صدیقی صاحب ایک عرصے سے دینی مدارس اور انجینئرنگ یونی ورسٹی میں تدریس کرتے رہے ہیں ۔قرآن پاک کا ترجمہ سکھاتے اور پڑھاتے ہوئے انھیں ایک سوال کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ ’’ترجمہ، متنِ قرآن کے ہر لفظ کے نیچے ہو، ساتھ ہی ترجمہ بامحاورہ بھی ہو اور دو دو سطروں میں بھی نہ ہو‘‘۔
اس سوال کو حل کرنے کے لیے انھوں نے بعض علمائے دین (مثلاً: مفتی شیر محمد مدنی، جامعہ اشرفیہ لاہور؛ حافظ عبدالمنان، گوجرانوالہ؛ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، لاہور؛ مولانا عبدالمالک، منصورہ ) کے مشوروں اور ہدایات کے بعد خود ہی ذمہ داری اُٹھائی اور برسوں کی محنت کے بعد اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لکھتے ہیں: ’’میں نے اس ترجمے کے لیے شاہ رفیع الدین ، حافظ فتح محمد جالندھری، پیر محمد کرم شاہ ، شیخ محمود حسن [محمودالحسن درست نہیں]،سیّد شبیر احمد ،حافظ نذر محمد اور خاص طور پر شیخ التفسیر مولانا عبدالفلاح کے مجموعۂ تفاسیر ، تفسیر اشرف الحواشی سے بہت استفادہ کیا ہے‘‘۔
قاری صدیقی صاحب کہتے ہیں کہ ہم وہ خوش قسمت اور بد قسمت قوم ہیں جو قرآن کو اپنی انفرادی و اجتماعی اور ملکی وعالمی ہر مرض کا علاج (فِیْہِ شِفَاءُ لِلْنَّاسِ) مانتے ہیں لیکن بد قسمت ہیں کہ اس پر عمل نہیں کرتے ۔( رفیع الدین ہاشمی )
را اور بنگلہ دیش، محمدزین العابدین ۔ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،ڈی ۔۳۵، بلاک ۵،فیڈرل بی ایریا، کراچی ۔فون :۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات ۲۸۸،قیمت :ایک ہزار روپے ۔
متحدہ پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے اسباب ،واقعات اور نتائج پر مبنی اردو اور انگریزی میں بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ زیر نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک آنکھیں کھولنے والی کتاب ہے۔
محمد زین العابدین نے سقوطِ مشرقی پاکستان سے پہلے مکتی باہنی میں شامل ہو کر بھارت جاکر مار دھاڑ کی تربیت حاصل کی، پھر بھارتی فوجوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں میں شریک رہے۔ کہتے ہیں کہ ۱۹۷۱ء سے پہلے ایک بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ بھارت مسلمانوں کا کبھی مخلص اور سنجیدہ دوست نہیں ہو سکتا، مگر میری آنکھوں پر پاکستان دشمنی کی پٹی بندھی ہوئی تھی اور ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جب ’’بھارتی فوجیوں نے بڑے پیمانے پر لوٹ مار شروع کی، بھارتی فوجیوں کے ہاتھ جو کچھ لگا وہ بھارت لے گئے۔ لوٹ مار میں آسانی کے لیے چھوٹے بڑے شہروں،قصبوں، تجارتی مراکز، بندر گاہوں اور صنعتی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ۔ بھارتی فوجی صرف ہتھیار ہی نہیں بلکہ پنکھے اور نل تک نکا ل کر لے گئے ۔ بھارتی فوج کی ہزاروں گاڑیوں میں لوٹا ہوا مال بھارت پہنچادیا گیا اور یہ ساری لوٹ مار بھارت کی طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر دی جانے والی اجازت کے بغیر ممکن نہ تھی، تب میری آنکھوں پر بندھی پٹّی کھلی‘‘۔
مصنف نے چشم دید واقعات ،تجربات اور تحقیقات کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان میں بنیادی کردار بھارت کے خفیہ جاسوسی ادارے ’را‘ کا ہے۔ ’را‘ کی بنیاد کو ٹلیہ کی ارتھ شاستر ہے۔ ’را‘ بھارت کا سب سے طاقت ور ادارہ ہے۔ چند سال پہلے تک اس کا بجٹ ۱۵ ہزار کروڑ تھا۔ اس کا ہدف پاکستان، سری لنکا ، بھوٹان، نیپال وغیرہ کو بھارت کا حصہ بنا دینا ہے۔ مصنف نے ’را‘ کے طور طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اہلِ پاکستان (عوام اور حکومت) اس کا ادراک کر کے اپنے دفاع کی تدابیر کریں۔
کتاب کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تعلق برعظیم کی مردم خیز ریاست بھوپال سے ہے۔ ان کے جدِّ امجد شہاب الدین غوری کی فوج کے ایک کمانڈر تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد بھوپال میں مقیم ہو گئے تھے۔
عبدالقدیر خان بھوپال سے میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۵۲ء میں پاکستان چلے آئے۔ کراچی سے بی ایس سی کیا۔ ۱۹۶۱ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے ۔ ہالینڈ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے یورپ کے بعض تحقیقی اداروں میں کام کیا اور اپنے فن پر پوری طرح دسترس حاصل کرلی۔ بعض غیر ملکی اداروں کی جانب سے پُر کشش پیش کشوں کو نظر انداز کرکے وہ پاکستان آ گئے اور یہاں اٹامک انرجی کمیشن میں جوہری بم بنانے کا پروگرام شروع کیا۔
ایٹم بم بن گیا، اس کا تجربہ بھی ہو گیا۔ بعد ازاں خان صاحب نے سماجی اور دینی خدمات کے سلسلے میں متعدد ادارے قائم کیے۔ جنرل مشرف نے خان صاحب کی کردار کشی اور تذلیل کی مگر مشرف کی رخصتی کے بعد انھیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے۔ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ سات آٹھ کتابیں ان سے یاد گار ہیں۔انھوں نے روز نامہ جنگ میں مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ ان کا لموں میں وہ اپنی آپ بیتی بھی لکھتے رہے۔ اس آپ بیتی میں ایٹم بم بنانے تک کے مراحل کے ساتھ کہوٹہ لیبارٹری کے سائنس دانوں اور عام کارکنوں میں مثبت اور منفی کرداروں کی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی آ گیا ہے۔ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ملک کی سا لمیت سے متعلق معاملات میں بھی کرپشن دخل اندازی کرتی ہے مگر سابق صدر غلام اسحاق خان جیسے محب وطن نے ممکنہ حد تک ڈاکٹر عبدالقدیر کی پشت پناہی کی۔ انھوں نے معروف صحافی زاہدملک کے نام ایک خط میں خان صاحب کی شخصیت وکارکردگی اور ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ان کی کاوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
خط کے آخر میں غلام اسحاق خان لکھتے ہیں:ڈاکٹر عبدالقدیر خان حقیقتاً ایک اچھے اور عظیم انسان ہیں۔ اس لیے کہ اپنے ملک کی ترقی اور اپنی قوم کی فلاح وبہبود سے زیادہ عظیم کوئی مقصد ہو نہیں سکتا اور اسی مقصد کی خاطر وہ جیے اور جیتے ہیں۔ انھوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا اور جو بھی کارنامے انجام دیے، وہ اپنی گواہی خود دیتے ہیں اور یہ کارنامے ایسے ہیں کہ ان الفاظ سے کہیں زیادہ بلند آواز سے یہ اپنا اعلان خود کرتے ہیں جو الفاظ ان کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکیں ۔ ان کی زندگی کا آئینہ یہ مشہور فارسی مقولہ ہے: مُشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطّار بگوید (مشک وہ ہے جو خود خوشبو دیتا ہے ، نہ کہ وہ جس کا دعویٰ عطار کرے )۔ (رفیع الدین ہاشمی)
محترمہ افشاں نوید کے ۴۱ ،اخباری مضامین پر مشتمل یہ ان کا تیسرا مجموعہ ہے، جو ان کی ’قلبی واردات‘ کا لفظی اظہار ہے۔ ’’میں نے جو دیکھا ، سوچا، محسوس کیا ، اس قلبی واردات کو قلم کی زبان دے دی‘‘۔ چند عنوانا ت دیکھیے :عصر کی قسم۔ فتنوں سے آگاہی۔ میدان کربلا ۔ہماری تاریخ کا چوراہا۔ ماہِ صیام کل اور آج۔ علامہ اقبال اور آداب فرزندی ۔ بات ہے اقدار کی۔ تمھی سے اے مجاہدو! جہاں میں ثبات ہے۔ قانونِ تحفظ نسواں اور بی آپا۔ ۱۶ دسمبر ، یومِ سقوطِ ڈھاکا۔ نصاب اور استاد ، اسٹیفن ہاکنگ ، سڈنی ائر پورٹ، یومِ کشمیر ، شرمین چنائے عبید ، آپ کے نام ۔
کتاب کا ہر کالم لکھنے والے کے حسّاس دل ودماغ کا آئینہ دار ہے۔ ان کے جذبات لفظوں کے قالب میں ڈھل کر کالم بن گئے ہیں۔ ایک کالم میں فلم ساز شرمین عبید چنائے کے حوالے سے لکھا ہے:’’شرمین صاحبہ، آپ نے کیمرے کے توسّط سے ساری دنیا کو پاکستانی عورت کا جھلسا ہوا چہرہ دکھایا اور یہ ڈاکو منڑی آسکرایوارڈ کے لیے منتخب ہو گئی۔ آپ آسیہ اندرابی کے دُکھ کو بھی محسوس کیجیے۔ غلام احمد مسعودی کی صاحبزادی آمنہ مسعودی کو ضرور دکھایئے، جس نے بھارتی اہل کار کے سامنے مزاحمت کی اور شور مچایا تو ظالم نے آمنہ کا گلا دبا کر اسے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ آپ پر کشمیر اور پاکستان کا یہ فرض ہے کہ آپ آسکر ایوارڈ کی اگلی نامزدگی کے لیے اپنی ڈاکومنٹری کا عنوان: ’کشمیر کی مظلوم عورت ‘ کو بنائیں‘‘۔
افشاں نوید ہر واقعے اور ہر سانحے کو اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں دیکھتی اور اس پر رائے ظاہر کرتی ہیں ۔ شاہ نواز فاروقی لکھتے ہیں:’’بلا شبہہ افشاں نوید صاحبہ کے کالم پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ان کے لیے کالم نگاری ایک مشن ہے۔ ان کے کالموں پر ادبی مطالعے اور ادبی ذوق کا گہرا سایہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے کالموں میں پختگی، گہرائی اور سنجیدگی کی خوبیاں پیدا ہو گئی ہیں‘‘۔ (رفیع الدین ہاشمی )