کوئی سنگ دل انسا ن ہی حیدر پورہ، سرینگر میں ۱۵نومبر کو ہونے والے ’جعلی مقابلے‘ کے دوران جاں بحق محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور ان کی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف کے حصول یا ظالموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ کے حق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ شدید عوامی دبائو کے بعد ان کی لاشیں ورثا کے سپرد تو کی گئیں ، مگر پولیس کی نگرانی میں چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت سے مشروط کرکے۔جموں کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے ، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کی لاش بھی روتے پکارتے وارثوں کے سپر د نہیں کی گئی۔ اس کے والد کو بھارتی فوج نے ۲۰۰۴ء میں ’حب الوطنی‘ کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو ہلاک کردیا تھا۔
اگرچہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر ۲۰۱۹ء کے بعدلاشوں کو ورثا ء کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفنانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ۱۷۲ ؍اہل کاروں کے مقابلے میں ۸۳۷؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرل کے پاس آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رُونما ہوئے ہیں، جنھیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف اور دہشت کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کے دیگر تنازعات کی رپورٹنگ پیش کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم عالمی پریس میں آتی ہے۔ کشمیر میں ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکتی۔
مجھے یاد ہے کہ ۹۰کے عشرے میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کی لکڑیا ں لادنے والے گھوڑا گاڑی والوں کے لیے لازم ہوتا تھا کہ وہ لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ برسوں تک چلتارہا۔ پھر ایک دن ۱۹۹۷ء میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، اس نے کچھ کم مقدار میں لکڑیاںجمع کروائیں جس پر ملٹری کے سیکورٹی گارڈ کے ساتھ اس کی تو تو مَیں مَیں ہوگئی۔ چونکہ ۱۹۹۶ء میں اسمبلی انتخابات کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد حکومت قائم ہوئی تھی، اس لیے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا۔ چند میٹر دُور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔ ملٹری گارڈ نے مورچے سے باہر نکل کر اپنی بندوق گھوڑاگاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلا دی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لہورنگ کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔
اسی علاقے میں شاہ نگری گائوں میں حزب المجاہدین سے وابستہ غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا سپاہیوںنے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ وہ بدنصیب ساس اور بہو علاقے سے ہجرت کرجاتے، لیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ گھر میں کوئی مرد موجود تھا۔ غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی تشدد برداشت کرنے کے بعد جیل میں تھا، جب کہ غلام حسن کی دس سالہ اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کے سبب دیکھنے سے معذور تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپائوں بھاری تھا ۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں (سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروںنے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ سے جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔ اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی ۔ بوڑھی ساس نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اُجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر آنکھوں سے معذور ننھی پوتی کو لے کر وہ کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دی۔ سارا گائوں بھیگی پلکوں اور گھٹی آہوں کے ساتھ بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا، لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس کے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ ان کا مکان گرا دیا جائے اور اس کی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر چار کلومیٹر دُورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرا دی جائے۔
اسی طرح سیرعلاقے کے ۷۰سالہ نمبردار شمس الدین کو ملٹری کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اس کے گائوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لیے کچھ کہنے ہی والے تھے کہ بھارتی میجر نے انھیںپاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مَل دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
ذرا آپ کو پیچھے لے کر چلتے ہیں:
یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں زیر علاج آٹھ سالہ آصف کو بہلانے، اس کا دھیان بٹانے اور آنکھوں کے نُور کے بغیر زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے والد عبدالرشید جب بچے کو صبر کی تلقین کی باتیں سنارہے تھے، تو ظالم سے ظالم انسان بھی ان کی باتیں سن کر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجاتا تھا۔
شوپیاں کی ۱۴سالہ انشاء بی بی کا پورا چہرہ چھرّوں سے چھلنی تھا۔ پیلٹ گنوں سے شدید مجروح پانچ مریضوں کو سرینگر سےیہاں ریفر کیا گیا تھا۔ کانگریس کے مرکزی رہنما راہول گاندھی نے جب اس ہسپتال کا دورہ کیا تو وارڈ میں بینائی سے محروم اور اپنے کنبے کے واحد کفیل، سوپور کے اس ۲۵سالہ آٹو ڈرائیور فردوس احمد نے ان کو بتایا: ’’کشمیر میں مجھ جیسے سیکڑوں افراد مصیبت میں مبتلا ہیں۔ میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا ہوں تو کیا ہوا، اگر میری بینائی سے محرومی بھارت کے سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں کھول دیتی ہے تو یہ سودا برا نہیں۔‘‘ اس صابر نوجوان کے سوال پر کانگریسی لیڈر گردن جھکا کر چلے گئے۔ بھارت کے امراض چشم کے معروف سرجن ڈاکٹر ایس نٹراجن کے مطابق: ’’اس طرح کے کیسوں کے ساتھ ہمیں پہلی بار واسطہ پڑا ہے۔ دنیا کے کسی بھی جنگ زدہ خطے میں اس طرح کے مریض دیکھنے میں نہیں آتے‘‘۔
جموں وکشمیر ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس حسنین مسعودی کے مطابق سرینگر کے صدر ہسپتال میں امراض چشم کا وارڈ اس وقت کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں، کیوں کہ بیش تر زخمیوں کو کئی بار سرجری کے عمل سے گزار کر بھی آنکھوں کی روشنی واپس ملنے کی اُمید بہت کم ہے۔ وارڈ نمبر۸ کا منظر کسی بھی خوفناک فلم سے کم نہیں، جہاں مضروب نوجوان معمولی سی آہٹ سے بھی خوف محسوس کرتے۔ وارڈ میں ان دنوں آنکھوں کی سرجری سے گزرنے والے غیر معمولی مریضوں کی بڑی تعداد زیر علاج تھی۔ بیش تر زیر علاج زخمیوں کو دوبار عمل جراحی سے گزرنا پڑا۔ تاہم ان کی آنکھوں میں بصارت نہیں لوٹی۔ ایسے مریض بھی بڑی تعداد میں تھے، جن کے ساتھ کوئی تیماردار نہیں تھا۔ والدین اپنے بچوں کی حالت ِ زار دیکھ کر رو رہے تھے اور ان کا مستقبل تاریک ہونے پر افسردگی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جج مسعودی صاحب کے بقول ’’ہر طرف آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے کم عمر بچوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘‘۔
۲۰۱۰ء میں بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر ڈیوڈرائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، اور انتفاضہ [یعنی ’حماس تحریک ‘ کے زیراثر عوامی سطح پر غیرمسلح مزاحمتی تحریک] کے دوران فوج اور پولیس کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ اس پس منظرمیں بھارتی صحافی ان سے یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھے کہ ’’آخر آپ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹے تھے؟‘‘ موصوف نے کہا: ’’۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری آرمی پولیس نے پوائنٹ 4 کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اب ان ہتھیاروں کی کھیپ کو اسلحہ خانہ کا زنگ کھا رہا ہے۔‘‘ رائزنر نے تسلیم کیا: ’’مسلح جنگجوئوں کے برعکس،پُرامن مظاہرین سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو۔‘‘ لیکن یہ کیسی خوف ناک حقیقت ہے کہ ہمارے دورے کے چند ہی مہینوں کے بعد وہ ہتھیار جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے، کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے خرید لیے۔
اسی نشست میں رائزنر نے بتایا تھا: ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی فلسطینی مظاہرین پر تجربہ کیا تھا، مگر فلسطینی بچوں پر ان کے دُور رس مہلک اثرات کے سبب ان کے استعمال پہ بھی پابندی لگا دی گئی۔‘‘ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو یہ بتاکر شرمندہ اور دُکھی کر دیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوجی افسروں کے ’کارنامے‘ سنانے شروع کیے، اور یہ بتایا: ’’بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیں کہ شورش زدہ علاقوں میں بھلامسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟‘‘ اسرائیلی افسر نے بتایا: ’’حال ہی میں اسرائیل کے دورے پرآئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ہم کو بتایا کہ کشمیر میں پوری آبادی کو گھیر کر ہم گھروں میں گھس کر تلاشیاں لیتے ہیںکیونکہ ہمارے نزدیک کشمیر کا ہر گھر دہشت گرد کی پناہ گاہ ہے‘‘۔ رائزنر نے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل دنیا میں بدنام ہونے کے باوجود اس طرح کے آپریشن بغیر کسی انٹیلی جنس اطلاع کے نہیں کرتا‘‘۔
خیر، یہ تو اسرائیل کا اپنی وکالت میں بیان تھا، اوریہاں پر اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد اسرائیلی جرائم کی شدت کو کم کرنا نہیں بلکہ صرف اس طرف متوجہ کرانا ہے کہ کشمیر کس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر مظالم کی کم ترین تشہیر کے درجے پر واقع ہے۔ رائزنر نے بھارتی جنرل کا نام تو نہیں لیا، مگر کہا:’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔
دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوںکے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیر کو نظر انداز کیا ہے۔ اگر ابلاغی سطح پر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو دُور دراز علاقوں تک رسائی نہیں ہو سکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی کشمیر کے بیش تر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف دانش وَر اور قانون دان اے جی نورانی صاحب کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوب صورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پُر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً ۳۰ کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں بھارتی فوجی جوان نظر آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اپنے گھروں کے مالک تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور ان تمام گھروں کی دوسری منزل بھارتی فوج کے اہل کاروں کے لیے مخصوص ہے۔ ان دیہاتیوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔
اسی طرح اگر شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، سری نگر کے آرکائیوز کو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسوں کی تفصیلات ملیں گی، جو وہاں کے ڈاکٹروں کے مطابق: ’’میڈیکل کی تاریخ میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم [۴۵-۱۹۳۹ء] کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے بدنامِ زمانہ ادارے ’گسٹاپو‘ کے تفتیشی اور اذیتی مراکز میں رپورٹ ہوئے ہیں‘‘۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد ۳۷سالہ مظفر حسن مرزا کی میری نظروں سے گزری، جس کو ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو ہسپتال لایا گیا تو اذیتوں کی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کے نتیجے میں اعصاب تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، اور سارا مدافعتی نظام مائع کی صورت تحلیل ہو کر پیشاب کے راستے باہر آ رہا تھا۔ دورانِ تفتیش پٹرول اور ڈیزل سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا مظفر کی انتڑیوں، معدے اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ہسپتال میں جان کنی کے عالم میں رہ کر تین ہفتے بعد ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
اس خطّے میں ایسی بہت سی رودادیں منظر عام پر آنے کےلیے محنتی و جرأت مند صحافیوں اور دردمند دل رکھنے والے مصنفوں کی منتظر ہیں۔ وقت آچکا ہے کہ واقعات سے پردہ اٹھایا جائے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے، اس کے زخموں پر مرہم رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
میں نے چند سال قبل اپنے ایک مضمون میں خبردار کیا تھا کہ ’’ممکن ہے کشمیر میں بظاہر عسکریت دم توڑتی نظر آرہی ہو، مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے، خود کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ بندوقوں کی آوازیں خواہ تھم گئی ہوںمگر جو جنگ دماغوں میں جاری ہے، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے اس کا سدباب کیسے ہوگا؟‘‘ کشمیر میں آئے روز مظاہروں نے یہ تسلیم کرا دیا ہے کہ کشمیر میں خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے، تاہم فوجی طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔ اگر کشمیر میں آگے پیچھے آنے جانے والی حکومتیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بدترین عدم استحکام کا شکار ہی رہے گا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لیے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے پر تسلط کے بجائے علاقے کے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
بھارت کی سیاسی پارٹیوں میں ،چاہے وہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ بی جے پی نے مخملیں دستانے اُتار کر پھینک دیے ہیں، جب کہ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کیا کرتی تھی۔ معروف بھارتی دفاعی جریدہ Force میں غزالہ وہاب نے لکھا ہے کہ ’’کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکا ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ی ہیں‘‘۔
بھارتی حکومت کی پالیسی ہے کہ اہل کشمیر کے دلوں میں خوف و دہشت کی دھاک بٹھائی جائے۔ اس کی حالیہ مثال اس طرح سامنے آتی ہے کہ ٹی-۲۰ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی ٹیم کے مقابلے میں جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میں انجینیرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کردیا گیا، اور خود سرینگر میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبہ کو قانونی معاونت فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ طلبہ کی طرف سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر معمولی سی خوشی کا اظہار بھی دہشت گردی سے کم جرم نہیں ہے۔
ادھر جنوبی ہند میں کرناٹک میں انڈین نیشنل کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلم برطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ’ملک دشمن سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عمل داری سے بالکل آزاد ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف دھکیلنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ کشمیر نے پچھلے تین عشروں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیں،جنھیں بیان کرنے کے لیے پتھر کا دل چاہیے۔ پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے بھنور میں پھنسی رہے گی؟یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و درندگی کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس اس دن کا انتظار ہے ؎
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے