دعوتِ دین اور کلمۂ حق بلند کرنے کی روایت، درحقیقت کلمۂ طیبہ اور کلمۂ شہادت سے وابستہ ہے۔ اس روایت پر عمل کرنے والے قابلِ قدر انسان ہرزمانے میں اور ہرعلاقے میں موجود رہے ہیں۔ افسوس کہ بہت سے مقامات پر ایسے عظیم محسنوں کی خدمات کو بھلا دیا گیا، یا پھر انھیں مسخ کرکے کچھ کا کچھ بنا دیا گیا۔
یہ مضمون بنگالی میں لکھی گئی نہایت اہم کتاب کی بنیاد پر لکھا گیا ہے، جو ۳۰سال قبل شائع ہوئی تھی، جو برصغیر پاک و ہند کی اسلامی تاریخ کے ایک روشن باب کی نایاب اور مفید جھلک پیش کرتی ہے۔ اس میں ہندستان کے ایک معروف صوفی مولانا حامد بنگالی کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سولھویں صدی کی اس تاریخی سوانح اور تابندہ شخصیت کے مطالعے اور توجہ کا ایک سبب مولانا حامد کا دوسرے اسلامی ہزاریہ کے بہت اہم مصلح مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ (۹۷۱ھ - ۱۰۳۴ھ / ۱۵۶۴ء-۱۶۲۴ء) کے ساتھ خدمات انجام دینا ہے۔
آج بنگلہ دیش کے شہری علاقوں میں قوم کے بیش قیمت اسلامی ورثے کو اپنانا اور اس پر فخر کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے، جیساکہ بڑے پیمانے پر مذہبی رسوم کو بالخصوص ملک کے دیہی علاقوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ انتہاپسند سیکولر اور ہندونواز بنگلہ دیشی انتظامیہ کی طرف سے برسوں پر پھیلے اسلام مخالف پروپیگنڈے نے قوم کے نوجوانوں کو تقریباً قائل کرلیا ہے کہ ’’ملک میں داخلی قوم پرستی کے مقابلے میں اسلام کی حیثیت ایک بیرونی چیز کی سی ہے‘‘۔ بھارت کے بہت زیادہ اثرانداز ہونے کی بناپر بنگلہ دیش کی تاریخ کو اَزسرِنو مرتب کیا جارہا ہے، بالخصوص ان مسلمانوں کا نام و نشان اور حوالوں کو مٹایا جارہا ہے، جن عظیم مسلمانوں نے اس خطے کی تاریخ کا رُخ متعین کرنے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا تھا۔
مولانا حامد بنگالی کی رُودادِ حیات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تقریباً پانچ سو سال قبل برصغیر میں اسلام پھیلانے اور مسلمانوں کی اصلاح کے لیے شان دار جدوجہد میں کردار ادا کیا۔ اگرچہ خطے کی مسخ شدہ تاریخ کے مقابلے میں اس عظیم شخصیت کی سرگزشت بیان کرنے کے لیے یہ کتاب ناکافی ہے، تاہم، ہم نے سوچا کہ اس مبارک کام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ حامد بنگالی ان پُرعزم، نڈر اور بے باک لوگوں میں سے تھے، جن کی جدوجہد سے سرزمین بنگال و آسام یا آج کے بنگلہ دیش اور مشرقی ہندستان میں اسلام نے بڑے پیمانے پر جڑپکڑی، نشوونما پائی اور پھلا پھولا۔
مولانا حامد کی سرگزشت اس وقت تک بیان نہیں کی جاسکتی ،جب تک ان کے رہنما اور محب شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ کی جدوجہد کی وضاحت نہ کی جائے، جنھیں احیائے اسلام کی جدوجہد میں ایسا بلند مقام ملا ، جو احیائے اسلام کی طویل جدوجہد میں کسی اور مصلح کو کم ہی حاصل ہوا۔
شیخ احمد سرہندیؒ کی اصلاحات کی وسعت اور عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے، اب سے پانچ سو سال پہلے کی سیکولر یا ’روشن خیال‘ نئی نئی اختراعات و خرافات کو جاننا ضروری ہے، جو آہستہ آہستہ بڑے پیمانے پر مذہبی رسوم کے نام پر پھیل گئی تھیں۔ پھر اس زمانے کے حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو جاننا بھی ضروری ہے، جن کا مقصد اسلام کو ہندستان سے تقریباً مٹا دینا تھا۔
اس زمانے کے برصغیر میں اسلام فکری پیش رفت اور پھیلائو کو کھو رہا تھا۔ اگرچہ مسلم، عوام اسلام سے گہری وابستگی رکھتے تھے اور مختلف رسوم سے وابستہ تھے، جن کی اسلام سے نسبت نہیں تھی۔ مثال کے طور پر صوفیا کے مزاروں اور درگاہوں کی غیرمعمولی تعظیم اور اس سے ملتی جلتی دیگر مذہبی رسمیں عام ہوگئی تھیں۔صوفیا کرام مختلف مکاتب ِ فکرسے تعلق رکھتے تھے۔ وہ خانقاہیں اور مراکز تعمیر کرنے میں مصروف تھے، جب کہ مسلم عوام اپنی محدود اسلامی تعلیم کی وجہ سے ایمانیات میں تحریف اور نئی نئی اختراعات کو پہچاننے کے اہل نہ تھے۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ مسلم اقلیت سماجی طور پر ہندو اکثریت کی توہمات اور غیر اسلامی رسوم و رواج کے رنگ میں رنگی جارہی تھی۔
برصغیر میں مسلم تاریخ کے اس پیچیدہ مرحلے پر، مغلیہ دورِ حکومت میں شہنشاہ اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۳ء] کی تخت نشینی [۱۵۵۶ء]نے اس خرابی میں اور اضافہ کردیا۔ اکبر کی تخت نشینی اس کی کم عمری میں بطور ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہوئی تھی، لیکن یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ ایک کم علم اور نوعمر کی طرح اس کی مذہبی فکر اور اعمال ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف بدلتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ بات صدمے کا باعث اور پریشان کن تھی کہ کس طرح وہ ایک مسلمان سے دین میں بڑے پیمانے پر بنیادی تحریفات اور نت نئی اختراعات کرنے والا، اصل عیسائی (Proto Christion)، خفیہ ہندو (Crypto Hindu)، ملحد اور مُرتد ہوگیا۔
اکبر کا ایک ہندو عورت سے شادی کرنا، عیسائیوں، یہودیوں، زردشتوں کے پیشوائوں کے ساتھ عموماً یک طرفہ مکالمہ عام سی بات تھی۔ پھر اس کا غیرمذہبی اور ملحدمشیروں پر انحصار بڑھتا گیا، جن میں ابوالفضل فیضی [م:۱۶۰۲ء] اور بے حد خوشامدی مُلّامبارک جیسے علما شامل تھے۔ مُلّامبارک نے رُسوائے عالم فتویٰ (رجب ۹۸۷ھ) دیا اور بعد میں اسے ایک شاہی فرمان قرار دیتے ہوئے اکبر کو ’امیرالمومنین‘ قرار دےدیا ، جس کے تحت اکبر اسلامی اُمور میں فیصلہ کن اختیار کا مالک بن گیا۔ اس طرح اس کو مذہبی اور ثقافتی اُمور میں بے راہ روی اور ارتداد میں مدد ملی۔
اکبر کی زندگی میں اس تباہ کن طرزِعمل کی رُودادکافی طویل ہے۔ منتخب التواریخ کے مطابق جو اس کے دورِحکومت کے احوال پر بحث کرتی ہے، اس میں اکبر کے اپنے درباری اور ہم عصر مؤرخ مُلّاعبدالقادر بدایونی [م:۱۶۰۵ء] نے لکھا کہ ’’اکبر نے زکوٰۃ پر پابندی لگا دی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے، حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا تمسخر اُڑایا، دینی علوم کی تعلیم کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں (مثلاً، احمدؐ، محمدؐ اور مصطفےٰؐ) کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کچھ درباریوں کو کہا کہ وہ یہ نام بدل لیں، دربار میں اذان پر پابندی لگا دی، پنجگانہ نماز کی ادائیگی، رمضان کے روزوں، حتیٰ کہ حج کی ادائیگی سے روک دیا۔اس نے سورج کی پرستش کا آغاز کیا، سلام کرنے کے لیے ’السلام علیکم‘ اور جواب دینے کے لیے ’وعلیکم السلام‘ کو ’اللہ اکبر‘ اور ’جل جلالہ‘ سے تبدیل کر دیا۔ اس نعرے کا مطلب تھا ’اکبرخدا ہے‘ اور دوسرے حصے کے مطلب ’جلال‘ تھا۔ ایک ہزار ہجری کے اختتام پر اس نے اس نعرے کو سکّوں پر بھی نقش کروایا۔
اکبر نے اپنے عجیب و غریب مذہب کو ’دین الٰہی‘ کا نام دیا، اور اپنی ذات کو زمین پر ’خدا کا سایہ‘ قرار دیا اور دربار میں حاضر ہونے والوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں (اس رسم کو اس کے پوتے اورنگزیب نے ختم کیا)۔ مؤرخین خواہ ماضی کے ہوں یا حال کے، حتیٰ کہ وہ بھی جنھوں نے اکبر کی مذہبی پالیسیوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی، اکبر کی ان بیش تر زیادتیوں سے انکار نہیں کرسکتے۔
معروف برطانوی مؤرخ ونسنٹ آرتھر اسمتھ [م: ۱۹۲۰ء] نے اپنی کتاب Akbar The Great Mogul میں لکھا ہے: ’’اکبر بادشاہ کے تمام اقدامات کا خلاصہ ہندو، جین اور پارسی مذہبی رسوم کو اپنانا تھا، جب کہ لازمی اسلامی رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی اور ان پر پابندیاں لگانا تھا‘‘۔ انڈین مؤرخ ایشوری پرشاد [م: ۱۹۸۶ء] کہتے ہیں: ’’بادشاہ کے ہاتھوں محمد کے دین کی توہین، اس کے جاری کردہ قوانین و ضوابط سے عیاں تھی،جو علما کو اشتعال دلانے اور مسلمانوں میں تشویش کا باعث بنی‘‘۔ حالات اس وقت بدترین صورت اختیار کرگئے، جب اسلامی ہجری کیلنڈر کے پہلے ہزارسال ۱۵۹۱ء میں اختتام کو پہنچ رہے تھے اور اس وقت اکبر کا دورِ حکومت۳۵ویں سال میں داخل ہورہا تھا۔ اکبر اپنے آپ کو اگلے ہزاریے کا مقتدر اعلیٰ تسلیم کروانے کی خواہش میں ناکام رہا۔
عبدالقادر بدایونی کے مطابق: ’’شہنشاہ کا یقین تھا کہ اسلام صرف ایک ہزار سال کی زندگی رکھتا ہے، جس کے بعد وہ اسلام سے مکمل طور پر دست بردار ہونے کے لیے آزاد ہوگا‘‘۔ اکبر کے تاریخ نویس ابوالفضل کا دعویٰ تھا کہ ’’اکبر دوسرے اسلامی ہزاریہ کے افتتاح کے لیے پیدا ہوا ہے‘‘۔
اکبر کے ان سیاہ ترین اقدامات کے باوجود جلد ہی اسلام کی فطرت میں موجزن تحریک اور جذبے نے ان شرمناک اکبری اقدامات کو مسترد کر دیا۔ اسلام کی سچی روح بیدار ہوگئی اور ایک نیا اور ممتاز مسلم معاشرہ تعمیر کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ اس پیچیدہ صورتِ حال میں اسلام کی یہ شان دار خدمت ایک شان دار تحریک کے ذریعے ممکن ہوئی، جس کا اجرا شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ نے کیا۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ [م: ۱۹۹۹ء]کے بقول: ’’درحقیقت یہ ان [شیخ احمد سرہندی]کی کامیابی تھی کہ ان کی شہرت کی وجہ سے انھیں ’مجددالف ثانی‘ یا دوسرے ہزاریہ کا احیا کرنے والے کا لقب عطا کیا گیا، جس [نام] سے لوگ زیادہ واقف ہیں بہ نسبت ان کے ذاتی نام سے‘‘۔
کتاب مولانا حامد بنگالی ،حضرت مجدد الف ثانیؒ کی زندگی کی ولولہ انگیز رُوداد بیان کرتی ہے اور وہ غیرمتزلزل عزم کہ جس کے ساتھ انھوں نے جدوجہد کی اور جو مشکلات پیش آئیں ان پر شان دار فتح حاصل کی، اس کی یاد دلاتی ہے۔ حضرت مجدد ؒ کے ہاتھوں اکبرکے اسلام مخالف اقدامات اور ظالمانہ رجحانات کے خاتمے کی مہم نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کیے، حتیٰ کہ شاہی دربار کے کچھ معززین بھی متاثر ہوئے۔ مجدد الف ثانیؒ نے ہندستان کے تمام حصوں اور گردونواح کے ممالک میں اپنے خلفا (نائب) مقرر کیے۔ اکبر کا جانشین شہنشاہ جہانگیر [م:۱۶۲۷ء] اس کامیابی پر چونک گیا اور اس بات سے ڈر گیا کہ غالباً شیخ احمد سرہندیؒ اس کے خلاف ایک بغاوت برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی تزک جہانگیری میں جہانگیر نے لکھا ہے کہ ’’مجدد نے ہرشہر اور ملک میں اپنے شاگردوں کو بھیجا، جنھیں وہ نائب یا خلیفہ کہتا تھا‘‘۔ اور یہ کہ ’’میں نے مجدد کو قید کر دیا اس بات کی یقین دہانی کے پیش نظر کہ عوام کا جوش و جذبہ ختم کیا جاسکے‘‘۔
شہنشاہ جہانگیر نے شیخ احمد سرہندیؒ کو اپنے دربار میں پیش ہونے کے لیے کہا۔ دربار کے مفتی اور ولی عہد خرم (شاہجہان) [م: ۱۶۶۶ء]کی بار بار ہدایت کے باوجود حضرت مجددؒ نے شہنشاہ کے سامنے تعظیمی سجدہ کرنے سے انکار کر دیا (جو اکبر نے متعارف کروایا تھا)۔ جب شہنشاہ جہانگیر نے انکار کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’’میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے بیان کردہ تعظیمی آداب کے سوا کسی کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔ جس پر جہانگیر نے برہم ہوکر انھیں حکم دیا کہ کچھ بھی ہو وہ اسے سجدہ کریں۔لیکن حضرت مجددؒ نے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ ’’میں اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کر سکتا‘‘۔ طیش میں آکر شہنشاہ نے گوالیار کے قلعے میں انھیں قید کرنے کا حکم دے دیا۔ حکومت نے ان کا گھراور پانی کا کنواں، پھل دار درخت اور کتابیں ضبط کرلیں۔ ان کے خاندان کے افراد کو زبردستی کسی دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔
تاہم، یہ قید اُن کے لیے باعث ِ رحمت ثابت ہوئی۔ انھوں نے اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اورزیادہ روحانی استعداد حاصل کی اور دیگر قیدیوں میں تبلیغ کی۔ اس طرح بڑی تعداد میں غیرمسلم قیدی مسلمان ہوگئے تو انھوں نے مسلمان اور نومسلم قیدیوں کی اصلاح اور تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ جیل کی دیواروں کے باہر ان کی شہرت بڑے پیمانے پر پھیل گئی اور شہنشاہ پر دبائو اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ انھیں پورے احترام کے ساتھ رہا کیا جائے۔
مولانا حامد بنگالیؒ کو مجدد الف ثانی ؒنے بنگال میں اپنا خلیفہ مقرر کیا۔ دراصل حضرت مجددؒ کے دو شاگردوں کے نام ایک جیسے تھے: ایک حامد کا تعلق پنجاب سے تھا اور وہ حامد لاہوری کہلاتے تھے۔ چنانچہ مجدد نے ان کے ناموں میں فرق کرنے کے لیے ان کے نام کے ساتھ ان کے علاقے کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا، جسے انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ اپنایا۔
مولانا حامد بنگالیؒ ۱۵۹۸ء کے دوران، مغربی بنگال کے ازانی منگل کوٹ، ضلع بردہامان کے معروف قاضی خاندان میں پیدا ہوئے۔ صدیوں سے نامور قائدین اس علاقے کے دورے کرتے رہے ہیں۔ ایک مرحلے پر ۱۶۲۲ء میں شہزادہ خرم نے اپنے والد شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت کر دی اور ۱۶۲۴ء میں بنگال کو فتح کرلیا۔ اس دوران وہ شیخ حامد کے پاس حاضر ہوا اور حصولِ تخت میں کامیابی کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ شب بھر کی ریاضت کے بعد اگلی صبح شیخ حامد نے شہزادے کو کہا کہ ’’ان شاء اللہ تخت اسی کو ملے گا‘‘۔ اس پیش گوئی کےچار سال بعد شہزادہ خرم نے اقتدارِشاہی حاصل کرلیا۔
شیخ حامد نے اعلیٰ تعلیم دہلی کی جامعہ میں حاصل کی، جب کہ تخصص کے لیے وہ لاہور تشریف لائے۔ اس زمانے میں شہزادہ خرم (شاہجہاں) بھی دہلی کی جامعہ میں ایک طالب علم تھا، جن دنوں شیخ حامد بنگالی، جامعہ سے تعلیم حاصل کررہے تھے۔ شیخ حامد کی شان دار علمی کامیابی علما میں معروف تھی۔ اسی بنا پر آگرہ کے مشہور مفتی عبدالرحمٰن سے ان کی دوستی ہوگئی۔ شیخ حامد، مفتی عبدالرحمٰن صاحب کے پاس حصولِ علم اور عالمانہ مباحث کے لیے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ یہیں پر ایک روز شیخ احمد سرہندیؒ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ایک ماہر جوہرشناس کی طرح انھوں نے فوری طور پر جان لیا کہ شیخ حامد ان کی تحریک کے لیے بہت مفید ہوسکتے ہیں اور انھوں نے انھیں اپنی تحریک سے وابستہ ہونے کے لیے کہا۔
سرہند میں ایک سال تک حضرت مجددؒ کے ساتھ انھوں نے قیام کیا۔ پھر شیخ سرہندیؒ نے انھیں اپنا خلیفہ بناکر بنگال واپس جانے کی اجازت دی۔اجازت نامے پر مبنی خط کا عکس اور ترجمہ کتاب میں دیا گیا ہے۔ مجدد الف ثانیؒ نے مولانا حامدؒ کی غیرمعمولی علمی اور روحانی استعداد کی تحسین فرمائی ہے اور اسی بنا پر انھیں خلیفہ مقرر کیا گیا۔ صوفی حامد بنگالیؒ، مجدد الف ثانیؒ کے تمام خلفاء میں سرفہرست ہیں۔
منگل کوٹ میں مولانا حامد ؒ نے اپنے سابق مدرسہ میں بطورِ سربراہِ ادارہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس کا معیار اس قدربلند کردیا کہ بنگال اور ملک کے دوسرے حصوں سے طلبہ ان کی زیرنگرانی حصولِ علم کے لیے جوق در جوق وہاں آنے لگے۔ تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ انھوں نے مجدد الف ثانیؒ کی اصلاحی تحریک میں مرکزی کردار ادا کیا اور بنگال کے مسلمانوں میں رائج غیراسلامی خرافات، اوہام اور بدعات کو دُور کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ مولانا حامد بنگالیؒ کا انتقال ۱۰۵۰ھ [م: ۱۶۴۰ء] میں ہوا۔
اس کتاب مولانا حامد بنگالی: ایک مرشد اور روحانی رھنما (بہ زبان بنگلہ) از اظہرالدین مُلّا (ناشر: اسلامک کلچرل سنٹر، ڈھاکہ، بنگلہ دیش) سے معلوم ہوتا ہے کہ شہنشاہ شاہجہان نے مولانا حامدؒ سے محبت و احترام کا رشتہ قائم رکھا۔ ۱۰۵۵ھ [۱۶۴۵ء] میں تخت نشین ہوتے ہی اس نے بنگال کے گورنر قتلوخان کو حکم دیا کہ وہ مولانا حامدؒ کے خاندان کی دیکھ بھال کرے۔ لیکن گورنر نے پیغام بھیجا: ’’ مولانا کا انتقال ہوچکا ہے اور مدرسہ کی حالت خستہ ہے‘‘۔ یہ پیغام ملتے ہی شاہ جہاں نے حکم دیا کہ ’’مولانا کی قبر کے قریب ایک مسجد تعمیر کی جائے‘‘۔ چنانچہ بارہ دری مسجد تعمیر کی گئی۔ اس قدیم مسجد کا کچھ حصہ اور چند مینار آج بھی قائم ہیں۔ سنگ بنیاد پر عربی میں کندہ تحریر یہ بتاتی ہے: شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ نے اسے ۱۰۶۵ھ [۱۶۵۵ء]میں تعمیر کیا۔