۸ (۲،۳) وفاق پاکستان کی طرف سے دائر کی گئی تھیں، عدالت عظمیٰ میں گذشتہ ۱۳سال سے زیرالتواءہیں۔
کرنل (ریٹائرڈ) محمد اکرم نے وفاقی شرعی عدالت میں شریعت درخواست نمبر۱۹۹۳ (۴) دائر کرکے ’پاکستان آرمی ایکٹ ۱۹۵۲ ‘کی دفعہ ۱۳۳ (الف، ب) کو خلافِ اسلام قرار دینے کی درخواست کی، جوکہ عدالت نے ۲ ستمبر ۲۰۰۸ء کو منظور کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ فیصلے کی روشنی میں اس دفعہ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق بنائے۔ فیصلہ ۲۰۱۰ کے PLJ 2010, FSC 291میں رپورٹ ہوا ہے۔مگر حکومتِ پاکستان نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر دی جس کا فیصلہ تیرہ سال گزرنے کے باوجود نہیں ہوسکا۔
تین اپیلیں، تنویر جہاں (۲،۱/۲۰۰۰)، قطب الدین (۱/۲۰۰۴)، ملک عبدالرحمان (۳/۲۰۰۴) بنام حکومت ِ پاکستان ، گذشتہ ۲۱ اور ۱۷ برس سے عدالت عظمیٰ میں سماعت اور فیصلے کی منتظر ہیں۔ اللہ رکھا نے شریعت درخواست نمبر۱۹۹۳ (۲۹ آئی) کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت میں مسلم عائلی قانون ۱۹۶۱ء کی دفعات۴، ۵، ۶، ۷ کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہونے کی بنا پر چیلنج کیا۔ عدالت نے ۵جنوری ۲۰۰۰ءکو دفعہ ۴، دفعہ ۷ (۳) اور ۷ (۵) کو خلافِ اسلام قرار دے دیا۔ فیصلہPLD 2000, FSC 1 میں رپورٹ ہوا ہے۔
یہ آرڈیننس اسلام کے عائلی قوانین سے بحث کرتا ہے اور خصوصاً یتیم پوتے کی وراثت، تعدد ازواج، نکاح رجسٹریشن اور طلاق کے بارے اس میں بہت اہم نکات وضاحت طلب ہیں۔ فیلڈمارشل ایوب خاں کے دورِ حکومت کے اس قانون کے تحت ۱۹۶۱ءسے بہت سے لوگوں کو ناجائز فائدہ پہنچا اور بہت سے لوگ ناجائز طور پر اپنے حقوق سے محروم کیے گئے، لہٰذا یہ مقدمہ اسلامی نقطۂ نظر سے بہت حساس نوعیت کا حامل ہے، مگر افسوس یہ عدالت عظمیٰ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔
’حکومت پاکستان بنام کیپٹن (ر) مختار شیخ (۳/۲۰۰۹)، اپیل گذشتہ ۱۲ سال سے عدالتِ عظمیٰ میں توجہ کی طالب ہے۔
کیپٹن (ریٹائرڈ) مختار احمد شیخ نے قانونِ شہادت آرڈر ۱۹۸۴ کی آرٹیکل۱۸۱ کی ذیلی دفعہ ۴کو وفاقی شرعی عدالت میں ۱۹۹۸ میں بذریعہ شریعت درخواست نمبر ۱۹۹۸ (۷۱) اس بنیاد پر چیلنج کیا کہ یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے۔ عدالت نے مؤرخہ ۱۱ فروری ۲۰۰۹ء کو یہ درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا کہ حکومت چھے ماہ کے اندر اس کو قرآن و سنت کی روح کے مطابق بنائے مگر حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جوکہ ابھی تک زیرِالتواءہے۔ شرعی عدالت کا یہ فیصلہPLD 2009, FSC 65 میں رپورٹ ہوا ہے۔
اپیل خان محمد بنام وفاق پاکستان (۲/۲۰۰۵)گذشتہ ۱۶ سال سے عدالتِ عظمیٰ میں زیرِسماعت ہے۔
خان محمد نے وفاقی شرعی عدالت سے استدعا کی تھی کہ قانون ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۳۴۵ (۲) میں قتلِ عمد زیردفعہ ۲۰۳ (ب) ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کے سلسلے میں جو جزوی مصالحت کی اجازت دی گئی ہے، اسے خلافِ قرآن و سنت قرار دیا جائے۔ عدالت نے یہ استدعا ابتدائی سماعت میں ہی مسترد کر دی۔ خان محمد نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل ۲۰۰۵ (۲) دائر کردی جو آج تک زیرِالتواءہے۔
چھے اپیلیں ’وفاق بنام عبدالرزاق عامر‘ ۲۰۱۱ء (۱-۶) عدالت عظمیٰ میں ایک ہی فیصلے کے خلاف گذشتہ ۱۰ برس سے زیرالتواءہیں۔دراصل، جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دورِ حکومت میں عمومی طور پر اسلامی قوانین اور رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا ایک رحجان تھا، لہٰذا انھوں نے تحفظ خواتین کا نام لے کر حدود قوانین کو اس طرح سے محدود کرنے کی کوشش کی کہ یہ عملی طور پر ختم ہوکر رہ جائیں۔ حالانکہ اگر ان میں کوئی نقص تھا تو اس کی نشان دہی کرکے ان میں مثبت انداز سے اصلاحات کی جاسکتی تھیں۔
’تحفظ ِ خواتین ایکٹ‘ ۶ (۲۰۰۶) پارلیمنٹ سے پاس کرایا گیا اور حدود قوانین کے تحت درج مقدمات کے خلاف سماعت اپیل کے اختیارات وفاقی شرعی عدالت سے لے کر متعلقہ ہائی کورٹوں کو سونپ دیئے گئے اور اس طرح ہائی کورٹوں کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔
اس ایکٹ کو میاں عبدالرزاق عامر ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں۲۰۰۷ء میں چیلنج کر دیا، جس کا فیصلہ تین سال کی سماعتوں کے بعد ۲۲دسمبر۲۰۱۰ء کو سنا دیا گیا اور یہ فیصلہ PLD 2011, FSC 1 میں رپورٹ ہوا۔ اس کے خلاف چودھری محمد اسلم گھمن، ویمن ایکشن فورم اور فیڈریشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں، جو کہ آج تک زیرالتواءچلی آرہی ہیں۔
یہاں پر صرف چودہ اپیلوں کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ شریعت کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ۲۹شریعت اپیلیں اور ۳۱ فوجداری اپیلیں اس وقت تک عدالتِ عظمیٰ میں زیرالتواءہیں۔
برطانوی وزیراعظم ولیم ای گلیڈسٹون [م: ۱۸۹۸ء] کا یہ مشہور قول ہے کہ Justice delayed is justice denied ’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے‘۔
جب عوام کو عدالتوں سے انصاف نہ ملنے یا انصاف میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو لوگ عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، اور ایک ایسی لاقانونیت معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، جس میں امن و امان اور تحفظِ جان و مال شدید خطرے میں پڑ جا تا ہے۔یہ خبریں آئے دن اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں کہ ’’مقتول گروہ کے ورثاءنے قتل کے ملزموں کو احاطۂ عدالت کے اندر فائرنگ کرکے قتل کر دیا‘‘۔ہمارے اہل حل و عقد اور عدالتی نظام کے رکھوالوں کے لیے یہ بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
غلام سرور اور غلام قادر کو جب سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر باعزّت بری کر دیا تو معلوم ہوا کہ ’’جیل حکام نے ان دونوں بھائیوں کو ایک سال قبل پھانسی چڑھا دیا ہے‘‘۔ اگرچہ یہ ایک انتظامی خرابی ہے، پھر بھی یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کی گرفت، انصاف کی فراہمی پر مضبوط نہیں ہے۔ جس کی ایک بہت بڑی وجہ فراہمی انصاف میں تاخیر ہے، چاہے اُس کی وجوہ عدالتوں پر مقدمات کا ناروا بوجھ ہو یا عدالتوں میں ججوں کی کم تعداد۔
اسی طرح محمد انار اور مظہر فاروق دو ایسے ملزمان تھے،جنھیں عدالتِ عظمیٰ نے تمام الزامات سے بری کر دیا، مگر وہ اس وقت تک بالترتیب ۲۴ اور ۱۱ سال کی قید کاٹ چکے تھے۔ ۲۱ستمبر ۲۰۲۱ء کے روزنامہ دنیا میں خبر شائع ہوئی ہے کہ اغوا برائے تاوان کے دو ملزموں کو سولہ سال بعد ناکافی شواہد کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے بری کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی قید کا دورانیہ کسی بھی طرح ان کو لوٹایا نہیں جاسکتا، حالانکہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل -۱۰،الف ہر ملزم کو ’راست مقدمے اور آزادانہ پیروی‘ کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور آرٹیکل ۳۷ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بناتا ہے۔
فقہ اسلامی کی مشہور کتاب البحر الرائق جلد ششم میں ہے کہ ’’اگر قاضی بلاوجہ دیر میں فیصلے کرتا ہے تو وہ گناہگار ہے، ایسے قاضی کو معزول کرکے سزا دی جائے گی۔ ہاں، اگر وہ اس اُمید پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرتا ہے کہ فریقین صلح کرلیں گے یا مدعا علیہ کو مناسب مہلت دینا مقصود ہے تو یہ جائز ہے… اگر دلائل کی سماعت اور ثبوت کی فراہمی کے بعد بھی قاضی فیصلہ کرنے میں دیر کرتا ہے تو فاسق ہے اور اگر انکار کرتا ہے تو اس کے کفر کا خطرہ ہے (اس لیے کہ حق دار کو اس کا حق دینے سے خدا کے واضح حکم کے باوجود انکار کر رہا ہے)۔
قرآن کریم کی سورۂ مائدہ (آیات ۴۴،۴۵ اور ۴۷ ) میں بہت واضح طور پر اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہ کرنے والوں کے حق میں تین حکم ثابت ہیں:ایک یہ کہ وہ کافر ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔
مولانا مودودیؒ تفہیم القرآن میں ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”جو شخص حکم الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے، وہ مکمل کافر، ظالم اور فاسق ہے اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے، اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر اور ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اُسی تناسب کے ساتھ ہے، جس تناسب کے ساتھ اُس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے‘‘۔
سورۃ التکویر میں فرمایا گیا کہ وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُىِٕلَتْ۸۠ۙ بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۹ۚ (۸۱: ۸-۹) ’’اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟‘‘
تاویلِ خاص کے تحت تو عرب جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی طرف اشارہ ہے، مگر تاویل عام کے اعتبار سے ہر اُس مظلوم کی طرف اشارہ ہے، جسے بغیر کسی جرم کے سزائے موت یا سالہا سال کی قید بھگتنی پڑی اور جب اس کی موت یا قید مکمل ہونے کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل ہوئی تو معلوم ہوا کہ ملزم کو جس جرم میں سزا دی گئی تھی وہ تو ثابت ہی نہیں ہوا۔پھر اس کی ذمہ داری کا بوجھ کس کی گردن پر ہوگا؟
آخر جس شخص کے اختیار میں لوگوں کے جان و مال اور عزّت و آبرو کا فیصلہ کرنا ہو اور اُس نے زندگی بھر لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے فیصلے کیے ہوں تو اِس کو آخرت میں کس قدر سخت حساب کتاب دینا پڑے گا۔ اس کی ایک جھلک درج ذیل حدیثوں میں دکھائی گئی ہے:
بریدہ اسلمی کے صاحبزادے اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’قاضی تین طرح کے ہیں: ان میں دو جہنم میں اور ایک جنّت میں ہوگا۔ وہ قاضی جس کو حق معلوم ہوا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنّت میں ہوگا اور جس شخص نے جہالت سے فیصلہ کیا وہ جہنّم میں ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جس نے فیصلے میں ظلم کیا وہ بھی آگ میں ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الاحکام، باب الحاکم، یجتہد فیصیب الحق، حدیث :۲۳۱۲)
امام حاکم نے المستدرک میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ”حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دس آدمیوں کا والی بنایا گیا اور اُن کے مابین اُن کی پسند اور ناپسند کا لحاظ رکھے بغیر وہ فیصلے کرتا رہا، اس کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا کہ اُس کے ہاتھ اُس کی گردن سے بندھے ہوں گے۔ اب اگر اُس نے یہ سب فیصلے اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق کیے ہوں گے، نہ اپنے فیصلوں میں رشوت لی ہوگی، نہ کسی کی پروا کی ہوگی، تو اللہ تعالیٰ اُس دن اُس کے یہ بند کھول دے گا، جس دن اس کے علاوہ کسی کا بند نہیں ہوگا، لیکن اگر اُس نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق فیصلے کیے ہوں گے، اپنے فیصلوں میں رشوت لی ہوگی اور جانب داری سے کام لیا ہوگا، تو اُس کا دایاں ہاتھ اُس کے بائیں ہاتھ سے باندھ دیا جائے گا اور اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا‘‘۔
قرآن میں عدل کے تقاضے اور اہمیت
اللہ جل جلالہ نے قرآن پاک میں عدل کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔(الحدید ۵۷:۲۵)
پس اے محمدؐ ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔ اگر یہ اُس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) ﴾ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتاہے۔ (المائدہ ۵: ۴۹-۵۰)
اے نبیؐ ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔(النساء۴:۱۰۵)
تجاویز:کسی بھی ملک کی عدالت عظمیٰ میں اعلیٰ ترین دماغ ہوتے ہیں۔ یہاں پر عدل کے حوالے سے کچھ مسائل کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ اپنے طور پر اِن مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے ہماری پیش کی گئی تجاویز پر بھی غور فرمائے گی:
۱- قوانین کی اسلامائزیشن کا آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے عدالتِ عظمیٰ اپنے ضابطۂ عمل میں یہ بات طے کرسکتی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف دائر شدہ اپیلوں کا فیصلہ ایک مخصوص مدت کے اندر اندر کر دیا جائے گا۔
۲- عدالتِ عظمیٰ اس آئینی ترمیم کی ہدایت بھی جاری کرسکتی ہے کہ شریعت اپیلٹ بینچ کے دوعلماجج مستقل بنیادوں پر تعینات کیے جائیں تاکہ اپیلوں کی سماعت مستقل بنیادوں پر باقاعدگی کے ساتھ ہوتی رہے اور تاخیر سے بچا جاسکے۔