’آئین، عدلیہ اور قرآن و سنت کی بالادستی‘ (ستمبر ۲۰۱۵ئ) پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی باکمال تحریروں میں شامل ہونے کے لائق ہے۔ موضوع کا بہترین انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں کسی فرد یا ادارے نے ایسا تجزیہ نہ کیا ہوگا۔ ’عرب دنیا: بھارتی سفارتی و عسکری یلغار‘ میں بھارتی ریشہ دوانیوں کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے اور عرب ممالک کی پالیسی بھی سامنے آگئی۔ بہت بروقت شذرہ لکھا گیا۔ ’اُردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟‘ بہت اچھا اور بروقت مضمون ہے۔ تقریباً تمام پہلوئوں کا احاطہ ہوگیا اور عملی راہ نمائی بھی دی گئی ہے۔ طارق مہنا کی رُودادِ اسیری چشم کشا ہے، اور مغرب کے انصاف اور انسانی حقوق کے دعوئوں کی حقیقت کھول کر رکھ دیتی ہے۔ عالمِ اسلام کے مسائل کا کماحقہ احاطہ نہیں ہورہا۔ مصر، لیبیا، الجزائر، سوڈان اور شام کے مسائل منتظر توجہ ہیں۔ مسلم اقلیتیں بھی تذکرے کا حق رکھتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ یہ فرضِ کفایہ کون ادا کرے گا؟
ماہِ ستمبر کے شمارے میں ’۶۰ سال پہلے‘ کے تحت ’کارخانہ ہستی کا مشاہدہ‘ مولانا مودودی کی یہ تحریر ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم دنیاوی کاموں میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم میں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہا۔
مولانا سیّد مودودی کی ایک نایاب و غیرمطبوعہ کتاب ’فتوحاتِ آصفی‘ اب تک طباعت سے کیوں محروم ہے۔ اس مقالے کے مطالعے سے مولانا مرحوم کے ذوقِ مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب اگر اشاعت کے مرحلے سے گزر جائے تو ایک عظیم علمی خدمت ہوگی۔
جنرل حمیدگل مرحوم ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے قول و فعل، گفتار و کردار میں تضاد نہیں تھا۔ بڑے جہاں دیدہ اور بے لوث اور محبت کرنے والے تھے۔ پروفیسر خورشیداحمد کی تحریر سے ان کی شخصیت کے کئی پہلو سامنے آئے۔
ماہِ ستمبر کا ترجمان اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے علم اور معلومات کا تنوع سمیٹے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے مضمون ’فتوحاتِ آصفی‘ (ص ۴۸) پر لکھا ہے کہ تاج، مسلم اور الجمعیۃ میں جو کچھ انھوں نے (مولانا مودودی) بحیثیت مدیر لکھا، ان کی تفصیلات معلوم و مرتب نہیں، جب کہ ادارہ معارف اسلامی منصورہ، لاہور کے تحت چار کتابیں (صداے رستاخیز، بانگِ سحر، جلوہ نور اور آفتاب تازہ) شائع ہوچکی ہیں۔ مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم نے ان کتب میں الجمعیۃ دہلی میں شائع ہونے والے اداریوں اور مضامین کو مرتب کیا ہے۔ کیا یہ کتابیں ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے علم میں نہیں آسکیں؟
نئے ماہ کے آغاز ہی سے ترجمان کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ ابتدائی چند دنوں میں اس کا مطالعہ کر کے اس کے مختلف مضامین دیگر احباب کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر مطالعہ کرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ماہِ ستمبر کا شمارہ بھی لاجواب ہے۔ تمام مضامین علم میں اضافہ اور عمل کے لیے جذبے کاباعث ہیں۔تاہم ڈاکٹر حسیب احمد کا مضمون ’اُردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟‘ وقت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے نفاذِ اُردو کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا ہے اور اس کے لیے قابلِ عمل تجاویز پیش کی ہیں۔ ہمارے ملک میں ’نفاذِ اُردو‘ تحریک کامیاب ہوگی ان شاء اللہ۔ ملک بھر میں نفاذِ اُردو کی اہمیت کو محسوس کرنے والے احباب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مشترکہ کوشش کرنی چاہیے۔