عقیدے اور نظریے کے بعد ایک قوم کی پہچان اور اس کی شناخت جس چیز سے عبارت ہے، وہ اس کی زبان اور ادب ہے۔ قومی یک جہتی اور سلامتی اور اس کی ترقی و خوش حالی ہر ایک کا انحصار نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنے اور زبان کے ذریعے فکر وعمل کی راہیں استوار کرنے پر ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ دونوں ہماری قوت کا ذریعہ رہے ہیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، ان کے پیدا کرنے میں نظریہ اور زبان دونوں کے بارے میں ہماری غفلت اور بے وفائی کا بڑا دخل ہے۔ استعمار کے خلاف جنگ میں ہمارے مضبوط اور مؤثر ترین ہتھیار اسلامی نظریہ اور اُردو زبان ہی تھے، لیکن آزادی کے حصول کے بعد استعمار کی فکری اور تہذیبی ذرّیت نے آہستہ آہستہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی، اس ذرّیت نے نظریے کو کمزورکرنے اور ذہنی اور فکری انتشار پیدا کرنے کے ساتھ پوری چابک دستی سے جو حربہ استعمال کیا، وہ ملک و قوم کو استعماری زبان کی گرفت میں محصور رکھنے کا تھا۔
۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل قومی اتفاق راے کے ساتھ یہ طے کیا گیا تھا کہ قومی زبان اُردو ملک کی سرکاری زبان ہوگی اور تمام کاروبارِ مملکت قومی زبان میں انجام دیا جائے گا اور یہ عمل زیادہ سے زیادہ ۱۵سال کے اندر مکمل کرلیا جائے گا۔ دستور کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ حکم ’shall be‘ کے لفظ کے ساتھ دیا گیا تھا اور ۱۵سال تک انگریزی میں کاروبارِ ریاست چلانے کے معاملے کی محض اجازت اور رخصت ’may be‘ کے لفظ کی شکل میں دی گئی تھی، مگر حکمران قوتوں، خصوصیت سے بیوروکریسی، ایچی سن کالج اور انگلش میڈیم سے نکلنے والی سیاسی قیادت اور انگریزی میڈیا کے گٹھ جوڑ نے اس پورے عمل کو سبوتاژ کیا اور دستور کے نافذ ہونے کے ۴۲سال بعد بھی قوم انگریزی زبان کی غلامی میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں کام کرنے والے تین ججوں پر مشتمل بنچ (جسٹس دوست محمد خان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ)نے ۸ستمبر ۲۰۱۵ء کو ایک تاریخی فیصلے میں قومی زبان کو اس کا اصل کردار دلانے کے لیے جو فیصلہ کیا ہے، وہ بڑا خوش آیند ہے۔ قومی احساسات اورعزائم کا حقیقی ترجمان ہے اور اگر اس پر دیانت اور تندہی سے عمل کیا جائے تو ہماری تاریخ میں ایک روشن اور سنہرے باب کا اضافہ کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تاریخی فیصلے کے مختلف پہلوئوں کو قوم کے سامنے رکھیں اور اس امر کی بھی نشان دہی کریں کہ اس پر عمل کے لیے کس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس فیصلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں دستور اور اس میں قومی زبان کے بارے میں طے کردہ پالیسی کو بڑے واضح اور واشگاف انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔ دستور نے جو باتیں طے کردی ہیں وہ یہ ہیں:
الف: اُردو قومی زبان ہے اور اسے ہی لازمی طور پر تمام حکومتی ، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی دائروں میں اور ہرسطح پر استعمال ہونا چاہیے۔
ب: یہ ایک اختیاری امر نہیں بلکہ ایک دستوری حکم ہے جس پر ۱۵برس کے اندر اندر عمل ہوجاناچاہیے تھا۔
ج: انگریزی زبان میں کاروبارِ ریاست چلانے کی اجازت صرف ۱۵سال کے لیے تھی۔ اس طرح ۱۹۸۸ء کے بعد سے دستور کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔
د: قومی زبان کے ساتھ علاقائی زبانوں کی حفاظت اور ترقی بھی ایک ضروری امر ہے جس کی طرف خاطرخواہ توجہ کی ضرورت ہے۔
دستور: نظامِ حکومت ، ریاستی انتظامات اور کارروائیوں اور تعلیم کے نظام کے لیے ایک فریم ورک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت کی مناسبت سے دوسری زبانوں، خصوصیت سے انگریزی کی تعلیم اور حسب ِ ضرورت استعمال کا دروازہ کھلا ہوا ہے مگر استعماری حکمرانوں کی زبان کو زبردستی قوم پر مسلط رکھنا دستور کے واضح احکام اور ان کے تقاضوں کے منافی ہے۔
فیصلے کا یہ بڑا ہی روشن پہلو ہے کہ جہاںاس نے انگریزی کی حسب ضرورت تعلیم اور استعمال کو تسلیم کیا ہے، وہیں اس استعماری پالیسی پر بھرپور گرفت کی ہے جس کے تحت یہ غیرملکی زبان ہمارے ملک اور قوم پر مسلط رکھی گئی ہے اور اس سے نجات کو آزادی اور استعماری حاکمیت کے شکنجوں کو توڑنے (de-colonization) کے عمل کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔ اس بارے میں جو غفلت اور مجرمانہ کوتاہی ملک کے حکمرانوں اور بااختیار طبقات نے کی ہے، اس پر قوم کی توجہ مبذول کروا کے عدالت ِ عالیہ نے ایک اہم فکری اور تہذیبی خدمت انجام دی ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ دستور کی دو دفعات، یعنی دفعہ ۲۵۱ اور دفعہ ۲۸ قومی اور علاقائی زبانوں کی حیثیت اور ان کے بارے میں قومی پالیسی کو واضح کرتی ہیں اور ان پر بھرپور انداز میں اور بلاتاخیرعمل ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری نگاہ میں فیصلے کا یہ حصہ بڑا اہم ہے کہ عدالت نے اس پالیسی کو واضح کرنے کے ساتھ بڑے صاف الفاظ میں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ ملک میں پوری بے حسی کے ساتھ صرف ان دو دفعات ہی کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی، بلکہ کم از کم تین مزید دفعات کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور یہ سب دفعہ ۵ کی زد میں بھی آتی ہیں کہ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:
دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، واجب التعمیل ذمہ داری ہے۔
عدالت نے متوجہ کیا ہے کہ انگریزی زبان کو قوم اور اُمورِ سلطنت کی انجام دہی کے پورے عمل پر مسلط رکھنے کا نتیجہ ہے کہ قوم ایک مفاد یافتہ طبقے اور اختیارات سے محروم عوام الناس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک عام شہری کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ملک کا قانون کیا ہے، عدالتی فیصلے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، سرکاری نظام کس طرح چل رہا ہے، لیکن یہ سب ایک ایسی زبان میں ہو رہا ہے جس سے عوام کی عظیم اکثریت واقف ہی نہیں اور اس طرح ان کو عملاً کاروبارِ حکمرانی سے نکال باہر کردیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دستور کی دفعہ ۱۴ کی بھی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ہرشخص کی عزتِ نفس کی ضمانت دیتی ہے۔ دفعہ ۲۵ اور ۲۵-اے کی خلاف ورزی بھی ہورہی ہے جو تمام شہریوں کے درمیان مساوات اور معاملات کی انجام دہی میں یکسانی اوران کے لیے ابتدائی تعلیم لینے میں ان سب کا مطالبہ کرتی ہے۔ عدالت نے یہاں تک کہا ہے اور اس سلسلے میں عدالت ِ عالیہ کے ایک سابقہ مقدمے (PLD 2009 SC 876) کا حوالہ بھی دیا ہے کہ ملک میں جو لاقانونیت اور افراتفری ہے اس میں کہاں تک اس امر کا دخل ہے کہ ملک میں ایک مفاد یافتہ بالاتر طبقہ وجود میں آگیا ہے جو اپنے کو قانون سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اُوپر سے نیچے تک لاقانونیت کا دوردورہ ہے۔ ہماری نگاہ میں قومی زبان، سرکاری معاملات میں غیرملکی زبان کی سفاکانہ حاکمیت کے نتیجے میں قوم: مفاد یافتہ طبقے اور محروم طبقات میں بٹ گئی ہے۔ قومی زبان کے باب میں دستور کے احکامات کی سرکاری سطح پر خلاف ورزی کی نشان دہی بھی اس فیصلے کے بڑا اہم پہلو ہے، جس پر پوری قوم، میڈیا اور پارلیمنٹ کو توجہ دینی چاہیے۔
عدالت نے حکومت، مرکزی اور صوبائی دونوں کو اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بڑے دُکھ کے ساتھ اس بات کو فیصلے کا حصہ بنایا ہے کہ مقدمے کے دوران بھی حکومتوں کا رویہ غیرذمہ دارانہ اور سہل انگاری کا رہا ہے۔ صرف ۲۰۱۵ء کے سات مہینے میں ۱۴ ایسے مواقع آئے ہیں کہ عدالت کے اصرار کے باوجود حکومت اور اس کے اہل کار کم سے کم معلومات بھی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدالت کو کہنا پڑا کہ: ’’یہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ دفعہ ۲۵۱ کے نفاذ کے لیے الفاظ سے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔
یہ حکمرانوں کے کردار کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو ہے اور ہمارے سیاسی نظام کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں۔
فیصلے میں تاریخی حقائق کے ساتھ یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ قومی زبان کو سرکاری کاروبار اور تعلیم کے لیے استعمال کرنے میں اصل رکاوٹ حکمرانوں کی غفلت، غیرذمہ داری اور فرض ناشناسی ہے۔ مشوروں، تجاویز اور منصوبوں کی یا صلاحیت کار کی کمی نہیں ہے۔ حکومت اور پارلیمنٹ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام رہے ہیں اور مجبوراً عدالت کو مداخلت کرکے ایسے احکام جاری کرنے پڑ رہے ہیں جو دستور کے، خصوصیت سے اس کی دفعہ ۲۵۱ اور ۲۸ کے نفاذ کے لیے ضروری ہیں، دستور اور بنیادی حقوق پر عمل کو مؤثر بنانے کے لیے عدلیہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے کو مجبور پاتی ہے۔
۱- آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات یعنی ’’اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے اور صوبائی و علاقائی زبانوں کے فروغ‘‘ کو بلاغیرضروری تاخیر فوراً نافذ کیا جائے۔
۲- حکومت کی جانب سے اس عدالت کے رُوبرو عہد کرتے ہوئے جولائی ۲۰۱۵ء میں اس حوالے سے عمل درآمد کی جو میعاد مقرر کی گئی ہے، اس کی ہرحال میں پابندی کی جائے۔
۳- قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔
۴- تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کرلیا جائے۔
۵- بغیر کسی غیرضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم کرنے والے ادارے (قومی زبان کے استعمال سے متعلق) آرٹیکل ۲۵۱ کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی بنائیں۔
۶- وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔
۷- عوامی مفاد سے تعلق رکھنے والے عدالتی فیصلوں کا یا ایسے فیصلوں کا جو آرٹیکل ۱۸۹ کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماً اُردو میں ترجمہ کروایا جائے۔
۸- عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتی الامکان اُردو میں پیش کریں تاکہ عام شہری بھی اس قابل ہوسکیں کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔
۹- اس فیصلے کے اجرا کے بعد، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہل کار آرٹیکل ۲۵۱ کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔
اس فیصلے کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس نے عوام کا ایک نیا حق تسلیم کرلیا ہے، یعنی یہ کہ اگر قومی زبان کے سرکاری اُمور میں استعمال نہ کرنے کی وجہ سے کسی بھی شہری کا کوئی حق متاثر ہوا ہے یا وہ دوسروں کے مقابلے میں اس کی وجہ سے خسارے میں رہا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے اور ہرجانے اور تلافی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ اس حق کا تسلیم کیا جانا اور تلافی کے لیے دروازہ کھول دینا عدالت عظمیٰ کا بڑا ہی انقلابی اقدام ہے جس کو اب ایک عام شہری بھی استعمال کرسکتا ہے اور اس طرح حکومت پر ایک ایسا دبائو پڑسکتا ہے جو اسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بن سکے۔
آخر میں ہم دو باتیں اور عرض کرنا چاہتے ہیں: ایک کا تعلق پارلیمنٹ، سول سوسائٹی، سیاسی اور دینی جماعتوں اور ملک کے نظریے سے وفادار، دانش وروں، اہلِ قلم اور مؤثر افراد سے ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بہت آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ہے لیکن اس ملک کے دوسرے متعلقہ عناصر (stake holders) کیوں غافل ہیں۔ پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کررہی؟ میڈیا اس باب میں کیوں خاموش ہے؟ سیاسی اور دینی جماعتیں کیوں متحرک نہیں؟ قومی زبان کو کاروبارِ مملکت کی حقیقی زبان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بڑا ظلم تو مقتدر قوتوں (بیوروکریسی، سیاست دان، فوجی حکمران) نے بھی کیا ہے جس نے نام تو اُردو زبان کا لیا مگر اس زبان کو جو پوری قوم کی زبان ہے اور جسے ملک کی آبادی کا ۸۰فی صد سے زیادہ حصہ سمجھتا ہے اور رابطے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ۶۰ فی صد سے زیادہ بولنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اسے صرف ۸ فی صد کی زبان بنا کر رکھ دیا اور ایسے تعصبات کو فروغ دیا، جنھوں نے اُردو بحیثیت قومی زبان کے کردار پر منفی اثرات ڈالے۔
کچھ افراد کی مادری زبان ہونے کے باوجود اُردو کسی خاص طبقے کی زبان نہیں بلکہ پاکستان کے تمام لوگوں کی قومی زبان ہے اور اس اعتبار سے اسے اپنا کردار زندگی کے ہرمیدان میں ادا کرنا چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اسی سمت میں رہنمائی کرتا ہے۔ حکومت کے معاملات کے ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اس کے کردار کی فوری فکر کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ مہم محض خواہشات سے سر نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے سب کو سرتوڑ کوشش کرنی ہوگی۔ماضی میں اس عظیم ملّی اور قومی تحریک کی رہنمائی قائداعظم نے کی، جب کہ اسے عملی تحریک بنانے میں ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی مساعی ہماری قومی تاریخ کا روشن حصہ ہے۔
دوسری بات ہے تو کچھ سخن گسترانہ مگر اس کا اظہار بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ جہاں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے نے ہمارے سربلند کر دیے ہیں، جس کے لیے ہم عدالت عظمیٰ کو دل کی گہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، وہیں فیصلے ہی میں کیے جانے والے اس اعتراف سے کیسے صرفِ نظر کرلیں کہ اُردو کے اس مقدمے کا آغاز خود عدالت ِ عالیہ میں ۲۰۰۳ء میں ہوا تھا اور پھر ۲۰۱۲ء میں دوسری پٹیشن آئی، مگر اس اعلیٰ ترین عدالت نے بھی اس اہم ترین معاملے پر فیصلہ کرنے میں ۱۲سال لیے۔ خدا بھلا کرے جسٹس جواد خواجہ اور ان کے بنچ کا کہ انھوں نے اپنے چیف جسٹس ہونے کے ۲۳ دنوں میں جہاں کچھ دوسرے تاریخی فیصلے کیے، وہاں اُردو کے اس مقدمے کو بھی کامیابی سے ہم کنار کیا اور قوم اور ملک کے لیے اپنی زبان میں اپنے معاملات طے کرنے کے اس بند دروازے کو کھول دیا، جس پر مفاد پرست طبقے اور اس کے ہم نوا دانش ور تالے لگائے ہوئے تھے اور بڑی دیدہ دلیری سے ان تالوں کی حفاظت کر رہے تھے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ عدالت نے صرف دروازہ کھولا ہے___ اس دروازے سے داخل ہونے اور اسے کھلا رکھنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ اگر ہم سب بھی متحرک ہوجائیں تو شاید آخری مغل حکمران بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق دہلوی کی یہ پیش گوئی ایک نئے رنگ میں پوری ہوسکے گی ع
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے