سوال : نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے معاشروں میں موجودہ گھریلو زندگی، اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گائوں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ گھریلو زندگی میں پرانی ہندستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟
جواب :ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رُو سے چار ہیں:
افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظامِ عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دُور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظامِ عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔
رہے طرزِ زندگی کے مظاہر ، تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانی ہوسکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو، وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے، بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردو بدل نہ ہو۔(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۵۹ء)
سوال : میںجماعت کا ہمہ وقتی کارکن ہوں اور اس وجہ سے گھر سے دُور رہنےپر مجبور ہوں۔والدین کا شدید اصرار ہے کہ میں ان کے پاس رہ کر کاروبار شروع کروں۔ وہ مجھے بار بار خطوط لکھتے ہیں کہ تم والدین کے حقوق کو نظرانداز کر رہے ہو۔ میں اس بارے میں ہمیشہ تشویش میں مبتلا رہتا ہوں۔ ایک طرف مجھے والدین کے حقوق کا بہت احساس ہے، دوسری طرف یہ محسوس کرتا ہوں کہ اقامت ِدین کی جدوجہد میں ذمہ داری ادا کرنا ضروری ہے۔ پھر یہ بھی جانتا ہوں کہ خیالات کے اختلاف کی وجہ سے گھر میں میری زندگی سخت تکلیف دہ ہوگی۔ لیکن شرعاً اگر ان کا مطالبہ واجب التعمیل ہے تو پھر بہتر ہے کہ میں اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کروں کہ میرے والد صاحب میری ہر بات کو موردِ اعتراض بنا لیتے ہیں۔آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟
جواب :والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجۂ پریشانی بنا رہتا ہے، جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہمدردی نہیں رکھتے۔ میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو، تو والدین اس کے ہزاروں میل دُور رہنے کو بھی برداشت کرلیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں کہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انھیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انھیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں، جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو خدمت ِ دین کے لیے وقف کردیتا ہے، حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے ’حقوق‘ ادا کرے بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، اس کی ہربات انھیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔ یہ صورتِ حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اورجماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کرنا پڑرہا ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورتِ حال ہے۔ اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے۔ آپ جہاں کام کر رہے ہیں، وہیں کرتے رہیں۔ جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو،و ہ بھی کرتے رہیں، بلکہ اپنے اُوپر تکلیف اُٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں، اور حسب ضرورت وقتاًفوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورتِ حال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو، تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۶ء)
سوال : ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم کیا ہے اور اسلامی شریعت میں اس کی اہمیت کس حد تک ہے؟
جواب : ’صلہ رحمی‘ کا مفہوم رشتہ داری کے تعلق کی بنا پر ہمدردی، معاونت، حُسنِ سلوک، خیرخواہی اور جائز حدودتک حمایت کرنا ہے۔ اس کی کوئی حد نہ مقرر ہے، نہ کی جاسکتی ہے۔ دراصل یہ عام معروفات میں سے ہے، جنھیں لوگ خود ہی جانتے ہیں۔ اور صلہ رحمی میں کوتاہی کرنا یا قطع رحمی کرنا، ان بڑے گناہوں میں سے ہے، جن کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۴۶ء)