ایک صالح معاشرے کی پہچان، اس میں بسنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام اور بالخصوص جان ، مال اور عزّت و عصمت کا تحفظ پایا جائے ۔ اخلاقی بنیادوں پر قائم ہونے والے ایک صالح معاشرے کا ترقی پذیر ہونا ایک عقلی تقاضا ہے۔ کیوں کہ جس معیشت ،معاشرت ،اور قانون و ثقافت کی بنیاد حقوق و فرائض کی ادائیگی پر ہوگی، وہ پس ماندہ ، مفلس اور اخلاقی بیماریوں دھوکا ، جھوٹ ، فریب ، چوری، بے حیائی اور فحاشی کا مرکز نہیں ہو سکتا ۔اس میں معروف ، بر، خیر ، فلاح، حیا ، نیکی، ایفائے عہد، معاشی،اخلاقی اور قانونی پیمانوںکا احترام لازمی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے باوجود صدیوں تک مسلم معاشرہ اپنی اخلاقی برتری ، ذمہ دارانہ طرزِ عمل ، حیا اور ایمان داری کے لیے مثال بنا رہا۔ اگست ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی کے حصول سے قبل بازار میں اگر کبھی کسی مسلمان گاہک نے ایک ہندو ساہوکار سے کہا کہ ’’فلاں دوکان پر اس شے کی قیمت اتنی کم ہے تو اس نے جواب میں صرف ایک ہی بات کہی ، میاں آپ کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا ، آپ اسی قیمت پر یہ چیز لے سکتے ہیں۔گویا مسلمان کی پہچان سچائی اور امانت سے منسلک تھی، جیسا کہ حدیثِ نبویؐ سے واضح ہے کہ ’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں‘‘۔
لیکن یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ سیاسی و جغرافیائی آزادی کے حصول کے ساتھ ہی ہم نے اپنے روایتی رویوں اور طرزِ عمل سے بھی، جو ہماری پہچان تھے،آزادی حاصل کر لی اور گذشتہ دوعشروں میں اس کے زہریلے پھل ہمارے سامنے آنے لگے ۔ملک کے ہر حصے میں بچوں کے ساتھ زیادتی ، خواتین کی بے حُرمتی ، خودکشی اور نشہ آور اشیا کے کاروبار اور بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ شیطانی مافیائوں کا وجود پکار پکار کر ہمارے قومی ضمیر سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس غیر ذمے دارانہ بلکہ مجرمانہ غفلت کا انفرادی و اجتماعی احتساب کرتے ہوئے ان اسباب کو دُور کیا جائے، جو ان شرمناک واقعات کے پیچھے کار فرما ہیں ۔
ان اسباب میں سب سے اوّلین چیز والدین کی غفلت اور ذمہ داری سے فرار ہے۔ معاشی دوڑ میں گرفتار شوہر اور بیوی اپنے آپ کو نہ صرف اپنے بچوں بلکہ پورے خاندان (دادا، دادی، چچا ، تایا ، نانا، ماموں ، خالہ ودیگر رشتوں)سے پہلے ہی آزاد کر چکے ہیں۔ پھر دو تنخواہوں کی طلب میں ان کے پاس صبح سے شام تک ملازمت میں مصروفیت کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا کہ وہ سکون کے ساتھ موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ بات چیت کر سکیں یا ان کے ساتھ کچھ وقت چہل قدمی کرتے ہوئے یا انھیں کسی قریبی مسجد تک لے جاتے ہوئے یہ پوچھ سکیں کہ انھوں نے اپنے سکول یا کالج میں دن کیسے گزارا،دوستوں سے کیا بات چیت کی؟ کلاس میں ان کا درجہ اوّلین پانچ طلبہ میں ہے یا وہ سب سے آخری درجے پر ہیں؟ بچوں کی تربیت اور ان کے فکر اور اخلاق و معاملات کی اصلاح میں والدین کا کردار بڑی تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اخلاقی نصیحت تو ایک طرف، اُن معاملات پر بھی بات کا وقت نہیں ملتا کہ جن پر والدین اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کر رہے ہیں ۔ خاندان کا نظام سکڑکر ماں، باپ اور بچوں تک محدود ہوگیا ہے اور ان برکتوں سے محروم ہوچکا ہے، جو گھر میں دادا، دادی ، نانا ، نانی ، خالہ، پھوپھی، چچی اور دیگر قریبی رشتہ داروں سے دن رات رابطے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا تھا ۔
جو تعلیمی نظام ہم نے ورثے میں انگریز سامراج سے پایا تھا اور جس کا مقصد ہی ہماری نئی نسلوں کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کاٹ کر مغرب کی نقالی کے لیے تیار کرنا تھا، آزادی ملنے کے باوجود نہ صرف اسے جاری رکھا ہے بلکہ اسے بہت زیادہ بگاڑ بھی لیا ہے، حالانکہ اُسے درست کرکے اسلامی، تہذیبی،قومی اور عصری ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔چنانچہ یہ تعلیمی ادارے مولانا مودودی کے الفاظ میں تعلیم گاہوں سے زیادہ قتل گاہیں ثابت ہورہے ہیں۔ اس نظامِ تعلیم میں محض ’دینیات‘ کا ایک پرچہ شامل کرنے سے کوئی بڑا جوہری فرق واقع نہیں ہوا، اور نہ ایسا ہوسکتا ہے۔
یہ سمجھنا ایک بڑا مغالطہ ہے کہ اگر اسکول کی بارہ سالہ تعلیم اور کالج کی چار سالہ تعلیم میں ہفتہ میں بہ مشکل ۵۰منٹ کی ایک کلاس پڑھا دی جائے، جس میں روایتی طور پر چند مختصر سورتیں اور عقیدے کی تعلیم شامل ہو، تو اس طرح طالب علم اسلام کی منشا اور مرضی کو سمجھ جائے گا اور اس میں نظریۂ پاکستان سے محبت بھی پیدا ہوجائے گی، اور ملک و قوم کی تعمیروترقی کا بے لوث جذبہ بھی اس کے دل و دماغ میں موج زن ہوجائے گا۔
نصاب میں مغرب سے مستعار لی گئیں کتب جو لادینی ذہن پیدا کرتی ہیں، ہم نے ان کی متبادل کتب تیار کرنے کی کوئی فکر نہیں کی، نہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا، نہ طلبہ و طالبات کو قرآن و سنت کے فراہم کردہ اخلاقی رویوں سے روشناس کرایا اور یہ سمجھ لیا کہ ہرپیدایشی مسلمان ایمان داری، ایفائے عہد ، شرم وحیا اور صداقت و امانت پر خود بہ خود عمل کرنے والا ہو جائے گا۔ایک غلط مفروضے پر قائم توقعات کا نتیجہ کرپشن ، دھوکا دہی ، ملکی خزانے کے ناجائز استعمال کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا؟
یہی شکل ہمارے ابلاغ عامہ کی ہے، خصوصیت سے گذشتہ ۲۰برسوں میں آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے نام پر جس طرح تھوک کے بھاؤ ٹی وی چینل، کاروباری بنیادوں پر حکومت اور سرمایہ داروں کی سرپرستی میں قائم ہوئے اور انھوں نے ہر جانب سے مغربی اور ہندو تہذیب وثقافت، الحاد و دہریت اور جنسی مساوات کے نام پر جنسی اخلاقیات کی پامالی کو اپنا مقصد قرار دے کر نوجوانوں کو اپنا ہدف بنایا۔ یہ صرف تفریح کے پروگراموں ہی کا خاصہ نہیں، بلکہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ بہت سے نام نہاد، اسلامی موضوعات پر رمضان کے دوران لڑکوں ، لڑکیوں کو زرق برق لباسوں کے ساتھ بطور رول ماڈل پیش کیا جارہا ہے اور کسی کی آنکھ نہیں کھلتی۔ کسی خبر نامے کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھا جاتا، جب تک اس میں ایک خاتون پوری زیبایش کے ساتھ خبریں نہ پڑھے۔ ڈراموں میں مرو وعورت کا آزادانہ اختلاط ، جسم کے خدوخال کی نمائش اور اشتہارات میں عورت کا تجارتی استحصال ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن گیا ہے۔
اس ماحول میں اگر ایک شخص خود کو پڑھا لکھا ، نیم پاکستانی اور معاشرے کے اعلیٰ طبقے سے وابستہ سمجھتے ہوئے، کسی ایسے ہی طبقے کی خاتون سے غیر اخلاقی تعلقات قائم کرتا ہے اور پھر اس خاتون کو اذیت ناک طریقے سے قتل کر دیتا ہے، تو جہاں وہ اس گھناؤنے جرم کا ذمہ د ار ہے، وہاں دوسری طرف ان تمام عوامل پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جو اس شخص کو اخلاقی بے راہ روی کی طرف لے جانے پر اُکساتے رہتےہیں،یعنی تعلیم ، والدین کی عدم توجہی ، ابلاغِ عامہ اور خصوصاً علما، مشائخ اور اساتذہ کی طرف سے عصری مسائل و معاملات پر خاموشی۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل اور نصاریٰ کی گمراہی و فحاشی میں مبتلا ہونے کا ایک سبب ان کے علما اور راہبوں کو قرار دیا، جنھوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ لوگ حرام کھا رہے ہیں ، حرام کا ارتکاب کررہے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا ہیں ، مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی اور اس طرح عملاً بُرے اعمال میں ان کی مدد کی ۔
اسلام ایک جامع ، قابلِ عمل اور اصلاحی نظام ہونے کی بنا پر ایسے تمام مسائل کا عملی اور آزمودہ حل پیش کرتا ہے۔ ہم آج جس اخلاقی زوال اور ظلمت کا شکار ہیں، بالکل یہی صورتِ حال تھی جب اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، معاشرے کی تاریکی، گمراہی اور پس ماندگی کو بڑی حکمت کے ساتھ اور کامیابی سے ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کر دیا، جہاں حیا، عدل ، احترام ،تحفظ ، ترقی، فلاح و سعادت معاشرے کی پہچان بن گئی ۔ اس اصلاحِ احوال میں باہمی تعاون و احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشرے میں موجود ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ اس سلسلے میں ریاست کو کلیدی کردارادا کرنا ہے۔ لیکن جتنی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اتنی ہی یہ معاشرے کے تمام کارفرما اداروں اور افراد پر بھی عائد ہوتی ہے، اور سب کا فرض ہے کہ اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
والدین کو اپنے اوقاتِ کار کا ایک بڑا حصہ اپنی اولاد کے اصلاحِ احوال کے لیے قربان کرنا ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر اور انھیں اپنے ساتھ بٹھاکر قرآن وسنت کے پیغام کو ان کے دل و دماغ میں پورے اعتماد و یقین کے ساتھ جاگزیں کرنے میں صرف کرنا ہو گا ۔یہ کام یک طرفہ طور پر وعظ و نصیحت سے نہیں ہوگا، بلکہ خود اولاد سے قرآن وسنت کے کسی حصے کا مطالعہ کروا کر ایک غیر رسمی مکالمہ کی شکل میں کرنا ہوگا۔ کوشش کیجیے کہ بچے والدین کے ساتھ مل کر اجتماعی غوروفکر کی عادت کو اپنائیں اور اس طرح اپنے دماغوں کو قرآنی اخلاقیا ت اور پیغام سے منور کریں ۔
یہ سارا کام محض تعلیمی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا ۔بلاشبہہ تعلیمی اداروں کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن آج ستم یہ ہے کہ بیش تر تعلیمی اداروں نے تعلیم کو بطور تجارت اختیار کیا ہواہے ۔ ان کے سامنے سیرت و کردار کی تعمیر اور نظریۂ پاکستان سے وفاداری کا حصول بطور ہدف اور ترجیح موجود ہی نہیں ہے ۔ اس وجہ سے والدین کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
حکومت ِوقت جو بھی ہو، اس کو اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنا ہو گی کہ وہ اس ملک کی آبادی کو قرآن وسنت سے آگاہ کرنے کے لیے ’یکساں نظامِ تعلیم‘ کے تحت مجموعی نصاب میں اسلامی اخلاقی تعلیمات کو درسی مضامین کا حصہ بنائے اور ہر طالب علم کو اس سے قطع نظر کہ اس کامذہب و مسلک کیا ہے ، یکساں نصاب سے گزارے ۔ دنیا کے تمام نام نہاد ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں مسلک کے اختلاف کے باوجود یکساں نظام تعلیم پر عمل کیا جاتا ہے، اوراس میں کہیں بھی کسی انسانی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔پاکستان میں خصوصاً ۳فی صد غیر مسلم آبادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ۹۷ فی صد اکثریتی آبادی کے عقائد ، نظریات ، تہذیب سے آگاہ ہوں تاکہ کوئی ثقافتی ، تناؤ اور ٹکراؤ نہ پیدا ہو اور معاشرے میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو۔ اس سلسلے میں اقلیتوں کی قیادت سے افہام و تفہیم کے ذریعے مناسب انتظام کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ دیگر مذاہب کے حامل ہم وطنوں کے لیے اکثریت کے عقائد سے واقفیت حاصل کرنے کا مطلب ان پر عقائد تھونپنا ہرگز نہیں ہے۔ جہاں تک معاشرے کی اخلاقیات کا تعلق ہے، اس باب میں انسانی طرزِ عمل کی اصلاح کے لیے جوتعلیمات قرآن و سنت نے دی ہیں، وہ عالم گیر ہیں اور ان پر ایک غیر مسلم کا عمل کرنا اتنا ہی مطلوب ہے جتنا ایک مسلمان کا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل یہ چاہے گا کہ ایک مسلمان سے تو یہ مطالبہ ہو اور اسے تدریس و تربیت کے ذریعے یہ سکھایا جائے کہ وہ جھوٹ نہیں بولے گا ، چوری نہیں کرے گا ، قتل و غارت نہیں کرے گا، شرم و حیا کے ساتھ رہے گا ، ہمسایے کے حقوق ادا کرے گا ، خواتین ، معمر افراد اور بچوں کے حقوق ادا کرے گا،لیکن دوسری طرف غیر مسلم کو ان تعلیمات سے بے بہرہ رکھا جائے اور وہ پاکستان کے شہری کی حیثیت سے جو چاہے رویہ اختیار کرے؟
آج سوشل میڈیا نے جو ابلاغی مقام حاصل کر لیا ہے، اس میں روایتی صحافت بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ سوشل میٖڈیا کو تعمیری کام کے لیے استعمال کیا جائے اور سنسنی خیز اطلاعات یا لطیفے اورا فراد پر تیشہ زنی کی جگہ گھریلو امن ، حیا ، پاکیزگی ،رشتوں کے احترام کی بحالی اور معاشرے سے فحاشی اور عریانی کو ختم کرنے کے لیے تدابیر کی جائیںاور اس سلسلے میں جہاد اور اجتہاد کے طریقوں سے کام لیا جائے۔یہ کم خرچ بالا نشین حکمت ِعملی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوانوں کے ذریعے ملک گیر مہم بن سکتی ہے، اور عوام و خواص کو آج اخلاقی مسائل کی اصلاح کی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔
اصلاحِ احوال کے لیے علماو مشائخ کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے۔ مسجد وہ اہم مقام ہے، جہاں سے ہر جمعے کو اگر سنجیدہ تعمیری پیغام دیا جائے تو عام مسلمان جو بنیادی طور پر آج بھی دین کو اہمیت دیتا ہے، فحاشی و بے حیائی اور سماجی و معاشی استحصال کے خلاف جہاد میں شامل ہونے پر آمادہ ہوگا ۔
قانونی ذرائع ہر معاشرے میں اہمیت رکھتے ہیں، لیکن جب تک قانون کا نفاذ جیسا اس کا حق ہے نہ کیا جائے، تو محض قانون کا بنانا ایک کاغذی عمل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ہے۔
’اسلامی نظریاتی کونسل‘ نے قانون سازی کے سلسلے میں سال ہا سال سے جو قیمتی تجاویز دی ہیں، افسوس ہے کہ تمام حکومتوں اور ملک کی پارلیمنٹ نے انھیں نظرانداز کیا ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کی روشنی میں حکومت قانون سازی کرے، پھر قوانین کے نفاذ کے لیے قانون نافذکرنے والے تمام ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس، اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ سیاسی قیادت بھی ساتھ دے اور عوامی دبائو بھی ڈالا جائے۔
دعوت و اصلاح کا بنیادی مقصد: معروف اور بھلائی کا قیام اور منکر ، فواحش، باطل اور فساد سے معاشرے کو پاک کرنا ہے ۔ معاشرتی مفاسد سے نجات کے لیے مثبت حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خاندان کے تحفظ اور خصوصاً خواتین اور بچوں کی جان اور عزت کے تحفظ کے معاملات کو اسلامی فکر اور روح کے مطابق بہتر بنایا جا سکے ۔ ایسی دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے کی ضرورت ہے ، جن میں خاندانوں کو شریک کروایا جائے ۔ اسلامی تعلیمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں اور بچوں کے لیے اجتماعی سرگرمیوں کا اہتمام بھی ضروری ہے، نیز خاندانی نظام کی مضبوطی کے لیے خصوصی جدوجہد مطلوب ہے۔ اس سلسلے میں ہرسطح پر گفتگو ، مذاکروں، تقاریر اور عمومی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
عوامی شعور کی بیداری میں مسجد کا ادارہ انتہائی کلیدی اور اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ مساجد اور خطبا سے رابطہ کاری کا مؤثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس کے ذریعے انھیں مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر معاشرے کو درپیش اہم مسائل، مثلاً خاندانی نظام کا تحفظ ، بزرگوں کااحترام ، معاشرتی رواداری ، عریانی و فحاشی کے خلاف رائے عامہ کی بیداری ، بچوں کی تربیت، گھر کے ماحول کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی ضرورت و اہمیت اور اس جیسے بیسوں اہم مسائل پر اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
تحریکی فکر کے حامل تعلیمی اداروں کو مرکز بناتے ہوئے کئی اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان اداروں کی معاونت سے طلبہ و طالبات کے والدین کو تعلیمی اداروں میں مدعو کیا جائے۔ ان کو خاندانی نظام کے استحکام اور معاشی مشکلات سے نجات کے لیے اسلام کے مطابق سادہ زندگی گزارنے کی ضرورت و اہمیت بتائی جائے اور بچوں کی تربیت اور نفسیاتی و خانگی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی برکات سے آگاہ کیا جائے۔
اگر مستقل طور پر یہ عمل جاری رکھا جائے تو اس سے تحریک کی دعوت کو بھی فروغ ملے گا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ اُردو اور انگریزی اخبارات میں مضامین ، خطوط اور کالم لکھے جائیں، اور انھیں صوبائی اور مرکزی پارلیمانوں میں پہنچایا جائے۔ ہم خیال صحافیوں ، وکلا اور اساتذہ کی طرف سے ملک گیر پیمانے پر دستخطی مہم چلائی جائے اور اس طرح جو لوگ دستخط کریں ان کے ای میل، سوشل میڈیا رابطہ ایڈریس حاصل کیے جائیں، تاکہ مہم کے نتائج سے انھیں آگاہ کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر ان سے آیندہ بھی دعوتی رابطہ کاری ہوتی رہے ۔بڑے اجتماعات کی جگہ چھوٹے اجتماعات، جن پر خرچ بھی کم ہوگا منعقد کیے جائیں اور خصوصاً مساجد اور اسکولوں کو اس مقصد کے لیے بنیاد بنایا جائے۔
ان تمام اقدامات کے ساتھ حکومت اور میڈیا کو فساد اور انتشار کے اس چیلنج کے مقابلے اوراسلامی اقدار کے فروغ کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔دراصل یہ ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی جواب دہی کی فکر کرنی چاہیے۔ ہم اپنی ان گزارشات کا اختتام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو زریں ارشادات پر کرنا چاہتے ہیں، جن کے مخاطب مساوی طور پر حکمران اور عامۃ المسلمین ہیں:
حضرت تمیم داریؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنُ النصیحہ اور یہ ارشاد تین بار فرمایا۔ ہم نے پوچھا: لِمَنْ، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:لِلّٰہِ وَلکِتبِہِ ولرسولہِ ولائمۃ المسلمین وعامیتھم ،یعنی دین سراپا نصیحت اور خیرخواہی ہے___ اللہ کے لیے ، اللہ کی کتاب کے لیے،اس کے رسولؐ کے لیے، مسلمانوں کی قیادت کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔
عربی میں نصیحہ سے صرف خیرخو اہی ہی مراد نہیں بلکہ صحیح بنیادوں پر تعلق استوارکرنا اور اس کے تقاضوں کوپورا کرنا بھی اس میں شامل ہے ۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ سے خیرخواہی کے معنی ان پر حقیقی ایمان، ان سے گہرا تعلق، اور اس ایمان اور تعلق کے تقاضوں کی صحیح ادائیگی ہے۔ یہ ہرفرد کے لیے لازم ہے جو اسلام کا دعوے دار ہے۔ سب سے بنیادی چیز اللہ کی ہدایت اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں خودسادہ زندگی گزارنا اور معاشرے اور زندگی کے پورے نظام کی اس کے مطابق تشکیل کو اپنی زندگی کا مقصد اورسعی و جہد کا محور بنانا ہے۔ قیادت سے خیرخواہی جہاں حق بات اُن تک پہنچانے، صحیح مشورہ دینے، معروف میں اطاعت کرنے پر مشتمل ہے،وہیں اصلاحِ احوال کے لیے ان میں غلطی اور ناروا رویے پر تنقید و احتساب بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ اور عامۃ الناس کے لیے خیرخواہی امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے عبارت ہے تاکہ معاشرہ اسلام کی برکتوں سے مالا مال ہوسکے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا ارشاد، دُنیا اور آخرت میں ہرشخص کے لیے اس کی ذمہ داری کے بارے میں جواب دہی کا اصول مقرر فرماتا ہے۔ اسلامی معاشرے کی نمایاں خصوصیت صحت مند احتساب، قانون کی حکمرانی، بے لاگ انصاف، خیر کی حوصلہ افزائی ور شر کی سرکوبی ہے۔ اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے اس ارشاد میں اُمت کے لیے مشعلِ راہ بنایا ہے:
قَالَ : اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ،فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَّھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ ، وَالْخَادِمُ فِیْ مَالِ سَیِّدِہٖ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ اَلَا فَکُلُّکُمْ مَّسْئُوْلٌ
عَنْ رَّعِیَّتِہٖ (بخاری، کتاب الاستقراض، باب العبد، راعٍ فی مال سیدہ، حدیث:۲۳۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے،اور تم میں سے ہرایک شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ وہ امام جو لوگوں پر نگران ہے، اس سے رعیت کے متعلق بازپُرس ہوگی، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگران ہے، اس (عورت) سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا، کسی شخص کا غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے تو اس سے اس کی بابت پوچھا جائے گا۔ سن لو کہ تم میں سے ہرشخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں جواب دہی کی تیاری کے لیے، اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق بخشے، آمین!