سوڈان کے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اپنی بحالی کے لیے فوجی جنتا کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کے بعد، انھی سیاسی گروپوں کی جانب سے ملک کی سڑکوں پر عوامی غصّے کا نشانہ بن رہے ہیں، جنھوں نے ماضی میں ان کی پشتی بانی کی تھی۔جرنیلوں سے کیے جانے والے معاہدے سے پہلے ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد کئی ہفتے تک جاری ہلاکت خیز بدامنی کے دوران معزول وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو بھرپور عوامی حمایت حاصل تھی۔
فوج کے ساتھ معاہدے سے متعلق سیاسی پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی، جب سوڈان کی مزاحمتی کمیٹیوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں نے اتوار [۲۱ نومبر] کے روز بھی فوجی بغاوت اور طے پانے والے معاہدے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوڈان کے حالیہ مظاہروں میں کئی سرکردہ سیاسی جماعتوں کی شرکت کے باعث ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ ان مظاہرین میں سابقہ حکمران اتحاد میں شامل ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ (FFC)بھی شامل رہی۔ ماضی میں ایف ایف سی حمدوک کے حامیوں میں شامل تھی۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ بغاوت کے اثرات زائل کرنے کے لیے طے پانے والے سیاسی معاہدے میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں گرفتار سیاسی کارکنوں کی رہائی، خود مختار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ کی تشکیل جیسے امور کو عملی جامہ پہنانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔بغاوت کے بعد حکومت کے خاتمے اور پھر عملی نظر بندی کی مدت میں عبداللہ حمدوک کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا رہا، اور ان کی حمایت میں مظاہروں کے دوران ۴۱سوڈانی شہری ہلاک کر دیئے گئے۔
فوج کے ساتھ ’سیاسی معاہدے‘ پر دستخط کی خبر سے وہ مظاہرین ’سکتے‘ میں آ گئے ہیں، جو عبداللہ حمدوک کی تصویریں لہرانے اور سڑکوں پر ان کے حق میں نعرے لکھنے میں مصروف تھے۔ وہ ایک مہینے سے حمدوک کو مجسم جمہوریت سمجھ کر ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے تھے۔ مگر فوج کے ساتھ معاہدے کی روشنی میں عبوری دور حکومت ۲۰۲۳ءکو ہونے والے انتخاب تک جاری رہے گا۔ اسی معاہدے کی روشنی میں حمدوک کی وزارت عظمیٰ بحال ہونا قرار پائی ہے۔
۳۰؍اکتوبر کو لاکھوں افراد سوڈان کی سڑکوں پر ایک حالیہ فوجی بغاوت [۲۵؍اکتوبر] کے خلاف مظاہروں میں موجود رہے۔ باغی فوج کی پُرتشدد کارروائیوں کے باوجود تختہ الٹنے کی فوجی کارروائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں سوڈانی عوام کی جوق در جوق شرکت معنی خیز بات تھی۔ سوڈان میں فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان تنازعے میں ایک طرف سویلین فورسز تھیں، جن کی نمایندگی مزاحمتی کمیٹیوں، جمہوریت پسند رضا کاروں، ’فورسز فار فریڈیم اینڈ چینج گروپ‘ اور عبوری وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کر رہے تھے۔دوسری جانب کئی فوجی اور نیم فوجی فورسز سرگرم عمل تھیں۔ ان میں چند مسلح باغی گروپ، اقتدار سے برخاست کیے گئے سابق حکمران عمر البشیر کی باقیات سوڈان کی مسلح فوج بھی میدان میں تھی۔
۲۵؍اکتوبر کی بغاوت کے بعد نئی تشکیل شدہ بااختیار کونسل میں ہونے والی دھڑے بندی نے سوڈان کو، فوجی بغاوت کے حامی اور مخالف کیمپوں میں تبدیل کر دیا۔ سوڈان میں ہونے والی بغاوت میں چار کردار نمایاں تھے: بااختیار کونسل کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان، الفتاح کے نائب جنرل محمد حمدان المعروف ’حمیدتی‘، وزیر مالیات جبریل ابراہیم اور دارفور کے گورنر جنرل میناوی شامل تھے۔ سوڈان میں روز بروز تبدیل ہوتی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ چار رکنی باغی گروپ کئی حوالوں سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔
جنرل البرہان اور جنرل حمیدتی کے درمیان تناؤ ایک کھلی حقیقت ہے، جس کے باعث فوج کی صفوں میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ یاد رہے فوجی جنتا نے بغاوت کی حمایت اداراتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے کی۔ ماضی کے باغی جبریل ابراہیم اور میناوی کا بھی یہی حال ہے، کیونکہ عبوری انتظام میں نمایندہ حیثیت کے باوجود انھیں حکومتی عہدے نہیں ملے، جس وجہ سے انھوں نے بغاوت کی حمایت کی تھی۔
حالیہ بغاوت کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے جنرل عبدالفتاح البرہان نے یہ دلیل گھڑی: ’’ہم نے حکومت اس لیے برخاست کی تھی کیونکہ ہم ملک کو خانہ جنگی سے بچانا چاہتے تھے‘‘۔ نئی بااختیار کونسل کی سربراہی کے بعد انھی جنرل صاحب نے وفادار سول نمایندوں اور اسلام پسند حلقوں کو اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرنا شروع کر رکھا ہے۔
جنرل عبدالفتاح البرہان غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے عالمی برادری اور سوڈانی عوام کو یہ باور کرانے میں تاحال ناکام ہیں کہ وہ ملک میں ’آزاد اور شفاف انتخابات‘ منعقد کرائیں گے۔بہت سے غیرحل شدہ مسائل ایسے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ فوجی جنتا نے اپنی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد کرلیا ہے۔ اولاً جنرل البرہان اپنی قیادت میں کی جانے والی بغاوت کے لیے مطلوبہ قانونی جواز نہیں گھڑ سکتےکہ جسے بنیاد بناتے ہوئے انھیں سویلین ٹیکنوکریٹوں کوورغلا کر عبوری نظام کا حصہ بنانا تھا۔
تقریباً تمام سیاسی جماعتیں بیک آواز ہو کر فوجی بغاوت کو مسترد کر چکی ہیں۔ ایسے میں نئی حکومت خود کو کس کا نمایندہ بنا کر پیش کرے؟ یہ امر اتنا آسان نہیں۔ نئی عبوری حکومت میں اگر اسلام پسند حلقوں کو شامل کیا جاتا ہے تو علاقائی سیاست کے فریم ورک میں مصر، متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب اس کی سخت مخالفت کریں گے۔
باغی حکومت ٹیکنوکریٹوں کو ہم نوا بنا کر بھی عبوری انصاف، کرپشن، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مؤثر انداز میں کنڑول کرنے کا دعویٰ اس لیے نہیں کر سکتی کہ وہ خود اس ساری خرابی کی روح رواں تھی۔ تاہم اس وقت تک سوڈان کی فوجی کونسل کے علاقائی اتحادیوں میں مصر، اسرائیل، سعودی عرب اور یو اے ای شامل ہیں اور افریقی ملک سے تعلقات کو ’سلامتی‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب بہار‘ کے بعد خطے میں کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں جیساکہ مصر۔’عرب بہار‘ سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام ایک اہم مثال ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ غیرمقامی اور بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی بےچینی کی نئی لہر میں اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کی مداخلت کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید نامناسب بات ہو، لیکن مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں دکھائی دینے والی بعض نشانیاں، سوڈان میں دیکھی ضرور جا رہی ہیں۔
سوڈان میں ۲۵؍ اکتوبر کو فوج نے اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا، جس کے ساتھ فوجی قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ جنرل عبدالفتاح البرہان کے بقول: ’’بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے فوج کو انتہائی اقدام اٹھانا پڑا‘‘۔
یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماضی میں مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی شہیدؒ کی منتخب حکومت کے خلاف جنرل عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو امریکا اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا ، لیکن اس وقت سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک اس فوجی جنتا کو قبول نہیں کررہے۔سوڈانی فوج کے اقدام کو نہ ملک میں پذیرائی ملی اور نہ بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے ہیں، جن پر سوڈان کی اپنی ہی قومی فوج نے گولیاں برسائیں۔
فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران، خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بےقاعدگی اور اس کے پشتی بانوں کا باہم پیچیدہ تعلق ہے۔ اس عبوری سیاسی انتظام کا آغاز طویل عرصے تک سوڈان کےصدر عمر البشیر کو ۲۰۱۹ء میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔
اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر طلوع ہوگا۔ پارلیمنٹ نے ریفرنڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی۔خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس طرح ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔ ۱۹۶۴ء کے انقلاب کے وقت بھی خودمختار عبوری کونسل کا فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراہیم عبود کا اقتدار ختم ہوگیا تھا۔ آگے چل کر ۱۹۸۵ءمیں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
یہی معاہدہ آگے چل کر ۲۰۰۵ء میں نئے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا، جس میں اختیاراتی تقسیم سمیت انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھے سالہ عبوری دور ہم آہنگی کے فقدان کے باوجود بہت اچھا گزرا۔ معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔اس معاہدے سے دارفور میں ۲۰۰۳ء سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ہموار ہوئی۔
’جامع امن معاہدہ‘ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا، جس میں انھوں نے اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا، خواہ اس کے لیے انھیں انتخابات میں ہیراپھیری ہی کرنا پڑے۔ اس طرح جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔
جنوبی سوڈان کی ملک سے علیحدگی کے موقعے پر بعض سیاسی مبصرین پُرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن بدقسمتی سے یہ خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہوا۔
ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست ۲۰۱۹ءکو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں بہت سی خامیاں موجود تھیں۔ اس دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ [آر ایس ایف] نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو [حمیدتی] خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری اور ریاست کے اندر ریاست بن بیٹھی۔ ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال ایک دھوکا ہے۔
آر ایس ایف پر رواں برس ۳ جون کے خونی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے، کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خوں ریزی کے ذمے دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ نے اس معاہدے کی تائید خوش دلی سے نہیں، بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست۲۰۱۹ء کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور فعال اسلامی عناصر کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا، کہ کہیں وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آجائیں۔
اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبکدوش ہوجانا تھا اور اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمایندے کو سربراہ مملکت بننا تھا، جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔
جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی ستاتا رہا ہے کہ اگر ۲۰۱۹ء میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا، تو اس سلسلے میں بھی انھی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوئی تھی، جب پُرامن مظاہرین سوڈان میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
جرنیل اس پر پریشان تھے کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔ ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ اس طرح فوج اور ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کے درمیان پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔
کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کرسکیں، لیکن سوڈان میں سول حکومت کے لیے بدقسمتی سے قومی فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔
فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر ان فوجی گروؤںکی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بات تھی۔ گذشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا، اور فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے۔ اکثر ٹھیکوں میں بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔
جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا، اس کی ایک اور وجہ ’فورسز فار فریڈم اینڈ چینج‘ کی صفوں میں انتشار بھی ہے۔ حالیہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنا۔ بیجا قبائیلیوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بندکردی، جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا، تو جولائی کے مہینے میں انھوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن یہ تدبیر بھی ان کے کام نہ آئی۔
سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا ہے اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا بہ تکرار مطالبہ کرتا ہے۔
حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا قبائیلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں، لیکن یہی فوج اس دوران وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا منصوبہ تیار کر چکی تھی، اس لیے انھوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کیا۔